Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ra'd

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


المر ۚ

المر،

سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آتے ہیں ان کی پوری تشریح سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں ۔ اور یہ بھی ہم کہہ آئے ہیں کہ جس سورت کے اول میں یہ حروف آئے ہیں وہاں عموماً یہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ ۗ وَالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ

یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے

چنانچہ یہاں بھی ان حروف کے بعد فرمایا یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیتیں ہیں ۔

بعض نے کہا مراد کتاب سے توراۃ انجیل ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ۔

 پھر اسی پر عطف ڈال کر اور صفتیں اس پاک کتاب کی بیان فرمائیں کہ یہ سراسر حق ہے اور اللہ کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے ۔

  الْحَقُّ خبر ہے اس کا مبتدا پہلے بیان ہوا ہے یعنی الَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ

لیکن ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ قول یہ ہے کہ واؤ زائد ہے یا عاطفہ ہے صفت کا صفت پر عطف ہے جیسے ہم نے پہلے کہا ہے پھر اسکی شہادت میں شاعر کا قول لائے ہیں۔

وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (۱)

 لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔‏

پھر فرمایا کہ باوجود حق ہونے کے پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں

 اس سے پہلے گزرا ہے:

وَمَآ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ (۱۲:۱۰۳)

گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان قبول کرنے والے نہیں ۔

 یعنی اس کی حقانیت واضح ہے لیکن ان کی ضد ، ہٹ دھری اور سرکشی انہیں ایمان کی طرف متوجہ نہ ہونے دے گی ۔

اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔

کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے ۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھہرایا ۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا ۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے ارد گرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہ کئے ہوے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے ، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے ، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے ۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے ، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے ۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں

جیسے فرمان الہٰی ہے:

اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ مِثْلَهُنَّ (۶۵:۱۲)

اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین ۔

 حدیث شریف میں ہے:

 ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے ۔

 عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔

 بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے ۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے ۔

بعض مفسرین کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے ۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے ۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت وَيُمْسِكُ السَّمَآءَ أَن تَقَعَ عَلَى الاٌّرْضِ إِلاَّ بِإِذْنِهِ (۲۲:۶۵) سے بھی ظاہر ہے

 پس تَرَوْنَهَا اس نفی کی تاکید ہو گی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو ، یہ ہے کمال قدرت ۔

 امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے ، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے

اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار حضرت زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں جن میں ہے

وانت الذی من فصل من ورحمتہ بعثت الی موی رسولا منادیا فقلت لہ فاذہب وہارون فادعوا الی اللہ فرعون الذی کان طاغیا

وقولا لہ ہل انت سویت ہذہ بلا عمدا وثوق ذالک بانیا ولوالا لہ ہل انت سویت وسطہا منیرا انا جنک الیل ہادیا

وقولا لنا من انبت الحب فی الثری فیصبح منہ العشب یفتر دابیا ویخرج منہ حبہ فی روسہ ففی ذالک ایات لمن کان واعیا

تو وہ اللہ ہے جس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی موسیٰ ؑ کو مع ہارون ؑ کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا

اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لئے اس سے کہیں کہ اس بلند وبالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے ؟

اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں ؟

 اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے ؟

کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لئے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے ۔

ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ۖ

پھر وہ عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے

پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستویٰ ہوا ۔

 اس کی تفسیر سورہ اعراف میں گزر چکی ہے ۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے ۔ کیفیت ، تشبیہ ، تعطیل ، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر وبالا ہے۔

وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ

اسی نے سورج اور چاند کو ما تحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے

سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے ۔

جیسے فرمان ہے:

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ  (۳۶:۱۱)

اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا۔

 سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لئے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا ۔ آیات واحادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا ۔ وللہ الحمد والمنہ

صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے ۔ جیسے :

لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ۔ (۴۱:۳۷)

سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔

سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے ۔

 پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے

فرمان ہے:

وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ (۷:۵۴)

سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں ، وہی خلق و امر والا ہے ، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے ۔

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ (۲)

وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وہ اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو۔‏

وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا۔

وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ

اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کر دی ہیں

اوپر کی آیت میں عالم علوی کا بیان تھا ، یہاں علم سفلی کا ذکر ہو رہا ہے ، زمین کو طول عرض میں پھیلا کر اللہ ہی نے بچھایا ہے ۔ اس میں مضبوط پہاڑ بھی اسی کے گاڑے ہوئے ہیں ، اس میں دریاؤں اور چشموں کو بھی اسی نے جاری کیا ہے ۔

وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ

اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کر دیئے

تاکہ مختلف شکل وصورت ، مختلف رنگ ، مختلف ذائقوں کے پھل پھول کے درخت اس سے سیراب ہوں ۔ جوڑا جوڑا میوے اس نے پیدا کئے ، کھٹے میٹھے وغیرہ ۔

يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (۳)

وہ رات کو دن سے چھپا دیتا ہے۔ یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔‏

رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں ، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے ۔ اللہ کی ان نشانیوں ، حکمتوں ، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے ۔

وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ

اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں

زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں ، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو ۔ ایک کی مٹی سرخ ، دوسرے کی سفید ، زرد ، وہ سیاہ ، یہ پتھریلی، وہ نرم ، یہ میٹھی ، وہ شور ۔ ایک ریتلی ، ایک صاف ، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل، خود مختار، مالک الملک ، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود ، نہ پالنے والا ۔

وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ

اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیت ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں، شاخ دار اور بعض ایسے ہیں جو بےشاخ ہیں

زَرْعٌ وَنَخِيلٌ کو اگر جَنَّاتٌ پر عطف ڈالیں تو پیش سے مرفوع پڑھنا چاہئے اور أَعْنَابٍ پر عطف ڈالیں تو زیر سے مضاف الیہ مان کر مجرور پڑھنا چاہئے ۔ ائمہ کی جماعت کی دونوں قرأتیں ہیں ۔

صِنْوَانٌ کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں ۔ غیر صنوالاب جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں ۔ اسی سے انسان کے چچا کو صنوالاب کہتے ہیں

حدیث میں بھی یہ آیا ہے :

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انسان کا چچا مثل باپ کے ہوتا ہے ۔

برا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخ دار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صِنْوَانٌ اور غیر صِنْوَانٌ ہے یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے ۔

يُسْقَى بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ

 سب ایک ہی پانی پلائے جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم ایک کو ایک پر پھلوں میں برتری دیتے ہیں

 سب کے لئے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے ، کوئی میٹھا ہے ، کوئی کھٹا ہے ۔

حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔

 الغرض قسموں اور جنسوں کا اختلاف ، شکل صورت کا اختلاف ، رنگ کا اختلاف ، بو کا اختلاف ، مزے کا اختلاف ، پتوں کا اختلاف ، تروتازگی کا اختلاف ، ایک بہت ہی میٹھا، ایک سخت کڑوا ، ایک نہایت خوش ذائقہ ، ایک بیحد بد مزہ ، رنگ کسی کا زرد ، کسی کا سرخ ، کسی کا سفید ، کسی کا سیاہ ۔

اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف ، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۴)

اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لئے عبرت ہیں ۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے۔ عقل مندوں کے لئے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں ۔

وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ

اگر تجھے تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ کہنا عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہو نگے؟

أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ ان کے جھٹلانے کا کوئی تعجب نہ کریں یہ ہیں ہی ایسے اس قدر نشانیاں دیکھتے ہوئے ، اللہ کی قدرت کا ہمیشہ مطالعہ کرتے ہوئے ، اسے مانتے ہوئے کہ سب کا خالق اللہ ہی ہے پھر بھی قیامت کے منکر ہوتے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر روز مرہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دیتا ہے ۔

 ہر عاقل جان سکتا ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت بڑی ہے ۔ اور دوبارہ پیدا کرنا بہ نسبت اول بار پیدا کرنے کے بہت آسان ہے ۔ جیسے فرمان ربانی ہے:

أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا، وہ یقیناً مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے، کیوں نہ ہو؟ وہ یقیناً ہرچیز پر قادر ہے

بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ (۴۶:۳۳)

بلکہ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے ۔

وَأُولَئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۵)

یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی ہیں جو جہنم کے رہنے والے ہیں جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‏

پس یہاں فرماتا ہے کہ اصل یہ کفار ہیں ، ان کی گردنوں میں قیامت کے دن طوق ہوں گے اور یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ

اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی،

یہ منکرین قیامت کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب جلد ہی کیوں نہیں لاتے ؟ کہتے تھے:

وَقَالُواْ يأَيُّهَا الَّذِى نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ ۔۔۔ وَمَا كَانُواْ إِذًا مُّنظَرِينَ (۱۵:۶،۸)

انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے اگر تو سچا ہی ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا ۔

ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں اور اس وقت وہ مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے

اس کے جواب میں ان سے کہا گیا کہ فرشتے حق کے اور فیصلے کے ساتھ ہی آیا کرتے ہیں ، جب وہ وقت آئے گا اس وقت ایمان لانے یا توبہ کرنے یا نیک عمل کرنے کی فرصت ومہلت نہیں ملے گی ۔

اسی طرح اور آیت میں ہے:

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ ۔۔۔ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (۲۹:۵۳،۵۴)

یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں اگر میری طرف سے مقرر کیا ہوا وقت نہ ہوتا تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکا ہوتا یہ یقینی بات ہے کہ اچانک ان کی بےخبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچے

شتاب (جلد) مانگتے ہیں تجھ سے عذاب۔اور دوزخ گھیر رہی ہے منکروں کو۔

اور آیت میں ہے:

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ (۴۲:۱۸)

 بے ایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار اس سے خوف کھا رہے ہیں اور اسے بر حق جان رہے ہیں ۔

 اسی طرح اور آیت میں فرمان ہےـ

وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (۸:۳۲)

 اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔‏

مطلب یہ ہے کہ اپنے کفر وانکار کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا آنا محال جان کر اس قدر نڈر اور بےخوف ہو گئے تھے کہ عذاب کے اترنے کی آرزو اور طلب کیا کرتے تھے ۔

وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمثلاًتُ ۗ

 یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں

یہاں فرمایا کہ ان سے پہلے کے ایسے لوگوں کی مثالیں ان کے سامنے ہیں کہ کس طرح وہ عذاب کی پکڑ میں آ گئے ۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ (۶)

اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔‏

کہہ دو کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حلم وکرم ہے کہ گناہ دیکھتا ہے اور فورا ًنہیں پکڑتا ورنہ روئے زمین پر کسی کو چلتا پھرتا نہ چھوڑے ،

جیسے اور جگہ فرمایا:

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُواْ مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِن دَآبَّةٍ (۳۵:۴۵)

 اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب دارو گیر فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا

دن رات خطائیں دیکھتا ہے اور درگزر فرماتا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ عذاب پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اس کے عذاب بھی بڑے خطرناک نہایت سخت اور بہت درد دکھ دینے والے ہیں ۔

چنانچہ فرمان ہے:

فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَسِعَةٍ وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (۶:۱۴۷)

اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ تمہارا رب وسیع رحمتوں والا ہے لیکن اس کے آئے ہوئے عذاب گنہگاروں پر سے نہیں ہٹائے جا سکتے۔

اور فرمان ہے:

إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (۷:۱۶۷)

تیرا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ، بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے

 اور آیت میں ہے:

نَبِّىءْ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - وَأَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الاٌّلِيمُ(۱۵:۴۹،۵۰)

میرے بندوں کو خبر کر دے کہ میں غفور رحیم ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے دردناک ہیں ۔

 اسی قسم کی اور بھی بہت سے آیتیں ہیں جن میں امید وبیم ، خوف ولالچ ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔

 ابن ابی حاتم میں ہے :

اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بےپرواہی سے ظلم وزیادتی میں مشغول ہو جاتا ۔

 ابن عساکر میں ہے :

 حسن بن عثمان ابو حسان راوی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں اللہ تعالیٰ عزوجل کا دیدار کیا دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سامنے کھڑے اپنے ایک اُمتی کی شفاعت کر رہے ہیں جس پر فرمان باری ہوا کہ کیا تجھے اتنا کافی نہیں کہ میں نے سورہ رعد میں تجھ پر آیت   وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ

 ابو حسان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ

کافر لوگ ازروئے اعتراض کہا کرتے تھے کہ جس طرح اگلے پیغمبر معجزے لے کر آئے ، یہ پیغمبر کیوں نہیں لائے ؟ مثلاً صفا پہاڑ سونے کا بنا دیتے یا مثلاً عرب کے پہاڑ یہاں سے ہٹ جاتے اور یہاں سبزہ اور نہریں ہو جاتیں ۔

 پس ان کے جواب میں اور جگہ ہے:

وَمَا مَنَعَنَآ أَن نُّرْسِلَ بِالاٌّيَـتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الاٌّوَّلُونَ (۱۷:۵۹)

ہم یہ معجزے بھی دکھا دیتے مگر اگلوں کی طرح ان کی جھٹلانے پر پھر اگلوں جیسے ہی عذاب ان پر آجاتے ۔

إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ

بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں

تو ان کی باتوں سے مغموم ومتفکر نہ ہو جایا کر ، تیرے ذمے تو صرف تبلیغ ہی ہے تو ہادی نہیں ، ان کے نہ ماننے سے تیری پکڑ نہ ہو گی ۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، یہ تیرے بس کی بات نہیں ۔

لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُ (۲:۲۷۲)

انہیں ہدایت پر کھڑا کرنا تیرے ذمے نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالیٰ دیتا ہے جسے چاہتا ہے

وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (۷)

 اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔‏

ہر قوم کے لئے رہبر اور داعی ہے ۔

 یا یہ مطلب ہے کہ ہادی میں ہوں تو تو ڈرانے والا ہے ۔

 اور آیت میں ہے:

وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلاَّ خَلاَ فِيهَا نَذِيرٌ (۳۵:۲۴)

ہر اُمت میں ڈرانے والا گزرا ہے

 اور مراد یہاں ہادی سے پیغمبر ہے ۔

 پس پیشوا رہبر ہر گروہ میں ہوتا ہے ، جس کے علم وعمل سے دوسرے راہ پا سکیں ، اس اُمت کے پیشوا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔

ایک نہایت ہی منکر واہی روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے کے وقت آپ نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کے فرمایا منذر تو میں ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے علی تو ہادی ہے ، میرے بعد ہدایات پانے والے تجھ سے ہدایت پائیں گے ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ اس جگہ ہادی سے مراد قریش کا ایک شخص ہے ۔

جنید کہتے ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ہیں ۔

 ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہادی ہونے کی روایت کی ہے لیکن اس میں سخت نکارت ہے ۔

اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ

مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ تعالیٰ  بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی

اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ تمام جاندار مادہ حیوان ہوں یا انسان ، ان کے پیٹ کے بچوں کا ، ان کے حمل کا ، اللہ کو علم ہے

وَيَعْلَمُ مَا فِى الاٌّرْحَامِ (۳۱:۳۴)

اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے

پیٹ میں کیا ہے ؟

 اسے اللہ بخوبی جانتا ہے یعنی مرد ہے یا عورت ؟

 اچھا ہے یا برا

 نیک ہے یا بد ؟

عمر والا ہے یا بےعمر کا ؟

 چنانچہ ارشاد ہے:

هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُمْ مِّنَ الاٌّرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ (۵۳:۳۲)

وہ بخوبی جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کرتا ہے اور جب کہ تم ماں کے پیٹ میں چھپے ہوئے ہوتے ہو ،

اور فرمان ہے :

يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَـتِكُـمْ خَلْقاً مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِى ظُلُمَـتٍ ثَلَـثٍ (۳۹:۶)

وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے ایک کے بعد دوسری پیدائش میں تین تین اندھیروں میں ۔

 ارشاد ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَـنَ مِن سُلَـلَةٍ مِّن طِينٍ ۔۔۔ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَـلِقِينَ (۲۳:۱۲،۱۴)

یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔

پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا پھر دوسری بناوٹ میں اسے پیدا کر دیا

برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔

بخاری ومسلم کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

 تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے ، پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے ، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کا ایک فرشے کو بھیجتا ہے ، جسے چار باتوں کے لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے ، اس کا رزق عمر عمل اور نیک بد ہونا لکھ لیتا ہے ۔

 اور حدیث میں ہے:

 وہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ مرد ہو گا یا عورت ؟

شق ہو گا یا سعید ؟

 روزی کیا ہے ؟

 عمر کتنی ہے ؟

اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اور وہ لکھ لیتا ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں بجز اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کے اور کوئی نہیں جانتا

- کل کی بات اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔

- پیٹ میں کیا بڑھتا ہے اور کیا گھٹتا ہے کوئی نہیں جانتا ۔

-  بارش کب برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں

-  کون شخص کہاں مرے گا اسے بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔

-  قیامت کب قائم ہو گی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے ۔

 پیٹ میں کیا گھٹتا ہے اس سے مراد حمل کا ساقط ہو جانا ہے اور رحم میں کیا بڑھ رہا ہے کیسے پورا ہو رہا ہے۔ یہ بھی اللہ کو بخوبی علم رہتا ہے ۔ دیکھ لو کوئی عورت دس مہینے لیتی ہے کوئی نو ۔ کسی کا حمل گھٹتا ہے ، کسی کا بڑھتا ہے ۔ نو ماہ سے گھٹنا ، نو سے بڑھ جانا اللہ کے علم میں ہے ۔

کمی سے مراد بعض کے نزدیک ایام حمل میں خون کا آنا اور زیادتی سے مراد نو ماہ سے زیادہ حمل کا ٹھہرا رہنا ہے ۔

 مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نو سے پہلے جب عورت خون کو دیکھے تو نو سے زیادہ ہو جاتے ہیں مثل ایام حیض کے ۔ خون کے گرنے سے بچہ اچھا ہو جاتا ہے اور نہ گرے تو بچہ پورا پاٹھا اور بڑا ہوتا ہے ۔

حضرت مکحول رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں بالکل بےغم ، بےکھٹکے اور باآرام ہوتا ہے ۔ اس کی ماں کے حیض کا خون اس کی غذا ہوتا ہے ، جو بےطلب آرام اسے پہنچتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کو ان دنوں حیض نہیں آتا ۔

پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے زمین پر آتے ہی روتا چلاتا ہے ، اس انجان جگہ سے اسے وحشت ہوتی ہے ، جب اس کی نال کٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی ماں کے سینے میں پہنچا دیتا ہے اور اب بھی بےطلب ، بےجستجو، بےرنج وغم ، بےفکری کے ساتھ اسے روزی ملتی رہتی ہے ۔

 پھر ذرا بڑا ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کھانے پینے لگتا ہے ۔ لیکن بالغ ہوتے ہی روزی کے لئے ہائے ہائے کرنے لگتا ہے ۔ موت اور قتل تک سے روزی حاصل ہونے کا امکان ہو تو پس وپیش نہیں کرتا ۔

 افسوس اے ابن آدم تجھ پر حیرت ہے جس نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں روزی دی ، جس نے تجھے تیری ماں کی گود میں روزی دی جس نے تجھے بچے سے بالغ بنانے تک روزی دی ۔ اب تو بالغ اور عقل مند ہو کر یہ کہنے لگا کہ ہائے کہاں سے کھاؤں گا ؟

 موت ہو یا قتل ہو ؟

 پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔

وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ (۸)

ہرچیز اس کے پاس اندازے سے ہے ۔

ہر چیز اس کے پاس اندازے کے ساتھ موجود ہے رزق اجل سب مقرر شدہ ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی صاحبہ نے آپ کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا بچہ آخری حالت میں ہے ، آپ کا تشریف لانا میرے لئے خوشی کا باعث ہے ۔

 آپ ﷺنے فرمایا جاؤ ان سے کہہ دو کہ وہ اللہ سے ثواب کی امید رکھیں ۔

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ (۹)

ظاہر و پوشیدہ کا وہ عالم ہے (سب سے) بڑا اور (سب سے) بلند وبالا۔‏

اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو بھی جانتا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو بندوں پر ظاہر ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ۔

قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمَا (۶۵:۱۲)

اور اللہ تعالیٰ  نے ہرچیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے ۔‏

وہ سب سے بڑا ۔ وہ ہر ایک سے بلند ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ہے ، تمام سر اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تمام بندے اس کے سامنے عاجز لا چار اور محض بےبس ہیں ۔

سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ (۱۰)+

تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بآواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر و یکساں ہیں۔‏

اللہ کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے ۔ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ،

وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (۲۰:۷)

اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے

یعنی پست اور بلند ہر آواز وہ سنتا ہے چھپا کھلا سب جانتا ہے ۔ تم چھپاؤ یا کھولو اس سے مخفی نہیں ۔

 حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

 وہ اللہ پاک ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیرا ہوا ہے قسم اللہ کی اپنے خاوند کی شکایت لے کر آنے والی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کانا پھوسی کی کہ میں پاس ہی گھر میں بیٹھی ہوئی تھی لیکن میں پوری طرح نہ سن سکی لیکن اللہ تعالیٰ نےیہ  آیتیں اتاریں:

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِى تُجَادِلُكَ فِى زَوْجِهَا ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (۵۸:۱)

یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی،

اللہ تعالیٰ  تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھابیشک اللہ تعالیٰ  سننے دیکھنے والا ہے۔‏

اس عورت کی یہ تمام سرگوشی اللہ تعالیٰ سن رہا تھا ۔ وہ سمیع وبصیر ہے ، جو اپنے گھر کے تہہ خانے میں راتوں کے اندھیرے میں چھپا ہوا ہو وہ اور جو دن کے وقت کھلم کھلا آباد راستوں میں چلا جا رہا ہو وہ علم اللہ میں برابر ہیں ۔

 جیسےاس  آیت میں فرمایا ہے:

أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (۱۱:۵)

یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔

اور آیت میں ارشاد ہوا ہے :

وَمَا تَكُونُ فِى شَأْنٍ وَمَا تَتْلُواْ مِنْهُ مِن قُرْءَانٍ ۔۔۔ وَلا أَكْبَرَ إِلاَّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ  (۱۰:۶۱)

اور آپ کسی حال میں ہوں آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو ا

ور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے

تمہارے کسی کام کے وقت ہم ادھر ادھر نہیں ہوتے ، کوئی ذرہ ہماری معلومات سے خارج نہیں ۔

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ

اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔

اللہ کے فرشتے بطور نگہبان اور چوکیدار کے بندوں کے ارد گرد مقرر ہیں ، جو انہیں آفتوں سے اور تکلیفوں سے بچاتے رہتے ہیں جیسے کہ اعمال پر نگہبان فرشتوں کی اور جماعت ہے ، جو باری باری پے درپے آتے جاتے رہتے ہیں ، رات کے الگ دن کے الگ ۔ اور جیسے کہ دو فرشتے انسان کے دائیں بائیں اعمال لکھنے پر مقرر ہیں ، داہنے والا نیکیاں لکھتا ہے بائیں جانب والا بدیاں لکھتا ہے ۔ اسی طرح دو فرشتے اس کے آگے پیچھے ہیں جو اس کی حفاظت وحراست کرتے رہتے ہیں ۔ پس ہر انسان ہر وقت چار فرشتوں میں رہتا ہے ، دو کاتب اعمال دائیں بائیں دو نگہبانی کرنے والے آگے پیچھے ، پھر رات کے الگ دن کے الگ ۔

چنانچہ حدیث میں ہے:

 تم میں فرشتے پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں ،رات کے اور دن کے ان کا میل صبح اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے رات گزارنے والے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں ۔

 باوجود علم کے اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟

وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم گئے تو انہیں نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ آئے۔

 اور حدیث میں ہے:

 تمہارے ساتھ وہ ہیں جو سوا ئے پاخانے اور جماع کے وقت کے تم سے علیحدہ نہیں ہوتے ۔ پس تمہیں ان کا لحاظ ، ان کی شرم ، ان کا اکرام اور ان کی عزت کرنی چاہئے ۔

 پس جب اللہ کو کوئی نقصان بندے کو پہنچانا منظور ہوتا ہے ۔ بقول ابن عباس محافظ فرشتے اس کام کو ہو جانے دیتے ہیں ۔

 مجاہد کہتے ہیں:

 ہر بندے کے ساتھ اللہ کی طرف سے مؤکل ہے جو اسے سوتے جاگتے جنات سے انسان سے زہریلے جانوروں اور تمام آفتوں سے بچاتا رہتا ہے ہر چیز کو روک دیتا ہے مگر وہ جسے اللہ پہنچانا چاہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 یہ دنیا کے بادشاہوں امیروں وغیرہ کا ذکر ہے جو پہرے چوکی میں رہتے ہیں ۔

 ضحاک فرماتے ہیں کہ سلطان اللہ کی نگہبانی میں ہوتا ہے امر اللہ سے یعنی مشرکین اور ظاہرین سے ۔ واللہ اعلم ۔

 ممکن ہے غرض اس قول سے یہ ہو کہ جیسے بادشاہوں امیروں کی چوکیداری سپاہی کرتے ہیں اسی طرح بندے کے چوکیدار اللہ کی طرف سے مقرر شدہ فرشتے ہوتے ہیں ۔

ایک غریب روایت میں تفسیر ابن جریر میں وارد ہوا ہے:

 حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے دریافت کیا کہ فرمائیے بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں ؟

 آپﷺ نے فرمایا ایک تو دائیں جانب نیکیوں کا لکھنے والا جو بائیں جانب والے پر امیر ہے جب تو کوئی نیکی کرتا ہے وہ ایک کی بجائے دس لکھ لی جاتی ہیں جب تو کوئی برائی کرے تو بائیں جانب والا دائیں والے سے اس کے لکھنے کی اجازت طلب کرتا ہے وہ کہتا ہے ذرا ٹھہر جاؤ شاید یہ توبہ واستغفار کر لے تین مرتبہ وہ اجازت مانگتا ہے تب تک بھی اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ نیکی کا فرشتہ اس سے کہتا ہے اب لکھ لے

 اللہ ہمیں اس سے بچائے یہ تو بڑا برا ساتھی ہے ۔ اسے اللہ کا لحاظ نہیں یہ اس سے نہیں شرماتا ۔

 اللہ کا فرمان ہے:

مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (۵۰:۱۸)

 (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔‏

اور دو فرشتے تیرے آگے پیچھے ہیں

 فرمان الہٰی ہے:

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ  (۱۳:۱۱)

 اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔

اور ایک فرشتہ تیرے ماتھے کا بال تھامے ہوئے ہے جب تو اللہ کے لئے تواضع اور فروتنی کرتا ہے وہ تجھے پست اور عاجز کر دیتا ہے اور دو فرشتے تیرے ہونٹوں پر ہیں ، جو درود تو مجھ پر پڑھتا ہے اس کی وہ حفاظت کرتے ہیں ۔ ایک فرشتہ تیرے منہ پر کھڑا ہے کہ کوئی سانپ وغیرہ جیسی چیز تیرے حلق میں نہ چلی جائے اور دو فرشتے تیری آنکھوں پر ہیں ، پس یہ دس فرشتے ہر بنی آدم کے ساتھ ہیں

 پھر دن کے الگ ہیں ۔ اور رات کے الگ ہیں یوں ہر شخص کے ساتھ بیس فرشتے منجانب اللہ مؤکل ہیں ۔ ادھر بہکانے کے لئے دن بھر تو ابلیس کی ڈیوٹی رہتی ہے اور رات کو اس کی اولاد کی ۔

 مسند احمد میں ہے:

 تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جن ساتھی ہے اور فرشتہ ساتھی ہے

 لوگوں نے کہا آپ کے ساتھ بھی ؟

 فرمایا ہاں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے ، وہ مجھے بھلائی کے سوا کچھ نہیں کہتا  (مسلم )

یہ فرشتے بحکم رب اس کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔

بعض قرأتوں میں مِنْ أَمْرِ اللَّهِ کے بدلے مِنْبأَمْرِ اللَّهِ ہے

 کعب کہتے ہیں :

اگر ابن آدم کے لئے ہر نرم وسخت کھل جائے تو البتہ ہر چیز اسے خود نظر آنے لگے ۔ اور اگر اللہ کی طرف سے یہ محافظ فرشتے مقرر نہ ہوں جو کھانے پینے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو واللہ تم تو اچک لئے جاؤ ۔

 ابو امامہ فرماتے ہیں:

 ہر آدمی کے ساتھ محافظ فرشتہ ہے ، جو تقدیری امور کے سوا اور تمام بلاؤں کو اس سے دفعہ کرتا رہتا ہے ۔

 ایک شخص قبیلہ مراد کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا انہیں نماز میں مشغول دیکھا تو کہا کہ قبیلہ مراد کے آدمی آپ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں آپ پہرہ چوکی مقرر کر لیجئے

 آپ نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے اس کے محافظ مقرر ہیں بغیر تقدیر کے لکھے کے کسی برائی کو انسان تک پہنچنے نہیں دیتے سنو اجل ایک مضبوط قلعہ ہے اور عمدہ ڈھال ہے ۔

 اور کہا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں ۔

جیسے حدیث شریف میں ہے:

 لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ جھاڑ پھونک جو ہم کرتے ہیں کیا اس سے اللہ کی مقرر کی ہوئی تقدیر ٹل جاتی ہے ؟

آپ ﷺنے فرمایا وہ خود اللہ کی مقرر کردہ ہے ۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ۗ

کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ  نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

ابن ابی حاتم میں ہے :

 بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک کی طرف وحی الہٰی ہوئی کہ اپنی قوم سے کہہ دے کہ جس بستی والے اور جس گھر والے اللہ کی اطاعت گزاری کرتے کرتے اللہ کی معصیت کرنے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی راحت کی چیزوں کو ان سے دور کر کے انہیں وہ چیزیں پہنچاتا ہے جو انہیں تکلیف دینے والی ہوں ۔

 اس کی تصدیق قرآن کیاس  آیت سے بھی ہوتی ہے ۔

امام ابن ابی شیبہ کی کتاب صفۃ العرش میں یہ روایت مرفوعاً بھی آئی ہے ۔

وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ (۱۱)

اللہ تعالیٰ  جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ بدلہ نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں۔‏

 عمیر بن عبد الملک کہتے ہیں کہ کوفے کے منبر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ سنایا جس میں فرمایا کہ اگر میں چپ رہتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بات شروع کرتے اور جب میں پوچھتا تو آپ مجھے جواب دیتے ۔ ایک دن آپ نے مجھ سے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 مجھے قسم ہے اپنی عزت وجلال کی اپنی بلندی کی جو عرش پر ہے کہ جس بستی کے جس گھر کے لوگ میری نافرمانیوں میں مبتلا ہوں پھر انہیں چھوڑ کر میرے فرمانبرداری میں لگ جائیں تو میں بھی اپنے عذاب اور دکھ ان سے ہٹا کر اپنی رحمت اور سکھ انہیں عطا فرماتا ہوں ۔

یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے ۔

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ (۱۲)

وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک ڈرانے اور امید دلانے کے لئے دکھاتا ہے اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتا ہے ۔

بجلی بھی اس کے حکم میں ہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا :

برق پانی ہے۔ مسافر اسے دیکھ کر اپنی ایذاء اور مشقت کے خوف سے گھبراتا ہے اور مقیم برکت ونفع کی امید پر رزق کی زیادتی کا لالچ کرتا ہے ،

وہی بوجھل بادوں کو پیدا کرتا ہے جو بوجہ پانی کے بوجھ کے زمین کے قریب آ جاتے ہیں ۔ پس ان میں بوجھ پانی کا ہوتا ہے ۔

وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ

گرج اس کی تسبیح و تعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی، اس کے خوف سے

پھر فرمایا کہ کڑک بھی اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے ۔

ایک اور جگہ ہے :

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ  (۱۷:۴۴)

ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔

ایک حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ بادل پیدا کرتا ہے جو اچھی طرح بولتے ہیں اور ہنستے ہیں ۔

ممکن ہے بولنے سے مراد گرجنا اور ہنسنے سے مراد بجلی کا ظاہر ہونا ہے۔

سعد بن ابراہیم کہتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے اس سے اچھی بولی اور اس سے اچھی ہنسی والا کوئی اور نہیں ۔ اس کی ہنسی بجلی ہے اور اس کی گفتگو گرج ہے ۔

 محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے:

 برق ایک فرشتہ ہے جس کے چار منہ ہیں ایک انسان جیسا ایک بیل جیسا ایک گدھے جیسا ، ایک شیر جیسا ، وہ جب دم ہلاتا ہے تو بجلی ظاہر ہوتی ہے۔

ترمذی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گرج کڑک کو سن کر یہ دعا پڑھتے :

اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ، وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ، وَعَافِنَا قَبْل ذَلِك

اور روایت میں یہ دعا ہے :

سبحان من سبح الرعد بحمدہ

حضرت علی ؓگرج سن کر پڑھتے :

سبحان اللہ الذی یسبح الرعد بحمدہ والملائکتہ من خیفتہ

ابن ابی زکریا فرماتے ہیں جو شخص گرج کڑک سن کریہ  کہے اس پر بجلی نہیں گرے گی ۔

سبحان اللہ وبحمدہ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ گرج کڑک کی آواز سن کر باتیں چھوڑ دیتے اور فرماتے:

سبحان اللہ الذی یسبح الرعد بحمدہ والملائکتہ من خیفتہ

اور فرماتے کہ اس آیت میں اور اس آواز میں زمین والوں کے لئے بہت تنزیر وعبرت ہے ۔

 مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 تمہارا رب العزت فرماتا ہے اگر میرے بندے میری پوری اطاعت کرتے تو راتوں کو بارشیں برساتا اور دن کو سورج چڑھاتا اور انہیں گرج کی آواز تک نہ سناتا ۔

وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ

اور وہی آسمان سے بجلیاں گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے

طبرانی میں ہے:

 آپ فرماتے ہیں گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو ۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑا کا نہیں گرتا ۔ وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے ۔ اسی لئے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی ۔

 مسند کی حدیث میں ہے :

قیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آ کر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری ؟

 وہ کہیں گے فلاں فلاں پر ۔

 ابو یعلی راوی ہیں:

آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک مغرور سردار کے بلانے کو بھیجا اس نے کہا کون رسول اللہ ؟

 اللہ سونے کا ہے یا چاندی کا یا پیتل کا ؟

قاصد واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا کہ دیکھئے میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ متکبر،مغرور شخص ہے۔آپ اسے نہ بلوائیں

 آپ ﷺنے فرمایا دوبارہ جاؤ اور اس سے یہی کہو

 اس نے جا کر پھر بلایا لیکن اس ملعون نے یہی جواب اس مرتبہ بھی دیا۔

قاصد نے واپس آ کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا

آپ ﷺنے تیسری مرتبہ بھیجا

 اب کی مرتبہ بھی اس نے پیغام سن کر وہی جواب دینا شروع کیا کہ ایک بادل اس کے سر پر آ گیا کڑکا اور اس میں سے بجلی گری اور اس کے سر سے کھوپڑی اڑا لی گئی ۔

 اس کے بعد یہ آیت اتری ۔

ایک روایت میں ہے:

 ایک یہودی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تانبے کا ہے یا موتی کا یا یاقوت کا ابھی اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا جو بجلی گری اور وہ تباہ ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔

 قتادہ کہتے ہیں مذکور ہے :

 ایک شخص نے قرآن کو جھٹلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا اسی وقت آسمان سے بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔

 اس آیت کے شان نزول میں عامر بن طفیل اور ازبد بن ربیعہ کا قصہ بھی بیان ہوتا ہے:

یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کو مان لیں گے لیکن اس شرط پر کہ ہمیں آدھوں آدھ کا شریک کر لیں ۔

 آپﷺ نے انہیں اس سے مایوس کر دیا تو عامر ملعون نے کہا واللہ میں سارے عرب کے میدان کو لشکروں سے بھر دوں گا

آپﷺ نے فرمایا تو جھوٹا ہے ، اللہ تجھے یہ وقت ہی نہیں دے گا

 پھر یہ دونوں مدینے میں ٹھہرے رہے کہ موقعہ پا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غفلت میں قتل کر دیں چنانچہ ایک دن انہیں موقع مل گیا ایک نے تو آپ کو سامنے سے باتوں میں لگا لیا دوسرا تلوار تو لے پیچھے سے آ گیا لیکن اس حافظ حقیقی نے آپ کو ان کی شرارت سے بچا لیا ۔

 اب یہاں سے نامراد ہو کر چلے اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے عرب کو آپ کے خلاف ابھارنے لگے اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تو تمام ہو گیا عامر طاعون کی گلٹی سے پکڑا گیا اور اسی میں بلک بلک کر جان دی

 اور اسی جیسوں کے بارے میں یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بجلی گراتا ہے ۔

 اربد کے بھائی لیبد نے اپنے بھائی کے اس واقعہ کو اشعار میں خوب بیان کیا ہے ۔

 اور روایت میں ہے:

 عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟

آپ ﷺنے فرمایا جو سب مسلمانوں کا حال وہی تیرا حال۔

 اس نے کہا پھر تو میں مسلمان نہیں ہوتا ۔ اگر آپ کے بعد اس امر کا والی میں بنوں تو میں دین قبول کرتا ہوں ۔

 آپ ﷺنے فرمایا یہ امر خلافت نہ تیرے لئے ہے نہ تیری قوم کے لئے ہاں ہمارا لشکر تیری مدد پر ہو گا ۔

 اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں اب بھی نجدی لشکر میری پشت پناہی پر ہے مجھے تو کچے پکے کا مالک کر دیں تو میں دین اسلام قبول کر لوں

 آپﷺ نے فرمایا نہیں ۔

 یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے ۔ عامر کہنے لگا واللہ میں مدینے کو چاروں طرف لشکروں سے محصور کر لوں گا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تیرا یہ ارادہ پورا نہیں ہونے دے گا ۔

 اب ان دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باتوں میں لگائے دوسرا تلوار سے آپ کا کام تمام کر دے ۔ پھر ان میں سے لڑے گا کون ؟ زیادہ سے زیادہ دیت دے کر پیچھا چھٹ جائے گا ۔

اب یہ دونوں پھر آپ کے پاس آئے ۔ عامر نے کہا ذرا آپ اٹھ کر یہاں آئیے ۔ میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ اٹھے ، اس کے ساتھ چلے ، ایک دیوار تلے وہ باتیں کرنے لگا ۔ حضور ﷺ بھی کھڑے سن رہے تھے۔ اربد نے موقع پا کر تلوار پر ہاتھ رکھا اسے میان سے باہر نکالنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ شل کر دیا۔ اس سے تلوار نکلی ہی نہیں۔ جب کافی دیر لگ گئی اور اچانک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پشت کی جانب پڑی تو آپ نے یہ حالت دیکھی اور وہاں سے لوٹ کر چلے آئے ۔

اب یہ دونوں مدینے سے چلے حرہ راقم میں آ کر ٹھہرے لیکن حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکالا ، راقم میں پہنچے ہی تھے جو اربد پر بجلی گری اس کا تو وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ عامر یہاں سے بھاگ چلا لیکن دریح میں پہنچا تھا جو اسے طاعون کی گلٹی نکلی ۔ بنو سلول قبیلے کی ایک عورت کے ہاں یہ ٹھہرا ۔ وہ کبھی کبھی اپنی گردن کی گلٹی کو دباتا اور تعجب سے کہتا یہ تو ایسی ہے جیسے اونٹ کی گلٹی ہوتی ہے ، افسوس میں سلولیہ عورت کے گھر پر مروں گا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں اپنے گھر ہوتا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا ، گھوڑا منگوایا ، سوار ہوا اور چل دیا لیکن راستے ہی میں ہلاک ہو گیا

پس ان کے بارے میں یہ آیتیں اللَّهُ يَعْلَمُ سے مِن وَالٍ (۱۳:۸،۱۱)  تک نازل ہوئیں

 ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذکر بھی ہے پھر اربد پر بجلی گرنے کا ذکر ہے

وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ (۱۳)

 کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں اور اللہ سخت قوت والا ہے۔

 اور فرمایا ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ اس کی عظمت وتوحید کو نہیں مانتے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخالفوں اور منکروں کو سخت سزا اور ناقابل برداشت عذاب کرنے والا ہے ۔

 پس یہ آیت مثل آیت کے ہے:

وَمَكَرُواْ مَكْراً وَمَكَرْنَا مَكْر ۔۔۔ أَنَّا دَمَّرْنَـهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (۲۷:۳۰،۳۱)

 انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ۔ اب تو خود دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو غارت کر دیا ۔

 اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔ بہت قوی ہے ، پوری قوت وطاقت والا ہے ۔

لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ

اسی کو پکارنا حق ہے

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے لئے دعوت حق ہے ، اس سے مراد توحید ہے ۔

 محمد بن منکدر کہتے ہیں مراد لا الہ الا اللہ ہے ۔

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ

جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے

إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ

مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں

پھر مشرکوں کافروں کی مثال بیان ہوئی کہ جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں خود بخود پہنچ جائے تو ایسا نہیں ہونے کا ۔ اسی طرح یہ کفار جنہیں پکارتے ہیں اور جن سے امیدیں رکھتے ہیں ، وہ ان کی امیدیں پوری نہیں کرنے کے ۔

 اور یہ مطلب بھی ہے کہ جیسے کوئی اپنی مٹھیوں میں پانی بند کر لے تو وہ رہنے کا نہیں ۔

 پس بَاسِط قابض کے معنی میں ہے ۔عربی شعر میں بھی قابض ماء آیا ہے

وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (۱۴)

ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے ۔

پس جیسے پانی مٹھی میں روکنے والا اور جیسے پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والا پانی سے محروم ہے ، ایسے ہی یہ مشرک اللہ کے سوا دوسروں کو گو پکاریں لیکن رہیں گے محروم ہی دین دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نہ پہنچے گا ۔ ان کی پکار بےسود ہے ۔

وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ  (۱۵) ۩

اللہ ہی کے لئے زمین اور آسمانوں کی سب مخلوق خوشی اور ناخوشی سے سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح شام ۔ سجدہ‏

اللہ تعالیٰ اپنی عظمت وسلطنت کو بیان فرما رہا ہے کہ ہر چیز اس کے سامنے پست ہے اور ہر ایک اس کی سرکار میں اپنی عاجزی کا اظہار کرتی ہے۔ مؤمن خوشی سے اور کافر بزور اس کے سامنے سجدہ میں ہے ۔ ان کی پرچھائیں صبح شام اس کے سامنے جھکتی رہتی ہے ۔

  آصَال  جمع ہے آصیل  کی ۔

 اور آیت میں بھی اس کا بیان ہوا ہے ۔ فرمان ہے:

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ  (۱۶:۴۸)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیںاور وہ عاجزی کرتے ہیں

قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ

آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجئے! اللہ

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ یہ مشرکین بھی اس کے قائل ہیں کہ زمین وآسمان کا رب اور مدبر اللہ ہی ہے ۔

قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ

کہہ دیجئے! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اور کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود بھی اپنی جان کے بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے

اس کے باوجود دوسرے اولیاء کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سب عاجز بندے ہیں ۔ ان کے تو کیا خود اپنے بھی نفع نقصان کا انہیں کوئی اختیار نہیں

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ

کہہ دیجئے کہ اندھا اور بینا برابر ہو سکتا ہے؟ یا کیا اندھیری اور روشنی برابر ہوسکتی ہیں

پس یہ اور اللہ کے عابد یکساں نہیں ہو سکتے ۔ یہ تو اندھیروں میں ہیں اور بندہ رب نور میں ہے ۔ جتنا فرق اندھے میں اور دیکھنے والے میں ہے ، جتنا فرق اندھیروں اور روشنی میں ہے اتنا ہی فرق ان دونوں میں ہے ۔

أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ

کیا جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو،

پھر فرماتا ہے کہ کیا ان مشرکین کے مقرر کردہ شریک اللہ ان کے نزدیک کسی چیز کے خالق ہیں ؟

کہ ان پر تمیز مشکل ہو گئی کہ کسی چیز کا خالق اللہ ہے ؟

 اور کس چیز کے خالق ان کے معبود ہیں ؟

حالانکہ ایسا نہیں اللہ کے مشابہ اس جیسا اس کے برابر کا اور اس کی مثل کا کوئی نہیں ۔ وہ وزیر سے ، شریک سے ، اولاد سے ، بیوی سے ، پاک ہے اور ان سب سے اس کی ذات بلند و بالا ہے۔ یہ تو مشرکین کی پوری بیوقوفی ہے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کا پیدا کیا ہوا ، اس کی مملوک سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک کہ وہ خود تیری ملکیت میں ہے اور جس چیز کا وہ مالک ہے ، وہ بھی دراصل تیری ہی ملکیت ہے ۔

قرآن نے اور جگہ ان کا مقولہ بیان فرمایا ہے:

مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى اللَّهِ زُلْفَى (۳۹:۳)

ہم تو ان کی عبادت صرف اس لالچ میں کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ۔

 ان کے اس اعتقاد کی رگ گردن توڑتے ہوئے ارشاد ربانی ہوا :

وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ (۳۴:۲۳)

اس کے پاس کوئی بھی اس کی اجازت بغیر لب نہیں ہلا سکتا ۔

 آسمانوں کے فرشتے بھی شفاعت اس کی اجازت بغیر کر نہیں سکتے ۔

وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا (۵۳:۲۶)

اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی

سورۃ مریم میں فرمایا:

إِن كُلُّ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ۔۔۔ وَكُلُّهُمْ ءَاتِيهِ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَرْداً (۱۹:۹۳،۹۵)

زمین وآسمان کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے غلام بن کر آنے والی ہے، سب اس کی نگاہ میں اور اس کی گنتی میں ہیں

اور ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے قیامت کے دن حاضری دینے والا ہے ۔

پس جبکہ سب کے سب بندے اور غلام ہونے کی حیثیت میں یکساں ہیں پھر ایک کا دوسرے کی عبادت کرنا بڑی حماقت اور کھلی بے انصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟

قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (۱۶)

کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے۔‏

پھر اس نے رسولوں کا سلسلہ شروع دنیا سے جاری رکھا ۔ ہر ایک نے لوگوں کو سبق یہ دیا کہ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں لیکن انہوں نے نہ اپنے اقرار کا پاس کیا نہ رسولوں کی متفقہ تعلیم کا لحاظ کیا ، بلکہ مخالفت کی ، رسولوں کو جھٹلایا تو کلمہ عذاب ان پر صادق آ گیا ۔ یہ رب کا ظلم نہیں۔

جیسے فرمایا:

وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (۱۸:۴۹)

اور تیرا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا

أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا ۚ

اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہہ نکلےپھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھی جھاگ کو اٹھا لیا

حق وباطل کے فرق ، حق کی پائیداری اور باطل کی بےثباتی کی یہ دو مثالیں بیان فرمائیں ۔

 ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں سے مینہ برساتا ہے ، چشموں دریاؤں نالیوں وغیرہ کے ذریعے برسات کا پانی بہنے لگتا ہے ۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ، کوئی چھوٹی ، کوئی بڑی ۔

 یہ دلوں کی مثال ہے اور ان کے تفاوت کی ۔ کوئی آسمانی علم بہت زیادہ حاصل کرتا ہے کوئی کم ۔

 پھر پانی کی اس رو پر جھاگ تیرنے لگتا ہے ۔ ایک مثال تو یہ ہوئی ۔

وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ ۚ

اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازو سامان کے لئے اسی طرح کی جھاگ ہیں

دوسری مثال سونے چاندی لوہے تانبے کی ہے کہ اسے آگ میں تپایا جاتا ہے سونے چاندی زیور کے لئے لوہا تانبا برتن بھانڈے وغیرہ کے لئے ان میں بھی جھاگ ہوتے ہیں

زَبَدٌ سے مراد شک ہے جو کمتر چیز ہے ،

كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ

اسی طرح اللہ تعالیٰ  حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے

تو جیسے ان دونوں چیزوں کے جھاگ مٹ جاتے ہیں ، اسی طرح باطل جو کبھی حق پر چھا جاتا ہے ، آخر چھٹ جاتا ہے اور حق نتھر آتا ہے

فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ

اب جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلی جاتی ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے۔ وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے

 جیسے پانی نتھر کر صاف ہو کر رہ جاتا ہے اور جیسے چاندی سونا وغیرہ تپا کر کھوٹ سے الگ کر لئے جاتے ہیں ۔ اب سونے چاندی پانی وغیرہ سے تو دنیا نفع اٹھاتی رہتی ہے اور ان پر جو کھوٹ اور جھاگ آ گیا تھا، اس کا نام ونشان بھی نہیں رہتا ۔

كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ (۱۷)

اللہ تعالیٰ  اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ لوگوں کے سمجھانے کے لئے کتنی صاف صاف مثالیں بیان فرما رہا ہے ۔ کہ سوچیں سمجھیں ۔

 جیسے فرمایا ہے:

وَتِلْكَ الاٌّمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَآ إِلاَّ الْعَـلِمُونَ (۲۹:۴۳)

ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے بیان فرماتے ہیں لیکن اسے علماء خوب سمجھتے ہیں ۔

 بعض سلف کی سمجھ میں جو کوئی مثال نہیں آتی تھی تو وہ رونے لگتے تھے کیونکہ انہیں نہ سمجھنا علم سے خالی لوگوں کا وصف ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 پہلی مثال میں بیان ہے ان لوگوں کا جن کے دل یقین کے ساتھ علم الہٰی کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دل وہ بھی ہیں ، جن میں شک باقی رہ جاتا ہے پس شک کے ساتھ کا علم بےسود ہوتا ہے ۔یقین پورا فائدہ دیتا ہے ۔

زَبَدٌ سے مراد شک ہے جو کمتر چیز ہے ، یقین کار آمد چیز ہے ، جو باقی رہنے والی ہے ۔ جیسے زیور جو آگ میں تپایا جاتا ہے تو کھوٹ جل جاتا ہے اور کھری چیز رہ جاتی ہے ، اسی طرح اللہ کے ہاں یقین مقبول ہے شک مردود ہے ۔ پس جس طرح پانی رہ گیا اور پینے وغیرہ کا کام آیا اور جس طرح سونا چاندی اصلی رہ گیا اور اس کے سازو سامان بنے ، اسی طرح نیک اور خالص اعمال عامل کو نفع دیتے ہیں اور باقی رہتے ہیں ۔

 ہدایت وحق پر جو عامل رہے ، وہ نفع پاتا ہے جیسے لوہے کی چھری تلوار بغیر تپائے بن نہیں سکتی ۔ اسی طرح باطل ، شک اور ریاکاری والے اعمال اللہ کے ہاں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ قیامت کے دن باطل ضائع ہو جائے گا ۔ اور اہل حق کو حق نفع دے گا ۔

سورہ بقرہ کے شروع میں منافقوں کی دو مثالیں اللہ رب العزت نے بیان فرمائیں ۔:

پہلی مثال

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّآ أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ (۲:۱۷)

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس آس پاس کی چیزیں روشنی میں آئی ہی تھیں

دوسری مثال

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَـتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ (۲:۲۹)

یا آسمانی برسات کی طرح جس میں اندھیریاں اور گرج اور بجلی ہو،

 ایک پانی کی ایک آگ کی ۔

 سورہ نور میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ایک سراب یعنی ریت کی دوسری سمندر کی تہہ کے اندھیروں کی ۔

پہلی مثال

وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت (سراب) کے ہیں

ریت کا میدان موسم گرما میں دور سے بالکل لہریں لیتا ہوا دردریا کا پانی معلوم ہوتا ہے ۔

چنانچہ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے:

قیامت کے دن یہودیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا مانگتے ہو ؟

 کہیں گے پیاسے ہو رہے ہیں ، پانی چاہئے

 تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر جاتے کیوں نہیں ہو؟

 چنانچہ جہنم انہیں ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں ریتلے میدان ۔

 دوسری مثال میں فرمایا :

أَوْ كَظُلُمَـتٍ فِى بَحْرٍ لُّجِّىٍّ (۲۴:۴۰)

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں

بخاری ومسلم میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

 جس ہدایت وعلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔

 زمین کے ایک حصہ نے تو پانی کو قبول کیا ، گھاس چارہ بکثرت آ گیا ۔

 بعض زمین جاذب تھی ، اس نے پانی کو روک لیا پس اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا ۔ پانی ان کے پینے کے ، پلانے کے ، کھیت کے کام آیا

 اور جو ٹکڑا زمین کا سنگلاخ اور سخت تھا نہ اس میں پانی ٹھہرا نہ وہاں کچھ بیداوار ہوئی ۔

 پس یہ اس کی مثال ہے جس نے دین میں سمجھ حاصل کی اور میری بعثت سے اللہ نے اسے فائدہ پہنچایا اس نے خود علم سیکھا دوسروں کو سکھایا اور مثال ہے اس کی جس نے اس کے لئے سر بھی نہ اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ۔ پس وہ سنگلاخ زمین کی مثل ہے

ایک اور حدیث میں ہے :

میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ نے اپنے آس پاس کی چیزیں روشن کر دیں تو پتنگے اور پروانے وغیرہ کیڑے اس میں گر گر کر جان دینے لگے وہ انہیں ہر چند روکتا ہے لیکن بس پھر بھی وہ برابر گر رہے ہیں

 بالکل یہی مثال میری اور تمہاری ہے کہ میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں روکتا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹو لیکن تم میری نہیں سنتے، نہیں مانتے ، مجھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گرے چلے جاتے ہو ۔

 پس حدیث میں بھی پانی اور آگ کی دونوں مثالیں آ چکی ہیں ۔

لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى ۚ

جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے

نیکوں بدوں کا انجام بیان ہو رہا ہے ۔ اللہ رسول کو ماننے والے ، احکام کے پابند، خبروں پر یقین رکھنے والے تو نیک بدلہ پائیں گے ۔

 ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا :

قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ۔۔۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْراً (۱۸:۸۷،۸۸)

اس نے کہا جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت تر عذاب دے گا

ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے اس کے لئے توبدلے میں بھلائی ہے اور ہم اسے اپنے کام میں بھی آسانی کا حکم دیں گے

 اور آیت میں فرمان ربی ہے:

لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ (۱۰:۲۶)

نیکوں کے لئے نیک بدلہ ہے اور زیادتی بھی ۔

وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ

اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں

پھر فرماتا ہے جو لوگ اللہ کی باتیں نہیں مانتے یہ قیامت کے دن ایسے عذابوں کو دیکھیں گے کہ اگر ان کے پاس ساری زمین بھر کر سونا ہو تو وہ اپنے فدیے میں دینے کے لئے تیار ہو جائیں بلکہ اس جتنا اور بھی ۔ مگر قیامت کے روز نہ فدیہ ہوگا ، نہ بدلہ ، نہ عوض، نہ معاوضہ ۔

أُولَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ (۱۸)

یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہے اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے۔‏

ان سے سخت باز پرس ہو گی ایک ایک چھلکے اور ایک ایک دانے کا حساب لیا جائے گا حساب میں پورے نہ اتریں گے  تو عذاب ہو گا ۔ جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا جو بدترین جگہ ہو گی ۔

أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى ۚ

کیا وہ شخص جو یہ علم رکھتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو

ارشاد ہوتا ہے کہ ایک وہ شخص جو اللہ کے کلام کو جو آپ کی جانب اترا سراسر حق مانا ہو ، سب پر ایمان رکھتا ہو ، ایک کو دوسرے کی تصدیق کرنے والا اور موافقت کرنے والا جانا ہو ، سب خبروں کو سچ جانتا ہو ، سب حکموں کو مانتا ہو ، سب برائیوں کو جانتا ہو ، آپ کی سچائی کا قائل ہو ۔ اور دوسرا وہ شخص جو نابینا ہو ، بھلائی کو سمجھتا ہی نہیں اور اگر سمجھ بھی لے تو مانتا نہ ہو ، نہ سچا جانتا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔

جیسے فرمان ہے :

لاَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآئِزُونَ (۵۹:۲۰)

 اہل نار اور اہل جنت (باہم) برابر نہیں جو اہل جنت میں ہیں وہی کامیاب ہیں (جو اہل نار ہیں وہ ناکام) ہیں ۔‏

یہی فرمان یہاں ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ۔

إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (۱۹)

نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں ہیں جو عقلمند ہوں

بات یہ ہے کہ بھلی سمجھ سمجھ داروں کی ہی ہوتی ہے ۔

الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (۲۰)

جو اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو توڑتے نہیں۔

ان بزرگوں کی نیک صفتیں بیان ہو رہی ہیں اور ان کے بھلے انجام کی خبر دی جا رہی ہے جو آخرت میں جنت کے مالک بنیں گے اور یہاں بھی جو نیک انجام ہیں ۔

وہ منافقوں کی طرح نہیں ہوتے کہ عہد شکنی ، غداری اور بےوفائی کریں ۔ یہ منافق کی خصلت ہے کہ وعدہ کر کے توڑ دیں ۔ جھگڑوں میں گالیاں بکیں ، باتوں میں جھوٹ بولیں ، امانت میں خیانت کریں ۔

وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (۲۱)

اور اللہ نے جن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں‏

صلہ رحمی کا ، رشتہ داروں سے سلوک کرنے کا ، فقیر محتاج کو دینے کا ، بھلی باتوں کے نباہ نے کا ، جو حکم الہٰی ہے یہ اس کے عامل ہیں ۔ رب کا خوف دل میں رکھتے ہوئے فرمان الہٰی سمجھ کر نیکیاں کرتے ہیں ، بدیاں چھوڑتے ہیں ۔ آخرت کے حساب سے ڈرتے ہیں ، اسی لئے برائیوں سے بچتے ہیں ، نیکیوں کی رغبت کرتے ہیں ۔ اعتدال کا راستہ نہیں چھوڑتے ۔

وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ

اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں

ہر حال میں فرمان الہٰی کا لحاظ رکھتے ہیں۔ گو نفس حرام کاموں اور اللہ کی نافرمانیوں کی طرف جانا چاہے لیکن یہ اسے روک لیتے ہیں اور ثواب آخرت یاد دلا کر مرضی مولا رضائے رب کے طالب ہو کر نافرمانیوں سے باز رہتے ہیں ۔

نماز کی پوری حفاظت کرتے ہیں ۔ رکوع ، سجدہ ، قعدہ ، خشوع خضوع شرعی طور بجا لاتے ہیں ۔

وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ

اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں

جنہیں دینا اللہ نے فرمایا ہے انہیں اللہ کی دی ہوئی چیزیں دیتے رہتے ہیں ۔ فقرا، محتاج ، مساکین اپنے ہوں یا غیر ہوں ۔ ان کی برکتوں سے محروم نہیں رہتے ۔ چھپے کھلے ، دن رات ، وقت بےوقت ، برابر راہ للہ خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ قباحت کو احسان سے ، برائی کو بھلائی سے ، دشمنی کو دوستی سے ٹال دیتے ہیں ۔ دوسرا سرکشی کرے یہ نرمی کرتے ہیں ۔ دوسرا سر چڑھے یہ سر جھکا دیتے ہے ۔ دوسروں کے ظلم سہ لیتے ہیں اور خود نیک سلوک کرتے ہیں ۔ تعلیم قرآن ہے:

وَلاَ تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِ۔۔۔ وَمَا يُلَقَّاهَآ إِلاَّ ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (۴۱:۳۴،۳۵)

برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔

اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا

أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (۲۲)

ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔

وہ اچھا انجام اور بہترین گھر جنت ہے جو ہمیشگی والی اور پائیدار ہے ۔

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ

ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیوی اور اولادوں میں سے بھی جو نیکوکار ہونگے

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 جنت کے ایک محل کا نام عدن ہے جس میں بروج اور بالا خانے ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں ، ہر دروازے پر پانچ ہزار فرشتے ہیں ۔ وہ محل مخصوص ہے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے لئے ۔

ضحاک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

 یہ جنت کا شہر ہے جس میں انبیا ہوں گے شہداء ہوں گے اور ہدایت کے ائمہ ہوں گے ۔ ان کے آس پاس اور لوگ ہوں گے اور ان کے اردگرد اور جنتیں ہیں وہاں یہ اپنے اور چہیتوں کو بھی اپنے ساتھ دیکھیں گے ۔ ان کے بڑے باپ دادے ، ان کے چھوٹے بیٹے پوتے ، ان کے جوڑے جو بھی ایماندار اور نیکو کار تھے ان کے پاس ہوں گے اور راحتوں سے مسرور ہوں گے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔

 یہاں تک کہ اگر کسی کے عمل اس درجہ بلند تک پہنچنے کے قابل نہ بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درجے بڑھا دے گا

 جیسے اس آیت میں فرمایا:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ  (۵۲:۲۱)

اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انکی اولاد نے ایمان کے ساتھ انکی پیروی کی تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ان کے عملوں سے ہم کچھ گھٹائیں گے نہیں،

وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (۲۳)

ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے۔‏

جن ایمانداروں کی اولاد ان کی پیروی ایمان میں کرتی ہے ہم انہیں بھی ان کے ساتھ ملا دیتے ہیں ان کے پاس مبارک باد اور سلام کے لئے ہر ہر دروازے سے ہر وقت فرشتے آتے رہتے ہیں یہ بھی اللہ کا انعام ہے تاکہ یہ ہر وقت خوش رہیں اور بشارتیں سنتے رہیں ۔

سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (۲۴)

کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔‏

نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں کا پڑوس ، فرشتوں کا سلام اور جنت الفردوس مقام ۔

مسند کی حدیث میں ہے:

 جانتے بھی ہو کہ سب سے پہلے جنت میں کون جائیں گے ؟

 لوگوں نے کہا اللہ کو علم ہے اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو

فرمایا سب سے پہلے جنتی مساکین مہاجرین ہیں جو دنیا کی لذتوں سے دور تھے جو تکلیفوں میں مبتلا تھے جن کی امنگیں دلوں میں ہی رہ گئیں اور قضا آ گئی۔رحمت کے فرشتوں کو حکم الہٰی ہو گا کہ جاؤ انہیں مبارک باد دو

 فرشتے کہیں گے اللہ ہم تیرے آسمانوں کے رہنے والے تیری بہترین مخلوق ہیں کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم جا کر انہیں سلام کریں اور انہیں مبارک باد پیش کریں

 جناب باری جواب دے گا یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے صرف میری عبادت کی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا دنیوی راحتوں سے محروم رہے مصیبتوں میں مبتلا رہے کوئی مراد پوری ہونے نہ پائی اور یہ صابر و شاکر رہے

 اب تو فرشتے جلدی جلدی بصد شوق ان کی طرف دوڑیں گے ادھر ادھر کے ہر ایک دروازے سے گھسیں گے اور سلام کر کے مبارک پیش کریں گے

طبرانی میں ہے:

 سب سے پہلے جنت میں جانے والے تین قسم کے لوگ ہیں فقراء مہاجرین جو مصیبتوں میں مبتلا رہے ، جب انہیں حکم ملا بجا لاتے رہے ، انہیں ضرورتیں بادشاہوں سے ہوتی تھیں لیکن مرتے دم تک پوری نہ ہوئیں۔

 جنت کو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے سامنے بلائے گا وہ بنی سنوری اپنی تمام نعمتوں اور تازگیوں کے ساتھ حاضر ہو گی اس وقت ندا ہوگی کہ میرے وہ بندے جو میری راہ میں جہاد کرتے تھے ، میری راہ میں ستائے جاتے تھے ، میری راہ میں لڑتے بھڑتے تھے وہ کہاں ہیں ؟

 آؤ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں چلے جاؤ ۔

 اس وقت فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اور عرض کریں گے کہ پروردگار ہم تو صبح شام تیری تسبیح وتقدیس میں لگے رہے یہ کون ہیں جنہیں ہم پر بھی تو نے فضیلت عطا فرمائی ؟

 اللہ رب العزت فرمائے گا یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا میری راہ میں تکلیفیں برداشت کیں ۔

اب تو فرشتے جلدی کر کے ان کے پاس ہر ایک دروازے سے جا پہنچیں گے سلام کریں گے اور مبارک بادیاں پیش کریں گے کہ تمہیں تمہارے صبر کا بدلہ کتنا اچھا ملا ۔

 حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

مؤمن جنت میں اپنے تخت پر با آرام نہایت شان سے تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہو گا خادموں کی قطاریں ادھر ادھر کھڑی ہوں گی جو دروازے والے خادم سے فرشتہ اجازت مانگے گا وہ یکے بعد دیگرے پوچھے گا یہاں تک کہ مؤمن سے پوچھا جائے گا ۔ مؤمن اجازت دے گا کہ اسے آنے دو یونہی ایک دوسرے کو پیغام پہنچائے گا اور آخری خادم فرشتے کو اجازت دے گا اور دروازہ کھول دے گا ۔ وہ آئے گا اور سلام کرے گا اور چلا جائے گا ۔

 ایک روایت میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے آخر پر شہداء کی قبروں پر آتے اور کہتے سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار اور اسی طرح ابوبکر عمر عثمان بھی رضی اللہ عنہم

اس کی سند ٹھیک نہیں

وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ

اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں

وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۙ

اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں،

مؤمنوں کی صفتیں اوپر بیان ہوئیں کہ وہ وعدے کے پورے ، رشتوں ناتوں کے ملانے والے ہوتے ہیں ۔ پھر ان کا اجر بیان ہوا کہ وہ جنتوں کے مالک بنیں گے ۔ اب یہاں ان بدنصیبوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ان کے خلاف خصائل رکھتے تھے نہ اللہ کے وعدوں کا لحاظ کرتے تھے نہ صلہ رحمی اور احکام الہٰی کی پابندی کا خیال رکھتے تھے یہ لعنتی گروہ ہے اور برے انجام والا ہے ۔

 حدیث میں ہے:

منافق کی تین نشانیاں ہیں

-  باتوں میں جھوٹ بولنا ،

-  وعدوں کا خلاف کرنا ،

-  امانت میں خیانت کرنا ۔

 ایک حدیث میں ہے:

 جھگڑوں میں گالیاں بکنا اس قسم کے لوگ رحمت الہٰی سے دور ہیں ان کا انجام برا ہے یہ جہنمی گروہ ہے ۔ ‘

یہ چھ خصلتیں ہوئیں جو منافقین سے اپنے غلبہ کے وقت ظاہر ہوتی ہیں

- باتوں میں جھوٹ ،

- وعدہ خلافی ،

-  امانت میں خیانت ،

-  اللہ کے عہد کو توڑ دینا

-  اللہ کے ملانے کے حکم کی چیزوں کو نہ ملانا ۔

-  ملک میں فساد پھیلانا ۔

 اور یہ دبے ہوئے ہوتے ہیں تب بھی جھوٹ وعدہ خلافی اور خیانت کرتے ہیں ۔

أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (۲۵)

 ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے

جیسے اور جگہ فرمایا:

وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ (۱۳:۱۸)

یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہے اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے۔‏

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ

اللہ تعالیٰ  جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے

اللہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے قادر ہے ، جسے تنگ روزی دینا چاہے قادر ہے ، یہ سب کچھ حکمت وعدل سے ہو رہا ہے ۔

وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ (۲۶)

یہ دنیا کی زندگی میں مست ہوگئے حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت (حقیر) پونجی ہے ۔

کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہو گیا ۔ یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور آہستہ پکڑ کی شروع ہے لیکن انہیں کوئی تمیز نہیں ۔

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ ـ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ (۲۳:۵۵،۵۶)

کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔‏ وہ ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں۔‏

مؤمنوں کو جو آخرت ملنے والی ہے اس کے مقابل تو یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں یہ نہایت ناپائیدار اور حقیر چیز ہے آخرت بہت بڑی اور بہتر چیز

قُلْ مَتَـعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالاٌّخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَى وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِيلاً (۴:۷۷)

آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا۔‏

لیکن عموماً لوگ دینا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ۔

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا ـ وَالاٌّخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (۸۷:۱۶،۱۷)

لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔‏ اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے کوئی سمندر میں ڈبو لے اور دیکھے کہ اس میں کتنا پانی آتا ہے ؟

جتنا یہ پانی سمندر کے مقابلے پر ہے اتنی ہی دنیا آخرت کے مقابلے میں ہے (مسلم )

ایک چھوٹے چھوٹے کانوں والے بکری کے مرے ہوئے بچے کو راستے میں پڑا ہوا دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جیسا یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جن کا یہ تھا اس سے بھی زیادہ بےکار اور ناچیز اللہ کے سامنے ساری دنیا ہے ۔

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ

کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نازل نہیں کیا گیا؟

مشرکین کا ایک اعتراض بیان ہو رہا ہے کہ اگلے نبیوں کی طرح یہ ہمیں ہمارا کہا ہوا کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتا ؟ اس کی پوری بحث کئی بار گزر چکی کہ اللہ کو قدرت تو ہے لیکن اگر پھر بھی یہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا ۔

مشرکین نے یہ بھی کہا:

فَلْيَأْتِنَا بِـَايَةٍ كَمَآ أُرْسِلَ الاٌّوَّلُونَ (۲۱:۵)

ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے

حدیث میں ہے:

 اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی کہ ان کی چاہت کے مطابق میں صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیتا ہوں ، زمین عرب میں میٹھے دریاؤں کی ریل پیل کر دیتا ہوں ، پہاڑی زمین کو زراعتی زمین سے بدل دیتا ہوں لیکن پھر بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو انہیں وہ سزا دوں گا جو کسی کو نہ ہوتی ہو ۔ اگر چاہوں تو یہ کر دوں اور اگر چاہوں تو ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھلا رہنے دوں تو آپ نے دوسری صورت پسند فرمائی ۔

قُلْ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ (۲۷)

جواب دیجئے کہ اللہ جسے گمراہ کرنا چاہے کر دیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکے اسے راستہ دکھا دیتا ہے۔‏

سچ ہے ہدایت ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے وہ کسی معجزے کے دیکھنے پر موقوف نہیں بے ایمانوں کے لئے نشانات اور ڈراوے سب بےسود ہیں جن پر کلمہ عذاب صادق ہو چکا ہے وہ تمام تر نشانات دیکھ کر بھی مان کر نہ دیں گے ہاں عذابوں کو دیکھ تو پورے ایماندار بن جائیں گے لیکن وہ محض بےکار چیز ہے

 فرماتا ہے:

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَآ إِلَيْهِمُ الْمَلَـئِكَةَ ۔۔۔ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ (۶:۱۱۱)

اگر ہم ان پر فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہر چھپی چیز ان کے سامنے ظاہر کر دیتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔

ہاں اگر اللہ چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں اکثر جاہل ہیں ۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (۲۸)

جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے

جو اللہ کی طرف جھکے اس سے مدد چاہے اس کی طرف عاجزی کرے وہ راہ یافتہ ہو جاتا ہے ۔ جن کے دلوں میں ایمان جم گیا ہے جن کے دل اللہ کی طرف جھکتے ہیں ، اس کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، راضی خوشی ہو جاتے ہیں اور فی الواقع ذکر اللہ اطمینان دل کی چیز بھی ہے ۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ (۲۹)

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام بھی کئے ان کے لئے خوشحالی ہے اور بہترین ٹھکانا۔‏

ایمانداروں اور نیک کاروں کے لئے خوشی ، نیک فالی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ ان کا انجام اچھا ہے ، یہ مستحق مبارک باد ہیں یہ بھلائی کو سمیٹنے والے ہیں ان کا لوٹنا بہتر ہے ، ان کا مال نیک ہے ۔

 مروی ہے:

  طُوبَى سے مراد ملک حبش ہے اور نام ہے جنت کا اور اس سے مراد جنت ہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت کی جب پیدائش ہو چکی اس وقت جناب باری نے یہی فرمایا تھا ۔

 کہتے ہیں:

جنت میں ایک درخت کا نام بھی طُوبَى ہے کہ ساری جنت میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ، ہر گھر میں اس کی شاخ موجود ہے ۔

 اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے ، لولو کے دانے سے پیدا کیا ہے اور بحکم الہٰی یہ بڑھا اور پھیلا ہے ۔ اس کی جڑوں سے جنتی شہد ، شراب ، پانی اور دودھ کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔

 ایک مرفوع حدیث میں ہے:

  طُوبَى نامی جنت کا ایک درخت ہے سوا سال کے راستے کا ۔ اسی کے خوشوں سے جنتیوں کے لباس نکلتے ہیں ۔

مسند احمد میں ہے :

 ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس نے آپ کو دیکھ لیا اور آپ پر ایمان لایا اسے مبارک ہو ؟

 آپﷺ نے فرمایا ہاں اسے بھی مبارک ہو ۔ اور اسے دوگنا مبارک ہو جس نے مجھے نہ دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا ۔

 ایک شخص نے پوچھا   طُوبَى کیا ہے ؟

 آپ ﷺنے فرمایا جنتی درخت ہے جو سو سال کی راہ تک پھیلا ہوا ہے جنتیوں کے لباس اس کی شاخوں سے نکلتے ہیں۔

 بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنت میں ایک درخت ہے کہ سوار ایک سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا

 اور روایت میں ہے کہ چال بھی تیز اور سواری بھی تیز چلنے والی۔

صحیح بخاری شریف میں آیت وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ (۵۶:۳۰) کی تفسیر میں بھی یہی ہے ۔

 اور حدیث میں ہے ستر یا سو سال اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ۔

 سدرۃ المنتہی کے ذکر میں آپﷺ نے فرمایا ہے:

 اس کی شاخ کے سائے تلے ایک سو سال تک سوار چلتا رہے گا اور سو سو سوار اس کی ایک ایک شاخ تلے ٹھیر سکتے ہیں ۔ اس میں سونے کی ٹڈیاں ہیں ، اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں ( ترمذی)

آپ فرماتے ہیں ہر جنتی کو طوبیٰ کے پاس لے جائیں گے اور اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس شاخ کو چاہے پسند کرے ۔ سفید ، سرخ ، زرد سیاہ جو نہایت خوبصورت نرم اور اچھی ہوں گی ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں طوبٰی کو حکم ہو گا کہ میرے بندوں کے لئے بہترین لباس وغیرہ ۔

 ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے ۔ رہب رحمۃ اللہ عیہ کہتے ہیں :

جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن راستہ ختم نہ ہوگا ۔ اس کی تروتازگی کھلے ہوئے چمن کی طرح ہے اس کے پتے بہترین اور عمدہ ہیں اس کے خوشے عنبریں ہیں اس کے کنکر یاقوت ہیں اس کی مٹی کافور ہے اس کا گارا مشک ہے اس کی جڑ سے شراب ، دودھ ، اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ۔ اس کے نیچے جنتیوں کی مجلسیں ہوں گی ، یہ بیٹھے ہوئے ہوں گے جو ان کے پاس فرشتے اونٹنیاں لے کر آیئں گے ۔ جن کی زنجریں سونے کی ہوں گی ، جن پر یاقوت کے پالان ہوں گے جن پر سونا جڑاؤ ہو رہا ہوگا جن پر ریشمی جھولیں ہوں گی ۔ وہ اونٹنیاں ان کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ سواریاں تمہیں بھجوائی گئی ہیں اور دربار الہٰی میں تمہارا بلاوا ہے ،

یہ ان پر سوار ہوں گے ، وہ پرندوں کی پرواز سے بھی تیز رفتار ہوں گی ۔ جنتی ایک دوسرے سے مل کر چلیں گے وہ خود بخود ہٹ جائیں گے کہ کسی کو اپنے ساتھی سے الگ نہ ہونا پڑے یونہی رحمٰن و رحیم رب کے پاس پہنچیں گے ۔

 اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردے ہٹا دے گا یہ اپنے رب کے چہرہ کو دیکھیں گے اور کہیں گے

اللہم انت السلام والیک السلام وحق لک الجلال والاکرام

ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ رب العزت فرمائے گا

انا السلام ومنی السلام

تم پر میری رحمت ثابت ہو چکی اور محبت بھی ۔ میرے ان بندوں کو مرحبا ہو جو بن دیکھے مجھ سے ڈرتے رہے میری فرماں برداری کرتے رہے

جنتی کہیں گے باری تعالیٰ نہ تو ہم سے تیری عبادت کا حق ادا ہوا نہ تیری پوری قدر ہوئی ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے سجدہ کریں اللہ

فرمائے گا یہ محنت کی جگہ نہیں نہ عبادت کی یہ تو نعمتوں راحتوں اور مالا مال ہونے کی جگہ ہے ۔ عبادتوں کی تکلیف جاتی رہی مزے لوٹنے کے دن آ گئے جو چاہو مانگو، پاؤ گے ۔ تم میں سے جو شخص جو مانگے میں اسے دوں گا ۔

پس یہ مانگیں گے کم سے کم سوال والا کہے گا کہ اللہ تو نے دنیا میں جو پیدا کیا تھا جس میں تیرے بندے ہائے وائے کر رہے تھے ۔ میں چاہتا ہوں کہ شروع دنیا سے ختم دنیا تک دنیا میں جتنا کچھ تھا مجھے عطا فرما ۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے تو کچھ نہ مانگا اپنے مرتبے سے بہت کم چیز مانگی ، اچھا ہم نے دی ۔ میری بخشش اور دین میں کیا کمی ہے ؟

پھر فرمائے گا جن چیزوں تک میرے ان بندوں کے خیالات کی رسائی بھی نہیں وہ انہیں دو چنانچہ دی جائیں گی یہاں تک کہ ان کی خواہشیں پوری ہو جائیں گی

 ان چیزوں میں جو انہیں یہاں ملیں گی تیز رو گھوڑے ہوں گے ہر چار پر یاقوتی تخت ہو گا ہر تخت پر سونے کا ایک ڈیرا ہو گا ہر ڈیرے میں جنتی فرش ہو گا جن پر بڑی بڑی آنکھوں والی دو دو حوریں ہوں گی جو دو دو حلے پہنے ہوئے ہوں گی جن میں جنت کے تمام رنگ ہوں گے اور تمام خوشبوئیں ۔ ان خیموں کے باہر سے ان کے چہرے ایسے چمکتے ہوں گے گو یا وہ باہر بیٹھی ہیں ان کی پنڈلی کے اندر کا گودا باہر سے نظر آ رہا ہو گا جیسے سرخ یاقوت میں ڈورا پرویا ہوا ہو اور وہ اوپر سے نظر آ رہا ہو۔ ہر ایک دوسری پر اپنی فضیلت ایسی جانتی ہو گی جیسی فضیلت سورج کی پتھر پر اس طرح جنتی کی نگاہ میں بھی دونوں ایسی ہی ہوں گی ۔

 یہ ان کے پاس جائے گا اور ان سے بوس وکنار میں مشغول ہو جائے گا ۔ وہ دونوں اسے دیکھ کر کہیں گی واللہ ہمارے تو خیال میں بھی نہ تھا کہ اللہ تم جیسا خاوند ہمیں دے گا ۔

 اب بحکم الہٰی اسی طرح صف بندی کے ساتھ سواریوں پر یہ واپس ہوں گے اور اپنی منزلوں میں پہنچیں گے ۔ دیکھو تو سہی کہ رب وہاب نے انہیں کیا کیا نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ؟

وہاں بلند درجہ لوگوں میں اونچے اونچے بالا خانوں میں جو نرے موتی کے بنے ہوئے ہوں گے جن کے دروازے سونے کے ہوں گے ، جن کے منبر نور کے ہوں گے جن کی چمک سورج سے بالا تر ہو گی ۔ اعلیٰ علیین میں ان کے محل ہوں گے ۔ یاقوت کے بنے ہوئے ۔ نورانی ۔ جن کے نور سے آنکھوں کی روشنی جاتی رہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں ایسی نہ کر دے گا ۔ جو محلات یاقوت سرخ کے ہوں گے ان میں سبز ریشمی فرش ہوں گے اور جو زمرد و یاقوت کے ہوں گے ان کے فرش سرخ مخمل کے ہوں گے ۔ جو زمرد اور سونے کے جڑاؤ کے ہوں گے ان تختوں کے پائے جواہر کے ہوں گے ، ان پر چھتیں لولو کی ہوں گی ، ان کے برج مرجان کے ہوں گے ۔ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی رحمانی تحفے وہاں پہنچ چکے ہوں گے ۔ سفید یاقوتی گھوڑے غلمان لئے کھڑے ہوں گے جن کا سامان چاندی کا جڑاؤ ہو گا ۔ ان کے تخت پر اعلیٰ ریشمی نرم و دبیز فرش بچھے ہوئے ہوں گے

یہ ان سواریوں پر سوار ہو کر بےتکلف جنت میں جائیں گے دیکھیں گے کہ ان کے گھروں کے پاس نورانی ممبروں پر فرشتے ان کے استقبال کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کا شاندار استقبال کریں گے ۔ ، مبارک باد دیں گے ، مصافحہ کریں گے ، پھر یہ اپنے گھروں میں داخل ہوں گے ۔ انعامات الہٰی وہاں موجود پائیں گے ، اپنے محلات کے پاس وہ جنتیں ہری بھری پائیں گے اور جو پھلی پھولی جن میں دو چشمے پوری روانی سے جاری ہوں گے اور ہر قسم کے جوڑ دار میوے ہوں گے اور خیموں میں پاک دامن بھولی بھالی پردہ نشین حوریں ہوں گی۔

 جب یہ یہاں پہنچ کر راحت وآرام میں ہوں گے اس وقت اللہ رب العزت فرمائے گا میرے پیارے بندو تم نے میرے وعدے سچے پائے ؟

کیا تم میرے ثوابوں سے خوش ہو گئے ؟

وہ کہیں گے اللہ ہم خوب خوش ہو گئے ؟ بہت ہی راضی رضامند ہیں دل سے راضی ہیں کلی کلی کھلی ہوئی ہے تو بھی ہم سے خوش رہ۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر میری رضامندی نہ ہوتی تو میں اپنے اس مہمان خانے میں تمہیں کیسے داخل ہونے دیتا ؟

 اپنا دیدار کیسے کراتا؟

میرے فرشتے تم سے مصافحہ کیوں کرتے ؟

تم خوش رہو باآرام رہو تمہیں مبارک ہو تم پھلو پھولو اور سکھ چین اٹھاؤ میرے یہ انعامات گھٹنے اور ختم ہونے والے نہیں ۔

 اس وقت وہ کہیں گے اللہ ہی کی ذات سزا وار تعریف ہے جس نے ہم سے غم و رنج کو دور کر دیا اور ایسے مقام پر پہنچایا کہ جہاں ہمیں کوئی تکلیف کوئی مشقت نہیں یہ اسی کا فضل ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا اور قدر دان ہے ۔

یہ سیاق غریب ہے اور یہ اثر عجیب ہے ہاں اس کے بعض شواہد بھی موجود ہیں ۔

 چنانچہ صحیین میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے جو سب سے اخیر میں جنت میں جائے گا فرمائے گا مانگ جو مانگتا جائے گا اور اللہ کریم دیتا جائے گا یہاں تک کہ اس کا سوال پوار ہو جائے گا اور پائے گا ۔

 اب اس کے سامنے کوئی خواہش باقی نہیں رہے گی تو اب اللہ تعالیٰ خود اسے یاد دلائے گا کہ یہ مانگ یہ مانگ یہ مانگے گا اور پائے گا ۔

پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب میں نے تجھے دیا اور اتنا ہی اور بھی دس مرتبہ عطا فرمایا ۔

 صحیح مسلم شریف کی قدسی حدیث میں ہے:

اے میرے بندو تمہارے اگلے پچھلے انسان جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے دعائیں کریں اور مانگیں میں ہر ایک کے تمام سوالات پورے کروں گا لیکن میرے ملک میں اتنی بھی کمی نہ آئے گی جتنی کسی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے سمندر کے پانی میں آئے ۔

 خالد بن معدان کہتے ہیں:

 جنت کے ایک درخت کا نام طوبیٰ ہے اس میں تھن ہیں جن سے جنتیوں کے بچے دودھ پیتے ہیں کچے گرے ہوئے بچے جنت کی نہروں میں ہیں قیامت کے قائم ہونے تک پھر چالیس سال کے بن کر اپنے ماں باپ کے ساتھ جنت میں رہیں گے ۔

كَذَلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ

اسی طرح ہم نے آپ کو اس اُمت میں بھیجا جس سے پہلے بہت سی اُمتیں گزر چکی ہیں کہ آپ انہیں ہماری طرف سے جو وحی آپ پر اتری ہے پڑھ کر سنائیے

ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے اس اُمت کی طرف ہم نے تجھے بھیجا کہ تو انہیں کلام الہٰی پڑھ کر سنائے ، اسی طرح تجھ سے پہلے اور رسولوں کو ان اگلی اُمتوں کی طرف بھیجا تھا انہوں نے بھی پیغام الہٰی اپنی اپنی اُمتوں کو پہنچایا مگر انہوں نے جھٹلایا اسی طرح تو بھی جھٹلایا گیا تو تجھے تنگ دل نہ ہونا چاہئے ۔ ہاں ان جھٹلانے والوں کو ان کا انجام دیکھنا چاہئے جو ان سے پہلے تھے کہ عذاب الہٰی نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا پس تیری تکذیب تو ان کی تکذیب سے بھی ہمارے نزدیک زیادہ ناپسند ہے ۔ اب یہ دیکھ لیں کہ ان پر کیسے عذاب برستے ہیں؟

یہی فرمان اس  آیت میں ہے:

تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَآ إِلَى أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ (۱۶:۶۳)

واللہ! ہم نے تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی اپنے رسول بھیجے

 اور آیت ہے :

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ ۔۔۔ وَلَقدْ جَآءَكَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَ (۶:۳۴)

اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا،

ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ کہ ہماری امداد ان کو پہنچی اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔‏

دیکھ لے ہم نے اپنے والوں کی کس طرح امداد فرمائی اور انہیں کیسے غالب کیا ؟

وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ ۚ

یہ اللہ رحمان کے منکر ہیں

تیری قوم کو دیکھ کہ رحمٰن سے کفر کر رہی ہے ۔ وہ اللہ کے وصف اور نام کو مانتی ہی نہیں ۔

حدیبیہ کا صلح نامہ لکھتے وقت اس پر بضد ہو گئے کہ ہم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نہیں لکھنے دیں گے ہم نہیں جانتے کہ رحمٰن اور رحیم کیا ہے ؟

پوری حدیث بخاری میں موجود ہے ۔

قرآن میں ہے:

قُلِ ادْعُواْ اللَّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الاٌّسْمَآءَ الْحُسْنَى (۱۷:۱۱۰)

اللہ کہہ کر اسے پکارو یا رحمٰن کہہ کر جس نام سے پکارو وہ تمام بہترین ناموں والا ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمٰن نہایت پیارے نام ہیں ۔

قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ (۳۰)

آپ کہہ دیجئے کہ میرا پالنے والا تو وہی ہے اس کے سوا درحقیقت کوئی بھی لائق عبادت نہیںاسی کے اوپر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب میرا رجوع ہے۔‏

  فرمایا جس سے تم کفر کر رہے ہو میں تو اسے مانتا ہوں وہی میرا پروردگار ہے میرے بھروسے اسی کے ساتھ ہیں اسی کی جانب میری تمام تر توجہ اور رجوع اور دل کا میل اس کے سوا کوئی ان باتوں کا مستحق نہیں ۔

وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى ۗ

اگر (بالفرض) کے کسی قرآن (آسمانی کتاب) کے ذریعہ پہاڑ چلا دیے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے)،

اللہ تعالیٰ اس پاک کتاب قرآن کریم کی تعریفیں بیان فرما رہا ہے اگر سابقہ کتابوں میں کسی کتاب کے ساتھ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جانے والے اور زمین پھٹ جانے والی اور مردے جی اٹھنے والے ہو تے تو یہ قرآن جو تمام سابقہ کتابوں سے بڑھ چڑھ کر ہے ان سب سے زیادہ اس بات کا اہل تھا اس میں تو وہ معجز بیانی ہے کہ سارے جنات وانسان مل کر بھی اس جیسی ایک سورت نہ بنا کر لا سکے ۔

بَلْ لِلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ

بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے،

یہ مشرکین اس کے بھی منکر ہیں تو معاملہ سپرد رب کرو ۔ وہ مالک کل کہ ، تمام کاموں کا مرجع وہی ہے ، وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا ۔ اس کے بھٹکائے ہوئے کی رہبری اور اس کے راہ دکھائے ہوئے کی گمراہی کسی کے بس میں نہیں ۔

یہ یاد رہے کہ قرآن کا اطلاق اگلی الہامی کتابوں پر بھی ہوتا ہے اس لئے کہ وہ سب سے مشتق ہے ۔

مسند میں ہے:

 حضرت داؤد پر قرآن اس قد رآسان کر دیا گیا تھا کہ ان کے حکم سے سواری کسی جاتی اس کے تیار ہونے سے پہلے ہی وہ قرآن کو ختم کر لیتے ، سوا اپنے ہاتھ کی کمائی کے وہ اور کچھ نہ کھاتے تھے ۔

پس مراد یہاں قرآن سے زبور ہے ۔

أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ

تو کیا ایمان والوں کو اس بات پر دل جمعی نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ  چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے۔

کیا ایماندار اب تک اس سے مایوس نہیں ہوئے کہ تمام مخلوق ایمان نہیں لائے گی ۔ کیا وہ مشیت الہٰی کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں ۔ رب کی یہ منشاہی نہیں اگر ہوتی تو روئے زمین کے لوگ مسلمان ہو جاتے ۔ بھلا اس قرآن کے بعد کس معجزے کی ضرورت دنیا کو رہ گئی ؟

 اس سے بہتر واضح ، اس سے صاف ، اس سے زیادہ دلوں میں گھر کرنے والا اور کون سا کلام ہو گا ؟

 اسے تو اگر بڑے سے بڑے پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ بھی خشیت الہٰی سے چکنا چور ہو جاتا ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ہر نبی کو ایسی چیز ملی کہ لوگ اس پر ایمان لائیں ۔ میری ایسی چیز اللہ کی یہ وحی ہے پس مجھے امید ہے کہ سب نبیوں سے زیادہ تابعداروں والا میں ہو جاؤں گا ۔

 مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ ہی چلے گئے اور میرا یہ معجزہ جیتا جاگتا رہتی دنیا تک رہے گا ، نہ اس کے عجائبات ختم ہوں نہ یہ کثرت تلاوت سے پرانا ہو نہ اس سے علماء کا پیٹ بھر جائے ۔ یہ فضل ہے دل لگی نہیں ۔ جو سرکش اسے چھوڑ دے گا اللہ اسے توڑ دے گا جو اس کے سوا اور میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا ۔

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 کافروں نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر آپ یہاں کے پہاڑ یہاں سے ہٹوا دیں اور یہاں کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے اور جس طرح سیلمان علیہ السلام زمین کی کھدائی ہوا سے کراتے تھے آپ بھی کرا دیجئے یا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے آپ بھی کر دیجئے اس پر یہ آیت اتری

قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قرآن کے ساتھ یہ امور ظاہر ہوتے تو اس تمہارے قرآن کے ساتھ بھی ہوتے سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا تاکہ تم سب کو آزما لے اپنے اختیار سے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ۔ کیا ایمان والے نہیں جانتے ؟

 ایمان دار ان کی ہدایت سے مایوس ہو چکے تھے ۔ ہاں اللہ کے اختیار میں کسی کا بس نہیں وہ اگر چاہے تمام مخلوق کو ہدایت پر کھڑا کر دے ۔

وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ

کفار کو تو انکے کفر کے بدلے ہمیشہ کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا انکے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی تاوقتیکہ وعدہ الہٰی آپہنچے

یہ کفار برابر دیکھ رہے ہیں کہ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے اللہ کے عذاب برابر ان پر برستے رہتے ہیں یا ان کے آس پاس آ جاتے ہیں پھر بھی یہ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟

جیسے فرمان ہے:

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرَى وَصَرَّفْنَا الاٌّيَـتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۴۶:۲۷)

اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیں اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں

یعنی ہم نے تمہارے آس پاس کی بہت سی بستیوں کو ان کی بد کرداریوں کی وجہ سے غارت وبرباد کر دیا اور طرح طرح سے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں کہ لوگ برائیوں سے باز رہیں ۔

 اور آیت میں ہے:

أَفَلاَ يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِى الاٌّرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَآ أَفَهُمُ الْغَـلِبُونَ (۲۱:۴۴)

کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو گھٹاتے چلے آ رہے ہیں کیا اب بھی اپنا ہی غلبہ مانتے چلے جائیں گے ؟

  تَحُلُّ کا فاعل قَارِعَةٌ ہے یہی ظاہر اور مطابق روانی عبارت ہے

 لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قَارِعَةٌ پہنچے یعنی چھوٹا سا لشکر اسلامی یا تو خود ان کے شہر کے قریب اتر پڑے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ وعدہ ربانی آ پہنچے اس سے مراد فتح مکہ ہے ۔

 آپ سے ہی مروی ہے کہ قَارِعَةٌ سے مراد آسمانی عذاب ہے اور آس پاس اترنے سے مراد انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے لشکروں سمیت ان کی حدود میں پہنچ جانا ہے اور ان سے جہاد کرنا ہے ۔

 ان سب کا قول ہے کہ یہاں وعدہ الہٰی سے مراد فتح مکہ ہے ۔ لیکن حسن بصری رحمتۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (۳۱)

یقیناً اللہ تعالیٰ  وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‏

اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں کی نصرت وامداد کا ہے وہ کبھی ٹلنے والا نہیں انہیں اور ان کے تابعداروں کو ضرور بلندی نصیب ہو گی ۔

 جیسے فرمان ہے:

فَلاَ تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ (۱۴:۴۷)

یہ غلط گمان ہرگز نہ کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے ۔ اللہ غالب ہے اور بدلہ لینے والا ۔

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ

یقیناً آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور میں نے بھی کافروں کو ڈھیل دی تھی پھر انہیں پکڑ لیا تھا،

فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ (۳۲)

پس میرا عذاب کیسا رہا ۔

اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کے غلط رویہ سے رنج وفکر نہ کریں آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا بھی یونہی مذاق اڑایا گیا تھا میں نے ان کافروں کو بھی کچھ دیر تو ڈھیل دی تھی آخرش بری طرح پکڑ لیا تھا اور نام ونشان تک مٹا دیا تھا ۔

 تجھے معلوم ہے کہ کس کیفیت سے میرے عذاب ان پر آئے ؟

 اور ان کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟

جیسے فرمان ہے:

وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَـلِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَىَّ الْمَصِيرُ (۲۲:۴۸)

 بہت سی ظلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا، اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے

بخاری ومسلم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے

 پھر آپ نےیہ  آیت تلاوت کی۔

وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ  إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ  (۱۱:۱۰۲)

اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا ًاس کی پکڑ بہت ہی الم ناک اور سخت ہے۔

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ

آیا وہ اللہ جو نگہبانی کرنے والا ہے ہر شخص کی، اس کے کئے ہوئے اعمال پر اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کا محافظ ہے ہر ایک کے اعمال کو جانتا ہے ، ہر نفس پر نگہبان ہے ، ہر عامل کے خیر و شر کے علم سے باخبر ہے۔ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، کوئی کام اس کی بےخبری میں نہیں ہوتا ۔ ہر حالت کا اسے علم ہے ہر عمل پر وہ موجود ہے

وَمَا تَكُونُ فِى شَأْنٍ وَمَا تَتْلُواْ مِنْهُ مِن قُرْءَانٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ (۱۰:۶۱)

اور آپ کسی حال میں ہوں آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو

ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے

وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا (۶:۵۹)

اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے

وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ (۱۱:۶)

ہر جاندار کی روزی اللہ کے ذمے ہے ہر ایک کے ٹھکانے کا اسے علم ہے ہر بات اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے

ظاہر وباطن ہر بات کو وہ جانتا ہے تم جہاں ہو وہاں اللہ تمہارے ساتھ ہے تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے

سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ (۱۳:۱۰)

تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بآواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر و یکساں ہیں۔‏

وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ

ان لوگوں نے اللہ کے شریک ٹھرائے ہیں کہہ دیجئے ذرا ان کے نام تو لو،

ان صفتوں والا اللہ کیا تمہارے ان جھوٹے معبودوں جیسا ہے ؟ جو نہ سنیں ، نہ دیکھیں ، نہ اپنے لئے کسی چیز کے مالک ، نہ کسی اور کے نفع نقصان کا انہیں اختیار ۔

 اس جواب کو حذف کر دیا کیونکہ دلالت کلام موجود ہے ۔

 اور وہ فرمان الہٰی وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ہےانہوں نے اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک ٹھہرایا اور ان کی عبادت کرنے لگے

أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ ۗ

کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں، یا صرف اوپری اوپری باتیں بتا رہے ہو

تم ذرا ان کے نام تو بتاؤ ان کے حالات تو بیان کرو تاکہ دنیا جان لے کہ وہ محض بےحقیقت ہیں کیا تم زمین کی جن چیزوں کی خبر اللہ کو دے رہے ہو جنہیں وہ نہیں جانتا یعنی جن کا وجود ہی نہیں ۔ اس لئے کہ اگر وجود ہوتا تو علم الہٰی سے باہر نہ ہوتا کیونکہ اس پر کوئی مخفی سے مخفی چیز بھی حقیقتاً مخفی نہیں یا صرف اٹکل پچو باتیں بنا رہے ہو ؟ فضول گپ مار رہے ہو

إِنْ هِىَ إِلاَّ أَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم ۔۔۔ وَلَقَدْ جَآءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَى (۵۳:۲۳)

دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے لئے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔

یہ لوگ صرف اٹکل اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔‏

بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (۳۳)

بات اصل یہ ہے کہ کفر کرنے والوں کے لئے انکے مکر سجا دیئے گئے ہیں ، اور جسکو اللہ گمراہ کر دے اس کو راہ دکھانے والا کوئی نہیں ۔

کفار کا مکر انہیں بھلے رنگ میں دکھائی دے رہا ہے وہ اپنے کفر پر اور اپنے شرک پر ہی ناز کر رہے ہیں دن رات اسی میں مشغول ہیں اور اسی کی طرف اوروں کو بلا رہے ہیں

 جیسے فرمایا :

وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ (۴۱:۲۵)

اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے تھے

صُدُّوا کی ایک قرأت اس کی صَدُّوا بھی ہے یعنی انہوں نے اسے اچھا جان کر پھر اوروں کو اس میں پھانسنا شروع کر دیا اور راہ رسول سے لوگوں کو روکنے لگے رب کے گمراہ کئے ہوئے لوگوں کو کون راہ دکھا سکے ؟

 جیسے فرمایا:

وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً (۵:۴۱)

جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو اس کے لئے اللہ کے ہاں کچھ بھی تو اختیار نہیں ۔

اور آیت میں ہے:

إِنْ تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ  (۱۶:۳۷)

اگر تم ان کی ہدایت کی خواہش رکھتے ہو تو (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا ۔

لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ (۳۴)

ان کے لئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیادہ سخت ہے انہیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی بھی نہیں۔‏

کفار کی سزا اور نیک کاروں کی جزا کا ذکر ہو رہا ہے کافروں کا کفر و شرک بیان فرما کر ان کی سزا بیان فرمائی کہ وہ مؤمنوں کے ہاتھوں قتل و غارت ہوں گے ، اس کے ساتھ ہی آخرت کے سخت تر عذابوں میں گرفتار ہوں گے جو اس دنیا کی سزا سے درجہا بدتر ہیں

ملا عنہ کرنے والے میاں بیوی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

 دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہی ہلکا ہے ۔ یہاں کا عذاب فانی وہاں کا باقی اور اس آگ کا عذاب جو یہاں کی آگ سے ستر حصے زیامدہ تیز ہے پھر قید وہ جو تصور میں بھی نہ آ سکے ۔

 جیسے فرمان ہے:

فَيَوْمَئِذٍ لاَّ يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ـ وَلاَ يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (۸۹:۲۵،۲۶)

 پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی نہ ہوگا۔ نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی۔

‏ فرمان ہے :

وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيراً ۔۔۔كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَمَصِيراً (۲۵:۱۱،۱۵)

اور قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔‏ جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو یہ غصے سے بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے

اور جب یہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں مشکیں کس کر پھینک دیئے جائیں گے تو وہاں اپنے لئے موت ہی موت پکاریں گے۔‏(ان سے کہا جائے گا) آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو  

آپ کہہ دیجئے کہ یہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی والی جنت جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے، جو ان کا بدلہ ہے اور ان کے لوٹنے کی اصلی جگہ ہے۔‏

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ

اس جنت کی صفت، جسکا وعدہ پرہیزگاروں کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس کا میوہ ہمیشگی والا ہے اور اس کا سایہ بھی

پھر نیکوں کا انجام بیان فرماتا ہے کہ ان سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اس کی ایک صفت تو یہ ہے کہ اس کے چاروں طرف نہریں جاری ہیں جہاں چاہیں پانی لے جائیں پانی بھی نہ بگڑنے والا پھر دودھ کی نہریں ہیں اور دودھ بہی ایسا جس کا مزہ کبھی نہ بگڑے اور شراب کی نہریں ہیں جس میں صرف لذت ہے۔ نہ بدمزگی ، نہ بےہودہ نشہ ، اور صاف شہد کی نہریں ہیں اور ہر قسم کے پھل ہیں اور ساتھ ہی رب کی رحمت مالک معرفت اس کے پھل ہمیشگی والے اس کی کھانے پینے کی چیزیں کبھی فنا ہونے والی نہیں ۔

مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَآ ۔۔۔ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَتِ وَمَغْفِرَةٌ (۴۷:۱۵)

اس جنت کی صفت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بد بو کرنے والا نہیں اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلہ

اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لئے بڑی لذت ہے اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہیں ان کے لئے ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے،

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھی تھی تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ پچھلے پاؤں پیچھے کو ہٹنے لگے ۔

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں میں نے جنت کو دیکھا تھا اور چاہا تھا کہ ایک خوشہ توڑ لوں اگر لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے ۔

ابو یعلی میں ہے:

 ایک دن ظہر کی نماز میں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ ناگاہ آگے بڑھے اور ہم بھی بڑھے پھر ہم نے دیکھا کہ آپ نے گویا کوئی چیز لینے کا ارادہ کیا پھر آپ پیچھے ہٹ آئے ۔ نماز کے خاتمہ کے بعد حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج تو ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے ہوئے دیکھا کہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا

آپ ﷺنے فرمایا :

ہاں میرے سامنے جنت پیش کی گئی جو تروتازگی سے مہک رہی تھی میں نے چاہا کہ اس میں سے ایک خوشہ انگور کا توڑ لاؤں لیکن میرے اور اس کے درمیان آڑ کر دی گئی اگر میں اسے توڑ لاتا تو تمام دنیا پوری دنیا تک اسے کھاتی رہتی اور پھر بھی ذرا سا بھی کم نہ ہوتا ۔

 ایک دیہاتی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا جنت میں انگور ہوں گے ؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں

اس نے کہا کتنے بڑے خوشے ہوں گے ؟

 فرمایا اتنے بڑے کا اگر کوئی کالا کوا مہینہ بھر اڑتا رہے تو بھی اس خوشے سے آگے نہ نکل سکے ۔

اور حدیث میں ہے کہ جنتی جب کوئی پھل توڑیں گے اسی وقت اس کی جگہ دوسرا لگ جائے گا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنتی خوب کھائیں پئیں گے لیکن نہ تھوک آئے گی نہ ناک آئے گی نہ پیشاب نہ پاخانہ مشک جیسی خوشبو والا پسینہ آئے گا اور اسی سے کھانا ہضم ہو جائے گا ۔ جیسے سانس بےتکلف چلتا ہے اس طرح تسبیح و تقدیس الہام کی جائے گی (مسلم)

ایک اہل کتاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں جنتی کھائیں پئیں گے ؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ ہر شخص کو کھانے پینے ، جماع اور شہوت کی اتنی قوت دی جائے گی جتنی یہاں سو آدمیوں کو مل کر ہو ۔

 اس نے کہا اچھا تو جو کھائے گا پئے گا اسے پیشاب پاخانے کی بھی حاجت لگے گی پھر جنت میں گندگی کیسی ؟

 آپ ﷺنے فرمایا نہیں بلکہ پسینے کے راستے سب ہضم ہو جائے گا اور وہ پسینہ مشک بو ہو گا ۔ (مسند و نسائی)

فرماتے ہیں :

جس پرندے کی طرف کھانے کے ارادے سے جنتی نظر ڈالے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا اس کے سامنے گر پڑے گا

بعض روایتوں میں ہے کہ پھر وہ اسی طرح بحکم الہٰی زندہ ہو کر اڑ جائے گا ،

قرآن میں ہے:

وَفَـكِهَةٍ كَثِيرَةٍ ـ لاَّ مَقْطُوعَةٍ وَلاَ مَمْنُوعَةٍ (۵۶:۳۲،۳۳)

 اور بکثرت پھلوں ہوں گے جو نہ ختم ہوں نہ روک لئے جائیں

اور جگہ ہے:

وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَـلُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلاً (۷۶:۱۴)

ان جنتوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہونگے اور ان کے میوے اور گچھے نیچے لٹکے ہوئے ہونگے۔‏

سائے بھی دائمی ہوں گے جیسے فرمان ہے:

وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّـتٍ تَجْرِى ۔۔۔ وَنُدْخِلُهُمْ ظِـلاًّ ظَلِيلاً (۴:۵۷)

اور جو لوگ ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،

ان کے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

جنت کے ایک درخت کے سائے تلے تیز سواری والا سوار سو سال تک تیز دوڑتا ہوا جائے لیکن پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا ۔

قرآن میں ہے سائے ہیں پھیلے اور بڑھے ہوئے ۔

تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوْا ۖ وَعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ (۳۵)

یہ ہے انجام پرہزگاروں کا اور کافروں کا انجام دوزخ ہے۔‏

عموما ًقرآن کریم میں جنت اور دوزخ کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے تاکہ لوگوں کو جنت کا شوق ہو اور دوزخ سے ڈر لگے یہاں بھی جنت کا اور وہاں کی چند نعمتوں کا ذکر فرما کر فرمایا کہ یہ ہے انجام پرہیزگار اور تقوی شعار لوگوں کا اور کافروں کا انجام جہنم ہے

جیسے فرمان ہے:

لاَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآئِزُونَ (۵۹:۲۰)

 اہل نار اور اہل جنت (باہم) برابر نہیں (۱) جو اہل جنت میں ہیں وہی کامیاب ہیں (جو اہل نار ہیں وہ ناکام) ہیں

خطیب دمشق حضرت بلال بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 اے بندگان رب کیا تمہارے کسی عمل کی قبولیت کا یا کسی گناہ کی معافی کا کوئی پروانہ تم میں سے کسی کو ملا ؟

تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم بےکار پیدا کئے گئے ہو ؟

 اور تم اللہ کے بس میں آنے والے نہیں ہو ؟

واللہ اگر اطاعت ربانی کا بدلہ دنیا میں ہی ملتا تو تم تمام نیکیوں پر جم جاتے۔ کیا تم دنیا پر ہی فریفتہ ہو گئے ہو؟

 کیا اسی کے پیچھے مر مٹو گے ؟

 کیا تمہیں جنت کی رغبت نہیں جس کے پھل اور جس کے سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں (ابن ابی حاتم)

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ ۖ

جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو جو کچھ آپ پر اتارا جاتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں

جو لوگ اس سے پہلے کتاب دئیے گئے ہیں اور وہ اس کے عامل ہیں وہ تو تجھ پر اس قرآن کے اترنے سے شاداں و فرحاں ہو رہے ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں اس کی بشارت اور اس کی صداقت موجود ہے ۔

جیسے آیت میں ہے :

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ (۲:۱۲۱)

جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں

 اگلی کتابوں کو اچھی طور سے پڑھنے اس آخری کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی خبر ہے اور وہ اس وعدے کو پوار دیکھ کر خوشی سے مان لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے وعدے غلط نکلیں اس کے فرمان صحیح ثابت نہ ہوں پس وہ شادماں ہوتے ہوئے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔

قُلْ آمِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُؤْمِنُواْ۔۔۔ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (۱۷:۱۰۷،۱۰۹)

کہہ دیجئے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔

اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے۔

‏وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے ۔

وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَنْ يُنْكِرُ بَعْضَهُ ۚ

اور دوسرے فرقے اس کی بعض باتوں کے منکر ہیں

 ہاں ان جماعتوں میں ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے ، غرض بعض اہل کتاب مسلمان ہیں بعض نہیں ،

قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ

آپ اعلان کر دیجئے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ کروں،

تو اے نبی اعلان کر دے کہ مجھے صرف اللہ واحد کی عبادت کا حکم ملا ہوا ہے کہ دوسرے کی شرکت کے بغیر صرف اسی کی عبادت اس کی ہی توحید کے ساتھ کروں

إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ (۳۶)

میں اسی کی طرف بلا رہا ہوں اور اسی کی جانب میرا لوٹنا ہے۔‏

یہی حکم مجھ سے پہلے کے تمام نبیوں اور رسولوں کو ملا تھا ، اسی راہ کی طرف اسی الہٰی عبادت کی طرف میں تمام دنیا کو دعوت دیتا ہوں ۔ اسی اللہ کی طرف سب کو بلاتا ہوں اور اسی اللہ کی طرف میرا لوٹنا ہے ۔

وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ

اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان اتارا ہے۔

 جس طرح ہم نے تم سے پہلے نبی بھیجے ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں اسی طرح یہ قرآن جو محکم اور مضبوط ہے عربی زبان میں جو تیری اور تیری قوم کی زبان ہے اس قرآن کو ہم نے تجھ پر نازل فرمایا۔ یہ بھی تجھ پر خاص احسان ہے کہ اس واضح اظہار مفصل اور محکم کتاب کے ساتھ تجھے ہم نے نوازا کہ نہ اس کے آگے سے باطل آ سکے نہ اس کے پیچھے سے آ کر اس میں مل سکے یہ حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتری ہے ۔

لاَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلاَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (۴۱:۴۲)

جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے

وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَمَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ (۳۷)

اگر آپ نے ان کی خواہشوں کی پیروی کر لی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو اللہ (کے عذابوں) سے آپ کو کوئی حمایتی ملے گا اور نہ بچانے والا ۔

 اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس الہامی علم آسمانی وحی آ چکی ہے اب بھی اگر تو نے ان کی خواہش کی ماتحتی کی تو یاد رکھ کہ اللہ کے عذابوں سے تجھے کوئی بھی نہ بچا سکے گا ۔ نہ کوئی تیری حمایت پر کھڑا ہوگا ۔

 سنت نبویہ اور طریقہ محمدیہ کے علم کے بعد جو گمراہی والوں کے راستوں کو اختیار کریں ان علماء کے لئے اس آیت میں زبردست وعید ہے ۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ

ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا

ارشاد ہے کہ جیسے آپ باوجود انسان ہونے کے رسول اللہ ہیں ۔ ایسے ہی آپ سے پہلے کے تمام رسول بھی انسان ہی تھے ، کھانا کھاتے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے بیوی ، بچوں والے تھے ۔

 اور آیت میں ہے کہ اے اشرف الرسل آپ لوگوں سے کہہ دیجئے :

إِنَّمَآ أَنَاْ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَىَّ (۸:۱۱۰)

میں بھی تم جیسا ہی ایک انسان ہوں میری طرف وحی الہٰی کی جاتی ہے ۔

 بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

 میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا راتوں کو تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں گوشت بھی کھاتا ہوں اور عورتوں سے بھی ملتا ہوں جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑ لے وہ میرا نہیں ۔

مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے:

چار چیزیں تمام انبیاء کا طریقہ رہیں

- خوشبو لگانا ،

- نکاح کرنا ،

-  مسواک کرنا

-  اور مہندی ،

وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ (۳۸)

کسی رسول سے نہیں ہو سکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے

پھر فرماتا ہے کہ معجزے ظاہر کرنا کسی نبی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ عزوجل کے قبضے کی چیز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے ہر ایک بات مقررہ وقت اور معلوم مدت کتاب میں لکھی ہوئی ہے ، ہر شے کی ایک مقدار معین ہے ۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَآءِ وَالاٌّرْضِ إِنَّ ذلِكَ فِى كِتَـبٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ  (۲۲:۷۰)

کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان و زمین کی ہرچیز اللہ کے علم میں ہے۔ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے ۔

يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ (۳۹)

اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے، لوح محفوظ اسی کے پاس ہے ۔

ہر کتاب کی جو آسمان سے اتری ہے اس کی ایک اجل ہے اور ایک مدت مقرر ہے ان میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے پس اس قرآن سے جو اس نے اپنے رسول صلوات اللہ وسلامہ علیہ پر نازل فرمایا ہے تمام اگلی کتابیں منسوخ ہو گئیں ۔

 اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے سال بھر کے امور مقرر کر دئے لیکن اختیار سے باہر نہیں جو چاہا باقی رکھا جو چاہا بدل دیا ۔ سوائے شقاوت ، سعادت ، حیات و ممات کے ۔ کہ ان سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہونا ۔

 منصور کہتے ہیں:

 میں نے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کا یہ دعا کرنا کیسا ہے کہ الہٰی اگر میرا نام نیکوں میں ہے تو باقی رکھ اور اگر بدوں میں ہے تو اسے ہٹا دے اور نیکوں میں کر دے ۔

 آپ نے فرمایا یہ تو اچھی دعا ہے

 سال بھر کے بعد پھر ملاقات ہوئی یا کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا تھا تو میں نے ان سے یہی بات دریافت کی

 آپ نے آیت إِنَّآ أَنزَلْنَـهُ فِى لَيْلَةٍ مُّبَـرَكَةٍ (۴۴:۳) سے دو آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا لیلۃ القدر میں سال بھر کی روزیاں ، تکلیفیں مقرر ہو جاتی ہیں ۔ پھر جو اللہ چاہے مقدم مؤخر کرتا ہے ، ہاں سعادت شقاوت کی کتاب نہیں بدلتی ۔

 حضرت شفیق بن سلمہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:

 اے اللہ اگر تو نے ہمیں بدبختوں میں لکھا ہے تو اسے مٹار دے اور ہماری گنتی نیکوں میں لکھ لے اور اگر تو نے ہمیں نیک لوگوں میں لکھا ہے تو اسے باقی رکھ تو جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس ہے ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے روتے روتے یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

اللھم ان کنت کتبت علی شقوۃ او ذنبا فامحہ فانک تمحو ما تشاء وتثبت وعندک ام الکتاب فاجعلہ سعادۃ ومغفرۃ

اے اللہ اگر تو نے مجھ پر بدبختی اور گناہ لکھا ہے تو اسے مٹا دے، اس لئے کہ تو جو چاہے مٹائے اور جو چاہے باقی رکھے، تیرے پاس ہی لوح محفوظ ہے، پس تو بدبختی کو سعادت اور مغفرت سے بدل دے

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہی دعا کیا کرتے تھے ۔

 کعب رحمۃ اللہ علیہ نے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر ایک آیت کتاب اللہ میں نہ ہوتی تو میں قیامت تک جو امور ہونے والے ہیں سب آپ کو بتا دیتا

پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے

 آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔

 ان تمام اقوال کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر کی الٹ پلٹ اللہ کے اختیار کی چیز ہے ۔

چنانچہ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہےـ

 بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کر دیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور عمر کی زیادتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں ۔

 نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔

اور صحیح حدیث میں ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ۔

 اور حدیث میں ہے کہ دعا اور قضا دونوں کی مڈ بھیڑ آسمان و زمین کے درمیان ہوتی ہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 اللہ عزوجل کے پاس لوح محفوظ ہے جو پانچ سو سال کے راستے کی چیز ہے سفید موتی کی ہے یاقوت کے دو پٹھوں کے درمیان ۔ تریسٹھ بار اللہ تعالیٰ اس پر توجہ فرماتا ہے ۔ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے اُم الکتاب اسی کے پاس ہے ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 رات کی تین ساعتیں باقی رہنے پر دفتر کھولا جاتا ہے پہلی ساعت میں اس دفتر پر نظر ڈالی جاتی ہے جسے اس کے سوا کوئی اور نہیں دیکھتا پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ۔

 کلبی فرماتے ہیں روزی کو بڑھانا گھٹانا عمر کو بڑھانا گھٹانا اس سے مراد ہے

 ان سے پوچھا گیا کہ آپ سے یہ بات کس نے بیان کی ؟

 فرمایا ابو صالح نے ان سے حضرت جابر بن عبداللہ بن رباب نے ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔

 پھر ان سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو جواب دیا کہ جمعرات کے دن سب باتیں لکھی جاتی ہیں ان میں سے جو باتیں جزا سزا سے خالی ہوں نکال دی جاتی ہیں جیسے تیرا یہ قول کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں آیا میں گیا وغیرہ جو سچی باتیں ہیں اور ثواب عذاب کی چیزیں نہیں اور باقی جو ثواب عذاب کی چیزیں ہیں وہ رکھ لی جاتی ہیں ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو کتابیں ہیں ایک میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اللہ کے پاس ہے اصل کتاب وہی ہے

فرماتے ہیں:

 مراد اس سے وہ شخص ہے جو ایک زمانے تک تو اللہ کی اطاعت میں لگا رہتا ہے پھر معصیت میں لگ جاتا ہے اور اسی پر مرتا ہے پس اس کی نیکی محو ہو جاتی ہے اور جس کے لئے ثابت رہتی ہے ۔ یہ وہ ہے جو اس وقت تو نافرمانیوں میں مشغول ہے لیکن اللہ کی طرف سے ، اس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لئے ثابت رہتی ہے ۔

 سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے نہ بخشے ۔

 ابن عباس کا قول ہے جو چاہتا ہے منسوخ کرتا ہے جو چاہتا ہے تبدیل نہیں کرتا ناسخ کا اختیار اسی کے پاس ہے اور اول بدل بھی ۔

 بقول قتادہ یہ آیت مثل آیت مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ (۲:۱۰۶) کے ہے یعنی جو چاہے منسوخ کر دے جو چاہے باقی اور جاری رکھے ۔

مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 جب اس سے پہلے کی آیت اتری کہ کوئی رسول بغیر اللہ کے فرمان کے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا تو قریش کے کافروں نے کہا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بےبس ہیں کام سے تو فراغت حاصل ہو چکی ہے پس انہیں ڈرانے کے لئے یہ آیت اتری کہ ہم جو چاہیں تجدید کر دیں ہر رمضان میں تجدید ہوتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے روزی بھی تکلیف بھی دیتا ہے اور تقسیم بھی ۔

حسن بصری فرماتے ہیں:

 جس کی اجل آ جائے چل بستا ہے نہ آئی ہو رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے دن پورے کر لے ۔

 ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔

 حلال حرام اس کے پاس ہے کتاب کا خلاصہ اور جڑ اسی کے ہاتھ ہے کتاب خود رب العالمین کے پاس ہی ہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعب سے اُم الکتاب کی بابت دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مخلوق کو اور مخلوق کے اعمال کو جان لیا۔ پھر کہا کہ کتاب کی صورت میں ہو جائے ہو گیا ۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اُم الکتاب سے مراد ذکر ہے ۔

وَإِنْ مَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (۴۰)

ان سے کیے ہوئے وعدوں میں سے کوئی اگر ہم آپ کو دکھا دیں یا آپ کو ہم فوت کرلیں تو آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ حساب تو ہمارے ہی ذمہ ہی ہے۔‏

تیرے دشمنوں پر جو ہمارے عذاب آنے والے ہیں وہ ہم تیری زندگی میں لائیں تو اور تیرے انتقال کے بعد لائے تو تجھے کیا ؟

 تیرا کام تو صرف ہمارے پیغام پہنچا دینا ہے وہ تو کر چکا ۔

 ان کا حساب ان کا بدلہ ہمارے ہاتھ ہے ۔

تو صرف انہیں نصیحت کر دے تو ان پر کوئی داروغہ اور نگہبان نہیں ۔ جو منہ پھیرے گا اور کفر کرے گا اسے اللہ ہی بڑی سزاؤں میں داخل کر دے گا ان کا لوٹنا تو ہماری طرف ہی ہے اور ان کا حساب بھی ہمارے ذمے ہے ۔

فَذَكِّرْ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ۔۔۔ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ (۸۸:۲۱،۲۶)

پس آپ نصیحت کر دیا کریں (کیونکہ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ کچھ ان پر دروغہ نہیں ہیں۔

‏ ہاں! جو شخص روگردانی کرے اور کفر کرے۔‏ اسے اللہ بہت بڑا عذاب دے گا۔

بیشک ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے۔‏ اور بیشک ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ

کیا وہ نہیں دیکھتے؟ کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں

وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (۴۱)

اللہ حکم کرتا ہے کوئی اس کے احکام پیچھے ڈالنے والا نہیں وہ جلد حساب لینے والا ہے۔‏

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تیرے قبضے میں دیتے آ رہے ہیں ؟

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آباد اور عالی شان محل کھنڈر اور ویرانے بنتے جا رہے ہیں ؟

 کیا وہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان کافروں کو دباتے چلے آ رہے

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں خرابیاں آتی جا رہی ہیں ؟

 لوگ مرتے جا رہے ہیں زمین اجڑتی جا رہی ہے ؟

 خود زمین ہی اگر تنگ ہوتی جاتی تو تو انسان کو چھپڑ ڈالنا بھی محال ہو جاتا مقصد انسان کا اور درختوں کا کم ہوتے رہنا ہے ۔

 مراد اس سے زمین کی تنگی نہیں بلکہ لوگوں کی موت ہے علماء فقہا اور بھلے لوگوں کی موت بھی زمین کی بربادی ہے ۔

عرب شاعر کہتا ہے

الارض تحیا اذا ما عاش عالمہا متی یمت عالم منہا یمت طرف

کالارض تحیا اذا ما الغیث حل بہا وان ابی عارفی اکنا فہا التلف

جہاں کہیں جو عالم دین ہے وہاں کی زمین کی زندگی اسی سے ہے ۔ اس کی موت اس زمین کی ویرانی اور خرابی ہے ۔

جیسے کہ بارش جس زمین پر برسے لہلہانے لگتی ہے اور اگر نہ برسے تو سوکھنے اور بنجر ہونے لگتی ہے ۔

 پس آیت میں مراد اسلام کا شرک پر غالب آنا ہے ، ایک کے بعد ایک بستی کو تابع کرنا ہے ۔

 جیسے فرمایا :

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرَى (۴۶:۲۷)

اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیں

یہی قول امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا بھی پسندیدہ ہے ۔

وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا ۖ

ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنی مکاری میں کمی نہ کی تھی، لیکن تمام تدبیریں اللہ ہی کی ہیں،

اگلے کافروں نے بھی اپنے نبیوں کے ساٹھ مکر کیا ، انہیں نکالنا چاہا ، اللہ نے ان کے مکر کا بدلہ لیا ۔ انجام کار پرہیز گاروں کا ہی بھلا ہوا ۔

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ ۔۔۔ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَـكِرِينَ (۸:۳۰)

اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں

اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ۔

اس سے پہلے آپ کے زمانے کے کافروں کی کارستانی بیان ہو چکی ہے کہ وہ آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے یا دیس سے نکال دینے کا مشورہ کر رہے تھے وہ گھات میں تھے اور اللہ ان کی گھات میں تھا ۔ بھلا اللہ سے زیادہ اچھی پوشیدہ تدبیر کس کی ہو سکتی ہے ؟

ان کے مکر پر ہم نے بھی یہی کیا اور یہ بےخبر رہے ۔

وَمَكَرُواْ مَكْراً وَمَكَرْنَا مَكْراً ۔۔۔ أَنَّا دَمَّرْنَـهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (۲۷:۵۰:۵۱)

انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اور وہ اسے سمجھتے ہی نہ تھے ۔(اب) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کر دیا

دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ یہی کہ ہم نے انہیں غارت کر دیا اور ان کی ساری قوم کو برباد کر دیا انکے ظلم کی شہادت دینے والے ان کی غیر آباد بستیوں کے کھنڈرات ابھی موجود ہیں ۔

يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ ۗ وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ (۴۲)

جو شخص جو کچھ کر رہا ہے اللہ کے علم میں ہے کافروں کو ابھی معلوم ہو جائے گا (اس) جہان کی جزا کس کے لئے ہے؟‏

ہر ایک کے ہر ایک عمل سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے پوشیدہ عمل دل کے خوف اس پر ظاہر ہیں ہر عامل کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا

  الْكُفَّارُ کی دوسری قرأت الْكَافِرُ بھی ہے ۔ ان کافروں کو ابھی معلوم ہو جائے گا کہ انجام کار کس کا اچھا رہتا ہے ، ان کا یا مسلمانوں کا ؟

 الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ حق والوں کو ہی غالب رکھا ہے انجام کے اعتبار سے یہی اچھے رہتے ہیں دنیا آخرت انہی کی سنورتی ہے ۔

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ

یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں۔

کافر تجھے جھٹلا رہے ہیں۔ تیری رسالت کے منکر ہیں ۔

قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ (۴۳)

 آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے والا کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔‏

 تو غم نہ کر کہہ دیا کر کہ اللہ کی شہادت کافی ہے۔ تیری نبوت کا وہ خود گواہ ہے ، میری تبلیغ پر ، تمہاری تکذیب پر ، وہ شاہد ہے ۔ میری سچائی ، تمہاری تکذیب کو وہ دیکھ رہا ہے ۔

علم کتاب جس کے پاس ہے اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں رضی اللہ عنہ ۔

 یہ قول حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے لیکن بہت غریب قول ہے اس لئے کہ یہ آیت مکہ شریف میں اتری ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تو ہجرت کے بعد مدینے میں مسلمان ہوئے ہیں ۔

 اس سے زیادہ ظاہر ابن عباس کا قول ہے کہ یہود و نصاریٰ کے حق گو عالم مراد ہیں ہاں ان میں حضرت عبداللہ بن سلام بھی ہیں ، حضرت سلمان اور حضرت تمیم داری وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی ۔

حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ اس سے مراد بھی خود اللہ تعالیٰ ہے۔

حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ اس سے انکاری تھے کہ اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام لئے جائیں کیونکہ یہ آیت مکیہ ہے اور آیت کو من عندہ پڑھتے تھے ۔ یہی قرأت مجاہد اور حسن بصری سے بھی مروی ہے ۔ایک مرفوع حدیث میں بھی قرأت ہے لیکن وہ حدیث ثابت نہیں ۔

 صحیح بات یہی ہے کہ یہ اسم جنس ہے ہر وہ عالم جو اگلی کتاب کا علم ہے اس میں داخل ہے ان کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اور آپ کی بشارت موجود تھی ۔ ان کے نبیوں نے آپ کی بابت پیش گوئی کر دی تھی ۔

جیسے فرمان رب ذی شان ہے:

وَرَحْمَتِى وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ ۔۔۔ فِى التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ (۷:۱۵۶،۱۵۷)

میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے میں اسے ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو متقی ہیں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں ، ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں،

رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں ، جس کا ذکر اپنی کتاب تورات وانجیل میں موجود پاتے ہیں

اور آیت میں ہے:

أَوَلَمْيَكُن لَّهُمْ ءَايَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِى إِسْرَءِيلَ (۲۶:۱۹۷)

کیا یہ بات بھی ان کے لئے کافی نہیں کہ اس کے حق ہونے کا علم علماء بنی اسرائیل کو بھی ہے ۔

 ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے:

 حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل کی مسجد میں جا کر عید منائیں مکے پہنچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں تھے یہ لوگ جب حج سے لوٹے تو آپ سے ملاقات ہوئی اس وقت آپ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ کے پاس تھے یہ بھی مع اپنے ساتھیوں کے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ ہی عبداللہ بن سلام ہیں کہا ہاں فرمایا قریب آؤ جب قریب گئے تو آپ نے فرمایا کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے ؟

 انہوں نے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے

اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حکم دیا کہ کہو قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ  آپ ﷺنے پوری سورت پڑھ سنائی ۔ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا ، مسلمان ہو گئے ، مدینے واپس چلے آئے لیکن اپنے اسلام کو چھپائے رہے ۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے پہنچے اس وقت آپ کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے کھجوریں اتار رہے تھے جو آپ کو خبر پہنچی اسی وقت درخت سے کود پڑے ۔ماں کہنے لگیں کہ اگر حضرت موسیٰ ؑ بھی آ جاتے تو تم درخت سے نہ کودتے ۔ کیا بات ہے؟

 جواب دیا کہ اماں جی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے بھی زیادہ خوشی مجھے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہاں تشریف آوری سے ہوئی ہے ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter