Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah IbrahimAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
الر ۚ الر حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے ۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا ۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ ءامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَآؤُهُمُ الطَّـغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَـتِ ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں (۲:۲۵۷) تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں هُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ وہ (اللہ) ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے (۵۷:۹) بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ان کے پروردگار کے حکم سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔ (۱) اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پالیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے ۔ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (۲) اس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے۔ اللہ کی دوسری قرأت اللہ بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ میں ۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے ۔ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لئے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں ۔ (۳) یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی ۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید؟ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے یہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی انتہائی درجے کی مہربانی ہے کہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ سمجھنے سمجھانے کی آسانی رہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر نبی رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس کی اُمت کی زبان میں ہی بھیجا ہے ۔ چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا رہا اس لئے اسے اس کی قومی زبان میں ہی کتاب اللہ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی ۔ آنحضرت محمد بن عبداللہ علیہ صلوات اللہ کی رسالت عام تھی ساری دنیا کی سب قوموں کی طرف آپ رسول اللہ تھے جیسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مجھے پانچ چیزیں خصوصیت سے دی گئی ہیں جو کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں مہینے بھر کی راہ کی دوری پر صرف رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے ، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاکیزہ قرار دی گئی ہے ، مجھ پر مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہیں تھے ، مجھے شفاعت سونپی گئی ہے ہر نبی صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتا تھا اور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول اللہ بنایا گیا ہوں ۔ قرآن یہی فرماتا ہے : قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہے (۷:۱۵۸) فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے راہ دکھا دے، وہ غلبہ اور حکمت والا ہے ۔ (۴) حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے پھر ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے، اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ وہ غالب ہے ، اس کا ہر کام حکمت سے ہے ، گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں ۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ (یاد رکھو جبکہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دیکر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا جیسے ہم نے تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور تجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے کہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ۔ اسی طرح ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا بہت سی نشانیاں بھی دی تھیں جن کا بیان آیت وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ (۱۷:۱۰۱) میں ہے ۔انہیں بھی یہی حکم تھا کہ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ ۔ انہیں اللہ کے احسناتات یاد دلا کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لئے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلویٰ اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ۔ مسند کی مرفوع حدیث میں ایام اللہ کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے ۔ لیکن ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ میں یہ روایت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے موقوفاً بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر شکر کرنے والے کے لئے ۔ (۵) ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا ، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا ،اس میں ہر صابر و شاکر کے لئے عبرت ہے ۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے ۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مؤمن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی فرمان الہٰی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں ۔ مثلاً قوم فرعون سے انہیں نجات دلوانا يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے، جو انہیں بےوقعت کر کے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے یہاں تک کہ تمام نرینہ اولاد قتل کر ڈالتے تھے صرف لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے ۔ یہ نعمت اتنی بڑی ہے کہ تم اس کی شکر گزاری کی طاقت نہیں رکھتے ۔ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی (۶) یہ مطلب بھی اس جملے کا ہو سکتا ہے کہ فرعونی ایذاء دراصل تمہاری ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں ، واللہ اعلم ۔ جیسے فرمان ہے: وَبَلَوْنَـهُمْ بِالْحَسَنَـتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ہم نے انہیں بھلائی برائی سے آزما لیا کہ وہ لوٹ آئیں ۔ (۷:۱۶۸) جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگاہ کر دیا ۔ اور یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی اپنی عزت و جلالت اور کبریائی کی ۔ جیسے آیت وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ (۷:۱۶۷) میں ۔ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا پس اللہ کا حتمی وعدہ ہوا اور اس کا اعلان بھی کہ شکر گزاروں کی نعمتیں اور بڑھ جائیں گی وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے (۷) اور ناشکروں کی نعمتوں کے منکروں اور ان کے چھپانے والوں کی نعمتیں اور چھن جائیں گی اور انہیں سخت سزا ہو گی ۔ حدیث میں ہے بندہ بوجہ گناہ کے اللہ کی روزی سے محروم ہو جاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک سائل گزرا ، آپ نے اسے ایک کھجور دی ۔ وہ بڑا بگڑا اور کھجور نہ لی ۔ پھر دوسرا سائل گزرا آپ نے اسے بھی وہی کھجور دی اس نے اسے بخوشی لے لیا اور کہنے لگا کہ اللہ کے رسول کا عطیہ ہے ۔ آپﷺ نے اسے بیس درہم دینے کا حکم فرمایا ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے لونڈی سے فرمایا اسے لے جاؤ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چالیس درہم ہیں وہ اسے دلوا دو ۔ وَقَالَ مُوسَى إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ موسیٰؑ نے کہا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔ (۸) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ تم سب اور روئے زمین کی تمام مخلوق بھی ناشکری کرنے لگے تو اللہ کا کیا بگاڑے گی؟ وہ بندوں سے اور ان کی شکر گزاری سے بےنیاز اور بےپرواہ ہے ۔ تعریفوں کا مالک اور قابل وہی ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے: إِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ عَنكُمْ تم اگر کفر کرو تو اللہ تم سے غنی ہے (۳۹:۷) اور آیت میں ہے: فَكَفَرُواْ وَتَوَلَّواْ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ وَاللَّهُ غَنِىٌّ حَمِيدٌ پس انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا اور اللہ نے بےنیازی کی اور اللہ تو ہے بےنیاز سب خوبیوں والا۔ (۶۵:۶) یعنی انہوں نے کفر کیا منہ موڑ لیا تو اللہ نے ان سے مطلقاً بےنیازی برتی ۔ صحیح مسلم شریف میں قدسی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو اگر تمہارے اول آخر انسان جن سب مل کر بہترین تقوے والے دل کے شخص جیسے بن جائیں تو اس سے میرا ملک ذرا سا بھی بڑھ نہ جائے گا اور اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بدترین دل کے بن جائیں تو اس وجہ سے میرے ملک میں سے ایک ذرہ بہی نہ کم ہو گا ۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان جن سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو بھی میرے پاس کے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہو ۔ پس ہمارا رب پاک ہے بلند ہے غنی ہے اور حمید ہے ۔ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ یعنی قوم نوح کی اور عاد و ثمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باقی وعظ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی وہ نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو تم سے پہلے کے لوگوں پر رسولوں کے جھٹلانے کی وجہ سے کیسے سخت عذاب آئے ؟ اور کس طرح وہ غارت کئے گئے ؟ یہ قول تو ہے امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا لیکن ذرا غور طلب ہے ۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وعظ تو ختم ہو چکا اب یہ نیا بیان قرآن ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عادیوں اور ثمودیوں کے واقعات تورات شریف میں تھے اور یہ دونوں واقعات بھی تورات میں تھے واللہ اعلم ۔ کہا گیا ہے کہ عادیوں اور ثمودیوں کے واقعات تورات شریف میں تھے اور یہ دونوں واقعات بھی تورات میں تھے واللہ اعلم ۔ فی الجملہ ان لوگوں کے اور ان جیسے اور بھی بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیںؒ نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سی اُمتیں ایسی بھی گزری ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ معد بن عدنان کے بعد کا نسب نامہ صحیح طور پر کوئی نہیں جانتا ۔ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ رسولوں کے منہ بند کرنے لگے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھنے لگے کہ محض جھوٹ ہے جو رسول کہتے ہیں۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جواب سے لاچار ہو کر انگلیاں منہ پر رکھ لیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے منہ سے انہیں جھٹلانے لگے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں پر فِي معنی میں بے کے ہو جیسے بعض عرب کہتے ہیں ادخلک اللہ بالجنة یعنی فی الجنة شعر میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے ۔ اور بقول مجاہد اس کے بعد کا جملہ اسی کی تفسیر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے مارے غصے کے اپنی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال لیں ۔ چنانچہ اور آیت میں منافقین کے بارے میں ہے: عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں۔ (۳:۱۱۹) وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دیکر بھیجا گیا ہے ہم اسکے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے (۹) یہ لوگ خلوت میں تمہاری جلن سے اپنی انگلیاں چباتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی ہے کہ کلام اللہ سن کر تعجب سے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دیتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ ہم تو تمہاری رسالت کے منکر ہیں ہم تمہیں سچا نہیں جانتے بلکہ سخت شبہ میں ہیں ۔ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے رسولوں کی اور اور ان کی قوم کے کافروں کی بات چیت بیان ہو رہی ہے ۔ قوم نے اللہ کی عبادت میں شک شبہ کا اظہار کیا اس پر رسولوں نے کہا اللہ کے بارے میں شک ؟ یعنی اس کے وجود میں شک کیسا ؟ فطرت اس کی شاہد عدل ہے انسان کی بنیاد میں اس کا اقرار موجود ہے ۔ عقل سلیم اس کے ماننے پر مجبور ہے ۔ اچھا اگر دلیل کے بغیر اطمینان نہیں تو دیکھ لو کہ یہ آسمان و زمین کیسے پیدا ہو گئے ؟ موجود کے لئے موجد کا ہونا ضروری ہے ۔ انہیں بغیر نمونہ پیدا کرنے والا وہی وحدہ لا شریک لہ ہے اس عالم کی تخلیق تو مطیع و مخلوق ہونا بالکل ظاہر ہے اس سے کیا اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس کا صانع اس کا خالق ہے اور وہی اللہ تعالیٰ ہے جو ہر چیز کا خالق مالک اور معبود بر حق ہے ۔یا کیا تمہیں اس کی الوہیت اور اس کی وحدانیت میں شک ہے ؟ جب تمام موجودات کا خالق اور موجود وہی ہے تو پھر عبادت میں تنہا وہی کیوں نہ ہو؟ چونکہ اکثر اُمتیں خالق کے وجود کے قائل تھیں پھر اوروں کی عبادت انہیں واسطہ اور وسیلہ جان کر اللہ سے نزدیک کرنے والے اور نفع دینے والے سمجھ کر کرتی تھیں يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، اس لئے رسول اللہ انہیں ان کی عبادتوں سے یہ سمجھا کر روکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف بلا رہا ہے کہ آخرت میں تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو وقت مقرر ہے اس تک تمہیں اچھائی سے پہنچا دے ہر ایک فضیلت والے کو وہ اس کی فضیلت عنایت فرمائے گا ۔ وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ( اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اس کی طرف متوجہ رہو، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔ ۱۱:۳) قَالُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے رہے ہیں اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو ۔ (۱۰) اب اُمتوں نے پہلے مقام کو تسلیم کرنے کے بعد جواب دیا کہ تمہاری رسالت ہم کیسے مان لیں تم میں انسانیت تو ہم جیسی ہی ہے اچھا اگر سچے ہو تو زبردست معجزہ پیش کرو جو انسانی طاقت سے باہر ہو ؟ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے اس کے جواب میں پیغمبران رب نے فرمایا کہ یہ تو بالکل مسلم ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں ۔ لیکن رسالت و نبوت اللہ کا عطیہ ہے وہ جسے چاہے دے ۔ انسانیت رسالت کے منافی نہیں ۔ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمْ بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزہ تمہیں لا دکھائیں اور جو چیز تم ہمارے ہاتھوں سے دیکھنا چاہتے ہو اس کی نسبت بھی سن لو کہ وہ ہمارے بس کی بات نہیں ہاں ہم اللہ سے طلب کریں گے اگر ہماری دعا مقبول ہوئی تو بیشک ہم دکھا دیں گے وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اور ایمانداروں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے۔ (۱۱) مؤمنوں کو تو ہر کام میں اللہ ہی پر توکل ہے ۔ وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں۔ اور خصوصیت کے ساتھ ہمیں اس پر زیادہ توکل اور بھروسہ ہے اس لئے بھی کہ اس نے تمام راہوں میں سے بہترین راہ دکھائی ۔ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے توکل کرنے والوں کو یہی لائق ہے اللہ ہی پر توکل کریں ۔ (۱۲) تم جتنا چاہو دکھ دو لیکن انشاء اللہ دامن توکل ہمارے ہاتھ سے چھوٹنے کا نہیں ۔ متوکلین کے گروہ کے لئے اللہ کا توکل کافی وافی ہے ۔ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ، کافر جب تنگ ہوئے ، کوئی حجت باقی نہ رہی تو نبیوں کو دھمکانے لگے اور دیس نکالنے سے ڈرانے لگے ۔ قوم شعیب نے بھی اپنے نبی اور مؤمنوں سے یہی کہا تھا : لَنُخْرِجَنَّكَ يـشُعَيْبُ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَآ اے شعیب! ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے (۷:۸۸) لوطیوں نے بھی یہی کہا تھا : أَخْرِجُواْ ءَالَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ آل لوط کو اپنے شہر سے نکال دو۔ (۲۷:۵۶) اسی طرح قریشیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِن كَادُواْ لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الاٌّرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لاَّ يَلْبَثُونَ خِلَـفَكَ إِلاَّ قَلِيلاً یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہرتے (۱۷:۷۶) اور فرمایا: وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَـكِرِينَ جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ۔ (۸:۳۰) وہ اگرچہ مکر کرتے تھے لیکن اللہ بھی ان کے داؤ میں تھا ۔ اپنے نبی کو سلامتی کے ساتھ مکے سے لے گیا مدینے والوں کو آپ کا انصار و مددگار بنا دیا وہ آپ کے لشکر میں شامل ہو کر آپ کے جھنڈے تلے کافروں سے لڑے اور بتدریج اللہ تعالیٰ نے آپ کو ترقیاں دیں یہاں تک کہ بالآخر آپ نے مکہ بھی فتح کر لیا اب تو دشمنان دین کے منصوبے خاک میں مل گئے ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ان کی آرزویں پامال ہو گئیں ۔ اللہ کا دین لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہو گیا ، جماعتوں کی جماعتیں دین میں داخل ہونے لگیں ، تمام روئے زمین کے ادیان پر دین اسلام چھا گیا ، کلمہ حق بلند و بالا ہو گیا اور تھوڑے سے زمانے میں مشرق سے مغرب تک اشاعت اسلام ہو گئی فالحمد للہ ۔ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کر دیں گے (۱۳) یہاں فرمان ہے کہ ادھر کفار نے نبیوں کو دھمکایا ادھر اللہ نے ان سے سچا وعدہ فرمایا کہ یہی ہلاک ہوں گے اور زمین کے مالک تم بنو گے ۔ جیسے فرمان ہے: وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ـ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَـ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ۔ پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ فتح مند اور کامیاب ہونگے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا (۳۷:۱۷۱،۱۷۳) اور آیت میں ہے: كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے، اللہ قوت والا اور عزت والا ہے (۵۸:۲۱) اور آیت میں ارشاد ہے: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِى الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں (۲۱:۱۰۵) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا : اسْتَعِينُواْ بِاللَّهِ وَاصْبِرُواْ إِنَّ الأَرْضَ للَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَـقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ تم اللہ سے مدد طلب کرو، صبر و برداشت کرو، زمین اللہ ہی کی ہے ۔ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وارث بنائے انجام کار پرہیز گاروں کا ہی ہے ۔ (۷:۱۶۸) اور جگہ ارشاد ہے: وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ ۔۔۔ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُواْ يَعْرِشُونَ (۷:۱۳۷) اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کر دیا ۔ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۚ اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے نبیوں سے فرما دیا گیا کہ یہ زمین تمہارے قبضے میں آئے گی ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میرے سزا دینے کے وعدہ سے خوف زدہ رہیں۔ (۱۴) یہ وعدے ان کے لئے ہیں جو قیامت کے دن میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہیں اور میرے ڈراوے اور عذاب سے خوف کھاتے رہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے: فَأَمَّا مَن طَغَى ـ وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ـ ... فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی)(ہوگی) اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی۔(اس کا) ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ (۷۹:۳۷،۴۱) ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں (۵۵:۴۶) وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے۔ (۱۵) رسولوں نے اپنے رب سے مدد و فتح اور فیصلہ طلب کیا یا یہ کہ ان کی قوم نے اسے طلب کیا جیسے قریش مکہ نے کہا تھا : اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔ (۸:۳۲) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ادھر سے کفار کا مطالبہ ہوا ادھر سے رسولوں نے بھی اللہ سے دعا کی جیسے بدر والے دن ہوا تھا کہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگ رہے تھے دوسری جانب سرداران کفر بھی کہہ رہے تھے کہ الہٰی آج سچے کو غا لب کر یہی ہوا بھی ۔ مشرکین سے کلام اللہ میں اور جگہ فرمایا گیا ہے: إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ وَإِن تَنتَهُواْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وہ فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا اور اگر باز آجاؤ تو یہ تمہارے لئے نہایت خوب ہے (۸:۱۹) نقصان یافتہ وہ ہیں جو متکبر ہوں اپنے تئیں کچھ گنتے ہوں حق سے عناد رکھتے ہوں قیامت کے روز فرمان ہو گا کہ ہر ایک کافر سر کش اور بھلائی سے روکنے والے کو جہنم میں داخل کرو جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی پوجا کرتا تھا اسے سخت عذاب میں لے جاؤ ۔ حدیث شریف میں ہے: قیامت کے دن جہنم کو لایا جائے گا وہ تمام مخلوق کو ندا کر کے کہے گی کہ میں ہر ایک سر کش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں۔ اس وقت ان بد لوگوں کا کیا ہی برا حال ہو گا جب کہ انبیاء تک اللہ کے سا منے گڑگڑا رہے ہوں گے۔ مِنْ وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ (۱۶) وَرَائِهِ یہاں پر معنی امامہ (سامنے) کے ہیں غرض سامنے سے جہنم اس کی تاک میں ہو گی جس میں جا کر پھر نکلنا نا ممکن ہو گا قیامت کے دن تک تو صبح شام وہ پیش ہوتی رہی اب وہی ٹھکانا بن گئی پھر و ہاں اسکے لئے پانی کے بدلے آگ جیسا پیپ ہے اور حد سے زیادہ ٹھنڈا اور بدبو دار وہ پانی ہے جو جہنمیوں کے زخموں سے رستا ہے ۔ جیسے فرمایا: هَـذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ یہ ہے، پس اسے چکھیں، گرم پانی اور پیپ (۳۸:۵۶) پس ایک گرمی میں حد سے گزرا ہوا ایک سردی میں حد سے گزرا ہوا ۔ صَدِيدٍ کہتے ہیں پیپ اور خون کو جو دوزخیوں کے گوشت سے اور ان کی کھالوں سے بہا ہوا ہو گا ۔ اسی کو طینة الخبال بھی کہا جاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے جب اس کے پاس لایا جائے گا تو اسے سخت تکلیف ہو گی منہ کے پاس پہنچتے ہی سارے چہرے کی کھال جھلس کر اس میں گر پڑے گی ۔ ایک گھونٹ لیتے ہی پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ اللہ کا فرمان ہے: وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ وہ کھولتا ہوا گرم پانی پلائے جائیں گے جو ان کی آنتیں کاٹ دے گا ۔ (۴۷:۱۵) اور فرمان ہے: وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی گرم دھار جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ (دوزخ) ہے۔ (۱۸:۲۹) يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۖ جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ پھر بھی وہ اپنے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ موت آتی دکھائی دے گی لیکن وہ مرنے والا نہیں جبرا ًگھونٹ گھونٹ کر کے اتارے گا ، فرشتے لو ہے کے گرز مار مار کر پلائیں گے ، بدمزگی ، بدبو، حرارت ، گرمی کی تیزی یا سردی کی تیزی کی وجہ سے گلے سے اترنا محال ہو گا ۔ بدن میں ، اعضا میں ، جوڑ جوڑ میں وہ درد اور تکلیف ہو گی کہ موت کا مزہ آئے لیکن موت آنے کی نہیں ۔ رگ رگ پر عذاب ہے لیکن جان نہیں نکلتی ۔ ایک ایک رواں ناقابل برداشت مصیبت میں جکڑا ہوا ہے لیکن روح بدن سے جدا نہیں ہو سکتی ۔ آگے پیچھے دائیں بائیں سے موت آ رہی ہے لیکن آتی نہیں ۔طرح طرح کے عذاب دوزخ کی آگ گھیرے ہوئے ہے مگر موت بلائے سے بھی نہیں آتی ۔ نہ موت آئے نہ عذاب جائے ۔ ہر سزا ایسی ہے کہ موت کے لئے کافی سے زیادہ ہے لیکن وہاں تو موت کو موت آ گئی ہے تاکہ سزا دوام والی ہوتی رہے ۔ وَمِنْ وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ اور پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے۔ (۱۷) ان تمام باتوں کے ساتھ پھر سخت تر مصیبت ناک الم افزا عذاب اور ہیں ۔ جیسے زقوم کے درخت کے بارے میں فرمایا : إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِى أَصْلِ الْجَحِيمِ ... ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لإِلَى الْجَحِيمِ بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں ۔ (جہنمی) اسی درخت میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے ۔ پھر اس پر گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا (۳۷:۶۴،۶۷) الغرض کبھی زقوم کھانے کا کبھی آگ میں جلنے کا کبھی صدید پینے کا عذاب انہیں ہوتا رہے گا۔ اللہ کی پناہ ۔ فرمان رب عالیشان ہے: هَـذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِى يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ ـ يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ ءَانٍ یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے۔ اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے (۵۵:۴۳،۴۴) اور آیت میں ہے: إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ ... إِنَّ هَـذَا مَا كُنتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ زقوم کا درخت گنہگاروں کی غذا ہے جو پگھلتے ہوئے تانبے جیسا ہوگا ، پیٹ میں جا کر ابلے گا اور ایسے جوش مارے گا جیسے گرم پانی کھول رہا ہو ۔ اسے پکڑو اور اسے بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر گرم پانی کے تریڑے کا عذاب بہاؤ مزہ چکھ تو اپنے خیال میں بڑا عزیز تھا اور اکرام والا تھا یہی جس سے تم ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے ۔ (۴۴:۴۳:۵۰) سورہ واقعہ میں فرمایا : وَأَصْحَـبُ الشِّمَالِ مَآ أَصْحَـبُ الشِّمَالِ ـ فِى سَمُومٍ وَحَمِيمٍ ـ وَظِلٍّ مِّن يَحْمُومٍ ـ لاَّ بَارِدٍ وَلاَ كَرِيمٍ اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے گرم ہوا اور گرم پانی میں (ہوں گے) اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں۔ جو ٹھنڈا ہے نہ فرحت بخش (۵۶:۴۱،۴۴) دوسری آیت میں ہے: هَـذَا وَإِنَّ لِلطَّـغِينَ لَشَرَّ مَـَابٍ ... وَءَاخَرُ مِن شَكْلِهِ أَزْوَجٌ یہ تو ہوئی جزا، (یاد رکھو کہ) سرکشوں کے لئے بڑی بری جگہ ہے۔ دوزخ ہے جس میں وہ جائیں گے (آہ) کیا ہی برا بچھونا ہے۔ (۳۸:۵۵،۵۸) یہ ہے، پس اسے چکھیں، گرم پانی اور پیپ اس کے علاوہ اور طرح طرح کے عذاب۔ اور بھی قسم قسم کے عذاب ہوں گے جو دوزخیوں کو بھگتنے پڑیں گے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّـمٍ لِّلْعَبِيدِ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہو گا نہ کہ اللہ کا ظلم ۔ (۴۱:۴۶) پس ایک گرمی میں حد سے گزرا ہوا ایک سردی میں حد سے گزرا ہوا ۔ مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی چلے اور اڑا کر لے جائے کافر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادتوں کے خوگر تھے پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے جن کے اعمال ایسے تھے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت ہو جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت ضرورت کے وقت خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے ۔ پس فرمان ہے کہ ان کافروں کی یعنی ان کے اعمال کی مثال قیامت کے دن جب کہ یہ پورے محتاج ہوں گے سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ابھی ہماری بھلائیوں کا بدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ، مایوس رہ جائیں گے ، حسرت سے منہ تکنے لگیں گے جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ کو اڑا کر ذرہ ذرہ ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہو گئے وَقَدِمْنَآ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَآءً مَّنثُوراً اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا (۲۵:۲۳) جیسے اس بکھری ہوئی اور اڑی ہوئی راکھ کا جمع کرنا محال ایسے ہی ان کے بےسود اعمال کا بدلہ محال ۔ وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی هَبَآءً مَّنثُوراً ہو گئے ۔ اور فرمایا: مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِى هِـذِهِ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ ... وَلَـكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ یہ کفار جو خرچ کریں اس کی مثال یہ ہے ایک تند ہوا چلی جس میں پالا تھا جو ظالموں کی کھیتی پر پڑا اور اسے تہس نہس کر دیا اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (۳:۱۱۷) اور آیت میں ہے: يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَـتِكُم ... وَاللَّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَـفِرِينَ اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔ (۲:۲۶۴) لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ۚ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ جو بھی انہوں نے کیا اس میں کسی چیز پر قادر نہ ہونگے، یہی ان کی گمراہی ہے (۱۸) یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اللہ تعالیٰ کافروں کی رہبری نہیں فرماتا ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ دور کی گمراہی ہے ان کی کوشش ان کے کام بےپایہ اور بےثبات ہیں سخت حاجت مندی کے وقت ثواب گم پائیں گے یہی انتہائی بد قسمتی ہے ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ قیامت کے دن کی دوبارہ پیدائش پر میں قادر ہوں ۔ جب میں نے آسمان زمین کی پیدائش کر دی تو انسان کی پیدائش مجھ پر کیا مشکل ہے ۔ آسمان کی اونچائی کشادگی بڑائی پھر اس میں ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے ستارے ۔ اور أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ ... بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا، وہ یقیناً مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے، کیوں نہ ہو؟ وہ یقیناً ہرچیز پر قادر ہے (۴۶:۳۳) سورہ یٰسین میں فرمایا : أَوَلَمْ يَرَ الإِنسَـنُ أَنَّا خَلَقْنَـهُ مِن نُّطْفَةٍ ... فَسُبْحَـنَ الَّذِى بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔ اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان کی گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟ آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے اول مرتبہ پیدا کیا ہے جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے۔ وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ہم جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں، بیشک قادر ہے۔ اور وہی پیدا کرنے والا دانا (بینا) ہے۔ وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔ (۳۶:۷۷،۸۳) إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے۔ (۱۹) اس کے قبضے میں ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق تمہارے قائم مقام یہاں آباد کر دے وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ اللہ پر یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں ۔ (۲۰) اس پر یہ کام بھی بھاری نہیں تم اس کے امر کا خلاف کرو گے تو یہی ہو گا جیسے فرمایا: الْفُقَرَآءُ وَإِن تَتَوَلَّوْاْ يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُونُواْ اگر تم منہ موڑ لو گے تو وہ تمہارے بدلے اور قوم لائے گا جو تمہاری طرح کی نہ ہوگی ۔ (۴۷:۳۸) اور آیت میں ہے: يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِى اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ اے ایمان والو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو لائے گا جو اس کی پسندیدہ ہو گی اور اس سے محبت رکھنے والی ہو گی ۔ (۵:۵۴) اور جگہ ہے: إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِـاخَرِينَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى ذلِكَ قَدِيراً ا گر وہ چاہے تمہیں برباد کر دے اور دوسرے لائے اللہ اس پر قادر ہے۔ (۴:۱۳۳) وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا سب کے سب اللہ کے سامنے ربرو کھڑے ہونگے اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے، فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کر سکنے والے ہو؟ صاف چٹیل میدان میں ساری مخلوق نیک و بد اللہ کے سامنے موجود ہوگی ۔ اس وقت جو لوگ ماتحت تھے ان سے کہیں گے جو سردار اور بڑے تھے ۔ اور جو انہیں اللہ کی عبادت اور رسول کی اطاعت سے روکتے تھے ۔ کہ ہم تمہارے تابع فرمان تھے جو حکم تم دیتے تھے ہم بجا لاتے تھے ۔ جو تم فرماتے تھے ہم مانتے تھے پس جیسے کہ تم ہم سے وعدے کرتے تھے اور ہمیں تمنائیں دلاتے تھے کیا آج اللہ کے عذابوں کو ہم سے ہٹاؤ گے ؟ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اس وقت یہ پیشوا اور سردار کہیں گے کہ ہم تو خود راہ راست پر نہ تھے تمہاری رہبری کیسے کرتے ؟ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَحِيصٍ اب تو ہم پر بےقراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہیں ہمارے لئے کوئی چھٹکارا نہیں۔ (۲۱) ہم پر اللہ کا کلمہ سبقت کر گیا ، عذاب کے مستحق ہم سب ہو گئے اب نہ ہائے وائے اور نہ بےقراری نفع دے اور نہ صبر و برداشت ۔ عذاب کے بچاؤ کی تمام صورتیں ناپید ہیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں: دوزخی لوگ کہیں گے کہ دیکھو یہ مسلمان اللہ کے سامنے روتے دھوتے تھے اس وجہ سے وہ جنت میں پہنچے ، آؤ ہم بھی اللہ کے سامنے روئیں گڑگڑائیں ۔ خوب روئیں پیٹیں گے ، چیخیں چلائیں گے لیکن بےسود رہے گا تو کہیں گے جنتیوں کے جنت میں جانے کی ایک وجہ صبر کرنا تھی۔ آؤ ہم بھی خاموش اور صبر اختیار کریں اب ایسا صبر کریں گے کہ ایسا صبر کبھی دیکھا نہیں گیا لیکن یہ بھی لا حاصل رہے گا اس وقت کہیں گے ہائے صبر بھی بےسود اور بےقراری بھی بےنفع ۔ ظاہر تو یہ ہے کہ پیشواؤں اور تابعداروں کی یہ بات چیت جہنم میں جانے کے بعد ہو گی جیسے آیت میں ہے: وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ... إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ اور جب کہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ تکبر والوں سے (جن کے یہ تابع تھے) کہیں گے ہم تو تمہارے پیرو تھے تو کیا اب تم ہم سے اس آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو؟ وہ بڑے لوگ جواب دیں گے ہم تو سبھی اس آگ میں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔ (۴۰:۴۷:۴۸) اور آیت میں ہے: قَالَ ادْخُلُواْ فِى أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم ... قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ۔ جس وقت بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب اس میں سب جمع ہوجائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا تھا سو ان کو دوزخ کا عذاب دوگنا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب ہی کا دوگنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں۔ (۷:۳۸،۳۹) اور آیت میں ہے کہ وہ کہیں گے: وَقَالُواْ رَبَّنَآ إِنَّآ أَطَعْنَا سَادَتَنَا ... وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا ۔ پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما (۳۳:۶۷،۶۸) یہ لوگ محشر میں بھی جھگڑیں گے فرمان ہے: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَن نُّؤْمِنَ بِهَـذَا الْقُرْءَانِ ... إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ اور کافروں نے کہا ہم ہرگز نہ تو اس قرآن کو مانیں نہ اس سے پہلے کی کتابوں کو! اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھتا جبکہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام لگا رہے ہونگے کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومنوں میں سے ہوتے ۔ یہ بڑے لوگ ان کمزورں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم (خود) ہی مجرم تھے ۔ (اس کے جواب میں) یہ کمزور لوگ ان متکبروں سے کہیں گے، (نہیں نہیں) بلکہ دن رات مکرو فریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا ہمارا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل میں پشیمان ہو رہے ہونگے اور کافروں کی گردنوں میں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ (۳۴:۳۱،۳۳) وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ جب اور کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا شیطان کہے گا کہ اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے انکے خلاف کیا اللہ تعالیٰ جب بندوں کی قضا سے فارغ ہو گا ، مؤمن جنت میں کافر دوزخ میں پہنچ جائیں گے ، اس وقت ابلیس ملعون جہنم میں کھڑا ہو کر ان سے کہے گا کہ اللہ کے وعدے سچے اور بر حق تھے ، رسولوں کی تابعداری میں ہی نجات اور سلامتی تھی ، میرے وعدے تو دھوکے تھے میں تو تمہیں غلط راہ پر ڈالنے کے لئے سبز باغ دکھایا کرتا تھا ۔ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمْ الشَّيْطَـنُ إِلاَّ غُرُوراً وہ ان سے زبانی وعدے کرتا رہیگا، اور سبز باغ دکھاتا رہے گا (مگر یاد رکھو!) شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں وہ سراسر فریب کاریاں ہیں۔ (۴:۱۲۰) وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، میرا کوئی زور غلبہ تم پر نہ تھا تم تو خواہ مخواہ میری ایک آواز پر دوڑ پڑے ۔ میں نے کہا تم نے مان لیا رسولوں کی سچے وعدے ان کی بادلیل آواز ان کی کامل حجت والی دلیلیں تم نے ترک کر دیں ۔ ان کی مخالفت اور میری موافقت کی ۔ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ ۖ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ ۖ پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے جس کا نتیجہ آج اپنی آنکھوں سے تم نے دیکھ لیا یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہےمجھے ملامت نہ کرنا بلکہ اپنے نفس کو ہی الزام دینا ، گناہ تمہارا اپنا ہے خود تم نے دلیلیں چھوڑیں تم نے میری بات مانی آج میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا نہ تمہیں بچا سکوں نہ نفع پہنچا سکوں ۔ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ (۲۲) میں تو تمہارے شرک کے باعث تمہارا منکر ہوں میں صاف کہتا ہوں کہ میں شریک اللہ نہیں جیسے فرمان الہٰی ہے: وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ ... وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کر جائیں گے۔ (۴۶:۵،۶) اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے ؟ جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو قبول نہ کر سکیں بلکہ اس کے پکارنے سے محض غافل ہوں اور محشر کے دن ان کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر بن جائیں ۔ اور آیت میں ہے: كَلاَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَـدَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ وہ تو پوجا سے منکر ہوجائیں گے، الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ (۱۹:۸۲) یہ ظالم لوگ ہیں اس لئے کہ حق سے منہ پھیر لیا باطل کے پیرو کار بن گئے ایسے ظالموں کے لئے المناک عذاب ہیں ۔ پس ظاہر ہے کہ ابلیس کا یہ کلام دوزخیوں سے دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہوگا۔ تاکہ وہ حسرت و افسوس میں اور بڑھ جائیں ۔ لیکن ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اگلوں پچھلوں کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان میں فیصلے کر دے گا فیصلوں کے وقت عام گھبراہٹ ہو گی ۔ مؤمن کہیں گے ہم میں فیصلے ہو رہے ہیں ، اب ہماری سفارش کے لئے کون کھڑا ہو گا ؟ پس حضرت آدم حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پاس جائیں گے ۔ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے ۔ مجھے کھڑا ہونے کی اللہ تبارک و تعالیٰ اجازت دے گا اسی وقت میری مجلس سے پاکیزہ تیز اور عمد خوشبو پھیلے گی کہ اس سے بہتر اور عمدہ خوشبو کھبی کسی نے نہ سونگھی ہو گی میں چل کر رب العالمین کے پاس آؤں گا میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پیر کے انگوٹھے تک نورانی ہو جائے گا ۔ اب میں سفارش کروں گا اور جناب حق تبارک و تعالیٰ قبول فرمائے گا یہ دیکھ کر کافر لوگ کہیں گے کہ چلو بھئی ہم بھی کسی کو سفارشی بنا کر لے چلیں اور اس کے لئے ہمارے پاس سوائے ابلیس کے اور کون ہے ؟ اسی نے ہم کو بہکایا تھا ۔ چلو اسی سے عرض کریں ۔آئیں گے ابلیس سے کہیں گے کہ مؤمنوں نے تو شفیع پالیا اب تو ہماری طرف سے شفیع بن جا ۔ اس لئے کہ ہمیں گمراہ بھی تو نے ہی کیا ہے یہ سن کر یہ ملعون کھڑا ہو گا ۔ اس کی مجلس سے ایسی گندی بد بو پھیلے گی کہ اس سے پہلے کسی ناک میں ایسی بد بو نہ پہنچی ہو ۔ پھر وہ کہے گا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب جہنمی اپنا صبر اور بےصبری یکساں بتلائیں گے اس وقت ابلیس ان سے یہ کہے کا اس وقت وہ اپنی جانوں سے بھی بےزار ہو جائیں گے ندا آئے گی کہ تمہاری اس وقت کی اس بےزاری سے بھی زیادہ بےزاری اللہ کی تم سے اس وقت تھی جب کہ تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے۔ عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام لوگوں کے سامنے اس دن دو شخص خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوں گے ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا یہ آیتیں (۵:۱۱۶،۱۱۹)تک اسی بیان میں ہیں أَءَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ سے قَالَ اللَّهُ هَـذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّـدِقِينَ صِدْقُهُمْ اور ابلیس کھڑا ہو کر کہے گا: وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، (۲۲) وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے وہ ان جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جنکے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں انہیں ہمیشگی ہوگی اپنے رب کے حکم سے برے لوگوں کے انجام کا اور ان کے درد و غم اور ابلیس کے جواب کا ذکر فرما کر اب نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ایمان دار نیک اعمال لوگ جنتوں میں جائیں گے جہاں چاہیں جائیں آئیں چلیں پھریں کھائیں پیئیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہیں۔ یہاں نہ آزردہ ہوں نہ دل بھرے نہ طبیعت بھرے نہ مارے جائیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں۔ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ جہاں ان کا خیر مقدم سلام سے ہوگا (۲۳) وہاں ان کا تحفہ سلام ہی سلام ہو گا جیسے فرمان ہے: حَتَّى إِذَا جَآءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَبُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَـمٌ عَلَيْكُـمْ جب جنتی جنت میں جائیں گے اور اس کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے اور وہاں کے داروغہ انہیں سلام علیک کہیں گے (۳۹:۷۳) اور آیت میں ہے: وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍسَلَـمٌ عَلَيْكُمُ ہر دروازے سے ان کے پاس فرشتے آئیں گے اور سلام علیکم کہیں گے (۱۳:۲۳،۲۴) اور آیت میں ہے: وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَـماً وہاں تحیۃ اور سلام ہی سنائے جائیں گے ۔ (۲۵:۷۵) اور آیت میں ہے: دَعْوَهُمْ فِيهَا سُبْحَـنَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ وَءَاخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ ان کی پکار وہاں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہو گا اور ان کا تحفہ وہاں سلام ہوگا ۔ اور ان کی آخر آواز اللہ رب العالمین کی حمد ہو گی ۔ (۱۰:۱۰) أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔ (۲۴) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے ۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مؤمن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے ۔ یعنی مؤمن کے دل میں لا الہ الا اللہ جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں کہ مراد اس سے مؤمن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام ۔ مؤمن مثل کھجور کے درخت کے ہے ۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا ۔ تو آپ نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے: ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو آپ نے فرمایا مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ۔ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے ۔ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں حضرت ابوبکرؓ ہیں حضرت عمر ؓہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ کا ہو رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ درخت کھجور کا ہے ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا ۔ تو آپ نے فرمایا پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے: میں مدینہ شریف تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ یہ سوال آپ نے اس وقت کیا ۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا ۔ میں اس لئے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے: کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے ۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ کہ یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں فرمایا دعا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ والحمد للہ ہ ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے ۔ ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال ۔ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مؤمن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مؤمن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ، اچھے ، بہت اور عمدہ ۔ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (۲۵) اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لئے مثالیں واضح فرماتا ہے۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ اور ناپاک بات کی مثال ایسے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں ۔ (۲۶) پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی۔ جس کی کوئی اصل نہیں ،جو مضبوط نہیں،اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی ۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں ۔ ایک موقوف روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعا بھی آئی ہے ۔ اس درخت کی جڑ زمین کی تہہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا ۔ اسی طرح سے کفر بےجڑ اور بےشاخ ہے ، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو ۔ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ہاں نا انصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہےاور اللہ جو چاہے کر گزرے۔ (۲۷) صحیح بخاری شریف میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان سے جب اس کی قبر میں سوال ہوتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول اللہ ہیں یہی مراد اس آیت کی ہے ۔ مسند میں ہے: ایک انصاری کے جنازے میں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے قبرستان پہنچے ابھی تک قبر تیار نہ تھی ۔ آپ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے آس پاس ایسے بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں جو تنکا تھا اس سے آپ زمین پر لکیریں نکال رہے تھے جو سر اٹھا کر دو تین مرتبہ فرمایا: عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہو بندہ جب دنیا کی آخرت اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے نورانی چہرے والے فرشتے آتے ہیں ۔ گویا کہ ان کے چہرے والے فرشتے آتے ہیں ۔ گویا کہ ان کے چہرے سورج جیسے ہیں ان کے ساتھ جنتی کفن اور جنتی خوشبو ہوتی ہے اس کے پاس جہاں تک اس کی نگاہ کام کرے وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرھانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے پاک روح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اس کی رضامندی کی طرف چل وہ اس آسانی سے نکل آتی ہے جیسے کسی مشک سے پانی کا قطرہ ٹپ آیا ہو ایک آنکھ جھپکے کے برابر کی دیر ہی میں وہ فرشتے اسے ان کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے فوراً لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں ۔ خود اس روح میں سے بھی مشک سے بھی عمدہ خوشبو نکلتی ہے کہ روئے زمین پر ایسی عمدہ خوشبو نہ سونگھی گئی ہو ۔ وہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ۔ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ یہ پاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کا جو بہترین نام دنیا میں مشہور تھا ۔ وہ بتلاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام بھی ۔ آسمان دنیا تک پہنچ کر دروازے کھلواتے ہیں آسمان کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اور وہاں کے فرشتے اسے دوسرے آسمان تک اور دوسرے آسمان کے تیسرے آسمان تک ۔ اسی طرح ساتویں آسمان پر وہ پہنچتا ہے ۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے میرے بندے کو کتاب علیین میں لکھ لو اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو۔ میں نے اسی سے اسے پیدا کیا ہے اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔ پس اسکی روح اسی کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اسکے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے اٹھا بٹھاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالیٰ ۔ پھر پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ اسلام ۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ وہ شخص کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ یہ کہتا ہے وہ رسول اللہ تھے ۔ فرشتے پوچھتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے میں نے کتاب اللہ پڑھی اس پر ایمان لایا اسے سچا مانا ۔ اسی وقت آسمان سے ایک منادی ندا دیتا ہے ۔ کہ میرا بندہ سچا ہے ۔ اس کے لئے جنتی فرش بچھا دو اور جنتی لباس پہنا دو اور جنت کی طرف کا دروازہ کھول دو پس جنت کی روح پرور خوشبو دار ہواؤں کی لپٹیں اسے آنے لگتی ہیں اس کی قبر بقدر درازگی نظر کے وسیع کر دی جاتی ہے ۔ اس کے پاس ایک شخص خوبصورت نورانی چہرے والا عمدہ کپڑوں والا اچھی خوشبو والا آتا ہے اور اس سے کہتا ہے ۔ آپ خوش ہو جائیں اسی دن کا وعدہ آپ دئے جاتے تھے ۔ یہ اس سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں ؟ آپ کے چہرے سے بھلائی ہی بھلائی نظر آتی ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے ۔ کہ تیرا نیک عمل ہوں ۔ اس وقت مسلمان آرزو کرتا ہے کہ یا اللہ قیامت جلد قائم ہو جائے تو میں اپنے اہل و عیال اور ملک و مال کی طرف لوٹ جاؤں اور کافر بندہ جب دنیا کی آخری ساعت اور آخرت کی اول ساعت میں ہوتا ہے اس کے پاس سیاہ چہرے کے آسمانی فرشتے آتے ہیں اور ان کے ساتھ جہنمی ٹاٹ ہوتا ہے جہاں تک نگاہ پہنچے وہاں تک وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر حضرت ملک الموت علیہ السلام آ کر اس کے سرہانے بیٹھ کر فرماتے ہیں اے خبیث روح اللہ تعالیٰ کے غضب و قہر کی طرف چل ۔ اسکی روح جسم میں چھپتی پھرتی ہے جسے بہت سختی کے ساتھ نکالا جاتا ہے ۔ اسی وقت ایک آنکھ جھپکنے جتنی دیر میں اسے فرشتے ان کے ہاتھوں سے لے لیتے ہیں اور اس جہنمی بورے میں لپیٹ لیتے ہیں اس میں سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ روئے زمین پر اس سے زیادہ بدبو نہیں پائی گئی اب یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھتے ہیں ۔ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے ؟ وہ اس کا بدترین نام جو دنیا میں تھا بتلاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام بھی ۔ آسمان دنیا تک پہنچ کر دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں لیکن کھولا نہیں جاتا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس آیت تلاوت فرمائی: لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَبُ السَّمَآءِ وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِى سَمِّ الْخِيَاطِ نہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھلیں نہ وہ جنت میں جا سکیں یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ گزر جائے ۔ (۷:۴۰) اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ اس کو کتاب سجین میں لکھ لو جو سب سے نیچے کی زمین میں ہے پس اس کو روح وہیں پھینک دی جاتی ہے ۔ پھر آپ نے نےاس آیت کی تلاوت فرمائی: وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فِى مَكَانٍ سَحِيقٍ اللہ کے ساتھ جو شرک کرے گویا کہ وہ آسمان سے گر پڑا ۔ یا تو اسے پرند اچک لے جائیں گے یا آندھی اسے کسی دور کے گڑھے میں پھینک مارے گی ۔ (۲۲:۳۱) پھر اس کی روح اسی جسم میں لوٹائی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے پہنچتے ہیں جو اسے اٹھا بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ ہائے ہائے مجھے نہیں معلوم ۔ پھر پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے اس کا بھی علم نہیں ۔ پھر پوچھتے ہیں وہ کون تھا جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے معلوم نہیں اسی وقت آسمان سے ایک منادی کی ندا آتی ہے کہ میرا بندہ جھوٹا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ کا فرش کر دو اور دوزخ کی جانب کا دروازہ کھول دو وہیں سے اسے دوزخی ہوا اور دوزخ کا جھونکا پہنچتا رہتا ہے اور اس کی قبر اس پر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔ بڑی بری اور ڈراؤنی صورت والا برے میلے کچیلے خراب کپڑوں والا بڑی بدبو والا ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اب غمناک ہو جاؤ ۔ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ یہ پوچھتا ہے تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے برائی برستی ہے ۔ وہ کہتا ہے میں تیرے بداعمال کا مجسمہ ہوں تو یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ قیامت قائم نہ ہو ۔ ( ابو داؤد نسائی ابن ماجہ وغیرہ) مسند میں ہے: نیک بندے کی روح نکلنے کے وقت آسمان و زمین کے درمیان کے فرشتے اور آسمانوں کے فرشتے سب اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور آسمانوں کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں ہر دروازے کے فرشتوں کی دعا ہوتی ہے کی اس کی پاک اور نیک روح ان کے دروازے سے چڑھائی جائے اور برے شخص کے بارے میں اس میں ہے کہ اس کی قبر میں ایک اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ مٹی بن جائے ۔ اس سے وہ اسے مارتا ہے یہ مٹی ہو جاتا ہے اسے اللہ عزوجل پھر لوٹاتا ہے ۔ جیسا تھا ویسا ہی ہو جاتا ہے وہ اسے پھر وہی گرز مارتا ہے یہ ایسا چیختا ہے کہ اس کی چیخ کو سوائے انسانوں اور جن کے ہر کوئی سنتا ہے ۔ قبر کا عذاب حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اسی آیت سے قبر کے عذاب کا ثبوت ملتا ہے ۔ حضرت عبداللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں مراد اس سے قبر کے سوالوں کے جواب میں مؤمن کو استقامت کا ملنا ہے ۔ مسند عبد بن حمید میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے لوگ منہ پھیرتے ہیں ابھی ان کی واپسی کی چال کی جوتیوں کی آہٹ اس کے کانوں ہی میں ہے جو دو فرشتے اس کے پاس پہنچ کر اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے مؤمن جواب دیتا ہے کہ میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جاتا ہے کہ دیکھ جہنم میں تیرا یہ ٹھکانا تھا ۔ لیکن اب اسے بدل کر اللہ نے جنت کی یہ جگہ تجھے عنایت فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اسے دونوں جگہ نظر آتی ہیں ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اس کی قبر ستر گز چوڑی کر دی جاتی ہے اور قیامت تک سر سبزی سے بھری رہتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس اُمت کی آزمائش ان کی قبروں میں سے ہوتی ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے: مؤمن اس وقت آرزو کرتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں اپنے لوگوں کو یہ خوشخبری سنا دوں وہ کہتے ہیں ٹھہر جاؤ اس میں یہ بھی ہے کہ منافق کو بھی اس کی دونوں جگہیں دکھا دی جاتی ہیں ۔ فرماتے ہیں: ہر شخص جس پر مرا ہے اسی پر اٹھایا جاتا ہے ۔ مؤمن اپنے ایمان پر منافق اپنے نفاق پر ۔ مسند احمد کی روایت میں ہے: فرشتہ جو آتا ہے اس کے ہاتھ میں لوہے کا ہتھوڑا ہوتا ہے مؤمن اللہ کی معبودیت اور توحید کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت اور رسالت کی گواہی دیتا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اپنا جنت کا مکان دیکھ کر اس میں جانا چاہتا ہے ۔ لیکن اسے کہا جاتا ہے ابھی یہیں آرام کرو ۔ اس کے آخر میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ جب ایک فرشتے کو ہاتھ میں گرز لئے دیکھیں گے تو حواس کیسے قائم رہیں گے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ یعنی اللہ کی طرف سے انہیں ثابت قدمی ملتی ہے ۔ اور حدیث میں ہے: روح نکلنے کے وقت مؤمن سے کہا جاتا ہے کہ اے اطمینان والی روح جو پاک جسم میں تھی ۔ نکل تعریفوں والی ہو کر اور خوش ہو جا۔ راحت و آرام اور پھل پھول اور رحیم و کریم اللہ کی رحمت کے ساتھ ۔ اس میں ہے کہ آسمان کے فرشتے اس روح کو مرحبا کہتے ہیں اور یہی خوشخبری سناتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ برے انسان کی روح کو کہا جاتا ہے کہ اے خبیث روح جو خبیث جسم میں تھی نکل بری بن کر اور تیار ہو جا آگ جیسا پانی پینے کے لئے اور لہو پیپ کھانے کے لئے اور اسی جیسے اور بیشمار عذابوں کے لئے اس میں ہے کہ آسمان کے فرشتے اس کے لئے دروازہ نہیں کھولتے اور کہتے ہیں بری ہو کر مذمت کے ساتھ لوٹ جا تیرے لئے دروازے نہیں کھلیں گے ۔ اور روایت میں ہے: آسمانی فرشتے نیک روح کے لئے کہتے ہیں اللہ تجھ پر رحمت کرے اور اس جسم پر بھی جس میں تو تھی ۔ یہاں تک کہ اسے اللہ عزوجل کے پاس پہنچاتے ہیں وہاں سے ارشاد ہوتا ہے کہ اسے آخری مدت تک کے لئے لے جاؤ ۔ اس میں ہے کہ کافر کی روح کی بدبو کا بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اپنی ناک پر رکھ لی اور روایت میں ہے: رحمت کے فرشتے مؤمن کی روح کے لئے جنتی سفید ریشم لے کر اترتے ہیں ۔ ایک ایک کے ہاتھ سے اس روح کو لینا چاہتا ہے ۔ جب یہ پہلے کے مؤمنوں کی ارواح سے ملتی ہے ۔ تو جیسے کوئی نیا آدمی سفر سے آئے اور اس کے گھر والے خوش ہوتے ہیں اس سے زیادہ یہ روحیں اس روح سے مل کر راضی ہوتی ہیں پھر پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے ؟ لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ابھی سوال جواب نہ کرو ذرا آرام تو کر لینے دو ۔ یہ تو غم سے ابھی ہی چھوٹی ہے ۔ اور روایت میں ہے: کافر کی روح کو جب زمین کے دروازے کے پاس لاتے ہیں تو وہاں داروغہ فرشتے اس کی بدبو سے گھبراتے ہیں آخر اسے سب سے نیچے کی زمین میں پہنچاتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مؤمنوں کی روحیں جابین میں اور کافروں کی روحیں برھوت نامی حضر موت کے قید خانے میں جمع رہتی ہیں ۔ ا کی قبر بہت تنگ ہو جاتی ہے ترمذی میں ہے: میت کے قبر میں رکھے جانے کے بعد اس کے پاس دو سیاہ فام کیری آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ایک منکر دوسرا نکیر ۔ اس کے جواب کو سن کر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں علم تھا کہ تم ایسے ہی جواب دو گے پھر اسکی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور نورانی بنا دی جاتی ہے ۔ اور کہاجاتا ہے سوجا ۔ یہ کہتا ہے کہ میں تو اپنے گھر والوں سے کہوں گا ۔ لیکن وہ دونوں کہتے ہیں کہ دلہن کی سی بےفکری کی نیند سو جا ۔ جسے اس کے اہل میں سے وہی جگاتا ہے جو اسے سب سے زیادہ پیارا ہو ۔ یہاں تک کہ اللہ خود اسے اس خواب گاہ سے جگائے ۔ منافق جواب میں کہتا ہے کہ لوگ جو کچھ کہتے تھے میں بھی کہتا رہا لیکن جانتا نہیں ۔ وہ کہتے ہیں ہم تو جانتے ہی تھے کہ تیرا یہ جواب ہو گا ۔ اسی وقت زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ سمٹ جا ۔ وہ سمٹتی ہے یہاں تک کہ اس پسلیاں ادھر ادھر گھس جاتی ہیں پھر اسے عذاب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے اور اسے اس کی قبر سے اٹھائے اور حدیث میں ہے کہ مؤمن کے جواب پر کہا جاتا ہے کہ اسی پر تو جیا اسی پر تیری موت ہوئی اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا ۔ ابن جریر میں فرمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میت تمہاری جوتیوں کی آہٹ سنتی ہے جب کہ تم اسے دفنا کر واپس لوٹتے ہو اگر وہ ایمان پر مرا ہے تو نماز اس کے سرہانے ہوتی ہے زکوٰۃ دائیں جانب ہوتی ہے روزہ بائیں طرف ہوتا ہے ۔ نیکیاں مثلا ًصدقہ خیرات صلہ رحمی بھلائی لوگوں سے احسان وغیرہ اس کے پیروں کی طرف ہوتے ہیں جب اس کے سر کی طرف سے کوئی آتا ہے تو نماز کہتی ہے یہاں سے جانے کی جگہ نہیں ۔ دائیں طرف سے زکوٰۃ روکتی ہے ۔ بائیں طرف سے روزہ ۔ پیروں کی طرف سے اور نیکیاں ۔ پس اس سے کہا جاتا ہے بیٹھ جاؤ ۔ وہ بیٹھ جاتا ہے اور اسے ایسا معلوم دیتا ہے کہ گویا سورج ڈوبنے کے قریب ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو جو ہم پوچھیں اس کا جواب دو ۔ وہ کہتا ہے تم چھوڑو پہلے میں نماز ادا کر لوں ۔ وہ کہتے ہیں وہ تو تو کرے گا ہی ۔ ابھی تو ہمیں ہمارے سوالوں کا جواب دے ۔ وہ کہتا ہے اچھا تم کیا پوچھتے ہو ؟ وہ کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے اور کیا شہادت دیتا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ؟ جواب ملتا ہے کہ ہاں آپ ہی کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں آپ اللہ کے پاس سے ہمارے پاس دلیلیں لے کر آئے ہم نے آپ کو سچا مانا ۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رکھا گیا اور اسی پر مرا اور انشاء اللہ اسی پر دوبارہ اٹھایا جائے گا ۔ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ پھیلا دی جاتی ہے اور نورانی کر دی جاتی ہے اور جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے دیکھ یہ ہے تیرا اصلی ٹھکانا ۔ اب تو اسے خوشی اور راحت ہی راحت ہوتی ہے ۔ پھر اس کی روح پاک روحوں میں سبز پرندوں کے قالب میں جنتی درختوں میں رہتی ہے ۔ اور اس کا جسم جس سے اس کی ابتداء کی گئی تھی اسی طرف لوٹا دیا جاتا ہے ۔ یعنی مٹی کی طرف یہی اس آیت کا مطلب ہے اور روایت میں ہے: موت کے وقت کی راحت و نور کو دیکھ کر مؤمن اپنی روح کے نکل جانے کی تمنا کرتا ہے اور اللہ کو بھی اسی کی ملاقات محبوب ہوتی ہے ۔ جب اس کی روح آسمان پر چڑھ جاتی ہے تو اس کے پاس مؤمنوں کی اور روحیں آتی ہیں اور اپنی جان پہچان کے لوگوں کی بابت اس سے سوالات کرتے ہیں ۔ اگر یہ کہتا ہے کہ فلاں تو زندہ ہے تو خیر ۔ اور اگر یہ کہتا ہے کہ فلاں تو مر چکا ہے تو یہ ناراض ہو کر کہتے ہیں یہاں نہیں لایا گیا ۔ مؤمن کو اس کی قبر میں بٹھا دیا جاتا ہے ۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے ۔ تیرا نبی کون ہے ؟ یہ کہتا ہے میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ فرشتہ کہتا ہے کہ تیرا دین کیا ہے ؟ یہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔ اسی میں ہے : اللہ کے دشمن کو جب موت آنے لگتی ہے اور یہ اللہ کی ناراضگی کے اسباب دیکھ لیتا ہے تو نہیں چاہتا کہ اس کی روح نکلے ۔ اللہ بھی اس کی ملاقات سے ناخوش ہوتا ہے ۔ اس میں ہے کہ اسے سوال جواب اور مارپیٹ کے بعد کہا جاتا ہے ایسا سو جیسے سانپ کٹا ہوا ۔ اور روایت میں : جب یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تجھے کیسے معلوم ہو گیا کیا تو نے آپ کے زمانہ کو پایا ہے ؟ اس میں ہے کہ کافر کی قبر میں ایسا بہرا فرشتہ عذاب کرنے والا ہوتا ہے کہ جو نہ کبھی سنے نہ رحم کرے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: موت کے وقت مؤمن کے پاس فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں جنت کی بشارت دیتے ہیں اس کے جنازے کے ساتھ چلتے ہیں لوگوں کے ساتھ اس کے جنازے کی نماز میں شرکت کرتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ کافروں کے پاس فرشتے آتے ہیں ۔ ان کے چہروں پر ان کی کمر پر مار مارتے ہیں ۔ اسے اس کی قبر میں جواب بھلا دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ظالموں کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے ۔ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایسا ہی قول مروی ہے ۔ اس میں ہے کہ مؤمن کہتا ہے کہ میرے نبی حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کئی دفعہ اس سے سوال ہوتا ہے اور یہ یہی جواب دیتا ہے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھا کر کہا جاتا ہے کہ اگر ٹیڑھا چلتا تو تیری یہ جگہ تھی ۔ اور جنت کا ٹھکانا دکھا کر کہا جاتا ہے کہ توبہ کی وجہ سے یہ ٹھکانہ ہے ۔ حضرت طاؤس ؒ فرماتے ہیں دنیا میں ثابت قدمی کلمہ توحید پر استقامت ہے اور آخرت میں ثابت قدمی منکر نکیر کے جواب کی ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں خیر اور عمل صالح کے ساتھ دنیا میں رکھے جاتے ہیں اور قبر میں بھی ۔ ابو عبداللہ حکیم ترمذی اپنی کتاب نوادر الاصول میں لائے ہیں : صحابہ کی جماعت کے پاس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی مسجد میں فرمایا کہ گزشتہ رات میں نے عجیب باتیں دیکھیں دیکھا - میرے ایک اُمتی کو عذاب قبر نے گھیر رکھا ہے آخر اس کے وضو نے آ کر اسے چھڑا لیا - میں نے ایک اُمتی کو دیکھا کہ شیطان اسے وحشی بنائے ہوئے ہیں لیکن ذکر اللہ نے آ کر اسے خلاصی دلوائی ۔ - ایک اُمتی کو دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔ اس کی نماز نے آ کر اسے بچا لیا ۔ - ایک اُمتی کو دیکھا کہ پیاس کے مارے ہلاک ہو رہا ہے جب حوض پر جاتا ہے دھکے لگتے ہیں ۔ اس کا روزہ آیا اور اس نے اسے پانی پلا دیا ۔ اور آسودہ کر دیا ۔ - آپ نے ایک اور اُمتی کو دیکھا کہ انبیاء حلقے باندھ باندھ کر بیٹھے ہیں یہ جس حلقے میں بیٹھنا چاہتا ہے وہاں والے اسے اٹھا دیتے ہیں ۔ اسی وقت اس کی جنابت کا غسل آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس بٹھا دیا ۔ - ایک اُمتی کو دیکھا کہ چاروں طرف سے اسے اندھیرا گھیرے ہوئے ہے اور اوپر نیچے سے بھی وہ اسی میں گھرا ہوا ہے جو اس کا حج اور عمرہ آیا اور اسے اس اندھیرے میں سے نکال کر نور میں پہنچا دیا ۔ - ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ مؤمنوں سے کلام کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس سے بولتے نہیں اسی وقت صلہ رحمی آئی اور اعلان کیا کہ اس سے بات چیت کرو چنانچہ وہ بولنے چالنے لگے - ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ اپنے منہ پر سے آگ کے شعلے ہٹانے کو ہاتھ بڑھا رہا ہے اتنے میں اس کی خیرات آئی اور اس کے منہ پر پردہ اور اوٹ ہو گئی اور اس کے سر پر سایہ بن گئی - اپنے ایک اُمتی کو دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے ہر طرف سے قید کر لیا ہے ۔ لیکن اس کا نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا آیا اور ان کے ہاتھوں سے چھڑا کر رحمت کے فرشتوں سے ملا دیا ۔ - اپنے ایک ایک اُمتی کو دیکھا کہ گھٹنوں گے بل گرا ہوا ہے ۔ اور اللہ میں اور اس میں حجاب ہے اس کے اچھے اخلاق آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اللہ کے پاس پہنچا آئے ۔ - اپنے ایک اُمتی کو دیکھا کہ اس کا نامہ اعمال اس کی بائیں طرف سے آ رہا ہے لیکن اس کے خوف الہٰی نے آ کر اسے اس کے سامنے کر دیا ۔ - اپنے ایک اُمتی کو میں نے جہنم کے کنارے کھڑا دیکھا اسی وقت اس کا اللہ سے کپکپانا آیا اور اسے جہنم سے بچا لے گیا ۔ - میں نے ایک اُمتی کو دیکھا کہ پل صراط پر لڑھکنیاں کھا رہا ہے کہ اس کا مجھ پر درود پڑھانا آیا اور ہاتھ تھام کر سیدھا کر دیا ۔ اور وہ پار اتر گیا - ایک کو دیکھا کہ جنت کے دروازے پر پہنچا لیکن دروازہ بند ہوگیا ۔ اسی وقت لا الہ الا اللہ کی شہادت پہنچی دروازے کھلوا دئیے اور اسے جنت میں پہنچا دیا ۔ قرطبی اس حدیث کو وارد کر کے فرماتے ہیں یہ حدیث بہت بڑی ہے اس میں ان مخصوص اعمال کا ذکر ہے جو مخصوص مصیبتوں سے نجات دلوانے والے ہیں ( تذکرہ ) اسی بارے میں حافظ ابو یعلی موصلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک غریب مطول حدیث روایت کی ہے جس میں ہے: اللہ تبارک وتعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے تو میرے دوست کے پاس جا ۔ میں نے اسے آسانی اور سختی دونوں طرح سے آزما لیا ہر ایک حالت میں اسے اپنی خوشی میں خوش پایا تو جا اور اسے میرے پاس لے آ کہ میں اسے ہر طرح کا آرام و عیش دوں ۔ ملک الموت علیہ السلام اپنے ساتھ پانچ سو فرشتوں کو لے کر چلتے ہیں ان کے پاس جنتی کفن وہاں کی خوشبو اور ریحان کے خوشے ہوتے ہیں جس کے سرے پر بیس رنگ ہوتے ہیں ہر رنگ کی خوشبو الگ الگ ہوتی ہے سفید ریشمی کپڑے میں اعلیٰ مشک بہ تکلف لپٹی ہوئی ہوتی ہے یہ سب آتے ہیں ملک الموت علیہ السلام تو اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرشتے اس کے چاروں طرف بیٹھ جاتے ہیں ہر ایک کے ساتھ جو کچھ جنتی تحفہ ہے وہ اس کے اعضا پر رکھ دیا جاتا ہے اور سفید ریشم اور مشک اذفر اس کی ٹھوڑی تلے رکھ دیا جاتا ہے اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اس کی روح کبھی جنتی پھولوں سے کبھی جنتی لباسوں سے کبھی جنتی پھلوں سے اس طرح بہلائی جاتی ہے جیسے روتے ہوئے بچہ کو لوگ بہلاتے ہیں ۔ اس وقت اس کی حوریں ہنس ہنس کر اس کی چاہت کرتی ہیں روح ان مناظر کو دیکھ کر بہت جلد جسمانی قید سے نکل جانے کا قصد کرتی ہے ملک الموت فرماتے ہیں ہاں اے پاک روح بغیر کانٹے کی بیریوں کی طرف اور لدے ہوئے کیلوں کی طرف اور لمبی لمبی چھاؤں کی طرف اور پانی کے جھرنوں کی طرف چل ۔ واللہ ماں جس قدر بچے پر مہربان ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ ملک الموت اس پر شفقت و رحمت کرتا ہے ۔ اس لئے کہ اسے علم ہے کہ یہ محبوب الہٰی ہے اگر اسے ذرا سی بھی تکلیف پہنچی تو میرے رب کی ناراضگی مجھ پر ہو گی ۔ بس اس طرح اس روح کو اس جسم سے الگ کر لیتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے میں سے بال ۔ انہیں کے بارے میں فرمان الہٰی ہے کہ ان کی روح کو پاک فرشتے فوت کرتے ہیں ۔ اور جگہ فرمان ہے کہ اگر وہ مقربین میں سے ہے تو اس کے لئے آرام و آسائش ہے ۔ یعنی موت آرام کی اور آسائش کی ملنے والی اور دنیا کے بدلے کی جنت ہے ۔ ملک الموت کے روح کو قبض کرتے ہی روح جسم سے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل تجھے جزا خیر دے تو اللہ کی اطاعت کی طرف جلدی کرنے والا اور اللہ کی معصیت سے دیر کرنے والا تھا ۔ تو نے آپ بھی نجات پائی اور مجھے بھی نجات دلوائی جسم بھی روح کو ایسا ہی جواب دیتا ہے ۔ زمین کے وہ تمام حصے جن پر یہ عبادت الہٰی کرتا تھا اس کے مرنے سے چالیس دن تک روتے ہیں اسی طرح آسمان کے وہ کل دروازے جن سے اس کے نیک اعمال چڑھتے تھے اور جن سے اس کی روزیاں اترتی تھیں اس پر روتے ہیں ۔ اس وقت وہ پانچ سو فرشتے اس جسم کے ارد گرد کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے نہلانے میں شامل رہتے ہیں انسان اس کی کروٹ بدلے اس سے پہلے خود فرشتے بدل دیتے ہیں اور اسے نہلا کر انسانی کفن سے پہلے اپنا ساتھ لایا ہوا کفن پہنا دیتے ہیں ان کی خوشبو سے پہلے اپنی خوشبو لگا دیتے ہیں اور اس کے گھر کے دروازے سے لے کر اس کی قبر تک دو طرفہ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے لئے استغفار کرنے لگتے ہیں اس وقت شیطان اس زور سے رنج کے ساتھ چیختا ہے کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں اور کہتا ہے میرے لشکریو تم برباد ہو جاؤ ہائے یہ تمہارے ہاتھوں سے کیسے بچ گیا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ تو معصوم تھا ۔ جب اس کی روح کو لے کر ملک الموت چڑھتے ہیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام ستر ہزار فرشتوں کو لے کر اس کا استقبال کرتے ہیں ہر ایک اسے جدگانہ بشارت الہٰی سناتا ہے یہاں تک کہ اس کی روح عرش الہٰی کے پاس پہنچتی ہے وہاں جاتے ہی سجدے میں گر پڑتی ہے ۔ اسی وقت جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے کی روح کو بغیر کانٹوں کی بیریوں میں اور تہہ بہ تہہ کیلوں کے درختوں میں اور لمبے لمبے سایوں میں اور بہتے پانیوں میں جگہ دو ۔ پھر جب اسے قبر میں رکھا جاتا ہے تو دائیں طرف نماز کھڑی ہو جاتی ہے بائیں جانب روزہ کھڑا ہو جاتا ہے سر کی طرف قرآن آ جاتا ہے نمازوں کو چل کر جانا پیروں کی طرف ہوتا ہے ایک کنارے صبر کھڑا ہو جاتا ہے ، عذاب کی ایک گردن لپکتی آتی ہے لیکن دائیں جانب سے نماز اسے روک دیتی ہے کہ یہ ہمیشہ چوکنا رہا اب اس قبر میں آ کر ذرا راحت پائی ہے وہ بائیں طرف سے آتی ہے یہاں سے روزہ یہی کہہ کر اسے آنے نہیں دیتا سرہانے سے آتی ہے یہاں سے قرآن اور ذکر یہی کہہ کر آڑے آتے ہیں وہ پائنتیوں سے آتی ہے یہاں اسے اس کا نمازوں کے لئے چل کر جانا اسے روک دیتا ہے غرض چاروں طرف سے اللہ کے محبوب کے لئے روک ہو جاتی ہے اور عذاب کو کہیں سے راہ نہیں ملتی وہ واپس چلا جاتا ہے اس وقت صبر کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ اگر تم سے ہی یہ عذاب دفع ہو جائے تو مجھے بولنے کی کیا ضرورت ؟ ورنہ میں بھی اس کی حمایت کرتا اب میں پل صراط پر اور میزان کے وقت اس کے کام آؤں گا ۔ اب دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں ایک کو نکیر کہا جاتا ہے دوسرے کو منکر ۔ یہ اچک لے جانے والی بجلی جیسے ہوتے ہیں ان کے دانت سیہ جیسے ہوتے ہیں ان کے سانس سے شعلے نکلتے ہیں ان کے بال پیروں تلے لٹکتے ہوتے ہیں ان کے دو کندھوں کے درمیان اتنی اتنی مسافت ہوتی ہے۔ ان کے دل نرمی اور رحمت سے بالکل خالی ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ہتھوڑے ہوتے ہیں کہ اگر قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر جمع ہو کر اسے اٹھانا چاہیں تو ناممکن ۔ وہ آتے ہی اسے کہتے ہیں اٹھ بیٹھ ۔ یہ اٹھ کر سیدھے طرح بیٹھ جاتا ہے اس کا کفن اس کے پہلو پر آ جاتا ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے تیرا نبی کون ہے ؟ صحابہ سے نہ رہا گیا انہوں نے کہا رسول اللہ ایسے ڈراؤنے فرشتوں کو کون جواب دے سکے گا ؟ آپ ﷺنے اسی آیت يُ ثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا : وہ بےجھجک جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے اور میرا دین اسلام ہے جو فرشتوں کا بھی دین ہے اور میرے نبی محمد ہیں جو خاتم الانبیاء تھے (صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ کہتے ہیں آپ نے صحیح جواب دیا ۔ اب تو وہ اس کے لئے اس کی قبر کو اس کے آگے سے اس کے دائیں سے اس کے بائیں سے اس کے پیچھے سے اس کے سر کی طرف سے اس کے پاؤں کی طرف سے چالیس چالیس ہاتھ کشادہ کر دیتے ہیں دو سو ہاتھ کی وسعت کر دیتے ہیں اور چالیس ہاتھ کا احاطہ کر دیتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں اپنے اوپر نظریں اٹھا یہ دیکھتا ہے کہ جنت کا دروازہ کھلا ہوا ہے وہ کہتے ہیں اے اللہ کے دوست چونکہ تو نے اللہ کی بات مان لی تیری منزل یہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اس وقت جو سرور و راحت اس کے دل کو ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے ۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے اب اپنے نیچے کی طرف دیکھ ۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے اب اپنے نیچے کی طرف دیکھ ۔ یہ دیکھتا ہے کہ جہنم کا دروازہ کھلا ہوا ہے فرشتے کہتے ہیں کہ دیکھ اس سے اللہ نے تجھے ہمیشہ کے لئے نجات بخشی پھر تو اس کا دل اتنا خوش ہوتا ہے کہ یہ خوشی ابد الا باد تک ہٹتی نہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: اس کے لئے ستر دروازے جنت کے کھل جاتے ہیں جہاں سے باد صبا کی لپٹیں خوشبو اور ٹھنڈک کے ساتھ آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اسے اللہ عزوجل اس کی اس خواب گاہ سے قیامت کے قائم ہو جانے پر اٹھائے ۔ اسی اسناد سے مروی ہے : اللہ تعالیٰ برے بندے کے لئے ملک الموت سے فرماتا ہے جا اور اس میرے دشمن کو لے آ ۔ اسے میں نے تیری زندگی میں برکت دے رکھی تھی اپنی نعمتیں عطا فرما رکھی تھیں لیکن پھر بھی یہ میری نافرمانیوں سے نہ بچا اسے لے آتا کہ میں اس سے انتقام لوں اسی وقت حضرت ملک الموت علیہ السلام اس کے سامنے انتہائی بد اور ڈراؤنی صورت میں آتے ہیں اسی کہ کسی نے اتنی بھیانک اور گھناؤنی صورت نہ دیکھی ہو بارہ آنکھیں ہوتی ہیں جہنم کا خار دار لباس ساتھ ہوتا ہے پانچ سو فرشتے جو جہنمی آگ کے انگارے اور آگ کے کوڑے اپنے ساتھ لئے ہوئے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ ملک الموت وہ خار دار کھال جو جہنم کی آگ کی ہے اس کے جسم پر مارتے ہیں روئیں روئیں میں آگ کے کانٹے گھس جاتے ہیں پھر اس طرح گہماتے ہیں کہ اس کا جوڑ جوڑ ڈھیلا پڑ جاتا ہے پھر اس کی ورح اس کے پاؤں کے انگوٹھوں سے کھینچتے ہیں اور اس کے گھٹنوں پر ڈال دیتے ہیں اس وقت اللہ کا دشمن بےہوش ہو جاتا ہے پس ملک الموت اسے اٹھا لیتے ہیں فرشتے اپنے جہنمی کوڑے اس کے چہرے پر اور پیٹھ پر مارتے ہیں پھر اس کے تہبند باندھنے کی جگہ پر ڈال دیتے ہیں یہ دشمن رب اس وقت پھر بےتاب ہو جاتا ہے فرشتہ موت پھر اس بےہوشی کو اٹھا لیتا ہے اور فرشتے پھر اس کے چہرے پر اور کمر پر کوڑے برسانے لگتے ہیں آخر یہاں تک کہ روح سینے پر چڑھ جاتی ہے پھر حلق تک پہنچتی ہے پھر فرشتے جہنمی تانبے اور جہنمی انگاروں کو اس کو ٹھوڑی کے نیچے رکھ دیتے ہیں اور ملک الموت علیہ السلام فرماتے ہیں اے لعین و ملعون روح چل سینک میں اور جھلستے پانی اور کالے سیاہ دھویں کے غبار میں جس میں نہ تو خنکی ہے نہ اچھی جگہ ۔ جب یہ روح قبض ہو جاتی ہے تو اپنے جسم سے کہتی ہے اللہ تجھ سے سمجھے تو مجھے اللہ کی نافرمانیوں کی طرف بھگائے لئے جا رہا تھا ۔ خود بھی ہلاک ہوا اور مجھے بھی برباد کیا ۔ جسم بھی روح سے یہی کہتا ہے ۔ زمین کے وہ تمام حصے جہاں یہ اللہ کی معصیت کرتا تھا اس پر لعنت کرنے لگتے ہیں شیطانی لشکر دوڑتا ہوا شیطان کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نے آج ایک کو جہنم میں پہنچا دیا ۔ اس کی قبر اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں دائیں میں گھس جاتی ہے کالے ناگ بختی اونٹوں کے برابر اس کی قبر میں بھیجے جاتے ہیں جو اس کے کانوں اور اس کے پاؤں کے انگوٹھوں سے اسے ڈسنا شروع کرتے ہیں اور اوپر چڑھتے آتے ہیں یہاں تک کہ وسط جسم میں مل جاتے ہیں ۔ دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں جن کی آنکھیں تیز بجلی جیسی جن کی آواز گرج جیسی جن کے دانت درندے جیسے جن کے لانس آگ کے شعلے جیسے جن کے بال پیروں کے نیچے تک جن کے دو مونڈھوں کے درمیان اتنی اتنی مسافت ہے جن کے دل میں رحمت و رحم کا نام نشان بھی نہیں جن کا نام ہی منکر نکیر ہے جن کے ہاتھ میں لوہے کے اتنے بڑے ہتھوڑے ہیں جنہیں ربیعہ اور مضرم مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے وہ اسے کہتے ہیں اٹھ بیٹھ یہ سیدھا بیٹھ جاتا ہے اور تہبند باندھنے کی جگہ اس کا کفن آ پڑتا ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ تیرا نبی کون ہے ؟ یہ کہتا ہے مجھے تو کچھ خبر نہیں وہ کہتے ہیں ہاں نہ تو نے معلوم کیا نہ تونے پڑھا پھر اس زور سے اسے ہتھوڑا مارتے ہیں کہ اس کے شرارے اس کی قبر کو پر کر دیتے ہیں پھر لوٹ کر اس سے کہتے ہیں اپنے اوپر کو دیکھ یہ ایک کھلا ہوا دروازہ دیکھتا ہے وہ کہتے ہیں واللہ اگر تو اللہ کا فرمانبردار رہتا تو تیری یہ جگہ تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اب تو اسے وہ حسرت ہوتی ہے جو کبھی اس کے دل سے جدا نہیں ہونے کی ۔ پھر وہ کہتے ہیں اب اپنے نیچے دیکھ وہ دیکھتا ہے کہ ایک دروازہ جہنم کا کھلا ہوا ہے فرشتے کہتے ہیں اے دشمن رب چونکہ تونے اللہ کی مرضی کے خلاف کام کئے ہیں اب تیری جگہ یہ ہے واللہ اس وقت اس کا دل رنج و افسوس سے بیٹھ جاتا ہے جو صدمہ اسے کبھی بھولنے کا نہیں اس کے لئے ستر دروازے جہنم کے کھل جاتے ہیں جہاں سے گرم ہوا اور بھاپ اسے ہمیشہ ہی آیا کرتی ہے یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ اٹھا بٹھائے ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور یہ سیاق بہت عجیب ہے اور اس کا راوی یزید رقاضی جو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نیچے کا راوی ہے اس کی غرائب و منکرات بہت ہیں اور ائمہ کے نزدیک وہ ضعیف الروایت ہے واللہ اعلم ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں ٹھہر جاتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے ثابت قدمی طلب کرو اس وقت اس سے سوال ہو رہا ہے ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (۲۸) کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ۔ صحیح بخاری میں ہے أَلَمْ تَرَ معنی میں أَلَمْ تَعلَمْ کے ہے یعنی کیا تو نہیں جانتا بَوَار کے معنی ہلاکت کے ہیں مراد ان لوگوں سے بقول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفار اہل مکہ ہیں اور قول ہے کہ مراد اس سے جبلہ بن ابہم اور اس کی اطاعت کرنے والے وہ عرب ہیں جو رومیوں سے مل گئے تھے لیکن مشہور اور صحیح قول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اول ہی ہے ۔ گو الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کفار مشتمل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر اور کل لوگوں کے لئے نعمت بنا کر بھیجا ہے جس نے اس رحمت و نعمت کی قدر دانی کی وہ جنتی ہے اور جس نے ناقدری کی وہ جہنمی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک قول حضرت ابن عباس کے پہلے قول کی موافقت میں مروی ہے ابن کوا کے جواب میں آپ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ بدر کے دن کے کفار قریش ہیں۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے سوال پر آپ نے فرمایا مراد اس سے منافقین قریش ہیں ۔ اور روایت میں ہے: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ کیا مجھ سے قرآن کی بابت کوئی کچھ بات دریافت نہیں کرتا ؟ واللہ میرے علم میں اگر آج کوئی مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہوتا تو چاہے وہ سمندروں پار ہوتا لیکن میں ضرور اس کے پاس پہنچتا ۔ یہ سن کر عبداللہ بن کوا کھڑا ہو گیا اور کہا یہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمان الہٰی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو کفر سے بدلا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا آپ نے فرمایا یہ مشریکن قریش ہیں ان کے پاس اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو انہوں نے کفر سے بدل دیا ۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے: اس سے مراد قریش کے دو فاجر ہیں بنو امیہ اور بنو مغیرہ ۔ بنو مغیرہ نے اپنی قوم کو بدر میں لا کھڑا کیا اور انہیں ہلاکت میں ڈالا اور بنو امیہ نے احد والے دن اپنے والوں کو غارت کیا ۔ بدر میں ابوجہل تھا اور احد میں ابو سفیان اور ہلاکت کے گھر سے مراد جہنم ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بنو مغیرہ تو بدر میں ہلاک ہوئے اور بنو امیہ کو کچھ دنوں کا فائدہ مل گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی مروی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ دونوں قریش کے بدکار ہیں ۔ میرے ماموں اور تیرے چچا ، میری ممیاں والے تو بدر کے دن ناپید ہو گئے اور تیرے چچا والوں کو اللہ نے مہلت دے رکھی ہے ۔ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ یعنی دوزخ میں جس میں یہ سب جائیں گے، جو بدترین ٹھکانا ہے۔ (۲۹) یہ جہنم میں جائیں گے جو بری جگہ ہے ۔ وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِهِ ۗ انہوں نے اللہ کے ہمسر بنا لئے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں۔ انہوں نے خود شرک کیا دوسروں کو شرک کی طرف بلایا ۔ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ آپ کہہ دیجئے کہ خیر مزے کر لو تمہاری باز گشت تو آخر جہنم ہی ہے ۔ (۳۰) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ دنیا میں کچھ کھا پی لو پہن اوڑھ لو آخر ٹھکانا تو تمہارا جہنم ہے ۔ جیسے فرمان ہے: نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلاً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ ہم انہیں یونہی سا آرام دے دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے (۳۱:۳۴) مَتَـعٌ فِى الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ دنیاوی نفع اگرچہ ہو گا لیکن لوٹنا تو ہے ہماری ہی طرف اس وقت ہم انہیں ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب کریں گے ۔ (۱۰:۷۰) قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً میرے ایمان دار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی اور محبت ۔ (۳۱) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی اطاعت کا اور اپنے حق ماننے کا اور مخلوق رب سے احسان وسلوک کرنے کا حکم دے رہا ہے فرماتا ہے کہ نماز برابر پڑھتے رہیں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت ہے اور زکوٰۃ ضرور دیتے رہیں قرابت داروں کو بھی اور انجان لوگوں کو بھی ۔ اقامت سے مراد وقت کی ، حد کی ، رکوع کی ، خشوع کی ، سجدے کی حفاظت کرنا ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی روزی اس کی راہ میں پوشیدہ اور کھلے طور پر اس کی خوشنودی کے لئے اوروں کو بھی دینی چاہئے تاکہ اس دن نجات ملے جس دن کوئی خرید و فروخت نہ ہو گی نہ کوئی دوستی آشنائی ہو گی ۔کوئی اپنے آپ کو بطور فدیے کے بیچنا بھی چاہے تو بھی ناممکن ہے۔ جیسے فرمان ہے: فَالْيَوْمَ لاَ يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلاَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ آج تم سے اور کافروں سے کوئی فدیہ اور بدلہ نہ لیا جائے گا ۔ (۳۷:۱۵) وہاں کسی کی دوستی کی وجہ سے کوئی چھوٹے گا نہیں بلکہ وہاں عدل و انصاف ہی ہو گا ۔ خِلَالٌ مصدر ہے ۔ امراء لقیس کے شعر میں بھی یہ لفظ ہے ۔ دنیا میں لین دین ، محبت دوستی کام آ جاتی ہے لیکن وہاں یہ چیز اگر اللہ کے لئے نہ ہو تو محض بےسود رہے گی ۔ کوئی سودا گری، کوئی شناسا وہاں کام نہ آئے گا ۔ زمین بھر کر سونا فدیے میں دینا چاہے لیکن رد ہے کسی کی دوستی کسی کی سفارش کافر کو کام نہ دے گی ۔ فَالْيَوْمَ لاَ يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلاَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ الغرض، آج تم سے فدیہ (اور نہ بدلہ) قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے (۵۷:۱۵) فرمان الہٰی ہے: وَاتَّقُواْ يَوْمًا لاَّ تَجْزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَـعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی نفس کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے گا، نہ کسی شخص سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے گی نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ (۲:۱۲۳) فرمان ہے: يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَـعَةٌ وَالْكَـفِرُونَ هُمُ الظَّـلِمُونَ اے ایمان والو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔ (۲:۲۵۴) اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے تمہاری روزی کے پھل نکالے ہیں اللہ کی طرح طرح کی بیشمار نعمتوں کو دیکھو۔ آسمان کو اس نے ایک محفوظ چھت بنا رکھا ہے زمین کو بہترین فرش بنا رکھا ہے آسمان سے بارش برسا کر زمین سے مزے مزے کے پھل کھیتیاں باغات تیار کر دیتا ہے ۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں ۔ (۳۲) اسی کے حکم سے کشتیاں پانی کے اوپر تیرتی پھرتی ہیں کہ تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائیں تم وہاں کا مال یہاں ، یہاں کا وہاں لے جاؤ ، لے آؤ ، نفع حاصل کرو ، تجربہ بڑھاؤ ۔ نہریں بھی اسی نے تمہارے کام میں لگا رکھی ہیں ، تم انکا پانی پیؤ ، پلاؤ، اس سے کھیتیاں کرو ، نہاؤ دھوؤ اور طرح طرح کے فائدے حاصل کرو۔ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ اسی نے تمہارے لئے سورج چاند کو مسخر کر دیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ (۳۳) ہمیشہ چلتے پھرتے اور کبھی نہ تھکتے سورج چاند بھی تمہارے فائدے کے کاموں میں مشغول ہیں مقرر چال پر مقرر جگہ پر گردش میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ ان میں تکرار ہو نہ آگا پیچھا ، جیسے فرمایا: لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔ (۳۶:۴۰) جیسے فرمایا: يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ ... تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔ (۷:۵۴) کبھی دنوں کو بڑے کر دیتا ہے کبھی راتوں کو بڑھا دیتا ہے ، يُولِجُ الَّيْلَ فِى النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِى الَّيْلِ وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے (۳۵:۱۳) ہر چیز اپنے کام میں سر جھکائے مشغول ہے ، وہ اللہ عزیز و غفار ہے ۔ وَسَخَّـرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُـلٌّ يَجْرِى لاًّجَـلٍ مُّسَـمًّى أَلا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ اور اس نے سورج چاند کو کام پر لگا رکھا ہے۔ ہر ایک مقررہ مدت تک چل رہا ہے یقین مانو کہ وہی زبردست اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ (۳۹:۵) وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لئے مہیا کر دی ہیں تم اپنے حال و قال سے جن جن چیزوں کے محتاج تھے ، اس نے سب کچھ تمہیں دے دی ہیں ، مانگنے پر بھی وہ دیتا ہے اور بےمانگے بھی اس کا ہاتھ نہیں رکھتا ۔ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (۳۴) اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ تم بھلا رب کی تمام نعمتوں کا شکریہ توکیا ادا کرو گے ؟ تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے ۔ طلق بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کر سکیں اور اللہ کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کر سکیں لوگو صبح شام توبہ استغفار کرتے رہو ۔ صحیح بخاری میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ غَيْرَ مَكْفِيَ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا اے اللہ تیرے ہی لئے سب حمد و ثنا سزا وار ہے ، ہماری ثنائیں ناکافی ہیں ، پوری اور بےپرواہ کرنے والی نہیں اے اللہ تو معاف فرما بزار میں آپﷺ کا فرمان ہے: قیامت کے دن انسان کے تین دیوان نکلیں گے - ایک میں نیکیاں لکھی ہوئی ہوں گی - اور دوسرے میں گناہ ہوں گے، - تیسرے میں اللہ کی نعمتیں ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں میں سے سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائے گا کہ اٹھ اور اپنا معاوضہ اس کے نیک اعمال سے لے لے ، اس سے اس کے سارے ہی عمل ختم ہو جائیں گے پھر بھی وہ یکسو ہو کر کہے گی کہ باری تعالیٰ میری پوری قیمت وصول نہیں ہوئی خیال کیجئے ابھی گناہوں کا دیوان یونہی الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ۔ اگر بندے پر اللہ کا ارادہ رحم و کرم کا ہوا تو اب وہ اس کی نیکیاں بڑھا دے گا اور اس کے گناہوں سے تجاوز کر لے گا اور اس سے فرما دے گا کہ میں نے اپنی نعمتیں تجھے بغیر بدلے کے بخش دیں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ مروی ہے: حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ جل و علا سے دریافت کیا کہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں ؟ شکر کرنا خود بھی تو تیری ایک نعمت ہے جواب ملا کہ داؤد اب تو شکر ادا کر چکا جب کہ تو نے یہ جان لیا اور اس کا اقرار کر لیا کہ تو میری نعمتوں کے شکر کی ادائیگی سے قاصر ہے: حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں اللہ ہی کے لئے تو حمد ہے جس کی بیشمار نعمتوں میں سے ایک نعمت کا شکر بھی بغیر ایک نئی نعمت کے ہم ادا نہیں کر سکتے کہ اس نئی نعمت پر پھر ایک شکر واجب ہو جاتا ہے پھر اس نعمت کی شکر گزاری کی ادائیگی کی توفیق پر پھر نعمت ملی ، جس کا شکریہ واجب ہوا ۔ ایک شاعر نے یہی مضمون اپنے شعروں میں باندھا ہے: رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر بھی پورا ادا نہیں ہو سکتا تیرے احسانات اور انعامات بیشمار ہیں ۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ (ا براہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔ (۳۵) اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ حرمت والا شہر مکہ ابتداء میں اللہ کی توحید پر ہی بنایا گیا تھا ۔ اس کے اول بانی خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے بری تھے ۔ انہی نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی ۔ جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ۔ اس شہر کو بنانے کے بعد خلیل اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ اس شہر کو پر امن بنا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا جَعَلْنَا حَرَماً ءامِناً کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے (۲۹:۶۷) إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ ... وَمَن دَخَلَهُ كَانَ ءَامِناً اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت اور ہدایت والا ہے۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا۔ (۳:۹۶،۹۷) اسی لئے فرمایا: الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِى وَهَبَ لِى عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَـعِيلَ وَإِسْحَـقَ ا للہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحٰق جیسے بچے عطا فرمائے ۔ (۱۴:۳۹) حضرت اسماعیل کو دودھ پیتا اس کی والدہ کے ساتھ لے کر یہاں آئے تھے تب بھی آپ نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی لیکن اس وقت کے الفاظ یہ تھے: رَبِّ اجْعَلْ هَـذَا بَلَدًا آمِنًا اے پروردگار تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا (۲:۱۲۶) پس اس دعا میں بَلَدًا پر لام نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ دعا شہر کی آبادی سے پہلے کی ہے اور اب چونکہ شہر بس چکا تھا ۔ بلد کو معرف بالام لائے ۔ سورہ بقرہ میں ہم ان چیزوں کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں ۔ پھر دوسری دعا میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا ۔ انسان کو لازم ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے ماں باپ کو اور اولاد کو بھی شامل رکھے ۔ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ ۖ اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے پھر آپ نے بتوں کی گمراہی ان کا فتنہ اکثر لوگوں کا بہکا جانا بیان فرما کر ان سے اپنی بےزاری کا اظہار کیا فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو، تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے۔ (۳۶) اور انہیں اللہ کے حوالے کیا کہ وہ چاہے بخشے ، چاہے سزا دے ۔ جیسے روح اللہ علیہ السلام بروز قیامت کہیں گے: إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اگر تو انہیں عذاب کر تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے ۔ (۵:۱۱۸) یہ یاد رہے کہ اس میں صرف اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ اس کے واقع ہونے کو جائز سمجھنا ہے ۔ حضور علیہ السلام نے حضرت خلیل اللہ کا یہ قول اور حضرت روح اللہ کا قول آیت إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ (۵:۱۱۸) ، تلاوت کر کے رو رو کر اپنی اُمت کو یاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جا کر دریافت کرو کہ کیوں رو رہے ہو ؟ آپ نے سبب بیان کیا حکم ہوا کہ جاؤ اور کہہ دو کہ آپ کو ہم آپ کی اُمت کے بارے میں خوش کر دیں گے ناراض نہ کریں گے ۔ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بےکھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ یہ دوسری دعا ہے پہلی دعا اس شہر کے آباد ہونے سے پہلے جب آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مع ان کی والدہ صاحبہ کے یہاں چھوڑ کر گئے تھے ۔ تب کی تھی اور یہ دعا اس شہر کے آباد ہو جانے کے بعد کی اسی لئے یہاں بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ کا لفظ لائے اور نماز کے قائم کرنے کا بھی ذکر فرمایا ۔ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ ابن جریر رحمۃ اللہ عیہ فرماتے ہیں یہ متعلق ہے لفظ الْمُحَرَّمِ کے ساتھ یعنی اسے باحرمت اس لئے بنایا ہے کہ یہاں والے باطمینان یہاں نمازیں ادا کر سکیں ۔ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ نے فرمایا کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے ، اگر سب لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکانے کی دعا ہوتی تو فارس و روم یہود و نصاری غرض تمام دنیا کے لوگ یہاں الٹ پڑتے ۔ آپ نے صرف مسلمانوں کے لئے یہ دعا کی ۔ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔ (۳۷) اور دعا کرتے ہیں کہ انہیں پھل بھی عنایت فرما ۔ یہ زمین زراعت کے قابل بھی نہیں اور دعا ہو رہی ہے پھلوں کی روزی کی اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی جیسے ارشاد ہے: أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَماً ءَامِناً يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَىْءٍ رِّزْقاً مِّن لَّدُنَّا کیا ہم نے انہیں حرمت و امن والی ایسی جگہ عنایت نہیں فرمائی ؟ جہاں ہر چیز کے پھل ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جو خاص ہمارے پاس کی روزی ہے ۔ (۲۸:۵۷) پس یہ بھی اللہ کا خاص لطف و کرم عنایت و رحم ہے کہ شہر کی پیداوار کچھ بھی نہیں اور پھل ہر قسم کے وہاں موجود ، چاروں طرف سے وہاں چلے آئیں ۔ یہ ہے حضرت ابراہیم خلیل الرحمن صلوات اللہ وسلامہ علیہ کی دعا کی قبولیت۔ رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ اے ہمارے پروردگار! تو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں ۔ (۳۸) خلیل الرحمٰن صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مناجات میں فرماتے ہیں کہ اے اللہ تو میرے ارادے اور میرے مقصود کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے میری چاہت ہے کہ یہاں کے رہنے والے تیری رضا کے طالب اور فقط تیری طرف راغب رہیں ۔ ظاہر و باطن تجھ پر روشن ہے زمین و آسمان کی ہر چیز کا حل تجھ پر کھلا ہے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل و اسحٰق عطا فرمائے إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنے والا اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔ (۳۹) تیرا احسان ہے کہ اس پورے بڑھاپے میں تو نے میرے ہاں اولاد عطا فرمائی اور ایک پر ایک بچہ دیا ۔ اسماعیل بھی ، اسحٰق بھی ۔ تو دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے میں نے مانگا تو نے دیا پس تیرا شکر ہے ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۚ اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے اللہ مجھے نمازوں کا پابند بنا اور میری اولاد میں بھی یہ سلسلہ قائم رکھ ۔ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ (۴۰) میری تمام دعائیں قبول فرما ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مؤمنوں کو بھی جس دن حساب ہونے لگے۔ (۴۱) وَلِوَالِدَيَّ کی قرأت بعض نے وَلِوَالِدِيَّ بھی کی ہے یہ بھی یاد رہے کہ یہ دعا اس سے پہلے کی ہے کہ آپ کو اللہ کی طرف سے معلوم ہو جائے کہ آپ کا والد اللہ کی دشمنی پر ہی مرا ہے ۔ جب یہ ظاہر ہو گیا تو آپ اپنے والد سے بےزار ہو گئے ۔پس یہاں آپ اپنے ماں باپ کی اور تمام مؤمنوں کی خطاؤں کی معافی اللہ سے چاہتے ہیں کہ اعمال کے حساب اور بدلے کے دن قصور معاف ہوں ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مؤمنوں کو بھی جس دن حساب ہونے لگے۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ نا انصافوں کے اعمال سے اللہ کو غافل نہ سمجھو وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دیئے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ۔ (۴۲) کوئی یہ نہ سمجھے کہ برائی کرنے والوں کی برائی کا اللہ کو علم ہی نہیں اس لئے یہ دنیا میں پھل پھول رہے ہیں ، نہیں اللہ ایک ایک کے ایک ایک گھڑی کے برے بھلے اعمال سے بخوبی واقف ہے یہ ڈھیل خود اسکی دی ہوئی ہے کہ یا تو اس میں واپس ہو جائے یا پھر گناہوں میں بڑھ جائے یہاں تک کہ قیامت کا دن آ جائے ۔ جس دن کی ہولناکیاں آنکھیں پتھرا دیں گی ، دیدے چڑھا دیں گی ، مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ وہ اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑ بھاگ رہے ہونگے خود اپنی طرف بھی انکی نگاہیں نہ لوٹیں گی اور ان کے دل خالی اور اڑے ہوئے ہونگے۔ (۴۳) سر اٹھائے پکارنے والے کی آواز کی طرف دوڑے چلے جائیں گے ، مُّهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہونگے (۵۴:۸) کہیں ادھر ادھر نہ ہوں گے ۔سب کے سب پورے اطاعت گزار بن جائیں گے ، يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِىَ لاَ عِوَجَ لَهُ جس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلیں گے جس میں کوئی کجی نہ ہوگی (۲۰:۱۰۸) دوڑے بھاگے حضور کی حاضری کیلئے بےتابانہ آئیں گے ، آنکھیں نیچے کو نہ جھکیں گی ، گھبراہٹ اور فکر کے مارے پلک سے پلک نہ جھپکے گی ۔ دلوں کا یہ حال ہو گا کہ گویا اڑے جاتے ہیں ۔ خالی پڑے ہیں ۔ خوف کے سوا کوئی چیز نہیں ۔ وہ حلقوم تک پہنچے ہوئے ہیں ، اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے ہیں ، دہشت سے خراب ہو رہے ہیں ۔ وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا لوگوں کو اس دن سے ہوشیار کر دے جب کے ان کے پاس عذاب آجائے گا، اور ظالم کہیں گے کہ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ اے ہمارے رب ہمیں بہت تھوڑے قریب کے وقت تک کی ہی مہلت دے کہ ہم تیری تبلیغ مان لیں اور تیرے پیغمبروں کی تابعداری میں لگ جائیں ظالم اور ناانصاف لوگ اللہ کا عذاب دیکھ کر تمنائیں کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمیں ذرا سی مہلت مل جائے کہ ہم فرمابرداری کر لیں اور پیغمبروں کی اطاعت بھی کر لیں ۔ اور آیت میں ہے: حَتَّى إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ موت کو دیکھ کر کہتے ہیں اے اللہ اب واپس لوٹا دے (۲۳:۹۹) یہی مضمون ان آیات میں ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ ... وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ اے مسلمانوں تمہیں تمہارے مال اولاد یاد الہٰی سے غافل نہ کر دیں ۔ ایسا کرنے والے لوگ ظاہری خسارے میں ہیں ۔ ہمارا دیا ہوا ہماری راہ میں دیتے رہو ایسا نہ ہو کہ موت کے وقت آرزو کرنے لگو کہ مجھے ذرا سی مہلت نہیں مل جائے تو میں خیرات ہی کر لوں اور نیک لوگوں میں مل جاؤں ۔ یاد رکھو اجل آنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے ۔ (۶۳:۹،۱۱) أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ کیا تم اس سے پہلے بھی قسمیں نہیں کھا رہے تھے؟ کہ تمہارے لئے دنیا سے ٹلنا ہی نہیں ۔ (۴۴) محشر میں بھی ان کا یہی حال ہوگا ۔ چنانچہ سورہ سجدہ کی آیت ولو تری اذا المجرمون میں ہے: وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ ... فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ کاش کے تم گنہگاروں کو دیکھتے کہ وہ اپنے پروردگار کے روبرو سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں ایک بار دنیا میں پھر بھیج دے کہ ہم یقین والے ہو کر نیک اعمال کر لیں ۔ (۳۲:۱۲) یہی بیان آیت وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ (۶:۲۷) اور آیت وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا (۳۵:۲۷) وغیرہ میں بھی ہے ۔ یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ تم تو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ تمہاری نعمتوں کو زوال ہی نہیں قیامت کوئی چیز ہی نہیں مر کر اٹھنا ہی نہیں اب اس کا مزہ چکھو ۔ یہ کہا کرتے تھے: وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لاَ يَبْعَثُ اللَّهُ مَن يَمُوتُ وہ لوگ بڑی سخت سخت قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مردوں کو اللہ زندہ نہیں کرے گا (۱۶:۳۸) وَسَكَنْتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ اور کیا تم ان لوگوں کے گھروں میں رہتے سہتے نہ تھے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور کیا تم پر وہ معاملہ کھلا نہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا کچھ کیا۔ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ ہم نے (تو تمہارے سمجھانے کو) بہت سی مثالیں بیان کر دی تھیں ۔ (۴۵) پھر فرماتا ہے کہ تم دیکھ چکے کہ تم سے پہلے کے تم جیسوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ؟ ان کی مثالیں ہم تم سے بیان بھی کر چکے کہ ہمارے عذابوں نے کیسے انہیں غارت کر دیا ؟ باوجود اس کے تم ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور چوکنا نہیں ہوتے ۔ حِكْمَةٌ بَـلِغَةٌ فَمَا تُغْنِـى النُّذُرُ اور کامل عقل کی بات ہے لیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا۔ (۵۴:۵) وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے یہ گو کتنے ہی چالاک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے سامنے کسی کی چالاکی نہیں چلتی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جس نے جھگڑا کیا تھا اس نے دو بچے گدھ کے پالے جب وہ بڑے ہو گئے ۔ جوانی کو پہنچے قوت والے ہو گئے تو ایک چھوٹی سی چوکی کے ایک پائے سے ایک کو باندھ دیا دوسرے سے دوسرے کو باندھ دیا انہیں کھانے کو کچھ نہ دیا خود اپنے ایک ساتھی سمیت اس چوکی پر بیٹھ گیا اور ایک لکڑی کے سرے پر گوشت باندھ کر اسے اوپر کو اٹھایا بھوکے گدھ وہ کھانے کے لئے اوپر کو اڑے اور اپنے زور سے چوکی کو بھی لے اڑے اب جب کہ یہ اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ ہر چیز انہیں مکھی کی طرح کی نظر آنے لگی تو اس نے لکڑی جھکا دی اب گوشت نیچے دکھائی دینے لگا اس لئے جانوروں نے پر سمیٹ کر گوشت لینے کے لئے نیچے اترنا شروع کیا اور تخت بھی نیچا ہونے لگا یہاں تک کہ زمین تک پہنچ گیا پس یہ ہیں وہ مکاریاں جن سے پہاڑوں کا زوال بھی ممکن سا ہو جائے ۔ عبداللہ کی قرأت میں کَا دَ مَكْرُهُمْ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت بھی یہی ہے یہ قصہ نمرود کا ہے جو کنعان کا بادشاہ تھا اس نے اس حیلے سے آسمان کا قبض چاہا تھا اس کے بعد قبطیوں کے بادشاہ فرعون کو بھی یہی خبط سمایا تھا بڑا بلند منارہ تعمیر کرایا تھا لیکن دونوں کی ناتوانی ضعیفی اور عاجزی ظاہر ہو گئی ۔ اور ذلت و خواری پستی و تنزل کے ساتھ حقیر و ذلیل ہوئے ۔ کہتے ہیں کہ جب بخت نصر اس حیلہ سے اپنے تخت کو بہت اونچا لے گیا یہاں تک کہ زمین اور زمین والے اس کی نظروں سے غائب ہو گئے تو اسے ایک قدرتی آواز آئی کہ اے سرکش طاغی کیا ارادہ ہے ؟ یہ ڈر گیا ذرا سی دیر بعد پھر اسے یہی غیب ندا سنائی دی اب تو اس کا پتہ پانی ہو گیا اور جلدی سے نیزہ جھکا کر اترنا شروع کر دیا ۔ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ اور ان کی چالیں ایسی نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں ۔ (۴۶) حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی قرأت میں لِتَزُولُ ہے بدلے میں لِتَزُولَ کے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو نافیہ مانتے ہیں یعنی ان کے مکر پہاڑوں کو زائل نہیں کر سکتے ۔ حسن بصری بھی یہی کہتے ہیں ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس کی توجیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ ان کا شرک و کفر پہاڑوں وغیرہ کو ہٹا نہیں سکتا کوئی ضرر دے نہیں سکتا صرف اس کا وبال انہی کی جانوں پر ہے ۔ میں کہتا ہوں اسی کے مشابہ یہ فرمان الہٰی بھی ہے: وَلاَ تَمْشِ فِى الاٌّرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الاٌّرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً زمین پر اکڑفوں سے نہ چل نہ تو تو زمین کو چیر سکتا ہے نہ پہاڑوں کی بلند کو پہنچ سکتا ہے ۔ (۱۷:۳۷) دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ہے کہ ان کا شرک پہاڑوں کو زائل کر دینے والا ہے ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: تَكَادُ السَّمَـوَتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں (۱۹:۹۰) ضحاک و قتادہ کا بھی یہی قول ہے ۔ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے نبیوں سے وعدہ خلافی کرے گا اللہ بڑا ہی غالب اور بدلہ لینے والا ہے ۔ (۴۷) اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو مقرر اور موکد کر رہا ہے کہ دنیا آخرت میں جو اس نے اپنے رسولوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے وہ کبھی اس کے خلاف کرنے والا نہیں ۔ اس پر کوئی اور غالب نہیں وہ سب پر غالب ہے اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں اس کا چاہا ہو کر رہتا ہے ۔ وہ کافروں سے ان کے کفر کا بدلہ ضرور لے گا يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، قیامت کے دن ان پر حسرت و مایوسی طاری ہو گی ۔اس دن زمین ہو گی لیکن اس کے سوا اور ہوگی اسی طرح آسمان بھی بدل دئے جائیں گے ۔ بخاری و مسلم میں ہے: رسول اللہﷺفرماتے ہیں ایسی سفید صاف زمین پر حشر کئے جائیں گے جیسے میدے کی سفید ٹکیا ہو جس پر کوئی نشان اور اونچ نہ ہو گی ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: سب سے پہلے میں نے ہی اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ اس وقت لوگ کہاں ہوں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایا پل صراط پر ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم نے وہ بات پوچھی کہ میری اُمت میں سے کسی اور نے یہ بات مجھ سے نہیں پوچھی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہی سوال مائی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا آیت وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ (۳۹:۶۷) کے متعلق تھا اور آپ نے یہی جواب دیا تھا ۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ایک یہودی عالم آیا اور اس نے آپ کا نام لے کر سلام علیک کہا میں نے اسے ایسے زور سے دھکا دیا کہ قریب تھا کہ گر پڑے اس نے مجھ سے کہا تو نے مجھے دھکا دیا؟ میں نے کہا بے ادب یا رسول اللہ نہیں کہتا ؟ اور آپ کا نام لیتا ہے اس نے کہا ہم تو جو نام ان کا ان کے گھرانے کے لوگوں نے رکھا ہے اسی نام سے پکاریں گے آپ ﷺنے فرمایا میرے خاندان نے میرا نام محمد ہی رکھا ہے ۔ یہودی نے کہا سنئے میں آپ سے ایک بات دریافت کرنے آیا ہوں آپﷺ نے فرمایا پھر میرا جواب تجھے کوئی نفع بھی دے گا ؟ اس نے کہا سن تو لوں گا آپﷺ کے ہاتھ میں جو تنکا تھا اسے آپ نے زمین پر پھراتے ہوئے فرمایا کہ اچھا دریافت کر لو اس نے کہا سب سے پہلے پل صراط سے پار کون لوگ ہوں گے ؟ فرمایا مہاجرین فقراء اس نے پوچھا انہیں سب سے پہلے تحفہ کیا ملے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ۔ اس نے پوچھا اس کے بعد انہیں کیا غذا ملے گی ؟ فرمایا جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت کے اطراف میں چرتا چگتا رہا تھا ۔ اس نے پوچھا پھر پینے کو کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنتی نہر سلسبیل کا پانی ۔ یہودی نے کہا آپ کے سب جواب بر حق ہیں ۔ اچھا اب میں ایک بات اور پوچھتا ہوں جسے یا تو نبی جانتا ہے یا دنیا کے اور دو ایک آدمی آپ ﷺنے فرمایا کیا میرا جواب تجھے کچھ فائدہ دے گا ؟ اس نے کہا سن تو لوں گا ۔ بچے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں آپ ﷺنے فرمایا مرد کا خاص پانی سفید رنک کا ہوتا ہے اور جب عورت کا خاص پانی زرد رنگ کا ۔ جب یہ دونوں جمع ہوتے ہیں تو اگر مرد کا پانی غالب آ جائے تو بحکم الہٰی لڑکا ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو اللہ کے حکم سے لڑکی ہوتی ہے ۔ یہودی نے کہا بیشک آپ سچے ہیں اور یقیناً آپ اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ پھر وہ وآپس چلا گیا ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے جب مجھ سے سوال کیا مجھے کوئی جواب معلوم نہ تھا لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے جواب سکھا دیا ۔(مسند احمد ) ابن جریر طبری میں ہے کہ یہودی عالم کے پہلے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا اس وقت مخلوق اللہ کی مہمانی میں ہو گی پس اس کے پاس کی چیز ان سے عاجز نہ ہو گی ۔ عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: یہ زمین بدل دی جائے گی اور زمین سفید میدے کی ٹکیا جیسی ہو کی جس میں نہ کوئی خون بہا ہوگا جس پر نہ کوئی خطا ہوئی ہو گی آنکھیں تیز ہوں گی داعی کی آواز کانوں میں ہو گی سب ننگے پاؤں ننگے بدن کھڑے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ پسینہ مثل لگام کے ہو جائے گا حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ایک مرفوع روایت میں ہے: سفید رنگ کی وہ زمین ہو گی جس پر نہ خون کا قطرہ گرا ہوگا نہ اس پر کسی گناہ کا عمل ہوا ہو گا ۔ اسے مرفوع کرنے والا ایک ہی راوی ہے یعنی جریر بن ایوب اور وہ قوی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے: حضور ﷺ نے یہودیوں کے پاس اپنا آدمی بھیجا پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا جانتے ہو میں نے آدمی کیوں بھیجا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ ہی کو علم ہے اور اس کے رسول کو آپ ﷺنے فرمایا آیت يَوْمَ تُبَدَّلُ الاٌّرْضُ کے بارے میں یاد رکھو وہ اس دن چاندی کی طرح سفید ہو گی ۔ جب وہ لوگ آئے آپ نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا کہ سفید ہو گی جیسے میدہ ۔ اور بھی سلف سے مروی ہے کہ چاندی کی زمین ہو گی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آسمان سونے کا ہو گا ۔ ابی فرماتے ہیں وہ باغات بنا ہوا ہو گا ۔ محمد بن قیس کہتے ہیں زمین روٹی بن جائے گی کہ مؤمن اپنے قدموں تلے سے ہی کھا لیں ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ زمین بدل کر روٹی بن جائے گی ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: قیامت کے دن ساری زمین آگ بن جائے گی اس کے پیچھے جنت ہو گی جس کی نعمتیں باہر سے ہی نظر آ رہی ہوں گی لوگ اپنے پسینوں میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ابھی حساب کتاب شروع نہ ہوا ہو گا ۔ انسان کا پسینہ پہلے قدموں میں ہی ہو گا پھر بڑھ کر ناک تک پہنچ جائے گا بوجہ اس سختی اور گھبراہٹ اور خوفناک منظر کے جو اس کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ کعب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: آسمان باغات بن جائیں گے سمندر آگ ہو جائیں گے زمین بدل دی جائے گی ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے : سمندر کا سفر صرف غازی یا حاجی یا عمرہ کرنے والے ہی کریں ۔ کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے یا آگ کے نیچے سمندر ہے ۔ صور کی مشہور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ زمین کو بسیط کر کے عکاظی چمڑے کی طرح کھینچے گا اس میں کوئی اونچ نیچ نظر نہ آئے پھر ایک ہی آواز کے ساتھ تمام مخلوق اس نئی زمین پر پھیل جائے گی وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے رو برو ہونگے۔ (۴۸) پھر ارشاد ہے کہ تمام ہے کہ تمام مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے سامنے رو برو ہو جائے گی وہ اللہ جو اکیلا ہے اور جو ہر چیز پر غالب ہے سب کی گردنیں اس کے سامنے خم ہیں اور سب اس کے تابع فرمان ہیں ۔ وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ آپ اس دن گنہگاروں کو دیکھیں گے کہ زنجیروں میں ملے جلے ایک جگہ جکڑے ہوئے ہوں گے۔ (۴۹) زمین و آسمان بدلے ہوئے ہیں ۔ مخلوق اللہ کے سامنے کھڑی ہے ، اس دن اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم دیکھو گے کہ کفر و فساد کرنے والے گنہگار آپس میں جکڑے بندھے ہوئے ہوں گے ہر ہر قسم کے گنہگار دوسروں سے ملے جلے ہوئے ہوں گے جیسے فرمان ہے: احْشُرُواْ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَأَزْوَجَهُمْ ظالموں کو اور ان کی جوڑ کے لوگوں کو اکٹھا کرو (۳۷:۲۲) اور آیت میں ہے: وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ جب کہ نفس کے جوڑے ملا دئے جائیں ۔ (۸۱:۷) اور جگہ ارشاد ہے: وَإَذَآ أُلْقُواْ مِنْهَا مَكَاناً ضَيِّقاً مُّقَرَّنِينَ دَعَوْاْ هُنَالِكَ ثُبُوراً جب کہ جہنم کے تنگ مکان میں وہ ملے جلے ڈالے جائیں گے تو ہاں وہ موت موت پکاریں گے۔ (۲۵:۱۳) أَصْفَاد کہتے ہیں قید کی زنجیروں کو ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے جنات کی بابت بھی آیت وَءَاخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِى الاٌّصْفَادِ (۳۸:۳۸) میں اصفاد کا لفظ ہے ۔ عمرو بن کلثوم کے شعر میں مصفد زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدی کے معنی میں آیا ہے ۔ سَرَابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرَانٍ وَتَغْشَى وُجُوهَهُمُ النَّارُ ان کے لباس گندھک کے ہونگے اور آگ ان کے چہروں پر چڑھی ہوئی ہوگی۔ (۵۰) جو کپڑے انہیں پہنائے جائیں گے وہ گندھک کے ہوں گے جو اونٹوں کو لگایا جاتا ہے اسے آگ تیزی اور سرعت سے پکڑتی ہے یہ لفظ قَطِرَان بھی ہے قَطُرَان بھی ہے ۔ تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَـلِحُونَ ان کے چہروں کو آگ جھلستی رہے گی اور وہ وہاں بد شکل بنے ہوئے ہونگے (۲۳:۱۰۴) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: پگھلے ہوئے تانبے کو قَطِرَان کہتے ہیں اس سخت گرم آگ جیسے تانبے کے ان دوزخیوں کے لباس ہوں گے ۔ ان کے منہ بھی آپ میں ڈھکے ہوئے ہوں گے چہروں تک آگ چڑھی ہوئی ہو گی ۔ سر سے شعلے بلند ہو رہے ہوں گے ۔ منہ بگڑ گئے ہوں گے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری اُمت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جو ان سے نہ چھوٹیں گے - حسب پر فخر - نسب میں طعنہ زنی - ستاروں سے بارش کی طلبی - میت پر نوحہ کرنے والی نےاگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کر لی تو اسے قیامت کے دن گندھک کا کرتا اور کھجلی کا دوپٹا پہنایا جائے گا ۔ مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ وہ جنت دوزخ کے درمیان کھڑی کی جائے گی گندھک کا کرتا ہوگا اور منہ پر آگ کھیل رہی ہو گی ۔ لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ دے، بیشک اللہ تعالیٰ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگنے کی۔ (۵۱) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے کاموں کا بدلہ دے گا ۔ بروں کی برائیاں سامنے آ جائیں گی ۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ساری مخلوق کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ ممکن ہے یہ آیت بھی مثلاس آیت کے ہو اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بےخبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں (۲۱:۱) یعنی لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا لیکن پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ پھیرے ہوئے ہی ہیں ۔ اور ممکن ہے کہ بندے کے حساب کے وقت کا بیان ہو ۔ لِيَجْزِىَ الَّذِينَ أَسَاءُواْ بِمَا عَمِلُواْ تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے (۵۳:۳۱) یعنی بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ کیونکہ وہ تمام باتوں کا جاننے والا ہے اس پر ایک بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ جیسے ایک ویسے ہی ساری مخلوق ۔ جیسے فرمان ہے: مَّا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَحِدَةٍ تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد کا زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو مارنا اور جلانا ۔ (۳۱:۲۸) یہی معنی مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے ہیں کہ حساب کے احاطے میں اللہ تعالیٰ بہت جلدی کرنے والا ہے ۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں یعنی وقت حساب بھی قریب اور اللہ کو حساب میں دیر بھی نہیں ۔ ادھر شروع ہوا ادھر ختم ہوا هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کر دیئے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں ارشاد ہے کہ یہ قرآن دنیا کی طرف اللہ کا کھلا پیغام ہے جسے اور آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کہلوایا گیا ہے : لاٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ تاکہ میں اس قرآن سے تمہیں بھی ہوشیار کر دوں اور جسے جسے یہ پہنچے (۶:۱۹) یعنی کل انسان اور تمام جنات جیسے اس سورت کے شروع میں فرمایا کہ اس کتاب کو ہم نے ہی تیری طرف نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے ۔ اس قرآن کریم کی غرض یہ ہے کہ لوگ ہوشیار کر دئے جائیں ڈرا دئے جائیں ۔ أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ کہ اللہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں۔ (۵۲) اور اس کی دلیلیں حجتیں دیکھ سن کر پڑھ پڑھا کر تحقیق سے معلوم کر لیں کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور عقلمند لوگ نصیحت و عبرت وعظ و پند حاصل کر لیں ۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |