&
Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al RahmanTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
الرَّحْمَنُ رحمٰن نے۔ (١) عَلَّمَ الْقُرْآنَ قرآن سکھایا (۲) کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے جواب میں ہے جو کہتے رہتے یہ قرآن محمد کو کوئی انسان سکھاتا ہے بعض کہتے ہیں ان کے اس قول کے جواب میں ہے کہ رحمٰن کیا ہے؟ قرآن سکھانے کا مطلب ہے، اسے آسان کر دیا، یا اللہ نے اپنے پیغمبر کو سکھایا اور پیغمبر نے امت کو سکھلایا۔ اس سورت میں اللہ نے اپنی بہت سی نعمتیں گنوائی ہیں۔ چونکہ تعلیم قرآن ان میں قدر ومنزلت اور اہمیت و افادیت کے لحاظ سے سب سے نمایاں ہے، اس لیے پہلے اسی نعمت کا ذکر فرمایا۔فتح القدیر خَلَقَ الْإِنْسَانَ اسی نے انسان کو پیدا کیا (۳) یعنی یہ بندر وغیرہ جانوروں سے ترقی کرتے کرتے انسان نہیں بن گئے۔ جیسا کہ ڈارون کا فلسفہ ارتقا ہے۔ بلکہ انسان کو اسی شکل و صورت میں اللہ نے پیدا فرمایا ہے جو جانوروں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ انسان کا لفظ بطور جنس کے ہے۔ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ اور اسے بولنا سکھایا (۴) اس بیان سے مراد ہر شخص کی اپنی مادری بولی ہے جو بغیر سیکھے از خود ہر شخص بول لیتا اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر لیتا ہے، حتیٰ کے وہ چھوٹا بچہ بھی بول لیتا ہے، جس کو کسی بات کا علم اور شعور نہیں ہوتا۔یہ تعلیم الٰہی کا نتیجہ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں (۵) یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حساب سے اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ اور ستارے اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں (۶) جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسۡجُدُ لَهُ ۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلۡأَرۡضِ وَٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلۡجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ (۲۲:۱۸) وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی (۷) یعنی زمین میں انصاف رکھا، جس کا اس نے لوگوں کو حکم دیا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: لَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلۡنَا مَعَهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلۡقِسۡطِ(۵۷:۲۵) أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ تاکہ تولنے میں تجاوز نہ کرو (۸) یعنی انصاف سے تجاوز نہ کرو۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو۔ (۹) وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ اور اسی نے مخلوق کے لئے زمین بچھا دی۔ (۱۰) فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ جس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں ۔ (۱۱) اكْمَامِ ، كم کی جمع ہے، کھجور پر چڑھا ہوا غلاف۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ اور بھس والا اناج (١) اور خوشبودار پھول ہیں۔ (۱۲) حُب سے مراد وہ خوراک ہے جو انسان اور جانور کھاتے ہیں۔ خشک ہو کر اس کا پودا بھی بھس بن جاتا ہے جو جانوروں کے کام آتا ہے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۱۳) یہ انسانوں اور جنوں دونوں سے خطاب ہے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں گنوا کر ان سے پوچھ رہا ہے یہ تکرار اس شخص کی طرح ہے جو کسی پر مسلسل احسان کرے لیکن وہ اس کے احسان کا منکر ہو، جیسے کہے، میں نے تیرا فلاں کام کیا، کیا تو انکار کرتا ہے؟ فلاں چیز تجھے دی، کیا تجھے یاد نہیں؟ تجھ پر فلاں احسان کیا، کیا تجھے ہمارا ذرا خیال نہیں؟ فتح القدیر خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی (۱۴) صَلصَالٍ خشک مٹی جس میں آواز ہو۔ فَخَّار آگ میں پکی ہوئی مٹی، جسے ٹھیکری کہتے ہیں۔ انسان سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں، جن کا پہلے مٹی کا پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حوا کو پیدا فرمایا، اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی چلی۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا (۱۵) اس سے مراد پہلا جن جو ابوالجن ہے، یا جن بطور جنس کے ہے جیسا کہ ترجمہ جنس کے اعتبار سے ہی کیا گیا مَارِجٍ آگ کے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۱۶) یعنی تمہاری یہ پیدائش بھی اور پھر تم سے مزید نسلوں کی تخلیق و افزائش، یہ اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔ کیا تم اس نعمت کا انکار کرو گے۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ وہ رب ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا (۱۷) ایک گرمی کا مشرق اور ایک سردی کا مشرق اسی طرح مغرب ہے۔ اس لئے دونوں کو دوگنا ذکر کیا ہے، موسموں کے اعتبار سے مشرق و مغرب کا مختلف ہونا اس میں بھی انس و جن کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اس لئے اسے بھی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس (اے انسانو اور جنو!)تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۱۸) مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ اس نے دو دریا جاری کر دیئے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ (۱۹) بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ ان دونوں میں سے ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے (۲۰) مَرَجَ جاری کر دیئے ۔ اس کی تفصیل ۲۵:۵۳ میں گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ دو دریاؤں سے مراد بعض کے نزدیک ان کے الگ الگ وجود ہیں، جیسے میٹھے پانی کے دریا ہیں، جن سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں اور انسان ان کا پانی اپنی دیگر ضروریات میں بھی استعمال کرتا ہے۔ دوسری قسم سمندروں کا پانی جو کھارا ہے جس کے کچھ اور فوائد ہیں۔ یہ دونوں آپس میں نہیں ملتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ کھارے سمندروں میں ہی میٹھے پانی کی لہریں چلتی ہیں اور یہ دونوں لہریں آپس میں نہیں ملتیں، بلکہ ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہی رہتی ہیں۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھارے سمندروں میں ہی کئی مقامات پر میٹھے پانی کی لہریں بھی جاری کی ہوئی ہیں اور وہ کھارے پانی سے الگ ہی رہتی ہیں ۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ اوپر کھارا پانی ہو اور اس کی تہہ میں نیچے چشمہ آب شیریں۔ جیسا کہ واقعتاً بعض مقامات پر ایسا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جن مقامات پر میٹھے پانی کے دریا کا پانی سمندر میں جاکر گرتا ہے، وہاں کئی لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ دونوں پانی میلوں دور تک اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ایک طرف میٹھا دریائی پانی اور دوسری طرف وسیع و عریض سمندر کا کھارا پانی، ان کے درمیان اگرچہ کوئی آڑ نہیں۔ لیکن یہ باہم نہیں ملتے ۔ دونوں کے درمیان یہ وہ برزخ (آڑ) ہے جو اللہ نے رکھ دی ہے، دونوں اس سے تجاوز نہیں کرتے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۲۱) يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ان دونوں میں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں (۲۲) مَرْجَان سے چھوٹے موتی یا پھر مونگے مراد ہیں کہتے ہیں آسمان سے بارش ہوتی ہے تو سیپیاں اپنے منہ کھول دیتی ہیں، جو قطرہ ان کے منہ کے اندر پڑ جاتا ہے، وہ موتی بن جاتا ہے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۲۳) یہ جواہر اور موتی زیب و زینت اور حسن و جمال کا مظہر ہیں اور اہل شوق و اہل ثروت انہیں اپنے ذوق و جمال کی تسکین اور حسن و رعنائی میں اضافے ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ اس لیے ان کا نعمت ہونا بھی واضح ہے۔ وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ اور اللہ ہی کی (ملکیت میں) ہیں جہاز جو سمندروں میں پہاڑ کی طرح بلند (چل پھر رہے) ہیں (۲۴) یعنی بلند کی ہوئیں، مراد بادبان ہیں، جو بادبانی کشتیوں میں جھنڈوں کی طرح اونچے اور بلند بنائے جاتے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی مصنوعات کے کئے ہیں، یعنی اللہ کی بنائی ہوئی جو سمندر میں چلتی ہیں۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۲۵) ان کے ذریعے سے بھی نقل و حمل کی جو آسانیاں ہیں ‘ محتاج وضاحت نہیں‘اس لیےیہ بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ (۲۶) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔ (۲۷) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۲۸) فنائےدنیا کے بعد‘ جزا اور سزا یعنی عدل کا احتمام ہو گا‘ لہذا یہ بھی ایک نعمت عظمٰی ہے‘ جس پر شکر الہٰی واجب ہے۔ يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں (١) ہر روز وہ ایک شان میں ہے (٢)۔ (۲۹) ۱۔ یعنی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے سوالی ہیں۔ ۲۔ ہر روز کا مطلب، ہر وقت۔ شان کے معنی امر یا معاملہ، یعنی ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے، کسی کو شفایاب، کسی کو تونگر کسی کو فقیر، کسی کو گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا، کسی کو بلندیوں پر فائز کر رہا ہے، کسی کو پستی میں گرا رہا ہے کسی کو ہست سے نیست اور نیست کو ہست کر رہا ہے الغرض کائنات میں یہ سارے تصرف اسی کے امرو مشیت سے ہو رہے ہیں اور شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کی کارگزاری سے خالی ہو۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۳۰) اور اتنے بڑی ہستی کا ہر وقت بندوں کے امور و معاملات کی تدبیر میں لگے رہنا‘ کتنی بڑی نعمت ہے۔ سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ (جنوں اور انسانوں کے گروہو!) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں گے (۳۱) اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے جس کا مقصد وعید و عید ہے (جن و انس کو) اسلئے کہا گیا کہ ان کو تکلیف شرعیہ کا پابند کیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستثنٰی ہے فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پھر اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۳۳) يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا ۚ اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! یہ تہدید بھی نعمت ہے کہ اس سے بدکار، بدیوں کے ارتکاب سے باز آجائے اور محسن زیادہ نیکیاں کمائے۔ لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں نکل سکتے۔ (۳۳) یعنی اگر اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جاسکتے ہو تو چلے جاؤ لیکن یہ طاقت کس میں ہے؟ اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا کون سی جگہ ایسی ہے، جو اللہ کے اختیار سے باہر ہو، بعض نے کہا کہ یہ میدان محشر میں کہا جائے گا، جبکہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہونگے ۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پھر اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۳۴) يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا (١) پھر تم مقابلہ نہ کر سکو گے۔ (۳۵) ۱۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت والے دن کہیں بھاگ کر گئے، تو فرشتے آگ کے شعلے اور دھواں تم پر چھوڑ کر یا پگھلا ہوا تانبہ تمہارے سروں پر ڈال کر تمہیں واپس لے آئیں گے ۔ وَنُحَاسٌ کے دوسرے معنی پگھلے ہوئے تانبے کے کئے گئے ہیں۔ ۲۔ یعنی اللہ کے عذاب کو ٹالنے کی تم قدرت نہیں رکھو گے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پھر اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۳۶) فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ پس جب کہ آسمان پھٹ کر سرخ ہو جائے جیسے کہ سرخ چمڑہ (۳۷) قیامت والے دن آسمان پھٹ پڑے گا، فرشتے زمین پر اتر آئیں گے، اس دن یہ نار جہنم کی شدت حرارت سے پگھل کر سرخ چمڑے کی طرح ہو جائے گا۔ دِھَان سرخ چمڑا۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پھر اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۳۸) فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ اس دن کسی انسان اور کسی جن سے اس کے گناہوں کی پرسش نہ کی جائے گی (۳۹) یعنی جس وقت وہ قبروں سے باہر نکلیں گے۔ ورنہ بعد میں مؤقف حساب میں ان سے باز پرس کی جائے گی، بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ گناہوں کی بابت نہیں پوچھا جائے گا، کیونکہ انکا تو پورا ریکارڈ فرشتوں کے پاس بھی ہوگا اور اللہ کے علم میں بھی۔ البتہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیے؟ ، یا یہ مطلب ہے، ان سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ انسانی اعضا خود بول کر بتلائیں گے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پھر اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۴۰) يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ گناہگار صرف حلیہ سے ہی پہچانے جائیں گے (١) اور ان کے پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لئے جائیں گے ۔(۴۱) ۱۔ یعنی جس طرح اہل ایمان کی علامت ہوگی کہ ان کے اعضائے وضو چمکتے ہونگے، اسی طرح گنہگاروں کے چہرے سیاہ، آنکھیں نیلگوں اور وہ دہشت زدہ ہونگے۔ ۲۔ فرشتے ان کی پیشانیاں اور ان کے قدموں کے ساتھ ملا کر پکڑیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے، یا کبھی پیشانیوں سے اور کبھی قدموں سے انہیں پکڑیں گے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۴۲) هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے۔ (۴۳) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے (۴۴) یعنی کبھی انہیں دکھتی ہوئی آگ کا عذاب دیا جائے گا اور کبھی کھولتے ہوئے گرم پانی، جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ دے گ۔ ابن کثیر فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۴۵) وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں (۴۶) جیسے حدیث میں آتا ہے: دو باغ چاندی کے ہیں، جن میں برتن اور جو کچھ ان میں ہے، سب چاندی کے ہونگے۔ دو باغ سونے کے ہیں اور ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سونے کے ہی ہونگے۔ صحیح بخاری تفسیرسورہ رحمٰن بعض آثار میں ہے کہ سونے کے باغ خواص مؤمنین مقربین اور چاندی کے باغ عام مومنین اصحاب الیمین کے لیے ہوں گے۔ (ابن کثیر) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۴۷) ذَوَاتَا أَفْنَانٍ (دونوں جنتیں) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں (۴۸) یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اس میں سایہ گنجان اور گہرا ہوگا، نیز پھلوں کی کثرت ہوگی، کیونکہ ہر شاخ ٹہنی پھلوں سے لدی ہوگی۔ (ابن کثیر) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۴۹) فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ ان دونوں (جنتوں) میں دو بہتے ہوئے چشمے ہیں (۵۰) ایک کا نام تَسْنِیْم اور دوسرے کا نام سَلْسَبِیْل ہے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۵۱) فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میوؤں کی دو قسمیں ہونگی (۵۲) یعنی ذائقے اور لذت کے اعتبار سے ہر پھل دو قسم کا ہوگا، مزید فضل خاص کی ایک صورت ہے، بعض نے کہا کہ ایک قسم خشک میوے اور دوسری تازہ میوے کی ہوگی۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۵۳) مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ جنتی ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہونگے جن کے استر و بیز ریشم کے ہونگے (١) اور دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہونگے (۵۴) ۱۔ ابری یعنی اوپر کا کپڑا ہمیشہ استر سے بہتر اور خوبصورت ہوتا ہے، یہاں صرف استر کا بیان ہے، جس کا مطلب ہے کہ اوپر (ابری) کا کپڑا اس سے کہیں زیادہ عمدہ ہوگا۔ ۲۔ اتنے قریب ہونگے کہ بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے بھی توڑ سکیں گے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۵۵) فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ وہاں (شرمیلی) نیچی نگاہ والی حوریں ہیں (١) جنہیں ان سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا (۵۶) ۱۔ جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی پر نہیں پڑیں گی اور ان کے اپنے خاوند ہی سب سے زیادہ حسین اور اچھے معلوم ہونگے۔ ۲۔ یعنی باکرہ اور نئی نویلی ہوں گی۔ اس سے قبل وہ کسی کے نکاح میں نہیں رہی ہونگی۔ یہ آیت اور اس سے ماقبل کی بعض آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو جن مؤمن ہونگے وہ بھی مؤمن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو دیگر اہل ایمان کے لیے ہوگا۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۵۷) كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ وہ حوریں مثل یاقوت اور مونگے کے ہوں گی (۵۸) یعنی صفائی میں یاقوت اور سفیدی و سرخی میں موتی یا مونگے کی طرح ہونگی جس طرح صحیح حدیث میں بھی ان کے حسن و جمال کو ان الفاظ میں فرمایا گیا ہے: ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ان کی پنڈلی کا گودا، گوشت اور ہڈی کے باہر نظر آئے گا، ایک دوسری روایت میں فرمایا: جنتیوں کی بیویاں اتنی حسین و جمیل ہوں گی کہ اگر ان میں سے ایک عورت اہل ارض کی طرف جھانک لے تو آسمان و زمین کے درمیان کا سارا حصہ چمک اٹھے اور خوشبو سے بھر جائے۔ اور اس کے سر کا دوپٹہ اتنا قیمتی ہوگا کہ وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ۔ صحیح البخاری کتاب الجہاد باب الحورالعین فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۵۹) هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے (۶۰) پہلے احسان سے مراد نیکی اور اطاعت الٰہی اور دوسرے احسان سے اس کا صلہ، یعنی جنت اور اس کی نعمتیں ہیں۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۶۱) وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ا ور ان کے سوا دو جنتیں اور ہیں ۔ (۶۲) دُوْنِھِمَا سے یہ ثابت بھی کیا گیا ہے کہ یہ دو باغ شان اور فضیلت میں پچھلے دو باغوں سے، جن کا ذکر آیت ٢٦ میں گزرا، کم تر ہونگے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۶۳) مُدْهَامَّتَانِ جو دونوں گہری سبز سیاہی مائل ہیں ۔ (۶۴) کثر ت سیرابی اور سبزے کی فروانی کی وجہ سے وہ مائل بہ سیاہی ہوں گے فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۶۵) فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ ان میں دو (جوش سے) ابلنے والے چشمے ہیں (۶۶) یہ صفت تَجْرِیَانِ سے ہلکی ہے اَلْجَرْیءِ اَقْوَیٰ مِنَ النَّفْخِ (ابن کثیر) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۶۷) فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ ان دونوں میں میوے اور کھجور اور انار ہوں گے (۶۸) جب کہ پہلی دو جنتوں (باغوں) کی صفت میں بتلایا گیا ہے کہ ہر پھل دو قسم کا ہوگا۔ ظاہر ہے اس میں شرف و فضل کی جو زیادتی ہے، وہ دوسری بات میں نہیں ہے فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۶۹) فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ ان میں نیک سیرت خوبصورت عورتیں ہیں (۷۰) خَیْرَات سے مراد اخلاق و کردار کی خوبیاں ہیں . حِسَان کا مطلب ہے حسن و جمال میں یکتا۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۷۱) حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ (گوری رنگت کی) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں (۷۲) حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں موتیوں کے خیمے ہونگے، ان کا عرض ساٹھ میل ہوگا، اس کے ہر کونے میں جنتی کے اہل ہونگے، جس کو دوسرے کونے والے نہیں دیکھ سکیں گے۔ مؤمن اس میں گھومے گا۔ صحیح بخاری فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۷۳) لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ ان کو ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان یا جن نے اس سے قبل۔ (۷۴) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۷۵) مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ سبز مسندوں اور عمدہ فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے (۷۶) مطلب یہ ہے کہ جنتی ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جس پر سبز رنگ کی مسندیں، غالیچے اور اعلیٰ قسم کے خوب صورت منقش فرش بچھے ہوں گے۔ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۷۷) یہ آیت اس سورت میں ۳۱ مرتبہ آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی اقسام ا انواع کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور ہر نعمت یا چند نعمتوں کے ذکر کے بعد استفسار فرمایا ہے‘ حتٰی کہ میدان محشر کی ہولناکیوں اور جہنم کے عذاب کے بعد بھی یہ استفسار فرمایا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ امور آخرت کی یادہانی بھی نعمت عظیمہ ہے تا کہ بچنے والے اس سے بچنے کی سعی کر لیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جن بھی انسانوں کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے بلکہ انسانوں کے بعد یہ دوسری مخلوق ہے جسے عقل و شعور سے نوازا گیا ہے اور اس کے بدلے ان سے صرف اس امر کا تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ مخلوقات میں یہی دو ہیں جو شرعی احکام و فرائض کے مکلف ہیں‘ اسی لیے انہیں ارادہ اختیار کی آزادی دی گئی ہے تا کہ ان کی آزمائش ہو سکے‘ تیسرے‘ نعمتوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا جائز اور مستحب ہے۔ یہ زہد و تقویٰ کے خلاف ہے اور نہ تعلق مع اللہ میں مانع‘ جیسا کہ بعض اہل تصوف باور کراتے ہیں۔ چوتھے‘ بار بار یہ سوال کہ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے؟ یہ توبیخ اور تہدید کے طور پر ہے‘ جس کا مقصد اس اللہ کی نافرمانی سے روکنا ہے‘ جس نے یہ ساری نعمتیں پیدا اور مہیا فرمائیں۔ اس لیے نبی ﷺ نے اس کے جواب میں یہ پڑھنا پسند فرمایا ہے: اے ہمارے رب ہم تیری کسی بھی نعمت کی تکذیب نہیں کرتے‘ پس تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں۔ سنن الترمذی تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ تیرے پروردگار کا نام بابرکت ہے جو عزت و جلال والا ہے۔ (۷۸) تَبَارَکَ، برکت سے ہے جس کے معنی دوام و ثبات کے ہیں۔ مطلب یہ ہے اس کا نام ہمیشہ رہنے والا ہے، یا اس کے پاس ہمیشہ خیر کے خزانے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی بلندی اور علوشان کے کئے ہیں اور جب اس کا نام اتنا بابرکت یعنی خیر اور بلندی کا حامل ہے تو اس کی ذات کتنی برکت اور عظمت و رفعت والی ہوگی۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |