Tafsir Ibn Kathir (English)

Surah Al Balad

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

اردو اور عربی فونٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ(1)

میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں

 اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اس وقت، جب سورت کا نزول ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جائے پیدائش بھی یہی شہر تھا۔

یعنی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد و مسکن کی قسم کھائی، جس سے اس کی عظمت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ(2)

اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں

یہ اشارہ ہے اس وقت کی طرف جب مکہ فتح ہوا، اس وقت اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس شہر حرام میں قتال کو حلال فرما دیا تھا جب کہ اس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث میں ہے،

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اس شہر کو اللہ نے اس وقت سے حرمت والا بنایا ہے، جب سے اس نے آسمان و زمین پیدا کئے۔ پس یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک حرام ہے، نہ اس کا درخت کاٹا جائے نہ اس کے کانٹے اکھیڑے جائیں، میرے لئے اسے صرف دن کی ایک ساعت کے لئے حلال کیا گیا تھا اور آج اس کی حرمت پھر اسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ اگر کوئی یہاں قتال کے لئے دلیل میری لڑائی کو پیش کرے تو اس سے کہو کہ اللہ کے رسول کو تو اس کی اجازت اللہ نے دی تھی جب کہ تمہیں یہ اجازت اس نے نہیں دی (صحیح بخاری)

وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ(3)

اور (قسم ہے) انسانی باپ اور اولاد کی

بعض نے اس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد لی ہے

اور بعض کے نزدیک یہ عام ہے، ہر باپ اور اس کی اولاد اس میں شامل ہے۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ(4)

یقیناً ہم نے انسان کو (بڑی) مشقت میں پیدا کیا ہے

یعنی اس کی زندگی محنت و مشقت اور شدائد سے معمور ہے۔ امام طبری نے اس مفہوم کو اختیار کیا ہے،

یہ جواب قسم ہے۔

أَيَحْسَبُ أَنْ لَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ(5)

کیا یہ گمان کرتا ہے کہ یہ کسی کے بس میں نہیں

یعنی کوئی اس کی گرفت کرنے پر قادر نہیں۔

يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُبَدً(6)

کہتا (پھرتا) ہے کہ میں نے بہت کچھ مال خرچ کر ڈالا

یعنی دنیا کے معاملات اور فضولیات میں خوب پیسہ اڑاتا ہے، پھر فخر کے طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔

أَيَحْسَبُ أَنْ لَمْ يَرَهُ أَحَدٌ(7)

(یوں) سمجھتا ہے کہ کسی نے اسے دیکھا ہی نہیں۔

اس طرح اللہ کی نافرمانی میں مال خرچ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی اسے دیکھنے والا نہیں؟

حالانکہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جس پر وہ اسے جزا دے گا،

آگے اللہ تعالیٰ اپنے بعض انعامات کا تذکرہ فرما رہا ہے تاکہ ایسے لوگ عبرت پکڑیں۔

أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ(8)

ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں

جن سے دیکھتا ہے۔

وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ(9)

زبان اور ہونٹ (نہیں) بنائے۔

زبان سے وہ بولتا ہے اور مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے

ہونٹوں سے وہ بولنے اور کھانے کے لیے مدد حاصل کرتا ہے

علاوہ ازیں وہ اس کے چہرے اور منہ کے لیے خوب صورتی کا بھی باعث ہیں۔

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ(10)

ہم نے دکھا دیئے اس کو دونوں راستے

یعنی خیر کی بھی شر کی بھی اور ایمان کی بھی، سعادت کی بھی اور بد بختی کی بھی، جیسے فرمایا،

إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا

ہم نے اس کو سجھائی راہ،یا حق مانتا یا نا شکر۔ (۷۶:۳)

بعض نے یہ ترجمہ کیا ہے،

ہم نے انسان کی (ماں کے) دو پستانوں کی طرف رہنمائی کر دی یعنی وہ عالم شیر خوارگی میں ان سے خوراک حاصل کرے۔

لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ(11)

سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا

عقبہ گھاٹی کو کہتے ہیں یعنی وہ راستہ جو پہاڑ میں ہو یہ عام طور پر نہایت دشوار گزار ہوتا ہے۔

 یہ جملہ یہاں استفہام بمعنی انکار کے مفہوم میں ہے

 یعنی فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ کیا وہ گھاٹی میں داخل نہیں ہوا؟

 مطلب ہے نہیں ہوا۔

یہ ایک مثال ہے اس محنت و مشقت کی وضاحت کے لئے جو نیکی کے کاموں کے لئے ایک انسان کو شیطان کے وسوسوں اور تقاضوں کے خلاف کرنی پڑتی ہے، جیسے گھاٹی پر چڑھنے کے لئے سخت جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے (فتح القدیر)

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ(12)

اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟‏

فَكُّ رَقَبَة(13)

کسی گردن (غلام لونڈی) کو آزاد کرنا۔‏

أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ(14)

یا بھوکے کو کھانا کھلانا۔‏

يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ(15)

رشتہ دار یتیم کو۔‏

أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ(16)

یا خاکسار مسکین کو۔

یعنی جو فقر و غربت کی وجہ سے مٹی پر پڑا ہو، اس کا گھر بار بھی نہ ہو،

مطلب یہ ہے کہ کسی گردن کو آزاد کرنا، کسی بھوکے رشتے دار کو کھانا کھلا دینا، یہ دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہونا ہے جس کے ذریعے سے انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جا پہنچے گا

یتیم کی کفالت ویسے ہی بڑے اجر کا کام ہے، لیکن اگر وہ رشتے دار بھی ہو تو اس کی کفالت کا اجر بھی دگنا ہے ایک صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا،

 اسی طرح غلام آزاد کرنے کی بھی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے، آج کل اس کی ایک صورت کسی مقروض کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا ہو سکتی ہے، یہ بھی ایک گونہ فک رقبہ ہے۔

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا

پھر ان لوگوں میں ہو جاتا ہے جو ایمان لاتے

اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اعمال خیر، اسی وقت نافع اور اخروی سعادت کا باعث ہونگے جب ان کا کرنے والا صاحب ایمان ہوگا۔

وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ(17)

اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں ‏

اہل ایمان کی صفت ہے کے وہ ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔

أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ(18)

یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے (خوش بختی والے)۔‏

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ(19)

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا یہ کم بختی والے ہیں۔‏

عَلَيْهِمْ نَارٌ مُؤْصَدَةٌ(20)

انہی پر آگ ہوگی جو چاروں طرف سے گھیری ہوئی ہوگی۔

یعنی ان کو آگ میں ڈال کر چاروں طرف بند کر دیا جائے گا تاکہ ایک تو آگ کی پوری شدت وحرارت ان کو پہنچے، دوسرے وہ بھاگ کر کہیں نہ جا سکیں گے۔

*********

Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Mar 2019

hit counter