Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al MominunAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی ، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے: حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی ، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کریہ دعا پڑھی: الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطافرما، محروم نہ رکھ ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پردوسروں کو پسند نہ فرما، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے۔ پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا ۔ پھر آپ نے اس سورہ کی پہلی دس آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں ، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں ۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ تک تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا یہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے ۔ مروی ہے: جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول ۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں ۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے ۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی دل میں سمائیں ۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے ۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۶۴:۱۶) پڑھی قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی (۱) الغرض فرمان ہے کہ مؤمن مراد کو پہنچ گئے ، وہ سعادت پاگئے، انہوں نے نجات پالی ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں (۲) ان مؤمنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ دل حاضر رکھتے ہیں ، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں ، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے ۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں ، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے ، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے (نسائی ) ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے تھے ۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں (۳) پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک ، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے: وَإِذَا مَرُّواْ بِاللَّغْوِ مَرُّواْ كِراماً اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں (۲۵:۷۲) یعنی وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں ۔ وَ الَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں (۴) اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اس کا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار ، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے ۔ دیکھئے سورۃ انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے: وَءَاتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ( کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو۔ ۶:۱۴۱) ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّـهَا ۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّـهَا جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی ۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا ۔ (۹۱:۹،۱۰) یہی ایک قول آیت وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ۔ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (۴۱:۶،۷) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں ۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی ۔ فی الواقع مؤمن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۵) پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں ۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ۔ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔ (۶) ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں ۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں ۔ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں (۷) جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہؓ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا ۔ صحابہؓ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے ۔ اس پر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلام کا سرمنڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے ، لیکن یہ اثر منقطع ہے ۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ۔ امام ابن جریر نے اسے سورۃ مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی ۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے ۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے - ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا - اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا ۔ - اور نشے باز شراب کا عادی - اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں - اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے - اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے ۔ واللہ اعلم وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں۔ (۸) رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ - جب بات کرے ، جھوٹ بولے - جب وعدہ کرے خلاف کرے - جب امانت دیا جائے خیانت کرے ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں (۹) پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا (بخاری ومسلم ) حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وقت ، رکوع ، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے: سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے ۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے ۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مؤمن ہی کرسکتا ہے ۔ أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ یہی وارث ہیں۔ (۱۰) الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ جو فردوس کے وارث ہونگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے (۱۱) ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ( بخاری ومسلم ) فرماتے ہیں: تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں ۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے ۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے ، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے ، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مؤمنوں کے حوالے کر دئیے گئے ۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا ۔ صحیح مسلم میں ہے : کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے ، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود ونصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا ۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے ، جہنم سے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا ۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيّاً یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ہوں۔ (۱۹:۶۳) اسی جیسی آیت یہ بھی ہے: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ یہی وہ بہشت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔ (۴۳:۷۲) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں۔ واللہ اعلم وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا (۱۲) انسان کی پیدائش مرحلہ وار اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتدا بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں ، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر حضرت آدم علیہ السلام کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی ۔ جیسے فرمان ہے: وَمِنْ ءَايَـتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَآ أَنتُمْ بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے) پھیل رہے ہو (۳۰:۲۰) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کرکے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے ۔ مسند میں ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا ، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا ۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے ، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے، کوئی اور رنگ کا ہے ۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں ۔ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔ (۱۳) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ۔ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل ایک بےوقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی (۳۲:۷،۸) اور آیت میں ہے : أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ۔ أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے (منی سے) پیدا نہیں کیا۔ پھر ہم نے اسے مضبوظ و محفوظ جگہ میں رکھا (۷۷:۲۰،۲۱) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا پھر دوسری بناوٹ میں اسے پیدا کر دیا پس انسان کے لئے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا ۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے ۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے ۔ پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں ۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے اور ایک جاندار انسان بن جائے ۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے ۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا (۹۵:۴) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہوجاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہوجاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہوجاتا ہے ۔ واللہ اعلم صادق ومصدوق آنحضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الہٰی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں - روزی ، - اجل ، - عمل ، - اور نیک یا بد، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آجاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہوجاتا ہے ۔ (بخاری ومسلم) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہوجاتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے باتیں بیان کررہے تھے کہ ایک یہودی آگیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے ۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے۔ اس نے کہا ۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہوگا یا بد؟ مرد ہوگا یا عورت؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل ، عمر، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی بزار کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے: اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے ، اے اللہ اب لوتھڑا ہے ، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت،شکی ہو یا سعید؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔ (۱۴) ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ نکلا اوروہی پھر اترا۔ زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور آیت ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ تک لکھوا چکے تو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیسے ہنسے ؟ آپ ﷺنے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکے میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکے میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے واللہ اعلم ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو۔ (۱۵) اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو، ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے۔ (۱۶) پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤگے، پھر حساب کتاب ہوگا خیروشر کا بدلہ ملے گا۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات میں غافل نہیں ہیں ۔ (۱۷) آسمان کی پیدائش مرحلہ وار انسان کی پیدائش کا ذکر کرکے آسمانوں کی پیدائش کا بیان ہو رہا ہے جن کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے ۔ سورۃ الم سجدہ میں بھی اسی کا بیان ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز کی اول رکعت میں پڑھا کرتے تھے وہاں پہلے آسمان وزمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر انسانی پیدائش کا بیان ہے پھر قیامت کا اور سزا جزا کا ذکر ہے وغیرہ۔ سات آسمانوں کے بنانے کا ذکر کیا ہے جیسے فرمان ہے: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں (۱۷:۴۴) جیسے فرمان ہے: أَلَمْ تَرَوْاْ كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَـوَتٍ طِبَاقاً کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اوپر تلے ساتوں آسمانوں کو بنایا ہے ۔ (۷۱:۱۵) جیسے فرمان ہے: اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ ... وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمَا اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے انہی جیسی زمینیں بھی ۔ اس کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔ اور تمام چیزوں کو اپنے وسیع علم سے گھیرے ہوئے ہے (۶۵:۱۲) اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں ۔ جو چیز زمین میں جائے جو زمین سے نکلے اللہ کے علم میں ہے آسمان سے جو اترے اور جو آسمان کی طرف چڑھے وہ جانتا ہے جہاں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ایک ایک عمل کو وہ دیکھ رہا ہے ۔ آسمان کی بلند و بالا چیزیں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں ، اور پہاڑوں کی چوٹیاں، سمندروں، میدانوں، درختوں کی اسے خبر ہے ۔ جیسے فرمان ہے: وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ درختوں کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اسکے علم میں نہ ہو کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں ایسا نہیں جاتا جسے وہ نہ جانتا ہو کوئی ترخشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں نہ ہو۔ (۶:۵۹) وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی یوں تو بیشمار اور ان گنت نعمتیں ہیں ۔ لیکن چند بڑی بڑی نعمتوں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آسمان سے بقدر حاجت وضرورت بارش برساتا ہے ۔ نہ تو بہت زیادہ کہ زمین خراب ہوجائے اور پیداوار گل سڑ جائے ۔ نہ بہت کم کہ پھل اناج وغیرہ پیدا ہی نہ ہو ۔ بلکہ اس اندازے سے کہ کھیتی سرسبز رہے ، باغات ہرے بھرے رہیں ۔ حوض، تالاب، نہریں ندیاں ، نالے ، دریا بہہ نکلیں نہ پینے کی کمی ہو نہ پلانے کی ۔ یہاں تک کہ جس جگہ زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہوتی ہے کم ہوتی ہے اور جہاں کی زمین اس قابل ہی نہیں ہوتی وہاں پانی نہیں برستا لیکن ندیوں اور نالوں کے ذریعہ وہاں قدرت برساتی پانی پہنچا کر وہاں کی زمین کو سیراب کردیتی ہے ۔ جیسے کہ مصر کے علاقہ کی زمین جو دریائے نیل کی تری سے سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے ۔ اسی پانی کے ساتھ سرخ مٹی کھچ کر جاتی ہے جو حبشہ کے علاقہ میں ہوتی ہے وہاں کی بارش کے ساتھ مٹی بہہ کر پہنچتی ہے جو زمین پر ٹھہرجاتی ہے اور زمین قابل زراعت ہوجاتی ہے ورنہ وہاں کی شور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہیں ۔ سبحان اللہ اس لطیف خبیر، اس غفور رحیم اللہ کی کیا کیا قدرتیں اور حکمتیں زمین میں اللہ پانی کو ٹھہرا دیتا ہے زمین میں اس کو چوس لینے اور جذب کرلینے کی قابلیت اللہ تعالیٰ پیدا کردیتا ہے تاکہ دانوں کو اور گٹھلیوں کو اندر ہی اندر وہ پانی پہنچا دے وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں (۱۸) پھر فرماتا ہے ہم اس کے لے جانے اور دور کردینے پریعنی نہ برسانے پر بھی قادر ہیں اگرچاہیں شور ، سنگلاخ زمین، پہاڑوں اور بےکار بنوں میں برسادیں ۔ اگر چاہیں تو پانی کو کڑوا کردیں نہ پینے کے قابل رہے نہ پلانے کے ، نہ کھیت اور باغات کے مطلب کار ہے ، نہ نہانے دھونے کے مقصد کا۔ اگرچاہیں زمین میں وہ قوت ہی نہ رکھیں کہ وہ پانی کو جذب کرلے چوس لے بلکہ پانی اوپر ہی اوپر تیرتا پھرے یہ بھی ہمارے اختیار میں ہے کہ ایسی دوردراز جھیلوں میں پانی پہنچا دیں کہ تمہارے لے بےکار ہوجائے اور تم کوئی فائدہ اس سے نہ اٹھا سکو۔ یہ خاص اللہ کا فضل وکرم اور اس کا لطف ورحم ہے کہ وہ بادلوں سے میٹھا عمدہ ہلکا اور خوش ذائقہ پانی برساتا ہے پھر اسے زمین میں پہنچاتا ہے اور ادھر ادھر ریل پیل کردیتا ہے کھیتیاں الگ پکتی ہیں باغات الگ تیار ہوتے ہیں، خود پیتے ہو اپنے جانوروں کو پلاتے ہو نہاتے دھوتے ہو پاکیزگی اور ستھرائی حاصل کرتے ہو فالحمدللہ ۔ فَأَنْشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ اسی پانی کے ذریعے سے ہم تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کر دیتے ہیں، کہ تمہارے لیے ان میں بہت سے میوے ہوتے ہیں انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو (۱۹) آسمانی بارش سے رب العالمین تمہارے لئے روزیاں اُگاتا ہے، لہلہاتے ہوئے کھیت ہیں، کہیں سرسبز باغ ہیں جو خوش نما اور خوش منظر ہونے کے علاوہ مفید اور فیض والے ہیں ۔ کھجور انگور جو اہل عرب کا دل پسند میوہ ہے ۔ اور اسی طرح ہر ملک والوں کے لئے الگ الگ طرح طرح کے میوے اس نے پیدا کردیے ہیں ۔ جن کے حصول کے عوض اللہ کے شکرگزاری بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ بہت میوے تمہیں اس نے دے رکھے ہیں جن کی خوبصورتی بھی تم دیکھتے ہو اور ان کے ذائقے سے بھی کھا کر فائدہ اٹھاتے ہو۔ وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ اور وہ درخت جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے اور کھانے والے کے لئے سالن ہے ۔ (۲۰) پھر زیتوں کے درخت کا ذکر فرمایا ۔ طُورِ سَيْنَاءَ ہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات چیت کی تھی اور اس کے ارد گرد کی پہاڑیاں ۔ طُور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو ہرا اور درختوں والا ہو ورنہ اسے جبل کہیں گے طُور نہیں کہیں گے۔ پس طُورِ سَيْنَاءَ میں جو درخت زیتوں پیدا ہوتا ہے اس میں سے تیل نکلتا ہے جو کھانے والوں کو سالن کا کام دیتا ہے۔ حدیث میں ہے: زیتوں کا تیل کھاؤ اور لگاؤ وہ مبارک درخت میں سے نکلتا ہے ( احمد) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب عاشورہ کی شب کو مہمان بن کر آئے تو آپ نے انہیں اونٹ کی سری اور زیتون کھلایا اور فرمایا یہ اس مبارک درخت کا تیل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ تمہارے لئے چوپایوں میں بھی بڑی بھاری عبرت ہے۔ نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور بھی بہت سے نفع تمہارے لئے ان میں ہیں ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔ (۲۱) چوپایوں کا ذکر ہو رہا ہے اور ان سے جو فوائد انسان اٹھا رہے ہیں، ان پر سوار ہوتے ہیں ان پر اپنا سامان اسباب لادتے ہیں اور دوردراز تک پہنچتے ہیں کہ یہ نہ ہوتے تو وہاں تک پہچنے میں جان آدھی رہ جاتی۔ بیشک اللہ تعالیٰ بندوں پر مہربانی اور رحمت والا ہے جیسے فرمان ہے: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَآ أَنْعـماً فَهُمْ لَهَا مَـلِكُونَ ... وَلَهُمْ فِيهَا مَنَـفِعُ وَمَشَـرِبُ أَفَلاَ يَشْكُرُونَ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ خود ہم نے انہیں چوپایوں کا مالک بنا رکھا ہے کہ یہ ان کے گوشت کھائیں ان پر سواریاں لیں اور طرح طرح کہ نفع حاصل کریں کیا اب بھی ان پر ہماری شکر گزاری واجب نہیں ؟ (۳۶:۷۱،۷۳) وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کرائے جاتے ہو (۲۲) یہ خشکی کی سواریاں ہیں پھر تری کی سواریاں کشتی جہاز وغیرہ الگ ہیں۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ یقیناً ہم نے نوح ؑ کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) نہیں ڈرتے۔ (۲۳) نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بشیرونذیر بنا کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا ۔ آپ نے ان میں جاکر پیغام الہٰی پہنچایا کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہاری عبادت کا حقدار کوئی نہیں ۔ تم اللہ کے سوا اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہوئے اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے قوم کے بڑوں نے اور سرداروں نے کہا یہ تو تم جیسا ہی ایک انسان ہے۔ نبوت کا دعویٰ کرکے تم سے بڑا بننا چاہتا ہے سرداری حاصل کرنے کی فکر میں ہے وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ اگر اللہ ہی کو منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو اتارتاہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانے میں سنا ہی نہیں۔ (۲۴) بھلا انسان کی طرف وحی کیسے آتی ؟ اللہ کا ارادہ نبی بھیجنے کا ہوتا تو کسی آسمانی فرشتے کو بھیج دیتا ۔ یہ تو ہم نے کیا ، ہمارے باپ دادوں نے بھی نہیں سنا کہ انسان اللہ کا رسول بن جائے ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينٍ یقیناً اس شخص کو جنون ہے، پس تم اسے ایک وقت مقرر تک ڈھیل دو ۔ (۲۵) یہ تو کوئی دیوانہ شخص ہے کہ ایسے دعوے کرتا ہے اور ڈینگیں مارتا ہے۔ اچھا خاموش رہو دیکھ لو ہلاک ہوگا ۔ قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ نوح ؑنے دعا کی اے میرے رب ان کو جھٹلانے پر تو میری مدد کر (۲۶) جب نوح علیہ السلام ان سے تنگ آگئے اور مایوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی : فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ نوح علیہ السلام نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر (۵۴:۱۰) میرے پروردگار میں لاچار ہوگیا ہوں میری مدد فرما۔ جھٹلانے والوں پر مجھے غالب کر فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا اسی وقت فرمان الہٰی آیا کہ کشتی بناؤ اور خوب مضبوط چوڑی چکلی ۔ اس میں ہر قسم کا ایک ایک جوڑا رکھ لو حیوانات نباتات پھل وغیرہ وغیرہ اور اسی میں اپنے والوں کو بھی بٹھالو مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کرچکی ہے جو ایمان نہیں لائے ۔ جیسے آپ کی قوم کے کافر اور آپ کا لڑکا اور آپ کی بیوی ۔ واللہ اعلم ۔ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ جب ہمارا حکم آجائے اور تنور ابل پڑے تو تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لے وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ اور اپنے اہل کو بھی، مگر ان میں سے جن کی بابت ہماری بات پہلے گزر چکی ہے وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ خبردار جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کرنا وہ تو سب ڈبوئے جائیں گے ۔ (۲۷) اور جب تم عذاب آسمانی بصورت بارش اور پانی آتا دیکھ لو پھر مجھ سے ان ظالموں کی سفارش نہ کرنا ۔ پھر ان پر رحم نہ کرنا نہ ان کے ایمان کی امید رکھنا ۔ بس پھر تو یہ سب غرق ہوجائیں گے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگا ۔ اس کا پورا قصہ سورۃ ھود کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہے اس لئے ہم نہیں دہراتے ۔ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ جب تو اور تیرے ساتھی کشتی پر باطمینان بیٹھ جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہی ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی۔ (۲۸) جب تو اور تیرے مؤمن ساتھی کشتی پرسوار ہوجاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے ، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی جیسے فرمان ہے : وَالَّذِى خَلَقَ الأَزْوَجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالاٌّنْعَـمِ مَا تَرْكَبُونَ ... وَإِنَّآ إِلَى رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ اللہ نے تمہاری سواری کے لئے کشتیاں اور چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم سواری لے کر اپنے رب کی نعمت کو مانو (۴۳:۱۲،۱۴) اور سوار ہو کر کہو کہ وہ اللہ پاک ہے جس نے ان جانوروں کو ہمارے تابع بنادیا ہے حالانکہ ہم میں خود اتنی طاقت نہ تھی بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ اور کہنا کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں میں (۲۹) حضرت نوح علیہ السلام نے یہی کہا اور فرمایا آؤ اس میں بیٹھ جاؤ اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے پس شروع چلنے کے وقت بھی اللہ کو یاد کیا۔ اور جب وہ ٹھہرنے لگی تب بھی اللہ کو یاد کیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے مبارک منزل پر اتارنا اور توہی سب سے بہتر اتارنے والا ہے إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ وَإِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِينَ یقیناً اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں اور ہم بیشک آزمائش کرنے والے ہیں۔ (۳۰) اس میں یعنی مؤمنوں کی نجات اور کافروں کی ہلاکت میں انبیاء کی تصدیق کی نشایاں ہیں اللہ کی الوہیت کی علامتیں ہیں اس کی قدرت اس کا علم اس سے ظاہر ہوتا ہے ۔ یقیناً رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش اور ان کا پورا امتحان کرلیتا ہے ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور اُمت پیدا کی (۳۱) فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ پھر ان میں خود ان میں سے (ہی) رسول بھی بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تم کیوں نہیں ڈرتے؟ (۳۲) اللہ تعالیٰ بیان فرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی اُمتیں آئیں جیسے عاد جو ان کے بعد آئی یا ثمود قوم جن پر چیخ کا عذاب آیا تھا ۔ جیسے کہ اس آیت میں ہے ان میں بھی اللہ کے رسول علیہ السلام آئے اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی تعلیم دی ۔ وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا اور سردار قوم نے جواب دیا، جو کفر کرتے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے انہیں دنیاوی زندگی میں خوشحال کر رکھا تھا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، تمہاری ہی خوراک یہ بھی کھاتا ہے اور تمہارے پینے کا پانی ہی یہ بھی پیتا ہے ۔ (۳۳) وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ اگر تم نے اپنے جیسے ہی انسان کی تابعداری کر لی تو بیشک تم سخت خسارے والے ہو ۔ (۳۴) لیکن انہوں نے جھٹلایا، مخالفت کی ، اتباع سے انکار کیا۔ محض اس بناپر کے یہ انسان ہیں۔ أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ کیا یہ تمہیں اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر صرف خاک اور ہڈی رہ جاؤ گے تو تم پھر زندہ کیے جاؤ گے۔ (۳۵) هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ نہیں نہیں دور اور بہت دور ہے وہ جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو ۔ (۳۶) إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ (زندگی) تو صرف دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے جیتے رہتے ہیں اور یہ نہیں کہ ہم اٹھائے جائیں گے۔ (۳۷) إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِينَ یہ تو بس ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر جھوٹ (بہتان) باندھ لیا ہے، ہم تو اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ (۳۸) قیامت کو بھی نہ مانا، جسمانی حشرکے منکر بن گئے اور کہنے لگے کہ یہ بالکل دور از قیاس ہے ۔ بعثت ونشر،حشروقیامت کوئی چیز نہیں ۔ اس شخص نے یہ سب باتیں از خود گھڑلی ہیں ہم ایسی فضول باتوں کے مانے والے نہیں قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ نبی نے دعا کی کہ پروردگار! ان کے جھٹلانے پر میری مدد کر (۳۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ان پر مدد طلب کی ۔ قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ جواب ملا کہ یہ تو بہت ہی جلد اپنے کیے پر پچھتانے لگیں گے (۴۰) اسی وقت جواب ملاکہ تیری ناموافقت ابھی ابھی ان پر عذاب بن کر برسے گی اور یہ آٹھ آٹھ آنسو روئیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً ۚ بالآخر عدل کے تقاضے کے مطابق چیخ نے پکڑ لیا اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ کر ڈالا آخر ایک زبردست چیخ اور بےپناہ چنگھاڑ کے ساتھ سب تلف کردئیے گئے اور وہ مستحق بھی اسی کے تھے ۔ تیزوتند آندھی اور پوری طاقتور ہوا کے ساتھ ہی فرشتے کی دل دہلانے والی خوف ناک آواز نے انہیں پارہ پارہ کردیا وہ ہلاک اور تباہ ہوگئے ۔ بھوسہ بن کر اڑگئے۔ صرف مکانات کے کھنڈر ان گئے گزرے ہوئے لوگوں کی نشاندہی کے لئے رہ گئے وہ کوڑے کرکٹ کی طرح ناچیز محض ہوگئے ۔ ایسے ظالموں کے لئے دوری ہے ۔ ان پر رب نے ظلم نہیں کیا بلکہ انہی کا کیا ہوا تھا جو ان کے سامنے آیا ۔ جیسے فرمان ہے: وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی ظالم تھے۔ (۴۳:۷۶) فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ پس ظالموں کے لئے دوری ہو۔ (۴۱) پس اے لوگو! تمہیں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ڈرنا چاہے۔ ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ ان کے بعد ہم نے اور بھی بہت سی اُمتیں پیدا کیں (۴۲) ان کے بعد بھی بہت سی اُمتیں اور مخلوق آئی جو ہماری پیدا کردہ تھی ۔ مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ نہ تو کوئی اُمت اپنے وقت مقرہ سے آگے بڑھی اور نہ پیچھے رہی (۴۳) جیسے فرمایا: إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ان کی پیدائش سے پہلے ان کی اجل جوقدرت نے مقرر کی تھی ، اسے اس نے پورا کیا نہ تقدیم ہوئی نہ تاخیر۔ (۱۰:۴۹) ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ پھر ہم نے لگاتار رسول بھیجے جب جب جس اُمت کے پاس اس کا رسول آیا اس نے جھٹلایا، فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ پس ہم نے ایک کو دوسرے کے پیچھے لگا دیا اور انہیں افسانہ بنا دیا۔ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ ان لوگوں کو دوری ہے جو ایمان قبول نہیں کرتے۔ (۴۴) پھر ہم نے پے درپے لگاتار رسول بھیجے ۔ ہر اُمت میں پیغمبر آیا اس نے لوگوں کو پیغام الہٰی پہنچایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے ماسوا کسی کی پوجا نہ کرو ۔ بعض راہ راست پر آگئے اور بعض پر کلمہ عذاب راست آگیا ۔ تمام اُمتوں کی اکثریت نبیوں کی منکر رہی جیسے سورۃ یسٰین میں فرمایا : يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ افسوس ہے بندوں پر ان کے پاس جو رسول آیا انہوں نے اسے مذاق میں اڑایا ۔ (۳۶:۳۰) ہم نے یکے بعد دیگرے سب کو غارت اور فناکردیا: وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ نوح علیہ السلام کے بعد بھی ہم نے کئی ایک بستیاں تباہ کردیں ۔ (۱۷:۱۷) اور جیسے سورۃ سبا میں فرمایا : فَجَعَلْنَـهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَـهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ انہیں ہم نے پرانے افسانے بنادیا وہ نیست ونابود ہوگئے اور قصے ان کے باقی رہ گئے ۔ (۳۴:۱۹) بے ایمانوں کے لئے رحمت سے دوری ہے ۔ ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَى وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ پھر ہم نے موسیٰ ؑ کو اور اس کے بھائی ہارون ؑ کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیل کے ساتھ بھیجا۔ (۴۵) إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ فرعون اور اس کے لشکروں کی طرف، پس انہوں نے تکبر کیا اور تھے ہی وہ سرکش لوگ ۔ (۴۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور قوم فرعون کے پاس پوری دلیلوں کے ساتھ اور زبردست معجزوں کے ساتھ بھیجا فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے جیسے دو شخصوں پر ایمان لائیں؟ حالانکہ خود ان کی قوم (بھی) ہمارے ماتحت ہے۔ (۴۷) فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ پس انہوں نے دونوں کو جھٹلایا آخر وہ بھی ہلاک شدہ لوگوں میں مل گئے۔ (۴۸) لیکن انہوں نے بھی سابقہ کافروں کی طرح اپنے نبیوں کی تکذیب ومخالفت کی اور سابقہ کفار کی طرح یہی کہا کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کی نبوت کے قائل نہیں ان کے دل بھی بالکل ان جیسے ہی ہوگئے بالآخر ایک ہی دن میں ایک ساتھ سب کو اللہ تعالیٰ نے دریا برد کردیا ۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب (بھی) دی کہ لوگ راہ راست پر آجائیں ۔ (۴۹) اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لوگوں کی ہدایت کے لئے تورات ملی ۔ دوبارہ مؤمنوں کے ہاتھوں کافر ہلاک کئے گئے جہاد کے احکام اترے اس طرح عام عذاب سے کوئی اُمت فرعون اور قوم فرعون یعنی قبطیوں کے بعد ہلاک نہیں ہوئی۔ ایک اور آیت میں فرمان ہے: وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَـبَ مِن بَعْدِ مَآ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاٍّولَى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ گزشتہ اُمتوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عنائت فرمائی جو لوگوں کے لئے بصیرت ہدایت اور رحمت تھی ۔ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ (۲۸:۴۳) وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی۔ (۵۰) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد وعورت کے بغیر پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا ۔ بقیہ تمام انسانوں کو مرد وعورت سے پیدا کیا ۔ رَبْوَة کہتے ہیں بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھاس پانی والی تروتازہ اور ہری بھری تھی ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس غلام اور نبی کو اور انکی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں جگہ دی تھی ۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی ۔ کہتے ہیں یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا۔ رَبْوَة ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال رَبْوَة میں ہوگا ۔ وہ ریتلی زمین میں فوت ہوئے۔ ان تمام اقوال میں زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيّاً تیرے رب نے تیرے قدموں تلے ایک جاری نہر بہادی ہے ۔ (۱۹:۲۴) پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہیے۔ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ (۵۱) اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء علیہ السلام کو حکم فرتا ہے کہ وہ حلال لقمہ کھائیں اور نیک اعمال بجالایا کریں پس ثابت ہوا کہ لقمہ حلال عمل صالحہ کا مددگار ہے پس انبیاء نے سب بھلائیاں جمع کرلیں ، قول، فعل ، دلالت ، نصیحت، سب انہوں نے سمیٹ لی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے سب بندوں کی طرف سے نیک بدلے دے۔ یہاں کوئی رنگت مزہ بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حلال چیزیں کھاؤ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے بننے کی اجرت میں سے کھاتے تھے صحیح حدیث میں ہے: کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے پوچھا آپ سمیت؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ اور حدیث میں ہے: حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے: اللہ کو سب سے زیادہ پسند روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قیام داؤد علیہ السلام کا قیام ہے ۔ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز تہجد پڑھتے تھے اور چھٹا حصے سوجاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہ دکھاتے۔ اُم عبداللہ بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ شام کے وقت بھیجا تاکہ آپ اس سے اپنا روزہ افطار کریں دن کا آخری حصہ تھا اور دھوپ کی تیزی تھی تو آپ نے قاصد کو واپس کردیا اگر تیری بکری کا ہوتا تو خیر اور بات تھی ۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ دودھ اپنے مال سے خرید کیا ہے پھر آپ نے پی لیا دوسرے دن مائی صاحبہ حاضر خدمت ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گرمی میں میں نے دودھ بھیجا، بہت دیر سے بھیجا تھا آپ نے میرے قاصد کو واپس کردیا ۔ آپ نے فرمایا ہاں مجھے یہی فرمایا گیا ہے : انبیاء صرف حلال کھاتے ہیں اور صرف نیک عمل کرتے ہیں اور حدیث میں ہے: آپ نے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسول کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاک چیز کھاؤ اور نیک کام کرو میں تمہارے اعمال کا عالم ہوں یہی حکم ایمان والوں کو دیا کہ اے ایماندارو! جو حلال چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ۔ پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بالوں والا غبار آلود چہرے والا ہوتا ہے لیکن کھانا پہنناحرام کا ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر اے رب اے رب کہتا ہے لیکن ناممکن ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو۔ (۵۲) پھر فرمایا اے پیغمبرو تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے ایک ہی ملت ہے یعنی اللہ واحد لاشریک لہ کی عبادت کی طرف دعوت دینا ۔اسی لئے اسی کے بعد فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ پس مجھ سے ڈرو ۔ سورۃ انبیاء میں اس کی تفسیر وتشریح ہوچکی ہے آیت أُمَّةً وَاحِدَةً پر نصب حال ہونے کی وجہ ہے ۔ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ پھر انہوں نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لئے، ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر اترا رہا ہے۔ (۵۳) جن اُمتوں کی طرف حضرت انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تھے انہوں نے اللہ کے دین کے ٹکڑے کردئے اور جس گمراہی پر اڑگئے اسی پر نازاں وفرحاں ہوگئے اس لئے کہ اپنے نزدیک اسی کو ہدایت سمجھ بیٹھے ۔ فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ حَتَّى حِينٍ پس آپ (بھی) انہیں انکی غفلت میں ہی کچھ مدت پڑا رہنے دیں۔ (۵۴) پس بطور ڈانٹ کے فرمایا انہیں ان کے بہکنے بھٹکنے میں ہی چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آجائے ۔ کھانے پینے دیجئے ، مست وبے خود ہونے دیجئے ، ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔ (۵۵) کیا یہ مغرور یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال واولاد انہیں دے رہے ہیں وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کررہے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ یہ تو انہیں دھوکا لگا ہے یہ اس سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جیسے یہاں خوش حال ہیں وہاں بھی بےسزا رہ جائیں گے یہ محض غلط ہے نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ وہ ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں۔ (۵۶) جو کچھ انہیں دنیا میں ہم دے رہے ہیں وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے لیکن یہ بےشعور ہیں ۔ یہ لوگ اصل تک پہنچے ہی نہیں ۔ جیسے فرمان ہے: فَلاَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَلاَ أَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا تجھے ان کے مال واولاد دھوکے میں نہ ڈالیں اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اس سے انہیں دنیا میں عذاب کرے ۔ (۹:۳۵) اور آیت میں ہے: إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمَاً یہ ڈھیل صرف اس لئے دی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں اور بڑھ جائیں ۔ (۳:۱۷۸) اور جگہ ہے: فَذَرْنِى وَمَن يُكَذِّبُ بِهَـذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لاَ يَعْلَمُونَ وَأَمْلَى لَهُمْ مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح بتدریج پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہو۔ (۶۸:۴۴،۴۵) اور آیتوں میں فرمایا ہے: ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا ... إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے اور اسے بہت سا مال دے رکھا تھا۔ اور حاضر باش فرزند بھی اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ نہیں نہیں وہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے۔ (۷۴:۱۱،۱۶) اور آیت میں ہے : وَمَآ أَمْوَلُكُمْ وَلاَ أَوْلَـدُكُمْ بِالَّتِى تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَى إِلاَّ مَنْ ءَامَنَ وَعَمِلَ صَـلِحاً تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہیں مجھ سے قربت نہیں دے سکتیں مجھ سے قریب تو وہ ہے جو ایماندار اور نیک عمل ہو۔ (۳۴:۳۷) اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اسی طرح تقسیم کئے ہیں جس طرح روزیاں تقسیم فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہو پس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہوجائے اور بندہ مؤمن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےفکر نہ ہوجائیں ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایذاؤں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا دھوکے بازی ، ظلم وغیرہ ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کرلے اس کے خرچ میں برکت نہیں ہوتی اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہاں برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے ۔ خبیث خبیث کو نہیں مٹاتا ۔ إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔ (۵۷) فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے ۔ حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مؤمن نیکی اور خوف الہٰی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بےخوف ہوتا ہے ۔ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ یقیناً جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ (۵۸) یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے حضرت مریم علیہا السلام کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضا اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا ۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہرکام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں ، ہرخبر کو وہ سچ مانتے ہیں وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے (۵۹) وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں ، اللہ کو واحد اور بےنیاز جانتے ہیں اسے بے اولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں ، بینظیر اور بےکفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ (۶۰) اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا ،چوری ، اور شراب خواری ہوجاتی ہے لیکن ان کے دل میں خوف الہٰی ہوتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں، صدقے کرتے ہیں ، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں ، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں (ترمذی ) اس آیت کی دوسری قرأت يَاْتُونَ مَا آتَوْا بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس ابوعاصم گئے ۔ آپ نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو ؟ جواب دیا اس لئے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت کے الفاظ کی تحقیق کے لئے حاضر ہوا ہوں آیت يُؤْتُونَ مَا آتَوْا ہیں یا يَاْتُونَ مَا آتَوْا ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لئے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہوگی آپ نے فرمایا پھر تم خوش ہوجاؤ ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے ۔ اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے ۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں واللہ اعلم ۔ أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں۔ (۶۱) ان اوصاف والے جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں۔ وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ ۚ ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے، اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے ۔ ایسے احکام نہیں دئیے جو انسانی طاقت سے خارج ہوں ۔ پھر قیامت کے دن وہ اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں لکھے ہوئے موجود ہوں گے۔ یہ نامہ اعمال صحیح صحیح طور پر ان کا ایک ایک عمل بتادے گا ۔ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ان کے اوپر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۶۲) کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا کوئی نیکی کم نہ ہوگی ہاں اکثر مؤمنوں کی برائیاں معاف کردی جائیں گی ۔ بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِنْ هَذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذَلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ بلکہ ان کے دل اس طرف سے غفلت میں ہیں اور ان کے لئے اس کے سوا بھی بہت سے اعمال ہیں جنہیں وہ کرنے والے ہیں۔ (۶۳) لیکن مشرکوں کے دل قرآن سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں ۔ اس کے سوا بھی ان کی اور بد اعمالیاں بھی ہیں جیسے شرک وغیرہ جسے یہ دھڑلے سے کررہے ہیں ۔ تاکہ ان کی برائیاں انہیں جہنم سے دور نہ رہنے دیں ۔ چنانچہ وہ حدیث گزر چکی جس میں فرمان ہے: انسان نیکی کے کام کرتے کرتے جنت سے صرف ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے جو اس پر تقدیر کا لکھا غالب آجاتا اور بداعمالیاں شروع کردیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہنم واصل ہوجاتا ہے ۔ حَتَّى إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِمْ بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیا تو بلبلانے لگے۔ (۶۴) یہاں تک کہ جب ان میں سے آسودہ حال دولت مند لوگوں پر عذاب الہٰی آپڑتا ہے تو اب وہ فریاد کرنے لگتے ہیں ۔ سورۃ مزمل میں فرمان ہے: وَذَرْنِى وَالْمُكَذِّبِينَ أُوْلِى النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلاً ـ إِنَّ لَدَيْنَآ أَنكَالاً وَجَحِيماً مجھے اور ان مالدار جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجئے انہیں کچھ مہلت اور دیجئے ہمارے پاس بیڑیاں بھی ہیں اور جہنم بھی اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور دردناک سزا ہے (۷۳:۱۱،۱۲) اور آیت میں ہے: كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَواْ وَّلاَتَ حِينَ مَنَاصٍ ہم نے ان سے پہلے اور بھی بہت سی بستیوں کو تباہ کردیا اس وقت انہوں نے واویلا شروع کی جب کہ وہ محض بےسود تھی۔ (۳۸:۳) لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّكُمْ مِنَّا لَا تُنْصَرُونَ آج مت بلبلاؤ یقیناً تم ہمارے مقابلہ پر مدد نہ کئے جاؤ گے ۔ (۶۵) یہاں فرماتا ہے آج تم کیوں شور مچا رہے ہو؟ کیوں فریاد کررہے ہو؟ کوئی بھی تمہیں آج کام نہیں آسکتا تم پر عذاب الہٰی آپڑے اب چیخنا چلانا سب بےسود ہے۔ کون ہے ؟ جو میرے عذابوں کے مقالبے میں تمہاری مدد کرسکے؟ قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُونَ میری آیتیں تو تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں پھر بھی تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے (۶۶) پھر ان کا ایک بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ میری آیتوں کے منکر تھے انہیں سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے ، بلائے جاتے تھے لیکن انکار کردیتے تھے توحید کا انکار کرتے تھے شرک پر عقیدہ رکھتے تھے حکم تو بلندوبرتر اللہ ہی کا چلتا ہے مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ اکڑتے اینٹھتے افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے ۔ (۶۷) مُسْتَكْبِرِين حال ہے ان کے حق سے ہٹنے اور حق کا انکار کرنے سے آیت ہے ذَلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِىَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَـفَرْتُمْ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُواْ فَالْحُكْمُ للَّهِ الْعَلِـىِّ الْكَبِيرِ یہ (عذاب) تمہیں اس لئے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھاتو تم مان لیتے تھے پس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے (۴۰:۱۲) یہ اس وقت تکبر کرتے تھے اور حق اور اہل حق کو حقیر سمجھتے تھے ۔ اس معنی کی رو سے بِهِ کے ضمیر کا مرجع یا تو حرم ہے یعنی مکہ کہ یہ اس میں بیہودہ بکواس بکتے تھے۔ یا قرآن ہے جسے یہ مذاق میں اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے کبھی کہانت وغیرہ ۔ یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ راتوں کو بےکار بیٹھے ہوئے اپنی گپ شب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی شاعر کہتے ، کبھی کاہن کہتے ، کبھی جادوگر کہتے ، کبھی جھوٹا کہتے ، کبھی مجنون بتلاتے ۔ حالانکہ حرم اللہ کا گھر ہے قرآن اللہ کا کلام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں جنہیں اللہ نے اپنی مدد پہنچائی اور مکے پر قابض کیا۔ ان مشرکین کو وہاں سے ذلیل وپست کرکے نکالا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ کی وجہ سے فخر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں حالانکہ یہ خیال محض وہم تھا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مشرکین قریش بیت اللہ پر فخر کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا مہتمم اور متولی بتلاتے تھے حالانکہ نہ اسے آباد کرتے تھے نہ اس کا صحیح ادب کرتے تھے امام ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں پر بہت کچھ لکھا ہے حاصل سب کا یہی ہے ۔ أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا ۔ (۶۸) اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس فعل پر اظہار کر رہا ہے جو وہ قرآن کے نہ سمجھنے اور اس میں غور وفکر نہ کرنے میں کررہے تھے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے ان پر اپنی وہ پاک اور برتر کتاب نازل فرمائی تھی جو کسی نبی پر نہیں اتاری گئی ، یہ سب سے اکمل اشرف اور افضل کتاب ہے ان کے باپ دادے جاہلیت میں مرے تھے جن کے ہاتھوں میں کوئی الہامی کتاب نہ تھی ان میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا ۔ تو انہیں چاہیے تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مانتے کتاب اللہ کی قدر کرتے اور دن رات اس پر عمل کرتے جیسے کہ ان میں کے سمجھ داروں نے کیا کہ وہ مسلمان متبع رسول ہوگئے ۔ اور اپنے اعمال سے اللہ کو راضی رضامند کردیا ۔ افسوس کفار نے عقلمندی سے کام نہ لیا ۔ قرآن کی متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑ کر ہلاک ہوگئے ۔ أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ یا انہوں نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں ۔ (۶۹) کیا یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے نہیں؟ کیا آپ کی صداقت امانت دیانت انہیں معلوم نہیں ؟ آپ تو انہی میں پیدا ہوئے انہی میں پلے انہی میں بڑے ہوئے پھر کیا وجہ ہے کہ آج اسے جھوٹا کہنے لگے جسے اس سے پہلے سچا کہتے تھے ؟ دوغلے ہو رہے تھے ۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شاہ حبش نجاشی رحمتہ اللہ علیہ سے سر دربار یہی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین وحدہ لاشریک نے ہم میں ایک رسول بھیجا ہے جس کا نسب جس کی صداقت جس کی امانت ہمیں خوب معلوم تھی ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسریٰ سے بوقت جنگ میدان میں یہی فرمایا تھا ابوسفیان صخر بن حرب نے شاہ روم سے یہی فرمایا تھا جب کہ سردربار اس نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پوچھا تھا۔ حالانکہ اس وقت تک وہ مسلمان بھی نہیں تھے لیکن انہیں آپ کی صداقت امانت دیانت سچائی اور نسب کی عمدگی کا اقرار کرنا پڑا کہتے تھے أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہے بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لایا ہے۔ ہاں ان میں اکثر حق سے چڑنے والے ہیں ۔ (۷۰) اسے جنون ہے یا اس نے قرآن اپنی طرف سے گھڑلیا ہے حالانکہ بات اس طرح سے نہیں۔ حقیت صرف یہ ہے کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں یہ قرآن پر نظریں نہیں ڈالتے اور جو زبان پر آتا ہے بک دیتے ہیں قرآن تو وہ کلام ہے جس کی مثل اور نظیر سے ساری دنیا عاجز آگئی باوجود سخت مخالفت کے اور باجود پوری کوشش اور انتہائی مقالبے کے کسی سے نہ بن پڑا کہ اس جیسا قرآن خود بنا لیتا یا سب کی مدد لے کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاتا ۔ یہ تو سراسر حق ہے اور انہیں حق سے چڑ ہے پچھلا جملہ حال ہے اور ہوسکتا ہے کہ خبریہ مستانفعہ، واللہ اعلم ۔ مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہوجا اس نے کہا اگرچہ مجھے یہ ناگوار ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں اگرچہ ناگوار ہو ایک روایت میں ہے: ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں ملا آپ نے اس سے فرمایا اسلام قبول کر اسے یہ برا محسوس ہوا اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا آپ ﷺنے فرمایا دیکھو اگر تم کسی غیرآباد خطرناک غلط راستے پر چلے جا رہے ہو اور تمہیں ایک شخص ملے جس کے نام نسب سے جس کی سچائی اور امانت داری سے تم بخوبی واقف ہو وہ تم سے کہے کہ اس راستے پر چلو جو وسیع آسان سیدھا اور صاف ہے بتاؤ تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلوگے یانہیں؟ اس نے کہا ہاں ضرور آپ ﷺنے فریاما بس تو یقین مانو قسم اللہ کی تم اس دن بھی سخت دشوار اور خطرناک راہ سے بھی زیادہ بری راہ پر ہو اور میں تمہیں آسان راہ کی دعوت دیتا ہوں میری مان لو۔ مذکور ہے: ایک اور ایسے ہی شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاجب کہ اس نے دعوت اسلام کا برا منایا بتاتو اگر تیرے دوساتھی ہوں ایک تو سچا امانت دار دوسرا جھوٹا خیانت پیشہ بتاؤ تم کس سے محبت کروگے ؟ اس نے کہا سچے امین سے فرمایا اسی طرح تم لوگ اپنے رب کے نزدیک ہو وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز درہم برہم ہو جائے حق سے مراد بقول سدی رحمتہ اللہ علیہ خود اللہ تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اگر انہی کی مرضی کے مطابق شریعت مقرر کرتا تو زمینوں آسمان بگڑ جاتے جیسے اور آیت میں ہے: لَوْلاَ نُزِّلَ هَـذَا الْقُرْءَانُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ کافروں نے کہا ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے شخص کے اوپر یہ قرآن کیوں نہ اترا (۴۳:۳۱) اس کے جواب میں فرمان ہے: أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ کیا اللہ کی رحمت کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں ہے (۴۳:۳۲) اور آیت میں ہے: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذاً لاَّ يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيراً اور اگر انہیں ملک کے کسی حصے کا مالک بنا دیا ہوتا تو کسی کو ایک کوڑی بھی نہ پرکھاتے ۔ (۴:۵۳) پس ان آیتوں میں جناب باری تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ انسانی دماغ مخلوق کے انتظام کی قابلیت میں نااہل ہے یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ اس کی صفتیں اس کے فرمان اس کے افعال اس کی شریعت اس کی تقدیر اس کی تدبیر تمام مخلوق کو حاوی ہے اور تمام مخلوق کی حاجت بر آری اور ان کی مصلحت کے مطابق ہے اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے نہ پالنہار ہے بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں۔ (۷۱) پھر فرمایا اس قرآن کو ان کی نصیحت کے لئے ہم لائے اور یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ کیا آپ ان سے کوئی اجرت چاہتے ہیں؟ یاد رکھئے کہ آپ کے رب کی اجرت بہت ہی بہتر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی رساں ہے۔ ( ۷۲) پھر ارشاد ہے کہ تو تبلیغ قرآن پر ان سے کوئی اجرت نہیں مانگتا تیری نظریں اللہ پر ہیں وہی تجھے اس کا اجر دے گا جیسے فرمایا : قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّن أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِىَ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ کہہ دیجیئے! کہ جو بدلہ تم سے مانگوں وہ تمہارے لیے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ (۳۴:۴۷) ایک آیت میں ہے : قُلْ مَآ أَسْـَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَآ أَنَآ مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اعلان کردو کہ نہ میں کوئی بدلہ چاہتا ہوں نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں (۳۸:۸۶) اور جگہ ہے: قُل لاَّ أَسْـَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبَى کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا ۔ صرف قرابت داری کی محبت کا خواہاں ہوں ۔ (۴۲:۲۳) سورۃ یٰسین میں ہے: وَجَآءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يقَوْمِ اتَّبِعُواْ الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُواْ مَن لاَّ يَسْـَلُكُمْ أَجْراً شہر کے دور کے کنارے سے جو شخص دوڑا ہوا آیا اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں نبیوں کی اطاعت کرو جو تم سے کسی اجر کے خواہاں نہیں (۳۶:۲۰،۲۱) یہاں فرمایا وہی بہترین رازق ہے۔ وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ یقیناً آپ انہیں راہ راست کی طرف بلا رہے ہیں۔ (۷۳) تو لوگوں کو صحیح راہ کی طرف بلارہا ہے مسند امام احمد میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے جو دو فرشتے آئے ایک آپ کے پاؤں میں بیٹھا دوسرا سر کی طرف پہلے نے دوسرے سے کہا ان کی اور دوسروں کی اُمت کی مثالیں بیان کرو اس نے کہا ان کی مثال ان مسافروں کے قافلے کی مثل ہے جو ایک بیابان چٹیل میدان میں تھے ان کے پاس نہ توشہ تھا نہ دانہ پانی نہ آگے بڑھنے کی قوت نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت حیران تھے کہ کیا ہوگا اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک بھلا آدمی ایک شریف انسان عمدہ لباس پہنے ہوئے آرہا ہے اس نے آتے ہی ان کی گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم میرا کہامانو اور میرے پیچھے چلو تو میں تمہیں پھلوں سے لدے ہوئے باغوں اور پانی سے بھرے حوضوں پر پہنچادوں ۔ سب نے اس کی بات مان لی اور اس نے انہیں فی الواقع ہرے بھرے تروتازہ باغوں اور جاری چشموں میں پہنچا دیا یہاں ان لوگوں نے بےروک ٹوک کھایا پیا اور آسودہ حالی کی وجہ سے موٹے تازہ ہوگئے اس پر ایک جماعت تو تیار ہوگئی اور انھوں نے کہا ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن دوسری جماعت نے کہاہمیں اور زیادہ کی ضرورت نہیں بس یہیں رہ پڑے ۔ ابویعلیٰ موصلی میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں اپنی باہوں میں سمیٹ کرتمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر جہنم سے روک رہا ہوں ۔ لیکن تم پرنالوں اور برساتی کیڑوں کی طرح میرے ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گر رہے ہو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں چھوڑ دوں؟ سنو میں تو حوض کوثر پر بھی تمہارا پیشوا اور میرسامان ہوں ۔ وہاں تم اِکا دُکا اور گروہ گروہ بن کر میرے پاس آؤگے۔ میں تمہیں تمہاری نشانیوں علامتوں اور ناموں سے پہچان لونگا ۔ جیسے کہ ایک نو وارد انجان آدمی اپنے اونٹوں کو دوسروں کے اونٹوں سے تمیز کرلیتا ہے ۔ میرے دیکھتے ہوئے تم میں سے بعض کو بائیں طرف والے عذاب کے فرشتے پکڑ کرلے جانا چاہیں گے تو میں جناب باری تعالیٰ میں عرض کروں گا۔ کہ اے اللہ یہ میری قوم کے میری اُمت کے لوگ ہیں ۔ پس جواب دیا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ انہیں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالیں تھیں؟ یہ آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل لوٹتے ہی رہتے ۔ میں انہیں بھی پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لئے ہوئے آئے گا جو بکری چیخ رہی ہوگی وہ میرا نام لے کر آوازیں دے رہا ہوگا ۔ لیکن میں اس سے صاف کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے سامنے تجھے کچھ کام نہیں آسکتا میں نے تو اللہ کی باتیں پہنچا دی تھیں ۔ اسی طرح کوئی ہوگا جو اونٹ کو لئے ہوئے آئے گا جو بلبلا رہا ہوگا ۔ ندا کرے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!میں کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے ہاں تیرے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا میں نے تو حق بات تمہیں پہنچا دی تھی ۔ بعض آئیں گے جن کی گردن پر گھوڑا سوار ہوگا جو ہنہنا رہا ہوگا وہ بھی مجھے آواز دے گا اور میں یہی جواب دوں بعض آئیں گے اور مشکیں لادے ہوئے پکاریں گے یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں کہوں گا تمہارے کسی معاملہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ میں تو تم تک حق بات پہنچا چکا تھا ۔ امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی حدیث کی سند ہے توحسن لیکن اس کا ایک راوی حفص بن حمید مجہول ہے لیکن امام یحییٰ بن ابی معین نے اسے صالح کہا ہے اور نسائی اور ابن حبان نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔ وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ بیشک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے مڑ جانے والے ہیں ۔ (۷۴) آخرت کا یقین نہ رکھنے والے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ جب کوئی شخص سیدھی راہ سے ہٹ گیا تو عرب کہتے ہیں نکب فلان عن الطریق ۔ وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ اور اگر ہم ان پر رحم فرمائیں اور ان کی تکلیفیں دور کر دیں تو یہ تو اپنی اپنی سرکشی میں جم کر اور بہکنے لگیں (۷۵) ان کے کفر کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے سختی کو ہٹادے انہیں قرآن سنا اور سمجھا بھی دے تو بھی یہ اپنے کفروعناد سے ، سرکشی اور تکبر سے باز نہ آئیں گے ۔ جو کچھ نہیں ہوا وہ جب ہوگا تو کس طرح ہوگا اس کا علم اللہ کو ہے ۔ اس لئے اور جگہ ارشاد فرمایا دیا ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لأَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر ان کو اب سنادے تو ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے (۸:۲۳) اور جگہ ارشاد فرمایا دیا ہے: وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ ... وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائ یں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا (۶:۲۷،۲۸) یعنی یہ توجہنم کے سامنے کھڑے ہو کر ہی یقین کریں گے اور اس وقت کہیں گے کاش کہ ہم لوٹا دئیے جاتے اور رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور یقین مند ہوجاتے ۔ اس سے پہلے جو چھپا تھا وہ اب کھل گیا ۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ لوٹابھی دئیے جائیں تو پھر سے منع کردہ کاموں کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ پس یہ وہ بات ہے جو ہوگی نہیں لیکن اگر ہو تو کیا ہو؟ اسے اللہ جانتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ لَوْ سے جو جملہ قرآن کریم میں ہے وہ کبھی واقع ہونے والا نہیں۔ وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ ا ور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاہم یہ لوگ نہ تو اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی ۔ (۷۶) فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ان کی برائیوں کی وجہ سے سختیوں اور مصیبتوں میں بھی مبتلاکیا لیکن تاہم نہ تو انہوں نے اپنا کفر چھوڑا نہ اللہ کی طرف جھکے بلکہ کفروضلالت پر اڑے رہے ۔ نہ ان کے دل نرم ہوئے نہ یہ سچے دل سے ہماری طرف متوجہ ہوئے نہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔ جیسے فرمان ہے: فَلَوْلا إِذْ جَآءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُواْ وَلَـكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ ہمارا عذاب دیکھ کریہ ہماری طرف عاجزی سے کیوں نہ جھکے ؟ بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں ۔ (۶:۴۳) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت میں اس قحط سالی کا ذکر ہے جو قریشیوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ماننے کے صلے میں آئی تھی، جس کی شکایت لے کر ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور آپ کو اللہ کی قسمیں دے کر، رشتے داریوں کے واسطے دے کر کہا تھا کہ ہم تو اب لید اور خون کھانے لگے ہیں۔ (نسائی) بخاری ومسلم میں ہے : قریش کی شرراتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعا کی تھی کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں سات سال کی قحط سالی آئی تھی، ایسے ہی قحط سے اے اللہ تو ان پر میری مدد فرما۔ ابن ابی حاتم میں ہے: حضرت وہب بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ کو قید کردیا گیا ۔ وہاں ایک نوعمر شخص نے کہا میں آپ کو جی بہلانے کے لئے اشعار سناؤں ؟ تو آپ نے فرمایا "اس وقت ہم عذاب اللہ میں ہیں اور قرآن نے ان کی شکایت کی ہے جو ایسے وقت بھی اللہ کی طرف نہ جھکیں " پھر آپ نے تین روزے برابر رکھے ۔ ان سے سوال کیا گیا کہ یہ بیچ میں افطار کئے بغیر روزے کیسے ؟ توجواب دیا کہ ایک نئی چیز ادھر سے ہوئی یعنی قید، تو ایک نئی چیز ہم نے کی یعنی زیادتی عبادت ۔ حَتَّى إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی وقت فوراً مایوس ہوگئے (۷۷) یہاں تک کہ حکم الہٰی آ پہنچا اچانک وقت آگیا اور جس عذاب کا وہم وگمان بھی نہ تھا وہ آپڑا تو تمام خیر سے مایوس ہوگئے آس ٹوٹ گئی اور حیرت زدہ رہ گئے وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے، مگر تم بہت (ہی) کم شکر کرتے ہو (۷۸) اللہ کی نعمتوں کو دیکھو، اس نے کان دئیے ، آنکھیں دیں، دل دیا ، عقل فہم عطا فرمائی کہ غور وفکر کرسکو، اللہ کی وحدانیت کو اس کے اختیار کو سمجھ سکو۔ لیکن جیسے جیسے نعمتیں بڑھیں شکر کم ہوئے جیسے فرمان ہے: وَمَآ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ تو گوحرص کر لیکن ان میں سے اکثر بے ایمان ہیں (۱۲:۱۰۳) وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اور وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کرکے زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے ۔ (۷۹) پھر اپنی عظیم الشان سلطنت اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ اس نے مخلوق کو پیدا کرکے وسیع زمین پر پھیلا دیا ہے پھر قیامت کے دن بکھرے ہوؤں کو سمیٹ کر اپنے پاس جمع کرے گا وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اب بھی اسی نے پیدا کیا ہےپھر بھی وہی جِلائے گا کوئی چھوٹا بڑا آگے پیچھے کا باقی نہ بچے گا۔ وہی بوسیدہ اور کھوکھلی ہڈیوں کا زندہ کرنے والا اور لوگوں کو مار ڈالنے والا ہے وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ اور رات دن کے ردو بدل کا مختار بھی وہی ہے۔ کیا تم کو سمجھ بوجھ نہیں (۸۰) اسی کے حکم سے دن چڑھتا ہے رات آتی ہے ایک ہی نظام کے مطابق ایک کے بعد ایک آتا جاتا ہے لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ نہ سورج چاند سے آگے نکلے نہ رات دن پر سبقت کرے (۳۶:۴۰) کیا تم میں اتنی بھی عقل نہیں کہ اتنے بڑے نشانات دیکھ کر اپنے اللہ کو پہچان لو اور اس کے غلبے اور اس کے علم کے قائل بن جاؤ ؟ بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ بلکہ ان لوگوں نے بھی ویسی ہی بات کہی جو اگلے کہتے چلے آئے (۸۱) قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ کہ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا پھر بھی ہم ضرور اٹھائے جائیں گے۔ (۸۲) انہوں نے کہاکیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے اس وقت بھی پھر زندہ کئے جائیں گے؟ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ہم سے ہمارے باپ دادوں سے پہلے ہی سے یہ وعدہ ہوتا چلا آیا ہے کچھ نہیں یہ صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔ (۸۳) بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے کافر ہوں یا گزشتہ زمانوں کے ان سب کے دل یکساں ہیں زبانیں بھی ایک ہی ہیں وہی بکواس جو گزشتہ لوگوں کی تھی وہی ان کی ہے کہ مر کر مٹی ہوجانے اور صرف بوسیدہ ہڈیوں کی صورت میں باقی رہ جانے کے بعد بھی دوبارہ پیدا کئے جائیں یہ سمجھ سے باہر ہے ہم سے بھی یہی کہا گیا ہمارے باپ دادوں کو بھی اس سے دھمکایا گیا لیکن ہم نے تو کسی کو مر کر زندہ ہوتے نہیں دیکھا ہمارے خیال میں تو یہ صرف بکواس ہے ۔ جناب باری نے فرمایا : أَءِذَا كُنَّا عِظَـماً نَّخِرَةً ـقَالُواْ تِلْكَ إِذاً كَرَّةٌ خَـسِرَةٌ ـفَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ ـ فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیدہ ہڈیاں ہو جائیں گے کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان دہ ہ ے(معلوم ہونا چاہیئے) وہ تو صرف ایک (خوفناک) ڈانٹ ہے۔ کہ (جس کے ظاہر ہوتے ہی) وہ ایک دم میدان میں جمع ہو جائیں گے (۷۹:۱۱،۱۴) یعنی جسے تم انہونی بات سمجھ رہے ہو وہ تو ایک آواز کے ساتھ ہوجائے گی اور ساری دنیا اپنی قبروں سے نکل کرایک میدان میں ہمارے سامنے آجائے گی ۔ سورۃ یٰسین میں بھی یہ اعتراض اور جواب ہے: أَوَلَمْ يَرَ الإِنسَـنُ أَنَّا خَلَقْنَـهُ مِن نُّطْفَةٍ ... وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ ضدی جھگڑالو بن بیٹھا اور اپنی پیدائش کو بھول بسرگیا اور ہم پر اعتراض کرتے ہوئے مثالیں دینے لگا کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون جلائے گا؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم انہیں جواب دو کہ انہیں نئے سرے سے وہ اللہ پیدا کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا ہے اور جو ہرچیز کی پیدائش کا عالم ہے ۔ (۳۶:۷۷،۷۹) قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ پوچھئے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو۔ (۸۴) اللہ تعالیٰ جل وعلا اپنے وحدانیت ، خالقیت ، تصرف اور ملکیت کا ثبوت دیتا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ معبود برحق صرف وہی ہے اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرنی چاہے ۔ وہ واحد اور لاشریک ہے پس اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان مشرکین سے دریافت فرمائیں تو وہ سات لفظوں میں اللہ کے رب ہونے کا اقرار کریں گے اور اس میں کسی کو شریک نہیں بتائیں گے ۔ آپ انہیں کے جواب کو لے کر انہیں قائل کریں کہ جب خالق ، مالک ، صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں پھر معبود بھی تنہا وہی کیوں نہ ہو؟ اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کی جائے ؟ واقعہ یہی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو بھی مخلوق الہٰی اور مملوک رب جانتے تھے لیکن انہیں مقربان رب سمجھ کر اس نیت سے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ ہمیں بھی مقرب بارگاہ اللہ بنا دیں گے ۔ پس حکم ہوتا ہے کہ زمین اور زمین کی تمام چیزوں کا خالق کون ہے ؟ اس کی بابت ان مشرکوں سے سوال کرو۔ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (۸۵) ان کا جواب یہی ہوگا کہاللہ وحدہ لاشریک لہ اب تم پھر ان سے کہو کہ کیا اب بھی اس اقرار کے بعد بھی تم اتنا نہیں سمجھتے کہ عبادت کے لائق بھی وہی ہے کیونکہ خالق ورازق وہی ہے ۔ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے؟ (۸۶) پھر پوچھو کہ اس بلند وبالا آسمان کا اس کی مخلوق کا خالق کون ہے جو عرش جیسی زبردست چیز کا رب ہے ؟ جو مخلوق کی چھت ہے۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : اللہ کی شان بہت بڑی ہے اس کا عرش آسمانوں پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے قبہ کی طرح بنا کر بتایا (ابوداؤد) ایک اور حدیث میں ہے: ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی کل مخلوق کرسی کے مقابلے پر ایسی ہے جسے کسی چٹیل میدان میں کوئی حلقہ پڑا ہو اور کرسی اپنی تمام چیزوں سمیت عرش کے مقابلے میں بھی ایسی ہی ہے ۔ بعض سلف سے منقول ہے: عرش کی ایک جانب سے دوسری جانب کی دوری پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے ۔ اور ساتویں زمین سے اس کی بلندی پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے۔ عرش کا نام عرش اس کی بلندی کی وجہ سے ہی ہے ۔ کعب احبار سے مروی ہے: آسمان عرش کے مقابلے میں ایسے ہیں جسے کوئی قندیل آسمان وزمین کے درمیان ہو۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے: آسمان وزمین بمقابلہ عرش الہٰی ایسے ہیں جسے کوئی چھلا کسی چٹیل وسیع میدان میں پڑا ہو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: عرش کی قدرت وعظمت کا کوئی بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے اندازہ نہیں کرسکتا بعض سلف کا قول ہے: عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے اس آیت میں الْعَرْشِ الْعَظِيمِ کہا گیا ہے اور اس سورت کے آخر میں الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (۱۱۶) کہا گیا ہے یعنی بہت بڑا اور بہت حسن وخوبی والا۔ پس لمبائی ،چوڑائی ، وسعت وعظمت،حسن وخوبی میں وہ بہت ہی اعلیٰ وبالا ہے اسی لئے لوگوں نے اسے یاقوت سرخ کہا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے : تمہارے رب کے پاس رات دن کچھ نہیں اس کے عرش کا نور اس کے چہرے کے نور سے ہے ۔ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ۔ (۸۷) الغرض اس سوال کا جواب بھی وہ یہی دیں گے کہ آسمان اور عرش کا رب اللہ ہے تو تم کہو کہ پھر تم اس کے عذاب سے کیوں نہیں ڈرتے ؟ اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کررہے ہو ۔ کتاب التفکر والاعتبار میں امام ابوبکر ابن ابی الدنیا ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموما اس حدیث کو بیان فرمایا کرتے تھے : جاہلیت کے زمانے میں ایک عورت پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا ایک مرتبہ اس نے اپنی ماں سے دریافت کیا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ اس نے کہا اللہ نے کہا میرے والد کو کس نے پیدا کیا؟ اس نے جواب دیا اللہ نے پوچھا اور ان پہاڑوں کو اماں کس نے بنایا ہے ماں نے جواب دیا ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ پوچھا اور ان ہماری بکریوں کا خالق کون ہے ماں نے کہا اللہ ہی ہے اس نے کہا سبحان اللہ ۔ اللہ کی اتنی بڑی شان ہے بس اس قدر عظمت اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی سماگئی کہ وہ تھر تھر کانپنے لگا اور پہاڑ سے گرپڑا اور جان اللہ کے سپرد کردی اس کا ایک راوی ذرا ٹھیک نہیں، واللہ اعلم قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ؟ (۸۸) دریافت کرو کہ تمام ملک کا مالک ہرچیز کا مختار کون ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم عموماً ان لفظوں میں ہوتی تھی کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جب کوئی تاکیدی قسم کھاتے تو فرماتے اس کی قسم جو دلوں کا مالک اور ان کے پھیرنے والا ہے پھر یہ بھی پوچھ کہ وہ کون ہے جو سب کو پناہ دے اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کوئی توڑ نہ سکے اور اس کے مقابلے پر کوئی پناہ دے نہ سکے کسی کی پناہ کا وہ پابند نہیں یعنی اتنا بڑا سید و مالک کہ تمام خلق ، ملک ،حکومت ، اسی کے ہاتھ میں ہے بتاؤ وہ کون ہے ؟ عرب میں دستور تھا کہ سردار قبیلہ اگر کسی کو پناہ دے دے تو سارا قبیلہ اس کا پابند ہے لیکن قبیلے میں سے کوئی کسی کو پناہ میں لے لے تو سردار پر اس کی پابندی نہیں ۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ کی سلطنت وعظمت بیان ہو رہی ہے کہ وہ قادر مطلق حاکم کل ہے اس کا ارادہ کوئی بدل نہیں سکتا ۔ وہ سب سے باز پرس کرلے لیکن کسی کی مجال نہیں کہ اس سے کوئی سوال کرسکے ۔ اس کی عظمت ، اس کی کبریائی ، اس کا غلبہ ، اس کا دباؤ، اس کی قدرت ، اس کی عزت ، اس کی حکمت ، اس کا عدل بےپایاں اور بےمثل ہے ۔ سب مخلوق اس کے سامنے عاجز پست اور لا چار ہے ۔ اب ساری مخلوق کی باز پرس کرنے والا ہے سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ اس سوال کا جواب بھی ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ وہ اقرار کریں کہ اتنا بڑا بادشاہ ایسا خود مختار اللہ واحد ہی ہے قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ کہہ دیجئے پھر تم کدھر جادو کر دیئے جاتے ہو (۸۹) کہہ دے کہ پھر تم پر کیا ٹپکی پڑی ہے ایسا کونسا جادو تم پر ہوگیا ہے باوجود اس اقرار کے پھر بھی دوسروں کی پرستش کرتے ہو؟ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ حق یہ ہے کہ ہم نے انہیں حق پہنچا دیا ہے اور یہ بیشک جھوٹے ہیں۔ (۹۰) ہم تو ان کے سامنے حق واضع کرچکے توحید ربوبیت کے ساتھ ساتھ توحید الوہیت بیان کردی صحیح دلیلیں اور صاف باتیں پہنچا دیں اور ان کا غلط گو ہونا ظاہر کردیا کہ یہ شریک بنانے میں جھوٹے ہیں اور ان کا جھوٹ خود ان کے اقرار سے ظاہر وباہر ہے جیسے کہ سورت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ کے سوا دوسروں کے پکارنے کی کوئی سند نہیں ۔ صرف باپ دادا کی تقلید پر ضد ہے اور وہ یہی کہتے بھی تھے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی پر پایا اور ہم ان کی تقلید نہیں چھوڑیں گے ۔ مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ ۚ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ۚ نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا شریک ہو۔ ملک میں، تصرف میں ، عبادت کا مستحق ہونے میں، وہ یکتا ہے ، نہ اسکی اولاد ہے، نہ اس کا شریک ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک اللہ ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کامستقل مالک ہونا چاہے تو موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔ حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے، عالم علوی اور عالم سفلی ، آسمان وزمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ کام میں مشغول ہیں ۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق مالک اللہ ایک ہی ہے نہ کہ متفرق کئی ایک اور بہت سے اللہ مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست ومغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقتور ہونا چاہے گا ۔ اگر غالب آگیا تو مغلوب اللہ نہ رہا اگر غالب نہ آیا تو وہ خود اللہ نہیں۔ پس یہ دونوں دلیلیں بتا رہی ہیں کہ اللہ ایک ہی ہے ۔ متکلمین کے طور پر اس دلیل کو دلیل تمانع کہتے ہیں ۔ ان کی تقریر یہ ہے کہ اگر دو اللہ مانے جائیں یا اس سے زیادہ پھر ایک تو ایک جسم کی حرکت کا ارادہ کرلے اور دوسرا اس کے سکون کا ارادہ کرے اب اگر دونوں کی مراد حاصل نہ ہو تو دونوں ہی عاجز ٹھہرے اور جب عاجز ٹھہرے تو اللہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ واجب عاجز نہیں ہوتا ۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ دونوں کی مراد پوری ہو کیونکہ ایک کے خلاف دوسرے کی چاہت ہے ۔ تو دونوں کی مراد کا حاصل ہونامحال ہے ۔ اور یہ محال لازم ہوا ہے اس وجہ سے کہ دو یا دو سے زیادہ اللہ فرض کئے گئے تھے پس یہ تعدد میں باطل ہوگیا ۔ تیسری صورت یعنی یہ کہ ایک کی چاہت پوری ہو اور ایک کی نہ ہو تو جسکی پوری ہوئی وہ تو غالب اور واجب رہا اور جس کی پوری نہ ہوئی اور مغلوب اور ممکن ہوا ۔ کیونکہ واجب کی صفت یہ نہیں کہ وہ مغلوب ہو تو اس صورت میں بھی معبودوں کی کثرت تعداد باطل ہوتی ہے ۔ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ہے۔ (۹۱) پس ثابت ہوا کہ اللہ ایک ہے وہ ظالم سرکش ،حد سے گزر جانے والے ، مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں ، ان کے ان بیان کردہ اوصاف سے ذات الہٰی بلند وبالا اور برتر و منزہ ہے۔ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ وہ غائب حاضر کا جاننے والا ہے اور جو شرک یہ کرتے ہیں اس سے بالا تر ہے۔ (۹۲) وہ ہرچیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے ۔ اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے ۔ پس وہ ان تمام شرکا سے پاک ہے ، جسے منکر اور مشرک شریک اللہ بتاتے ہیں ۔ قُلْ رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ آپ دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وہ دکھائے جس کا وعدہ انہیں دیا جا رہا ہے۔ (۹۳) رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ تو اے رب! تو مجھے ان ظالموں کے گروہ میں نہ کرنا (۹۴) سختیوں کے اترنے کے وقت کی دعا تعلیم ہو رہی ہے کہ اگر تو ان بدکاروں پر عذاب لائے اور میں ان میں موجود ہوں ۔ تو مجھے ان عذابوں سے بچا لینا ۔ مسند احمد اور ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا: وَ اِذَا اَرَدَتَ بِقَوْمِ فِتْنَۃ،ُ فَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْن اے اللہ جب تو کسی قوم پر آزمائش یا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے وَإِنَّا عَلَى أَنْ نُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ ہم جو کچھ وعدے انہیں دے رہے ہیں سب آپ کو دکھا دینے پر یقیناً قادر ہیں۔ (۹۵) اللہ تعالیٰ اس کی تعلیم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ ہم ان عذابوں کو تجھے دکھا دینے پر قادر ہیں جو ان کفار پر ہماری جانب سے اترنے والے ہیں ۔ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو، جو کچھ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں۔ (۹۶) پھر وہ بات سکھائی جاتی ہے جو تمام مشکلوں کی دوا ، اور رفع کرنے والی ہے اور وہ یہ کہ برائی کرنے والے سے بھلائی کی جائے ۔ تاکہ اس کی عداوت محبت سے اور نفرت الفت سے بدل جائے ۔ جیسے ایک اور آیت میں بھی ہے: ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَمِيمٌوَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ ـ وَمَا يُلَقَّاهَآ إِلاَّ ذُو حَظِّ عَظِيمٍ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا (۴۱:۳۴،۳۵) یعنی اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی صفت کی تحصیل صرف ان لوگوں سے ہوسکتی ہے جو لوگوں کی تکلیف کو برداشت کرلینے کے عادی ہوجائیں ۔ اور گو وہ برائی کریں لیکن یہ بھلائی کرتے جائیں۔ یہ وصف انہی لوگوں کا ہے جو بڑے نصیب دار ہوں ۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی جن کی قسمت میں ہو۔ وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ (۹۷) انسان کی برائی سے بچنے کی بہترین ترکیب بتا کر پھر شیطان کی برائی سے بچنے کی ترکیب بتائی جاتی ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان سے بچا لے۔ اس لئے کہ اس کے فن فریب سے بچنے کا ہتھیار تمہارے پاس سوائے اس کے اور نہیں۔ وہ سلوک واحسان سے بس میں نہیں آنے کے وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ اور اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں (۹۸) استعاذہ کے بیان میں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا لکھ آئے ہیں : وَ اَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ حَمْزِہِ وَ نَفُخِہِ وَنَفْثِہِ اور ذکر شیطان کی شمولیت کو روک دیتا ہے ۔ کھانا پینا جماع ذبح وغیرہ کل کاموں کے شروع کرنے سے پہلے اللہ کا ذکر کرنا چاہے ۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضور علیہ السلام کی ایک دعا یہ بھی تھی : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَرَمِ ... وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْت اے اللہ میں تجھ سے بڑے بڑھاپے سے اور دب کر مرجانے سے اور ڈوب کر مرجانے سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ موت کے وقت شیطان مجھ کو بہکاوے مسند احمد میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دعا سکھاتے تھے کہ نیند اچاٹ ہوجانے کے مرض کو دور کرنے کے لئے ہم سوتے وقت پڑھا کریں۔ بسم اللہ اعوذ بکلمات اللہ التامتہ من غضبہ وعقابہ ومن شر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ اپنی اولاد میں سے جو ہوشیار ہو تے انہیں یہ دعا سکھا دیا کرتے اور جو چھوٹے ناسمجھ ہوتے یاد نہ کرسکتے ان کے گلے میں اس دعا کو لکھ کر لٹکا دیتے ۔ ابوداؤد ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب بتاتے ہیں ۔ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے۔ (۹۹) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں ہرگز ایسا نہیں ہوگا بیان ہو رہا ہے کہ موت کے وقت کفار اور بدترین گناہگار سخت نادم ہوتے ہیں اور حسرت وافسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں کہ کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں ۔ تاکہ ہم نیک اعمال کرلیں ۔ لیکن اس وقت وہ امید فضول یہ آرزو لاحاصل ہے چنانچہ سورۃ منافقون میں فرمایا : وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ ... وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں دیتے رہو، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اس وقت وہ کہے کہ اے اللہ ذرا سی مہلت دے دے تو میں صدقہ خیرات کرلوں اور نیک بندہ بن جاؤں لیکن اجل آجانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے (۶۳:۱۱،۱۲) اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مثلاً أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ کیا تم اس سے پہلے بھی قسمیں نہیں کھا رہے تھے؟ کہ تمہارے لئے دنیا سے ٹلنا ہی نہیں ۔ (۱۴:۴۴) اور آیت میں ہے: يَوْمَ يَأْتِى تَأْوِيلُهُ يَقُولُ ... اْ لَنَآ أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِى كُنَّا نَعْمَلُ جس روز اس کا اخیر نتیجہ پہنچ آئے گا اس روز وہ لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ ہماری سفارش کر دے یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم لوگ ان اعمال کے جو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال کریں (۷:۵۳) اور آیت میں ہے: وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ ... فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً إِنَّا مُوقِنُونَ کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہگار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں (۳۲:۱۲) اور آیت میں ہے: وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ ... وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھو ٹے ہیں (۶:۲۷،۲۸) اور آیت میں ہے: وَتَرَى الظَّـلِمِينَ لَمَّا رَأَوُاْ الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَى مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ اور تو دیکھے گا کہ ظالم لوگ عذاب کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے کہ کیا واپس جانے کی کوئی راہ ہے۔ (۴۲:۴۴) اور آیت میں ہے: قَالُواْ رَبَّنَآ أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوہی بار جلایا (زندہ کیا) اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے (۴۰:۱۱) اور آیت میں ہے: وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا ... فَذُوقُواْ فَمَا لِلظَّـلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ اور وہ لوگ جو اس طرح چلائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے (اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا سو مزہ چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ (۳۵:۳۷) ان آیتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے کی پیشی کے وقت جہنم کے سامنے کھڑے ہوکر دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے اور نیک اعمال کرنے کا وعدہ کریں گے ۔ لیکن ان وقتوں میں ان کی طلب پوری نہ ہوگی ۔ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ۔ (۱۰۰) یہ تو وہ کلمہ ہے جو بہ مجبوری ایسے آڑے وقتوں میں ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے ہیں مگر کرنے کے نہیں ۔ اگر دنیا میں واپس لوٹائے بھی جائیں تو عمل صالح کرکے نہیں دینے کے بلکہ ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے رہے تھے یہ تو جھوٹے اور لپاڑئیے ہیں کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں نیک عمل کرلے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں کہ آج نہ انہیں مال واولاد کی تمنا ہے۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے صرف یہ چاہتے ہیں کہ دو روز کی زندگی اور ہوجائے تو کچھ نیک اعمال کرلیں لیکن تمنا بیکار ، آرزو بےسود ، خواہش بےجا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر انہیں اللہ ڈانٹ دے گا اور فرمائے گا کہ یہ بھی تمہاری بات ہے عمل اب بھی نہیں کروگے ۔ حضرت علا بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، تم یوں سمجھ لو کہ میری موت آچکی تھی ، لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں نیکیاں کرلوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کافر کی اس امید کو یاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں اطاعت اللہ میں بسر کرو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جب کافر اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اپنا جہنم کا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے میں توبہ کرلوں گا اور نیک اعمال کرتا رہوں گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کرچکا پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اور تنگ ہوجاتی ہے اور سانپ بچھو چمٹ جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: گناہگاروں پر ان کی قبریں بڑی مصیبت کی جگہیں ہوتی ہیں ان کی قبروں میں انہیں کالے ناگ ڈستے رہتے ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا اس کے سرہانے ہوتا ہے ایک اتنا ہی بڑا پاؤں کی طرف ہوتا ہے وہ سر کی طرف سے ڈسنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پیروں کی طرف سے کاٹنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ بیچ کی جگہ آکر دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں پس یہ ہے وہ برزخ جہاں یہ قیامت تک رہیں گے وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ کہ معنی کئے گے ہیں کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان وہ نہ تو صحیح طور دنیا میں ہیں کہ کھائیں پیئں نہ آخرت میں ہیں کہ اعمال کے بدلے میں آجائیں بلکہ بیچ ہی بیچ میں ہیں پس اس آیت میں ظالموں کو ڈرایا جارہا ہے کہ انہیں عالم برزخ میں بھی بڑے بھاری عذاب ہوں گے جیسے فرمان ہے: مِّن وَرَآئِهِمْ جَهَنَّمُ ان کے آگے جہنم ہے (۴۵:۱۰) اور آیت میں ہے وَمِن وَرَآئِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ ان کے آگے سخت عذاب ہے برزخ کا ۔ (۱۴:۱۷) قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت کے قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا ۔ جیسے حدیث میں ہے: فَلَا يَزَالُ مُعَذَّبًا فِيهَا وہ اس میں برابر عذاب میں رہے گا یعنی زمین میں۔ فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ پس جب صور پھونک دیا جائیگا اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ (۱۰۱) جب جی اٹھنے کا صور پھونکا جائے گا اور لوگ اپنی قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے ، اس دن نہ تو کوئی رشتے ناتے باقی رہیں گے ۔ نہ کوئی کسی سے پوچھے گا، نہ باپ کو اولاد پرشفقت ہوگی ، نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی ۔ عجب آپا دھاپی ہوگی ۔ جیسے فرمان ہے: وَلاَ يَسْـَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً ـ يُبَصَّرُونَهُمْ اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔(حالانکہ) ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے۔ (۷۰:۱۰،۱۱) کوئی دوست کسی دوست سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہ پوچھے گا۔ صاف دیکھے گا کہ قریبی شخص ہے مصیبت میں ہے ، گناہوں کے بوجھ سے دب رہا ہے لیکن اس کی طرف التفات تک نہ کرے گا، نہ کچھ پوچھے گا آنکھ پھیرلے گا جیسے قرآن میں ہے : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ـ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ـوَصَـحِبَتِهُ وَبَنِيهِ اس دن آدمی اپنے بھائی سے ، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے ، اور اپنے بچوں سے بھاگتا پھرے گا (۸۰:۳۴،۳۶) حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا پھر ایک منادی ندا کرے گا جس کسی کا کوئی حق کسی دوسرے کے ذمہ ہو وہ بھی آئے اور اس سے اپنا حق لے جائے ۔ تو اگرچہ کسی کا کوئی حق باپ کے ذمہ یا اپنی اولاد کے ذمہ یا اپنی بیوی کے ذمہ ہو وہ بھی خوش ہوتا ہوا اور دوڑتا ہوا آئے گا اور اپنے حق کے تقاضے شروع کرے گا جیسے اس آیت میں ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اسے نہ خوش کرے وہ مجھے بھی ناخوش کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے قیامت کے روز سب رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے لیکن میرا نسب میرا سبب میری رشتہ داری نا ٹوٹے گی اس حدیث کی اصل بخاری مسلم میں بھی ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اسے ناراض کرنے والی اور اسے ستانے والی چیزیں مجھے ناراض کرنے والی اور مجھے تکلیف پہنچانے والی ہیں مسند احمد میں ہے رسول اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا: لوگوں کا کیا حال ہے کہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ بھی آپ کی قوم کو کوئی فائدہ نہ دے گا واللہ میرے رشتہ دنیا میں اور آخرت میں ملا ہوا ہے ۔ اے لوگو! میں تمہارا میرسامان ہوں ، جب تم آؤ گے ، ایک شخص کہے گا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فلاں بن فلاں ہوں ، میں جواب دونگا کہ ہاں نسب تو میں نے پہچان لیا لیکن تم لوگوں نے میرے بعد بدعتیں ایجاد کی تھیں اور ایڑیوں کے بل مرتد ہوگے تھے ۔ مسند امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہم نے کئی سندوں سے یہ روایت کی ہے: جب آپ نے اُم کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کیا تو فرمایا کرتے تھے واللہ مجھے اس نکاح سے صرف یہ غرض تھی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر سبب ونسب قیامت کے دن کٹ جائے گا مگر میرا نسب اور سبب یہ بھی مذکور ہے: آپ نے ان کا مہر از روئے تعظیم وبزرگی چالیس ہزار مقرر کیا تھا ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کل رشتے ناتے اور سسرالی تعلقات بجز میرے ایسے تعلقات کے قیامت کے دن کٹ جائیں گے۔ ایک حدیث میں ہے: میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جہاں میرا نکاح ہوا ہے اور جس کا نکاح میرے ساتھ ہوا ہے وہ سب جنت میں بھی میرے ساتھ رہیں تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی ۔ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جن کی ترازو کا پلہ بھاری ہوگیا وہ تو نجات والے ہوگئے۔ (۱۰۲) جس کی ایک نیکی بھی گناہوں سے بڑھ گئی وہ کامیاب ہوگیا جہنم سے آزاد اور جنت میں داخل ہوگیا اپنی مراد کو پہنچ گیا اور جس سے ڈرتا تھا اس سے بچ گیا ۔ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ( اور جن کے ترازو کا پلہ ہلکا ہوگیا یہ ہیں وہ جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا جو ہمیشہ جہنم واصل ہوئے۔ ۱۰۳) اور جس کی برائیاں بھلائیوں سے بڑھ گئیں وہ ہلاک ہوئے نقصان میں آگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: قیامت کے دن ترازو پر ایک فرشتہ مقرر ہوگا جو ہر انسان کو لاکر ترازو کے پاس بیچوں بیچ کھڑا کرے گا ، پھر نیکی بدی تولی جائے گی اگر نیکی بڑھ گئی تو باآواز بلند اعلان کرے گا کہ فلاں بن فلاں نجات پا گیا اب اس کے بعد ہلاکت اس کے پاس بھی نہیں آئے گی اور اگر بدی بڑھ گئی تو ندا کرے گا اور سب کو سنا کر کہے گا کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہلاک ہوا اب وہ بھلائی سے محروم ہوگیا اس کی سند ضعیف ہے داؤد ابن حجر راوی ضعیف و متروک ہے ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ ان کے چہروں کو آگ جھلستی رہے گی اور وہ وہاں بد شکل بنے ہوئے ہونگے ۔ (۱۰۴) دوزخ کی آگ ان کے منہ جھلس دے گی چہروں کو جلادے گی کمر کو سلگا دے گی یہ بےبس ہوں گے آگ کو ہٹا نہ سکیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: پہلے ہی شعلے کی لپٹ ان کا سارے گوشت پوست ہڈیوں سے الگ کرکے ان کے قدموں میں ڈال دے گی وہ وہاں بدشکل ہوں گے دانت نکلے ہوں گے ہونٹ اوپر چڑھا ہوا اور نیچے گرا ہوا ہوگا اوپر کا ہونٹ تو تالو تک پہنچاہوا ہوگا اور نیچے کا ہونٹ ناف تک آجائے گا ۔ أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ کیا میری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت نہیں کی جاتی تھیں؟ پھر بھی تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ (۱۰۵) کافروں کو ان کے کفر اور گناہوں پر ایمان نہ لانے پر قیامت کے دن جو ڈانٹ ڈپٹ ہوگی ، اس کا بیان ہو رہا ہے ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تمہاری طرف رسول بھیجے تھے ، تم پر کتابیں نازل فرمائی تھیں ، تمہارے شک زائل کردئیے تھے تمہاری کوئی حجت باقی نہیں رکھی تھی جیسے فرمان ہے: لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ تاکہ لوگوں کا عذررسولوں کے آنے کے بعد باقی نہ رہے۔ (۴:۱۶۵) اور فرمایا: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے (۱۷:۱۵) ایک اور آیت میں ہے كُلَّمَا أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَآ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی اس سے وہاں کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آگاہ کرنے والے آئے نہ تھے ؟ (۶۷:۸،۱۰) قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ کہیں گے کہ اے پروردگار ! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی (واقعی) ہم تھے ہی گمراہ۔ (۱۰۶) اس وقت یہ حرماں نصیب لوگ اقرار کریں گے کہ بیشک تیری حجت پوری ہوگئی تھی لیکن ہم اپنی بدقسمتی اور سخت دلی کے باعث درست نہ ہوئے اپنی گمراہی پر اڑ گئے اور راہ راست پر نہ چلے ۔ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ اے پروردگار! ہمیں یہاں سے نجات دے اگر اب بھی ہم ایسا ہی کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں۔ (۱۰۷) اللہ اب تو ہمیں پھر دنیا کی طرف بھیج دے اگر اب ایسا کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں اور مستحق سزا ہیں ، جیسے فرمان ہے: فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ہمیں اپنی تقصیروں کا اقرار ہے کیا اب کسی طرح بھی چھٹکارے کی راہ مل سکتی ہے ؟ (۴۰:۱۱،۱۲) لیکن جواب دیا جائے گا کہ اب سب راہیں بند ہیں ۔ دار فنا ہوگیا ، اب دار جزا ہے ۔ توحید کے وقت شرک کیا ، اب پچھتانے سے کیا حاصل ؟ قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھٹکارے ہوئے یہیں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔ (۱۰۸) کافر جب جہنم سے نکلنے کی آرزو کریں گے تو انہیں جواب ملے گا کہ اب تو تم اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہوگے خبردار اب یہ سوال مجھ سے نہ کرنا آہ یہ کلام رحمٰن ہوگا جو دوزخیوں کو ہرکھیل سے مایوس کردے گا اللہ ہمیں بچائے اے رحمتوں والے اللہ ہمیں اپنے رحم کے دامن میں چھپالے اپنی ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے بچالے آمین حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جہنمی پہلے تو داروغہ جہنم کو بلائیں گے چالیس سال تک اسے پکارتے رہیں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے چالیس برس کے بعد جواب ملے گا کہ تم یہیں پڑے رہو ۔ ان کی پکار کی کوئی وقعت اور داروغہ جہنم کے پاس ہوگی نہ اللہ جل وعلا کے پاس۔ پھر براہ راست اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ ہم اپنی بدبختی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہم اپنی گمراہی میں ڈوب گئے اے اللہ اب تو ہمیں یہاں سے نجات دے اگر اب بھی ہم یہی برے کام کریں تو جو چاہے سزا کرنا اس کا جواب انہیں دنیا کی دگنی عمر تک نہ دیا جائے گاپھر فرمایا جائے گا کہ رحمت سے دور ہو کر ذلیل وخوار ہو کر اسی دوزخ میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو اب یہ محض مایوس ہوجائیں گے اور گدھوں کی طرح چلاتے اور شور مچاتے جلتے اور بھنتے رہے گے اس وقت ان کے چہرے بدل جائیں گے صورتیں مسخ ہوجائیں گی یہاں تک کہ بعض مؤمن شفاعت کی اجازت لے کر آئیں گے لیکن یہاں کسی کو نہیں پہچانیں گے جہنمی انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ میں فلاں ہوں لیکن یہ جواب دیں گے کہ غلط ہے ہم تمہیں نہیں پہچانیں گے ۔ اب دوزخی لوگ اللہ کو پکاریں گے اور وہ جواب پائیں گے جو اوپر مذکور ہوا ہے پھر دوزخ کے دروازے بند کردئیے جائیں گے اور یہ وہی سڑتے رہیں گے ۔ إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ میرے بندوں کی ایک جماعت تھی جو برابر یہی کہتی رہی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لا چکے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما (۱۰۹) تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔ انہیں شرمندہ اور پشیمان کرنے کے لئے ان کا ایک زبردست گناہ پیش کیا جائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے بندوں کا مذاق اڑتے تھے اور ان کی دعاؤں پر دل لگی کرتے تھے وہ مؤمن اپنے رب سے بخشش ورحمت طلب کرتے تھے اسے رحمٰن الراحمین کہہ کر پکارتے تھے فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّى أَنْسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ (لیکن) تم انہیں مذاق ہی اڑاتے رہے یہاں تک کہ (اس مشغلے نے) تم کو میری یاد (بھی) بھلا دی اور تم ان سے مذاق کرتے رہے۔ (۱۱۰) لیکن یہ اسے ہنسی میں اڑتے تھے اور ان کے بغض میں ذکر رب چھوڑ بیٹھتے تھے اور ان کی عبادتوں اور دعاؤں پر ہنستے تھے جیسے فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُواْ كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ يَضْحَكُونَ گنہگار ایمانداروں سے ہنستے تھے اور انہیں مذاق میں اڑتے تھے۔ (۸۳:۲۹) إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ میں نے آج انہیں ان کے اس صبر کا بدلہ دے دیا ہے کہ وہ خاطر خواہ اپنی مراد کو پہنچ چکے ہیں۔ (۱۱۱) اب ان سے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ میں نے اپنے ایماندار صبرگزار بندوں کو بدلہ دے دیا ہے وہ سعادت سلامت نجات وفلاح پاچکے ہیں اور پورے کامیاب ہوچکے ہیں ۔ قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے؟ (۱۱۲) بیان ہو رہا ہے کہ دنیا کی تھوڑی سے عمر میں یہ بدکاریوں میں مشغول ہوگئے اگر نیکوں کار رہتے تو اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ ان نیکیوں کا بڑا اجر پاتے آج ان سے سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس قدر رہے قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجئے (۱۱۳) جواب دیں گے کہ بہت ہی کم ایک دن یا اس بھی کم حساب داں لوگوں سے دریافت کرلیا جائے قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو اے کاش! تم اسے پہلے ہی جان لیتے؟ (۱۱۴) جواب ملے گا کہ اتنی مدت ہو یا زیادہ لیکن واقع میں وہ آخرت کی مدت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اگر تم اسی کو جانتے ہوتے تو اس فانی کو اس جاودانی پر ترجیح نہ دیتے اور برائی کرکے اس تھوڑی سی مدت میں اس قدر اللہ کو ناراض نہ کردیتے وہ ذرا سا وقت اگر صبر وضبط سے اطاعت الہٰی میں بسر کردیتے تو آج راج تھا۔ خوشی ہی خوشی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب جنتی دوزخی اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے تو جناب باری عزوجل مؤمنوں سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں کتنی مدت رہے ؟ وہ کہیں گے یہی کوئی ایک آدھ دن اللہ فرمائے گا پھر تو بہت ہی اچھے رہے کہ اتنی سی دیر کی نیکیوں کا یہ بدلہ پایا کہ میری رحمت رضامندی اور جنت حاصل کر لی۔ جہاں ہمیشگی ہے پھر جہنمیوں سے یہ سوال ہوگا وہ بھی اتنی ہی مدت بتائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہاری تجارت بڑی گھاٹے والی ہوئی کہ اتنی سی مدت میں تم نے میری ناراضگی غصہ اور جہنم خرید لیا، جہاں تم ہمیشہ پڑے رہوگے أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔ (۱۱۵) کیا تم لوگ یہ سمجھے ہوئے ہو کہ تم بیکار بےقصد ارادہ پیدا کئے گے ہو؟ کوئی حکمت تمہاری پیدائش میں نہیں ؟ محض کھیل کے طور پر تمہیں پیدا کردیا گیا ہے کہ مثل جانوروں کے تم اچھل کودتے پھرو ثواب عذاب کے مستحق ہو یہ گمان غلط ہے تم عبادت کے لئے اللہ کے حکموں کی بجا آوری کے لئے پیدا کیے گئے ہو۔ کیا تم یہ خیال کرکے پختہ ہوگئے ہو کہ تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہی نہیں؟ یہ گمان غلط ہے تم عبادت کے لئے اللہ کے حکموں کی بجا آوری کے لئے پیدا کیے گئے ہو۔ کیا تم یہ خیال کرکے پختہ ہوگئے ہو کہ تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہی نہیں؟ یہ بھی غلط خیال ہے جیسے فرمایا آیت: أَيَحْسَبُ الإِنسَـنُ أَن يُتْرَكَ سُدًى کیا لوگ یہ گماں کرتے ہیں کہ وہ مہمل چھوڑ دئیے جائیں گے (۷۵:۳۶) فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے (۱۱۶) اللہ کی بات اس سے بلندوبرتر ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے بیکار بنائے بگاڑےوہ سچا بادشاہ اس سے پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے وہ بہت بھلا اور عمدہ ہے خوش شکل اور نیک منظر ہے جیسے فرمان ہے: أَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ زمین میں ہم نے ہرجوڑا عمدہ پیدا کردیا ہے (۲۶:۷) خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین حضرت عمربن العزیر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آخری خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا : لوگو! تم بیکار اور عبث پیدا نہیں کئے گئے اور تم مہمل چھوڑ نہیں دئیے گئے یاد رکھو کہ وعدے کا ایک دن ہے جس میں خود اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے اور حکم فرمانے کیلئے نازل ہوگا۔ وہ نقصان میں پڑا اس نے خسارہ اٹھایا وہ بےنصیب اور بدبخت ہوگیا، وہ محروم اور خالی ہاتھ رہا، جو اللہ کی رحمت سے دور ہوگیا اور جنت سے روک دیا گیا، جس کی چوڑائی مثل کل زمینوں اور آسمانوں کے ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کل قیامت کے دن عذاب الہٰی سے وہ بچ جائے گا، جس کے دل میں اس دن کا خوف آج ہے اور جو اس فانی دنیا کو اس باقی آخرت پر قربان کر رہا ہے، اس تھوڑے کو اس بہت کے حاصل کرنے کیلئے بےتھکان خرچ کر رہا ہے اور اپنے اس خوف کو امن سے بدلنے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم سے گزشتہ لوگ ہلاک ہوئے، جن کے قائم مقام اب تم ہو۔ اسی طرح تم بھی مٹا دیئے جاؤ گے اور تمہارے بدلے آئندہ آنے والے آئیں گے یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دنیا سمٹ کر اس خیرالوراثین کے دربار میں حاضری دے گی۔ لوگو خیال تو کرو کہ تم دن رات اپنی موت سے قریب ہو رہے ہو اور اپنے قدموں سے اپنی گور (قبر) کی طرف جا رہے ہو، تمہارے پھل پک رہے ہیں، تمہاری امیدیں ختم ہو رہی ہیں، تمہاریں عمریں پوری ہو رہی ہیں۔ تمہاری اجل نزدیک آگئی ہے، تم زمین کے گڑھوں میں دفن کردیئے جاؤ گے، جہاں نہ کوئی بستر ہوگا، نہ تکیہ، دوست احباب چھوٹ جائیں گے، حساب کتاب شروع ہو جائے گا، اعمال سامنے آ جائیں گے، جو چھوڑ آئے وہ دوسروں کا ہو جائے گا۔ جو آگے بھیج چکے، اسے سامنے پاؤ گے، نیکیوں کے محتاج ہوگے، بدیوں کی سزائیں بھگتو گے۔ اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، اس کی باتیں سامنے آ جائیں اس سے پہلے موت تم کو اچک لے جائے۔ اس سے پہلے جواب دہی کیلئے تیار ہو جاؤ، اتنا کہا تھا کہ رونے کے غلبہ نے آواز بلند کردی۔ منہ پر چادر کا کونہ ڈال کر رونے لگے اور حاضرین کی بھی آہ و زاری شروع ہوگئی۔ ابن ابی حاتم میں ہے: ایک بیمار شخص جسے کوئی جن ستا رہا تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے أَفَحَسِبْتُمْ سے سورت کے ختم تک کی آیتیں اس کے کان میں تلاوت فرمائیں وہ اچھا ہوگیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم نے اس کے کان میں کیا پڑھا تھا؟ آپ نے بتایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ آیتیں اس کے کان میں پڑھ کر اسے جلا دیا۔ واللہ ان آیتوں کو اگر کوئی باایمان اور بایقین شخص کسی پہاڑ پر پڑھے تو وہ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائے۔ ابو نعیم نے روایت کی ہے : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر میں بھیجا اور حکم فرمایا کہ ہم صبح شام آیت أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ پڑھتے رہیں ہم نے برابر اس کی تلاوت دونوں وقت جاری رکھی۔ الحمدللہ ہم سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری اُمت کا ڈوبنے سے بچاؤ کشتیوں میں سوار ہونے کے وقت یہ کہنا ہے۔ بسم اللہ الملک الحق و ماقدرو واللہ حق قدرہ والارض جمعیا قبضتہ یوم القیامتہ والسموت مطویات بیمینہ سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون بسم اللہ مجریھا و مرسھا ان ربی لغفور رحیم وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ۔ (۱۱۷) مشرکوں کو اللہ واحد ڈرا رہا ہے اور بیان فرما رہا ہے کہ ان کے پاس ان کے شرک کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ جملہ معترضہ ہے اور جواب شرط فَإِنَّمَا والے جملے کے ضمن میں ہے یعنی اس کا حساب اللہ کے ہاں ہے۔ کافر اس کے پاس کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ نجات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تو کس کس کو پوجتا ہے؟ اس نے کہا صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کام آنے والا وہی ہے تو پھر اس کے ساتھ ان دوسروں کی عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تیرا خیال ہے کہ وہ اکیلا تجھے کافی نہ ہوگا؟ جب اس نے کہا یہ تو نہیں کہہ سکتا، البتہ ارادہ یہ ہے کہ اوروں کی عبادت کرکے اس کا پورا شکر بجا لاسکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! علم کے ساتھ یہ بےعلمی؟ جانتے ہو اور پھر انجان بنے جاتے ہو؟ اب کوئی جواب بن نہ پڑا۔چنانچہ وہ مسلمان ہو جانے کے بعد کہا کرتے تھے مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائل کرلیا۔ یہ حدیث مرسل ہے ترمذی میں سنداً بھی مروی ہے۔ وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ اور کہو کہ اے میرے رب! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں سے بہتر مہربانی کرنے والا ہے۔ (۱۱۸) پھر ایک دعا تعلیم فرمائی گئی۔ اغْفِرْ کے معنی جب وہ مطلق ہو تو گناہوں کو مٹا دینے اور انہیں لوگوں سے چھپا دی نے کے آتے ہیں۔ اور رحمت کے معنی صحیح راہ پر قائم رکھنے اور اچھے اقوال و افعال کی توفیق دینے کے ہوتے ہیں۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |