Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Hashr

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ

آسمان اور زمین کی ہرچیز اللہ تعالیٰ  کی پاکی بیان کرتی ہے،

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح تقدیس تمجید تکبیر توحید میں مشغول ہے،

جیسے اور جگہ فرمان ہے:

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ  وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ (۱۷:۴۴)

ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔

وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ  (۱)

اور وہ غالب با حکمت ہے۔‏

وہ غلبہ والا اور بلند جناب والا اور عالی سرکار والا ہے اور اپنے تمام احکام و فرمان میں حکمت والا ہے۔

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ

وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا

جس نے اہل کتاب کے کافروں یعنی قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکالا،

بنو نضیر کا تفصیلی واقعہ

 اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے صلح کر لی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں نہ یہ آپ سے لڑیں، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ  نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور آپ نے انہیں یہاں سے نکال دیا،

مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا ۖ

تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے

مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا،

وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ

اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قلعے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے

خود یہ یہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا،

فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ

پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا

لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی یہ سب چیزیں یونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آ گئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا، بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ، اس لئے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ اٹھالیں، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں،

اس واقعہ کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ اللہ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کا انجام دیکھو اور اس سے عبرت حاصل کرو کہ کس طرح ان پر عذاب الٰہی اچانک آ پڑا اور دنیا میں بھی تباہ و برباد کئے گئے اور آخرت میں بھی ذلیل و رسوا ہوگئے اور درد ناک عذاب میں جا پڑا۔

 ابو داؤد میں ہے :

 ابن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو جو قبیلہ اوس و خزرج میں سے تھے کفار قریش نے خط لکھا یہ خط انہیں حضور علیہ السلام کے میدان بدر سے واپس لوٹنے سے پہلے مل گیا تھا اس میں تحریر تھا کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں ٹھہرایا ہے پس یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال کر باہر کرو یا ہم تمہیں نکال دیں گے اور اپنے تمام لشکروں کو لے کر تم پر حملہ کریں گے اور تمہارے تمام لڑنے والوں کو ہم تہ تیغ کر دیں گے اور تمہاری عورتوں لڑکیوں کو لونڈیاں بنا لیں گے اللہ کی قسم یہ ہو کر ہی رہے گا اب تم سوچ سمجھ لو،

عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں نے اس خط کو پا کر آپس میں مشورہ کیا اور خفیہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کی تجویز بالاتفاق منظور کر لی،

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو آپ خود ان کے پاس گئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریشیوں کا خط کام کر گیا اور تم لوگ اپنی موت کے سامان اپنے ہاتھوں کرنے لگے ہو تم اپنی اولادوں اور اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا چاہتے ہو میں تمہیں پھر ایک مرتبہ موقعہ دیتا ہوں کہ سوچ سمجھ لو اور اپنے اس بد ارادے سے باز آؤ،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے ان پر اثر کیا اور وہ لوگ اپنی اپنی جگہ چلے گئے لیکن قریش نے بدر سے فارغ ہو کر انہیں پھر ایک خط لکھا اور اسی طرح دھمکایا انہیں ان کی قوت ان کی تعداد اور ان کے مضبوط قلعے یاد دلائے مگر یہ پھر اکڑ میں آ گئے اور بنو نضیر نے صاف طور پر بد عہدی پر کمر باندھ لی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ تیس آدمی لے کر آیئے ہم میں سے بھی تیس ذی علم آدمی آتے ہیں، ہمارے تمہارے درمیان کی جگہ پر یہ ساٹھ آدمی ملیں اور آپس میں بات چیت ہو اگر یہ لوگ آپ کو سچا مان لیں اور ایمان لے آئیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

 اس بد عہدی کی وجہ سے دوسرے دن صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لشکر لے جا کر ان کا محاصرہ کر لیا اور ان سے فرمایا کہ اب اگر تم نئے سرے سے امن و امان کا عہد و پیمان کرو تو خیر ورنہ تمہیں امن نہیں

انہوں نے صاف انکار کر دیا اور لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے، چنانچہ دن بھر لڑائی ہوتی رہی، دوسری صبح کو آپ بنو قریظہ کی طرف لشکر لے کر بڑھے اور بنو نضیر کو یونہی چھوڑا ان سے بھی یہی فرمایا کہ تم نئے سرے سے عہد و پیمان کرو انہوں نے منظور کر لیا اور معاہدہ ہو گیا،

آپ وہاں سے فارغ ہو کر پھر بنو نضیر کے پاس آئے لڑائی شروع ہوئی، آخر یہ ہارے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تم مدینہ خالی کر دو جو اسباب لے جانا چاہو اونٹوں پر لاد کر لے جاؤ

چنانچہ انہوں نے گھر بار کا اسباب یہاں تک کہ دروازے اور لکڑیاں بھی اونٹوں پر لادیں اور جلا وطن ہوگئے،

ان کے کھجوروں کے درخت خاصتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے اللہ تعالیٰ نے یہ آپ کو ہی دلوا دیئے، جیسےاس آیت میں ہے،

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ  وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ۚ (۵۹:۶)

اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ  نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ  اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے

لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر حصہ مہاجرین کو دے دیا وہاں انصاریوں میں سے صرف دو ہی حاجت مندوں کو حصہ دیا باقی سب مہاجرین میں تقسیم کر دیا۔

 تقسیم کے بعد جو باقی رہ گیا تھا یہی وہ مال تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا اور جو بنو فاطمہ کے ہاتھ لگا۔

غزوہ بنو نضیر کا مختصر قصہ اور سبب

مشرکوں نے دھوکہ بازی سے صحابہ کرام کو بیئر معونہ میں شہید کر دیا ان کی تعداد ستر تھی ان میں سے ایک حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ  عنہ بچ کر بھاگ نکلے مدینہ شریف کی طرف آئے آتے آتے موقعہ پا کر انہوں نے قبیلہ بنو عامر کے دو شخصوں کو قتل کر دیا حالانکہ یہ قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر چکا تھا اور آپ نے انہیں امن و امان دے رکھا تھا لیکن اس کی خبر حضرت عمر و کو نہ تھی،

 جب یہ مدینے پہنچے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں قتل کر ڈالا اب مھے ان کے وارثوں کو دیت یعنی جرمانہ قتل ادا کرنا پڑے گا،

 بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے تاکہ کچھ یہ دیں کچھ آپ دیں اور بنو عامر کو راضی کر لیا جائے۔

قبیلہ بنو نضیر کی گڑھی مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھی جب آپ یہاں پہنچے تو انہوں نے کہاں ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم موجود ہیں ابھی ابھی جمع کر کے اپنے حصے کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں

 ادھر آپ سے ہٹ کر یہ لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس سے بہتر موقعہ کب ہاتھ لگے گا۔ اس وقت آپ قبضے میں ہیں آؤ کام تمام کر ڈالو، چنانچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دب جائیں،

عمرو بن مجاش بن کعب اس کام پر مقرر ہوا اس نے آپ کی جان لینے کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے اتنے میں اللہ تعالیٰ  نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں چنانچہ آپ فوراً ہٹ گئے اور یہ بدباطن اپنے برے ارادے میں ناکام رہے۔

 آپ کے ساتھ اس وقت چند صحابہ تھے مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ،آپ یہاں سے فوراً مدینہ شریف کی طرف چل پڑے، ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہ تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے انہیں دیر لگنے کے باعث خیال ہوا اور وہ آپ کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے لیکن ایک شخص سے معلوم ہوا کہ آپ مدینہ شریف پہنچ گئے ہیں چنانچہ یہ لوگ وہیں آئے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا واقعہ ہے؟

 آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا اور حکم دیا کہ جہاد کی تیاری کرو

مجاہدین نے کمریں باندھ لیں اور اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔

یہودیوں نے لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعہ کے پھاٹک بند کر دیئے اور پناہ گزین ہوگئے آپ نے محاصرہ کر لیا پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں وہ کاٹ دیئے جائیں اور جلا دیئے جائیں،

 اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

آپ تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے پھر یہ کیا ہونے لگا؟

پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم، ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی۔

 کمک کا واقعہ یہ ہے کہ بنو عوف بن خزرج کا قبیلہ جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور ودیعہ بن مالک، ابن ابوقوقل اور سوید اور داعس وغیرہ تھے ان لوگوں نے بنو نضیر کو کہلوا بھیجا تھا کہ تم مقابلے پر جمے رہو اور قلعہ خالی نہ کرو ہم تمہاری مدد پر ہیں تمہارا دشمن ہمارا دشمن ہے ہم تمہارے ساتھ مل کر اس سے لڑیں گے اور اگر تم نکلے تو ہم بھی نکلیں گے، لیکن اب تک ان کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور انہوں نے یہودیوں کی کوئی مدد نہ کی،

 ادھر ان کے دل مرعوب ہوگئے تو انہوں نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جان بخشی کیجئے ہم مدینہ چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہم اپنا جو مال اونٹوں پر لاد کر لے جاسکیں وہ ہمیں دے دیا جائے

 آپ نے ان پر رحم کھا کر ان کی یہ درخواست منظور فرمالی اور یہ لوگ یہاں سے چلے گئے جاتے وقت اپنے دروازں تک کو اکھیڑ کر لے گئے گھروں کو گرا گئے اور شام اور خیبر میں جا کر آباد ہوگئے،

ان کے باقی کےمال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے کہ آپ جس طرح چاہیں انہیں خرچ کریں چنانچہ آپ نے مہاجرین اولین کو یہ مال تقسیم کر دیا، ہاں انصار میں سے صرف دو شخصوں کو یعنی سہل بن حنیف اور ابو دجانہ سماک بن خرشہ کو دیا اس لئے کہ یہ دونوں حضرات مساکین تھے،

سورہ حشر اسی واقعہ بنو نضیر کے بارے میں اتری ہے،

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جسے اس میں شک ہو کہ محشر کی زمین شام کا ملک ہے وہ اس آیت کو پڑھ لے،

 ان یہودیوں سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ تو انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں؟

آپ نے فرمایا محشر کی زمین کی طرف،

حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو جلا وطن کیا تو فرمایا یہ اول حشر ہے اور ہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں (ابن جریر)

 بنو نضیر کے ان قلعوں کا محاصرہ صرف چھ روز رہا تھا، محاصرین کو قلعہ کی مضبوطی یہودیوں کی زیادتی یکجہتی منافقین کی سازشیں اور خفیہ چالیں وغیرہ دیکھ کر ہرگز یہ یقین نہ تھا کہ اس قدر جلد یہ قلعہ خالی کر دیں گے ادھر خود یہود بھی اپنے قلعہ کی مضبوطی پر نازاں تھے اور جانتے تھے کہ وہ ہر طرح محفوظ ہیں، لیکن امر اللہ ایسی جگہ سے آ گیا جو ان کے خیال میں بھی نہ تھی، یہی دستور اللہ کا ہے کہ مکار اپنی مکاری میں ہی رہتے ہیں اور بےخبر ان پر عذاب الٰہی آ جاتا ہے،

وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ

اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا

ان کے دلوں میں رعب چھا گیا بھلا رعب کیوں نہ چھاتا محاصرہ کرنے والے وہ تھے جنہیں اللہ کی طرف سے رعب دیا گیا تھا کہ دشمن مہینہ بھر کی راہ پر ہو اور وہیں اس کا دل دہلنے لگا تھا صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔

يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ

اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے)

یہودی اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے چھتوں کی لکڑی اور دروازے لے جانے کے لئے توڑنے پھوڑنے شروع کر دیئے

مقاتل فرماتے ہیں:

 مسلمانوں نے بھی ان کے گھر توڑے اس طرح کہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان کے جو جو مکانات وغیرہ قبضے میں آتے گئے میدان کشادہ کرنے کے لئے انہیں ڈھاتے گئے، اسی طرح خود یہود بھی اپنے مکانوں کو آگے سے تو محفوظ کرتے جاتے تھے اور پیچھے سے نقب لگا کر نکلنے کے راستے بناتے جاتے تھے،

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ   (۲)

پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔

پھر فرماتا ہے، اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔

وَلَوْلَا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ۖ

اور اگر اللہ تعالیٰ  نے ان پر جلا وطنی کو مقدر نہ کر دیا ہوتا تو یقیناً دنیا میں ہی عذاب دیتا

اگر ان یہودیوں کے مقدر میں جلا وطنی نہ ہوتی تو انہیں اس سے بھی سخت عذاب دیا جاتا، یہ قتل ہوتے اور قید کر لئے جاتے وغیرہ وغیرہ، پھر آخرت کے بدترین عذاب بھی ان کے لئے تیار ہیں۔

بنو نضیر کی یہ لڑائی جنگ بدر کے چھ ماہ بعد ہوئی، مال جو اونٹوں پر لد جائیں انہیں لے جانے کی اجازت تھی مگر ہتھیار لے جانے کی اجازت نہ تھی، یہ اس قبیلے کے لوگ تھے جنہیں اس سے پہلے کبھی جلا وطنی ہوئی ہی نہ تھی

 بقول حضرت عروہ بن زبیر شروع سورت سے وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ تک آیتیں اسی واقعہ کے بیان میں نازل ہوئی ہیں۔

جلاء کے معنی قتل و فنا کے بھی کئے گئے ہیں،

جلاء

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلا وطنی کے وقت تین تین میں ایک ایک اونٹ اور ایک ایک مشک دی تھی، اس فیصلہ کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ  کو ان کے پاس بھیجا تھا اور انہیں اجازت دی تھی کہ تین دن میں اپنا سامان ٹھیک کر کے چلے جائیں،

وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ   (۳)

اور آخرت میں (تو) ان کے لئے آگ کا عذاب ہے ہی۔‏

اس دنیوی عذاب کے ساتھ ہی اخروی عذاب کا بھی بیان ہو رہا ہے کہ وہاں بھی ان کے لئے حتمی اور لازمی طور پر جہنم کی آگ ہے۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۖ وَمَنْ يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ   (۴)

یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ  کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا

تو اللہ تعالیٰ  بھی سخت عذاب کرنے والا ہے۔

ان کی اس درگت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ  کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کیا اور ایک اعتبار سے تمام نبیوں کو جھٹلایا اس لئے کہ ہر نبی نے آپ کی بابت پیش گوئی کی تھی، یہ لوگ آپ کو پوری طرح جانتے تھے بلکہ اولاد کو ان کا باپ جس قدر پہچانتا ہے اس سے بھی زیادہ یہ لوگ نبی آخری الزماں کو جانتے تھے لیکن تاہم سرکشی اور حسد کی وجہ سے مانے نہیں، بلکہ مقابلے پر تل گئے اور یہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ  بھی اپنے مخالفوں پر سخت عذاب نازل فرماتا ہے۔

مَا قَطَعْتُم ْمِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ   (۵)

تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیایہ سب اللہ تعالیٰ  کے فرمان سے تھا

اور اس لئے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ  رسوا کرے ۔‏

لِينَةٍ کہتے ہیں اچھی کھجوروں کے درختوں کو

عجوہ اور برفی جو کھجور کی قسمیں ہیں بقول بعض وہ لِينَةٍ میں داخل نہیں

اور بعض کہتے ہیں صرف عجوہ نہیں اور بعض کہتے ہیں ہر قسم کی کھجوریں اس میں داخل ہیں جن میں بویرہ بھی داخل ہے،

یہودیوں نے جو بطور طعنہ کے کہا تھا کہ کھجوروں کے درخت کٹوا کر اپنے قول کے خلاف فعل کر کے زمین میں فساد کیوں پھیلاتے ہیں؟

یہ اس کا جواب ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکم رب سے اور اجازت اللہ سے دشمنان اللہ کو ذلیل و ناکام کرنے اور انہیں پست و بدنصیب کرنے کے لئے ہو رہا ہے جو درخت باقی رکھے جائیں وہ اجازت سے اور جو کاٹے جاتے ہیں وہ بھی مصلحت کے ساتھ،

 یہ بھی مروی ہے کہ بعض مہاجرین نے بعض کو ان درختوں کے کاٹنے سے منع کیا تھا کہ آخر کار تو یہ مسلمانوں کو بطور مال غنیمت ملنے والے ہیں پھر انہیں کیوں کاٹا جائے؟

جس پر یہ آیت اتری کہ روکنے والے بھی حق بجانب ہیں اور کاٹنے والے بھی برحق ہیں ان کی نیت مسلمانوں کے نفع کی ہے اور ان کی نیت کافروں کو غیظ و غضب میں لانے اور انہیں ان کی شرارت کا مزہ چکھانے کی ہے، اور یہ بھی ارادہ ہے کہ اس سے جل کر وہ غصے میں پھر کر میدان میں آئیں تو پھر دو دو ہاتھ ہو جائیں اور اعداء دین کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے، صحابہ نے یہ فعل کر تو لیا پھر ڈرے کہ ایسا نہ ہو کاٹنے میں یا باقی چھوڑنے میں اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ ہو تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور یہ آیت نازل ہوئی۔

یعنی دونوں باتوں پر اجر ہے کاٹنے پر بھی اور چھوڑنے پر بھی،

بعض روایتوں میں ہے کٹوائے بھی تھے اور جلوائے بھی تھے۔

بنو قریظہ کے یہودیوں پر اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کیا اور ان کو مدینہ شریف میں ہی رہنے دیا لیکن بالآخر جب یہ بھی مقابلے پر آئے اور منہ کی کھائی تو ان کے لڑنے والے مرد تو قتل کئے گئے اور عورتیں ، بچے اور مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے گئے ہاں جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ایمان لائے وہ بچ رہے، پھر مدینہ سے تمام یہودیوں کو نکال دیا بنو قینقاع کو بھی جن میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ  عنہ تھے اور بنو حارثہ کو بھی اور کل یہودیوں کو جلا وطن کیا۔

ان تمام واقعات کو عرب شاعروں نے اپنے اشعار میں بھی نہایت خوبی سے ادا کیا ہے، جو سیرۃ ابن اسحاق میں مروی ہیں

یہ واقعہ بقول ابن اسحاق کے احد اور بیر معونہ کے بعد کا ہے اور بقول عروہ بدر کے چھ مہینے بعد کا ہے واللہ اعلم۔

مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم

فے اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گزر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ انکے دل اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آ گئے، اسے فے کہتے ہیں اور یہ مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گیا، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں، پس آپ نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی آیت اور دوسری روایت میں ہے۔ پس فرماتا ہے کہ

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ۚ

اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ  نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ

بلکہ اللہ تعالیٰ  اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے

بنو نضیر کا جو مال بطور فے کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر غلبہ دے دیا تھا

وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ   (۶)

اور اللہ تعالیٰ  ہرچیز پر قادر ہے۔‏

اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی، سب اس کے تابع فرمان۔

مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ

بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ  تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائےوہ اللہ کا ہے اور رسول کا

 اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے

پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے جن کا بیان اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ہے، یہ ہے فے کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

 بنو نضیر کے مال بطور فے کے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے تھے آپ اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے (سنن و مسند)

ابوداؤد میں حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ سے مروی ہے:

 امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ  عنہ نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں، مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کردو

میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے

آپ نے فرمایا نہیں تم ہی کرو

 میں نے کہا بہت بہتر،

 اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہااے امیر المومنین حضرت عثمان حضرت عبدالرحمٰن حضرت زبیر اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ  عنہم تشریف لائے ہیں

آپ نےفرمایا آنے دو

یرفا پھر آیا اور کہاامیر المومنین حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ  عنہم اجازت طلب کر رہے ہیں

آپ نے فرمایا اجازت ہے یہ دونوں بھی تشریف لائے

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ نے کہا اے امیر المومنین میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کا ، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا ہاں امیر المومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچایئے،

حضرت مالکؓ فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چارں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے،

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھہرو، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ان چاروں نے اس کا اقرار کیا،

پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا،

پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لئے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ پڑھی اور فرمایا:

 بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور فے کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اور اپنی اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کر دیتے تھے

پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟

 انہوں نے کہا ہاں،

پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی۔

پھر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اے عباسؓ تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی حضرت علیؓ اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے،

ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔

 اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکؓر یقیناً راست گو، نیک کار، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے، چنانچہ اس مال کی ولایت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی، آپ کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں،

تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کر سکتا، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کر سکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں آپ اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا۔

مسند احمد میں ہے:

 لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ کے قبضہ میں آئے تو اب آپ نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے، حضرت انسؓ کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کر دیں حضرت انسؓ نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا آپ نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا،

 لیکن یہ سب حضرت ام ایمنؓ کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تجھے یہ نہیں دیں گے آپ تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں، آپ نے فرمایا اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں، آپ نے فرمایا لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب آپ راضی ہو کر خاموش ہوگئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا،

یہ فے کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہو گا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورہ انفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر الحمد اللہ گزر چکی ہے اس لئے ہم یہاں بیان نہیں کرتے۔

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ

تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لئے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ نہ بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے۔

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ

اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ

اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہے :

 ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے (یعنی چمڑے پر یا ہاتھوں پر عورتیں سوئی وغیرہ سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیرہ بنا لیتی ہیں) اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے (جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں) منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں؟

آپ نے فرمایا کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں

اس عورت نے کہا اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا

آپ نے فرمایا کیا تم نے آیت وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ نہیں پڑھی؟

 اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے۔

 فرمایا خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے

اس عورت نے کہا حضرت یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں

آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو،

وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں حضرت معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی،

آپ نے فرمایا کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے حضرت شعیب علیہ السلام نے کیا فرمایا تھا

وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ   (۱۱:۸۸)

میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں،

 مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لئے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے،

یہ سن کر بنواسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے؟

آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو قرآن میں موجود ہے،

 اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا،

 آپ نے فرمایا اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ نہیں پڑھی؟

 اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے

پھر آپ نے وہ حدیث سنائی،

 اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی

 اس وقت آپ نے فرمایا اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا،

 بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ،

وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ

اللہ تعالیٰ  سے ڈرتے رہا کرو،

پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو،

إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ   (۷)

یقیناً اللہ تعالیٰ  سخت عذاب والا ہے۔‏

یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے۔

مہاجرین اور انصار کے فضائل

اوپر بیان ہوا تھا کہ فے کا مال یعنی کافروں کا جو مال مسلمانوں کے قبضے میں میدان جنگ میں لڑے بھڑے بغیر آ گیا ہو اس کے مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پھر آپ یہ مال کسے دیں گے؟

 اس کا بیان ہو رہا ہے کہ

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ

(فے کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں

اس کے حق دار وہ غریب مہاجر ہیں جنہوں نے اللہ کو رضامند کرنے کے لئے اپنی قوم کو ناراض کر لیا یہاں تک کہ انہیں اپنا وطن عزیز اور اپنے ہاتھ کا مشکلوں سے جمع کیا ہوا مال وغیرہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دینا پڑا،

يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ

وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ  کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں

اللہ کے دین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد میں برابر مشغول ہیں، اللہ کے فضل و خوشنودی کے متلاشی ہیں،

أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ   (۸)

یہی راست باز لوگ ہیں ۔‏

یہی سچے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا فعل اپنے قول کے مطابق کر دکھایا، یہ اوصاف سادات مہاجرین میں تھے رضی اللہ عنہم۔

پھر انصار کی مدح بیان ہو رہی ہے اور ان کی فضیلت شرافت کرم اور بزرگی کا اظہار ہو رہا ہے، ان کی کشادہ دلی، نیک نفسی، ایثار اور سخاوت کا ذکر ہو رہا ہے کہ

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ

اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی

اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں

انہوں نے مہاجرین سے پہلے ہی دارالہجرت مدینہ میں اپنی بود و باش رکھی اور ایمان پر قیام رکھا، مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان لا چکے تھے بلکہ بہت سے مہاجرین سے بھی پہلے یہ ایمان دار بن گئے تھے۔

 صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر یہ روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

 میں اپنے بعد کے خلیفہ کو وصیت کرتہوں ا کہ مہاجرین اولین کے حق ادا کرتا رہے، ان کی خاطر مدارت میں کمی نہ کرے

 اور میری وصیت ہے کہ انصار کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کرے جنہوں نے مدینہ میں جگہ بنائی اور ایمان میں جگہ حاصل کی، ان کے بھلے لوگوں کی بھلائیاں قبول کرے اور ان کی خطاؤں سے درگزر اور چشم پوشی کر لے۔

ان کی شرافت طبعی ملاحظہ ہو کر جو بھی راہ اللہ میں ہجرت کر کے آئے یہ اپنے دل میں اسے گھر دیتے ہیں اور اپنا جان و مال ان پر سے نثار کرنا اپنا فخر جانتے ہیں،

مسند احمد میں ہے :

 مہاجرین نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ ہم نے تو دنیا میں ان انصار جیسے لوگ نہیں دیکھے تھوڑے میں سے تھوڑا اور بہت میں سے بہت برابر ہمیں دے رہے ہیں، مدتوں سے ہمارا کل خرچ اٹھا رہے ہیں بلکہ ناز برداریاں کر رہے ہیں اور کبھی چہرے پر شکن بھی نہیں بلکہ خدمت کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، دیتے ہیں اور احسان نہیں رکھتے کام کاج خود کریں اور کمائی ہمیں دیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا سارا کا سارا اجر انہی کو نہ مل جائے۔ آپ نے فرمایا :

نہیں نہیں جب تک تم ان کی ثناء اور تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لئے دعائیں مانگتے رہو گے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں کو بلا کر فرمایا :

 میں بحرین کا علاقہ تمہارے نام لکھ دیتا ہوں،

انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم اسے نہ لیں گے

آپ نے فرمایا اچھا اگر نہیں لیتے تو دیکھو آئندہ بھی صبر کرتے رہنا میرے بعد ایسا وقت بھی آئے گا کہ اوروں کو دیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا،

صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے:

 انصاریوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کھجوروں کے باغات ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر دیجئے

آپ نے فرمایا نہیں،

پھر فرمایا سنو کام کاج بھی تم ہی کرو اور ہم سب کو تو پیداوار میں شریک رکھو،

انصار نے جواب دیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ بھی بخوشی منظور ہے۔

وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا

اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے

اللہ فرماتا ہے یہ اپنے دلوں میں کوئی حسد ان مہاجرین کی قدر و منزلت اور ذکر و مرتبت پر نہیں کرتے، جو انہیں مل جائے انہیں اس پر رشک نہیں ہوتا،

اسی مطلب پر اس حدیث کی دلالت بھی ہے جو مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے :

 ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے، تھوڑی دیر میں ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لئے ہوئے تازہ وضو کر کے آ رہے تھے داڑھی پر سے پانی ٹپک رہا تھا

 دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہی فرمایا اور وہی شخص اسی طرح آئے

تیسرے دن بھی یہی ہوا

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص آج دیکھتے بھالتے رہے اور جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو یہ بھی ان کے پیچھے ہو لئے اور انصاری سے کہنے لگے حضرت مجھ میں اور میرے والد میں کچھ تکرار ہو گئی ہے جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ہاں گزار دوں

 انہوں نے کہا بہت اچھا

چنانچہ حضرت عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین راتیں ان کے گھر ان کے ساتھ گزاریں دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کر لیتے ہیں یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لئے اٹھیں ہاں یہ ضروری بات تھی کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا،

 جب تین راتیں گزر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا اب میں نے ان سے کہا کہ حضرت دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کونسی عبادتیں کرتے ہیں جو جیتے جی بہ زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جنتی ہونے کی یقینی خبر ہم تک پہنچ گئی چنانچہ میں نے یہ بہانہ کیا اور تین رات تک آپ کی خدمت میں رہا تاکہ آپ کے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی عمل شروع کر دوں لیکن میں نے تو آپ کو نہ تو کوئی نیا اور اہم عمل کرتے ہوئے دیکھا نہ عبادت میں ہی اوروں سے زیادہ بڑھا ہوا دیکھا اب جا رہا ہوں لیکن زبانی ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتایئے آخر وہ کونسا عمل ہے جس نے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنتی بنایا؟

آپ نے فرمایا بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں

چنانچہ میں ان سے رخصت ہو کر چلا تھوڑی ہی دور نکلا تھا جو انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا ہاں میرا ایک عمل سنتے جاؤ وہ یہ کہ

میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی، حسد اور بغض کا ارادہ بھی نہیں ہوا میں کبھی کسی مسلمان کا بد خواہ نہیں بنا،

حضرت عبداللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بس اب معلوم ہو گیا اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں۔

امام نسائی بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں اس حدیث کو لائے ہیں،

 غرض یہ ہے کہ ان انصار میں یہ وصف تھا کہ مہاجرین کو اگر کوئی مال وغیرہ دیا جائے اور انہیں نہ ملے تو یہ برا نہیں مانتے تھے،

بنو نضیر کے مال جب مہاجرین ہی میں تقسیم ہوئے تو کسی انصاری نے اس میں کلام کیا جس پر آیت وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ اتری، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 تمہارے مہاجر بھائی مال و اولاد چھوڑ کر تمہاری طرف آتے ہیں

انصار نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا مال ان میں اور ہم میں برابر بانٹ دیجئے

آپ نے فرمایا اس سے بھی زیادہ ایثار کر سکتے ہو؟

 انہوں نے کہا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہو

آپ نے فرمایا مہاجر کھیت اور باغات کا کام نہیں جانتے تم آپ اپنے مال کو قبضہ میں رکھو خود کام کرو خود باغات میں محنت کرو اور پیداوار میں انہیں شریک کر دو

 انصار نے اسے بھی بہ کشادہ پیشانی منظور کر لیا۔

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ

بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو

اللہ فرماتا ہے کہ خود کو حاجت ہونے کے باوجود بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی حاجت کو مقدم رکھتے ہیں اپنی ضرورت خواہ باقی رہ جائے۔ لیکن دوسرے مسلمان کی ضرورت جلد پوری ہو جائے یہ ان کی ہر وقت کی خواہش ہے ،

 ایک صحیح حدیث میں بھی ہے :

 جس کے پاس کمی اور قلت ہو خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی صدقہ کرے اس کا صدقہ افضل اور بہتر ہے۔

یہ درجہ ان لوگوں کے درجہ سے بھی بڑھا ہوا ہے جن کا ذکر اور جگہ ہے کہ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ خرچ کرتے ہیں لیکن یہ لوگ تو خود اپنی حاجت ہوتے ہوئے صرف کرتے ہیں، محبت ہوتی ہے اور حاجت نہیں ہوتی اس وقت کا خرچ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا کہ خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی راہ اللہ دے دینا

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صدقہ اسی قسم سے ہے کہ آپ نے اپنا کل مال لا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر لگا دیا

 آپ ؐنے پوچھا بھی ابوبکر کچھ باقی بھی رکھ آئے ہو؟

 جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی رکھ آیا ہوں،

اسی طرح وہ واقعہ ہے جو جنگ یرموک میں حضرت عکرمہؓ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا تھا:

میدان جہاد میں زخم خوردہ پڑے ہوئے ہیں ریت اور مٹی زخموں میں بھر رہی ہے کہ کراہ رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، سخت تیز دھوپ پڑ رہی ہے، پیاس کے مارے حلق چیخ رہا ہے، اتنے میں ایک مسلمان کندھے پر مشک لٹکائے آ جاتا ہے اور ان مجروح مجاہدین کے سامنے پیش کرتا ہے۔

 لیکن ایک کہتا ہے اس دوسرے کو پلاؤ دوسرا کہتا ہے اس تیسرے کو پہلے پلاؤ وہ ابھی تیسرے تک پہنچا بھی نہیں کہ ایک شہید ہو جاتا ہے، دوسرے کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی پیاسا ہی چل بسا، تیسرے کے پاس آتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ وہ بھی سوکھے ہونٹوں ہی اللہ سے جا ملا۔

 اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے خوش ہو اور انہیں بھی اپنی ذات سے خوش رکھے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے :

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سخت حاجت مند ہوں مجھے کچھ کھلوایئے

آپ نے اپنے گھروں میں آدمی بھیجا لیکن تمام گھروں سے جواب ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس خود کچھ نہیں یہ معلوم کر کے پھر آپ نے اور لوگوں سے کہا کہ کوئی ہے جو آج کی رات انہیں اپنا مہمان رکھے؟

 ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں انہیں اپنا مہمان رکھوں گا چنانچہ یہ لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا دیکھو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں آج گو ہمیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملے لیکن یہ بھوکے نہ رہیں

بیوی صاحبہ نے کہا آج گھر میں بھی برکت ہے بچوں کے لئے البتہ کچھ ٹکڑے رکھے ہوئے ہیں

 انصاری نے فرمایا اچھا بچوں کو تو بھلا پھسلا کر بھوکا سلا دو اور ہم تم دونوں اپنے پیٹ پر کپڑا باندھ کر فاقے سے رات گزار دیں گے، کھاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم کھا رہے ہیں اور دراصل ہم کھائیں گے نہیں۔

چنانچہ ایسا ہی کیا

صبح جب یہ شخص انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا :

 اس شخص کے اور اس کی بیوی کے رات کے عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور ہنس دیا

 انہی کے بارے میں وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ نازل ہوئی،

صحیح مسلم کی روایت ہے میں ان انصاری کا نام ہے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  (۹)

(بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے ‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اپنے نفس کی بخیلی حرص اور لالچ سے بچ گیا اس نے نجات پا لی۔

 مسند احمد اور مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

- لوگو ظلم سے بچو! قیامت کے دن یہ ظلم اندھیرا بن جائے گا

- لوگو بخیلی اور حرص سے بچو یہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں کو برباد کر دیا اسی کی وجہ سے انہوں نے خونریزیاں کیں اور حرام کو حلال بنا لیا

 اور سند سے یہ بھی مروی ہے کہ

- فحش سے بچو۔

اللہ تعالیٰ فحش باتوں اور بےحیائی کے کاموں کو ناپسند فرماتا ہے،

حرص اور بخیلی کی مذمت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اسی کے باعث اگلوں نے ظلم کئے فسق و فجور کئے اور قطع رحمی کی۔

ابوداؤد وغیرہ میں ہے:

 اللہ کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی بندے کے پیٹ میں جمع ہو ہی نہیں سکتا اسی طرح بخیلی اور ایمان بھی کسی بندہ کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے، یعنی راہ اللہ کی گرد جس پر پڑی وہ جہنم سے آزاد ہو گیا اور جس کے دل میں بخیلی نے گھر کر لیا اس کے دل میں ایمان کی رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی،

ابن ابی حاتم میں ہے:

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر ایک شخص نے کہا اے ابو عبدالرحمٰن میں تو ہلاک ہو گیا

آپ نے فرمایا کیا بات ہے؟

کہا قرآن میں تو ہے جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا دیا گیا اس نے فلاح پالی اور میں تو مال کو بڑا روکنے والا ہوں، خرچ کرتے ہوئے دل رکتا ہے

آپ نے فرمایا اس کنجوسی کا ذکر اس آیت میں نہیں یہاں مراد بخیلی سے یہ ہے کہ تو اپنے کسی مسلمان بھائی کا مال ظلم سے کھا جائے، ہاں بخیلی بمعنی کنجوسی بھی ہے جوبہت بری چیز ہے

 حضرت ابولہیاج اسدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

 بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک صاحب صرف یہی دعا پڑھ رہے ہیں۔

اللھم فی شخ نفسی

الٰہی مجھے میرے نفس کی حرص و آڑ سے بچا لے

 آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا آپ صرف یہی دعا کیوں مانگ رہے ہیں؟

 اس نے کہا جب اس سے بچاؤ ہو گیا تو پھر نہ زنا کاری ہو سکے گی نہ چوری اور نہ کوئی برا کام اب جو میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے (ابن جریر)

 ایک حدیث میں ہے:

 جس نے زکوٰۃ ادا کی اور مہمانداری کی اور اللہ کی راہ کے ضروری کاموں میں دیا وہ اپنے نفس کی بخیلی سے دور ہو گیا،

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ

اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ

اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے

یہاں مال فے کے مستحقین لوگوں کی تیسری قسم کا بیان ہو رہا ہے کہ انصار اور مہاجر کے فقراء کے بعد ان کے تابع جو ان کے بعد کے لوگ ہیں ان میں سے مساکین بھی اس مال کے مستحق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے سے اگلے باایمان لوگوں کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں

جیسے کہ سورہ توبہ میں ہے:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ   (۹:۱۰۰)

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے

یعنی اول اول سبقت کرنے والے مہاجر و انصار اور ان کے بعد کے وہ لوگ جو احسان میں ان کے متبع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے خوش ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں یعنی یہ بعد کے لوگ ان اگلوں کے آثار حسنہ اور اوصاف جمیلہ کی اتباع کرنے والے اور انہیں نیک دعاؤں سے یاد رکھنے والے ہیں گویا ظاہر باطن ان کے تابع ہیں،

 اس دعا سے حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے کتنا پاکیزہ استدلال کیا ہے کہ رافضی کو مال فے سے امام وقت کچھ نہ دے کیونکہ وہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کرنے کی بجائے انہیں گالیاں دیتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

 ان لوگوں کو دیکھو کس طرح قرآن کے خلاف کرتے ہیں قرآن حکم دیتا ہے کہ مہاجر و انصار کے لئے دعائیں کرو اور یہ گالیاں دیتے ہیں پھر یہی آیت آپ نے تلاوت فرمائی (ابن ابی حاتم)

 اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:

 یہ امت ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ ان کے پچھلے ان کے پہلوں کو لعنت کریں گے (بغوی)

 ابوداؤد میں ہے:

 حضرت عمر نے فرمایا آیتوَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ میں جس مال فے کا بیان ہے وہ تو خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اسی طرح اس کے بعد کی آیت مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى والی نے عام کر دیا ہے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کر لیا ہے اب ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس کا حق اس مال میں نہ ہو سوائے تمہارے غلاموں کے،

 اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے،

 ابن جریر میں ہے:

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےآیت

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ۔۔۔فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ  (۹:۶۰)

صدقے صرف فقیروںکے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں

اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‏

کو پڑھ کر فرمایا مال زکوٰۃ کے مستحق تو یہ لوگ ہیں پھرآیت

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ ۔۔۔ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ   (۸:۴۱)

جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا،

اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا جو دن حق اور باطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں۔اللہ ہرچیز پر قادر ہے

کو پڑھ کر فرمایا مال غنیمت کے مستحق یہ لوگ ہیں پھر یہ آیت

مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى ۔۔۔ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ ...  (۵۹:۷)

بستیوں والوں کا جو مال اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے

تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ

پڑھ کر فرمایا مال فے کے مستحقین کو بیان فرماتے ہوئے اس آیت نے تمام مسلمانوں کو اس مال فے کا مستحق کر دیا ہے، سب اس کے مستحق ہیں۔ اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھو گے کہ گاؤں گوٹھوں کے چروا ہے کو بھی اس کا حصہ دوں گا جس کی پیشانی پر اس مال کے حاصل کرنے کے لئے پسینہ تک نہ آیا۔

وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ   (۱۰)

اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔‏

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ

کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں؟

الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا

اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہونگےاور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے

عبداللہ بن ابی اور اسی جیسے منافقین کی چالبازی اور عیاری کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہودیان بنو نضیر کو سبز باغ دکھا کر جھوٹا دلاسا دلا کر غلط وعدہ کر کے مسلمانوں سے لڑوا دیا،

وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ

اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے ،

ان سے وعدہ کیا کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں لڑنے میں تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم ہار گئے اور مدینہ سے دیس نکالا ملا تو ہم بھی تمہارے ساتھ اس شہر کو چھوڑ دیں گے،

وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ   (۱۱)

لیکن اللہ تعالیٰ  گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں ۔‏

لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا يَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لَا يَنْصُرُونَهُمْ

اگر وہ جلا وطن کئے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ جائیں گےاور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد بھی نہ کریں گے

لیکن بوقت وعدہ ہی ایفا کرنے کی نیت نہ تھی اور یہ بھی کہ ان میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ ایسا کر سکیں نہ لڑائی میں ان کی مدد کر سکیں نہ برے وقت ان کا ساتھ دیں،

وَلَئِنْ نَصَرُوهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ   (۱۲)

اور اگر (با لفرض) مدد پر آبھی گئے تو پیٹھ پھیر کر (بھاگ کھڑے) ہوں پھر مدد نہ کئے جائیں گے۔‏

اگر بدنامی کے خیال سے میدان میں آ بھی جائیں تو یہاں آتے ہی تیز و تلوار کی صورت دیکھتے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور نامردی کے ساتھ بھاگتے ہی بن پڑے،

ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ پھر مستقل طور پر پیش گوئی فرماتا ہے کہ ان کی تمہارے مقابلہ میں امداد نہ کی جائے گی،

لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِي صُدُورِهِمْ مِنَ اللَّهِ ۚ

(مسلمانو! یقین مانو) کہ تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں بہ نسبت اللہ کی ہیبت کے بہت زیادہ ہے،

یہ اللہ سے بھی اتنا نہیں ڈرتے جتنا تم سے خوف کھاتے ہیں،

جیسے اور جگہ بھی ہے:

إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً   (۴:۷۷)

ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو،

یعنی ان کا ایک فریق لوگوں سے اتنا ڈرتا ہے جتنا اللہ سے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ   (۱۳)

یہ اس لئے کہ یہ بےسمجھ لوگ ہیں ۔‏

بات یہ ہے کہ یہ بےسمجھ لوگ ہیں،

لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ

یہ سب مل کر بھی تم سے لڑ نہیں سکتے ہاں یہ اور بات ہے کہ قلعہ بند مقامات میں ہوں یا دیواروں کی آڑ میں ہوں

ان کی نامردی اور بزدلی کی یہ حالت ہے کہ یہ میدان کی لڑائی کبھی لڑ نہیں سکتے ہاں اگر مضبوط اور محفوظ قلعوں میں بیٹھے ہوئے ہوں یا مورچوں کی آڑ میں چھپ کر کچھ کاروائی کرنے کا موقعہ ہو تو خیر بسبب ضرورت کر گزریں گے لیکن میدان میں آ کر بہادری کے جوہر دکھانا یہ ان سے کوسوں دور ہے،

بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ

ان کی لڑائی تو ان میں آپس میں ہی بہت سخت ہے

یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں، جیسے اور جگہ ہے:

وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ   (۶:۶۵)

بعض کو بعض سے لڑائی کا مزہ چکھاتا ہے ،

تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ۚ

گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں

تم انہیں مجتمع اور متفق و متحد سمجھ رہے ہو لیکن دراصل یہ متفرق و مختلف ہیں ایک کا دل دوسرے سے نہیں ملتا، منافق اپنی جگہ اور اہل کتاب اپنی جگہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں،

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ   (۱۴)

اس لئے یہ بےعقل لوگ ہیں ۔‏

وجہ یہ ہے کہ بےعقل لوگ ہیں،

كَمَثَلِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيبًا ۖ

ان لوگوں کی طرح جو ان سے کچھ ہی پہلے گزرے ہیں

ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ   (۱۵)

جنہوں نے اپنے کام کا وبال چکھ لیا اور جن کے لئے المناک عذاب (تیار) ہے

پھر فرمایا ان کی مثال ان سے کچھ ہی پہلے کے کافروں جیسی ہے جنہوں نے یہاں بھی اپنے کئے کا بدلہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے،

 اس سے مراد یا تو کفار قریش ہیں کہ بدر والے دن ان کی کمر کبڑی ہو گئی اور سخت نقصان اٹھا کر کشتوں کے پشتے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے،

 یا بنو قینقاع کے یہود ہیں کہ وہ بھی شرارت پر اتر آئے اللہ نے ان پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور آپ نے انہیں مدینہ سے خارج البلد کرا دیا

یہ دونوں واقعے ابھی ابھی کے ہیں اور تمہاری عبرت کا صحیح سبق ہیں لیکن اس وقت کہ کوئی عبرت حاصل کرنے والا انجام کو سوچنے والا ہو بھی، زیادہ مناسب مقام بنو قینقاع کے یہود کا واقعہ ہی ہے واللہ اعلم،

تلبیس ابلیس کا ایک انداز

منافقین کے وعدوں پر ان یہودیوں کا شرارت پر آمادہ ہونا اور ان کے بھرے میں آ کر معاہدہ توڑ ڈالنا پھر ان منافقین کا انہیں موقعہ پر کام نہ آنا نہ لڑائی کے وقت مدد پہنچانا نہ جلا وطنی میں ساتھ دینا، ایک مثال سے سمجھایا جاتا ہے کہ

كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ   (۱۶)

شیطان کی طرح کہ اس نے انسان سے کہا کفر کر،جب کفر کر چکا تو کہنے لگا میں تجھ سے بری ہوںمیں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔‏

دیکھو شیطان بھی اسی طرح انسان کو کفر پر آمادہ کرتا ہے اور جب یہ کفر کر چکتا ہے تو خود بھی اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور اپنا اللہ والا ہونا ظاہر کرنے لگتا ہے،

بنی اسرائیل کے ایک عابد کا واقعہ

بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا ساٹھ سال اسے عبادت الٰہی میں گزر چکے تھے شیطان نے اسے ورغلانا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا اس نے ایک عورت پر اپنا اثر ڈالا اور یہ ظاہر کیا کہ گویا اسے جنات ستا رہے ہیں ادھر اس عورت کے بھائیوں کو یہ وسوسہ ڈالا کہ اس کا علاج اسی عابد سے ہو سکتا ہے

یہ اس عورت کو اس عابد کے پاس لائے اس نے علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کیا اور یہ عورت یہیں رہنے لگی، ایک دن عابد اس کے پاس ہی تھا جو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرنے شروع کئے یہاں تک کہ وہ زنا کر بیٹھا اور وہ عورت حاملہ ہو گئی۔ اب رسوائی کے خوف سے شیطان نے چھٹکارے کی یہ صورت بتائی کہ اس عورت کو مار ڈال ورنہ راز کھل جائے گا۔ چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا، ادھر اس نے جا کر عورت کے بھائیوں کو شک دلوایا وہ دوڑے آئے، شیطان راہب کے پاس آیا اور کہا وہ لوگ آ رہے ہیں اب عزت بھی جائے گی اور جان بھی جائے گی۔ اگر مجھے خوش کر لے اور میرا کہا مان لے تو عزت اور جان دونوں بچ سکتی ہیں۔ شیطان نے کہا مجھے سجدہ کر،

عابد نے اسے سجدہ کر لیا،

یہ کہنے لگا تف ہے تجھ پر کم بخت میں تو اب تجھ سے بیزار ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، جو رب العالمین ہے (ابن جریر)

ایک اور روایت میں اس طرح ہے :

 ایک عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اور ایک راہب کی خانقاہ تلے رات گزارا کرتی تھی اس کے چار بھائی تھے ایک دن شیطان نے راہب کو گدگدایا اور اس سے زنا کر بیٹھا اسے حمل رہ گیا

شیطان نے راہب کے دل میں ڈالا کہ اب بڑی رسوائی ہو گی اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈال اور کہیں دفن کر دے تیرے تقدس کو دیکھتے ہوئے تیری طرف تو کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کچھ پوچھ گچھ ہو تو جھوٹ موٹ کہہ دینا، بھلا کون ہے جو تیری بات کو غلط جانے؟

 اس کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی، ایک روز رات کے وقت موقعہ پا کر اس عورت کو جان سے مار ڈالا اور کسی اجاڑ جگہ زمین میں دبا دیا۔

 اب شیطان اس کے چاروں بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اور اس کے دفن کی جگہ بھی بتا دی، صبح جب یہ جاگے تو ایک نے کہا آج کی رات تو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے ہمت نہیں پڑتی کہ آپ سے بیان کروں دوسروں نے کہا نہیں کہو تو سہی چنانچہ اس نے اپنا پورا خواب بیان کیا کہ اس طرح فلاں عابد نے اس سے بدکاری کی پھر جب حمل ٹھہر گیا تو اسے قتل کر دیا اور فلاں جگہ اس کی لاش دبا آیا ہے،

 ان تینوں میں سے ہر ایک نے کہا مجھے بھی یہی خواب آیا ہے اب تو انہیں یقین ہو گیا کہ سچا خواب ہے، چنانچہ انہوں نے جا کر اطلاع دی اور بادشاہ کے حکم سے اس راہب کو اس خانقاہ سے ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچ کر زمین کھود کر اس کی لاش برآمد کی، کامل ثبوت کے بعد اب اسے شاہی دربار میں لے چلے

 اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ سب میرے کرتوت ہیں اب بھی اگر تو مجھے راضی کر لے تو جان بچا دوں گا

اس نے کہا جو تو کہے کروں گا،

 کہا مجھے سجدہ کر لے اس نے یہ بھی کر دیا،

پس پورا بے ایمان بنا کر شیطان کہتا ہے میں تو تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے جو تمام جہانوں کا رب ہے ڈرتا ہوں،

چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا اور پادری صاحب کو قتل کر دیا گیا،

 مشہور ہے کہ اس پادری کا نام برصیصا تھا۔

حضرت علیؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، طاؤس، مقاتل بن حیانؓ وغیرہ سے یہ قصہ مختلف الفاظ سے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے، واللہ اعلم،

اس کے بالکل برعکس جریج عابد کا قصہ ہے :

حضرت جریج کا قصہ

ایک بدکار عورت نے جریج عابد پر تہمت لگا دی کہ اس نے میرے ساتھ زنا کیا ہے اور یہ بچہ جو مجھے ہوا ہے وہ اسی کا ہے چنانچہ لوگوں نے حضرت جریج کے عبادت خانے کو گھیر لیا اور انہیں نہایت بے ادبی سے زد و کوب کرتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے باہر لے آئے اور عبادت خانے کو ڈھا دیا

یہ بیچارے گھبرائے ہوئے ہر چند پوچھتے ہیں کہ آخر واقعہ کیا ہے؟

لیکن مجمع آپے سے باہر ہے آخر کسی نے کہا کہ اللہ کے دشمن اولیاء اللہ کے لباس میں یہ شیطانی حرکت؟

 اس عورت سے تو نے بدکاری کی۔

حضرت جریج نے فرمایا اچھا ٹھہرو صبر کرو اس بچے کو لاؤ

چنانچہ وہ دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ لایا گیا حضرت جریج نے اپنی عزت کی بقا کی اللہ سے دعا کی پھر اس بچے سے پوچھا اے بچے بتا تیرا باپ کون ہے؟

 اس بچے کو اللہ نے اپنے ولی کی عزت بچانے کے لئے اپنی قدرت سے گویائی کی قوت عطا فرما دی اور اس نے اس صاف فصیح زبان میں اونچی آواز سے کہا میرا باپ ایک چرواہا ہے۔

یہ سنتے ہی بنی اسرائیل کے ہوش جاتے رہے یہ اس بزرگ کے سامنے عذر معذرت کرنے لگے معافی مانگنے لگے انہوں نے کہا بس اب مجھے چھوڑ دو لوگوں نے کہا ہم آپ کی عبادت گاہ سونے کی بنا دیتے ہیں

آپ نے فرمایا بس اسے جیسی وہ تھی ویسے ہی رہنے دو۔

فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا ۚ

پس دونوں کا انجام یہ ہوا کہ آتش (دوزخ) میں ہمیشہ کے لئے گئے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخر انجام کفر کے کرنے اور حکم دینے والے کا یہی ہوا کہ دونوں ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوئے،

وَذَلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ  (۱۷)

اور ظالموں کی یہی سزا ہے

ہر ظالم کئے کی سزا پا ہی لیتا ہے۔

اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر

حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 ہم دن چڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا، آپ گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر حضرت بلال کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت تلاوت کی

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ ۔۔۔إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا   (۴:۱)

‏ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں

اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے‏

پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے اعمال کا کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے

اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا

بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آ گئیں آپ برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ،ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے

 پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہرچیز کے ڈھیر لگ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ نے فرمایا:

 جو بھی کسی اسلامی کار خیر کو شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں،اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شروع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں (مسلم)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو

آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر،

وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ

اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے

پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے،

وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ

اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔

پھر تاکیداً ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو

إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ   (۱۸)

اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے ‏

اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ ۚ

اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ (کے احکام) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا

پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ

أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ   (۱۹)

اور ایسے ہی لوگ نافرمان (فاسق) ہوتے ہیں۔‏

یہی لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں،

جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ   (۶۳:۹)

اے مسلمانو! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں،

طبرانی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

کیا تم نہیں جانتے کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو، پس تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گزارو، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرف اپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کر سکتا، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ ۚ

 خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں؟

 انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لئے وہ دربار الہٰی میں جا پہنچے، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کر لی،

 کہاں ہیں وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں،

یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آ سکے،

 اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کے اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا :

إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ   (۲۱:۹۰)

وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے

سنو

- وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو،

-  وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو،

- وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو

-  اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے۔

اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقابت یا عدم ثقاہت سے معرف نہیں ، لیکن امام ابوداؤد سجستانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے اساتذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں، واللہ علم۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ

لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۚ

اہل نار اور اہل جنت (باہم) برابر نہیں

جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں، جیسے فرمان ہے

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ   (۴۵:۲۱)

یعنی کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں با ایمان نیک کار لوگوں کے مثل کر دیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے

 ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے

 اور جگہ ہے :

وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَا تَتَذَكَّرُونَ   (۴۰:۵۸)

اندھا اور دیکھتا ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں، تم بہت ہی کم نصیحت اصل کر رہے ہو،

اور جگہ ہے :

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ   (۳۸:۲۸)

کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنا دیں گےیا پرہیز گاروں کو مثل فاجروں کے بنا دیں گے؟

 اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں،

مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہو گا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہو گا۔

أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ   (۲۰)

جو اہل جنت میں ہیں وہی کامیاب ہیں (جو اہل نار ہیں وہ ناکام) ہیں ۔‏

یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے۔

بلند و عظیم مرتبہ قرآن مجید

قرآن کریم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فی الواقع یہ پاک کتاب اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ دل اس کے سامنے جھک جائیں، رونگٹے کھڑے ہو جائیں، کلیجے کپکپاجائیں، اس کے سچے وعدے اور اس کی حقانی ڈانٹ ڈپٹ ہر سننے والے کو بید کی طرح تھرادے ، اور دربار اللہ میں سر بسجود کرا دے،

لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا

اگر یہ قرآن جناب باری کسی سخت بلند اور اونچے پہاڑ پر بھی نازل فرماتا اور اسے غور و فکر اور فہم و فراست کی حس بھی دیتا تو وہ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا، پھر انسانوں کے دلوں پر جو نسبتاً بہت نرم اور چھوٹے ہیں جنہیں پوری سمجھ بوجھ ہے، اس کا بہت بڑا اثر پڑنا چاہئے،

وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ   (۲۱)

ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں ۔‏

ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے ان کے غور و فکر کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا، مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو بھی ڈر اور عاجزی چاہئے،

متواتر حدیث میں ہے:

 منبر تیار ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بن گیا، بچھ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور وہ تنا دور ہو گیا، تو اس میں سے رونے کی آواز آنے لگی اور اس طرح سسکیاں لے لے کر وہ رونے لگا جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر روتا ہو اور اسے چپ کرایا جا رہا ہو کیونکہ وہ ذکر وحی کے سننے سے کچھ دور ہو گیا تھا۔

 امام بصریؒ اس حدیث کو بیان کر کے فرماتے تھے کہ لوگو ایک کھجور کا تنا اس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شائق ہو تو تمہیں چاہئے کہ اس سے بہت زیادہ شوق اور چاہت تم رکھو۔

 اسی طرح کی یہ آیت ہے کہ جب ایک پہاڑ کا یہ حال ہو تو تمہیں چاہئے کہ تم تو اس حالت میں اس سے آگے رہو

اور جگہ فرمان اللہ ہے:

وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى   (۱۳:۳۱)

اگر کسی قرآن کے ذریعہ پہاڑ چلا دیے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے)،

یعنی اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے باعث پہاڑ چلا دیئے جائیں یا زمین کاٹ دی جائے یا مردے بول پڑیں تو اس کے قابل یہی قرآن تھا مگر پھر بھی ان کفار کو ایمان نصیب نہ ہوتا

اور جگہ فرمان عالی شان ہے :

وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ   (۲:۷۴)

بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے،اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں

پھر فرماتا ہے

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں

اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی پالنے اور پرورش کرنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کسی کی ایسی نشانیاں ہیں کہ اس کی کسی قسم کی عبادت کوئی کرے اس کے سوا جن جن کی لوگ پرستش اور پوجا کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں،

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ

چھپے کھلے کا جاننے والا

وہ تمام کائنات کا علم رکھنے والا ہے، جو چیزیں ہم پر ظاہر ہیں اور جو چیزیں ہم سے پوشیدہ ہیں سب اس پر عیاں ہیں، خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں ہوں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہوں یہاں تک کہ اندھیریوں کے ذرے بھی اس پر ظاہر ہیں،

هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ   (۲۲)

مہربان اور رحم کرنے والا۔‏

وہ اتنی بڑی وسیع رحمت والا ہے کہ اس کی رحمت تمام مخلوق پر محیط ہے، وہ دنیا اور آخرت میں رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی ہے، ہماری تفسیر کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے،قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ   (۷:۱۵۶)

اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے

 اور جگہ فرمان ہے :

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ   (۶:۵۴)

تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحم و رحمت لکھ لی ہے

اور فرمان ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ   (۱۰:۵۸)

کہدو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ ہی خوش ہونا چاہئے تمہاری جمع کردہ چیز سے بہتر یہی ہے۔

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں،

الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ

بادشاہ، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی والا،

اس الْمَلِكُ رب معبود کے سوا اور کوئی ان اوصاف والا نہیں، تمام چیزوں کا تنہا وہی مالک و مختار ہے ہرچیز کا ہیر پھیر کرنے والا سب پر قبضہ اور تصرف رکھنے والا بھی وہی ہے کوئی نہیں جو اس کی مزاحمت یا مدافعت کر سکے یا اسے ممانعت کر سکے،

وہ الْقُدُّوسُ ہے یعنی طاہر ہے، مبارک ہے، ذاتی اور صفاتی نقصانات سے پاک ہے تمام بلند مرتبہ فرشتے اور سب کی سب اعلیٰ مخلوق اس کی تسبیح و تقدیس میں علی الدوام مشغول ہیں

السَّلَامُ کل عیبوں اور نقصانوں سے مبرا اور منزہ ہے، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اپنے افعال میں بھی اس کی ذات ہر طرح کے نقصان سے پاک ہے،

وہ الْمُؤْمِنُ ہے یعنی تمام مخلوق کو اس نے اس بات سے بےخوف رکھا ہے کہ ان پر کسی طرح کا کسی وقت اپنی طرف سے ظلم ہو، اس نے یہ فرما کر کہ یہ حق ہے سب کو امن دے رکھا ہے، اپنے ایماندار بندوں کے ایمان کی تصدیق کرتا ہے،

وہ الْمُهَيْمِنُ ہے یعنی اپنی تمام مخلوق کے اعمال کا ہر وقت یکساں طور شاہد ہے اور نگہبان ہے، جیسے فرمان ہے:

وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ   (۵۸:۶)

اللہ تعالیٰ ہرچیز پر شاہد ہے

اور فرمان ہے

ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ   (۱۰:۴۶)

اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال پر گواہ ہے

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ   (۱۳:۳۳)

آیا وہ اللہ جو نگہبانی کرنے والا ہے ہر شخص کی، اس کے کئے ہوئے اعمال پر

مطلب یہ ہے کہ ہر نفس جو کچھ کر رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے،

 وہ الْعَزِيزُ ہے ہرچیز اس کے تابع فرمان ہے کل مخلوق پر وہ غالب ہے پس اس کی عزت عظمت جبروت کبریائی کی وجہ سے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا،

وہ الْجَبَّارُ اور الْمُتَكَبِّرُ ہے، جبریت اور کبر صرف اسی کے شایان شان ہے

صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 عظمت میرا تہمد ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب کروں گا، عظمت میرا تہمد ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب کروں گا،

سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ   (۲۳)

پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں۔‏

اپنی مخلوق کو جس چیز پر چاہے وہ رکھ سکتا ہے، کل کاموں کی اصلاح اسی کے ہاتھ ہے، وہ ہر برائی سے نفرت اور دوری رکھنے والا ہے، جو لوگ اپنی کم سمجھی کی وجہ سے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں وہ ان سب سے بیزار ہے، اس کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے،

هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ

وہی ہے اللہ پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت بنانے والا،

اللہ تعالیٰ الْخَالِقُ ہے یعنی مقدر مقرر کرنے والا، پھر الْبَارِئُ ہے یعنی اسے جاری اور ظاہر کرنے والا،

کوئی ایسا نہیں کہ جو تقدیر اور تنفیذ دونوں پر قادر ہو جو چاہے اندازہ مقرر کرے اور پھر اسی کے مطابق اسے چلائے بھی کبھی بھی اس میں فرق نہ آنے دے، بہت سے ترتیب دینے والے اور اندازہ کرنے والے ہیں جو پھر اسے جاری کرنے اور اسی کے مطابق برابر جاری رکھنے پر قادر نہیں، تقدیر کے ساتھ ایجاد اور تنفیذ پر بھی قدرت رکھنے والی اللہ کی ہی ذات ہے،

پس خلق سے مراد تقدیر اور برء سے مراد تنفیذ ہے، عرب میں یہ الفاظ ان معنوں میں برابر بطور مثال کے بھی مروج ہیں،

 اسی کی شان ہے کہ جس چیز کو جب جس طرح کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی طرح اسی صورت میں ہو جاتی ہے جیسے فرمان ہے :

فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ   (۸۲:۸)

جس صورت میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دی،

اسی لئے یہاں فرماتا ہے ہو الْمُصَوِّرُ بےمثل ہے یعنی جس چیز کی ایجاد جس طرح کی چاہتا ہے کہ گزرتا ہے۔

لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ۚ

اسی کے لئے نہایت اچھے نام ہیں

پیارے پیارے بہترین اور بزرگ تر ناموں والا وہی ہے،سورہ اعراف میں اس جملہ کی تفسیر گزر چکی ہے،

نیز وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جو بخاری مسلم میں بہ روایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں شمار کر لے یاد رکھ لے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ وتر ہے یعنی واحد ہے اور اکائی کو دوست رکھتا ہے،

الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ

الرَّحْمَنُ

الرَّحِيمُ

الْمَلِكُ

الْقُدُّوسُ

السَّلَامُ

الْمُؤْمِنُ

الْمُهَيْمِنُ

الْعَزِيزُ

الْجَبَّارُ

الْمُتَكَبِّرُ

الْخَالِقُ

الْبَارِئُ

الْمُصَوِّرُ

اَلْغَفَّارُ

اَلْقَهَّارُ

اَلْوَهَّابُ

الرَّزَّاقُ

اَلْفَتَّاحُ

اَلْعَلِيمُ

اَلْقَابِضُ

اَلْبَاسِطُ

اَلْخَافِضُ

الرَّافِعُ

اَلْمُذِلُّ

السَّمِيعُ

اَلْبَصِيرُ

اَلْحَكَمُ

اَلْعَدَلُ

اللَّطِيْفُ

اَلْخَبِيْرُ

اَلْحَلِيْمُ

اَلْعَظِيْمُ

اَلْغَفُورُ

اَلْشَكُوْرُ

اَلْعَلِىُّ

اَلْكَبِيْرُ

اَلْحَفِيظُ

اَلْمُقِيتُ

اَلْحَسِيْبُ

اَلْجَلِيْلُ

اَلْكَرِيمُ

الرَّقِيبُ

الْمُجِيبُ

اَلْوَاسِعُ

اَلْحَكِيْمُ

اَلْوَدُودُ

اَلْحَمِيْدُ

اَلْمَجِيدُ

اَلْبَاعِثْ

اَلشَّهِيْدُ

اَلْحَقُّ

اَلْوَكِيْلُ

اَلْقَوَِىُّ

اَلْمَتِيْنُ

اَلْوَلِىّ

اَلْمُحْصِىْ

اَلْمُبْدِئُ

اَلْمُعِيدُ

اَلْمُحْىِ

اَلْمُمِيْتُ

اَلْحَيَىُ

اَلْقَيُّوْمُ

اَلْوَاجِدُ

اَلْمَاجِدُ

اَلْوَاحِدُ

اَلْأَحَدُ

اَلصَّمَدُ

اَلْقَادِرُ

اَلْمُقْتَدِرُ

اَلْمُقَدِّمُ

اَلْمُؤَخِّرٌ

اَلْأَوَّلُ

اَلْآخِرُ

اَلظَّاهِرُ

اَلْبَاطِنُ

اَلْوَالِىْ

اَلْمُتَعَالِىْ

اَلْبَرُّ

اَلتَّوَابُ

اَلْمُنْتَقِمُ

اَلْرَؤُفُ

اَلْعَفُوٌ

الْمَالِكَ الْمُلْكِ

ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

اَلْمُقْسِطُ

اَلْجَامِعُ

اَلْغَنِىُّ 

اَلمُغْنِىُ

اَلمَانِعُ

اَلضَّارُ

اَلنَّافَعُ

اَلنُّورُ

اَلْهَادِىُ

اَلْبَدِيْعُ

اَلْبَاقِىْ

اَلْوَارِثْ

اَلرَّشِيْدُ

اَلصَّبُوْرُ

يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ

ہرچیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے

آسمان و زمین کی کل چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔

جیسے اور جگہ فرمان ہے :

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ ۔۔۔ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا   (۱۷:۴۴)

اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں، ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان میں جو مخلوق ہے

اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے بیشک وہ بردبار اور بخشش کرنے والا ہے،

وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ   (۲۴)

اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔‏

وہ الْعَزِيزُ ہے اس کی حکمت والی سرکار اپنے احکام اور تقدیر کے تقدر میں ایسی نہیں کہ کسی طرح کی کمی نکالی جائے یا کوئی اعتراض قائم کیا جا سکے،

 مسند احمد کی حدیث میں ہے:

 جو شخص صبح کو تین مرتبہ أَعُوذُ بِاللَّهِ الْسَمِيعٌ الْعَلِيمٌ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ پڑھ کر سورہ حشر کے آخر کی ان تین آیتوں کو پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں

اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے

 اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے وہ بھی اسی حکم میں ہے،

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter