صحیح بخاری شریفترکہ کے حصوں کا بیانAhadith 6723-6771 |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
ترکہ کے حصوں کا بیاناللہ تعالیٰ نے فرمایا: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۔۔۔فَرِيضَةً مِنَ اللَّه إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا اللہ پاک تمہاری اولاد کے مقدمہ میں تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ مرد بچے کو دوہرا حصہ اور بیٹی کو اکہرا حصہ ملے گا، اگر میت کا بیٹا نہ ہو، نری بیٹیاں ہوں دو یا دو سے زائد تو ان کو دو تہائی ترکہ ملے گا۔ اگر میت کی ایک بیٹی ہو تو اس کو آدھا ترکہ ملے گا اور میت کے ماں باپ ہر ایک کو ترکہ میں سے چھٹا چھٹا حصہ ملے گا اگر میت کی اولاد ہو (بیٹا یا بیٹی، پوتا یا پوتی) اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تہائی حصہ (باقی سب باپ کو ملے گا) اگر ماں باپ کے سوا میت کے کچھ بھائی بہن ہوں تب ماں کو چھٹا حصہ ملے گا یہ سارے حصے میت کی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ادا کئے جائیں گے (مگر وصیت میت کے تہائی مال تک جہاں تک پوری ہو سکے پوری کریں گے۔ باقی دو تہائی وارثوں کا حق ہے اور قرض کی ادائیگی سارے مال سے کی جائے گی اگر کل مال قرض میں چلا جائے تو وارثوں کو کچھ نہ ملے گا تم کیا جانو باپ یا بیٹوں میں سے تم کو کس سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں کیونکہ اللہ بڑے علم اور حکمت والا ہے وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ ۔۔۔وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ اور تمہاری بیویاں جو مال اسباب چھوڑ جائیں اگر اس کی اولاد نہ ہو تب تو تم کو آدھا ترکہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو تو چوتھائی یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ملے گا اسی طرح تم جو مال و اسباب چھوڑ جاؤ اور تمہاری اولاد بیٹا بیٹی کوئی نہ ہو تو تمہاری بیویوں کو اس میں سے چوتھائی ملے گا اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ یہ بھی وصیت اور قرضہ ادا کرنے کے بعد اور اگر کوئی مرد یا عورت مر جائے اور وہ کلالہ ہو (نہ اس کا باپ ہو نہ بیٹا) بلکہ ماں جائے ایک بھائی یا بہن ہو تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر اسی طرح کئی اخیائی بھائی بہن ہوں تو سب مل کر ایک تہائی پائیں گے۔ یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد بشرطیکہ میت نے وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے وصیت نہ کی ہو یہ سارا فرمان اللہ پاک کا اور اللہ ہر ایک کا حال خوب جانتا ہے وہ بڑے تحمل والا ہے ۔ (۴:۱۱،۱۲) حدیث نمبر ۶۷۲۳ راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، دونوں حضرات پیدل چل کر آئے تھے۔ دونوں حضرات جب آئے تو مجھ پر غشی طاری تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی میرے اوپر چھڑکا مجھے ہوش ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اپنے مال کی (تقسیم) کس طرح کروں؟ یا اپنے مال کا کس طرح فیصلہ کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیتیں نازل ہوئیں۔ فرائض کا علم سیکھناعقبہ بن عامر نے کہا کہ دین کا علم سیکھو اس سے پہلے کہ اٹکل پچو کرنے والے پیدا ہوں یعنی جو رائے اور قیاس سے فتویٰ دیں، حدیث اور قرآن سے جاہل ہوں۔ حدیث نمبر ۶۷۲۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ گمان (بدظنی) سب سے جھوٹی بات ہے۔ - آپس میں ایک دوسرے کی برائی کی تلاش میں نہ لگے رہو نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو - اور نہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرو، بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہےحدیث نمبر ۶۷۲۵ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا فاطمہ اور عباس علیہما السلام، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، یہ فدک کی زمین کا مطالبہ کر رہے تھے اور خیبر میں بھی اپنے حصہ کا۔ حدیث نمبر ۶۷۲۶ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے، بلاشبہ آل محمد اسی مال میں سے اپنا خرچ پورا کرے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ! میں کوئی ایسی بات نہیں ہونے دوں گا، بلکہ جسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہو گا وہ میں بھی کروں گا۔ بیان کیا کہ اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے تعلق کاٹ لیا اور موت تک ان سے کلام نہیں کیا۔ حدیث نمبر ۶۷۲۷ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری وراثت نہیں ہوتی ہم جو کچھ بھی چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۲۸ راوی: مالک بن اوس میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاء نے جا کر ان سے کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو۔ چنانچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ پھر کہا، کیا آپ علی و عباس رضی اللہ عنہما کو بھی آنے کی اجازت دیں گے؟ کہا کہ ہاں آنے دو۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے؟ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خود اپنی ہی ذات تھی۔ جملہ حاضرین بولے کہ جی ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ پھر عمر، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ حصے مخصوص کر دئیے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ ... وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اور جان رکھو کہ جو غنیمت لاؤ کچھ چیز،سو اﷲ کے واسطے اس میں سے پانچواں حصہ اور رسول کے اور قرابت والے کے اور یتیم کے اور محتاج کے اور مسافرکے۔ اگر تم یقین لائے ہو اﷲ پر اور اس چیز پر جو ہم نے اتاری اپنے بندے پر، جس دن فیصلہ ہوا، جس دن بھڑیں دو فوجیں۔اور اﷲ سب چیز پر قادر ہے۔(۸:۴۱) یہ تو خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا۔ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمہارے لیے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں چنانچہ انہوں نے اس پر قبضہ میں رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے ہو اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لیکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، قیامت تک، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیجئیے میں اس کا بھی بندوبست کر لوں گا۔ حدیث نمبر ۶۷۲۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا ورثہ دینار کی شکل میں تقسیم نہیں ہو گا۔ میں نے اپنی بیویوں کے خرچہ اور اپنے عاملوں کی اجرت کے بعد جو کچھ چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۳۰ راوی: ابن شہاب ان سے عائشہ رضی اللہ عنہابیان کیا کہ جب رسول اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی بیویوں نے چاہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں ، اپنی میراث طلب کرنے کے لئے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یاد دلایا۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی ، ہم جس کچھ چھوڑ جاٰئیں وہ سب کچھ صدقہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ جس نے مال چھوڑا ہو وہ اس کے اہل خانہ کے لیے ہےحدیث نمبر ۶۷۳۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مؤمنوں کا خود ان سے زیادہ حقدار ہوں۔ پس ان میں سے جو کوئی قرض دار مرے گا اور ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑے گا تو ہم پر اس کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے اور جس نے کوئی مال چھوڑا ہو گا وہ اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔ لڑکے کی (مقررہ) میراث اس کے باپ اور ماں کی طرف سے کیا ہو گی
زید بن ثابت نے کہا کہ جب کسی مرد یا عورت نے کوئی لڑکی چھوڑی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوتا ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں یا زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوئی (ان کا بھائی) لڑکا بھی ہو تو پہلے وراثت کے شرکاء کو دیا جائے گا اور جو باقی بچے گا اس میں سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔ (۴:۱۷۶) حدیث نمبر ۶۷۳۲ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میراث اس کے حق داروں تک پہنچا دو اور جو کچھ باقی بچے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد عزیز کا حصہ ہے۔ لڑکیوں کی میراث کا بیانحدیث نمبر ۶۷۳۳ راوی: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ میں مکہ مکرمہ میں (حجۃ الوداع میں) بیمار پڑ گیا اور موت کے قریب پہنچ گیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا اس کا کوئی وارث نہیں تو کیا مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصہ کا صدقہ کر دینا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آدھے کا کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا ایک تہائی کا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ گو تہائی بھی بہت ہے، اگر تم اپنے بچوں کو مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں تنگدست چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد تم پیچھے رہ بھی گئے تب بھی جو عمل تم کرو گے اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو گی تو اس کے ذریعہ درجہ و مرتبہ بلند ہو گا اور غالباً تم میرے بعد زندہ رہو گے اور تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو گا اور بہتوں کو نقصان پہنچے گا۔ قابل افسوس تو سعد ابن خولہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں اس لیے افسوس کا اظہار کیا کہ (ہجرت کے بعد اتفاق سے) ان کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہو گئی۔ سفیان نے بیان کیا کہ سعد ابن خولہ رضی اللہ عنہ بنی عامر بن لوی کے ایک آدمی تھے۔ حدیث نمبر ۶۷۳۴ راوی: اسود بن یزید معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں یمن میں معلم و امیر بن کر تشریف لائے۔ ہم نے ان سے ایک ایسے شخص کے ترکہ کے بارے میں پوچھا جس کی وفات ہوئی ہو اور اس نے ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہو اور اس نے اپنی بیٹی کو آدھا اور بہن کو بھی آدھا دیا ہو۔ پوتے کی میراث جب بیٹا نہ ہوزید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجہ میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے عزیز و اقارب اسی طرح وراثت کے حق سے محروم ہو جائیں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہو جاتے ہیں، البتہ اگر بیٹا موجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا۔ حدیث نمبر ۶۷۳۵ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے میراث ان کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو باقی رہ جائے وہ اس کو ملے گا جو مرد میت کا بہت نزدیکی رشتہ دار ہو۔ بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی میراثحدیث نمبر ۶۷۳۶ راوی: ہزیل بن شرحبیل ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا اور تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہاں جا، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہو چکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، اس طرح دو تہائی پوری ہو جائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔ باپ یا بھائیوں کی موجودگی میں دادا کی میراث کا بیانابوبکر، ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ دادا باپ کی طرح ہے؟ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی يَا بَنِي آدَمَ اے آدم کے بیٹو! وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ اور میں نے اتباع کی ہے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کی اور اس کا ذکر نہیں ملتا کہ کسی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آپ کے زمانہ میں اختلاف کیا ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد اس زمانہ میں بہت تھی۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میرے وارث میرے پوتے ہوں گے بھائی نہیں ہوں گے اور میں اپنے پوتوں کا وارث نہیں ہوں گا۔ عمر، علی، ابن مسعود اور زید رضی اللہ عنہم سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حدیث نمبر ۶۷۳۷ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میراث اس کے حقدار تک پہنچا دو اور جو باقی رہ جائے وہ سب سے قریب والے مرد کو دے دو۔ حدیث نمبر ۶۷۳۸ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس امت کے کسی آدمی کو خلیل بناتا تو ان کو (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو) کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کا تعلق ہی سب سے بہتر ہے تو اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کو باپ کے درجہ میں رکھا ہے۔ اولاد کے ساتھ خاوند کو کیا ملے گاحدیث نمبر ۶۷۳۹ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پہلے مال کی اولاد مستحق تھی اور والدین کو وصیت کا حق تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں سے جو چاہا منسوخ کر دیا اور لڑکوں کو لڑکیوں کے دگنا حق دیا اور والدین کو اور ان میں سے ہر ایک کو چھٹے حصہ کا مستحق قرار دیا اور بیوی کو آٹھویں اور چوتھے حصہ کا حق دار قرار دیا اور شوہر کو آدھے یا چوتھائی کا حقدار قرار دیا۔ بیوی اور خاوند کو اولاد وغیرہ کے ساتھ کیا ملے گاحدیث نمبر ۶۷۴۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی لحیان کی ایک عورت ملیا بنت عویمر کے بچے کے بارے میں جو ایک عورت کی مار سے مردہ پیدا ہوا تھا کہ مارنے والی عورت کو خون بہا کے طور پر ایک غلام یا لونڈی ادا کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ پھر وہ عورت بچہ گرانے والی جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا تھا مر گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ اس کی میراث اس کے لڑکوں اور شوہر کو دے دی جائے اور یہ دیت ادا کرنے کا حکم اس کے کنبہ والوں کو دیا تھا۔ بیٹیوں کی موجودگی میں بہنیں عصبہ ہو جاتی ہیںحدیث نمبر ۶۷۴۱ راوی: اسود بن یزید معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمارے درمیان یہ فیصلہ کیا تھا کہ آدھا بیٹی کو ملے گا اور آدھا بہن کو۔ پھر سلیمان نے جو اس حدیث کو روایت کیا تو اتنا ہی کہا کہ معاذ نے ہم کنبہ والوں کو یہ حکم دیا تھا یہ نہیں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں۔ حدیث نمبر ۶۷۴۲ راوی: ہزیل بن شرحبیل ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، لڑکی کو آدھا، پوتی کو چھٹا اور جو باقی بچے بہن کا حصہ ہے۔ بہنوں اور بھائیوں کی میراث کا بیانحدیث نمبر ۶۷۴۳ راوی: جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میں بیمار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر اپنے وضو کے پانی سے مجھ پر چھینٹا ڈالا تو مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میری بہنیں ہیں؟ اس پر میراث کی آیت نازل ہوئی۔ سورۃ نساء میں اللہ کا یہ فرمان: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۔۔۔ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ لوگ وراثت کے بارے میں آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے متعلق یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی بہنیں ہوں تو بہن کو ترکہ کا آدھا ملے گا۔ اسی طرح یہ شخص اپنی بہن کا وارث ہو گا اگر اس کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ پھر اگر بہنیں دو ہوں تو وہ دو تہائی ترکہ سے پائیں گی اور اگر بھائی بہن سب ملے جلے ہوں تو مرد کو دہرا حصہ اور عورت کو اکہرا حصہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بیان کرتا ہے کہ کہیں تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (۴:۱۷۶) حدیث نمبر ۶۷۴۴ راوی: براء رضی اللہ عنہ آخری آیت (میراث کی) سورۃ نساء کے آخر کی آیتیں نازل ہوئیں يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ... آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے ...۔(۴:۱۷۶) اگر کوئی عورت مر جائے اور اپنے دو چچا زاد بھائی چھوڑ جائے ایک تو اس کا اخیائی بھائی ہو، دوسرا اس کا خاوند ہوعلی رضی اللہ عنہ نے کہا خاوند کو آدھا حصہ ملے گا اور اخیائی بھائی کو چھٹا حصہ (بموجب فرض کے) پھر جو مال بچ رہے گا یعنی ایک ثلث وہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا (کیونکہ دونوں عصبہ ہیں)۔ حدیث نمبر ۶۷۴۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ ولی ہوں۔ پس جو شخص مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے اور جس نے بیوی بچے چھوڑے ہوں یا قرض ہو، تو میں ان کا ولی ہوں، ان کے لیے مجھ سے مانگا جائے۔ حدیث نمبر ۶۷۴۶ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میراث اس کے وارثوں تک پہنچا دو اور جو کچھ اس میں سے بچ رہے وہ قریبی عزیز مرد کا حق ہے۔ ذوی الارحام جیسے ماموں، خالہ، نانا، نواسہ، بھانجاحدیث نمبر ۶۷۴۷ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ اور وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ (۴:۳۳)کے متعلق بتلایا کہ مہاجرین جب مدینہ آئے تو ذَوِي رَحِمِهِ کے علاوہ انصار و مہاجرین بھی ایک دوسرے کی وراثت پاتے تھے۔ اس بھائی چارگی کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان کرائی تھی، پھر جب آیت وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ (۴:۳۳)نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس نے وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ (۴:۳۳)کو منسوخ کر دیا۔ لعان کرنے والی عورت کی وراثت کا بیانحدیث نمبر ۶۷۴۸ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص نے اپنی بیوی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لعان کیا اور اس کے بچہ کو اپنا بچہ ماننے سے انکار کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور بچہ عورت کو دے دیا۔ بچہ خواہ آزاد ہو یا غلام اسی کا کہلائے گا جس کا بستر ہوحدیث نمبر ۶۷۴۹ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا عتبہ اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کو وصیت کر گیا تھا کہ زمعہ کی کنیز کا لڑکا میرا ہے اور اسے اپنی پرورش میں لے لینا۔ فتح مکہ کے سال سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لینا چاہا اور کہا کہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اس نے مجھے اس کے بارے میں وصیت کی تھی۔ اس پر عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر یہ دونوں یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ!، یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اس نے اس کے بارے میں مجھے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی باندی کا لڑکا اور باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد بن زمعہ! یہ تمہارے پاس رہے گا، لڑکا بستر کا حق ہے اور زانی کے حصہ میں پتھر ہیں۔ پھر سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر کیونکہ عتبہ کے ساتھ اس کی شباہت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لی تھی۔ چنانچہ پھر اس لڑکے نے ام المؤمنین کو اپنی وفات تک نہیں دیکھا۔ حدیث نمبر ۶۷۵۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکا بستر والے کا حق ہوتا ہے۔ غلام لونڈی کا ترکہ وہی لے گا جو اسے آزاد کرے اور جو لڑکا راستہ میں پڑا ہوا ملے اس کی وراثت کا بیانعمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو لڑکا پڑا ہوا ملے اور اس کے ماں باپ نہ معلوم ہوں تو وہ آزاد ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۷۵۱ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا میں نے بریرہ رضی اللہ عنہ کو خریدنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں خرید لے، ولاء تو اس کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کر دے اور بریرہ رضی اللہ عنہ کو ایک بکری ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھی لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ حکم نے بیان کیا کہ ان کے شوہر آزاد تھے۔ حکم کا قول مرسل منقول ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے انہیں غلام دیکھا تھا۔ حدیث نمبر ۶۷۵۲ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولاء اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔ سائبہ وہ غلام یا لونڈی جس کو مالک آزاد کر دے اور کہہ دے کہ تیری ولاء کا حق کسی کو نہ ملے گا کی وراثت کا بیانحدیث نمبر ۶۷۵۳ راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا مسلمان سائبہ نہیں بناتے اور دور جاہلیت میں مشرکین سائبہ بناتے تھے۔ حدیث نمبر ۶۷۵۴ راوی: اسود عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا لیکن ان کے نائکوں نے اپنے ولاء کی شرط لگا دی عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! میں نے آزاد کرنے کے لیے بریرہ کو خریدنا چاہا لیکن ان کے مالکوں نے اپنے لیے ان کی ولاء کی شرط لگا دی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں آزاد کر دے، ولاء تو آزاد کرنے والے کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ بیان کیا کہ پھر میں نے انہیں خریدا اور آزاد کر دیا اور میں نے بریرہ کو اختیار دیا (کہ چاہیں تو شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہیں ورنہ علیحدہ بھی ہو سکتی ہیں) تو انہوں نے شوہر سے علیحدگی کو پسند کیا اور کہا کہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دیا جائے تو میں پہلے شوہر کے ساتھ نہیں رہوں گی۔ اسود نے بیان کیا کہ ان کے شوہر آزاد تھے۔ اسود کا قول منقطع ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول صحیح ہے کہ میں نے انہیں غلام دیکھا۔ جو غلام اپنے اصلی مالکوں کو چھوڑ جائے اس کا گناہحدیث نمبر ۶۷۵۵ راوی: علی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھیں، سوا اللہ کی کتاب قرآن کے اور اس کے علاوہ یہ صحیفہ بھی ہے۔ پھر وہ صحیفہ نکالا تو اس میں زخموں (کے قصاص) اور اونٹوں کی زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ اس میں یہ بھی تھا کے عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے جس نے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور جس نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے مولات قائم کر لی تو اس پر فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور مسلمانوں کا ذمہ (قول و قرار، کسی کو پناہ دینا وغیرہ) ایک ہے۔ ایک ادنیٰ مسلمان کے پناہ دینے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پس جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا، اس پر اللہ کی، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔ حدیث نمبر ۶۷۵۶ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے تعلق کو بیچنے، اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جب کوئی کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لائے (تو وہ اس کا وارث ہوتا ہے یا نہیں)امام حسن بصری اس کے ساتھ ولاء کے تعلق کو درست نہیں سمجھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولاء اس کے ساتھ قائم ہو گی جو آزاد کرے اور تمیم بن اوس داری سے منقول ہے، انہوں نے مرفوعاً روایت کی کہ وہ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں سب لوگوں سے زیادہ اس پر حق رکھتا ہے لیکن اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۵۷ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک کنیز کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا تو کنیز کے مالکوں نے کہا کہ ہم بیچ سکتے ہیں لیکن ولاء ہمارے ساتھ ہو گی۔ ام المؤمنین نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شرط کو مانع نہ بننے دو، ولاء ہمیشہ اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ حدیث نمبر ۶۷۵۸ راوی: اسود عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے بریرہ کو خریدنا چاہا تو ان کے مالکوں نے شرط لگائی کہ ولاء ان کے ساتھ قائم ہو گی۔ میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں آزاد کر دو، ولاء قیمت ادا کرنے والے ہی کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ بیان کیا کہ پھر میں نے آزاد کر دیا۔ پھر انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور ان کے شوہر کے معاملہ میں اختیار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے یہ یہ چیزیں بھی وہ دیدے تو میں اس کے ساتھ رات گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ اس نے شوہر سے علیحدگی کو پسند کیا۔ ولاء کا تعلق عورت کے ساتھ قائم ہو سکتا ہےحدیث نمبر ۶۷۵۹ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ لوگ ولاء کی شرط لگاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خرید لو، ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے (آزاد کرائے)۔ حدیث نمبر ۶۷۶۰ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولاء اس کے ساتھ قائم ہو گی جو قیمت دے اور احسان کرے (آزاد کر کے)۔ جو شخص کسی قوم کا غلام ہو آزاد کیا گیا وہ اسی قوم میں شمار ہو گا، اسی طرح کسی قوم کا بھانجا بھی اسی قوم میں داخل ہو گاحدیث نمبر ۶۷۶۱ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی گھرانے کا غلام اسی کا ایک فرد ہوتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۶۲ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی گھرانے کا بھانجا اس کا ایک فرد ہے۔ منهم یا من أنفسهم کے الفاظ فرمائے۔ قیدی کی وراثت کا بیان
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ شریح قاضی قیدی کو ترکہ دلاتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ تو اور زیادہ محتاج ہے۔ اور عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ قیدی کی وصیت اور اس کی آزادی اور جو کچھ وہ اپنے مال میں تصرف کرتا ہے وہ نافذ ہو گی جب تک وہ اپنے دین سے نہیں پھرتا کیونکہ وہ مال اسی کا مال رہتا ہے وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۶۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مال چھوڑا (اپنی موت کے بعد) وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض چھوڑا ہے وہ ہمارے ذمہ ہے۔ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ کافر مسلمان کااور اگر میراث کی تقسیم سے پہلے اسلام لایا تب بھی میراث میں اس کا حق نہیں ہو گا حدیث نمبر ۶۷۶۴ راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان باپ کافر بیٹے کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر بیٹا مسلمان باپ کا۔ جو کسی شخص کے بارے میں اپنا بھائی یا بھتیجا ہونے کا دعویٰ کرےحدیث نمبر ۶۷۶۵ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہا کا ایک لڑکے کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا لڑکا ہے، اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ اس کا لڑکا ہے آپ اس کی مشابہت اس میں دیکھئیے اور عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا رسول اللہ! میرے والد کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی صورت دیکھی تو اس کی عتبہ کے ساتھ صاف مشابہت واضح تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد! لڑکا بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی کے حصہ میں پتھر ہیں اور اے سودہ بنت زمعہ! (ام المؤمنین رضی اللہ عنہا) اس لڑکے سے پردہ کیا کر چنانچہ پھر اس لڑکے نے ام المؤمنین کو نہیں دیکھا۔ جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا، اس کے گناہ کا بیانحدیث نمبر ۶۷۶۶ راوی: سعد رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۶۷ پھر میں نے اس کا تذکرہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے دونوں کانوں نے بھی سنا ہے اور میرے دل نے اس کو محفوظ رکھا ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۶۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے (اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو) یہ کفر ہے۔ کسی عورت کا دعویٰ کرنا کہ یہ بچہ میرا ہےحدیث نمبر ۶۷۶۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، پھر بھیڑیا آیا اور ایک بچے کو اٹھا کر لے گیا اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا کہ بھیڑیا تیرے بچے کو لے گیا ہے، دوسری عورت نے کہا کہ وہ تو تیرا بچہ لے گیا ہے۔ وہ دونوں عورتیں اپنا مقدمہ داؤد علیہ السلام کے پاس لائیں تو آپ نے فیصلہ بڑی کے حق میں کر دیا۔ وہ دونوں نکل کر سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے پاس گئیں اور انہیں واقعہ کی اطلاع دی۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ چھری لاؤ میں لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک دوں گا۔ اس پر چھوٹی عورت بول اٹھی کہ ایسا نہ کیجئے آپ پر اللہ رحم کرے، یہ بڑی ہی کا لڑکا ہے لیکن آپ علیہ السلام نے فیصلہ چھوٹی عورت کے حق میں کیا۔ قیافہ شناش کا بیانحدیث نمبر ۶۷۷۰ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں ایک مرتبہ بہت خوش خوش تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے نہیں دیکھا، مُجَزِّزًا (ایک قیافہ شناس) نے ابھی ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے (صرف پاؤں دیکھے) اور کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حدیث نمبر ۶۷۷۱ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش تھے اور فرمایا عائشہ! تم نے دیکھا نہیں، مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ آیا اور اس نے اسامہ اور زید (رضی اللہ عنہما) کو دیکھا، دونوں کے جسم پر ایک چادر تھی، جس نے دونوں کے سروں کو ڈھک لیا تھا اور ان کے صرف پاؤں کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Nov 2024 |