صحیح بخاری شریفقسموں کے کفاروں کا بیانAhadith 6708-6722 |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
پس قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہےاور سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے۔ (۵:۸۹) اور یہ کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پھر روزے یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عطاء و عکرمہ سے منقول ہے کہ قرآن مجید میں جہاں أَوْ أَوْ (بمعنی یا) کا لفظ آتا ہے تو اس میں اختیار بتانا مقصود ہوتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب رضی اللہ عنہ کو فدیہ کے معاملہ میں اختیار دیا تھا کہ مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا ایک بکرے کا صدقہ کریں۔ حدیث نمبر ۶۷۰۸ راوی: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہو جا، میں قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے سر کے کپڑے تکلیف دے رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر روزے صدقہ یا قربانی کا فدیہ دیدے۔ اور مجھے ابن عون نے خبر دی، ان سے ایوب نے بیان کیا کہ روزے تین دن کے ہوں گے اور قربانی ایک بکری کی اور (کھانے کے لیے) چھ مسکین ہوں گے۔ اور مالدار اور محتاج پر کفارہ کب واجب ہوتا ہے؟سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖوَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کیا ہوا ہے اور اللہ تمہارا کارساز ہے اور وہ بڑا جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔(۶۶:۲) حدیث نمبر ۶۷۰۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میں تو تباہ ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ وہ صاحب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے جا اور اسے پورا صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا، کیا اپنے سے زیادہ محتاج پر (صدقہ کر دوں)؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور آپ کے سامنے کے دانت مبارک دکھائی دینے لگے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بچوں ہی کو کھلا دینا۔ جس نے کفارہ کے ادا کرنے کے لیے کسی تنگ دست کی مدد کیحدیث نمبر ۶۷۱۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، میں تو تباہ ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کوئی غلام ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا متواتر دو مہینے روزے رکھ سکتے ہو، انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر ایک انصاری صحابی عرق لے کر حاضر ہوئے، (عرق ایک پیمانہ ہے)، اس میں کھجوریں تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ان دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا اور اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔ کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا دیا جائےخواہ وہ قریب کے رشتہ دار ہوں یا دور کے بلکہ قریب والوں کو کھلانے میں ثواب اور بھی زیادہ ہے حدیث نمبر ۶۷۱۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں تو تباہ ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ کہا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے آزاد کر سکو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ دریافت فرمایا، کیا متواتر دو مہینے تم روزے رکھ سکتے ہو؟ کہا کہ نہیں، دریافت فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ عرض کیا کہ اس کے لیے بھی میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے جا اور صدقہ کر۔ انہوں نے پوچھا کہ اپنے سے زیادہ محتاج پر؟ ان دونوں میدان کے درمیان ہم سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اسے لے جا اور اپنے گھر والوں کو کھلا دے۔ مدینہ منورہ کا صاع (ایک پیمانہ)اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مد (ایک پیمانہ) اور اس میں برکت، اور بعد میں بھی اہل مدینہ کو نسلاً بعد نسل جَو صاع اور مد ورثہ میں ملا اس کا بیان۔ حدیث نمبر ۶۷۱۲ راوی: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے زمانہ کے مد سے ایک مد اور تہائی کے برابر ہوتا تھا۔ بعد میں عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں اس میں زیادتی کی گئی۔ حدیث نمبر ۶۷۱۳ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما رمضان کا فطرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پہلے مد کے وزن سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے ہی دیتے تھے۔ ابوقتیبہ نے اسی سند سے بیان کیا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا کہ ہمارا مد تمہارے مد سے بڑا ہے اور ہمارے نزدیک ترجیح صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کو ہے۔ اور مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ اگر ایسا کوئی حاکم آیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے چھوٹا مد مقرر کر دے تو تم کس حساب سے (صدقہ فطر وغیرہ) نکا لو گے؟ میں نے عرض کیا کہ ایسی صورت میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کے حساب سے فطرہ نکالا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ معاملہ ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مد کی طرف لوٹتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۷۱۴ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ان کے كيل پیمانے میں ان کے صاع اور ان کے مد میں برکت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یعنی قسم کے کفارہ میں ایک غلام کی آزادیاور کس طرح کے غلام کی آزادی افضل ہے حدیث نمبر ۶۷۱۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک ٹکڑے کے بدلے آزاد کرنے والے کا ایک ایک ٹکڑا جہنم سے آزاد کرے گا۔ یہاں تک کہ غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کرنے والے کی شرمگاہ بھی دوزخ سے آزاد ہو جائے گی۔ کفارہ میں مدبر، ام الولد اور مکاتب اور ولد الزنا کا آزاد کرنا درست ہے۔اور طاؤس نے کہا کہ مدبر اور ام الولد کا آزاد کرنا کافی ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۷۱۶ راوی: عمرو بن دینار جابر رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب نے اپنے غلام کو مدبر بنا لیا اور ان کے پاس اس غلام کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ جب اس کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ مجھ سے اس غلام کو کون خریدتا ہے۔ نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ نے آٹھ سو درہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے خرید لیا۔ میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے سال مر گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نیلام فرما کر اس رقم سے اسے مکمل آزاد کرا دیا۔ جب کفارہ میں غلام آزاد کرے گا تو اس کی ولاء کسے حاصل ہو گی؟حدیث نمبر ۶۷۱۷ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو (آزاد کرنے کے لیے) خریدنا چاہا، تو ان کے پہلے مالکوں نے اپنے لیے ولاء کی شرط لگائی۔ میں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خرید لو، ولاء تو اسی سے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص قسم میں ان شاءاللہ کہہ لےراوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ساتھ حاضر ہوا اور آپ سے سواری کے لیے جانور مانگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہیں سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ پھر جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم ٹھہرے رہے اور جب کچھ اونٹ آئے تو تین اونٹ ہمیں دئیے جانے کا حکم فرمایا۔ جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے بعض نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں اللہ اس میں برکت نہیں دے گا۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ ہمیں سواری کے جانور نہیں دے سکتے اور آپ نے عنایت فرمائے ہیں۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہارے لیے جانور کا انتظام نہیں کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا تو جب بھی میں کوئی قسم کھا لوں گا اور پھر اس کے سوا اور چیز میں اچھائی ہو گی تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا اور وہی کام کروں گا جس میں اچھائی ہو گی۔ حدیث نمبر ۶۷۱۹ راوی: حماد بن زید انہوں نے اس روایت میں یہ ترتیب اسی طرح بیان کی کہ میں قسم کا کفارہ ادا کر دوں گا اور وہ کام کروں گا جس میں اچھائی ہو گی یا اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کام وہ کروں گا جس میں اچھائی ہو گی اور کفارہ ادا کر دوں گا۔ حدیث نمبر ۶۷۲۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ سلیمان علیہ السلام نے کہا تھا کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک بچہ جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی سفیان یعنی فرشتے نے ان سے کہا۔ اجی إِنْ شَاءَ اللَّهُ تو کہو لیکن آپ بھول گئے اور پھر تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک بیوی کے سوا جس کے یہاں ناتمام بچہ ہوا تھا کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ نہیں ہوا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر انہوں نے إِنْ شَاءَ اللَّهُ کہہ دیا ہوتا تو ان کی قسم بےکار نہ جاتی اور اپنی ضرورت کو پا لیتے اور ایک مرتبہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر انہوں نے استثناء کر دیا ہوتا۔ قسم کا کفارہ، قسم توڑنے سے پہلے اور اس کے بعد دونوں طرح دے سکتا ہےحدیث نمبر ۶۷۲۱ راوی: زہدم جرمی ہم ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور ہمارے قبیلہ اور اس قبیلہ جرم میں بھائی چارگی اور باہمی حسن معاملہ کی روش تھی۔ پھر کھانا لایا گیا اور کھانے میں مرغی کا گوشت بھی تھا۔ حاضرین میں بنی تیم اللہ کا ایک شخص سرخ رنگ کا بھی تھا جیسے مولیٰ ہو۔ بیان کیا کہ وہ شخص کھانے پر نہیں آیا تو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ شریک ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا جب سے اس سے گھن آنے لگی اور اسی وقت میں نے قسم کھا لی کہ کبھی اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ نے کہا قریب آؤ میں تمہیں اس کے متعلق بتاؤں گا۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ آئے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کا جانور مانگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صدقہ کے اونٹوں میں سے تقسیم کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری کے جانور نہیں دے سکتا اور نہ میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو سواری کے لیے تمہیں دے سکوں۔ پھر ہم واپس آ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے، تو پوچھا گیا کہ اشعریوں کی جماعت کہاں ہے۔ ہم حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ عمدہ اونٹ دئیے جانے کا حکم دیا۔ ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے لیے آئے تھے تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ سواری کا انتظام نہیں کر سکتے۔ پھر ہمیں بلا بھیجا اور سواری کا جانور عنایت فرمائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم بھول گئے ہوں گے۔ واللہ! اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قسم کے بارے میں غفلت میں رکھا تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ چلو ہم سب آپ کے پاس واپس چلیں اور آپ کو آپ کی قسم یاد دلائیں۔ چنانچہ ہم واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم پہلے آئے تھے اور آپ سے سواری کا جانور مانگا تھا تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ آپ اس کا انتظام نہیں کر سکتے، ہم نے سمجھا کہ آپ اپنی قسم بھول گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ، تمہیں اللہ نے سواری دی ہے، واللہ اگر اللہ نے چاہا تو میں جب بھی کوئی قسم کھا لوں اور پھر دوسری چیز کو اس کے مقابل بہتر سمجھوں تو وہی کروں گا جو بہتر ہو گا اور اپنی قسم توڑ دوں گا۔ حدیث نمبر ۶۷۲۲ راوی: عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبھی تم حکومت کا عہدہ طلب نہ کرنا کیونکہ اگر بلا مانگے تمہیں یہ مل جائے گا تو اس میں تمہاری منجانب اللہ مدد کی جائے گی، لیکن اگر مانگنے پر ملا تو سارا بوجھ تمہیں پر ڈال دیا جائے گا اور اگر تم کوئی قسم کھا لو اور اس کے سوا کوئی اور بات بہتر نظر آئے تو وہی کرو جو بہتر ہو اور قسم کا کفارہ ادا کر دو۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Nov 2024 |