Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al NurAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنْزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو۔ (۱) اس بیان سے کہ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں۔ فَرَضْنَاهَا کے معنی مجاہد و قتادہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ حلال و حرام، امرو نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کردیا ہے۔ اس میں صاف صاف، کھلے کھلے، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو، احکام الہٰی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ زنا کار عورت و مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کاری کی شرعی سزا فرمائی۔ مسئلہ رجم زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلاوطنی بھی دی جائے گی۔ ہاں امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے۔ ہاں امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے : دو اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ایک نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو! میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے۔ یہ حضرت انیس رضی اللہ عنہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کردینا۔ چنانچہ اس بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اقرار کیا اور انہیں رجم کردیا گیا رضی اللہ عنہا۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنورے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلاوطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کردیا جائے گا۔ چنانچہ موطا مالک میں ہے: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب اللہ میں جرم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی، یاد کیا، اس پر عمل بھی کیا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا، چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو، خواہ عورت ہو۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے۔ مسند احمد میں ہے : آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے۔ یاد رکھو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے، قرآن میں جو نہ تھا، عمر نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا، جس طرح نازل ہوئی تھی۔ یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے: آپ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے۔ اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے۔ مسند احمد میں ہے: امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے۔ ابو یعلی موصلی میں ہے: لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، میں تمہاری تشفی کردیتا ہوں۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا۔ کسی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رجم کی آیت لکھ لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا۔ یا اسی کے مثل۔ یہ روایت نسائی میں بھی ہے، پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا۔ واللہ اعلم۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں ۔ اسی لئے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے۔ ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ، مالک رحمتہ اللہ علیہ، شافعی رحمہم اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں۔ پھر رجم کرنا چاہئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جائے جیسے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے: جب آپ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زنا کاری میں آئی تھی تو آپ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا۔ اور فرمایا کہ کتاب اللہ پر عمل کرکے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے سنگسار کرایا۔ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، مسند احمد، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری بات لے لو، میری بات لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کرلے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم۔ پھر فرمایا: اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہئے۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو، پہنچ جائے، تو اسے چاہئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے۔ حدیث میں ہے: آپس میں حدود سے درگزر کرو، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی۔ اور حدیث میں ہے: حد کا زمین میں قائم ہونا، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ بھی قول ہے کہ ترس کھاکر، مار کو نرم نہ کردو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں۔ یہ قول حضرت حماد بن ابوسلیمان رحمتہ اللہ کا ہے۔ اسے بیان فرما کر آپ نے یہی آیت وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ پڑھی تو حضرت سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے۔ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو حضرت نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہئے تو آپ نے فرمایا کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے۔ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہئے۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے۔ رجم بری چیز نہیں۔ ایک حدیث میں ہے: ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری کو ذبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا۔ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔ (۲) پھر فرماتا ہے ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں۔ اسے علانیہ سزا دی جائے، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہو جائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذہب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں چار ہوں۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں، چار ہوں یا اس سے زیادہ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے۔ ربیعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں پانچ ہوں۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک دس۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت، عبرت اور سزا ہو۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعاء مغفرت و رحمت کریں۔ الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زنا کاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہ سند صحیح مروی ہے: یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے۔ یہی قول مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، عروہ بن زبر، ضحاک، مکحول، مقاتل بن حیان اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے۔ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اور ایمان والوں پر یہ حرام کر دیا گیا (۳) مؤمنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے جیسے اور آیت میں ہے: مُحْصَنَـت غَيْرَ مُسَـفِحَـتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ (۴:۲۵) اور آیت میں ہے: مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِى أَخْدَانٍ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو (۵:۵) مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں - وہ پاک دامن ہوں، <- وہ بدکار نہ ہوں،/p> - نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے۔ اسی طرح بھولی بھالی، پاک دامن، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلے کیونکہ فرمان الہٰی ہے کہ یہ مؤمنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ ایک شخص نے اُم مہزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرلینے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری۔ ترمذی شریف میں ہے: ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد تھا، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکے میں رہا کرتی تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا۔ حضرت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا۔ میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آگیا ہے۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہے۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے۔ میں مٹھیاں بند کرکے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں۔ ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا، پھر مکے کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا۔ چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے۔ میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کردیا۔ اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا۔ چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ آیت اتری۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے۔ امام ابو داؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں۔ ابوداؤد وغیرہ میں ہے زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کرسکتا ہے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ - ماں باپ کا نافرمان۔ - وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں۔ - اور دیوث (بےغیرت شخص)۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ - ماں باپ کا نافرمان - ہمیشہ کا نشے کا عادی - اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا۔ مسند میں ہے آپﷺ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے - ہمیشہ کا شرابی۔ - ماں باپ کا نافرمان۔ - اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے جنت میں کوئی دیوث(بےغیرت شخص) نہیں جائے گا۔ ابن ماجہ میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ نسائی میں ہے: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلاق دیدے۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جا اس سے فائدہ اٹھا۔ لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں۔ دوسرا راوی ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ تو اسے منکر کہتے ہیں۔ امام ابن قتیبہ رحمتہ اللہ علیہ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بیحد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے لامس کے لفظ کے ملتمس کا لفظ ہونا چاہئے تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے۔ جس پر سخت وعید آئی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کردے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کرلیں تو نکاح حلال ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہو جاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے۔ حضرت یحییٰ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت وَأَنْكِحُواْ الأَيَـمَى مِنْكُمْ (۳۲) سے۔ امام ابو ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ جو لوگ کسی عورت پر یا کسی مرد پر زناکاری کی تہمت لگائیں اور ثبوت نہ دے سکیں۔ تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں گے، ہاں اگر شہادت پیش کردیں تو حد سے بچ جائیں گے اور جن پر جرم ثابت ہوا ہے ان پر حد جاری کی جائے گی۔ اگر شہادت نہ پیش کرسکے تو اسی کوڑے بھی لگیں گے اور آئندہ کیلئے ہمیشہ ان کی شہادت غیر مقبول رہے گی وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ یہ فاسق لوگ ہیں ۔ (۴) اور وہ عادل نہیں بلکہ فاسق سمجھے جائیں گے۔ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ (۵) اس آیت میں جن لوگوں کو مخصوص اور مستثنیٰ کردیا ہے تو بعض تو کہتے ہیں کہ یہ استثنا صرف فاسق ہونے سے ہے یعنی بعد از توبہ وہ فاسق نہیں رہیں گے۔ بعض کہتے ہیں نہ فاسق رہیں گے نہ مردود الشہادۃ بلکہ پھر ان کی شہادت بھی لی جائے گی۔ ہاں حد جو ہے وہ توبہ سے کسی طرح ہٹ نہیں سکتی۔ امام مالک، احمد اور شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب تو یہ ہے کہ توبہ سے شہادت کا مردود ہونا اور فسق ہٹ جائے گا۔ سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ اور سلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف فسق دور ہو جائے گا لیکن شہادت قبول نہیں ہوسکتی۔ بعض اور لوگ بھی یہی کہتے ہیں۔ شعبی اور ضحاک کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ اسے بہتان باندھا تھا اور پھر توبہ بھی پوری کی تو اس کی شہادت اس کے بعد مقبول ہے۔ واللہ اعلم وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں۔ (۶) ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ رب العالمین نے ان خاوندوں کیلئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان فرمائی ہے کہ جب وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو لعان کرلیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ امام کے سامنے آکر وہ اپنا بیان دے جب شہادت نہ پیش کرسکے تو حاکم اسے چار گواہوں کے قائم مقام چار قسمیں دے گا اور یہ قسم کھاکر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے۔ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو (۷) پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔ اتنا کہتے ہی امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہو جائے گی اور ہمیشہ کیلئے حرام ہو جائے گی۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر زنا ثابت ہو جائے گی۔ وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ (۸) لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے ملاعنہ کرے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی۔ یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ کا عذاب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو۔( ۹) اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس نکتہ کو بھی خیال میں رکھئے کہ عورت کیلئے غضب کا لفظ کہا گیا اس لئے کہ عموماً کوئی مرد نہیں چاہتا کہ وہ اپنی بیوی کو خواہ مخواہ تہمت لگائے اور اپنے آپ کو بلکہ اپنے کنبے کو بھی بدنام کرے عموماً وہ سچا ہی ہوتا ہے اور اپنے صدق کی بنا پر ہی وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لئے پانچویں مرتبہ میں اس سے یہ کہلوایا گیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب آئے۔ پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل تم پر نہ ہوتا (تو تم پر مشقت اترتی) اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (۱۰) پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو ایسی آسانیاں تم پر نہ ہوتیں بلکہ تم پر مشقت اترتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور گو کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم ہے، اپنی شرع میں، اپنے حکموں میں، اپنی ممانعت میں اس آیت کے بارے میں جو روایتیں ہیں وہ بھی سن لیجئے مسند احمد میں ہے: جب یہ آیت اتری تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انصار کے سردار ہیں کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ آیت اسی طرح اتاری گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصاریو سنتے نہیں ہو؟ یہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ درگزر فرمائیے یہ صرف ان کی بڑھی چڑھی غیرت کا باعث ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی غیرت کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی بیٹی دینے کی جرأت نہیں کرتا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میرا ایمان ہے کہ یہ حق ہے لیکن اگر میں کسی کو اس کے پاؤں پکڑے ہوئے دیکھ لوں تو بھی میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا یہاں تک کہ میں چار گواہ لاؤں تب تک تو وہ اپنا کام پورا کرلے گا۔ اس بات کو ذرا سی ہی دیر ہوئی ہوگی کہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے یہ ان تین شخصوں میں سے ہیں جن کی توبہ قبول ہوئی تھی یہ اپنی زمین سے عشاء کے وقت اپنے گھر آئے تق دیکھا کہ گھر میں ایک غیر مرد ہے خود آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں۔ صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا آپ ﷺکو بہت برا معلوم ہوا اور طبیعت پر نہایت ہی شاق گزرا۔ سب انصار جمع ہوگئے اور کہنے لگے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی وجہ سے ہم اس آفت میں مبتلا کئے گئے مگر اس صورت میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلال بن امیہ کو تہمت کی حد لگائیں اور اس کی شہادت کو مردود ٹھہرائیں۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے واللہ میں سچا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا چھٹکارا کردے گا۔ کہنے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھتا ہوں کہ میرا کلام آپ کی طبیعت پر بہت گراں گزرا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اللہ کی قسم ہے میں سچا ہوں، اللہ خوب جانتا ہے۔ لیکن چونکہ گواہ پیش نہیں کرسکتے تھے قریب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حد مارنے کو فرماتے اتنے میں وحی اترنا شروع ہوئی۔ صحابہ آپ کے چہرے کو دیکھ کر علامت سے پہچان گئے کہ اس وقت وحی نازل ہو رہی ہے۔ جب وحی اترچکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا، اے ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشادگی اور چھٹی نازل فرما دی۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے الحمدللہ مجھے اللہ رحیم کی ذات سے یہی امید تھی۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو بلوایا اور ان دونوں کے سامنے آیت ملاعنہ پڑھ کر سنائی اور فرمایا دیکھو آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے سخت ہے۔ ہلال فرمانے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بالکل سچا ہوں۔ اس عورت نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ جھوٹ کہہ رہا ہے آپ ﷺنے حکم دیا کہ اچھا لعان کرو۔ تو ہلال کو کہا گیا کہ اس طرح چار قسمیں کھاؤ اور پانچویں دفعہ یوں کہو۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب چار بار کہہ چکے اور پانچویں بار کی نوبت آئی تو آپ سے کہا گیا کہ ہلال اللہ سے ڈر جا۔ دنیا کی سزا آخرت کے عذابوں سے بہت ہلکی ہے یہ پانچویں بار تیری زبان سے نکلتے ہی تجھ پر عذاب واجب ہو جائے گا تو آپ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی جس طرح اللہ نے مجھے دنیا کی سزا سے میری صداقت کی وجہ سے بچایا، اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی میری سچائی کی وجہ سے میرا رب مجھے محفوظ رکھے گا۔ پھر پانچویں دفعہ کے الفاظ بھی زبان سے ادا کردیئے۔ اب اس عورت سے کہا گیا کہ تو چار دفعہ قسمیں کھا کہ یہ جھوٹا ہے۔ جب وہ چاروں قسمیں کھاچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانچویں دفعہ کے اس کلمہ کے کہنے سے روکا اور جس طرح حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھایا گیا تھا اس سے بھی فرمایا تو اسے کچھ خیال پیدا ہوگیا۔ رکی، جھجکی، زبان کو سنبھالا، قریب تھا کہ اپنے قصور کا اقرار کرلے لیکن پھر کہنے لگی میں ہمیشہ کیلئے اپنی قوم کو رسوا نہیں کرنے کی۔ پھر کہہ دیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور حکم دیدیا کہ اس سے جو اولاد ہو وہ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب نہ کی جائے۔ نہ اسے حرام کی اولاد کہا جائے۔ جو اس بچے کو حرامی کہے یا اس عورت پر تہمت رکھے، وہ حد لگایا جائے گا، یہ بھی فیصلہ دیا کہ اس کا کوئی نان نفقہ اس کے خاوند پر نہیں کیونکہ جدائی کردی گئی ہے۔ نہ طلاق ہوئی ہے نہ خاوند کا انتقال ہوا ہے اور فرمایا دیکھو اگر یہ بچہ سرخ سفید رنگ موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو تو اسے ہلال کا سمجھنا اور اگر وہ پتلی پنڈلیوں والا سیاہی مائل رنگ کا پیدا ہو تو اس شخص کا سمجھنا جس کے ساتھ اس پر الزام قائم کیا گیا ہے۔ جب بچہ ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس بری صفت پر تھا جو الزام کی حقانیت کی نشانی تھی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ مسئلہ قسموں پر طے شدہ نہ ہوتا تو میں اس عورت کو قطعاً حد لگاتا۔ یہ صاحبزادے بڑے ہو کر مصر کے والی بنے اور ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف تھی۔ (ابوداؤد) اس حدیث کے اور بھی بہت سے شاہد ہیں۔ بخاری شریف میں بھی یہ حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ شریک بن عماء کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص اپنی بیوی کو برے کام پر دیکھ کر گواہ ڈھونڈنے جائے؟ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ دونوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرکے اپنے جھوٹ سے ہٹتا ہے؟ اور روایت میں ہے کہ پانچویں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کہا کہ اس کا منہ بند کردو پھر اسے نصیحت کی۔ اور فرمایا اللہ کی لعنت سے ہرچیز ہلکی ہے۔ اسی طرح اس عورت کے ساتھ کیا گیا۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد و عورت کی نسبت مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیا ان میں جدائی کرا دی جائے؟ یہ واقعہ ہے حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت کے زمانہ کا۔ مجھ سے تو اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا تو میں اپنے مکان سے چل کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منزل پر آیا اور ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ سب سے پہلے یہ بات فلاں بن فلاں نے دریافت کی تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اپنی عورت کو کسی برے کام پر پائے تو اگر زبان سے نکالے تو بھی بڑی بےشرمی کی بات ہے اور اگر خاموش رہے تو بھی بڑی بےغیرتی کی خاموشی ہے۔ آپ سن کر خاموش ہو رہے۔ پھر وہ آیا اور کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے جو سوال جناب سے کیا تھا افسوس وہی واقعہ میرے ہاں پیش آیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو پاس بلا کر ایک ایک کو الگ الگ نصیحت کی۔ بہت کچھ سمجھایا لیکن ہر ایک نے اپنا سچا ہونا ظاہر کیا پھر دونوں نے آیت کے مطابق قسمیں کھائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کرا دی۔ ایک اور روایت میں ہے : صحابہ کا ایک مجمع شام کے وقت جمعہ کے دن مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انصاری نے کہا جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پائے تو اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم اسے مار ڈالو گے اور اگر زبان سے نکالے گا تو تم شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسی کو کوڑے لگاؤ گے اور اگر یہ اندھیر دیکھ کر خاموش ہو کر بیٹھا رہے تو یہ بڑی بےغیرتی اور بڑی بےحیائی ہے۔ واللہ اگر میں صبح تک زندہ رہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت دریافت کروں گا۔ چنانچہ اس نے انہی لفظوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور دعا کی کہ یا اللہ اس کا فیصلہ نازل فرما۔ پس آیت لعان اتری اور سب سے پہلے یہی شخص اس میں مبتلا ہوا۔ اور روایت میں ہے: حضرت عویمر نے حضرت عاصم بن عدی سے کہا کہ ذرا جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت تو کرو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے تو کیا کرے؟ ایسا تو نہیں کہ وہ قتل کرے تو اسے بھی قتل کیا جائے گا؟ چنانچہ عاصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال سے بہت ناراض ہوئے۔ جب عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عاصم سے ملے تو پوچھا کہ کہو تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا؟ اور آپ نے کیا جواب دیا؟ عاصم نے کہا تم نے مجھ سے کوئی اچھی خدمت نہیں لی افسوس میرے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیب پکڑا اور برا مانا۔ عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اب اگر میں اسے اپنے گھر لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر جھوٹ تہمت باندھی تھی۔ پس آپ کے حکم سے پہلے ہی اس عورت کو جدا کردیا۔ پھر تو لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ مقرر ہوگیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ عورت حاملہ تھی اور ان کے خاوند نے اس سے انکار کیا کہ یہ حمل ان سے ہوا۔ اس لئے یہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا رہا پھر مسنون طریقہ یوں جاری ہوا کہ یہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اور ماں اس کی وارث ہوگی۔ ایک مرسل اور غریب حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اگر تمہارے ہاں ایسی واردات ہو تو کیا کرو گے؟ دونوں نے کہا گردن اڑا دیں گے۔ ایسے وقت چشم پوشی وہی کرسکتے ہیں جو دیوث ہوں، اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلا لعان مسلمانوں میں ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی بیوی کے درمیان ہوا تھا۔ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ۚ جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے ۔ (۱۱) اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ کی پاکیزگی کی شہادت: اس آیت سے لے کر اگلی دس آیتوں تک اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب کہ منافقین نے آپ پر بہتان باندھا تھا جس پر اللہ کو بہ سبب قرابت داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرت آئی اور یہ آیتیں نازل فرمائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر حرف نہ آئے۔ ان بہتان بازوں کی ایک پارٹی تھی۔ اس لعنتی کام میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی بن سلول تھا جو تمام منافقوں کا گرو گھنٹال تھا۔ اس بے ایمان نے ایک ایک کان میں بنابناکر اور مصالحہ چڑھ چڑھا کر یہ باتیں خوب گھڑ گھڑ کر پہنچائی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی زبان بھی کھلنے لگی تھی اور یہ چہ میگوئیاں قریب قریب مہینے بھر تک چلتی رہیں۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس واقعے کا پورا بیان صحیح احادیث میں موجود ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ سفر میں جانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے نام کا قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ ایک غزوے کے موقعہ پر میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ چلی، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے۔ میں اپنے ہودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا۔ میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ہودج رکھ دیا جاتا۔ ہم گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوے سے فارغ ہوئے، واپس لوٹے، مدینے کے قریب آگئے رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضاء حاجت کیلئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جاکر میں نے قضاء حاجت کی۔ پھر واپس لوٹی، لشکر گاہ کے قریب آکر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا۔ میں واپس اس کے ڈھونڈنے کیلئے چلی اور تلاش کرتی رہی۔ یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کردیا جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں۔ ہودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں۔ تو میرے ہودج کے اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا۔ اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی۔ الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں یہاں پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا، نہ جواب دینے والا، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی، جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کیلئے یہیں آئیں گے۔ مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی۔ اتفاق سے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو لشکر کے پیچھے رہے تھے اور پچھلی رات کو چلے تھے، صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے۔ ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا۔ غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی پہچان گئے اور باآواز بلند ان کی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی۔ انہوں نے جھٹ اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہوگئی۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کردیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے۔ قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے، نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا نہ سوائے اناللہ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا۔ دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے۔ پس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنالیا۔ ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر ہی میں رہی، نہ میں نے کچھ سنا، نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہو رہا تھا، میں اس سے محض بےخبر تھی۔ البتہ میرے جی میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرو محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی۔ مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے طبیعت کیسی ہے! اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی۔ اب سنئے اس وقت تک گھروں میں پاخانے نہیں ہوتے تھے اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضاء حاجت کیلئے جایا کرتے تھے۔ عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں۔ گھروں میں پاخانے بنانے سے عام طور پر نفرت تھی۔ حسب عادت میں، ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدالمناف کے ساتھ قضائے حاجت کیلئے چلی۔ اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح میرے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں، ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا۔ جب ہم واپس آنے لگے تو حضرت ام مسطح کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ بولا، توبہ کرو، تم اسے گالی دیتی ہو، جس نے جنگ بدر میں شرکت کی۔ اس وقت ام مسطح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلوم؟ میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھرتے ہیں۔ مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کہ کم از کم مجھ سے سارا واقعہ تو کہو۔ اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہوگئی۔ بیمار تو پہلے سے ہی تھی، اس خبر نے تو نڈھال کردیا، جوں توں کرکے گھر پہنچی۔ اب صرف یہ خیال تھا میں اپنے میکے جاکر اور اچھی طرح معلوم تو کرلوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے؟اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے؟ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو اپنے والد صاحب کے ہاں ہو آؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی، میں یہاں آئی، اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا اپنا دل بھاری نہ کرو، کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں؟ اب تو مجھے غم و رنج نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے۔ اس وقت سے جو رونا شروع ہوا واللہ ایک دم بھر کیلئے میرے آنسو نہیں تھمے، میں سر ڈال کر روتی رہتی۔ کس کا کھانا پینا، کس کا سونا بیٹھنا، کہاں کی بات چیت، غم و رنج اور رونا ہے اور میں ہوں۔ ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا، وحی میں دیر ہوئی، اللہ کی طرف سے آپ کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ مجھے الگ کردیں یا کیا؟ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو صاف کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے۔ ہمارے دل ان کی عفت، عزت اور شرافت کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہیں۔ ہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے آپ پر کوئی تنگی نہیں، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں۔ اگر آپ گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو صحیح واقعہ معلوم ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت گھر کی خادمہ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ عائشہ کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتاؤ۔ بریرہ نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے ان سے کوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی۔ ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھی گندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور سو جاتی ہیں تو بکری آکر کھاجاتی ہے، اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا۔ چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لئے اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا کون ہے؟ جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں میں بھی ایذائیں پہنچانا شروع کردی ہیں۔ واللہ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں، جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں، میری دانست تو اس کے متعلق بھی سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا۔ یہ سنتے ہی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا شخض ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے الگ کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو تو اس کا قتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا۔ یہ سن کر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے یہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہوتے تھے کہنے لگے اے سعد بن عبادہ تم جھوٹ کہتے ہو، ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے آپ منافق آدمی ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کر رہے ہیں۔ اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آگیا اور قریب تھا کہ اوس و خزرج کے یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑپڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے ہی انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی چپکے ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ۔ میرا حال یہ تھا کہ یہ سارا دن بھی رونے میں ہی گزرا۔ میرے اس رونے نے میرے ماں باپ کے بھی ہوش گم کردیئے تھے، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا۔ دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اتنے میں انصار کی ایک عورت آئیں اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشیرف لائے اور سلام کرکے میرے پاس بیٹھ گئے۔ قسم اللہ کی جب سے یہ بہتان بازی ہوئی تھی آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے۔ مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حالت تھی۔ کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہوسکے۔ آپ نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا پھر اما بعد فرما کر فرمایا کہ اے عائشہ! تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے۔ اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر فرما دے گا اور اگر فی الحقیقت تو کسی گناہ میں آلودہ ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر، بندہ جب گناہ کرکے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔ آپ اتنا فرما کر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا۔ آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا۔ میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ہی جواب دیجئے لیکن انہوں نے فرمایا کہ واللہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئے لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا۔ میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا۔ میں نے کہا، آپ سب نے ایک بات سنی، اسے آپ نے دل میں بٹھا لیا اور گویا سچ سمجھ لیا۔ اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بےگناہ ہوں تو تم ابھی مان لو گے۔ میری اور تمہاری مثال تو بالکل حضرت ابو یوسف علیہ السلام کا یہ قول ہے: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖوَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کرے، (۱۲:۱۸) اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیر لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ کی قسم مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ میری برأت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور معلوم کرا دے گا لیکن یہ تو میرے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں۔ میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اللہ کی آیتیں اتریں۔ ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے خواب میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میری برأت دکھا دے۔ واللہ ابھی تو نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نکلا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوگئی۔ اور چہرہ پر وہی آثار ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں۔ سخت جاڑوں میں بھی وحی کے نزول کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی، جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہنسی سے شگفتہ ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا عائشہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات نازل فرما دی۔ اسی وقت میری والدہ نے فرمایا بچی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ۔ میں نے جواب دیا کہ واللہ نہ تو میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں گی اور نہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری برأت اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے۔ پس آیت إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سے لے کر اگلی دس آیتوں تک نازل ہوئیں۔ ان آیتوں کے اترنے کے بعد اور میری پاک دامنی ثابت ہوچکنے کے بعد اس شر کے پھیلانے میں حضرت مسطح بن اثاثہ بھی شریک تھے اور انہیں میرے والد صاحب ان کی محتاجی اور ان کی قرابت داری کی وجہ سے ہمیشہ کچھ دیتے رہتے تھے۔ اب انہوں نے کہا جب اس شخص نے میری بیٹی پر تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو اب میں اس کے ساتھ کچھ بھی سلوک نہ کروں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔ (۲۴:۲۲) یعنی تم میں سے جو لوگ بزرگی اور وسعت والے ہیں، انہیں نہ چاہئے کہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ کے مہاجروں سے سلوک نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ بخشش والا اور مہربانی والا اللہ تمہیں بخش دے؟ اسی وقت اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا قسم اللہ کی میں تو اللہ کی بخشش کا خواہاں ہوں۔ چنانچہ اسی وقت حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کا وظیفہ جاری کردیا اور فرما دیا کہ واللہ اب عمر بھر تک اس میں کمی یا کوتاہی نہ کروں گا۔ میرے اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی جو آپ کی بیوی صاحبہ تھیں دریافت فرمایا تھا۔ یہی بیوی صاحبہ تھیں جو حضور کی تمام بیویوں میں میرے مقابلے کی تھیں لیکن یہ اپنی پرہیزگاری اور دین داری کی وجہ سے صاف بچ گئیں اور جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو سوائے بہتری کے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتی۔ میں اپنے کانوں کو اور اپنی نگاہ کو محفوظ رکھتی ہوں۔ گو انہیں ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہت کچھ بہلاوے بھی دیئے بلکہ لڑ پڑیں لیکن انہوں نے اپنی زبان سے میری برائی کا کوئی کلمہ نہیں نکالا۔ ہاں ان کی بہن نے تو زبان کھول دی اور میرے بارے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔ یہ روایت بخاری مسلم وغیرہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں ہے۔ ایک سند سے یہ بھی مروی ہے: آپ ﷺنے اپنے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جس شخص کی طرف منسوب کرتے ہیں، وہ سفر حضر میں میرے ساتھ رہا میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر نہیں آیا اس میں ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں جو صاحب کھڑے ہوئے انہی کے قبیلے میں ام مسطح تھیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اسی خطبہ کے دن کے بعد رات کو میں ام مسطح کے ساتھ نکلی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ یہ پھسلیں اور انہوں نے اپنے بیٹے مسطح کو کوسا، میں نے منع کیا پھر پھسلیں، پھر کوسا، میں نے پھر روکا۔ پھر الجھیں، پھر کوسا تو میں نے انہیں ڈانٹنا شروع کیا۔ اس میں ہے کہ اسی وقت سے مجھے بخار چڑھ آیا۔ اس میں ہے کہ میری والدہ کے گھر پہنچانے کیلئے میرے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام کردیا تھا۔ میں جب وہاں پہنچی تو میرے والد اوپر کے گھر میں تھے۔ تلاوت قرآن میں مشغول تھے اور والدہ نیچے کے مکان میں تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی میری والدہ نے دریافت فرمایا! آج کیسے آنا ہوا؟ تو میں نے تمام بپتا کہہ سنائی لیکن میں نے دیکھا کہ انہیں یہ بات نہ کوئی انوکھی بات معلوم ہوئی نہ اتنا صدمہ اور رنج ہوا جس کی توقع مجھے تھی۔ اس میں ہے کہ میں نے والدہ سے پوچھا کیا میرے والد صاحب کو بھی اس کا علم ہے؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں۔ اب تو مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونا آنے لگا یہاں تک کہ میری آواز اوپر میرے والد صاحب کے کان میں بھی پہنچی وہ جلدی سے نیچے آئے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میری والدہ نے کہا کہ انہیں اس تہمت کا علم ہوگیا ہے جو ان پر لگائی گئی ہے، یہ سن کر اور میری حالت دیکھ کر میرے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور مجھ سے کہنے لگے بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ ابھی اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ چنانچہ میں واپس چلی گئی۔ یہاں میرے پیچھے گھر کی خادمہ سے بھی میری بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں کی موجودگی میں دریافت فرمایا۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ میں عائشہ میں کوئی برائی نہیں دیکھتی بجز اس کے کہ وہ آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، بےخبری سے سو جاتی ہیں۔ بسا اوقات آٹا بکریاں کھا جاتی ہیں۔ بلکہ اسے بعض لوگوں نے بہت ڈانٹا ڈپٹا بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ سچ بات جو ہو بتا دے اس پر بہت سختی کی لیکن اس نے کہا واللہ ایک سنار خالص سونے میں جس طرح کوئی عیب کسی طرح تپا تپا کر بھی بتا نہیں سکتا۔ اسی طرح میں صدیقہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی۔ جب اس شخص کو یہ اطلاع پہنچی جنہیں بدنام کیا جا رہا تھا تو اس نے کہا قسم اللہ کی میں نے تو آج تک کسی عورت کا بازو کبھی کھولا ہی نہیں۔ بالآخر یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عصر کی نماز کے بعد تشریف لائے تھے۔ اس وقت میری ماں اور میرے باپ میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور وہ انصاریہ عورت جو آئی تھیں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں اس میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت شروع کی اور مجھ سے حقیقت حال دریافت کی تو میں نے کہا ہائے کیسی بےشرمی کی بات ہے؟ اس عورت کا بھی تو خیال نہیں؟ اس میں ہے کہ میں نے بھی اللہ کی حمد و ثناء کے بعد جواب دیا تھا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میں نے اس وقت ہر چند حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام تلاش کیا لیکن واللہ وہ زبان پر نہ چڑھا، اسلئے میں نے ابو یوسف کہہ دیا۔ اس میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے اترنے کے بعد مجھے خوشخبری سنائی واللہ اس وقت میرا غم بھرا غصہ بہت ہی بڑھ گیا تھا۔ میں نے اپنے ماں باپ سے بھی کہا تھا کہ میں اس معاملے میں تمہاری بھی شکر گزار نہیں۔ تم سب نے ایک بات سنی لیکن نہ تم نے انکار کیا نہ تمہیں ذرا غیرت آئی۔ اس میں ہے کہ اس قصے کو زبان پر لانے والے حمنہ بنت حجش، مسطح، حسان بن ثبات اور عبداللہ بن ابی منافق تھے۔ یہ سب کا سرغنہ تھا اور یہی زیادہ تر لگاتا بجھاتا تھا اور حدیث میں ہے کہ میرے عذر کی یہ آیتیں اترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مردوں اور ایک عورت کو تہمت کی حد لگائی یعنی حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش کو۔ ایک روایت میں ہے: جب اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے اوپر تہمت لگنے کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ اس کا علم آپ کے والد اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوچکا ہے تو آپ بےہوش ہو کر گر پڑیں۔ جب ذرا ہوش میں آئیں تو سارا جسم تپ رہا تھا اور زور کا بخار چڑھا ہوا تھا اور کانپ رہی تھیں۔ آپ کی والدہ نے اسی وقت لحاف اوڑھا دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا جاڑے سے بخار چڑھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید اس خبر کو سن کر یہ حال ہوگیا ہوگا؟ جب آپ کے عذر کی آیتیں اتریں اور آپ نے انہیں سن کر فرمایا کہ یہ اللہ کے فضل سے ہے نہ کہ آپ کے فضل سے۔ تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کہتی ہو؟ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہاں۔ اب آیتوں کا مطلب سنئے : جو لوگ جھوٹ بہتان گھڑی ہوئی بات لے آئے اور وہ ہیں بھی زیادہ اسے تم اے آل ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ انجام کے لحاظ سے دین و دنیا میں وہ تمہارے لئے بھلا ہے۔ دنیا میں تمہاری صداقت ثابت ہوگی، آخرت میں بلند مراتب ملیں گے۔ حضرت عائشہ کی برأت قرآن کریم میں نازل ہوگی، جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اماں صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ان کے آخری وقت آئے تو فرمانے لگے اُم المؤمنین آپ خوش ہو جائیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ رہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم محبت سے پیش آتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی برأت آسمان سے نازل ہوئی۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ اپنے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنے لگیں تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میرا نکاح آسمان سے اترا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میری پاکیزگی کی شہادت قرآن میں آسمان سے اتری جب کہ صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنی سواری پر بٹھا لائے تھے۔ حضرت زینب نے پوچھا یہ تو بتاؤ جب تم اس اونٹ پر سوار ہوئی تھیں تو تم نے کیا کلمات کہے تھے؟ آپ نے فرمایا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (۳:۱۷۳) اس پر وہ بول اٹھیں کہ تم نے مؤمنوں کا کلمہ کہا تھا۔ پھر فرمایا جس جس نے پاک دامن صدیقہؓ پر تہمت لگائی ہے ہر ایک کو بڑا عذاب ہوگا۔ اور جس نے اس کی ابتدا اٹھائی ہے، جو اسے ادھر ادھر پھیلاتا رہا ہے اس کیلئے سخت تر عذاب ہیں۔ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ملعون ہے۔ ٹھیک قول یہی ہے گو کسی کسی نے کہا کہ مراد اس سے حسان ہیں لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ چونکہ یہ قول بھی ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں بیان کردیا ورنہ اس کے بیان میں بھی چنداں نفع نہیں کیونکہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بزرگ صحابہ میں سے ہیں۔ ان کی بہت سی فضیلتیں اور بزرگیاں احادیث میں موجود ہیں۔ یہی تھے جو کافر شاعروں کی ہجو کے شعروں کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے تھے۔ انہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "تم کفار کی مذمت بیان کرو جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔ " حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا۔ حکم دیا کہ ان کیلئے گدی بچھا دو، جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے کہا کہ آپ انہیں کیوں آنے دیتی ہیں؟ ان کے آنے سے کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ان میں سے جو تہمت کا والی ہے اس کیلئے بڑا عذاب ہے تو اُم المؤمنین نے فرمایا اندھا ہونے سے بڑا عذاب اور کیا ہوگا یہ نابینا ہوگئے تھے۔ تو فرمایا شاید یہی عذاب عظیم ہو۔ پھر فرمایا تمہیں نہیں خبر؟ یہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کے ہجو والے اشعار کا جواب دینے پر مقرر تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت حضرت عائشہ کی مدح میں شعر پڑھا تھا کہ آپ پاکدامن، بھولی، تمام اوچھے کاموں سے، غیبت اور برائی سے پرہیز کرنے والی ہیں، تو آپ نے فرمایا تم تو ایسے نہ تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں مجھے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعروں سے زیادہ اچھے اشعار نظر نہیں آتے اور میں جب کبھی ان شعروں کو پڑھتی ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ حسان جنتی ہیں۔ وہ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کو خطاب کرکے اپنے شعروں میں فرماتے ہیں : تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے، جس کا میں جواب دیتا ہوں اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے پاؤں گا۔ میرے باپ دادا اور میری عزت آبرو سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے، میں ان سب کو فنا کرکے بھی تمہاری بدزبانیوں کے مقابلے سے ہٹ نہیں سکتا۔ تجھ جیسا شخص جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کف پا کی ہمسری بھی نہیں کرسکتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے؟ یاد رکھو کہ تم جیسے بد حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نیک پر فدا ہیں۔ جب تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو اب میری زبان سے جو تیز دھار اور بےعیب تلوار سے بھی تیز ہے۔ بچ کر تم کہاں جاؤ گے؟ اُم المؤمنین سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لغو کلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں لغو کلام تو شاعروں کی وہ بکواس ہے جو عورتوں وغیرہ کے بارے میں ہوتی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کیا قرآن میں نہیں کہ اس تہمت میں بڑا حصہ لینے والے کیلئے برا عذاب ہے؟ فرمایا ہاں لیکن کیا جو عذاب انہیں ہوا بڑا نہیں؟ آنکھیں ان کی جاتی رہیں، تلوار ان پر اٹھی، وہ تو کہئے حضرت صفوان رک گئے ورنہ عجب نہیں کہ ان کی نسبت یہ بات سن کر انہیں قتل ہی کر ڈالتے۔ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ اسے سنتے ہی مؤمن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک کمائی کیوں نہ کی کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے ۔ (۱۲) ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ مؤمنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں جو کلمات منہ سے نکالے وہ ان کی شایان شان نہ تھے بلکہ انہیں چاہئے تھا کہ یہ کلام سنتے ہی اپنی شرعی ماں کے ساتھ کم از کم وہ خیال کرتے جو اپنے نفسوں کے ساتھ کرتے، جب کہ وہ اپنے آپ کو بھی ایسے کام کے لائق نہ پاتے تو شان اُم المؤمنین کو اس سے بہت اعلیٰ اور بالا جانتے۔ ایک واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا تھا۔ حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی بیوی صاحبہ اُم ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے وہ بھی سنا جو حضرت عائشہ کی نسبت کہا جا رہا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور یہ یقینا ًجھوٹ ہے۔اُم ایوب تم ہی بتاؤ کیا تم کبھی ایسا کرسکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ نعوذ باللہ ناممکن۔ آپ نے فرمایا پس حضرت عائشہ تو تم سے کہیں افضل اور بہتر ہیں۔ پس جب آیتیں اتریں تو پہلے تو بہتان بازوں کا ذکر ہوا۔ یعنی حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا پھر ان آیتوں کا ذکر ہوا۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ کی اس بات چیت کا جو اوپر مذکور ہوئی۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ مقولہ حصرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا ۔ الغرض مؤمنوں کو صاف باطن رہنا چاہئے اور اچھے خیال کرنے چاہئیں بلکہ زبان سے بھی ایسے واقعہ کی تردید اور تکذیب کردینی چاہئے۔ اس لئے کہ جو کچھ واقعہ گزرا اس میں شک شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی۔ اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھلم کھلا سواری پر سوار دن دیہاڑے بھرے لشکر میں پہنچی ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اگر اللہ نہ کرے خاکم بدہن کوئی بھی ایسی بات ہوتی تو یہ اس طرح کھلے بندوں عام مجمع میں نہ آتے بلکہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر شامل ہو جاتے جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ پہنچے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بہتان بازوں کی زبان نے جو قصہ گھڑا وہ محض جھوٹ بہتان اور افترا ہے۔ جس سے انہوں نے اپنے ایمان اور اپنی عزت کو غارت کیا۔ لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اور جب گواہ نہیں لائے تو بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں۔ (۱۳) پھر فرمایا کہ ان بہتان بازوں نے جو کچھ کہا اپنی سچائی پر چار گواہ واقعہ کے کیوں پیش نہیں کئے؟ اور جب کہ یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو شرعاً اللہ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں۔ فاسق و فاجر ہیں۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ (۱۴) فرمان ہے کہ اے وہ لوگوں جنہوں نے صدیقہؓ کی بابت اپنی زبانوں کو بری حرکت دی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا کہ وہ دنیا میں تمہاری توبہ کو قبول کر لے اور آخرت میں تمہیں تمہارے ایمان کی وجہ سے معاف فرما دے تو جس بہتان میں تم نے اپنی زبانیں ہلائیں اس میں تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا ۔ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں ہے جن کے دلوں میں ایمان تھا لیکن رواداری میں کچھ کہہ گئے تھے جیسے حضرت مسطع حضرت حسان ، حضرت حمنہ رضی اللہ عنہم ۔ لیکن جن کے دل ایمان سے خالی تھے جو اس طوفان کے اٹھانے والے تھے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول وغیرہ منافقین یہ لوگ اس حکم میں نہیں تھے ۔ کیونکہ نہ اس کے پاس ایمان تھا نہ عمل صالح ۔ یہ بھی یادرہے کہ جس بدی پر جو وعید ہے وہ اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب توبہ نہ ہو اور اس کے مقابلہ میں اس جیسی یا اس سے بڑی نیکی نہ ہو۔ جب کہ تم اس بات کو پھیلا رہے تھے ، اس سے سن کر اس سے کہی اور اس نے سن کر دوسرے سے کہی ۔ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ جبکہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک بہت بڑی بات تھی۔ (۱۵) حضرت عائشہ کی قرأت میں إِذْ تَلْقَوْنَهُ ہے یعنی جب کہ تم اس جھوٹ کی اشاعت کر رہے تھے ۔ پہلی قرأت جمہور کی ہے۔ اور یہ قرأت ان کی ہے جنہیں اس آیت کا زیادہ علم تھا ۔ اور تم وہ بات زبان سے نکالتے تھے ، جس کا تمہیں علم نہ تھا ۔ تم گو اس کلام کو ہلکا سمجھتے رہے ، لیکن دراصل اللہ کے نزدیک وہ بڑا بھاری کلام تھا ۔ کسی مسلمان عورت کی نسبت ایسی تہمت جرم عظیم ہے ۔ پھر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کے اوپر ایسا کلمہ ، سمجھ لو کہ کتنا بڑا کبیرا گناہ ہوا ؟ اسی لئے رب کی غیرت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر خاتم الانبیاء سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکیزگی ثابت فرمائی ۔ ہر نبی علیہ السلام کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے اس بےحیائی سے دور رکھا ہے پس کیسے ممکن تھا کہ کہ تمام نبیوں کی بیویوں سے افضل اور ان کی سردار ۔ تمام نبیوں سے افضل اور تمام اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اس میں آلودہ ہوں ۔ حاشا وکلا ۔ پس تم گو اس کلام کو بےوقعت سمجھو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ بخاری ومسلم میں ہے : انسان بعض مرتبہ اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ کہہ کر گزرتا ہے ، جس کی کوئی وقعت اس کے نزدیک نہیں ہوتی لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم کے اتنے نیچے طبقے میں پہنچ جاتا ہے کہ جتنی نیچی زمین آسمان سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ نیچا ہوتا ہے ۔ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے ۔ (۱۶) پہلے تو نیک گمانی کا حکم دیا ۔ یہاں دوسرا حکم دے رہا ہے کہ بھلے لوگوں کی شان میں کوئی برائی کا کلمہ بغیر تحقیق ہرگز نہ نکالنا چاہئے ۔ برے خیالات ، گندے الزامات اور شیطانی وسوسوں سے دور رہنا چاہئے ۔ کبھی ایسے کلمات زبان سے نہ نکالنے چاہیں ، گو دل میں کوئی ایساوسوسہ شیطانی پیدا بھی ہو تو زبان قابو میں رکھنی چاہئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر فرمالیا ہے ، جب تک وہ زبان سے نہ کہیں یا عمل میں نہ لائیں (بخاری ومسلم) تمہیں چاہئے تھا کہ ایسے بےہودہ کلام کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ ہم ایسی لغویات سے اپنی زبان نہیں بگاڑتے ۔ ہم سے یہ بے ادبی نہیں ہوسکتی کہ اللہ کے خلیل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کی نسبت کوئی ایسی لغویات کہیں ، اللہ کی ذات پاک ہے ۔ يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مؤمن ہو۔ (۱۷) دیکھو خبردار آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہو ورنہ ایمان کے ضبط ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ایمان سے ہی کورا ہو تو وہ تو بے ادب ، گستاخ اور بھلے لوگوں کی اہانت کرنے والا ہوتا ہی ہے ۔ وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ علم و حکمت والا ہے۔ (۱۸) احکام شرعیہ کو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں یہ تیسری تنبیہ ہے کہ جو شخص کوئی ایسی بات سنے ، اسے اس کا پھیلانا حرام ہے جو ایسی بری خبروں کو اڑاتے پھیرتے ہیں ۔ دنیوی سزا یعنی حد بھی لگے گی اور اخروی سزا یعنی عذاب جہنم بھی ہوگا ۔ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ (۱۹) اللہ تعالیٰ عالم ہے ، تم بےعلم ہو ، پس تمہیں اللہ کی طرف تمام امور لوٹانے چاہئیں ۔ حدیث شریف میں ہے : بندگان اللہ کو ایذاء نہ دو ، انہیں عار نہ دلاؤ ۔ ان کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ٹٹولے گا ۔ اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اسے یہاں تک رسوا کرے گا کہ اس کے گھر والے بھی اسے بری نظر سے دیکھنے لگیں گے ۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھنے والا مہربان ہے (تم پر عذاب اتر جاتا)۔ (۲۰) یعنی اگر اللہ کا فضل وکرم ، لطف ورحم نہ ہوتا تو اس وقت کوئی اور ہی بات ہو جاتی مگر اس نے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالی ۔ پاک ہونے والوں کو بذریعہ حد شرعی کے پاک کر دیا ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ شیطانی طریقوں پر شیطانی راہوں میں نہ چلو ، اس کی باتیں نہ مانو۔ وہ تو برائی کا ، بدی کا، بدکاری کا، بےحیائی کا حکم دیتا ہے ۔ پس تمہیں اس کی باتیں ماننے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اس کے عمل سے بچنا چاہئے اس کے وسوسوں سے دور رہنا چاہے ۔ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۚ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ بےحیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اللہ کی ہر نافرمانی میں قدم شیطان کی پیروی ہے ۔ ایک شخص نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میں نے فلاں چیز کھانے کی قسم کھالی ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ شیطان کا بہکاوا ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور اسے کھالو ۔ ایک شخص نے حضرت شعبی سے کہا کہ میں نے اپنے بچے کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ۔ آپ نے فرمایا ، یہ شیطانی حرکت ہے ، ایسا نہ کرو ، اس کے بدلے ایک بھیڑ ذبح کرو ۔ ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میرے اور میری بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ وہ بگڑ کر کہنے لگیں کہ ایک دن وہ یہودیہ ہے اور ایک دن نصرانیہ ہے اور اس کے تمام غلام آزاد ہیں ، اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ۔ میں نے آکر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ شیطانی حرکت ہے ۔ زینب بن ام سلمہ جو اس وقت سب سے زیادہ دینی سمجھ رکھنے والی عورت تھیں ، انہوں نے بھی یہی فتویٰ دیا اور عاصم بن عمرو کی بیوی نے بھی یہی بتایا ۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ ۗ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے پھر فرماتا ہے اگر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا تو تم میں سے ایک بھی اپنے آپ کو شرک وکفر ، برائی اور بدی سے نہ بچا سکتا ۔ یہ رب کا احسان ہے کہ وہ تمہیں توبہ کی توفیق دتیا ہے پھر تم پر مہربانی سے رجوع کرتا ہے اور تمہیں پاک صاف بنا دیتا ہے ۔ اللہ جسے چاہے پاک کرتا ہے اور جسے چاہے ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اور اللہ سب سننے والا جاننے والا ہے۔ (۲۱) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا ، ان کے احوال کو جاننے والا ہے ۔ ہدایت یاب اور گمراہ سب اس کی نگاہ میں ہیں اور اس میں بھی اس حکیم مطلق کی بےپایاں حکمت ہے ۔ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔ تم میں سے جو کشادہ روزی والے ، صاحب مقدرت ہیں ۔ صدقہ اور احسان کرنے والے ہیں انہیں اس بات کی قسم نہ کھانی چاہئے کہ وہ اپنے قرابت داروں ، مسکینوں ، مہاجروں کو کچھ دیں گے ہی نہیں ۔ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ بلکہ معاف کر دینا اور درگزر کر لینا چاہیے۔ اس طرح انہیں متوجہ فرما کر پھر اور نرم کرنے کے لئے فرمایا کہ ان کی طرف سے کوئی قصور بھی سرزد ہوگیا ہو تو انہیں معاف کر دینا چاہئے ۔ ان سے کوئی ایذاء یا برائی پہنچی ہو تو ان سے درگزر کر لینا چاہئے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم وکرم اور لطف رحم ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بھلائی کا ہی حکم دیتا ہے ۔ یہ آیت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ نے حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنے کی قسم کھالی تھی کیونکہ بہتان صدیقہ میں یہ بھی شامل تھے ۔ جیسے کہ پہلے کی آیتوں کی تفسیر میں یہ واقعہ گزر چکا ہے تو جب حقیقت اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دی ، اُم المؤمنین بری ہوگئیں ، مسلمانوں کے دل روشن ہوگئے ، مؤمنوں کی توبہ قبول ہوگئی ، تہمت رکھنے والوں میں سے بعض کو حد شرعی لگ چکی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق کو حضرت مسطح کی طرف متوجہ فرمایا جو آپ کی خالہ صاحبہ کے فرزند تھے اور مسکین شخص تھے ۔ حضرت صدیق ہی ان کی پرورش کرتے رہتے تھے ، یہ مہاجر تھے لیکن اس بارے میں اتفاقیہ زبان کھل گئی تھی ۔ انہیں تہمت کی حد لگائی گئی تھی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت مشہور تھی ۔ کیا اپنے کیا غیر سب کے ساتھ آپ کا حسن سلوک عام تھا۔ آیت کے یہ خصوصی الفاظ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کان میں پڑے کہ کیا تم بخشش الہٰی کے طالب نہیں ہو ؟ آپ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی ہماری تو عین چاہت ہے کہ اللہ ہمیں بخشے اور اسی وقت سے مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ، جاری کر دیا ۔ یہ بھی خیال میں رہے کہ جس طرح آپ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ واللہ میں اس کے ساتھ کبھی بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اب عہد کیا کہ واللہ میں اس سے کبھی بھی اس کا مقررہ روزینہ نہ روکوں گا ۔ سچ ہے صدیق صدیق ہی تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا مہربان ہے۔ (۲۲) گویا ان آیتوں میں ہمیں تلقین ہوئی کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقصیریں معاف ہوجائیں ۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں کی تقصیروں سے بھی درگزر کر لیا کریں ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے (۲۳) جب کہ عام مسلمان عورتوں پر طوفان اٹھانے والوں کی سزا یہ ہے تو انبیاء کی بیویوں پر جو مسلمانوں کی مائیں ہیں ، بہتان باندھنے والوں کی سزا کیا ہوگی ؟ اور خصوصاً اس بیوی پر جو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ان آیتوں کے نزول کے بعد بھی جو شخص اُم المؤمنین کو اس الزام سے یاد کرے ، وہ کافر ہے کیونکہ اس نے قرآن پاک کے خلاف کیا ۔ آپ کی اور ازواج مطہرات کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ وہ بھی مثل صدیقہ کے ہیں ۔ واللہ اعلم فرماتا ہے کہ ایسے موذی بہتان پرداز دنیا اور آخرت میں لعنت اللہ کے مستحق ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے: إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ۔ (۳۳:۵۷) بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مخصوص ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرماتے ہیں ۔ سعید بن جبیر ، مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حضرت عائشہ سے یہ نقل کیا ہے لیکن پھر جو تفصیل وار روایت لائے ہیں اس میں آپ پر تہمت لگنے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر ہے لیکن آپ کے ساتھ اس حکم کے مخصوص ہونے کا ذکر نہیں۔ پس سبب نزول گو خاص ہو لیکن حکم عام رہتا ہے ۔ ممکن ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہو ۔ واللہ اعلم بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ کل ازواج مطہرات کا تو یہ حکم ہے لیکن اور مؤمنہ عورتوں کا یہ حکم نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت سے تو مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں کہ اہل نفاق جو اس تہمت میں تھے ، سب راندہ درگاہ ہوئے ۔ لعنتی ٹھہرے اور غضب اللہ کے مستحق بن گئے ۔ اس کے بعد عام مؤمنہ عورتوں پر بدکاری کا بہتان باندھنے والوں کے حکم میں آیت وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ،(۲۴:۴) اتری پس انہیں کوڑے لگیں گے ۔ اگر انہوں نے توبہ کی توبہ تو قبول ہے لیکن گواہی ان کی ہمیشہ تک غیر معبتر رہے گی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ سورہ نور کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آیت توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں اتری ہے ۔ ان بہتان بازوں کی توبہ بھی قبول نہیں ۔ اس آیت میں ابہام ہے ۔ اور چار گواہ نہ لاسکنے کی آیت عام ایماندار عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے حق میں ہے ، ان کی توبہ مقبول ہے ، یہ سن کر اکثر لوگوں کا ارادہ ہوا کہ آپ کی پیشانی چوم لیں ۔ کیونکہ آپ نے نہایت ہی عمدہ تفسیر کی تھی۔ ابہام سے مراد یہ ہے کہ ہر پاک دامن عورت کی شان میں حرمت تہمت عام ہے ۔ اور ایسے سب لوگ ملعون ہیں ۔ حضرت عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہر ایک بہتان باز اس حکم میں شامل ہے لیکن حضرت عائشہ بطور اولی ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ بھی عموم ہی کو پسند فرماتے ہیں اور یہی صحیح بھی ہے اور عموم کی تائید میں یہ حدیث بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سات گناہوں سے بچو جو مہلک ہیں ۔ پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا: - اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، - جادو - کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا ، - سود کھانا ، - یتیم کا مال کھانا، - جہاد سے بھاگنا ، - پاک دامن بھولی مؤمنہ پر تہمت لگانا ۔ (بخاری مسلم ) اور حدیث میں ہے: پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والے کی سو سال کی نیکیاں غارت ہیں۔ يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ (۲۴) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کر دیں گے ۔ اسی وقت انکے منہ پر مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: کافروں کے سامنے جب ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بےگناہی بیان کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے ہیں ۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے کے لوگ موجود ہیں ۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا۔ اچھا تم قسمیں کھاؤ ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے ۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ہنس دئے اور فرمانے لگے ۔ جانتے ہو میں کیوں ہنسا ؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے آپ نے فرمایا بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا ؟ اللہ فرمائے گا ہاں ۔ تو یہ کہے گا ، بس آج جو گواہ میں سچا مانوں ، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے ۔ اور وہ گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں ۔ اللہ فرمائے گا ، اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ رہ ۔ اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں گے ۔ اس وقت بندہ کہے گا ، تم غارت ہوجاؤ ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو میں لڑ جھگڑ رہا تھا (مسلم) قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے تھے اے ابن آدم تو خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے ، تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے ، ان کا خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور ظاہری میں ڈرتا رہ ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، اندھیرا اس کے سامنے روشنی کی مانند ہے ۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے ۔ اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت میں مرو ۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں ۔ يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دیگا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے (اور وہی) ظاہر کرنے والا ہے (۲۵) یہاں دین سے مراد حساب ہے ۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے کیونکہ وہ دین کی صفت ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے حق پڑھا ہے اس بنا پر کہ یہ لغت ہے لفظ اللہ کی اس وقت ۔ ابی بن کعب کے مصحف میں يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ الْحَقَّ دِينَهُمُ بعض سلف سے پڑنا مروی ہے۔ اس وقت جان لیں گے کہ اللہ کے وعدے وعید حق ہیں ۔ اس کا حساب عدل والا ہے ظلم سے دور ہے ۔ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ خبیث عورتیں خبیث مرد کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی بری بات برے لوگوں کے لئے ہے ۔ بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں ۔ یعنی اہل نفاق نے صدیقہؓ پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لئے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ پاک ہیں اس لئے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں ۔ یہ آیت بھی حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح سے طیب ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو ۔ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی (۲۶) خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لئے ہوتی ہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں ۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج وایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لئے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی ۔ اور یہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ، جنت عدن میں بھی آپ کے ساتھ ہی رہیں گی۔ ایک مرتبہ اسیر بن جابر حضرت عبداللہ کے پاس آکر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ مؤمن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آجاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے ، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے ، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے ، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد میں حدیث ہے: جو شخص بہت سی باتیں سنے ، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے ۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے اور حدیث میں ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ۚ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاک تم نصیحت حاصل کرو (۲۷) شرعی ادب بیان ہو رہا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت مانگو ، جب اجازت ملے ، جاؤ پہلے سلام کرو ، اگر پہلی دفعہ کی اجازت طلبی پر جواب نہ ملے تو پھر اجازت مانگو ۔ تین مرتبہ اجازت چاہو اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ ۔ صحیح حدیث میں ہے : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔ حدیث میں ہے : ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اجازت مانگی ۔ فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ اللہ تو کہہ دیا لیکن ایسی آواز سے کہ آپ نہ سنیں ۔ چنانچہ تین بار یہی ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے ۔ آپ جواب دیتے لیکن اس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنیں نہیں ۔ اس کے بعد آپ وہاں سے واپس لوٹ چلے ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے پیچھے لپکے ہوئے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تمام آوازیں میرے کانوں میں پہنچ رہی تھیں ۔ میں نے ہر سلام کا جواب بھی دیا لیکن اس خیال سے کہ آپ کی دعائیں بہت ساری لوں اور زیادہ برکت حاصل کروں کہ جواب اس طرح نہ دیا آپ کو سنائی دے اب آپ چلئے ! تشریف رکھئے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے ۔ انہوں نے آپ کے سامنے کشمش لا کر رکھی آپ نے نوش فرمائیں اور فارغ ہو کر فرمانے لگے تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا ۔ فرشتے تم پر رحمت بھیج رہے ہیں ، تمہارے ہاں روزے داروں نے روزہ کھولا ۔ اور روایت میں ہے: جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آہستہ جواب دیا تو ان کے لڑکے حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ آپ نے فرمایا خاموش رہو دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سلام کہیں گے ، ہمیں دوبارہ آپ کی دعا ملے گی ۔ اس میں یہ بھی ہے : یہاں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی ایک چادر پیش کی ، جسے آپ نے جسم مبارک پر لپیٹ لی ، پھر ہاتھ اٹھا کر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعا کی کہ اے اللہ سعد بن عبادہ کی آل پر اپنے درود ورحمت نازل فرما پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں کھانا تناول فرمایا جب واپس جانے کا ارادہ کیا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گدھے پر پالان کس لائے ۔ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لئے پیش کیا اور اپنے لڑکے قیس سے کہا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ ۔ یہ ساتھ چلے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا قیس آؤ تم بھی سوار ہو جاؤ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ نہ ہوسکے گا ۔ آپ نے فرمایا دو باتوں میں سے ایک تمہیں ضرور کرنی ہوگی یا تو میرے ساتھ اس جانور پر سوار ہوجاؤ یا واپس چلے جاؤ حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس جانا منظور کر لیا ۔ یہ یاد رہے کہ اجازت مانگنے والا گھر کے دروازے کے بالمقابل کھڑا نہ رہے بلکہ دائیں بائیں قدرے کھسک کے کھڑا رہے ۔ کیونکہ ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے ہاں جاتے تو اس کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ ادھر یا ادھر قدرے دور ہو کر زور سے سلام کہتے اس وقت تک دروازوں پر پردے بھی نہیں ہوتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے دروازے کے سامنے ہی کھڑے ہو کر ایک شخص نے اجازت مانگی تو آپ نے اسے تعلیم دی کہ نظر نہ پڑے اسی لیے تو اجازت مقرر کی گئی ہے ۔ پھر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر آواز دینے کے کیا معنی ؟ یا تو ذرا سا اِدھر ہو جاؤ یا اُدھر ۔ ایک اور حدیث میں ہے: اگر کوئی تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھانکنے لگے اور تو اسے کنکر مارے جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا ۔ حضرت جابر ایک مرتبہ اپنے والد مرحوم کے قرضے کی ادائیگی کے فکر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دروازہ پر دستک دی تو آپ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں ہوں۔ آپ نے فرمایا " میں میں " گویا آپ نے ناپسند فرمایا کیونکہ "میں " کہنے سے یہ تو معلوم نہیں ہوسکتاکون ہے جب تک کے نام یا مشہور کنیت نہ بتائی جائے " میں " تو ہر شخص اپنے لئے کہہ سکتا ہے ۔ پس اجازت طلبی کا اصلی مقصود حاصل نہیں ہو سکتا۔ استذان استناس ایک ہی بات ہے ۔ ابن عباس فرماتے تھے تَسْتَأْنِسُوا کاتبوں کی غلطی ہے تَسْتَأْذنِوا لکھنا چاہئے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہی قرأت تھی اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی ۔ لیکن یہ بہت غریب ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے مصحف میں حَتَّى تُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا تَسْتَأْنِسُوا وَ تَسْتَأْذنِوا ہے ۔ صفوان بن امیہ جب مسلمان ہوگئے تو ایک مرتبہ کلدہ بن حنبل کو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ آپ اس وقت وادی کے اونچے حصے میں تھے یہ سلام کئے بغیر اور اجازت لئے بغیر ہی آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے فرمایا لوٹ جاؤ ۔ اور کہو السلام علیکم کیا میں آؤں ؟ اور حدیث میں ہے: قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص آپ کے گھر آیا اور کہنے لگا میں اندر آجاؤں ؟ آپ نے اپنے غلام سے فرمایا جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ پہلے تو سلام کرے پھر دریافت کرے ۔ اس شخص نے یہ سن لیا اور اسی طرح سلام کر کے اجازت چاہی آپ نے اجازت دے دی اور وہ اندر گئے ۔ ایک اور حدیث میں ہے آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا تھا (ترمذی) اور حدیث میں ہے: کلام سے پہلے سلام ہونا چاہئے ۔ یہ حدیث ضعیف ہے ، ترمذی میں موجود ہے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضا حاجت سے فارغ ہو کر آرہے تھے لیکن دھوپ کی تاب نہ لا سکے تو ایک قریشی کی جھونپڑی کے پاس پہنچ کر فرمایا السلام علیکم کیا میں اندر آجاؤں اس نے کہا سلامتی سے آجاؤ آپ نے پھر یہی کہا اس نے پھر یہی جواب دیا ۔ آپ کے پاؤں جل رہے تھے کبھی اس قدم پر سہارا لیتے ، کبھی اس قدم پر ، فرمایا یوں کہو کہ آجاؤ ، اب آپ اندر تشریف لے گئے ۔ حضرت عائشہ کے پاس چار عورتیں گئیں ۔ اجازت چاہی کہ کیا ہم آجائیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! تم میں جو اجازت کا طریقہ جانتی ہو اسے کہو کہ وہ اجازت لے ۔ تو ایک عورت نے پہلے سلام کیا ، پھر اجازت مانگی ، حضرت عائشہ نے اجازت دے دی ۔ پھر یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھی جانا ہو تو ضرور اجازت لے لیا کرو ۔ انصار (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بعض دفعہ گھر میں اس حالت میں ہوتی ہوں کہ اس وقت اگر میرے باپ بھی آجائیں یا میرا اپنا لڑکا بھی اس وقت آجائے تو مجھے برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ حالت ایسی نہیں ہوتی کہ اس وقت کسی کی بھی نگاہ مجھ پر پڑے تو میں ناخوش نہ ہوؤں ۔ اور گھر والوں میں سے کوئی آہی جاتا ہے اس وقت یہ آیت اتری ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ تین آیتیں ہیں کہ لوگوں نے ان پر عمل چھوڑ رکھا ہے: - ایک تو یہ کہ اللہ فرماتا ہے تم میں سے سب سے زیادہ بزرگی والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہو ۔ - اور لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ امیر ہو ۔ - اور ادب کی آیتیں بھی لوگ چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ حضرت عطار حمۃ اللہ علیہ نے پوچھا ۔ میرے گھر میں میری یتیم بہنیں ہیں جو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں اور میں ہی انہیں پالتا ہوں کیا ان کے پاس جانے کے لئے بھی مجھے اجازت کی ضرورت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ضرور اجازت طلب کیا کرو ، میں نے دوبارہ یہی سوال کیا کہ شاید کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے آپ نے فرمایا کیا تم انہیں ننگا دیکھنا پسند کروگے ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا پھر ضرور اجازت مانگا کرو ۔ میں نے یہی سوال دوہرایا تو آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کا حکم مانے گا یا نہیں ؟ میں نے یہی سوال دوہرایا تو آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کا حکم مانے گا یا نہیں ؟ میں نے کہا ہاں مانوں گا ۔ آپ نے فرمایا پھر بغیر اطلاع ہرگز ان کے پاس بھی نہ جاؤ ۔ حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں محرمات ابدیہ پر ان کی عریانی کی حالت میں نظر پڑجائے اس سے زیادہ برائی میرے نزدیک اور کوئی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اپنی ماں کے پاس بھی گھر میں بغیر اطلاع کے نہ جاؤ ۔ عطار حمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ بیوی کے پاس بھی بغیر اجازت کے نہ جائے ؟ فرمایا یہاں اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہ قول بھی محمول ہے اس پر کہ اس سے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں لیکن تاہم اطلاع ضرور ہونی چاہئے ممکن ہے وہ اس وقت ایسی حالت میں ہو کہ وہ نہیں چاہتی کہ خاوند بھی اس حالت میں اسے دیکھے ۔ حضرت زینبؓ فرماتی ہیں کہ میرے خاوند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب میرے پاس گھر میں آتے تو کھنکار کر آتے ۔ کبھی بلند آواز سے دروازے کے باہر کسی سے باتیں کرنے لگتے تاکہ گھر والوں کو آپ کی اطلاع ہوجائے چنانچہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے تَسْتَأْنِسُوا کے معنی بھی یہی کئے ہیں کہ کھنکار دے یا جوتیوں کی آہٹ سنا دے ۔ ایک حدیث میں ہے: سفر سے رات کے وقت بغیر اطلاع گھر آجانے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ کیونکہ اس سے گویا گھر والوں کی خیانت کا پوشیدہ طور پر ٹٹولنا ہے ۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک سفر سے صبح کے وقت آئے تو حکم دیا کہ بستی کے پاس لوگ اتریں تاکہ مدینے میں خبر مشہور ہوجائے ، شام کو اپنے گھروں میں جانا ۔ اس لئے کہ اس اثناء میں عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کرلیں ۔ اور حدیث میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سلام تو ہم جانتے ہیں لیکن استیناس کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: سبحان اللہ یا الحمد اللہ یا اللہ اکبر بلند آواز سے کہہ دینا یا کھنکار دینا جس سے گھر والے معلوم کرلیں کہ فلاں آرہا ہے حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تین بار کی اجازت اس لئے مقرر ہے کی ہے کہ پہلی دفعہ میں تو گھروالے معلوم کرلیں کہ فلاں ہے ۔ دوسری دفعہ میں وہ سنبھل جائیں اور ہوشیار ہوجائیں ۔ تیسری مرتبہ میں اگر وہ چاہیں اجازت دیں چاہیں منع کردیں ۔ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ۔ جب اجازت نہ ملے پھر دروازے پر ٹھہرا رہنا برا ہے ، لوگوں کو اپنے کام اور اشغال ایسے ضروری ہوتے ہیں کہ وہ اس وقت اجازت نہیں دے سکتے ۔ مقاتل میں حیان فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں دستور نہ تھا ، ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن سلام نہ کرتے تھے ۔ کسی کے ہاں جاتے تھے تو اجازت نہیں لیتے تھے یونہی جا دھمکے پھر کہہ دیا کہ میں آگیا ہوں ۔ تو بسا اوقات یہ گھر والے پر گراں گزرتا ۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے گھر میں کبھی ایسے حال میں ہوتا ہے کہ اسمیں اس کا آنا بہت برا لگتا ۔ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَى لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزہ ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ (۲۸) اللہ تعالیٰ نے یہ تمام برے دستور اچھے آداب سکھا کر بدل دئیے ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اس میں مکان والے کو آنے والے کو دونوں کو راحت ہے ۔ یہ چیزیں تمہاری نصیحت اور خیر خواہی کی ہیں ۔اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو بے اجازت اندر نہ جاؤ ۔ کیونکہ یہ دوسرے کی ملک میں تصرف کرنا ہے جو ناجائز ہے ۔ مالک مکان کو حق ہے اگر وہ چاہے اجازت دے ، چاہے روک دے ۔ اگر تمہیں کہا جائے ، لوٹ جاؤ تو تمہیں واپس چلا جانا چاہے ۔ اس میں برا ماننے کی بات نہیں بلکہ یہ تو بڑا ہی پیارا طریقہ ہے ۔ بعض مہاجرین رضی اللہ عنہم اجمعین افسوس کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی پوری عمر میں اس وقت آیت پر عمل کرنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کوئی ہم سے کہتا لوٹ جاؤ اور ہم اس آیت کے ماتحت وہاں سے واپس ہو جاتے ، اجازت نہ ملنے پر دروازے پر ٹھہرے رہنا بھی منع فرما دیا ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ ۚ ہاں غیر آباد گھروں میں جہاں تمہارا کوئی فائدہ یا اسباب ہو، جانے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں ان گھروں میں بلا اجازت جانے کی رخصت ہے جہاں کوئی نہ ہو اور وہاں اس کا کوئی سامان وغیرہ ہو ۔ جیسے کہ مہمان خانہ وغیرہ ۔ یہاں جب پہلی مربتہ اجازت مل گئی پھر ہربار کی اجازت ضروری نہیں ۔ تو گویا یہ آیت پہلی آیت سے استثنا ہے ۔ اسی طرح کی ایسے تاجروں کے گودام مسافر خانے وغیرہ ۔ اور اول بات زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ زید کہتے ہیں مراد اس سے بیت الشعر ہے ۔ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ تم جو کچھ بھی ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ (۲۹) اللہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ۔ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ (۳۰) حکم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو ۔ حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو ۔ اگر بالفرض نظر پڑجائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو ۔ صحیح مسلم میں ہے: حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا : اپنی نگاہ فورا ہٹا لو ۔ نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ ﷺنے فرمایا : علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نظر پر نظر نہ جماؤ ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصداً معاف نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا" راستوں پر بیٹھنے سے بچو " ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لئے وہ تو ضروری ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا: نیچی نگاہ رکھنا، کسی کو ایذاء نہ دینا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا، بری باتوں سے روکنا ۔ آپ ﷺفرماتے ہیں چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ - بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ۔ - امانت میں خیانت نہ کرو ۔ - وعدہ خلافی نہ کرو۔ - نظر نیچی رکھو ۔ - ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ۔ - اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ۔ صحیح بخاری میں ہے: جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے ۔ میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں ، عبیدہ کا قول ہے: جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو ، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے ، اس لئے شرمگاہ کو بچانے کے لئے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا ۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے ۔ محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے ۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے ۔ اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے ۔ آپﷺ فرماتے ہیں : جس کی نظر کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے ۔ اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے ۔اور ایسی احادیث میں سند کی اتنی زیادہ دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں ہے : یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروگے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا (اعاذنا اللہ من کل عذابہ ) فرماتے ہیں : نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے ، اللہ اس کے دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لا محالہ پالے گا ، - آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ۔ - زبان کا زنا بولنا ہے ۔ - کانوں کا زنا سننا ہے ۔ - ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے ۔ - پیروں کا زنا چلنا ہے ۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے ۔ پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے ۔ (رواہ البخاری تعلیقا) اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے ۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے ۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے ۔ گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے یہاں اللہ تعالیٰ مؤمنہ عورتوں کو چند حکم دیتا ہے تاکہ ان کے باغیرت مردوں کو تسکین ہو اور جاہلیت کی بری رسمیں نکل جائیں ۔ مروی ہے کہ اسماء بنت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مکان بنوحارثہ کے محلے میں تھا ۔ ان کے پاس عورتیں آتی تھیں اور دستور کے مطابق اپنے پیروں کے زیور ، سینے اور بال کھولے آیا کرتی تھیں ۔ حضرت اسماء نے کہا یہ کیسی بری بات ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پس حکم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہئیں ۔ سوا اپنے خاوند کے کسی کو بہ نظر شہوت نہ دیکھنا چاہئے ۔ اجنبی مردوں کی طرف تو دیکھنا ہی حرام ہے خواہ شہوت سے ہو خواہ بغیر شہوت کے ۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت اُم سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیٹھی تھیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے آئے ۔ یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پردہ کر لو ۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ ! وہ تو نابینا ہیں ، نہ ہمیں دیکھیں گے ، نہ پہچانیں گے ۔ آپ ﷺنے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو کہ اس کو نہ دیکھو ؟ ہاں بعض علماء نے بےشہوت نظر کرنا حرام نہیں کہا ۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ عید والے دن حبشی لوگوں نے مسجد میں ہتھیاروں کے کرتب شروع کئے اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا آپ دیکھ ہی رہی تھیں یہاں تک کہ جی بھر گیا اور تھک کر چلی گئیں ۔ عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچاؤ چاہئے،بدکاری سے دور رہیں ،اپنا آپ کسی کو نا دکھائیں ۔ اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں ہاں جس کاچھپانا ممکن ہی نہ ہو،اس کی اور بات ہے جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جنکا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لئے ناممکنات سے ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ ، پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں ، جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کردی ہے ۔ جب کہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں یعنی بالیاں ہار پاؤں کا زیور وغیرہ ۔ فرماتے ہیں - زینت دو طرح کی ہے ایک تو وہ جسے خاوند ہی دیکھے جیسے انگوٹھی اور کنگن - اور دوسری زینت وہ جسے غیر بھی دیکھیں جیسے اوپر کا کپڑا ۔ زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ان کے سامنے تو کنگن دوپٹہ بالیاں کھل جائیں تو حرج نہیں لیکن اور لوگوں کے سامنے صرف انگوٹھیاں ظاہر ہوجائیں تو پکڑ نہیں ۔ اور روایت میں انگوٹھیوں کے ساتھ ہی پیر کے خلخال کا بھی ذکر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفیسر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منہ اور پہنچوں سے کی ہو ۔ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کپڑے باریک پہنے ہوئے تھیں تو آپ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا: جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو سوا اس کے اور اس کے یعنی چہرہ کے اور پہنچوں کے اس کا کوئی عضو دکھانا ٹھیک نہیں۔ لیکن یہ مرسل ہے ۔خالد بن دریک رحمۃاللہ علیہ اسے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا ام المؤمنین سے ملاقات کرنا ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ ۖ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں عورتوں کو چاہئے کہ اپنے دوپٹوں سے یا اور کپڑے سے بکل مار لیں تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے ۔ جاہلیت میں اس کا بھی رواج نہ تھا ۔ عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتیں تھیں بسا اوقات گردن اور بال چوٹی بالیاں وغیرہ صاف نظر آتی تھیں ۔ ایک اور آیت میں ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ اے نبی ﷺ اپنی بیویوں سے، اپنی بیٹیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں ۔ (۳۳:۵۹) خُمُر خُمُار کی جمع ہے خُمُار کہتے ہیں ہر اس چیز کو جو ڈھانپ لے ۔ چونکہ دوپٹہ سر کو ڈھانپ لیتا ہے اس لئے اسے بھی خُمُار کہتے ہیں ۔ پس عورتوں کو چاہے کہ اپنی اوڑھنی سے یا کسی اور کپڑے سے اپنا گلا اور سینہ بھی چھپائے رکھیں ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے شروع شروع ہجرت کی تھی کہ جب یہ آیت اتری انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے ۔ بعض نے اپنے تہمد کے کنارے کاٹ کر ان سے سر ڈھک لیا۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے پاس عورتوں نے قریش عورتوں کی فضیلت بیان کرنی شروع کی تو آپ نے فرمایا ان کی فضیلت کی قائل میں بھی ہوں لیکن واللہ میں نے انصار کی عورتوں سے افضل عورتیں نہیں دیکھیں ، ان کے دلوں میں جو کتاب اللہ کی تصدیق اور اس پر کامل ایمان ہے ، وہ بیشک قابل قدر ہے ۔ سورہ نور کی آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ جب نازل ہوئی اور ان کے مردوں نے گھر میں جاکر یہ آیت انہیں سنائی ، اسی وقت ان عورتوں نے اس پر عمل کر لیا اور صبح کی نماز میں وہ آئیں تو سب کے سروں پر دوپٹے موجود تھے ۔ گویا ڈول رکھے ہوئے ہیں ۔ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں سے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یہاں ان مردوں کا بیان فرمایا جن کے سامنے عورت ہوسکتی ہے اور بغیر بناؤ سنگھار کے ان کے سامنے شرم وحیا کے ساتھ آجاسکتی ہے گو بعض ظاہری زینت کی چیزوں پر بھی ان کی نظر پڑ جائے۔ سوائے خاوند کے کہ اس کے سامنے تو عورت اپنا پورا سنگھار زیب زینت کرے ۔ گو چچا اور ماموں بھی ذی محرم ہیں لیکن ان کا نام یہاں اس لئے نہیں لیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے محاسن بیان کریں ۔ اس لئے ان کے سامنے بغیر دوپٹے کے نہ آنا چاہئے ۔ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کےیا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں پھر فرمایا تمہاری عورتیں یعنی مسلمان عورتوں کے سامنے بھی اس زینت کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ۔ اہل ذمہ کی عورتوں کے سامنے اس لئے رخصت نہیں دی گئی کہ بہت ممکن ہے وہ اپنے مردوں میں ان کی خوبصورتی اور زینت کا ذکر کریں ۔ گو مؤمن عورتوں سے بھی یہ خوف ہے مگر شریعت نے چونکہ اسے حرام قرار دیا ہے اس لئے مسلمان عورتیں تو ایسا نہ کریں گی لیکن ذمی کافروں کی عورتوں کو اس سے کون سی چیز روک سکتی ہے ؟ بخاری مسلم میں ہے: کسی عورت کو جائز نہیں کہ دوسری عورت سے مل کر اسکے اوصاف اپنے خاوند کے سامنے اس طرح بیان کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مسلمان عورتیں حمام میں جاتی ہیں ، ان کے ساتھ مشرکہ عورتیں بھی ہوتی ہیں ۔ سنو کسی مسلمان عورت کو حلال نہیں کہ وہ اپناجسم کسی غیر مسلمہ عورت کو دکھائے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بھی آیت أَوْ نِسَائِهِنَّ کی تفسیر میں فرماتے ہیں مراد اس سے مسلمان عورتیں ہیں تو ان کے سامنے وہ زینت ظاہر کر سکتی ہے جو اپنے ذی محرم رشتے داروں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے ۔ یعنی گلابالیاں اور ہار ۔ پس مسلمان عورت کو ننگے سر کسی مشرکہ عورت کے سامنے ہونا جائز نہیں۔ ایک روایت میں ہے: جب صحابہ بیت المقدس پہنچے تو ان کی بیویوں کے لئے دایہ یہودیہ اور نصرانیہ عورتیں ہی تھیں ۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے تو محمول ہوگا ضرورت پر یا ان عورتوں کی ذلت پر ۔ پھر اس میں غیر ضروری جسم کا کھلنا بھی نہیں ۔ واللہ اعلم ہاں مشرکہ عورتوں میں جو لونڈیاں باندیاں ہوں وہ اس حکم سے خارج ہیں ۔ بعض کہتے ہیں غلاموں کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابو داؤد میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس انہیں دینے کے لیے ایک غلام لے کر آئے ۔ حضرت فاطمہ اسے دیکھ کر اپنے آپ کو اپنے دو پٹے میں چھپانے لگیں ۔ لیکن چونکہ کپڑا چھوٹا تھا ، سر ڈھانپتی تھیں تو پیر کھل جاتے تھے اور پیر ڈھانپتی تھیں تو سرکھل جاتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا بیٹی کیوں تکلیف کرتی ہو میں تو تمہارا والد ہوں اور یہ تمہارا غلام ہے ۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ اس غلام کا نام عبداللہ بن مسعدہ تھا ۔ یہ فزاری تھے ۔ سخت سیاہ فام ۔ حضرت فاطمۃالزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں پرورش کر کے آزاد کر دیا تھا۔ صفین کی جنگ میں یہ حضرت معاویہؓ کے ساتھ تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت مخالف تھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: تم میں سے جس کسی کا مکاتب غلام ہو جس سے یہ شرط ہوگئی ہو کہ اتنا روپیہ دے دے تو تو آزاد ، پھر اس کے پاس اتنی رقم بھی جمع ہوگئی ہو تو چاہئے کہ اس سے پردہ کرے پھر بیان فرمایا کہ نوکر چاکر کام کاج کرنے والے ان مردوں کے سامنے جو مردانگی نہیں رکھتے عورتوں کی خواہش جنہیں نہیں ۔ اس مطلب کے ہی وہ نہیں ، ان کا حکم بھی ذی محرم مردوں کا ہے یعنی ان کے سامنے بھی اپنی زینت کے اظہار میں مضائقہ نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سست ہوگئے ہیں عورتوں کے کام کے ہی نہیں ۔ لیکن وہ مخنث اور ہیجڑے جو بد زبان اور برائی کے پھیلانے والے ہوتے ہیں ان کا یہ حکم نہیں ۔ جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک ایسا ہی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آیا تھا چونکہ اسے اسی آیت کے ماتحت آپ کی ازواج مطہرات نے سمجھا اسے منع نہ کیا تھا ۔ اتفاق سے اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ، اس وقت وہ حضرت ام سلمہؓ کے بھائی عبداللہ ؓسے کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب طائف کو فتح کرائے گا تو میں تجھے غیلان کی لڑائی دکھاؤں گا کہ آتے ہوئے اس کے پیٹ پر چار شکنیں پڑتی ہیں اور واپس جاتے ہوئے آٹھ نظر آتی ہیں ۔ اسے سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار ایسے لوگوں کو ہرگز نہ آنے دیا کرو۔ اس سے پردہ کر لو ۔ چنانچہ اسے مدینے سے نکال دیا گیا ۔ بیداء میں یہ رہنے لگا وہاں سے جمعہ کے روز آجاتا اور لوگوں سے کھانے پینے کو کچھ لے جاتا ۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں چھوٹے بچوں کے سامنے ہونے کی اجازت ہے جو اب تک عورتوں کے مخصوص اوصاف سے واقف نہ ہوں ۔ عورتوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں نہ پڑتی ہوں ۔ ہاں جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں کہ ان میں تمیز آجائے ۔ عورتوں کی خوبیاں ان کی نگاہوں میں جچنے لگیں ، خوبصورت بد صورت کا فرق معلوم کرلیں ۔ پھر ان سے بھی پردہ ہے گو وہ پورے جوان نہ بھی ہوئے ہوں۔ بخاری ومسلم میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو ! عورتوں کے پاس جانے سے بچو پوچھا گیا کہ یارسول اللہ دیور جیٹھ ؟ آپ نے فرمایا وہ تو موت ہے ۔ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے پھر فرمایا کہ عورتیں اپنے پیروں کو زمین پر زور زور سے مار مار کر نہ چلیں جاہلیت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ زور سے پاؤں زمین پر رکھ کر چلتی تھیں تاکہ پیر کا زیور بجے ۔ اسلام نے اس سے منع فرما دیا ۔ پس عورت کو ہر ایک ایسی حرکت منع ہے جس سے اس کا کوئی چھپا ہوا سنگھار کھل سکے ۔ پس اسے گھر سے عطر اور خوشبولگاکر باہر نکلنا بھی ممنوع ہے ۔ ترمذی میں ہے کہ ہر آنکھ زانیہ ہے ۔ ابوداؤد میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک عورت خوشبو سے مہکتی ہوئی ملی ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو مسجد سے آرہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تم نے خوشبو لگائی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ آپ نے فرمایا ۔ میں نے اپنے حبیب ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو عورت اس مسجد میں آنے کے لئے خوشبو لگائے ، اس کی نماز نا مقبول ہے جب کہ وہ لوٹ کر جنابت کی طرح غسل نہ کر لے ۔ ترمذی میں ہے: اپنی زینت کو غیر جگہ ظاہر کرنے والی عورت کی مثال قیامت کے اس اندھیرے جیسی ہے جس میں نور نہ ہو ۔ ابوداؤد میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں عورتوں کو راستے میں ملے جلے چلتے ہوئے دیکھ کر فرمایا عورتو! تم ادھر ادھر ہو جاؤ ، تمہیں بیچ راہ میں نہ چلنا چاہئے ۔ یہ سن کر عورتیں دیوار سے لگ کر چلنے لگیں یہاں تک کہ ان کے کپڑے دیواروں سے رگڑتے تھے ۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پاؤ (۳۱) پھر فرماتا ہے کہ اے مؤمنو! میری بات پر عمل کرو ، ان نیک صفتوں کو لے لو ، جاہلیت کی بدخصلتوں سے رک جاؤ ۔ پوری فلاح اور نجات اور کامیابی اسی کے لئے ہے جو اللہ کا فرمانبردار ہو، اس کے منع کردہ کاموں سے رک جاتا ہو ، اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ تم سے جو مرد عورت بےنکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام بیان فرما دئیے ہیں اولاً نکاح کا ۔ علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتاہو ، اسے نکاح کر لینا چاہئے ۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے طاقت نہ ہو وہ لازمی طور پر روزے رکھے ، یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے (بخاری مسلم ) سنن میں ہے آپ ﷺفرماتے ہیں: زیادہ اولاد جن سے ہونے کی امید ہو ان سے نکاح کرو تاکہ نسل بڑھے میں تمہارے ساتھ اور اُمتوں میں فخر کرنے والا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی ۔ أَيَامَى جمع ہے أَيَمَ کی ۔ جوہری کہتے ہیں اہل لغت کے نزدیک بےبیوی کا مرد اور بےخاوند کی عورت کو أَيَمَ کہتے ہیں ، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو ۔ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اگر وہ مفلس بھی ہونگیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا علم والا ہے۔ (۳۲) پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل وکرم سے مالدار بنا دے گا۔ خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام ہوں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا قول ہے تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو، وہ تم سے اپناوعدہ پورا کرے گا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امیری کو نکاح میں طلب کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تین قسم کے لوگوں کی مدد کا اللہ کے ذمے حق ہے ۔ - نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے ۔ - وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو ، - وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو ۔ (ترمذی) اسی کی تایئد میں وہ روایت ہے جس میں ہے: رسولﷺ نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا ، جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ نے اس کا نکاح کر دیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے ، اپنی بیوی کو یاد کرا دے ۔ یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل وکرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفالت ہو ۔ ایک حدیث اکثر لوگ وارد کیا کرتے ہیں کہ فقیری میں بھی نکاح کیا کرو اللہ تمہیں غنی کر دے گا میری نگاہ سے تو یہ حدیث نہیں گزری ۔ نہ کسی قوی سند سے نہ ضعیف سند سے ۔ اور نہ ہمیں ایسی لا پتہ روایت کے اس مضمون میں کوئی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی اس آیت اور ان احادیث میں یہ چیز موجود ہے ، فالحمد للہ وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے، پھر حکم دیا کہ جنہیں نکاح کامقدور نہیں وہ حرام کاری سے بچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اے جوان لوگو ! تم میں سے جو نکاح کی وسعت رکھتے ہوں ، وہ نکاح کرلیں یہ نگاہ نیچی کرنے والا ، شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو وہ اپنے ذمے روزوں کا رکھنا ضروری کر لے یہی اس کے لئے خصی ہونا ہے ۔ یہ آیت مطلق ہے اور سورہ نساء کی آیت اس سے خاص ہے یعنی یہ فرمان: وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ (۴:۲۵) اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت و طاقت نہ ہو وہ مسلمان لونڈیوں سے جنکے تم مالک ہو اپنا نکاح کر لو پس لونڈیوں سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے ۔ اس لئے کہ اس صورت میں اولاد پر غلامی کا حرف آتا ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو مرد کسی عورت کو دیکھے اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو اسے چاہئے کہ اگر اس کی بیوی موجود ہو تو اس کے پاس چلا جائے ورنہ اللہ کی مخلوق میں نظریں ڈال اور صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اسے غنی کر دے ۔ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں کر دیا کرواگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے فرماتا ہے جو غلاموں کے مالک ہیں کہ اگر ان کے غلام ان سے اپنی آزادگی کی بابت کوئی تحریر کرنی چاہیں تو وہ انکار نہ کریں ۔ غلام اپنی کمائی سے وہ مال جمع کر کے اپنے آقا کو دے دے گا اور آزاد ہو جائے گا ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں یہ حکم ضروری نہیں فرض و واجب نہیں بلکہ بطور استحباب کے اور خیر خواہی کے ہے ۔ آقا کو اختیار ہے کہ غلام جب کوئی ہنر جانتا ہو اور وہ کہے کہ مجھ سے اسی قدر روپیہ لے لو اور مجھے آزاد کر دو تو اسے اختیار ہے خواہ اس قسم کا غلام اس سے اپنی آزادگی کی بابت تحریر چاہے وہ اس کی بات کو قبول کر لے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام سیرین نے جو مالدار تھا ان سے درخواست کی کہ مجھ سے میری آزادی کی کتابت کر لو ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کر دیا ، دربار فاروقی میں مقدمہ گیا ، آپ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا اور ان کے نہ ماننے پر کوڑے لگوائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ انہوں نے تحریر لکھوا دی ۔ (بخاری) عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں قول مروی ہیں ۔ امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کا قول یہی تھا لیکن نیا قول یہ ہے کہ واجب نہیں ۔ کیونکہ حدیث میں ہے مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی خوشی کے حلال نہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ واجب نہیں ۔ میں نے نہیں سنا کہ کسی امام نے کسی آقا کو مجبور کیا ہو کہ وہ اپنے غلام کی آزادگی کی تحریر کر دے ، اللہ کا یہ حکم بطور اجازت کے ہے نہ کہ بطور وجوب کے ۔ یہی قول امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا ہے ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مختار قول وجوب کا ہے ۔ خَيْرًا سے مراد امانت داری ، سچائی ، مال اور مال کے حاصل کرنے پر قدرت وغیرہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر تم اپنے غلاموں میں جو تم سے مکاتب کرنا چاہیں ، مال کے کمانے کی صلاحیت دیکھو تو ان کی اس خواہش کو پوری کرو ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالیں گے یعنی ان سے سوال کریں گے اور رقم پوری کرنا چاہیں گے وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو، فرمایا کہ انہیں اپنے مال میں سے کچھ دو ۔ یعنی جو رقم ٹھہر چکی ہے ، اس میں سے کچھ معاف کر دو ۔ چوتھائی یا تہائی یا آدھا یا کچھ حصہ ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ مال زکوٰۃ سے ان کی مدد کرو آقا بھی اور دوسرے مسلمان بھی اسے مال زکوٰۃ دیں تاکہ وہ مقرر رقم پوری کر کے آزاد ہو جائے ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ پر برحق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبہ کیا تھا جب وہ اپنی رقم کی پہلی قسط لیکر آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ اپنی اس رقم میں دوسروں سے بھی مدد طلب کرو اس نے جواب دیا کہ امیرالمؤمنین آپ آخری قسط تک تو مجھے ہی محنت کرنے دیجئے ۔ فرمایا نہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کے اس فرمان کو ہم چھوڑ نہ بیٹھیں کہ انہیں اللہ کا وہ مال دو جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ پس یہ پہلی قسطیں تھیں جو اسلام میں ادا کی گئیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ شروع شروع میں آپ نہ کچھ دیتے تھے نہ معاف فرماتے تھے کیونکہ خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو آخر میں یہ رقم پوری نہ کرسکے تو میرا دیا ہوا مجھے ہی واپس آجائے ۔ ہاں آخری قسطیں ہوتیں تو جو چاہتے اپنی طرف سے معاف کر دیتے ۔ ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ چوتھائی چھوڑ دو ۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ۔ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں سے زبردستی بدکاریاں نہ کراؤ ۔ جاہلیت کے بدترین طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ زنا کاری کرائیں اور وہ رقم اپنے مالکوں کو دیں ۔ اسلام نے آکر اس بد رسم کو توڑا ۔ منقول ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں اتری ہے ، وہ ایسا ہی کرتا تھا تاکہ روپیہ بھی ملے اور لونڈی زادوں سے شان ریاست بھی بڑھے ۔ اس کی لونڈی کا نام معاذہ تھا ۔ اور روایت میں ہے اس کا نام مسیکہ تھا ۔ اور یہ بدکاری سے انکار کرتی تھی ۔ جاہلیت میں تو یہ کام چلتا رہا یہاں تک اسے ناجائز اولاد بھی ہوئی لیکن اسلام لانے کے بعد اس نے انکار کردیا ، اس پر اس منافق نے اسے زدوکوب کیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ مروی ہے: بدر کا ایک قریشی قیدی عبداللہ بن ابی کے پاس تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کی لونڈی سے ملے ، لونڈی بوجہ اسلام کے حرام کاری سے بچتی تھی ۔ عبداللہ کی خواہش تھی کہ یہ اس قریشی سے ملے ، اس لئے اسے مجبور کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سردار منافقین اپنی اس لونڈی کو اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھیج دیا کرتا تھا ۔ اسلام کے بعد اس لونڈی سے جب یہ ارادہ کیا گیا تو اس نے انکار کر دیا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی یہ مصیبت بیان کی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار محمدی میں یہ بات پہنچائی ۔ آپ ﷺنے حکم دیا کہ اس لونڈی کو اس کے ہاں نہ بھیجو ۔ اس نے لوگوں میں غل مچانا شروع کیا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری لونڈیوں کو چھین لیتا ہے اس پر یہ آسمانی حکم اترا ۔ ایک روایت میں ہے: مسیکہ اور معاذ دو لونڈیاں دو شخصوں کی تھیں ، جو ان سے بدکاری کراتے تھے ۔ اسلام کے بعد مسیکہ اور اس کی ماں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، اس پر یہ آیت اتری ۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ لونڈیاں پاک دامنی کا ارادہ کریں اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ان کا ارادہ یہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت واقعہ یہی تھا اس لئے یوں فرمایا گیا ۔ پس اکثریت اور غلبہ کے طور پر یہ فرمایا گیا ہے کوئی قید اور شرط نہیں ہے ۔ اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ مال حاصل ہو ، اولادیں ہوں جو لونڈیاں غلام بنیں۔ حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگانے کی اجرت ، بدکاری کی اجرت ، کاہن کی اجرت سے منع فرمادیا ۔ ایک اور روایت میں ہے: زنا کی خرچی اور پچھنے لگانے والی کی قیمت اور کتے کی قیمت خبیث ہے۔ وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ اور جو انہیں مجبور کر دے تو اللہ تعالیٰ ان پر جبر کے بعد بخش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ (۳۳) پھر فرماتا ہے جو شخص ان لونڈیوں پر جبر کرے تو انہیں تو اللہ بوجہ ان کی مجبوری بخش دے گا اور ان مالکوں کو جنہوں نے ان پر دباؤ زور زبردستی ڈالی تھی انہیں پکڑ لے گا ۔ اس صورت میں یہی گنہگار رہیں گے ۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرآت میں رَحِيمٌ کے بعد آیت واثمہن علی من اکرھھن ہے ۔ یعنی اس حالت میں جبر اور زبردستی کرنے والوں پر گناہ ہے ۔ مرفوع حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کی خطا سے ، بھول سے اور جن کاموں پر وہ مجبور کر دئیے جائیں ، ان پر زبردستی کی جائے ان سے درگزر فرمالیا ہے ۔ وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ ہم نے تمہاری طرف کھلی اور روشن آیتیں اتار دی ہیں اور ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت۔ (۳۴) ان احکام کو تفصیل وار بیان کرنے کے بعد بیان ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے کلام قرآن کریم کی یہ روشن و واضح آیات تمہارے سامنے بیان فرما دیں ۔ اگلے لوگوں کے واقعات بھی تمہارے سامنے آچکے کہ ان کی مخالفت حق کا انجام کیا اور کیسا ہوا؟ وہ ایک افسانہ بنا دئے گئے اور آنے والوں کے لئے عبرتناک واقعہ بنا دیئے گئے کہ متقی ان سے عبرت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے : قرآن میں تمہارے اختلاف کے فیصلے موجود ہیں ۔ تم سے پہلے زمانہ کے لوگوں کی خبریں موجود ہیں ۔ بعد میں ہونے والے امور کے احوال کا بیان ہے ۔ یہ مفصل ہے بکواس نہیں اسے جو بھی بےپرواہی سے چھوڑے گا ، اسے اللہ برباد کر دے گا اور جو اس کے سوا دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا ۔ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا مدبر کائنات نور ہی نور ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : اللہ ہادی ہے ، آسمان والوں اور زمین والوں کا ۔ وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ کا نور ہدایت ہے ۔ ابن جریر اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس کے نور کی مثال یعنی اس کا نور رکھنے والے مؤمن کی مثال جن کے سینے میں ایمان و قرآن ہے ، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ۔ اولاً اپنے نور کا ذکر کیا پھر مؤمن کی نورانیت کا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کے نور کی مثال بلکہ حضرت ابی اس کو اس طرح پڑھتے تھے مثل نور من امن بہ ابن عباس کا اس طرح پڑھنا بھی مروی ہے کذالک نور من امن باللہ بعض کی قرأت میں اللَّهُ نُورٌ ہے یعنی اس نے آسمان وزمین کو نورانی بنا دیا ہے ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی کے نور سے آسمان وزمین روشن ہیں ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے: جس دن اہل طائف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذاء پہنچائی تھی آپ نے اپنی دعا میں فرمایا تھا : اعوذ بنور وجہک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان یحل بی غضبک او ینزل بی سخطک لک العتبی حتی ترضی ولا حول ولا قوۃ الا باللہ اس دعا میں ہے کہ تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ میں آرہا ہوں جو اندھیروں کو روشن کر دیتا ہے اور جس پر دنیا آخرت کی صلاحیت موقوف ہے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تب یہ فرماتے : اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ اللہ تیرے ہی لئے ہے سب تعریف سزاوار ہے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نورہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہارے رب کے ہاں رات اور دن نہیں، اس کے چہرے کے نور کی وجہ سے اس کے عرش کا نور ہے ۔ پس مؤمن کے دل کی صفائی کو بلور کے فانوس سے مشابہت دی اور پھر قرآن اور شریعت سے جو مدد اسے ملتی رہتی ہے اس کی زیتون کے اس تیل سے تشبیہ دی جو خود صاف شفاف چمکیلا اور روشن ہے ۔ پس طاق اور طاق میں چراغ اور وہ بھی روشن چراغ ۔ یہودیوں نے اعتراضاً کہا تھا کہ اللہ کانور آسمانوں کے پار کیسے ہوتا ہے ؟ تو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ جیسے فانوس کے شیشے سے روشنی ۔ پس فرمایا کہ اللہ آسمان زمین کا نور ہے ۔ نُورٌ کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک تو لفظ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کی ہدایت جو مؤمن کے دل میں ہے اس کی مثال یہ ہے ۱ور بعض کے نزدیک مؤمن ہے جس پر سیاق کلام کی دلالت ہے یعنی مؤمن کے دل کے نور کی مثال مثل طاق کے ہے ۔ جیسے فرمان ہے: أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ کیا وہ شخص جو اپنے رب کے پاس کی دلیل پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف کا گواہ ہو (۱۱:۱۷) مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖالْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس پر چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی طرح قندیل میں ہو مِشْكَاةٍ کے معنی گھر کے طاق کے ہیں یہ مثال اللہ نے اپنی فرمانبرداری کی دی ہے اور اپنی اطاعت کو نُورِهِ فرمایا ہے پھر اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔ مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ حبشہ کی لغت میں اسے طاق کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں ایسا طاق جس میں کوئی اور سوراخ وغیرہ نہ ہو ۔ فرماتے ہیں اسی میں قندیل رکھی جاتی ہے ۔ پہلا قول زیادہ قوی ہے یعنی قندیل رکھنے کی جگہ ۔ چنانچہ قرآن میں بھی ہے کہ اس میں چراغ ہے ۔ پس مِصْبَاحٌ سے مراد نور ہے یعنی قرآن اور ایمان جو مسلمان کے دل میں ہوتا ہے ۔ سدی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں چراغ مراد ہے الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو پھر فرمایا یہ روشنی جس میں بہت ہی خوبصورتی ہے ، یہ صاف قندیل میں ہے ، یہ مؤمن کے دل کی مثال ہے ۔ پھر وہ قندیل ایسی ہے جیسے موتی جیسا چمکیلا روشن ستارہ ۔ اس کی دوسری قرأت دُرِّئٌّ اور دُرِّايٌّ بھی ہے ۔ یہ ماخوذ ہے در سے جس کے معنی دفع کے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ٹوٹتا ہے اس وقت وہ بہت روشن ہوتا ہے اور جو ستارے غیر معروف ہیں انہیں بھی عرب دراری کہتے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ہے جو خوب ظاہر ہو اور بڑا ہو ۔ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے پھر اس چراغ میں تیل بھی مبارک درخت زیتون کا ہو ۔ زَيْتُونَةٍ کا لفظ بدل ہے یا عطف بیان ہے ۔ پھر وہ زیتون کا درخت بھی نہ مشرقی ہے کہ اول دن سے اس پر دھوپ آجائے ۔ اور نہ مغربی ہے کہ غروب سورج سے پہلے اس پر سے سایہ ہٹ جائے بلکہ وسط جگہ میں ہے ۔ صبح سے شام تک سورج کی صاف روشنی میں رہے ۔ پس اس کا تیل بھی بہت صاف ، چمکدار اور معتدل ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ وہ درخت میدان میں ہے کوئی درخت ، پہاڑ ، غار یا کوئی اور چیز اسے چھپائے ہوئے نہیں ہے ۔ اس وجہ سے اس درخت کا تیل بہت صاف ہوتا ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صبح سے شام تک کھلی ہوا اور صاف دھوپ اسے پہنچتی رہتی ہے کیونکہ وہ کھلے میدان میں درمیان کی جگہ ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا تیل بہت پاک صاف اور روشن چمک دار ہوتا ہے اور اسے نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی ۔ ایسا درخت بہت سرسبز اور کھلا ہوتا ہے پس جیسے یہ درخت آفتوں سے بچاہوا ہوتا ہے ، اسی طرح مؤمن فتنوں سے محفوظ ہوتا ہے اگر کسی فتنے کی آزمائش میں پڑتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھتا ہے ۔ پس اسے چار صفتیں قدرت دے دیتی ہے - بات میں سچ - حکم میں عدل - بلا پر صبر - نعمت پر شکر پھر وہ اور تمام انسانوں میں ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی زندہ جو مردوں میں ہو ۔ حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں اگر یہ درخت دنیا میں زمین پر ہوتا تو ضرور تھا کہ مشرقی ہوتا یا مغربی لیکن یہ تو نور الہٰی کی مثال ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے نیک مرد کی جو نہ یہودی ہے نہ نصرانی ۔ ان سب اقول میں بہترین قول پہلا ہے کہ وہ درمیانہ زمین میں ہے کہ صبح سے شام تک بےروک ہوا اور دھوپ پہنچتی ہے کیونکہ چاروں طرف سے کوئی آڑ نہیں تو لامحالہ ایسے درخت کا تیل بہت زیادہ صاف ہوگا اور لطیف اور چمکدار ہوگا ۔ اسی لئے فرمایا کہ خود وہ تیل اتنا لطیف ہے کہ گویا بغیر جلائے روشنی دے ۔ نُورٌ عَلَى نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ نور پر نور ہے اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے نور پر نور ہے ۔ یعنی ایمان کانور پھر اس پر نیک اعمال کا نور ۔ خود زیتون کا تیل روشن پھر وہ جل رہا ہے اور روشنی دے رہا ہے پس اسے پانچ نور حاصل ہو جاتے ہیں - اس کا کلام نور ہے - اس کا عمل نورہے ۔ - اس کا آنا نور - اس کا جانا نور ہے - اور اس کا آخری ٹھکانا نورہے یعنی جنت ۔ کعب رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ آپ کی نبوت اس قدر ظاہر ہے کہ گو آپ زبانی نہ بھی فرمائیں تاہم لوگوں پر ظاہر ہوجائے ۔ جیسے یہ زیتون کہ بغیر روشن کئے روشن ہے ۔ تو دونوں یہاں جمع ہیں ایک زیتون کا ایک آگ کا۔ ان کے مجموعے سے روشنی حاصل ہوتی ہوئی ۔ اسی طرح نور قرآن نور ایمان جمع ہو جاتے ہیں اور مؤمن کا دل روشن ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے پسند فرمائے ، اپنی ہدایت کی راہ لگا دیتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو ایک اندھیرے میں پیدا کیا پھر اس دن ان پر اپنا نور ڈالا جیسے وہ نور پہنچا اس نے راہ پائی اور جو محروم رہا وہ گمراہ ہوا ۔ اس لئے کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم کے مطابق چل کر خشک ہوگیا ۔ (مسند) وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ لوگوں (کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہرچیز کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ (۳۵) اللہ تعالیٰ نے مؤمن کے دل کی ہدایت کی مثال نور سے دے کر پھر فرمایا کہ اللہ یہ مثالیں لوگوں کے سمجھنے لگ لئے بیان فرما رہا ہے ، اسکے علم میں بھی کوئی اس جیسا نہیں ، وہ ہدایت وضلالت کے ہر مستحق کو بخوبی جانتا ہے ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے: دلوں کی چار قسمیں ہیں - ایک تو صاف اور روشن ، - ایک غلاف دار اور بندھا ہوا، - ایک الٹا اور اوندھا، - ایک پھرا ہوا الٹا سیدھا ۔ پہلا دل تو مؤمن کا دل ہے جو نورانی ہوتا ہے ۔ اور دوسرا دل کافر کا دل ہے اور تیسرا دل منافق کا دل ہے کہ اس نے جانا پھر انجان ہوگیا ۔ پہچان لیا پھر منکر ہوگیا ۔ چوتھا دل وہ دل ہے جس میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے ۔ایمان کی مثال تو اس میں ترکاری کے درخت کی مانند ہے کہ اچھا پانی اسے بڑھا دیتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال دمثل پھوڑے کے ہے کہ خون پیپ اسے ابھاردیتا ہے ۔ اب ان میں سے جو غالب آگیا وہ اس دل پر چھا جاتا ہے ۔ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے مؤمن کے دل کی اور اس میں جو ہدایت وعلم ہے اس کی مثال اوپر والی آیت میں اس روشن چراغ سے دی تھی جو شیشہ کی ہانڈی میں ہو اور صاف زیتون کے روشن تیل سے جل رہا ہے ۔ اس لیئے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے ۔ جن کی نگہبانی اور پاک صاف رکھنے کا اور بیہودہ اقوال وافعال سے بچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ أَنْ تُرْفَعَ کے معنی اس میں بیہودگی نہ کرنے کے ہیں ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے یہی مسجدیں ہیں جن کی تعمیر ، آبادی ، ادب اور پاکیزگی کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ کعب رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے : زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں ، جو بھی باوضو میرے گھر پر میری ملاقات کے لئے آئے گا ، میں اس کی عزت کرونگا ہر اس شخص پر جس سے ملنے کے لئے کوئی اس کے گھر آئے حق ہے کہ وہ اس کی تکریم کرے (تفسیر ابن ابی حاتم) مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جنہیں بحمد اللہ میں نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے یہاں بھی ان میں سے تھوڑی بہت وارد کرتا ہوں ، اللہ مدد کرے اسی پر بھروسہ اور توکل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے (بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں: نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لئے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ (ابن ماجہ ) فرماتے ہیں: نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لئے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ (ابن ماجہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں (ترمذی شریف) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے: لوگوں کے لئے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں ۔ (بخاری شریف) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے: لوگوں کے لئے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں ۔ (بخاری شریف) ایک ضعیف سند سے مروی ہے : جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا ، نقش ونگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے (ابن ماجہ) اس کی سند ضعیف ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : مجھے مسجدوں کو بلند وبالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ابن عباس راوی حدیث فرماتے ہیں کہ تم یقیناً مسجدوں کو مزین ، منقش اور رنگ دار کروگے جیسے کہ یہودونصاری نے کیا (ابو داؤد) فرماتے ہیں : قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخروغرور نہ کرنے لگیں (ابوداؤد) ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے ۔ آپ نے بددعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے ۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لئے بنائی گئی ہیں ، اسی کام کے لئے ہیں (مسلم) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں خریدوفروخت ،تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرمادیا ہے(احمد) فرمان ہے: جسے مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گم شدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے ۔ (ترمذی) بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں ، - مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے ، - نہ تیر پھیلائے جائیں - نہ کچا گوشت لایا جائے ، - نہ یہاں حد ماری جائے ، - نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں - نہ اسے بازار بنایا جائے (ابن ماجہ) فرمان ہے: ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو ، دیوانوں کو، خریدوفروخت کو ، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو ۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو (ابن ماجہ) اس کی سند ضعیف ہے ۔ بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزر گاہ بنانا مکروہ کہا ہے ۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے ، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں ۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لئے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے ۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے ۔ کچا گوشت لانا اس لئے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لئے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کردے ۔ بازار بنانا اس لئے منع ہے کہ وہ خریدوفروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں ۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا تھا ، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کردیا تھا کہ مسجدیں اس لئے نہیں بنیں ، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے ۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا ۔ دوسری حدیث میں ہے: اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو اس لئے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں ۔ چنانچہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی بچے کو مسجد میں کھیلتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوڑے سے پیٹتے اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں کسی کو نہ رہنے دیتے ۔ دیوانوں کو بھی مسجدوں سے روکا گیا کیونکہ وہ بےعقل ہوتے ہیں اور لوگوں کے مذاق کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مسجد اس تماشے کے لائق نہیں ۔ اور یہ بھی ہے کہ ان کی نجاست وغیرہ کا خوف ہے ۔ بیع وشرا سے روکا گیا کیونکہ وہ ذکر اللہ سے مانع ہے ۔ جھگڑوں کی مصالحتی مجلس منعقد کرنے سے اس لئے منع کر دیا گیا کہ اس میں آوازیں بلند ہوتی ہیں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو آداب مسجد کے خلاف ہیں ۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ فیصلے مسجد میں نہ کئے جائیں اسی لئے اس جملے کے بعد بلند آواز سے منع فرمایا ۔ سائب بن یزید کندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: میں مسجد میں کھڑا تھا کہ اچانک مجھ پر کسی نے کنکر پھینکا ، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے مجھ سے فرمانے لگے ، جاؤ ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لاؤ ، جب میں آپ کے پاس انہیں لایا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا ۔ تم کون ہو ؟ یا پوچھا کہ تم کہاں کے ہو؟ انہوں نے کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اگر تم یہاں رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا تم مسجد نبوی میں اونچی اونچی آوازوں سے بول رہے ہو ؟ (بخاری) ایک شخص کی اونچی آواز سن کر جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا ۔ جانتا بھی ہے تو کہاں ہے ۔ (نسائی ) اور مسجد کے دروازوں پر وضوکرنے والے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ بنانے کا حکم دیا۔ مسجد نبوی کے قریب ہی کنویں تھے جن میں سے پانی کھینچ کر پیتے تھے اور وضو اور پاکیزگی حصل کرتے تھے ۔ اور جمعہ کے دن اسے خوشبودار کرنے کا حکم ہوا ہے کیونکہ اس دن لوگ بکثرت جمع ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر جمعہ کے دن مسجد نبوی کو مہکایا کرتے تھے ۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جماعت کی نماز انسان کی اکیلی نماز پر جو گھر میں یا دوکان پر پڑھی جائے ، پچیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے ، یہ اس لئے کہ جب وہ اچھی طرح سے وضو کرکے صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے تو ہر ایک قدم کے اٹھانے پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب نماز پڑھ چکتا ہے پھر جت تک وہ اپنی نماز کی جگہ رہے ، فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرما اور اس پر رحم کر ۔ اور جب تک جماعت کے انتظار میں رہے نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ دار قطنی میں ہے مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی ۔ سنن میں ہے اندھیروں میں مسجد جانے والوں کو خوشخبری سنادو کہ انہیں قیامت کے دن پورا پورا نور ملے گا۔ یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں جانے والا پہلے اپنا داہنا قدم رکھے اور یہ دعا پڑھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں آتے یہ کہتے اعوذ باللہ العظیم وبوجہہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم فرمان ہے: جب کوئی شخص یہ پڑھتا ہے شیطان کہتا ہے میرے شر سے یہ تمام دن محفوظ ہوگیا۔ مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ تم میں سے کوئی مسجد میں جانا چاہے یہ دعا پڑھے: اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔ ابن ماجہ میں ہے: جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیج کر اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ پڑھے ۔ ترمذی میں ہے : جب آپ مسجد میں آتے تو درود پڑھ کر اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود کے بعد اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب فضلک پڑھتے ۔ اس حدیث کی سند متصل نہیں ۔ الغرض یہ اور ان جیسی اور بہت سی حدیثیں اس آیت کے متعلق ہیں جو مسجد اور احکام مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ۔ اور آیت میں ہے: وَأَقِيمُواْ وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ تم ہر مسجد میں اپنا منہ سیدھا رکھو ۔ اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ کو پکارو ۔ (۷:۲۹) ایک اور آیت میں ہے: وَأَنَّ الْمَسَـجِدَ لِلَّهِ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں ۔ (۷۲:۸) اس کا نام ان میں لیا جائےیعنی کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے ۔ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو ۔ (۳۶) صبح شام وہاں اس اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آصَال جمع ہے آصیل کی ، شام کے وقت کو آصیل کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جہاں کہیں قرآن میں تسبیح کا لفظ ہے وہاں مراد نماز ہے ۔ پس یہاں مراد صبح کی اور عصر کی نماز ہے ۔ پہلے پہلے یہی دو نمازیں فرض ہوئی تھیں پس وہی یاد دلائی گئیں ۔ ایک قرأت میں يُسَبِّحُ ہے اور اس قرأت پر آصَال پر پورا وقف ہے اور رِجَالٌ سے پھر دوسری بات شروع ہے گویا کہ وہ مفسر ہے فاعل محذوف کے لئے ۔ تو گویا کہا گیا کہ وہاں تسبیح کون کرتے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ ایسے لوگ اور يُسَبِّحُ کی قرأت پر رِجَالٌ فاعل ہے تو وقف فاعل کے بیان کے بعد چاہئے ۔ کہتے ہیں رِجَالٌ اشارہ ہے ان کے بہترین مقاصد اور ان کی پاک نیتوں اور اعلیٰ کاموں کی طرف یہ اللہ کے گھروں کے آباد رکھنے والے ہیں ۔ اس کی عبادت کی جگہیں ان سے زینت پاتی ہیں ، توحید اور شکر گزری کرنے والے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے: مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ مؤمنوں میں ایسے بھی مرد ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کئے تھے انہیں پورے کر دکھایا ۔ (۳۳:۲۳) ہاں عورتوں کی بہترین مسجد گھر کے اندر کا کونہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے: حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت پسند کرتی ہوں ۔ آپ ﷺے فرمایا یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیری اپنے گھر کی نماز صحن کی نماز سے اور حجرے کی نماز گھر کی نماز سے اور گھر کی کوٹھڑی کی نماز حجرے کی نماز سے افضل ہے ۔ اور محلے کی مسجد سے افضل گھر کی نماز ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے افضل ہے ۔ یہ سن کر مائی صاحبہ نے اپنے گھر کے بالکل انتہائی حصے میں ایک جگہ کو بطور مسجد کے مقرر کر لیا اور آخری گھڑی تک وہیں نماز پڑھتی رہیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ ہاں البتہ عورتوں کے لئے بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ضرور ہے ۔ بشرطیکہ مردوں پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور نہ خوشبو لگا کر نکلیں ۔ صحیح حدیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو (بخاری مسلم) ابو داؤد میں ہے کہ عورتوں کے لئے ان کے گھر افضل ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ وہ خوشبو استعمال کر کے نہ نکلیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے: آپ ﷺنے عورتوں سے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آنا چاہے تو خوشبو کو ہاتھ بھی نہ لگائے ۔ بخاری ومسلم میں ہے: مسلمان عورتیں صبح کی نماز میں آتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی چلی جاتی تھیں اور بوجہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: عورتوں نے یہ جو نئی نئی باتیں نکالیں ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو پالیتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنو اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں ۔ (بخاری و مسلم ) رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی (۳۷) ایسے لوگ جنہیں خرید و فروخت یاد الہٰی سے نہیں روکتی ۔ جیسے ارشاد ہے: يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تُلْهِكُمْ أَمْوَلُكُمْ وَلاَ أَوْلَـدُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ایمان والو، مال واولاد تمہیں ذکر اللہ سے غافل نہ کر دے ۔ (۶۳:۹) سورہ جمعہ میں ہے: يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا نُودِىَ لِلصَّلَوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْاْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُواْ الْبَيْعَ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو (۶۲:۹) لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۗ اس ارادے سے کہ اللہ انہیں اور ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے، مطلب یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کو دنیا اور متاع آخرت اور ذکر اللہ سے غافل نہ کر سکتی ، انہیں آخرت اور آخرت کی نعمتوں پر یقین کامل ہے اور انہیں ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں اور یہاں کی چیزوں کو فانی جانتے ہیں اس لئے انہیں چھوڑ کر اس طرف توجہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ، اس کی محبت کو ، اس کے احکام کو مقدم کرتے ہیں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ تجارت پیشہ حضرات کو اذان سن کر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا یہ لوگ انہی میں سے ہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں سوداگری یا تجارت کروں اگرچہ اس میں مجھے ہر دن تین سو اشرفیاں ملتی ہوں لیکن میں نمازوں کے وقت یہ سب چھوڑ کر ضرور چلا جاؤں گا ۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تجارت کرنا حرام ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں یہ وصف ہونا چاہئے ، جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ سالم بن عبداللہ نماز کے لئے جا رہے تھے ۔ دیکھا کہ مدینہ شریف کے سوداگر اپنی اپنی دوکانوں پر کپڑے ڈھک کر نماز کے لئے گئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی دوکان پر موجود نہیں تو یہی آیت پڑھی اور فرمایا یہ انہی میں سے ہیں جن کی تعریف جناب باری نے فرمائی ہے ۔ اس بات کا سلف میں یہاں تک خیال تھا کہ ترازو اٹھائے تول رہے ہیں اور اذان کان میں پڑی تو ترازو رکھ دی اور مسجد کی طرف چل دئے فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا انہیں عشق تھا ۔ وہ نماز کے اوقات کی ارکان اور آداب کی حفاظت کے ساتھ نمازوں کے پابند تھے ۔ یہ اس لئے کہ دلوں میں خوف الہٰی تھا قیامت کا آنا برحق جانتے تھے اس دن کی خوفناکی سے واقف تھے کہ سخت تر گھبراہٹ اور کامل پریشانی اور بیحد الجھن کی وجہ سے آنکھیں پتھرا جائیں گی ، دل اڑ جائیں گے ، کلیجے دہل جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِين ... ـ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُواْ جَنَّةً وَحَرِيراً (۷۶:۸،۱۲) میرے نیک بندے میری محبت کی بناپر مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں محض اللہ کی رضاجوئی کے لئے کھلا رہے ہیں ، ہمارا مقصد تم سے شکریہ طلب کرنے یا بدلہ لینے کا نہیں۔ ہمیں تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جب کہ لوگ مارے رنج وغم کے منہ بسورے ہوئے اور تیوریاں بدلے ہوئے ہوں گے ۔ پس اللہ ہی انہیں اس دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا اور انہیں تروتازگی بشاشت ، ہنسی خوشی اور راحت وآرام سے ملا دے گا۔ اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کی نیکیاں مقبول ہیں ، برائیاں معاف ہیں ان کے ایک ایک عمل کا بہترین بدلہ مع زیادتی اور اللہ کے فضل کے انہیں ضرور ملنا ہے ۔ جیسے فرمان ہے: إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ اللہ تعالیٰ بقدر ایک ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا ۔ (۴:۴۰) اور آیت میں ہے : مَن جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا نیکی دس گناہ کر دی جاتی ہے ۔ (۶:۱۶۰) اور آیت میں ہے: مَّن ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا جو اللہ کو اچھا قرض دے گا ، (۲:۲۴۵) اسے اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر زیادہ سے زیادہ کر کے دے گا ۔ فرمان ہے: وَاللَّهُ يُضَـعِفُ لِمَن يَشَآءُ اللہ بڑھا دیتا ہے جس کے لئے چاہے ۔ (۲:۲۶۱) حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک مرتبہ دودھ لایا گیا ، آپ نے اپنی مجلس کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو پلانا چاہا مگر سب روزے سے تھے ۔ اس لئے آپ ہی کے پاس پھر برتن آیا ۔ آپ نے یہی آیت يَخَافُونَ سے پڑھی اور پی لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہونگے ، اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم دے گا جو باآواز بلند ندا کرے گا جسے تمام اہل محشر سنیں گے کہ آج سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ پھر فرمائے گا وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جنہیں لین دین اور تجارت ذکر اللہ سے روکتا نہ تھا پس وہ کھڑے ہو جائیں گے اور وہ بہت ہی کم ہوں گے سب سے پہلے انہیں حساب سے فارغ کیا جائے گا ۔ آپ ﷺفرماتے ہیں: ان کی نیکیوں کا اجر یعنی جنت بھی انہیں ملے گی اور مزید فضل الہٰی یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ احسان کئے ہوں گے اور وہ مستحق شفاعت ہونگے ان سب کی شفاعت کا منصب انہیں حاصل ہوجائے گا ۔ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ اللہ تعالیٰ جس چاہے بیشمار روزیاں دیتا ہے (۳۸) یہاں فرمان ہے وہ جسے چاہے بےحساب دیتا ہے ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے،اللہ بہت جلد حساب کر دینے والا ہے۔(۳۹) یہ دو مثالیں ہیں اور دو قسم کے کافروں کی ہیں۔ جیسے سورہ بقرہ کی شروع میں دو مثالیں دو قسم کی منافقوں کی بیان ہوئی ہیں ۔ ایک آگ کی ایک پانی کی۔ اور جیسے کہ سورہ رعد میں ہدایت وعلم کی جو انسان کے دل میں جگہ پکڑ جائے۔ ایسی ہی دو مثالیں ایک آگ کی ایک پانی کی بیان ہوئی ہیں ۔ دونوں سورتوں میں ان آیتوں کی تفسیر کامل گزر چکی ہے۔ فالحمد للہ یہاں پہلی مثال تو ان کافروں کی ہے جو کفر کی طرف دوسروں کو بھی بلاتے ہیں اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سخت گمراہ ہیں ۔ ان کی تو ایسی مثال ہے جیسے کسی پیاسے کو جنگل میں دور سے ریت کا چمکتا ہوا تودہ دکھائی دیتا ہے اور وہ اسے پانی کا موج دریا سمجھ بیٹھتا ہے ۔ قِيعَةٍ جمع ہے قاع کی جیسے جار کی جمع جیرہ اور قاع واحد بھی ہوتا ہے اور جمع قیعان ہوتی ہے جیسے جار کی جمع جیران ہے ۔ معنی اس کے چٹیل وسیع پھیلے ہوئے میدان کے ہیں ۔ ایسے ہی میدانوں میں سراب نظر آیا کرتے ہیں ۔ دوپہر کے وقت بالکل یہی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کا وسیع دریا لہریں لے رہا ہے ۔ جنگل میں جو پیاسا ہو ، پانی کی تلاش میں اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور اسے پانی سمجھ کر جان توڑ کوشش کر کے وہاں تک پہنچتا ہے لیکن حیرت وحسرت سے اپنا منہ لپیٹ لیتا ہے ۔ دیکھتا ہے کہ وہاں پانی کا قطرہ چھوڑ نام ونشان بھی نہیں ۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ اپنے دل میں سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ اعمال کئے ہیں ، بہت سی بھلائیاں جمع کر لی ہیں لیکن قیامت کے دن دیکھیں گے کہ ایک نیکی بھی انکے پاس نہیں یا تو ان کی بدنیتی سے وہ غارت ہوچکی ہے یا شرع کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئی ہے ۔ غرض ان کے یہاں پہنچنے سے پہلے ان کے کام جہنم رسید ہوچکے ہیں، یہاں یہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں ۔ حساب کے موقعہ پر اللہ خود موجود ہے اور ایک ایک عمل کا حساب لے رہا ہے اور کوئی عمل ان کا قابل ثواب نہیں نکلتا ۔ چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے: یہودیوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے رہے ؟ وہ جواب دیں گے کہ اللہ کے بیٹے عزیر کی ۔ کہا جائے گا کہ جھوٹے ہو اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ۔اچھا بتاؤ اب کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت پیاسے ہو رہے ہیں ، ہمیں پانی پلوایا جائے تو ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو وہ کیا نظر آرہا ہے تم وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ اب انہیں دور سے جہنم ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں سراب ہوتا ہے جس پر جاری پانی کا دھوکہ ہوتا ہے یہ وہاں جائیں گے اور دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے ۔ یہ مثال تو تھی جہل مرکب والوں کی ۔ أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ اور بات یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ (۴۰) اب جہل بسیط والوں کی مثال سنئے جو کورے مقلد تھے ، اپنی گرہ کی عقل مطلق نہیں رکھتے تھے ۔ مندرجہ بالا مثال والے ائمہ کفر کی تقلید کرتے تھے اور آنکھیں بند کر کے ان کی آواز پر لگے ہوئے تھے کہ ان کی مثال گہرے سمندر کی تہہ کے اندھیروں جیسی ہے جسے اوپر سے تہہ بہ تہہ موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو اور پھر اوپر سے ابر ڈھانکے ہوئے ہوں ۔ یعنی اندھیرے پر اندھیرا ہو ۔ یہاں تک کہ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو ۔ یہی حال ان سفلے جاہل کافروں کاہے کہ نرے مقلد ہیں ۔ یہاں تک کہ جس کی تقلید کر رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ وہ انہیں کہاں لے جا رہا ہے ؟ چنانچہ مثالاً کہا جاتا ہے کہ کسی جاہل سے پوچھا گیا کہاں جارہا ہے ؟ اس نے کہا ان کے ساتھ جا رہا ہوں ۔ پوچھنے والے نے پھر دریافت کیا کہ یہ کہاں جار ہے ہیں ؟ اس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں ۔ پس جیسے اس سمندر پر موجیں اٹھ رہی ہیں، اسی طرح کافر کے دل پر ، اس کے کانوں پر ، اس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے: خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ (۲:۷) ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً تو نے انہیں دیکھا ؟ جنہوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے اور اللہ نے انہیں علم پر بہکا دیا ہے اور ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ (۴۵:۲۳) ابی بن کعب فرماتے ہیں ایسے لوگ پانچ اندھیروں میں ہوتے ہیں - کلام - عمل - جانا - آنا - اور انجام سب اندھیروں میں ہیں ۔ جسے اللہ اپنے نور کی طرف ہدایت نہ کرے وہ نورانیت سے خالی رہ جاتا ہے ۔ جہالت میں مبتلا رہ کر ہلاکت میں پڑ جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُ جسے اللہ گمراہ کرے اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا ۔ (۷:۱۸۶) یہ اس کے مقابل ہے جو مؤمنوں کی مثال کے بیان میں فرمایا تھا کہ اللہ اپنے نور کی ہدایت کرتا ہے جسے چاہے ۔ اللہ تعالیٰ عظیم وکریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں نور پیدا کردے اور ہمارے دائیں بائیں بھی نور عطا فرمائے اور ہمارے نور کو بڑھا دے اور اسے بہت بڑا اور زیادہ کرے۔ آمین أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کی کل مخلوق اور پر پھیلائے اڑنے والے کل پرند اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں۔ کل کے کل انسان ، جنات ، فرشتے اور حیوان یہاں تک کہ جمادات بھی اللہ کی تسبیح کے بیان میں مشغول ہیں ۔ ایک اور جگہ ہے: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ (۱۷:۱۴۴) ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان میں جو ہیں سب اللہ کی پاکیزگی کی بیان میں مشغول ہیں ۔ اپنے پروں سے اڑنے والے پرند بھی اپنے رب کی عبادت اور پاکیزگی کے بیان میں مشغول ہیں ۔ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اسے معلوم ہے ان سب کو جو جو تسبیح لائق تھی اللہ نے انہیں سکھا دی ہے ، سب کو اپنی عبادت کے مختلف جداگانہ طریقے سکھا دئے ہیں وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ لوگ جو کچھ کریں اس سے اللہ بخوبی واقف ہے ۔ (۴۱) اور اللہ پر کوئی کام مخفی نہیں ، وہ عالم کل ہے ۔ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے (۴۲) حاکم ، متصرف ، مالک ، مختار کل ، معبود حقیقی ، آسمان وزمین کا بادشاہ صرف وہی ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کے حکموں کو کوئی ٹالنے والا نہیں ۔ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے حاضر ہونا ہے ، وہ جو چاہے گا اپنی مخلوقات میں حکم فرمائے گا۔ برے لوگ برا بدلہ پائیں گے ۔ نیک نیکیوں کا پھل حاصل کریں گے ۔ خالق مالک وہی ہے ، دنیا اور آخرت کا حاکم حقیقی وہی ہے اور اسی کی ذات لائق حمد وثنا ہے ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انہیں ملاتا ہے پھر انہیں تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے، پتلے دھوئیں جیسے بادل اول اول تو قدرت الہٰی سے اٹھتے ہیں پھر مل جل کر وہ جسیم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر جم جاتے ہیں فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِيهَا مِنْ بَرَدٍ پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے پھر ان میں سے بارش برستی ہے ۔ ہوائیں چلتی ہیں ، زمین کو قابل بناتی ہیں، پھر ابر کو اٹھاتی ہیں ، پھر انہیں ملاتی ہیں ، پھر وہ پانی سے بھر جاتے ہیں ، پھر برس پڑتے ہیں ۔ پھر آسمان سے اولوں کو برسانے کا ذکر ہے اس جملے میں پہلا مِنْ ابتداء غایت کا ہے ۔ دوسرا تبعیض کا ہے۔ تیسرا بیان جنس کا ہے ۔ یہ اس تفسیر کی بنا پر ہے کہ آیت کے معنی یہ کئے جاہیں کہ اولوں کے پہاڑ آسمان پر ہیں ۔ اور جن کے نزدیک یہاں پہاڑ کا لفظ ابر کے لئے بطور کنایہ ہے ان کے نزدیک مِنْ ثانیہ بھی ابتدا غایت کے لئے ہے لیکن وہ پہلے کا بدل ہے واللہ اعلم ۔ فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشَاءُ ۖ پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انہیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انہیں ہٹا دے، اس جملے کا یہ مطلب ہے کہ بارش اور اولے جہاں اللہ برسانا چاہے ، وہاں اس کی رحمت سے برستے ہیں اور جہاں نہ چاہے نہیں برستے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ اولوں سے جن کی چاہے ، کھیتیاں اور باغات خراب کر دیتا ہے اور جن پر مہربانی فرمائے انہیں بچالیتا ہے ۔ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ بادلوں ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی۔ (۴۳) پھر بجلی کی چمک کی قوت بیان ہو رہی ہے کہ قریب ہے وہ آنکھوں کی روشنی کھودے ۔ يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردو بدل کرتا رہتا ہے دن رات کا تصرف بھی اسی کے قبضے میں ہے ، جب چاہتا ہے دن کو چھوٹا اور رات کو بڑی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے رات کو بڑی کر کے دن کو چھوٹا کر دیتا ہے ۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ آنکھوں والوں کے لئے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔ (۴۴) یہ تمام نشانیاں ہیں جو قدرت قادر کو ظاہر کرتی ہیں، اللہ کی عظمت کو آ شکارا کرتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے: إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَاخْتِلَـفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لاّيَـتٍ لاٌّوْلِى الاٌّلْبَـبِ آسمان وزمین کی پیدائش ، رات دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ (۳:۱۹۰) وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ ۖ تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پانی سے پیدا کیا فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ ۚ ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر ، اللہ تعالیٰ اپنی کامل قدرت اور زبردست سلطنت کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے ایک ہی پانی سے طرح طرح کی مخلوق پیدا کر دی ہے ۔ سانپ وغیرہ کو دیکھو جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں ۔ انسان اور پرند کو دیکھو ان کے دوپاؤں ہوتے ہیں ۔ حیوانوں اور چوپاوں کو دیکھو وہ چار پاؤں پر چلتے ہیں ، يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔ (۴۵) وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوسکتا، وہ قادر کل ہے ۔ لَقَدْ أَنْزَلْنَا آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ ۚ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ بلا شبہ ہم نے روشن اور واضح آیتیں اتار دی ہیں اللہ تعالیٰ جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔ (۴۶) یہ حکمت بھرے احکام ، یہ روشن ، اس قرآن کریم میں اللہ ہی نے بیان فرمائی ہیں ۔ عقلمندوں کو ان کے سمجھنے کی توفیق دی ہے ، رب جسے چاہے اپنی سیدھی راہ پر لگائے ۔ وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ ۚ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے اور فرماں بردار ہوئے پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھر جاتا ہے۔ (۴۷) یہ ایمان والے ہیں (ہی) نہیں ۔ منافقوں کا حل بیان ہو رہا ہے کہ زبان تو ایمان واطاعت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے اس کے خلاف ہیں ۔ عمل کچھ ہے قول کچھ ہے ۔ اس لئے کہ دراصل ایماندار نہیں ۔ حدیث میں ہے: جو شخص بادشاہ کے سامنے بلوایا جائے اور وہ نہ جائے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے ۔ وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول انکے جھگڑے چکا دے تو بھی انکی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے (۴۸) جب انہیں ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے ، قرآن وحدیث کے ماننے کو کہا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر لیتے ہیں اور تکبر کرنے لگتے ہیں جیسے أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا (۴:۶۰) کی آیتوں میں بیان گزر چکا ہے ۔ وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ ہاں اگر انہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع و فرماں بردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں (۴۹) ہاں اگر انہیں شرعی فیصلے میں اپنا نفع نظر آتا ہو تو لمبے لمبے کلمے پڑھتے ہوئے ، گردن ہلاتے ہوئے ہنسی خوش چلے آئیں گے اور جب معلوم ہوجائے کہ شرعی فیصلہ ان کی طبعی خواہش کے خلاف ہے ، دنیوں مفاد کے خلاف ہے تو حق کی طرف مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی نہ کریں؟ پس ایسے لوگ پکے کافر ہیں ۔ اس لئے کہ تین حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کے دلوں میں ہی بے ایمانی گھر کر گئی ہے یا انہیں اللہ کے دین کی حقانیت میں شکوک ہیں یاخوف ہے کہ کہیں اللہ اور رسول ان کا حق نہ مارلیں ، ان پر ظلم وستم کریں گے اور یہ تینوں صورتیں کفر کی ہیں ۔ اللہ ان میں سے ہر ایک کو جانتا ہے جو جیسا باطن میں ہے اس کے پاس وہ ظاہر ہے ۔ بَلْ أُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں (۵۰) دراصل یہی لوگ جابر ہیں ، ظالم ہیں ، اللہ اور رسول اللہ اس سے پاک ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے کافر جو ظاہر میں مسلمان تھے ، بہت سے تھے ، انہیں جب اپنا مطلب قرآن وحدیث میں نکلتا نظر آتا تو خدمت نبوی میں اپنے جھگڑے پیش کرتے اور جب انہیں دوسروں سے مطلب براری نظر آتی تو سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے سے صاف انکار کر جاتے ۔ پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن دو شخصوں میں کوئی جھگڑا ہو اور وہ اسلامی حکم کے مطابق فیصلے کی طرف بلایا جائے اور وہ اس سے انکار کرے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اسلئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (۵۱) پھر سچے مؤمنوں کی شان بیان ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی تیسری چیز کو داخل دین نہیں سمجھتے ۔ وہ تو قرآن وحدیث سنتے ہی ، اس کی دعوت کی ندا کان میں پڑتے ہی صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا یہ کامیاب ، بامراد اور نجات یافتہ لوگ ہیں ۔ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الہٰی رکھیں اور اسکے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں ۔ (۵۲) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بدری صحابی ہیں۔ انصاری ہیں ، انصاروں کے ایک سردار ہیں ، انہوں نے اپنے بھتیجے جنادہ بن امیہ سے بوقت انتقال فرمایا کہ آؤ مجھ سے سن لو کہ تمہارے ذمے کیا ہے ؟ سننا اور ماننا سختی میں بھی آسانی میں بھی ، خوشی میں بھی ناخوشی میں بھی ، اس وقت بھی جب کہ تیرا حق دوسرے کو دیا جارہا ہو، اپنی زبان کو عدل اور سچائی کے ساتھ سیدھی رکھ ۔ کام کے اہل لوگوں سے کام کو نہ چھین ، ہاں اگر کسی کھلی نافرمانی کا وہ حکم دیں تو نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کے خلاف کوئی بھی کہے ہرگز نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کی پیروی میں لگے رہنا ۔ ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام بغیر اللہ کی اطاعت کے نہیں اور بہتری جو کچھ ہے وہ جماعت کی ، اللہ کی ، اس کے رسول کی ، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی میں ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اسلام کا مضبوط کڑا ، اللہ کی وحدانیت کی گواہی ، نماز کی پابندی ، زکوٰۃ کی ادائیگی اور مسلمانوں کے بادشاہ کی اطاعت ہے ۔ جو احادیث وآثار کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اور مسلمان بادشاہوں کی ماننے کے بارے میں مروی ہیں وہ اس کثرت سے ہیں کہ سب یہاں کسی طرح بیان ہو ہی نہیں سکتیں ۔ جو شخص اللہ اور رسول کا نافرمان بن جائے جو حکم ملے بجا لائے جس چیز سے روک دیں رک جائے جو گناہ ہو جائے اس سے خوف کھاتا رہے آئندہ کے لئے اس سے بچتا رہے ایسے لوگ تمام بھلائیوں کو سمیٹنے والے اور تمام برائیوں سے بچ جانے والے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں وہ نجات یافتہ ہیں ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ بڑی پختگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہونگے۔ اہل نفاق کا حال بیان ہو رہا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اپنی ایمانداری اور خیر خواہی جتاتے ہوئے قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم جہاد کیلئے تیار بیٹھے ہیں بلکہ بےقرار ہیں ، آپ کے حکم کی دیر ہے فرمان ہوتے ہی گھر بار بال بچے چھوڑ کر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے ۔ قُلْ لَا تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ ۚ کہہ دیجئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) اطاعت (کی حقیقت) معلوم ہے اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ان سے کہہ دو کہ قسمیں نہ کھاؤ تمہاری اطاعت کی حقیقت تو روشن ہے ، زبانی ڈینگیں بہت ہیں ، عملی حصہ صفر ہے ۔ تمہاری قسموں کی حقیقت بھی معلوم ہے ، دل میں کچھ ہے ، زبان پر کچھ ہے ، جتنی زبان مؤمن ہے اتنا ہی دل کافر ہے ۔ یہ قسمیں صرف مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ہیں ۔ ان قسموں کو تو یہ لوگ ڈھال بنائے ہوئے ہیں تم سے ہی نہیں بلکہ کافروں کے سامنے بھی ان کی موافقت اور ان کی امداد کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن اتنے بزدل ہیں کہ ان کا ساتھ خاک بھی نہیں دے سکتے ۔ اس جملے کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تمہیں تو معقول اور پسندیدہ اطاعت کاشیوہ چاہے نہ کہ قسمیں کھانے اور ڈینگیں مارنے کا ۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں دیکھو نہ وہ قسمیں کھاتے ہیں نہ بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں ، ہاں کام کے وقت سب سے آگے نکل آتے ہیں اور فعلی حصہ بڑھ چڑھ کر لیتے ہیں ۔ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔ (۵۳) اللہ پر کسی کا کوئی عمل مخفی نہیں وہ اپنے بندوں کے ایک ایک عمل سے باخبر ہے ۔ ہر عاصی اور مطیع اس پر ظاہر ہے ۔ ہر ایک باطن پر بھی اس کی نگاہیں ویسی ہی ہیں جیسی ظاہر پر ، گو تم ظاہر کچھ کرو لیکن وہ باطن پر بھی آگاہ ہے ۔ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ کہہ دیجئے کہ اللہ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ ۖ پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمہ تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے اور تم پر اسکی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یعنی قرآن اور حدیث کی اتباع کرو اگر تم اس سے منہ موڑ لو ، اسے چھوڑ دو تو تمہارے اس گناہ کا وبال میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ۔ اس کے ذمے تو صرف پیغام الہٰی پہنچانا اور ادائے امانت کر دینا ہے ۔ تم پر وہ ہے جس کے ذمے دار تم ہو یعنی قبول کرنا ، عمل کرنا وغیرہ ۔ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ہدایت تو تمہیں اس وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے۔ (۵۴) ہدایت صرف اطاعت رسول میں ہے ، اس لئے کہ صراط مستقیم کا داعی وہی ہے جو صراط مستقیم اس اللہ تک پہنچاتی ہے جس کی سلطنت تمام زمین آسمان ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے صرف پہنچادینا ہی ہے ۔ سب کا حساب ہمارے ذمے ہے ۔ فَذَكِّرْ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ ـ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ تو صرف ناصح و واعظ ہے ۔ انہیں نصیحت کر دیا کر ، تو ان کا وکیل یا داروغہ نہیں ۔ (۸۸:۲۱،۲۲) وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعیاء کی طرف وحی الہٰی آئی کہ تو بنی اسرائیل کے مجمع میں کھڑا ہو جا ۔ میں تیری زبان سے جو چاہوں گا نکلواؤں گا ، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو آپ کی زبان سے بہ حکم الہٰی یہ خطبہ بیان ہوا ۔ اے آسمان سن ، اے زمین خاموش رہ، اللہ تعالیٰ ایک شان پوری کرنا اور ایک امر کی تدبیر کرنے والا ہے وہ چاہتا ہے کہ جنگلوں کو آباد کردے ۔ ویرانے کو بسا دے ، صحراوں کو سرسبز بنا دے ، فقیروں کو غنی کر دے ، چرواہوں کو سلطان بنا دے ، ان پڑھوں میں سے ایک اُمی کو نبی بنا کر بھیجے جو نہ بدگو ہو نہ بد اخلاق ہو ، نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا ہو ، اتنا مسکین صفت ہو اور متواضع ہو کہ اس کے دامن کی ہوا سے چراغ بھی نہ بجھے ، جس کے پاس سے وہ گزرا ہو ۔ اگر وہ سوکھے بانسوں پر پیر رکھ کر چلے توبھی چراچراہٹ کسی کے کان میں نہ پہنچے ۔ میں اسے بشیر و نذیر بنا کر بھیجوں گا، وہ زبان کا پاک ہوگا ، اندھی آنکھیں اس کی وجہ سے روشن ہوجائیں گی ، بہرے کان اس کے باعث سننے لگیں گے ، غلاف والے دل اس کی برکت سے کھل جائیں گے ۔ ہر ایک بھلے کام سے میں اسے سنواردوں گا ۔ حکمت اس کی باتیں ہوں گی ، صدق و وفا کی کی طبیعت ہوگی ، عفو ودرگزر کرنا اور عمدگی وبھلائی چاہنا اس کی خصلت ہوگی ۔ حق اس کی شریعت ہوگی ، عدل اس کی سیرت ہوگی ، ہدایت اس کی امام ہوگی ۔ اسلام اس کی ملت ہوگا ۔ احمد اس کا نام ہوگا ۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم) گمراہی کے بعد اس کی وجہ سے میں ہدایت پھیلاوں گا، جہالت کے بعد علم چمک اٹھے گا ، پستی کے بعد اس کی وجہ سے ترقی ہوگی ۔ نادانی اس کی ذات سے دانائی میں بدل جائے گی ۔ کمی زیادتی سے بدل جائے گی ، فقیری کو اس کی وجہ سے میں امیری سے بدل دوں گا ۔ اس کی ذات سے جداجدا لوگوں کو میں ملا دوں گا ، فرقت کے بعد الفت ہوگی ، انتشار کے بعد اتحاد ہوگا ، اختلاف کے بعد اتفاق ہوگا ، مختلف دل ، جداگانہ خواہشیں ایک ہو جائیں گی ۔ بیشمار بند گان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے ، اس کی اُمت کو میں تمام اُمتوں سے بہتر کردوں گا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی ، بیشمار بندگان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے ، اس کی ُامت کو میں تمام امتوں سے بہتر کر دونگا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی ، بھلائیوں کا حکم کرنے والی برائیوں سے روکنے والی ہوگی ، موحد مؤمن مخلص ہوں گے ، اللہ کے جتنے رسول اللہ کی طرف سے جو لائے ہیں یہ سب کو مانیں گے ، کسی کے منکر نہ ہوں گے ۔ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کی اُمت کو زمین کا مالک بنا دے گا، لوگوں کا سردار بنا دے گا ، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا ، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے ۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن واطمینان ہوں گے ، حکومت ان کی ہوگی ، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ الحمد للہ یہی ہوا بھی ۔ مکہ ، خیبر ، بحرین ، جزیرہ عرب اور یمن تو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فتح ہوگیا ۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کر لی ، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا ۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے ۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے ، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے ، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا ۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمۃ اللہ علیہ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا۔اس نے بھی سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے ۔ پھر جب کہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا ، آپ کی خلافت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنبھالی ، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا ، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا ۔ انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے ، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرداری میں روانہ فرمایا ۔بصری ، دمشق ، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الہٰی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا۔ آپ کی قوت ، طبیعت ، آپ کی نیکی ، سیرت، آپ کے عدل کا کمال ، آپ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ کے بعد تلاش کرنا محض بےسود اور بالکل لا حاصل ہے ۔ تمام ملک شام، پورا علاقہ مصر، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا ۔ سلطنت کسریٰ کے ٹکڑے اُڑگئے ، خود کسریٰ کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی ۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا ۔ قیصر کو فنا کر دیا ۔ مٹا دیا ۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا ۔ قسطنطنیہ میں جاکر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بیشمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوائے تھے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق ومغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے ۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصیٰ مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں ۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں ۔اندلس ، قبرص ، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ کے زمانے میں فتح ہوئے۔ کسریٰ قتل کردیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی ۔ دوسری جانب مدائن ، عراق ، خراسان ، اھواز سب فتح ہوگئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی میں پہنچوائے ۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی۔ آپ کو قرآن سے کچھ ایساشغف تھا جو بیان سے باہر ہے ۔ قرآن کے جمع کرنے، اس کے حفظ کرنے ، اس کی اشاعت کرنے ، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمیتں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقیناً عدیم المثال ہیں۔ آپ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق ومغرب دیکھ لی عنقریب میری اُمت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے ۔ مسلمانو ! رب کے اس وعدے کو پیغمبر کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے ۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بےدینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا ، لیٹا رہے ۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنالے آمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے پھر آپ نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث حضرت جابر بن سمرہ ؓ سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے یہ سب کے سب قریشی ہوں گے (مسلم) آپ نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رجم کیا گیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت وسلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے ۔ سب کے سب قریشی ہوں گے ، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے ، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونایقینی ہے خواہ پے درپے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں ۔ چنانچہ چاروں خلیفے تو بالترتیب ہوئے اول ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں ۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جن کی کنیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھر گئی ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہوجائے گا ۔ ابو العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیس سال تک مکے میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا ، ڈر خوف کا اور بے اطمینانی کا تھا ، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا ۔ مسلمان بیحد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا ۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا ۔ اہل اسلام بہت خائف تھے ۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا ؟ آپ نے پورے سکون سے فرمایا کچھ دن اور صبر کر لو پھر تو اس قدر امن واطمینان ہوجائے گا کہ پوری مجلس میں ، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے ۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہوگئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے ۔ پھر یہی امن وراحت کا دور دورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے تک ۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا ۔ براء بن عازب کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے جیسے فرمان ہے : وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ ... مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور اس حالت کو یاد کرو! جبکہ تم زمین میں قلیل تھے، کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں، سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم شکر کرو ۔ (۸:۲۶) یعنی یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بیحد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا ۔ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے پھر فرمایا کہ جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کر دیا تھا جیسے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا : عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِى الاٌّرْضِ بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے ۔ (۷:۱۲۹) اور آیت میں ہے: وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ ... وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بیحد کمزور کر دیا گیا تھا، اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں ۔ (۲۸:۵،۶) یعنی ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے ۔ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا پھر فرمایا کہ ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت وطاقت دے گا۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بطور وفد آپ ﷺکے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو نے حیرہ دیکھاہے اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ ﷺنے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہو جائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہانکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا ۔ یقین مان کہ کسریٰ بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کسریٰ بن ھرمز کے ۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں ۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسریٰ کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقیناً پوری ہو کر رہ گئی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اس اُمت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو ۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا ۔ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے پھر فرماتا ہے کہ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ۔ مسند میں ہے : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ ﷺنے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے لبیک وسعدیک کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے آپ ﷺنے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپ ﷺنے فرمایا جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے ۔ آپ ﷺنے فرمایا یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے ۔ (بخاری ومسلم ) وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں ۔ (۵۵) پھر فرمایا اس کے بعد جو منکر ہوجائے وہ یقینا فاسق ہے ۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے ۔ شان الہٰی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی ۔ صحابہ اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی ۔ بخاری ومسلم میں ہے: میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسرحق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گیb اور روایت میں ہے یہاں تک اللہ کا وعدہ آجائے گا ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے ۔ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ نماز کی پابندی کرو زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرماں برداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (۵۶) اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں کو صرف اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے کہ اسی کے لئے نمازیں پڑھتے رہو۔ اور ساتھ ہی اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو ۔ ضعیفوں ، مسکینوں ، فقیروں کی خبر گیری کرتے رہو ۔ مال میں سے اللہ کا حق یعنی زکوٰۃ نکالتے رہو ۔ اور ہر امر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے رہو ۔ جس بات کا وہ حکم فرمائے لاؤ جس امر سے وہ روکیں رک جاؤ ۔ یقین مانوکہ اللہ کی رحمت کے حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے: یہی لوگ ہیں جن پر ضرور بضرور اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ (۹:۷۱) لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ یہ خیال آپ کبھی بھی نہ کرنا کہ منکر لوگ زمین میں (ادھر ادھر بھاگ کر) ہمیں ہرا دینے والے ہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ گمان نہ کرنا کہ آپ کو جھٹلانے والے اور آپ کی نہ ماننے والے ہم پر غالب آجائیں گے یا ادھر ادھر بھاگ کر ہمارے بےپناہ عذابوں سے بچ جائیں گے ۔ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ ان کا اصلی ٹھکانا تو جہنم ہے جو یقیناً بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ (۵۷) ہم تو ان کا اصلی ٹھکانہ جہنم میں مقرر کر چکے ہیں جو نہایت بری جگہ ہے ۔ قرار گاہ کے اعتبار اور بازگشت کے اعتبار سے بھی ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ اس آیت میں قریب رشتے داروں کو بھی حکم ہو رہا ہے کہ وہ اجازت حاصل کر کے آیا کریں ۔ اس سے پہلے کہ اس سورت کی شروع کی آیت میں جو حکم تھا وہ اجنبیوں کے لئے تھا۔ پس فرماتا ہے کہ تین وقتوں میں غلاموں کو نابالغ بچوں کو بھی اجازت مانگنی چاہے ۔ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، صبح کی نماز سے پہلے کیونکہ وہ وقت سونے کا ہوتا ہے ۔ اور دوپہر کو جب انسان دو گھڑی راحت حاصل کرنے کے لئے عموماً اپنے گھر میں بالائی کپڑے اتار کر سوتا ہے اور عشاء کی نماز کے بعد کیونکہ وہ بھی بال بچوں کے ساتھ سونے کا وقت ہے ۔ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ ۚ یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت)) اور پردہ کے ہیں پس تین وقتوں میں نہ جائیں انسان بےفکری سے اپنے گھر میں کس حالت میں ہوتا ہے ؟ اس لئے گھر کے لونڈی غلام اور چھوٹے بچے بھی بے اطلاع ان وقتوں میں چپ چاپ نہ گھس آئیں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ ۚ ان وقتوں کے ماسوا نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو (ہی)، كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت والا ہے۔ (۵۸) ہاں ان خاص وقتوں کے علاوہ انہیں آنے کی اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا آنا جانا تو ضروری ہے بار بار کے آنے جانے والے ہیں ہر وقت کی اجازت طلبی ان کے لئے اور نیز تمہارے لئے بھی بڑی حرج کی چیز ہوگی ۔ ایک حدیث میں ہے بلی نجس نہیں وہ تو تمہارے گھروں میں تمہارے آس پاس گھومنے پھرنے والی ہے ۔ حکم تو یہی ہے اور عمل اس پر بہت کم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین آیتوں پر عموما ًلوگوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے ۔ ایک تو یہی آیت اور ایک سورہ نساء کی آیت وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ (۴:۸) اور ایک سورہ حجرات کی آیت إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (۴۹:۱۳) شیطان لوگوں پر چھا گیا اور انہیں ان آیتوں پر عمل کرنے سے غافل کر دیا گویا ان پر ایمان ہی نہیں میں نے تو اپنی اس لونڈی سے بھی کہہ رکھا ہے کہ ان تینوں وقتوں میں بے اجازت ہرگز نہ آئے ۔ - پہلی آیت میں تو ان تین وقتوں میں لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کو بھی اجازت لینے کا حکم ہے - دوسری آیت میں ورثے کی تقسیم کے وقت جو قرابت دار اور یتیم مسکین آجائیں انہیں بنام الہٰی کچھ دے دینے اور ان سے نرمی سے بات کرنے کا حکم ہے - اور تیسری آیت میں حسب ونسب پر فخر کرنے بلکہ قابل اکرام خوف الہٰی کے ہونے کا ذکر ہے ۔ حضرت شعبی رحمۃاللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کیا یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ۔ اس نے کہا پھر لوگوں نے اس پر عمل کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟ فرمایا اللہ سے توفیق طلب کرنی چاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت پر عمل کے ترک کی وجہ مالداری اور فراخ دلی ہے ۔ پہلے تو لوگوں کے پاس اتنا بھی نہ تھا کہ اپنے دروازوں پر پردے لٹکا لیتے یا کشادہ گھر کئی کئی الگ الگ کمروں والے ہوتے ہیں تو بسا اوقات لونڈی غلام بےخبری میں چلے آتے اور میاں بیوی مشغول ہوتے تو آنے والے بھی شرما جاتے اور گھر والوں پر بھی شاق گزرتا اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کشادگی دی ، کمرے جداگانہ بن گئے ، دروازے باقاعدہ لگ گئے ، دروازوں پر پردے پڑگئے تو محفوظ ہوگئے ۔ حکم الہٰی کی مصلحت پوری ہوگئی اس لئے اجازت کی پابندی اٹھ گئی اور لوگوں نے اس میں سستی اور غفلت شروع کر دی ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہی تین وقت ایسے ہیں کہ انسان کو ذرا فرصت ہوتی ہے گھر میں ہوتا ہے اللہ جانے کس حالت میں ہو اس لئے لونڈی غلاموں کو بھی اجازت کا پابند کر دیا ہے کیونکہ اسی وقت میں عموماً لوگ اپنی گھر والیوں سے ملتے ہیں تاکہ نہا دھو کر بہ آرام گھر سے نکلیں اور نمازوں میں شامل ہوں۔ یہ بھی مروی ہے: ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ کھانا پکایا جائے لوگ بلا اجازت ان کے گھر میں جانے لگے ۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نہایت بری بات ہے کہ غلام بے اجازت گھر میں آجائے ممکن ہے میاں بیوی ایک ہی کپڑے میں ہوں ۔ اس آیت کے منسوخ نہ ہونے پر اس آیت کے خاتمے کے الفاظ بھی دلالت کرتے ہیں کہ اسی طرح تین وقتوں میں جن کا بیان اوپر گزرا اجازت مانگنی ضروری ہے لیکن بعد بلوغت تو ہر وقت اطلاع کر کے ہی جانا چاہے ۔ جیسے کہ اور بڑے لوگ اجازت مانگ کر آتے ہیں خواہ اپنے ہوں یا پرائے ۔ پس یہ آیت اتری ۔ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ اور تمہارے بچے (بھی) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیے كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ اللہ تعالیٰ تم سے اسی طرح اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی علم و حکمت والا ہے۔ (۵۹) وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اور خواہش ہی) نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں جو بڑھیا عورتیں اس عمر کو پہنچ جائیں کہ نہ اب انہیں مرد کی خواہش رہے نہ نکاح کی توقع حیض بند ہوجائے عمر سے اتر جائیں تو ان پر پردے کی وہ پابندیاں نہیں جو اور عورتوں پر ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ایسی عورتوں کو اجازت ہے کہ وہ برقعہ اور چادر اتار دیا کریں صرف دوپٹے میں اور کرتے پاجامے میں رہیں ۔ آپ کی قرأت بھی أَنْ يَضَعْنَ مِنْ ثِيَابَهُنَّ ہے ۔ مراد اس سے دوپٹے کے اوپر کی جادر ڈالنا ضروری نہیں ۔ لیکن مقصود اس سے بھی اظہار زینت نہ ہو ۔ حضرت عائشہ ؓسے جب اس قسم کے سوالات عورتوں نے کئے تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے بناؤ سنگھار بیشک حلال اور طیب ہے لیکن غیر مردوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے نہیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ جب بالکل بڑھیا پھوس ہوگئیں تو آپ نے اپنے غلام کے ہاتھوں اپنے سر کے بالوں میں مہندی لگوائی جب ان سے سوال کیا گیا تو فرمایا میں ان عمر رسیدہ عورتوں میں ہوں جنہیں خواہش نہیں رہی ۔ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے بہت افضل ہے، اور اللہ تعالیٰ سنتا اور جانتا ہے۔ (۶۰) اللہ تعالیٰ سننےاور جاننے والا ہے ۔آخر میں فرمایا گو چادر کا نہ لینا ان بڑی عورتوں کے لئے جائز تو ہے مگر تاہم افضل یہی ہے کہ چادروں اور برقعوں میں ہی رہیں۔ لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ اندھے پر، لنگڑے پر، بیمار پر اور خود تم پر (مطلقاً) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو اس آیت میں جس حرج کے نہ ہونے کا ذکر ہے اس کی بابت حضرت عطاء وغیرہ تو فرماتے ہیں: مراد اس سے اندھے لولے لنگڑے کا جہاد میں نہ آنا ہے ۔ جیسے کہ سورہ فتح میں ہے تو یہ لوگ اگر جہاد میں شامل نہ ہوں تو ان پر بوجہ ان کے معقول شرعی عذر کے کوئی حرج نہیں ۔ لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى ... قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ( ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جنکے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اسکے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے ۔ ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تمہاری سواری کے لئے کچھ بھی نہیں پاتا ۹:۹۱،۹۲) حضرت سعید رحمۃاللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں: لوگ اندھوں ، لولوں ، لنگڑوں اور بیماروں کے ساتھ کھانا کھانے میں حرج جانتے تھے کہ ایسا نہ ہو وہ کھا نہ سکیں اور ہم زیادہ کھالیں یا اچھا اچھا کھالیں تو اس آیت میں انہیں اجازت ملی کہ اس میں تم پر کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ کراہت کر کے بھی ان کے ساتھ کھانے کو نہیں بیٹھتے تھے ، یہ جاہلانہ عادتیں شریعت نے اٹھا دیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ لوگ ایسے لوگوں کو اپنے باپ بھائی بہن وغیرہ قریب رشتہ داروں کے ہاں پہنچا آتے تھے کہ وہ وہاں کھالیں یہ لوگ اس عار سے کرتے کہ ہمیں اوروں کے گھر لے جاتے ہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمیْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے سدی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ انسان جب اپنے بہن بھائی وغیرہ کے گھر جاتا ہے وہ نہ ہوتے اور عورتیں کوئی کھانا انہیں پیش کرتیں تو یہ اسے نہیں کھاتے تھے کہ مرد تو ہیں نہیں نہ ان کی اجازت ہے ۔ تو جناب باری تعالیٰ نے اس کے کھالینے کی رخصت عطا فرمائی ۔ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ یا اپنے چچاؤں کے گھروں سےیا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کے کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے یہ جو فرمایا کہ خود تم پر بھی حرج نہیں یہ تو ظاہر ہی تھا ۔ اس کا بیان اس لئے کیا گیا کہ اور چیز کا اس پر عطف ہو اور اس کے بعد کا بیان اس حکم میں برابر ہو ۔ بیٹوں کے گھروں کا بھی یہی حکم ہے گو لفظوں میں بیان نہیں آیا لیکن ضمناً ہے ۔ بلکہ اسی آیت کے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ بیٹے کا مال بمنزلہ باپ کے مال کے ہے ۔ مسند اور سنن میں کئی سندوں سے حدیث ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے ۔ اور جن لوگوں کے نام آئے ان سے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ قرابت داروں کا نان ونفقہ بعض کا بعض پر واجب ہے جیسے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا اور امام احمد رحمۃاللہ علیہ کے مذہب کا مشہور مقولہ ہے جس کی کنجیاں تمہاری ملکیت میں ہیں اس سے مراد غلام اور داروغے ہیں کہ وہ اپنے آقا کے مال سے حسب ضرورت و دستور کھاپی سکتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں جاتے تو ہر ایک کی چاہت یہی ہوتی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں ۔ جاتے ہوئے اپنے خاص دوستوں کو اپنی کنجیاں دے جاتے اور ان سے کہہ دیتے کہ جس چیز کے کھانے کی تمہیں ضرورت ہو ہم تمہیں رخصت دیتے ہیں لیکن تاہم یہ لوگ اپنے آپ کو امین سمجھ کر اور اس خیال سے کہ مبادا ان لوگوں نے بادل ناخواستہ اجازت دی ہو ، کسی کھانے پینے کی چیز کو نہ چھوتے اس پر یہ حکم نازل ہوا ۔ پھر فرمایا کہ تمہارے دوستوں کے گھروں سے بھی کھالینے میں تم پر کوئی پکڑ نہیں جب کہ تمہیں علم ہو کہ وہ اس سے برا نہ مانے گے اور ان پر یہ شاق نہ گزرے گا ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تو جب اپنے دوست کے ہاں جائے تو بلا اجازت اس کے کھانے کو کھالینے کی رخصت ہے ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ پھر فرمایا تم پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں اور جدا جدا ہو کر کھانے میں بھی کوئی گناہ نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَلَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَـطِلِ (۴:۲۹) اتری یعنی ایمان والو ایک دوسرے کے ساتھ کھائیں چنانچہ وہ اس سے بھی رک گئے اس پر یہ آیت اتری اسی طرح سے تنہاخوری سے بھی کراہت کرتے تھے جب تک کوئی ساتھی نہ ہو کھاتے نہیں تھےاس لئے اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں دونوں باتوں کی اجازت دی یعنی دوسروں کے ساتھ کھانے کی اور تنہا کھانے کی ۔ قبیلہ بنو کنانہ کے لوگ خصوصیت سے اس مرض میں مبتلا تھے بھوکے ہوتے تھے لیکن جب تک ساتھ کھانے والا کوئی نہ ہو کھاتے نہ تھے سواری پر سوار ہو کر ساتھ کھانے والے کی تلاش میں نکلتے تھے پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تنہا کھانے کر رخصت نازل فرما کر جاہلیت کی اس سخت رسم کو مٹا دیا ۔ اس آیت میں گو تنہا کھانے کی رخصت ہے لیکن یہ یاد رہے کہ لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا افضل ہے اور زیادہ برکت بھی اسی میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے: ایک شخص نے آکر کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تو ہیں لیکن آسودگی حاصل نہیں ہوتی آپ ﷺنے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہوگے ؟ جمع ہو کر ایک ساتھ بیٹھ کر اللہ کا نام لے کر کھاؤ تو تمہیں برکت دی جائے گی ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مل کر کھاؤ ، تنہا نہ کھاؤ ، برکت مل بیٹھنے میں ہے ۔ فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کر لیا کرو پھر تعلیم ہوئی کہ گھروں میں سلام کرکے جایا کرو ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے: جب تم گھر میں جاؤ تو اللہ کا سکھایا ہوا بابرکت بھلا سلام کہا کرو۔ میں نے تو آزمایا ہے کہ یہ سراسر برکت ہے ۔ ابن طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تم میں سے جو گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کہے ۔ حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ واجب ہے ؟ فرمایا مجھے تو یاد نہیں کہ اس کے وجوب کا قائل کوئی ہو لیکن ہاں مجھے تو یہ بہت ہی پسند ہے کہ جب بھی گھر میں جاؤ سلام کرکے جاؤ ۔ میں تو اسے کبھی نہیں چھوڑتا ہاں یہ اور بات ہے کہ میں بھول جاؤ۔ مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں جب مسجد میں جاؤ تو کہو السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین یہ بھی مروی ہے کہ یوں کہو بسم اللہ والحمد للہ السلام علینا من ربنا السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین یہی حکم دیا جا رہا ہے ایسے وقتوں میں تمہارے سلام کا جواب اللہ کے فرشتے دیتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتوں کی وصیت کی ہے فرمایا ہے: - اے انس !کامل وضو کرو تمہاری عمر بڑھے گی ۔ - جو میرا اُمتی ملے سلام کرو نیکیاں بڑھیں گی، - گھر میں سلام کر کے جایا کرو گھر کی خیریت بڑھے گی ۔ - ضحیٰ کی نماز پڑھتے رہو تم سے اگلے لوگ جو اللہ والے بن گئے تھے ان کا یہی طریقہ تھا ۔ - اے انس!چھوٹوں پر رحم کر بڑوں کی عزت وتوقیر کر تو قیامت کے دن میرا ساتھی ہوگا ۔ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ ، دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ، پھر فرماتا ہے یہ دعائے خیر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں تعلیم کی گئی ہے برکت والی اور عمدہ ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو التحیات قرآن سے ہی سیکھی ہے نماز کی التحیات یوں ہے التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للہ اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اسے پڑھ کر نمازی کو اپنے لئے دعا کرنی چاہئے پھر سلام پھیر دے ۔ انہی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا صحیح مسلم شریف میں اس کے سوا بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ یوں ہی اللہ تعالیٰ کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ (۶۱) اس سورت کے احکام کا ذکر کر کے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے اپنے واضح احکام مفید فرمان کھول کھول کر اسی طرح بیان فرمایا کرتا ہے تاکہ وہ غور وفکر کریں ، سوچیں سمجھیں اور عقل مندی حاصل کریں۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں توجب تک آپ سے اجازت نہ لیں نہیں جاتے۔ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ادب اور بھی سکھاتا ہے کہ جیسے آتے ہوئے اجازت مانگ کر آتے ہو ایسے جانے کے وقت بھی میرے نبی سے اجازت مانگ کر جاؤ ۔ خصوصاً ایسے وقت جب کہ مجمع ہو اور کسی ضروری امر پر مجلس ہوئی ہو مثلاً نماز جمعہ ہے یا نماز عید ہے یا جماعت ہے یا کوئی مجلس شوری ہم تو ایسے موقعوں پر جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لو ہرگز ادھر ادھر نہ جاؤ مؤمن کامل کی ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۶۲) پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ جب یہ اپنے کسی ضروری کام کے لئے آپ سے اجازت چاہیں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیا کریں اور ان کے لئے طلب بخشش کی دعائیں بھی کرتے رہیں ۔ ابوداؤد میں ہےؒ جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں جائے تو اہل مجلس کو سلام کر لیا کرے اور جب وہاں سے آنا چاہے تو بھی سلام کر لیاکرے آخری دفعہ کا سلام پہلی مرتبہ کے سلام سے کچھ کم نہیں ہے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام صاحب نے اسے حسن فرمایا ہے ۔ لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۚ تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بلاتے تو آپ کے نام یا کنیت سے معمولی طور پر جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں آپ کو بھی پکار لیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی سے منع فرمایا کہ نام نہ لو بلکہ یا نبی اللہ یارسول اللہ کہہ کر پکارو ۔ تاکہ آپ کی بزرگی اور عزت وادب کا پاس رہے ۔ اسی کے مثل آیت لَا تَقُولُوا رَاعِنَا (۲:۱۰۴) ہے اور اسی جیسی آیت لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ (۴۹:۲) ہے یعنی ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پربلند نہ کرو ۔ آپ کے سامنے اونچی اونچی آوازوں سے نہ بولو جیسے کہ بےتکلفی سے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو اگر ایسا کیا تو سب اعمال غارت ہوجائیں گے اور پتہ بھی نہ چلے ۔ یہاں تک کہ فرمایا جو لوگ تجھے حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بےعقل ہیں اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم خود ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا ۔ پس یہ سب آداب سکھائے گئے کہ آپ سے خطاب کس طرح کریں ، آپ سے بات چیت کس طرح کریں ، آپ کے سامنے کس طرح بولیں چالیں بلکہ پہلے تو آپ سے سرگوشیاں کرنے کے لئے صدقہ کرنے کا بھی حکم تھا۔ ایک مطلب تو اس آیت کا یہ ہوا ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو تم اپنی دعاؤں کی طرح سمجھو، آپ کی دعا مقبول ومستجاب ہے ۔ خبردار کبھی ہمارے نبی کو تکلیف نہ دینا کہیں ایسانہ ہو کہ ان کے منہ سے کوئی کلمہ نکل جائے تو تہس نہس ہوجاؤ ۔ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں اس جملے کی تفسیر میں مقاتل بن حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن خطبے میں بیٹھا رہنا منافقوں پربہت بھاری پڑتا تھا جب کسی کو کوئی ایسی ضرورت ہوتی تو اشارے سے آپ سے اجازت چاہتا اور آپ اجازت دے دیتے اس لئے کہ خطبے کی حالت میں بولنے سے جمعہ باطل ہو جاتا ہے تو یہ منافق آڑ ہی آڑ میں نظریں بچا کر سرک جاتے تھے سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے جماعت میں جب منافق ہوتے تو ایک دوسرے کی آڑ لے کر بھاگ جاتے ۔ اللہ کے پیغمبر سے اور اللہ کی کتاب سے ہٹ جاتے ، صف سے نکل جاتے ، مخالفت پر آمادہ ہوجاتے ۔ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ آ پہنچے۔ (۶۳) جو لوگ امر رسول ، سنت رسول ، فرمان رسول ، طریقہ رسول اور شرع رسول کے خلاف کریں وہ سزا یاب ہونگے ۔ انسان کو اپنے اقوال وافعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور احادیث سے ملانے چاہئیں جو موافق ہوں اچھے ہیں جو موافق نہ ہوں مردود ہے ۔ ظاہر یا باطن میں جو بھی ہے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے اس کے دل میں کفر ونفاق ، بدعت وبرائی کا بیج بودیا جاتا ہے یا اسے سخت عذاب ہوتا ہے ۔ یا تو دنیا میں ہی قتل قید حد وغیر جیسی سزائیں ملتی ہیں یا آخرت میں عذاب اخروی ملے گا ۔ مسند احمد میں حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی جب وہ روشن ہوئی تو پتنگوں اور پروانوں کا اجتماع ہوگیا اور وہ دھڑا دھڑ اس میں گرنے لگے ۔ اب یہ انہیں ہر چند روک رہا ہے لیکن وہ ہیں شوق سے اس میں گرے جاتے ہیں اور اس شخص کے روکنے سے نہیں روکتے ۔ یہی حالت میری اور تمہاری ہے کہ تم آگ میں گرنا چاہتے ہو اور میں تمہیں اپنی باہوں میں لپیٹ لپیٹ کر اس سے روک رہا ہوں کہ آگ میں نہ گھسو ، آگ سے بچو لیکن تم میری مانتے اور اس آگ میں گھسے چلے جا رہے ہو۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ آگاہ ہو جاؤ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ مالک زمین وآسمان عالم غیب وحاضر بندوں کے چھپے کھلے اعمال کا جاننے والا ہی ہے ۔ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۗ جس روش پر تم ہو وہ اسے بخوبی جانتا ہے اور جس دن یہ سب اسکی طرف لوٹائے جائیں گے اس دن انکو انکے کئے سے وہ خبردار کر دیگا۔ قَدْ يَعْلَمُ میں قَدْ تحقیق کے لئے ہے جیسے اس سے پہلے کی آیت قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ میں ۔ اور جیسے مؤذن کہتا ہے قدقامت الصلوۃ تو فرماتا ہے کہ جس حال پر تم جن اعمال وعقائد کے تم ہو اللہ پر خوب روشن ہے ۔آسمان وزمین کا ایک ذرہ بھی اللہ پر پوشیدہ نہیں ۔ جو عمل تم کرو جو حالت تمہاری ہو اس اللہ پر عیاں ہے ۔ کوئی ذرہ اس سے چھپا ہوا نہیں ۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں محفوظ ہے ۔ بندوں کے تمام خیروشر کا وہ عالم ہے کپڑوں میں ڈھک جاؤ چھپ لک کر کچھ کرو ہر پوشیدہ اور ہر ظاہر اس پر یکساں ہے ۔ سرگوشیاں اور بلند آواز کی باتیں اس کے کانوں میں ہیں تمام جانداروں کا روزی رساں وہی ہے ہر ایک جاندار کے ہر حال کو جاننے والا وہی ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں پہلے سے درج ہے ۔ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جہنیں اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ۔ خشکی تری کی ہر ہرچیز کو وہ جانتا ہے ۔ کسی پتے کا جھڑنا اس کے علم سے باہر نہیں زمین کی اندھیریوں کے اندر کا دانہ اور کوئی تر وخشک چیز ایسی نہیں جو کتاب مبین میں نہ ہو ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں ۔ جب مخلوق اللہ کی طرف لوٹائی جائے گی اس وقت ان کے سامنے ان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور بدی پیش کر دی جائے گی ۔ تمام اگلے پچھلے اعمال دیکھ لے گا ۔ اعمال نامہ کو ڈرتا ہوا دیکھے گا اور اپنی پوری سوانح عمری اس میں پاکر حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ یہ کیسی کتاب ہے جس نے بڑی تو بڑی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نہیں چھوڑی جو جس نے کیا تھا وہ وہاں پائے گا ۔ تیرے رب کی ذات ظلم سے پاک ہے ۔ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔ (۶۴) آخر میں فرمایا اللہ بڑا ہی دانا ہے ہرچیز اس کے علم میں ہے ۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEmail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |