Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al AdiyatTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم (۱) عادیات، عادیۃ کی جمع ہے۔ یہ عدو سے ہے جیسے غزو ہے غازیات کی طرح اس کے واؤ کو بھی یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تیز رو گھوڑے۔ ضبح کے معنی بعض کے نزدیک ہانپنا اور بعض کے نزدیک ہنہنانا ہے۔ مراد وہ گھوڑے ہیں جو ہانپتے یا ہنہناتے ہوئے جہاد میں تیزی سے دشمن کی طرف دوڑتے ہیں۔ فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والوں کی قسم (۲) موریات، ایراء سے ہے آگ نکالنے والے۔ قدح کے معنی ہیں۔ صبک چلنے میں گھٹنوں یا ایڑیوں کا ٹکرانا، یا ٹاپ مارنا۔ اسی سے قدح بالزناد ہے۔ چقماق سے آگ نکالنا۔ یعنی گھوڑوں کی قسم جن کی ٹاپوں کی رگڑ سے پتھروں سے آگ نکلتی ہے جیسے چقماق سے نکلتی ہے (جو کہ ایک قسم کا پتھر ہے) فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم (۳) مغیرات،أغار یعیر سے ہے، شب خون مارنے یا دھاوا بولنے والے۔ صبحا صبح کے وقت، عرب میں عام طور پر حملہ اسی وقت کیا جاتا تھا، شب خون تو مارتے ہیں، جو فوجی گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں، لیکن اس کی نسبت گھوڑوں کی طرف اس لئے کی ہے کہ دھاوا بولنے میں فوجیوں کے یہ بہت زیادہ کام آتے ہیں۔ فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا پس اس وقت گرد و غبار اڑاتے ہیں۔ (۴) أثار، اڑانا۔ نقع، گرد و غبار۔ یعنی یہ گھوڑے جس وقت تیزی سے دوڑتے یا دھاوا بولتے ہیں تو اس جگہ پر گرد و غبار چھا جاتا ہے ۔ فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا پھر اسی کے ساتھ فوجوں کے درمیان گھس جاتے ہیں۔ (۵) فوسطن، درمیان میں گھس جاتے ہیں۔ اس وقت، یا حالت گرد و غبار میں۔ جمعا دشمن کے لشکر۔ مطلب ہے کہ اس وقت، یا جبکہ فضا گردوغبار سے اٹی ہوئی ہے یہ گھوڑے دشمن کے لشکروں میں گھس جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ کرتے ہیں۔ إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ (۶) یہ جواب قسم ہے۔ انسان سے مراد کافر، یعنی بعض افراد ہیں۔ کنود بمعنی کفور، ناشکرا۔ وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ اور یقیناً وہ خود بھی اس پر گواہ ہے۔ (۷) یعنی انسان خود بھی اپنی ناشکری کی گواہی دیتا ہے۔ بعض لشہید کا فاعل اللہ کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے مفہوم کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ مابعد کی آیات میں ضمیر کا مرجع انسان ہی ہے۔ اس لیے یہاں بھی انسان ہی ہونا زیادہ صحیح ہے۔ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ یہ مال کی محبت میں بھی بڑا سخت ہے (۸) خَیْر سے مراد مال ہے، اور ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نہایت حریص اور بخیل ہے جو مال کی شدید محبت کا لازمی نتیجہ ہے۔ أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ کیا اسے وہ وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو (کچھ) ہے نکال لیا جائے گا (۹) بعثر، نثر وبعث یعنی قبروں کے مردوں کو زندہ کر کے اٹھا کھڑا کر دیا جائے گا۔ وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی۔ (۱۰) حصل، میز وبین یعنی سینوں کی باتوں کو ظاہر اور کھول دیا جائے گا۔ إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَخَبِيرٌ بیشک ان کا رب اس دن ان کے حال سے پورا باخبر ہوگا (۱۱) یعنی جو رب ان کو قبروں سے نکال لے گا ان کے سینوں کے رازوں کو ظاہر کر دے گا اس کے متعلق ہر شخص جان سکتا ہے کہ وہ کتنا باخبر ہے؟ اور اس سے کوئی چیز مخفی نہیں پھر وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ یہ گویا ان اشخاص کو تنبیہ ہے جو رب کی نعمتیں تو استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے، اسکی ناشکری کرتے ہیں۔ اسی طرح مال کی محبت میں گرفتار ہو کر مال کے وہ حقوق ادا نہیں کرتے جو اللہ نے اس میں دوسرے لوگوں کے رکھے ہیں۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |