Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Saff

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ  (۱)

زمین و آسمان کی ہر ہرچیز اللہ تعالیٰ  کی پاکی بیان کرتی ہےاور وہی غالب حکمت والا ہے۔‏

اس آیت کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ   (۲)

اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں‏

پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں،

بعض علما، سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے،

 ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں

- جب وعدہ کرے خلاف کرے

- جب بات کرے جھوٹ بولے

- جب امانت دیا جائے خیانت کے،

 دوسری صحیح حدیث میں ہے:

 چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے،

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ   (۳)

تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ  کو سخت ناپسند ہے۔ ‏

اسی لئے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو،

 مسند احمد اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے :

 ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لئے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ دینا بھی چاہتی ہو؟

 میری والدہ نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں دوں گی

آپؐ نے فرمایا:پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا،

حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو فوراً کرنا واجب ہو جاتا ہے، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کر لے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کر لیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لئے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہو گیا جس پر اس سے باز پُرس سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔

جہاد کی فرضیت

 جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہو گیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری،

جیسے اور جگہ ہے :

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۔۔۔ أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ ۗ    (۴:۷۷،۷۸)

کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو،

پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟

کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو مؤخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے۔

تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہترین چیز ہے۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو،

اور جگہ ہے:

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ

فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ   (۴۷:۲۰)

اور جو لوگ ایمان لائے اور کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟

پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی کہبعض مؤمنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتااگر اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے

- سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو

-  اور بے ایمانوں سے جہاد کرنا ہے

تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ

لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ

وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں،

 امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں،

 حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں :

 مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عزوجل نے وہ عمل بتایا کہ میری راہ میں صفیں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہو گئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان عالیشان اترا کہ

کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے؟

بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے:

- جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو

- منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں

- کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو

-  منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں،

 ابن زید فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے،

 زید بن اسلم جہاد مراد لیتے ہیں،

حضرت مجاہد فرماتے ہیں:

 ان کہنے والوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر چکا چنانچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہوگئے،

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ   (۴)

بیشک اللہ تعالیٰ  ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں ۔‏

پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو،

 مسند میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے:

- رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے

- نماز کے لئے صفیں باندھنے والے،

- میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے،

 ابن ابی حاتم میں ہے :

حضرت مطرف فرماتے ہیں مجھے بہ روایت حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود حضرت ابوذر سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں چنانچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے؟

 میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے

فرمایا ہاں میں نے اپنے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے،

میں نے پوچھا وہ تین کون ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے؟

 فرمایا ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو

پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی،

ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہےہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے، فالحمد اللہ۔

حضرت کعب احبار سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:

- آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بدخلق بد زبان بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں

-  برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگزر کر کے معاف کر دیتے ہیں۔

- آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے، جائے ہجرت طابہ ہے، ملک آپ کا شام ہے،

- اُمت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے،

- ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے رہتے ہیں۔

- صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ

- اپنے ناخن اور مونچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہمد اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں

-  ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں،

 پھر حضرت کعب نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا

- سورج کی نگہبانی کرنے والے جہاں وقت نماز آ جائے نماز ادا کر لینے والے گو سواری پر ہوں،

حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تک صفیں نہ بندھوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے،

پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے

پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لئے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے۔

 ابو بحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں،

آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ

اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو!

تم مجھے کیوں ستا رہے ہو حالانکہ تمہیں (بخوبی) معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو؟

اس میں گویا ایک طرح سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جاتی ہے، چنانچہ آپ بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائے وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے

فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ

پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا

اور ساتھ ہی اس میں مؤمنوں کو ادب سکھایا جا رہا ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا  نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا   (۳۳:۶۹)جیسے او رجگہ ہے:

ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذاء دینے والے تھےاللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا،

پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی،

جیسے اور جگہ ہے :

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ   (۶:۱۱۰)

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے

اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔‏

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا   (۴:۱۱۵)

جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہو جانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے ایسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے

اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے،

وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ   (۵)

اور اللہ تعالیٰ  نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‏

یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا،

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ

اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے میری قوم، بنی اسرائیل!

إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ

میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں

وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ

اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے

حضرت عیسیٰ کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ توراۃ میں میری خوشخبری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی عربی مکی احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،

پس حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں، آپ کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختم ہو گئی،

صحیح بخاری شریف میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

 میرے بہت سے نام ہیں

  محمد، احمد، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں،

یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے،

 ابوداؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے یہ چند ہیں، فرمایا:

- میں محمد ہوں،

- میں احمد ہوں،

- میں حاشر ہوں

- میں مقفی ہوں،

- میں نبی الرحمتہ ہہوں،

- میں نبی التوبہ ہوں،

- میں نبی الملحمہ ہوں،

یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے،

قرآن کریم میں ہے۔

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ   (۷:۱۵۷)

جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں

 اور جگہ فرمان ہے:

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۚ

 قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ

قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ   (۳:۸۱)

جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔

فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے۔

فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔

‏حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں،

 ایک مرتبہ صحابہ نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ نے فرمایا:

 میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ کی خوش خبری ہوں میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چمک اٹھے (ابن اسحاق)

اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں،

 مسند احمد میں ہے:

 میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ حضرت آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں۔

میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دعا، حضرت عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں۔انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں،

مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے،

 مسند کی اور حدیث میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے۔ ہم میں حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت جعفر حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت عثمان بن مطعون حضرت ابو موسیٰ بھی تھے ۔

ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لئے تحفے بھی بھیجے جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری قوم نے ہمیں اس لئے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیجئے،

نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں؟

 انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں

حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو

چنانچہ یہ مسلمان صحابہ دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا

 درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے؟

جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے،

 پوچھا گیا کیوں؟

فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف بھیجا اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں،

 اب عمرو بن عاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور بادشاہ کو بھڑکانے کے لئے وہ بیج میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مخالف ہیں،

 اس پر بادشاہ نے پوچھا بتاؤ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟

 انہوں نے کہا ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں روح اللہہیں جس روح کو اللہ تعالیٰ نے کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا

 بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو انکا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں۔

 اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں واپس کر دیا جائے۔

 ان مہاجرین کرام میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود تو جلد ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی۔

اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لئے بخشش کی دعا مانگی۔

یہ پورا واقعہ حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے مروی ہے۔ تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابں میں ملاحظہ ہو،

ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے، ہاں آپ کے امر کی شہرت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث حضرت عیسیٰ کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت دعاء خلیل اور نوید مسیح کی طرف کی ہے اس سے یہی مراد ہےان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لئے تھا کہ اہل مکہ میں آپ کی شروع شہرت کا باعث یہ خواب تھا، اللہ تعالیٰ آپ پر بیشمار درود و رحمت بھیجے۔

فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ  (۶)

پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے ۔‏

پھر ارشاد ہ ہو تا ہے کہ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ   (۷)

اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھےحالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے

اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔‏

ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا باندھے اور اس کے شریک و سا جھی مقرر کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اگر یہ شخص بےخبر ہوتا جب بھی ایک بات تھی یہاں تو یہ حالت ہے کہ وہ توحید اور اخلاص کی طرف برابر بلایا جا رہا ہے، بھلا ایسے ظالموں کی قسمت میں ہدایت کہاں؟

 ان کفار کی چاہت تو یہ ہے کہ حق کو باطل سے رد کر دیں،

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ   (۸)

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔‏

ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی سورج کی شعاع کو اپنے منہ کی پھونک سے بےنور کرنا ہے، جس طرح اس کے منہ کی پھونک سے سورج کی روشنی کا جاتا رہنا محال ہے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ اللہ کا دین ان کفار سے رد ہو جائے، اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا، کافر برا مانیں تو مانتے رہیں۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ   (۹)

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دےاگرچہ مشرکین ناخوش ہوں۔ ‏

اس کے بعدیہاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دین کی حقانیت کو واضح فرمایا،

 ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر سورہ توبہ میں گز ر چکی ہے۔ فالحمد اللہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ   (۱۰)

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے۔‏

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنا چاہا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ تعالیٰ کو کونسا ہے؟

 اس پر اللہ عزوجل نے یہ سورت نازل فرمائی، جس میں فرما رہا ہے کہ آؤ میں تمہیں ایک سراسر نفع والی تجارت بتاؤں جس میں گھاٹے کی کوئی صورت ہی نہیں جس سے مقصود حاصل اور ڈر زائل ہو جائے گا وہ یہ ہے کہ

تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ۚ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ   (۱۱)

اللہ تعالیٰ  پر اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو،یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم میں ہو۔‏

تم اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاؤ

-  اپنا جان مال اس کی راہ میں قربان کرنے پر تل جاؤ،

جان لو کہ یہ دنیا کی تجارت اور اس کے لئے جستجو کرنے سے بہت ہی بہتر ہے،

يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ

اللہ تعالیٰ  تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی

اور صاف ستھرے گھروں میں جو جنت عدن میں ہوں گے،

اگر میری اس بتائی ہوئی تجارت کے تاجر تم بن گئے تو تمہاری ہر لغزش سے ہر گناہ سے میں درگزر کرلوں گا اور جنتوں کے پاکیزہ محلات میں اور بلند و بالا درجوں میں تمہیں پہنچاؤں گا، تمہارے بالا خانوں اور ان ہمیشگی والے باغات کے درختوں تلے سے صاف شفاف نہریں پوری روانی سے جاری ہوں گی

ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ   (۱۲)

یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‏

یقین مانو کہ زبردست کامیابی اور اعلیٰ مقصد وری یہی ہے،

وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ

اور تمہیں ایک دوسری (نعمت) بھی دے گاجسے تم چاہتے ہو وہ اللہ کی مدد اور جلد فتح یابی ہے،

اچھا اس سے بھی زیادہ سنو تم جو ہمیشہ دشمنوں کے مقابلہ پر میری مدد طلب کرتے رہتے ہو اور اپنی فتح چاہتے ہو میرا وعدہ ہے کہ یہ بھی تمہیں دوں گا ادھر مقابلہ ہوا ادھر فتح ہوئی ادھر سامنے آئے ادھر فتح و نصرت نے رکاب بوسی کی

 اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ  (۴۷:۷)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا

اور فرمان ہے:

وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ   (۲۰:۴۰)

جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ   (۱۳)

ایمانداروں کو خوشخبری دے دو ۔‏

یہ مدد اور یہ فتح دنیا میں اور وہ جنت اور نعمت آخرت میں ان لوگوں کے حصہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہیں اور دین اللہ کی خدمت میں جان و مال سے دریغ نہ کریں

 اسی لئے فرما دیا کہ اے نبی ان ایمان والوں کو میری طرف سے یہ خوش خبری پہنچا دو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ

اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ  کے مددگار بن جاؤ

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے م=من بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان مال عزت آبرو قول فعل نقل و حرکت سے دل اور زبان سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تمام تر باتوں کی تعمیل میں رہیں، پھر مثال دیتا ہے کہ

كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ ۖ

جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟

حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں

حضرت عیسیٰ کے تابعداروں کو دیکھو کہ حضرت عیسیٰ کی آواز پر فوراً لبیک پکار اٹھے اور ان کے اس کہنے پر کہ کوئی ہے جو اللہ کی باتوں میں میری امداد کرے انہوں نے بلا غور علی الفور کہہ دیا کہ ہم سب آپ کے ساتھی ہیں اور دین اللہ کی امداد میں آپ کے تابع ہیں، چنانچہ روح اللہ علیہ صلوات اللہ نے اسرائیلیوں اور یونانیوں میں انہیں مبلغ بنا کر شام کے شہروں میں بھیجا،

حج کے دنوں میں سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے جگہ دے تاکہ میں اللہ کی رسالت کو پہنچا دوں قریش تو مجھے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں، چنانچہ اہل مدینہ کے قبیلے اوس و خزرج کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ابدی بخشی انہوں نے آپ سے بیعت کی آپ کی باتیں قبول کیں، اور مضبوط عہد و پیمان کئے کہ اگر آپ ہمارے ہاں آ جائیں تو پھر کسی سرخ و سیاہ کی طاقت نہیں جو آپ کو دکھ پہنچائے ہم آپ کی طرف سے جانیں لڑا دیں گے اور آپ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے،

پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر کے ان کے ہاں گئے تو فی الواقع انہوں نے اپنے کہے کو پورا کر دکھایا اور اپنی زبان کی پاسداری کی اسی لئے انصار کے معزز لقب سے ممتاز ہوئے اور یہ لقب گویا ان کا امتیازی نام بن گیا اللہ ان سے خوش ہو اور انہیں بھی راضی کرے آمین!

فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ ۖ

پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے کفر کیا

جبکہ حواریوں کو لے کر آپ دین اللہ کی تبلیغ کے لئے کھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل کے کچھ لوگ تو راہ راست پر آ گئے اور کچھ لوگ نہ آئے بلکہ آپ کو اور آپ کی والدہ ماجدہ طاہرہ کو بدترین برائی کی طرف منسوب کیا ان یہودیوں پر اللہ کی پھٹکار پڑی اور ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ بن گئے، پھر ماننے والوں میں سے بھی ایک جماعت ماننے میں ہی حد سے گزر گئی اور انہیں ان کے درجہ سے بہت بڑھا دیا ، پھر اس گروہ میں بھی کئی گروہ ہوگئے،

- بعض تو کہنے لگے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں

- بعض نے کہا تین میں کے تیسرے ہیں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس

-  اور بعض نے تو آپ کو اللہ ہی مان لیا،

 ان سب کا ذکر سورہ نساء میں مفصل ملاحظہ ہو،

فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ   (۱۴)

تو ہم نے مؤمنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وہ غالب آگئے ۔‏

سچے ایمان والوں کی جناب باری نے اپنے آخر الزماں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تائید کی ان کے دشمن نصرانیوں پر انہیں غالب کر دیا،

حضرت عیسیٰ کے تابعدار بارہ صحابہ کی روئیداد

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:

 جب اللہ کا ارادہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لے آپ نہا دھو کر اپنے اصحاب کے پاس آئے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے یہ بارہ صحابہ تھے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے آتے ہی فرمایا تم میں وہ بھی ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ کفر کریں گے اور ایک دو دفعہ نہیں بلکہ بارہ بارہ مرتبہ،

 پھر فرمایا تم میں سے کون اس بات پر آمادہ ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلے قتل کیا جائے اور جنت میں میرے درجے میں میرا ساتھی بنے،

 ایک نوجوان جو ان سب میں کم عمر تھا، اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو پیش کیا،

 آپ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ،

پھر وہی بات کہی اب کی مرتبہ بھی کم عمر نوجوان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے،

حضرت عیسیٰ نے اب کی مرتبہ بھی انہیں بٹھا دیا،

پھر تیسری مرتبہ یہی سوال کیا ، اب کی مرتبہ بھی یہی نوجوان کھڑے ہوئے

 آپ نے فرمایا بہت بہتر، اسی وقت ان کی شکل و صورت بالکل حضرت عیسیٰ جیسی ہو گئی اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس گھر کے ایک روزن سے آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے۔

 اب یہودیوں کی فوج آئی اور انہوں نے اس نوجوان کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر گرفتار کر لیا اور قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا

اور حضرت عیسیٰ کی پیشین گوئی کے مطابق ان باقی کے گیارہ لوگوں میں سے بعض نے بارہ بارہ مرتبہ کفر کیا، حالانکہ وہ اس سے پہلے ایماندار تھے ،

پھر بنی اسرائیل کے ماننے والے گروہ کے تین فرقے ہوگئے،

- ایک فرقے نے تو کہا کہ خود اللہ ہمارے درمیان بصورت مسیح تھا، جب تک چاہا رہا پھر آسمان پر چڑھ گیا، انہیں یعقوبیہ کہا جاتا ہے،

- ایک فرقے نے کہا ہم میں اللہ کا بیٹا تھا جبتک اللہ نے چاہا اسے ہم میں رکھا اور جب چاہا اپنی طرف چڑھا لیا، انہیں سطوریہ کہا جاتا ہے،

- تیسری جماعت حق پر قائم رہی ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول حضرت عیسیٰ ہم میں تھے، جب تک اللہ کا ارادہ رہا آپ ہم میں موجود رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا، یہ جماعت مسلمانوں کی ہے۔

پھر ان دونوں کافر جماعتوں کی طاقت بڑھ گئی اور انہوں نے ان مسلمانوں کو مار پیٹ کر قتل و غارت کرنا شروع کیا اور یہ دبے بھی ہوئے اور مغلوب ہی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا،

پس بنی اسرائیل کی وہ مسلمان جماعت آپ پر بھی ایمان لائی اور ان کافر جماعتوں نے آپ سے بھی کفر کیا، ان ایمان والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا،

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غالب آ جانا اور دین اسلام کا تمام ادیان کو مغلوب کر دینا ہی ان کا غالب آنا اور اپنے دشمنوں پر فتح پانا ہے۔

ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر اور سنن نسائی۔

پس یہ اُمت حق پر قائم رہ کر ہمیشہ تک غالب رہے گی یہاں تک کہ امر اللہ یعنی قیامت آ جائے اور یہاں تک کہ اس اُمت کے آخری لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر مسیح دجال سے لڑائی کریں گے جیسے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے۔ واللہ اعلم

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter