Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Qamar

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (۱)

قیامت قریب آگئی (١) اور چاند پھٹ گیا ۔‏(٢)

۱۔ ایک تو بہ اعتبار اس زمانے کے جو گزر گیا، کیونکہ جو باقی ہے، وہ تھوڑا ہے۔ دوسرے ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بابت فرمایا :

میرا وجود قیامت سے متصل ہے، یعنی میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔

 ۲۔  یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا،چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہوگیا۔ جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے ۔ فتح القدیر

امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ   (۲)

یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے ۔

یعنی قریش نے، ایمان لانے کی بجائے، اسے جادو قرار دے کر اپنے اعراض کی روش جاری رکھی۔

وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ    (۳)

انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے

یہ کفار مکہ کی تکذیب اور اتباع کی تردید کے لئے فرمایا کہ ہر کام کی ایک انتہا ہوتی ہے، وہ کام اچھا ہو یا برا۔ یعنی بالآخر اس کا نتیجہ نکلے گا، اچھے کام کا نتیجہ اچھا اور برے کام کا نتیجہ برا۔ اس نتیجے کا ظہور دنیا میں بھی ہو سکتا ہے اگر اللہ کی مشیت مقتضی ہو، ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے۔

وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ   (۴)

یقیناً ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں (١) جن میں ڈانٹ ڈپٹ (نصیحت) ہے۔‏(۲)

۱۔ یعنی گذشتہ امتوں کی ہلاکت کی، جب انہوں نے جھٹلایا۔

۲۔ یعنی ان میں عبرت و نصیحت کے پہلو ہیں‘ کوئی ان سے سبق حاصل کر کے شرک و معصیت سے بچنا چاہے تو بچ سکتا ہے۔

حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ ۖ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ   (۵)

اور کامل عقل کی بات ہے (١) لیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا۔‏‏(۲)

۱۔ یعنی ایسی بات جو تباہی سے پھیر دینے والی ہے یا قرآن حکمت بالغہ ہے جس میں کوئی نقص یا خلل نہیں ہے۔ یا اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے اور یا اسے گمراہ کرے، اس میں بڑی حکمت ہے جس کو وہی جانتا ہے۔

۲۔ یعنی جن کے لیے اللہ نے شقاوت لکھ دی ہے اور اس کے دل پر مہر لگا دی ہے‘ ان کو پیغمبروں ڈراوا کیا فائدہ پہنچا سکتا ہےَ۔

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلَى شَيْءٍ نُكُرٍ   (۶)

پس (اے نبی) تم ان سے اعراض کرو جس دن ایک پکارنے والا ناگوار چیز کی طرف پکارے گا ۔

یعنی اس دن کو یاد کرو،

 نُكُرٍ   نہایت ہولناک اور دہشت ناک مراد میدان محشر اور موقف حساب کے آزمائشیں ہیں۔

خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ   (۷)

یہ جھکی آنکھوں قبروں سے اس طرح نکل کھڑے ہونگے کہ گویا وہ پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے ۔‏

یعنی قبروں سے نکل کر وہ اس طرح پھیلیں گے اور موقف حساب کی طرف اس طرح نہایت تیزی سے جائیں گے، گویا ٹڈی دل ہے جو آنا فانا میں کشادہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔

مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ ۖ يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَذَا يَوْمٌ عَسِرٌ   (۸)

پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہونگے اور کافر کہیں گے کہ یہ دن تو بہت سخت ہے۔‏

مُهْطِعِينَ دوڑیں گے‘ پیچھے نہیں رہیں گے۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ   (۹)

ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا ۔‏

یعنی قوم نوح نے نوح علیہ السلام کی تکذیب ہی نہیں کی، بلکہ انہیں جھڑکا اور ڈرایا دھمکایا بھی گیا تھا۔

جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

قَالُواْ لَٮِٕن لَّمۡ تَنتَهِ يَـٰنُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡمَرۡجُومِينَ

اے نوح! اگر تو بازنہ آیا تو تجھے سنگسار کر دیا جائے گا۔ (۲۶:۱۱۶)

فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ   (۱۰)

پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بےبس ہوں تو میری مدد کر۔‏

فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ   (۱۱)

پس ہم نے آسمان کے دروازوں کو زور کے مینہ سے کھول دیا۔‏

مُنْهَمِرٍ  کثیر یا زوردار ‘ کہتے ہیں کہ چالیس دن تک مسلسل خوب زور سے پانی برستا رہا۔

وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ   (۱۲)

اور زمین سے چشموں کو جاری کر دیا پس اس کام کے لئے جو مقدر کیا گیا تھا (دونوں) پانی جمع ہوگئے۔‏

یعنی آسمان اور زمین کے پانی نے مل کر وہ کام پورا کر دیا جو قضا و قدر میں لکھ دیا گیا تھا یعنی طوفان بن کر سب کو غرق کر دیا۔

وَحَمَلْنَاهُ عَلَى ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ   (۱۳)

اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی کشتی پر سوار کر لیا۔‏

دُسُرٍ وہ رسیاں‘ جن سے کشتی کے تختے باندھے گئے‘ یا وہ کیلیں اور میخیں جن سے کشتی کو جوڑا گیا۔

تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ   (۱۴)

جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی۔ بدلہ اس کی طرف سے جس کا کفر کیا گیا تھا۔‏

وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ   (۱۵)

اور بیشک ہم نے اس واقعہ کو نشانی بنا کر باقی رکھا پس کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا  

مُدَّکِرٍ  کے معنی ہیں عبرت پکڑنے اور نصیحت حاصل کرنے والا ۔ فتح القدیر

فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ   (۱۶)

بتاؤ میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں کیسی رہیں؟‏

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ   (۱۷)

اور بیشک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا ہے (١) پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔‏

یعنی اس کے مطلب اور معانی کو سمجھنا، اس سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا ہم نے آسان کر دیا، اسی طرح یہ دنیا کی واحد کتاب ہے، جو لفظ بہ لفظ یاد کر لی جاتی ہے ورنہ چھوٹی سی کتاب کو بھی اس طرح یاد کرلینا اور اسے یاد رکھنا نہایت مشکل ہے۔

كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ   (۱۸)

قوم عاد نے بھی جھٹلایا پس کیسا ہوا میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں۔‏

إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ   (۱۹)

ہم نے ان پر تیز و تند مسلسل چلنے والی ہوا، ایک منحوس دن میں بھیج دی  

کہتے ہیں یہ بدھ کی شام تھی، جب اس تند، یخ اور شاں شاں کرتی ہوئی ہوا کا آغاز ہوا، پھر مسلسل ٧ راتیں اور ٨ دن چلتی رہی۔ یہ ہوا گھروں اور قلعوں میں بند انسانوں کو بھی وہاں سے اٹھاتی اور اس طرح زور سے انہیں زمین پر پٹختی کہ ان کے سر ان کے دھڑوں سے الگ ہو جاتے۔ یہ دن ان کے لیے عذاب کے اعتبار سے منحوس ثابت ہوا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بدھ کے دن میں یا کسی اور دن میں نحوست ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔

 مُسْتَمِرٍّ   کا مطلب، یہ عذاب اس وقت تک جاری رہا جب تک سب ہلاک نہیں ہوگئے ۔

تَنْزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ   (۲۰)

جو لوگوں کو اٹھا اٹھا کر دے پٹختی تھی، گویا کہ وہ جڑ سے کٹے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔‏

یہ درازی قد کے ساتھ ان کی بے بسی اور لاچارگی کا بھی اظہار ہے کہ عذاب الہٰی کے سامنے وہ کچھ نہ کر سکے دراں حالیکہ انہیں اپنی قوت و طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا۔

أَعْجَازُ ، عَجز کی جمع ہے‘ جو کسی چیز کے پچھلے حصے کو کہتے ہیں۔

مُنْقَعِرٍ اپنی جڑ سے اکھڑ جانے اور کٹ جانے والا۔ یعنی کھجور کے ان تنوں کی طرح ‘ جو اپنی جڑ سے اکھڑ اور کٹ چکے ہوں‘ ان کے لاشے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔

فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ   (۲۱)

پس کیسی رہی میری سزا اور میرا ڈرانا۔‏

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ   (۲۲)

یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے، پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔‏

كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ   (۲۳)

ثمود نے ڈرانے والوں کو جھٹلایا۔‏

فَقَالُوا أَبَشَرًا مِنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَفِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ   (۲۴)

اور کہنے لگے کیا ہم ایک شخص کی فرمانبرداری کرنے لگیں گے؟ تب تم یقیناً غلطی اور دیوانگی میں پڑے ہوئے ہونگے  

یعنی ایک بشر کو رسول مان لینا، ان کے نزدیک گمراہی اور دیوانگی تھی۔

أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ   (۲۵)

کیا ہمارے سب کے درمیان صرف اسی پر وحی اتاری گئی؟ نہیں بلکہ وہ جھوٹا شیخی خور ہے ۔

یعنی اس نے جھوٹ بھی بولا تو بہت بڑا۔ کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ بھلا ہم میں سے صرف اسی پر وحی آنی تھی؟

یا اس کے ذریعے سے ہم پر اپنی بڑائی جتانا اس کا مقصود تھا۔

سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ   (۲۶)

اب سب جان لیں گے کل کو کہ کون جھوٹا اور شیخی خور تھا؟  

یہ خود، پیغمبر پر الزام تراشی کرنے والے۔ یا حضرت صالح علیہ السلام، جن کو اللہ نے وحی و رسالت سے نوازا۔

 غَدًا یعنی کل سے مراد قیامت کا دن یا دنیا میں ان کے لئے عذاب کا مقررہ دن۔

إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ   (۲۷)

بیشک ہم ان کی آزمائش کے لئے اونٹنی بھیجیں گے (١) پس (اے صالح) تو ان کا منتظر رہ اور صبر کر۔‏(۲)

۱۔ کہ یہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں وہی اونٹنی ہے جو اللہ نے خود ان کے کہنے پر پتھر کی ایک چٹان ظاہر فرمائی تھی۔

۲۔ یعنی دیکھ کہ یہ اپنے وعدے کے مطابق ایمان کا راستہ اپناتے ہیں یا نہیں؟

 اور ان کی ایذاؤں پر صبر کر۔

وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ ۖ كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ   (۲۸)

ہاں انہیں خبردار کر دے کہ پانی ان میں تقسیم شدہ ہے۔ (١) ہر ایک اپنی باری پر حاضر ہوگا (٢)‏

۱۔ یعنی ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لئے اور ایک دن قوم کے پانی پینے کے لئے۔

 ۲۔  مطلب ہے ہر ایک کا حصہ اس کے ساتھ ہی خاص ہے جو اپنی اپنی باری پر حاضر ہو کر وصول کرے دوسرا اس روز نہ آئے

 شِرْبٍ حصہ آب۔

فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ   (۲۹)

انہوں نے اپنے ساتھی کو آواز دی (١) جس نے (اونٹنی پر) وار کیا (٢) اور (اس کی) کوچیں کاٹ دیں۔‏

۱۔  یعنی جس کو انہوں نے اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے آمادہ کیا تھا، جس کا نام قدار بن سالف بتلایا جاتا ہے، اس کو پکارا کہ وہ اپنا کام کرے۔

۲۔ تلوار یا اونٹنی کو پکڑا اور اس کی ٹانگیں کاٹ دیں اور پھر اسے ذبح کر دیا۔

بعض نے فَتَعَاطَى کے معنی فَجَسَرَ کئے ہیں، پس اس نے جسارت کی ۔

فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ   (۳۰)

پس کیونکر ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔‏

إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ   (۳۱)

ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی پس ایسے ہوگئے جیسے باڑ بنانے والے کی روندی ہوئی گھاس  ۔

باڑ جو خشک جھاڑیوں اور لکڑیوں سے جانوروں کی حفاظت کے لئے بنائی جاتی ہے،

 الْمُحْتَظِرِ خشک گھاس یا کٹی ہوئی کھیتی

یعنی جس طرح ایک باڑ بنانے والے کی خشک لکڑیاں اور جھاڑیاں مسلسل روندے جانے کی وجہ سے چورا چورا ہو جاتی ہیں وہ بھی اس باڑ کی ماند ہمارے عذاب سے چورا ہوگئے۔

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ   (۳۲)

اور ہم نے نصیحت کے لئے قرآن کو آسان کر دیا پس کیا ہے کوئی جو نصیحت قبول کرے۔‏

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ   (۳۳)

قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کو جھٹلایا۔‏

إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ ۖ نَجَّيْنَاهُمْ بِسَحَرٍ  (۳۴)

بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی (١) سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے(۲) ، انہیں ہم نے سحر کے وقت نجات دی۔‏

یعنی ایسی ہوا بھیجی جو ان کو کنکریاں مارتی تھی، یعنی ان کی بستیوں کو ان پر الٹا کر دیا گیا، اس طرح کہ ان کا اوپر والا حصہ نیچے اور نیچے والا حصہ اوپر، اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش ہوئی جیسا کہ سورہ ہود وغیرہ میں تفصیل گزری۔

آل لوط سے مراد خود حضرت لوط علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ہیں۔  سحر سے مراد رات کا  آخری حصہ ہے۔

نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا ۚ كَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ شَكَرَ   (۳۵)

اپنے احسان سے (١) ہر ہر شکر گزار کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‏

یعنی ان کو عذاب سے بچانا، یہ ہماری رحمت اور احسان تھا جو ان پر ہوا۔

وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ   (۳۶)

یقیناً (لوط علیہ السلام) نے انہیں ہماری پکڑ سے ڈرایا (١) تھا لیکن انہوں نے ڈرانے والے کے بارے میں (شک و شبہ اور) جھگڑا کیا (٢)‏

۱۔  یعنی عذاب آنے سے پہلے سخت گرفت سے ڈرایا تھا۔

۲۔  لیکن انہوں نے اس کی پروا نہ کی بلکہ شک کیا اور ڈرانے والوں سے جھگڑتے رہے۔

وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَنْ ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ   (۳۷)

اور ان (لوط علیہ السلام) کو ان کے مہمانوں کے بارے میں پھسلایا (۱) پس ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں (۲)

اور کہہ دیا میرا ڈرانا اور میرا عذاب چکھو۔‏

۱۔ یا بہلایا یا مانگا لوط علیہ السلام سے ان کے مہمانوں کو۔

مطلب یہ ہے کہ جب لوط علیہ السلام کی قوم کو معلوم ہوا کہ چند خوبرو نوجوان لوط علیہ السلام کے ہاں آئے ہیں ۔(جو دراصل فرشتے تھے اور انکو عذاب دینے کے لیے آئے تھے) تو انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم اپنے بگڑے ہوئے ذوق کی ان سے تسکین کریں۔

۲۔  کہتے ہیں کہ یہ فرشتے جبرائیل میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام تھے۔

 جب انہوں نے بد فعلی کی نیت سے فرشتوں (مہمانوں) کو لینے پر زیادہ اصرار کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے اپنے پر کا ایک حصہ انہیں مارا، جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے ہی باہر نکل آئے،

 بعض کہتے ہیں، صرف آنکھوں کی بصارت زائل ہوئی،

بہرحال عذاب عام سے پہلے یہ عذاب خاص ان لوگوں کو پہنچا جو حضرت لوط علیہ السلام کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ اور آنکھوں سے یا بینائی سے محروم ہو کر گھر پہنچے۔ اور صبح اس عذاب عام میں تباہ ہوگئے جو پوری قوم کے لئے آیا۔تفسیر ابن کثیر

وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُسْتَقِرٌّ   (۳۸)

اور یقینی بات ہے کہ انہیں صبح سویرے ہی ایک جگہ پکڑنے والے مقررہ عذاب نے غارت کر دیا ۔‏

یعنی صبح ان پر نازل ہونے والا عذاب آگیا، جو انہیں ہلاک کئے بغیر نہ چھوڑے

فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ   (۳۹)

پس میرے عذاب اور میرے ڈراوے کا مزہ چکھو۔‏

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ   (۴۰)

اور یقیناً ہم نے قرآن کو پند و واعظ کے لئے آسان کر دیا ہے (١) پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا۔‏

قرآن کا اس سورت میں بار بار ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ قرآن اور اس کے فہم و حفظ کو آسان کر دینا، اللہ کا احسان عظیم ہے، اس کے شکر سے انسان کو کبھی غافل نہیں ہونا چاہیئے۔

وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ (۴۱)

اور فرعونیوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے۔‏

كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُقْتَدِرٍ (۴۲)

انہوں نے ہماری تمام نشانیاں جھٹلائیں (١) پس ہم نے بڑے غالب قوی پکڑنے والے کی طرح پکڑ لیا۔‏(۲)

۱۔ وہ نشانیاں، جن کے ذریعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور فرعونیوں کو ڈرایا، یہ نشانیاں تھیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔

۲۔ یعنی  ان کو ہلاک کر دیا‘ کیونکہ وہ عذاب‘ ایسے غالب کی گرفت تھی جو انتقام لینے پر قادر ہے‘ اس کی گرفت کے بعد کوئی بچ نہیں سکتا۔

أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ (۴۳)

اے قریشیو! کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں؟ (١) یا تمہارے لئے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے۔‏

یہ استفہام انکار یعنی نفی کے لئے ہے، یعنی اے اہل عرب! تمہارے کافر، گذشتہ کافروں سے بہتر نہیں ہیں، جب وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے، تو تم جب کہ تم ان سے بدتر ہو، عذاب سے سلامتی کی امید کیوں رکھتے ہو۔

الزُّبُرِ سے مراد گزشتہ انبیا پر نازل شدہ کتابیں ہیں۔

أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنْتَصِرٌ (۴۴)

یا یہ کہتے ہیں کہ ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں ۔‏

تعداد کی کثرت اور وسائل قوت کی وجہ سے، ہم دشمن سے انتقام لینے پر قادر ہیں۔

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ (۴۵)

عنقریب یہ جماعت شکست دی جائے گی اور پیٹھ دے کر بھاگے گی  

جماعت سے مراد کفار مکہ ہیں۔ چنانچہ بدر میں انہیں شکست ہوئی اور یہ پیٹھ دے کر بھاگے۔

بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ (۴۶)

بلکہ قیامت کی گھڑی ان کے وعدے کے وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے  

یعنی دنیا میں جو یہ قتل کئے گئے، قیدی بنائے گئے وغیرہ، یہ ان کی آخری سزا نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت سزائیں ان کو قیامت والے دن دی جائیں گی جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ (۴۷)

بیشک گناہ گار گمراہی میں اور عذاب میں ہیں۔‏

يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ (۴۸)

جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا) دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو ۔‏

سَقَرً بھی جہنم کا نام ہے یعنی اس کی حرارت اور شدت عذاب کا مزہ چکھو۔

إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ (۴۹)

بیشک ہم نے ہرچیز کو ایک (مقررہ) اندازے سے پیدا کیا ہے۔‏

أئمہ سنت  نے اس آیت  اور اس جیسی دوسری آیات سے  استدلال کرتے ہوئے تدبیر الہٰی کا اثبات کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی سب کا علم تھا اور اس نے سب کی تقدیر لکھ دی ہے اور فرقہ قدریہ کی تردید کی ہے جس کا ظہور عہد صحابہ کے آخر میں ہوا۔ ابن کثیر

وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ (۵۰)

اور ہمارا حکم صرف ایک دفعہ (کا ایک کلمہ) ہی ہوتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا۔‏

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (۵۱)

اور ہم نے تم جیسے بہتیروں کو ہلاک کر دیا ہے (١) پس کوئی ہے نصیحت لینے والا۔‏

یعنی گذشتہ امتوں کے کافروں کو، جو کفر میں تمہارے ہی جیسے تھے۔

وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ (۵۲)

جو کچھ انہوں نے (اعمال) کئے ہیں سب نامہ اعمال میں لکھے ہوئے ہیں ۔‏

یا دوسرے معنی میں، لوح محفوظ میں درج ہیں۔

وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ (۵۳)

(اسی طرح) ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی ہے  

یعنی مخلوق کے تمام اعمال، اقوال و افعال لکھے ہوئے ہیں، چھوٹے ہوں یا بڑے، حقیر ہوں یا جلیل۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ (۵۴)

یقیناً ہمارا ڈر رکھنے والے جنتوں اور نہروں میں ہونگے  

یعنی مختلف اور قسم قسم کے باغات میں ہونگے، بطور جنس کے ہے جو جنت کی تمام نہروں کو شامل ہے۔

فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ (۵۵)

راستی اور عزت کی بیٹھک میں (١) قدرت والے بادشاہ کے پاس۔‏(۲)

مَقْعَدِ صِدْقٍ عزت کی بیٹھک یا مجلس حق، جس میں گناہ کی بات ہوگی نہ لغویات کا ارتکاب۔ مراد جنت ہے۔

مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ قدرت والا بادشاہ‘ یعنی وہ ہر طرح کی قدرت سے بہرہ ور ہے جو چاہے کر سکتا ہے‘ کوئی اسے عاجزنہیں کر سکتا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter