Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Fussilat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حم (۱)

حم‏

تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۲)

اتاری ہوئی ہے بڑے مہربان بہت رحم والے کی طرف سے۔‏

فرماتا ہے کہ یہ عربی کا قرآن اللہ رحمٰن کا اتار ہوا ہے۔

 جیسے اور آیت میں فرمایا:

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ (۱۶:۱۰۲)

اسے تیرے رب کے حکم سے روح الامین نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔

 اور آیت میں ہے:

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَـلَمِينَ ـنَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاٌّمِينُ ـعَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (۲۶:۱۹۲،۱۹۴)

 روح الامین نے اسے تیرے دل پر اس لئے نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو آگاہ کرنے والا بن جائے ،

كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۳)

ایسی کتاب جس کی آیتوں کی واضح تفصیل کی گئی ہے (اس حال میں کہ) قرآن عربی زبان میں ہے اس قوم کے لئے جو جانتی ہے

اس کی آیتیں مفصل ہیں ، ان کے معانی ظاہر ہیں ، احکام مضبوط ہیں۔ الفاظ واضح اور آسان ہیں

جیسے اور آیت میں ہے:

كِتَابٌ أُحْكِمَتْ ءايَـتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (۱۱:۱)

یہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم و مفصل ہیں یہ کلام ہے حکیم و خبیر اللہ جل شانہ کا

لفظ کے اعتبار سے معجز اور معنی کے اعتبار سے معجز۔ باطل اس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا۔ حکیم و حمید رب کی طرف سے اتارا گیا ہے۔

بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (۴)

خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا ہے پھر بھی ان کی اکثریت نے منہ پھیر لیا اور وہ سنتے ہی نہیں ۔

اس بیان و وضاحت کو ذی علم سمجھ رہے ہیں۔ یہ ایک طرف مؤمنوں کو بشارت دیتا ہے۔ دوسری جانب مجرموں کو دھمکاتا ہے۔ کفار کو ڈراتا ہے۔ باوجود ان خوبیوں کے پھر بھی اکثر قریشی منہ پھیرے ہوئے اور کانوں میں روئی دیئے بہرے ہوئے ہیں ،

وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ (۵)

اور انہوں نے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں بلا رہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے

اور ہم میں اور تجھ میں ایک حجاب ہے، اچھا تو اب اپنا کام کئے جا ہم بھی یقیناً کام کرنے والے ہیں

پھر مزید ڈھٹائی دیکھو کہ خود کہتے ہیں کہ تیری پکار سننے میں ہم بہرے ہیں۔ تیرے اور ہمارے درمیان آڑ ہیں۔ تیری باتیں نہ ہماری سمجھ میں آئیں نہ عقل میں سمائیں۔ جا تو اپنے طریقے پر عمل کرتا چلا جا۔ ہم اپنا طریقہ کار ہرگز نہ چھوڑیں گے۔ ناممکن ہے کہ ہم تیری مان لیں۔

مسند عبد بن حمید میں حضرت جابر بن عبداللہ سے منقول ہے:

 ایک دن قریشیوں نے جمع ہو کر آپس میں مشاورت کی کہ جادو کہانت اور شعرو شاعری میں جو سب سے زیادہ ہو اسے ساتھ لے کر اس شخص کے پاس چلیں۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) جس نے ہماری جمعیت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے کام میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالنا شروع کر دیا ہے وہ اس سے مناظرہ کرے اور اسے ہرا دے اور لاجواب کر دے

 سب نے کہا کہ ایسا شخص تو ہم میں بجز عتبہ بن ربیعہ کے اور کوئی نہیں۔ چنانچہ یہ سب مل کر عتبہ کے پاس آئے اور اپنی متفقہ خواہش ظاہر کی۔ اس نے قوم کی بات رکھ لی اور تیار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آکر کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتا تو اچھا ہے یا عبد اللہ؟ (یعنی آپ کے والد صاحب)

آپ ﷺنے کوئی جواب نہ دیا۔

 اس نے دوسرا سوال کیا کہ تو اچھا ہے یا تیرا دادا عبد المطلب؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بھی خاموش رہے۔

 وہ کہنے لگا سن اگر تو اپنے تئیں دادوں کو اچھا سمجھتا ہے تب تو تمہیں معلوم ہے وہ انہیں معبودوں کو پوجتے رہے جن کو ہم پوجتے ہیں اور جن کی تو عیب گیری کرتا رہتا ہے اور اگر تو اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھتا ہے تو ہم سے بات کر ہم بھی تیری باتیں سنیں۔ قسم اللہ کی دنیا میں کوئی انسان اپنی قوم کیلئے تجھ سے زیادہ ضرر رساں پیدا نہیں ہوا۔ تو نے ہماری شیرازہ بندی کو توڑ دیا۔ تو نے ہمارے اتفاق کو نفاق سے بدل دیا۔ تو نے ہمارے دین کو عیب دار بتایا اور اس میں برائی نکالی۔ تو نے سارے عرب میں ہمیں بدنام اور رسوا کر دیا۔ آج ہر جگہ یہی تذکرہ ہے کہ قریشیوں میں ایک جادوگر ہے۔ قریشیوں میں کاہن ہے۔ اب تو یہی ایک بات باقی رہ گئی ہے کہ ہم میں آپس میں سر پھٹول ہو ، ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار لگا کر آ جائیں اور یونہی لڑا بھڑا کر تو ہم سب کو فنا کر دینا چاہتا ہے ،

سن! اگر تجھے مال کی خواہش ہے تو لے ہم سب مل کر تجھے اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ عرب میں تیرے برابر کوئی اور تونگر نہ نکلے۔ اور تجھے عورتوں کی خواہش ہے کہ تو ہم میں سے جس کی بیٹی تجھے پسند ہو تو بتا ہم ایک چھوڑ دس دس شادیاں تیری کرا دیتے ہیں۔

 یہ سب کچھ کہہ کر اب اس نے ذرا سانس لیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس کہہ چکے؟

 اس نے کہا ہاں!

آپﷺ نے فرمایا اب میری سنو! چنانچہ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اسی سورت کی تلاوت شروع کی اور تقریباً ڈیڑھ رکوع  مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ تک پڑھا

 اتنا سن کر عتبہ بول پڑا بس کیجئے آپ کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں؟

 آپ نے فرمایا نہیں۔

 اب یہ یہاں سے اٹھ کر چل دیا قریش کا مجمع اس کا منتظر تھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی پوچھا کہو کیا بات رہی؟

 عتبہ نے کہا سنو تم سب مل کر جو کچھ اسے کہہ سکتے تھے میں نے اکیلے ہی وہ سب کچھ کہہ ڈالا۔ انہوں نے کہا پھر اس نے کچھ جواب بھی دیا کہا ہاں جواب تو دیا لیکن باللہ میں تو ایک حرف بھی اس کا سمجھ نہیں سکا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ انہوں نے ہم سب کو عذاب آسمانی سے ڈرایا ہے جو عذاب قوم عاد اور قوم ثمود پر آیا تھا

 انہوں نے کہا تجھے اللہ کی مار ایک شخص عربی زبان میں جو تیری اپنی زبان ہے تجھ سے کلام کر رہا ہے اور تو کہتا ہے میں سمجھا ہی نہیں کہ اس نے کیا کہا؟

عتبہ نے جواب دیا کہ میں سچ کہتا ہوں بجز ذکر عذاب کے میں کچھ نہیں سمجھا۔

بغوی بھی اس روایت کو لائے ہیں اس میں یہ بھی ہے :

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو عتبہ نے آپ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ کو قسمیں دینے لگا اور رشتے داری یاد دلانے لگا۔ اور یہاں سے الٹے پاؤں واپس جا کر گھر میں بیٹھا۔ اور قریشیوں کی بیٹھک میں آنا جانا ترک کر دیا۔

 اس پر ابوجہل نے کہا کہ قریشیو! میرا خیال تو یہ ہے کہ عتبہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھک کیا اور وہاں کے کھانے پینے میں للچا گیا ہے وہ حاجت مند تھا اچھا تم میرے ساتھ ہو لو میں اس کے پاس چلتا ہوں۔ اسے ٹھیک کرلوں گا۔وہاں جا کر ابوجہل نے کہا عتبہ تم نے جو ہمارے پاس آنا جانا چھوڑا اس کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی معلوم ہوتی ہے کہ تجھے اس کا دستر خوان پسند آ گیا اور تو بھی اسی کی طرف جھک گیا ہے۔

 حاجب مندی بری چیز ہے میرا خیال ہے کہ ہم آپس میں چندہ کرکے تیری حالت ٹھیک کر دیں۔ تاکہ اس مصیبت اور ذلت سے تو چھوٹ جائے۔ اس سے ڈرنے کی اور نئے مذہب کی تجھے ضرورت نہ رہے۔

اس پر عتبہ بہت بگڑا اور کہنے لگا مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا غرض ہے؟ اللہ کی قسم کی اب اس سے کبھی بات تک نہ کروں گا۔ اور تم میری نسبت ایسے ذلیل خیالات ظاہر کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ قریش میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مالدار نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ میں تم سب کو کہنے سے ان کے پاس گیا سارا قصہ کہہ سنایا بہت باتیں کہیں میرے جواب میں پھر جو کلام اس نے پڑھا واللہ نہ تو وہ شعر تھا نہ کہانت کا کلام تھا نہ جادو وغیرہ تھا۔ وہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے آیت فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ تک پہنچے تو میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں رشتے ناتے یاد دلانے لگا کہ للہ رک جاؤ مجھے تو خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں اسی وقت ہم پر وہ عذاب آ نہ جائے اور یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ محمد جھوٹے نہیں۔

 سیرۃ ابن اسحاق میں یہ واقعہ دوسرے طریقے پر ہے:

 اس میں ہے کہ قریشیوں کی مجلس ایک مرتبہ جمع تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ قریش سے کہنے لگا کہ اگر تم سب کا مشورہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں انہیں کچھ سمجھاؤں اور کچھ لالچ دوں اگر وہ کسی بات کو قبول کرلیں تو ہم انہیں دے دیں اور انہیں ان کے کام سے روک دیں۔

یہ واقعہ اس وقت کاہے کہ حضرت حمزہ ؓمسلمان ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی تعداد معقول ہو گئی تھی اور روز افزوں ہوتی جاتی تھی۔

 سب قریشی اس پر رضامند ہوئے۔ یہ حضور کے پاس آیا اور کہنے لگا برادر زادے تم عالی نسب ہو تم ہم میں سے ہو ہماری آنکھوں کے تارے اور ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہو۔ افسوس کہ تم اپنی قوم کے پاس ایک عجیب و غریب چیز لائے ہو تم نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی۔ تم نے ان کے عقل مندوں کو بیوقوف قرار دیا۔ تم نے ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی۔ تم نے ان کے دین کو برا کہنا شروع کیا۔ تم نے ان کے بڑے بوڑھوں کو کافر بنایا اب سن لو آج میں آپ کے پاس ایک آخری اور انتہائی فیصلے کیلئے آیا ہوں ، میں بہت سی صورتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو آپ کو پسند ہو قبول کیجئے۔ للہ اس فتنے کو ختم کر دیجئے۔

 آپ ﷺنے فرمایا جو تمہیں کہنا ہو کہو میں سن رہا ہوں

 اس نے کہا سنو اگر تمہارا ارادہ اس چال سے مال کے جمع کرنے کا ہے تو ہم سب مل کر تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ تم سے بڑھ کر مالدار سارے قریش میں کوئی نہ ہو۔ اور اگر آپ کا ارادہ اس سے اپنی سرداری کا ہے تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا سردار تسلیم کر لیتے ہیں۔ اور اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم ملک آپ کو سونپ کر خود رعایا بننے کیلئے بھی تیار ہیں ، اور اگر آپ کو کوئی جن وغیرہ کا اثر ہے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے بہتر سے بہتر طبیب اور جھاڑ پھونک کرنے والے مہیا کرکے آپ کا علاج کراتے ہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے کہ بعض مرتبہ تابع جن اپنے عامل پر غالب آ جاتا ہے تو اسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے۔

 اب عتبہ خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا اپنی سب بات کہہ چکے؟

 کہا ہاں فرمایا اب میری سنو۔ وہ متوجہ ہو گیا

 آپ ﷺنے بسم اللہ پڑھ کر اس سورت کی تلاوت شرع کی عتبہ با ادب سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا فرمایا ابو الولید میں کہہ چکا اب تجھے اختیار ہے۔

عتبہ یہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اس کے چہرے کو دیکھتے ہی ہر ایک کہنے لگا کہ عتبہ کا حال بدل گیا۔ اس سے پوچھا کہو کیا بات رہی؟

 اس نے کہا میں نے تو ایسا کلام سنا ہے جو واللہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا۔ واللہ! نہ تو وہ جادو ہے نہ شعر کوئی ہے نہ کاہنوں کا کلام ہے۔ سنو قریشیو! میری مان لو اور میری اس جچی تلی بات کو قبول کر لو۔ اسے اس کے خیالات پر چھوڑ دو نہ اس کی مخالفت کرو نہ اتفاق۔ اس کی مخالفت میں سارا عرب کافی ہے اور جو یہ کہتا ہے اس میں تمام عرب اس کا مخالف ہے وہ اپنی تمام طاقت اس کے مقابلہ میں صرف کر رہا ہے یا تو وہ اس پر غالب آ جائیں گے اگر وہ اس پر غالب آ گئے تو تم سستے چھوٹے یا یہ ان پر غالب آیا تو اس کا ملک تمہارا ہی ملک کہلائے گا اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور سب سے زیادہ اس کے نزدیک مقبول تم ہی ہو گے۔

 یہ سن کر قریشیوں نے کہا ابو الولید قسم اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر جادو کر دیا۔

 اس نے جواب دیا میری اپنی جو رائے تھی آزادی سے کہہ چکا ، اب تمہیں اپنے فعل کا اختیار ہے۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (۶)

آپ کہہ دیجئے! کہ میں تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے

سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں کے لئے (بڑی ہی) خرابی ہے۔‏

اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ان جھٹلانے والے مشرکوں کے سامنے اعلان کر دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ مجھے بذریعہ وحی الہٰی کے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود ایک اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تم جو متفرق اور کئی ایک معبود بنائے بیٹھے ہو یہ طریقہ سراسر گمراہی والا ہے۔ تم ساری عبادتیں اسی ایک اللہ کیلئے بجا لاؤ۔ اور ٹھیک اسی طرح جس طرح تمہیں اس کے رسول سے معلوم ہو۔ اور اپنے اگلے گناہوں سے توبہ کرو۔ ان کی معافی طلب کرو۔ یقین مانو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں ،

الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (۷)

جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے بھی منکر ہی رہتے ہیں۔‏

جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔ یعنی بقول ابن عباسؓ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتے۔

 عکرمہؒ بھی یہی فرماتے ہیں۔

 قرآن کریم میں ایک جگہ ہے:

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّـهَا ـوَقَدْ خَابَ مَن دَسَّـهَا (۹۱:۹،۱۰)

اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔ اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا۔

 اور آیت میں فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ـوَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (۸۷:۱۴،۱۵)

اس نے نجات حاصل کرلی جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی۔

 اور جگہ ارشاد ہے:

هَل لَّكَ إِلَى أَن تَزَكَّى (۷۹:۱۸)

کیا تجھے پاک ہونے کا خیال ہے؟

 ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بےہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے ، اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ نہ دینے سے توحید کا نہ ماننا مراد ہے۔

مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت سے پاک کر دیتی ہے۔ اور زیادتی اور برکت اور کثرت مال کا باعث بنتی ہے۔ اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کی توفیق ہوتی ہے۔

لیکن امام سعدی ، ماویہ بن قرہ ، قتادہ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے امام ابن جریر بھی اسی کو مختار کہتے ہیں۔ لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ اس لئے کہ زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مدینے میں جاکر ہجرت کے دوسرے سال۔ اور یہ آیت اتری ہے مکے شریف میں۔

زیادہ سے زیادہ اس تفسیر کو مان کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدقے اور زکوٰۃ کی اصل کا حکم تو نبوت کی ابتدا میں ہی تھا ، جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَءَاتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ (۶:۱۴۱)

جس دن کھیت کاٹو اس کا حق دے دیا کرو۔

 ہاں وہ زکوٰۃ جس کا نصاب اور جس کی مقدار من جانب اللہ مقرر ہے وہ مدینے میں مقرر ہوئی۔

یہ قول ایسا ہے جس سے دونوں باتوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔

 خود نماز کو دیکھئے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء نبوت میں ہی فرض ہو چکی تھی۔ لیکن معراج والی رات ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پانچوں نمازیں باقاعدہ شروط و ارکان کے ساتھ مقرر ہو گئیں۔ اور رفتہ رفتہ اس کے تمام متعلقات پورے کر دیئے گئے واللہ اعلم ،

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (۸)

بیشک جو لوگ ایمان لائیں اور بھلے کام کریں ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔

اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے۔ کہ اللہ کے ماننے والوں اور نبی کے اطاعت گزاروں کیلئے وہ اجر و ثواب ہے جو دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔

جیسے اور جگہ ہے:

مَّاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا  (۱۸:۳)

وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں

اور فرماتا ہے:

عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (۱۱:۱۰۸)

انہیں جو انعام دیا جائے گا وہ نہ ٹوٹنے والا اور مسلسل ہے۔

سدی کہتے ہیں گویا وہ ان کا حق ہے جو انہیں دیا گیا نہ کہ بطور احسان ہے۔

 لیکن بعض ائمہ نے اس کی تردید کی ہے۔ کیونکہ اہل جنت پر بھی اللہ کا احسان یقیناًہے۔

خود قرآن میں ہے:

بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ (۴۹:۱۷)

بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی ہدایت کرتا ہے۔

جنتیوں کا قول ہے:

فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ  (۵۲:۲۷)

پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور آگ کے عذاب سے بچا لیا۔

 رسول کریم علیہ افضل اصلوۃ والتسلیم فرماتے ہیں:

 مگر یہ کہ مجھے اپنی رحمت میں لے لے اور اپنے فضل و احسان میں۔

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (۹)

آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی

سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔‏

ہر چیز کا خالق ہرچیز کا مالک ہرچیز پر حاکم ہرچیز پر قادر صرف اللہ ہے۔ پس عبادتیں بھی صرف اسی کی کرنی چاہئیں۔ اس نے زمین جیسی وسیع مخلوق کو اپنی کمال قدرت سے صرف دو دن میں پیدا کر دیا ہے۔ تمہیں نہ اس کے ساتھ کفر کرنا چاہے نہ شرک۔ جس طرح سب کا پیدا کرنے والا وہی ایک ہے۔ ٹھیک اسی طرح سب کا پالنے والا بھی وہی ایک ہے۔

یہ تفصیل یاد رہے کہ اور آیتوں میں زمین و آسمان کا چھ دن میں پیدا کرنا بیان ہوا ہے۔ اور یہاں اس کی پیدائش کا وقت الگ بیان ہو رہا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ پہلے زمین بنائی گئی۔ عمارت کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے بنیادیں اور نیچے کا حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر اوپر کا حصہ اور چھت بنائی جاتی ہے۔

چنانچہ کلام اللہ شریف کی ایک اور آیت میں ہے:

هُوَ الَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى الاٌّرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَآءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَـوَاتٍ  (۲:۲۹)

اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں جو کچھ ہے پیدا کرکے پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی اور انہیں ٹھیک سات آسمان بنا دیئے۔

 ہاں سورہ نازعات میں وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا (۷۹:۳۰) ہے پہلے آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے کہ زمین کو اس کے بعد بچھایا۔ اس سے مراد زمین میں سے پانی چارہ نکالنا اور پہاڑوں کا گاڑنا ہے جیسے کہ اس کے بعد کا بیان ہے۔ یعنی پیدا پہلے زمین کی گئی پھر آسمان پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا۔ لہذا دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا کی بعض آیتوں میں مجھے کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے

چنانچہ ایک آیت میں ہے فَلاَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلاَ يَتَسَآءَلُونَ (۲۳:۱۰۱)یعنی قیامت کے دن آپس کے نسب نہ ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کرے گا۔ دوسری آیت میں ہے وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَآءَلُونَ  (۳۷:۲۷)بعض آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھ گچھ کریں گے۔

 ایک آیت میں ہے وَلاَ يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً (۴:۴۲)اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں۔دوسری آیت میں ہے کہ مشرکین کہیں گےوَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (۶:۲۳)اللہ کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا۔

 ایک آیت میں ہے زمین کو آسمان کے بعد بچھایا وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا (۷۹:۳۰) دوسری آیت قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ (۴۱:۹)میں پہلے زمین کی پیدائش پھر آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے۔

 ایک تو ان آیتوں کا صحیح مطلب بتائے جس سے اختلاف اٹھ جائے۔

دوسرے یہ جو فرمایا ہے وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً(۴:۲۳)،عَزِيزاً حَكِيماً (۴:۵۶)،،  سَمِيعاً بَصِيراً (۴:۵۸) تو کیا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا تھا؟

 اس کے جواب میں آپ نے فرمایا :

 جن دو آیتوں میں سے ایک میں آپس کا سوال جواب ہے اور ایک میں ان کا انکار ہے۔ یہ دو وقت ہیں صور میں دو نفخے پھونکے جائیں گے ایک کے بعد آپس کی پوچھ گچھ کچھ نہ ہوگی ایک کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے سوالات ہوں گے۔

جن دو دوسری آیتوں میں ایک میں بات کے نہ چھپانے کا اور ایک میں چھپانے کا ذکر ہے یہ بھی دو موقعے ہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحدوں کے گناہ بخش دیئے گئے تو کہنے لگے کہ ہم مشرک نہ تھے۔ لیکن جب منہ پر مہر لگ جائیں گی اور اعضاء بدن گواہی دینے لگیں گے تو اب کچھ بھی نہ چھپے گا۔ اور خود اپنے کرتوت کے اقراری ہو جائیں گے اور کہنے لگیں گے کاش کے ہم زمین کے برابر کر دیئے جاتے۔

 آسمان و زمین کی پیدائش کی ترتیب بیان میں بھی دراصل کچھ اختلاف نہیں پہلے دو دن میں زمین بنائی گئی پھر آسمان کو دو دن میں بنایا گیا پھر زمین کی چیزیں پانی ، چارہ ، پہاڑ ، کنکر ، ریت ، جمادات ، ٹیلے وغیرہ دو دن میں پیدا کئے یہی معنی لفظ دَحَـهَا کے ہیں۔

پس زمین کی پوری پیدائش چار دن میں ہوئی۔ اور دو دن میں آسمان۔

 اور جو نام اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مقرر کئے ہیں ان کا بیان فرمایا ہے وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔

 اللہ کا کوئی ارادہ پورا ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ پس قرآن میں ہرگز اختلاف نہیں۔ اس کا ایک ایک لفظ اللہ کی طرف سے ہے ،

 زمین کو اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کیا ہے یعنی اتوار اور پیر کے دن ، اور زمین میں زمین کے اوپر ہی پہاڑ بنا دیئے اور زمین کو اس نے بابرکت بنایا ، تم اس میں بیج بوتے ہو درخت اور پھل وغیرہ اس میں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور اہل زمین کو جن چیزوں کی احتیاج ہے وہ اسی میں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں زمین کی یہ درستگی منگل بدھ کے دن ہوئی۔ چار دن میں زمین کی پیدائش ختم ہوئی۔ جو لوگ اس کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے انہیں پورا جواب مل گیا۔ زمین کے ہر حصے میں اس نے وہ چیز مہیا کر دی جو وہاں والوں کے لائق تھی۔ مثلاً عصب یمن میں۔ سابوری میں ابور میں۔ طیالسہ رے میں۔ یہی مطلب آیت کے آخری جملے کا ہے۔

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کی جو حاجت تھی اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے مہیا کر دی۔ اس معنی کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے :

وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (۱۴:۳۴)

تم نے جو جو مانگا اللہ نے تمہیں دیا۔

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (۱۰)

اور اس نے زمین میں اسکے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی

(صرف) چار دن میں ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر ۔‏

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (۱۱)

پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے

دونوں نے عرض کیا بخوشی حاضر ہیں۔‏

پھر جناب باری نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی وہ دھویں کی شکل میں تھا ، زمین کے پیدا کئے جانے کے وقت پانی کے جو بخارات اٹھے تھے۔ اب دونوں سے فرمایا کہ یا تو میرے حکم کو مانو اور جو میں کہتا ہوں ہو جاؤ خوشی سے یا ناخوشی سے ،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 مثلاً آسمانوں کو حکم ہوا کہ سورج چاند ستارے طلوع کرے زمین سے فرمایا اپنی نہریں جاری کر اپنے پھل اگا وغیرہ۔ دونوں فرمانبرداری کیلئے راضی خوشی تیار ہو گئے۔ اور عرض کیا کہ ہم معہ اس تمام مخلوق کے جسے تو رچانے والا ہے تابع فرمان ہے۔

 اور کہا گیا ہے کہ انہیں قائم مقام کلام کرنے والوں کیلئے کیا گیا

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کے اس حصے نے کلام کیا جہاں کعبہ بنایا گیا ہے اور آسمان کے اس حصے نے کلام کیا جو ٹھیک اس کے اوپر ہے۔

 واللہ اعلم۔

 امام حسن بصری ؓفرماتے ہیں:

 اگر آسمان و زمین اطاعت گزاری کا اقرار نہ کرتے تو انہیں سزا ہوتی جس کا احساس بھی انہیں ہوتا۔ پس دو دن میں ساتوں آسمان اس نے بنا دیئے یعنی جمعرات اور جمعہ کے دن۔ اور ہر آسمان میں اس نے جو جو چیزیں اور جیسے جیسے فرشتے مقرر کرنے چاہے مقرر فرما دیئے اور دنیا کے آسمان کو اس نے ستاروں سے مزین کر دیا جو زمین پر چمکتے رہتے ہیں اور جو ان شیاطین کی نگہبانی کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کیلئے اوپر چڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ تدبیرو اندازہ اس اللہ کا قائم کردہ ہے جو سب پر غالب ہے جو کائنات کے ایک ایک چپے کی ہر چھپی کھلی حرکت کو جانتا ہے۔

فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ

پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی

 اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی

ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۱۲)

یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے۔‏

ابن جریر کی روایت میں ہے:

 یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان و زمین کی پیدائش کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

 اتوار اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور جتنے نفعات اس میں ہیں اور بدھ کے دن درختوں کو پانی کو شہروں کو اور آبادی اور ویرانے کو پیدا کیا تو یہ چار دن ہوئے۔

 اسے بیان فرما کر پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا :

جمعرات والے دن آسمان کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن ستاروں کو اور سورج چاند کو اور فرشتوں کو پیدا کیا تین ساعت کے باقی رہنے تک۔

 پھر دوسری ساعت میں ہرچیز میں آفت ڈالی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

 اور تیسری میں آدم کو پیدا کیا انہیں جنت میں بسایا ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اور آخری ساعت میں وہاں سے نکال دیا۔

یہودیوں نے کہا اچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

 فرمایا پھر عرش پر مستویٰ ہو گیا

 انہوں نے کہا سب تو ٹھیک کہا لیکن آخری بات یہ کہی کہ پھر آرام حاصل کیا۔

 اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت اتری:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ـ فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ (۵۰:۳۸،۳۹)

ہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی۔ تو ان کی باتوں پر صبر کر۔

یہ حدیث غریب ہے۔

 اور روایت میں ہے :

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا کیا اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن رکھا درخت پیر والے دن پیدا کئے مکروہات کو منگل کے دن نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانوروں کو زمین میں جمعرات کے دن پھیلا دیا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت حضرت آدم کو پیدا کیا اور کل مخلوقات پوری ہوئی۔

مسلم اور نسائی میں یہ حدیث ہے لیکن یہ بھی غرائب صحیح میں سے ہے۔ اور امام بخاری نے تاریخ میں اسے معلل بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بعض راویوں نے حضرت ابوہریرہ ؓسے اور انہوں نے اسے کعب احبار سے روایت کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ (۱۳)

اب یہ روگردان ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک (عذاب) سے ڈراتا ہوں جو مثل عادیوں اور ثمودیوں کی کڑک کے ہوگی۔‏

حکم ہوتا ہے کہ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ کفر کر رہے ہیں آپ ان سے فرما دیجئے کہ میری تعلیم سے رو گردانی تمہیں کسی نیک نتیجے پر نہیں پہنچائے گی۔ یاد رکھو کہ جس طرح انبیاء کی مخالف اُمتیں تم سے پہلے زیرو زبر کر دی گئیں کہیں تمہاری شامت اعمال بھی تمہیں انہی میں سے نہ کر دے۔

إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ

ان کے پاس جب ان کے آگے پیچھے سے پیغمبر آئے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو

قوم عاد اور قوم ثمود کے اور ان جیسے اوروں کے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ ان کے پاس پے درپے رسول آئے اس گاؤں میں اس گاؤں میں اس بستی میں اس بستی میں اللہ کے پیغمبر اللہ کی منادی کرتے پھرتے لیکن ان کی آنکھوں پر وہ چربی چڑھی ہوئی تھی اور دماغ میں وہ گند ٹھسا ہوا تھا کہ کسی ایک کو بھی نہ مانا۔

قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (۱۴)

 تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ ہم تو تمہاری رسالت کے بالکل منکر ہیں ۔

اپنے سامنے اللہ والوں کی بہتری اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدحالی دیکھتے تھے لیکن پھر بھی تکذیب سے باز نہ آئے۔ حجت بازی اور کج بحثی سے نہ ہٹے اور کہنے لگے اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہوتا تو کسی اپنے فرشتے کو بھیجتا تم انسان ہو کر رسول کریم بن بیٹھے؟

 ہم تو اسے ہرگز باور نہ کریں گے؟

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ

اب قوم عاد نے تو بےوجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے ہم سے زور آور کون ہے؟

قوم عاد نے زمین میں فساد پھیلا دیا ان کی سرکشی ان کا غرور حد کو پہنچ گیا۔ ان کی لا ابالیاں اور بےپرواہیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ پکار اٹھے ہم سے زیادہ زور آور کوئی نہیں۔ ہم طاقتور مضبوط اور ٹھوس ہیں اللہ کے عذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (۱۵)

کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے اسے پیدا کیا وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے، وہ (آخر تک) ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے۔‏

یہ بھی خیال نہ رہا کہ ہمارا پیدا کرنے والا تو اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا اندازہ بھی ہم نہیں کر سکتے۔

 جیسے فرمان ہے:

وَالسَّمَآءَ بَنَيْنَـهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (۵۱:۴۷)

ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں ،

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ

بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز تند آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی

پس ان کے اس تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے پر اور اللہ کی نافرمانی کرنے اور رب کی آیتوں کے انکار پر ان پر عذاب الہٰی آ پڑا۔ تیز و تند ، سرد ، دہشت ناک ، سرسراتی ہوئی سخت آندھی آئی۔ تاکہ ان کا غرور ٹوٹ جائے اور ہوا سے وہ تباہ کر دیئے جائیں۔

 صَرْصَرًا کہتے ہیں وہ ہوا جس میں آواز پائی جائے۔

 مشرق کی طرف ایک نہر ہے جو بہت زور سے آواز کے ساتھ بہتی رہتی ہے اس لئے اسے بھی عرب صرصر کہتے ہیں۔

 نَحِسَاتٍ سے مراد پے درپے ، ایک دم ،

 مسلسل ، سات راتیں اور آٹھ دن تک یہی ہوائیں رہیں۔ وہ مصیبت جو ان پر مصیبت والے دن آئی وہ پھر آٹھ دن تک نہ ہٹی نہ ٹلی۔ جب تک ان میں سے ایک ایک کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دیا اور ان کا بیج ختم نہ کر دیا۔

لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى ۖ وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ (۱۶)

کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں،اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والاہے

اور وہ مدد نہیں کئے جائیں گے۔‏

ساتھ ہی آخرت کے عذابوں کا لقمہ بنے جن سے زیادہ ذلت و توہین کی کوئی سزا نہیں۔ نہ دنیا میں کوئی ان کی امداد کو پہنچا نہ آخرت میں کوئی مدد کیلئے اٹھے گا۔ بےیارو مددگار رہ گئے ،

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۱۷)

رہے قوم ثمود، سو ہم نے ان کی بھی راہبری کی پھر بھی انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی جس بنا پر انہیں (سراپا) ذلت کے عذاب، کی کڑک نے ان کے کرتوتوں کے باعث پکڑ لیا۔

ثمودیوں کی بھی ہم نے رہنمائی کی۔ ہدایت کی ان پر وضاحت کر دی انہیں بھلائی کی دعوت دی۔ اللہ کے نبی حضرت صالحؑ نے ان پر حق ظاہر کر دیا لیکن انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی۔ اور نبی اللہ کی سچائی پر جس اونٹنی کو اللہ نے علامت بنایا تھا اس کی کوچیں کاٹ دیں۔ پس ان پر بھی عذاب اللہ برس پڑا۔ ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگاڑ اور دل پاش پاش کر دینے والے زلزلے نے ذلت و توہین کے ساتھ ان کے کرتوتوں کا بدلہ لیا۔

وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (۱۸)

اور (ہاں) ایمان دار اور پارساؤں کو ہم نے (بال بال) بچا لیا۔‏

 ان میں جتنے وہ لوگ تھے جنہیں اللہ کی ذات پر ایمان تھا نبیوں کی تصدیق کرتے تھے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے انہیں ہم نے بچا لیا انہیں ذرا سا بھی ضرر نہ پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذلت و توہین سے اور عذاب اللہ سے نجات پالی۔

وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (۱۹)

اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان (سب) کو جمع کر دیا جائے گا۔

یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے

 جیسے فرمان ہے:

وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْداً (۲۹:۸۶)

گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔

حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۲۰)

یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس آجائیں گے ان پر ان کے کان پر اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گی

انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا ،

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا ۖ

یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی

اس وقت یہ اپنے اعضا کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے۔ کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟

قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۱)

وہ جواب دیں گی ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہرچیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے،

اسی نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔

وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہرچیز کو زبان عطا فرمائی ہے۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کر سکتا ہے؟

بزار میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے؟

 صحابہ نے کہا فرمایئے کیا وجہ ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا:

 قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا۔ کہے گا کہ اے اللہ کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا؟

 اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا۔

 اللہ فرمائے گا کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے؟

لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو۔

 جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا۔

(مسلم نسائی وغیرہ)

وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ

اور تم (اپنی بد اعمالیوں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی

وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ (۲۲)

ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بےخبر ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں:

 کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا

فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا؟

یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضا بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی ، (ابن ابی حاتم)

ابو یعلی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں۔

یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں۔

فرمائے گا یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں

کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں۔اللہ ان سے قسم دلوائے گا ، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا۔

 سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کر دیا جائے گا۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہوگا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہوگی نہ عذر معذرت کرنے کی۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہو جائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہو جائے گا۔ ابن ابی حاتم

ابن ابی حاتم میں رافع ابو الحسن سے مروی ہے :

 اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہو جائے گی کہ بولا نہ جائے گا۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہوگا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتا دے گا کان، آنکھ ، کھال ، شرم گاہ ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ۔

 اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورہ یٰسین کی آیت الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ (۳۶:۶۵)کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔

 ابن ابی حاتم میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں:

 جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے پوچھا تم نے حبشہ کی سرزمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لئے ہوئے آ رہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا۔

وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔

یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے؟

 یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے ،

جب یہ اپنے اعضا کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں ، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کر دیا اور آج کے دن تم برباد ہوگئے۔

 مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہؓ سے مروی ہے:

 میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے؟

دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا۔

دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہوگا

 میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ ، نازل ہوئی۔

 عبد الرزق میں ہے  منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے۔

وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۲۳)

تمہاری اس بد گمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہوگئے۔‏

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے:

 میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔

حضرت حسن اتنا فرما کر کچھ تامل کرکے فرمانے لگے جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے:

 تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہہ و بالا کر دیا۔

پھر یہی آیت آپ ﷺنے پڑھی ،

فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ۖ وَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ (۲۴)

اب اگر یہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔اور اگر یہ(عذر و) معافی کے خواستگار ہوں تو بھی (معذور و) معاف نہیں رکھے جائیں گے

 آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بےصبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند

جیسے اور جگہ ہے :

قَالُواْ رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْماً ضَآلِّينَ ـرَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَـلِمُونَ ـقَالَ اخْسَئُواْ فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ (۲۳:۱۰۶،۱۰۸)

جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بد بختی چھا گئی۔ یقینا ًہم بےراہ تھے۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا۔

لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ اب یہ منصوبے بےسود ہیں۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی۔

وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ

اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے تھے

وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ (۲۵)

اور ان کے حق میں بھی اللہ کا قول ُامتوں کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی گزر چکی ہیں۔

 یقیناًوہ زیاں کار ثابت ہوئے۔‏

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مشرکین کو اس نے گمراہ کر دیا ہے اور یہ اس کی مشیت اور قدرت سے ہے۔ وہ اپنے تمام افعال میں حکمت والا ہے۔ اس نے کچھ جن و انس ایسے ان کے ساتھ کر دیئے تھے۔ جنہوں نے ان کے بداعمال انہیں اچھی صورت میں دکھائے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ دور ماضی کے لحاظ سے اور آئندہ آنے والے زمانے کے لحاظ سے بھی ان کے اعمال اچھے ہی ہیں۔

 جیسے اور آیتیں ہے:

وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ـ،وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ (۴۳:۳۶،۳۷)

اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے۔

وہ انہیں راہ سے روکتے ہیں اور یہ اس خیال میں رہتے ہیں کہ راہ یافتہ ہیں۔

ان پر کلمہ عذاب صادق آ گیا۔ جیسے ان لوگوں پر جو ان سے پہلے جیسے تھے۔ نقصان اور گھاٹے میں یہ اور وہ یکساں ہوگئے ،

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (۲۶)

اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بےہودہ گوئی کرو کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ

کفار نے آپس میں مشورہ کرکے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ کلام اللہ کو نہیں مانیں گے نہ ہی اس کے احکام کی پیروی کریں گے۔ بلکہ ایک دوسرے سے کہہ رکھا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو شور و غل کرو اور اسے نہ سنو۔ تالیاں بجاؤ سیٹیاں بجاؤ آوازیں نکالو۔ چنانچہ قریشی یہی کرتے تھے۔ عیب جوئی کرتے تھے انکار کرتے تھے۔ دشمنی کرتے تھے اور اسے اپنے غلبہ کا باعث جانتے تھے۔ یہی حال ہر جاہل کافر کا ہے کہ اسے قرآن کا سننا اچھا نہیں لگتا۔

 اسی لئے اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو حکم فرمایا:

وَإِذَا قُرِىءَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۷:۲۰۴)

جب قرآن پڑھا جائے تو تم سنو اور چب رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ،

فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (۲۷)

پس یقیناً ہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ اور انہیں ان کے بدترین اعمال کا بدلہ (ضرور) ضرور دیں گے

ان کافروں کو دھمکایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سے مخالفت کرنے کی بناء پر انہیں سخت سزا دی جائے گی۔ اور ان کی بدعملی کا مزہ انہیں ضرور چکھایا جائے گا ،

ذَلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ ۖ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (۲۸)

اللہ کے دشمنوں کی سزا یہی دوزخ کی آگ ہے جس میں ان کا ہمیشگی کا گھر ہے (یہ) بدلہ ہے ہماری آیتوں سے انکار کرنے کا۔‏

ان اللہ کے دشمنوں کا بدلہ دوزخ کی آگ ہے۔ جس میں ان کیلئے ہمیشہ کا گھر ہے۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ،

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ (۲۹)

اور کافر لوگ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں جنوں انسانوں (کے وہ دونوں فریق) دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا ہے

(تاکہ) ہم انہیں اپنے قدموں تلے ڈال دیں تاکہ وہ جہنم میں سب سے نیچے (سخت عذاب میں) ہوجائیں۔

اس آیت کا مطلب حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ جن سے مراد ابلیس اور انس سے مراد حضرت آدمؑ کا وہ لڑکا ہے جس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا تھا۔

 اور روایت میں ہے:

 ابلیس تو ہر مشرک کو پکارے گا۔ اور حضرت آدمؑ کا یہ لڑکا ہر کبیرہ گناہ کرنے والے کو پکارے گا۔ پس ابلیس شرک کی طرف اور تمام گناہوں کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہے اور اول رسول حضرت آدمؑ کا یہ لڑکا جو اپنے بھائی کا قاتل ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:

 روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا گناہ حضرت آدمؑ کے اس پہلے فرزند پر بھی ہوتا ہے کیونکہ قتل بےجا کا شروع کرنے والا یہ ہے۔

 پس کفار قیامت کے دن جن و انس جو انہیں گمراہ کرنے والے تھے انہیں نیچے کے طبقے میں داخل کرانا چاہیں گے تاکہ انہیں سخت عذاب ہوں۔ وہ درک اسفل میں چلے جائیں اور ان سے زیادہ سزا بھگتیں۔

سورہ اعراف میں بھی یہ بیان گزر چکا ہے کہ یہ ماننے والے جن کی مانتے تھے ان کیلئے قیامت کے دن دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے جس پر کہا جائے گا :

قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ (۷:۳۸)

ہر ایک دوگنے عذاب میں ہی ہے۔ لیکن تم بےشعور ہو۔

یعنی ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق سزا ہو رہی ہے۔

جیسے اور آیت میں ہے:

الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَـهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يُفْسِدُونَ (۱۶:۸۸)

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم ان کے فساد کی وجہ سے عذاب پر عذاب دیں گے۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُو

 (واقعی) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے

جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الہٰی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی:

 بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کرکے پھر کفر کر لیا جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی۔ (نسائی)

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ نے فرمایا :

اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں۔

 ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ نے فرمایا تم نے اسے غلط سمجھایا۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کرکے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کونسی ہے؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ توحید اللہ پر تاعمر قائم رہنا۔

 حضرت فاروق اعظمؓ نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا :

واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔

حضرت قتادہؓ یہ دعا مانگا کرتے تھے:

 اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما۔

 استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص ہے۔

 حضرت ابو العالیہ نے کہا ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلایئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا :

زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا۔

 اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے؟

 تو آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (مسلم)

امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ،

ا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (۳۰)

ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو

ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بےخوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو۔ تمہارے اہل و عیال ، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں ۔

 تمہیں ہم خوش خبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں۔

حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مؤمن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں۔

یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے۔

حضرت ثابت جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا :

ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مؤمن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے۔ غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہوگا۔

 الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائیکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے ،

نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (۳۱)

تمہاری دنیاوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لئے (جنت میں موجود) ہے۔‏

ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے ، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں ، حشر میں ، میدان قیامت میں ، پل صراط پر ، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا۔ جو خواہش ہوگی پوری ہوگی ،

نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ (۳۲)

غفور و رحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔‏

 یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے۔

سعید بن مسیبؒ اور ابوہریرہؓ کی ملاقات ہوتی ہے تو حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے۔

 اس پر حضرت سعید نے پوچھا کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے؟

فرمایا ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی۔ جب سب جمع ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہوگا۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے ، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے۔

حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟

 آپﷺ نے فرمایا:

ہاں ہاں دیکھو گے۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا۔ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا؟

وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر؟

کہے گا ہاں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا۔

 یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لئے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو۔ پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہوگی۔ بلکہ انعام ہوگا۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہوگا۔

 اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ ترو تازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے۔

یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقینا ًہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے۔ (ترمذی وغیرہ)

مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے

صحابہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں

 آپ ﷺنے فرمایا اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مؤمن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے

اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے

 یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسناد ہیں۔

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۳۳)

اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں

فرماتا ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی؟

یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے۔

 یہ آیت عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں۔

 بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے :

قیامت کے دن مؤذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔

سنن میں ہے:

 امام ضامن ہے اور مؤذن امانتدار ہے

 اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور مؤذنوں کو بخشے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے حضرت سعد بن وقاصؓ فرماتے ہیں:

 اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو۔

 حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:

 اگر میں مؤذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی۔

 حضرت عمر سے منقول ہے:

 اگر میں مؤذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار مؤذنوں کی بخشش کی دعا مانگی۔ اس پر میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں آپ نے فرمایا :

ہاں! لیکن اے عمر ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ مؤذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں مؤذن ہیں ۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

 اس آیت میں بھی مؤذنوں کی تعریف ہے اس کا حی علی الصلوۃ کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے۔

 ابن عمر ؓاور عکرمہؒ فرماتے ہیں یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 دو اذانوں کے درمیان نماز ہے

 دو اذانوں کے درمیان نماز ہے

 دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے۔

 ایک حدیث میں ہے:

 اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی

صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے مؤذن غیر مؤذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے۔

 یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی۔ اس لئے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا حضرت بلال کو سکھاؤ۔ وہ بلند آواز والے ہیں۔

پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں مؤذن بھی شامل ہیں۔

حضرت حسن بصریؒ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں:

 یہی لوگ حبیب اللہ ہیں۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں،

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ

نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (۳۴)

برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔

بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بیحد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔

حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ تیرے بارے میں جوشخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں۔

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا،

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (۳۵)

اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا

اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:

 ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے درگزر کرلیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں،

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۳۶)

اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے

اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے:

أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِه

پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورہ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے:

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِض عَنِ الْجَـهِلِينَ ـ وَإِمَّا يَنَزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَـنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۷:۱۹۹:۲۰۰)

 اور سورہ مؤمنین کی آیت:

ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ـ وَقُلْ رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيـطِينِ ـ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ (۲۳:۹۶،۹۸)

میں حکم ہوا ہے کہ درگزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو وغیرہ۔

وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ

اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو اپنی عظیم الشان قدرت اور بےمثال طاقت دکھاتا ہے کہ وہ جو کرنا چاہے کر ڈالتا ہے سورج چاند دن رات اس کی قدرت کاملہ کے نشانات ہیں۔ رات کو اس کے اندھیروں سمیت دن کو اس کے اجالوں سمیت اس نے بنایا ہے ۔ کیسے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں؟

سورج کو روشنی اور چمکتے چاند کو اور اس کی نورانیت کو دیکھ لو ان کی بھی منزلیں اور آسمان مقرر ہیں۔ ان کے طلوع و غروب سے دن رات کا فرق ہو جاتا ہے۔ مہینے اور برسوں کی گنتی معلوم ہو جاتی ہے جس سے عبادات معاملات اور حقوق کی باقادہ ادائیگی ہوتی ہے۔

لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (۳۷)

تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ کے لئے کرو جس نے سب کو پیدا کیا ہے اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو۔‏

چونکہ آسمان و زمین میں زیادہ خوبصورت اور منور سورج اور چاند تھا اس لئے انہیں خصوصیت سے اپنا مخلوق ہونا بتایا اور فرمایا کہ اگر اللہ کے بندے ہو تو سورج چاند کے سامنے ماتھا نہ ٹیکنا اس لئے کہ وہ مخلوق ہیں اور مخلوق سجدہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی سجدہ کئے جانے کے لائق وہ ہے جو سب کا خالق ہے۔ پس تم اللہ کی عبادت کئے چلے جاؤ۔ لیکن اگر تم نے اللہ کے سوا اس کی کسی مخلوق کی بھی عبادت کرلی تو تم اس کی نظروں سے گر جاؤ گے اور پھر تو وہ تمہیں کبھی نہ بخشے گا،

فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ  (۳۸) ۩

پھر بھی اگر یہ کبر و غرور کریں تو وہ (فرشتے) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں

 اور (کسی وقت بھی) نہیں اکتاتے۔‏ (سجدہ)

جو لوگ صرف اس کی عبادت نہیں کرتے بلکہ کسی اور کی بھی عبادت کر لیتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کے عابد وہی ہیں۔ وہ اگر اس کی عبادت چھوڑ دیں گے تو اور کوئی اس کا عابد نہیں رہے گا۔ نہیں نہیں اللہ ان کی عبادتوں سے محض بےپرواہ ہے اس کے فرشتے دن رات اس کی پاکیزگی کے بیان اور اس کی خالص عبادتوں میں بےتھکے اور بن اکتائے ہر وقت مغشول ہیں۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـؤُلاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْماً لَّيْسُواْ بِهَا بِكَـفِرِينَ (۶:۸۹)

اگر یہ کفر کریں تو ہم نے ایک قوم ایسی بھی مقرر کر رکھی ہے جو کفر نہ کرے گی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 رات دن کو سورج چاند کو اور ہوا کو برا نہ کہو یہ چیزیں بعض لوگوں کے لئے رحمت ہیں اور بعض کے لئے زحمت ،

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ

اور اس اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وہی ترو تازہ ہو کر ابھرنے لگتی ہے

إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَى ۚ إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۳۹)

جس نے اسے زندہ کیا وہی یقینی طور پر مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے بیشک وہ ہر (ہر) چیز پر قادر ہے۔

اس کی اس قدرت کی نشانی کہ وہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اگر دیکھنا چاہتے ہو تو مردہ زمین کا بارش سے جی اٹھنا دیکھ لو کہ وہ خشک چٹیل اور بےگھاس پتوں کے بغیر ہوتی ہے۔ مینہ برستے ہی کھیتیاں پھل سبزہ گھاس اور پھول وغیرہ اگ آتے ہیں اور وہ ایک عجیب انداز سے اپنے سبزے کے ساتھ لہلہانے لگتی ہے، اسے زندہ کرنے والا ہی تمہیں بھی زندہ کرے گا۔ یقین مانو کہ وہ جو چاہے اس کی قدرت میں ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ

بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں

الحاد کے معنی ابن عباسؓ سے کلام کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کے مروی ہیں اور قتادہ سے الحاد کے معنی کفر و عناد ہیں

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ملحد لوگ ہم سے مخفی نہیں۔ ہمارے اسماء وصفات کو ادھر ادھر کر دینے والے ہماری نگاہوں میں ہیں۔ انہیں ہم بدترین سزائیں دیں گے۔

أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ

 (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟

سمجھ لو کہ کیا جہنم واصل ہونے والا اور تمام خطروں سے بچ رہنے والا برابر ہیں؟

 ہرگز نہیں۔

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۴۰)

تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔

بدکار کافرو!

جو چاہو عمل کرتے چلے جاؤ۔ مجھ سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ باریک سے باریک چیز بھی میری نگاہوں سے اوجھل نہیں،

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (۴۱)

جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا، (وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں) یہ با وقعت کتاب ہے

ذِكْر سے مراد بقول ضحاک سدی اور قتادہ قرآن ہے،

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ

جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے،

وہ باعزت باتوقیر ہے اس کے مثل کسی کا کلام نہیں اس کے آگے پیچھے سے یعنی کسی طرف سے اس سے باطل مل نہیں سکتا،

تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (۴۲)

یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے

یہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے ۔ جو اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔ اس کے تمام تر احکام بہترین انجام والے ہیں،

مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۚ

آپ سے وہی کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے کے رسولوں سے بھی کہا گیا ہے

تجھ سے جو کچھ تیرے زمانے کے کفار کہتے ہیں یہی تجھ سے اگلے نبیوں کو ان کی کافر اُمتوں نے کہا تھا۔ پس جیسے ان پیغمبروں نے صبر کیا تم بھی صبر کرو۔

إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ (۴۳)

یقیناً آپ کا رب معافی والا اور دردناک عذاب والا ہے ۔‏

 جو بھی تیرے رب کی طرف رجوع کرے وہ اس کے لئے بڑی بخششوں والا ہے اور جو اپنے کفر و ضد پر اڑا رہے مخالفت حق اور تکذیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اس پر وہ سخت درد ناک سزائیں کرنے والا ہے

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اگر اللہ تعالیٰ کی بخشش اور معافی نہ ہوتی تو دنیا میں ایک متنفس جی نہیں سکتا تھا اور اگر اس کی پکڑ دکڑ عذاب سزا نہ ہوتی تو ہر شخص مطمئن ہو کر ٹیک لگا کر بےخوف ہو جاتا۔

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ

اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو کہتے کہ اسکی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ یہ کیا کہ عجمی کتاب اور آپ عربی رسول؟

قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اس کے حکم احکام اس کے لفظی و معنوی فوائد کا بیان کر کے اس پر ایمان نہ لانے والوں کی سرکشی ضد اور عداوت کا بیان فرما رہا ہے۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَلَوْ نَزَّلْنَـهُ عَلَى بَعْضِ الاٌّعْجَمِينَ ـفَقَرَأَهُ عَلَيْهِم مَّا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ (۲۶:۱۹۸،۱۹۹)

 اور اگر ہم کسی عجمی شخص پر نازل فرماتے۔‏ پس وہ ان کے سامنے اس کی تلاوت کرتا تو یہ اسے باور کرنے والے نہ ہوتے  

مطلب یہ ہے کہ نہ ماننے کے بیسیوں حیلے ہیں نہ یوں چین نہ ووں چین۔ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اترتا تو بہانہ کرتے کہ ہم تو اسے صاف صاف سمجھ نہیں سکتے۔ مخاطب جب عربی زبان کے ہیں تو ان پر جو کتاب اترتی ہے وہ غیر عربی زبان میں کیوں اتر رہی ہے؟

اور اگر کچھ عربی میں ہوتی اور کچھ دوسری زبان میں تو بھی ان کا یہی اعتراض ہوتا کہ اس کی کیا وجہ؟

اس سے ان کی سرکشی معلوم ہوتی ہے۔

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ

آپ کہہ دیجئے! کہ

 یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے،

پھر فرمان ہے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے دل کی ہدایت اور ان کے سینوں کی شفا ہے۔ ان کے تمام شک اس سے زائل ہو جاتے ہیں اور جنہیں اس پر ایمان نہیں وہ تو اسے سمجھ ہی نہیں سکتے جیسے کوئی بہرا ہو۔ نہ اس کے بیان کی طرف انہیں ہدایت ہو جیسے کوئی اندھا ہو

 اور آیت میں ہے:

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا (۱۷:۸۲)

ہمارا نازل کردہ یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو تو ان کا نقصان ہی بڑھاتا ہے۔

أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (۴۴)

یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں

ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی دور سے کسی سے کچھ کہہ رہا ہو کہ نہ اس کے کانوں تک صحیح الفاظ پہنچتے ہیں نہ وہ ٹھیک طرح مطلب سمجھتا ہے۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَآءً وَنِدَآءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ (۲:۱۷۱)

، کافروں کی مثال اس کی طرح ہے جو پکارتا ہے مگر آواز اور پکار کے سوا کچھ اور اس کے کان میں نہیں پڑتا۔ بہرے گونگے اندھے ہیں پھر کیسے سمجھ لیں گے؟

حضرت ضحاک نے یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے بدترین ناموں سے پکارا جائے گا۔

 حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مسلمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس کا آخری وقت تھا اس نے یکایک لبیک پکارا

آپ نے فرمایا کیا تجھے کوئی دیکھ رہا ہے یا کوئی پکار رہا ہے؟

 اس نے کہا ہاں سمندر کے اس کنارے سے کوئی بلا رہا ہے تو آپ نے یہی جملہ پڑھا (ابن ابی حاتم)

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ

یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ

 اور اگر (وہ) بات نہ ہوتی (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے تو ان کے درمیان (کبھی) کا فیصلہ ہو چکا ہوتا

پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی لیکن اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔ انہیں بھی جھٹلایا اور ستایا گیا۔ پس جیسے انہوں نے صبر کیا آپ کو بھی صبر کرنا چاہئے چونکہ پہلے ہی سے تیرے رب نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک وقت مقرر یعنی قیامت تک عذاب رکے رہیں گے۔ اس لئے یہ مہلت مقررہ ہے ورنہ ان کے کرتوت تو ایسے نہ تھے کہ یہ چھوڑ دیئے جائیں اور کھاتے پیتے رہیں۔ ابھی ہی ہلاک کر دیئے جاتے۔

وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (۴۵)

یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بےچین کرنے والے شک میں ہیں

 یہ اپنی تکذیب میں بھی کسی یقین پر نہیں بلکہ شک میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ لرز رہے ہیں ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (۴۶)

جو شخص نیک کام کرے گا وہ اپنے نفع کے لئے اور جو برا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں

اس آیت کا مطلب بہت صاف ہے بھلائی کرنے والے کے اعمال کا نفع اسی کو ہوتا ہے اور برائی کرنے والے کی برائی کا وبال بھی اسی کی طرف لوٹتا ہے۔ پروردگار کی ذات ظلم سے پاک ہے۔ ایک کے گناہ پر دوسرے کو وہ نہیں پکڑتا۔ ناکردہ گناہ کو وہ سزا نہیں دیتا۔

پہلے اپنے رسول بھیجتا ہے۔ اپنی کتاب اتارتا ہے، اپنی حجت تمام کرتا ہے، اپنی باتیں پہنچا دیتا ہے، اب بھی جو نہ مانے وہ مستحق عذاب و سزا قرار دے دیا جاتا ہے۔

إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ

قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم اس کے سوا اور کسی کو نہیں

تمام انسانوں کے سردار حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب فرشتوں کے سرداروں میں سے ایک سردار یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے قیامت کے آنے کا وقت پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں ۔

قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے:

إِلَى رَبِّكَ مُنتَهَـهَآ (۷۹:۴۴)

اس کے علم کا مدار تیرے رب کی طرف ہی ہے ۔

 اسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اور جگہ فرمایا :

لاَ يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَآ إِلاَّ هُوَ (۷:۱۸۷)

قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔

وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ

اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے

پھر فرماتا ہے کہ ہر چیز کو اس اللہ کا علم گھیرے ہوئے ہے یہاں تک کہ جو پھل شگوفہ سے کھل کر نکلے جس عورت کو حمل رہے جو بچہ اسے ہو یہ سب اس کے علم میں ہے ۔ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔

 جیسے فرمایا :

وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا (۶:۵۹)

جو پتہ جھڑتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے ۔

ایک اور آیت میں ہے:

يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَى وَمَا تَغِيضُ الاٌّرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَىْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ (۱۳:۸)

ہر مادہ کو جو حمل رہتا ہے اور رحم جو کچھ گھٹاتے بڑھاتے رہتے ہیں اللہ خوب جانتا ہے اس کے پاس ہر چیز کا اندازہ ہے ۔

وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلاَ يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (۳۵:۱۱)

جس قدر عمریں گھٹتی بڑھتی ہیں وہ بھی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ایسا کوئی کام نہیں جو اللہ پر مشکل ہو ۔

وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِنْ شَهِيدٍ (۴۷)

اور جس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں، وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں سے تو کوئی اس کا گواہ نہیں ۔‏

قیامت والے دن مشرکوں سے تمام مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ جنہیں تم میرے ساتھ پرستش میں شریک کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟

وہ جواب دیں گے کہ تو ہمارے بارے میں علم رکھتا ہے ۔ آج تو ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا کہ تیرا کوئی شریک بھی ہے ،

وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَدْعُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَظَنُّوا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ (۴۸)

اور یہ جن (جن) کی پرستش اس سے پہلے کرتے تھے وہ ان کی نگاہ سے گم ہوگئے اور انہوں نے سمجھ لیا ان کے لئے کوئی بچاؤ نہیں

 قیامت والے ان کے معبودان باطل سب گم ہو جائیں گے کوئی نظر نہ آئے گا جو انہیں نفع پہنچا سکے ۔

 اور یہ خود جان لیں گے کہ آج اللہ کے عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں

 یہاں ظن یقین کے معنی میں ہے ۔

 قرآن کریم کی اور آیت میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّواْ أَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُواْ عَنْهَا مَصْرِفًا (۱۸:۵۳)

گنہگار لوگ جہنم دیکھ لیں گے۔ اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔

لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ (۴۹)

بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آپڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آجائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہو جاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا ،

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي

اور جو مصیبت اسے پہنچ چکی ہے اس کے بعد اگر ہم اسے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس کا تو میں حقدار ہی تھا  

 اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا ، میں اسی کے لائق تھا ، اب اس نعمت پر پھولتا ہے ، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے ۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کر جاتا ہے ۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے ۔

 جیسے ایک اور آیت میں ہے:

كَلاَّ إِنَّ الإِنسَـنَ لَيَطْغَى ـ أَن رَّءَاهُ اسْتَغْنَى  (۹۶:۶،۷)

کوئی نہیں آدمی سر چڑھتا ہے ، اس سے کہ دیکھے خود کو محفوظ

یعنی انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی ۔

وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَى ۚ

میں تو خیال نہیں کر سکتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس واپس گیا تو بھی یقیناً میرے لئے اس کے پاس بھی بہتری ہے،

پھر فرماتا ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بد اعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا ۔

غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا ۔

فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ (۵۰)

 یقیناً ہم ان کفار کو ان کے اعمال سے خبردار کریں گے اور انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‏

پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ

اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور کنارہ کش ہو جاتا ہے

وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ (۵۱)

اور جب اسے مصیبت پڑتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا بن جاتا ہے۔‏

پھر فرماتا ہے کہ جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے

جیسے فرمایا :

فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ  (۵۱:۳۹)

پس اس نے اپنے بل بوتے پر منہ موڑا

اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے

 عریض کلام اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں ۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے وجیز کلام کہتے ہیں ۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے

 اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَإِذَا مَسَّ الإِنسَـنَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَآ إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ  (۱۰:۱۲)

جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے

اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (۵۲)

آپ کہہ دیجئے! کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہوا ہو پھر تم نے اسے نہ مانا بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے۔‏

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ قرآن کے جھٹلانے والے مشرکوں سے کہہ دو کہ مان لو یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور تم اسے جھٹلا رہے ہو تو اللہ کے ہاں تمہارا کیا حال ہو گا ؟ اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اپنے کفر اور اپنی مخالفت کی وجہ سے راہ حق سے اور مسلک ہدایت سے بہت دور نکل گیا ہو

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ

عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے

پھر اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی حقانیت کی نشانیاں اور خصلتیں انہیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے ۔ مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے ۔ تمام دینوں پر اس دین کو غلبہ ہو گا فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی ۔ کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کر دیں گے

 اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الہٰی کی ہزارہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اس کی صنعت و بناوٹ اس کی ترکیب و جبلت اس کے جداگانہ اخلاق اور مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ اس کے خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں پھر اس کا ہیر پھیر کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت ۔ بچپن ، جوانی ، بڑھاپا، بیماری ، تندرستی، تنگی ، فراخی رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتے ہیں ۔

 الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے

أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (۵۳)

کیا آپ کے رب کا ہرچیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں

اللہ تعالیٰ کی گواہی بس کافی ہے وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے ۔ جب وہ فرما رہا ہے کہ پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو پھر تمہیں کیا شک؟

جیسے ارشاد ہے:

لَّـكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَآ أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ (۴:۱۶۶)

لیکن اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ جس کو تمہارے پاس بھیجی ہے اور اپنے علم کے ساتھ نازل فرمائی ہے

 خود گواہی دے رہا ہے اور فرشتے اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے

أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ

یقین جانو! کہ یہ لوگ اپنے رب کے روبرو جانے سے شک میں ہیں

پھر فرماتا ہے کہ دراصل ان لوگوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین ہی نہیں اسی لئے بےفکر ہیں نیکیوں سے غافل ہیں برائیوں سے بچتے نہیں۔ حالانکہ اس کا آنا یقینی ہے ۔

ابن ابی الدنیا میں ہے کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

 لوگو میں نے تمہیں کسی نئی بات کیلئے جمع نہیں کیا بلکہ صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمہیں یہ سنا دوں کہ روز جزا کے بارے میں میں نے خوب غور کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے اور اسے جھوٹا جاننے والا ہلاک ہونے والا ہے ۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے۔

آپ کے اس فرمان کا کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے یہ مطلب ہے کہ سچ جانتا ہے پھر تیاری نہیں کرتا اور اس کی دل ہلا دینے والی دہشت ناک حالتوں سے غافل ہے اس سے ڈر کر وہ اعمال نہیں کرتا جو اسے اس روز کے ڈر سے امن دے سکیں پھر اپنے آپ کو اس کا سچا جاننے والا بھی کہتا ہے لہو و لعب غفلت و شہوت گناہ اور حماقت میں مبتلا ہے اور قیام قیامت کے قریب ہو رہا ہے واللہ اعلم۔

أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ (۵۴)

یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

 پھر رب العالمین اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرما رہا ہے کہ ہر چیز پر اس کا احاطہ ہے قیام قیامت اس پر بالکل سہل ہے ، ساری مخلوق اس کے قبضے میں ہے جو چاہے کرے کوئی اس کا ہاتھ تھام نہیں سکتا جو اس نے چاہا ہوا جو چاہے گا ہو کر رہے گا اس کے سوا حقیقی حاکم کوئی نہیں ہے نہ اس کے سوا کسی اور کی ذات کی کسی قسم کی عبادت کے قابل ہے ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter