Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al Ma'unTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ کیا تو نے دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے ۔ (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے اور استفہام سے مقصد اظہار تعجب ہے۔ رؤیت معرفت کے مفہوم میں ہے اور دین سے مراد آخرت کا حساب اور جزا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کلام میں حذف ہے۔ اصل عبادت ہے کیا تو نے اس شخص کو پہچانا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے؟ آیا وہ اپنی اس بات میں صحیح یا غلط۔ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ (۲) اس لیے کہ ایک تو بخیل ہے، دوسرا قیامت کا منکر ہے بھلا ایسا شخص یتیم کے ساتھ کیوں کر حسن سلوک کر سکتا ہے؟ یتیم کے ساتھ وہی شخص اچھا برتاؤ کرے گا جس کے دل میں مال کے بجائے انسانی قدروں اور اخلاقی ضابطوں کی اہمیت ومحبت ہوگی۔ دوسرے اسے اس امر کا یقین ہو کہ اس کے بدلے میں مجھے قیامت والے دن اچھی جزا ملے گی۔ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ اور مسکین کو کھلانے کے لئے ترغیب نہیں دیتا (۳) یہ کام بھی وہی کرے گا جس میں مذکورہ خوبیاں ہونگی ورنہ یتیم کی طرح مسکین کو بھی دھکا ہی دے گا۔ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔ (۴) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ جو اپنی نماز سے غافل ہیں (۵) اس مراد وہ لوگ ہیں نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے رہے پھر سست ہوگئے یا نماز کو اس کے اپنے مسنوں وقت میں نہیں پڑھتے۔ جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں یا خشوع خضوع کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ یہ سارے ہی مفہوم اس میں آ جاتے ہیں اس لیے نماز کی مذکورہ ساری ہی کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔ کہاں اس مقام پر ذکر کرنے سے یہ بھی واضح ہے کہ نماز میں ان کوتاہیوں کے مرتکب وہی لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کی جزا اور حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے منافقین کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا اور جب کھڑے ہوں نماز کو، تو کھڑے ہوں جی ہارے (بے دل) ، دکھانے کو لوگوں کے، اور یاد نہ کریں اﷲ کو، مگر کم۔ (۴:۱۴۲) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ جو ریاکاری کرتے ہیں۔ (۶) یعنی ایسے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہوئے تو نماز پڑھ لی بصورت دیگر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، یعنی صرف نمود و نمائس اور ریا کاری کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ اور برتنے کی چیز روکتے ہیں (۷) معن شیء قلیل کہتے ہیں۔ بعض اس سے مراد زکوٰۃ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اصل مال کے مقابلے میں بالکل تھوڑی سی ہوتی ہے (ڈھائی فی صد) اور بعض اس سے گھروں میں برتنے والی چیزیں مراد لیتے ہیں جو پڑوسی ایک دوسرے سے عاریتاً مانگ لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ گھریلو چیزیں عاریتا ًدے دینا اور اس میں کبیدگی محسوس نہ کرنا اچھی صفت ہے اور اس کے برعکس بخل اور کنجوسی برتنا، یہ منکرین قیامت ہی کا شیوہ ہے۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |