Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Sajdah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


الم (۱)

الف لام میم‏

سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات ہیں ان کی پوری بحث ہم سورۃ بقرہ کے شروع میں کرچکے ہیں۔

تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۲)

بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے

یہ کتاب قرآن حکیم بیشک وشبہ اللہ رب العلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے گھڑ لیا ہے

مشرکین کا یہ قول غلط ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے گھڑلیا ہے۔

بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (۳)

 (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے

 تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جنکے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔‏

نہیں یہ تو یقیناً اللہ کی طرف سے ہے اس لئے اترا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کردیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی اور پیغمبر نہیں آیا ۔ تاکہ وہ حق کی اتباع کرکے نجات حاصل کرلیں۔

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ۖ

اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا

تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے ۔ اس نے چھ دن میں زمین وآسمان بنائے پھر عرش پر قرار پکڑا ۔ اس کی تفسیر گزرچکی ہے۔

نسائی میں ہےحضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ہیں میرا ہاتھ تھام کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی تمام چیزیں پیدا کرکے ساتویں دن عرش پر قیام کیا ۔ مٹی ہفتے کے دن بنی۔ پہاڑ اتوار کے دن درخت سوموار کے دن برائیاں منگل کے دن نور بدھ کے دن جانور جمعرات کے دن آدم جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں اسے تمام روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا جس میں سفید وسیاہ اچھی بری ہر طرح کی تھی اسی باعث اولاد آدم بھی بھلی بری ہوئی۔

 امام بخاری اسے معلل بتلاتے ہیں فرماتے ہیں اور سند سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے اسے کعب احبار سے بیان کیا ہے اور حضرات محدثین نے بھی اسے معلل بتلایاہے۔ واللہ اعلم ۔

مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ

تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں

مالک وخالق وہی ہے ہرچیز کی نکیل اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ تدبیریں سب کاموں کی وہی کرتا ہے ہرچیز پر غلبہ اسی کا ہے۔ اس کے سوا مخلوق کا نہ کوئی والی نہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی۔

أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (۳)

کیا اس پر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔

اے وہ لوگو جو اس کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہو۔ دوسروں پربھروسہ کرتے ہو کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ اتنی بڑی قدرتوں والا کیوں کسی کو اپنا شریک کاربنانے لگا؟ وہ برابری سے، وزیر ومشیر سے شریک وسہیم سے پاک منزہ اور مبرا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اسکے علاوہ کوئی پالنہار ہے۔

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ

وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے

اس کا حکم ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اترتا ہے اور ساتوں زمینوں کے نیچے تک پہنچتا ہے

 جیسے اور آیت میں ہے:

اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الاٌّمْرُ بَيْنَهُنَّ (۶۵:۱۲)

اللہ تعالیٰ نے ساتھ آسمان بنائے اور انہی کے مثل زمینیں اس کا حکم ان سب کے درمیان اترتا ہے۔

ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (۵)

پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔

اعمال اپنے دیوان کی طرف اٹھائے اور چڑھائے جاتے ہیں جو آسمان دنیا کے اوپر ہے۔

 زمین سے آسمان اول پانچ سو سال کے فاصلہ پر ہے اور اتناہی اس کا گھیراؤ ہے۔ اتنا اترنا چڑھنا اللہ کی قدرت سے فرشتہ ایک آنکھ جھپکنے میں کرلیتا ہے۔ اسی لئے فرمایا ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے۔

ذَلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۶)

یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے والا، زبردست غالب بہت ہی مہربان۔‏

 ان امور کا مدبر اللہ ہے وہ اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے۔ سب چھوٹے بڑے عمل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ وہ غالب ہے جس نے ہرچیز کو اپنے ماتحت کر رکھا ہے کل بندے اور کل گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں وہ اپنے مؤمن بندوں پر بہت ہی مہربان ہے عزیز ہے اپنی رحمت میں اور رحیم ہے اپنی عزت میں۔

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ (۷)

جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی ۔

فرماتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہرچیز کو قرینے سے بہترین طور سے ترکیب پر خوبصورت بنائی ہے۔ ہرچیز کی پیدائش کتنی عمدہ کیسی مستحکم اور مضبوط ہے۔ آسمان و زمین کی پیدائش کیساتھ ہی خود انسان کی پیدائش پر غور کرو۔ اس کا شروع دیکھو کہ مٹی سے پیدا ہوا ہے۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (۸)

پھر اس کی نسل ایک بےوقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے پیدائے ہوئے۔ پر ان کی نسل نطفے سے جاری رکھی جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے۔

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ

جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اس نے روح پھونکی اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے

پھر آدم کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد ٹھیک ٹھاک اور درست کیا اور اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ۔ تمہیں کان آنکھ سمجھ عطا فرمائی۔

قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (۹)

 (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو

 افسوس کہ پھر بھی تم شکر گزاری میں کثرت نہیں کرتے ۔

 نیک انجام اور خوش نصیب وہ شخص ہے جو اللہ کی دی ہوئی طاقتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔ جل شانہ وعزاسمہ

وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ

اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟

کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں ۔ اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہوجائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جاسکتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں۔

بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ (۱۰)

 بلکہ (بات یہ ہے) کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔‏ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے ۔ جہاں کہا یوں ہوجا وہیں ہوگیا۔ اسی لئے فرمادیا کہ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے۔

قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ

کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے

فرمایا کہ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کردیں گے۔

 اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے۔

 حضرت براءکی وہ حدیث جس کا بیان سورۃ ابراہیم میں گزر چکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں۔ ان کے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو۔ کہ جو چاہا اٹھالیا۔

 ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ کا مقولہ بھی ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہے:

 ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملک الموت میرے صحابی کے ساتھ آسانی کیجئے ۔

 ملک الموت نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود با ایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں۔

سنیئے! یارسول صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یاتری میں ہر دن میں میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ کو جانتا ہے۔

 یارسول اللہ ﷺ یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتاجب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو۔

حضرت جعفر کا بیان ہے:

 ملک الموت علیہ السلام کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیاکرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے لا الہ اللہ محمدرسول اللہ کی تلقین کرتا ہے۔

مجاہد فرماتے ہیں ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں۔

 کعب احبار اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دروازے پر ٹھہر کر دن بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہوچکا ہو۔

ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (۱۱)

پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‏

 پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اپنے کئے کا پھل پانا ہے۔

وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ

کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہگار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے،

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت وحقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے۔ اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہوگئیں کان کھل گئے۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہوجائیں گے۔ سب اندھا وبہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہ اگر کانوں اور آنکھوں سے دنیا میں کام لیتے تو آج جہنمی نہ ہوتے۔

رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ (۱۲)

کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں

 کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے۔

لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا (۲۷:۶)  میں ہے۔

وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا

اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب فرما دیتے،

اسی لئے یہاں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے جیسے فرمان ہے ۔

وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لآمَنَ مَن فِى الاٌّرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا (۱۰:۹۹)

اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مؤمن بن جاتا۔

وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (۱۳)

لیکن میری بات بالکل حق ہو چکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پُر کر دونگا ۔

لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہوچکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورپورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے۔

ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں ۔

فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ ۖ

اب تم اپنے اس دن کی ملاقات کے فراموش کر دینے کا مزہ چکھوہم نے بھی تمہیں بھلا دیا

دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو۔ اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والاکیاکرتا ہے۔ اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔

 اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے۔

چنانچہ اور آیت میں ہے:

الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هَـذَا (۴۵:۳۴)

آج ہم تمہیں بھول جاتے جیسےتم اس دن کی ملاقات کو بھولے بیٹھے تھے

وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۱۴)

اور اپنے کئے ہوئے اعمال (کی شامت) سے ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھو۔‏

اپنے کفر و تکذیب کی وجہ سے اب دائمی عذاب کا مزہ اٹھاؤجیسے اور آیت میں ہے:

لاَّ يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْداً وَلاَ شَرَاباً - إِلاَّ حَمِيماً وَغَسَّاقاً (۷۸:۲۴،۲۵)

وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سوا ئے گرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہوگا۔

إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا

ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی ان سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں

وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (۱۵)  ۩

اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ۔ سجدہ

سچے ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ دل کے کانوں سے ہماری آیتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔ زبانی حق مانتے ہیں اور دل سے بھی برحق جانتے ہیں ۔ سجدہ کرتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں ۔ اور اتباع حق سے جی نہیں چراتے ۔ نہ اکڑتے ضد کرتے ہیں۔ یہ بدعات کافروں کی ہے

 جیسے فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ (۴۰:۶۰)

میری عبادت سے تکبر کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے۔

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں

ان سچے ایمانداروں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ راتوں کو نیند چھوڑ کر اپنے بستروں سے الگ ہو کر نمازیں ادا کرتے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں۔

مغرب عشاء کے درمیان کی نماز بھی بعض نے مراد لی ہیں۔

کوئی کہتا ہے مراد اس سے عشاء کی نماز کا انتظار ہے ۔

 اور قول ہے کہ عشاء کی اور صبح کی نمازیں باجماعت اس سے مراد ہے۔

يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (۱۶)

اپنے رب کے خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں

وہ اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اس کے عذابوں سے نجات کے لئے اور اس کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے ساتھ ہی صدقہ خیرات بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی حیثیت کے مطابق راہ اللہ میں دیتے رہتے ہیں۔ وہ نیکیاں بھی کرتے ہیں جن کا تعلق انہی کی ذات سے ہے۔ اور وہ نیکیاں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جن کا تعلق دوسروں سے ہے۔

ان بہترین نیکیوں میں سب سے بڑھے ہوئے وہ ہیں جو درجات میں بھی سب سے آگے ہیں۔ یعنی سید اولاد آدم فخر دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔

 جیسے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعروں میں ہے

وفینا رسول اللہ یتلو کتابہ اذانشق معروف من الصبح ساطع

یبیت یجافی جنبہ عن فراشہ اذاستثقلت بالمشرکین المضاجع

ہم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو صبح ہوتے ہی اللہ کی پاک کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔

 راتوں کو جبکہ مشرکین گہری نیند میں سوتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کروٹ آپ کے بستر سے الگ ہوتی ہے۔

 مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ دو شخصوں سے بہت ہی خوش ہوتا ہے

-  ایک تو وہ جو رات کو میٹھی نیند سویا ہوا ہے لیکن دفعۃً اپنے رب کی نعمتیں اور اسکی سزائیں یاد کرکے اٹھ بیٹھتا ہے اپنے نرم وگرم بسترے کو چھوڑ کر میرے سامنے کھڑا ہو کر نماز شروع کردیتا ہے۔

- دوسرا شخص وہ ہے جو ایک غزوے میں ہے کافروں سے لڑتے لڑتے مسلمانوں کا پانسہ کمزور پڑجاتا ہے لیکن یہ شخص یہ سمجھ کر کہ بھاگنے میں اللہ کی ناراضگی ہے اور آگے بڑھنے میں رب کی رضامندی ہے میداں کی طرف لوٹتا ہے اور کافروں سے جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ اپنا سر اس کے نام پر قربان کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فخر سے اپنے فرشتوں کو اسے دکھاتا ہے اور اس کے سامنے اس کے عمل کی تعریف کرتا ہے ۔

 مسند احمد ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا صبح کے وقت میں آپ کے قریب ہی چل رہا تھا میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے الگ کردے

 آپ ﷺنے فرمایا تونے سوال تو بڑے کام کا کیا ہے لیکن اللہ جس پر آسان کردے اس پر بڑا سہل ہے۔ bb

- سن تو اللہ کی عبادت کرتا رہ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر

-  نمازوں کی پابندی کر

- رمضان کے روزے رکھ

- بیت اللہ کا حج کر

-  زکوٰۃ ادا کرتا رہ۔

 آ اب میں تجھے بھلائیوں کے دروازے بتلاؤں۔

روزہ ڈھال ہے اور انسان کی آدھی رات کی نماز، صدقہ گناہوں کو معاف کرادیتا ہے۔

پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی۔

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

پھر آپ نے فرمایا آ اب میں تجھے اس امر کے سر اس کے ستون اور اس کی کوہان کی بلندی بتاؤں۔

- اس تمام کا سر تو اسلام ہے

-  اور اس کا ستون نماز ہے

-  اس کے کوہان کی بلندی اللہ کی راہ کا جہاد ہے۔

پھر آپ نے فرمایا اب میں تجھے تمام کاموں کے سردار کی خبردوں؟

پھر آپ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا اسے روک رکھ میں نے کہا کیا ہم اپنی بات چیت پر بھی پکڑے جائیں گے؟

آپ نے فرمایا اے معاذ افسوس تجھے معلوم نہیں انسان کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالنے والی چیز تو اس کے زبان کے کنارے ہیں۔

 یہی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے ایک میں یہ بھی ہے کہ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ کو پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد بندے کا رات کی نماز پڑھنا ہے۔

 اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ انسان کا آدھی رات کو قیام کرنا۔

 پھر حضور کا اسی آیت کو تلاوت کرنا مروی ہے

 ایک حدیث میں ہے:

 قیامت کے دن جبکہ اول و آخر سب لوگ میدان محشر میں جمع ہوں گے تو ایک منادی فرشتہ آواز بلند کرے گا جسے تمام مخلوق سنے گی۔

 وہ کہے گا کہ آج سب کو معلوم ہوجائے گا کہ سب سے زیادہ ذی عزت اللہ کے نزدیک کون ہے؟

 پھر لوٹ کر آواز لگائے گا کہ تہجد گزار لوگ اٹھ کھڑے ہوں

 اور اس آیت کی تلاوت فرمائے گا تو یہ لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور گنتی میں بہت کم ہوں گے۔

حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 جب یہ آیت اتری تو ہم لوگ مجلس میں بیٹھے تھے۔ اور بعض صحابہ مغرب کے بعد سے لے کر عشاء تک نماز میں مشغول رہتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی۔

 اس حدیث کی یہی ایک سند ہے۔

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۷)

کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کے لئے جنت میں کیاکیا نعمتیں اور لذتیں پوشیدہ بناکر رکھی ہیں۔ اسی کا کسی کو علم نہیں

چونکہ یہ لوگ بھی پوشیدہ طور پر عبادت کرتے تھے اسی طرح ہم نے بھی پوشیدہ طور پر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکھ تیار کر رکھاہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال آیا۔

بخاری کی حدیث قدسی میں ہے:

 میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ رحمتیں اور نعمتیں مہیاکر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ کے دیکھنے میں آئیں نہ کسی کان کے سننے میں نہ کسی کے دل کے سوچنے میں آئے ہوں ۔

 اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوہریرہ راوی حدیث نے کہا قرآن کی اس آیت کو پڑھ لو۔

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

 اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:

 جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہونگی۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لئے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم وگمان آیا  ( مسلم)

ایک حدیث میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا وصف بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی فرمایا اور پھر یہ آیات تلاوت فرمائیں۔

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

حدیث قدسی میں ہے:

 میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہیں نہ کانوں نے سنی ہیں بلکہ اندازہ میں بھی نہیں آسکتیں۔

صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عزوجل سے عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ ادنیٰ جنتی کا درجہ کیا ہے ؟

جواب ملا کہ ادنی ٰ جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجاؤ

وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی چیزیں سنبھال لی ہیں۔

 اس سے کہاجائے گا کہ کیا تو اس پر خوش ہے ؟ کہ تیرے لئے اتنا ہوجتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا ۔

وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرے لئے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتناہی اور پانچ گناہ۔

یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہوگیا

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔

یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہوگیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت ہے؟

 فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگادی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں ۔

 اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی یہ آیت ہے۔

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

حضرت عباس بن عبدالواحد فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے:

 ایک جنتی اپنی حور کے ساتھ محبت پیار میں ستر سال تک مشغول رہے گا کسی دوسری چیز کی طرف اس کا التفات ہی نہیں ہوگا۔ پھر جو دوسری طرف التفات ہوگا تو دیکھے گا کہ پہلی سے بہت زیادہ خوبصورت اور نوارنی شکل کی ایک اور حور ہے۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر خوش ہو کر کہے گی کہ اب میری مراد بھی پوری ہوگی یہ کہے گا تو کون ہے؟

 وہ کہے گی میں اللہ کی مزید نعمتوں میں سے ہوں۔

 اب یہ سراپا اس کی طرف متوجہ ہوجائے گا پھر ستر سال کے بعد دوسری طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھی ایک اور حور ہے وہ کہے گی اب وقت آگیا کہ آپ میں میرا حصہ بھی ہو

یہ پوچھے گا تم کون ہو؟

 وہ جواب دے گی میں ان میں سے ہوں جن کی نسبت جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ہے کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کی کیاکیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے۔

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 فرشتے جنتیوں کے پاس دنیا کے اندازے سے ہر دن میں تین تین بار جنت عدن کے اللہ کے تحفے لے کر جائیں گے جو ان کی جنت میں نہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔

 وہ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے ۔

حضرت ابوالیمان فزاری یا کسی اور سے مروی ہے:

 جنت کے سو درجے ہیں

-  پہلا درجہ چاندی کا ہے اس کی زمین بھی چاندی کی ہے اس کے محلات بھی چاندی کے اس کی مٹی مشک کی ہے ۔

- دوسرا درجہ سونے  کا ہے اس کی زمین بھی سونے  کی ہے اس کے مکانات بھی سونے  کےبرتن بھی سونے  کے اس کی مٹی مشک کی ہے

- تیسری موتی کی ۔ زمین بھی موتی کی گھر بھی موتی کے برتن بھی موتی کے اور مٹی مشک کی ۔

 اور باقی ستانوے تو وہ ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی انسان کے دل میں گزریں ۔

پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

 ابن جریر میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت روح الامین سے روایت کرتے ہیں:

 انسان کی نیکیاں بدیاں لائی جائی گی۔ بعض بعض سے کم کی جائیں گی پھر اگر ایک نیکی بھی باقی بچ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا دے گا اور جنت میں کشادگی عطافرمائے گا۔

راوی نے یزداد سے پوچھا کہ نیکیاں کہاں چلی گئیں؟

تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی

أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَن سَيِّئَاتِهِمْ (۴۶:۱۶)

یہ وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم نے قبول فرمالئے اور ان کی برائیوں سے ہم نے درگزر فرمالیا۔

راوی نے کہا پھر اس آیت کے کیا معنی ہیں؟

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

فرمایا بندہ جب کوئی نیکی لوگوں سے چھپا کر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کے آرام کی خبریں جو اس کے لئے پوشیدہ رکھ چھوڑی تھیں عطا فرمائے گا۔

أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۚ

کیا جو مؤمن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟

لَا يَسْتَوُونَ (۱۸)

یہ برابر نہیں ہو سکتے۔‏

اللہ تعالیٰ کے عدل وکرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکاربرابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے:

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُواْ السَّيِّئَـتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ سَوَآءً مَّحْيَـهُمْ وَمَمَـتُهُمْ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ (۴۵:۲۱)

کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کررہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کردیں گے؟

 ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں۔

 اور آیت میں ہے :

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِى الاٌّرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (۳۸:۲۸)

ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کردیں؟

 پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کردیں؟

 اور آیت میں ہے :

لاَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ  (۵۹:۲۰)

دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے۔

یہاں بھی فرمایا کہ مؤمن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے۔

 کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۹)

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے انکے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے انکے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے تھے۔‏

ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالا خانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں۔

یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہوگی۔

وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ

لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے،

اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہوگی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے ۔

كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (۲۰)

 جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہہ دیا جائیگا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو۔‏

 جیسے اور آیت میں ہے:

كُلَّمَآ أَرَادُواْ أَن يَخْرُجُواْ مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُواْ فِيهَا  (۲۲:۲۲)

جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ۔

حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں:

 واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۲۱)

بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں

عَذَابِ الْأَدْنَى سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں

یہ اس لئے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہوجائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے۔

 ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں۔

اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔

 نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں ۔

حضرت ابی فرماتے ہیں:

 چاند کا شق ہوجانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنادیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ

اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ پھیر لیا

پھر فرماتا ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کرجائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا؟

حضرت قتادۃ فرماتے ہیں:

 اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بےعزت بےوقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔

إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ (۲۲)

 (یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گار سے انتقام لینے والے ہیں۔‏

یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا۔

- جس نے بےوجہ کوئی جھنڈا باندھا ،

- جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی،

- جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا ۔

یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ہم مجرموں سے باز پرس کریں گے اور ان سے پورا بدلا لیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم)

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ ۖ

بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا چاہیے

فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک وشبہ میں نہ رہ۔

قتادۃ فرماتے ہیں یعنی معراج والی رات میں۔

حدیث میں ہے:

 میں نے معراج والی رات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں۔

 اسی رات میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ وسفید تھے سیدھے بال تھے ۔

میں نے اسی رات حضرت مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا

یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں پس اس کی ملاقات میں شک وشبہ نہ کر۔ آپ نے یقیناً حضرت موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ کو معراج کرائی گئی۔

وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ (۲۳)

اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔‏

حضرت موسیٰ کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنادیا۔

اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی ۔ جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے :

وَءَاتَيْنَآ مُوسَى الْكِتَـبَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِى إِسْرَءِيلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِى وَكِيلاً  (۱۷:۲)

ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنادیا کہ تم میرے سواکسی کو کار ساز نہ سمجھو۔

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (۲۴)

اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے،

اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے

پھر فرماتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنادیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں۔

 لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کردئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے

حضرت سفیان فرماتے ہیں یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہذا انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتدا کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے آپ فرماتے ہیں دین کے لئے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لئے غذا ضروری ہے۔

حضرت سفیان سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنادیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے ۔

آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنادیا۔

 چنانچہ فرمان ہے ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضلیت دی ۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (۲۵)

آپ کا رب ان (سب) کے درمیاں ان (تمام) باتوں کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہییہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا۔ں

یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا۔

أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۚ

کیا اس بات نے بھی انہیں کوئی ہدایت نہیں دی کہ ہم نے پہلے بہت سی اُمتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں

کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہہ وبالا کردیا ہے ۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اللہ کی باتوں سے بےپرواہی کی۔ اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ ۖ أَفَلَا يَسْمَعُونَ (۲۶)

اس میں تو بڑی بڑی نشانیاں ہیں، کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟‏

 ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے۔

 اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لئے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں۔ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کا کتنا بد انجام ہوا؟

کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے نا آشنا ہیں ۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ ۖ

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ کہ ہم پانی کو بنجر زمین کی طرف بہا کر لے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں

جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں

پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف وکرم کو احسان وانعام کو بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کرندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے۔ بنجر غیر آباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہوجاتی ہے۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے ۔

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جُرُز وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے۔

 مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ زمین یمن میں ہے

حسن فرماتے ہیں ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں۔

 ابن زید وغیرہ کا قول ہے یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہو اور غبار آلود ہو۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے:

وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا  (۳۶:۳۳)

ان کے لئے مردہ زمین بھی ایک نشانی ہے جسے ہم زندہ کردیتے ہیں۔

 گو مفسرین کا قول یہ بھی ہے کہ جُرُز مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو

 آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہوگئے ہوں زمین یبوست (خشکی ) کے مارے پھٹنے لگی ہو۔ بیشک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتاجاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہرسال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسر آتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے۔اس حکیم وکریم منان ورحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے

 روایت ہے:

 جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک باکرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلاکر رضامند کرلیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اسکا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں۔

 سپہ سلار اسلام حضرت عمرو بن عاص فاتح مصر نے جواب دیا کہ یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسا نہیں کرسکتے۔وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہینہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا۔ لوگ تنگ آکر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں۔ یہاں کی بود وباش ترک کردیں

 اب فاتح مصر کو خیال گزرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں ۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پرچہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو ۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف۔ بعد حمد وصلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد وقہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہیں کہ وہ تجھے رواں کردے۔

یہ پرچہ لے کر حضرت امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ ابھی ایک رات بھی گزرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بدل گئی۔ خط کے ساتھ ہی خطہ کا خطہ سرسبز ہوگیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا۔ (کتاب السنہ للحافظ ابو القاسم اللالکائی)

اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے :

فَلْيَنظُرِ الإِنسَـنُ إِلَى طَعَامِهِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبّاً  (۸۰:۲۴،۲۵)

انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے

أَفَلَا يُبْصِرُونَ (۲۷)

کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے ـ۔‏

اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْفَتْحُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۲۸)

اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا، اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ۔‏

کافر اعتراضاً کہاکرتے تھے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم جو ہمیں کہاکرتے ہو اور اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کردیا ہے کہ تم ہم پر فتح پاؤ گے اور ہم سے بدلے لوگے وہ وقت کب آئے گا؟

ہم تو مدتوں سے تمہیں مغلوب زیر اور بےوقعت دیکھ رہے ہیں۔ چھپ رہے ہو ڈررہے ہو اگر سچے ہو تو اپنے غلبے کا اور اپنی فتح کا وقت بتاؤ۔

قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (۲۹)

جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان لانا بے ایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی ۔

اللہ فرماتا ہے کہ جب عذاب اللہ آجائے گا اور جب اس کا غصہ اور غضب اتر پڑتا ہے خواہ دنیا میں ہو خواہ آخرت میں اس وقت نہ تو ایمان نفع دیتا ہے نہ مہلت ملتی ہے۔

جیسے فرمان ہے :

فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَـتِ فَرِحُواْ بِمَا عِندَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ... (۴۰:۸۳،۸۵)

جب ان کے پاس اللہ کے پیغمبر دلیلیں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر نازاں ہونے لگے…..۔

 اس سے فتح مکہ مراد نہیں۔ فتح مکہ والے دن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو اسلام لانا قبول فرمایا تھا اور تقریبا دوہزار آدمی اس دن مسلمان ہوئے تھے۔ اگر اس آیت میں یہی فتح مکہ مراد ہوتی تو چاہے تھا کہ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام ان کا اسلام قبول نہ فرماتے جیسے اس آیت میں ہے کہ اس دن کافروں کا اسلام لانامقبول ہوگا۔ بلکہ یہاں مراد فتح سے فیصلہ ہے جیسے قرآن میں ہے :

فَافْتَحْ بَيْنِى وَبَيْنَهُمْ فَتْحاً (۲۶:۱۱۸)

ہمارے درمیان تو فتح کر یعنی فیصلہ کر۔

 اور جیسے اور مقام پر ہے:

قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ  (۳۴:۲۶)

اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے آپس کے فیصلے فرمائے گا

اور آیت میں ہے:

وَاسْتَفْتَحُواْ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (۱۴:۱۵)

یہ فیصلہ چاہتے ہیں سرکش ضدی تباہ ہوئے

 اور جگہ ہے:

وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ  (۲:۸۹)

اس سے پہلے وہ کافروں پر فتح چاہتے تھے

 اور آیت میں فرمان باری ہے:

إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ  (۸:۱۹)

اگر تم فیصلے کے آرزومند ہو تو فتح آگئی ۔

فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ إِنَّهُمْ مُنْتَظِرُونَ (۳۰)

اب آپ ان کا خیال چھوڑ دیں اور منتظر رہیں یہ بھی منتظر رہیں

اللہ فرماتا ہے آپ ان مشرکین سے بےپرواہ ہوجائیے جو رب نے اتارا ہے اسے پہنچاتے رہیے ۔ جیسے اور آیت میں ہے:

اتَّبِعْ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ (۶:۱۰۶)

اپنے رب کی وحی کی اتباع کرو اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ۔

پھر فرمایا تم اپنے رب کے وعدوں کو سچا مان لو اسکی باتیں اٹل ہیں اس کے فرمان سچے ہیں وہ عنقریب تجھے تیرے مخالفین پر غالب کرے گا وہ وعدہ خلافی سے پاک ہے یہ بھی منتظر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ آپ پر کوئی آفت آئے لیکن ان کی یہ چاہتیں بےسود ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے والوں کو بھولتا نہیں نہ انہیں چھوڑتا ہے بھلا جو رب کے احکام پر جمے رہیں اللہ کی باتیں دوسروں کو پہنچائیں وہ تائید ایزدی سے کیسے محروم کردئیے جائیں؟ یہ جو کچھ تم پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ ان پر اترے گا بدبختی ( نکبت) وادبار میں ہائے وائے واویلا میں گرفتار کئے جائیں گے۔ رب کے عذابوں کا شکار ہونگے ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter