Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Infitar

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَت  (۱)

جب آسمان پھٹ جائے گا‏

وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ (۲)

جب ستارے جھڑ جائیں گے۔‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے جیسے فرمایا:

السَّمَآءُ مُنفَطِرٌ بِهِ (۷۳:۱۸)

اور ستارے سب کے سب گر پڑیں گے

وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ (۳)

سمندر بہہ نکلیں گے‏

اور کھاری اور میٹھے سمندر آپس میں خلط ملط ہو جائیں گے ۔ اور پانی سوکھ جائے گا

وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ (۴)

اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی ‏

قبریں پھٹ جائیں گی ان کے شق ہونے کے بعد مردے جی اٹھیں گے

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ (۵)

 (اس وقت) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئےاور پیچھے چھوڑے ہوئے (یعنی اگلے پچھلے اعمال) کو معلوم کر لے گا۔‏

يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (۶)

اے انسان! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا؟‏

پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دھمکاتا ہے کہ تم کیوں مغرور ہو گئے ہو؟

یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا جواب طلب کرتا ہو یا سکھاتا ہو ،

 بعض نے یہ بھی کہا ہے بلکہ انہوں نے جواب دیا ہے کہ اللہ کے کرم نے غافل کر رکھا ہے ، یہ معنی بیان کرنے غلط ہیں

صحیح مطلب یہی ہے کہ اے ابن آدم اپنے باعظمت اللہ سے تو نے کیوں بےپرواہی برت رکھی ہےکس چیز نے تجھے اس کی نافرمانی پر اکسا رکھا ہے؟

 اور کیوں تو اس کے مقابلے پر آمادہ ہو گیا ہے ؟

حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا ،

 اے ابن آدم تجھے میری جانب سے کسی چیز نے مغرور کر رکھا تھا ؟

ابن آدم بتا تو نے میرے نبیوں کو کیا جواب دیا؟

حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ انسانی جہالت نے اسے غافل بنا رکھا ہے ،

 ابن عمر ؓابن عباس وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ،

قتادہ ؓفرماتے ہیں اسے بہکانے والا شیطان ہے،

حضرت فضیل ابن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھ سے یہ سوال ہو تو میں جواب دوں گا کہ تیرے لٹکائے ہوئے پروں نے ۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں میں تو کہوں گا کہ کریم کے کرم نے بےفکر کر دیا،

بعض سخن شناس فرماتے ہیں کہ یہاں پر کریم کا لفظ لاناگویا جواب کی طرف اشارہ سکھانا ہے ۔ لیکن یہ قول کچھ فائدے مند نہیں بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ کرم والوں کو اللہ کے کرم کے مقابلہ میں بد افعال اور برے اعمال نہ کرنے چاہئیں۔

کلبی اور مقاتل فرماتے ہیں کہ اسود بن شریق کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے ۔ اس خبیث نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارا تھا اور اسی وقت چونکہ اس پر کچھ عذاب نہ آیا تو وہ پھول گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (۷)

جس (رب نے) تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا اور پھر درست اور برابر بنایا‏

پھر فرماتا ہے وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست بنایا پھر درمیانہ قد و قامت بخشا خوش شکل اور خوبصورت بنایا،

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 اے ابن آدم کیا تو مجھے عاجز کر سکتا ہے ؟

حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے پھر ٹھیک ٹھاک کیا پھر صحیح قامت بنایا پھر تجھے پہنا اڑھا کر چلنا پھرنا سکھایا آخر کار تیرا ٹھکانہ زمین کے اندر ہےتو نے خوب دولت جمع کی اور میری راہ میں دینے سے باز رہا یہاں تک کہ جب دم حلق میں آ گیا تو کہنے لگا میں صدقہ کرتا ہوں ، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں؟

فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ (۸)

جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔‏

جس صورت میں چاہا ترکیب دی یعنی باپ کی ماں کی ماموں کی چچا کی صورت میں پیدا کیا۔

 ایک شخص سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے ہاں بچہ کیا ہو گا؟

 اس نے کہا یا لڑکا یا لڑکی ۔

 فرمایا کس کے مشابہ ہو گا؟

کہا یا میرے یا اس کی ماں کے ۔

فرمایا خاموش ایسا نہ کہہ نطفہ جب رحم میں ٹھہرتا ہے تو حضرت آدم تک کا نسب اس کے سامنے ہوتا ہے ۔ پھر آپ نے آیت  فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ  پڑھی اور فرمایا جس صورت میں اس نے چاہا تجھے چلایا۔

یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو آیت کے معنی کرنے کے لیے کافی تھی لیکن اس کی اسناد ثابت نہیں ہے ۔ مظہرین ہثیم جو اس کے راوی ہیں یہ متروک الحدیث ہیں۔ ان پر اور جرح بھی ہے ۔

بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے:

 ایک شخص نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا میری بیوی کو جو بچہ ہوا ہے وہ سیاہ فام ہے ۔

 آپ نے فرمایا تیرے پاس اونٹ بھی ہیں ؟

 کہا ہاں۔

 فرمایا کس رنگ کے ہیں ؟

کہا سرخ رنگ کے ۔

فرمایا کہ ان میں کوئی چت کبرا بھی ہے ؟

 کہا ہاں۔

فرمایا اس کا رنگ کا بچہ سرخ نر و مادہ کے درمیان کیسے پیدا ہو گیا؟

کہنے لگا شاید اوپر کی نسل کی طرف کوئی رگ کھینچ لے گئی ہو ۔

آپ نے فرمایا اسی طرح تیرے بچے کے سیاہ رنگ کے ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہو ۔

حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں اگر چاہے بندر کی صورت بنا دے اگر چاہے سور کی ۔

ابو صالح ؒفرماتے ہیں اگر چاہے کتے کی صورت میں بنا دے اگر چاہے گدھے کی اگر چاہے سور کی

قتادہؓ فرماتے ہیں یہ سب سچ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن وہ مالک ہمیں بہترین ، عمدہ ، خوش شکل اور دل لبھانے والی پاکیزہ پاکیزہ شکلیں صورتیں عطا فرماتا ہے

كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ (۹)

ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے ہو۔‏

پھر فرماتا ہے کہ اس کریم اللہ کی نافرمانیوں پر تمہیں آمادہ کرنے والی چیز صرف یہی ہے کہ تمھارے دلوں میں قیامت کی تکذیب ہے تم اس کا آنا ہی برحق نہیں جانتے اس لیے اس سے بےپرواہی برت رہے ہو،

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (۱۰)

یقیناً تم پر نگہبان عزت والے۔‏

كِرَامًا كَاتِبِينَ (۱۱)

لکھنے والے مقرر ہیں۔‏

يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (۱۲)

جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔‏

تم یقین مانو کہ تم پر بزرگ محافظ اور کاتب فرشتے مقرر ہیں ۔ تمہیں چاہیئے کہ ان کا لحاظ رکھو وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں تمھیں برائی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

 اللہ کے یہ بزرگ فرشتے تم سے جنابت اور پاخانہ کی حالت کے سوا کسی وقت الگ نہیں ہوتے ۔ تم انکا احترام کرو، غسل کے وقت بھی پردہ کر لیا کرو دیوار سے یا اوٹ سے ہی سہی یہ بھی نہ تو اپنے کسی ساتھی کو کھڑا کر لیا کرو تاکہ وہی پردہ ہو جائے (ابن ابی حاتم)

بزار کی اس حدیث کے الفاظ میں کچھ تغیر و تبدل ہے اور اس میں یہ بھی ہے:

 اللہ تعالیٰ تمہیں ننگا ہونے سے منع کرتا ہے ۔ اللہ کے ان فرشتوں سے شرماؤ۔

 اس میں یہ بھی ہے کہ غسل کے وقت بھی یہ فرشتے دور ہو جاتے ہیں

 ایک حدیث میں ہے:

 جب یہ کراماً کاتبین بندے کے روزانہ اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہیں تو اگر شروع اور آخر میں استغفار ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے درمیان کی سب خطائیں میں نے اپنے غلام کی بخش دیں (بزار)

بزار کی ایک اور ضعیف حدیث میں ہے :

 اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے انسانوں کو اور ان کے اعمال کو جانتے پہنچانتے ہیں جب کسی بندے کو نیکی میں مشغول پاتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں شخص نجات پا گیا فلاح حاصل کر گیا اور اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو آپس میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں ہلاک ہوا۔

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (۱۳)

یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش وآرام اور) نعمتوں میں ہونگے۔‏

ابرار کا کردار

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار فرمانبردار ، گناہوں سے دور رہتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ جنت کی خوش خبری دیتا ہے

حدیث میں ہے:

 انہیں ابرار اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے ،

وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ (۱۴)

اور یقیناً بدکار لوگ دوزخ میں ہونگے۔‏

بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے ،

يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ (۱۵)

بدلے والے دن اس میں جائیں گے

وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ (۱۶)

وہ اس سے کبھی غائب نہ ہونے پائیں گے۔‏

قیامت کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہو گا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ موت آئے گی نہ راحت ملے گی نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے ۔

پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو بار فرمایا :

وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ (۱۷)

تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ بدلے کا دن کیا ہے۔‏

ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ (۱۸)

پھر میں (کہتا ہوں) تجھے کیا معلوم کہ جزا و سزا کا دن کیا ہے۔‏

تمہیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے ؟

يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا ۖ

(وہ ہے) جس دن کوئی شخص کسی شخص کے لئے کسی چیز کا مختار نہ ہوگا،

پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا نہ عذاب سے نجات دلا سکے گا ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے ۔

اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اے بنو ہاشم اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کر لو میں تمہیں اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔

یہ حدیث سورہ شعراء کی تفسیر کے آخر میں گزر چکی ہے ۔

وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ (۱۹)

 اور (تمام تر) احکام اس روز اللہ کے ہی ہوں گے

یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہو گا ۔ جیسے اور جگہ ہے:

لِّمَنِ ٱلۡمُلۡكُ ٱلۡيَوۡمَۖ لِلَّهِ ٱلۡوَٲحِدِ ٱلۡقَهَّارِ  (۴۰:۱۶)

ٱلۡمُلۡكُ يَوۡمَٮِٕذٍ ٱلۡحَقُّ لِلرَّحۡمَـٰنِ‌ (۲۵:۲۶)

مَـٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ  (۱:۴)

مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد قہار و رحمٰن کی ہی ہو گی ۔ گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت ، ملکیت اور امر بھی نہ ہو گا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter