Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al MumtahinahAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
مشرکین سے دوستی نہ رکھو حضرت حاطب بن ابو بلعہ کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ واقعہ یہ ہوا کہ حاطبؓ مہاجرین میں سے تھے۔ بدر کی لڑائی میں آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ن کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھے اور وہ خود قریش نہ تھے۔ صرف حضرت عثمانؓ کے حلیف تھے‘ جس کی وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا۔ اب یہ رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینہ میں تھے۔ یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان پر چڑحائی کرنی چاہی تو آپ ﷺ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تا کہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ پر قبضہ ہو جائے اس لئے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو نہ پہنچیں۔ ادھر آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا۔ اُدھر حضرت حاطبؓ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریش عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی۔ آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال و دولت محفوظ رہیں۔ چونکہ حضور ﷺ کی دعا قبول ہو چکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہو جائے اس لیےاللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے‘ راستے میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کر لیا گیا۔ حضرت حاطبؓ کا واقعہ مسند احمد میں ہے حضرت علیؓ نے فرمایا: مجھے اور زبیر ؓ کو اور مقدادؓ کو رسول اللہ ﷺ نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کرو اور یہاں لے آؤ۔ ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہوبئے روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی۔ ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر‘ اس نے صاف انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا تم غلط کہتی ہو تیرے پاس یقیناً خط ہے اگر تم راضی خوشی نہ دو گی تو ہم جامعہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے۔ اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا۔ ہم اس وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور حضورﷺ کی خدمت میں اسے پیش کر دیا۔ پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت حاطبؓ نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے‘ حضور ﷺ کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے۔ آپ نے کہا حاطب یہ کیا حرکت ہے؟ حضرت حاطب نے بتایا یا رسول اللہ ﷺ جلدی نہ کیجئے میری بھی سن لیجئے۔ میں قریشوں میں ملا ہوا تھا خود قریشی نہ تھا‘ پھر آپ پر ایمان لا کر ہجرت کی‘ جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابتدار مکہ میں موجود ہیں جو انکے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ انکی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے‘ اس لیے میں نے چاہا کہ آؤ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کر دو جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہو جائے۔ یا رسول اللہ میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں بس اس خط کی وجہ صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بحرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں نہ کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو۔ حضرت فاروقؓ اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئے۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپﷺ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم نہیں کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہواور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانوں مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اسکے رسول اور مؤمن بندوں سے لڑنے والے ہیں‘ جنکے دل تمہاری عداوت پر ہیں تمہیں ہر گز لائق نہین کہ ان سے دوستی اور محبت اور میل ملاپ اور اپنایت رکھو۔ تمہیں اسکے خلاف حکم دیا گیا ہے۔ اور جگہ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، (۵:۵۱) اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ اور جگہ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا ... وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مؤمن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ (۵:۵۷) اور جگہ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا اے ایمان والو! مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی صاف حجت قائم کر لو (۴:۱۱۴) اور جگہ ہے: لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ مؤمنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں یہ انکے شر سے کس طرح بچاؤ مقصود ہو اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے (۳:۲۸) اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ حضرت حاطبؓ کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہو گیا تھا۔ مسند احمد میں ہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ نے کئی مثالیں بیان فرمائیں اور پھر ان میں سے بہ تفصیل صرف ایک بیان کیا باقی سب چھوڑ دیں۔ فرمایا ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑحائی کر کے آگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمنوں پر غالب کر دیا۔ غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کر دیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناراض ہو گیا۔ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو اب مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں دوستی اور محبت رکھتے ہو؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقع پر کمی نہیں کرتے۔ کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ کو جبراً وطن سے نکال باہر کیا۔ اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی بجز اس سے کہ تمہاری توحید ور فرمانبرداری رسول ان پر گراں گزرتی تھی۔ اور جگہ ہے: وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ یہ لوگ ان مسلمانوں کے کسی اور گناہ کا بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کےکہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے (۸۵:۸) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا، صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے، (۲۲:۴۰) إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم سچ مچ میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضامندی کے طالب ہو تو ہر گز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ دوستیاں نہ پیدا نہ کرو۔ تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ ۚ ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو؟ کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے جو ظاہر و باطن جاننے والا ہے‘ دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا ۔ (۱) لیں سن لو جو بھی ان کفار سے دوستی اور محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا‘ إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ اگر وہ تم پر کہیں قابو پا لیں تو وہ تمہارے (کھلے) دشمن ہوجائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں تم نہیں دیکھ رہے کہ ان کافروں کا اگر بس چلے اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے نہ تو اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں گے نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں گے‘ جو ان کے امکان میں ہو گا وہ کر گزریں گے‘ بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کر دیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنا لیں‘ پس جبکہ ان کی اندرونی اور بیرونی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے پھر کیا اندھیر ہے کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں آپ کانٹے بو رہے ہو۔ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ اور (دل سے) چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ (۲) غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کا کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کریں۔ لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ ۚ تمہاری قرابتیں، رشتہ داریاں، اور اولاد تمہیں قیامت کے دن کام نہ آئیں گی يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۚ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔ (۳) تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی۔ اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہے‘ نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے گا نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے گا‘ اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا‘ گو رشتہ دار کیسے ہی ہو کچھ نفع نہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ میرا باپ کہاں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جہنم میں۔ جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنمی ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد میں بھی ہے۔ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ مسلمانو! تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کو کفار سے موالات اور دوستی نہ کرنے کی ہدایت فرما کر ان کے سامنے اپنے خلیل اور ان کے اصحاب کا نمونہ پیش کر رہا ہے کہ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں انہوں نے صاف طور پر اپنے رشتہ کنبے اور قوم کے لوگوں سے برملا فرما دیا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم پوجتے ہو ان سے بیزار بری الذمہ اور الگ تھلگ ہیں، ہم تمہارے دین اور طریقے سے متنفر ہیں، جب تک تم اسی طریقے اور اسی مذہب پر ہو تم ہمیں اپنا دشمن سمجھو وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی ناممکن ہے کہ برادری کی وجہ سے ہم تمہارے اس کفر کے باوجود تم سے بھائی چارہ اور دوستانہ تعلقات رکھیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ اس کی توحید کو مان لو اور اسی ایک کی عبادت شروع کر دو اور جن جن کو تم نے اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہرا رکھا ہے اور جن جن کی پوجا پاٹ میں مشغول ہو ان سب کو ترک کر دو اپنی اس روش کفر اور طریق شرک سے ہٹ جاؤ تم پھر بیشک ہمارے بھائی ہو ہمارے عزیز ہو ورنہ ہم میں تم میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں ہم تم سے اور تم ہم سے علیحدہ ہو، إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۖ لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ ہاں یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے جو استغفار کا وعدہ کیا تھا اور پھر اسے پورا کیا اس میں ان کی اقتداء نہیں، اس لئے کہ یہ استغفار اس وقت تک رہا جس وقت تک کہ اپنے والد کا دشمن اللہ ہونا ان پر وضاحت کے ساتھ ظاہر نہ ہوا تھا جب انہیں یقینی طور پر اس کی اللہ سے دشمنی کھل گئی تو اس سے صاف بیزاری ظاہر کر دی، بعض مؤمن اپنے مشرک ماں باپ کے لئے دعاء و استغفار کرتے تھے اور سند میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لئے دعا مانگنا پیش کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان پوری دو آیتوں تک نازل فرمایا: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ ... ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں ۔ اور ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے ان سے وعدہ کر لیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے و اقعی ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل اور بردبار تھے (۹:۱۱۳،۱۱۴) اور یہاں بھی اسوہ ابراہیمی میں سے اس کا استثناء کر لیا کہ اس بات میں ان کی پیروی تمہارے لئے ممنوع ہے اور حضرت ابراہیم کے اس استغفار کی تفصیل بھی کر دی اور اس کا خاص سبب اور خاص وقت بھی بیان فرما دیا، حضرت ابن عباس مجاہد قتادہ مقاتل بن حیان صحاک وغیرہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے۔ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ا ے ہمارے پروردگارتجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے، (۴) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ قوم سے بیزاری کر کے اب اللہ کی بار گاہ میں آتے ہیں اور جناب باری میں عاجزی اور انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تمام کاموں میں ہمارا بھروسہ اور اعتماد تیری ہی پاک ذات پر ہے ہم اپنے تمام کام تجھے سونپتے ہیں تیری طرف رجوع و رغبت کرتے ہیں، دار آخرت میں بھی ہمیں تیری ہی جانب لوٹنا ہے۔ پھر کہتے ہیں رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال الٰہی تو ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کر دیں، اسی طرح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لئے یہ فتنہ کا سبب ہو گا وہ سمجھیں گے کہ ہمیں اس لئے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں، اسی طرح اگر یہ ہم پر غالب آ گئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کر دیں۔ وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۖ اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ بیشک تو ہی غالب، حکمت والا ہے۔ (۵) تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا، تو اپنی شریعت کے تقرر میں اپنے اقوال و افعال میں اور قضا و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے، تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ یقیناً تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ (اور عمدہ پیروی ہے) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کیاور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو پھر بطور تاکید کے وہی پہلی بات دوہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہئے وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےنیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔ (۶) اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے وہ لائق حمد و ثناء ہے مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ ہے: إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ ۸ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔ (۱۴:۸) یعنی اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بےنیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بےنیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں وہ پاک ہے اکیلا ہے سب پر حاکم سب پر غالب سب کا بادشاہ ہے، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں، رب وہی ہے معبود وہی ہے۔ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً ۚ کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالیٰ تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے کافروں سے محبت رکھنے کی ممانعت اور ان کی بغض و وعداوت کے بیان کے بعد اب ارشاد ہوتا ہے کہ بسا اوقات ممکن ہے کہ ابھی ابھی اللہ تم میں اور ان میں میل ملاپ کرا دے، بغض نفرت اور فرقت کے بعد محبت مودت اور الفت پیدا کر دے، وَاللَّهُ قَدِيرٌ ۚ اللہ کو سب قدرتیں ہیں کونسی چیز ہے جس پر اللہ قادر نہ ہو؟ وہ متبائن اور مختلف چیزوں کو جمع کر سکتا ہے، عداوت و قساوت کے بعد دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دینا اس کے ہاتھ ہے، جیسے اور جگہ انصار پر اپنی نعمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اسے یاد کرو کہ تمہاری دلی عداوت کو اس نے الفت قلبی سے بدل دیا اور تم ایسے ہوگئے جیسے ماں جائے بھائی ہوں تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے لیکن اس نے تمہیں وہاں سے بچا لیا، (۳:۱۰۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں سے فرمایا: کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی اور تم متفرق تھے میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں جمع کر دیا، قرآن کریم میں ہے : وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد سے مؤمنوں کو ساتھ کر کے اے نبی تیری مدد کی اور ایمان داروں میں آپس میں وہ محبت اور یکجہتی پیدا کر دی کہ اگر روئے زمین کی دولت خرچ کرتے اور یگانگت پیدا کرنا چاہتے تو وہ نہ کر سکتے یہ الفت منجانب اللہ تھی جو عزیز و حکیم ہے، (۸: ۶۲،۶۳) ایک حدیث میں ہے: دوستوں کی دوستی کے وقت بھی اس بات کو پیش نظر رکھو کہ کیا عجب اس سے کسی وقت دشمنی ہو جائے اور دشمنوں کی دشمنی میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو کیا خبر کب دوستی ہو جائے، عرب شاعر کہتا ہے۔ ایسے دو دشمنوں میں بھی جو ایک سے ایک جدا ہوں اور اس طرح کہ دل میں گرہ دے لی ہو کہ ابد الا آباد تک اب کبھی نہ ملیں گے اللہ تعالیٰ اتفاق و اتحاد پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح ایک ہو جاتے ہیں کہ گویا کبھی دو نہ تھے، وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ اور اللہ (بڑا) غفور رحیم ہے۔ (۷) اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے کافر جب توبہ کریں تو اللہ قبول فرما لے گا جب وہ اس کی طرف جھکیں وہ انہیں اپنے سائے میں لے لے گا، کوئی سا گناہ ہو اور کوئی سا گنہگار ہو ادھر وہ مالک کی طرف جھکا ادھر اس کی رحمت کی آغوش کھلی، حضرت مقاتل بن حیان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت ابوسفیان صخر بن حرب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان کی صاحبزادی صاحبہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا تھا اور یہی مناکحت حجت کا سبب بن گئی، لیکن یہ قول کچھ جی کو نہیں لگتا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح فتح مکہ سے بہت پہلے ہوا تھا اور حضرت ابو سفیان کا اسلام بالاتفاق فتح مکہ کی رات کا ہے، بلکہ اس سے بہت اچھی توجیہ تو وہ ہے جو ابن ابی حاتم میں مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوسفیان صخر بن حرب کو کسی باغ کے پھلوں کا عامل بنا رکھا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد یہ آ رہے تھے کہ راستے میں ذوالحمار مرتد مل گیا آپ نے اس سے جنگ کی اور باقعادہ لڑے پس مرتدین سے پہلے پہل لڑائی لڑنے والے مجاہد فی الدین آپ ہیں، حضرت ابن شہاب کا قول ہے کہ انہی کے بارے میں یہ آیت عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ ...، اتری ہے، صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے : حضرت ابوسفیان نے اسلام قبول کرنے کے بعد حضور ﷺسے کہا کہ یا رسول اللہ میری تین درخواستیں ہیں اگر اجازت ہو تو عرض کروں آپ نے فرمایا کہو اس نے کہا اول تو یہ کہ مجھے اجازت دیجئے کہ جس طرح میں کفر کے زمانے میں مسلمانوں سے مسلسل جنگ کرتا رہا اب اسلام کے زمانہ میں کافروں سے برابر لڑائی جاری رکھوں آپ نے اسے منظور فرمایا، پھر کہا میرے لڑکے معاویہ کو اپنا منشی بنا لیجئے آپ نے اسے بھی منظور فرمایا (اس پر جو کلام ہے وہ پہلے گزر چکا ہے) اور میری بہترین عرب بچی ام حبیبہ کو آپ اپنی زوجیت میں قبول فرمائیں، آپ نے یہ بھی منظور فرما لیا، (اس پر بھی کلام پہلے گر چکا ہے) لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیاان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا ارشاد ہوتا ہے کہ جن کفار نے تم سے مذہبی لڑائی نہیں کی نہ تمہیں جلا وطن کیا جیسے عورتیں اور کمزور لوگ وغیرہ ان کے ساتھ سلوک و احسان اور عدل و انصاف کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ وہ تو ایسے با انصاف لوگوں سے محبت رکھتا ہے، بخاری مسلم میں ہے: حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے پاس ان کی مشرک ماں آئیں یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح نامہ ہو چکا تھا حضرت اسماء خدمت نبوی میں حاضر ہو کر مسئلہ پوچھتی ہیں کہ میری ماں آئی ہوئی ہیں اور اب تک وہ اس دین سے الگ ہیں کیا مجھے جائز ہے کہ میں ان کے ساتھ سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں جاؤ ان سے صلہ رحمی کرو، مسند کی اس روایت میں ہے : ان کا نام قتیلہ تھا، یہ مکہ سے گوہ اور پنیر اور گھی بطور تحفہ لے کر آئی تھیں لیکن حضرت اسماء نے اپنی مشرکہ ماں کو نہ تو اپنے گھر میں آنے دیا نہ یہ تحفہ ہدیہ قبول کیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور آپ کی اجازت پر ہدیہ بھی لیا اور اپنے ہاں ٹھہرایا بھی، بزار کی حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نام بھی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لئے کہ حضرت عائشہ کی والدہ کا نام ام رومان تھا اور وہ اسلام لا چکی تھیں اور ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائی تھیں، ہاں حضرت اسماء کی والدہ ام رومان نہ تھیں، چنانچہ ان کا نام قتیلہ اوپر کی حدیث میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (۸) مُقْسِطِينَ کی تفسیر سورہ حجرات میں گذر چکی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، حدیث میں ہے مُقْسِطِينَ وہ لوگ ہیں جو عدل کے ساتھ حکم کرتے ہیں گواہل و عیال کا معاملہ ہو یا زیردستوں کا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے۔ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس سے نکال دیا اور دیس سے نکال دینے والوں کی مدد کی پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ممانعت تو ان لوگوں کی دوستی سے ہے جو تمہاری عداوت سے تمہارے مقابل نکل کھڑے ہوئے تم سے صرف تمہارے مذہب کی وجہ سے لڑے جھگڑے تمہیں تمہارے شہروں سے نکال دیا تمہارے دشمنوں کی مدد کی۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ (قطعًا) ظالم ہیں ۔ (۹) پھر مشرکین سے اتحاد واتفاق دوستی دیکھتی رکھنے والے کو دھمکاتا ہے اور اس کا گناہ بتاتا ہے کہ ایسا کرنے والے ظالم گناہ گار ہیں اور جگہ فرمایا: وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے (۵:۵۱) یعنی یہودیوں نصرانیوں سے دوستی کرنے والا ہمارے نزدیک انہی جیسا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مؤمن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لودراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے سورہ فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہو چکا ہے، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کر دیں، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کر دیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے: حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابومیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مؤمنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کر دی گئی، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ - وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی - صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی - کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا : وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا۔ مثلاً یہ معلوم ہو جائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ، فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لیکن اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلو م ہو جائے کہ یہ با ایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہو جانا ممکن امر ہے۔ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کر دیا ورنہ اس سے پہلے مؤمنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمہ تھیں، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کر دو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کر لیا اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھیج بھی دیا، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابوالعاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کر دیا اور روایت میں ہے : دو سال کے بعد حضرت ابوالعاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے، وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا ۚ اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وہ انہیں ادا کردو پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کر دو جیسے کہ مہر ۔ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی حرج نہیں، عدت کا گزر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ اور کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا با ایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کر دو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا۔ وَاسْأَلُوا مَا أَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنْفَقُوا ۚ اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو وہ بھی مانگ لیں اور جو کچھ ان کافروں نے خرچ کیا ہو وہ بھی مانگ لیں پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آ جائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو۔ ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہو چکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کر دیا وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ اللہ تعالیٰ بڑے علم (اور) حکمت والا ہے۔ (۱۰) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے۔ وَإِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُمْ مِثْلَ مَا أَنْفَقُوا ۚ اور اگر تمہاری کوئی بیوی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور کافروں کے پاس چلی جائے پھر تم اس کے بدلے کا وقت مل جائے تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں انہیں ان کے اخراجات کے برابر ادا کر دو، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ اور اس اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ (۱۱) اس آیت کا مطلب حضرت فتادہ رحمتہ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں: جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں۔ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آ جائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا یہ مطلب مروی ہے : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں، پس فَعَاقَبْتُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کر دو، یعنی مہر مثل ، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ۔ خواتین کا طریقہ بیعت صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے: جو مسلمان عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کر کے آتی تھیں ان کا امتحان اسی آیت سے ہوتا تھا جو عورت ان تمام باتوں کا اقرار کر لیتی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم زبانی فرما دیتے کہ میں نے تم سے بیعت کی یہ نہیں کہ آپ ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوں اللہ کی قسم آپ نے کبھی بیعت کرتے ہوئے کسی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا صرف زبانی فرما دیتے کہ ان باتوں پر میں نے تیری بیعت لی، ترمذی نسائی ابن ماجہ مسند احمد میں ہے : حضرت امیہ بنت رفیقہ فرماتی ہیں کئی ایک عورتوں کے ساتھ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو قرآن کی اس آیت کے مطابق آپ نے ہم سے عہد و پیمان لیا اور ہم بھلی باتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں گی کے اقرار کے وقت فرمایا یہ بھی کہہ لو کہ جہاں تک تمہاری طاقت ہے، ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا خیال ہم سے بہت زیادہ ہے اور ان کی مہربانی بھی ہم پر خود ہماری مہربانی سے بڑھ چڑھ کر ہے پھر ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے؟ فرمایا نہیں میں غیر عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا میرا ایک عورت سے کہہ دینا سو عورتوں کی بیعت کے لئے کافی ہے بس بیعت ہو چکی، امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں، مسند احمد میں اتنی زیادتی اور بھی ہے : ہم میں سے کسی عورت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ نہیں کیا، یہ حضرت امیہ حضرت خدیجہ کی بہن اور حضرت فاطمہ کی خالہ ہوتی ہیں،
مسند احمد میں حضرت سلمیٰ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں اور دونوں قبلوں کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تھی جو بنو عدی بن نجار کے قبیلہ میں سے تھیں فرماتی ہیں: انصار کی عورتوں کے ساتھ خدمت نبوی میں بیعت کرنے کے لئے میں بھی آئی تھی اور اس آیت میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا ہم نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اس بات کا بھی اقرار کرو کہ اپنے خاوندوں کی خیانت اور ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرو گی ہم نے اس کا بھی اقرار کیا بیعت کی اور جانے لگیں پھر مجھے خیال آیا اور ایک عورت کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ دریافت کرلیں کہ خیانت و دھوکہ نہ کرنے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ آپ ؐنے فرمایا یہ کہ اس کا مال چپکے سے کسی اور کو نہ دو۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ بنت قدامہ فرماتی ہیں: میں اپنی والدہ رابطہ بنت سفیان نزاعیہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں پر بیعت لے رہے تھے اور عورتیں ان کا اقرار کرتی تھیں میری والدہ کے فرمان سے میں نے بھی اقرار کیا اور بیعت والیوں میں شامل ہوئی،
صحیح بخاری شریف میں حضرت ام عطیہ سے منقول ہے : ہم نے ان باتوں پر اور اس امر پر کہ ہم کسی مرے پر نوحہ نہ کریں گی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اسی اثناء میں ایک عورت نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں نوحہ کرنے سے باز رہنے پر بیعت نہیں کرتی اس لئے کہ فلاں عورت نے میرے فلاں مرے پر نوحہ کرنے میں میری مدد کی ہے تو میں اس کا بدلہ ضرور اتاروں گی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر خاموش ہو رہے اور کچھ نہ فرمایا وہ چلی گئیں لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آئیں اور بیعت کر لی، مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس شرط کو صرف اس عورت نے اور حضرت ام سلیم بنت ملحان نے ہی پورا کیا، بخاری کی اور روایت میں ہے کہ پانچ عورتوں نے اس عہد کو پورا کیا، ام سلیم ام علا، ابوسبرہ کی بیٹی جو حضرت معاذ کی بیوی تھیں اور دو اور عورتیں یا ابوسبرہ کی بیٹی اور حضرت معاذ کی بیوی اور ایک عورت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن بھی عورتوں سے اس بیعت کا معاہدہ لیا کرتے تھے، بخاری میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : رمضان کی عید کی نماز میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر عمر عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ پڑھی ہے سب کے سب خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے، پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے اترے گویا وہ نقشہ میری نگاہ کے سامنے ہے کہ لوگوں کو بٹھایا جاتا تھا اور آپ ان کے درمیان سے تشریف لا رہے تھے یہاں تک کہ عورتوں کے پاس آئے آپ کے ساتھ حضرت بلال تھے یہاں پہنچ کر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم اپنے اس اقرار پر ثابت قدم ہو ایک عورت نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کسی اور نے جواب نہیں دیا، راوی حدیث حضرت حسن کو یہ معلوم نہیں کہ یہ جواب دینے والی کونسی عورت تھیں، پھر آپ نے فرمایا اچھا خیرات کرو اور حضرت بلال نے اپنا کپڑا پھیلا دیا چنانچہ عورتوں نے اس پر بےنگینہ کی اور نگینہ دار انگوٹھیاں راہ اللہ ڈال دیں، مسند احمد کی روایت میں حضرت امیمہ کی بیعت کے ذکر میں آیت کے علاوہ اتنا اور بھی ہے کہ نوحہ کرنا اور جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنا بناؤ سنگھار غیر مردوں کو نہ دکھانا،
بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے بھی ایک مجلس میں فرمایا : مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرو جو اس آیت میں ہیں جو شخص اس بیعت کو نبھا دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو اس کے خلاف کر گزرے اور وہ مسلم حکومت سے پوشیدہ رہے اس کا حساب اللہ کے پاس ہے اگر چاہے بخش دے اور اگر چاہے عذاب کرے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: عقبہ اولیٰ میں ہم بارہ شخصوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور انہی باتوں پر جو اس آیت میں مذکور ہیں آپ نے ہم سے بیعت لی اور فرمایا اگر تم اس پر پورے اترے تو یقیناً تمہارے لئے جنت ہے، یہ واقعہ جہاد کی فرضیت سے پہلے کا ہے، يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، پس فرمان اللہ ہے کہ جو عورت ان امور پر بیعت کرنے کے لئے آئے تو اس سے بیعت لے لو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی غیر لوگوں کے مال نہ چرانا، ہاں اس عورت کو جس کا خاوند اپنی طاقت کے مطابق کھانے پینے پہننے اوڑھنے کو نہ دیتا ہو جائز ہے کہ اپنے خاند کے مال سے مطابق دستور اور بقدر اپنی حاجت کے لے گو خاوند کو اس کا علم نہ ہو اس کی دلیل حضرت ہندہ والی حدیث ہے : انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند ابوسفیان بخیل آدمی ہیں وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولادوں کو کافی ہو سکے تو کیا میں اگر ان کی بےخبری میں اور ان کے مال میں لے لوں تو مجھے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بہ طریق معروف اس کے مال سے اتنا لے لے جو تجھے اور تیرے بال بچوں کو کفایت کرے (بخاری و مسلم) وَلَا يَزْنِينَ اور زنا کاری نہ کریں، جیسے اور جگہ ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے (۱۷:۳۲) حضرت سمرہ والی حدیث میں زنا کی سزا اور درد ناک عذاب جہنم بیان کیا گیا ہے، مسند احمد میں ہے: حضرت فاطمہ بنت عقبہ جب بیعت کے لئے آئیں اور اس آیت کی تلاوت ان کے سامنے کی گئی تو انہوں نے شرم سے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ حیا اچھی معلوم ہوئی۔ حضرت عائشہ نے فرمایا انہی شرطوں پر ہم سب نے بیعت کی ہے یہ سن کر انہوں نے بھی بیعت کر لی، وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے طریقے اوپر بیان ہو چکے ہیں، اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم عام ہے، پیدا شدہ اولاد کو مار ڈالنا بھی اسی ممانعت میں ہے جیسے کہ جاہلیت کے زمانے والے اس خوف سے کرتے تھے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے پلائیں گے ، اور حمل کا گرا دینا بھی اسی ممانعت میں ہے خواہ اس طرح ہو کہ ایسے علاج کئے جائیں جس سے حمل ٹھہر ہی نہیں یا ٹھہرے ہوئے حمل کو کسی طرح گرا دیا جائے۔ بری غرض وغیرہ سے، وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں بہتان نہ باندھنے کا ایک مطلب تو حضرت ابن عباس نے یہ بیان فرمایا ہے کہ دوسرے کی اولاد کو اپنے خاوند کے سر چپکا دینا، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ ملاعنہ کی آیت کے نازل ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو عورت کسی قوم میں اسے داخل کرے جو اس قوم کا نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی گنتی شمار میں نہیں اور جو شخص اپنی اولاد سے انکار کر جائے حالانکہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اللہ تعالیٰ اس سے آڑ کر لے گا اور تمام اگلوں پچھلوں کے سامنے اسے رسوا و ذلیل کرے گا، وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ (۱۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں یعنی آپ کے احکام بجا لائیں اور آپ کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جایا کریں، یہ شرط یعنی مَعْرُوف ہونے کی عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے لگا دی ہے، حضرت میمون فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فقط مَعْرُوف میں رکھی ہے اور مَعْرُوف ہی اطاعت ہے، حضرت ابن زید فرماتے ہیں دیکھ لو کہ بہترین خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا حکم بھی مَعْرُوف میں ہی ہے، اس بیعت والے دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کا اقرار بھی لیا تھا جیسے حضرت ام عطیہ کی حدیث میں پہلے گزر چکا، حضرت فتادہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس بیعت میں یہ بھی تھا کہ عورتیں غیر محرموں سے بات چیت نہ کریں، اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم گھر پر موجود نہیں ہوتے اور مہمان آ جاتے ہیں آپ نے فرمایا میری مراد ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت سے نہیں میں ان سے کام کی بات کرنے سے نہیں روکتا (ابن جریر) ابن ابی حاتم میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیعت کے موقعہ پر عورتوں کو نامحرم مردوں سے باتیں کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا بعض لوگ وہ بھی ہوتے ہیں کہ پرائی عورتوں سے باتیں کرنے میں ہی مزہ لیا کرتے ہیں یہاں تک کہ مذی نکل جاتی ہے اوپر حدیث بیان ہو چکی ہے کہ نوحہ نہ کرنے کی شرط پر ایک عورت نے کہا فلاں قبیلے کی عورتوں نے میرا ساتھ دیا ہے تو ان کے نوحے میں میں بھی ان کا ساتھ دے کر بدلہ ضرور اتاروں گی چنانچہ وہ گئیں بدلہ اتارا پھر آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ حضرت ام سلیم جن کا نام ان عورتوں میں ہے جنہوں نے نوحہ نہ کرنے کی بیعت کو پورا کیا یہ ملحان کی بیٹی اور حضرت انس کی والدہ ہیں اور روایت میں ہے کہ جس عورت نے بدلے کے نوحے کی اجازت مانگی تھی خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی تھی یہی وہ مَعْرُوف ہے جس میں نافرمانی منع ہے، بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک کا بیان ہے : مَعْرُوف میں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے مطلب یہ ہے کہ مصیبت کے وقت منہ نہ نوچیں بال نہ منڈوائیں کپڑے نہ پھاڑیں ہائے وائے نہ کریں، ابن جریر میں حضرت ام عطیہ سے مروی ہے: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دن آپ نے حکم دیا کہ سب انصاریہ عورتیں فلاں گھر میں جمع ہوں پھر حضرت عمر بن خطاب کو وہاں بھیجا آپ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں ہم نے کہا رسول اللہ کو بھی مرحبا ہو اور آپ کے قاصد کو بھی، حضرت عمر نے فرمایا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں حکم کروں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرنے پر چوری اور زنا کاری سے بچنے پر بیعت کرو ہم نے کہا ہم سب حاضر ہیں اور اقرار کرتی ہیں چنانچہ آپ نے وہیں باہر کھڑے کھڑے اپنا ہاتھ اندر کی طرف بڑھا دیا اور ہم نے اپنے ہاتھ اندر سے باہر اندر ہی اندر بڑھائے، پھر آپ نے فرمایا اے اللہ گواہ رہے۔ پھر حکم ہوا کہ - دونوں عیدوں میں ہم اپنی حائضہ عورتوں اور جوان کنواری لڑکیوں کو لے جایا کریں، - ہم پر جمعہ فرض نہیں ، - ہمیں جنازوں کے ساتھ نہ جانا چاہئے۔ حضرت اسماعیل راوی حدیث فرماتے ہیں میں نے اپنی دادی صاحبہ ام عطیہ سے پوچھا کہ عورتیں مَعْرُوف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا یہ کہ نوحہ نہ کریں، بخاری و مسلم میں ہے: جو کوئی مصیبت کے وقت اپنے کلوں پر تھپڑ مارے دامن چاک کرے اور جاہلیت کے وقت کی ہائی وہائی مچائے وہ ہم میں سے نہیں اور روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہائے وائے کرے بال نوچے یا منڈوائے اور کپڑے پھاڑے یا دامن چیرے۔ ابو یعلی میں ہے : میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جنہیں وہ نہ چھوڑیں گے - حسب نسب پر فخر کرنا - انسان کو اس کے نسب کا طعنہ دینا - ستاروں سے بارش طلب کرنا اور - میت پر نوحہ کرنا اور فرمایا نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کئے مر جائے تو اسے قیامت کے دن گندھک کا پیراہن پہنایا جائے گا اور کھجلی کی چادر اڑھائی جائے گی۔ مسلم شریف میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والیوں پر اور نوحے کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے : مَعْرُوف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ مَعْرُوف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ نہ کرنا ہے، یہ حدیث ترمذی کی کتاب التفسیر میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ اے مسلمانو! تم اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اس سورت کی ابتداء میں جو حکم تھا وہی انتہا میں بیان ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار سے جن پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اتر چکی ہے اور اللہ کی رحمت اور اس کی شفقت سے دور ہو چکے ہیں تم ان سے دوستانہ اور میل ملاپ نہ رکھو، قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ جو آخرت سے اس طرح مایوس ہو چکے ہیں جیسے کہ مردہ اہل قبر سے کافر نا امید ہیں ۔ (۱۳) جو آخرت سے اس طرح مایوس ہو چکے ہیں جیسے کہ مردہ اہل قبر سے کافر نا امید ہیں ۔ وہ آخرت کے ثواب سے اور وہاں کی نعمتوں سے ایسے نا امید ہو چکے ہیں جیسے قبروں والے کافر، اس جملے کے دو معنی کے گئے ہیں - ایک تو یہ کہ جیسے زندہ کافر اپنے مردہ کافروں کے دوبارہ زندہ ہونے سے مایوس ہو چکے ہیں، - دوسرے یہ کہ جس طرح مردہ کافر ہر بھلائی سے نا امید ہو چکے ہیں وہ مر کر آخرت کے احوال دیکھ چکے اور اب انہیں کسی قسم کی بھلائی کی توقع نہیں رہی، |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |