Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Furqan

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (۱)

بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے۔‏

اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہوجائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے ۔ سورۃ کہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِ۔۔۔وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ (۱۸:۱،۲)

تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔

بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کر دےاور ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنادے

یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا ۔یہاں لفظ نَزَّلَ فرمایا جس سے باربار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے ۔

 جیسے فرمان ہے:

وَالْكِتَـبِ الَّذِى نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى أَنَزلَ مِن قَبْلُ (۴:۱۳۶)

اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول ﷺ پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی گئی ہیں،

پس پہلی کتابوں کو لفظ أَنَزلَ سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نَزَّلَ سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں ، کبھی کچھ سورتیں کبھی کچھ احکام ۔

 اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے ۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے :

 'وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ ۔۔۔ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا (۲۵:۳۲،۳۳)

اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے ۔

یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتا دیں گے

 یعنی کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟

جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا ۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں جو خوب مفصل ہوگا ۔

 یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام الْفُرْقَانَ رکھا ۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت وگمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے ۔

قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں اس کے مخلص بندے ہیں ۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے ۔

 جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى (۱۷:۱)

پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا

اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا:

وَأَنَّهُ لَّمَا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُواْ يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً (۷۲:۱۹)

اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں

یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا۔

پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں ، ایسی کتاب جو سراسر حکمت وہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے:

لاَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلاَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (۴۱:۴۲)

 جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے

آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں ہر سرخ وسفید کو ہر دور ونزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرادیں ، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے۔

 جیسے کہ خود حضور علیہ السلام کا فرمان ہے :

میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں

 اور فرمان ہے:

 مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔

خود قرآن میں ہے:

قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (۷:۱۵۸)

اے نبی اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں ۔

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

اس اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی

پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان وزمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجاوہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے

وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ

اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا نہ اس کی سلطنت میں کوئی ساتھی ہے

اس کی کوئی اولاد نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (۲)

اور ہرچیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب انداز ٹھہرایا ہے۔‏

 ہرچیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے ۔ سب کا خالق ، مالک ، رازق ، معبود اور رب وہی ہے ۔ ہرچیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے ۔

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ

ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں،

مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ خالق ، مالک ، قادر ، مختار ، بادشاہ کو چھوڑ کر ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو ایک مچھر کا پر بھی نہیں بنا سکتے بلکہ وہ خود اللہ کے بنائے ہوئے اور اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔

وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا (۳)

یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت و حیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں ۔

 وہ اپنے آپ کو بھی کسی نفع نقصان کے پہنچانے کے مالک نہیں چہ جائیکہ دوسرے کا بھلا کریں یا دوسرے کا نقصان کریں ۔ یا دوسری کوئی بات کر سکیں وہ اپنی موت زیست کا یا دوبارہ جی اٹھنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ پھر اپنی عبادت کرنے والوں کی ان چیزوں کے مالک وہ کیسے ہوجائیں گے؟

بات یہی ہے کہ ان تمام کاموں کا مالک اللہ ہی ہے ، وہی جلاتا اور مارتا ہے ، وہی اپنی تمام مخلوق کو قیامت کے دن نئے سرے سے پیدا کرے گا ۔ اس پر یہ کام مشکل نہیں ایک کا پیدا کرنا اور سب کو پیدا کرنا، ایک کو موت کے بعد زندہ کرنا اور سب کو کرنا اس پر یکساں اور برابر ہے ۔ ایک آنکھ جھپکانے میں اس کا پورا ہو جاتا ہے صرف ایک آواز کے ساتھ تمام مری ہوئی مخلوق زندہ ہو کر اس کے سامنے ایک چٹیل میدان میں کھڑی ہوجائے گی۔

 اور آیت میں فرمایا ہے:

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (۳۶:۵۳)

 یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے۔‏

وہی معبود برحق ہے اس کے سوا کوئی رب ہے نہ لائق عبادت ہے ، اس کا چاہا ہوتا ہے اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ ماں باپ سے ، لڑکی لڑکوں سے عدیل ، وزیرونظیر سے ، شریک وسہیم سب سے پاک ہے ۔ وہ احد ہے ، صمد ہے ، ولم یلدولم یولد ہے ، اس کا کفو کوئی نہیں ۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ

اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی ہے،

مشرکین ایک جہالت اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئی ۔ جو ذات الہٰی کی نسبت تھی ۔ یہاں دوسری جہالت بیان ہو رہی ہے جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے

وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو تو اس نے اوروں کی مدد سے خود ہی جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے ۔

فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا (۴)

 دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ان کا ظلم اور جھوٹ ہے جس کے باطل ہونے کا خود انہیں بھی علم ہے ۔ جو کچھ کہتے ہیں وہ خود اپنی معلومات کے بھی خلاف کہتے ہیں ۔

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (۵)

اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھا رکھے ہیں بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔‏

کبھی ہانک لگانے لگتے ہیں کہ اگلی کتابوں کے قصے اس نے لکھوالئے ہیں وہی صبح شام اس کی مجلس میں پڑھے جا رہے ہیں ۔

 یہ جھوٹ بھی وہ ہے جس میں کسی کو شک نہ ہوسکے اس لئے کہ صرف اہل مکہ ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے نبی اُمی تھے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا چالیس سال کی نبوت سے پہلے کی زندگی آپ کی انہی لوگوں میں گزر رہی تھی اور وہ اس طرح کہ اتنی مدت میں ایک واقعہ بھی آپ کی زندگی کا یا اک لمحہ بھی ایسا نہ تھاجس پر انگلی اٹھا سکے ایک ایک وصف آپ کا وہ تھاجس پر زمانہ شیدا تھا جس پر اہل مکہ رشک کرتے تھے آپ کی عام مقبولیت اور محبوبیت بلند اخلاقی اور خوش معاملگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ہر ایک دل میں آپ کے لئے جگہ تھی ۔

عام زبانیں آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم امین کے پیارے خطاب سے پکارتی تھیں دنیا آپ کے قدموں تلے آنکھیں بچھاتی تھی ۔ کو نسا دل تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر نہ ہو؟

 کون سی آنکھ تھی جس میں احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نہ ہو؟

 کون سا مجمع تھا جس کا ذکر خیر نہ ہو؟

 کون وہ شخص تھا جو آپ کی بزرگی صداقت امانت نیکی اور بھلائی کا قائل نہ ہو ؟

پھر جب کہ اللہ کی بلند ترین عزت سے آپ معزز کئے گئے آسمانی وحی کے آپ امین بنائے گئے تو صرف باپ دادوں کی روش کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ بےوقوف بےپیندے لوٹے کی طرح لڑھک گئے تھالی کے بینگن کی طرح ادھر سے ادھر ہوگئے ، لگے باتیں بنانے ، اور عیب جوئی کرنے لیکن جھوٹ کے پاؤں کہاں ؟

کبھی آپ کو شاعر کہتے ، کبھی ساحر ، کبھی مجنوں اور کبھی کذاب ،حیران تھے کہ کیا کہیں اور کس طرح اپنی جاہلانہ روش کو باقی رکھیں اور اپنے معبودان باطل کے جھنڈے اوندھے نہ ہونے دیں اور کس طرح ظلم کدہ دنیا کو نورالہٰی سے نہ جگمگانے دیں ؟

قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ

کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے

اب انہیں جواب ملتا ہے کہ قرآن کی سچی حقائق پہ مبنی اور سچی خبریں اللہ کی دی ہوئی ہیں جو عالم الغیب ہے ، جس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں۔ اس میں ماضی کے بیان سبھی سچ ہیں ۔ جو آئندہ کی خبر اس میں ہے وہ بھی سچ ہے اللہ کے سامنے ہو چکی ہوئی اور ہونے والی بات یکساں ہے ۔ وہ غیب کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ظاہر کو ۔

إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (۶)

بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے مہربان ہے۔‏

اس کے بعد اپنی شان غفاریت کو اور شان رحم وکرم کو بیان فرمایا تاکہ بد لوگ بھی اس سے مایوس نہ ہوں کچھ بھی کیا ہو۔ اب بھی اس کی طرف جھک جائیں ۔ توبہ کریں ۔ اپنے کئے پر پچھتائیں ۔ نادم ہوں ۔ اور رب کی رضا چاہیں۔

 رحمت رحیم کے قربان جائیے کہ ایسے سرکش ودشمن ، اللہ ورسول پر بہتان باز ، اس قدر ایذائیں دینے والے لوگوں کو بھی اپنی عام رحمت کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کرم کی طرف انہیں بلاتا ہے ۔ وہ اللہ کو برا کہیں، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو براکہیں ، وہ کلام اللہ پر باتیں بنائیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کی طرف رہنمائی کرے اپنے فضل وکرم کی طرف دعوت دے ۔ اسلام اور ہدایت ان پر پیش کرے اپنی بھلی باتیں ان کو سجھائے اور سمجھائے ۔

چنانچہ اور آیت میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی کا ذکر کر کے ان کی سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا :

أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (۵:۷۴)

یہ لوگ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے ؟ اور کیوں اس کی طرف جھک کر اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب نہیں کرتے ؟

 وہ تو بڑا ہی بخشنے والا اور بہت ہی مہربان ہے

مؤمنوں کو ستانے اور انہیں فتنے میں ڈالنے والوں کا ذکر کر کے سورۃ بروج میں فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُواْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَـتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُواْ فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ (۸۵:۱۰)

اگر ایسے لوگ بھی توبہ کرلیں اپنے برے کاموں سے ہٹ جائیں ، باز آئیں تو میں بھی ان پر سے اپنے عذاب ہٹالوں گا اور رحمتوں سے نواز دونگا ۔

 امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ نے کیسے مزے کی بات بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کے رحم وکرم کو دیکھو یہ لوگ اس کے نیک چہیتے بندوں کو ستائیں ماریں قتل کریں اور وہ انہیں توبہ کی طرف اور اپنے رحم وکرم کی طرف بلائے ! فسبحانہ مااعظم شانہ

وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا (۷)

اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا، کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے والا بن جاتا۔‏

اس حماقت کو ملاحظہ فرمائیے کہ رسول کی رسالت کی انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے ؟

 اور بازاروں میں تجارت اور لین دین کے لئے آتا جاتا کیوں ہے ؟

 اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا کہ وہ اس کے دعوے کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلاتا اور عذاب الہٰی سے آگاہ کرتا ۔

 فرعون نے بھی یہی کہا تھا:

فَلَوْلاَ أُلْقِىَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلَـئِكَةُ مُقْتَرِنِينَ  (۴۳:۵۳)

اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ یا اس کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے ۔

أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ

یا اس کے پاس کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس میں سے یہ کھاتا

چونکہ دل ان تمام کافروں کے یکساں ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کفار نے بھی کہا کہ اچھا یہ نہیں تو اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا کہ یہ خود بہ آرام اپنی زندگی بسر کرتا اور دوسرں کو بھی آسان ہے

 لیکن سردست ان سب چیزوں کے نہ دینے میں بھی حکمت ہے ۔

وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا (۸)

اور ان ظالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لئے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے۔‏

یہ ظالم مسلمانوں کو بھی بہکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کے پیچھے لگ لئے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے ۔

انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا (۹)

خیال تو کیجئے! کہ یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں۔ پس جس سے خود ہی بہک رہے ہیں اور کسی طرح راہ پر نہیں آسکتے ۔

 دیکھو تو سہی کہ کیسی بےبنیاد باتیں بناتے ہیں، کسی ایک بات پر جم ہی نہیں سکتے ، ادھر ادھر کروٹیں لے رہے ہیں کبھی جادوگر کہہ دیا تو کبھی جادو کیا ہوا بتا دیا ، کبھی شاعر کہہ دیا کبھی جن کا سکھایا ہوا کہہ دیا ، کبھی کذاب کہا کبھی مجنون ۔

 حالانکہ یہ سب باتیں محض غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا اس سے بھی واضح ہے کہ خود ان میں تضاد ہے کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کا اعتماد نہیں ۔ گھڑتے ہیں پھر چھوڑتے ہیں پھر گھڑتے ہیں پھر بدلتے ہیں کسی ٹھیک بات پر جمتے ہی نہیں ۔ جدھر متوجہ ہوتے ہیں راہ بھولتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں ۔ حق تو ایک ہوتا ہے اس میں تضاد اور تعارض نہیں ہوسکتا ۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ ان بھول بھلیوں سے نکل سکیں ۔

تَبَارَكَ الَّذِي إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِنْ ذَلِكَ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُورًا (۱۰)

اللہ تعالیٰ تو ایسا بابرکت ہے کہ اگر چاہے تو آپ کو بہت سے ایسے باغات عنایت فرما دے جو ان کے کہے ہوئے باغ سے بہت ہی بہتر ہوں

جس کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہوں اور آپ کو بہت سے (پختہ) محل بھی دے دے ۔

بیشک اگر رب چاہے تو جو یہ کافر کہتے ہیں اس سے بہتر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہی دے دے وہ بڑی برکتوں والا ہے ۔

پتھر سے بنے ہوئے گھر کو عرب قصر کہتے ہیں خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو جناب باری تعالیٰ کی جانب سے فرمایا گیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو زمین کے خزانے اور یہاں کی کنجیاں آپ کو دے دی جائیں اور اس قدر دنیا کا مالک بناکر دیا جائے کہ کسی اور کو اتنی ملی نہ ہو ساتھ ہی آخرت کی آپ کی تمام نعمتیں جوں کی توں برقرار ہیں

 لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور جواب دیا کہ نہیں میرے لئے تو سب کچھ آخرت ہی میں جمع ہو۔

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا (۱۱)

بات یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کو جھوٹ سمجھتے ہیں اور قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔‏

اللہ  فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں یہ صرف تکبر ، عناد، ضد اور ہٹ کے طور پر کہتے ہیں یہ نہیں کہ ان کا کہا ہوا ہوجائے تو یہ مسلمان ہوجائیں گے ۔ اس وقت پھر اور کچھ حیلہ بہانہ ٹٹول نکالیں گے ۔

 ان کے دل میں تو یہ خیال جما ہوا ہے کہ قیامت ہونے کی نہیں ۔ اور ایسے لوگوں کے لیے ہم نے بھی عذاب الیم تیار کر رکھاہے جو ان کے دل کی برداشت سے باہر ہے جو بھڑکانے اور سلگانے والی جھلس دینے والی تیز آگ کا ہے ۔

إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا (۱۲)

جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو یہ غصے سے بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے

ابھی تو جہنم ان سے سو سال کے فاصلے پر ہوگی جب ان کی نظریں اس پر اور اس کی نگاہیں ان پر پڑیں گی وہیں جہنم پیچ وتاب کھائے گی اور جوش وخروش سے آوازیں نکالے گا۔ جسے یہ بدنصیب سن لیں گے اور ان کے ہوش وحواس خطا ہوجائیں گے ، ہوش جاتے رہیں گے ، ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ، جہنم ان بدکاروں پر دانت پیس رہی ہوگی کہ ابھی ابھی مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔

  یہ اسی طرح کی ٓایت ہے:

إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ۔  تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ (۶۷:۷،۸)

جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اسکا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے) اچھلتی ہوگی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑے گی

ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جو شخص میرا نام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو وہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اپنا ٹھکانا بنالے ۔

 لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں ؟

 آپ نے فرمایا ہاں کیا تم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ یعنی جہنم کا دیکھنا اور چلانا ایک حقیقت ہے۔

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ربیع وغیرہ کو ساتھ لئے ہوئے کہیں جا رہے تھے راستے میں لوہار کی دکان آئی آپ وہاں ٹھہر گئے اور لوہا جو آگ میں تپایا جا رہا تھا اسے دیکھنے لگے حضرت ربیع کا تو برا حال ہوگیا عذاب الہٰی کا نقشہ آنکھوں تلے پھرگیا ۔ قریب تھا کہ بیہوش ہو کر گر پڑیں ۔اس کے بعد آپ فرات کے کنارے گئے وہاں آپ نے تنور کو دیکھا کہ اس کے بیچ میں آگ شعلے مار رہی ہے ۔ بےساختہ آپ کی زبان سے یہ آیت نکل گئی اسے سنتے ہی حضرت ربیع بےہوش ہو کر گر پڑے چار پائی پر ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا گیا

صبح سے لے کر دوپہر تک حضرت عبداللہ ؓ عنہ ان کے پاس بیٹھے رہے اور چارہ جوئی کرتے رہے لیکن حضرت ربیع کو ہوش نہ آیا ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب جہنمی کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا جہنم چیخے گی اور ایک ایسی جھر جھری لے گی کہ کل اہل محشر خوف زدہ ہوجائیں گے ۔

 اور راویت میں ہے:

 بعض لوگوں کو جب دوزخ کی طرف لے چلیں گے دوزخ سمٹ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مالک ورحمٰن اس سے پوچھے گا یہ کیا بات ہے ؟

 وہ جواب دے گی کہ اے اللہ یہ تو اپنی دعاؤں میں تجھ سے جہنم سے پناہ مانگا کرتا تھا ، آج بھی پناہ مانگ رہاہے ۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر تم کیا سمجھ رہے تھے ؟

یہ کہیں گے یہی کہ تیری رحمت ہمیں چھپالے گی ، تیرا کرم ہمارے شامل حال ہوگا ، تیری وسیع رحمت ہمیں اپنے دامن میں لے لے گی ۔

اللہ تعالیٰ ان کی آرزو بھی پوری کرے گا اور حکم دے گا کہ میرے ان بندوں کو بھی چھوڑ دو۔

 کچھ اور لوگ گھسیٹتے ہوئے آئیں گے انہیں دیکھتے ہی جہنم ان کی طرف شور مچاتی ہوئی بڑھے گی اور اس طرح جھر جھری لے گی کہ تمام مجمع محشر خوفزدہ ہو جائے گا ۔

حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں:

 جب جہنم مارے غصے کے تھر تھرائے گی اور شور وغل اور چیخ پکار اور جوش وخروش کرے گی اس وقت تمام مقرب فرشتے اور ذی رتبہ انبیاء کانپنے لگیں گے یہاں تک خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور کہنے لگے اے اللہ میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کا بچاؤ چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا ۔ یہ لوگ جہنم کے ایسے تنگ وتاریک مکان میں ٹھوس دیئے جائیں گے جیسے بھالا کسی سوراخ میں

اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہونا اور آپ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ جیسے کیل دیوار میں بمشکل گاڑی جاتی ہے اس طرح ان دوزخیوں کو ٹھونساجائے گا ۔

وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا (۱۳)

اور جب یہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں مشکیں کس کر پھینک دیئے جائیں گے تو وہاں اپنے لئے موت ہی موت پکاریں گے۔‏

یہ اس وقت خوب جکڑے ہوئے ہونگے بال بال بندھا ہوا ہوگا ۔ وہاں وہ موت کو فوت کو ہلاکت کو حسرت کو پکارنے لگیں گے ۔

لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا (۱۴)

(ان سے کہا جائے گا) آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو  

 ان سے کہا جائے ایک موت کو کیوں پکارتے ہو؟ صدہا ہزارہا موتوں کو کیوں نہیں پکارتے ؟

 مسند احمد میں ہے:

 سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا یہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گھسیٹتا ہوا اپنی ذریت کو پیچھے لگائے ہوئے موت وہلاکت کو پکارتا ہوا دوڑتا پھرے گا ۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اولاد بھی سب حسرت وافسوس ، موت وغارت کو پکار رہی ہوگی ۔ اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا ۔

ثُبُورًا سے مراد موت ، ویل ، حسرت ، خسارہ ، بربادی وغیرہ ہے ۔

جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا:

وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا (۱۷:۱۰۲)

فرعون میں تو سمجھتا ہوں کہ تو مٹ کر برباد ہو کر ہی رہے گا ۔

 شاعر بھی لفظ ثُبُورًا کو ہلاکت وبربادی کے معنی میں لائے ہیں ۔

قُلْ أَذَلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ یہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی والی جنت جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے،

اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں کا جو ذلت وخواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھیسٹے جائیں گے اور سر کے بل وہاں پھینک دئیے جائیں گے ۔ بندھے بندھائے ہوں گے اور تنگ وتاریک جگہ ہوں گے ، نہ چھوٹ سکیں نہ حرکت کر سکیں ، نہ بھاگ سکیں نہ نکل سکیں ۔

 پھر فرماتا ہے بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ؟

جو دنیا میں گناہوں سے بچتے رہے اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں ابدی لذتیں دائمی مسرتیں ان کے لئے موجود ہیں عمدہ کھانے ، اچھے بچھونے ، بہترین سواریاں ، پر تکلف لباس بہتر بہتر مکانات ، بنی سنوری پاکیزہ حوریں ، راحت افزا منظر ، ان کے لئے مہیا ہیں جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کہاں خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ نہ ان راحتوں کے بیانات کسی کان میں پہنچے ۔

 پھر ان کے کم ہوجانے ، خراب ہوجانے ، ٹوٹ جانے ، ختم ہوجانے ، کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی وہاں سے نکالے جائیں نہ وہ نعمتیں کم ہوں ۔ لازوال ، بہترین زندگی ، ابدی رحمت ، دوامی کی دولت انہیں مل گئی اور ان کی ہوگئی ۔

كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا (۱۵)

جو ان کا بدلہ ہے اور ان کے لوٹنے کی اصلی جگہ ہے۔‏

یہ رب کا احسان وانعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے ۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کر لیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے ، جس کا غلط ہونا محال ہے ۔

لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ ۚ كَانَ عَلَى رَبِّكَ وَعْدًا مَسْئُولًا (۱۶)

وہ جو چاہیں گے ان کے لئے وہاں موجود ہوگا، ہمیشہ رہنے والے۔ یہ تو آپ کے رب کے ذمے وعدہ ہے جو قابل طلب ہے ۔

 اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو، اس سے جنت طلب کرو، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ ۔

 یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ رب العالمین مؤمن بندوں سے جو تیرا وعدہ ہے اسے پورا کر اور انہیں جنت عدن میں لے جا ۔

قیامت کے دن مؤمن کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے آج تو اپناوعدہ پورا کر ۔

یہاں پہلے دوزخیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں کا ذکر ہوا۔

سورہ صافات میں جنتیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں کا ذکر ہوا :

أَذَلِكَ خَيْرٌ نُّزُلاً أَمْ شَجَرَةُ ۔۔۔فَهُمْ عَلَى ءَاثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ (۳۷:۶۲،۷۰)

کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ جسے ہم نے ظالموں کے لئے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے سانپ کے پھن دوزخی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا

پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ ملا جلا پینے کو دیا جائے گا پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔ انہوں نے اپنے پاپ دادوں کو گمراہ پایا اور بےتحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کر دیا ۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ (۱۷)

اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے، انہیں جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا

یا یہ خود ہی راہ سے گم ہوگئے ۔

بیان ہو رہا ہے کہ مشرک جن جن کی عبادتیں اللہ کے سوا کرتے رہے قیامت کے دن انہیں ان کے سامنے ان پر عذاب کے علاوہ زبانی سرزنش بھی کی جائے گی تاکہ وہ نادم ہوں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتے جن جن کی عبادت ہوئی تھی سب موجود ہوں گے اور ان کے عابد بھی۔ سب اسی مجمع میں موجود ہوں گے ۔ اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ ان معبودوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں سے اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا؟ یا یہ از خود ایسا کرنے لگے ؟

چنانچہ اور آیت میں ہے:

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ۔۔۔ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَآ أَمَرْتَنِى بِهِ (۵:۱۱۶،۱۱۷)

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو!

عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، ا

گر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے۔‏

میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا

حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کہیں گے میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جو تو نے مجھ سے کہا تھا کہ عبادت کے لائق فقط اللہ ہی ہے ۔

 یہ سب معبود جو اللہ کے سوا تھے اور اللہ کے سچے بندے تھے اور شرک سے بیزار تھے جواب دیں گے کہ کسی مخلوق کو ہم کو یا ان کو یہ لائق ہی نہ تھا کہ تیرے سواکسی اور کی عبادت کریں ہم نے ہرگز انہیں اس شرک کی تعلیم نہیں دی ۔ خود ہی انہوں نے اپنی خوشی سے دوسروں کی پوجا شروع کر دی تھی ہم ان سے اور ان کی عبادتوں سے بیزار ہیں ۔ ہم ان کے اس شرک سے بری الذمہ ہیں ۔ ہم تو خود تیرے عابد ہیں ۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ معبودیت کے منصب پر آجاتے ؟

 یہ تو ہمارے لائق ہی نہ تھا ، تیری ذات اس سے بہت پاک اور برتر ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو ۔

 چنانچہ اور آیت میں صرف فرشتوں سے اس سوال جواب کا ہونا بھی بیان ہوا ہے ۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَـئِكَةِ أَهَـؤُلاَءِ إِيَّاكُمْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ قَالُواْ سُبْحَـنَكَ (۳۴:۴۰،۴۱)

اور ان سب کو اللہ اس دن جمع کر کے فرشتوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے

قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ

وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے

نَتَّخِذَ کی دوسری قرأت نَتَّخَذَ بھی ہے یعنی یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا تھا ، نہ یہ ہمارے لائق تھا کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں اور تیری عبادت چھوڑ دیں ۔ کیونکہ ہم تو خود تیرے بندے ہیں ، تیرے در کے بھکاری ہیں ۔

 مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک ہی ہے ۔

وَلَكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا (۱۸)

بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور انکے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وہ نصیحت بھلا بیٹھے، یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے

ان کے بہکنے کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہ آتی ہے کہ انہیں عمریں ملیں ، ہی بہت کھانے پینے کو ملتا رہا بد مستی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ جو نصیحت رسولوں کی معرفت پہنچی تھی اسے بھلا دیا ۔ تیری عبادت سے اور سچی توحید سے ہٹ گئے ۔ یہ لوگ تھے یہ بےخبر ، ہلاکت کے گڑھے میں گر پڑے ۔ تباہ وبرباد ہوگئے

 بُورًا سے مطلب ہلاک والے ہی ہیں ۔

 جیسے ابن زبعری نے اپنے شعر میں اس لفظ کو اس معنی میں باندھا ہے ۔

فَقَدْ كَذَّبُوكُمْ بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ

تو انہوں نے تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی

وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا (۱۹)

تم میں سے جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔‏

اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے فرمائے گا لو اب تو تمہارے یہ معبود خود تمہیں جھٹلا رہے ہیں تم تو انہیں اپنا سمجھ کر اس خیال سے کہ یہ تمہیں اللہ کے مقرب بنا دیں گے ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے ، آج یہ تم سے کوسوں دور بھاگ رہے ہیں تم سے یکسو ہو رہے ہیں اور بیزاری ظاہر کررہے ہیں ۔

 جیسے ارشاد ہے:

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ (۴۶:۵،۶)

اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی چاہت پوری نہ کر سکیں بلکہ وہ تو ان کی دعا سے محض غافل ہیں اور محشر والے دن یہ سب ان سب کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی عبادتوں کے صاف منکر ہوجائیں گے۔

 پس قیامت کے دن یہ مشرکین نہ تو اپنی جانوں سے عذاب اللہ ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی مدد کر سکیں گے نہ کسی کو اپنا مددگار پائیں گے ۔

 تم میں سے جو بھی اللہ واحد کے ساتھ شرک کرے ہم اسے زبردست اور نہایت سخت عذاب کریں گے ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ

ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے

کافر جو اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟

 اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا ۔ بیوپار ، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیاکرتے تھے یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف نیک خصائل عمدہ اقوال مختار افعال ظاہر دلیلیں اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ہر دانا بینا مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اور ان کی سچائی کو مان لے ۔

اسی آیت جیسی اور آیت ہے:

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِى إِلَيْهِمْ مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى (۱۲:۱۰۹)

تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے ۔

 اور آیت میں ہے:

وَمَا جَعَلْنَـهُمْ جَسَداً لاَّ يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ (۲۱:۸)

ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنارہے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں ۔

وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا (۲۰)

اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا کیا تم صبر کروگے؟ تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔

ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہوجائیں ۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہوجائیں ۔ تیرا رب دانا وبینا ہے خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟

 جیسے فرمایا:

اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (۶:۱۲۴)

منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے ؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ۔

 اسی کو اس کا علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں ؟ اور کون نہیں ؟

 چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے اس لئے نبیوں کو عموما ًمعمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا ہے تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے ۔

صحیح مسلم شریف میں ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں ۔

 مسند میں ہے آپ ﷺفرماتے ہیں:

 اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے

 اور صحیح حدیث شریف میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی بننے میں اختیار دیا گیا ہے تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا ۔

  فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین

وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا ۗ

اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے

کافر لوگ انکار نبوت کا ایک بہانہ یہ بھی بناتے تھے کہ اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہی تھا کو کسی فرشتے کو کیوں نہ بھیجا ؟

چنانچہ اور آیت میں ہے کہ وہ ایک بہانہ یہ بھی کرتے تھے:

لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ  (۶:۱۲۴)

جب تک خود ہمیں وہ نہ دیا جائے جو رسولوں کو دیا گیا ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے ۔

مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبیوں کے پاس اللہ کی طرف سے فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ہمارے پاس بھی آئے

 اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا مطالبہ یہ ہو کہ فرشتوں کو دیکھ لیں۔ خود فرشتے آکر ہمیں سمجھائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کریں تو ہم آپ کو نبی مان لیں گے۔

 جیسے اور آیت میں ہے کہ کفار نے کہا:

أَوْ تَأْتِىَ بِاللَّهِ وَالْمَلَـئِكَةِ قَبِيلاً (۱۷:۹۲)

تو اللہ کو لے آ فرشتوں کو بنفس نفیس ہمارے پاس لے آ۔

 اس کی پوری تفسیر سورۃ سبحان میں گزر چکی ہے۔

 یہاں بھی ان کا یہی مطالبہ بیان ہوا ہے کہ یا تو ہمارے اوپر فرشتے اتریں یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں۔

لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا (۲۱)

ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کر لی ہے۔‏

یہ بات اس لئے ان کی منہ سے نکلی کہ یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے تھے اور ان کا غرور حد سے بڑھ گیا تھا۔ ان کی ایمان لانے کی نیت نہ تھی۔

جیسے فرمان ہے:

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَآ إِلَيْهِمُ الْمَلَـئِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى (۶:۱۱۱)

اگر ہم ان فرشتوں کو بھی اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے ،

 اس قسم کی اور بھی تمام چیزیں ہم ان کے سامنے کردیتے جب بھی انہی ایمان لانا نصیب نہ ہوتا۔

يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا (۲۲)

جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرشتوں کو یہ دیکھیں گے لیکن اس وقت ان کے لئے ان کا دیکھنا کچھ سود مند نہ ہوگا

اس سے مراد سکرات موت کا وقت ہے جب کہ فرشتے کافروں کے پاس آتے ہیں اور اللہ کے غضب اور جہنم کی آگ کی خبر انہیں سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خبیث نفس تو خبیث اور ناپاک جسم میں تھا اب گرم ہواؤں ، گرم پانی اور نامبارک سایوں کی طرف چل ۔

 وہ نکلنے سے کتراتی ہے اور بدن میں چھپتی پھرتی ہے اس پر فرشتے ان کے چہروں پر اور ان کی کمروں پر ضربیں مارتے ہیں۔

 جیسے فرمان ہے:

وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (۸:۵۰)

کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں انکے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو

 اور آیت میں ہے:

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ ۔۔۔ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (۶:۹۳)

اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کی سزا دی جائے گی

اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔

مؤمنوں کا حال ان کے بالکل برعکس ہوگا وہ اپنی موت کے وقت خوشخبریاں سنائے جاتے ہیں اور ابدی مسرتوں کی بشارتیں دئیے جاتے ہیں جیسے فرمان ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَـمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَـئِكَةُ۔۔۔ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (۴۱:۳۰،۳۲)

جنہوں نے اللہ کو اپنا رب کہا اور مانا پھر اس پر جمے رہے ان کے پاس ہمارے فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو، ان جنتوں میں جانے کی خوشی مناؤ جن کا تمہیں وعدہ دیا جا تارہا۔

ہم تمہارے والی ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ، تم جو کچھ چاہوگے پاؤ گے اور جس چیز کی خواہش کروگے موجود ہوجائے گی بخشنے والے مہربان اللہ کی طرف سے یہ تمہاری میزبانی ہوگی۔

صحیح حدیث میں ہے:

فرشتے مؤمن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی تو اللہ تعالیٰ کے رحم اور رحمت کیطرف چل جو تجھ سے ناراض نہیں۔

سورۃ ابراہیم کی آیت يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (۱۴:۱۷) کی تفسیر میں یہ سب حدیثیں مفصل بیان ہوچکی ہیں۔

بعض نے کہا مراد اس سے قیامت کے دن فرشتوں کا دیکھنا

ہو سکتا ہے کہ دونوں موقعوں پر فرشتوں کا دیکھنا مراد ہو

 اس میں ایک قول کی دوسرے قول سے نفی نہیں کیونکہ دونوں ہر نیک وبد فرشتوں کو دیکھیں گے مؤمنوں کو رحمت ورضوان کی خوشخبری کے ساتھ فرشتوں کا دیدار ہوگا اور کافروں کو لعنت وپھٹکار اور عذابوں کی خبروں کے ساتھ فرشتے اس وقت ان کافروں سے صاف کہہ دیں گے کہ اب فلاح وبہبود تم پر حرام ہے۔

حِجْرًا کے لفظی معنی روک ہیں چنانچہ قاضی جب کسی کو اس کی مفلسی یا حماقت یا بچپن کی وجہ سے مال کی تصرف سے روک دے تو کہتے ہیں حجر القاضی علی فلان۔

حطیم کو بھی حجر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ طواف کرنے والوں کو اپنے اندر طواف کرنے سے روک دیتا ہے بلکہ اس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے ۔

 عقل کو بھی عربی میں حجر کہتے ہیں اس لئے وہ بھی انسانوں کو برے کاموں سے روک دیتی ہے۔

 پس فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ جو خوش خبریاں مؤمنوں کو اس وقت ملتی ہیں اس سے تم محروم ہو ۔ یہ معنی تو اس بنا پر ہیں کہ اس جملے کو فرشتوں کا قول کہاجائے۔

 دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مقولہ اس وقت کافروں کا ہوگا وہ فرشتوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ اللہ کرے تم ہم سے آڑ میں رہو تمہیں ہمارے پاس آنا نہ ملے۔

 گو یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں لیکن دور کے معنی ہیں ۔ بالخصوص اس وقت کہ جب اس کے خلاف وہ تفسیر جو ہم نے اوپر بیان کی اور سلف سے مروی ہے۔ البتہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول ایسا مروی ہے لیکن انہی سے صراحت کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ یہ قول فرشتوں کا ہوگا، واللہ اعلم

وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا (۲۳)

اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا

پھر قیامت کے دن اعمال کے حساب کے وقت ان کے اعمال غارت واکارت ہوجائیں گے۔ یہ جنہیں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے ہوئے تھے وہ بیکار ہوجائیں گے کیونکہ یا تو وہ خلوص والے نہ تھے یا سنت کے مطابق نہ تھے ۔ اور جو عمل ان دونوں سے یا ان میں سے ایک چیز سے خالی ہو وہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ اس لیے کافروں کے نیک اعمال بھی مردود ہیں ۔

 ہم نے ان کے اعمال کا ملاحظہ کیا اور ان کو مثل بکھرے ہوئے ذروں کے مثل کردیا کہ وہ سورج کی شعاعیں جو کسی سوراخ سے آرہی ہوں ان میں نظر تو آتے ہیں لیکن کوئی انہیں پکڑنا چاہئے تو ہاتھ نہیں آتے ۔ جس طرح پانی جو زمین پر بہا دیا جائے وہ پھر ہاتھ نہیں آسکتا۔ یا غبار جو ہاتھ نہیں لگ سکتا۔ یا درختوں کے پتوں کا چورا جو ہوا میں بکھر گیا ہو یاراکھ اور خاک جو اڑتی پھرتی ہو۔ اسی طرح ان کے اعمال ہیں جو محض بیکار ہوگئے ان کا کوئی ثواب ان کے ہاتھ نہیں لگے گا۔ اس لئے کہ یا تو ان میں خلوص نہ تھا یا شریعت کے مطابقت نہ تھی یا دونوں وصف نہ تھے۔

 پس جب یہ عالم وعادل حاکم حقیقی کے سامنے پیش ہوئے تو محض نکمے ثابت ہوئے اسی لئے اسے ردی اور نہ ہاتھ لگنے والی شے سے تشبیہ دی گئی

جیسے اور جگہ ہے:

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ (۱۴:۱۸)

کافروں کے اعمال کی مثال راکھ جیسی ہے جسے تیز ہوا اڑادے ۔

 انسان کی نیکیاں بعض بدیوں سے بھی ضائع ہوجاتی ہیں جیسے صدقہ خیرات کہ وہ احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع ہوجاتا ہے

 جیسے فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالأذَى ۔۔۔ بِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ (۲:۲۶۴)

اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر،  

اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی

پس ان کے اعمال میں سے آج یہ کسی عمل پر قادر نہیں۔

 اور آیت میں ان کے اعمال کی مثال اس ریت کے ٹیلے سے دی گئی:

وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَآءً حَتَّى إِذَا جَآءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جیسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا،

 اس کی تفسیر بھی اللہ کے فضل سے گزر چکی ہے ۔

أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا (۲۴)

البتہ اس دن جنتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور خواب گاہ بھی عمدہ ہوگی

پھر فرمایا کہ ان کے مقابلے میں جنتیوں کی بھی سن لو کیونکہ یہ دونوں فریق برابر کے نہیں۔

لاَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآئِزُونَ (۵۹:۲۰)

اہل نار اور اہل جنت (باہم) برابر نہیں جو اہل جنت میں ہیں وہی کامیاب ہیں ہیں ۔

جنتی تو بلند درجوں میں اعلیٰ بالاخانوں میں امن وامان، راحت وآرام کے ساتھ عیش وعشرت میں ہونگے ۔ مقام اچھا، منظر دل پسند، ہر راحت موجود، ہر دل خوش کن چیز سامنے، جگہ اچھی، مکان طیب، منزل مبارک سونے بیٹھنے رہنے سہنے کا آرام،

برخلاف اس کے جہنمی دوزخ کے نیچے کے طبقوں میں جکڑ بند ، اوپر نیچے، دائیں بائیں آگ، حسرت افسوس، رنج غم، پکھنا، جلنا، بےقرار، جگر سوز، مقام بد، بری منزل خوفناک منظر، عذاب سخت ۔

 نیک لوگوں کے جن کے دل میں ایمان تھا اعمال مقبول ہوئے، اچھی جزائیں دی گئیں بدلے ملے۔ جہنم سے بچے، جنت کے وارث ومالک بنے۔ پس یہ جو تمام بھلائیوں کو سمیٹ بیٹھے اور وہ جو ہر نیکی سے محروم رہے کہیں برابر ہوسکتے ہیں؟

 پس نیکوں کی سعادت بیان فرما کر بدوں کی شقاوت پر تنبیہ کردی۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے :

 ساعت ایسی بھی ہوگی کہ جنتی اپنی حوروں کے ساتھ دن دوپہر کو آرام فرمائیں اور جہنمی شیطانوں کے ساتھ جکڑے ہوئے دوپہر کو گھبرائیں۔

سعد بن جبیر کہتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ آدھے دن میں بندوں کے حساب سے فارغ ہوجائے گا پس جنتیوں کے لئے دوپہر کے سونے کا وقت جنت میں ہوگا اور دوزخیوں کا جہنم میں۔

حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 مجھے معلوم ہوا ہے کہ کس وقت جنتی جنت میں جائیں گے اور جہنمی جہنم میں۔ یہ وہ وقت ہوگا جب یہاں دنیا میں دوپہر کا وقت ہوتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو دو گھڑی آرام حاصل کرنے کی غرض سے لوٹتے ہیں۔ جنتیوں کا یہ قیلولہ جنت میں ہوگا۔ مچھلی کی کلیجی انہیں پیٹ بھر کر کھلائی جائے گی۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے:

 دن آدھا ہو اس سے بھی پہلے جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں قیلولہ کریں گے پھر آپ نے یہی آیت أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا پڑھی اور آیت ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ (۳۷:۶۸) بھی پڑھی۔

جنت میں جانے والے صرف ایک مرتبہ جناب باری کے سامنے پیش ہونگے یہی آسانی سے حساب لینا پے پھر یہ جنت میں جاکر دوپہر کا آرام کریں گے

جیسے فرمان اللہ ہے:

فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ـ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا ـ وَيَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِهِ مَسْرُورًا (۸۴:۷،۹)

تو جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا۔‏ اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا ۔

 صفوان بن ام حرز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 قیامت کے دن دو شخصوں کو لایا جائے گا ایک تو وہ جو ساری دنیا کا بادشاہ تھا اس سے حساب لیا جائے گا تو اس کی پوری عمر میں ایک نیکی بھی نہ نکلے گی پس اسے جہنم کے داخلے کا حکم ملے گا

 پھر دوسرا شخص آئے گا جس نے ایک کمبل میں دنیا گزاری تھی جب اس سے حساب لیا جائے گا تو یہ کہے گا کہ اے اللہ میرے پاس دنیا میں تھا ہی کیا جس کا حساب لیا جائے گا ؟

 اللہ فرمائے گا۔ یہ سچا ہے اسے چھوڑ دو۔ اسے جنت میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔

 پھر کچھ عرصے کے بعد دونوں کو بلایا جائے گا تو جہنمی بادشاہ تو مثل سوختہ کوئلے کے ہو گیا ہوگا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کس حال میں ہو یہ کہے گا نہایت برے حال میں اور نہایت خراب جگہ میں ہوں۔

 پھر جنتی کو بلایا جائے گا اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوگا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کیسی گزرتی ہے؟

یہ کہے گا الحمدللہ بہت اچھی اور نہایت بہتر جگہ میں ہوں۔

 اللہ فرمائے گا جاؤ اپنی اپنی جگہ پھر چلے جاؤ۔

حضرت سعید صواف رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے:

 مؤمن پر تو قیامت کا دن ایسا چھوٹا ہوجائے گا جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت۔ یہ جنت کی کیاریوں میں پہنچا دئیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اور مخلوق کے حساب ہوجائیں۔

 پس جنتی بہتر ٹھکانے والے اور عمدہ جگہ والے ہونگے۔

وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنْزِيلًا (۲۵)

اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائیگا اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے۔‏

قیامت کے دن جو ہولناک امور ہونگے ان میں سے ایک آسمان کا پھٹ جانا اور نورانی ابر کا نمودار ہونا بھی ہے جس کی روشنی سے آنکھیں چکا چوند ہوجائیں گی پھر فرشتے اتریں گے اور میدان محشر میں تمام انسانوں کو گھیر لیں گے ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کے لئے تشریف لائے گا۔

جیسے فرمان ہے:

هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَـئِكَةُ (۲:۲۱۰)

کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادلوں میں آئیں ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو سب انسانوں اور کل جنات کو ایک میدان میں جمع کرے گا۔ تمام جانور چوپائے درندے پرندے اور کل مخلوق وہاں ہوگی پھر آسمان اول پھٹے گا اور اس کے فرشتے اتریں گے جو تمام مخلوق کو دو طرف سے گھیرلیں گے اور وہ گنتی میں بہت زیادہ ہونگے پھر دوسرا آسمان پھٹے گا اسکے فرشتے بھی آئیں گے جو زمین کی اور آسمان اول کی تمام مخلوق کی گنتی سے بھی زیادہ ہونگے۔ پھر تیسرا آسمان شق ہوگا اس کے فرشتے بھی دونوں آسمانوں کے فرشتے مل کر زمین کی مخلوق سے بھی زیادہ ہونگے سب کو گھیر کر کھڑے ہو جائیں گے۔ پھر اسی طرح چوتھا پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں

پھر ہمارا رب ابر کے سائے میں تشریف لائے گا اسکے ارد گرد بزرگ تر پاک فرشتے ہونگے جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کی کل مخلوق سے بھی زیادہ ہونگے ان پر سینگوں جیسے نشان ہونگے، وہ اللہ کے عرش کے نیچے اللہ کی تسبیح وتہلیل وتقدس بیان کریں گے ، ان کے تلوے سے لے کر ٹخنے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کا راستہ ہوگا اور ٹخنے سے گھٹنے تک کا بھی اتناہی۔ اور گھٹنے سے ناف تک کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہوگا۔ اور ناف سے گردن کا فاصلہ بھی اتنا ہوگا اور گردن سے کان کی لو تک بھی اتنا فاصلہ ہوگا اور اس کے اوپر سے سر تک کا بھی اتنا فاصلہ ہوگا۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے :

 قیامت کا نام یوم التلاق اسی لئے ہے کہ اس میں زمین اور آسمان والے ملیں گے انہیں دیکھ پہلے تو محشر والے سمجھ لیں گے کہ ہمارا اللہ آیا لیکن فرشتے سمجھا دیں گے کہ وہ آنے والا ہے ابھی تک نازل نہیں ہوا۔ پھر جب کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے آجائیں گے اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر تشریف لائے گا جسے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں جن کے ٹخنے سے گٹھنے تک سر سال کا راستہ ہے اور ران اور مونڈھے کے درمیان بھی ستر سال کا راستہ ہے ہر فرشتہ دوسرے سے علیحدہ اور جداگانہ ہے ہر ایک کی ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے اور زبان پر سبحان الملک القدوس کا وظیفہ ہے۔ انکے سروں پر ایک پھیلی ہوئی ہے جیسے سرخ شفق اسکے اوپر عرش ہوگا۔

 اس میں راوی علی بن زید بن جدعان ہیں جو ضعیف ہیں اور بھی اس حدیث میں بہت سی خامیاں ہیں۔

صور کی مشہور حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے۔ واللہ اعلم

اور آیت میں ہے:

فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ـ وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ ۔۔۔ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ (۶۹:۱۵،۱۷)

اس دن ہوپڑنے والی ہوپڑے گی اور آسمان پھٹ کر روئی کی طرح ہوجائے گا۔ اور اس کے کناروں پر فرشتے ہونگے اور اس دن تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے لئے ہوں گے۔

 شہر بن جوشب کہتے ہیں ان میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہوگی :

سبحانک اللہم وبحمدک لک الحمد علی حلمک بعد علمک

اے اللہ تو پاک ہے تو قابل ستائش وتعریف ہے باوجود علم کے پھر بھی بردباری برتنا تیرا وصف ہے جس پر ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں۔

اور چار کی تسبیح یہ ہوگی :

سبحانک اللہم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک

اے اللہ تو پاک ہے اور اپنی تعریفوں کیساتھ ہے تیرے ہی لئے سب تعریف ہے کہ تو باوجود قدرت کے معاف فرماتا رہتا ہے ۔

ابوبکر بن عبداللہ رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ عرش کو اترتا دیکھ کر اہل محشر کی آنکھیں پھٹ جائیں گی، جسم کانپ اٹھیں گے، دل لرز جائیں گے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں:

 جس وقت اللہ عزوجل مخلوق کی طرف اترے گا تو درمیان میں ستر ہزار پردے ہوں گے بعض نور کے بعض ظلمت کے۔ اس ظلمت میں سے ایک ایسی آواز نکلے گی جس سے دل پاش پاش ہوجائیں گے

الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا (۲۶)

اور اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا‏

اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہت ہوگی جیسے فرمان ہے:

لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَحِدِ الْقَهَّارِ (۴۰:۱۶)

آج ملک کس کے لئے ہے؟ صرف اللہ غالب وقہار کے لئے۔

صحیح حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا اور زمینوں کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا پھر فرمائے گا میں مالک ہوں میں فیصلہ کرنے والا ہوں زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں؟

 وہ دن کفار پر بڑا بھاری پڑا ہوگا۔ اسی کا بیان اور جگہ بھی ہے:

فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ ـ عَلَى الْكَـفِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ (۷۴:۹،۱۰)

وہ دن بڑا سخت دن ہوگا۔‏ جو کافروں پر آسان نہ ہوگا۔

کافروں پر وہ دن گراں گزرے گا۔ ہاں مؤمنوں کو اس دن مطلق گھبراہٹ یا پریشانی نہ ہوگی۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچاس ہزار سال کا دن تو بہت ہی دراز ہوگا۔

 آپﷺ نے فرمایا:

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مؤمن پر تو وہ ایک وقت کی فرض نماز سے بھی ہلکا اور آسان ہوگا۔

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا (۲۷)

اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ کی راہ اختیار کی ہوتی۔‏

پیغمبر علیہ السلام کے طریقے اور آپ اور آپ کے لائے ہوئی کھلے حق سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کے سوا دوسری راہوں پہ چلنے والے اس دن بڑے ہی نادم ہونگے اور حسرت وافسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ چبائیں گے۔

 گو اس کا نزول عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں ہو یا کسی اور کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہر ایسے ظالم کو شامل ہے۔

جیسے فرمان ہے:

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ ۔۔۔ فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (۳۳:۶۶،۶۷)

اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت اور افسوس سے) کہیں گے کاش ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے۔

‏ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا ۔

يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا (۲۸)

ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا

لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا (۲۹)

اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‏

 پس ہر ظالم قیامت کے دن پچھتائے گا اپنے ہاتھوں کو چبائے گا اور آہ و زاری کرکے کہے گا کاش کہ میں نے نبی کی راہ اپنائی ہوتی۔ کاش کہ میں نے فلاں کی عقیدت مندی نہ کی ہوتی۔ جس نے مجھے راہ حق سے گم کردیا۔

 امیہ بن خلف کا اور اس کے بھائی ابی بن خلف کا بھی یہی حال ہوگا اور انکے سوا اور بھی ایسے لوگوں کا یہ حال ہوگا۔ کہے گا کہ اس نے مجھے ذکر یعنی قرآن سے بیگانہ کردیا حالانکہ وہ مجھ تک پہنچ چکا تھا ۔

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان انسان کو رسوا کرنے والا ہے، وہ اسے ناحق کی طرف بلاتا ہے اور حق سے ہٹا دیتا ہے۔

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (۳۰)

اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری اُمت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا

قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے:

لاَ تَسْمَعُواْ لِهَـذَا الْقُرْءَانِ وَالْغَوْاْ فِيهِ (۴۱:۲۶)

اس قرآن کو نہ سنو اور اسکے پڑھے جانے کے وقت شور وغل کرو۔

نہ اس پر ایمان لاتے تھے ، نہ اسے سچا جانتے تھے نہ اس پر غورو فکر کرتے تھے، نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے نہ اس پر عمل تھا، نہ اس کے احکام کو بجا لاتے تھے ، نہ اس کے منع کردہ کاموں سے رکتے تھے بلکہ اسکے سوا اور کلاموں سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے، یہی اسے چھوڑ دینا تھا ۔

 ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم ومنان جو ہرچیز پر قادر ہے۔ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ناپسندیدہ کاموں سے دست بردار ہوجائیں اور اس کے پسندیدہ کاموں کی طرف جھک جائیں۔ وہ ہمیں اپنے کلام سمجھا دے اور دن رات اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے، جس سے وہ خوش ہو، وہ کریم وہاب ہے۔

‎ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ ۗ

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن گناہگاروں کو بنا دیا ہے

پھر فرمایا جس طرح اے نبی آپ کی قوم قرآن کو نظر انداز کردینے والے لوگ ہیں۔ اسی طرح اگلی اُمتوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو خود کفر کرکے دوسروں کو اپنے کفر میں شریک کار کرتے تھے اور اپنی گمراہی کے پھیلانے کی فکر میں لگے رہتے تھے ۔

 جیسے فرمان ہے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِىٍّ عَدُوّاً شَيَـطِينَ الإِنْسِ وَالْجِنِّ (۶:۱۱۲)

اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین وانسان بنادئیے ہیں

وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا (۳۱)

 اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا کافی ہے۔‏

پھر فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے ، کتاب اللہ پر ایمان لائے ، اللہ کی وحی پر یقین کرے اس کا ہادی اور ناصر خود اللہ تعالیٰ ہے ۔

 مشرکوں کی جو خصلت اوپر بیان ہوئی اس سے انکی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو ہدایت پر نہ آنے دیں اور آپ مسلمانوں پر غالب رہیں ۔ اس لئے قرآن نے فیصلہ کیا کہ یہ نامراد ہی رہیں گے ۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو خود ہدایت کرے گا اور مسلمان کی خود مدد کرے گا ۔ یہ معاملہ اور ایسوں کا مقابلہ کچھ تجھ سے ہی نہیں تمام اگلے نبیوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ

اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا

کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جیسے توریت ، انجیل، زبور، وغیرہ ایک ساتھ پیغمبروں پر نازل ہوتی رہیں۔ یہ قرآن ایک ہی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیوں نہ ہوا؟

كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا (۳۲)

اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں واقعی یہ متفرق طور پر اترا ہے، بیس برس میں نازل ہوا ہے جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی جو جو واقعات ہوتے رہے احکام نازل ہوتے گئے تاکہ مؤمنوں کا دل جما رہے ۔

 ٹھہر ٹھہر کر احکام اتریں تاکہ ایک دم عمل مشکل نہ ہوپڑے، وضاحت کے ساتھ بیان ہوجائے۔ سمجھ میں آجائے ۔ تفسیر بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتی رہے۔

وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا (۳۳)

یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتا دیں گے

ہم ان کے کل اعتراضات کا صحیح اور سچا جواب دیں گے جو ان کے بیان سے بھی زیادہ واضح ہوگا۔ جو کمی یہ بیان کریں گے ہم ان کی تسلی کردیں گے۔ صبح شام، رات دن ۔ سفر حضر میں بار بار اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور اپنے خاص بندوں کی ہدایت کے لئے ہمارا کلام ہمارے نبی کی پوری زندگی تک اترتا رہا ۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضلیت بھی ظاہر ہوتی رہی لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام پر ایک ہی مرتبہ سارا کلام اترا

مگر اس سے بہترین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تبارک وتعالیٰ باربار خطاب کرتا کہ اس قرآن کی عظمت بھی آشکار ہوجائے اس لیے یہ اتنی لمبی مدت میں نازل ہوا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب نبیوں میں اعلیٰ اور قرآن بھی سب کلاموں میں بالا۔

 اور لطیفہ یہ ہے کہ قرآن کو دونوں بزرگیاں ملیں یہ ایک ساتھ لوح محفوظ سے ملا اعلیٰ میں اترا۔ لوح محفوظ سے پورے کا پورا دنیا کے آسمان تک پہنچا۔ پھر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 سارا قرآن ایک دفعہ ہی لیلۃ القدر میں دنیا کے آسمان پر نازل ہوا پھر بیس سال تک زمین پر اترتا رہا۔ پھر اس کے ثبوت میں آپ نےیہ آیت تلاوت فرمائی۔

وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا۔(۱۷:۱۰۶)

اور قرآن، اس کو ہم نے جدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا ۔

الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَى جَهَنَّمَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا (۳۴)

جو لوگ اپنے منہ کے بل جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے وہی بدتر مکان والے اور گمراہ تر راستے والے ہیں۔‏

 یہاں کافروں کی جو درگت قیامت کے روز ہونے والی ہے اس کا بیان فرمایا کہ بدترین حالت اور قبیح تر ذلت میں ان کا حشر جہنم کی طرف ہوگا۔ یہ اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے یہی برے ٹھکانے والے اور سب سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔

 ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کافروں کا حشر منہ کے بل کیسے ہوگا؟

 آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے انہیں پیر کے بل چلایا وہ سر کے بل چلانے پر بھی قادر ہے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا (۳۵)

اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے ہمراہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا۔‏

اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور آپ کے مخالفین کو اپنے عذابوں سے ڈرا رہا ہے کہ تم سے پہلے کے جن لوگوں نے میرے نبیوں کی نہ مانی ، ان سے دشمنی کی ان کی مخالفت کی میں نے انہیں تہس نہس کردیا۔ فرعونیوں کا حال تم سن چکے ہو کہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا

فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِيرًا (۳۶)

اور کہہ دیا کہ تم دونوں ان لوگوں کی طرف جاؤ جو ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ پھر ہم نے انہیں بالکل ہی پامال کر دیا۔‏

 لیکن انہوں نے نہ مانا جس کے باعث اللہ کا عذاب آ گیا اور سب ہلاک کر دیئے گئے ۔

دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَـفِرِينَ أَمْثَـلُهَا (۴۷:۱۰)

اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا اور کافروں کے لئے اس طرح کی سزائیں ہیں

وَقَوْمَ نُوحٍ لَمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آيَةً ۖ

اور قوم نوح نے بھی جب رسولوں کو جھوٹا کہا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور لوگوں کے لئے انہیں نشان عبرت بنا دیا۔

وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا (۳۷)

اور ہم نے ظالموں کے لئے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔‏

قوم نوح کو دیکھو انہوں نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور چونکہ ایک رسول کا جھٹلانا تمام نبیوں کو جھٹلانا ہے اس واسطے یہاں رسل جمع کر کے کہا گیا ۔ اور یہ اس لیے بھی کہ اگر بالفرض ان کی طرف تمام رسول بھی بھیجے جاتے تو بھی یہ سب کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو نوح علیہ السلام نبی کے ساتھ کیا ۔

یہ مطلب نہیں کہ انکی طرف بہت سے رسول بھیجے گئے تھے بلکہ ان کے پاس تو صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی آئے تھے جو ساڑھے نو سو سال تک ان میں رہے ہر طرح انہیں سمجھایا بجھایا لیکن سوائے معدودے چند کے کوئی ایمان نہ لایا ۔ اس لئے اللہ نے سب کو غرق کر دیا ۔ سوائے ان کے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں تھے ایک بنی آدم روئے زمین پر نہ بچا۔ لوگوں کے لئے انکی ہلاکت باعث عبرت بنادی گئی۔

جیسے فرمان ہے:

إِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنَـكُمْ فِى الْجَارِيَةِ ـ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَآ أُذُنٌ وَعِيَةٌ  (۶۹:۱۱،۱۲)

جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنا دیں اور (تاکہ) یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔

یعنی کشتی کو ہم نے تمہارے لیے اس طوفان سے نجات پانے اور لمبے لمبے سفر طے کرنے کا ذریعہ بنادیا تاکہ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے عالمگیر طوفان سے تمہیں بچالیا اور ایماندار اور ایمان داروں کی اولاد میں رکھا۔

وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا (۳۸)

اور عادیوں اور ثمودیوں اور کنوئیں والوں کو اور ان کے درمیان کی بہت سی اُمتوں کو(ہلاک کر دیا) ۔

عادیوں اور ثمودیوں کا قصہ تو بارہا بیان ہوچکا ہے جیسے کہ سورۃ اعراف وغیرہ میں اصحاب الرس کی بابت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے کہ یہ ثمودیوں کی ایک بستی والے تھے۔

 عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ خلیج والے تھے جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آذر بائی جان کے ایک کنویں کے پاس ان کی بستی تھی۔

 عکرمہ فرماتے ہیں کہ ان کو کنویں والے اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔

ابن اسحاق رحمۃاللہ علیہ محمد بن کعب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ایک سیاہ فام غلام سب سے اول جنت میں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی والوں کی طرف اپنا نبی بھیجا تھا لیکن ان بستی والوں میں سے بجز اس کے کوئی بھی ایمان نہ لایا بلکہ انہوں نے اللہ کے نبی کو ایک غیر آباد کنویں میں ویران میدان میں ڈالدیا اور اس کے منہ پر ایک بڑی بھاری چٹان رکھ دی کہ یہ وہیں مرجائیں۔

یہ غلام جنگل میں جاتا لکڑیاں کاٹ کر لاتا انہیں بازار میں فروخت کرتا اور روٹی وغیرہ خرید کر کنویں پر آتا اس پتھر کو سرکا دیتا۔ یہ ایک رسی میں لٹکا کر روٹی اور پانی اس پیغمبر علیہ السلام کے پاس پہنچا دیتا جسے وہ کھاپی لیتے۔

 مدتوں تک یونہی ہوتا رہا۔ ایک مرتبہ یہ گیا لکڑیاں کاٹیں، چنیں ، جمع کیں، گھٹری باندھی، اتنے میں نیند کا غلبہ ہوا، سوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر نیند ڈال دی۔ سات سال تک وہ سوتا رہا۔ سات سال کے بعد آنکھ کھلی، انگڑائی لی اور کروٹ بدل کر پھر سورہا۔ سات سال کے بعد پھر آنکھ کھلی تو اس نے لکڑیوں کی گھٹڑی اٹھائی اور شہر کی طرف چلا۔ اسے یہی خیال تھا کہ ذرا سی دیر کے لئے سوگیا تھا ۔ شہر میں آکر لکڑیاں فروخت کیں ۔ حسب عادت کھانا خریدا اور وہیں پہنچا۔ دیکھتا ہے کہ کنواں تو وہاں ہے ہی نہیں بہت ڈھونڈا لیکن نہ ملا۔

 درحقیقت اس عرصہ میں یہ ہوا تھا کہ قوم کے دل ایمان کی طرف راغب ہوئے ، انہوں نے جاکر اپنے نبی کو کنویں سے نکالا ۔ سب کے سب ایمان لائے پھر نبی فوت ہوگئے۔

 نبی علیہ السلام بھی اپنی زندگی میں اس غلام کو تلاش کرتے رہے لیکن اس کا پتہ نہ چلا۔ پھر اس شخص کو نبی کے انتقال کے بعد اس کی نیند سے جگایاگیا۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پس یہ حبشی غلام ہے جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا۔

یہ روایت مرسل ہے اور اس میں غرابت ونکارت ہے اور شاید ادراج بھی ہے واللہ اعلم۔ اس روایت کو ان اصحاب رس پر چسپاں بھی نہیں کر سکتے اس لئے کہ یہاں مذکور ہے کہ انہین ہلاک کیا گیا ۔

 ہاں یہ ایک توجیہہ ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ تو ہلاک کردئیے گئے پھر ان کی نسلیں ٹھیک ہوگئیں اور انہیں ایمان کی توفیق ملی۔

امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ اصحاب رس وہی ہے جن کا ذکر سورۃ بروج میں ہے جنہوں نے خندقیں کھدائی تھیں۔ واللہ اعلم

وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ ۖ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيرًا (۳۹)

اور ہم نے ان کے سامنے مثالیں بیان کیں پھر ہر ایک کو بالکل ہی تباہ و برباد کر دیا ۔

پھر فرمایا کہ اور بھی ان کے درمیان بہت سی اُمتیں آئیں جو ہلاک کردی گئیں۔ ہم نے ان سب کے سامنے اپنا کلام بیان کردیا تھا ۔ دلیلیں پیش کردی تھیں۔ معجزے دکھائے تھے، عذر ختم کردئے تھے پھر سب کو غارت اور برباد کردیا۔

 جیسے فرمان ہے:

وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ (۱۷:۱۷)

نوح علیہ السلام کے بعد کی بھی بہت سی بستیاں ہم نے غارت کردیں۔

قرن کہتے ہیں امت کو۔ جیسے فرمان ہے کہ ان کے بعد ہم نے بہت سی قرن یعنی اُمتیں پیدا کیں۔ قرن کی مدت بعض کے نزدیک ایک سو بیس سال ہے کوئی کہتا ہے سو سال کوئی کہتا ہے اسی سال کوئی کہتا ہے چالیس سال اور بھی بہت سے قول ہیں ۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ایک زمانہ والے ایک قرن ہیں جب وہ سب مرجائیں تو دوسرا قرن شروع ہوتا ہے۔ جیسے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے ۔

قرن کہتے ہیں اُمت کو۔ جیسے فرمان ہے:

ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ (۲۳:۴۲)

 ان کے بعد ہم نے اور بھی بہت سی اُمتیں (قُرُوناً) پیدا کیں

قرن کی مدت بعض کے نزدیک ایک سو بیس سال ہے کوئی کہتا ہے سو سال کوئی کہتا ہے اسی سال کوئی کہتا ہے چالیس سال اور بھی بہت سے قول ہیں ۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ایک زمانہ والے ایک قرن ہیں جب وہ سب مرجائیں تو دوسرا قرن شروع ہوتا ہے۔

 جیسے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے

خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي

 سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے ۔

وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ

یہ لوگ اس بستی کے پاس سے بھی آتے جاتے ہیں جن پر بُری طرح بارش برسائی گئی

پھر فرماتا ہے کہ سدوم نامی بستی کے پاس سے تو یہ عرب برابر گزرتے رہتے ہیں ۔ یہیں لوطی آباد تھے جن پر زمیں الٹ دی گئی اور آسمان سے پتھر برسائے گئے اور بُرا مینہ ان پر برسا جو سنگلاخ پتھروں کا تھا ۔

 یہ دن رات وہاں سے آمدو رفت رکھتے پھر بھی عقلمندی کا کام نہیں لیتے۔

أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ

کیا یہ پھر بھی اسے دیکھتے نہیں؟

یہ بستیاں تو تمہاری گزرگاہیں ہیں ان کے واقعات مشہور ہیں کیا تم انہیں نہیں دیکھتے ؟

یقینا ً دیکھتے ہو لیکن عبرت کی آنکھیں ہی نہیں کہ سمجھ سکو اور غور کرو کہ اپنی بدکاریوں کی وجہ سے وہ اللہ کے عذابوں کے شکار ہوگئے۔ بس انہیں اڑادیا گیا بےنشان کردئے گئے۔ بری طرح دھجیاں بکھیر دی گئیں۔

بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا (۴۰)

حقیقت یہ ہے کہ انہیں مر کر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں ۔

 اسے سوچے تو وہ جو قیامت کا قائل ہو۔ لیکن انہیں کیا عبرت حاصل ہوگی جو قیامت ہی کے منکر ہیں۔ دوبارہ زندگی کو ہی محال جانتے ہیں۔

وَإِذَا رَأَوْكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا (۴۱)

اور تمہیں جب کبھی دیکھتے ہیں تو تم سے مسخرہ  پن کرنے لگتے ہیں کہ کیا یہی وہ شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔

کافر لوگ اللہ کے برتر و بہتر پیغمبر حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہنسی مذاق اڑاتے تھے، عیب جوئی کرتے تھے اور آپ میں نقصان بتاتے تھے۔

یہ آیت اس جیسی ہے:

وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلاَّ هُزُواً (۲۱:۳۶)

یہ منکرین تجھے جب دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں

یہی حالت ہر زمانے کے کفار کی اپنے نبیوں کے ساتھ رہی۔

 جیسے فرمان ہے:

وَلَقَدِ اسْتُهْزِىءَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ (۶:۱۰)

تجھ سے پہلے کے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا۔

إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ

 (وہ تو کہئے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی

کہنے لگے وہ تو کہئے کہ ہم جمے رہے ورنہ اس رسول نے ہمیں بہکانے میں کوئی کمی نہ رکھی تھی۔

وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا (۴۲)

اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انہیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟

 اچھا انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ ہدایت پر یہ کہاں تک تھے؟

 عذاب کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی ۔

أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (۴۳)

کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟

اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے نفس وشیطان جس چیز کو اچھا ظاہر کرتا ہے یہ بھی اسے اچھی سمجھنے لگتے ہیں۔ بھلا ان کا ذمہ دار تو کیسے ٹھہر سکتا ہے؟

أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءَ عَمَلِهِ فَرَءَاهُ حَسَناً فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَآءُ (۳۵:۸)

وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کر دیا گیا پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے پس اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے:

 جاہلیت میں عرب کی یہ حالت تھی کہ جہاں کسی سفید گول مول پتھر کو دیکھا اسی کے سامنے جھکنے اور سجدے کرنے لگے ۔ اس سے اچھا کوئی نظر پڑگیا تو اس کے سامنے جھک گئے۔ اور اول کو چھوڑ دیا ۔

أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا (۴۴)

کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔

پھر فرماتا ہے یہ تو چوپایوں سے بھی بدتر ہیں نہ انکے کان ہیں نہ دل ہیں چوپائے تو خیر قدرتاً آزاد ہیں لیکن یہ جو عبادت کے لئے پیدا کیے گئے تھے یہ ان سے بھی زیادہ بہک گئے بلکہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے۔ اور قیام حجت کے بعد رسولوں کے پہنچ چکنے کے بعد بھی اللہ کی طرف نہیں جھکتے۔ اس کی توحید اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے ۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وقت صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا ہے

وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا (۴۵)

اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا ۔

اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا۔

 جیسے فرمان ہے:

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ۔۔۔ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (۲۸:۷۱،۷۲)

 یعنی اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کرسکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لاسکتا۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا۔ ہرچیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے سائے کے پیچھے دھوپ دھوپ کے پیچھے سایہ بھی قدرت کا انتظام ہے۔

ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا (۴۶)

پھر ہم نے اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا

پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے ۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا (۴۷)

اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لئے پردہ بنایا اور نیند کو راحت بنائی اور دن کو کھڑے ہونے کا وقت ۔‏

 اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے

جیسے فرمان ہے:

وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (۹۲:۱)

قسم ہے رات کی جب کہ ڈھانپ لے ،

 اسی نے نیند کو سبب راحت وسکون بنایا کہ اس وقت حرکت موقوف ہوجاتی ہے ۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی وہ اس آرام سے اترجاتی ہے ۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہوجاتی ہے۔

پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو پھیل جاتے ہو۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو۔

جیسے فرمان ہے :

وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُواْ فِيهِ وَلِتَبتَغُواْ مِن فَضْلِهِ (۲۸:۷۳)

اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کردیا ہے کہ تم سکون وآرام بھی حاصل کرلو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو۔

وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا (۴۸)

اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں

اللہ تعالیٰ اپنی ایک اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ وہ بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے۔ ان ہواؤں میں رب نے بہت سے خواص رکھے ہیں ۔

بعض بادلوں کو پراگندہ کردیتی ہیں ،

بعض انہیں اٹھاتی ہیں ،

بعض انہیں لے چلتی ہیں

 بعض خنک اور بھیگی ہوئی چل کر لوگوں کو باران رحمت کی طرف متوجہ کر دیتی ہیں

 بعض اس سے پہلے زمین کو تیار کردیتی ہیں

 بعض بادلوں کو پانی سے بھردیتی ہیں اور انہیں بوجھل کردیتی ہیں ۔

 آسمان سے ہم پاک صاف پانی برساتے ہیں کہ وہ پاکیزگی کا آلہ بنے۔

یہاں طَهُورًا ایسا ہی ہے جیسا سحور اور وجور وغیرہ

بعض نے کہا ہے کہ یہ فعول معنی میں فاعل کے ہے یا مبالغہ کے لئے مبنی ہے یا متعدی کے لئے ۔ یہ سب اول لغت اور حکم کے اعتبار سے مشکل ہیں۔ پوری تفصیل کے لائق یہ مقام نہیں واللہ اعلم۔

حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بارش کے زمانہ میں نکلا۔ بصرے کے راستے اس وقت بڑے گندے ہو رہے تھے، آپ نے ایسے راستہ پر نماز ادا کی۔ میں نے آپ کی توجہ دلائی تو آپ نے فرمایا اسے آسمان کے پاک پانی نے پاک کردیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں۔

 حضرت سعید بن میسب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے اسے پاک اتارا ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔

 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 رسول اللہﷺسے پوچھا گیا کہ بیر بضاعہ سے وضو کرلیں؟ یہ ایک کنواں ہے جس میں گندگی اور کتوں کے گوشت پھینکے جاتے ہیں

 آپ ﷺنے فرمایا :

إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْء

پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔

 امام شافعی اور امام احمد نے اسے وارد کی ہے۔ امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ نسائی میں بھی یہ روایت ہے۔

 عبد الملک بن مروان کے دربار میں ایک مرتبہ پانی کا ذکر چھڑا تو خالد بن یزید نے کہا بعض پانی آسمان کے ہوتے ہیں بعض پانی وہ ہوتے ہیں جسے بادل سمندر سے پیتا ہے اور اسے گرج کڑک اور بجلی میٹھا کردیتی ہے لیکن اس سے زمین میں پیداوار نہیں ہوتی ہاں آسمانی پانی سے پیداوار اُگتی ہے۔

 عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

 آسمان کے پانی کے ہر قطرہ سے چارہ گھاس وغیرہ پیدا ہوتا ہے یا سمندر میں لولو اور موتی پیدا ہوتے ہیں

لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا (۴۹)

تاکہ اس کے ذریعے سے مردہ شہر کو زندہ کر دیں اور اسے ہم اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں۔‏

پھر فرمایا کہ اسی سے ہم غیر آباد بنجر خشک زمین کو زندہ کردیتے ہیں وہ لہلہانے لگتی ہے اور تروتازہ ہوجاتی ہے

 جیسے فرمان ہے:

فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ (۴۱:۳۹)

پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وہی ترو تازہ ہو کر ابھرنے لگتی ہے

علاہ مردہ زمین کے زندہ ہوجانے کے یہ پانی حیوانوں اور انسانوں کے پینے میں آتا ہے ان کے کھیتوں اور باغات کو پلایا جاتا ہے۔

 جیسے فرمان ہے:

وَهُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُواْ (۴۲:۲۸)

وہ اللہ وہی ہے جو لوگوں کی کامل نا امیدی کے بعد ان پر بارشیں برساتا ہے۔

 اور آیت میں ہے:

فَانظُرْ إِلَى ءَاثَـرِ رَحْمَةِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْىِ الاٌّرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآ (۳۰:۵۰)

اللہ کے آثار رحمت کو دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے۔

وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا (۵۰)

اور بیشک ہم نے اسے انکے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں،مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں

پھر فرماتا ہے ساتھ ہی میری قدرت کا ایک نظارہ یہ بھی دیکھو کہ ابر اٹھتا ہے گرجتا ہے لیکن جہاں میں چاہتا ہوں برستا ہے اس میں بھی حکمت وحجت ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے

کوئی سال کسی سال کم وبیش بارش کا نہیں لیکن اللہ جہاں چاہے برسائے جہاں سے چاہے پھیرے ۔

 پس چاہئے تھا کہ ان نشانات کو دیکھ کر اللہ کی ان زبردست حکمتوں کو اور قدرتوں کو سامنے رکھ کر اس بات کو بھی مان لیتے کہ بیشک ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور یہ بھی جان لیتے کہ بارشیں ہمارے گناہوں کی شامت سے بند کردی جاتی ہیں تو ہم گناہ چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں نے ایسا نہ کیا بلکہ ہماری نعمتوں پر اور ناشکری کی۔

 ایک مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کہا کہ بادل کی نسبت کچھ پوچھنا چاہتا ہوں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا بادلوں پر جو فرشتہ مقررہے وہ یہ ہے آپ ان سے جو چاہیں دریافت فرمالیں اس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تو اللہ کا حکم آتا ہے کہ فلاں فلاں شہر میں اتنے اتنے قطرے برساؤ ہم تعمیل ارشاد کرتے ہیں۔

بارش جیسی نعمت کے وقت اکثر لوگوں کے کفر کا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے یہ بارش برسائے گئے۔چنانچہ صحیح حدیث میں ہے:

 ایک مرتبہ بارش برس چکنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟

 انہوں نے کہا اللہ اور اس کو رسول خوب جاننے والا ہے۔

 آپ نے فرمایا سنو! میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ مؤمن ہوگئے اور بہت سے کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ بارش ہم پر برسی ہے وہ تو میرے ساتھ ایمان رکھنے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہوئے اور جنہوں نے کہا کہ فلاں فلاں تارے کے اثر سے پانی برسایا گیا انہوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لائے۔

وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَذِيرًا (۵۱)

اگر ہم چاہتے تو ہر ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔‏

اگر رب چاہتا تو ہر ہر بستی میں ایک ایک نبی بھیج دیتا لیکن اس نے تمام دنیا کی طرف صرف ایک ہی نبی بھیجا ہے اور پھر اسے حکم دے دیا ہے کہ قرآن کا وعظ سب کو سنا دے۔

 جیسے فرمان ہے:

لاٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ (۶:۱۹)

میں اس قرآن سے تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ہوشیار کردوں

 اور آیت میں ہے:

وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ (۱۱:۱۷)

اور ان تمام جماعتوں میں سے جو بھی اس سے کفر کرے اس کے ٹھہر نے کی جگہ جہنم ہے

 اور فرمان ہے:

لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا (۴۳:۷)

تم مکے والوں کو اور چاروں طرف کے لوگوں کو آگاہ کردو۔

 اور آیت میں ہے:

قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (۷:۱۵۸)

اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ اے تمام لوگو! میں تم سب کی طرف رسول اللہ ( صلی اللہ عیہ وسلم) بن کر آیا ہوں۔

 بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے :

میں سرخ وسیاہ سب کی طرف بھیجاگیا ہوں۔

 بخاری ومسلم کی اور حدیث میں ہے:

 تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے اور میں عام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔

فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (۵۲)

پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں

پھر فرمایا کافروں کا کہنا نہ ماننا اور اس قرآن کے ساتھ ان سے بہت بڑاجہاد کرنا۔

 جیسے ارشاد ہے:

يَأَيُّهَا النَّبِىُّ جَـهِدِ الْكُفَّـرَ وَالْمُنَـفِقِينَ (۹:۷۳)

اے نبی کافروں سے اور منافقوں سے جہاد کرتے رہو۔

وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ

اور وہی ہے جس نے سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا

اسی رب نے پانی کو دو طرح کا کردیا ہے ۔ میٹھا اور کھاری ۔

 نہروں چشموں اور کنوؤں کا پانی عموماً شیریں صاف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ بعض ٹھہرے ہوئے سمندروں کا پانی کھاری اور بدمزہ ہوتا ہے۔

اللہ کی اس نعمت پر بھی شکر کرنا چاہیے کہ اس نے میٹھے پانی کی چاروں طرف ریل پیل کردی تاکہ لوگوں کو نہانے دھونے پینے اور کھیت اور باغات کو پانی دینے میں آسانی رہے۔ مشرقوں اور مغربوں میں محیط سمندر کھاری پانی کے اس نے بہادیئے جو ٹھہرے ہوئے ہیں، ادھر ادھر بہتے نہیں لیکن موجیں مار رہے ہیں، تلاطم پیدا کر رہے ہیں، بعض میں مدوجزر ہے ، ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں تو ان میں زیادتی اور بہاؤ ہوتا ہے پھر چاند کے گھٹنے کے ساتھ وہ گھٹتا جاتا ہے یہاں تک آخر میں اپنی حالت پر آجاتا ہے پھر جہاں چاند چڑھا یہ بھی چڑھنے لگا چودہ تاریخ تک برابر چاند کیساتھ چڑھتا رہا پھر اترنا شروع ہوا ان تمام سمندروں کو اسی اللہ نے پیدا کیا ہے وہ پوری اور زبردست قدرت والا ہے۔

 کھاری اور گرم پانی گو پینے کے کام نہیں آتا لیکن ہواؤں کو صاف کردیتا ہے جس سے انسانی زندگی ہلاکت میں نہ پڑے اس میں جو جانور مرجاتے ہیں ان کی بدبو دنیا والوں کو ستانہیں سکتی اور کھاری پانی کے سبب سے اس کی ہوا صحت بخش اور اسکا مردہ پاک طیب ہوتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سمندر کے پانی کی نسبت سوال ہوا کہ کیا ہم اس سے وضو کرلیں؟

 تو آپﷺ نے فرمایا اس کا پانی پاک ہے اور اسکا مردہ حلال ہے ۔

 مالک شافعی اور اہل سنن رحمتہ اللہ علیہ نے اسے روایت کی ہے اور اسناد بھی صحیح ہے

وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا (۵۳)

ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی۔

پھر اسکی قدرت دیکھو کہ محض اپنی طاقت سے اور اپنے حکم سے ایک دوسرے سے جدا رکھا ہے نہ کھاری میٹھے میں مل سکے نہ میٹھا کھاری میں مل سکے ۔

جیسے فرمان ہے:

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ـ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاَّ يَبْغِيَانِ ـ فَبِأَىِّ ءَالاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (۵۵:۱۹،۲۱)

اس نے دونوں سمندرجاری کردئیے ہیں کہ دونوں مل جائیں اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب قائم کردیا ہے کہ حد سے نہ بڑھیں پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کے منکر ہو؟

 اور آیت میں ہے:

أَمَّن جَعَلَ الاٌّرْضَ قَرَاراً ۔۔۔ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (۲۷:۶۱)

کون ہے وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں جگہ جگہ دریا جاری کردئیے اس پر پہاڑ قائم کردئیے اور دوسمندروں کے درمیان اوٹ کردی ۔

کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بات یہ ہے کہ ان مشرکین کے اکثر لوگ بےعلم ہیں۔

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا (۵۴)

وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔‏

 اس نے انسان کو ضعیف نطفے سے پیدا کیا ہے پھر اسے ٹھیک ٹھاک اور برابر بنایاہے۔ اور اچھی پیدائش میں پیدا کرکے پھر اسے مرد یا عورت بنایا ۔ پھر اس کے لئے نسب کے رشتے دار بنادئیے پھر کچھ مدت بعد سسرالی رشتے قائم کردئیے اتنے بڑے قادر اللہ کی قدرتیں تمہارے سامنے ہیں۔

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ

یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انہیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں،

مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ بت پرستی کرتے ہیں اور بلادلیل وحجت ان کی پوجا کرتے ہیں جو نہ نفع کے مالک نہ نقصان کے ۔ صرف باپ دادوں کی دیکھا دیکھی نفسانی خواہشات سے انکی محبت وعظمت اپنے دل میں جمائے ہوئے ہیں اور اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور مخالفت رکھتے ہیں۔ شیطانی لشکر میں شامل ہوگئے ہیں اور رحمانی لشکر کے مخالف ہوگئے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ انجام کار غلبہ اللہ والوں کو ہی ہوگا۔ یہ خواہ مخواہ ان کی طرف سے سینہ سپر ہو رہے ہیں انجام کار مؤمنوں کے ہی ہاتھ رہے گا۔ دنیا اور آخرت میں ان کا پروردگار انکی امداد کرے گا۔

وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَى رَبِّهِ ظَهِيرًا (۵۵)

اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے والا۔‏

 ان کفار کو تو شیطان صرف اللہ کی مخالفت پر ابھار دیتا ہے اور کچھ نہیں۔ سچے اللہ کی عداوت انکے دل میں ڈال دیتا ہے شرک کی محبت بٹھا دیتا ہے یہ اللہ کے احکام سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (۵۶)

ہم نے تو آپ کو خوشخبری اور ڈر سنانے والا (نبی) بنا کر بھیجا ہے۔‏

پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں مؤمنوں کو خوشخبری سنانے والا اور کفار کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اطاعت گزاروں کو جنت کی بشارت دیجئے اور نافرمانوں کو جہنم کے عذابوں سے مطلع فرما دیجئے۔

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا (۵۷)

کہہ دیجئے کہ میں قرآن کے پہنچانے پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راہ پکڑنا چاہے

لوگوں میں عام طور پر اعلان کردیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا بدلہ اپنے وعظ کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا۔ میرا ارادہ سوائے اللہ کی رضامندی کی تلاش کے اور کچھ نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں سے جو راہ راست پر آنا چاہے اس کے سامنے صحیح راستہ نمایاں کردوں۔

لِمَن شَآءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ (۸۱:۲۸)

(بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے۔‏

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ۚ

اس ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں جسے کبھی موت نہیں اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے رہیں،

اے پیغمبر اپنے تمام کاموں میں اس اللہ پر بھروسہ رکھئے جو ہمیشہ اور دوام والا ہے جو موت وفوت سے پاک ہے جو اول و آخر ظاہر و باطن اور ہرچیز کا عالم ہے جو دائم باقی سرمدی ابدی حی و قیوم ہے جو ہرچیز کا مالک اور رب ہے اسکو اپنا ماویٰ وملجا ٹھہرالے۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ہر گھبراہٹ میں اسی کی طرف جھکا جائے ۔ وہ کافی ہے وہی ناصر ہے وہی مؤید ومظفر ہے ۔

 جیسے فرمان ہے:

يَـأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (۵:۶۷)

اے نبی جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا۔ آپ بےفکر رہئے اللہ آپ کو لوگوں کے برے ارادوں سے بچالے گا۔

 ایک مرسل حدیث میں ہے:

 مدینے کی کسی گلی میں حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا اے سلمان مجھے سجدہ نہ کر سجدے کے لائق وہ ہے جو ہمیشہ کی زندگی والاہے۔ جس پر کبھی موت نہیں (ابن ابی حاتم)

اور اس کی تسبیح وحمد بیان کرتا رہ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسکی تعمیل میں فرمایا کرتے تھے۔

سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِك

مراد اس سے یہ ہے کہ عبادت اللہ ہی کی کر توکل صرف اسی کی ذات پر کر جیسے فرمان ہے:

رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاً  (۷۳:۷)

مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ

 اور جگہ ہے:

فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ (۱۱:۱۲۳)

اسی کی عبادت کر اسی پر بھروسہ رکھ

اور آیت میں ہے:

قُلْ هُوَ الرَّحْمَـنُ ءَامَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا (۶۷:۲۹)

اعلان کردے کہ اسی رحمٰن کے ہم بندے ہیں اور اسی پر ہمارا کامل بھروسہ ہے۔

وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا (۵۸)

وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے۔‏

اس پر بندوں کے سب اعمال ظاہر ہیں۔ کوئی ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں کوئی پراسرار بات بھی اس سے مخفی نہیں

الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ۚ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دن میں پیدا کر دیا ہے، پھر عرش پر مستویٰ ہوا

وہی تمام چیزوں کا خالق ہے مالک وقابض ہے وہی ہرجاندار کا روزی رساں ہے اس نے اپنی قدرت وعظمت سے آسمان وزمین جیسی زبردست مخلوق کو صرف چھ دن میں پیدا کردیا پھر عرش پر قرار پکڑا ہے

 کاموں کی تدبیروں کا انجام اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور تدبیر کا مرہون ہے۔ اس کا فیصلہ اعلی ٰاور اچھا ہی ہوتا ہے

الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا (۵۹)

وہ رحمٰن ہے، آپ اس کے بارے میں کسی خبردار سے پوچھ لیں۔‏

جو ذات الہٰ کا عالم ہو اور صفات الہٰ سے آگاہ ہو اس سے اس کی شان دریافت کرلے۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات کی پوری خبرداری رکھنے والے اسکی ذات سے پورے واقف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ جو دنیا اور آخرت میں تمام اولاد آدم کے علی الاطلاق سردار تھے۔ جو ایک بات بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ جو فرماتے تھے وہ فرمودہ الہٰ ہی ہوتا تھا ۔

 آپ نے جو جو صفتیں اللہ کی بیان کی سب برحق ہیں آپ نے جو خبریں دیں سب سچ ہیں سچے امام آپ ہی ہیں تمام جھگڑوں کا فیصلہ آپ ہی کے حکم سے کیا جاسکتا ہے جو آپ کی بات بتلائے وہ سچا جو آپ کے خلاف کہے وہ مردود خواہ کوئی بھی ہو۔

اللہ کا فرمان واجب الاذعان کھلے طور سے صادر ہوچکاہے:

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ (۴:۵۹)

پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف،

 اور فرمان ہے:

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَىْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ (۴۲:۱۰)

تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو اسکا فیصلہ اللہ کی طرف ہے۔

اور فرمان ہے:

وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً (۶:۱۱۵)

تیرے رب کی باتیں جو خبروں میں سچی اور حکم وممانعت میں عدل کی ہیں پوری ہوچکیں۔

 یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے قرآن ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا (۶۰)  ۩

ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں رحمٰن ہے کیا؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے

اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کر دیا

 مشرکین اللہ کے سوا اوروں کو سجدے کرتے تھے۔ ان سے جب رحمٰن کو سجدہ کرنے کو کہاجاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم رحمٰن کو نہیں جانتے۔ وہ اس سے منکر تھے کہ اللہ کا نام رحمٰن ہے جیسے حدیبیہ والے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ کے کاتب سے فرمایا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھ۔ تو مشرکین نے کہا نہ ہم رحمٰن کو جانیں نہ رحیم کو ہمارے رواج کے مطابق باسمک اللہم لکھ۔

 اس کے جواب میں یہ آیت اتری:

قُلِ ادْعُواْ اللَّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الاٌّسْمَآءَ الْحُسْنَى (۱۷:۱۱۰)

کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں

 وہی اللہ ہے وہی رحمٰن ہے پس مشرکین کہتے تھے کہ کیا صرف تیرے کہنے سے ہم ایسا مان لیں؟

 الغرض وہ اور نفرت میں بڑھ گئے برخلاف مؤمنوں کے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو رحمٰن و رحیم ہے اسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اور اسی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔

 علماء رحمتہ اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ سورۃ فرقان کی اس آیت کے پڑھنے اور سننے والے پرسجدہ مشروع ہے جیسے کہ اسکی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا (۶۱)

بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی۔‏

اللہ تعالیٰ کی بڑائی، قدرت ، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے

 اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں۔

 پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں۔

 اور آیت میں ہے:

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَـبِيحَ (۶۷:۵)

آسمان دنیاکو ہم نے ستاروں کیساتھ مزین بنایا۔

 سِرَاج سے مراد سورج ہے جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے

 جیسے فرمان ہے:

وَجَعَلْنَا سِرَاجاً وَهَّاجاً (۷۸:۱۳)

اور ایک چمکتا ہوا روشن چراغ(سورج)پیدا کیا۔

اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا اور چاند بنایا جو منور اور روشن ہے دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے۔

 جیسے فرمان ہے:

هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَالْقَمَرَ نُوراً (۱۰:۵)

اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نوربنایا۔

 حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا :

أَلَمْ تَرَوْاْ كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَـوَتٍ طِبَاقاً ـ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُوراً وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً (۷:۱۵،۱۶)

کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا ۔

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا (۶۲)

اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنےیا شکر گزاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔‏

 دن رات ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے ۔ یہ جاتا ہے وہ آتا ہے اس کا جانا اس کا آنا ہے۔

 جیسے فرمان ہے:

وَسَخَّر لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَينَ (۱۴:۳۳)

اسی نے تمہارے لئے سورج چاند کو مسخر کر دیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں

اور جگہ ہے:

يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا (۷:۵۴)

وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے

 نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے نہ رات دن سے سبقت لے سکے۔ اسی سے اس کے بندوں کو اسکی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کرلیں۔ دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کرلیں۔

 صحیح حدیث شریف میں ہے:

 اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کرلے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن ضحیٰ کی نماز میں بڑی دیر لگادی ۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا میرا وظیفہ کچھ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا یا قضا کرلوں۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی

 خِلْفَةً کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن رات تاریک اس میں اجالا اس میں اندھیرا یہ نورانی اور وہ ظلماتی۔

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا

رحمٰن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر مصلحت کے ساتھ چلتے ہیں

اللہ کے مؤمن بندوں کے اوصاف بیان ہورہے ہیں کہ وہ زمین پر سکون و وقار کے ساتھ ، تواضع، عاجزی، مسکینی اور فروتنی سے چلتے پھرتے ہیں۔ تکبر ، تجبر، فساد اور ظلم وستم نہیں کرتے ،جیسے حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لڑکے سے فرمایا تھا :

وَلاَ تَمْشِ فِى الاٌّرْضِ مَرَحًا (۳۱:۱۸)

اور زمین میں اکڑ کر نہ چل

 مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصنع اور بناوٹ سے کمر جھکا کر بیماروں کی طرح قدم قدم چلنا، یہ تو ریاکاروں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو دکھانے کے لئے اور دنیا کی نگاہیں اپنی طرف اٹھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اسکے بالکل برعکس تھی۔ آپ کی چال ایسی تھی کہ گویا آپ کسی اونچائی سے اتر رہے ہیں اور گویا کہ زمین آپ کے لئے لپٹی جارہی ہے۔

 سلف صالحین نے بیماروں کی سی تکلف والی چال کو مکروہ فرمایا ہے۔

 فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا ہے آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو کچھ بیمار ہے؟

 اس نے کہا نہیں ۔

آپ نے فرمایا پھر یہ کیا چال ہے ؟ خبردار جو اب اس طرح چلا تو کوڑے کھائے گا۔ طاقت کے ساتھ جلدی جلدی چلا کرو۔

 پس یہاں مراد تسکین اور وقار کے ساتھ شریفانہ چال چلنا ہے نہ کہ ضعیفانہ اور مریضانہ ۔

چنانچہ ایک حدیث میں ہے:

 جب نماز کے لئے آؤ تو دوڑ کر نہ آؤ بلکہ تسکین کے ساتھ آؤ ۔ جو جماعت کے ساتھ مل جائیں ادا کرلو اور جو فوت ہوجائی پوری کرلو۔

 امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں نہایت ہی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے:

 مؤمنوں کی آنکھیں اور ان کے کان اور ان کے اعضاء جھکے ہوئے اور رکے ہوئے رہتے ہیں، یہاں تک کہ گنوار اور بےقوف لوگ انہیں بیمار سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ خوف الہٰی سے جھکے جاتے ہیں۔ ویسے پورے تندرست ہیں لیکن دل اللہ کے خوف سے پر ہیں ۔

آخرت کا علم دنیا طلبی سے اور یہاں کے ٹھاٹھ سے انہیں روکے ہوئے ہے۔ یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ انہیں دنیا میں کھانے پینے وغیرہ کا غم لگا رہتا تھا ، نہیں نہیں اللہ کی قسم دنیا کا کوئی غم ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا ۔ ہاں انہیں آخرت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا جنت کے کسی کام کو وہ بھاری نہیں سمجھتے تھے ہاں جہنم کا خوف انہیں رلاتا رہتا تھا جو شخص اللہ کے خوف دلانے سے بھی خوف نہ کھائے اس کا نفس حسرتوں کا مالک ہے جو شخص کھانے پینے کو ہی اللہ کی نعمت سمجھے وہ کم علم ہے اور عذابوں میں پھنسا ہوا ہے۔

وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (۶۳)

اور جب بےعلم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے ۔‏

پھر اپنے نیک بندوں کا اور وصف بیان فرمایا کہ جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اترتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں معاف فرمادیتے ہیں اور سوائے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے ۔

 جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جوں جوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا آپ اتنے ہی نرم ہوتے۔

 یہی وصف قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے:

وَإِذَا سَمِعُواْ اللَّغْوَ أَعْرَضُواْ عَنْهُ (۲۸:۵۵)

مؤمن لوگ بیہودہ باتیں سن کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔

ایک حسن سند سے مسند احمد میں مروی ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 تم دونوں کے درمیاں فرشتہ موجود تھا وہ تیری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا یہ نہیں بلکہ تو اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا اس پر نہیں بلکہ تجھ پر تو ہی سلامتی کو پورا حق دار ہے ۔

پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔

 امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 دوسرا ان پر ظلم کرے یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں ۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ دن اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کی کڑوی کسیلی سن لیتے ہیں رات کو جس حالت میں گزارتے ہیں اس کا بیان اگلی آیت میں ہے۔

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (۶۴)

اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔‏

فرماتا ہے کہ رات اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں بسر ہوتی ہے بہت کم سوتے ہیں صبح کو استغفار کرتے ہیں کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے امید رحمت ہوتی ہے اور راتوں کی گھڑیوں کو اللہ کی عبادتوں میں گزارتے ہیں۔

یہ اسی طرح کی آیت ہے:

كَانُواْ قَلِيلاً مِّن الَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ـ وَبِالاٌّسْحَـرِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ  (۵۱:۱۷،۱۸)

وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (۳۲:۱۶)

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ ءَانَآءَ الَّيْلِ سَـجِداً وَقَآئِماً يَحْذَرُ الاٌّخِرَةَ وَيَرْجُواْ رَحْمَةَ رَبِّهِ (۳۹:۹)

بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزراتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہواور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتاہو

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (۶۵)

اور جو یہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ۔‏

دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ عذاب جہنم ہم سے دور رکھ وہ تو دائمی اور لازمی عذاب ہے ۔

 جیسے شاعر نے اللہ کی شان بتائی ہے :

ان یعذیکن غراما وان یعط جزیلا فانہ لایبالی

اس کے عذاب بھی سخت اور لازمی اور ابدی اور اسکی عطا اور انعام بھی بیحد ان گنت اور بےحساب

 جو چیز آئے اور ہٹ جائے وہ غَرَام نہیں۔ غَرَام وہ ہے جو آنے کے بعد ہٹنے اور دور ہونے کا نام ہی نہ لے۔

یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ عذاب جہنم تاوان ہے جو کافران نعمت سے لیا جائے گا۔

وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْاوَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ ۔ (۲۳:۶۰)

اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں

إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (۶۶)

بیشک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے‏

انہوں نے اللہ کے دیئے کو اس کی راہ میں نہیں لگایا لہذا آج اسکا تاوان یہ بھرنا پڑے گا جہنم کو پُرکردیں۔ وہ بری جگہ ہے بد منظر ہے تکلیف دہ ہے مصیبت ناک ہے ۔

حضرت مالک بن حارث کا بیان ہے :

جب دوزخی دوزخ میں پھینک دیا جائے گا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی مدت تک وہ نیچے ہی نیچے چلاجائے گا اسکے بعد جہنم کے ایک دروازے پر اسے روک دیا جائے گا اور کہا جائے گا تم بہت پیاسے ہو رہے ہو گے لو ایک جام تو نوش کرلو۔ یہ کہہ کر انہیں کالے ناگ اور زہریلے بچھوؤں کے زہر کا ایک پیالہ پلایا جائے گا جس کے پیتے ہی ان کی کھالیں الگ جھڑ جائیں گی بال الگ ہوجائیں گے رگیں الگ جاپڑیں گی ہڈیاں جداجدا ہوجائیں گی ۔

حضرت عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 جہنم میں گڑھے ہیں کنویں ہیں ان میں سانپ ہیں جیسے بختی اونٹ اور بچھو ہیں جیسے خچر جب کسی جہنمی کو جہنم میں ڈالا جاتا ہے تو وہ وہاں سے نکل کر آتے اور انہیں لپٹ جاتے ہیں، ہونٹوں پر سروں پر اور جسم کے اور حصوں پر ڈستے اور ڈنک مارتے ہیں جس سے ان کے سارے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے اور پھکنے لگتے ہیں سارے سر کی کھال جھلس کر گر پڑتی ہے پھر وہ سانپ چلے جاتے ہیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جہنمی ایک ہزار سال تک جہنم میں چلاتا رہے گا یاحنان یامنان تب اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا جاؤ دیکھو یہ کیا کہہ رہا ہے۔حضرت جبرائیل علیہ السلام آکر دیکھیں گے کہ سب جہنمی برے حال سر جھکائے آہ وزاری کررہے ہیں۔ جاکر جناب باری تعالیٰ میں خبر کریں گے

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر جاؤ فلاں فلاں جگہ یہ شخص ہے جاؤ اور اسے لے آؤ۔

 یہ بحکم الہٰی جائیں گے اور اسے لاکر سامنے کھڑا کردیں گے۔

 اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تو کیسی جگہ ہے ؟

یہ جواب دے گا کہ اے اللہ ٹھہرنے کی بھی بری جگہ اور سونے بیٹھے کی بھی بدترین جگہ ہے ۔

 اللہ فرمائے گا اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس لے جاؤ تو یہ گڑگڑائے گا عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الرحمین اللہ ! جب کہ تو نے مجھے اس سے باہر نکالا تو تیری ذات ایسی نہیں کہ پھر مجھے اسمیں داخل کردے مجھے تو تجھ سے رحم وکرم کی ہی امید ہے۔ اے اللہ بس اب مجھ پر کرم فرما۔ جب تو نے مجھے جہنم سے نکالا تو میں خوش ہوگیا تھا کہ اب تو اس میں نہ ڈالے گا۔

 اس مالک ورحمن ورحیم اللہ کو بھی رحم آجائے گا اور فرمائے گا اچھا میرے بندے کو چھوڑ دو۔

وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (۶۷)

اور جو خرچ کرتے وقت بھی اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں

پھر ان کا ایک اور وصف بیان ہوتا ہے کہ وہ نہ مسرف ہیں نہ بخیل ہیں نہ بےجا خرچ کرتے ہیں نہ ضروری اخراجات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں نہ ہی ایسا کرتے ہیں کہ اپنے والوں کو اہل وعیال کو بھی تنگ رکھیں۔ نہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہو سب لٹادیں۔ اسی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے

 فرماتا ہے:

وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ (۱۷:۲۹)

نہ تو اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ اور نہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دے۔

 مسند احمد میں فرمان رسول ہے:

 اپنی گزران میں میانہ روی کرنا انسان کی سمجھ داری کی دلیل ہے۔

 اور حدیث میں ہے:

 جو افراط تفریط سے بچتا ہے وہ کبھی فقیر ومحتاج نہیں ہوتا۔

بزار کی حدیث میں ہے:

 امیری میں فقیری میں عبادت میں درمیانہ روی بڑی ہی بہتر اور احسن چیز ہے۔

 امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کی راہ میں کتنا ہی چاہو دو اس کا نام اسراف نہیں ہے ۔

حضرت ایاس بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جہاں کہیں تو حکم اللہ سے آگے بڑھ جائے وہی اسراف ہے۔

اور بزرگوں کا قول ہے اللہ کی نافرمانی کا خرچ اسراف کہلاتا ہے۔

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ

اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے

وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ

اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟

 آپﷺ نے فرمایا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔

 اس نے کہا اس سے کم؟

 فرمایا تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ تو اسے کھلائے گا کہاں سے؟

 پوچھا اس کے بعد ؟

 فرمایا تیرا اپنے پڑوس کی کسی عورت سے بدکاری کرنا۔

 پس اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔

یہ حدیث بخاری ومسلم وغیرہ میں موجود ہے۔

 اور روایت میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے لگے تنہا تھے میں بھی ساتھ ہولیا آپ ایک اونچی جگہ بیٹھ گئے میں آپ سے نیچے بیٹھ گیا اور اس تنہائی کے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ سوالات کئے جو اوپر مذکور ہوئے۔

حجۃ الوداع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

چار گناہوں سے بچو،

-  اللہ کے ساتھ شرک ،

- کسی حرمت والے نفس کا قتل،

-  زناکاری

-  اور چوری۔

مسند احمد میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا زنا کی بابت تم کیا کہتے ہو؟

انہوں نے جواب دیا وہ حرام ہے اور وہ قیامت تک حرام ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں سنو! انسان کا اپنی پڑوس کی عورت سے زنا کرنا دوسری دس عورتوں سے زنا سے بھی بدتر ہے۔

پھر آپ نے فرمایا چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟

 انہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ حرام ہے اللہ اور اس کے رسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں ۔

 آپ ﷺنے فرمایا سنو دس جگہ کی چوری بھی اتنی بری نہیں جیسی پڑوس کی ایک جگہ کی چوری۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

 شرک کے بعد اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں کہ انسان اپنا نطفہ اس رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں۔

یہ بھی مروی ہے کہ بعض مشرکین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا حضرت آپ کی دعوت اچھی ہے سچی ہے لیکن ہم نے تو شرک بھی کیا ہے قتل بھی کیا ہے، زناکاریاں بھی کی ہیں اور یہ سب کام بکثرت کیے ہیں تو فرمائیے ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

اس پر یہ آیت اتری اور آیت قُلْ يعِبَادِىَ الَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ (۳۹:۵۳)بھی نازل ہوئی۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

- اللہ تمہیں اس سے منع فرماتا ہے کہ تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت کرو

- اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنے کتے کو تو پالو اور اپنے بچے کو قتل کر ڈالو۔

- اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنی پڑوسن سے بدکاری کرو۔

وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (۶۸)

اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔‏

أَثَام جہنم کی ایک وادی کا نام ہے یہی وہ وادی ہے جن میں زانیوں کو عذاب دیا جائے گا۔

 اس کے معنی عذاب وسزا کے بھی آتے ہیں۔

 حضرت لقمان حکیم کی نصیحتوں میں ہیں کہ اے بچے زناکاری سے بچنا اس کے شروع میں ڈر خوف ہے اور اس کا انجام ندامت وحسرت ہے۔

یہ بھی مروی ہے کہ غی اور أَثَام دوزخ کے دو کنوئیں ہیں اللہ ہمیں محفوظ رکھیں۔

 أَثَام کے معنی بدلے کے بھی مروی ہے اور یہی ظاہر آیت کے مشابہ بھی ہے۔ اور گویا اسکے بعد کی آیت اسی بدلے اور سزاکی تفسیر ہے۔

يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (۶۹)

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔‏

کہ اسے با بار عذاب کیا جائے گا اور سختی کی جائیگی اور ذلت کے دائمی عذابوں میں پھنس جائے گا۔ اللہم احفظنا

إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا

سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں،

ان کاموں کے کرنے والے کی سزا تو بیان ہوچکی ہے ، مگر اس سزا سے وہ بچ جائیں گے جو دنیا ہی میں توبہ کرلیں اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے

 جو آیت سورۃ نساء میں ہے وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً (۴:۹۳)، وہ اس کے خلاف نہیں گو وہ مدنی آیت ہے لیکن وہ مطلق ہے تو وہ محمول کی جائے گی ان قاتلوں پر جو اپنے اس فعل سے توبہ نہ کریں اور یہ آیت ان قاتلوں کے بارے میں ہے جو توبہ کریں پھر مشرکوں کی بخشش نہ ہونے کا بیان فرمایا ہے

اور صحیح احادیث سے بھی قاتل کی توبہ کی مقبولیت ثابت ہے۔ جیسے اس شخص کا قصہ جس نے ایک سو قتل کیے تھے پھر توبہ کی اور اس کی توبہ قبول ہوئی۔

فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (۷۰)

ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔‏

 وہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دیتا ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :

 یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کئے تھے اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان گناہ کے کاموں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عنایت فرمائی۔

 اس آیت کی تلاوت کے وقت آپ ایک عربی شعر پڑتھے تھے جس میں احوال کے تغیر کا بیان ہے جیسے گرمی سے ٹھنڈک۔

عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں :

یہ دنیا کا ذکر ہے کہ انسان کی بری خصلت کو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے۔

 سعید بن جبیر کا بیان ہے :

 بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق انہیں ملی ۔ مؤمنوں سے لڑنے کے بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے۔ مشرکہ عورتوں سے نکاح کے بجائے مؤمنہ عورتوں سے نکاح کئے۔

 حسن بصری فرماتے ہیں:

 گناہ کے بدلے ثواب کے عمل کرنے لگے۔ شرک کے بدلے توحید واخلاص ملا۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی۔ کفر کے بدلے اسلام ملا۔

 ایک معنی تو اس آیت کے یہ ہوئے دوسرے معنی یہ ہیں کہ خلوص کے ساتھ ان کی جو توبہ تھی اس سے خوش ہو کر اللہ عزوجل نے ان کے گناہوں کو نیکوں میں بدل دیا ۔ یہ اس لیے کہ توبہ کے بعد جب کبھی انہیں اپنے گزشتہ گناہ یاد آتے تھے انہیں ندامت ہوتی تھی یہ غمگین ہوجاتے تھے شرمانے لگتے تھے اور استغفار کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے گناہ اطاعت سے بدل گئے گو وہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ کے طور پر لکھے ہوئے تھے لیکن قیامت کے دن وہ سب نیکیاں بن جائیں گے جیسے کہ احادیث وآثار میں ثابت ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر جہنم سے نکلے گا اور سب سے آخر جنت میں جائے گا یہ ایک وہ شخص ہوگا جسے اللہ کے سامنے لایا جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسکے بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے باز پرس کرو

چنانچہ اس سے سوال ہوگا کہ فلاں فلاں دن تو نے فلاں کام کیا تھا ؟

 فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا ؟

یہ ایک کا بھی انکار نہ کرسکے گا اقرار کرے گا۔

 آخر میں کہا جائے گا تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی

 اب تو اس کی باچھیں کھل جائیں گی اور کہے گا اے میرے پروردگار میں نے اور بھی بہت سے اعمال کئے تھے جنہیں یہاں پا نہیں رہا۔

یہ فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ کے مسوڑے دیکھے جانے لگے (مسلم)

آپﷺ فرماتے ہیں:

 جب انسان سوتا ہے تو فرشتہ شیطان سے کہتا ہے مجھے اپنا صحیفہ جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہیں دے وہ دیتا ہے تو ایک نیکی کے بدلے دس دس گناہ وہ اس کے صحیفے سے مٹا دیتا ہے اور انہیں نیکیاں لکھ دیتا ہے پس تم میں سے جو بھی سونے کا ارادہ کریں وہ چونتیس دفعہ اللہ اکبر اور تینتیس دفعہ الحمد للہ اور تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہے یہ مل کر سو مرتبہ ہوگئے۔ (ابن ابی دنیا)

حضرت سلمان فرماتے ہیں:

 انسان کو قیامت کے دن نامہ اعمال دیا جائے گا وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اوپر ہی اس کی برائیاں درج ہونگی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ ناامید سا ہونے لگے گا۔ اسی وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی ۔ اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو گناہوں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے آئیں گے جن کے پاس بہت کچھ گناہ ہونگے

 پوچھا گیا کہ وہ کون سے لوگ ہوں گے آپ نے فرمایا کہ وہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دے گا۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 جنتی جنت میں چار قسم کے جائیں گے ۔

- متقین یعنی پرہیزگاری کرنے والے

-  پھر شاکرین یعنی شکر الہٰی کرنے والے

- پھر خائفین یعنی خوف الہٰی رکھنے والے

-  پھر اصحاب یمین دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والے۔

 پوچھا گیا کہ انہیں اصحاب یمین کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب دیا اس لئے کہ انہوں نے نیکیاں بدیاں سب کی تھیں ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ ملے اپنی بدیوں کا ایک ایک حرف پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ اے اللہ ہماری نیکیاں کہاں ہیں ؟ یہاں تو سب بدیاں لکھی ہوئی ہیں

 اس وقت اللہ تعالیٰ ان بدیوں کو مٹا دے گا اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دے گا انہیں پڑھ کر خوش ہو کر اب تو یہ دوسروں سے کہیں گے کہ آؤ ہمارے اعمال نامے دیکھو جنتیوں میں اکثر یہی لوگ ہونگے ۔

 امام علی بن حسین زین العابدین فرماتے ہیں برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنا آخرت میں ہوگا۔

 مکحول فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخشے گا اور انہیں نیکیوں میں بدل دے گا۔

حضرت مکحول نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی:

 ایک بہت بوڑھے ضعیف آدمی جن کی بھویں آنکھوں پر آگئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ایسا شخص ہوں جس نے کوئی غداری کوئی گناہ کوئی بدکاری باقی نہیں چھوڑی ۔ میرے گناہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر تمام انسانوں پر تقسیم ہوجائیں تو سب کے سب غضب الہٰی میں گرفتار ہوجائیں کیا میری بخشش کی بھی کوئی صورت ہے ؟

کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟

 آپﷺ نے فرمایا کہ تم مسلمان ہوجاؤ

  اس نے کلمہ پڑھ لیا اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہا

 اس نے پھر پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے چھوٹے بڑے گناہ سب صاف ہوجائیں گے؟

 آپ نے فرمایا ہاں ہاں سب کے سب

پھر تو وہ شخص خوشی خوشی واپس جانے لگا اور تکبیر وتہلیل پکارتا ہوا لوٹ گیا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن جریر)

حضرت ابوفروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سارے گناہ کئے ہوں جو جی میں آیا ہو پورا کیا ، کیا ایسے شخص کی توبہ بھی قبول ہوسکتی ہے ؟

 آپ ﷺنے فرمایا تم مسلمان ہوگئے ہو؟

 اس نے کہاجی ہاں

 آپ ﷺنے فرمایا اب نیکیاں کرو برائیوں سے بچو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی نیکوں میں بدل دے گا

 اس نے کہا میری غداریاں اور بدکاریاں بھی؟

 آپ نے فرمایا ہاں اب وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چلاگیا۔ (طبرانی )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 ایک عورت  ان کے پاس آئی اور دریافت فرمایا کہ مجھ سے بدکاری ہوگئی اس سے بچہ ہوگیا میں نے اسے مار ڈالا اب کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟

 آپ نے فرمایا کہ اب نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوسکتی ہے نہ اللہ کے ہاں تیری بزرگی ہوسکتی ہے تیرے لئے توبہ ہرگز نہیں

وہ روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔

 صبح کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺنے فرمایا تو نے اس سے بہت ہی بری بات کہی کیا تو ان آیتوں کو قرآن میں نہیں پڑھتا آیت وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ سے إِلَّا مَنْ تَابَ تک ۔

 مجھے بڑا ہی رنج ہوا اور میں لوٹ کر اس عورت کے پاس پہنچا۔ اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں

 وہ خوش ہوگئی اور اسی وقت سجدے میں گر پڑی اور کہنے لگی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت پیدا کردی (طبرانی)

اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ کا پہلا فتویٰ سن کر وہ حسرت افسوس کے ساتھ یہ کہتی ہوئی واپس چلی کہ ہائے ہائے یہ اچھی صورت کیا جہنم کے لے بنائی گئی تھی؟

 اس میں یہ بھی ہے:

 جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی غلطی کا علم ہوا و اس عورت کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے تمام مدینہ اور ایک ایک گلی چھان ماری لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ اتفاق سے رات کو وہ عوت پھر آئی تب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں صحیح مسئلہ بتلایا۔

 اس میں یہ بھی ہے:

 اس نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت بنائی اور میری توبہ کو قبول فرمایا یہ کہہ کر اس کے ساتھ جو لونڈی تھی اسے آزاد کردیا اس لونڈی کی ایک لڑکی بھی تھی اور سچے دل سے توبہ کر لی ۔

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا (۷۱)

اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے

پھر فرماتا ہے اور پنے عام لطف وکرم فضل ورحم کی خبر دیتا ہے کہ جو بھی اللہ کی طرف جھکے اور اپنی سیاہ کاریوں پر نادم ہو کر توبہ کرے اللہ اس کی سنتا ہے قبول فرماتا ہے اور اسے دیتا ہے۔

 جیسے ارشاد ہے:

وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَّحِيماً (۴:۱۱۰)

جو برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر توبہ استغفار کرے وہ اللہ کو غفور ورحیم پائے گا۔

 اور جگہ ارشاد ہے:

أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ (۹:۱۰۴)

کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول فرمانے والا ہے۔

 اور جگہ فرمایا:

قُلْ يعِبَادِىَ الَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُواْ مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ (۳۹:۵۳)

میرے ان بندوں سے جو گنہگار ہیں کہہ دیجئے کہ وہ میری رحمت سے نا امید نہ ہوں۔

 یعنی توبہ کرنے والا محروم نہیں۔

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (۷۲)

اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں

عباد الرحمٰن کے اور نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں:

-  وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یعنی شرک نہیں کرتے ،

-  بت پرستی سے بچتے ہیں،

-  جھوٹ نہیں بولتے

- فسق وفجور نہیں کرتے

-  کفر سے الگ رہتے ہیں

- لغو اور باطل کاموں سے پرہیز کرتے ہیں

-  گانا نہیں سنتے

-  مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے

- خیانت نہیں کرتے

- خیانت نہیں کرتے

-  بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے

-  شرابیں نہیں پیتے شراب خانوں میں نہیں جاتے اس کی رغبت نہیں کرتے

حدیث میں بھی ہے:

 سچے مؤمن کو چاہئے کہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو

 اور یہ بھی مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔

 بخاری ومسلم میں ہے ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتادوں؟

 تین دفعہ یہی فرمایا

صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا

اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے الگ ہو کر فرمانے لگے

 سنو اور جھوٹی بات کہنا سنو اور جھوٹی گواہی دینا

 اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب خاموش ہوجاتے ۔

 زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے۔

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (۷۳)

اور جب ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے

اللہ کے ان بزرگ بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتیں سن کر ان کے دل ہل جاتے ہیں ان کے ایمان اور توکل بڑھ جاتے ہیں بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الہٰی کا اثر نہیں ہوتا وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہیں رہتے ۔ نہ اپنا کفر چھوڑتے ہیں نہ سرکشی ، طغیانی اور جہالت وضلالت سے باز آتے ہیں ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار دل والوں کی گندگی ابھر آتی ہے پس کافر اللہ کی آیتوں سے بہرے اور اندھے ہوجاتے ہیں ۔ ان مؤمنوں کی حالت ان کے برعکس ہے نہ یہ حق سے بہرے ہیں نہ حق سے اندھے ہیں ۔ سنتے ہیں سمجھتے ہیں نفع حاصل کرتے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن بہرا پن نہیں چھوڑتے ۔

حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسروں کو سجدے میں پاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کس آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا ہے؟ تو کیا وہ بھی ان کیساتھ سجدہ کرلے؟

تو آپ نے یہی آیت پڑھی یعنی سجدہ نہ کرے اس لیے کہ اس نے نہ سجدے کی آیت پڑھی نہ سنی نہ سوچی

 تو مؤمن کا کوئی کام اندھا دھند نہ کرنا چاہئے جب تک اسکے سامنے کسی چیز کی حقیقت نہ ہو اسے شامل نہ ہونا چائیے۔

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ

اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما  

پھر ان بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرمانبردار عبادت گزار موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں۔

 اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال نہیں بلکہ نیکی اور خوش خلقی کی ہے۔

 مسلمان کی سچی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو دوست احباب کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے۔ وہ ظالم نہ ہو بدکار نہ ہو۔ سچے مسلمان ہوں۔

حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے ان کی آنکھوں کو مبارک باد ہو جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ کاش کہ ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور تمہاری طرح فیض صحبت حاصل کرتے۔

 اس پر حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناراض ہوئے تو نفیر کہتے ہیں مجھے تعجب معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی برائی نہیں پھر یہ خفا کیوں ہو رہے ہیں؟

 اتنے میں حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس چیز کی آرزو کرتے ہیں کہ جو قدرت نے انہیں نہیں دی۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ اگر اس وقت ہوتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ واللہ وہ لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے جنہوں نے نہ آپ کی تصدیق نہ تابعداری کی اور اوندھے منہ جہنم میں گئے۔ تم اللہ کا یہ احسان نہیں مانتے کہ اللہ نے تمہیں اسلام میں اور مسلمان گھروں میں پیدا کیا ۔ پیدا ہوتے ہی تمہارے کانوں میں اللہ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پڑی اور ان بلاؤں سے تم بچالئے گئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئی تھیں۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے جس وقت دنیا کی اندھیر نگری اپنی انتہا پر تھی۔ اس وقت دنیا والوں کے نزدیک بت پرستی سے بہتر کوئی مذہب نہ تھا۔

 آپ فرقان لے کر آئے حق وباطل میں تمیز کی ۔ باپ بیٹے جدا ہوگئے ۔ مسلمان اپنے باپ دادوں بیٹوں پوتوں دوست احباب کو کفر پر دیکھتے ان سے انہیں کوئی محبت پیار نہیں ہوتا تھا بلکہ کڑہتے تھے کہ یہ جہنمی ہیں اسی لئے انکی دعائیں ہوتی تھیں ۔

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (۷۴)

اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا  

 اس دعا کا آخر یہ ہے کہ

- ہمیں لوگوں کا رہبر بنا دے کہ ہم انہیں نیکی کی تعلیم دیں ،

- لوگ بھلائی میں ہماری اقتدا کریں۔

- ہماری اولاد ہماری راہ چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور ان کی نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں۔

رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں:

انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں مگر تین چیزیں ۔

-  نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے

-  یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے

- یا صدقہ جاریہ

أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا (۷۵)

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و بالا خانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا۔‏

مؤمنوں کی پاک صفتیں ان کے بھلے اقوال عمدہ افعال بیان فرما کر ان کا بدلہ بیان ہو رہا ہے کہ انہیں جنت ملے گی ۔ جو بلند تر جگہ ہے اس وجہ سے یہ ان اوصاف پر جمے رہے وہاں ان کی عزت ہوگی اکرام ہوگا ادب تعظیم ہوگی۔ احترام اور توقیر ہوگی۔ ان کے لئے سلامتی ہے ان پر سلامتی ہے ہر ایک دروازہ جنت سے فرشتے حاضر خدمت ہوتے ہیں اور سلام کرکے کہتے ہیں کہ تمہارا انجام بہتر ہوگیا کیونکہ تم صبر کرنے والے تھے۔

خَالِدِينَ فِيهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (۷۶)

اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔‏

یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے نہ نکلیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں نہ راحتیں فناہوں یہ سعید بخت ہیں جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے ان کے رہنے سہنے راحت وآرام کرنے کی جگہ بڑی سہانی پاک صاف طیب وطاہر دیکھنے میں خوش منظر رہنے میں آرام دہ ۔

قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ

کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا التجا (پکارنا) نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا

اللہ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت اور تسبیح وتہلیل کے لئے پیدا کیا ہے اگر مخلوق یہ نہ بجا لائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہایت حقیر ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ کسی گنتی میں ہی نہیں۔

فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (۷۷)

تم تو جھٹلا چکے اب عنقریب اس کی سزا تمہیں چمٹ جانے والی ہوگی ۔

 کافرو! تم نے جھٹلایا اب تم نہ سمجھو کہ بس معاملہ ختم ہوگیا۔ نہیں اس کا وبال دنیا اور آخرت میں تمہارے ساتھ ساتھ ہے تم برباد ہوگے اور عذاب اللہ تم سے چمٹے ہوئے ہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی بدر کے دن کفار کی ہزیمت اور شکست تھی

 جیسے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی ہے قیامت کے دن کی سزا ابھی باقی ہے

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter