Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al NajmTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے (١) بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لئے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى
کہ تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ ٹیڑھی راہ پر ہے (۲) یہ جواب قسم ہے۔ صَاحِبُكُمْ (تمہارا ساتھی) کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو واضح تر کیا گیا ہے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال اس نے تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان گزارے ہیں، اس کے شب و روز کے تمام معمولات تمہارے سامنے ہیں، اس کا اخلاق و کردار تمہارا جانا پہچانا ہے۔ راست بازی اور امانت داری کے سوا تم نے اس کے کردار میں کبھی کچھ اور بھی دیکھا؟ اب چالیس سال کے بعد جو وہ نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے تو ذرا سوچو، وہ کس طرح جھوٹ ہو سکتا ہے؟ چنانچہ واقعہ یہ کہ وہ نہ گمراہ ہوا ہے نہ بہکا ہے۔ ضلالت، راہ حق سے وہ انحراف ہے جو جہالت اور لاعلمی سے ہو اور غوابت، وہ کجی ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھوڑ کر اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی گمراہیوں سے اپنے پیغمبر کی تنزیہ بیان فرمائی۔ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ (۳) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔ (۴) یعنی وہ گمراہ یا بہک کس طرح سکتا ہے‘ وہ تو وحی الہٰی کے بغیر لب کشائی ہی نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ مزاح اور خوش طبعی کے موقعوں پر بھی آپ ﷺ کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا۔ سنن ترمذی اسی طرح حالت غضب میں‘ آپﷺ کو اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھا کہ آپ ﷺ کی زبان سے کوئی بات خلاف واقعہ نہ نکلتی۔ ابو داؤد عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا۔ (۵) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى جو زور آور ہے پھر وہ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ (۶) اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام فرشتہ ہے جو قوی اعضا کا مالک اور نہایت زور آور ہے‘ پیغمبرﷺ پر وحی لانے اور اسے سکھلانے والا یہی فرشتہ ہے۔ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھا۔ (۷) یعنی جبرائیل علیہ السلام‘ وحی سکھلانے کے بعد آسمان کے کناروں پر جا کھڑے ہوئے۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا۔ (۸) یعنی پھر زمین پر اترے اور آہستہ آہستہ نبی ﷺ کے قریب ہوئے۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔ (۹) بعض نے ترجمہ کیا ہے‘ دو ہاتھوں کے بقدر‘ یہ نبی ﷺ اور جبرائیل علیہ السلام کی باہمی قربت کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ اور نبی ﷺ کی قربت کا اظہار نہیں ہے‘ جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں۔ آیات کے سیاق سے صاف واضح ہے کہ اس میں صرف جبرائیل علیہ السلام اور نبی ﷺ کا بیان ہے۔ اسی قربت کے موقع پر نبی ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھا اور یہ بعثت کے ابتدائی ادوار کا واقعہ ہے۔ جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ دوسری مرتبہ اصل شکل میں معراج کی رات کو دیکھا۔ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی وحی پہنچائی ۔ (۱۰) یعنی جبرائیل علیہ السلام‘ اللہ کے بندے حضرت محمد ﷺ کے لیے جو وحی یا پیغام لے کر آئے تھے‘ وہ انہوں نے آپ ﷺ تک پہنچایا۔ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا ۔ (۱۱) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو اصل شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔ ایک پر مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے جتنا تھا، اس کو آپ کے دل نے جھٹلایا نہیں، بلکہ اللہ کی اس عظیم قدرت کو تسلیم کیا۔ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں۔ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ (۱۳) عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ۔ (۱۴) یہ لیلۃ المعراج کو جب اصل شکل میں جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، اس کا بیان ہے۔ یہ سدرۃ المنتہیٰ، ایک بیری کا درخت ہے جو چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے اور یہ آخری حد ہے، اس کے اوپر کوئی فرشتہ نہیں جاسکتا۔ فرشتے اللہ کے احکام بھی یہیں سے وصول کرتے ہیں۔ عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى اسی کے پاس جنتہ الماویٰ ہے (۱۵) اسے جنت الماویٰ، اسلئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کا ماویٰ و مسکن یہی تھا،بعض کہتے ہیں کہ روحیں یہاں آکر جمع ہوتی ہیں۔ فتح القدیر إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى جب کہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی (۱۶) سدرۃ المنتہیٰ کی اس کیفیت کا بیان ہے جب شب معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مشاہدہ کیا، سونے کے پروانے اس کے گرد منڈلا رہے تھے، فرشتوں کا عکس اس پر پڑ رہا تھا، اور رب کی تجلیات کا مظہر بھی وہی تھا ۔ ابن کثیر اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزوں سے نوازا گیا: - پانچ وقت کی نمازیں، - سورہ بقرہ کی آخری آیات - اور اس مسلمان کی مغفرت کا وعدہ جو شرک کی آلودگیوں سے پاک ہوگا۔ صحیح مسلم مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی (۱۷) یعنی نبی کی نگاہیں دائیں بائیں ہوئیں اور نہ حد سے بلند اور متجاوز ہوئیں جو آپ کے لئے مقرر کر دی گئی تھی۔ ایسر التفاسیر لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں ۔ (۱۸) جن میں جبرائیل علیہ السلام اور سدرۃ المنتہیٰ کا دیکھنا اور دیگر مظاہر قدرت کا مشاہدہ ہے جس کی کچھ تفصیل احادیث معراج میں بیان کی گئی ہے۔ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔ (۱۹) وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى اور منات تیسرے پچھلے کو (۲۰) یہ مشرکین کی توبیخ کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی یہ تو شان ہے جو مذکور ہوئی کہ جبرائیل علیہ السلام جیسے عظیم فرشتوں کا وہ خالق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اس کے رسول ہیں، جنہیں اس نے آسمان پر بلا کر بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ بھی کرایا اور وحی بھی ان پر نازل فرماتا ہے۔ کیا تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو، ان کے اندر بھی یہ یا اس قسم کی خوبیاں ہیں؟ اس ضمن میں عرب کے تین مشہور بتوں کے نام بطور مثال لیے ۔ - لات، بعض کے نزدیک یہ لفظ اللہ سے ماخوذ ہے، بعض کے نزدیک لات یلیت سے ہے، جس کے معنی موڑنے کے ہیں، پجاری اپنی گردنیں اس کی طرف موڑتے اور اس کا طواف کرتے تھے۔ اس لیے یہ نام پڑگیا۔ بعض کہتے ہیں، کہ لاتمیں تا مشدد ہے لت یلت سے اسم فاعل (ستو گھولنے والا) یہ ایک نیک آدمی تھا، حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا، جب یہ مر گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کو عبادت گاہ بنالیا، پھر اس کے مجسمے اور بت بن گئے۔ یہ طائف میں بنو ثقیف کا سب سے بڑا بت تھا۔ - عزی کہتے ہیں یہ اللہ کے صفاتی نام عزیز سے ماخوذ ہے، اور یہ أعز کی تانیث ہے بمعنی عزیزت بعض کہتے ہیں کہ یہ غطفان میں ایک درخت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ شیطاننی (بھوتنی) تھی جو بعض درختوں میں ظاہر ہوتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سنگ ابیض تھا جس کو پوجتے تھے۔ یہ قریش اور بنو کنانہ کا خاص معبود تھا۔ - مَنَاةَ ، منی یمنی سے ہے جس کے معنی صب (بہانے) کے ہیں۔ اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے لوگ کثرت سے اس کے پاس جانور ذبح کرتے اور انکا خون بہاتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت تھا ۔ فتح القدیر یہ قدید کے بالمقابل مشلل جگہ میں تھا، بنوخزاعہ کا یہ خاص بت تھا۔ زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج یہیں سے احرام باندھتے تھے اور اس بت کا طواف بھی کرتے تھے۔ایسر التفاسیر وابن کثیر ان کے علاوہ مختلف اطراف میں اور بھی بہت سے بت اور بت خانے پھیلے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اور دیگر مواقع پر ان بتوں اور دیگر تمام بتوں کا خاتمہ فرما دیا ان پر جو قبے اور عمارتیں بنی ہوئی تھیں، وہ مسمار کروا دیں، ان درختوں کو کٹوا دیا، جن کی تعظیم کی جاتی تھی اور وہ تمام آثار و مظاہر مٹا ڈالے گئے جو بت پرستی کی یادگار تھے، اس کام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد، حضرت علی، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضوان اللہ علیہم اجمعین کو، جہاں جہاں یہ بت تھے، بھیجا اور انہوں نے جاکر ان سب کو ڈھا کر سرزمین عرب سے شرک کا نام مٹا دیا۔ابن کثیر أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى کیا تمہارے لئے لڑکے اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہیں (۲۱) مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، یہ اس کی تردید ہے، جیسا کہ متعدد جگہ یہ مضمون گزر چکا ہے۔ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى یہ تو اب بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ (۲۲) ضِيزَى حق و صواب سے ہٹی ہوئی۔ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے لئے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى یہ لوگ صرف اٹکل اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ (۲۳) أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّى کیا ہر شخص جو آرزو کرے اسے میسر ہے؟ (۲۴) یعنی یہ جو چاہتے ہیں کہ ان کے یہ معبود انہیں فائدہ پہنچائیں اور ان کی سفارش کریں یہ ممکن ہی نہیں۔ فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى اللہ ہی کے ساتھ ہے یہ جہان اور وہ جہان (۲۵) یعنی وہی ہوگا، جو وہ چاہے گا، کیونکہ تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں۔ وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لئے چاہے اجازت دے دے. (۲۶) یعنی فرشتے، جو اللہ کے مقرب ترین مخلوق ہے ان کو بھی شفاعت کا حق صرف انہی لوگوں کے لئے ملے گا جن کے لئے اللہ پسند کرے گا، جب یہ بات ہے تو پھر یہ پتھر کی مورتیاں کس طرح کسی کی سفارش کر سکیں گی؟ جن سے تم آس لگائے بیٹھے ہو، نیز اللہ تعالیٰ مشرکوں کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کا حق بھی کب دے گا، جب کہ شرک اس کے نزدیک ناقابل معافی ہے؟ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى بیشک لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کا زنانہ نام مقرر کرتے ہیں (۲۷) وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ ۖ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا حالانکہ انہیں اس کا علم نہیں وہ صرف اپنے گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور بیشک وہم (گمان) حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں دیتا۔ (۲۸) فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا آپ اس سے منہ موڑ لیں جو ہماری یاد سے منہ موڑے اور جن کا ارادہ بجز زندگانی دنیا کے اور کچھ نہیں۔ (۲۹) ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ ۚ یہی ان کے علم کی انتہا ہے۔ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى آپ کا رب اس سے خوب واقف ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی خوب واقف ہے اس سے بھی جو راہ یافتہ ہے۔ (۳۰) وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے (۳۱) یعنی ہدایت اور گمراہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے، گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے، تاکہ نیکوکار اس کی نیکیوں کا صلہ اور بدکار کو اس کی برائیوں کا بدلہ دے۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ اور ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بےحیائی سے بھی (۱) سوائے کسی چھوٹے گناہ کے(۲) ۱۔ كَبَائِرَ ، کبیرت کی جمع ہے۔ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے ۔ زیادہ اہل علم کے نزدیک ہر وہ گناہ کبیرہ ہے جس پر جہنم کی وعید ہے، یا جس کے مرتکب کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے اور اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ چھوٹے گناہ پر اصرار و دوام بھی اسی کبیرہ گناہ بنادیتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے معنی اور ماہیت کی تحقیق میں اختلاف کی طرح، اس کی تعداد میں بھی اختلاف ہے، بعض علماء نے انہیں کتابوں میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے کتاب الکبائر للذہبی اور الزواجر وغیرہ ۔ فَوَاحِشَ ، فاحشت کی جمع ہے، بےحیائی کے مظاہر چونکہ بہت عام ہوگئے ہیں، اس لیے بےحیائی کو، تہذیب، سمجھ لیا گیا، حتٰی کہ اب مسلمانوں نے بھی اس، تہذیب بےحیائی، کو اپنا لیا ہے ۔ چنانچہ گھروں میں ٹی وی، وی سی آر وغیرہ عام ہیں، عورتوں نے نہ صرف پردے کو خیرباد کہہ دیا، بلکہ بن سنور کر اور حسن وجمال کا مجسم اشتہار بن کر باہر نکلنے کو اپنا شعار اور وطیرہ بنالیا ہے۔ مخلوط تعلیم، مخلوط ادارے، مخلوط مجلسیں اور دیگر بہت سے موقعوں پر مرد و زن کا بےباکانہ اختلاط اور بےمحابا گفتگو روز افزوں ہے، دراں حالیکہ یہ سب، فواحش، میں داخل ہیں، جن کی بابت یہاں بتلایا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی مغفرت ہونی ہے، وہ کبائر فواحش سے اجتناب کرنے والے ہوں گے نہ کہ ان میں مبتلا۔ ۲۔ لمَمَ کے لغوی معنی ہیں کم اور چھوٹا ہونا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بڑے گناہ کے آغاز کا ارتکاب، لیکن بڑے گناہ سے پر ہیز کرنا یا کسی گناہ کا ایک دو مرتبہ کرنا پھر ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ دینا، یا کسی گناہ کا محض دل میں خیال کرنا لیکن عملاً اس کے قریب نہ جانا، یہ سارے صغیرہ گناہ ہوں گے، جو اللہ تعالیٰ کبائر سے اجتناب کی برکت سے معاف فرمادے گا۔ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے، هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے أجِنَّةٌ جنین کی جمع ہے جو پیٹ کے بچے کو کہاجاتا ہے، اس لیے کہ یہ لوگوں کی نظروں سے مستور ہوتا ہے۔ اس سے جب تمہاری کوئی کیفیت اور حرکت مخفی نہیں، حتٰی کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے، جہاں تمہیں کوئی دیکھنے پر قادر نہیں تھا، وہاں بھی تمہارے تمام احوال سے واقف تھا، تو بھر اپنی پاکیزگی بیان کرنے کی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کیا ضرورت ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ایسا نہ کرو۔ تاکہ ریاکاری سے تم بچو۔ فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو۔ وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے (۳۲) أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے منہ موڑ لیا۔ (۳۳) وَأَعْطَى قَلِيلًا وَأَكْدَى اور بہت کم دیا اور ہاتھ روک لیا (۳۴) یعنی تھوڑا سا دے کر ہاتھ روک لیا۔ یا تھوڑی سی اطاعت کی اور پیچھے ہٹ گیا، یعنی کوئی کام شروع کرے لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے۔ أَعِنْدَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَى کیا اسے علم غیب ہے کہ وہ(سب کچھ) دیکھ رہا ہے (۳۵) یعنی کیا وہ دیکھ رہا ہے کہ اس نے فی سبیل اللہ خرچ کیا تو اس کا مال ختم ہو جائے گا؟ نہیں، غیب کا یہ علم اس کے پاس نہیں ہے بلکہ وہ خرچ کرنے سے گریز محض بخل، دنیا کی محبت اور آخرت پر عدم یقین کی وجہ سے کر رہا ہے اور اطاعت الٰہی سے انحراف کی وجوہات بھی یہی ہیں۔ أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى کیا اسے اس چیز کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے (۳۶) وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى اور وفادار ابراہیم (علیہ السلام) کی آسمانی کتابوں میں تھا۔ (۳۷) أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ (۳۸) وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔ (۳۹) یعنی جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہیں ہوگا، اسی طرح اسے آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا، جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی۔ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى اور یہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔ (۴۰) یعنی دنیا میں اس نے اچھا یا برا جو بھی کیا، چھپ کر کیا یا اعلانیہ کیا، قیامت والے دن سامنے آجائے گا اور اس پر اسے پوری جزا دی جائے گی۔ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (۴۱) وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى اور یہ کہ آپ کے رب ہی کی طرف سے پہنچنا ہے۔ (۴۲) وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔ (۴۳) وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے۔ (۴۴) وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى اور اسی نے جوڑا یعنی نر مادہ پیدا کیا۔ (۴۵) مِنْ نُطْفَةٍ إِذَا تُمْنَى نطفہ سے جب وہ ٹپکایا جاتا ہے۔ (۴۶) وَأَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَى اور یہ کہ اسی کے ذمہ دوبارہ پیدا کرنا ہے۔ (۴۷) وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَى وَأَقْنَى اور یہ کہ وہی مالدار بناتا ہے اور سرمایا دیتا ہے (۴۸) یعنی کسی کو اتنی تونگری دیتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا اور اسکی تمام حاجتیں پوری ہو جاتی ہیں اور کسی کو اتنا سرمایا دے دیتا ہے کہ اس کے پاس ضرورت سے زائد بچ رہتا ہے اور وہ اس کو جمع کرکے رکھتا ہے۔ وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى اور یہ کہ وہی شعریٰ(ستارے) کا رب ہے ۔ (۴۹) رب تو وہ ہرچیز کا ہے، یہاں ستارے کا نام اس لئے لیا ہے کہ بعض عرب قبائل اس کی پوجا کرتے ہیں۔ وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَى اور یہ کہ اسی نے عاد اول کو ہلاک کیا ہے ۔ (۵۰) قوم عاد اول اس لئے کہا کہ یہ ثمود سے پہلے ہوئی، یا اس لئے کہ قوم نوح کے بعد سب سے پہلے یہ قوم ہلاک کی گئی۔ بعض کہتے ہیں، عاد نامی دو قومیں گزری ہیں، یہ پہلی ہے جسے باد تند سے ہلاک کیا گیا جب کہ دوسری زمانے کی گردشوں کے ساتھ مختلف ناموں سے چلتی اور بکھرتی ہوئی موجود رہی ۔ وَثَمُودَ فَمَا أَبْقَى اور ثمود کو بھی (جن میں سے) ایک کو بھی باقی نہ رکھا۔ (۵۱) وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَى اور اس سے پہلے قوم نوح کو، یقیناً وہ بڑے ظالم اور سرکش تھے۔ (۵۲) وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى اور مؤتفکہ (شہر یا الٹی ہوئی بستیوں کو) اسی نے الٹ دیا۔ (۵۳) اس سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کی بستیاں ہیں، جن کو الٹ دیا گیا۔ فَغَشَّاهَا مَا غَشَّى پھر اس پر چھا دیا جو چھایا (۵۴) یعنی اس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَى پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں جھگڑے گا؟ (۵۵) یا شک کرے گا اور ان کو جھٹلائے گا، جب کہ وہ اتنی عام اور واضح ہیں کہ ان کا انکار ممکن ہے اور نہ چھپانا ہی۔ هَذَا نَذِيرٌ مِنَ النُّذُرِ الْأُولَى یہ (نبی) ڈرانے والے ہیں پہلے ڈرانے والوں میں سے۔ (۵۶) أَزِفَتِ الْآزِفَةُ آنے والی گھڑی قریب آگئی ہے۔ (۵۷) لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ اللہ کے سوا اس کا (وقت معین پر کھول) دکھانے والا اور کوئی نہیں۔ (۵۸) أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟ (۵۹) بات سے مراد قرآن کریم ہے، یعنی اس سے تم تعجب کرتے اور اس کا مذاق کرتے ہو، حالانکہ اس میں نہ تعجب والی کوئی بات ہے نہ مذاق اور جھٹلانے والی۔ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ اور ہنس رہے ہو؟ روتے نہیں؟ (۶۰) وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ بلکہ تم کھیل رہے ہو (۶۱) فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا ۩ اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو ۔ (۶۲) یہ مشرکین اور مکذبین کی توبیخ کے لئے حکم دیا۔ یعنی جب ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ قرآن کو ماننے کی بجائے، اس کا مذاق و استخفاف کرتے ہیں اور ہمارے پیغمبر کے وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا ہے، تو اے مسلمانو! تم اللہ کی بارگاہ میں جھک کر اور اس کی عبادت و اطاعت کا مظاہرہ کرکے قرآن کی تعظیم و توقیر کا اہتمام کرو۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ نے سجدہ کیا، حتIی کہ اس وقت مجلس میں موجود کفار نے بھی سجدہ کیا۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |