Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al BayyinahTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ کتاب کے کافر اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آ جائے باز رہنے والے نہ تھے (۱) اس سے مراد یہود ونصاری ہیں، مشرک سے مراد عرب و عجم کے وہ لوگ ہیں جو بتوں اور آگ کے پجاری تھے۔ منفکّین باز آنے والے، بیّنة (دلیل) سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ اور عرب وعجم کے مشرکین اپنے کفرو شرک سے باز آنے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن لے کر آ جائیں اور وہ ان کی ضلالت و جہالت بیان کریں اور انہیں ایمان کی دعوت دیں۔ وہ دلیل یہ تھی کہ رَسُولٌ مِنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً اللہ تعالیٰ کا ایک رسول جو پاک آسمانی کتاب پڑھے۔ (۲) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ یعنی قرآن مجید جو لوح محفوظ میں پاک صحیفوں میں درج ہے۔ فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ جن میں صحیح اور درست احکام ہوں۔ (۳) یہاں کتب سے مراد احکام دینیہ، قیمہ، معتدل اور سیدھے۔ وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَة اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آ جانے کے بعد ہی (اختلاف میں پڑ کر) متفرق ہوگئے- (۴) یعنی اہل کتاب، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل اکھٹے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث ہوگئی، اس کے بعد یہ متفرق ہوگئے، ان میں سے کچھ مومن ہوگئے لیکن اکثریت ایمان سے محروم ہی رہی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث و رسالت کو دلیل سے تعبیر کرنے میں یہی نقطہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت واضح تھی جس میں مجال انکار نہیں تھی۔ لیکن ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب محض حسد اور عناد کی وجہ سے کی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تفرق کا ارتکاب کرنے والوں میں صرف اہل کتاب کا نام لیا ہے، حالانکہ دوسروں نے بھی اس کا ارتکاب کیا تھا، کیونکہ یہ بہرحال علم والے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور صفات کا تذکرہ ان کی کتابوں میں موجود تھا۔ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا (١) کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یعنی ان کی کتابوں میں انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ۔۔۔ حنیف کے معنی ہیں، مائل ہونا، کسی ایک طرف یکسو ہونا، حنفآء جمع ہے۔ یعنی شرک سے توحید کی طرف اور تمام ادیان سے منقطع ہو کر صرف دین اسلام کی طرف مائل اور یکسو ہوتے ہوئے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ والسلام نے کیا۔ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔ (۵) قیّمة محذوف موصوف کی صفت ہے۔ دین الملة القیّمة ائ: المستقیمة یا الأمّة المستقیمة المعتدلة، یہی اس ملت یا امت کا دین ہے جو سیدھی اور معتدل ہے۔ اکثر ائمہ نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اعمال، ایمان میں داخل ہیں (ابن کثیر) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ بیشک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین سب دوزخ کی آگ میں جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّة یہ لوگ بدترین خلائق ہیں (۶) یہ اللہ کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والوں کا انجام۔ نیز انہیں تمام مخلوقات میں بدترین قرار دیا گیا۔ إِنَّ الَّذِيَن آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے یہ لوگ بہترین خلائق ہیں (۷) یعنی جو دل کے ساتھ ایمان لائے اور جنہوں نے اعضا کے ساتھ عمل کئے، وہ تمام مخلوقات سے بہتر اور افضل ہیں۔ جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ مومن بندے ملائکہ سے شرف فضل میں بہترین ہیں۔ ان کی ایک دلیل یہ آیت بھی ہے۔ البریة ، یرأ (خلق) سے ہے۔ اسی سے اللہ کی صفت الباری ہے۔ اس لیے یرأ اصل میں بریئة ہے، ہمزہ کو یا سے بدل کر یا کا یا میں ادغام کر دیا گیا جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشگی والی جنتیں ہیں جنکے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے ان کے ایمان وطاعت اور اعمال صالحہ کے سبب۔ اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے (ورضوان من اللہ اکبر) اس لئے کہ اللہ نے انہیں ایسی نعمتوں سے نواز دیا، جن میں ان کی روح اور بدن دونوں کی سعادتیں ہیں۔ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ یہ ہے اس کے لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرے۔ (۸) یعنی یہ جزا اور رضامندی ان لوگوں کے لئے ہے جو دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہے اور اس کے ڈر کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کے ارکاب سے بچتے رہے۔ اگر کبھی نافرمانی کر لی بھی تو توبہ کر لی۔ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لی، حتیٰ کہ ان کی موت اسی اطاعت پر ہوئی نہ کہ معصیت پر۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ سے ڈرنے والا معصیت پر اصرار اور دوام نہیں کر سکتا اور جو ایسا کرتا ہے، حقیقت میں اس کا دل اللہ کے خوف سے خالی ہے۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |