Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al Qari'ahTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
الْقَارِعَةُ کھڑ کھڑا دینے والی (۱) مَا الْقَارِعَةُ کیا ہےوہ کھڑ کھڑا دینے والی۔ (۲) یہ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس سے قبل متعدد نام گزر چکے ہیں مثلاً اَ لْحاقَّةُ، الطَّاَمَّةُ، صَّاَخَّہُ، اَلْغَاشِیَةُ، الْسَّاعَہُ، الْوَاقِعَةُ اسے الْقَارِعَةُ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے دلوں کو بیدار اور اللہ کے دشمنوں کو عذاب سے خبردار کر دے گی، جیسے دروازہ کھٹکھٹانے والا کرتا ہے۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے۔ (۳) يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ جس دن انسان بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے (۴) فراش، مچھر اور شمع کے گرد منڈلانے والے پرندے وغیرہ۔ مبثوث، منتشر اور بکھرے ہوئے۔ یعنی قیامت والے دن انسان بھی پروانوں کی طرح پراگندہ اور بکھرے ہوئے ہوں گے۔ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ اور پہاڑ دھنے ہوئے رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔ (۵) عھن، اس اون کو کہتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ساتھ رنگی ہوئی ہو، منفوش، دھنی ہوئی۔ یہ پہاڑوں کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جو قیامت والے دن انکی ہوگی۔ قرآن کریم میں پہاڑوں کی یہ کیفیت مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، جسکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اب آگے ان دوفریقوں کا اجمالی ذکر کیا جا رہا ہے جو قیامت والے دن اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔ فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ پھر جس کے پلڑے بھاری ہونگے۔ (۶) موازین، میزان کی جمع ہے۔ ترازو، جس میں صحائف اعمال تولے جائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ذکر سورہ أعراف۔آیت ۸ سورہ کہف (۱۰۵) اور سورہ انبیاء (٤۷) میں بھی گزراہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں یہ میزان نہیں، موزون کی جمع ہے یعنی ایسے اعمال جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور خاص وزن ہوگا (فتح القدیر) لیکن پہلا مفہوم ہی راجح اور صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو وزن اعمال کے وقت ان کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ وہ دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا۔ (۷) یعنی ایسی زندگی جس کو وہ صاحب زندگی پسند کرے گا۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ جن کے پلڑے ہلکے ہونگے۔ (۸) جس کی برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں گی اور برائیوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں کا ہلکا ہوگا۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہے۔ (۹) وہایہ جہنم کا نام ہے اس کو وہایہ اس لیے کہتے ہیں کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو ام (ماں) سے اس لیے تعبیر کیا کہ جس طرح انسان کے لیے ماں، جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح جہنمیوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ ام کے معنی دماغ کے ہیں۔ جہنمی، جہنم میں سرکے بل ڈالے جائیں گے۔(ابن کثیر) وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے (۱۰) یہ استفہام اس کی ہو لناکی اور شدت عذاب کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ انسان کے وہم و تصور سے بالا ہے انسانی علوم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے اور اس کی کنہ نہیں جان سکتے۔ نَارٌ حَامِيَةٌ وہ تند تیز آگ ہے (۱۱) جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ انسان دنیا میں جو آگ جلاتا ہے، یہ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے، جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے ٦٩ درجہ زیادہ ہے (صحیح بخاری ) ایک اور حدیث میں ہے : آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ میرا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھائے جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت فرما دی۔ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں پس جو سخت سردی ہوتی ہے یہ اس کا ٹھنڈا سانس ہے، اور نہایت سخت گرمی جو پڑتی ہے، وہ جہنم کا گرم سانس ہے (بخاری، کتاب و باب مذکور) ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب گرمی زیادہ سخت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے۔(حوالہ مذکور، مسلم، کتاب المساجد) |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |