Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Layl

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (۱) ‏‏‏‏‏

قسم ہے رات کی جب چھا جائے،

‏ یعنی افق پر چھا جائے جس سے دن کی روشنی ختم اور اندھیرا ہو جائے۔

وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى (۲) ‏‏‏‏‏

اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو۔‏

یعنی رات کا اندھیرا ختم ہو جائے اور دن کو اجالا پھیل جائے۔

وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى (۳) ‏‏‏‏‏

اور قسم ہے اس ذات کی جس نے نر مادہ کو پیدا کیا

یہ اللہ نے اپنی قسم کھائی ہے، کیونکہ مرد عورت دونوں کا خالق اللہ ہی ہے

إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى (۴) ‏‏‏‏‏

یقیناً تمہاری کوشش مختلف قسم کی ہے

یعنی کوئی اچھے عمل کرتا ہے، جس کا صلہ جنت ہے اور کوئی برے عمل کرتا ہے جس کا بدلہ جہنم ہے۔

یہ جواب قسم ہے۔

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (۵) ‏‏‏‏‏

جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے)۔

یعنی خیر کے کاموں میں خرچ کرے گا اور محارم سے بچے گا۔

وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (۶) ‏‏‏‏‏

اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا۔

یا اچھے صلے کی تصدیق کرے گا، یعنی اس بات پر یقین رکھے گا کہ انفاق اور تقویٰ اللہ کی طرف سے عمدہ صلہ ملے گا۔

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى (۷) ‏‏‏‏‏

تو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔‏

یعنی ہم بھی اس کو اس سے نیکی اور اطاعت کی توفیق دیتے اور ان کو اس کے لیے آسان کر دیتے ہیں۔

 مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے چھ غلام آزاد کیے، جنہیں اہل مکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت اذیت دیتے تھے۔ (فتح القدیر)

وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى (۸) ‏‏‏‏‏

لیکن جس نے بخیلی کی اور بےپرواہی برتی۔

‏ یعنی اللہ کے راہ میں خرچ نہیں کرے گا اور اللہ کے حکم سے بےپرواہی کرے گا۔

وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى (۹) ‏‏‏‏‏

اور نیک بات کو جھٹلایا۔

یا آخرت کی جزاء وسزا اور حساب وکتاب کا انکار کرے گا۔

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى (۱۰) ‏‏‏‏‏

تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے۔

تنگی سے مراد کفر ومعصیت اور طریق شر ہے، یعنی ہم اس کے لیے نافرمانی کا راستہ آسان کر دیں گے، جس سے اس کے لیے خیر وسعادت کے راستے مشکل ہو جائیں گے،

 قرآن مجید میں یہ مضمون کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ جو خیر و رشد کا راستہ اپناتا ہے اس کے صلے میں اللہ اسے خیر و توفیق سے نوازتا ہے اور جو شر و معصیت کو اختیار کرتا ہے اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑتا ہے یہ اس کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ نے اپنے علم سے لکھ رکھی ہے۔ (ابن کثیر)

وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى (۱۱) ‏‏‏‏‏

اس کا مال اسے (اوندھا) کرنے کے وقت کچھ کام نہ آئے گا۔

یعنی جب جہنم میں گرے گا تو یہ مال جسے وہ خرچ نہیں کرتا تھا، کچھ کام نہ آئے گا۔

إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى (۱۲) ‏‏‏‏‏

بیشک راہ دکھا دینا ہمارا ذمہ ہے۔

یعنی حلال اور حرام، خیر و شر، ہدایت وضلالت کو واضح اور بیان کرنا ہمارے ذمے ہے۔ (جو کہ ہم نے کر دیا)

وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَى (۱۳) ‏‏‏‏‏

اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے ۔‏

یعنی دونوں کے مالک ہم ہی ہیں، ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں اس لئے ان دونوں کے یا ان میں سے کسی ایک کے طالب ہم سے ہی مانگیں کیونکہ ہر طالب کو ہم اپنی مشیت کے مطابق دیتے ہیں۔

فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى(۱۴) ‏‏‏‏‏

میں نے تو تمہیں شعلہ مارتی ہوئی آگ سے ڈرا دیا ہے۔‏

لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى (۱۵) ‏‏‏‏‏

جس میں صرف وہی بد بخت داخل ہوگا۔‏

الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلَّى (۱۶) ‏‏‏‏‏

جس نے جھٹلایا اور (اس کی پیروی سے) منہ پھیر لیا۔‏

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (۱۷) ‏‏‏‏‏

اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہوگا۔

یعنی جہنم سے دور رہے گا اور جنت میں داخل ہوگا۔

الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (۱۸) ‏‏‏‏‏

جو پاکی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال دیتا ہے

یعنی جو اپنا مال اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے تاکہ اس کا نفس بھی اور اس کا مال بھی پاک ہو جائے۔

وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى (۱۹) ‏‏‏‏‏

کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔‏

إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى(۲۰) ‏‏‏‏‏

بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے۔‏

بلکہ اخلاص سے اللہ کی رضا اور جنت میں اس کے دیدار کے لئے خرچ کرتا ہے۔

وَلَسَوْفَ يَرْضَى (۲۱) ‏‏‏‏‏

یقیناً وہ (اللہ بھی) عنقریب رضامند ہو جائے گا

یعنی جو شخص ان صفات کا حامل ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کی نعمتیں اور عزت و شرف عطا فرمائے گا۔ جس سے وہ راضی ہو جائے گا،

 اکثر مفسرین نے کہا ہے بلکہ بعض نے اجماع تک نقل کیا ہے کہ یہ آیات حضرت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔

 تاہم معنی ومفہوم کے اعتبار سے عام ہیں جو بھی ان صفات عالیہ سے متصف ہوگا، وہ بارگاہ الہی میں ان کا مصداق قرار پائے گا۔

***********



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

visitor counter widget