Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al ShamsTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ (١) یا اس کی روشنی کی، یا مطلب ضحیٰ سے دن ہے، یعنی سورج کی اور دن کی۔ وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا قسم ہے چاند کی جب اس کے پیچھے آئے۔ (۲) یعنی جب سورج غروب ہونے کے بعد وہ طلوع ہو، جیسا کہ پہلے نصف مہینہ میں ایسا ہوتا ہے۔ وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا قسم ہے دن کی جب سورج کو نمایاں کرے۔ (۳) یا تاریکی کو دور کرے، ظلمت کا پہلے ذکر تو نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ (فتح القدیر) وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا قسم ہے رات کی جب اسے ڈھانپ لے۔ (۴) یعنی سورج کو ڈھانپ لے اور ہر سمت اندھیرا چھا جائے۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا قسم ہے آسمان کی اور اس کے بنانے کی۔ (۵) یا اس ذات کی جسے اس نے بنایا۔ وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا قسم ہے زمین کی اور اسے ہموار کرنے کی۔ (۶) یا جس نے اسے ہموار کیا۔ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی (۷) یا جس نے اس درست کیا۔ درست کرنے کا مطلب اسے مناسب الا عضاء بنایا بےڈھنگا نہیں بنایا۔ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا پھر سمجھ دی اسکو بدکاری سے اور بچ کر چلنے کی۔ (۸) الہام کا مطلب یا تو یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھایا اور انہیں انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے خیر وشر کی پہچان کروا دی، یا مطلب یہ ہے کہ ان کی عقل اور فطرت میں خیر اور شر، نیکی اور بدکاری کا شور ودیعت کر دیا، تاکہ وہ نیکی کو اپنائیں اور بدی سے اجتناب کریں۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا ۔ (۹) شرک سے، معصیت سے اور اخلاقی آلائشوں سے پاک کیا، وہ اخروی فوز و فلاح سے ہمکنار ہوگا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا (۱۰) یعنی جس نے اسے گمراہ کر لیا وہ خسارے میں رہا جس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز میں چھپا دینا، جس نے اپنے نفس کا چھپا دیا اور اسے بےکار چھوڑ دیا اسے اللہ کی اطاعت اور عمل صالح کے ساتھ مشہور نہیں کیا۔ كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا (قوم) ثمود نے اپنی سرکشی کی باعث جھٹلایا۔ (۱۱) طغیان، وہ سرکشی جو حد سے تجاوز کر جائے اسی طغیاننے انہیں تکذیب پر آمادہ کیا۔ إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا جب ان میں ایک بد بخت کھڑا ہوا ۔ (۲١) جس کا نام مفسرین قدار بن سالف بتلاتے ہیں سب سے بڑا شقی اور بد بخت۔ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا ان کے رسول نے کہا اس کے پینے کی باری کی حفاظت کرو (۱۳) یعنی اس اونٹنی کو کوئی نقصان نہ پہنچائے، اسی طرح اس کے لئے پانی پینے کا جو دن ہو، اس میں بھی گڑ بڑ نہ کی جائے، اونٹنی اور قوم ثمود دونوں کے لیے پانی کا ایک دن مقرر کر دیا گیا تھا اس کی حفاظت کی تاکید کی گئی لیکن ان ظالموں نے اس کی پروا نہ کی۔ فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کو جھوٹا سمجھ کر اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، یہ کام ایک شخص قدار نے کیا تھا لیکن چو نکہ اس شرارت میں قوم بھی اس کے ساتھ تھی اس لیے اس میں سب کو برابر کا مجرم قرار دیا گیا، اور تکذیب اور اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کی نسبت پوری قوم کی طرف کی گئی، جس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ ایک برائی پر نکیر کرنے کے بجائے اسے پسند کرتی ہو تو اللہ کے ہاں پوری قوم اس برائی کی مرتکب قرار پائے گی اور اس جرم یا برائی میں برابر کی شریک سمجھی جائے گی۔ فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ پس ان کے رب نے ان کے گناہوں کے باعث ان پر ہلاکت ڈالی ان کو ہلاک کر دیا اور ان پر سخت عذاب نازل کیا۔ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّاهَا پھر ہلاکت کو عام کر دیا اور اس بستی کو برابر کر دیا۔ (۱۴) یعنی اس عذاب میں سب کو برابر کر دیا، کسی کو نہیں چھوڑا،چھوٹا بڑا، سب کو نیست ونابود کر دیا گیا یا زمین کو ان پر برابر کر دیا یعنی سب کو تہہ خاک کر دیا۔ وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا وہ نہیں ڈرتا اس کے تباہ کن انجام سے۔ (۱۵) |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |