Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al MominAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
حم حم (۱) سورتوں کے اول میں حم جیسے جو حروف آئے ہیں ان کی پوری بحث سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں جس کے اعادہ کی اب چنداں ضرورت نہیں۔ بعض کہتے ہیں حم اللہ کا ایک نام ہے اور اس کی شہادت میں وہ یہ شعر پیش کرتے ہیں یذکرنی حم والرمح شاجر فھلا تلا حم قبل التقدم یہ مجھے حم یاد دلاتا ہے جب کہ نیزہ تن چکا پھر اس سے پہلے ہی اس نے حم کیوں نہ کہہ دیا۔ ابوداؤد اور ترمذی کی حدیث میں وارد ہے کہ اگر تم پر شب خون مارا جائے تو حم لاینصرون کہنا، اس کی سند صحیح ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں مجھے یہ پسند ہے کہ اس حدیث کو یوں روایت کی جائے کہ آپ نے فرمایا تم کہو حم لاینصروا یعنی نون کے بغیر، تو گویا ان کے نزدیک حم لاینصرواجزا ہے فقولوا کی یعنی جب تم یہ کہو گے تم مغلوب نہیں ہوگے۔ تو قول صرف حم رہا تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور دانا ہے (۲) یہ کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے جو عزت و علم والا ہے، جس کی جناب ہر بے ادبی سے پاک ہے اور جس پر کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں گو وہ کتنے ہی پردوں میں ہو، غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ گناہ کو بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا سخت عذاب والاانعام و قدرت والا وہ گناہوں کی بخشش کرنے والا اور جو اس کی طرف جھکے اس کی جانب مائل ہونے والا ہے۔ اور جو اس سے بےپرواہی کرے اس کے سامنے سرکشی اور تکبر کرے اور دنیا کو پسند کرکے آخرت سے بےرغبت ہو جائے۔ اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دے اسے وہ سخت ترین عذاب اور بدترین سزائیں دی نے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے: نَبِّىءْ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ـ وَأَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الاٌّلِيمُ یعنی میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ میں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا بھی ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے دردناک عذاب ہیں۔ (۱۵:۴۹،۵۰) اور بھی اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں رحم و کرم کے ساتھ عذاب و سزا کا بیان بھی ہے تاکہ بندہ خوف و امید کی حالت میں رہے۔ ذِي الطَّوْلِ وہ وسعت و غنا والا ہے۔ وہ بہت بہتری والا ہے بڑے احسانوں، زبردست نعمتوں اور رحمتوں والا ہے۔ بندوں پر اس کے انعام، احسان اس قدر ہیں کہ کوئی انہیں شمار بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اس کا شکر ادا کرسکے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک نعمت کا بھی پورا شکر کسی سے ادا نہیں ہوسکتا۔ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف واپس لو ٹنا ہے۔ (۳) اس جیسا کوئی نہیں اس کی ایک صفت بھی کسی میں نہیں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش کرنے والا ہے۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق جزا سزا دے گا۔ اور بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص آکر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کردیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا۔ (ابن ابی حاتم) حضرت عمرؓ کے پاس ایک شامی کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور تھا ذرا ایسا ہی آدمی ایک مرتبہ لمبی مدت تک وہ آیا ہی نہیں تو امیرالمؤمنین نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے بکثرت شراب پینا شروع کردیا ہے۔ حضرت عمر نے اپنے کاتب کو بلوا کر کہا لکھو : یہ خط ہے عمر بن خطاب کی طرف سے فلاں بن فلاں کی طرف بعداز سلام علیک میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے ساتھ کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا توبہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب والا بڑے احسان والا ہے جس کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ خط اس کی طرف بھجوا کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو متوجہ کردے اور اس کی توبہ قبول فرمائے جب اس شخص کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ملا تو اس نے اسے بار بار پڑھنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے کئی کئی مرتبہ اسے پڑھ کر رودیئے پھر توبہ کی اور سچی پکی توبہ کی جب حضرت فاروق اعظم کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو۔ شیطان کے مددگار نہ بنو۔ حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں: میں حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جاکر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورۃ مؤمن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی الیہ المصیر تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب غافر الذنب پڑھو تو کہو یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی اور جب قابل التوب پڑھو تو کہو یاشدید العقاب لا تعاقبنی حضرت مصعب فرماتے ہیں میں نے گوشہ چشم سے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا فارغ ہو کر میں دروازے پر پہنچا وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص تمہارے پاس سے گزرا جس پر یمنی چادریں تھیں انہوں نے کہا نہیں ہم نے تو کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔ اب لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ یہ حضرت الیاس تھے۔ یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے اور اس میں حضرت الیاس کا ذکر نہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے ۔ (۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حق کے ظاہر ہوچکنے کے بعد اسے نہ ماننا اور اس میں نقصانات پیدا کرنے کی کوشش کرنا کافروں کا ہی کام ہے۔ یہ لوگ اگر مال دار اور ذی عزت ہوں تو تم کسی دھوکے میں نہ پڑ جانا کہ اگر یہ اللہ کے نزدیک برے ہوتے تو اللہ انہیں اپنی یہ نعمتیں کیوں عطا فرماتا؟ جیسے اور جگہ ہے: لاَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِى الْبِلَـدِ ــمَتَـعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو کچھ یونہی سا فائدہ ہے آخری انجام تو ان کا جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے: نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلاً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ ہم انہیں بہت کم فائدہ دے رہے ہیں بالآخر انہیں سخت عذاب کی طرف بےبس کردیں گے۔ (۳۱:۲۴) كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ قوم نوح نے اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے گھبرائیں نہیں۔ اپنے سے اگلے انبیاء کے حالات کو دیکھیں کہ انہیں بھی جھٹلایا گیا اور ان پر ایمان لانے والوں کی بھی بہت کم تعداد تھی، وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ اور ہر اُمت نے اپنے رسول کو گرفتار کر لینے کا ارادہ کیا اور باطل کے ذریعے جھوٹے بحث مباحثے کئے تاکہ ان سے حق کو بگاڑ دیں حضرت نوح علیہ السلام جو بنی آدم میں سب سے پہلے رسول ہو کر آئے انہیں ان کی اُمت جھٹلاتی رہی بلکہ سب نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کو قید کرنا اور مار ڈالنا چاہا۔ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ (۵) پس میں نے انہیں پکڑ لیا، سو میری طرف سے کیسی سزا ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ان باطل والوں کو پکڑلیا۔ اور ان کے ان زبردست گناہوں اور بدترین سرکشیوں کی بنا پر انہیں ہلاک کردیا۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ میرے عذاب ان پر کیسے کچھ ہوئے؟ یعنی بہت سخت نہایت تکلیف دہ اور المناک، وَكَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں۔ (۶) جس طرح ان پر ان کے اس ناپاک عمل کی وجہ سے میرے عذاب اتر پڑے اسی طرح اب اس اُمت میں سے جو اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ان پر بھی میرے ایسے ہی عذاب نازل ہونے والے ہیں۔ یہ گو نبیوں کو سچا مانیں لیکن جب تیری نبوت کے ہی قائل نہ ہوں ان کی سچائی مردود ہے۔ واللہ اعلم الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے آس پاس کے تمام بہترین بزرگ فرشتے ایک طرف تو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام عیوب اور کل کمیوں اور برائیوں سے اسے دور بتاتے ہیں، دوسری جانب اسے تمام ستائشوں اور تعریفوں کے قابل مان کر اس کی حمد بجا لاتے ہیں۔ غرض جو اللہ میں نہیں اس کا انکار کرتے ہیں اور جو صفتیں اس میں ہیں انہیں ثابت کرتے ہیں۔ اس پر ایمان و یقین رکھتے ہیں۔ اس سے پستی اور عاجزی ظاہر کرتے ہیں اور کل ایمان دار مردوں عورتوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ زمین والوں کا ایمان اللہ تعالیٰ پر اسے دیکھے بغیر تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتے ان کے گناہوں کی معافی طلب کرنے کیلئے مقرر کردیئے جو ان کے بن دیکھے ہر وقت ان کی تقصیروں کی معافی طلب کیا کرتے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے: جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کیلئے اس کی غیر حاضری میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے اور اس کیلئے دعا کرتا ہے کہ اللہ تجھے بھی یہی دے جو تو اس مسلمان کیلئے اللہ سے مانگ رہا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ امیہ بن صلت کے بعض اشعار کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کی جیسے یہ شعر ہے زحل و ثور تحت وجل یمینہ والنسر للاخری و لیث مرصد یعنی حاملان عرش چار فرشتے ہیں دو ایک طرف دو دوسری طرف۔ آپ ﷺنے فرمایا سچ ہے پھر اس نے کہا والشمس تطلع کل اخر لیلتہ حمراء یصبح لونھا یتورد تابی فما تطلع لنا فی رسلھا الا معذبتہ والا تجلد یعنی سورج سرخ رنگ طلوع ہوتا ہے پھر گلابی ہو جاتا ہے، اپنی ہیئت میں کبھی صاف ظاہر نہیں ہوتا بلکہ روکھا پھیکا ہی رہتا ہے، آپﷺ نے فرمایا سچ ہے۔ اس کی سند بہت پختہ ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت حاملان عرش چار فرشتے ہیں، ہاں قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے: وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ (۶۹:۱۷) ہاں اس آیت کے مطلب اور اس حدیث کے استدلال میں ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ بطحا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے ایک ابر کو گزرتے ہوئے دیکھ کر سوال کیا کہ اس کا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا سحاب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اسے مزن بھی کہتے ہیں؟ کہا ہاں! فرمایا عنان بھی؟ عرض کیا ہاں! پوچھا جانتے ہو آسمان و زمین میں کس قدر فاصلہ ہے؟ صحابہ نے کہا نہیں، فرمایا اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کا راستہ پھر اس کے اوپر کا آسمان بھی پہلے آسمان سے اتنے ہی فاصلے پر اسی طرح ساتوں آسمان ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے جس کی اتنی ہی گہرائی ہے پھر اس پر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت کے ہیں جن کے کھر سے گھٹنے کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جس کی اونچائی بھی اسی قدر ہے۔ پھر اس کے اوپر اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش اللہ اس وقت آٹھ فرشتوں کے اوپر ہے۔ حضرت شہر بن حوشب کا فرمان ہے: حاملان عرش آٹھ ہیں جن میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہے : سبحانک اللھم وبحمد لک الحمد علی حملک بعد عملک اے باری تعالیٰ تیری پاک ذات ہی کیلئے ہر طرح کی حمد و ثناء ہے کہ تو باوجود علم کے پھر بردباری اور علم کرتا ہے۔ اور دوسرے چار کی تسبیح یہ ہے: سبحانک اللھم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک اے اللہ باوجود قدرت کے تو جو معافی اور درگزر کرتا رہتا ہے اس پر ہم تیری پاکیزگی اور تیری تعریف بیان کرتے ہیں۔ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہرچیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔ (۷) اسی لئے مؤمنوں کے استغفار میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تیری رحمت و علم نے ہرچیز کو اپنی وسعت و کشادگی میں لے لیا ہے۔ بنی آدم کے تمام گناہ ان کی کل خطاؤں پر تیری رحمت چھائے ہوئے ہے، اسی طرح تیرا علم بھی ان کے جملہ اقوال و افعال کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ ان کی کل حرکات و سکنات سے تو بخوبی واقف ہے۔ پس تو ان کے برے لوگوں کو جب وہ توبہ کریں اور تیری طرف جھکیں اور گناہوں سے باز آ جائیں اور تیرے احکام کی تعمیل کریں نیکیاں کریں بدیاں چھوڑیں بخش دے، اور انہیں جہنم کے دردناک گھبراہٹ والے عذابوں سے نجات دے۔ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہےاور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں انہیں مع ان کے والدین بیویوں اور بچوں کے جنت میں لے جا تاکہ ان کی آنکھیں ہر طرح ٹھنڈی رہیں۔ گو ان کے اعمال ان جتنے نہ ہوں تاہم تو ان کے درجات بڑھا کر اونچے درجے میں پہنچا دے۔ جیسے باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے: وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَـنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ أَلَتْنَـهُمْ مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍ جو لوگ ایمان لائیں اور انکے ایمان کی اتباع ان کی اولاد بھی کرے ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے اور ان کا کوئی عمل کم نہ کریں گے۔ (۵۲:۲۱) درجے میں سب کو برابری دیں گے۔ تاکہ دونوں جانب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اور پھر یہ نہ کریں گے کہ درجوں میں بڑھے ہوؤں کو نیچا کردیں نہیں بلکہ نیچے والوں کو صرف اپنی رحمت و احسان کے ساتھ اونچا کردیں گے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں: مؤمن جنت میں جاکر پوچھے گا کہ میرا باپ میرے بھائی میری اولاد کہاں ہے؟ جواب ملے گا کہ ان کی نیکیاں اتنی نہ تھیں کہ وہ اس درجے میں پہنچتے، یہ کہے گا کہ میں نے تو اپنے لئے اور ان سب کیلئے عمل کئے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دے گا۔ پھر آپ نے اسی آیت رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ کی تلاوت فرمائی۔ حضرت مطرف بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے: ایمانداروں کی خیر خواہی فرشتے بھی کرتے ہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ اور شیاطین ان کی بدخواہی کرتے ہیں۔ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔ (۸) تو ایسا غالب ہے جس پر کوئی غالب نہیں اور جسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جو تو چاہتا ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا۔ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ حق تو یہ ہے کہ اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی اور بہت بڑی کامیابی ہے۔ (۹) تو اپنے اقوال و افعال شریعت و تقدیر میں حکمت والا ہے، تو انہیں برائیوں کے کرنے سے دنیا میں اور ان کے وبال سے دونوں جہان میں محفوظ رکھ، قیامت کے دن رحمت والا وہی شمار ہوسکتا ہے جسے تو اپنی سزا سے اور اپنے عذاب سے بچالے حقیقتاً بڑی کامیابی پوری مقصد دری اور ظفریابی یہی ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ بیشک جنہوں نے کفر کیا انہیں آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے ۔ (۱۰) قیامت کے دن جبکہ کافر آگ کے کنوؤں میں ہوں گے اور اللہ کے عذابوں کو چکھ چکے ہوں گے اور تمام ہونے والے عذاب نگاہوں کے سامنے ہوں گے اس وقت خود اپنے نفس کے دشمن بن جائیں گے اور بہت سخت دشمن ہو جائیں گے۔ کیونکہ اپنے برے اعمال کے باعث جہنم واصل ہوں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے بہ آواز بلند کہیں گے کہ آج جس قدر تم اپنے آپ سے نالاں ہو اور جتنی دشمنی تمہیں خود اپنی ذات سے ہے اور جس قدر تم آج اپنے تئیں کہہ رہے ہو اس سے بہت زیادہ برے اللہ کے نزدیک تم دنیا میں تھے جبکہ تمہیں اسلام و ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم اسے مانتے نہ تھے، یعنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کی ایک زندگی اور قیامت کی دوسری زندگی، پیدائش دنیا سے پہلے کی موت اور دنیا سے رخصت ہونے کی موت یہ دو موتیں اور دو زندگیاں مراد ہیں قَالُوا رَبَّنَا اُمتنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوہی بار جلایا (زندہ کیا) اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے (۱۱) یہ مثل اس آیت کے ہے۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَتًا فَأَحْيَـكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مار ڈالے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (۲:۲۸) سدی فرماتے ہیں : یہ دنیا میں مار ڈالے گئے پھر قبروں میں زندہ کئے گئے اور جواب سوال کے بعد مار ڈالے گئے پھر قیامت کے دن زندہ کر دیئے گئے۔ ابن زید فرماتے ہیں: حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے روز میثاق کو زندہ کئے گئے پھر ماں کے پیٹ میں روح پھونکی گئی پھر موت آئی پھر قیامت کے دن جی اٹھے۔ لیکن یہ دونوں قول ٹھیک نہیں اس لئے کہ اس طرح تین موتیں اور تین حیاتیں لازم آتی ہیں اور آیت میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے، صحیح قول حضرت ابن مسعودؓ حضرت ابن عباسؓ اور ان کے ساتھیوں کا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس دن کافر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے میدان میں آرزو کریں گے کہ اب انہیں دنیا میں ایک مرتبہ اور بھیج دیا جائے جیسے فرمان ہے: وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً إِنَّا مُوقِنُونَ تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ سن لیا اب تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو نیکیاں کریں گے اور ایمان لائیں گے۔ (۳۲:۱۲) لیکن ان کی یہ آرزو قبول نہ فرمائی جائے گی۔ پھر جب عذاب و سزا کو جہنم اور اس کی آگ کو دیکھیں گے اور جہنم کے کنارے پہنچا دئے جائیں گے تو دوبارہ یہی درخواست کریں گے اور پہلی دفعہ سے زیادہ زور دے کر کہیں گے جیسے ارشاد ہے: وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ ۔۔۔وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ کاش کے تو دیکھتا جبکہ وہ جہنم کے پاس ٹھہرا دیئے گئے ہوں گے کہیں گے کاش کے ہم دنیا کی طرف لوٹائے جاتے اور اپنے رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور با ایمان ہوتے، بلکہ ان کے لئے وہ ظاہر ہو گیا جو اس سے پہلے وہ چھپا رہے تھے اور بالفرض یہ واپس لوٹائے بھی جائیں تو بھی دوبارہ یہ وہی کرنے لگیں گے جس سے منع کئے گئے ہیں۔ یہ ہیں ہی جھوٹے۔ (۶:۲۷،۲۸) اس کے بعد جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور عذاب شروع ہو جائیں گے اس وقت اور زیادہ زور دار الفاظ میں یہی آرزو کریں گے وہاں چیختے چلاتے ہوئے کہیں گے: رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً ۔۔۔فَذُوقُواْ فَمَا لِلظَّـلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال دے ہم نیک اعمال کرتے رہیں گے ان کے خلاف جو اب تک کرتے رہے جواب ملے گا کہ کیا ہم نے انہیں اتنی عمر اور مہلت نہ دی تھی کہ اگر یہ نصیحت حاصل کرنے والے ہوتے تو یقیناً کر سکتے۔ بلکہ تمہارے پاس ہم نے آگاہ کرنے والے بھی بھیج دیئے تھے اب اپنے کرتوت کا مزہ چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (۳۵:۳۷) رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَـلِمُونَ قَالَ اخْسَئُواْ فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ کہیں گے کہ اللہ ہمیں یہاں سے نکال دے اگر ہم پھر وہی کریں تو یقیناً ہم ظالم ٹھہریں گے۔ (۲۳:۱۰۸) اللہ فرمائے گا دور ہو جاؤ اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔ اس آیت میں ان لوگوں نے اپنے سوال سے پہلے ایک مقدمہ قائم کر کے سوال میں ایک گونہ لطافت کر دی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو بیان کیا کہ باری تعالیٰ ہم مردہ تھے تو نے ہمیں زندہ کر دیا پھر مار ڈالا پھر زندہ کر دیا۔ پھر تو ہر اس چیز پر جسے تو چاہے قادر ہے۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے یقیناً ہم نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی اب بچاؤ کی کوئی صورت بنا دے۔ یعنی ہمیں دنیا کی طرف پھر لوٹا دے جو یقیناً تیرے بس میں ہے ہم وہاں جا کر اپنے پہلے اعمال کے خلاف اعمال کریں گے اب اگر ہم وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں۔ انہیں جواب دیا جائے گا کہ اب دوبارہ دنیا میں جانے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر دوبارہ چلے بھی جاؤ گے تو پھر بھی وہی کرو گے جس سے منع کئے گئے۔ تم نے اپنے دل ہی ٹیڑھے کر لئے ہیں تم اب بھی حق کو قبول نہ کرو گے بلکہ اس کے خلاف ہی کرو گے۔ ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ یہ (عذاب) تمہیں اس لئے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اسکے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھاتو تم مان لیتے تھے تمہاری تو یہ حالت تھی کہ جہاں اللہ واحد کا ذکر آیا وہیں تمہارے دل میں کفر سمایا۔ ہاں اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو تمہیں یقین و ایمان آ جاتا تھا۔ یہی حالت پھر تمہاری ہو جائے گی۔ دنیا میں اگر دوبارہ گئے تو پھر بھی یہی کرو گے۔ فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ پس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے (۱۲) پس حاکم حقیقی جس کے حکم میں کوئی ظلم نہ ہو سرا سر عدل و انصاف ہی ہو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے نہ دے جس پر چاہے رحم کرے جسے چاہے عذاب کرے اس کے حکم وعدل میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا ۚ و ہی ہے جو تمہیں اپنی (نشانیاں) دکھلاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے روزی اتارتا ہے وہ اللہ اپنی قدرتیں لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ زمین و آسمان میں اس کی توحید کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ جن سے صاف ظاہر ہے کہ سب کا خالق سب کا مالک سب کا پالنہار اور حفاظت کرنے والا وہی ہے۔ وہ آسمان سے روزی یعنی بارش نازل فرماتا ہے جس سے ہر قسم کے اناج کی کھیتیاں اور طرح طرح کے عجیب عجیب مزے کے مختلف رنگ روپ اور شکل وضع کے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں حالانکہ پانی ایک زمین ایک۔ لہذا اس سے بھی اس کی شان ظاہر ہے۔ وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَنْ يُنِيبُ نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتے ہیں۔ (۱۳) سچ تو یہ ہے کہ عبرت و نصیحت فکر و غور کی توفیق ان ہی کو ہوتی ہے جو اللہ کی طرف رغبت و رجوع کرنے والے ہوں، فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کر کے گو کافر برا مانیں (۱۴) اب تم دعا اور عبادت خلوص کے ساتھ صرف اللہ واحد کی کیا کرو۔ مشرکین کے مذہب و مسلک سے الگ ہو جاؤ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر فرض کے سلام کے بعد یہ پڑھتے تھے۔ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّــنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُون اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر نماز کے بعد انہیں پڑھا کرتے تھے۔ (مسند احمد) یہ حدیث مسلم ابو داؤد میں بھی ہے ابن ابی حاتم میں ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرو اور قبولیت کا یقین کامل رکھو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور دوسری طرف کے مشغول دل کی دعا نہیں سنتا۔ رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ بلند درجوں والا عرش کا مالک اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے۔ جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے جیسے ارشاد ہے: مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ ـتَعْرُجُ الْمَلَـئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ وہ عذاب اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے۔ کہ فرشتے اور روح اس کے پاس چڑھ کر جاتے ہیں۔ ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے (۷۰:۳،۴) اور اس بات کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا کہ یہ دوری ساتویں زمین سے لے کر عرش تک کی ہے، جیسے سلف و خلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی راجح بھی ہے ۔انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے جس کے دو کناروں کی وسعت پچاس ہزار سال کی ہے اور جس کی اونچائی ساتویں زمین سے پچاس ہزار سال کی ہے اور اس سے پہلے اس حدیث میں جس میں فرشتوں کا عرش اٹھانا بیان ہوا ہے یہ بھی گزر چکا ہے کہ ساتوں آسمانوں سے بھی وہ بہت بلند اور بہت اونچا ہے يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔ (۱۵) وہ جس پر چاہے وحی بھیجے ۔ جیسے فرمایا: يُنَزِّلُ الْمَلَـئِكَةَ بِالْرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُواْ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَ أَنَاْ فَاتَّقُونِ وہ فرشتوں کو وحی دیکر اپنے حکم سے جسکے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں مجھ سے ڈرتے رہو (۱۶:۲) اور جگہ فرمان ہے: وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَـلَمِينَ ـ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاٌّمِينُ ـ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ یہ قرآن تمام جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے۔ جسے معتبر فرشتے نے تیرے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے۔ (۲۶:۱۹۲،۱۹۴) یہاں بھی یہی فرمایا لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرا دے۔ يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ بھی قیامت کا ایک نام ہے جس سے اللہ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے۔ جس میں حضرت آدم خود اور ان کی اولاد میں سے سب سے آخری بچہ ایک دوسرے سے مل لے گا۔ ابن زید فرماتے ہیں بندے اللہ سے ملیں گے۔ قتادہ فرماتے ہیں آسمان والے اور زمین والے آپس میں ملاقات کریں گے۔ خالق و مخلوق، ظالم و مظلوم ملیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے ملاقات کرے گا۔ بلکہ عامل اور اس کا عمل بھی ملے گا۔ آج سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔ بالکل ظاہر باہر ہوں گے، چھپنے کی تو کہاں سائے کی جگہ بھی کوئی نہ ہو گی۔ سب اس کے آمنے سامنے موجود ہوں گے۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ آج کس کی بادشاہی ہے؟ فقط اللہ واحد و قہار کی۔ (۱۶) اس دن خود اللہ فرمائے گا کہ آج بادشاہت کس کی ہے؟ کون ہو گا جو جواب تک دے؟ پھر خود ہی جواب دے گا کہ اللہ اکیلے کی جو ہمیشہ واحد واحد ہے اور سب پر غالب و حکمراں ہے۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے: اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا۔ میں بادشاہ ہوں، میں جبار ہوں متکبر ہوں۔ زمین کے بادشاہ اور جبار اور متکبر لوگ آج کہاں ہیں؟ صور کی حدیث میں ہے: اللہ عزوجل جب تمام مخلوق کی روح قبض کر لے گا۔ اور اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا۔ اس وقت تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کس کا ہے؟ پھر خود ہی جواب دے گا اللہ اکیلے غالب کا۔ یعنی اس کا جو واحد ہے اس کا جو ہرچیز پر غالب ہے جس کی ملکیت میں ہرچیز ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے: قیامت کے قائم ہونے کے وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ لوگو! قیامت آ گئی جسے مردے زندہ سب سنیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمائے گا اور کہے گا آج کس کے لئے ملک ہے صرف اللہ اکیلے غلبہ والے کے لئے، الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ آج ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا آج (کسی قسم کا) ظلم نہیں، اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ ذرا سا بھی ظلم اس دن نہ ہو گا بلکہ نیکیاں دس دس گنی کر کے ملیں گی اور برائیاں اتنی ہی رکھی جائیں گی۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں: اے میرے بندوں میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے۔ پس تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے آخر میں ہے اے میرے بندو یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں۔ جن پر میں نگاہ رکھتا ہوں اور جن کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے تئیں ہی ملامت کرے۔ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ یقیناً اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔ (۱۷) پھر اپنے جلد حساب لینے کو بیان فرمایا کہ ساری مخلوق سے حساب لینا اس پر ایسا ہے جیسے ایک شخص کا حساب لینا جیسے ارشاد باری ہے: مَّا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَحِدَةٍ تم سب کا پیدا کرنا اور تم سب کو مرنے کے بعد زندہ کر دینا میرے نزدیک ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کر دینے کی مانند ہے (۲۸:۳۱) اور آیت میں ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے: وَمَآ أَمْرُنَآ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ہمارے حکم کے ساتھ ہی کام ہو جاتا ہے اتنی دیر میں جیسے کسی نے آنکھ بند کر کے کھول لی۔ (۵۴:۵۰) وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (قیامت سے) آگاہ کر دیجئے جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے اور سب خاموش ہونگے آزِفَة قیامت کا ایک نام ہے۔ اس لئے وہ بہت ہی قریب ہے جیسے فرمان ہے: أَزِفَتِ الاٌّزِفَةُ ـ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ قریب آنے والی قریب ہو چکی ہے، جس کا کھولنے والا بجز اللہ کے کوئی نہیں (۵۳:۵۷،۵۸) اور جگہ ارشاد ہے: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا (۵۴:۱) اور فرمان ہے: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا (۲۱:۱) اور فرمان ہے: أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ اللہ کا امر آ چکا اس میں جلدی نہ کرو (۱۶:۱) اور آیت میں ہے: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ جب اسے قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے۔ (۶۷:۲۷) الغرض اسی نزدیکی کی وجہ سے قیامت کا نام آزِفَة ہے۔ اس وقت کلیجے منہ کو آ جائیں گے۔ وہ خوف و ہراس ہو گا کہ کسی کا دل ٹھکانے نہ رہے گا۔ سب پر غضب کا سناٹا ہو گا۔ کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلے گی۔ کیا مجال کہ بے اجازت کوئی لب ہلا سکے۔ سب رو رہے ہوں گے اور حیران و پریشان ہوں گے۔ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ ظالموں کا کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی، کہ جس کی بات مانی جائے گی۔ (۱۸) جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کا آج کوئی دوست غمگسار نہ ہو گا جو انہیں کام آئے۔ نہ شفیع اور سفارشی ہو گا جو ان کی شفاعت کے لئے زبان ہلائے۔ بلکہ ہر بھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں گے، يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو (خوب) جانتا ہے۔ (۱۹) اس اللہ کا علم محیط کل ہے۔ تمام چھوٹی بڑی چھپی کھلی باریک موٹی اس پر یکساں ظاہر باہر ہیں، اتنے بڑے علم والے سے جس سے کوئی چیز مخفی نہ ہو ہر شخص کو ڈرنا چاہئے اور کسی وقت یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اس وقت وہ مجھ سے پوشیدہ ہے اور میرے حال کی اسے اطلاع نہیں۔ بلکہ ہر وقت یہ یقین کر کے وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس کا علم میرے ساتھ ہے اس کا لحاظ کرتا رہے اور اس کے رو کے ہوئے کاموں سے رکا رہے۔ آنکھ جو خیانت کے لئے اٹھتی ہے گو بظاہر وہ امانت ظاہر کرے۔ لیکن رب علیم پر وہ مخفی نہیں سینے کے جس گوشے میں جو خیال چھپا ہو اور دل میں جو بات پوشیدہ اٹھتی ہو اس کا اسے علم ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: اس آیت سے مراد وہ شخص ہے جو مثلاً کسی گھر میں گیا وہاں کوئی خوبصورت عورت ہے یا وہ آ جا رہی ہے یا تو یہ کن اکھیوں سے اسے دیکھتا ہے جہاں کسی کی نظر پڑی تو نگاہ پھیرلی اور جب موقعہ پایا آنکھ اٹھا کر دیکھ لیا پس خائن آنکھ کی خیانت کو اور اس کے دل کے راز کو اللہ علیم خوب جانتا ہے کہ اس کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پوشیدہ عضو بھی دیکھ لے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں: اس سے مراد آنکھ مارنا اشارے کرنا اور بن دیکھی چیز کو دیکھی ہوئی یا دیکھی ہوئی چیز کو ان دیکھی بتانا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: نگاہ جس نیت سے ڈالی جائے اللہ پر روشن ہے۔ پھر سینے میں چھپا ہوا خیال کہ اگر موقعہ ملے اور بس ہو تو آیا یہ بدکاری سے باز رہے گا یا نہیں۔ یہ بھی وہ جانتا ہے۔ سدی فرماتے ہیں دلوں کے وسوسوں سے وہ آگاہ ہے، وَاللَّهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ ۖ اور اللہ تعالیٰ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا وہ عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے قادر ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی دے اور برائی کی سزا بری دے۔ جیسے فرمان ہے لِيَجْزِىَ الَّذِينَ أَسَاءُواْ بِمَا عَمِلُواْ وَيِجْزِى الَّذِينَ أَحْسَنُواْ بِالْحُسْنَى وہ بروں کو ان کی کرنے کی سزا اور بھلوں کو ان کی بھلائی کی جزا عنایت فرمائے گا۔ (۵۳:۲۱) وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ ۗ اس کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ نہیں کر سکتے جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں خواہ وہ بت اور تصویریں ہوں خواہ اور کچھ وہ چونکہ کسی چیز کے مالک نہیں ان کی حکومت ہی نہیں تو حکم اور فیصلے کریں گے ہی کیا؟ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ بیشک اللہ تعالیٰ خوب سنتا خوب دیکھتا ہے۔ (۲۰) وہ سننے دیکھنے والا ہے۔ اللہ اپنی مخلوق کے اقوال کو سنتا ہے۔ ان کے احوال کو دیکھ رہا ہے جسے چاہے راہ دکھاتا ہے جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اس کا اس میں بھی سرا سر عدل و انصاف ہے۔ أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا نتیجہ کیسا ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا تیری رسالت کے جھٹلانے والے کفار نے اپنے سے پہلے کے رسولوں کو جھٹلانے والے کفار کی حالتوں کا معائنہ ادھر ادھر چل پھر کر نہیں کیا كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ وہ قوت و طاقت کے اور باعتبار زمین میں اپنی یادگاروں کے ان سے بہت زیادہ تھے، پس اللہ نے انہیں ان گناہوں پر پکڑ لیا اور کوئی نہ ہوا جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیتا۔ (۲۱) جو ان سے زیادہ قوی طاقتور اور جثہ دار تھے۔ جن کے مکانات اور عالیشان عمارتوں کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں۔ جو ان سے زیادہ باتمکنت تھے۔ ان سے بڑی عمروں والے تھے، جب ان کے کفر اور گناہوں کی وجہ سے عذاب الہٰی ان پر آیا۔ تو نہ تو کوئی اسے ہٹا سکا نہ کسی میں مقابلہ کی طاقت پائی گئی نہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نکلی، ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ ۚ یہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس پیغمبر معجزے لے لے کر آتے تھے تو وہ انکار کر دیتے تھے پس اللہ انہیں پکڑ لیتا تھا۔ اللہ کا غضب ان پر برس پڑنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کے پاس بھی ان کے رسول واضح دلیلیں اور صاف روشن حجتیں لے کر آئے باوجود اس کے انہوں نے کفر کیا جس پر اللہ نے انہیں ہلا کر دیا اور کفار کے لئے انہیں باعث عبرت بنا دیا۔ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ یقیناً وہ طاقتور اور سخت عذاب والا ہے۔ (۲۲) اللہ تعالیٰ پوری قوت والا، سخت پکڑ والا، شدید عذاب والا ہے۔ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے تمام عذابوں سے نجات دے۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔ (۲۳) اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لئے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے۔ میری مدد آپ کے ساتھ ہے۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہو گی جیسے کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل و براہین کے ساتھ بھیجا، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ إِلَى فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ فرعون ہامان اور قارون کی طرف’ تو انہوں نے کہا (یہ تو) جادوگر اور جھوٹا ہے۔ (۲۴) ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے۔ یہی جواب سابقہ اُمتوں کے بھی انبیاء علیہم السلام کو دیتے ہے۔ جیسے ارشاد ہے: كَذَلِكَ مَآ أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ قَالُواْ سَـحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ـأَتَوَاصَوْاْ بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَـغُونَ اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں، (۵۱:۵۲،۵۳) فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ پس جب ان کے پاس (موسیٰ علیہ السلام) ہماری طرف سے (دین) حق لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ایمان والے ہیں ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کر چکا تھا۔ اس لئے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ پیدا نہ ہو جائیں یا اس لئے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث حضرت موسیٰ ہیں۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے۔ آپ نے جواب دیا تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے (۲۵) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہو جائیں بےفائدہ اور فضول تھی۔ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰؑ کو مار ڈالوں اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا)فساد برپا نہ کر دے۔ (۲۶) فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰؑ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لئے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا۔ اسی لئے عرب میں یہ مثل مشہو رہو گئی صار الرعن مذاکرا یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا۔ وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ موسیٰؑ نے کہامیں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے شخص(کی برائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ (۲۷) حضرت موسیٰ کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اے میرے مخاطب لوگو! میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ حدیث شریف میں ہے: جب جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے اللْهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ، وَنَدْرَأُ بِكَ فِي نُحُورِهِم اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ اور ایک مؤمن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ یہ مرد مؤمن کون تھا؟ مشہور تو یہی ہے کہ یہ مؤمن قبطی تھے (رحمہ اللہ تعالیٰ ) اور فرعون کے خاندان کے تھے۔ بلکہ سدی فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کے ساتھ نجات پائی تھی۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مؤمن بھی اسرائیلی تھے۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ حضرت موسیٰ کے قتل کے ارادے سے باز آتا۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایمان دار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں۔ تیسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ ؑکو خبر دی تھی کہ سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ کی سن کر ضبط نہ ہو سکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے، اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا۔ البتہ صحیح بخاری شریف میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا سنو ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ اسی وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کامجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گزرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے۔ حضرت ابوبکر نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت أَتَقْتُلُونَ کی تلاوت کی۔ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، پس اس مؤمن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقیناً تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا۔ جیسے کہان آیات میں ہے: وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ ـ أَنْ أَدُّواْ إِلَىَّ عِبَادَ اللَّهِ إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ـ وَأَن لاَّ تَعْلُواْ عَلَى اللَّهِ إِنِّى ءَاتِيكُمْ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ـ وَإِن لَّمْ تُؤْمِنُواْ لِى فَاعْتَزِلُونِ ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول کریم کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں ۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں۔ تم مجھے سنگسار کر دو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو، (۴۴:۱۷،۲۱) یہی جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (۲۸) وہ مؤمن کہتا ہے کہ سنو مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں۔ اگر یہ حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی، پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ يَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا ۚ اے میری قوم کے لوگو! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب ہو،لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا بھائیو! تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے۔ بڑی عزت دی ہے۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہئے۔ یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آ جائے گا۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے۔ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ فرعون بولا، میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ بتلا رہا ہوں۔ (۲۹) فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسیانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی۔ وہ بھی جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جیسے فرمان باری ہے: قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَـؤُلاءِ إِلاَّ رَبُّ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ بَصَآئِرَ حضرت موسیٰ نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں (۱۷:۱۰۲) اور آیت میں ہے: وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کر دیا۔ (۲۷:۱۴) اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوے میں آ گئی اور فرعون کی بات مان لی۔ فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا۔ (۲۰:۷۹) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِثْلَ يَوْمِ الْأَحْزَابِ ا س مؤمن نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز (بد عذاب) نہ آئے جو اور اُمتوں پر آیا۔ (۳۰) مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۚ جیسے اُمت نوح اور عاد و ثمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا) اس مؤمن کی نصیحت کا آخری حصہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے فرمایا دیکھو اگر تم نے اللہ کے رسول کی نہ مانی اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے تو مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں سابقہ قوموں کی طرح تم پر بھی عذاب اللہ کا برس نہ پڑے۔ قوم نوح اور قوم عاد ثمود کو دیکھ لو کہ پیغمبروں کی نہ ماننے کے وبال میں ان پر کیسے عذاب آئے؟ اور کوئی نہ تھا جو انہیں ٹالتا یاروکتا۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا۔ (۳۱) وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ اور مجھے تم پر قیامت کے دن کا بھی ڈر ہے (۳۲) اس میں اللہ کا کچھ ظلم نہ تھا اس کی ذات بندوں پر ظلم کرنے سے پاک ہے ان کے اپنے کرتوت تھے جو ان کے لئے وبال جان بن گئے، مجھے تم پر قیامت کے دن کے عذاب کا بھی ڈر ہے۔ جو ہانک پکار کا دن ہے۔ صور کی حدیث میں ہے: جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور پھٹ جائے گی تو لوگ مارے گھبراہٹ کے ادھر ادھر پریشان حواس بھاگنے لگیں گے۔ اور ایک دوسرے کو آواز دیں گے۔ حضرت ضحاک وغیرہ کا قول ہے کہ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب جہنم لائی جائے گی اور لوگ اسے دیکھ کر ڈر کر بھاگیں گے اور فرشتے انہیں میدان محشر کی طرف واپس لائیں گے۔ جیسے فرمان اللہ ہے: وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَ فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے۔ (۶۹:۱۷) اور فرمان ہے: يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ اے انسانو! اور جنو! اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے بھاگ نکلنے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل بھاگو لیکن یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ (۵۵:۳۳) حسن اور ضحاک کی قرأت میں يَوْمَ التَّنَادِ دال کی تشدید کے ساتھ ہے۔ اور یہ ماخوذ ہے ندالبعیر سے، جب اونٹ چلا جائے اور سرکشی کرنے لگے تو یہ لفظ کہا جاتا ہے، کہا گیا ہے کہ جس ترازو میں عمل تولے جائیں گے وہاں ایک فرشتہ ہو گا جس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی وہ با آواز بلند پکار کر کہے گا لوگو فلاں کا لڑکا فلاں سعادت والا ہو گیا اور آج کے بعد سے اس پر شقاوت کبھی نہیں آئے گی اور اس کی نیکیاں گھٹ گئیں تو وہ فرشتہ آواز لگائے گا کہ فلاں بن فلاں بدنصیب ہو گیا اور تباہ و برباد ہو گیا۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں قیامت کو يَوْمَ التَّنَادِ اس لئے کہا گیا ہے کہ جنتی جنتیوں کو اور جہنمی جہنمیوں کو پکاریں گے اور اعمال کے ساتھ پکاریں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے: وجہ یہ ہے کہ جنتی دوزخیوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچ پایا۔ تم بتاؤ کہ کیا تم نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے ہاں ۔ اسی طرح جہنمی جنتیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں تھوڑا سا پانی ہی چھوا دو یا وہ کچھ دے دو جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے۔ جنتی جواب دیں گے کہ یہاں کے کھانے پینے کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے اسی طرح سورہ اعراف میں یہ بھی بیان ہے اعراف والے دوزخیوں اور جنتیوں کو پکاریں گے۔ بغوی فرماتے ہیں کہ یہ تمام باتیں ہیں اور ان سب وجوہ کی بنا پر قیامت کے دن کا نام يَوْمَ التَّنَادِ ہے۔ یہی قول بہت عمدہ ہے واللہ اعلم، يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۗ جس دن تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے، تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اس دن لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ لیکن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ آج ٹھہرنے کی جگہ یہی ہے اس دن کوئی نہ ہو گا جو بچا سکے اور اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں (۳۳) بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی قادر مطلق نہیں وہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، پھر فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ ۖ اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لیکر آئے، پھر بھی تم انکی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے اس سے پہلے اہل مصر کے پاس حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے پیغمبر بن کر آئے تھے۔ آپ کی بعثت حضرت موسیٰ سے پہلے ہوئی تھی۔ عزیز مصر بھی آپ ہی تھے اور اپنی اُمت کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ لیکن قوم نے ان کی اطاعت نہ کی، ہاں بوجہ دنیوی جاہ کے اور وزارت کے تو انہیں ماتحتی کرنی پڑتی تھی۔ پس فرماتا ہے کہ تم ان کی نبوت کی طرف سے بھی شک میں ہی رہے۔ آخر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم بالکل مایوس ہوگئے اور امید کرتے ہوئے کہنے لگے کہا اب تو اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنا کر بھیجے گا ہی نہیں۔ كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک شبہ کرنے والا ہو (۳۴) یہ تھا ان کا کفر اور ان کی تکذیب اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دیتا ہے جو بےجا کام کرنے والا حد سے گزرے جانے والا اور شک شبہ میں مبتلا رہنے والا ہو۔ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ جو بغیر کسی سند کے جو انکے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں اللہ کے نزدیک اور مؤمنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے یعنی جو تمہارا حال ہے یہی حال ان سب کا ہوتا ہے جن کے کام اسراف والے ہوں اور جن کا دل شک شبہ والا ہو، جو لوگ حق کو باطل سے ہٹاتے ہیں اور بغیر دلیل کے دلیلوں کو ٹالتے ہیں اس پر اللہ ان سے ناخوش ہے اور سخت تر ناراض ہے۔ ان کے یہ افعال جہاں اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں وہاں ایمان داروں کی بھی ناخوشی کا ذریعہ ہیں۔ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ا للہ تعالیٰ اسی طرح ہر مغرور سرکش کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔ (۳۵) جن لوگوں میں ایسی بےہودہ صفتیں ہوتی ہیں ان کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر کر دیتا ہے جس کے بعد انہیں نہ اچھائی اچھی معلوم ہوتی ہے نہ برائی بری لگتی ہے ۔ ہر وہ شخص جو حق سے سرکشی کرنے والا ہو اور تکبر و غرور والا ہو۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں جَبَّار وہ شخص ہے جو دو انسانوں کو قتل کر ڈالے ۔ ابو عمران جونی اور قتادہ کا فرمان ہے کہ جو بغیر حق کے کسی کو قتل کرے وہ جَبَّار ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک بالا خانہ بنا شاید کہ میں آسمان کے جو دروازے ہیں (۳۶) فرعون کی سرکشی اور تکبر بیان ہو رہا ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لئے ایک بلند و بالا محل تعمیر کرا۔ اینٹوں اور چونے کی پختہ اور بہت اونچی عمارت بنا۔ جیسے اور جگہ ہے: فَأَوْقِدْ لِى يَهَـمَـنُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّى صَرْحاً اس نے کہا اے ہامان اینٹیں پکا کر میرے لئے ایک اونچی عمارت بنا۔ (۲۸:۳۸) حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قبر کو پختہ بنانا اور اسے چونے گج کرنا سلف صالحین مکروہ جانتے تھے۔ (ابن ابی حاتم) أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ (ان) دروازوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں اور بیشک میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹا ہے فرعون کہتا ہے کہ یہ محل میں اس لئے بنوا رہا ہوں کہ آسمان کے دروازوں اور آسمان کے راستوں تک میں پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے اللہ کو دیکھ لوں گو میں جانتا ہوں کہ موسیٰ ہے جھوٹا۔ وہ جو کہہ رہا ہے کہ اللہ نے اسے بھیجا ہے یہ بالکل غلط ہے، دراصل فرعون کا یہ ایک مکر تھا اور وہ اپنی رعیت پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ دیکھو میں ایسا کام کرتا ہوں جس سے موسیٰ کا جھوٹ بالکل کھل جائے اور میری طرح تمہیں بھی یقین آ جائے کہ موسیٰ غلط گو مفتری اور کذاب ہے۔ وَكَذَلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ اور اسی طرح فرعون کی بد کرداریاں اسے بھلی دکھائی گئیں اور راہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی (ہر) حیلہ سازی تباہی میں ہی رہی ۔ (۳۷) فرعون راہ اللہ سے روک دیا گیا۔ اسی کی ہر تدبیر الٹی ہی رہی اور جو کام وہ کرتا ہے وہ اس کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے اور وہ خسارے میں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ اور اس ایماندار شخص نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) تم (سب) میری پیروی کرو میں نیک راہ کی طرف تمہاری رہبری کروں گا (۳۸) فرعون کی قوم کا مؤمن مرد جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اپنی قوم کے سرکشوں خود پسندوں اور متکبروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم میری مانو میری راہ چلو میں تمہیں راہ راست پر ڈال دوں گا۔ یہ اپنے اس قول میں فرعون کی طرح کاذب نہ تھا۔وہ تو اپنی قوم کو دھوکا دے رہا تھا اور یہ ان کی حقیقی خیر خواہی کر رہا تھا ، يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے (یقین مانو کہ قرار) اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے (۳۹) پھر انہیں دنیا سے بےرعبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے کہتا ہے کہ دنیا ایک ڈھل جانے والا سایہ اور فنا ہو جانے والا فائدہ ہے۔ لازوال اور قرار و ہمیشگی والی جگہ تو اس کے بعد آنے والی آخرت ہے۔ مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا ۖ جس نے گناہ کیا ہے اسے تو برابر ہی کا بدلہ ہے جہاں کی رحمت و زحمت لبدی اور غیر فانی ہے ، جہاں برائی کا بدلہ تو اس کے برابر ہی دیا جاتا ہے ہاں نیکی کا بدلہ بےحساب دیا جاتا ہے۔ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ اور جس نے نیکی کی ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایماندار ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بیشمار روزی پائیں گے (۴۰) نیکی کرنے والا چاہے مرد ہو۔ چاہے عورت ہو۔ ہاں یہ شرط ہے کہ ہو باایمان۔ اسے اس نیکی کا ثواب اس قدر دیا جائے گا جو بیحد وبے حساب ہو گا۔ وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا رہے ہو۔ (۴۱) تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ تم مجھے دعوت دے رہے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ شرک کروں جس کا کوئی علم مجھے نہیں قوم فرعون کا مؤمن مرد اپنا وعظ جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں توحید کی طرف یعنی اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلا رہا ہوں۔ میں تمہیں اللہ کے رسول کی تصدیق کرنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ اور تم مجھے کفر و شرک کی طرف بلا رہے ہو؟ تم چاہتے ہو کہ میں جاہل بن جاؤں اور بےدلیل اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کروں؟ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ اور میں تمہیں غالب بخشنے والے (معبود) کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔ (۴۲) غور کرو کہ تمہاری اور میری دعوت میں کس قدر فرق ہے؟ میں تمہیں اس اللہ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جو بڑی عزت اور کبریائی والا ہے۔ باوجود اس کے وہ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس کی طرف جھکے اور استغفار کرے ، لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ یہ یقینی امر ہے کہ مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وہ تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے نہ آخرت میں لَا جَرَمَ کے معنی حق و صداقت کے ہیں ، یعنی یہ یقینی سچ اور حق ہے کہ جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو یعنی بتوں اور سوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کی طرف یہ تو وہ ہیں جنہیں دین و دنیا کا کوئی اختیار نہیں۔ جنہیں نفع نقصان پر کوئی قابو نہیں جو اپنے پکارنے والے کی پکار کو سن سکیں تو قبول کر سکیں نہ یہاں نہ وہاں۔ جیسے فرمان اللہ ہے: وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارتا ہے۔ جو اس کی پکار کو قیامت تک سن نہیں سکتے۔ جنہیں مطلق خبر نہیں کہ کون ہمیں پکار رہا ہے؟ جو قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت سے بالکل انکار کر جائیں گے۔ (۴۶:۵) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن لیں تو قبول نہیں کر سکتے۔ (۳۵:۱۴) وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ اور یہ بھی (یقینی بات ہے) کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور حد سے گزر جانے والے ہی (یقیناً) اہل دوزخ ہیں۔ (۴۳) مؤمن آل فرعون کہتا ہے۔ کہ ہم سب کو لوٹ کر اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔ وہاں ہر ایک کو اپنے اعمال کا بدلہ بھگتنا ہے۔ وہاں حد سے گزر جانے والے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے ہمیشہ کیلئے جہنم و اصل کر دیئے جائیں گے ، فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ پس آگے چل کر تم میری باتوں کو یاد کرو گے گو تم اس وقت میری باتوں کی قدر نہ کرو۔ لیکن ابھی ابھی تمہیں معلوم ہو جائے گا میری باتوں کی صداقت و حقانیت تم پر واضح ہو جائے گی۔ اس وقت ندامت حسرت اور افسوس کرو گے لیکن وہ محض بےسود ہوگا۔ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کا نگران ہے۔ (۴۴) میں تو اپنا کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ میرا توکل اسی کی ذات پر ہے۔ میں تو اپنے ہر کام میں اسی سے مدد طلب کرتا ہوں۔ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں میں تم سے الگ ہوں اور تمہارے کاموں سے نفرت کرتا ہوں۔ میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ اپنے بندوں کے تمام حالات سے دانا بینا ہے۔ مستحق ہدایت جو ہیں ان کی وہ رہنمائی کرے گا اور مستحقین ضلالت اس رہنمائی سے محروم رہیں گے ، اس کا ہر کام حکمت والا اور اس کی ہر تدبیر اچھائی والی ہے فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ پس اسے اللہ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں اور فرعوں والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا (۴۵) اس مؤمن کو اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کے مکر سے بچا لیا۔ دنیا میں بھی وہ محفوظ رہا یعنی موسیٰ کے ساتھ اس نے نجات پائی اور آخرت کے عذاب سے بھی محفوظ رہا۔ باقی تمام فرعونی بدترین عذاب کا شکار ہوئے۔ سب دریا میں ڈبو دیئے گئے ، پھر وہاں سے جہنم واصل کر دیئے گئے۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ آگ ہے جسکے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔ (۴۶) ہر صبح شام ان کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں ، قیامت تک یہ عذاب انہیں ہوتا رہے گا۔ اور قیامت کے دن ان کی روحیں جسم سمیت جہنم میں ڈال دی جائیں گی۔ اور اس دن ان سے کہا جائے گا کہ اے آل فرعون سخت درد ناک اور بہت زیادہ تکلیف دہ عذاب میں چلے جاؤ۔ یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے بہت بڑی دلیل ہے ، ہاں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ کہ بعض احادیث میں کچھ ایسے مضامین وارد ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب برزخ کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے شریف کی ہجرت کے بعد ہوا اور یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کی روحیں صبح شام جہنم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں ۔ باقی رہی بات کہ یہ عذاب ہر وقت جاری اور باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ آیا یہ عذاب صرف روح کو ہی ہوتا ہے یا جسم کو بھی اس کا علم اللہ کی طرف سے آپ کو مدینے شریف میں کرایا گیا۔ اور آپ نے اسے بیان فرما دیا۔ پس حدیث و قرآن ملا کر مسئلہ یہ ہوا کہ عذاب و ثواب قبر ، روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی حق ہے مسند احمد میں ہے: ایک یہودیہ عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت گزار تھی۔ حضرت عائشہ جب کبھی اس کے ساتھ کچھ سلوک کرتی تو وہ دعا دیتی اور کہتی اللہ تجھے جہنم کے عذاب سے بچائے۔ ایک روز حضرت صدیقہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے؟ اور وہ تو اس سے زیادہ جھوٹ اللہ پر باندھا کرتے ہیں۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک مرتبہ ظہر کے وقت کپڑا لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور باآواز بلند فرما رہے تھے: قبر مانند سیاہ رات کی اندھیریوں کے ٹکڑوں کے ہے۔ لوگو اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے ، لوگو! قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو ، یقین مانو کہ عذاب قبر حق ہے۔ اور روایت میں ہے: ایک یہودیہ عورت نے حضرت عائشہؓ سے کچھ مانگا جو آپ نے دیا اور اس نے وہ دعا دی اس کے آخر میں ہے کہ کچھ دنوں بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تمہاری آزمائش قبروں میں کی جاتی ہے۔ پس ان احادیث اور آیت میں ایک تطبیق تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ دوسری تطبیق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آیت يُعْرَضُونَ سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو عالم برزخ میں عذاب ہوتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مؤمن کو یہاں کے بعض گناہوں کی وجہ سے اس کی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ یہ صرف حدیث شریف سے ثابت ہوا۔ مسند احمد میں ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اس وقت ایک یہودیہ عورت مائی صاحبہ کے پاس بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تم لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے؟ اسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کانپ گئے اور فرمایا یہود ہی آزمائے جاتے ہیں۔ پھر چند دنوں بعد آپ نے فرمایا لوگو تم سب قبروں کے فتنہ میں ڈالے جاؤ گے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آیت سے صرف روح کے عذاب کا ثبوت ملتا تھا۔ اس سے جسم تک اس عذاب کے پہنچنے کا ثبوت نہیں تھا۔ بعد میں بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم کرایا گیا کہ عذاب قبر جسم و روح کو ہوتا ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے پھر اس سے بچاؤ کی دعا شروع کی ، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: حضرت عائشہؓ کے پاس ایک یہودیہ عورت آئی اور اس نے کہا عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس پر صدیقہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس حدیث سے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اسے سنتے ہی یہودیہ عورت کی تصدیق کی۔ اور اوپر والی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تکذیب کی تھی۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ یہ دو واقعے ہیں پہلے واقعے کے وقت چونکہ وحی سے آپ کو معلوم نہیں ہوا تھا آپ نے انکار فرما دیا۔ پھر معلوم ہو گیا تو آپ نے اقرار کیا ، واللہ سبحان و تعالیٰ اعلم۔ قبر کے عذاب کا ذکر بہت سی صحیح احادیث میں آ چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں: رہتی دنیا تک ہر صبح شام آل فرعون کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ بدکارو تمہاری اصلی جگہ یہی ہے تاکہ ان کے رنج و غم بڑھیں ان کی ذلت و توہین ہو۔ پس آج بھی وہ عذاب میں ہی ہیں۔ اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں وہ جنت میں جہاں کہیں چاہیں چلتی پھرتی ہیں۔ اور مؤمنوں کے بچوں کی روحیں چڑیوں کے قالب میں ہیں اور جہاں وہ چاہیں جنت میں چلتی رہتی ہیں۔ اور عرش تلے کی قندیلوں میں آرام حاصل کرتی ہیں۔ اور آل فرعون کی روحیں سیاہ رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں۔ صبح بھی جہنم کے پاس جاتی ہیں۔ اور شام کو بھی یہی ان کا پیش ہونا ہے۔ معراج والی لمبی روایت میں ہے: پھر مجھے ایک بہت بڑی مخلوق کی طرف لے چلے جن میں سے ہر ایک کا پیٹ مثل بہت بڑے گھر کے تھا۔ جو آل فرعون کے پاس قید تھے۔ اور آل فرعون صبح شام آگ پر لائے جاتے ہیں۔ اور جس دن قیامت قائم ہوگی اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ان فرعونیوں کو سخت تر عذابوں میں لے جاؤ اور یہ فرعونی لوگ نکیل والے اونٹوں کی طرح منہ نیچے کئے پتھر اور درخت پر چڑھ رہے ہیں اور بالکل بےعقل و شعور ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو احسان کرے خواہ مسلم ہو خواہ کافر اللہ تعالیٰ اسے ضرور بدلہ دیتا ہے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر کو کیا بدلہ ملتا ہے؟ فرمایا اگر اس نے صلہ رحمی کی ہے یا صدقہ دیا ہے اور کوئی اچھا کام کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ اس کے مال میں اس کی اولاد میں اس کی صحت میں اور ایسی ہی اور چیزوں میں عطا فرماتا ہے۔ ہم نے پھر پوچھا اور آخرت میں کیا ملتا ہے؟ فرمایا بڑے درجے سے کم درجے کا عذاب پھر آپ نے أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ، پڑھی۔ ابن جریر میں ہے : حضرت اوزاعی سے ایک شخص نے پوچھا کہ ذرا ہمیں یہ بتاؤ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مفید پرندوں کا غول کا غول سمندر سے نکلتا ہے اور اس کے مغربی کنارے اڑتا ہوا، صبح کے وقت جاتا ہے۔ اس قدر زیادتی کے ساتھ کہ ان کی تعداد کوئی گن نہیں سکتا۔ شام کے وقت ایسا ہی جھنڈ کا جھنڈ واپس آتا ہے لیکن اس وقت ان کے رنگ بالکل سیاہ ہوتے ہیں آپ نے فرمایا تم نے اسے خوب معلوم کر لیا۔ ان پرندوں کے قالب میں آل فرعون کی روحیں ہیں۔ جو صبح شام آگ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں پھر اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتی ہیں ان کے پر جل گئے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ سیاہ ہو جاتے ہیں۔ پھر رات کو وہ اُگ جاتے ہیں اور سیاہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں یہی حالت ان کی دنیا میں ہے اور قیامت کے دن ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس آل فرعون کو سخت عذابوں میں داخل کر دو کہتے ہیں کہ ان کی تعداد چھ لاکھ کی ہے جو فرعونی فوج تھی۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تم میں سے جب کبھی کوئی مرتا ہے ہر صبح شام اس کی جگہ اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اگر وہ جنتی ہے تو جنت۔ اور اگر وہ جہنمی ہے تو جہنم اور کہا جاتا ہے کہ تیری اصل جگہ یہ ہے جہاں تجھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھیجے گا۔ یہ حدیث صحیح بخاری مسلم میں بھی ہے۔ وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِنَ النَّارِ اور جب کہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ تکبر والوں سے (جن کے یہ تابع تھے) کہیں گے ہم تو تمہارے پیرو تھے تو کیا اب تم ہم سے اس آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو؟ (۴۷) جہنمی لوگ جہنم کے اور عذابوں کو برداشت کرتے ہوئے ایک اور عذاب کے بھی شکار ہوں گے جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے۔ یہ عذاب فرعون کو بھی ہو گا اور دوسرے دوزخیوں کو بھی یعنی آپس میں تھوکنا تذلیل اور لڑائی جھگڑے۔ چھوٹے بڑوں سے یعنی تابعداری کرنے اور حکم احکام کے ماننے والے جن کی بڑائی اور بزرگی کے قائل تھے اور جن کی باتیں تسلیم کیا کرتے تھے اور جن کے کہے ہوئے پر عامل تھے ان سے کہیں گے۔ کہ دنیا میں ہم تو آپ کے تابع فرمان رہے۔ جو آپ نے کہا ہم بجا لاتے۔ کفر اور گمراہی کے احکام بھی جو آپ کی بارگاہ سے صادر ہوئے آپ کے تقدس اور علم و فضل سرداری اور حکومت کی بنا پر ہم سب کو مانتے رہے ، اب یہاں آپ ہمیں کچھ تو کام آئے۔ ہمارے عذابوں کا ہی کوئی حصہ اپنے اوپر اٹھا لیجئے ، قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ وہ بڑے لوگ جواب دیں گے ہم تو سبھی اس آگ میں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔ (۴۸) یہ رؤسا اور امرا سادات اور بزرگ جواب دیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ جل بھن رہے ہیں۔ ہمیں جو عذاب ہو رہے ہیں وہ کیا کم ہیں جو ہم تمہارے عذاب اٹھائیں؟ اللہ کا حکم جاری ہو چکا ہے۔ رب فیصلے صادر فرما چکا ہے۔ ہر ایک کو اس کے بداعمال کے مطابق سزا دے چکا ہے۔ اب اس میں کمی ناممکن ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے: قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ ہر ایک کیلئے بڑھا چڑھا عذاب گو تم نہ سمجھو۔ (۷:۳۸) وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ اور (تمام) جہنمی مل کر جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ کسی دن تو ہمارے عذاب میں کمی کر دے (۴۹) جب اہل دوزخ سمجھ لیں گے کہ اللہ ان کی دعا قبول نہیں فرما رہا بلکہ کان بھی نہیں لگاتا۔ بلکہ انہیں ڈانٹ دیا ہے اور فرما چکا ہے کہ یہیں پڑے رہو اور مجھ سے کلام بھی نہ کرو تو وہ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے۔ جو وہاں کے ایسے ہی پاسبان ہیں جیسے دنیا کے جیل خانوں کے نگہبان داروغے اور محافظ سپاہ ہوتے ہیں۔ ان سے کہیں گے کہ تم ہی ذرا اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ کسی ایک دن ہی وہ ہمارے عذاب ہلکے کر دے ، قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ وہ جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول معجزے لے کر نہیں آئے تھے؟ وہ انہیں جواب دیں گے کہ کیا رسولوں کی زبانی احکام ربانی دنیا میں تمہیں پہنچے نہ تھے؟ قَالُوا بَلَى ۚ وہ کہیں گے کیوں نہیں، یہ کہیں گے ہاں پہنچے تھے۔ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ وہ کہیں گے پھر تم ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا محض بے اثر اور بےراہ ہے (۵۰) تو فرشتے کہیں گے پھر اب تم آپ ہی اللہ سے کہہ سن لو۔ ہم تو تمہاری طرف سے کوئی عرض اس کی جناب میں کر نہیں سکتے۔ بلکہ ہم خود تم سے بیزار اور تمہارے دشمن ہیں سنو ہم تمہیں کہہ دیتے ہیں کہ خواہ تم دعا کرو خواہ تمہارے لئے اور کوئی دعا کرے ناممکن ہے کہ تمہارے عذابوں میں کمی ہو۔ کافروں کی دعا نامقبول اور مردود ہے۔ إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہونگے۔ (۵۱) آیت میں رسولوں کی مدد کرنے کا اللہ کا وعدہ ہے ، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کر دیا، جیسے حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب صلوات اللہ علیہم و سلامہ ، اور بعض انبیاء کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام۔ اور حضرت عیسیٰ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی۔ پھر کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا؟ اس کے دو جواب ہیں - ایک تو یہ کہ یہاں گو عام خبر ہے لیکن مراد بعض سے ہے ، اور یہ لعنت میں عموماً پایا جاتا ہے کہ مطلق ذکر ہو اور مراد خاص افراد ہوں۔ - دوسرے یہ کہ مدد کرنے سے مراد بدلہ لینا ہو۔ پس کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے ایذاء پہنچانے والوں سے قدرت نے زبردست انتقام نہ لیا ہو۔ چنانچہ حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب کے قاتلوں پر اللہ نے ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا اور انہوں نے انہیں زیر و زبر کر ڈالا ، ان کے خون کی ندیاں بہا دیں اور انہیں نہایت ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا۔ نمرود مردود کا مشہور واقعہ دنیا جانتی ہے کہ قدرت نے اسے کیسی پکڑ میں پکڑا؟ حضرت عیسیٰ کو جن یہودیوں نے سولی دینے کی کوشش کی تھی۔ ان پر جناب باری عزیز و حکیم نے رومیوں کو غالب کر دیا۔ اور ان کے ہاتھوں ان کی سخت ذلت و اہانت ہوئی۔ اور ابھی قیامت کے قریب جب آپ اتریں گے تب دجال کے ساتھ ان یہودیوں کی جو اس کے لشکری ہوں گے قتل کریں گے۔ اور امام عادل اور حاکم باانصاف بن کر تشریف لائیں گے صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ باطل کر دیں گے بجز اسلام کے اور کچھ قبول نہ فرمائیں گے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مدد اور یہی دستور قدرت ہے جو پہلے سے ہے اور اب تک جاری ہے کہ وہ اپنے مؤمن بندوں کی دنیوی امداد بھی فرماتا ہے اور ان کے دشمنوں سے خود انتقام لے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے: جو شخص میرے نبیوں سے دشمنی کرے اس نے مجھے لڑائی کیلئے طلب کیا۔ دوسری حدیث میں ہے: اسی بناء پر اس مالک الملک نے قوم نوح سے ، عاد سے ، ثمودیوں سے ، اصحاب الرس سے ، قوم لوط سے ، اہل مدین سے اور ان جیسے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور حق کا خلاف کیا تھا بدلہ لیا۔ ایک ایک کو چن چن کر تباہ برباد کیا اور جتنے مؤمن ان میں تھے ان سب کو بچا لیا۔ امام سدی فرماتے ہیں: جس قوم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے یا ایمان دار بندے انہیں پیغام الہٰی پہنچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور اس قوم نے ان نبیوں کی یا ان مؤمنوں کی بےحرمتی کی اور انہیں مارا پیٹا قتل کیا ضرور بالضرور اسی زمانے میں عذاب الہٰی ان پر برس پڑے۔ نبیوں کے قتل کے بدلے لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور پانی کی طرح ان کے خون سے پیاسی زمین کو سیراب کیا۔ پس گو انبیاء اور مؤمنین یہاں قتل کئے گئے لیکن ان کا خون رنگ لایا اور ان کے دشمنوں کا بھس کی طرح بھرکس نکال دیا۔ ناممکن ہے کہ ایسے بندگان خاص کی امداد و اعانت نہ ہو اور ان کے دشمنوں سے پورا انتقام نہ لیا گیا ہو۔ اشرف الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی دنیا اور دنیا والوں کے سامنے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اور آپ ﷺکے صحابہ کو غلبہ دیا اور دشمنوں کی تمام تر کوششوں کو بےنتیجہ رکھا۔ ان تمام پر آپ کو کھلا غلبہ عطا فرمایا۔ آپ کے کلمے کو بلند و بالا کیا آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان پر چھا گیا۔ قوم کی زبردست مخالفتوں کے وقت اپنے نبی کو مدینے پہنچا دیا اور مدینے والوں کو سچا جاں نثار بنا کر پھر مشرکین کا سارا زور بدر کی لڑائی میں ڈھا دیا۔ ان کے کفر کے تمام وزنی ستون اس لڑائی میں اکھیڑ دیئے۔ سرداران مشرک یا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے یا مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن کر نامرادی کے ساتھ گردن جھکائے نظر آنے لگے قید و بند میں جکڑے ہوئے ذلت و اہانت کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کسی کے ہاتھوں پر اور کسی کے پاؤں پر دوسرے کی گرفت تھی۔ اللہ کی حکمت نے ان پر پھر احسان کیا اور ایک مرتبہ پھر موقعہ دیا فدیہ لے کر آزاد کر دیئے گئے لیکن پھر بھی جب مخالفت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اور اپنے کرتوتوں پر اڑے رہے۔ تو وہ وقت بھی آیا کہ جہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپ چھپا کر رات کے اندھیرے میں پاپیادہ ہجرت کرنی پڑی تھی وہاں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے اور گردن پر ہاتھ باندھے دشمنان رسول سامنے لائے گئے۔ اور بلاد حرم کی عظمت و عزت رسول محترم کی وجہ سے پوری ہوئی۔ اور تمام شرک و کفر اور ہر طرح کی بے ادبیوں سے اللہ کا گھر پاک صاف کر دیا گیا۔ بالآخر یمن بھی فتح ہوا اور پورا جزیرہ عرب قبضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آ گیا۔ اور جوق کے جوق لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوگئے۔ پھر رب العالمین نے اپنے رسول رحمتہ العالمین کو اپنی طرف بلا لیا اور وہاں کی کرامت و عظمت سے اپنی مہمانداری میں رکھ کر نوازا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر آپ کے بعد آپ کے نیک نہاد صحابہ کو آپ کا جانشین بنایا۔ جو محمدی جھنڈا لئے کھڑے ہوگئے اور اللہ کی توحید کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلانے لگے۔ جو روڑا راہ میں آیا اسے الگ کیا۔ جو خار چمن میں نظر پڑا اسے کاٹ ڈالا گاؤں گاؤں شہر شہر ملک ملک دعوت اسلام پہنچا دی جو مانع ہوا اسے منع کا مزہ چکھایا اسی ضمن میں مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامی پھیل گئی۔ زمین پر اور زمین والوں کے جسموں پر ہی صحابہ کرام نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح پالی اسلامی نقوش دلوں میں جما دیئے اور سب کو کلمہ توحید کے نیچے جمع کر دیا۔ دین محمد نے زمین کا چپہ چپہ اور کونا کونا اپنے قبضے میں کر لیا۔ دعوت محمدیہ بہرے کانوں تک بھی پہنچ چکی۔ صراط محمدی اندھوں نے بھی دیکھ لیا۔ اللہ اس پاکباز جماعت کو ان کی اولو العزمیوں کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آمین! الحمد للہ اللہ کا اور اس کے رسول کا کلام موجود ہے۔ اور آج تک ان کے سروں پر رب کا ہاتھ ہے۔ اور قیامت تک یہ وطن مظفر و منصور ہی رہے گا اور جو اس کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائے گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھائے گا یہی مطلب ہے اس مبارک آیت کا۔ قیامت کے دن بھی دینداروں کی مدد و نصرت ہوگی اور بہت بڑی اور بہت اعلیٰ پیمانے تک۔ يَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں ، اگلی آیت میں يَوْم بدل ہے پہلی آیت کے اسی لفظ سے۔ بعض قرأتوں میں يَوْم ہے تو یہ گویا پہلے یوم کی تفسیر ہے۔ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ جس دن ظالموں کو ان کی (عذر) معذرت کچھ نفع نہ دے گی ان کے لئے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لئے برا گھر ہوگا (۵۲) ظالموں سے مراد مشرک ہیں ان کا عذر و فدیہ قیامت کے دن مقبول نہ ہوگا وہ رحمت رب سے اس دن دور دھکیل دیئے جائیں گے۔ ان کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہوگا۔ ان کی عاقبت خراب ہوگی ، وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَى وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت نامہ عطا فرمایا اور بنو اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا (۵۳) حضرت موسیٰ کو ہم نے ہدایت ونور بخشا۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ (۵:۴۴) بنی اسرائیل کا انجام بہتر کیا۔ فرعون کے مال و زمین کا انہیں وارث بنایا کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت اور اتباع رسول میں ثابت قدمی کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے تھے۔ هُدًى وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ کہ وہ ہدایت و نصیحت تھی عقل مندوں کے لئے (۵۴) جس کتاب کے یہ وارث ہوئے وہ عقلمندوں کیلئے سرتاپا باعث ہدایت و عبرت تھی ، فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ پس اے نبی! تو صبر کر اللہ کا وعدہ بلا شک (وشبہ) سچا ہی ہے تو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہوگا انجام کے لحاظ سے آپ والے ہی غالب رہیں گے۔ رب اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا بلاشک و شبہ دین اللہ کا اونچا ہو کر ہی رہے گا۔ تو اپنے رب سے استغفار کرتا رہ۔آپﷺ کو حکم دے کر دراصل آپ کی اُمت کو استغفار پر آمادہ کرنا ہے۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ اور صبح شام اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ۔ (۵۵) دن کے آخری اور رات کے انتہائی وقت خصوصیت کے ساتھ رب کی پاکیزگی اور تعریف بیان کیا کر ، إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ ۚ جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند کے نہ ہونے کے آیات الہٰی میں جھگڑا کرتے ہیں ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں وہ اس تک پہنچنے والے ہی نہیں جو لوگ باطل پر جم کر حق کو ہٹا دیتے ہیں دلائل کو غلط بحث سے ٹال دیتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ان میں اتباع حق سے سرکشی ہے۔ یہ رب کی باتوں کی عزت جانتے ہی نہیں۔ لیکن جو تکبر اور جو خودی اور جو اپنی اونچائی وہ چاہتے ہیں وہ انہیں ہرگز حاصل نہیں ہونے کی۔ ان کے مقصود باطل ہیں۔ ان کے مطلوب لاحاصل ہیں ۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ سو تو اللہ کی پناہ مانگتا رہ بیشک وہ پورا سننے والا اور سب سے زیادہ دیکھنے والا ہے۔ (۵۶) اللہ کی پناہ طلب کر کہ ان جیسا حال کسی بھلے آدمی کا نہ ہو۔ اور ان نخوت پسند لوگوں کی شرارت سے بھی اللہ کی پناہ چاہ کر۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ کہتے تھے دجال انہی میں سے ہوگا اور اس کے زمانے میں یہ زمانے کے بادشاہ ہو جائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو۔ وہ سمیع و بصیر ہے۔ لیکن آیت کو یہودیوں کے بارے میں نازل شدہ بتانا اور دجال کی بادشاہی اور اس کے فتنے سے پناہ کا حکم۔ سب چیزیں تکلف سے پُرہیں۔ مانا کہ یہ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے مگر یہ قول ندرت سے خالی نہیں۔ ٹھیک یہی ہے کہ عام ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ آسمان و زمین کی پیدائش یقیناً انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے، لیکن (وشبہ) اکثر لوگ بےعلم ہیں (۵۷) اللہ تعالیٰ قادر مطلق فرماتا ہے کہ مخلوق کو وہ قیامت کے دن نئے سرے سے ضرور زندہ کرے گا جبکہ اس نے آسمان و زمین جیسی زبردست مخلوق کو پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کرنا یا اسے بگاڑ کر بنانا اس پر کیا مشکل ہے؟ اور آیت میں ارشاد ہے: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ کیا ایسی بات اور اتنی واضح حقیقت بھی جھٹلائے جانے کے قابل ہے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کر دیا اور اس اتنی بڑی چیز کی پیدائش سے نہ وہ تھکا نہ عاجز ہوا اس پر مردوں کا جلانا کیا مشکل ہے؟ (۴۶:۳۳) ایسی صاف دلیل بھی جس کے سامنے جھٹلانے کی چیز ہو اس کی معلومات یقیناً نوحہ کرنے کے قابل ہیں۔ اس کی جہالت میں کیا شک ہے جو ایسی موٹی بات بھی نہ سمجھ سکے؟ تعجب ہے کہ بڑی بڑی چیز تو تسلیم کی جائے اور اس سے بہت چھوٹی چیز کو محال محض مانا جائے ، وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَا تَتَذَكَّرُونَ اندھا اور بینا برابر نہیں نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور بھلے کام کئے بدکاروں کے برابر ہیں تم (بہت) کم نصیحت حاصل کر رہے ہو۔ (۵۸) اندھے اور دیکھنے والے کا فرق ظاہر ہے ٹھیک اسی طرح مسلم و مجرم کا فرق ہے۔ اکثر لوگ کس قدر کم نصیحت قبول کرتے ہیں ، إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ قیامت بالیقین اور بلاشبہ آنے والی ہے، لیکن (یہ اور بات ہے کہ) بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (۵۹) یقین مانو کہ قیامت کا آنا حتمی ہے پھر بھی اس کی تکذیب کرنے اور اسے باور نہ کرنے سے بیشتر لوگ باز نہیں آتے۔ ایک یمنی شیخ اپنی سنی ہوئی روایت بیان کرتے ہیں: قریب قیامت کے وقت لوگوں پر بلائیں برس پڑیں گی اور سورج کی حرارت سخت تیز ہو جائے گی۔ واللہ اعلم وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کے اس احسان پر قربان جائیں کہ وہ ہمیں دعا کی ہدایت کرتا ہے اور قبولیت کا وعدہ فرماتا ہے۔ امام سفیان ثوری اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے: اے وہ اللہ جسے وہ بندہ بہت ہی پیارا لگتا ہے جو بکثرت اس سے دعائیں کیا کرے۔ اور وہ بندہ اسے سخت برا معلوم ہوتا ہے جو اس سے دعا نہ کرے۔ اے میرے رب یہ صفت تو صرف تیری ہی ہے۔ شاعر کہتا ہے اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وبنی ادم حین یسال یغضب اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جب تو اس سے نہ مانگے تو وہ ناخوش ہوتا ہے اور انسان کی یہ حالت ہے کہ اس سے مانگو تو وہ روٹھ جاتا ہے۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اس اُمت کو تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ ان سے پہلے کی کسی اُمت کو نہیں دی گئیں بجز نبی کے۔ - دیکھو ہر نبی کو اللہ کا فرمان یہ ہوا ہے کہ تو اپنی اُمت پر گواہ ہے۔ لیکن تمام لوگوں پر گواہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیا ہے۔ - اگلے نبیوں سے کہا جاتا تھا کہ تجھ پر دین میں حرج نہیں۔ لیکن اس اُمت سے فرمایا گیا کہ تمہارے دین میں تم پر کوئی حرج نہیں - ہر نبی سے کہا جاتا تھا کہ مجھے پکار میں تیری پکار قبول کروں گا لیکن اس اُمت کو فرمایا گیا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار قبول فرماؤں گا۔ (ابن ابی حاتم) ابو یعلیٰ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا چار خصلتیں ہیں : - جن میں سے ایک میرے لئے ہے - ایک تیرے لئے - ایک تیرے اور میرے درمیان - اور ایک تیرے درمیان اور میرے دوسرے بندوں کے درمیان۔ جو خاص میرے لئے ہے وہ تو یہ کہ صرف میری ہی عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر۔ اور جو تیرا حق مجھ پر ہے وہ یہ کہ تیرے ہر عمل خیر کا بھرپور بدلہ میں تجھے دوں گا۔ اور جو تیرے میرے درمیان ہے وہ یہ کہ تو دعا کر اور میں قبول کیا کروں۔ اور چوتھی خصلت جو تیرے اور میرے اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کیلئے وہ چاہ جو اپنے لئے پسند رکھتا ہے۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: دعا عین عبادت ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی یہ حدیث سنن میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ابن حبان اور حاکم بھی اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں۔ مسند میں ہے: جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری کی موت کے بعد ان کی تلوار کے درمیان میں سے ایک پرچہ نکلا جس میں تحریر تھا : تم اپنے رب کی رحمتوں کے مواقع کو تلاش کرتے رہو بہت ممکن ہے کہ کسی ایسے وقت تم دعائے خیر کرو کہ اس وقت رب کی رحمت جوش میں ہو اور تمہیں وہ سعادت مل جائے جس کے بعد کبھی بھی حسرت و افسوس نہ کرنا پڑے۔ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے (۶۰) آیت میں عبادت سے مراد دعا اور توحید ہے۔ مسند احمد میں ہے: قیامت کے دن متکبر لوگ چونٹیوں کی شکل میں جمع کئے جائیں گے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان کی اوپر ہوگی انہیں بولس نامی جہنم کے جیل خانے میں ڈالا جائے گا اور بھڑکتی ہوئی سخت آگ ان کے سروں پر شعلے مارے گی۔ انہیں جہنمیوں کا لہو پیپ اور پاخانہ پیشاب پلایا جائے گا۔ ابن ابی حاتم میں ایک بزرگ فرماتے ہیں میں ملک روم میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو گیا تھا ایک دن میں نے سنا کہ ہاتف غیب ایک پہاڑ کی چوٹی سے بہ آواز بلند کہہ رہا ہے۔ اے اللہ! اس پر تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے تیرے سوا دوسرے کی ذات سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے۔ اے اللہ! اس پر بھی تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے اپنی حاجتیں دوسروں کے پاس لے جاتا ہے۔ پھر ذرا ٹھہر کر ایک پر زور آواز اور لگائی اور کہا پورا تعجب اس شخص پر ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے دوسرے کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے وہ کام کرتا ہے جن سے تو ناراض ہو جائے۔ یہ سن کر میں نے بلند آواز سے پوچھا کہ تو کوئی جن ہے یا انسان؟ جواب آیا کہ انسان ہوں۔ تو ان کاموں سے اپنا دھیان ہٹا لے جو تجھے فائدہ نہ دیں۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو جاؤ جو تیرے فائدے کے ہیں۔ اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے رات بنا دی کہ تم اس میں آرام حاصل کرو اور دن کو دیکھنے والا بنا دیا اللہ تعالیٰ احسان بیان فرماتا ہے کہ اس نے رات کو سکون و راحت کی چیز بنائی۔ اور دن کو روشن چمکیلا تاکہ ہر شخص کو اپنے کام کاج میں ، سفر میں، طلب معاش میں سہولت ہو۔ اور دن بھر کا کسل اور تھکان رات کے سکون و آرام سے اتر جائے۔ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل و کرم والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے۔ (۶۱) مخلوق پر اللہ تعالیٰ بڑے ہی فضل و کرم کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اور یہ راحت و آرام کے سامان مہیا کر دینے والا ہی اللہ واحد ہے۔ جو تمام چیزوں کا خالق ہے۔ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ یہی اللہ ہے تم سب کا رب ہرچیز کا خالق اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر کہاں تم پھرے جاتے ہو (۶۲) اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، نہ اس کے سوا اور کوئی مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے۔ پھر تم کیوں اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ جو خود مخلوق ہیں۔ کسی چیز کو انہوں نے پیدا نہیں کیا۔ بلکہ جن بتوں کی تم پرستش کر رہے ہو وہ تو خود تمہارے اپنے ہاتھوں کے گھڑے ہوئے ہیں ، ان سے پہلے کے مشرکین بھی اسی طرح بہکے اور بےدلیل و حجت غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ كَذَلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ اس طرح وہ لوگ بھی پھیرے جاتے رہے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ (۶۳) خواہش نفسانی کو سامنے رکھ کر اللہ کے دلائل کی تکذیب کی۔ اور جہالت کو آگے رکھ کر بہکتے بھٹکتے رہے اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے قرار گاہ بنایا۔ یعنی ٹھہری ہوئی اور فرش کی طرح بچھی ہوئی کہ اس پر تم اپنی زندگی گزارو چلو پھر آؤ جاؤ۔ پہاڑوں کو اس پر گاڑ کر اسے ٹھہرا دیا کہ اب ہل جل نہیں سکتی۔ اس نے آسمان کو چھت بنایا جو ہر طرح محفوظ ہے۔ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو عطا فرمائیں اسی نے تمہیں بہترین صورتوں میں پیدا کیا۔ ہر جوڑ ٹھیک ٹھاک اور نظر فریب بنایا۔ موزوں قامت مناسب اعضا سڈول بدن خوبصورت چہرہ عطا فرمایا۔ نفیس اور بہتر چیزیں کھانے پینے کو دیں۔ پیدا کیا ، بسایا ، اس نے کھلایا پلایا ، اس نے پہنایا اوڑھایا۔ پس صحیح معنی میں خالق و رازق وہی رب العالمین ہے۔ جیسے سورہ بقرہ میں فرمایا: يَـأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ ۔۔۔فَلاَ تَجْعَلُواْ للَّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ لوگو اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا تاکہ تم بچو۔ اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش نازل فرما کر اس کی وجہ سے زمین سے پھل نکال کر تمہیں روزیاں دیں پس تم ان باتوں کے جاننے کے باوجود اللہ کے شریک اوروں کو نہ بناؤ۔ (۲:۲۱،۲۲) ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، پس بہت برکتوں والا اللہ ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا۔ (۶۴) یہاں بھی اپنی یہ صفتیں بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اور سارے جہان کا رب بھی وہی ہے۔ وہ بابرکت ہے۔ وہ بلندی پاکیزگی برتری اور بزرگی والا ہے ، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ وہ زندہ ہے جسکے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو وہ زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں۔ وہی اول و آخر ظاہر و باطن ہے۔ اس کا کوئی وصف کسی دوسرے میں نہیں۔ اس کا نظیر یا برابر کوئی نہیں۔ تمہیں چاہئے کہ اس کی توحید کو مانتے ہوئے اس سے دعائیں کرتے رہو ، اور اس کی عبادت میں مشغول رہو۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تمام خوبیاں اللہ ہی کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے (۶۵) تمام تر تعریفوں کا مالک اللہ رب العالمین ہی ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں: اہل علم کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کو ساتھ ہی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ بھی پڑھنا چاہئے تاکہ اس آیت پر عمل ہو جائے۔ ابن عباسؓ سے بھی یہ مروی ہے حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہی جب تک فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ پڑھے تو لا الہ الا اللہ کہہ لیا کر اور اس کے ساتھ ہی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پڑھ لیا کر۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ہر نماز کے سلام کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک والہ الحمد وھو علی کل شی قدیر پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم ابو داؤد ، نسائی) قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِنْ رَبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ آپ کہہ دیجئے! کہ مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو اس بنا پر کہ میرے پاس میرے رب کی دلیلیں پہنچ چکی ہیں، (۶۶) مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کا تابع فرمان ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ اپنے سوا ہر کسی کی عبادت سے اپنی مخلوق کو منع فرما چکا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی مستحق عبادت نہیں۔ اس کی بہت بڑی دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ، جس میں فرمایا کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا پھر تمہیں بچہ کی صورت میں نکالتا ہے، پھر (تمہیں بڑھاتا ہے کہ) تم اپنی پوری قوت کو پہنچ جاؤ پھر بوڑھے ہو جاؤ اسی وحدہ لاشریک لہ نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کی پھٹکی سے پیدا کیا۔ اسی نے تمہیں ماں کے پیٹ سے بچے کی صورت میں نکالا۔ ان تمام حالات کو وہی بدلتا رہا پھر اسی نے بچپن سے جوانی تک تمہیں پہنچایا۔ وہی جوانی کے بعد بڑھاپے تک لے جائے گا یہ سب کام اسی ایک کے حکم تقدیر اور تدبیر ہو جاتے ہیں۔ پھر کس قدر نامرادی ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے کی عبادت کی جائے؟ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ ۖ تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ یعنی کچے پنے میں ہی گر جاتے ہیں۔ حمل ساقط ہو جاتا ہے۔ بعض بچین میں بعض جوانی میں بعض ادھیڑ عمر میں بڑھاپے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ چنانچہ اور جگہ قرآن پاک میں ہے: وَنُقِرُّ فِى الاٌّرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ہم ماں کے پیٹ میں ٹھہراتے ہیں جب تک چاہیں۔ (۲۲:۵) وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (وہ تمہیں چھوڑ دیتا ہے) تاکہ تم مدت معین تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم سوچ سمجھ لو۔ (۶۷) یہاں فرمان ہے کہ تاکہ تم وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ۔ اور تم سوچو سمجھو۔ یعنی اپنی حالتوں کے اس انقلاب سے تم ایمان لے آؤ کہ اس دنیا کے بعد بھی تمہیں نئی زندگی میں ایک روز کھڑا ہونا ہے ، هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ وہی ہے جو جِلاتا ہے اور مار ڈالتا ہے پھر وہ جب کسی کام کا کرنا مقرر کرتا ہے تو اسے صرف کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے۔ (۶۸) وہی زندگی دینے والا اور مارنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی موت زیست پر قادر نہیں۔ اس کے کسی حکم کو کسی فیصلے کو کسی تقرر کو کسی ارادے کو کوئی توڑنے والا نہیں ، جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے اور جو وہ نہ چاہے ناممکن ہے کہ وہ ہوجائے۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ کیا تو نے نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں وہ کہاں پھیر دئیے جاتے ہیں (۶۹) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تمہیں ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے باطل کے سہارے حق سے اڑتے ہیں؟ تم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ان کی عقلیں ماری گئی ہیں؟ اور بھلائی کو چھوڑ برائی کو کیسے بری طرح چمٹ گئے ہیں؟ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۷۰) جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے بھی جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا انہیں ابھی ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی۔ پھر ان بدکردار کفار کو ڈرا رہا ہے کہ ہدایت و بھلائی کو جھوٹ جاننے والے کلام اللہ اور کلام رسول کے منکر اپنا انجام ابھی دیکھ لیں گے۔ جیسے فرمایا : وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے ، (۷۷:۱۵) إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ جب ان کی گردنوں میں طوق ہونگے اور زنجریں ہوں گی گھسیٹے جائیں گے (۷۱) جبکہ گردنوں میں طوق اور زنجیریں پڑی ہوئی ہوں گی اور داروغہ جہنم گھسیٹے گھسیٹے پھر رہے ہوں گے۔ کبھی حمیم میں اور کبھی حجیم میں۔ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ کھولتے ہوئے پانی میں اور پھر جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے۔ (۷۲) گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹے جائیں گے۔ اور آگ جہنم میں جھلسائے جائیں گے۔ جیسے اور جگہ ہے: هَـذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِى يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ ـ يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ ءَانٍ یہ ہے وہ جہنم جسے گنہگار لوگ جھوٹا جانا کرتے تھے۔ اب یہ اس کے اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان مارے مارے پریشان پھرا کریں۔ (۵۵:۴۳،۴۴) اور آیتوں میں ان کا زقوم کھانا اور گرم پانی پینا بیان فرما کر فرمایا : ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لإِلَى الْجَحِيمِ کہ پھر ان کی بازگشت تو جہنم ہی کی طرف ہے۔ (۳۷:۶۸) سورہ واقعہ میں اصحاب شمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : وَأَصْحَـبُ الشِّمَالِ مَآ أَصْحَـبُ الشِّمَالِ ـ فِى سَمُومٍ وَحَمِيمٍ ـ وَظِلٍّ مِّن يَحْمُومٍ ـ لاَّ بَارِدٍ وَلاَ كَرِيمٍ بائیں ہاتھ والے کس قدر برے ہیں؟ وہ آگ میں ہیں اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہے نہ سود مند ، (۵۶:۴۱،۴۴) آگے چل کر فرمایا : ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّآلُّونَ الْمُكَذِّبُونَ ـ لاّكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ ۔۔۔ هَـذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ اے بہکے ہوئے جھٹلانے والو البتہ سینڈ کا درخت کھاؤ گے اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے۔ پھر اس پر جلتا پانی پیو گے اور اس طرح جس طرح تونس والا اونٹ پیتا ہے۔ آج انصاف کے دن ان کی مہمانی یہی ہوگی۔ (۵۶:۵۱،۵۶) اور جگہ فرمایا ہے: إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ ـ طَعَامُ الاٌّثِيمِ ـ۔۔إِنَّ هَـذَا مَا كُنتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ یقیناً گنہگاروں کا کھانا زقوم کا درخت ہے جو مثل پگھلے ہوئے تابنے کے ہے جو پیٹوں میں کھولتا رہتا ہے۔ جیسے تیز گرم پانی۔ اسے پکڑو اور دھکیلتے ہوئے بیچوں بیچ جہنم میں پہنچاؤ پھر اس کے سر پر تیز گرم جلتے جلتے پانی کا عذاب بہاؤ (۴۴:۴۳،۵۰) لے چکھ تو بڑا ہی ذی عزت اور بڑی ہی تعظیم تکریر والا شخص تھا۔ جس سے تم شک شبہ میں تھے۔ ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُونَ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ جنہیں تم شریک کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ (۷۳) مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَيْئًا ۚ جو اللہ کے سوا تھے وہ کہیں گے کہ وہ تو ہم سے بہک گئے بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی کو بھی پکارتے ہی نہ تھے كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ اللہ تعالیٰ کافروں کو اسی طرح گمراہ کرتا ہے۔ (۷۴) ذَلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُونَ یہ بدلہ ہے اس چیز کا جو تم زمین میں ناحق پھولے نہ سماتے تھے۔ اور بےجا اتراتے پھرتے تھے۔ (۷۵) ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ اب آؤ جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لئے (اس کے) دروازوں میں داخل ہو جاؤ کیا ہی بری جگہ ہے تکبر کرنے والوں کی (۷۶) مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سے تو وہ یہ دکھ سہہ رہے ہوں گے جن کا بیان ہوا اور دوسری جانب سے انہیں ذلیل و خوار و رو سیاہ ناہنجار کرنے کیلئے بطور استہزاء اور تمسخر کے بطور ڈانٹ اور ڈپٹ کے بطور حقارت اور ذلت کے ان سے یہ کہا جائے گا جس کا ذکر ہوا۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے: ایک جانب سے سیاہ ابر اٹھے گا جسے جہنمی دیکھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ ابر کو دیکھتے ہوئے دنیا کے انداز پر کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ برسے وہیں اس میں سے طوق اور زنجیریں اور آگ کے انگارے برسنے لگیں گے جس کے شعلے انہیں جلائیں جھلسائیں گے اور وہ طوق و سلاسل ان کے طوق و سلاسل کے ساتھ اضافہ کر دیئے جائیں گے۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیوں جی دنیا میں اللہ عزوجل کے سوا جن جن کو پوجتے رہے وہ سب آج کہاں ہیں؟ کیوں وہ تمہاری مدد کو نہیں آئے؟ کیوں تمہیں یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں وہ تو سب آج ناپید ہوگئے وہ تھے ہی بےسود۔ پھر انہیں کچھ خیال آئے گا اور کہیں گے نہیں نہیں ہم نے تو ان کی عبادت کبھی نہیں کی۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جب ان کے بنائے کچھ نہ بنے گی تو صاف انکار کر دیں گے اور جھوٹ بول دیں گے کہ اللہ ہمیں تیری قسم ہم مشرک نہ تھے۔ یہ کفار اسی طرح بیکاری میں کھوئے رہتے ہیں ، ان سے فرشتے کہیں گے یہ بدلہ ہے اس کا جو دنیا میں بےوجہ گردن اکڑائے اکڑتے پھرتے تھے۔ تکبر و جبر پر چست کمر رہتے تھے لو اب آ جاؤ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہو جاؤ اب ہمیشہ یہیں پے رہنا تم جیسے اترانے والوں کی ہی یہ بدمنزل اور بری جائے قرار ہے۔ جس قدر تکبر کئے تھے اتنے ہی ذلیل و خوار آج بنو گے۔ جتنے ہی بلند گئے تھے اتنے ہی گرو گے۔ واللہ اعلم۔ فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ پس آپ صبر کریں اللہ کا وعدہ قطعًا سچا ہے انہیں ہم نے جو وعدے دے رکھے ہیں ان میں سے کچھ ہم کو دکھائیں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کا حکم دیتا ہے کہ جو تیری نہیں مانتے تجھے جھوٹا کہتے ہیں تو ان کی ایذاؤں پر صبر و برداشت کر۔ان سب پر فتح و نصرت تجھے ملے گی۔ انجام کار ہر طرح تیرے ہی حق میں بہتر رہے گا۔ تو اور تیرے یہ ماننے والے ہی تمام دنیا پر غالب ہو کر رہیں گے ، اور آخرت تو صرف تمہاری ہی ہے ، پس یا تو ہم اپنے وعدے کی بعض چیزیں تجھے تیری زندگی میں دکھا دیں گے ، اور یہی ہوا بھی ، بدر والے دن کفار کا دھڑ اور سر توڑ دیا گیا قریشیوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ بالآخر مکہ فتح ہوا اور آپ دنیا سے رخصت نہ ہوئے جب تک کہ تمام جزیرہ عرب آپ کے زیر نگیں نہ ہو گیا۔ اور آپ کے دشمن آپ کے سامنے ذلیل و خوار نہ ہوئے اور آپ کی آنکھیں رب نے ٹھنڈی نہ کر دیں ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ یا (اس سے پہلے) ہم آپ کو وفات دے دیں، ان کا لوٹایا جانا تو ہماری ہی طرف ہے۔ (۷۷) یا اگر ہم تجھے فوت ہی کرلیں تو بھی ان کا لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے ہم انہیں آخرت کے درد ناک سخت عذاب میں مبتلا کریں گے ، وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیںاور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کئے پھر مزید تسلی کے طور پر فرما رہا ہے کہ تجھ سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تیرے سامنے بیان کر دیئے ہیں۔ اور بعض کے قصے ہم نے بیان بھی نہیں کئے جیسے سورہ نساء میں بھی فرمایا گیا ہے۔ پس جن کے قصے مذکورہ ہیں دیکھ لو کہ قوم سے ان کی کیسی کچھ نمٹی۔ اور بعض کے واقعات ہم نے بیان نہیں کئے وہ بہ نسبت ان کے بہت زیادہ ہیں۔ جیسے کہ ہم نے سورہ نساء کی تفسیر کے موقعہ پر بیان کر دیا ہے۔ واللہ الحمد و المنہ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے پھر فرمایا یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسول اپنی مرضی سے معجزات اور خوارق عادات دکھائے ہاں اللہ عزوجل کے حکم کے بعد کیونکہ رسول کے قبضے میں کوئی چیز نہیں۔ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ پھر جس وقت اللہ کا حکم آئے گا حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطن خسارے میں رہ جائیں گے۔ (۷۸) ہاں جب اللہ کا عذاب آ جاتا ہے پھر تکذیب و تردید کرنے والے کفار بچ نہیں سکتے۔ مؤمن نجات پا لیتے ہیں اور باطل پرست باطل کار تباہ ہو جاتے ہیں۔ اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے جن میں سے بعض پر تم سوار ہوتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو۔ (۷۹) انعام یعنی اونٹ گائے بکری اللہ تعالیٰ نے انسان کے طرح طرح کے نفع کیلئے پیدا کئے ہیں سواریوں کے کام آتے ہیں کھائے جاتے ہیں۔ اونٹ سواری کا کام بھی دے کھایا بھی جائے ، دودھ بھی دے ، بوجھ بھی ڈھوئے اور دور دراز کے سفر بہ آسانی سے کرا دیئے۔ گائے کا گوشت کھانے کے کام بھی آئے دودھ بھی دے۔ ہل بھی جتے ، بکری کا گوشت بھی کھایا جائے اور دودھ بھی پیا جائے۔ پھر ان کے سب کے بال بیسیوں کاموں میں آئیں۔ جیسے کہ سورہ انعام سورہ نحل وغیرہ میں بیان ہو چکا ہے۔ وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ اور بھی تمہارے لئے ان میں بہت سے نفع ہیں اور تاکہ اپنے سینوں میں چھپی ہوئی حاجتوں کو انہی پر سواری کرکے تم حاصل کر لو اور ان چوپایوں پر اور کشتیوں پر سوار کئے جاتے ہو۔ (۸۰) وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا جا رہا ہے پس تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا منکر بنتے رہو گے۔ (۸۱) یہاں بھی یہ منافع بطور انعام گنوائے جا رہے ہیں ، دنیا جہاں میں اور اس کے گوشے گوشے میں اور کائنات کے ذرے ذرے میں اور خود تمہاری جانوں میں اس اللہ کی نشانیاں موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی ان گنت نشانیوں میں سے ایک کا بھی کوئی شخص صحیح معنی میں انکاری نہیں ہو سکتا یہ اور بات ہے کہ ضد اور اکڑ سے کام لے اور آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لے۔ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلوں کا انجام نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ ان اگلے لوگوں کو خبر دے رہا ہے جو رسولوں کو اس سے پہلے جھٹلا چکے ہیں۔ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ جو ان سے تعداد میں زیادہ تھے قوت میں سخت اور زمین میں بہت ساری یادگاریں چھوڑی تھیں انکے کئے کاموں نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا (۸۲) ساتھ ہی بتاتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا کچھ انہوں نے بھگتا؟ باوجود یکہ وہ قوی تھے زیادہ تھے زمین میں نشانات عمارتیں وغیرہ بھی زیادہ رکھنے والے تھے اور بڑے مالدار تھے۔ لیکن کوئی چیز ان کے کام نہ آئی کسی نے اللہ کے عذاب کو نہ دفع کیا نہ کم کیا نہ ٹالا نہ ہٹایا۔ فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر اترانے لگے یہ تھے ہی غارت کئے جانے کے قابل کیونکہ جب ان کے پاس اللہ کے قاصد صاف صاف دلیلیں ، روشن حجتیں ، کھلے معجزات ، پاکیزہ تعلیمات لے کر آئے تو انہوں نے آنکھ بھر کر دیکھا تک نہیں اپنے پاس کے علوم پر مغرور ہوگئے۔ اور رسولوں کی تعلیم کی حقارت کرنے لگے، کہنے لگے ہم ہی زیادہ عالم ہیں حساب کتاب ، عذاب ثواب کوئی چیز نہیں۔ اپنی جہالت کو علم سمجھ بیٹھے۔ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔ (۸۳) پھر تو اللہ کا وہ عذاب آیا کہ ان کے بنائے کچھ نہ بنی اور جسے جھٹلاتے تھے۔ جس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے جسے مذاق میں اڑاتے تھے اسی نے انہیں تہس نہس کر دیا ، پھر کس بل نکال ڈالا ، تہہ و بالا کر دیا ، روئی کی طرح دھن دیا اور بھوسی کی طرح اڑا دیا۔ فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان لائے اور جن جن کو ہم شریک بنا رہے تھے ہم نے ان سب سے انکار کیا۔ (۸۴) اللہ کے عذابوں کو آتا ہوا بلکہ آیا ہوا دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا اور توحید تسلیم بھی کر لی۔ اور غیر اللہ جل شانہ سے صاف انکار بھی کیا ، لیکن اس وقت کی نہ توبہ قبول نہ ایمان قبول نہ اسلام مسلم۔فرعون نے بھی غرق ہوتے ہوئے کہا تھا کہ میرا اس اللہ جل شانہ پر ایمان ہے جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے میں اس کے سوا کسی کو لائق عبادت نہیں مانتا میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ اب ایمان لانا بےسود ہے۔ بہت نافرمانیاں اور شرانگیزیاں کر چکے ہو۔ حضرت موسیٰ نے بھی اس سرکش کیلئے یہی بددعا کی تھی کہ اے اللہ جل شانہ آل فرعون کے دلوں کو اس قدر سخت کر دے کہ عذاب الیم دیکھ لینے تک انہیں ایمان نصیب نہ ہو۔ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا۔ پس یہاں بھی فرمان باری ہے کہ عذابوں کا معائنہ کرنے پر ایمان کی قبولیت نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ اللہ نے اپنا معمول یہی مقرر کر رکھا ہے جو اس کے بندوں میں برابر چلا آرہا ہے یہ اللہ کا حکم عام ہے۔ جو بھی عذابوں کو دیکھ کر توبہ کرے اس کی توبہ نامقبول ہے۔ حدیث شریف میں ہے: وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ اور اس جگہ کافر خراب و خستہ ہوئے۔ (۸۵) اسی لئے آخر میں ارشاد فرمایا کہ کفار ٹوٹے اور گھاٹے میں ہی ہیں۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |