Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Luqman

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 الم (۱)

الم

سورۃ بقرہ کی تفسیر کے اول میں ہی حروف مقطعات کے معنی اور مطلب کی توضیح کردی گئی ہے۔

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ (۲)

یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔‏

هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ (۳)

جو نیکوکاروں کے لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے۔‏

یہ قرآن ہدایت شفا اور رحمت ہے اور ان نیک کاروں کے لئے جو شریعت کے پورے پابند ہیں۔

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (۴)

جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں ۔

جو نماز ادا کرتے ہیں ارکان اوقات وغیرہ کی حفاظت کے ساتھ ہی نوافل سنت وغیرہ بھی نہیں چھوڑتے ۔

 فرض زکوٰۃ ادا کرتے ہیں صلہ رحمی سلوک واحسان سخاوت اور داددہش کرتے رہتے ہیں۔

 آخرت کی جزاء کا انہیں کامل یقین ہے اس لئے اللہ کی طرف پوری رغبت کرتے ہیں ثواب کے کام کرتے ہیں اور رب کے اجر پر نظریں رکھتے ہیں ۔ نہ ریاکاری کرتے ہیں نہ لوگوں سے داد چاہتے ہیں۔

أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۵)

یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔

 ان اوصاف والے راہ یافتہ ہیں ۔ راہ اللہ پر لگادیئے گئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو دین ودنیا میں فلاح نجات اور کامیابی حاصل کریں گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں

اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الہٰی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں

چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے ۔

 ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔

یہی قول حضرت ابن عباس ، جابر، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب ، علی بن بذیمہ کاہے۔

 امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔

حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ وہ باطل کی بات کو حق کی بات پر پسند کر لے اور نقصان کی چیز کو نفع کی بات پر مقدم کر لے

ایک قول یہ بھی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے

چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔

 امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن زید کو ضعیف کہا ہے ۔

میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم ۔

ضحاک کا قول ہے کہ مراد اس سے شرک ہے

 امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔

أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (۶)

یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔

اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہوگی اور خطرناک عذاب میں ذلیل ورسوا ہونگے۔

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں

 گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں

بیان ہو رہا ہے کہ یہ بدنصیب جو کھیل تماشوں باجوں گاجوں پر راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے۔ یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کرلیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ سن بھی لیتا ہے تو بےسنی کردیتا ہے ۔ بلکہ انکا سننا اسے ناگوار گزرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لئے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتا وہ تو ان سے محض بےپرواہ ہے۔

فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (۷)

آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔‏

یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے توقیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ (۸)

بیشک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کام بھی نیک کئے ان کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں۔‏

نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جو اللہ پر ایمان لائے رسول کو مانتے رہے شریعت کی ماتحتی میں نیک کام کرتے رہے ان کے لئے جنتیں ہیں جن میں طرح طرح کی نعمتیں لذیذ غذائیں بہترین پوشاکیں عمدہ عمدہ سواریاں پاکیزہ نوارنی چہروں والی بیویاں ہیں۔

خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ

جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا سچا وعدہ ہے،

وہاں انہیں اور انکی نعمتوں کو دوام ہے کبھی زوال نہیں۔ نہ تو یہ مریں گے نہ ان کی نعمتں فناہوں نہ کم ہوں نہ خراب ہوں۔ یہ حتماً اور یقیناً ہونے والا ہے کیونکہ اللہ فرماچکاہے اور رب کی باتیں بدلتی نہیں اس کے وعدے ٹلتے نہیں۔ وہ کریم ہے منان ہے محسن ہے منعم ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔

وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۹)

وہ بہت بڑی عزت و غلبہ والا اور کامل حکمت والا ہے۔‏

اللہ ہرچیز پر قادر ہے عزیز ہے سب کچھ اس کے قبضے میں ہے حکیم ہے۔ کوئی کام کوئی بات کوئی فیصلہ خالی از حکمت نہیں۔

جیسے فرمایا:

هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُمؤمنونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى (۴۱:۴۴)

اس نے قرآن کریم کو ممؤمنوں کے لئے کافی اور شافی بنایا ہاں بے ایمانوں کے کانوں میں بوجھ ہیں اور آنکھوں میں اندھیرا ہے۔

 اور آیت میں ہے :

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُمؤمنينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا (۱۷:۸۲)

جو قرآن ہم نے نازل فرمایا ہے وہ ممؤمنوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم تو نقصان میں ہی بڑھتے ہیں۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ

اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انہیں دیکھ رہے ہو

اللہ سبحان وتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ زمین وآسمان اور ساری مخلوق کا خالق صرف وہی ہے ۔ آسمان کو اس نے بےستوں اونچا رکھا ہے۔ واقعہ میں کوئی ستوں ہے ہی نہیں۔

گو مجاہد کا یہ قول بھی ہے کہ ستوں ہمیں نظر نہیں آتے۔ اس مسئلہ کا پورا فیصلہ میں سورۃ رعد کی تفسیر میں لکھ چکا ہوں اس لئے یہاں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ

اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وہ تمہیں جنبش نہ دے سکے

زمین کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہلے جلنے سے بچانے کے لئے اس نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہیں زلزلے اور جنبش سے بچالے۔

وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ ۚ

 اور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے

اس قدر قسم قسم کے بھانت بھانت کے جاندار اس خالق حقیقی نے پیدا کئے کہ آج تک ان کا کوئی احاطہ نہیں کرسکا۔

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (۱۰)

اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے۔

اپنا خالق اور خلاق ہونا بیان فرما کر اب رازق اور رزاق ہونا بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے بارش اتار کر زمین میں سے طرح طرح کی پیداوار اگادی جو دیکھنے میں خوش منظر کھانے میں بےضرر۔ نفع میں بہت بہتر۔

 شعبی کا قول ہے کہ انسان بھی زمین کی پیداوار ہے

 جنتی کریم ہیں اور دوزخی بخیل ہیں۔

هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ

یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ

اللہ کی یہ ساری مخلوق تو تمہارے سامنے ہے اب جنہیں تم اس کے سوا پوجتے ہو ذرا بتاؤ تو ان کی مخلوق کہاں ہے؟

 جب نہیں تو وہ خالق نہیں اور جب خالق نہیں تو معبود نہیں پھر ان کی عبادت نرا ظلم اور سخت نا انصافی ہے

بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۱۱)

 (کچھ نہیں) بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔‏

فی الواقع اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں سے زیادہ اندھا بہرا بےعقل بےعلم بےسمجھ بیوقوف اور کون ہوگا؟

حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں؟

اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے؟

 اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے۔

حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے۔

 سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے۔

-  حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے۔

- حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور

- حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے۔

 حضرت خالد ربعی کا قول ہے :

 حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ۔

 وہ دل اور زبان لے گئے

کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ

 آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے

 مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟

 آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بد تر بھی یہی ہیں۔

حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے

اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے۔

 ایک اور قول ہے:

 آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جو میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایاکرتا تھا ؟

آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں

 اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟

 فرمایا سچ بولنے اور بےکار کلام نہ کرنے سے ۔

 اور روایت میں ہے:

 آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا۔

 الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہواکرتے تھے۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم ۔

 کہتے ہیں:

 حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟

 آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔

 اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟

 آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔

 کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟

آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟

اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔

 آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے۔

- آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو۔

-  زبان بیہودہ باتوں سے روک لو۔

-  مال حلال کھایاکرو۔

- اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔

-  زبان سے سچ بات بولا کرو۔

-  وعدے کو پورا کیا کرو۔

- مہمان کی عزت کرو۔

- پڑوسی کا خیال رکھو۔

- بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو۔

 انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے۔

 ابوداؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں۔

- وہ خوش اخلاق خاموش غوروفکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے۔

- لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے

- لغو کاموں سے دور رہتے

-  ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے۔

- وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غوروفکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں۔

 اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔

حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے :

حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پر حکمت برسادی گئی اور رگ رگ میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں۔

 آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟

 تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا۔

 اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ

اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر کر

حضرت قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے ۔

 حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے۔

 ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر۔

وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (۱۲)

ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔‏

شکر گزار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلاکرتا ہے۔

جیسے اور آیت میں ہے

وَمَنْ عَمِلَ صَـلِحاً فَلاًّنفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ  (۳۰:۴۴)

نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں۔

 یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔

اب حضرت لقمان نے جو اپنے صاحبزادے کو نصیحت و وصیت کی تھی اس کا بیان ہو رہا ہے ۔

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (۱۳)

اور جبکہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے

یہ لقمان بن عنقاء بن سدون تھے ان کے بیٹے کا نام سہیلی کے بیان کی رو سے ثاران ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اچھائی سے کیا اور فرمایا کہ ان کوحکمت عنایت فرمائی گئی تھی۔ انہوں نے جو بہترین وعظ اپنے لڑکے کو سنایا تھا اور انہیں مفید ضروری اور عمدہ نصیحتیں کی تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے۔

 ظاہر ہے کہ اولاد سے پیاری چیز انسان کی اور کوئی نہیں ہوتی اور انسان اپنی بہترین اور انمول چیز اپنی اولاد کو دینا چاہتا ہے۔ تو سب سے پہلے یہ نصیحت کی کہ صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ۔ یاد رکھو اس سے بڑی بےحیائی اور زیادہ برا کام کوئی نہیں۔

حضرت عبداللہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے:

جب آیت  الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ (۶:۸۲) اتری تو آصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی مشکل آپڑی اور انہوں نے حضور ﷺسے عرض کیا ہم میں سے وہ کون ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو؟

اور آیت میں ہے کہ ایمان کو جنہوں نے ظلم سے نہیں ملایا وہی با امن اور راہ راست والے ہیں۔

تو آپ نے فرمایا:

 ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ   يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بڑا بھاری ظلم ہے۔

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ

ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا

اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے

أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (۱۴)

کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‏

اس پہلی وصیت کے بعد حضرت لقمان دوسری وصیت کرتے ہیں اور وہ بھی درجے  اور تاکید کے لحاظ سے واقع ایسی ہی ہے کہ اس پہلی وصیت سے ملائی جائے ۔ یعنی ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرنا

جیسے فرمان جناب باری ہے:

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّـهُ وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً  (۱۷:۲۳)

تیرا رب یہ فیصلہ فرماچکاہے کہ اس کے سواکسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک واحسان کرتے رہو۔

عموما ًقرآن کریم میں ان دونوں چیزوں کا بیان ایک ساتھ ہے۔ یہاں بھی اسی طرح ہے

وَهْنٍ کے معنی مشقت تکلیف ضعف وغیرہ کے ہیں۔

 ایک تکلیف تو حمل کی ہوتی ہے جسے ماں برداشت کرتی ہے۔ حالت حمل کے دکھ درد کی حالت سب کو معلوم ہے پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی رہتی ہے اور اس کی پرورش میں لگی رہتی ہے۔

چنانچہ اور آیت میں ہے:

وَالْوَلِدَتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَـدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ (۲:۲۳۳)

جو لوگ اپنی اولاد کو پورا پورا دودھ پلانا چاہے انکے لئے انتہائی سبب یہ ہے کہ دوسال کامل تک ان بچوں کو ان کی مائیں اپنا دودھ پلاتی رہیں۔

 چونکہ ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے:

وَحَمْلُهُ وَفِصَـلُهُ ثَلاَثُونَ شَهْراً  (۴۶:۱۵)

مدت حمل اور دودھ چھٹائی کل تیس ماہ ہے۔

 اس لئے حضرت ابن عباس اور دوسرے بڑے اماموں نے استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے۔

 ماں کی اس تکلیف کو اولاد کے سامنے اس لئے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اولاد اپنی ماں کی ان مہربانیوں کو یاد کرکے شکر گزاری اطاعت اور احسان کرے

جیسے اور آیت میں فرمان عالیشان ہے:

وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِى صَغِيرًا (۱۷:۲۴)

ہم سے دعا کرو اور کہو کہ میرے سچے پروردگار میرے ماں باپ پر اس طرح رحم وکرم فرما جس طرح میرے بچپن میں وہ مجھ پر رحم کیاکرتے تھے۔

یہاں فرمایا تاکہ تو میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مند ہو۔ سن لے آخر لوٹنا تو میری طرف ہے اگر میری اس بات کو مان لیا تو پھر بہترین جزا دونگا ۔

ابن ابی حاتم میں ہے:

 جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بناکر بھیجا آپ نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا :

میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا ہوں۔ یہ پیغام لے کر تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو میری باتیں مانتے رہو میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہ کرونگا۔ سب کو لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے ۔ پھر یا تو جنت مکان بنے گی یا جہنم ٹھکانا ہوگا۔ پھر وہاں سے نہ اخراج ہوگا نہ موت آئے گی ۔

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ

اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا،

ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہو

پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اسلام کے سوا اور دین قبول کرنے کو کہیں ۔ گو وہ تمام تر طاقت خرچ کر ڈالیں خبردار تم ان کی مان کر میرے ساتھ ہرگز شریک نہ کرنا۔

لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تم ان کیساتھ سلوک واحسان کرنا چھوڑ دو نہیں دنیوی حقوق جو تمہارے ذمہ انکے ہیں ادا کرتے رہو۔ ایسی باتیں ان کی نہ مانو بلکہ ان کی تابعداری کرو جو میری طرف رجوع ہوچکے ہیں

ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۱۵)

تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا۔‏

سن لو تم سب لوٹ کر ایک دن میرے سامنے آنے والے ہو اس دن میں تمہیں تمہارے تمام تر اعمال کی خبر دونگا۔

 طبرانی کی کتاب العشرہ میں ہے:

 حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا اور ان کا پورا اطاعت گزار تھا ۔ جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت کی تو میری والدہ مجھ پر بہت بگڑیں اور کہنے لگی بچے یہ نیا دین تو کہاں سے نکال لایا۔ سنو میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے دستبردار ہو جاؤ ورنہ میں نہ کھاؤنگی نہ پیؤنگی اور یونہی بھوکی مرجاؤنگی ۔

میں نے اسلام کو چھوڑا نہیں اور میری ماں نے کھانا پینا ترک کردیا اور ہر طرف سے مجھ پر آوارہ کشی ہونے لگی کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے۔ میں بہت ہی دل میں تنگ ہوا اپنی والدہ کی خدمت میں باربار عرض کیا خوشامدیں کیں سمجھایا کہ اللہ کے لئے اپنی ضد سے باز آجاؤ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اس سچے دین کو چھوڑ دوں ۔

 اسی ضد میں میری والدہ پر تین دن کا فاقہ گزرگیا اور اس کی حالت بہت ہی خراب ہوگئی تو میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا میری اچھی اماں جان سنو تم مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو لیکن میرے دین سے زیادہ عزیز نہیں۔ واللہ ایک نہیں تمہاری ایک سوجانیں بھی ہوں اور اسی بھوک پیاس میں ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں آخری لمحہ تک اپنے سچے دین اسلام کو نہ چھوڑونگا پر نہ چھوڑونگا ۔ اب میری ماں مایوس ہوگئیں اور کھانا پینا شرع کردیا۔

يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ

پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا

حضرت لقمان کی یہ اور وصیتیں ہیں اور چونکہ یہ سب حکمتوں سے پُر ہیں۔ قرآن انہیں بیان فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان پر عمل کریں۔

فرماتے ہیں کہ برائی خطا ظلم ہے چاہے رائی کے دانے کے برابر بھی ہو پھر وہ خواہ کتنا ہی پوشیدہ اور ڈھکا چھپا کیوں نہ ہو قیامت کے دن اللہ اسے پیش کرے گا میزان میں سب کو رکھا جائے گا اور بدلہ دیا جائے گا نیک کام پر جزا بد پر سزا

جیسے فرمان ہے:

وَنَضَعُ الْمَوَزِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَـمَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً  (۲۱:۴۷)

قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھ کر ہر ایک کو بدلہ دیں گے کوئی ظلم نہ کیا جائے گا۔

 اور آیت میں ہے:

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ ـ وَمَن يَعْـمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ (۹۹:۷،۸)

ذرے برابر نیکی اور ذرے برابر برائی ہر ایک دیکھ لے گا

بعض نے یہ بھی جائز رکھاہے کہ إِنَّهَا میں ضمیر شان کی اور قصہ کی ہے اور اس بناپر انہوں نے مِثْقَالَ کی لام کا پیش پڑھنابھی جائز رکھا ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ اچھی ہے۔

 بعض کہتے ہیں کہ صَخْرَةٍ سے مراد وہ پتھر ہے جو ساتویں آسمان اور زمین کے نیچے ہیں ۔

اس کی بعض سندیں بھی بنی اسرائیل سے ہیں اگر صحیح ثابت ہوجائیں۔ بعض صحابہ سے مروی تو ہے واللہ اعلم۔

 بہت ممکن ہے کہ یہ بھی بنی اسرائیل سے منقول ہو لیکن ان کی کتابوں کی کسی بات کو ہم نہ سچی مان سکیں نہ جھٹلاسکیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقدر رائی کے دانہ کے کوئی عمل حقیر ہو اور ایسا پوشیدہ ہو کہ کسی پتھر کے اندر ہو۔

 جیسے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اگر تم میں سے کوئی شخص کوئی علم کرے کسی بےسوراخ کے پتھر کے اندر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی ہو نہ سوراخ ہو تاہم اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کردے گا خواہ کچھ ہی عمل ہو نیک ہو یا بد ۔

إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (۱۶)

اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔‏

خواہ وہ نیکی یا بدی کسی مکان میں محل میں قلعہ میں پتھر کے سوراخ میں آسمانوں کے کونوں میں ، زمین کی تہہ میں ہو کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں وہ اسے لاکر پیش کرے گا وہ بڑے باریک علم والا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس پر ظاہر ہے اندھیری رات میں چیونٹی جو چل رہی ہو اس کے پاؤں کی آہٹ کا بھی وہ علم رکھتا ہے ۔

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ ۖ

اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا

پھر فرماتے ہیں

-  بیٹے نماز کا خیال رکھنا۔ اسکے فرائض اسکے واجبات ارکان اوقات وغیرہ کی پوری حفاظت کرنا۔ اپنی طاقت کے مطابق پوری کوشش کرنا

- ساتھ اللہ کی باتوں کی تبلیغ اپنوں پرایوں میں کرتے رہنا بھلی باتیں کرنے اور بری باتوں سے بچنے کے لئے ہر ایک سے کہنا

 اور چونکہ نیکی کا حکم یعنی بدی سے روکنا جو عموماً لوگوں کو کڑوی لگتی ہے۔ اور حق گو شخص سے لوگ دشمنی رکھتے ہیں اس لئے ساتھ ہی فرمایا کہ لوگوں سے جو ایذاء اور مصیبت پہنچے اس پر صبر کرنا

إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (۱۷)

 (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے

درحقیقت اللہ کی راہ میں ننگی شمشیر رہنا اور حق پر مصیبتیں جھیلتے ہوئے پست ہمت نہ ہونا یہ بڑا بھاری اور جوانمردی کا کام ہے۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ

لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اکڑ کر نہ چل

پھر فرماتے ہیں

-  اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑ انہیں حقیر سمجھ کریا اپنے تئیں بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر نہ کر۔

- بلکہ نرمی برت خوش خلقی سے پیش آ۔

-  خندہ پیشانی سے بات کر۔

حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان بھائی سے تو کشادہ پیشانی سے ہنس مکھ ہو کر ملے یہ بھی تیری بڑی نیکی ہے ۔

 تہبند اور پاجامے کو ٹخنے سے نیچا نہ کر یہ کبر غرور ہے اور اللہ کو ناپسند ہے۔

 حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر نہ کرنے کی وصیت کی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھ کر تو ان سے منہ موڑ لے اور مسکنیوں سے بات کرنے سے شرمائے۔ منہ موڑے ہوئے باتیں کرنا بھی غرور میں داخل ہے۔ باچھیں پھاڑ کر لہجہ بدل کر حاکمانہ انداز کے ساتھ گھمنڈ بھرے الفاظ سے بات چیت بھی ممنوع ہے۔

 صَعِّرْ ایک بیماری ہے جو اونٹوں کی گردن میں ظاہر ہوتی ہے یا سر میں اور اس سے گردن ٹیڑی ہوجاتی ہے ، پس متکبر شخص کو اسی ٹیڑھے منہ والے شخص سے ملادیا گیا۔

عرب عموما تکبر کے موقعہ پر صَعِّرْ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ استعمال ان کے شعروں میں بھی موجود ہے۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (۱۸)

کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔‏

زمین پر تن کر اکڑ کر اترا کر غرور وتکبر سے نہ چلو یہ چال اللہ کو ناپسند ہے۔

 اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند رکھتا ہے جو خود بین متکبر سرکش اور فخر وغرور کرنے والے ہوں

 اور آیت میں ہے:

وَلاَ تَمْشِ فِى الاٌّرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الاٌّرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً (۷:۳۷)

اکڑ کر زمین پر نہ چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو۔

 اس آیت کی تفسیر بھی اس کی جگہ گزر چکی ہے۔

حضور کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس کی بڑی مذمت فرمائی اور فرمایا کہ ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ غصہ ہوتا ہے اس پر ایک صحابی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جب کپڑے دھوتا ہوں اور خوب سفید ہوجاتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں میں ان سے خوش ہوتا ہوں ۔ اسی طرح جوتے میں تسمہ بھلالگتا ہے ۔ کوڑے کا خوبصورت غلاف بھلا معلوم ہوتا ہے

 آپ ﷺنے فرمایا:

 یہ تکبر نہیں ہے تکبر اس کا نام ہے کہ تو حق کو حقیر سمجھے اور لوگوں کو ذلیل خیال کرے

یہ روایت اور طریق سے بہت لمبی مروی ہے اور اس میں حضرت ثابت کے انتقال اور ان کی وصیت کا ذکر بھی ہے۔

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ

اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر

اور میانہ روی کی چال چلاکر نہ بہت آہستہ خراماں خراماں نہ بہت جلدی لمبے ڈک بھر بھر کے۔ کلام میں مبالغہ نہ کرے بےفائدہ چیخ چلا نہیں۔

إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (۱۹)

یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔‏

بدترین آواز گدھے کی ہے۔ جو پوری طاقت لگاکر بےسود چلاتا ہے۔ باوجودیکہ وہ بھی اللہ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر کرتا ہے۔

پس یہ بری مثال دے کر سمجھا دیا کہ بلاوجہ چیخنا ڈانٹ ڈپٹ کرنا حرام ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 بری مثالوں کے لائق ہم نہیں ۔ اپنی دے دی ہوئی چیز واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کرکے چاٹ لیتا ہے ۔

 نسائی میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جب مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرو۔ اس لئے کہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔

 ایک روایت میں ہے رات کو۔ واللہ اعلم ۔

 یہ وصیتیں حضرت لقمان حکیم کی نہایت ہی نفع بخش ہیں ۔ قرآن حکیم نے اسی لیے بیان فرمائی ہیں۔ آپ سے اور بھی بہت حکیمانہ قول اور وعظ ونصیحت کے کلمات مروی ہیں ۔ بطور نمونہ کے اور دستور کے ہم بھی تھوڑے سے بیان کرتے ہیں ۔

 مسند احمد میں بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت لقمان حکیم کا ایک قول یہ بھی مروی ہے :

 اللہ کو جب کوئی چیز سونپ دی جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے۔

 اور حدیث میں آپ کا یہ قول بھی مروی ہے:

 تصنع سے بچ یہ رات کے وقت ڈراؤنی چیز ہے اور دن کو مذمت وبرائی والی چیز ہے

 آپ نے اپنے بیٹے سے یہ بھی فرمایا تھا :

حکمت سے مسکین لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں۔

 آپ کا فرمان ہے:

 جب کسی مجلس میں پہنچو پہلے اسلامی طریق کے مطابق سلام کرو پھر مجلس کے ایک طرف بیٹھ جاؤ۔ دوسرے نہ بولیں تو تم بھی خاموش رہو۔ اگر وہ ذکر اللہ کریں تو تم ان میں سب سے پہلے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرو۔ اور اگر وہ گپ شپ کریں تو تم اس مجلس کو چھوڑ دو۔

 مروی ہے:

 آپ اپنے بچے کو نصیحت کرنے کے لئے جب بیٹھتے تو رائی کی بھری ہوئی ایک تھیلی اپنے پاس رکھ لی تھی اور ہر ہر نصیحت کے بعد ایک دانہ اس میں سے نکال لیتے یہاں تک کہ تھیلی خالی ہوگئی تو آپ نے فرمایا بچے اگر اتنی نصیحت کسی پہاڑ کو کرتا تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا چنانچہ آپ کے صاحبزادے کا بھی یہی حال ہوا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 حبشیوں کو رکھاکر ان میں سے تین شخص اہل جنت کے سردار ہیں لقمان حکیم نجاشی اور بلال مؤذن۔

تواضع اور فروتنی کا بیان:

 حضرت لقمان نے اپنے بچے کو اس کی وصیت کی تھی اور ابن ابی الدنیا نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ۔ ہم اس میں سے اہم باتیں یہاں ذکر کردیتے ہیں

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 بہت سے پراگندہ بالوں والے میلے کچیلے کپڑوں والے جو کسی بڑے گھر تک نہیں پہنچ سکتے اللہ کے ہاں اتنے بڑے مرتبہ والے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم لگا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی پوری فرمادے۔

 اور حدیث میں ہے براء بن مالک ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں رضی اللہ عنہ۔

 ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبر رسول کے پاس روتے دیکھ کر دریافت فرمایا تو جواب ملا کہ صاحب قبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث میں نے سنی ہے جسے یاد کرکے رورہا ہوں۔ میں نے آپ سے سنا فرماتے تھے :

تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے اللہ تعالیٰ انہیں دوست رکھتا ہے جو متقی ہیں جو لوگوں میں چھپے چھپائے ہیں جو کسی گنتی میں نہیں آتے اگر وہ کسی مجمع میں نہ ہوں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں اگر آجائیں تو کوئی آؤ بھگت نہیں لیکن ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر ایک غبار آلود اندھیرے سے بچ کرنور حاصل کرلیتے ہیں۔

حضور ﷺفرماتے ہیں:

 یہ میلے کچیلے کپڑوں والے جوذلیل گنے جاتے ہیں اللہ کے ہاں ایسے مقرب ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کردے گو انہیں اللہ نے دنیا نہیں دی لیکن ان کی زبان سے پوری جنت کا سوال بھی نکل جائے تو اللہ پورا کرلیتا ہے۔

 آپﷺ فرماتے ہیں :

میری اُمت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر آکر وہ لوگ ایک دینار ایک درہم بلکہ ایک فلوس بھی مانگیں تو تم نہ دو لیکن اللہ کے ہاں وہ ایسے پیارے ہیں کہ اگر اللہ سے جنت کی جنت مانگیں تو پروردگار دے دے

 ہاں دنیا نہ تو انہیں دیتا ہے نہ روکتا ہے اس لئے کہ یہ کوئی قابل قدر چیز نہیں۔ یہ میلی کچیلی دو چادروں میں رہتے ہیں اگر کسی موقعہ پر قسم کھا بیٹھیں تو جو قسم انہوں نے کھائی ہو اللہ پوری کرتا ہے۔

حضور ﷺفرماتے ہیں:

 جنت کے بادشاہ وہ لوگ ہیں جو پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والے ہیں غبار آلود اور گرد سے اٹے ہوئے وہ امیروں کے گھر جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہیں ملتی اگر کسی بڑے گھرانے میں نکاح کی مانگ کر ڈالیں تو وہاں کی بیٹی نہیں ملتی ۔ ان مسکینوں سے انصاف کے برتاؤ نہیں برتے جاتے ۔ ان کی حاجتیں اور ان کی امنگیں اور مرادیں پوری ہونے سے پہلے ہی خود ہی فوت ہوجاتی ہے اور آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں انہیں قیامت کے دن اس قدر نور ملے گا کہ اگر وہ تقسیم کیا جائے تو تمام دنیا کے لئے کافی ہوجائے۔

 حضرت عبداللہ بن مبارک کے شعروں میں ہے :

 بہت سے وہ لوگ جو دنیا میں حقیر وذلیل سمجھے جاتے ہیں کل قیامت کے دن تخت وتاراج والے ملک ومنال والے عزت وجلال والے بنے ہوئے ہونگے ۔

باغات میں نہروں میں نعمتوں میں راحتوں میں مشغول ہونگے ۔

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جناب باری کا ارشاد ہے:

 سب سے زیادہ میرا پسندیدہ ولی وہ ہے جو مؤمن ہو کم مال والا کم عیال والا غازی عبادت واطاعت گزار پوشیدہ واعلانیہ مطیع ہو لوگوں میں اس کی عزت اور اس کا وقار نہ ہو اس کی جانب انگلیاں اٹھتی ہوں اور وہ اس پر صابر ہو

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جھاڑ کر فرمایا:

 اس کی موت جلدی آجاتی ہے اس کی میراث بہت کم ہوتی ہے اس کی رونے والیاں تھوڑی ہوتی ہیں۔

 فرماتے ہیں:

 اللہ کے سب سے زیادہ محبوب بندے غرباء جو اپنے دین کو لئے پھرتے ہیں جہاں دین کے کمزور ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہاں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں یہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیساتھ جمع ہونگے ۔

حضرت فضیل بن عیاض کا قول ہے:

 مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے سے فرمائے گا کیا میں نے تجھ پر انعام واکرام نہیں فرمایا؟

کیا میں نے تجھے دیا نہیں؟

کیا میں نے تیرا جسم نہیں ڈھانپا؟

کیا میں نے تمہیں یہ نہیں دیا ؟

 کیا وہ نہیں دیا؟

کیا لوگوں میں تجھے عزت نہیں دی تھی ؟

تو جہاں تک ہوسکے ان سوالوں کے جواب دینے کا موقعہ کم ملے اچھا ہے ۔ لوگوں کی تعریفوں سے کیا فائدہ اور مذمت کریں تو کیا نقصان ہوگا۔ ہمارے نزدیک تو وہ شخص زیادہ اچھا ہے جسے لوگ برا کہتے ہوں اور وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو ۔

 ابن محیریز تو دعا کرتے تھے کہ اللہ میری شہرت نہ ہو۔

خلیل بن احمد اپنی دعا میں کہتے تھے:

 اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں تو بلندی عطا فرما اور خود میری نظر میں مجھے بہت حقیر کردے اور لوگوں کی نگاہوں میں مجھے درمیانہ درجہ کا رکھ

پھر شہرت کا باب باندھ کر امام صاحب اس حدیث کو لائے ہیں:

 انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ لوگ اس کی دینداری یادنیاداری کی شہرت دینے لگیں اور اس کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں اشارے ہونے لگیں۔ پس اسی میں آکر بہت سے لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں مگر جنہیں اللہ بچالے ۔ سنو اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمالوں کو دیکھتا ہے۔

حضرت حسن سے بھی یہی روایت مرسلاً مروی ہے

 جب آپ نے یہ روایت بیان کی تو کسی نے کہا آپ کی طرف بھی انگلیاں اٹھتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا سمجھے نہیں مراد انگلیاں اٹھنے سے دینی بدعت یادنیوی فسق وفجور ہے۔

 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے:

-  شہرت حاصل کرنا نہ چاہو۔

-  اپنے تئیں اونچا نہ کرو کہ لوگوں میں تذکرے ہونے لگیں

- علم حاصل کرو لیکن چھپاؤ

-  چپ رہو تاکہ سلامت رہو

-  نیکوں کو خوش رکھو بدکاروں سے تصرف رکھو۔

حضرت ابراہیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ شہرت کا چاہنے والا اللہ کا ولی نہیں ہوتا۔

حضرت ایوب کا فرمان ہے جسے اللہ دوست بنالیتا ہے وہ تو لوگوں سے اپنا درجہ چھپاتا ہے۔

محمد بن علا فرماتے ہیں اللہ کے دوست لوگ اپنے تئیں ظاہر نہیں کرتے۔

سماک بن سلمہ کا قول ہے عام لوگوں کے میل جول سے اور احباب کی زیادتی سے پرہیز کرو۔

 حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں اگر دین کو سالم رکھنا چاہتے ہو تو لوگوں سے کم جان پہچان رکھو۔

حضرت ابوالعالیہ کا قاعدہ تھا جب دیکھتے کہ انکی مجلس میں تین سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے تو انہیں چھوڑ کر خود چل دیتے۔

حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوڑا تانا اور فرمایا اس میں تابع کے لیے ذلت اور متبوع کے لئے فتنہ ہے۔

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جب لوگ چلنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم پر میرا باطن ظاہر ہوجائے تو تم میں سے دو بھی میرے ساتھ چلنا پسند نہ کریں۔

 حماد بن زید کہتے ہیں جب ہم کسی مجلس کے پاس سے گزرتے اور ہمارے ساتھ ایوب ہوتے تو سلام کرتے اور وہ سختی سے جواب دیتے ۔ پس یہ ایک نعمت تھی۔ آپ لمبی قمیض پہنتے اس پر لوگوں نے کہا تو آپ نے جواب دیا کہ اگلے زمانے میں شہرت کی چیز تھی۔ لیکن یہ شہرت اس کو اونچا کرنے میں ہے ۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ٹوپیاں مسنون رنگ کی رنگوائی اور کچھ دنوں تک پہن کر اتاردی اور فرمایا میں نے دیکھا کہ لوگ انہیں نہیں پہنتے۔

حضرت ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ نہ تو ایسا لباس پہنو کہ لوگوں کی انگلیاں اٹھیں نہ اتنا گھٹیا پہنو کہ لوگ حقارت سے دیکھیں۔

 ثوری فرماتے ہیں عام سلف کا یہی معمول تھا کہ نہ بہت بڑھیا کپڑا پہنتے تھے نہ بالکل گھٹیا ۔

 ابوقلابہ کے پاس ایک شخص بہت سی بہترین اور شہرت کا لباس پہنے ہوئے آیا تو آپ نے فرمایا اس آواز دینے والے گدھے سے بچو۔

حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے دلوں میں تو تکبر بھر رکھاہے اور ظاہر لباس میں تواضع کر رکھی ہے گویا چادر ایک بھاری ہتھوڑا ہے۔

 حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے کہ آپ نے بنی اسرائیل سے فرمایا میرے سامنے تو درویشوں کی پوشاک میں آئے حالانکہ تمہارے دل بھیڑیوں جیسے ہیں۔ سنولباس چاہے بادشاہوں جیسا پہنو مگر دل خوف اللہ سے نرم رکھو۔

اچھے اخلاق کا بیان

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر اخلاق والے تھے۔

 آپ سے سوال ہوا کہ کونسامؤمن بہتر ہے فرمایا سب سے اچھے اخلاق والا۔

 آپ کا فرمان ہے:

 باوجود کم اعمال کے صرف اچھے اخلاق کیوجہ سے انسان بڑے بڑے درجے اور جنت کے اعلی منازل حاصل کرلیتا ہے۔ اور باوجود بہت ساری نیکیوں کے صرف اخلاق کی برائی کی وجہ سے جہنم کے نیچے کے طبقے میں چلا جاتا ہے۔

 فرماتے ہیں:

 اچھے اخلاق ہی میں دنیا آخرت کی بھلائی ہے۔

 فرماتے ہیں:

 انسان اپنی خوش اخلاقی کے باعث راتوں کو قیام کرنے والے اور دنوں کو روزے رکھنے والوں کے درجوں کو پالیتا ہے۔

حضور ﷺسے سوال ہو کہ دخول جنت کا موجب عام طور سے کیا ہے؟

 فرمایا اللہ کا ڈر اور اخلاق کی اچھائی۔

 پوچھا گیا عام طور سے جہنم میں کونسی چیز لے جاتی ہے؟

 فرمایا دو سوراخ دار چیزیں یعنی منہ اور شرمگاہ ۔

 ایک مرتبہ چند اعراب کے اس سوال پر کہ انسان کو سب سے بہتر عطیہ کیا ملا ہے؟

 فرمایا کہ حسن اخلاق ۔

فرمایا:

 نیکی کی ترازو میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی چیز اور کوئی نہیں۔

 فرماتے ہیں:

 تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو۔

 فرماتے ہیں:

 جس طرح مجاہد کو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے صبح شام اجر ملتا ہے اسی طرح اچھے اخلاق پر بھی اللہ ثواب عطا فرماتا ہے ۔

 ارشاد ہے:

- تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو۔

- میرے نزدیک سب سے زیادہ بغض ونفرت کے قابل

-  اور مجھ سے سب سے دور جنت میں وہ ہوگا جو بد خلق بدگو بدکلام بدزبان ہوگا۔

 فرماتے ہیں:

 کامل ایماندار اچھے اخلاق والے ہیں جو ہر ایک سے سلوک ومحبت سے ملیں جلیں۔

 ارشاد ہے:

 دو خصلیتں مؤمن میں جمع نہیں ہوسکتی بخل اور بداخلاقی۔

 فرماتے ہیں:

 بدخلقی سے زیادہ بڑا کوئی گناہ نہیں۔ اس لئے کہ بداخلاقی سے ایک سے ایک بڑے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

 حضورﷺ کا ارشاد ہے:

 اللہ کے نزدیک بد اخلاقی سے بڑا کوئی گناہ نہیں ۔ اچھے اخلاق سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ بداخلاقیاں نیک اعمالوں کو غارت کردیتی ہیں۔ جیسے شہد کو سرکہ خراب کردیتا ہے۔

 حضور ﷺفرماتے ہیں

غلام خرید نے سے غلام نہیں بڑھتے البتہ خوش اخلاقی سے لوگ گرویدہ ہوجاتے ہیں ۔

 امام محمد بن سیریں کا قول ہے کہ اچھا خلق دین کی مدد ہے۔

تکبر کی مذمت کا بیان

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

 وہ جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو۔ اور وہ جہنمی نہیں جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو۔

 فرماتے ہیں:

جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر تکبر ہے وہ اوندھے منہ جہنم میں جائیں گے۔

 ارشاد ہے:

 انسان اپنے غرور اور خود پسندی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کے ہاں جباروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر سرکشوں کے عذاب میں پھنس جاتا ہے ۔

 امام مالک بن دینار رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

 ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے تخت پر بیٹے تھے آپ کے دربار میں اس وقت دو لاکھ انسان اور دو لاکھ جن تھے آپ کو آسمان تک پہنچایا گیایہاں تک کہ فرشتوں کی تسبیح کی آواز کان میں آنے لگی۔ اور پھر زمین تک لایا گیا یہاں تک کہ سمندر کے پانی سے آپکے قدم بھیگ گئے ۔ پھر ہاتف غیب نے ندادی کہ اگر اس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوتا تو جتنا اونچا گیا تھا اس سے زیادہ نیچے دھنسادیا جاتا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں انسان کی ابتدائی پیدائش کا بیان فرماتے ہوئے فرمایا :

 یہ دو شخصوں کی پیشاب گاہ سے نکلتا ہے۔ اس طرح اسے بیان فرمایا کہ سننے والے کراہت کرنے لگے۔

 امام شعبی کا قول ہے:

 جس نے دو شخصوں کو قتل کردیا وہ بڑا ہی سرکش اور جبار ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:

أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ ۖ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ (۲۸:۱۹)

کیا تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے ؟ جیسے کہ تونے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے۔ تیرا ارادہ تو دنیا میں سرکش اور جبار بن کر رہنے کا معلوم ہوتا ہے۔

حضرت حسن کا مقولہ ہے:

وہ انسان جو ہر دن میں دو مرتبہ اپنا پاخانہ اپنے ہاتھ سے دھوتا ہے وہ کس بناپر تکبر کرتا ہے اور اس کا وصف اپنے میں پیدا کرنا چاہتا ہے جس نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور اپنے قبضے میں رکھا۔

 ضحاک بن سفیان سے دنیا کی مثال اس چیز سے بھی مروی ہے جو انسان سے نکلتی ہے ۔

 امام محمد بن حسین بن علی فرماتے ہیں جس دل میں جتنا تکبر اور گھمنڈ ہوتا ہے اتنی ہی عقل اسکی کم ہوجاتی ہے ۔

 یونس بن عبید فرماتے ہیں کہ سجدہ کرنے کے ساتھ تکبر اور توحید کیساتھ نفاق نہیں ہواکرتا۔

بنی امیہ مارمار کر اپنی اولاد کو اکڑا کر چلنا سکھاتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو آپ کی خلافت سے پہلے ایک مرتبہ اٹھلاتی ہوئی چال چلتے ہوئے دیکھ کر حضرت طاؤس نے انکے پہلو میں ایک ٹھونکا مارا اور فرمایا یہ چال اس کی جس کے پیٹ میں پاخانہ بھرا ہوا ہے؟

حضرت عمر بن عبدالعزیز بہت شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے معاف فرمائیے ہمیں مارمار کر اس چال کی عادت ڈلوائی گئی ہے۔

فخر و گھمنڈ کی مذمت کا بیان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو شخص فخروغرور سے اپنا کپڑا نیچے لٹکا کر گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکی طرف رحمت سے نہ دیکھے گا ۔

 فرماتے ہیں:

 اسکی طرف اللہ قیامت کے دن نظر نہ ڈالے گا جو اپنا تہبند لٹکائے ۔

 ایک شخص دو عمدہ چادریں اوڑھے دل میں غرور لئے اکڑتا ہوا جارہار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسادیا قیامت تک وہ دھنستا ہوا چلاجائے گا۔

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کا اظہار فرما رہا ہے کہ دیکھو آسمان کے ستارے تمہارے لئے کام میں مشغول ہیں چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں بادل بارش اولے خنکی سب تمہارے نفع کی چیزیں ہیں خود آسمان تمہارے لئے محفوظ اور مضبوط چھت ہے۔ زمین کی نہریں چشمے دریا سمندر درخت کھیتی پھل یہ سب نعمتیں بھی اسی نے دے رکھی ہیں ۔

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ

اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں

پھر ان ظاہری بیشمار نعمتوں کے علاوہ باطنی بیشمار نعمتیں بھی اسی نے تمہیں دے رکھی ہیں مثلاً رسولوں کا بھیجنا کتابوں کانازل فرمانا شک وشبہ وغیرہ دلوں سے دور کرنا وغیرہ ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ (۲۰)

بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں ۔

اتنی بڑی اور اتنی ساری نعمتیں جس نے دے رکھی ہیں حق یہ تھا کہ اس کی ذات پر سب کے سب ایمان لاتے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ اب تک اللہ کے بارے میں یعنی اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی رسالت کے بارے میں الجھ رہے ہیں اور محض جہالت سے ضلالت سے بغیر کسی سند اور دلیل کے اڑے ہوئے ہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کروتو کہتے ہیں کہ ہم نے تو جس طریق پر اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اسی کی تابعداری کریں گے،

أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ (۲۱)

 اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔‏

جب ان سے کہاجاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کرو تو بڑی بےحیائی سے جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے اگلوں کی تقلید کریں گے گو ان کے باپ دادے محض بےعقل اور بےراہ شیطان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے اور اس نے انہیں دوزخ کی راہ پر ڈال دیا تھا یہ تھے ان کے سلف اور یہ ہیں ان کے خلف۔

وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى ۗ

اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دے اور ہو بھی نیکوکار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا

فرماتا ہے کہ جو اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرے جو اللہ کا سچافرمانبردار بن جائے جو شریعت کا تابعدار ہوجائے اللہ کے حکموں پر عمل کرے اللہ کے منع کردہ کاموں سے باز آجائے اس نے مضبوط دستاویز حاصل کرلی گویا اللہ کا وعدہ لے لیا کہ عذابوں میں وہ نجات یافتہ ہے ۔

وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (۲۲)

تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔‏

 کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہے ۔

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهُ ۚ

کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں

اے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے کفر سے آپ غمگین نہ ہوں۔

إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (۲۳)

آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا، بیشک اللہ سینوں کے بھید تک سے واقف ہے۔‏

اللہ کی تحریر یونہی جاری ہوچکی ہے سب کالوٹنا اللہ کی طرف ہے ۔ اس وقت اعمال کے بدلے ملیں گے اس اللہ پر کوئی بات پوشیدہ نہیں۔

نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ (۲۴)

ہم انہیں گو کچھ یونہی فائدہ دے دیں لیکن (بالآخر) ہم انہیں نہایت بیچارگی کی حالت میں سخت عذاب کی طرف ہنکالے جائیں گے

 دنیا میں مزے کرلیں پھر تو ان عذابوں کو بےبسی سے برداشت کرنا پڑے گا جو بہت سخت اور نہایت گھبراہٹ والے ہیں

جیسے اور آیت میں ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ

اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے فلاح سے محروم رہ جاتے ہیں۔

مَتَـعٌ فِى الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ (۱۰:۶۹،۷۰)

دنیا کا فائدہ تو خیر الگ چیز ہے لیکن ہمارے ہاں (موت کے بعد) آنے کے بعد تو اپنے کفر کی سخت سزا بھگتنی پڑے گی۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ

اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے؟ تو ضرور جواب دیں گے کہ اللہ

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہ مشرک اس بات کو مانتے ہوئے سب کا خالق اکیلا اللہ ہی ہے پھر بھی دوسروں کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ انکی نسبت خود جانتے ہیں کہ یہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور اس کے ماتحت ہیں۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ خالق کون ہے؟

 تو انکا جواب بالکل سچا ہوتا ہے کہ اللہ !

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۲۵)

تو کہہ دیجئے کہ سب تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں۔‏

تو کہہ کہ اللہ کا شکر ہے اتنا تو تمہیں اقرار ہے ۔ بات یہ ہے کہ اکثر مشرک بےعلم ہوتے ہیں۔

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ

آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے

زمین وآسمان کی ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز اللہ کی پیدا کردہ اور اسی کی ملکیت ہے

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (۲۶)

یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بڑا بےنیاز اور سزاوار حمد ثنا ہے

وہ سب سے بےنیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں وہی سزاوار حمد ہے وہی خوبیوں والا ہے۔ پیدا کرنے میں بھی احکام مقرر کرنے میں بھی وہی قابل تعریف ہے۔

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ

روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہوجائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں

 تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے

اللہ رب العالمین اپنی عزت کبریائی بڑائی جلالت اور شان بیان فرما رہا ہے اپنی پاک صفتیں اپنے بلند ترین نام اور اپنے بیشمار کلمات کا ذکر فرما رہا ہے جنہیں نہ کوئی گن سکے نہ شمار کرسکے نہ ان پر کسی کا احاطہ ہو نہ ان کی حقیقت کو کوئی پاسکے۔

سید البشر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :

لا احصی ثناء علیک کما اثنیت علی نفسک

اے اللہ میں تیری تعریفوں کا اتنا شمار بھی نہیں کرسکتاجتنی ثناء تونے اپنے آپ فرمائی ہے۔

 پس یہاں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ اگر روئے زمین کے تمام تر درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر کے پانی سیاہی بن جائیں اور ان کیساتھ ہی سات سمندر اور بھی ملالئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت وصفات جلالت وبزرگی کے کلمات لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ تمام قلمیں گھس جائیں ختم ہوجائیں سب سیاہیاں پوری ہوجائیں ختم ہوجائیں لیکن اللہ وحدہ لاشریک لہ کی تعریفیں ختم نہ ہوں۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر ہوں تو پھر اللہ کے پورے کلمات لکھنے کے لئے کافی ہوجائیں۔ نہیں یہ گنتی تو زیادتی دکھانے کے لئے ہے۔ اور یہ بھی نہ سمجھاجائے کہ سات سمندر موجود ہیں اور وہ عالم کو گھیرے ہوئے ہیں البتہ بنواسرائیل کی ان سات سمندروں کی بات ایسی روایتیں ہیں لیکن نہ تو انہیں سچ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جاسکتا ہے۔

 ہاں جو تفسیر ہم نے کی ہے اسکی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے :

لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّكَلِمَـتِ رَبِّى لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَـتُ رَبِّى وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَداً (۱۸:۱۰۹)

 اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور رب کے کلمات کا لکھنا شروع ہو تو کلمات اللہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی سمندر ختم ہوجائیں اگرچہ ایسا ہی اور سمندر اسکی مدد میں لائیں۔

پس یہاں بھی مراد صرف اسی جیسا ایک ہی سمندر لانا نہیں بلکہ ویسا ایک پھر ایک اور بھی ویسا ہی پھر ویسا ہی پھر ویساہی الغرض خواہ کتنے ہی آجائیں لیکن اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوسکتی ۔

حسن بصری فرماتے ہیں:

 اگر اللہ تعالیٰ لکھوانا شروع کرے کہ میرا یہ امر اور یہ امر تو تمام قلمیں ٹوٹ جائیں اور تمام سمندروں کے پانی ختم ہوجائیں ۔

 مشرکین کہتے تھے کہ یہ کلام اب ختم ہوجائے گا جس کی تردید اس آیت میں ہورہی ہے کہ نہ رب کے عجائبات ختم ہوں نہ اس کی حکمت کی انتہا نہ اس کی صفت اور اس کے علم کا آخر۔

 تمام بندوں کے علم اللہ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ ۔ اللہ کی باتیں فنا نہیں ہوتیں نہ اسے کوئی ادراک کرسکتا ہے ۔ ہم جو کچھ اس کی تعریفیں کریں وہ ان سے سوا ہے۔

یہود کے علماء نے مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ یہ جو آپ قرآن میں پڑھتے ہیں آیت وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا  (۱۷:۸۵)  یعنی تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ہم یا آپ کی قوم ؟

 آپ نے فرمایا ہاں سب ۔

 انہوں نے کہا پھر آپ کلام اللہ شریف کی اس آیت کو کیا کریں گے جہاں فرمان ہے کہ توراۃ میں ہرچیز کا بیان ہے۔

 آپ نے فرمایا سنو وہ اور تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کے کلمات کے مقابلہ میں بہت کم ہے تمہیں کفایت ہو اتنا اللہ تعالیٰ نے نازل فرمادیاہے۔

 اس پر آیت اتری ۔ لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہونی چاہئے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے۔ واللہ اعلم ۔

إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۷)

بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے۔‏

اللہ تعالیٰ ہرچیز پر غالب ہے تمام اشیاء اس کے سامنے پست وعاجز ہیں کوئی اس کے ارادے کے خلاف نہیں جاسکتا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا اس کی منشاء کو کوئی بدل نہیں سکتا ۔ وہ اپنے افعال اقوال شریعت حکمت اور تمام صفتوں میں سب سے اعلی غالب وقہار ہے ۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ

تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک جی کا،

پھر فرماتا ہے تمام لوگوں کا پیدا کرنا اور انہیں مار ڈالنے کے بعد زندہ کر دینا مجھ پر ایساہی آسان ہے جیسے کہ ایک شخص کو مارنا اور پیدا کرنا۔ اس کا تو کسی بات کو حکم فرمادینا کافی ہے ۔ ایک آنکھ جھپکانے جتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔ نہ دوبارہ کہنا پڑے نہ اسباب اور مادے کی ضرورت۔ ایک فرمان میں قیامت قائم ہوجائے گی ایک ہی آواز کیساتھ سب جی اٹھیں گے۔

إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (۲۸)

بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‏

اللہ تعالیٰ تمام باتوں کا سننے والا ہے سب کے کاموں کا جاننے والا ہے۔ ایک شخص کی باتیں اور اس کے کام جیسے اس پر مخفی نہیں اسی طرح تمام جہان کے معاملات اس سے پوشیدہ نہیں۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے

رات کو کچھ گھٹا کر دن کو کچھ بڑھانے والا اور دن کو کچھ گھٹاکر رات کو کچھ بڑھانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جاڑوں کے دن چھوٹے اور راتیں بڑی گرمیوں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی اسی کی قدرت کا ظہور ہے

وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى

سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے

 سورج چاند اسی کے تحت فرمان ہیں۔ جو جگہ مقرر ہے وہیں چلتے ہیں قیامت تک برابر اسی چال چلتے رہیں گے اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔

بخاری ومسلم میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟

 جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ،

 آپﷺ نے فرمایا یہ جاکر اللہ کے عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑتا ہے اور اپنے رب سے اجازت چاہتا ہے قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ سورج بمنزلہ ساقیہ کے ہے دن کو اپنے دوران میں جاری رہتا ہے غروب ہو کر رات کو پھر زمین کے نیچے گردش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اپنی مشرق سے ہی طلوع ہوتا ہے۔ اسی طرح چاند بھی۔

وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (۲۹)

اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے۔‏

اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہےجیسے فرمان ہے:

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَآءِ وَالاٌّرْضِ (۲۲:۷۰)

کیا تو نہیں جانتا کہ زمین آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کے علم میں ہے

سب کا خالق سب کا عالم اللہ ہی ہے جیسے ارشاد ہے:

اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ مِثْلَهُنَّ (۶۵:۱۲)

اللہ نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کے مثال زمینیں بنائیں۔

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الْبَاطِلُ

یہ سب (انتظامات) اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں

یہ نشانیاں پروردگار عالم اس لئے ظاہر فرماتا ہے کہ تم ان سے اللہ کے حق وجود پر ایمان لاؤ اور اسکے سوا سب کو باطل مانو۔ وہ سب سے بےنیاز اور بےپرواہ ہے سب کے سب اس کے محتاج اور اس کے در کے فقیر ہیں۔ سب اس کی مخلوق اور اس کے غلام ہیں۔ کسی کو ایک ذرے کے حرکت میں لانے کی قدرت نہیں۔ گو ساری مخلوق مل کر ارادہ کرلے کہ ایک مکھی پیدا کریں سب عاجز آجائیں گے اور ہرگز اتنی قدرت بھی نہ پائیں گے۔

وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (۳۰)

اور یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بلندیوں والا اور بڑی شان والا ہے

وہ سب سے بلند ہے جس پر کوئی چیز نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ہے جس کے سامنے کسی کو کوئی بڑائی نہیں ۔ ہرچیز اس کے سامنے حقیر اور پست ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُمْ مِنْ آيَاتِهِ ۚ

کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے،

اللہ کے حکم سے سمندروں میں جہاز رانی ہو رہی ہے اگر وہ پانی میں کشتی کو تھامنے کی اور کشتی میں پانی کو کاٹنے کی قوت نہ رکھتا تو پانی میں کشتیاں کیسے چلتیں؟

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (۳۱)

یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

 وہ تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھارہاہے مصیبت میں صبر اور راحت میں شکر کرنے والے ان سے بہت کچھ عبرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

اور جب سمندر پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں

جب ان کفار کو سمندروں میں موجیں گھیر لیتی ہیں اور ان کی کشتی ڈگمگانے لگتی ہیں اور موجیں پہاڑوں کی طرح ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر کشتیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتی ہیں تو اپنا شرک کفر سب بھول جاتے ہیں اور گریہ وزاری سے ایک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں

جیسے اور جگہ ہے:

وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ (۱۷:۶۷)

دریا میں جب تمہیں ضرر پہنچتا ہے تو بجز اللہ کے سب کو کھو بیٹھتے ہو۔

 اور آیت میں ہے:

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (۲۹:۶۵)

پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے

فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ ۚ

پھر جب وہ (باری تعالیٰ) انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں

ان کی اس وقت کی لجاجت پر اگر ہمیں رحم آگیا ہو اور جب انہیں سمندر سے پار کردیا تو تھوڑے سے کافر ہوجاتے ہیں۔

 مجاہد نے یہی تفیسر کی ہے جیسے فرمان ہے:

فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (۲۹:۶۵)

پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں

لفظی معنی یہ ہیں کہ ان میں سے بعض متوسط درجے کے ہوتے ہیں

 ابن زید یہی کہتے ہیں جیسے فرمان ہے:

فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ (۳۵:۳۲)

پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعضے ان میں متوسط درجے کے ہیں

 اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ جس نے ایسی حالت دیکھی ہو جو اس مصیبت سے نکلا ہو اسے تو چاہے کہ نیکیوں میں پوری طرح کوشش کرے لیکن تاہم یہ بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں اور کچھ تو پھر کفر پر چلے جاتے ہیں۔

وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ (۳۲)

اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں۔

 خَتَّارٍ کہتے ہیں غدار کو جو عہد شکن ہو۔ ختر کے معنی پوری عہد شکنی کے ہیں۔

 كَفُورٍ کہتے ہیں منکر کو جو نعمتوں سے نٹ جائے منکر ہوجائے شکر تو ایک طرف بھول جائے اور ذکر بھی نہ کرے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ

لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جسدن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا

اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرا رہا ہے اور اپنے تقوے کا حکم فرما رہا ہے ۔

 ارشاد ہے اس دن باپ اپنے بچے کو یا بچہ اپنے باپ کو کچھ کام نہ آئے گا ایک دوسرے کا فدیہ نہ ہوسکے گا۔

إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ

 (یاد رکھو) اللہ کا وعدہ سچا ہے

فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (۳۳)

 (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔‏

تم دنیا پر اعتماد کرنے والو آخرت کو فراموش نہ کر جاؤ شیطان کے فریب میں نہ آجاؤ وہ تو صرف پردہ کی آڑ میں شکار کھیلنا جانتا ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضرت عزیر علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی تکلیف ملاحظہ کی اور غم ورنج بہت بڑھ گیا نیند اچاٹ ہوگئی تو اپنے رب کی طرف جھکے۔ فرماتے ہیں میں نے نہایت تضرع وزاری کی ، خوب رویا گڑگڑایا نمازیں پڑھیں روزے رکھے دعائیں مانگیں۔ ایک مرتبہ رو رو کر تضرع کر رہا تھا کہ میرے سامنے ایک فرشتہ آگیا میں نے اس سے پوچھا کیا نیک لوگ بروں کی شفاعت کریں گے؟

یاباپ بیٹوں کے کام آئیں گے ؟

 اس نے فرمایا کہ قیامت کا دن جھگڑوں کے فیصلوں کا دن ہے اس دن اللہ خود سامنے ہوگا کوئی بغیر اس کی اجازت کے لب نہ ہلاسکے گا کسی کو دوسرے کے بدلے نہ پکڑا جائے گا نہ باپ بیٹے کے بدلے نہ بیٹا باپ کے بدلے نہ بھائی بھائی کے بدلے نہ غلام آقا کے بدلے نہ کوئی کسی کا غم ورنج کرے گا نہ کسی کی طرف سے کسی کو خیال ہوگا نہ کسی پر رحم کرے گا نہ کسی کو کسی سے شفقت ومحبت ہوگی۔ نہ ایک دوسرے کی طرف پکڑا جائے گا ۔ ہر شخص نفسانفسی میں ہوگا ہر ایک اپنی فکر میں ہوگا ہر ایک کو اپنا رونا پڑا ہوگا ہر ایک اپنابوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا کسی اور کا نہیں۔

غیب کی پانچ باتیں

یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ۔ مگر اس کے بعد کہ اللہ اسے علم عطافرمائے ۔

إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ

بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے

 قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانے نہ کوئی مقرب فرشتہ، اس کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے

 اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور جسے اللہ معلوم کرائے۔

 اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے؟

 اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ نر ہوگا یا مادہ لڑکا ہوگا یا لڑکی نیک ہوگا یا بد ؟

وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ

کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا

اسی طرح کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کل وہ کیاکرے گا؟

 نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کہاں مرے گا؟

 اور آیت میں ہے:

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَآ إِلاَّ هُوَ (۶:۵۹)

غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں جنہیں بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا

 اور حدیث میں ہے:

 غیب کی کنجیاں یہاں پانچ چیزیں ہیں جن کا بیان آیت إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ میں ہے

 مسند احمد میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ باتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

 بخاری کی حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ یہ پانچ غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

 مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تجھے ہرچیز کی کنجیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے پھر یہی آیت آپ نے پڑھی ۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 حضورﷺ ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے اور پوچھنے لگے ایمان کیاچیز ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ کو فرشتوں کو کتابوں کو رسولوں کو آخرت کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کو مان لینا۔

 اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟

فرمایا ایک اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا نمازیں پڑھنازکوٰۃ دینا رمضان کے روزے رکھنا۔

 اس نے دریافت کیا احسان کیا ہے؟

فرمایا تیرا اس طرح اللہ کی عبادت کرنا کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہاہے۔

 اس نے کہا حضور قیامت کب ہے

فرمایا اس کا علم نہ مجھے ہے اور نہ تجھے ہے ہاں اس کی کچھ نشانیاں میں تمہیں بتادیتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنے میاں کو جنے اور جب ننگے پیروں اور ننگے بدنوں والے لوگوں کے سردار بن جائیں ۔ علم قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا

 پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

وہ شخص واپس چلا گیا

 آپ ﷺنے فرمایا جاؤ اسے لوٹا لاؤ

 لوگ دوڑ پڑے لیکن وہ کہیں بھی نظر نہ آیا ۔

 آپ ﷺنے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے (بخاری)

 مسند احمد میں ہے کہ جبرائیل نے اپنی ہتھیلیاں حضور کے گھٹنوں پر رکھ کر یہ سوالات کیے تھے ۔

 ایک صحیح سند کے ساتھ مسند احمد میں مروی ہے :

 بنو عامر قبیلے کا ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا میں آؤں؟

 آپ ﷺنے اپنے خادم کو بھیجا کہ جا کر انہیں ادب سکھاؤ یہ اجازت مانگنا نہیں جانتے ۔ ان سے کہو پہلے سلام کرو پھر دریافت کرو کہ میں آسکتا ہوں ؟

انہوں نے سن لیا اور اسی طرح سلام کیا اور اجازت چاہی

 یہ گئے اور جاکر کہا آپ ہمارے لیے کیا لے کر آئے ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا بھلائی ہی بھلائی۔ سنو تم ایک اللہ کی عبادت کرو لات وعزیٰ کو چھوڑ دو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاکرو سال بھر میں ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے اپنے فقیروں پر تقسیم کرو۔

 انہوں نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا علم میں سے کچھ ایساباقی ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں۔

 آپﷺ نے فرمایا ہاں ایساعلم بھی ہے جسے بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔

 مجاہد فرماتے ہیں:

 گاؤں کے رہنے والے ایک شخص نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری عورت حمل سے ہے بتلائے کیا بچہ ہوگا؟

ہمارے شہر میں قحط ہے فرمائیے بارش کب ہوگی؟

یہ تو میں نہیں جانتا کہ میں کب پیدا ہوا لیکن یہ آپ معلوم کرادیجئیے کہ کب مرونگا؟

اس کے جواب میں یہ آیت اتری کہ مجھے ان چیزوں کا مطلق علم نہیں۔

 مجاہد فرماتے ہیں یہی غیب کی کنجیاں ہیں جن کے بارے میں فرمان باری ہے کہ غیب کی کنجیاں صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔

 حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

 جو تم سے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کا علم جانتے تھے تو سمجھ لینا کہ وہ سب سے بڑا جھوٹاہے۔

إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (۳۴)

 (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔‏

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا؟ قتادۃ فرماتے ہیں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا نہ نبی کو نہ فرشتہ کو اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کس سال کس مہینے کس دن یا کس رات میں وہ آئے گی۔ اسی طرح بارش کا علم بھی اس کے سوا کسی کو نہیں کہ کب آئے؟ اور کوئی نہیں جانتاکہ حاملہ کے پیٹ میں بچہ نر ہوگا یا مادہ سرخ ہوگا یاسیاہ ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ نیکی کرے گا یا بدی کرے گا؟ مرے گا یا جئے گا بہت ممکن ہے کل موت یا آفت آجائے۔ نہ کسی کو یہ خبر ہے کہ کس زمین میں وہ دبایا جائے گا یاسمندر میں بہایا جائے گا یا جنگل میں مرے گا یا نرم یاسخت زمین میں جائے گا۔

 حدیث شریف میں ہے:

 جب کسی کو موت دوسری زمین میں ہوتی ہے تو اس کا وہیں کا کوئی کام نکل آتا ہے اور وہیں موت آجاتی ہے

 اور روایت میں ہے کہ یہ فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ۔

ایک روایت میں ہے:

 قیامت کے دن زمین اللہ تعالیٰ سے کہے گی کہ یہ ہیں تیری امانتیں جو تونے مجھے سونپ رکھی تھیں۔

طبرانی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter