Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Hijr

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


الر ۚ

ا لر،

سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آئے ہیں ان کا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِينٍ (۱)

یہ کتاب الہٰی کی آیتیں ہیں اور کھلی اور روشن قرآن کی ۔‏

آیت میں قرآن کی آیتوں کے واضح اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل ہونے کا بیان فرمایا ہے ۔

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ (۲)

وہ وقت بھی ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے ۔

کافر اپنے کفر پر عنقریب نادم و پشیمان ہوں گے اور مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تمنا کریں گے ۔

 یہ بھی مروی ہے کہ کفار بدر جب جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ دنیا میں مؤمن ہوتے ۔

 یہ بھی ہے کہ ہر کافر اپنی موت کو دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کرتا ہے ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہر کافر کی یہی تمنا ہو گی ۔ جہنم کے پاس کھڑے ہو کر کہیں گے کہ کاش کہ اب ہم واپس دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو نہ تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے نہ ترک ایمان کریں ۔ جہنمی لوگ اوروں کو جہنم سے نکلتے دیکھ کر بھی اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے ۔

 ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:

 گنہگار مسلمانوں کو جہنم میں مشرکوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ روک لے گا تو مشرک ان مسلمانوں سے کہیں گے کہ جس اللہ کی تم دنیا میں عبادت کرتے رہے اس نے تمہیں آج کیا فائدہ دیا؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اور ان مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے کا اس وقت کافر تمنا کریں گے کا کاش وہ بھی دنیا میں مسلمان ہوتے ۔

 ایک روایت میں ہے کہ مشرکوں کے اس طعنے پر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے آزاد کر دو ،۔

طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

  لا الہ الا اللہ کے کہنے والوں میں بعض لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جائیں گے پس لات و عزیٰ کے پجاری ان سے کہیں گے کہ تمہارے لا الہ الا اللہ کہنے نے تمہیں کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اللہ ان سب کو وہاں سے نکال لے گا۔ اور نہر حیات میں غوطہ دے کر انہیں ایسا کر دے گا جیسے چاند گہن سے نکلا ہو ۔ پھر یہ سب جنت میں جائیں گے وہاں انہیں جہنمی کہا جائے گا ۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث سن کر کسی نے کہا کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے ؟

 آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر قصدا ًجھوٹ بولنے والا اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔ باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے ۔

 اور روایت میں ہے:

 مشرک لوگ اہل قبلہ سے کہیں گے کہ تم تو مسلمان تھے پھر تمہیں اسلام نے کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو ۔

وہ جواب دیں گے کہ ہمارے گناہ تھے جن کی پاداش میں ہم پکڑے گئے

اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چھٹکارے کے وقت کفار کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور ان کی طرح جہنم سے چھٹکارا پاتے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر شروع سورت سے لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ تک تلاوت فرمائی ۔

 یہی روایت اور سند سے ہے اس میں اعوذ کے بدلے آیت بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا پڑھنا ہے

اور روایت میں ہے کہ ان مسلمان گنہگاروں سے مشرکین کہیں گے کہ تم تو دینا میں یہ خیال کرتے تھے کہ تم اولیاء اللہ ہو پھر ہمارے ساتھ یہاں کیسے ؟

یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی اجازت دے گا ۔

 پس فرشتے اور نبی اور مؤمن  شفاعت کریں گے اور اللہ انہیں جہنم سے نکالتا جائے گا اس وقت منکر لوگ کہیں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے تو شفاعت سے محروم نہ رہتے اور ان کے ساتھ جہنم سے چھوٹ جاتے ۔

 یہی معنی اس آیت کے ہیں

یہ لوگ جب جنت میں جائیں گے تو ان کے چہروں پر قدرے سیاہی ہو گی اس وجہ سے انہیں جہنمی کہا جاتا ہو گا ۔

پھر یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ لقب بھی ہم سے ہٹا دے پس انہیں جنت کی ایک نہر میں غسل کرنے کا حکم ہو گا اور وہ نام بھی ان سے دور کر دیا جائے گا ۔

ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 بعض لوگوں کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑ لے گی اور بعض کو زانوں تک اور بعض کو گردن تک جیسے جن کے گناہ اور جیسے جن کے اعمال ہوں گے ۔ بعض ایک مہینے کی سزا بھگت کر نکل آئیں گے سب سے لمبی سزا والا وہ ہو گا جو جہنم میں اتنی مدت رہے گا جتنی مدت دنیا کی ہے یعنی دنیا کے پہلے دن سے دنیا کے آخری دن تک ۔ جب ان کے نکالنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کر لے گا اس وقت یہود و نصاریٰ اور دوسرے دین والے جہنمی ان اہل توحید سے کہیں گے کہ تم اللہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے پھر بھی آج ہم اور تم جہنم میں یکساں ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آئے گا کہ ان کی اور کسی بات پر اتنا غصہ نہ آیا تھا پھر ان موحدوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی نہر کے پاس لایا جائے گا ۔

یہ ہے فرمان رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ میں

ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۳)

آپ انہیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئیے یہ خود بھی جان لیں گے ۔

پھر بطور ڈانٹ کے فرماتا ہے کہ انہیں کھاتے پیتے اور مزے کرتے چھوڑ دے آخر تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔

قُلْ تَمَتَّعُواْ فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ (۱۴:۳۰)

آپ کہہ دیجئے کہ خیر مزے کر لو تمہاری باز گشت تو آخر جہنم ہی ہے ۔

اور فرمایا:

كُلُواْ وَتَمَتَّعُواْ قَلِيلاً إِنَّكُمْ مُّجْرِمُونَ (۷۷:۴۶)

(اے جھٹلانے والو) تم دنیا میں تھوڑا سا کھا لو اور فائدہ اٹھالو بیشک تم گنہگار ہو

انہیں ان کی دور دراز کی خواہشیں توبہ کرنے سے ، اللہ کی طرف جھکنے سے غافل رکھیں گی ۔

عنقریب حقیقت کھل جائے گی ۔

وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَعْلُومٌ (۴)

کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لئے مقررہ نوشتہ تھا

اتمام حجت کے بعد ہم کسی بستی کو دلیلیں پہنچانے اور ان کا مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے ہلاک نہیں کرتے ۔

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ (۵)

کوئی گروہ اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا نہ پیچھے رہتا

ہاں جب وقت مقررہ آ جاتا ہے پھر تقدیم تاخیر ناممکن ہے

 اس میں اہل مکہ کی تنبیہ ہے کہ وہ شرک سے الحاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے باز آ جائیں ورنہ مستحق ہلاکت ہو جائیں گے اور اپنے وقت پر تباہ ہو جائیں گے ۔

وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ (۶)

انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے

کافروں کا کفر ، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں ۔

لَوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۷)

اگر تو سچا ہی ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا ۔

اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں ۔

فرعون نے بھی یہی کہا تھا:

فَلَوْلاَ أُلْقِىَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلَـئِكَةُ مُقْتَرِنِينَ (۴۳:۵۳)

اچھا اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں آپڑے یا اس کے ساتھ پر باندھ کر فرشتے ہی آجاتے

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَآءَنَا لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَـئِكَةُ ۔۔۔ وَيَقُولُونَ حِجْراً مَّحْجُوراً (۲۵:۲۱،۲۲)

اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کر لی ہے۔‏

جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے

مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذًا مُنْظَرِينَ (۸)

ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں اور اس وقت وہ مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے

یہاں بھی فرمان ہے کہ ہم فرشتوں کو حق کیساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (۹)

ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔

اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں ، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا ۔

 بعض کہتے ہیں کہ لَهُ کی ضمیر کا مرجع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حافظ وہی ہے

جیسے فرمان ہے:

وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (۵:۶۷)

تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا ۔

 لیکن پہلا معنی اولیٰ ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے ۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ (۱۰)

ہم نے آپ سے پہلے اگلی اُمتوں میں بھی رسول (برابر) بھیجے۔‏

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین دیتا ہے کہ جس طرح لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح آپ سے پہلے کے نبیوں کو بھی وہ جھٹلا چکے ہیں ۔

وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۱۱)

اور (لیکن) جو بھی رسول آتا وہ اس کا مذاق اڑاتے ۔

ہراُمت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوئی ہے اور اسے مذاق میں اڑایا گیا ہے ۔

كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ (۱۲)

گناہگاروں کے دلوں میں ہم اسی طرح ہی رچا دیا کرتے ہیں ۔‏

ضدی اور متکبر گروہ کے دلوں میں بسبب ان کے حد سے بڑھے ہوئے گناہوں کے تکذیب رسول سمو دی جاتی ہے

 یہاں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں ۔ وہ حق کو قبول کرتے ہی نہیں ، نہ کریں۔

لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ (۱۳)

وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور یقیناً اگلوں کا طریقہ گزرا ہوا ہے ۔

اگلوں کی عادت ان کے سامنے ہے جس طرح وہ ہلاک اور برباد ہوئے اور ان کے انبیاء نجات پا گئے اور ایمان دار عافیت حاصل کر گئے ۔ وہی نتیجہ یہ بھی یاد رکھیں ۔ دنیا آخرت کی بھلائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں اور دونوں جہان کی رسوائی نبی کی مخالفت میں ہے ۔

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ (۱۴)

اور اگر ہم ان پر آسمان کا دروازہ کھول بھی دیں اور یہ وہاں چڑھنے بھی لگ جائیں۔‏

ان کی سرکشی ، ضد ، ہٹ ، خود بینی اور باطل پرستی کی تو یہ کیفیت ہے کہ بالفرض اگر ان کے لئے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں وہاں چڑھا دیا جائے

لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ (۱۵)

تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے۔

تو بھی یہ حق کو حق کہہ کر نہ دیں گے بلکہ اس وقت بھی ہانک لگائیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے ، آنکھیں بہکا دی گئی ہیں ، جادو کر دیا گیا ہے ، نگاہ چھین لی گئی ہے ، دھوکہ ہو رہا ہے ، بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ (۱۶)

یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لئے اسے سجا دیا گیا ہے۔‏

اس بلند آسمان کا جو ٹھہرے رہنے والے اور چلنے پھرنے والے ستاروں سے زینت دار ہے ، پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ۔ جو بھی اسے غور و فکر سے دیکھے وہ عجائبات قدرت اور نشانات عبرت اپنے لئے بہت سے پا سکتا ہے ۔ بُرُوج سے مراد یہاں پر ستارے ہیں ۔

جیسے اور آیت میں ہے:

تَبَارَكَ الَّذِى جَعَلَ فِى السَّمَآءِ بُرُوجاً (۲۵:۶۱)

بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے

بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں ،

  عطیہ کہتے ہیں وہ جگہیں جہاں چوکی پہرے ہیں ۔

وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ (۱۷)

اور اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھا ہے

اور جہاں سے سرکش شیطانوں پر مار پڑتی ہے کہ وہ بلند و بالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں ۔ جو آگے بڑھتا ہے ، شعلہ اس کے جلانے کو لپکتا ہے۔

إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ (۱۸)

ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دھکتا ہوا (کھلا شعلہ) لگتا ہے ۔

کبھی تو نیچے والے کے کان میں بات ڈالنے سے پہلے ہی اس کا کام ختم ہو جاتا ہے ، کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے

 جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتاً مروی ہے :

جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر ۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہو جاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند و بالا اور بہت بڑا ہے ۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لئے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے ۔

راوی حدیث حضرت صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی ۔

شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے ۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آ جائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہو جائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلا دیتا ہے ۔ جب اس کی وہ ایک بات جو آسمان سے اسے اتفاقا ًپہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا ۔

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ (۱۹)

اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر (اٹل) پہاڑ ڈال دیئے، اور اس میں ہم نے ہرچیز ایک معین مقدار سے اُگادی۔‏

پھر اللہ تعالیٰ زمین کا ذکر فرماتا ہے کہ کہ اسی نے اسے پیدا کیا ، پھیلایا ، اس میں پہاڑ بنائے ، جنگل اور میدان قائم کئے ، کھیت اور باغات اور تمام چیزیں اندازے ، مناسبت اور موزونیت کے ساتھ ہر ایک موسم ، ہر ایک زمین ، ہر ایک ملک کے لحاظ سے بالکل ٹھیک پیدا کیں جو بازار کی زینت اور لوگوں کے لئے خوشگوار ہیں ۔

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ (۲۰)

اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنادی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو ۔‏

 زمین میں قسم قسم کی معیشت اس نے پیدا کر دیں اور انہیں بھی پیدا کیا جن کے روزی رساں تم نہیں ہو ۔ یعنی چوپائے اور جانور لونڈی غلام وغیرہ ۔

پس قسم قسم کی چیزیں ، قسم قسم کے اسباب ، قسم قسم کی راحت ، ہر طرح کے آرام ، اس نے تمہارے لئے مہیا کر دئیے ۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کر دیا تاکہ کھاؤ بھی ، سواریاں بھی کرو، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو ۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے ۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے فسبحانہ اعظم شانہ ۔

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (۲۱)

اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ہرچیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں۔‏

تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ ہر کام اس پر آسان ہے ۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں ۔ جتنا ، جب اور جہاں چاہتا ہے ، نازل فرماتا ہے ۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے ۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے ۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کر سکے ۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے ۔ ہاں تقسم اللہ کے ہاتھ ہے ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

 حکم بن عینیہ سے بھی یہی قول مروی ہے ، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں ، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنات سے زیادہ ہوتی ہے ، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اُگا ۔

بزار میں ہے کہ اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں ؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا ۔

 اس کا ایک راوی قوی نہیں ۔

وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ (۲۲)

اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں اور تم اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں ہو ۔

ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں ، اس میں پانی برسنے لگتا ہے ۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں،

اس وصف کو بھی خیال میں رکھیں کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور ریح عقیمہ میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ بر آمد ہو ۔ بارداری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے ۔

 ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے ۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہہ بہ تہہ کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کر دیتی ہے ۔

ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے:

 جنوبی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے ۔

 مسند حمیدی کی حدیث میں ہے :

 ہواؤں کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے ، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں ۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے ، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو ،

پھر فرماتا ہے کہ اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیؤ اور کام میں لاؤ ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں ۔

 جیسے سورہ واقعہ میں فرمان ہے ؛

أَفَرَءَيْتُمُ الْمَآءَ الَّذِى تَشْرَبُونَ ۔۔۔ فَلَوْلاَ تَشْكُرُونَ (۵۶:۶۸،۷۰)

جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو  یا ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے

 اور آیت میں ہے:

هُوَ الَّذِى أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَآءً لَّكُم مَّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ (۱۶:۱۰)

 وہی تمہارے فائدے کے لئے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو۔‏

وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ (۲۳)

ہم ہی جلاتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی (بالآخر) وارث ہیں۔‏

 زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں ۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے ۔ہم مخلوق کی ابتدا اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں ۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے ۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے ۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے ۔

 زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں ۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے ۔

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ (۲۴)

اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں۔‏

ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے ۔

 پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں حضرت آدم علیہ السلام تک کے ۔

 اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئندہ زمانے کے لوگ ہیں ۔

مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔

 اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :

 ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے ۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری

 لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے ۔

عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے ۔ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس میں ذکر نہیں ۔

 امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں یہی مشابہ ہے واللہ اعلم ۔

محمد بن کعب کے سامنے عون بن عبداللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں ۔

وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (۲۵)

آپ کا رب سب لوگوں کو جمع کرے گا یقیناً وہ بڑی حکمتوں والا ہے۔‏

 تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے ۔ یہ سن کر حضرت عون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (۲۶)

یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے ۔

صَلْصَالٍ سے مراد خشک مٹی ہے ۔

اسی جیسی یہ آیت ہے ۔

خَلَقَ الإِنسَـنَ مِن صَلْصَـلٍ كَالْفَخَّارِ ـ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ (۵۵:۱۴،۱۵)

 اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا

یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو حما کہتے ہیں ۔ چکنی مٹی کو مسنون کہتے ہیں ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تر مٹی ۔

 اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی ۔

وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ (۲۷)

اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا۔‏

 انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے۔

  سَمُوم کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور حرور کہتے ہیں دن کی گرمی کو ۔

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں ۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں ۔

 ابن عباس کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر ۔

عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے ۔

 صحیح میں وارد ہے:

 فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے ۔

 اس آیت سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے ۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (۲۸)

اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں۔‏

اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کی پیدائش کا ذکر اس نے فرشتوں میں کیا

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (۲۹)

تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا ۔

 اور پیدائش کے بعد سجدہ کرایا ۔

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (۳۰)

چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کر لیا۔‏

اس حکم کو سب نے تو مان لیا

إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى أَنْ يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ (۳۱)

مگر ابلیس کے، کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔‏

لیکن ابلیس لعین نے انکار کر دیا اور کفر و حسد انکار و تکبر فخر و غرور کیا ۔

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ (۳۲)

(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟‏

قَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (۳۳)

وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ۔

صاف کہا کہ میں آگ کا بنایا ہوا یہ خاک کا بنایا ہوا ۔ میں اس سے بہتر ہوں اس کے سامنے کیوں جھکوں ؟ تو نے اسے مجھ پر بزرگی دی لیکن میں انہیں گمراہ کر کے چھوڑوں گا ۔

 ابن جریر نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے  کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ان سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ، تم اسے سجدہ کرنا انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے سنا اور تسلیم کیا ۔ مگر ابلیس جو پہلے کے منکروں میں سے تھا ۔ اپنے پر جما رہا ،

 لیکن اس کا ثبوت ان سے نہیں ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے واللہ اعلم ۔

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ (۳۴)

فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیونکہ تو راندہ درگاہ ہے۔

‏ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت کا ارادہ کیا جو نہ ٹلے ، نہ ٹالا جا سکے کہ تو اس بہترین اور اعلیٰ جماعت سے دور ہو جا تو پھٹکارا ہوا ہے ۔

وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (۳۵)

تجھ پر میری پھٹکار ہے قیامت کے دن تک۔‏

قیامت تک تجھ پر ابدی اور دوامی لعنت برسا کرے گی۔

قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (۳۶)

کہنے لگا میرے رب! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اٹھ کھڑے کئے جائیں۔‏

کہتے ہیں کہ اسی وقت اس کی صورت بدل گئی اور اس نے نوحہ خوانی شروع کی ، دنیا میں تمام نوحے اسی ابتدا سے ہیں ۔ مردود و مطرود ہو کر پھر آتش حسد سے جلتا ہوا آرزو کرتا ہے کہ قیامت تک کی اسے ڈھیل دی جائے اسی کو یوم البعث کہا گیا ہے ۔

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (۳۷)

فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے۔‏

پس اسکی یہ درخواست منظور کی گئی اور مہلت مل گئی ۔

إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ (۳۸)

روز مقرر کے وقت تک۔‏

روز مقرر  یعنی قیامت کے وقت تک۔‏

قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (۳۹)

(شیطان نے) کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی۔‏

ابلیس کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اللہ کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر کہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں بھی اولاد آدم کے لئے زمین میں تیری نافرمانیوں کو خوب زینت دار کر کے دکھاؤں گا ۔ اور انہیں رغبت دلا دلا کر نافرمانیوں میں مبتلا کروں گا، جہاں تک ہو سکے گا کوشش کروں گا کہ سب کو ہی بہکا دوں ۔

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (۴۰)

سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کرلئے گئے ہیں۔‏

لیکن ہاں تیرے خالص بندے میرے ہاتھ نہیں آ سکتے ۔

 ایک اور آیت میں بھی ہے:

أَرَءَيْتَكَ هَـذَا الَّذِى كَرَّمْتَ عَلَىَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ لأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إَلاَّ قَلِيلاً (۱۷:۶۲)

اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے،لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز تھوڑے لوگوں کے، اپنے بس میں کرلوں گا۔‏

قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ (۴۱)

ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے

اس پر جواب ملا کہ تم سب کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے ۔ اعمال کا بدلہ میں ضرور دوں گا نیک کو نیک بد کو بد جیسے فرمان ہے کہ تیرا رب تاک میں ہے ۔ غرض لوٹنا اور اور لوٹنے کا راستہ اللہ ہی کی طرف ہے ۔

  عَلَيَّ کی ایک قرأت عَلِيَّ بھی ہے ۔

لیکن پہلی قرأت مشہور ہے ۔

إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ (۴۱)

میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کریں۔‏

جن بندوں کو میں نے ہدایت پر لگا دیا ہے ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہاں تیرا زور تیرے تابعداروں پر ہے ۔

یہ استثناء منقطع ہے ۔

ابن جریر میں ہے:

 بستیوں سے باہر نبیوں کی مسجدیں ہوتی تھیں ۔ جب وہ اپنے رب سے کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے تو وہاں جا کر جو نماز مقدر میں ہوتی ادا کر کے سوال کرتے ۔ ایک دن ایک نبی کے اور اس کے قبلہ کے درمیان شیطان بیٹھ گیا ۔ اس نبی نے تین بار کہا اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔

شیطان نے کہا اے اللہ کے نبی آخر آپ میرے داؤ سے کیسے بچ جاتے ہیں ؟

نبی نے کہا تو بتا کہ تو بنی آدم پر کس داؤ سے غالب آ جاتا ہے ؟

آخر معاہدہ ہوا کہ ہر ایک صحیح چیز دوسرے کو بتا دے تو نبی اللہ نے کہا سن اللہ کا فرمان ہے کہ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں ۔ صرف ان پر جو خود گمراہ ہوں اور تیری ماتحتی کریں ۔

 اس اللہ کے دشمن نے کہا یہ آپ نے کیا فرمایا اسے تو میں آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے جانا ہوں ،

 نبی نے کہا اور سن اللہ کا فرمان ہے کہ جب شیطانی حرکت ہو تو اللہ سے پناہ طلب کر ، وہ سننے جاننے والا ہے ۔

وَإِمَّا يَنَزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَـنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۷:۲۰۰)

آپ کو اگر کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‏

واللہ تیری آہٹ پاتے ہی میں اللہ سے پناہ چاہ لیتا ہوں ۔

اس نے کہا سچ ہے اسی سے آپ میرے پھندے میں نہیں پھنستے ۔

 نبی اللہ علیہ السلام نے فرمایا اب تو بتا کہ تو ابن آدم پر کیسے غالب آ جاتا ہے ؟

 اس نے کہا کہ میں اسے غصے اور خواہش کے وقت دبوچ لیتا ہوں ۔

وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ (۴۳)

یقیناً سب کے وعدے کی جگہ جہنم ہے

پھر فرماتا ہے کہ جو کوئی بھی ابلیس کی پیروی کرے ، وہ جہنمی ہے ۔

 یہی فرمان قرآن سے کفر کرنے والوں کی نسبت ہے ۔

لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ (۴۴)

جس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لئے ان کا ایک حصہ بنا ہوا ہے

 پھر ارشاد ہوا کہ جہنم کے کئی ایک دروازے ہیں ہر دروازے سے جانے والا ابلیسی گروہ مقرر ہے ۔ اپنے اپنے اعمال کے مطابق ان کے لئے دروازے تقسیم شدہ ہیں ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا جہنم کے دروازے اس طرح ہیں یعنی ایک پر ایک ۔ اور وہ سات ہیں ایک کے بعد ایک کر کے ساتوں دروازے پر ہو جائیں گے ۔

 عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سات طبقے ہیں ۔

 ابن جریر سات دروازوں کے یہ نام بتلاتے ہیں ۔ جہنم ۔ نطی ۔ حطمہ ۔ سعیر ۔ سقر ۔ حجیم ۔ ھاویہ ۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔

 قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ باعتبار اعمال ان کی منزلیں ہیں ۔

ضحاک کہتے ہیں مثلاً ایک دروازہ یہود کا ، ایک نصاریٰ کا ، ایک صابیوں کا ، ایک مجوسیوں کا ، ایک مشرکوں کافروں کا ، ایک منافقوں کا ، ایک اہل توحید کا ، لیکن توحید والوں کو چھٹکارے کی امید ہے باقی سب ناامید ہو گئے ہیں ۔

 ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بعض دوزخیوں کے ٹخنوں تک آگ ہو گی ، بعض کی کمر تک ، بعض کی گردنوں تک ، غرض گناہوں کی مقدار کے حساب سے ۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (۴۵)

پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہونگے

دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ باغات ، نہروں اور چشموں میں ہوں گے ۔

ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ (۴۶)

(ان سے کہا جائیگا) سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ۔‏

ان کو بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گئے نہ نعمتوں کے زوال کا ڈر ، نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نہ کمی ۔

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ

انکے دلوں میں جو کچھ رنجش و کینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے

اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوی رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے شکوے ختم ہو جائیں گے ۔

حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بےکینہ ہو جائیں گے ۔

 چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مؤمن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لئے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے ، ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے ۔

اشتر نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، اس وقت آپ کے پاس حضرت طلحہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ نے دیر سے اجازت دی ؟

 آپ نے فرمایا سچ ہے ۔

 کہا پھر تو اگر آپ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے ، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی ،

إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (۴۷)

وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہونگے‏

 بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں ۔

 ایک اور روایت میں ہے:

 عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے آپ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جنکے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا،

 ایک اور روایت میں ہے:

 یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا ، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟

آپ نے غصے سے فرمایا اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟

 اور روایت میں ہے:

 قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا ۔

 اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ نے غصے ہو کر جو چیز آپ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا ۔

این جرموز جو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آیا تو آپ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی۔ اس نے آ کر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ نے فرمایا تیرے منہ میں مٹی ۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو انشاء اللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے ۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔

کثیر کہتے ہیں:

 میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھنے والے ہیں ، میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں ۔ واللہ میں ابوبکر اور عمر سے بری ہوں ۔

 اس وقت حضرت ابو جعفر نے فرمایا اگر میں ایسا کروں تو یقینا ًمجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں ۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں۔ ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو اے کثیر محبت رکھ ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر ۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا کہ یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابوبکر ، عمر عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، عبد الرحمٰن بن عوف ، سعد بن الی وقاص ، سعید بن زید اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ۔

لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ (۴۸)

نہ تو وہاں انہیں کوئی تکلیف چھو سکتی ہے اور نہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔

وہاں انہیں کوئی مشقت ، تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی ۔

بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت ۔

یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے

 حدیث میں ہے:

 ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے ۔

 اور آیت میں ہے:

خَـلِدِينَ فِيهَا لاَ يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلاً (۱۸:۱۰۸)

وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی ۔ ‏

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (۴۹)

میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔‏

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ میں ارحم الراحمین ہوں ۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں ۔

 اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے ۔

وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ (۵۰)

ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔‏

اس سے مراد یہ ہے کہ مؤمن  کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہئے ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں جنت دوزخ کی یاد کرو، اس وقت یہ آیتیں اتریں ۔

یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے ۔

 آپﷺ بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ کے پاس آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا ، جو حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے ؟ انہیں میرے غفور و رحیم ہو نے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دے دے ۔

اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کر لیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کر لیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں ۔

وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ (۵۱)

انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنادو۔‏

لفظ ضَيْفِ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے ذور اور سفر ۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ (۵۲)

کہ جب انہوں نے ان کے پاس آکر سلام کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم کو تو ڈر لگتا ہے

یہ فرشتے تھے جو بصورت انسان سلام کر کے حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس آئے تھے ۔ آپ نے بچھڑا کاٹ کر اس کا گوشت بھون کر ان مہمانوں کے سامنے لا رکھا ۔ جب دیکھا کہ وہ ہاتھ نہیں ڈالتے تو ڈر گئے اور کہا کہ ہمیں تو آپ سے ڈر لگنے لگا ۔

قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ (۵۳)

انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تجھے ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں۔‏

فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں ، پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت سنائی ۔ جیسے کہ سورہ ھود میں ہے ۔

قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ (۵۴)

کہا، کیا اس بڑھاپے کے آجانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو! یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو؟‏

تو آپ نے اپنے اور اپنی بیوی صاحبہ کے بڑھاپے کو سامنے رکھ کر اپنا تعجب دور کرنے اور وعدے کو ثابت کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا اس حالت میں ہمارے ہاں بچہ ہو گا ؟

قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ (۵۵)

انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی خوشخبری سناتے ہیں آپ مایوس لوگوں میں شامل نہ ہوں ۔

فرشتوں نے دوبارہ زور دار الفاظ میں وعدے کو دہرایا اور ناامیدی سے دور رہنے کی تعلیم کی۔

قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ (۵۶)

کہا اپنے رب تعالیٰ کی رحمت سے نا امید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔

 آپ نے اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا کہ میں مایوس نہیں ہوں ۔ ایمان رکھتا ہوں کہ میرا رب اس سے بھی بڑی باتوں پر قدرت کاملہ رکھتا ہے

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ (۵۷)

پوچھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو) تمہارا ایسا کیا اہم کام ہے؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جب ڈر خوف جاتا رہا بلکہ بشارت بھی مل گئی تو اب فرشتوں سے ان کے آنے کی وجہ دریافت کی ۔

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ (۵۸)

انہوں نے جواب دیا کہ ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔‏

انہوں نے بتلایا کہ ہم لوطیوں کی بستیاں الٹنے کے لئے آئے ہیں ۔

إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ (۵۹)

مگر خاندان لوط کہ ہم ان سب کو ضرور بچالیں گے‏

مگر حضرت لوط علیہ السلام کی آل نجات پا لے گی۔

إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا ۙ إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ (۶۰)

سوائے اس (لوط) کی بیوی کے کہ ہم نے اسے رکنے اور باقی رہ جانے والوں میں مقرر کر دیا ہے۔‏

ہاں اس آل میں سے ان کی بیوی بچ نہیں سکتی؛وہ قوم کے ساتھ رہ جائے گی اور ہلا کت میں ان کے ساتھ ہی ہلاک ہو گی ۔

فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ (۶۱)

جب بھیجے ہوئے فرشتے آل لوط کے پاس پہنچے۔‏

یہ فرشتے نو جوان حسین لڑکوں کی شکل میں حضور لوط علیہ السلام کے پاس گئے۔

قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ (۶۲)

تو انہوں (لوط علیہ السلام) نے کہا تم لوگ تو کچھ انجان سے معلوم ہو رہے ہو ۔

تو حضرت لوط علیہ السلام نے کہا تم بالکل ناشناس اور انجان لوگ ہو۔

قَالُوا بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ (۶۳)

ا نہوں نے کہا نہیں بلکہ ہم تیرے پاس وہ چیز لائے ہیں جس میں یہ لوگ شک شبہ کر رہے تھے ۔

تو فرشتوں نے راز کھول دیا کہ ہم اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں جسے آپ کی قوم نہیں مانتی اور جس کے آنے میں شک شبہ کر رہی تھی۔

وَأَتَيْنَاكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (۶۴)

ہم تیرے پاس (صریح) حق لائے ہیں اور ہیں بھی بالکل سچے ۔

ہم حق بات اور قطعی حکم لے کر آئے ہیں اور فرشتے حقانیت کے ساتھ ہی نازل ہوا کرتے ہیں

مَا نُنَزِّلُ الْمَلَـئِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ (۱۶:۸)

ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں

اور ہم ہیں بھی سچے ۔ جو خبر آپ کو دے رہے ہیں وہ ہو کر رہے گی کہ آپ نجات پائیں اور آپ کی یہ کافر قوم ہلاک ہو گی۔

فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ (۶۵)

اب تو اپنے خاندان سمیت اس رات کے کسی حصہ میں چل دے

 اور آپ ان کے پیچھے رہنا اور (خبردار) تم میں سے (پیچھے) مڑ کر بھی نہ دیکھے اور جہاں کا تمہیں حکم کیا جا رہا ہے وہاں چلے جانا۔‏

حضرت لوط علیہ السلام سے فرشتے کہہ رہے ہیں کہ رات کا کچھ حصہ گزر تے ہی آپ اپنے والوں کو لے کر یہاں سے چلے جائیں ۔ خود آپ ان سب کے پیچھے رہیں تاکہ ان کی اچھی طرح نگرانی کر چکیں ۔

 یہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی کہ آپ لشکر کے آخر میں چلاکرتے تھے تاکہ کمزور اور گرے پڑے لوگوں کا خیال رہے۔

 پھر فرما دیا کہ جب قوم پر عذاب آئے اور ان کا شور و غل سنائی دے تو ہرگز ان کی طرف نظریں نہ اٹھانا ، انہیں اسی عذاب و سزا میں چھوڑ کر تمہیں جانے کا حکم ہے، چلے جاؤ گویا ان کے ساتھ کوئی تھا جو انہیں راستہ دکھاتا جائے۔

وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَلِكَ الْأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ (۶۶)

ہم نے اس کی طرف اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ صبح ہو تے ہوتے ان لوگوں کی جڑیں کاٹ دیجائیں گی ۔

ہم نے پہلے ہی سے لوط (علیہ السلام ) سے فرما دیا تھا کہ صبح کے وقت یہ لوگ مٹا دئیے جائیں گے۔

جیسے دوسری آیت میں ہے:

إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ (۱۱:۸۱)

ان کے عذاب کا وقت صبح ہے جو بہت ہی قریب ہے۔

وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ (۶۷)

اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے ۔

قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے ۔

قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ (۶۸)

(لوط علیہ السلام نے) کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو ۔

 حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو ، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو ۔

 اس وقت خود حضرت لوط علیہ السلام کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں ۔ جیسے کہ سورہ ہود میں ہے۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجا نا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں ۔ واؤ ترتیب کے لئے ہوتا بھی نہیں اور خصو صاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو ۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ (۶۹)

اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔‏

آپ ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپےنہ  ہو جاؤ ۔

قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ (۷۰)

وہ بولے کیا ہم نے تجھے دنیا بھر (کی ٹھیکیداری) سے منع نہیں کر رکھا؟

 لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ نے اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ کو اس سے منع کر چکے ہیں ۔

قَالَ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (۷۱)

(لوط علیہ السلام نے) کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری بچیاں موجود ہیں ۔

تب آپ نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں ، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ

۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔

لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ (۷۲)

تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بد مستی میں سرگرداں تھے ۔

چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضا اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تکریم اور تعظیم ہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں ۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی ۔

  سَكْرَۃ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے ، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے ۔

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ (۷۳)

پس سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک بڑے زور کی آواز نے پکڑ لیا ۔

سو رج نکلنے کے وقت آسمان سے ایک دل دہلانے والی اور جگر پاش پاش کر دینے والی چنگھاڑ کی آواز آئی۔

فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ (۷۴)

بالآخر ہم نے اس شہر کو اوپر تلے کر دیا اور ان لوگوں پر کنکر والے پتھر برسائے۔‏

اور ساتھ ہی ان کی بستیاں اوپر کو اٹھیں اور آسمان کے قریب پہنچ گئیں اور وہاں سے الٹ دی گئیں اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہو گیا ساتھ ہی ان پر آسمان سے پتھر برسے ایسے جیسے پکی مٹی کے کنکر آلود پتھر ہوں۔

 سورہ ھود میں اس کا مفصل بیان ہو چکا ہے ۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ (۷۵)

بلاشبہ بصیرت والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

جو بھی بصیرت و بصارت سے کام لے ، دیکھے ، سنے، سوچے، سمجھے اس کے لئے ان بستیوں کی بربادی میں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں ۔ ایسے پاکباز لوگ ذرا ذرا سی چیزوں سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کر تے ہیں پند پکڑتے ہیں اور غور سے ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور عالم  حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں ۔ تامل اور غور و خوض کر کے اپنی حالت سنوار لیتے ہیں ۔

ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے:

 رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں مؤمن کی عقلمندی اور دور بینی کا لحاظ رکھو وہ اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتا ہے ۔

 پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائی۔

اور حدیث میں ہے:

وہ اللہ کے نور اور اللہ کی توفیق سے دیکھتا ہے ۔

 اور حدیث میں ہے :

 اللہ کے بندے لوگوں کو ان نشانات سے پہچان لیتے ہیں ۔

وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُقِيمٍ (۷۶)

یہ بستی راہ پر ہے جو برابر چلتی رہتی (عام گزرگاہ) ہے ۔

یہ بستی شارع عام پر موجود ہے جس پر ظاہری اور باطنی عذاب آیا ، الٹ گئی ، پتھر کھائے، عذاب کا نشانہ بنی ۔ اب ایک گندے اور بد مزہ کھائی کی جھیل سے بنی ہوئی ہے تم رات دن وہاں سے آتے جاتے ہو تعجب ہے کہ پھر بھی عقلمندی سے کام نہیں لیتے ۔ غرض صاف واضح اور آمد و رفت کے راستے پر یہ الٹی ہو بستی موجود ہے ۔

 یہ بھی معنی کئے ہیں کہ کتاب مبین میں ہے لیکن یہ معنی کچھ زیادہ بند نہیں بیٹھتے واللہ اعلم ۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ (۷۷)

اور اس میں ایمان داروں کے لئے بڑی نشانی ہے۔‏

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے یہ ایک کھلی دلیل اور جاری نشانی ہے کہ کس طرح اللہ اپنے والوں کو نجات دیتا ہے اور اپنے دشمنوں کو غارت کرتا ہے۔

وَإِنْ كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ (۷۸)

ایکہ بستی کے رہنے والے بھی بڑے ظالم تھے

اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے ۔ ایکہ کہتے ہیں درختوں کے جھنڈ کو ۔ ان کا ظلم علاوہ شرک و کفر کے غارت گری اور ناپ تول کی کمی بھی تھی ۔ ان کی بستی لوطیوں کے قریب تھی اور ان کا زمانہ بھی ان سے بہت قریب تھا ۔

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ (۷۹)

جن سے (آخر) ہم نے انتقام لے ہی لیا۔ یہ دونوں شہر کھلے (عام) راستے پر ہیں

 ان پر بھی ان کی پیہم شراتوں کی وجہ سے عذاب الہی آیا ۔ یہ دونوں بستیاں بر سر شارع عام تھیں ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈراتے ہوئے فرمایا تھا:

وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ (۱۱:۸۹)

لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں ۔

وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ (۸۰)

اور حجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا

حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے ۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا ۔

‎ وَآتَيْنَاهُمْ آيَاتِنَا فَكَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ (۸۱)

اور ہم نے اپنی نشانیاں بھی عطا فرمائیں (لیکن) تاہم وہ ان سے روگردانی ہی کرتے رہے ۔‏

ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے حضرت صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی ۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔

اس وقت حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا :

تَمَتَّعُواْ فِى دَارِكُمْ ثَلَـثَةَ أَيَّامٍ ذلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ (۱۱:۶۵)

پھر اچھا تم اپنے گھروں میں تین تین دن تو رہ لو، یہ وعدہ جھوٹا نہیں

یعنی بس اب تین دن کے اندر اندر قہرے الہی نازل ہو گا ۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی ۔

جیسے اور آیت میں ہے:

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَـهُمْ فَاسْتَحَبُّواْ الْعَمَى عَلَى الْهُدَى (۴۱:۱۷)

رہے قوم ثمود، سو ہم نے ان کی بھی راہبری کی پھر بھی انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی

وَكَانُوا يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ (۸۲)

یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے، بےخوف ہو کر ۔

یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریا کاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے ۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتا ًیہ چیز نہ تھی ۔

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

 جن پر عذاب الہٰی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو ۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ (۸۳)

آخر انہیں بھی صبح ہوتے ہوتے چنگھاڑ نے آدبوچا ۔

آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الہی بصورت چنگھاڑ آیا ۔

فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۸۴)

پس ان کی کسی تدبیر و عمل نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔‏

 اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں ۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لئے اور انہیں بڑھانے کے لئے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کر دیا وہ آج بےسود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ

ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، اور قیامت ضرور ضرور آنے والی ہے۔

اللہ نے تمام مخلوق عدل کے ساتھ بنائی ہے ، قیامت آنے والی ہے ، بروں کو برے بدلے نیکوں کو نیک بدلے ملنے والے ہیں ۔

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى  (۵۳:۳۱)

اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے تاکہ بروں کو ان کی برائیوں کا اور نیکوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دے

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلاً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ  (۳۸:۲۷)

 اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔‏

یعنی مخلوق باطل سے پیدا نہیں کی گئی ۔ ایسا گمان کافروں کا ہوتا ہے اور کافروں کے لئے ویل دوزخ ہے۔

اور آیت میں ہے:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ ـ فَتَعَـلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (۲۳:۱۱۵،۱۱۶)

کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ بلندی والا ہے اللہ مالک حق جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں عرش کریم کا مالک وہی ہے ۔

فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ (۸۵)

پس تو حسن و خوبی (اور اچھائی) سے درگزر کر لے۔‏

پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے چشم پوشی کیجئے ، ان کی ایذا اور جھٹلانا اور برا کہنا برداشت کر لیجئے ۔

جیسے اور آیت میں ہے:

فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَـمٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۴۳:۸۹)

ان سے چشم پوشی کیجئے اور سلام کہہ دیجئے انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا ۔

 یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے تھا یہ آیت مکیہ ہے اور جہاد بعد از ہجرت مقرر اور شروع ہوا ہے۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (۸۶)

یقیناً تیرا پروردگار ہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے۔‏

تیرا رب خالق ہے اور خالق مار ڈالنے کے بعد بھی پیدائش پر قادر ہے ، اسے کسی چیز کی بار بار کی پیدا ئش عاجز نہیں کر سکتی ۔ ریزوں کو جب بکھر جائیں وہ جمع کر کے جان ڈال سکتا ہے ۔

جیسے فرمان ہے:

أَوَلَـيْسَ الَذِى خَلَقَ السَّمَـوتِ وَالاٌّرْضَ ۔۔۔۔ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۳۶:۸۱،۸۳)

آسمان و زمین کا خالق کیا ان جیسوں کی پیدائش کی قدرت نہیں رکھتا؟ بیشک وہ پیدا کرنے والا علم والا ہے وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ہو جانے کو فرما دیتا ہے بس وہ ہو جاتی ہے۔

پاک ذات ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (۸۷)

یقیناً ہم نے سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے۔‏

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے

سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتدا ءکی سات لمبی سورتیں ہیں

- سورہ بقرہ ،

- آل عمران ،

-  نساء ،

-  مائدہ ،

- انعام ،

- اعراف

-  اور یونس ۔

اس لئے کہ ان سورتوں میں فرائض کا،حدود کا ، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں ، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں

بعض نے سورہ اعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور براۃ کو بتلایا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان میں سے دوسورتیں ملی تھیں باقی کسی نبی کو سوائے ہمارے نبی ﷺ کے یہ سوتیں نہیں ملیں۔

ایک قول یہ ہے کہ اولاً حضرت موسیٰ ؑ کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ نے تختیاں گرا دیں تو دو اُٹھ گئیں اور چار رہ گئیں ۔

ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں ۔

 زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں ۔

- حکم ،

- منع ،

- بشارت ،

-  ڈر

-  اور مثالیں ،

- نعمتوں کا شمار

-  اور قرآنی خبریں ۔

 دوسرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورہ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں ۔ یہ سات آیتیں بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت ہیں ۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں ۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں ۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو ۔

 امام ابن جریر رضی اللہ عنہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کرتے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورہ فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں فالحمد للہ ۔

 حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے مجھے بلایا لیکن میں آپ کے پاس نہ آیا نماز ختم کر کے پہنچا تو آپ نے پوچھا کہ اسی وقت کیوں نہ آئے؟

میں نے کہا یا رسول اللہ میں نماز میں تھا ۔

 آپ ﷺنے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں :

يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ (۸:۲۴)

ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں ۔

سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا ۔

تھوڑی دیر میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورۃ الْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں ۔

دوسری میں آپ کا فرمان ہے:

 اُم القرآن یعنی سورہ فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ۔

پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورہ فاتحہ ہے لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں ۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں ۔

جیسے فرمنا الہٰی ہے:

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَـباً مُّتَشَـبِهاً مَّثَانِيَ (۳۹:۲۳)

اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے

پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے۔ اور متشابہ بھی۔ پس وہ ایک طرح سے مثانی ہے اور دوسری وجہ سے متشابہ ۔ اور قرآن عظیم بھی یہی ہے جیسے کہ اس روایت سے ثابت ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ تقویٰ پر جس مسجد کی بنا ءہے وہ کون ہے ؟

 تو آپ نے اپنی مسجد کی طرف اشارہ کیا حالانکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آیت مسجد قبا کے بارے میں اتری ہے۔ پس قاعدہ یہی ہے کہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز سے انکار نہیں ہوتا ۔ جب کہ وہ بھی وہی صفت رکھتی ہو ۔ واللہ اعلم ۔

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ (۸۸)

آپ ہرگز اپنی نظریں اس چیز کی طرف نہ دوڑائیں، جس سے ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو بہرہ مند کر رکھا ہے،

نہ ان پر آپ افسوس کریں اور مؤمنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں ۔

تو تجھے نہ چاہئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لئے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔ ہاں تجھے چاہئے کہ نرمی، خوش خلقی ، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مؤمنوں سے پیش آتا رہے۔

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۲۶:۲۵)

اس کے ساتھ نرمی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کہ تیری تابعداری کرے۔‏

جیسے ارشاد ہے:

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (۹:۱۲۸)

لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آ گئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کا دل سے خواہاں ہے جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے ۔

پس تجھے ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بےنیاز رہنا چاہئے

 اسی فرمان کی بنا پر امام ابن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک صحیح حدیث جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم میں سے وہ نہیں جو قرآن کے ساتھ تغنی نہ کرے کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ قرآن کو لے کر اس کے ماسوا سے دست بردار اور بےپرواہ نہ ہو جائے وہ مسلمان نہیں ۔

گو یہ تفسیر بالکل صحیح ہے لیکن اس حدیث سے یہ مقصود نہیں حدیث کا صحیح مقصد اس ہماری تفسیر کے شروع میں ہم نے بیان کر دیا ہے

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک مرتبہ مہمان آئے آپ کے گھر میں کچھ نہ تھا آپ نے ایک یہودی سے رجب کے وعدے پر آٹا ادھار منگوایا لیکن اس نے کہا بغیر کسی چیز کو رہن رکھے میں نہیں دوں گا

 اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واللہ میں امین ہوں اور زمین والوں میں بھی اگر یہ مجھے ادھار دیتا یا میرے ہاتھ فروخت کر دیتا تو میں اسے ضرور ادا کرتا

پس آیت لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ نازل ہوئی اور گویا آپ کی دل جوئی کی گئی ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 انسان کا ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے ۔

 یہ جو فرمایا کہ ان کی جما عتوں کو جو فائدہ ہم نے دے رکھا ہے اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں ۔

وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ (۸۹)

اور کہہ دیجئے کہ میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔‏

حکم ہوتا ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئے کہ میں تمام لوگوں کو عذاب الہٰی سے صاف صاف ڈرا دینے والا ہوں ۔ یاد رکھو میرے جھٹلانے والے بھی اگلے نبیوں کے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب الہٰی کے شکار ہوں گے۔

كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ (۹۰)

جیسے کہ ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا ۔

الْمُقْتَسِمِينَ سے مراد قسمیں کھانے والے ہیں جو انبیاء علیہ السلام کی تکذیب اور ان کی مخالفت اور ایذاء دہی پر آپس میں قسما قسمی کر لیتے تھے جیسے کہ قوم صالح کا بیان قرآن حکیم میں ہے:

قَالُواْ تَقَاسَمُواْ بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ (۲۷:۴۹)

انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے

یعنی ان لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ راتوں رات صالح اور ان کے گھرانے کو ہم موت کے گھاٹ اتار دیں گے اسی طرح قرآن میں ہے:

وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لاَ يَبْعَثُ اللَّهُ مَن يَمُوتُ (۱۶:۳۸)

وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ مردے پھر جینے کے نہیں ۔

 اور جگہ ان کا اس بات پر قسمیں کھانے کا ذکر ہے: کہ مسلمانوں کو کبھی کوئی رحمت نہیں مل سکتی ۔

أَوَلَمْ تَكُونُواْ أَقْسَمْتُمْ مِّن قَبْلُ (۱۴:۴۴)

کیا تم اس سے پہلے بھی قسمیں نہیں کھا رہے تھے؟ کہ تمہارے لئے دنیا سے ٹلنا ہی نہیں ۔

أَهَـؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لاَ يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ (۷:۴۹)

کیا یہ وہی ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت نہ کرے گا

الغرض جس چیز کو نہ ما نتے اس پر قسمیں کھانے کی انہیں عادت تھی اس لئے انہیں کہا گیا ہے ۔

 بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میری اور ان ہدایات کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہے کہ لوگو میں نے دشمن کا لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے دیکھو ہشیار ہو جاؤ بچنے اور ہلاک نہ ہونے کے سامان کر لو ۔ اب کچھ لوگ اس کی بات مان لیتے ہیں اور اسی عرصہ میں چل پڑتے ہیں اور دشمن کے پنجے سے بچ جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور وہیں بےفکری سے پڑے رہتے ہیں کہ ناگاہ دشمن کا لشکر آ پہنچا ہے اور گھیر گھار کر انہیں قتل کر دیتا ہے پس یہ ہے مثال میرے ماننے والوں کی اور نا ماننے والوں کی۔

‎ الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ (۹۱)

جنہوں نے اس کتاب الہٰی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے‏

ان لوگوں نے اللہ کی ان کتابوں کو جو ان پر اتری تھیں پارہ پارہ کر دیا جس مسئلے کو جی چاہا مانا جس سے دل گھبرایا چھوڑ دیا ۔

بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے ۔

یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے کفار کا کتاب اللہ کی نسبت یہ کہنا ہے کہ یہ جادو ہے ، یہ کہانت ہے، یہ اگلوں کی کہانی ہے، اس کا کہنے والا جادوگر ہے، مجنوں ہے، کاہن ہے وغیرہ ۔

 سیرت ابن اسحاق میں ہے:

 ولید بن مغیرہ کے پاس سرداران قریش جمع ہوئے حج کا موسم قریب تھا اور یہ شخص ان میں بڑا شریف اور ذی رائے سمجھا جاتا تھا اس نے ان سب سے کہا کہ دیکھو حج کے موقع پر دور دراز سے تمام عرب یہاں جمع ہوں گے ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمہارے اس ساتھی نے ایک اودھم مچا رکھا ہے لہذا اس کی نسبت ان بیرونی لوگوں سے کیا کہا جائے یہ بتاؤ اور کسی ایک بات پر اجماع کر لو کہ سب وہی کہیں ۔ ایسا نہ ہو کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے اس سے تو تمہارا اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ پردیسی تمہیں جھوٹا خیال کریں گے ۔

 انہوں نے کہا ابو عبد شمس آپ ہی کوئی ایسی بات تجویز کر دیجئے

 اس نے کہا پہلے تم اپنی تو کہو تاکہ مجھے بھی غور و خوض کا موقعہ ملے

 انہوں نے کہا پھر ہماری رائے میں تو ہر شخص اسے کاہن بتلائے ۔

 اس نے کہا یہ تو واقعہ کے خلاف ہے لوگوں نے کہا پھر مجنوں بالکل درست ہے ۔

اس نے کہا یہ بھی غلط ہے

 کہا اچھا تو شاعر کہیں ؟

 اس نے جواب دیا کہ وہ شعر جانتا ہی نہیں

کہا اچھا پھر جادوگر کہیں ؟

کہا اسے جادو سے مس بھی نہیں

اس نے کہا سنو واللہ اس کے قول میں عجب مٹھاس ہے ان باتوں میں سے تم جو کہو گے دنیا سمجھ لے گی کہ محض غلط اور سفید جھوٹ ہے ۔ گو کوئی بات نہیں بنتی لیکن کچھ کہنا ضرور ہے اچھا بھائی سب اسے جادوگر بتلائیں ۔

 اس امر پر یہ مجمع برخاست ہوا ۔ اور اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔

فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (۹۲)

قسم ہے تیرے پالنے والے کی! ہم ان سب سے ضرور باز پرس کریں گے۔‏

روزہ قیامت ایک ایک چیز کا سوال ہو گا ان کے اعمال کا سوال ان سے ان کا رب ضرور کرے گا یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ سے ۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے ہر ایک شخص قیامت کے دن تنہا تنہا اللہ کے سا منے پیش ہو گا جیسے ہر ایک شخص چودہویں رات کے چاند کو اکیلا اکیلا دیکھتا ہے۔

 اللہ فرمائے گا اے انسان تو مجھ سے مغرور کیوں ہو گیا ؟

 تونے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟

 تونے میرے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ ا

بو العالیہ فرماتے ہیں:

 دو چیزوں کا سو ال ہر ایک سے ہو گا معبود کسے بنا رکھا تھا اور رسول کی مانی یا نہیں ؟

 ابن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں عمل اور مال کا سوال ہو گا ۔

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور علیہ السلام نے فرمایا:

 اے معاذ انسان سے قیامت کے دن ہر ایک عمل کا سوال ہو گا ۔ یہاں تک کہ اس کے آنکھ کے سرمے اور اس کے ہاتھ کی گندہی ہوئی مٹی کے بارے میں بھی اس سے سوال ہو گا دیکھ معاذ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ کی نعمتوں کے بارے میں تو کمی والا رہ جائے ۔

عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۹۳)

ہرچیز کی جو وہ کرتے تھے۔‏

 اس آیت میں تو ہے کہ ہر ایک سے اس کے عمل کی بابت سوال ہو گا ۔ اور سورہ رحمٰن کی آیت میں ہے:

فَيَوْمَئِذٍ لاَّ يُسْـَلُ عَن ذَنبِهِ إِنسٌ وَلاَ جَآنٌّ (۵۵:۳۹)

اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کا سوال نہ ہو گا

ان دونوں آیتوں میں بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تطبیق یہ ہے کہ یہ سو ال نہ ہو گا کہ تونے یہ عمل کیا ؟

 بلکہ یہ سوال ہو گا کہ کیوں کیا ؟

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (94)

پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے۔‏

حکم ہو رہا ہے کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کی باتیں لوگوں کو صاف صاف بےجھجک پہنچا دیں نہ کسی کی رو رعایت کیجئے نہ کسی کا ڈر خوف کیجئے ۔

 اس آیت کے اترنے سے پہلے تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ تبلیغ فرماتے تھے لیکن اس کے بعد آپ اور آپ کے اصحاب نے کھلے طور پر اشاعت دین شروع کر دی۔

إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ (95)

آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔‏

ان مذاق اڑانے والوں کو ہم پر چھوڑ دے ہم خود ان سے نمٹ لیں گے تو اپنی تبلیغ کے فریضے میں کوتاہی نہ کر

وَدُّواْ لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (۶۸:۹)

وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں

تو ان سے مطلقا ًخوف نہ کر اللہ تعالیٰ تیری جانب اتارا گیا لوگوں کی برائی سے تجھے محفوظ رکھ لے گا ۔

يَـأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ۔۔۔ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (۵:۶۷)

اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی

اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا

چنانچہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے جا رہے تھے کہ بعض مشرکوں نے آپ کو چھیڑا اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہیں نشتر مارا جس سے ان کے جسموں میں ایسا ہو گیا جیسے نیزے کے زخم ہوں اسی میں وہ مر گئے اور یہ لوگ مشرکین کے بڑے بڑے رؤسا تھے ۔ بڑی عمر کے تھے اور نہایت شریف گنے جاتے تھے ۔

 بنو اسد کے قبیلے میں تو اسود بن عبد المطلب ابو زمعہ ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی دشمن تھا ۔ ایذائیں دیا کرتا تھا اور مذاق اڑایا کرتا تھا آپ نے تنگ آ کر اس کے لئے بد دعا بھی کی تھی کہ اے اللہ اسے اندھا کر دے بے اولاد کر دے ۔

 یہ لوگ برابر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء رسائی کے درپے لگے رہتے تھے اور لوگوں کو آپ کے خلاف ابھارا کرتے تھے اور جو تکلیف ان کے بس میں ہوتی آپ کو پہنچایا کرتے جب یہ اپنے مظالم میں حد سے گزر گئے اور بات بات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔  بنی زہر میں سے اسود تھا اور بنی مخزوم میں سے ولید تھا اور بنی سہم میں سے عاص بن وائل تھا ۔ اور خزاعہ میں سے حارث تھا ۔

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ  وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ـ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ـ الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّهِ إِلـهًا آخَرَ فَسَوْفَ يَعْمَلُونَ (۹۴،۹۵،۹۶)  

کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے بیت اللہ شریف میں آپ کے پاس کھڑے ہو گئے اتنے میں اسود بن عبد یغوث آپ کے پاس سے گزرا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اسے پیٹ کی بیماری ہو گئی اور اسی میں وہ مرا۔

 اتنے میں ولید بن مغیرہ گزرا اس کی ایڑی ایک خزاعی شخص کے تیر کے پھل سے کچھ یونہی سی چھل گئی تھی اور اسے بھی دو سال گزر چکے تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اسی کی طرف اشارہ کیا وہ پھول گئی ، پکی اور اسی میں وہ مرا ۔

پھر عاص بن وائل گزرا ۔ اس کے تلوے کی طرف اشارہ کیا کچھ دنوں بعد یہ طائف جانے کے لئے اپنے گدھے پر سوار چلا ۔ راستے میں گر پڑا اور تلوے میں کیل گھس گئی جس نے اس کی جان لی ۔

حارث کے سر کی طرف اشارہ کیا اسے خون آنے لگا اور اسی میں مرا ۔

 ان سب موذیوں کو سردار ولید بن مغیرہ تھا اسی نے انہیں جمع کیا تھا پس یہ پانچ یا سات شخص تھے جو جڑتھے اور ان کے اشاروں سے اور ذلیل لوگ بھی کمینہ پن کی حرکتیں کرتے رہتے تھے ۔

الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۹۶)

جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود مقرر کرتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا۔‏

یہ لوگ اس لغو حرکت کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے تھے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے ۔ انہیں اپنے کرتوت کا مزہ ابھی ابھی آ جائے گا ۔

 اور بھی جو رسول کا مخالف ہو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کا یہی حال ہے۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ (۹۷)

ہمیں خوب علم ہے کہ ان باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔‏

ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی بکو اس سے اے نبی تمہیں تکلیف ہوتی ہے دل تنگ ہوتا ہے لیکن تم ان کا خیال بھی نہ کرو ۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ(۹۸)

آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔‏

اللہ تمہارا مدد گا رہے ۔ تم اپنے رب کے ذکر اور اس کی تسبیح اور حمد میں لگے رہو ۔ اس کی عبادت جی بھر کر کرو نماز کا خیال رکھو سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دو ۔

 مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

 اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ابن آدم شروع دن کی چار رکعت سے عاجز نہ ہو میں تجھے آخر دن تک کفایت کروں گا ۔

حضور علیہ السلام کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کا معاملہ آ پڑتا تو آپ نماز شروع کر دیتے ۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (۹۹)

اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے ۔

 يَقِين سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورہ مدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ جہنمی اپنی برائیاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے مسکینوں کو کھانا کھلاتے نہیں تھے باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے ۔

 ایک صحیح حدیث میں بھی ہے:

 حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انصار کی ایک عورت اُم العلاء نے کہا کہ اے ابو السائب اللہ کی تجھ پر رحمتیں ہوں بیشک اللہ تعالیٰ نے تیری تکریم و عزت کی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا تجھے کیسے یقین ہو گیا کہ اللہ نے اس کا اکرام کیا

 انہوں نے جواب دیا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں پھر کون ہو گا جس کا اکرام ہو ؟

آپ نے فرمایا:

أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْر

 سنو اسے موت آ چکی اور مجھے اس کیلئے بھلائی کی امید ہے

اس حدیث میں بھی موت کی جگہ يَقِين کا لفظ ہے ۔

س آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت ہو اسی کے مطابق نماز ادا کر لے ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

 کھڑے ہو کر نماز ادا کر ، نہ ہو سکے تو بیٹھ کر ، نہ ہو سکے تو کروٹ پر لیٹ کر ۔

 بد مذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی ایک بات گھڑ لی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادات فرض رہتی ہیں لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کر چکا تو عبادت کی تکلیف ساقط ہو جاتی ہے یہ سراسر کفر ضلالت اور جہالت ہے۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیا اور حضور سرور انبیاء علیہم السلام اور آپ کے اصحاب معرفت کے تمام درجے طے کر چکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے رب کی صفات اور ذات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے ۔

پس ثابت ہے کہ یہاں مراد يَقِين سے موت ہے تمام مفسرین صحا بہ تابعین و غیرہ کا یہی مذہب ہے فالحمد للہ

 اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے اس نے جو ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر ہم اس کی تعریفیں کر تے ہیں اسی سے نیک کاموں میں مدد پاتے ہیں اسی کی پاک ذات پر ہمارا بھروسہ ہے ہم اس مالک حاکم سے دعا کر تے ہیں کہ وہ بہترین اور کامل اسلام ایمان اور نیکی پر موت دے وہ جواد ہے اور کریم ہے

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter