Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Zumar

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ(۱)

اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب با حکمت کی طرف سے ہے۔‏

اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ یہ قرآن عظیم اسی کا کلام ہے اور اسی کا اتارا ہوا ہے۔ اس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

جیسے اور جگہ ہے:

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَـلَمِينَ ـ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاٌّمِينُ  ـ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ - بِلِسَانٍ عَرَبِىٍّ مُّبِينٍ  (۲۶:۱۹۲،۱۹۵)

یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترا ہے۔ تیرے دل پر اترا ہے تاکہ تو آگاہ کرنے والا بن جائے۔ صاف فصیح عربی زبان میں ہے

 اور آیتوں میں ہے:

...وَإِنَّهُ لَكِتَـبٌ عَزِيزٌ لاَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ ـ وَلاَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (۴۰:۴۱،۴۲)

یہ باعزت کتاب وہ ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا یہ حکمتوں والی تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اتری ہے۔

یہاں فرمایا کہ یہ کتاب بہت بڑے عزت والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے اتری ہے جو اپنے اقوال افعال شریعت تقدیر سب میں حکمتوں والا ہے۔

إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (۲)

یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپکی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ

خبر دار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے

ہم نے تیری طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ تجھے چاہیے کہ خود اللہ کی عبادتوں میں اور اس کی توحید میں مشغول رہ کر ساری دنیا کو اسی طرف بلا، کیونکہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت زیبا نہیں، وہ لاشریک ہے، وہ بےمثال ہے، اس کا شریک کوئی نہیں۔ دین خالص یعنی شہادت توحید کے لائق وہی ہے۔

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى

اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا ء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں ۔

پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ وہ فرشتوں کو اللہ کا مرقب جان کر ان کی خیالی تصویریں بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ سمجھ کر یہ اللہ کے لاڈلے ہیں، ہمیں جلدی اللہ کا مقرب بنا دیں گے۔ پھر تو ہماری روزیوں میں اور ہرچیز میں خوب برکت ہو جائے گی۔

یہ مطلب نہیں کہ قیامت کے روز ہمیں وہ نزدیکی اور مرتبہ دلوائیں گے۔ اس لئے کہ قیامت کے تو وہ قائل ہی نہ تھے

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اپنا سفارشی جانتے تھے۔ جاہلیت کے زمانہ میں حج کو جاتے تو وہاں لبیک پکارتے ہوئے کہتے اللہ ہم تیرے پاس حاضر ہوئے۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کے اپنے آپ کا مالک بھی تو ہی ہے اور جو چیزیں ان کے ماتحت ہیں ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے۔

 یہی شبہ اگلے پچھلے تمام مشرکوں کو رہا اور اسی کو تمام انبیاء علیہم السلام رد کرتے رہے اور صرف اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کی طرف انہیں بلاتے رہے۔ یہ عقیدہ مشرکوں نے بےدلیل گھڑ لیا تھا جس سے اللہ بیزار تھا۔

 فرماتا ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ (۱۶:۳۶)

ہر اُمت میں ہم نے رسول بھیجے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو

 اور فرمایا:

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ (۲۱:۲۵)

تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ معبود برحق صرف میں ہی ہوں پس تم سب میری ہی عبادت کرنا۔

ساتھ ہی یہ بھی بیان فرما دیا کہ آسمان میں جس قدر فرشتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبے والے کیوں نہ ہوں سب کے سب اس کے سامنے لاچار عاجز اور غلاموں کی مانند ہیں اتنا بھی تو اختیار نہیں کہ کسی کی سفارش میں لب ہلا سکیں۔

 یہ عقیدہ محض غلط ہے کہ وہ اللہ کے پاس ایسے ہیں جیسے بادشاہوں کے پاس امیر امراء ہوتے ہیں کہ جس کی وہ سفارش کر دیں اس کا کام بن جاتا ہے اس باطل اور غلط عقیدے سے یہ کہہ کر منع فرمایا :

فَلاَ تَضْرِبُواْ لِلَّهِ الاٌّمْثَالَ  (۱۶:۳۵)

اللہ کے سامنے مثالیں نہ بیان کیا کرو۔

 اللہ اس سے بہت بلند و بالا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ

قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا سچا فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَـئِكَةِ أَهَـؤُلاَءِ إِيَّاكُمْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ ـ

 قَالُواْ سُبْحَـنَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِمْ بَلْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْـثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ (۳۴:۴۰،۴۱)

ان سب کو جمع کر کے فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہیں پوجتے تھے؟

وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے، یہ نہیں بلکہ ہمارا ولی تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کا عقیدہ و ایمان انہی پر تھا۔

 اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست نہیں دکھاتا جن کا مقصود اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنا ہو اور جن کے دل میں اللہ کی آیتوں، اس کی نشانیوں اور اس کی دلیلوں سے کفر بیٹھ گیا ہو۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (۳)

جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا

پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عقیدے کی نفی کی جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے مثلاً مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ یہود کہتے تھے عزیر اللہ کے لڑکے ہیں۔ عیسائی گمان کرتے تھے کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔

لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ

اگر اللہ تعالیٰ ارادہ اولاد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا۔

پس فرمایا کہ جیسا ان کا خیال ہے اگر یہی ہوتا تو اس امر کے خلاف ہوتا، پس یہاں شرط نہ تو واقع ہونے کے لئے ہے نہ امکان کے لئے۔ بلکہ محال کے لئے ہے اور مقصد صرف ان لوگوں کی جہالت بیان کرنے کا ہے۔ جیسے فرمایا:

لَوْ أَرَدْنَآ أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لاَّتَّخَذْنَـهُ مِن لَّدُنَّآ إِن كُنَّا فَـعِلِينَ (۲۱:۱۷)

اگر ہم ان بیہودہ باتوں کا ارادہ کرتے تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوئے

 اور آیت میں ہے:

قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـنِ وَلَدٌ فَأَنَاْ أَوَّلُ الْعَـبِدِينَ (۴۳:۸۱)

کہہ دے کہ اگر رحمٰن کی اولاد ہوتی تو میں تو سب سے پہلے اس کا قائل ہوتا۔

پس یہ سب آیتیں شرط کو محال کے ساتھ متعلق کرنے والی ہیں۔ امکان یا وقوع کے لئے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ یہ ہو سکتا ہے نہ وہ ہو سکتا ہے۔

سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (۴)

 (لیکن) وہ تو پاک ہے، وہ وہی اللہ تعالیٰ ہے یگانہ اور قوت والا۔‏

 اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے وہ فرد احد ، صمد اور واحد ہے۔ ہرچیز اس کی ماتحت فرمانبردار عاجز محتاج فقیر بےکس اور بےبس ہے۔ وہ ہرچیز سے غنی ہے سب سے بےپرواہ ہے سب پر اس کی حکومت اور غلبہ ہے، ظالموں کے ان عقائد سے اور جاہلوں کی ان باتوں سے اس کی ذات مبرا و منزہ ہے۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ    

نہایت اچھی تدبیر سے اس نے آسمان اور زمین کو بنایا وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے

ہر چیز کا خالق، سب کا مالک، سب پر حکمران اور سب کا قابض اللہ ہی ہے۔ دن رات کا الٹ پھیر اسی کے ہاتھ ہے اسی کے حکم سے انتظام کے ساتھ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے برابر مسلسل چلے آ رہے ہیں۔ نہ وہ آگے بڑھ سکے نہ وہ پیچھے رہ سکے۔

وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ

اور اس نے سورج چاند کو کام پر لگا رکھا ہے۔ ہر ایک مقررہ مدت تک چل رہا ہے

سورج چاند کو اس نے مسخر کر رکھا ہے وہ اپنے دورے کو پورا کر رہے ہیں قیامت تک اس انتظام میں تم کوئی فرق نہ پاؤ گے۔

أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (۵)

یقین مانو کہ وہی زبردست اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔

وہ عزت و عظمت والا کبریائی اور رفعت والا ہے۔ گنہگاروں کا بخشنہار، عاصیوں پر مہربان وہی ہے۔

خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا

اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا

تم سب کو اس نے ایک ہی شخص یعنی حضرت آدمؑ سے پیدا کیا ہے پھر دیکھو کہ تمہارے آپس میں کس قدر اختلاف ہے۔ رنگ صورت آواز بول چال زبان و بیان ہر ایک الگ الگ ہے۔ حضرت آدم سے ہی ان کی بیوی صاحبہ حضرت حوا کو پیدا کیا۔

جیسے اور جگہ ہے:

يَـأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَآءً (۴:۱)

لوگو اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے جس نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے اسی سے اسکی بیوی کو پیدا کیا پھر بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے

وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ

اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے

 اس نے تمہارے لئے آٹھ نر و مادہ چوپائے پیدا کئے جن کا بیان سورہ الْأَنْعَام کی آیت ۱۴۳  مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ میں ہے۔ یعنی بھیڑ، بکری، اونٹ گائے۔

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ

 وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین اندھیروں میں،

وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے جہاں تمہاری مختلف پیدائشیں ہوتی رہتی ہیں پہلے نطفہ ، پھر خون بستہ، پھر لوتھڑا ، پھر گوشت پوست، ہڈی، رگ، پٹھے، پھر روح، غور کرو کہ وہ کتنا اچھا خالق ہے،

 تین تین اندھیرے مرحلوں میں تمہاری یہ طرح طرح کی تبدیلیوں کی پیدائش کا ہیر پھیر ہوتا رہتا ہے

-  رحم کی اندھیری

-  اس کے اوپر کی جھلی کی اندھیری

-  اور پیٹ کا اندھیرا

ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (۶)

 یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے ہو۔‏

یہ جس نے آسمان و زمین کو اور خود تم کو اور تمہارے اگلوں پچھلوں کو پیدا کیا ہے۔ وہی رب ہے اسی کا مالک ہے۔ وہی سب میں متصرف ہے وہی لائق عبادت ہے اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ افسوس نہ جانیں تمہاری عقلیں کہاں گئیں کہ تم اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے۔

إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۖ

‏اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو) کہ اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بےنیاز ہے

فرماتا ہے کہ ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے اور اللہ سب سے بےنیاز ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرمان قرآن میں منقول ہے:

إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ (۱۴:۸)

اگر تم اور روئے زمین کے سب جاندار اللہ سے کفر کرو تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں وہ ساری مخلوق سے بےپرواہ اور پوری تعریفوں والا ہے۔

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:

 اے میرے بندو تمہارے سب اول و آخر انسان و جن مل ملا کر بدترین شخص کا سا دل بنا لو تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی

وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ

اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا۔

ہاں اللہ تمہاری ناشکری سے خوش نہیں نہ وہ اس کا تمہیں حکم دیتا ہے اور اگر تم اس کی شکر گزاری کرو گے تو وہ اس پر تم سے رضامند ہو جائے گا اور تمہیں اپنی اور نعمتیں عطا فرمائے گا۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ۗ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ

اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ تمہیں وہ بتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔

إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (۷)

یقیناً وہ دلوں تک کی باتوں کا واقف ہے۔‏

ہر شخص وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو ایک کے بدلے دوسرا پکڑا نہ جائے گا اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔

وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ

اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے،

انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے جیسے اور آیت میں ہے:

وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّـكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الإِنْسَـنُ كَفُورًا (۱۷:۶۷)

جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں

لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا۔

ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ

پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا اسے (بالکل) بھول جاتا ہے

اور اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر کرنے لگتا ہے جس سے (اوروں کو بھی) اس کی راہ سے بہکائے‘

پس فرماتا ہے کہ جہاں دکھ درد ٹل گیا پھر تو ایسا ہو جاتا ہے گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا اس دعا اور گریہ و زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے۔

جیسے اور آیت میں ہے:

وَإِذَا مَسَّ الإِنسَـنَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَآ إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ (۱۰:۱۲)

تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتارہتا ہے

لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔

بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے۔

قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ (۸)

آپ کہہ دیجئے! کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھا لو‘ (آخر) تو دوزخیوں میں ہونے والا ہے۔

پس اللہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے کفر سے گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں۔

 اس میں ڈانٹ ہے اور سخت دھمکی ہے جیسے فرمایا:

قُلْ تَمَتَّعُواْ فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ (۱۴:۳۰)

کہہ دیجیے کہ فائدہ حاصل کر لو آخری جگہ تو تمہاری جہنم ہی ہے

 اور فرمان ہے:

نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلاً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ  (۳۱:۲۴)

ہم انہیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے۔

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ

بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتاہو

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (۹)

بتاؤ تو علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔

مطلب یہ ہے کہ جس کی حالت یہ ہو وہ مشرک کے برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہےـ

لَيْسُواْ سَوَآءً مِّنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ أُمَّةٌ قَآئِمَةٌ يَتْلُونَ ءَايَـتِ اللَّهِ ءَانَآءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (۳:۱۱۳)

سب کے سب برابر کے نہیں۔ اہل کتاب میں وہ جماعت بھی ہے جو راتوں کے وقت قیام کی حالت میں آیات الہیہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں۔

قنوت سے مراد یہاں پر نماز کا خشوع خضوع ہے۔ صرف قیام مراد نہیں۔

 ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے قَانِتٌ کے معنی مطیع اور فرمانبردار کے ہیں۔

 ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آنَاءَ اللَّيْلِ سے مراد آدھی رات سے ہے۔

منصور فرماتے ہیں مراد مغرب عشاء کے درمیان کا وقت ہے۔

قتادہ رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں۔ اول درمیانہ اور آخری شب مراد ہے۔

یہ عابد لوگ ایک طرف لرزاں و ترساں ہیں دوسری جانب امیدوار اور طمع کناں ہیں۔ نیک لوگوں پر زندگی میں تو خوف اللہ امید پر غالب رہتا ہے موت کے وقت خوف پر امید کا غلبہ ہو جاتا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس اس کے انتقال کے وقت جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو کس حالت میں پاتا ہے؟

اس نے کہا خوف و امید کی حالت میں۔

 آپ ﷺنے فرمایا جس شخص کے دل میں ایسے وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اس کی امید اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے اور اس کے خوف سے اسے نجات عطا فرماتا ہے۔ ترمذی ابن ماجہ

ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا :

یہ وصف صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں تھا۔

فی الواقع آپ رات کے وقت بکثرت تہجد پڑھتے رہتے تھے اور اس میں قرآن کریم کی لمبی قرأت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی ایک ہی رکعت میں قرآن ختم کر دیتے تھے۔ جیسا کہ ابوعبید سے مروی ہے۔

 شاعر کہتا ہے۔

صبح کے وقت ان کے منہ نورانی چمک لئے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے تسبیح و تلاوت قرآن میں رات گزاری ہے۔

 نسائی میں حدیث ہے:

 جس نے ایک رات سو آیتیں پڑھ لیں اس کے نامہ اعمال میں ساری رات کی قنوت لکھی جاتی ہے۔

پس ایسے لوگ اور مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی طرح ایک مرتبے کے نہیں ہو سکتے، عالم اور بےعلم کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا۔

 ہر عقل مند پر ان کا فرق ظاہر ہے۔

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ

کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے

اللہ تعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو اپنے رب کی اطاعت پر جمے رہنے کا اور ہر امر میں اس کی پاک ذات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ جس نے اس دنیا میں نیکی کی اس کو اس دنیا میں اور آنے والی آخرت میں نیکی ہی نیکی ملے گی۔

وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ

اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے

تم اگر ایک جگہ اللہ کی عبادت استقلال سے نہ کر سکو تو دوسری جگہ چلے جاؤ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ معصیت سے بھاگتے رہو شرک کو منظور نہ کرو۔

إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (۱۰)

صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔

صابروں کو ناپ تول اور حساب کے بغیر اجر ملتا ہے جنت انہی کی چیز ہے۔

قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (۱۱)

آپ کہہ دیجئے! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لئے عبادت خالص کرلوں۔‏

مجھے اللہ کی خالص عبادت کرنے کا حکم ہوا ہے

وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ (۱۲)

اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا فرماں بردار بن جاؤں

اور مجھ سے یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اپنی تمام اُمت سے پہلے میں خود مسلمان ہو جاؤں اپنے آپ کو رب کے احکام کا عامل اور پابند کر لوں ۔

قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۱۳)

کہہ دیجئے! کہ مجھے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے بڑے دن کے عذاب کا خوف لگتا ہے۔‏

حکم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن عذاب الہٰی سے بےخوف نہیں ہوں۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو قیامت کے دن کے عذاب سے میں بھی بچ نہیں سکتا

تو دوسرے لوگوں کو تو رب کی نافرمانی سے بہت زیادہ اجتناب کرنا چاہئے۔

قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي (۱۴)

کہہ دیجئے! کہ میں تو خالص کرکے صرف اپنے رب ہی کی عبادت کرتا ہوں۔‏

تم اپنے دین کا بھی اعلان کر دو کہ میں پختہ اور یکسوئی والا موحد ہوں۔

فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ ۗ

تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرتے رہو

 تم جس کی چاہو عبادت کرتے رہو۔

 اس میں بھی ڈانٹ ڈپٹ ہے نہ کہ اجازت۔

قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (۱۵)

 کہہ دیجئے! کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپکو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے، یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے۔‏

پورے نقصان میں وہ ہیں جنہوں نے خود اپنے آپ کو اور اپنے والوں کو نقصان میں پھنسا دیا۔ قیامت کے دن ان میں جدائی ہو جائے گی۔ اگر ان کے اہل جنت میں گئے تو یہ دوزخ میں جل رہے ہیں اور ان سے الگ ہیں اور اگر سب جہنم میں گئے تو وہاں برائی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور رہیں اور محزون و مغموم ہیں۔

 یہی واضح نقصان ہے۔

لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ

انہیں نیچے اوپر سے آگ کے شعلے مثل سائبان کے ڈھانک رہے ہونگے

پھر ان کا حال جو جہنم میں ہو گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اوپر تلے آگ ہی آگ ہو گی۔ جیسے فرمایا:

لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِى الظَّـلِمِينَ (۷:۴۱)

ان کا اوڑھنا بچھونا سب آتش جہنم سے ہو گا۔ ظالموں کا یہی بدلہ ہے

 اور آیت میں ہے:

يَوْمَ يَغْشَـهُمُ الْعَذَابُ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيِقُولُ ذُوقُواْ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۲۹:۵۵)

قیامت والے دن انہیں نیچے اوپر سے عذاب ہو رہا ہو گا۔ اور اوپر سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کا مزہ چکھو۔

ذَلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ

یہی (عذاب) ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے

یہ اس لئے ظاہر و باہر کر دیا گیا اور کھول کھول کر اس وجہ سے بیان کیا گیا کہ اس حقیقی عذاب سے جو یقیناً آنے والا ہے میرے بندے خبردار ہو جائیں اور گناہوں اور نافرمانیوں کو چھوڑ دیں۔

يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ (۱۶)

 اے میرے بندو! پس مجھ سے ڈرتے رہو۔‏

 میرے بندو میری پکڑ دکڑ سے میرے عذاب و غضب سے میرے انتقام اور بدلے سے ڈرتے رہو۔

وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى ۚ

اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور (ہمہ تن) اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے وہ خوشخبری کے مستحق ہیں،

مروی ہے کہ یہ آیت زید بن عمر بن نفیل، ابوذر اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے

 لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ آیت جس طرح ان بزرگوں پر مشتمل ہے اسی طرح ہر اس شخص کو شامل کرتی ہے جس میں یہ پاک اوصاف ہوں یعنی بتوں سے بیزاری اور اللہ کی فرمانبرداری۔

 یہ ہیں جن کے لئے دونوں جہان میں خوشیاں ہیں۔ بات سمجھ کر سن کر جب وہ اچھی ہو تو اس پر عمل کرنے والے مستحق مبارک باد ہیں

 اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تورات کے عطا فرمانے کے وقت فرمایا تھا:

فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا  (۷:۱۴۵)

اسے مضبوطی سے تھامو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ اس کی اچھائی کو مضبوط تھام لیں۔

 فَبَشِّرْ عِبَادِ (۱۷)

میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔‏

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ

جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس پر عمل کرتے ہیں۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ (۱۸)

یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی اور یہی عقلمند بھی ہیں

عقلمند اور نیک راہ لوگوں میں بھلی باتوں کے قبول کرنے کا صحیح مادہ ضرور ہوتا ہے۔

أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ (۱۹)

بھلا جس شخص پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی ہےتو کیا آپ اسے جو دوزخ میں ہے چھڑا سکتے ہیں

فرماتا ہے کہ جس کی بدبختی لکھی جا چکی ہے تو اسے کوئی بھی راہ راست نہیں دکھا سکتا کون ہے جو اللہ کے گمراہ کئے ہوئے کو راہ راست دکھا سکے؟ تجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ان کی رہبری کر کے انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔

لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ

ہاں وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لئے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بھی بنے بنائے بالا خانے ہیں

ہاں نیک بخت نیک اعمال نیک عقدہ لوگ قیامت کے دن جنت کے محلات میں مزے کریں گے، ان بالا خانوں میں جو کئی کئی منزلوں کے ہیں، تمام سامان آرائش سے آراستہ ہیں وسیع اور بلند خوبصورت اور جگمگ کرتے ہیں۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنت میں ایسے محل ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے صاف دکھائی دیتا ہے۔

 ایک اعرابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لئے ہیں؟

 فرمایا ان کے لئے جو نرم کلامی کریں کھانا کھلائیں اور راتوں کو جب لوگ میٹھی نیند میں ہوں یہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر گڑ گڑائیں۔ نمازیں پڑھیں۔ (ترمذی)

مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

 جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بنایا ہے جو کھانا کھلائیں کلام کو نرم رکھیں پے درپے نفل روزے بکثرت رکھیں اور پچھلی راتوں کو تہجد پڑھیں۔

 مسند کی اور حدیث میں ہے:

 جنتی جنت کے بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو

 اور روایت میں ہے:

 مشرقی مغربی کناروں کے ستارے جس طرح تمہیں دکھائی دیتے ہیں اسی طرح جنت کے وہ محلات تمہیں نظر آئیں گے

 اور حدیث میں ہے کہ ان محلات کی یہ تعریفیں سن کر لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نبیوں کے لئے ہوں گے؟

 آپ نے فرمایا ہاں

 اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک ہم آپ کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے چہرے کو دیکھتے رہتے ہیں اس وقت تک تو ہمارے دل نرم رہتے ہیں اور ہم آخرت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر دنیوی کاروبار میں پھنس جاتے ہیں بال بچوں میں مشغول ہو جاتے ہیں تو اس وقت ہماری وہ حالت نہیں رہتی۔

 تو آپ نے فرمایا اگر تم ہر وقت اسی حالت پر رہتے جو حالت تمہاری میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے ہاتھوں سے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہارے گھروں میں آ کر تم سے ملاقاتیں کرتے۔

سنو اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں بخشے۔

 ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بنا کس چیز کی ہے؟

 فرمایا ایک اینٹ سونے کی ایک چاندی کی۔ اس کا چونا خالص مشک ہے اس کی کنکریاں لولو اور یاقوت ہیں۔ اس کی مٹی زعفران ہے۔ اس میں جو داخل ہو گیا وہ مالا مال ہو گیا۔ جس کے بعد بےمال ہونے کا خطرہ ہی نہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں ہی رہے گا وہاں سے نکالے جانے کا امکان ہی نہیں۔ نہ موت کا کھٹکا ہے، ان کے کپڑے گلتے سڑتے نہیں، ان کی جوانی دوامی ہے۔

 سنو تین شخصوں کی دعا مردود نہیں ہوتی:

- عادل بادشاہ،

- روزے دار

-  اور مظلوم

 ان کی دعا ابر پر اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ رب العزت فرماتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ مدت کے بعد ہو۔ (ترمذی ابن ماجہ)

تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ

 اور ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں

ان محلات کے درمیان چشمے بہہ رہے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جہاں چاہیں پانی پہنچائیں جب اور جتنا چاہیں بہاؤ رہے۔

وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ (۲۰)

 رب کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‏

یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ اپنے مؤمن بندوں سے یقیناً اللہ تعالیٰ کی ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے

زمین میں جو پانی ہے وہ درحقیقت آسمان سے اترا ہے ۔

 جیسے فرمان ہے:

وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوراً (۲۵:۴۸)

ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں

یہ پانی زمین پی لیتی ہے اور اندر ہی اندر وہ پھیل جاتا ہے۔ پھر حسب حاجت کسی چشمہ سے اللہ تعالیٰ اسے نکالتا ہے اور چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔ جو پانی زمین کے میل سے کھارہ ہو جاتا ہے وہ کھارہ ہی رہتا ہے۔

ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ

 پھر اسی کے ذریعے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہےپھر وہ خشک ہو جاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے

اسی طرح آسمانی پانی برف کی شکل میں پہاڑوں پر جم جاتا ہے۔ جسے پہاڑ چوس لیتے ہیں اور پھر ان میں سے جھرنے بہہ نکلتے ہیں۔ ان چشموں اور آبشاروں کا پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے۔ جس سے کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں جو مختلف قسم کے رنگ و بو کی اور طرح طرح کے مزے اور شکل و صورت کی ہوتی ہیں۔

 پھر آخری وقت میں ان کی جوانی بڑھاپے سے اور سبزی زردے سے بدل جاتی ہے۔ پھر خشک ہو جاتی ہے اور کاٹ لی جاتی ہے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (۲۱)

اس میں عقلمندوں کیلئے بہت زیادہ نصیحت ہے

کیا اس میں عقل مندوں کے لئے بصیرت و نصیحت نہیں؟

 کیا وہ اتنا نہیں دیکھتے کہ اسی طرح دنیا ہے۔ آج ایک جوان اور خوبصورت نظر آتی ہے کل بڑھیا اور بد صورت ہو جاتی ہے۔ آج ایک شخص نوجوان طاقت مند ہے کل وہی بوڑھا کھوسٹ اور کمزور نظر آتا ہے۔ پھر آخر موت کے پنجے میں پھنستا ہے۔ پس عقلمند انجام پر نظر رکھیں بہتر وہ ہے جس کا انجام بہتر ہو۔

 اکثر جگہ دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے پیدا شدہ کھیتی کے ساتھ دے گئی ہے جیسے اس آیت میں۔

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ

وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا (۱۸:۴۵)  

پھر فرماتا ہے

أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ

کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور ہے

جس کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا، ذرا سوچو! جس نے رب کے پاس سے نور پا لیا وہ اور سخت سینے اور تنگ دل والا برابر ہو سکتا ہے۔ حق پر قائم اور حق سے دور یکساں ہو سکتے ہیں؟

 جیسے فرمایا:

أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَـهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِى النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَـتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَلِكَ (۶:۱۲۲)

وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اسے نور عطا فرمایا جسے اپنے ساتھ لئے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے اور یہ اور وہ جو اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے جن سے چھٹکارا محال ہے۔ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟

فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۲۲)

اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الہٰی سے (اثر نہیں لیتے) بلکہ سخت ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔‏

پس یہاں بھی بطور نصیحت بیان فرمایا کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے نرم نہیں پڑتے احکام الہٰی کو ماننے کے لئے نہیں کھلتے رب کے سامنے عاجزی نہیں کرتے بلکہ سنگدل اور سخت دل ہیں ان کے لئے ویل ہے خرابی اور افسوس و حسرت ہے یہ بالکل گمراہ ہیں۔

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ

اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے

اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب قرآن کریم کی تعریف میں فرماتا ہے کہ اس بہترین کتاب کو اس نے نازل فرمایا ہے جو سب کی سب متشابہ ہیں اور جس کی آیتیں مکرر ہیں تاکہ فہم سے قریب تر ہو جائے۔ ایک آیت دوسری کے مشابہ اور ایک حرف دوسرے سے ملتا جلتا ۔ اس سورت کی آیتیں اس سورت سے اور اس کی اس سے ملی جلی۔ ایک ایک ذکر کئی کئی جگہ اور

پھر بے اختلاف بعض آیتیں ایک ہی بیان میں بعض میں جو مذکور ہے اس کی ضد کا ذکر بھی انہیں کے ساتھ ہے مثلاً مؤمنوں کے ذکر کے ساتھ ہی کافروں کا ذکر جنت کے ساتھ ہی دوزخ کا بیان وغیرہ۔ دیکھئے ابرار کے ذکر کے ساتھ ہی فجار کا بیان ہے۔ سجین کے ساتھ ہی علیین کا بیان ہے۔ متقین کے ساتھ ہی طاعین کا بیان ہے۔ ذکر جنت کے ساتھ ہی تذکرہ جہنم ہے۔یعنی یہ معنی ہیں مثانی کے

 اور متشابہ ان آیتوں کو کہتے ہیں جو  ایک ہی قسم کے ذکر میں متصل چلی جاتی ہیں ۔ یہاں اس لفظ کے جو معنی ہیں وہ تو یہ ہیں  اور وَأُخَرُ مُتَشَـٰبِهَـٰتٌ۬‌ (۳:۷) میں اور ہی معنی ہیں۔

تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ۚ

جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں

اس کی پاک اور بااثر آیتوں کا مؤمنوں کے دل پر نور پڑتا ہے وہ انہیں سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں سزاؤں اور دھمکیوں کو سن کر ان کا کلیجہ کپکپانے لگتا ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انتہائی عاجزی اور بہت ہی بڑی گریہ و زاری سے ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اس کی رحمت و لطف پر نظریں ڈال کر امیدیں بندھ جاتی ہیں۔

ان کا حال سیاہ دلوں سے بالکل جداگانہ ہے۔ یہ رب کے کلام کو نیکیوں سے سنتے ہیں۔ وہ گانے بجانے پر سر دھنستے ہیں۔ یہ آیات قرآنی سے ایمان میں بڑھتے ہیں۔ وہ انہیں سن کر اور کفر کے زینے پر چڑھتے ہیں یہ روتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے اکڑتے ہیں۔

فرمان قرآن ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَـتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَـناً وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ـ

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَـهُمْ يُنفِقُونَ ـأُوْلـئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَّهُمْ دَرَجَـتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (۸:۲،۴)

یاد الہٰی مؤمنوں کے دلوں کو دہلا دیتی ہے، وہ ایمان و توکل میں بڑھ جاتے ہیں، نماز و زکوۃ و خیرات کا خیال رکھتے ہیں، سچے با ایمان یہی ہیں، درجے، مغفرت اور بہترین روزیاں یہی پائیں گے

 اور آیت میں ہے:

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُواْ بِـَايَـتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّواْ عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً (۲۵:۷۳)

اور جب ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے

یعنی بھلے لوگ آیات قرآنیہ کو بہروں اندھوں کی طرح نہیں سنتے پڑھتے کہ ان کی طرف نہ تو صحیح توجہ ہو نہ ارادہ عمل ہو بلکہ یہ کان لگا کر سنتے ہیں دل لگا کر سمجھتے ہیں غور و فکر سے معانی اور مطلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ اب توفیق ہاتھ آتی ہے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور تعمیل کے لئے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ یہ خود اپنی سمجھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں دوسروں کی دیکھا دیکھی جہالت کے پیچھے پڑے نہیں رہتے۔

تیسرا وصف ان میں برخلاف دوسروں کے یہ ہے کہ قرآن کے سننے کے وقت با ادب رہتے ہیں۔

 حضور علیہ السلام کی تلاوت سن کر صحابہ کرام کے جسم و روح ذکر اللہ کی طرف جھک آتے تھے ان میں خشوع و خضوع پیدا ہو جاتا تھا لیکن یہ نہ تھا کہ چیخنے چلانے اور ہڑبونگ کرنے لگیں اور اپنی صوفیت جتائیں بلکہ ثبات سکون ادب اور خشیت کے ساتھ کلام اللہ سنتے دل جمعی اور سکون حاصل کرتے اسی وجہ سے مستحق تعریف اور سزا وار توصیف ہوئے رضی اللہ عنہم۔

عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں:

 اولیاء اللہ کی صفت یہی ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل موم ہو جائیں اور ذکر اللہ کی طرف وہ جھک جائیں ان کے دل ڈر جائیں ان کی آنکھیں آنسو بہائیں اور طبیعت میں سکون پیدا ہو جائے۔ یہ نہیں کہ عقل جاتی رہے حالت طاری ہو جائے۔ نیک و بد کا ہوش نہ رہے۔ یہ بدعتیوں کے افعال ہیں کہ ہا ہو کرنے لگتے ہیں اور کودتے اچھلتے اور پکڑے پھاڑتے ہیں یہ شیطانی حرکت ہے۔

 ذِكْرِ اللَّهِ سے مراد وعدہ اللہ بھی بیان کیا گیا ہے۔

ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (۲۳)

‏یہ ہے اللہ تعالیٰ کہ ہدایت جس کے ذریعے جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔‏

پھر فرماتا ہے یہ ہیں صفتیں ان لوگوں کی جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے۔ ان کے خلاف جنہیں پاؤ سمجھ لو کہ اللہ نے انہیں گمراہ کر دیا ہے

 اور یقین رکھو کہ رب جنہیں ہدایت نہ  دینا چاہئے انہیں کوئی راہ راست نہیں دکھا سکتا۔

أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ (۲۴)

بھلا جو شخص قیامت کے دن انکے بدترین عذاب کی (ڈھال) اپنے منہ کو بنائے گا (ایسے) ظالموں سے کہا جائے گا اپنے کئے کا (وبال) چکھو

ایک وہ جسے اس ہنگامہ خیز دن میں امن و امان حاصل ہو اور ایک وہ جسے اپنے منہ پر عذاب کے تھپڑ کھانے پڑتے ہوں برابر ہو سکتے ہیں؟

جیسے فرمایا:

أَفَمَن يَمْشِى مُكِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِى سَوِيّاً عَلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ  (۶۷:۲۲)

اوندھے منہ، منہ کے بل چلنے والا اور راست قامت اپنے پیروں سیدھی راہ چلتے والا برابر نہیں۔

 ان کفار کو تو

يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِى النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُواْ مَسَّ سَقَرَ  (۵۴:۴۸)

قیامت کے دن اوندھے منہ گھسیٹا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آگ کا مزہ چکھو۔

ایک اور آیت میں ہے:

أَفَمَن يُلْقَى فِى النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِى ءَامِناً يَوْمَ الْقِيَـمَةِ (۴۱:۴۰)

جہنم میں داخل کیا جانے والا بدنصیب اچھا یا امن و امان سے قیامت کا دن گزارنے والا اچھا؟

 یہاں اس آیت کا مطلب یہی ہے

 لیکن ایک قسم کا ذکر کر کے دوسری قسم کے بیان کو چھوڑ دیا کیونکہ اسی سے وہ بھی سمجھ لیا جاتا ہے یہ بات شعراء کے کلام میں برابر پائی جاتی ہے۔

كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ (۲۵)

ان سے پہلے والوں نے بھی جھٹلایا، پھر وہاں سے عذاب آپڑا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا

اگلے لوگوں نے بھی اللہ کی باتوں کو نہ مانا تھا اور رسولوں کو جھوٹا کہا تھا پھر دیکھو کہ ان پر کس طرح ان کی بےخبری میں مار پڑی؟

فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۲۶)

اور اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگانی دنیا میں رسوائی کا مزہ چکھایااور ابھی آخرت کا تو بڑا بھاری عذاب ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھ لیں۔‏

عذاب اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل و خوار کیا اور آخرت کے سخت عذاب بھی ان کے لئے باقی ہیں۔

 پس تمہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ اشرف رسل کے ستانے اور نہ ماننے کی وجہ سے تم پر کہیں ان سے بھی بدتر عذاب برس نہ پڑیں۔ تم اگر ذی علم ہو تو ان کے حالات اور تذکرے تمہاری نصیحت کے لئے کافی ہیں۔

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (۲۷)

اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہیں کیا عجب کہ وہ نصیحت حاصل کرلیں

چونکہ مثالوں سے باتیں ٹھیک طور پر سمجھ میں آ جاتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں بھی بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ سوچ سمجھ لیں۔

چنانچہ ارشاد ہے:

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلاً مِّنْ أَنفُسِكُمْ (۳۰:۲۸)

اللہ نے تمہارے لئے وہ مثالیں بیان فرمائی ہیں جنہیں تم خود اپنے آپ میں بہت اچھی طرح جانتے بوجھتے ہو۔

 ایک اور آیت میں ہے:

وَتِلْكَ الاٌّمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَآ إِلاَّ الْعَـلِمُونَ (۲۹:۴۳)

ان مثالوں کو ہم لوگوں کے سامنے بیان کر رہے ہیں علماء ہی انہیں بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۲۸)

قرآن ہے عربی میں جس میں کوئی کجی نہیں، ہو سکتا ہے کہ پرہیزگاری اختیار کرلیں۔‏

یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے جس میں کوئی کجی اور کوئی کمی نہیں واضح دلیلیں اور روشن حجتیں ہیں۔ یہ اس لئے کہ اسے پڑھ کر سن کر لوگ اپنا بچاؤ کرلیں۔ اس کے عذاب کی آیتوں کو سامنے رکھ کر برائیاں چھوڑیں اور اس کے ثواب کی آیتوں کی طرف نظریں رکھ کر نیک اعمال میں محنت کریں۔

اس کے بعد جناب باری عزاسمہ موحد اور مشرک کی مثال بیان فرماتا ہے

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ

اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے کہ ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں،اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی کا (غلام) ہے، کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں؟

ایک تو وہ غلام جس کے مالک بہت سارے ہوں اور وہ بھی آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں اور دوسرا وہ غلام جو خالص صرف ایک ہی شخص کی ملکیت کا ہو اس کے سوا اس پر دوسرے کسی کا کوئی اختیار نہ ہو۔ کیا یہ دونوں تمہارے نزدیک یکساں ہیں؟

 ہرگز نہیں۔

 اسی طرح موحد جو صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہی عبادت کرتا ہے۔ اور مشرک جس نے اپنے معبود بہت سے بنا رکھے ہیں۔ ان دونوں میں بھی کوئی نسبت نہیں۔

کہاں یہ مخلص موحد؟

 کہاں یہ در بہ در بھٹکنے والا مشرک؟

الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۲۹)

اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریف ہے بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ سمجھتے نہیں

اس ظاہر باہر روشن اور صاف مثال کے بیان پر بھی رب العالمین کی حمد و ثنا کرنی چاہئے کہ اس نے اپنے بندوں کو اس طرح سمجھا دیا کہ معاملہ بالکل صاف ہو جائے۔ شرک کی بدی اور توحید کی خوبی ہر ایک کے ذہن میں آ جائے۔ اب رب کے ساتھ وہی شرک کریں گے جو محض بےعلم ہوں جن میں سمجھ بوجھ بالکل ہی نہ ہو۔

إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (۲۹)

یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‏

اس آیت کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد پڑھ کر پھر دوسری آیت (۳:۱۴۴)

 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَـبِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَسَيَجْزِى اللَّهُ الشَّـكِرِينَ

کی تلاوت کر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حضور ﷺ کی وفات ہو گئی ۔  آپ کا کلام سن کر لوگوں کو آپ ﷺ کی وفات کا یقین ہو گیا۔

ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ (۳۱)

پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے

مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ سب اس دنیا سے جانے والے ہیں اور آخرت میں اپنے رب کے پاس جمع ہونے والے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ مشرکوں اور موحدوں میں صاف فیصلہ کر دے گا اور حق ظاہر ہو جائے گا۔

 اس سے اچھے فیصلے والا اور اس سے زیادہ علم والا کون ہے؟

ایمان اخلاص اور توحید و سنت والے نجات پائیں گے۔ شرک و کفر انکار و تکذیب والے سخت سزائیں اٹھائیں گے۔ اسی طرح جن دو شخصوں میں جو جھگڑا اور اختلاف دنیا میں تھا روز قیامت وہ اللہ عادل کے سامنے پیش ہو کر فیصل ہو گا

 اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کے دن پھر سے جھگڑے ہوں گے؟

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں یقیناً

 تو حضرت عبداللہ نے کہا پھر تو سخت مشکل ہے۔  (ابن ابی حاتم)

مسند احمد کی اس حدیث میں یہ بھی ہے:

 آیت ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ يَوۡمَٮِٕذٍ عَنِ ٱلنَّعِيمِ (۱۰۲:۸)  یعنی پھر اس دن تم سے اللہ کی نعمتوں کا سوال کیا جائے گا، کے نازل ہونے پر آپ ہی نے سوال کیا کہ وہ کون سی نعمتیں ہیں جن کی بابت ہم سے حساب لیا جائے گا؟ ہم تو کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر گزارہ کر رہے ہیں۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب نہیں ہیں تو عنقریب بہت سی نعمتیں ہو جائیں گی۔

یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن بتاتے ہیں۔

 مسند کی اسی حدیث میں یہ بھی ہے:

حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ کے نازل ہونے پر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جو جھگڑے ہمارے دنیا میں تھے وہ دوبارہ وہاں قیامت میں دوہرائے جائیں گے؟

ساتھ ہی گناہوں کی بھی پرستش ہو گی۔

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں وہ ضرور دوہرائے جائیں گے۔ اور ہر شخص کو اس کا حق پورا پورا دلوایا جائے گا

 تو آپ نے کہا پھر تو سخت مشکل کام ہے۔

مسند احمد میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے پڑوسیوں کے آپس میں جھگڑے پیش ہوں گے

 اور حدیث میں ہے:

 اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سب جھگڑوں کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ یہاں تک کہ دوبکریاں جو لڑی ہوں گی اور ایک نے دوسری کو سینگ مارے ہوں گے ان کا بدلہ بھی دلوایا جائے گا ۔ (مسند احمد)

مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے:

 دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا خبر؟

 آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے اور وہ قیامت کے دن ان میں بھی انصاف کرے گا۔

بزار میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ظالم اور خائن بادشاہ سے اس کی رعیت قیامت کے دن جھگڑا کرے گا۔

بزار میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ظالم اور خائن بادشاہ سے اس کی رعایت قیامت کے دن جھگڑا کرے گی اور اس پر وہ غالب آ جائے گی اور اللہ کا فرمان ضرور ہو گا کہ جاؤ اسے جہنم کا ایک رکن بنا دو۔

 اس حدیث کے ایک راوی اغلب بن تمیم کا حافظہ جیسا چاہئے ایسا نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ہر سچا جھوٹے سے، ہر مظلوم ظالم سے، ہر ہدایت والا گمراہی والے سے، ہر کمزور زورآور سے اس روز جھگڑے گا۔

 ابن مندہ رحمتہ اللہ اپنی کتاب الروح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت لاتے ہیں:

 لوگ قیامت کے دن جھگڑیں گے یہاں تک کہ روح اور جسم کے درمیان بھی جھگڑا ہو گا۔ روح تو جسم کو الزام دے گی کہ تو نے یہ سب برائیاں کیں اور جسم روح سے کہے گا ساری چاہت اور شرارت تیری ہی تھی۔

 ایک فرشتہ ان میں فیصلہ کرے گا کہے گا سنو ایک آنکھوں والا انسان ہے لیکن اپاہج بالکل لولا لنگڑا چلنے پھرنے سے معذور ہے۔ دوسرا آدمی اندھا ہے لیکن اس کے پیر سلامت ہیں چلتا پھرتا ہے دونوں ایک باغ میں ہیں۔ لنگڑا اندھے سے کہتا ہے بھائی یہ باغ تو میوؤں اور پھلوں سے لدا ہوا ہے لیکن میرے تو پاؤں نہیں جو میں جا کر یہ پھل توڑ لوں۔ اندھا کہتا ہے آؤ میرے پاؤں ہیں تجھے اپنی پیٹھ پر چڑھا لیتا ہوں اور لے چلتا ہوں۔ چنانچہ یہ دونوں اس طرح پہنچے اور جی کھول کر پھل توڑے بتاؤ ان دونوں میں مجرم کون ہے؟

 جسم و روح دونوں جواب دیتے ہیں کہ جرم دونوں کا ہے ۔

فرشتہ کہتا ہے بس اب تو تم نے اپنا فیصلہ آپ کر دیا۔ یعنی جسم گویا سواری ہے اور روح اس پر سوار ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے پر ہم تعجب میں تھے کہ ہم میں اور اہل کتاب میں تو جھگڑا ہے ہی نہیں پھر آخر روز قیامت میں کس سے جھگڑے ہوں گے؟

 اس کے بعد جب آپس کے فتنے شروع ہوگئے تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہی آپس کے جھگڑے ہیں جو اللہ کے ہاں پیش ہوں گے۔

ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل قبلہ غیر اہل قبلہ سے جھگڑیں گے

 اور ابن زید رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد اہل اسلام اور اہل کفر کا جھگڑا ہے۔

 لیکن ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ فی الواقع یہ آیت عام ہے ۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ

اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے؟

مشرکین نے اللہ پر بہت جھوٹ بولا تھا اور طرح طرح کے الزام لگائے تھے، کبھی اس کے ساتھ دوسرے معبود بتاتے تھے، کبھی فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں شمار کرنے لگتے تھے، کبھی مخلوق میں سے کسی کو اس کا بیٹا کہہ دیا کرتے تھے، جن تمام باتوں سے اس کی بلند و بالا ذات پاک اور برتر تھی، ساتھ ہی ان میں دوسری بدخصلت یہ بھی تھی کہ جو حق انبیاء علیہم السلام کی زبانی اللہ تعالیٰ نازل فرماتا یہ اسے بھی جھٹلاتے، پس فرمایا کہ یہ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں۔

أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (۳۲)

 کیا ایسے کفار کے لئے جہنم ٹھکانا نہیں ہے؟‏

 پھر جو سزا انہیں ہونی ہے اس سے انہیں آگاہ کر دیا کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ جو مرتے دم تک انکار و تکذیب پر ہی رہیں۔

ان کی بدخصلت اور سزا کا ذکر کر کے پھر مؤمنوں کی نیک خو اور ان کی جزا کا ذکر فرماتا ہے

وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (۳۳)

اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں۔‏

جو سچائی کو لایا اور اسے سچا مانا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اور ہر وہ شخص جو کلمہ توحید کا اقراری ہو۔ اور تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی ماننے والی ان کی مسلمان اُمت۔ یہ قیامت کے دن یہی کہیں گے کہ جو تم نے ہمیں دیا اور جو فرمایا ہم اسی پر عمل کرتے رہے۔

 خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت میں داخل ہیں۔ آپ بھی سچائی کے لانے والے، اگلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے اور آپ پر جو کچھ نازل ہوا تھا اسے ماننے والے تھے اور ساتھ ہی یہی وصف تمام ایمان داروں کا تھا کہ وہ اللہ پر فرشتوں پر کتابوں پر اور رسولوں پر ایمان رکھنے والے تھے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں سچائی کو لانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اسے سچ ماننے والے مسلمان ہیں یہی متقی پرہیزگار اور پارسا ہیں۔ جو اللہ سے ڈرتے رہے اور شرک کفر سے بچتے رہے۔

لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ

ان کے لئے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہے جو یہ چاہیں،

 ان کے لئے جنت میں جو وہ چاہیں سب کچھ ہے۔ جب طلب کریں گے پائیں گے۔

ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (۳۴)

نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے۔

یہی بدلہ ہے ان پاک باز لوگوں کا،

لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (۳۵)

تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے برے عملوں کو دور کر دے اور جو نیک کام انہوں نے کئے ہیں ان کا اچھا بدلہ عطا فرمائے۔‏

رب ان کی برائیاں تو معاف فرما دیتا ہے اور نیکیاں قبول کر لیتا ہے۔

 جیسے دوسری آیت میں ہے:

أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُواْ وَنَتَجَاوَزُ عَن سَيْئَـتِهِمْ فِى أَصْحَـبِ الْجَنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِى كَانُواْ يُوعَدُونَ (۴۶:۱۶)

یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کی نیکیاں ہم قبول کر لیتے ہیں اور برائیوں سے درگزر فرما لیتے ہیں۔ یہ جنتوں میں رہیں گے۔ انہیں بالکل سچا اور صحیح صحیح وعدہ دیا جاتا ہے۔

أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ

کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟

یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو کافی ہے۔ اسی پر ہر شخص کو بھروسہ رکھنا چاہئے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اس نے نجات پالی جو اسلام کی ہدایت دیا گیا اور بقدر ضرورت روزی دیا گیا اور قناعت بھی نصیب ہوئی ۔ (ترمذی)

وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (۳۶)

یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ تجھے اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں۔ یہ ان کی جہالت و ضلالت ہے، اور اللہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا، جس طرح اللہ کے راہ دکھائے ہوئے شخص کو کوئی بہکا نہیں سکتا۔

وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ (۳۷)

اور جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں کیا اللہ تعالیٰ غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ہے؟

اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ والا ہے اس پر بھروسہ کرنے والے کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی طرف جھک جانے والا کبھی محروم نہیں رہتا۔ اس سے بڑھ کر عزت والا کوئی نہیں۔ اسی طرح اس سے بڑھ کر انتقام پر قادر بھی کوئی نہیں۔ جو اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں۔ اس کے رسولوں سے لڑتے بھڑتے ہیں یقیناً وہ انہیں سخت سزائیں دے گا،

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ

اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے۔

قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ

آپ ان سے کہئے کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالیٰ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں؟

أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ

یا اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟

مشرکین کی مزید جہالت بیان ہو رہی ہے کہ باوجود اللہ تعالیٰ کو خالق کل ماننے کے پھر بھی ایسے معبودان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں جو کسی نفع نقصان کے مالک نہیں جنہیں کسی امر کا کوئی اختیار نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

- اللہ کو یاد کر وہ تیری حفاظت کرے گا۔

-  اللہ کو یاد رکھ تو اسے ہر وقت اپنے پاس پائے گا۔

-  آسانی کے وقت رب کی نعمتوں کا شکر گزار رہ سختی کے وقت وہ تیرے کام آئے گا۔

-  جب کچھ مانگ تو اللہ ہی سے مانگ اور جب مدد طلب کر تو اسی سے مدد طلب کر

-  یقین رکھ کر اگر تمام دنیا مل کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو وہ سب تجھے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور سب جمع ہو کر تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہیں جو اللہ نے مقدر میں نہ لکھا ہو تو ہرگز نہیں پہنچا سکتا۔

- صحیفے خشک ہو چکے قلمیں اٹھالی گئیں۔

-  یقین اور شکر کے ساتھ نیکیوں میں مشغول رہا کر

- تکلیفوں میں صبر کرنے پر بڑی نیکیاں ملتی ہیں۔ مدد صبر کے ساتھ ہے ۔ غم و رنج کے ساتھ ہی خوشی اور فراخی ہے۔ ہر سختی اپنے اندر آسانی کو لئے ہوئے ہے۔ (ابن ابی حاتم)

قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (۳۸)

 آپ کہہ دیں کہ اللہ مجھے کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں ۔

تو کہہ دے کہ مجھے اللہ بس (کافی)ہے۔

عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ  (۶۷:۱۲)

بھروسہ کرنے والے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔

جیسے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیا تھا جبکہ انہوں نے کہا تھا :

إِن نَّقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاكَ بَعْضُ ءَالِهَتِنَا بِسُوءٍ

اے ہود ہمارے خیال سے تو تمہیں ہمارے کسی معبود نے کسی خرابی میں مبتلا کر دیا ہے۔

 تو آپ نے فرمایا

قَالَ إِنِّى أُشْهِدُ اللَّهِ وَاشْهَدُواْ أَنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِن دُونِهِ فَكِيدُونِى جَمِيعًا ثُمَّ لاَ تُنظِرُونِ ـ

إِنِّى تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّى وَرَبِّكُمْ مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلاَّ هُوَ ءاخِذٌ بِنَاصِيَتِهَآ إِنَّ رَبِّى عَلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ (۱۱:۵۴،۵۶)

میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے تمام معبودان باطل سے بیزار ہوں۔ تم سب مل کر میرے ساتھ جو داؤ گھات تم سے ہو سکتے ہیں سب کر لو اور مجھے مطلق مہلت نہ دو۔

سنو میرا توکل میرے رب پر ہے جو دراصل تم سب کا بھی رب ہے۔ روئے زمین پر جتنے چلنے پھرنے والے ہیں سب کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ میرا رب صراط مستقیم پر ہے۔

 رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

- جو شخص سب سے زیادہ قوی ہونا چاہے وہ اللہ پر بھروسہ رکھے

- اور جو سب سے زیادہ غنی بننا چاہے وہ اس چیز پر جو اللہ کے ہاتھ میں ہے زیادہ اعتماد رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو خود اس کے ہاتھ میں ہے

- اور جو سب سے زیادہ بزرگ ہونا چاہے وہ اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے۔ (ابن ابی حاتم)

قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (۳۹)

کہہ دیجئے کہ اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں ابھی ابھی تم جان لو گے۔‏

مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (۴۰)

کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی مار اور ہمیشگی کی سزا ہوتی ہے

 پھر مشرکین کو ڈانٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ اچھا تم اپنے طریقے پر عمل کرتے چلے جاؤ۔ میں اپنے طریقے پر عامل ہوں۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں ذلیل و خوار کون ہوتا ہے؟

 اور آخرت کے دائمی عذاب میں گرفتار کون ہوتا ہے؟

 اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔

إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ

آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لئے نازل فرمائی ہے،

اللہ تعالیٰ رب العزت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھ پر اس قرآن کو سچائی اور راستی کے ساتھ تمام جن و انس کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے۔

فَمَنِ اهْتَدَى فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (۴۱)

پس جو شخص راہ راست پر آجائے اسکے اپنے لئے نفع ہے اور جو گمراہ ہو جائے اس کی گمراہی کا (وبال) اسی پر ہے، آپ ان کے ذمہ دار نہیں

 اس کے فرمان کو مان کر راہ راست حاصل کرنے والے اپنا ہی نفع کریں گے

 اور اسکے ہوتے ہوئے بھی دوسری غلط راہوں پر چلنے والے اپنا ہی بگاڑیں گے تو اس امر کا ذمے دار نہیں کہ خواہ مخواہ ہر شخص اسے مان ہی لے

جیسے فرمایا:

فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (۱۳:۴۰)

تیرے ذمے صرف اس کا پہنچا دینا ہے۔ حساب لینے والے ہم ہیں،

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ

اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے

فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ

پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (۴۲)

غور کرنے والوں کے لئے اس میں یقیناً بہت نشانیاں ہیں ۔‏

 ہم ہر موجود میں جو چاہیں تصرف کرتے رہتے ہیں، وفات کبریٰ جس میں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے انسان کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وفات صغریٰ جو نیند کے وقت ہوتی ہے ہمارے ہی قبضے میں ہے۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَهُوَ الَّذِى يَتَوَفَّـكُم بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُم حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَآءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَ (۶:۶۰،۶۱)

وہ اللہ جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا بٹھاتا ہے تاکہ مقرر کیا ہوا وقت پورا کر دیا جائے پھر تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دے گا۔

وہی اپنے سب بندوں پر غالب ہے وہی تم پر نگہبان فرشتے بھیجتا ہے۔ تاوقتیکہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ تقصیر اور کمی نہیں کرتے۔

پس ان دونوں آیتوں میں بھی یہی ذکر ہوا ہے پہلے چھوٹی موت کو پھر بڑی موت کو بیان فرمایا۔ یہاں پہلے بڑی وفات کو پھر چھوٹی وفات کو ذکر کیا۔ اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ملاء اعلیٰ میں یہ روحیں جمع ہوتی ہیں جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب تم میں سے کوئی بستر پر سونے کو جائے تو اپنے تہہ بند کے اندرونی حصے سے اسے جھاڑ لے ، نہ جانے اس پر کیا کچھ ہو۔

 پھر یہ دعا پڑھے:

بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِين

اے میرے پالنے والے رب تیرے ہی پاک نام کی برکت سے میں لیٹتا ہوں اور تیری ہی رحمت میں جاگوں گا۔ اگر تو میری روح کو روک لے تو اس پر رحم فرما اور اگر تو اسے بھیج دے تو اس کی ایسی ہی حفاظت کرنا جیسی تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے،

 بعض سلف کا قول ہے کہ مردوں کی روحیں جب وہ مریں اور زندوں کی روحیں جب وہ سوئیں قبض کرلی جاتی ہیں اور ان میں آپس میں تعارف ہوتا ہے۔ جب تک اللہ چاہے پھر مردوں کی روحیں تو روک لی جاتی ہیں اور دوسری روحیں مقررہ وقت تک کے لئے چھوڑ دی جاتی ہیں۔ یعنی مرنے کے وقت تک۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:

 مردوں کی روحیں اللہ تعالیٰ روک لیتا ہے اور زندوں کی روحیں واپس بھیج دیتا ہے اور اس میں کبھی غلطی نہیں ہوتی غور و فکر کے جو عادی ہیں وہ اسی ایک بات میں قدرت الہٰی کے بہت سے دلائل پا لیتے ہیں۔

أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ

کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا (اوروں) کو سفارشی مقرر کر رکھا ہے؟

قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ (۴۳)

 آپ کہہ دیجئے! کہ گو وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں

اللہ تعالیٰ مشرکوں کی مذمت بیان فرماتا ہے کہ وہ بتوں اور معبودان باطلہ کو اپنا سفارشی اور شفیع سمجھتے ہیں، اس کی نہ کوئی دلیل ہے نہ حجت اور دراصل انہیں نہ کچھ اختیار ہے نہ عقل و شعور۔ نہ ان کی آنکھیں نہ ان کے کان، وہ تو پتھر اور جمادات ہیں جو حیوانوں میں درجہا بدتر ہیں۔ اس لئے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان سے کہہ دو، کوئی نہیں جو اللہ کے سامنے لب ہلا سکے آواز اٹھا سکے جب تک کہ اس کی مرضی نہ پالے اور اجازت حاصل نہ کر لے،

قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۴۴)

کہہ دیجئے! کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے تمام آسمانوں اور زمین کا راج اسی کے لئے ہے تم سب اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے۔‏

ساری شفاعتوں کا مالک وہی ہے۔ زمین و آسمان کا بادشاہ تنہا وہی ہے۔ قیامت کے دن تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اس شفاعتوں کا مالک وہی ہے۔ زمین و آسمان کا بادشاہ تنہا وہی ہے، قیامت کے دن تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ عدل کے ساتھ تم سب میں سچے فیصلے کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔

وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ

جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں اور جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے

ان کافروں کی یہ حالت ہے کہ توحید کا کلمہ سننا انہیں ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر سن کر ان کے دل تنگ ہو جاتے ہیں۔ اس کا سننا بھی انہیں پسند نہیں۔ ان کا جی اس میں نہیں لگتا۔ کفر و تکبر انہیں روک دیتا ہے۔

جیسے اور آیت میں ہے :

إِنَّهُمْ كَانُواْ إِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ  (۳۷:۳۵)

ان سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ ایک کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے

اور ماننے سے جی چراتے تھے۔

وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (۴۵)

اور جب اس کے سوا (اور کا) ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں‏

چونکہ ان کے دل حق کے منکر ہیں اس لئے باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ جہاں بتوں کا اور دوسرے اللہ کا ذکر آیا، ان کی باچھیں کھل گئیں۔

مشرکین کو جو نفرت توحید سے ہے اور جو محبت شرک سے ہے اسے بیان فرما کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ فرماتا ہے کہ

قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ

آپ کہہ دیجئے! کہ اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے کھلے کو جاننے والے

 تُو صرف اللہ تعالیٰ واحد کو ہی پکار جو آسمان و زمین کا خالق ہے اور اس وقت اس نے انہیں پیدا کیا ہے جبکہ نہ یہ کچھ تھے نہ ان کا کوئی نمونہ تھا۔ وہ ظاہر و باطن چھپے کھلے کا عالم ہے۔

أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (۴۶)

 تو ہی اپنے بندوں میں ان امور کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ الجھ رہے تھے

یہ لوگ جو جو اختلافات اپنے آپس میں کرتے تھے سب کا فیصلہ اس دن ہو گا جب یہ قبروں سے نکلیں اور میدان قیامت میں آئیں گے۔

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کو کس دعا سے شروع کرتے تھے؟

 آپ فرماتی ہیں اس دعا سے:

اللْهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّموَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ،

اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم

اللہ اے جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب اے آسمان و زمین کو بےنمونے کے پیدا کرنے والے اسے حاضر و غائب کئے جانے والے تو ہی اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ کرنے والا ہے

جس جس چیز میں اختلاف کیا گیا ہے تو مجھے ان سب میں اپنے فضل سے حق راہ دکھا تو جسے چاہے سیدھی راہ کی رہنمائی کرتا ہے (مسلم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو بندہ اس دعا کو پڑھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے فرشتوں سے فرمائے گا کہ میرے اس بندے نے مجھ سے عہد لیا ہے اس عہد کو پورا کرو۔ چنانچہ اسے جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔ وہ دعا یہ ہے

اے اللہ اے آسمان و زمین کو بےنمونے کے پیدا کرنے والے اے غائب و حاضر کے جاننے والے میں اس دنیا میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میری گواہی ہے کہ

تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور میری یہ بھی شہادت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں۔

تو اگر مجھے میری ہی طرف سونپ دے گا تو میں برائی سے قریب اور بھلائی سے دور پڑ جاؤں گا۔

اللہ مجھے صرف تیری رحمت ہی کا سہارا اور بھروسہ ہے پس تو بھی مجھ سے عہد کر جسے تو قیامت کے دن پورا کرے یقیناً تو عہد شکن نہیں۔

اس حدیث کے راوی سہیل فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے جب کہا کہ عون اس طرح یہ حدیث بیان کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ ہماری تو پردہ نشین بچیوں کو بھی یہ حدیث یاد ہے۔ (مسند احمد)

حضرت عبداللہ بن عمرو نے ایک کاغذ نکالا اور فرمایا کہ یہ دعا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے:

اے اللہ اے آسمان و زمین کو بےنمونہ پیدا کرنے والے چھپی کھلی کے جاننے والے تو ہرچیز کا رب ہے اور ہرچیز کا معبود ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں اور فرشتے بھی یہی گواہی دیتے ہیں۔

میں شیطان سے اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کوئی گناہ کروں یا کسی اور مسلمان کی طرف کسی گناہ کو لے جاؤں۔

حضرت ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس دعا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو سکھایا تھا اسے سونے کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ (مسند امام احمد)

اور روایت میں ہے کہ ابو راشد حبرانی نے کوئی حدیث سننے کی خواہش حضرت عبداللہ بن عمرو سے کی تو حضرت عبداللہ نے ایک کتاب نکال کر ان کے سامنے رکھ دی اور فرمایا یہ ہے جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی ہے

میں نے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں صبح و شام کیا پڑھوں؟

آپ ﷺنے فرمایا یہ پڑھو۔(ترمذی)

اللھم فاطرالسموات والارض عالم الغیب والشھادۃ لا الہ الاانت رب کل شئی وملیکہ

اعوذبک من شرنفسی وشرالشیطان وشرکہ او افترف علی نفسی سوء اور اجرہ الی مسلم

 مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس دعا کے پڑھنے کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح شام اور سوتے وقت حکم دیا ہے،

حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز کے آغاز میں یہ پڑھا کرتے تھے:

اللھم رب چبریل ومیکائیل واسرفیل فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک

فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم

وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ

اگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو روئے زمین پر ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو،تو بھی بدترین سزا کے بدلے میں قیامت کے دن یہ سب کچھ دے دیں

آیت میں ظالموں سے مراد مشرکین ہیں۔ فرماتا ہے کہ اگر ان کے پاس روئے زمین کے خزانے اتنے ہی اور ہوں تو بھی یہ قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے انہیں اپنے فدیئے میں اور اپنی جان کے بدلے میں دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ لیکن اس دن کوئی فدیہ اور بدلہ قبول نہ کیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں جیسے کہ اور آیت میں بیان فرما دیا ہے۔

فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ  (۳:۹۱)

وہ زمین بھر سونا بھی بدلے میں دے دیں، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔

وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ (۴۷)

اور ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا گمان بھی انہیں نہ ہوگا۔

آج اللہ کے وہ عذاب ان کے سامنے آئیں گے کہ کبھی انہیں ان کا خیال بھی نہ گزرا تھا

وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۴۸)

جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس کی برائیاں ان پر کھل پڑیں گی اور جس کا وہ مذاق کرتے تھے وہ انہیں آگھیرے گا

جو جو حرام کاریاں بدکاریاں گناہ اور برائیاں انہوں نے دنیا میں کی تھیں اب سب کی سب اپنے آگے موجود پائیں گے دنیا میں جس سزا کا ذکر سن کر مذاق کرتے تھے آج وہ انہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی۔

فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ ۚ

انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیں تو کہنے لگتا ہے  کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں

اللہ تعالیٰ انسان کی حالت کو بیان فرماتا ہے کہ مشکل کے وقت تو وہ آہ و زاری شروع کردیتا ہے، اللہ کی طرف پوری طرح راجع اور راغب ہو جاتا ہے، لیکن جہاں مشکل ہوگئی جہاں راحت و نعمت حاصل ہوئی یہ سرکش و متکبر بنا۔ اور اکڑتا ہوا کہنے لگا کہ یہ تو اللہ کے ذمے میرا حق تھا۔ میں اللہ کے نزدیک اس کا مستحق تھا ہی۔ میری اپنی عقل مندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے۔

بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۴۹)

بلکہ یہ آزمائش ہےلیکن ان میں سے اکثر لوگ بےعلم ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف کی آزمائش ہے گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے لیکن تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری؟

لیکن یہ لوگ بےعلم ہیں۔ دعوے کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بےخبر ہیں،

قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۵۰)

ان سے اگلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں پس ان کی کاروائی ان کے کچھ کام نہ آئی ۔‏

یہی دعویٰ اور یہی قول ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کیا اور کہا، لیکن ان کا قول صحیح ثابت نہ ہوا اور ان نعمتوں نے، کسی اور چیز نے اور ان کے اعمال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا،

فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ۚ

پھر ان کی تمام برائیاں ان پر آن پڑیں ،

وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ (۵۱)

اور ان میں سے بھی جو گناہ گار ہیں ان کی کی ہوئی برائیاں بھی اب ان پر آپڑیں گی، یہ (ہمیں) ہرا دینے والے نہیں۔

جس طرح ان پر وبال ٹوٹ پڑا اسی طرح ان پر بھی ایک دن ان کی بداعمالیوں کا وبال آپڑے گا اور یہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ نہ تھکا اور ہرا سکتے ہیں۔ جیسے کہ قارون سے اس کی قوم نے کہا تھا :

... لاَ تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ـ وَابْتَغِ فِيمَآ ۔۔۔وَلاَ يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ (۲۸:۷۶،۷۸)

اس قدر اکڑ نہیں اللہ تعالیٰ خود پسندوں کو محبوب نہیں رکھتا۔

اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کرکے آخرت کی تیاری کر اور وہاں کا سامان مہیا کر۔ اس دنیا میں بھی فائدہ اٹھاتا رہ اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا ہے، تو بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرتا رہ۔

زمین میں فساد کرنے والا مت بن اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا۔

 اس پر قارون نے جواب دیا کہ ان تمام نعمتوں اور جاہ و دولت کو میں نے اپنی دانائی اور علم و ہنر سے حاصل کیا ہے،

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس سے پہلے اس سے زیادہ قوت اور اس سے زیادہ جمع جتھا والوں کو میں نے ہلاک و برباد کردیا ہے، مجرم اپنے گناہوں کے بارے میں پوچھے نہ جائیں گے۔

 الغرض مال و اولاد پر پھول کر اللہ کو بھول جانا یہ شیوہ کفر ہے۔ کفار کا قول تھا کہ ہم مال و اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا،

أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ

کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ (بھی)

کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کیلئے چاہے کشادگی کرے اور جس پر چاہے تنگی کرے۔

أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ

کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ (بھی)

کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کیلئے چاہے کشادگی کرے اور جس پر چاہے تنگی کرے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۵۲)

 ایمان لانے والوں کے لئے اس میں (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں۔

 اس میں ایمان والوں کیلئے طرح طرح کی عبرتیں اور دلیلیں ہیں۔

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ

 (میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ،

اس میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے، ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کتنے ہی ہوں ۔

 اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 بعض مشرکین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ کی باتیں اور آپ کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہوچکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہوگا؟

اس پر آیت وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَـهَا ءَاخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِى حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ يَزْنُونَ (۲۵:۶۸) اوریہ آیت نازل ہوئی۔

 مسند احمد کی حدیث میں ہے:

 حضور علیہ السلام فرماتے ہیں مجھے ساری دنیا اور اس کی ہرچیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے۔

ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو؟

 آپ ﷺنے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا۔

 مسند کی ایک اور حدیث میں ہے:

 ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا؟

 آپ ﷺنے فرمایا کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا؟

 اس نے کہا ہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں،

 ابوداؤد ترمذی میں ہے:

 حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ اس آیت کی تلاوت اسی طرح فرما رہے تھے إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَـلِحٍ  (۱۱:۴۵) اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا :

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَن أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

پس ان تمام احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (۵۳)

بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے

بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ (۹:۱۰۴)

کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔

 اور فرمایا:

وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَّحِيماً (۴:۱۱۰)

جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا۔

منافقوں کی سزا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگی اسے بیان فرما کر بھی فرمایا :

إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ (۴:۱۴۶)

ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں۔

مشرکین نصاریٰ کے اس شرک کا کہ وہ اللہ کو تین میں کا تیسرا مانتے ہیں ذکر کرکے ان کی سزاؤں کے بیان سے پہلے فرما دیا:

وَإِن لَّمْ يَنتَهُواْ عَمَّا يَقُولُونَ (۵:۷۳)

اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو۔

پھر اللہ تعالیٰ عظمت و کبریائی جلال و شان والے نے فرمایا :

أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (۵:۷۴)

یہ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے اور کیوں اس سے استغفار نہیں کرتے؟ وہ تو بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔

 ان لوگوں کا جنہوں نے خندقیں کھود کر مسلمانوں کو آگ میں ڈالا تھا ذکر کرتے ہوئے بھی فرمایا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُواْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَـتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُواْ (۸۵:۱۰)

جو مسلمان مرد عورتوں کو تکلیف پہنچا کر پھر بھی توبہ نہ کریں

 امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے کرم و جود کو دیکھو کہ اپنے دوستوں کے قاتلوں کو بھی توبہ اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے۔

 اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔

بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا۔

 اس نے  بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کیلئے بھی توبہ ہے؟

 اس نے انکار کیا اس نے اسے بھی قتل کردیا۔

پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا چنانچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی موت آگئی۔

 رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی جس طرف وہ ہجرت کرکے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے۔

یہ بھی مذکور ہے کہ وہ موت کے وقت سینے کے بل اس طرف گھسیٹتا ہوا چلا تھا۔

 اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہو جانے کا اور برے لوگوں کی بستی کے دور ہو جانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔

یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ ، پوری حدیث اپنی جگہ بیان ہوچکی ہے۔

 حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

 اللہ عزوجل نے تمام بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلایا ہے انہیں بھی جو حضرت مسیح کو اللہ کہتے تھے انہیں بھی جو آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے انہیں بھی جو حضرت عزیز کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ کو فقیر کہتے تھے انہیں بھی جو اللہ کے ہاتھوں کو بند بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ تعالیٰ کو تین میں کا تیسرا کہتے تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے فرماتا ہے :

أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (۵:۷۴)

یہ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں چاہتے؟ اللہ تو بڑی بخشش والا اور بہت ہی رحم و کرم والا ہے۔

 پھر توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ نے اسے دی جس کا قول ان سب سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں۔ جو کہتا تھا:

مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرِى (۲۸:۳۸)

میں نہیں جانتا کہ تمہارا کوئی معبود میرے سوا ہو۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی جو شخص اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا منکر ہے۔ لیکن اسے سمجھ لو کہ جب تک اللہ کسی بندے پر اپنی مہربانی سے رجوع نہ فرمائے اسے توبہ نصیب نہیں ہوتی۔

طبرانی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:

 کتاب اللہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت آیت الکرسی ہے:

اللَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَىُّ الْقَيُّومُ ….(۲:۲۵۵)

 اور خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت یہ ہے

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإْحْسَانِ (۱۶:۹۰)

 اور سارے قرآن میں سب سے زیادہ خوشی کی سورۃ زمر کی یہ  آیت ہے

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ... (۳۹:۵۳)

 اور سب سے زیادہ ڈھارس دینے والی آیت (من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب) ہے :

وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاًوَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ (۶۵:۲،۳)

اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کی مخلصی خود اللہ کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں کا اسے خیال و گمان بھی نہ ہو۔

حضرت مسروق نے یہ سن کر فرمایا کہ بیشک آپ سچے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جا رہے تھے کہ آپ نے ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ تو کیوں لوگوں کو مایوس کر رہا ہے؟

پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ (ابن ابی حاتم)

ان احادیث کا بیان جن میں ناامیدی اور مایوسی کی ممانعت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم خطائیں کرتے کرتے زمین و آسمان پر کردو پھر اللہ سے استغفار کرو تو یقیناً وہ تمہیں بخش دے گا۔

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کرکے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کرکے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے۔ (مسند امام احمد)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے انتقال کے وقت فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں نے تم سے آج تک بیان نہیں کی تھی اب بیان کردیتا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا:

 اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ عزوجل ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا۔ (صحیح مسلم وغیرہ)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 گناہ کا کفارہ ندامت اور شرمساری ہے

 اور آپ ﷺنے فرمایا:

 اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں پھر وہ انہیں بخشے (مسند احمد)

آپﷺ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو کامل یقین رکھنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو (مسند احمد)

حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں:

 ابلیس ملعون نے کہا اے میرے رب تونے مجھے آدم کی وجہ سے جنت سے نکالا ہے اور میں اس پر اس کے بغیر کہ تو مجھے اس پر غلبہ دے غالب نہیں آسکتا۔

جناب باری نے فرمایا جا تو ان پر مسلط ہے۔

 اس نے کہا اللہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عطا فرما۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا بنی آدم میں جتنی اولاد پیدا ہوگی اتنی ہی تیرے ہاں بھی ہوگی۔

 اس نے پھر التجا کی باری تعالیٰ کچھ اور بھی مجھے زیادتی دے۔

پروردگار عالم نے فرمایا بنی آدم کے سینے میں تیرے لئے مسکن بنادوں گا اور تم ان کے جسم میں خون کی جگہ پھرو گے

 اس نے پھر کہا کہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عنایت فرما۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا تو ان پر اپنے سوار اور پیادے دوڑا۔ اور ان کے مال و اولاد میں اپنا ساجھا کر اور انہیں امنگیں دلا۔ گو حقیقتاً تیرا امنگیں دلانا اور وعدے کرنا سراسر دھوکے کی ٹٹی ہیں۔

 اس وقت حضرت آدم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تونے اسے مجھ پر مسلط کردیا اب میں اس سے تیرے بچائے بغیر بچ نہیں سکتا۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا سنو تمہارے ہاں جو اولاد ہوگی اس کے ساتھ میں ایک محافظ مقرر کردوں گا جو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھے۔

 حضرت آدم نے اور زیادتی طلب کی

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نیکی کو دس گنا کرکے دوں گا بلکہ دس سے بھی زیادہ۔ اور برائی اسی کے برابر رہے گی یا معاف کردوں گا۔

 آپ نے پھر بھی اپنی یہی دعا جاری رکھی۔

 رب العزت نے فرمایا توبہ کا دروازہ تمہارے لئے اس وقت تک کھلا ہے جب تک روح جسم میں ہے،

حضرت آدم نے دعا کی اللہ مجھے اور زیادتی بھی عطا فرما۔

 اب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی کہ میرے گنہگار بندوں سے کہہ دو وہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ (ابن ابی حاتم)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے:

 جو لوگ بوجہ اپنی کمزوری کے کفار کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین میں فتنے میں پڑگئے ہم اس کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی نیکی اور توبہ قبول نہ فرمائے گا ان لوگوں نے اللہ کو پہچان کر پھر کفر کو لے لیا اور کافروں کی سختی کو برداشت نہ کیا۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ہمارے اس قول کی تردید کردی اور قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا ( (۵۳)سے  وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ  (۵۵) تک آیتیں نازل ہوئیں۔

حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے ان آیتوں کو لکھا اور ہشام بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیا،

حضرت ہشام فرماتے ہیں میں اس وقت ذی طویٰ میں تھا میں انہیں پڑھ رہا تھا اور بار بار پڑھتا جاتا تھا اور خوب غور و خوض کر رہا تھا لیکن اصلی مطلب تک ذہن رسائی نہیں کرتا تھا۔ آخر میں نے دعا کی کہ پروردگار ان آیتوں کا صحیح مطلب اور ان کو میری طرف بھیجے جانے کا صحیح مقصد مجھ پر واضح کردے۔

 چنانچہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالا گیا کہ ان آیتوں سے مراد ہم ہی ہیں یہ ہمارے بارے میں ہیں اور ہمیں جو خیال تھا کہ اب ہماری توبہ قبول نہیں ہوسکتی اسی بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اسی وقت میں واپس مڑا اپنا اونٹ لیا اس پر سواری کی اور سیدھا مدینے میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ (سیرۃ ابن اسحاق)

وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (۵۴)

تم اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اسکی حکم برداری کئے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔‏

بندوں کی مایوسی کو توڑ کر انہیں بخشش کی امید دلا کر پھر حکم دیا اور رغبت دلائی کہ وہ توبہ اور نیک عمل کی طرف سبقت اور جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ اللہ کے عذاب آپڑیں۔ جس وقت کہ کسی کی مدد کچھ نہیں آتی

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (۵۵)

اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو

اور انہیں چاہئے کہ عظمت والے قرآن کریم کی تابعداری اور ماتحتی میں مشغول ہو جائیں اس سے پہلے کہ اچانک عذاب آئیں اور یہ بےخبری میں ہی ہوں،

أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ

 (ایسا نہ ہو کہ) کوئی شخص کہے ہائے افسوس، اس بات پر کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حق میں کوتاہی کی

اس وقت قیامت کے دن بےتوبہ مرنے والے اور اللہ کی عبادت میں کمی لانے والے بڑی حسرت اور بہت افسوس کریں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم خلوص کے ساتھ احکام اللہ بجا لاتے۔

وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ (۵۶)

بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں رہا۔‏

افسوس! کہ ہم تو بےیقین رہے۔ اللہ کی باتوں کی تصدیق ہی نہ کی بلکہ ہنسی مذاق ہی سمجھتے رہے

أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (۵۷)

یا کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت کرتا تو میں بھی پارسا لوگوں میں ہوتا

اور کہیں گے کہ اگر ہم بھی ہدایت پالیتے تو یقیناً رب کی نافرمانیوں سے دنیا میں اور اللہ کے عذاب سے آخرت میں بچ جاتے

لَوْ  لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا  (۶:۱۴۸)

اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے،

أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (۵۸)

یا عذاب کو دیکھ کر کہے کاش! کہ کسی طرح میرا لوٹ جانا ہو جاتا تو میں بھی نیکوکاروں میں ہو جاتا۔‏

اور عذاب کو دیکھ کر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر اب دوبارہ دنیا کی طرف جانا ہو جائے تو دل کھول کر نیکیاں کرلیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 بندے کیا عمل کریں گے اور کیا کچھ وہ کہیں گے۔ انکے عمل اور ان کے قول سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دے دی اور فی الواقع اس سے زیادہ باخبر کون ہوسکتا ہے؟

 نہ اس سے زیادہ سچی خبر کوئی دے سکتا ہے۔ بدکاروں کے یہ تینوں قول بیان فرمائے اور دوسری جگہ یہ خبر دے دی کہ اگر یہ واپس دنیا میں بھیجے جائیں تو بھی ہدایت کو اختیار نہ کریں گے۔ بلکہ جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کرنے لگیں گے اور یہاں جو کہتے ہیں سب جھوٹ نکلے گا۔

مسند احمد کی حدیث میں ہے:

- ہر جہنمی کو اس کی جنت کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کاش کہ اللہ مجھے ہدایت دیتا۔ یہ اس لئے کہ اسے حسرت و افسوس ہو۔

- اور اسی طرح ہر جنتی کو اس کی جہنم کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دیتا تو وہ جنت میں نہ آسکتا۔ یہ اس لئے کہ وہ شکر اور احسان کے ماننے میں اور بڑھ جائے،

بَلَى قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۵۹)

ہاں (ہاں) بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچ چکی تھیں جنہیں تو نے جھٹلایا اور غرور تکبر کیا اور تو تھا ہی کافروں میں

جب گنہگار لوگ دنیا کی طرف لوٹنے کی آرزو کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہ کرنے کی حسرت کریں گے اور اللہ کے رسولوں کو نہ ماننے پر کڑھنے لگیں گے تو اللہ سبحان و تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ندامت لاحاصل ہے پچھتاوا بےسود ہے دنیا میں ہی میں تو اپنی آیتیں اتار چکا تھا۔ اپنی دلیلیں قائم کرچکا تھا، لیکن تو انہیں جھٹلاتا رہا اور ان کی تابعداری سے تکبر کرتا رہا، ان کا منکر رہا۔ کفر اختیار کیا، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔

وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ ۚ

اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوگئے ہوں گے

قیامت کے دن دو طرح کے لوگ ہوں گے۔ کالے منہ والے اور نورانی چہرے والے۔ تفرقہ اور اختلاف والوں کے چہرے تو سیاہ پڑ جائیں گے اور اہل سنت والجماعت کی خوبصورت شکلیں نورانی ہو جائیں گی۔ اللہ کے شریک ٹھہرانے والوں اس کی اولاد مقرر کرنے والوں کو دیکھے گا کہ ان کے جھوٹ اور بہتان کی وجہ سے منہ کالے ہوں گے۔

أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ (۶۰)

کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں۔

 اور حق کو قبول نہ کرنے اور تکبر و خودنمائی کرنے کے وبال میں یہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ جہاں بڑی ذلت کے ساتھ سخت تر اور بدترین سزائیں بھگتیں گے۔

ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے:

تکبر کرنے والوں کا حشر قیامت کے دن چیونٹیوں کی صورت میں ہوگا ہر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی انہیں روندتی جائے گی یہاں تک کہ جہنم کے جیل خانے میں بند کردیئے جائیں گے جس کا نام بولس ہے۔ جس کی آگ بہت تیز اور نہایت ہی مصیبت والی ہے۔ دوزخیوں کو لہو اور پیپ اور گندگی پلائی جائے گی،

وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۶۱)

اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ انکی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وہ کسی طرح غمگین ہو نگے

ہاں اللہ کا ڈر رکھنے والے اپنی کامیابی اور سعادت مندی کی وجہ سے اس عذاب سے اور اس ذلت اور مار پیٹ سے بالکل بچے ہوئے ہوں گے اور کوئی برائی ان کے پاس بھی نہ پھٹکے گی۔

 گھبراہٹ اور غم جو قیامت کے دن عام ہوگا وہ ان سے الگ ہوگا۔ ہر غم سے بےغم اور ہر ڈر سے بےڈر اور ہر سزا اور ہر دکھ سے بےپروا ہوں گے۔ کسی قسم کی ڈانٹ جھڑکی انہیں نہ دی جائے گی امن و امان کے ساتھ راحت و چین کے ساتھ اللہ کی تمام نعمتیں حاصل کئے ہوئے ہوں گے۔

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (۶۲)

اللہ ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہرچیز پر نگہبان ہے۔

تمام جاندار اور بےجان چیزوں کا خالق مالک رب اور متصرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے۔ ہرچیز اس کی ماتحتی میں اس کے قبضے اور اس کی تدبیر میں ہے۔ سب کا کارساز اور وکیل وہی ہے۔ تمام کاموں کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے

لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۶۳)

آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کا مالک وہی ہے جن میں لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی خسارہ پانے والے ہیں .

زمین و آسمان کی کنجیوں اور ان کے خزانوں کا وہی تنہا مالک ہے حمد و ستائش کے قابل اور ہرچیز پر قادر وہی ہے۔ کفر و انکار کرنے والے بڑے ہی گھاٹے اور نقصان میں ہیں۔

 امام ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث وارد کی ہے گو سند کے لحاظ سے وہ بہت ہی غریب ہے بلکہ صحت میں بھی کلام ہے لیکن تاہم ہم بھی اسے یہاں ذکر کردیتے ہیں۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا اے عثمان تم سے پہلے کسی نے مجھ سے اس آیت کا مطلب دریافت نہیں کیا۔ اس کی تفسیر یہ کلمات ہیں:

 لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ ولا قوۃ الا باللہ الاول والاخر والظاہر والباطن بیدہ الخیر یحیی و یمیت وھو علی کل شئی قدیر

اے عثمان جو شخص اسے صبح کو دس بار پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چھ فضائل عطا فرماتا ہے اول تو وہ شیطان اور اس کے لشکر سے بچ جاتا ہے، دوم اسے ایک قنطار اجر ملتا ہے، تیسرے اس کا ایک درجہ جنت میں بلند ہوتا ہے، چوتھی اسکا حورعین سے نکاح کرا دیا جاتا ہے، پانچویں اس کے پاس بارہ فرشتے آتے ہیں، چھٹے اسے اتنا ثواب دیا جاتا ہے جیسے کسی نے قرآن اور توراۃ اور انجیل و زبور پڑھی۔ پھر اس ساتھ ہی اسے ایک قبول شدہ حج اور ایک مقبول عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔

یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں بڑی نکارت ہے۔ واللہ اعلم

قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (۶۴)

آپ کہہ دیجئے اے جاہلو! کیا تم مجھ سے اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کو کہتے ہو ۔‏

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۶۵)

یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا

اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 مشرکین نے آپ ﷺسے کہا کہ آؤ تم ہمارے معبودوں کی پوجا کرو اور ہم تمہارے رب کی پرستش کریں گے اس پر آیت  قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ ۔۔۔ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ تک نازل ہوئی۔

 یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے۔ وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ  (۶:۸۸)

اوپر انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے اس لئے  فرمایا اگر بالفرض یہ انبیاء بھی شرک کریں تو ان کے تمام اعمال اکارت اور ضائع ہو جائیں

یہاں بھی فرمایا کہ تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی طرف ہم نے یہ وحی بھیج دی ہے کہ جو بھی شرک کرے اس کا عمل غارت اور وہ نقصان یافتہ اور زیاں کار۔

بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ (۶۶)

بلکہ اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا۔‏

پس تجھے چاہیے کہ تو خلوص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں لگا رہ اور اس کا شکر گزار رہ۔ تو بھی اور تیرے ماننے والے مسلمان بھی۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ

اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی

مشرکین نے دراصل اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت جانی ہی نہیں اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے، اس سے بڑھ کر عزت والا اس سے زیادہ بادشاہت والا اس سے بڑھ کر غلبے اور قدرت والا کوئی نہیں، نہ کوئی اس کا ہمسر اور کرنے والا ہے۔

یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انہیں اگر قدر ہوتی تو اس کی باتوں کو غلط نہ جانتے۔ جو شخص اللہ کو ہرچیز پر قادر مانے، وہ ہے جس نے اللہ کی عظمت کی اور جس کا یہ عقیدہ نہ ہو وہ اللہ کی قدر کرنے والا نہیں۔

 اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔

وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ

ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے

سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (۶۷)

وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔

 اس جیسی آیتوں کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہی رہا ہے کہ جس طرح اور جن لفظوں میں یہ آئی ہے اسی طرح انہی لفظوں کے ساتھ انہیں مان لینا اور ان پر ایمان رکھنا۔ نہ ان کی کیفیت ٹٹولنا نہ ان میں تحریف و تبدیلی کرنا،

 صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے:

 یہودیوں کا ایک بڑا عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم یہ لکھا پاتے ہیں کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور سب زمینوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور درختوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر رکھ لے گا پھر فرمائے گا میں ہی سب کا مالک اور سچا بادشاہ ہوں۔

 حضور ﷺ اس کی بات کی سچائی پر ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے مسوڑھے ظاہر ہوگئے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

 مسند کی حدیث بھی اسی کے قریب ہے اس میں ہے کہ آپ ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری

 اور روایت میں ہے کہ وہ اپنی انگلیوں پر بتاتا جاتا تھا پہلے اس نے کلمے کی انگلی دکھائی تھی۔ اس روایت میں چار انگلیوں کا ذکر ہے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 اللہ تعالیٰ زمین کو قبض کرلے گا اور آسمان کو اپنی داہنی مٹھی میں لے لے گا۔ پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟

 مسلم کی حدیث میں ہے:

 زمینیں اس کی ایک انگلی پر ہوں گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے پھر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں۔

مسند احمد میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور آپ اپنا ہاتھ ہلاتے جاتے آگے پیچھے لا رہے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی آپ بیان فرمائے گا کہ میں جبار ہوں میں متکبر ہوں میں مالک ہوں میں باعزت ہوں میں کریم ہوں۔

 آپ اس کے بیان کے وقت اتنا ہل رہے تھے کہ ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں۔

 ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی پوری کیفیت دکھا دی کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکایت کیا تھا؟ کہ اللہ تبارک و آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ اپنی انگلیوں کو کبھی کھولے گا کبھی بند کرے گا اور آپ اس وقت ہل رہے تھے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہلنے سے سارا منبر ہلنے لگا اور مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا نہ دے۔

 بزار کی رویت میں ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی اور منبر ہلنے لگا پس آپ تین مرتبہ آئے گئے واللہ اعلم۔

معجم کبیر طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے فرمایا میں آج تمہیں سورۃ زمر کی آخری آیتیں سناؤں گا جسے ان سے رونا آگیا وہ جنتی ہوگیا اب آپ نے اس آیت سے لے کر ختم سورۃ تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں

 بعض روئے اور بعض کو رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہر چند رونا چاہا لیکن رونا نہ آیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا میں پھر پڑھوں گا جسے رونا نہ آئے وہ رونی شکل بناکر بہ تکلف روئے۔

 ایک اس سے بڑھ کر غریب حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تین چیزیں اپنے بندوں میں چھپالی ہیں اگر وہ انہیں دیکھ لیتے تو کوئی شخص کبھی کوئی بدعملی نہ کرتا۔

- پھر میں انہیں جنت دکھاؤں اور اس میں جو بھلائیاں ہیں سب ان کے سامنے کردوں اور وہ یقین کے ساتھ خوب اچھی طرح دیکھ لیں۔ - اگر میں پردہ ہٹا دیتا اور وہ مجھے دیکھ کر خوب یقین کرلیتے اور معلوم کرلیتے کہ میں اپنی مخلوق کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہوں جبکہ ان کے پاس آؤں اور آسمانوں کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر زمین کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر کہوں میں بادشاہ ہوں میرے سوا ملک کا مالک کون ہے

- اور میں انہیں جہنم دکھا دوں اور اس کے عذاب دکھا دوں یہاں تک کہ انہیں یقین آ جائے۔

 لیکن میں نے یہ چیزیں قصداً ان سے پوشیدہ کر رکھی ہیں۔ تاکہ میں جان لوں کہ وہ مجھے کس طرح جانتے ہیں کیونکہ میں نے یہ سب باتیں بیان کردی ہیں۔

 اس کی سند متقارب ہے اور اس نسخے سے بہت سی حدیثیں روایت کی جاتی ہیں۔ واللہ اعلم

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۖ

اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بےہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ چاہے

قیامت کی ہولناکی اور دہشت و وحشت کا ذکر ہو رہا ہے کہ صور پھونکا جائے گا۔ یہ دوسرا صور ہوگا جس سے ہر زندہ مردہ ہو جائے گا خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں۔ مگر جسے اللہ چاہے۔

 صور کی مشہور حدیث میں ہے :

 پھر باقی والوں کی روحیں قبض کی جائیں گی یہاں تک کہ سب سے آخر خود ملک الموت کی روح بھی قبض کی جائے گی اور صرف اللہ تعالیٰ ہی باقی رہ جائے گا جو حی و قیوم ہے جو اول سے تھا اور آخر میں دوام کے ساتھ رہ جائے گا۔

پھر فرمائے گا کہ آج کس کا راج پاٹ ہے؟

تین مرتبہ یہی فرمائے گا پھر خود آپ ہی اپنے آپ کو جواب دے گا کہ اللہ واحد و قہار کا، میں ہی اکیلا ہوں جس نے ہرچیز کو اپنی ماتحتی میں کر رکھا ہے آج میں نے سب کو فنا کا حکم دیدیا ہے۔

ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ (۶۸)

پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے

پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ سب سے پہلے حضرت اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کرے گا اور انہیں حکم دے گا کہ دوبارہ نفخہ پھونکیں یہ تیسرا صور ہوگا جس سے ساری مخلوق جو مردہ تھی زندہ ہو جائے گی جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اور نفخہ پھونکا جائے گا اور سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور نظریں دوڑانے لگیں گیے۔ یعنی قیامت کی دل دوز حالت دیکھنے لگیں گے،

جیسے فرمان ہے:

فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ فَإِذَا هُمْبِالسَّاهِرَةِ (۷۹:۱۳،۱۴)

وہ تو صرف ایک ہی سخت آواز ہوگی جس سے سب لوگ فوراً ہی ایک میدان میں آموجود ہوں گے۔

 اور آیت میں ہے:

يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً (۱۷:۵۲)

جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا تو سب اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کو مان لو گے اور دنیا کی زندگی کو کم سمجھنے لگو گے۔

 اللہ جل و علا کا اور جگہ ارشاد ہے:

وَمِنْ ءَايَـتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَآءُ وَالاٌّرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الاٌّرْضِ إِذَآ أَنتُمْ تَخْرُجُونَ (۳۰:۲۵)

اسکی نشانیوں میں سے زمین آسمان کا اسکے حکم سے قائم رہنا ہے پھر جب وہ تمہیں زمین میں سے پکار کر بلائے گا تو تم سب یکبارگی نکل پکڑو گے

 مسند احمد ہے:

 ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں اتنے اتنے وقت تک قیامت آ جائے گی۔ آپ نے ناراض ہو کر فرمایا جی تو چاہتا ہے کہ تم سے کوئی بات بیان ہی نہ کروں۔ میں نے تو کہا تھا کہ بہت تھوڑی مدت میں تم اہم امر دیکھو گے پھر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:

 میری اُمت میں دجال آئے گا اور وہ چالیس سال تک رہے گا میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال یا چالیس راتیں پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہا السلام کو بھیجے گا۔ وہ بالکل صورت شکل میں حضرت عروہ بن مسعود ثقفی جیسے ہوں گے اللہ آپ کو غالب کرے گا اور دجال آپ کے ہاتھوں ہلاک ہوگا پھر سات سال تک لوگ اس طرح ملے جلے رہیں گے کہ ساری دنیا میں دو شخصوں کے درمیان بھی آپس میں رنجش و عداوت نہ ہوگی۔ پھر پروردگار عالم شام کی طرف ایک ہلکی ٹھنڈی ہوا چلائے گا۔ جس سے تمام ایمان والوں کی روح قبض کرلی جائے گی یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ یہ خواہ کہیں بھی ہو۔ یہاں تک کہ اگر کسی پہاڑی کی کھوہ میں بھی کوئی مسلمان ہوگا تو یہ ہوا وہاں بھی پہنچے گی۔

میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

پھر تو بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو اپنے کمینہ پن میں مثل پرندوں کے ہلکے اور اپنی بیوقوفی میں مثل درندوں کے بیوقوف ہوں گے نہ اچھائی اچھائی کو سمجھیں گے نہ برائی کو برائی جانیں گے۔ ان پر شیطان ظاہر ہوگا اور کہے گا شرماتے نہیں کہ تم نے بت پرستی چھوڑ رکھی ہے چنانچہ وہ اس کے بہکاوے میں آکر بت پرستی شروع کردیں گے اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کی روزی اور معاش میں کشادگی عطا فرمائے ہوئے ہوگا۔

پھر صور پھونک دیا جائے گا جس کے کان میں اس کی آواز جائے گی وہ ادھر گرے گا ادھر کھڑا ہوگا پھر گرے گا۔ سب سے پہلے اس کی آواز جس کے کان میں پڑے گی۔ یہ وہ شخص ہوگا جو اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا فوراً بےہوش ہو کر زمین پر گرپڑے گا۔ پھر تو ہر شخص بےہوش اور خود فراموش ہو جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا جو شبنم کی طرح ہوگی اس سے لوگوں کے جسم اگ نکلیں گے،

 پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ کھڑے ہو جائیں گے اور دیکھنے لگیں گے۔

پھر کہا جائے گا اے لوگو! اپنے رب کی طرف چلو۔ انہیں ٹھہرالو ان سے سوالات کئے جائیں گے

پھر فرمایا جائے گا کہ جہنم کا حصہ نکال لو

 پوچھا جائے گا کس قدر۔

 جواب ملے گا ہر ہزار سے نو سو نناوے۔

 یہ دن ہوگا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور یہی دن ہوگا جس میں پنڈلی کھولی جائے گی۔ (صحیح مسلم)

صحیح بخاری میں ہے:

 دونوں نفحوں کے درمیان چالیس ہوں گے

 راوی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ کیا چالیس دن؟

 فرمایا میں اس کا جواب نہیں دوں گا

 کہا گیا چالیس ماہ؟

 فرمایا میں اس کا بھی انکار کرتا ہوں۔

 انسان کی سب چیز گل سڑ جائے گی مگر ریڑھ کی ہڈی اسی سے مخلوق ترتیب دی جائے گی۔

 ابو یعلی میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اس آیت میں جو استثناء ہے یعنی جسے اللہ چاہے اس سے کون لوگ مراد ہیں؟

 فرمایا شہداء۔

 یہ اپنی تلواریں لٹکائے اللہ کے عرش کے اردگرد ہوں گے فرشتے اپنے جھرمٹ میں انہیں محشر کی طرف لے جائیں گے۔ یاقوت کی اونٹنیوں پر وہ سوار ہوں گے جن کی گدیاں ریشم سے بھی زیادہ نرم ہوں گی۔ انسان کی نگاہ جہاں تک کام کرتی ہے اس کا ایک قدم ہوگا یہ جنت میں خوش وقت ہوں گے وہاں عیش و عشرت میں ہوں گے پھر ان کے دل میں آئے گا کہ چلو دیکھیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے کر رہا ہوگا چنانچہ ان کی طرف دیکھ کر الہٰ العالمین ہنس دے گا۔ اور اس جگہ جسے دیکھ کر رب ہنس دے اس پر حساب کتاب نہیں ہے۔

اس کے کل راوی ثقہ ہیں مگر اسماعیل بن عیاش کے استاد غیر معروف ہیں۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ

اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی نامہ اعمال حاضر کئے جائیں گے نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا

وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (۶۹)

اور لوگوں کے درمیان حق حق فیصلے کر دیئے جائیں گے اور وہ ظلم نہ کیے جائیں گے‏

 قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے کیلئے آئے گا اس وقت اس کے نور سے ساری زمین روشن ہو جائے گی۔ نامہ اعمال لائے جائیں گے۔ نبیوں کو پیش کیا جائے گا جو گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اُمتوں کو تبلیغ کردی تھی۔ اور بندوں کے نیک و بد اعمال کے محافظ فرشتے لائے جائیں گے۔ اور عدل و انصاف کے ساتھ مخلوق کے فیصلے کئے جائیں گے۔ اور کسی پر کسی قسم کا ظلم وستم نہ کیا جائے گا۔

جیسے فرمایا:

وَنَضَعُ الْمَوَزِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَـمَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَـسِبِينَ  (۲۱:۴۷)

قیامت کے دن ہم میزان عدل قائم کریں گے اور کسی پر بالکل ظلم نہ ہوگا گو رائی کے دانے کے برابر عمل ہو ہم اسے بھی موجود کردیں گے۔ اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔

 اور آیت میں ہے:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً (۴:۴۰)

اللہ تعالیٰ بہ قدر ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا وہ نیکیوں کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے۔

وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ (۷۰)

اور جس شخص نے جو کچھ کیا ہے بھرپور دیا جائے گا، جو کچھ لوگ کر رہے ہیں وہ بخوبی جاننے والا ہے

 اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہو رہا ہے ہر شخص کو اس کے بھلے برے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ وہ ہر شخص کے اعمال سے باخبر ہے۔

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ

کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے

بدنصیب منکرین حق، کفار کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح رسوائی، ذلت ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکی سے جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے۔

 جیسے اور آیت میں یدعون کا لفظ ہے

يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا  (۵۲:۱۳)

یعنی دھکے دیئے جائیں گے اور سخت پیاسے ہوں گے،

جیسے اللہ جل و علا نے فرمایا:

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَـنِ وَفْداً - وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْداً (۱۹:۸۵،۸۶)

جس روز ہم پرہیزگاروں کو رحمان کے مہمان بناکر جمع کریں گے اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے۔

 اس کے علاوہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہوں گےجیسے فرمایا:

وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا  (۱۷:۹۷)

اور منہ کے بل گھسیٹ کر لائیں گے یہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا جب اس کی آتش دھیمی ہونے لگے ہم اسے اور تیز کردیں گے۔

حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا

جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے

یہ قریب پہنچیں گے دروازے کھل جائیں گے تاکہ فوراً ہی عذاب نار شروع ہو جائے۔

وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا ۚ

اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟

جو تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے رہتے؟

پھر انہیں وہاں کے محافظ فرشتے شرمندہ کرنے کیلئے اور ندامت بڑھانے کیلئے ڈانٹ کر اور جھڑک کر کہیں گے کیونکہ ان میں رحم کا تو مادہ ہی نہیں سراسر سختی کرنے والے سخت غصے والے اور بڑی بری طرح مار مارنے والے ہیں کہ کیا تمہارے پاس تمہاری ہی جنس کے اللہ کے رسول نہیں آئے تھے؟ جن سے تم سوال جواب کرسکتے تھے اپنا اطمینان اور تسلی کرسکتے تھے ان کی باتوں کو سمجھ سکتے تھے ان کی صحبت میں بیٹھ سکتے تھے، انہوں نے اللہ کی آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں اپنے لائے ہوئے سچے دین پر دلیلیں قائم کردیں۔ تمہیں اس دن کی برائیوں سے آگاہ کردیا۔ آج کے عذابوں سے ڈرایا۔

قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ (۷۱)

یہ جواب دیں گے ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا۔

 کافر اقرار کریں گے کہ ہاں یہ سچ ہے بیشک اللہ کے پیغمبر ہم میں آئے۔ انہوں نے دلیلیں بھی قائم کیں ہمیں بہت کچھ کہا سنا بھی۔ ڈرایا دھمکایا بھی۔ لیکن ہم نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان کے خلاف کیا مقابلہ کیا کیونکہ ہماری قسمت میں ہی شقاوت تھی۔ ازلی بدنصیب ہم تھے۔ حق سے ہٹ گئے اور باطل کے طرفدار بن گئے۔

 جیسے سورۃ تبارک کی آیت میں ہے:

... كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا ۔۔۔وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ  (۷:۸،۱۰)

جب جہنم میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا۔ اس سے وہاں کے محافظ پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں آیا تو تھا لیکن ہم نے اس کی تکذیب کی

اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم بڑی بھاری غلطی میں ہو۔ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج دوزخیوں میں نہ ہوتے۔

 یعنی اپنے آپ کو آپ ملامت کرنے لگیں گے

فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ

اپنے گناہ کا خود اقرار کریں گے۔

 اللہ فرمائے گا

فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ (۶۷:۱۱)

دوری اور خسارہ ہو۔ لعنت و پھٹکار ہو اہل دوزخ پر،

کہا جائے گا یعنی ہر وہ شخص جو انہیں دیکھے گا اور ان کی حالت کو معلوم کرے گا وہ صاف کہہ اٹھے گا کہ بیشک یہ اسی لائق ہیں۔ اسی لئے کہنے والے کا نام نہیں لیا گیا بلکہ اسے مطلق چھوڑا گیا تاکہ اس کا عموم باقی رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عدل کی گواہی کامل ہو جائے

قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (۷۲)

کہا جائے گا کہ اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں ہمیشہ رہیں گے، پس سرکشوں کا ٹھکانا بہت ہی برا ہے۔‏

 ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اب جاؤ جہنم میں یہیں ہمیشہ جلتے بھلستے رہنا نہ یہاں سے کسی طرح کسی وقت چھٹکارا ملے نہ تمہیں موت آئے آہ! یہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے جس میں دن رات جلنا ہی جلنا ہے۔ یہ ہے تمہارے تکبر کا اور حق کو نہ ماننے کا بدلہ۔ جس نے تمہیں ایسی بری جگہ پہنچایا اور یہیں کا کردیا۔

وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ

اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے

اوپر بدبختوں کا انجام اور ان کا حال بیان ہوا یہاں سعادت مندوں کا نتیجہ بیان ہو رہا ہے:

 یہ بہترین خوبصورت اونٹنیوں پر سوار ہو کر جنت کی طرف پہنچائے جائیں گے۔ ان کی بھی جماعتیں ہوں گی مقربین خاص کی جماعت، پھر برابر کی، پھر ان سے کم درجے والوں کی، پھر ان سے کم درجے والوں کی، ہر جماعت اپنے مناسب لوگوں کے ساتھ ہوگی، انبیاء انبیاء کے ہمراہ، صدیق اپنے جیسوں کے ساتھ، شہید لوگ اپنے والوں کے ہمراہ، علماء اپنے جیسوں کے ساتھ، غرض ہر ہم جنس اپنے میل کے لوگوں کے ساتھ ہوں گے

حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا

یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھول دیئے جائیں گے

جب وہ جنت کے پاس پہنچیں گے پل صراط سے پار ہوچکے ہوں گے، وہاں ایک پل پر ٹھہرائے جائیں گے اور ان میں آپس میں جو مظالم ہوں گے ان کا قصاص اور بدلہ ہو جائے گا۔ جب پاک صاف ہو جائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے۔

 صور کی مطول حدیث میں ہے:

 جنت کے دروازوں پر پہنچ کر یہ آپس میں مشورہ کریں گے کہ دیکھو سب سے پہلے کسے اجازت دی جاتی ہے، پھر وہ حضرت آدم کا قصد کریں گے۔ پھر حضرت نوح کا پھر حضرت ابراہیم کا پھر حضرت موسیٰ کا پھر حضرت عیسیٰ کا پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم و علیہم کا۔ جیسے میدان محشر میں شفاعت کے موقعہ پر بھی کیا تھا۔ اس سے بڑا مقصد جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا موقعہ بموقعہ اظہار کرنا ہے۔

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:

 میں جنت میں پہلا سفارشی ہوں۔

 ایک اور روایت میں ہے:

 میں پہلا وہ شخص ہوں جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔

 مسند احمد میں ہے:

 میں قیامت کے دن جنت کا دروازہ کھلوانا چاہوں گا تو وہاں کا دروازہ مجھ سے پوچھے گا کہ آپ کون ہیں؟

 میں کہوں گا کہ محمد ؐ

وہ کہے گا مجھے یہی حکم تھا کہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے جنت کا دروازہ کسی کیلئے نہ کھولوں۔

 مسند احمد میں ہے:

 پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے تھوک رینٹ پیشاب پاخانہ وہاں کچھ نہ ہوگا ان کے برتن اور سامان آرائش سونے چاندی کا ہوگا۔ ان کی انگیٹھیوں میں بہترین اگر خوشبو دے رہا ہوگا ان کا پسینہ مشک ہوگا۔ ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا بوجہ حسن و نزاکت صفائی اور نفاست کے گوشت کے پیچھے سے نظر آ رہا ہوگا۔ کسی دو میں کوئی اختلاف اور حسد و بغض نہ ہوگا۔ سب گھل مل کر ایسے ہوں گے جیسے ایک شخص کا دل، جو جنت میں جائے گا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔

 ان کے بعد والی جماعت کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے بہترین چمکتا ستارہ پھر قریب قریب اوپر والی حدیث کے بیان ہے اور یہ بھی ہے کہ ان کے قد ساٹھ ہاتھ کے ہوں گے۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کا قد تھا۔

 اور حدیث میں ہے:

 میری اُمت کی ایک جماعت جو ستر ہزار کی تعداد میں ہوگی پہلے پہل جنت میں داخل ہوگی ان کے چہرے چودھریں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔

یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درخواست کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی انہی میں سے کردے

آپﷺ نے دعا کی کہ اللہ انہیں بھی انہی میں سے کردے،

 پھر ایک انصاری نے بھی یہی عرض کی

آپ ﷺنے فرمایا عکاشہ تجھ پر سبقت لے گیا۔

 ان ستر ہزار کا بےحساب جنت میں داخل ہونا بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے بہت سے صحابہ سے مروی ہے۔ بخاری مسلم میں ہے کہ سب ایک ساتھ ہی جنت میں قدم رکھیں گے ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے۔

 ابن ابی شیبہ میں ہے:

 مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری اُمت میں سے ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ان سے نہ حساب ہوگا نہ انہیں عذاب ہوگا۔ ان کے علاوہ اور تین لپیں بھر کر، جو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھوں سے لپ بھر کر جنت میں پہنچائے گا۔ طبرانی

اس روایت میں ہے پھر ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے۔ اس حدیث کے بہت سے شواہد ہیں۔

وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ (۷۳)

 اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔

جب یہ سعید بخت بزرگ جنت کے پاس پہنچ جائیں گے۔ ان کیلئے دروازے کھل جائیں گے ان کی وہاں عزت و تعظیم ہوگی وہاں کے محافظ فرشتے انہیں بشارت سنائیں گے ان کی تعریفیں کریں گے انہیں سلام کریں گے۔

 اس کے بعد کا جواب قرآن میں محذوف رکھا گیا ہے تاکہ عمومیت باقی رہے

 مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہ پورے خوش وقت ہو جائیں گے بے انداز سرور راحت آرام و چین انہیں ملے گا۔ ہر طرح کی آس اور بھلائی کی امید بندھ جائے گی۔

 ہاں یہاں یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ وَفُتِحَتْ میں واؤ آٹھویں ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں انہوں نے بڑا تکلف کیا ہے اور بیکار مشقت اٹھائی ہے۔ جنت کے آٹھ دروازوں کا ثبوت تو صحیح احادیث میں صاف موجود ہے۔

 مسند احمد میں ہے:

 جو شخص اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرلے وہ جنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا۔ جنت کے کئی ایک دروازے ہیں نمازی باب الصلوۃ سے سخی باب الصدقہ سے مجاہد باب جہاد سے روزے دار باب الریان سے بلائے جائیں گے۔

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو اس کی ضرورت تو نہیں کہ ہر دروازے سے پکارا جائے جس سے بھی پکارا جائے مقصد تو جنت میں جانے سے ہے، لیکن کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت کے کل دروازوں سے بلایا جائے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم انہی میں سے ہوگے۔

 یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔

 بخاری مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے:

 جنت میں آٹھ دروازے ہیں۔ جن میں سے ایک کا نام باب الریان ہے اس میں سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔

صحیح مسلم میں ہے:

 تم میں سے جو شخص کامل مکمل بہت اچھی طرح مل مل کر وضو کرے پھر اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ و رسولہ پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے چلا جائے۔

 اور حدیث میں ہے:

 جنت کی کنجی لا الٰہ الا اللہ ہے۔

اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے۔  آمین

جنت کے دروازوں کی کشادگی کا بیان

شفاعت کی مطول حدیث میں ہے :

پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی اُمت میں سے جن پر حساب نہیں انہیں داہنی طرف کے دروازے سے جنت میں لے جاؤ لیکن اور دروازوں میں بھی یہ دوسروں کے ساتھ شریک ہیں۔

 اس قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے:

 جنت کی چوکھٹ اتنی بڑی وسعت والی ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر میں ہے۔ یا فرمایا ہجر اور مکہ میں ہے۔

 ایک روایت میں ہے مکہ اور بصریٰ میں ہے۔ (بخاری و مسلم)

حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبے میں بیان فرمایا کہ ہم سے یہ ذکر کیا گیا ہے:

جنت کے دروازے کی وسعت چالیس سال کی راہ ہے۔ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب کہ جنت میں جانے والوں کی بھیڑ بھاڑ سے یہ وسیع دروازے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہوں گے (مسلم)

مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنت کی چوکھٹ چالیس سال کی راہ کی ہے، یہ جب جنت کے پاس پہنچیں گے انہیں فرشتے سلام کریں گے اور مبارکباد دیں گے کہ تمہارے اعمال تمہارے اقوال تمہاری کوشش اور تمہارا بدلہ ہرچیز خوشی والی اور عمدگی والی ہے۔

 جیسے کہ حضور علیہ السلام نے کسی غزوے کے موقعہ پر اپنے منادی سے فرمایا تھا جاؤ ندا کردو کہ جنت میں صرف مسلمان لوگ ہی جائیں گے یا فرمایا تھا صرف مؤمن ہی،

 فرشتے ان سے کہیں گے کہ تم اب یہاں سے نکالے نہ جاؤ گے بلکہ یہاں تمہارے لئے دوام ہے،

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ

یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا

اپنا یہ حال دیکھ کر خوش ہو کر جنتی اللہ کا شکر ادا کریں گی اور کہیں گے کہ الحمدللہ جو وعدہ ہم سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانی کیا تھا اسے پورا کیا۔

 یہی دعا ان کی دنیا میں تھی:

رَبَّنَا وَءَاتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَـمَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (۳:۱۹۴)

اے ہمارے پروردگار ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تونے اپنے رسولوں کی زبانی ہم سے کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر یقیناً تیری ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے۔

 اور آیت میں ہے کہ اس موقعہ پر اہل جنت یہ بھی کہیں گے:

وَقَالُواْ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدَانَا لِهَـذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِىَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (۷:۴۳)

اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت کی اگر وہ ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاسکتے۔ یقیناً اللہ کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے۔

 وہ یہ بھی کہیں گے:

وَقَالُواْ الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِى أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ـ الَّذِى أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لاَ يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلاَ يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ (۳۵:۳۴،۳۵)

اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جس نے ہم سے غم دور کردیا یقیناً ہمارا رب بخشنے والا اور قدر کرنے والا ہے۔ جس نے اپنے فضل و کرم سے یہ پاک جگہ ہمیں نصیب فرمائی جہاں ہمیں نہ کوئی دکھ درد ہے نہ رنج و تکلیف،

یہاں ہے کہ یہ کہیں گے اس سے ہمیں جنت کی زمین کا وارث کیا۔جیسے فرمان ہے:

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ  (۲۱:۱۰۵)

ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔

نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۖ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (۷۴)

کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں پس عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے۔‏

 اسی طرح آج جنتی کہیں گے کہ اس جنت میں ہم جہاں جگہ بنالیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ یہ ہے بہترین بدلہ ہمارے اعمال کا۔

معراج والے واقعہ میں بخاری و مسلم میں ہے:

جنت کے ڈیرے خیمے لولو کے ہیں اور اس کی مٹی مشک خالص ہے۔

 ابن صائد سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی مٹی کا سوال کیا تو اس نے کہا سفید میدے جیسی مشک خالص۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سچا ہے (مسلم)

مسلم ہی کی اور روایت میں ہے کہ ابن صائد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا۔

 ابن ابی حاتم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مروی ہے:

 جنت کے دروازے پر پہنچ کر یہ ایک درخت کو دیکھیں گے جس کی جڑ میں سے دو نہریں نکلتی ہوں گی۔ ایک میں وہ غسل کریں گے جس سے اس قدر پاک صاف ہو جائیں گے کہ ان کے جسم اور چہرے چمکنے لگیں گے۔ ان کے بال کنگھی کئے ہوئے تیل والے ہو جائیں گے کہ پھر کبھی سلجھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے نہ چہرے اور جسم کا رنگ روپ ہلکا پڑے۔

 پھر یہ دوسری نہر پر جائیں گے گویا کہ ان سے کہہ دیا گیا ہو اس میں سے پانی پئیں گے جن سے تمام گھن کی چیزوں سے پاک ہو جائیں گے جنت کے فرشتے انہیں سلام کریں گے مبارکباد پیش کریں گے اور انہیں جنت میں لے جانے کیلئے کہیں گے۔ ہر ایک کے پاس اس کے غلمان آئیں گے اور خوشی خوشی ان پر قربان ہوں گے اور کہیں گے آپ خوش ہو جایئے اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے طرح طرح کی نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں

 ان میں سے کچھ بھاگے دوڑے جائیں گے اور جو حوریں اس جنتی کیلئے مخصوص ہیں ان سے کہیں گے لو مبارک ہو فلاں صاحب آگئے۔ نام سنتے ہی خوش ہو کر وہ پوچھیں گی کہ کیا تم نے خود انہیں دیکھا ہے؟ وہ کہیں گے ہاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہے ہیں۔ یہ مارے خوشی کے دروازے پر آکھڑی ہوں گی۔

جنتی جب اپنے محل میں آئے گا تو دیکھے گا کہ گدے برابر برابر لگے ہوئے ہیں۔ اور آب خورے رکھے ہوئے ہیں اور قالین بچھے ہوئے ہیں۔ اس فرش کو ملاحظہ فرما کر اب جو دیواروں کی طرف نظر کرے گا تو وہ سرخ و سبز اور زرد و سفید اور قسم قسم کے موتیوں کی بنی ہوئی ہوں گی۔ پھر چھت کی طرف نگاہ اٹھائے گا تو وہ اس قدر شفاف اور مصفا ہوگی کہ نور کی طرح چمک دمک رہی ہوگی۔ اگر اللہ اسے برقرار نہ رکھے تو اس کی روشنی آنکھوں کی روشنی کو بجھا دے۔

 پھر اپنی بیویوں پر یعنی جنتی حوروں پر محبت بھری نگاہ ڈالے گا۔

 پھر اپنے تختوں میں سے جس پر اس کا جی چاہے بیٹھے گا۔ اور کہے گا اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت کی اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا تو ہم تو ہرگز اسے تلاش نہیں کرسکتے تھے۔

اور حدیث میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب یہ اپنی قبروں سے نکلیں گے۔ ان کا استقبال کیا جائے گا ان کیلئے پروں والی اونٹنیاں لائی جائیں گی جن پر سونے کے کجاوے ہوں گے ان کی جوتیوں کے تسمے تک نور سے چمک رہے ہوں گے۔ یہ اونٹنیاں ایک ایک قدم اس قدر دور رکھتی ہیں جہاں تک انسان کی نگاہ جاسکتی ہے۔

یہ ایک درخت کے پاس پہنچیں گی جس کے نیچے سے نہریں نکلتی ہیں۔ ایک کا پانی یہ پئیں گے جس سے ان کے پیٹ کی تمام فضولیات اور میل کچیل دھل جائے گا دوسری نہر سے یہ غسل کریں گے پھر ہمیشہ تک ان کے بدن میلے نہ ہوں گے ان کے بال پراگندہ نہ ہوں گے اور ان کے جسم اور چہرے بارونق رہیں گے۔

 اب یہ جنت کے دروازوں پر آئیں گے دیکھیں گے کہ ایک کنڈا سرخ یاقوت کا ہے جو سونے کی تختی پر آویزاں ہے۔ یہ اسے ہلائیں گے تو ایک عجیب سریلی اور موسیقی صدا پیدا ہوگی اسے سنتے ہی حور جان لے گی کہ اس کے خاوند آگئے یہ داروغے کو حکم دیں گی کہ جاؤ دروازہ کھولو وہ دروازہ کھول دے گا یہ اندر قدم رکھتے ہی اس داروغے کی نورانی شکل دیکھ کر سجدے میں گر پڑے گا لیکن وہ اسے روک لے گا اور کہے گا اپنا سر اٹھا میں تو تیرا ماتحت ہوں۔ اور اسے اپنے ساتھ لے چلے گا

جب یہ اس در ویاقوت کے خیمے کے پاس پہنچے گا جہاں اس کی حور ہے وہ بےتابانہ دوڑ کر خیمے سے باہر آ جائے گی اور بغل گیر ہو کر کہے گی تم میرے محبوب ہو اور میں تمہاری چاہنے والی ہوں میں یہاں ہمیشہ رہنے والی ہوں مروں گی نہیں۔ میں نعمتوں والی ہوں فقر و محتاجی سے دور ہوں۔ میں آپ سے ہمیشہ راضی خوشی رہوں گی کبھی ناراض نہیں ہوں گی۔ میں ہمیشہ آپ کی خدمت میں حاضر رہنے والی ہوں کبھی ادھر ادھر نہیں ہٹوں گی۔

پھر یہ گھر میں جائے گا جس کی چھت فرش سے ایک لاکھ ہاتھ بلند ہوگی۔ اس کی کل دیواریں قسم قسم کے اور رنگ برنگے موتیوں کی ہوں گی اس گھر میں ستر تخت ہوں گے اور ہر تخت پر ستر ستر چھولداریاں ہوں گی اور ان میں سے ہر بستر پر ستر حوریں ہوں گی ہر حور پر ستر جوڑے ہوں گے اور ان سب حلوں کے نیچے سے ان کی پنڈلی کا گودا نظر آتا ہوگا۔ ان کے ایک جماع کا اندازہ ایک پوری رات کا ہو گا۔

 ان کے باغوں اور مکانوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جن کا پانی کبھی بدبودار نہیں ہوتا صاف شفاف موتی جیسا پانی ہے اور دودھ کی نہریں ہوں گی جن کا مزہ کبھی نہیں بدلتا۔ جو دودھ کسی جانور کے تھن سے نہیں نکلا۔ اور شراب کی نہریں ہوں گی جو نہایت لذیذ ہوگا جو کسی انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا نہیں۔ اور خالص شہد کی نہریں ہوں گی جو مکھیوں کے پیٹ سے حاصل شدہ نہیں۔قسم قسم کے میوؤں سے لدے ہوئے درخت اس کے چاروں طرف ہوں گے جن کا پھل ان کی طرف جھکا ہوا ہوگا۔ یہ کھڑے کھڑے پھل لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں اگر یہ بیٹھے بیٹھے پھل توڑنا چاہیں تو شاخیں اتنی جھک جائیں گی کہ یہ توڑ لیں اگر یہ لیٹے لیٹے پھل لینا چاہیں تو شاخیں اتنی جھک جائیں

پھر آپ نے آیت وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا ….(۷۶:۱۴،۲۱) آخر تک  پڑھی

یعنی ان جنتی درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے میوے بہت قریب کردیئے جائیں گے۔ یہ کھانا کھانے کی خواہش کریں گے تو سفید رنگ یا سبز رنگ پرندے ان کے پاس آکر اپنا پر اونچا کردیں گے یہ جس قسم کا اس کے پہلو کا گوشت چاہیں کھائیں گے پھر وہ زندہ کا زندہ جیسا تھا ویسا ہی ہو کر اڑ جائے گا۔ فرشتے ان کے پاس آئیں گے سلام کریں گے اور کہیں گے کہ یہ جنتیں ہیں جن کے تم اپنے اعمال کے باعث وارث بنائے گئے ہو۔ اگر کسی حور کا ایک بال زمین پر آجائے تو وہ اپنی چمک سے اور اپنی سیاہی سے نور کو روشن کرے اور سیاہی نمایاں کرے۔

یہ حدیث غریب ہے گو کہ یہ مرسل ہے۔ واللہ اعلم۔

وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۖ

اور تو فرشتوں کو اللہ کے عرش کے ارد گرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہوئے دیکھے گا

جبکہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت اور اہل جہنم کا فیصلہ سنا دیا اور انہیں ان کے ٹھکانے پہنچائے جانے کا حال بھی بیان کردیا۔ اور اس میں اپنے عدل و انصاف کا ثبوت بھی دے دیا،تو اس آیت میں فرمایا کہ قیامت کے روز اس وقت تو دیکھے گا کہ فرشتے اللہ کے عرش کے چاروں طرف کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح بزرگی اور بڑائی بیان کر رہے ہوں گے۔

وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۷۵)

اور ان میں انصاف کا فیصلہ کیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا کہ ساری خوبی اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔

 ساری مخلوق میں عدل و حق کے ساتھ فیصلے ہوچکے ہوں گے۔ اس سراسر عدل اور بالکل رحم والے فیصلوں پر کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی ثنا خوانی کرنے لگے گا اور جاندار چیز سے آواز آئے گی کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

چونکہ اس وقت ہر اک تر و خشک چیز اللہ کی حمد بیان کرے گی اس لئے یہاں مجہول کا صیغہ لاکر فاعل کو عام کردیا گیا۔

 حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں خلق کی پیدائش کی ابتداء بھی حمد سے ہے فرماتا ہے:

الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ (۶:۱)

 اور مخلوق کی انتہا بھی حمد سے ہے۔

وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter