Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Muddaththir

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ(1)

اے کپڑا اوڑھنے والے ‏

سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ اِ قْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ہے اس کے بعد وحی میں وقفہ ہوگیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت مضطرب اور پریشان رہتے۔ ایک روز اچانک پھر وہی فرشتہ، جو غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی لے کر آیا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، جس سے آپ پر ایک خوف سا طاری ہوگیا اور گھر جاکر گھر والوں سے کہا کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے جسم پر ایک کپڑا ڈال دیا، اسی حالت میں وحی نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری)

اس اعتبار سے یہ دوسری وحی اور احکام کے حساب سے پہلی وحی ہے۔

قُمْ فَأَنْذِرْ(2)

کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے ۔‏

یعنی اہل مکہ کو ڈرا، اگر وہ ایمان نہ لائیں۔

وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ(3)

اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔‏

وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ(4)

اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر

یعنی قلب اور نیت کے ساتھ کپڑے بھی پاک رکھ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ مشرکین مکہ طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔

وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ(5)

ناپاکی کو چھوڑ دے

یعنی بتوں کی عبادت چھوڑ دے۔ یہ دراصل لوگوں کو آپ کے ذریعے سے حکم دیا جا رہا ہے۔

وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ(6)

اور احسان کرکے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر

یعنی احسان کرکے یہ خواہش نہ کر کہ بدلے میں اس سے زیادہ ملے گا۔

وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ(7)

اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر۔‏

فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ(8)

پس جبکہ صور میں پھونک ماری جائے گی۔‏

فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ(9)

وہ دن بڑا سخت دن ہوگا۔‏

عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ(10)

‏ جو کافروں پر آسان نہ ہوگا۔

یعنی قیامت کا دن کافروں پر بھاری ہوگا کیونکہ اس روز کفر کا نتیجہ انہیں بھگتنا ہوگا، جو جرم وہ دنیا میں کرتے رہے ہونگے۔

‎ ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا(11)

مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے ‏

یہ کلمہ وعید و تہدید ہے کہ اسے، جسے میں نے ماں کے پیٹ میں اکیلا پیدا کیا، اس کے پاس مال تھا نہ اولاد، اور مجھے اکیلا چھوڑ دو، یعنی میں خود ہی اس سے نمٹ لوں گا،

 کہتے ہیں کہ یہ ولید بن مغیرہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کفر و طغیان میں بہت بڑھا ہوا تھا، اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ عالم۔

وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَمْدُودًا(12)

اور اسے بہت سا مال دے رکھا تھا۔‏

وَبَنِينَ شُهُودًا(13)

اور حاضر باش فرزند بھی ‏

اسے اللہ نے اولاد سے نوازا تھا اور وہ ہر وقت اس کے پاس ہی رہتے تھے، گھر میں دولت کی فروانی تھی، اس لئے بیٹوں کو تجارت و کاروبار کے لئے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی

 بعض کہتے ہیں کہ اس کے تین بیٹے مسلمان ہوگئے تھے، خالد، ہشام اور ولید بن ولید (فتح القدیر)

وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيدًا(14)

اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے

یعنی مال و دولت میں ریاست و سرداری میں اور درازی عمر میں۔

ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ(15)

پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔

یعنی کفرو معصیت کے باوجود، اس کی خواہش ہے کہ میں اسے زیادہ دوں۔

كَلَّا ۖ

نہیں نہیں

یعنی میں اسے زیادہ نہیں دونگا۔

إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا(16)

وہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے۔‏

 عنید اس شخص کو کہتے ہیں جو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرے اور اس کو رد کرے۔

سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا(17)

عنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا ‏

یعنی ایسے عذاب میں مبتلا کروں گا جس کا برداشت کرنا نہایت سخت ہوگا،

 بعض کہتے ہیں، جہنم میں آگ کا پہاڑ ہوگا جس پر اس کو چڑھایا جائے گا (فتح القدیر)

إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ(18)

اس نے غور کرکے تجویز کی

یعنی قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن کر، اس نے اس امر پر غور کیا کہ میں اس کا جواب دوں؟ اور اپنے جی میں اس نے وہ تیار کیا۔

فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ(19)

اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز) سوچی؟‏

ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ(20)

وہ پھر غارت ہو کس طرح اندازہ کیا ۔‏

یہ اس کے حق میں بد دعائیہ کلمے ہیں، کہ ہلاک ہو، مارا جائے، کیا بات اس نے سوچی ہے؟

ثُمَّ نَظَرَ(21)

اس نے پھر دیکھا ‏

یعنی پھر غور کیا کہ قرآن کا رد کس طرح ممکن ہے۔

ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ(22)

پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا ‏

یعنی جواب سوچتے وقت چہرے کی سلوٹیں بدلیں، اور منہ بسورا، جیسا کہ عموماً کسی مشکل بات پر غور کرتے وقت آدمی ایسا کرتا ہے۔

ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ(23)

پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا

یعنی حق سے انکار کیا اور ایمان لانے سے تکبر کیا۔

فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ(24)

اور کہنے لگا یہ تو صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے

یعنی کسی سے یہ سیکھ آیا ہے اور وہاں سے نقل کر لایا ہے اور دعویٰ کر دیا کہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔

إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ(25)

سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں۔‏

سَأُصْلِيهِ سَقَرَ(26)

میں عنقریب اس دوزخ میں ڈالوں گا۔‏

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ(27)

اور تجھے کیا خبر کہ دوزخ کیا چیز ہے ۔‏

دوزخ کے ناموں یا درجات ایک کا نام سَقَرُ بھی ہے۔

لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ(28)

نہ وہ باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے ‏

ان کے جسموں پر گوشت چھوڑے گی نہ ہڈی، یا مطلب ہے جہنمیوں کو زندہ چھوڑے گی نہ مردہ،

لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ(29)

کھال کو جھلسا دیتی ہے۔‏

عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ(30)

اور اس میں انیس (فرشتے مقرر) ہیں ۔‏

یعنی جہنم پر بطور دربان ١٩ فرشتے مقرر ہیں

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا

ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے

یہ مشرکین قریش کا رد ہے، جب جہنم کے داروغوں کا اللہ نے ذکر فرمایا تو ابوجہل نے جماعت قریش کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم میں سے ہر دس آدمیوں کا گروپ، ایک ایک فرشتے کے لئے کافی نہیں ہوگا،

 بعض کہتے ہیں کہ کالدہ نامی شخص نے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا، کہا، تم سب صرف دو فرشتے سنبھال لینا، ١٧ فرشتوں کو تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔

 کہتے ہیں اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کشتی کا بھی کئی مرتبہ چیلنج دیا اور ہر مرتبہ شکست کھائی مگر ایمان نہیں لایا،

کہتے ہیں اس کے علاوہ رکانہ بن عبد یزید کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی لڑی تھی لیکن وہ شکست کھا کر مسلمان ہوگئے تھے (ابن کثیر)

مطلب یہ کہ یہ تعداد بھی ان کے مذاق یا آزمائش کا سبب بن گئی۔

لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ

تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں

یعنی جان لیں کہ رسول برحق ہے اور اس نے وہی بات کی ہے جو پچھلی کتابوں میں بھی درج ہے۔

وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ

اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں

کہ اہل کتاب نے ان کے پیغمبر کی بات کی تصدیق کی ہے

وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ

اور اہل کتاب اور مسلمان شک نہ کریں

وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا ۚ

اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟

بیمار دلوں سے مراد منافقین ہیں یا پھر وہ جن کے دلوں میں شکوک تھے کیونکہ مکہ میں منافقین نہیں تھے۔

 یعنی یہ پوچھیں گے کہ اس تعداد کو یہاں ذکر کرنے میں اللہ کی کیا حکمت ہے؟

كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ

اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے

یعنی گذشتہ گمراہی کی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ اور جسے چاہتا ہے راہ یاب کر دیتا ہے، اس میں حکمت بالغہ ہوتی ہے اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ

تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا

یعنی کفار و مشرکین سمجھتے ہیں کہ جہنم میں ١٩ فرشتے ہی تو ہیں، جن پر قابو پانا کون سا مشکل کام ہے؟

 لیکن ان کو معلوم نہیں کہ رب کے لشکر تو اتنے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہی نہیں۔ صرف فرشتے ہی اتنی تعداد میں ہیں کہ ٧٠ ہزار فرشتے روزانہ اللہ کی عبادت کے لئے بیت المعمور میں داخل ہوتے ہیں، پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی۔ (صحیح بخاری)

وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ(31)

یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پندونصیحت ہے۔

یعنی یہ جہنم اور اس پر مقرر فرشتے، انسانوں کی پند و نصیحت کے لئے ہیں کہ شاید وہ نافرمانیوں سے باز آجائیں۔

كَلَّا وَالْقَمَرِ(32)

قسم ہے چاند کی‏

وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ(33)

اور رات جب وہ پیچھے ہٹے۔‏

وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ(34)

اور صبح کی جب وہ روشن ہو جائے،‏

إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ(35)

کہ (یقیناً وہ جہنم) بڑی چیزوں میں سے ایک ہے

یہ جواب قسم ہے

 کُبَر، کُبْرَیٰ کی جمع ہے

 تین نہایت اہم چیزوں کی قسموں کے بعد اللہ نے جہنم کی بڑائی اور ہولناکی کو بیان کیا ہے جس سے اس کی بڑائی میں کوئی شک نہیں رہتا۔

نَذِيرًا لِلْبَشَرِ(36)

بنی آدم کو ڈرانے والی۔‏

لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ(37)

(یعنی) اسے جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہئے۔‏

یعنی یہ جہنم ڈرانے والی ہے

یا نذیر سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

یا قرآن بھی اپنے بیان کردہ وعد و وعید کے اعتبار سے انسانوں کے لئے نذیر ہے۔

 اور ایمان واطاعت میں آگے بڑھنا چاہیے یا اس سے پیچھے ہٹنا چاہیے مطلب ہے کہ انداز ہر ایک کے لیے ہے جو ایمان لائے یا کفر کرے۔

كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ(38)

ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے

رہن گروی کو کہتے ہیں یعنی ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے، وہ عمل اسے عذاب سے چھڑا لے گا، (اگر نیک ہوگا) یا ہلاک کروا دے گا (اگر برا ہے) ۔

إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ(39)

مگر دائیں ہاتھ والے

یعنی وہ گناہوں کے اسیر نہیں ہوں گے بلکہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے آزاد ہونگے۔

فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ(40)

اہل جنت بالاخانوں میں بیٹھے وہ سوال کرتے ہونگے ۔‏

اہل جنت بالاخانوں میں بیٹھے، جہنمیوں سے سوال کریں گے۔

عَنِ الْمُجْرِمِينَ(41)

جہنمیوں سے‏

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ(42)

تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔‏

قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ(43)

وہ جواب دیں گے ہم نمازی نہ تھے۔‏

وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ(44)

نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔

نماز حقوق اللہ میں سے اور مساکین کو کھانا کھلانا حقوق العباد میں سے ہے مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اللہ کے حقوق ادا کیے نہ بندوں کے۔

وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ(45)

اور ہم بحث کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے

یعنی کج بحثی اور گمراہی کی حمایت میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔

وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ(46)

اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔‏

حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ(47)

یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔‏

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ(40)

پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی

یعنی جو صفات مذکورہ کا حامل ہوگا، اسے کسی کی شفاعت بھی فائدہ نہیں پہنچائے گی، اس لئے کہ کفر کی وجہ سے محل شفاعت ہی نہیں ہوگا، شفاعت تو صرف ان کے لئے مفید ہوگی جو ایمان کی وجہ سے شفاعت کے قابل ہونگے۔

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ(49)

انہیں کیا ہوگیا ہے؟

کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔‏

كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ(50)

گویا کہ وہ بہکے ہوئے گدھے ہیں۔‏

فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ(51)

جو شیر سے بھاگے ہوں۔ ‏

یعنی یہ حق سے نفرت اور اعراض کرنے میں ایسے ہیں جیسے وحشی، خوف زدہ گدھے، شیر سے بھاگتے ہیں جب وہ ان کا شکار کرنا چاہیے۔

بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَى صُحُفًا مُنَشَّرَةً(52)

بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں ‏

یعنی ہر ایک کے ہاتھ میں اللہ کی طرف سے ایک ایک کتاب مفتوح نازل ہو جس میں لکھا ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔

بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ بغیر عمل کے یہ عذاب سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، یعنی ہر ایک کو پروانہ نجات مل جائے۔ (ابن کثیر)

كَلَّا ۖ بَلْ لَا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ(53)

ہرگز ایسا نہیں (ہو سکتا بلکہ) یہ قیامت سے بےخوف ہیں

یعنی ان کے فساد کی وجہ سے ان کا آخرت پر عدم ایمان اور اس کی تکذیب ہے جس نے انہیں بےخوف کر دیا ہے۔

كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ(54)

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے

لیکن اس کے لئے جو اس قرآن کے واعظ اور نصیحت سے عبرت حاصل کرنا چاہے۔

فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ(55)

اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔‏

وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ

‏ اور وہ اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے

یعنی اس قرآن سے ہدایت اور نصیحت اسے ہی حاصل ہوگی جسے اللہ چاہے گا۔

هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ(56)

وہ اسی لائق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس لائق بھی کہ وہ بخشے ۔‏

یعنی وہ اللہ ہی اس لائق ہے اس سے ڈرا جائے اور وہی معاف کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ اس لئے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسکی نافرمانی سے بچا جائے تاکہ انسان اس کی مغفرت و رحمت کا سزاوار قرار پائے۔

***********



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

visitor counter widget