Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Mutaffifin

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (۱)

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔‏

ناپ تول میں کمی کے نتائج

نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا

ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔

آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ ہے۔

پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا۔

اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔

الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ  (۲)

کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔‏

وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُون (۳)

جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ‏

ٹھیک یہ ہے کہ كَالُو اور وَزَنُو کو متعدی مانیں اور هُمْ کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر مؤکد مانا ہے۔ جو كَالُو اور وَزَنُو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے

 دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے ۔

قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے ۔

وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ (۱۷:۳۵)

جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو۔

اور جگہ حکم ہے۔

وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا (۶:۱۵۲)

ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے

اور جگہ حکم ہے۔

وَأَقِيمُواْ الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُواْ الْمِيزَانَ (۵۵:۹)

تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کر دیا

أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ (۴)

کیا انہیں مرنے کے بعد اٹھنے کا خیال نہیں۔‏

لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (۵)

اس عظیم دن کے لئے۔‏

يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۶)

جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‏

یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے ۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا ۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے

وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا

صحیح حدیث میں ہے :

 آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہو گا۔ (موطا مالک)

مسند احمد کی حدیث میں ہے

اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے

 اور حدیث میں ہے:

 قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا

اور حدیث میں ہے:

 دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے

اور روایت میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے

ور حدیث میں ہے:

 ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی

 ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشیر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائیگا

حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مدد گار ہے

 آپؐ نے فرمایا:

 سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو۔

سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگام میں چڑھی ہوئی ہوں گی۔

 ابن عمرؓ فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے (ابن جریر)

 ابو داؤد ، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو :

- دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے ،

- دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے،

- دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے،

- دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے۔

پھر کہتے

اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی

اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دےمجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما

 پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے ۔

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ (۷)

یقیناً بدکاروں کا اعمالنامہ سجین میں ہے ‏

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (۸)

تجھے کیا معلوم سجین کیا ہے۔‏

انتہائی المناک اور دکھ درد کی جگہ

مطلب یہ ہے کہ برے لوگوں کا ٹھکانا سِجِّين ہے

یہ لفظ فعیل کے وزن پر سجن سے ماخوذ ہے سجن کہتے ہیں لغتاً تنگی کو و ضیق شریب خمیر سکی وغیرہ کی طرح یہ لفظ بھی سِجِّين ہے

پھر اس کی مزید برائیاں بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ تمہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں وہ المناک اور ہمیشہ کے دکھ درد کی جگہ ہے

 مروی ہے کہ یہ جگہ ساتوں زمینوں کے نیچے ہے

حضرت براء بن عازب کی ایک مطول حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ کافر کی روح کے بارے میں جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ اس کی کتاب سِجِّين میں لکھ لو اور سِجِّين ساتویں زمین کے نیچے ہے

 کہا گیا ہے کہ یہ ساتویں زمین کے نیچے سبز رنگ کی ایک چٹان ہےاور کہا گیا ہے کہ جہنم میں ایک گڑھا ہے

صحیح بات یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں تنگ جگہ

جیل خانہ کے نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے زیادہ تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسطی مرکز ہے

چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے نیچے ہے۔

 اور جگہ ہے:

ثُمَّ رَدَدْنَـهُ أَسْفَلَ سَـفِلِينَ إِلاَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ  (۹۵:۵،۶)

ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کر دیا ہاں جو ایمان والے اور نیک اعمال والے ہیں

غرض سِجِّين ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے:

وَإَذَآ أُلْقُواْ مِنْهَا مَكَاناً ضَيِّقاً مُّقَرَّنِينَ دَعَوْاْ هُنَالِكَ ثُبُوراً (۲۵:۱۳)

جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے۔

كِتَابٌ مَرْقُومٌ (۹)

(یہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے۔‏

كِتَابٌ مَرْقُومٌ یہ سِجِّين کی تفسیر نہیں بلکہ یہ اس کی تفسیر ہے جو ان کے لیے لکھا جا چکا ہے کہ آخرکار جہنم میں پہنچیں گے ان کا یہ نتیجہ لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے نہ اب اس میں کچھ زیادتی ہو نہ کمی، تو فرمایا ان کا انجام سِجِّين ہونا ہماری کتاب میں پہلے سے ہی لکھا جا چکا ہے

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (۱۰)

اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے۔‏

ان جھٹلانے والوں کی اس دن خرابی ہو گی انہیں جہنم کا قید خانہ اور رسوائی والے المناک عذاب ہوں گے

 وَيْلٌ کی مکمل تفسیر اس سے پہلے گزر چکی ہے

خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ان کی ہلاکی بربادی اور خرابی ہے جیسے کہا جاتا ہے ویل لفلان

مسند اور سنن کی حدیث میں ہے:

 وَيْلٌ ہے اس شخص کے لیے جو کوئی جھوٹی بات کہہ کر لوگوں کو ہنسانا چاہے اور اسے وَيْلٌ ہے اسے وَيْلٌ ہے

پھر ان جھٹلانے والے بدکار کافروں کی مزید تشریح کی اور فرمایا

الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ (۱۱)

جو جزا اور سزا کے دن کو جھٹلاتے رہے۔‏

یہ وہ لوگ ہیں جو روز جزاء کو نہیں مانتے اسے خلاف عقل کہہ کر اس کے واقع ہونے کو محال جانتے ہیں

وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ (۱۲)

اسے صرف وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے آگے نکل جانے والا (اور) گناہگار ہوتا ہے۔‏

فرمایا کہ قیامت کا جھٹلانا انہی لوگوں کا کام ہے جو اپنے کاموں میں حد سے بڑھ جائیں اسی طرح اپنے اقوال میں گنہگار ہوں جھوٹ بولیں وعدہ خلافی کریں گالیاں بکیں وغیرہ

إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (۱۳)

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں ‏

یہ لوگ ہیں کہ ہماری آیتوں کو سن کر انہیں جھٹلاتے ہیں بدگمانی کرتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ پہلی کتابوں سے کچھ جمع اکٹھا کر لیا ہے جیسے اور جگہ فرمایا :

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ مَّاذَآ أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ (۱۶:۲۴)

جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کچھ نازل فرمایا تو کہتے ہیں اگلوں کے افسانے ہیں

اور جگہ ہے:

وَقَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاً (۲۵:۵)

یہ کہتے ہیں کہ اگلوں کے قصے ہیں جو اسے صبح شام لکھوائے جا رہے ہیں

 اللہ تعالیٰ انہیں جواب میں فرماتا ہے کہ واقعہ ان کے قول اور ان کے خیال کے مطابق نہیں بلکہ دراصل یہ قرآن کلام الٰہی ہے اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے پر نازل کی ہے

كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۱۴)

یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے ‏

ہاں ان کے دلوں پر ان کے بداعمال نے پردے ڈال دئیے ہیں گناہوں اور خطاؤں کی کثرت نے ان کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے کافروں کے دلوں پر رین ہوتا ہے اور نیک کار لوگوں کے دلوں پر غیم ہوتا ہے

 ترمذی نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور اگر گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہی پھیلتی جاتی ہے اسی کا بیان كَلَّا بَلْ رَانَ میں ہے

 نسائی کے الفاظ میں کچھ اختلاف بھی ہے مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے

 حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ گناہوں پر گناہ کرنے سے دل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے

كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ (۱۵)

ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے

فرمایا کہ یہ لوگ ان عذابوں میں مبتلا ہو کر دیدار باری سے بھی محروم اور محجوب کر دئیے جائیں گے

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں دلیل ہے کہ مؤمن قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ سے مشرف ہوں گے

 امام صاحب کا یہ فرمان بالکل درست ہے اور آیت کا صاف مفہوم یہی ہے

 اور دوسری جگہ کھلے الفاظ میں بھی یہ بیان موجود ہے فرمان ہے:

وُجُوهٌ۬ يَوۡمَٮِٕذٍ۬ نَّاضِرَةٌ  إِلَىٰ رَبِّہَا نَاظِرَةٌ۬ (۷۵:۲۲،۲۳)

اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے

صحیح اور متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے :

 ایمان دار قیامت والے دن اپنے رب عز و جل کو اپنی آنکھوں سے قیامت کے میدان میں اور جنت کے نفیس باغیچوں میں دیکھیں گے

حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ حجاب ہٹ جائیں گے اور مؤمن اپنے رب کو دیکھیں گے اور کافر پھر کافروں کو پردوں کے پیچھے کر دیا جائیگا البتہ مؤمن ہر صبح و شام پروردگار عالم کا دیدار حاصل کریں گے یا اسی جیسا اور کلام ہے

ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ (۱۶)

پھر یہ لوگ بالیقین جہنم میں جھونکے جائیں گے۔‏

پھر فرماتا ہے کہ برے لوگ نہ صرف دیدار الٰہی سے ہی محروم رہیں گے بلکہ یہ لوگ جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے

ثُمَّ يُقَالُ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (۱۷)

پھر کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے وہ جسے تم جھٹلاتے رہے۔‏

اور انہیں حقارت ذلت اور ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر غصہ کے ساتھ کہا جائیگا کہ یہی وہ جسے تم جھٹلاتے رہے۔

نعمتوں، راحتوں اور عزت و جاہ کی جگہ

بدکاروں کا حشر بیان کرنے کے بعد اب نیک لوگوں کا بیان ہو رہا ہے

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ (۱۸)

یقیناً نیکوکاروں کا نامہ اعمال علیین میں ہے

ان کا ٹھکانا عِلِّيِّينَ ہے جو کہ سِجِّين کے بالکل برعکس ہے

حضرت ابن عباس ؓنے حضرت کعب سے سِجِّين کا سوال کیا تو فرمایا :

 وہ ساتویں زمین ہے اور اس میں کافروں کی روحیں ہیں

 اور عِلِّيِّينَ کے سوال کے جواب میں فرمایایہ ساتواں آسمان ہے اور اس میں مؤمنوں کی روحیں ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں مراد اس سے جنت ہے

 عوفی آپ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ کے نزدیک آسمان میں ہیں

قتادہ فرماتے ہیں یہ عرش کا داہنا پایہ ہے

 اور لوگ کہتے ہیں یہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہے

ظاہر یہ ہے کہ لفظ علو یعنی بلندی سے ماخوذ ہے۔ جس قدر کوئی چیز اونچی اور بلند ہو گی اسی قدر بڑی اور کشادہ ہو گی اس لیے اس کی عظمت و بزرگی کے اظہار کے لیے فرمایا

وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (۱۹)

تجھے کیا پتہ کہ علیین کیا ہے؟‏

كِتَابٌ مَرْقُومٌ (۲۰)

(وہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے۔‏

يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ (۲۱)

مقرب (فرشتے) اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔‏

پھر اس کی تاکید کی کہ یہ یقینی چیز ہے کتاب میں لکھی جا چکی ہے کہ یہ لوگ عِلِّيِّينَ میں جائیں گے جس کے پاس ہر آسمان کے مقرب فرشتے جاتے ہیں

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (۲۲)

یقیناً نیک لوگ (بڑی) نعمتوں میں ہونگے۔‏

پھر فرمایا کہ قیامت کے دن یہ نیکو کار دائمی والی نعمتوں اور باغات میں ہوں گے

عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (۲۳)

مسہریوں میں بیٹھے دیکھ رہے ہونگے۔‏

یہ مسہریوں پر بیٹھے ہوں گے اپنے ملک و مال نعمتوں راحتوں عزت و جاہ مال و متاع کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے یہ خیر و فضل یہ نعمت و رحمت نہ کبھی کم ہو نہ گم ہو نہ گھٹے نہ مٹے

 اور یہ بھی معنی ہیں کہ اپنی آرام گاہوں میں تخت سلطنت پر بیٹھے دیدار اللہ سے مشرف ہوتے رہیں گے

 تو گویا کہ فاجروں کے بالکل برعکس ہوں گے ان پر دیدار باری حرام تھا ان کے لیے ہر وقت اجازت ہے جیسے کہ ابن عمر ؓکی حدیث میں ہے جو پہلے بیان ہو چکی:

 سب سے نیچے درجے کا جنتی اپنے ملک اور ملکیت کو دو ہزار سال کی راہ تک دیکھے گا اور سب سے آخر کی چیزیں اس طرح اس کی نظروں کے سامنے ہوں گی جس طرح سب سے اول چیز۔ اور اعلیٰ درجہ کے جنتی تو دن بھر میں دو دو مرتبہ دیدار باری کی نعمت سے اپنے دل کو مسرور اور اپنی آنکھوں کو پر نور کریں گے

تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ (۲۴)

تو ان کے چہروں سے ہی نعمتوں کی ترو تازگی پہچان لے گا۔‏

ان کے چہرے پر کوئی نظر ڈالے تو بیک نگاہ آسودگی اور خوش حالی جاہ و حشمت شوکت و سطوت خوشی و سرور بہجت و نور دیکھ کر ان کا مرتبہ تاڑ لے اور سمجھ لے کہ راحت و آرام میں خوش و خرم ہیں

يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ (۲۵)

یہ لوگ سر بمہر خالص شراب پلائے جائیں گے۔‏

جنتی شراب کا دور چلتا رہتا ہے رَحِيق جنت کی ایک قسم کی شراب ہے

رسول اللہ صیل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

- جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے رَحِيقٍ مَخْتُوم پلائے گا یعنی جنت کی مہر والی شراب

-  اور جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے اسے اللہ تعالیٰ جنت کے میوے کھلائے گا

-  اور جو کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے اللہ تعالیٰ اسے جنتی سبز ریشم کے جوڑے پہنائے گا (مسند احمد)

خِتَامُهُ مِسْكٌ ۚ

جس پر مشک کی مہر ہوگی،

خِتَامُه کے معنی ملونی اور آمیزش کے ہیں اسے اللہ نے پاک صاف کر دیا ہے اور مشک کی مہر لگا دی ہے

یہ بھی معنی ہیں کہ انجام اس کا مشک ہے یعنی کوئی بدبو نہیں بلکہ مشک کی سی خوشبو ہے

چاندی کی طرح سفید رنگ شراب ہے جس قدر مہر لگے گی یا ملاوٹ ہو گی اس قدر خوشبو والی ہے کہ اگر کسی اہل دنیا کی انگلی اس میں تر ہو جائے پھر چاہے اسی وقت اسے وہ نکال لے لیکن تمام دنیا اس کی خوشبو سے مہک جائے

 اور خِتَامُه کے معنی خوشبو کے بھی کیے گئے ہیں

وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (۲۶)

سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہیے ‏

پھر فرماتا ہے کہ حرص کرنے والے فخر و مباہات کرنے والے کثرت اور سبقت کرنے والوں کو چاہیے کہ اس کی طرف تمام تر توجہ کریں

جیسے اور جگہ ہے:

لِمِثْلِ هَـذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَـمِلُونَ (۳۷:۶۱)

ایسی چیزوں کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے

وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيمٍ (۲۷)

اور اس کی آمیزش تسنیم ہوگی

عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ (۲۸)

وہ چشمہ جس کا پانی مقرب لوگ پئیں گے۔‏

تَسْنِيمٍ جنت کی بہترین شراب کا نام ہے

یہ ایک نہر ہے جس سے سابقین لوگ تو برابر پیا کرتے ہیں اور داہنے ہاتھ والے اپنی شراب رحیق میں ملا کر پیتے ہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ (۲۹)

گنہگار لوگ ایمانداروں کی ہنسی اڑ ا یا کرتے تھے ‏

وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ (۳۰)

ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کے اشارے کرتے تھے۔‏

وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ (۳۱)

اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے

وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ (۳۲)

اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراہ (بے راہ) ہیں۔‏

ایمانداروں کی ہنسی اڑ انے والوں کا انجام

دنیا میں تو ان کافروں کی خوب بن آئی تھی ایمان داروں کو مذاق میں اڑاتے رہے، چلتے پھرتے آواز کستے رہے اور حقارت و تذلیل کرتے رہے اور اپنے والوں میں جا کر خوب باتیں بناتے تھے جو چاہتے تھے پاتے تھے لیکن شکر تو کہاں اور کفر پر آمادہ ہو کر مسلمانوں کی ایذار سانی کے درپے ہو جاتے تھے اور چونکہ مسلمان ان کی مانتے نہ تھے تو یہ انہیں گمراہ کہا کرتے تھے

وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ (۳۳)

یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے

اللہ فرماتا ہے کچھ یہ لوگ محافظ بنا کر تو نہیں بھیجے گئے انہیں مؤمنوں کی کیا پڑی کیوں ہر وقت ان کے پیچھے پڑے ہیں اور ان کے اعمال افعال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں اور طعنہ آمیز باتیں بناتے رہتے ہیں؟

 جیسے اور جگہ ہے

قَالَ اخْسَئُواْ فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ

إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِى يَقُولُونَ رَبَّنَآ ءَامَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَحِمِينَ

فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيّاً حَتَّى أَنسَوْكُمْ ذِكْرِى وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ

إِنِّى جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُواْ أَنَّهُمْ هُمُ الْفَآئِزُونَ (۲۳:۱۰۸،۱۱۱)

اس جہنم میں پڑے جھلستے رہو مجھ سے بات نہ کرو

میرے بعض خاص بندے کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم کر تو سب سے بڑا رحم و کرم کرنے والا ہے

تو تم نے انہیں مذاق میں اڑایا اور اس قدر غافل ہوئے کہ میری یاد بھلا بیٹھے اور ان سے ہنسی مداق کرنے لگے

دیکھو آج میں نے انہیں ان کے صبر کا یہ بدلا دیا ہے کہ وہ ہر طرح کامیاب ہیں یہاں بھی

فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ (۳۴)

پس آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے۔‏

عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (۳۵)

تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہونگے۔‏

هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (۳۶)

کہ اب ان منکروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پا لیا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ آج قیامت کے دن ایماندار ان بدکاروں پر ہنس رہے ہیں اور تختوں پر بیٹھے اپنے اللہ کو دیکھ رہے ہیں جو اس کا صاف ثبوت ہے کہ یہ گمراہ نہ تھے گو تم انہیں گم کردہ راہ کہا کرتے تھے بلکہ یہ دراصل اولیاء اللہ تھے مقربین اللہ تھے اسی لیے آج اللہ کا دیدار ان کی نگاہوں کے سامنے ہے یہ اللہ کے مہمان ہیں اور اس کے بزرگی والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جیسا کچھ ان کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں کیا تھا اس کا پورا بدلہ انہیں آخرت میں مل گیا یا نہیں؟

هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (36)

کہ اب ان منکروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پا لیا

ان کے مذاق کے بدلے آج ان کی ہنسی اڑائی گئی یہ ان کا مرتبہ گھٹاتے تھے اللہ نے ان کا مرتبہ بڑھایا غرض پورا پورا تمام و کمال بدلہ دے دیا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter