Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al QiyamahTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ۔ (۱) میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو ۔ (۲) یعنی بھلائی پر بھی کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائی پر بھی، کہ اس سے باز کیوں نہیں آتا؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں ان کے نفس انہیں ملامت کرتے ہیں، تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس ملامت کریں گے۔ أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ( کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں ۔ (۳) یہ جواب قسم ہے انسان سے مراد یہاں کافر اور بےدین انسان ہے جو قیامت کو نہیں مانتا۔ اس کا گمان غلط ہے، اللہ تعالیٰ یقیناً انسانوں کے اجزا کو جمع فرمائے گا یہاں ہڈیوں کا بطور خاص ذکر ہے، اس لیئے کہ ہڈیاں ہی پیدائش کا اصل ڈھانچہ اور قالب ہیں۔ بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کر دیں ۔ (۴) بَنَان (پور پور) جوڑوں، ناخن، لطیف رگوں اور باریک ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب یہ باریک اور لطیف چیزیں ہم بالکل صحیح صحیح جوڑ دیں گے تو بڑے حصے کو جوڑ دینا ہمارے لئے کیا مشکل ہوگا بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ انسان تو چاہتا ہے کہ آگے آگے نافرمانیاں کرتا جائے (۵) یعنی اس امید پر نافرمانی اور حق کا انکار کرتا ہے کہ کون سی قیامت آنی ہے۔ يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا (۶) یہ سوال اس لئے نہیں کرتا کہ گناہوں سے تائب ہو جائے، بلکہ قیامت کو ناممکن الو قوع سمجھتے ہوئے پوچھتا ہے۔ اسی لیے فسق وفجور سے باز نہیں آتا۔ تاہم اگلی ٓآیت میں اللہ تعالیٰ قیامت کے آنے کا وقت بیان فرما رہے ہیں۔ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ پس جس وقت کہ نگاہ پتھرا جائے گی ۔ (۷) دہشت اور حیرانی سے جیسے موت کے وقت عام طور پر ہوتا ہے۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ اور چاند بےنور ہو جائے گا (۸) جب چاند کو گرہن لگ جاتا ہے تو اس وقت بھی وہ بےنور ہو جاتا ہے۔ لیکن جو علامات قیامت میں سے ہے، جب ہوگا تو اس کے بعد اس میں روشنی نہیں آئے گی۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ اور سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں گے۔ (۹) یعنی بےنوری میں۔ مطلب ہے کہ چاند کی طرح سورج کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی۔ يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ۔ (۱۰) یعنی جب یہ واقعات ظہور پذیر ہونگے تو پھر اللہ سے یا جہنم کے عذاب سے راہ فرار ڈھونڈے گا، لیکن اس وقت راہ فرار کہاں ہوگی۔ كَلَّا لَا وَزَرَ نہیں نہیں کوئی پناہ گاہ نہیں (۱۱) وَزَرَ پہاڑ یا قلعے کو کہتے ہیں جہاں انسان پناہ حاصل کرلے۔ وہاں ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوگی۔ إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ آج تیرے پروردگار کی طرف ہی قرار گاہ ہے (۱۲) جہاں وہ بندوں کے درمیان فیصلے فرمائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی اللہ کی اس عدالت سے چھپ جائے يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاہ کیا جائے گا (۱۳) یعنی اس کے تمام اعمال سے آگاہ کیا جائے گا قدیم ہو یا جدید، اول ہو یا آخر چھوٹا ہو یا بڑا بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے ۔ (۱۴) یعنی اس کے اپنے ہاتھ، پاؤں، زبان اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے عیوب خود جانتا ہے۔ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے ۔ (۱۵) یعنی لڑے جھگڑے، ایک سے ایک بہانہ کرے، لیکن ایسا کرنا نہ اس کے لئے مفید ہے اور نہ وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتا ہے۔ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ (۱۶) حضرت جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کر آتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ جلدی سے پڑھتے جاتے کہ کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اللہ نے اپنے فرشتے کے ساتھ ساتھ اس طرح پڑھنے سے منع فرمایا۔ صحیح بخاری إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ اسکا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے (۱۷) یعنی آپ کے سینے میں اس کا جمع کر دینا اور آپ کی زبان پر اس کی قرأت کو جاری کر دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ تاکہ اس کا کوئی حصہ آپ کی یاداشت سے نہ نکلے اور آپ کے ذہن سے محو نہ ہو۔ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں (۱۸) یعنی فرشتے کے ذریعے سے جب ہم اس کی قرأت آپ پوری کرلیں۔ یعنی اس کے شرائع و احکام لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی پیروی بھی کریں۔ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ( پھر اس کا واضح کر دینا ہمارا ذمہ ہے۔ (۱۹) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال وحرام کی توضیح یہ بھی ہمارے ذمے ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی توضیح جو تخصیص بیان فرمائی ہے جسے حدیث کہاجاتا ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے ہی الہام اور سمجھائی ہوئی باتیں ہیں اس لیے انہیں بھی قرآن کی طرح ماننا ضروری ہے۔ كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی (دنیا) کی محبت رکھتے ہو۔ (۲۰) وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو (۲۱) یعنی یوم قیامت کو جھٹلانا اور حق سے اعراض، اسلئے ہے کہ تم نے دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور آخرت تمہیں بالکل فراموش ہے۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے۔ (۲۲) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے (۲۳) یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے جو اپنے حسن انجام کی وجہ سے مطمئن، مسرور اور منور ہونگے۔ مزید دیدار الٰہی سے بھی لطف اندوز ہونگیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے۔ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ اور کتنے چہرے اس دن (بد رونق) اور اداس ہونگے (۲۴) یہ کافروں کے چہرے ہونگے سیاہ اور بےرونق۔ تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ سمجھتے ہونگے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا معاملہ کیا جائے گا (۲۵) اور وہ یہی ہے کہ جہنم میں ان کو پھینک دیا جائے گا۔ كَلَّا نہیں نہیں یعنی یہ ممکن نہیں کہ کافر قیامت پر ایمان لے آئیں۔ إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ جب روح ہنسلی تک پہنچے گی۔ (۲۶) گردن کے قریب، سینے اور کندھے کے درمیان ایک ہڈی ہے، یعنی جب موت آئے گی آہنی پنجہ تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ اور کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ (۲۷) یعنی حاضرین میں سے کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کے ذریعہ سے تمہیں موت کے پنجے سے چھڑا لے۔ بعض نے اس کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے کہ اس کی روح کون لے کر چڑھے گا ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب؟ اس صورت میں یہ قول فرشتوں کا ہے وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ اور جان لیا اس نے کہ یہ وقت جدائی ہے (۲۸) یعنی وہ شخص یقین کر لے گا جس کی روح ہنسلی تک پہنچ گئی ہے کہ اب مال، اولاد اور دنیا کی ہرچیز سے جدائی کا مرحلہ آگیا ہے۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی (۲۹) اس سے یا تو موت کے وقت پنڈلی کا پنڈلی کے ساتھ مل جانا مراد ہے یا پے درپے تکلیفیں، بہت سے مفسرین نے دوسرے معنی کئے ہیں۔ (فتح القدیر) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ آج تیرے پروردگار کی طرف چلنا ہے۔ (۳۰) فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی ۔ (۳۱) یعنی اس انسان نے رسول اور قرآن کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی یعنی اللہ کی عبادت نہیں کی۔ وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی ۔ (۳۲) یعنی رسول کو جھٹلایا اور ایمان و اطاعت سے روگردانی کی۔ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى پھر اپنے گھر والوں کے پاس اتراتا ہوا گیا (۳۳) یَتَمَطَّیٰ اتراتا اور اکڑاتا ہوا۔ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى افسوس ہے تجھ پر حسرت ہے تجھ پر۔ (۳۴) ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى وائے ہے اور خرابی ہے تیرے لئے (۳۵) یہ کلمہ وعید سے کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل ہے، اللہ تجھے ایسی چیز سے دو چار کرے جسے تو ناپسند کرے۔ أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى کیا انسان یہ سمجھتا ہے کے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا (۳۶) یعنی اس کو کسی چیز کا حکم دیا جائے گا، نہ کسی چیز سے منع کیا جائے گا، نہ اس کا محاسبہ ہوگا۔ یا اس کی قبر میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا جائے گا، وہاں سے اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى کیا وہ ایک گاڑھے پانی کا قطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟ (۳۷) ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى پھر لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنا دیا (۳۸) فَسَوَّیٰ، یعنی اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور اس کی تکمیل کی اور اس میں روح پھونکی۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى پھر اس سے جوڑے یعنی نر مادہ بنائے۔ (۳۹) أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى کیا (اللہ تعالیٰ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زندہ کر دے (۴۰) یعنی انسان کو اس طرح مختلف اطوار سے گزار کر پیدا فرماتا ہے کیا مرنے کے بعد دوبارہ اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |