Tafsir Ibn Kathir (English)

Surah Al Fajr

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

اردو اور عربی فونٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

وَالْفَجْرِ (۱)‏

قسم ہے فجر کی!

اس سے مراد مطلق فجر ہے، کسی خاص دن کی فجر نہیں۔

وَلَيَالٍ عَشْرٍ (۲)‏

اور دس راتوں کی!

اس سے اکثر مفسرین کے نزدیک ذو الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ جن کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے،

نبی کریم نے فرمایا :

عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے عمل صالح اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا پسندیدہ نہیں سوائے اس جہاد کے جس میں انسان شہید ہو جائے۔

 (البخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق)

وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ)‏

جفت اور طاق کی !

اس سے مراد جفت اور طاق عدد ہیں یا وہ معدودات جو جفت اور طاق ہوتے ہیں

بعض کہتے ہیں کہ یہ دراصل مخلوق کی قسم ہے اس لیے کہ مخلوق جفت یا طاق ہے اس کے علاوہ نہیں۔

وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ)‏

رات جب چلنے لگے۔

یعنی جب آئے اور جب جائے، کیونکہ سیر (چلنا) آتے جاتے دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔

هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ)‏

کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے  

ذٰلِکَ سے مذکورہ قسمیں بہ اشیا کی طرف اشارہ ہے یعنی کیا ان کی قسم اہل عقل و دانش کے واسطے کافی نہیں۔

حجر کے معنی ہیں روکنا، منع کرنا،

انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔

آگے بہ طریق استشہاد اللہ تعالیٰ بعض ان قوموں کا ذکر فرما رہے ہیں جو تکذیب وعناد کی بناء پر ہلاک کی گئی تھیں،

 مقصد اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی اسی طرح مواخذہ ہو سکتا ہے جیسے گزشتہ قوموں کا اللہ نے کیا۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ)‏

آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عادیوں کے ساتھ کیا کیا ۔‏

ان کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجے گئے تھے انہوں نے جھٹلایا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کا عذاب بھیجا۔ جو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اور انہیں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔

إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ)‏

ستونوں والے ارم کے ساتھ

ارم یہ قوم عاد کے دادا کا نام ہے، ان کا سلسلہ نسب ہے عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (فتح القدیر)

ذات العماد سے اشارہ ہے ان کی قوت وطاقت اور دراز قامتی کی طرف، علاوہ ازیں وہ فن تعمیر میں بھی بری مہارت رکھتے تھے اور نہایت مضبوط بنا دوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔

 ذات العماد میں دونوں ہی مفہوم شامل ہو سکتے ہیں۔

الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ)‏

جس کی مانند کوئی قوم ملکوں میں پیدا نہیں  ہوئی۔‏

یعنی ان جیسی دراز قامت اور قوت وطاقت والی قوم کوئی اور پیدا نہیں ہوئی، یہ قوم کہا کرتی تھی

من اشد منا قوۃ  ہم سے زیادہ کوئی طاقتور ہے؟

وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ)‏

اور ثمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے۔

یہ حضرت صالح کی قوم تھی اللہ نے اسے پتھر تراشنے کی خاص صلاحیت وقوت عطا کی تھی، حتی کہ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کر لیتے تھے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے

وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ

اور تراشتے ہو پہاڑوں کے گھر تکلف سے۔(۲۶:۱۴۹)

وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ (۱۰)‏

اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا

اس کا مطلب ہے کہ بڑے لشکروں والا تھا جس کے پاس خیموں کی کثرت تھی جنہیں میخیں گاڑ کر کھڑا کیا جاتا تھا۔

یا اس کے ظلم وستم کی طرف اشارہ ہے کہ میخوں کے ذریعے وہ لوگوں کو سزائیں دیتا تھا۔

الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ (۱۱)‏

ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا۔‏

فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ (۱۲)‏

اور بہت فساد مچا رکھا تھا۔‏

فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (۱۳)‏

آخر تیرے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسایا۔

یعنی ان پر آسمان سے اپنا عذاب نازل فرما کر ان کو تباہ برباد یا انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا۔

إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ (۱۴)‏

تیرا رب گھات میں ہے۔

یعنی تمام مخلوقات کے اعمال دیکھ رہا ہے اور اس کے مطابق وہ دنیا اور آخرت میں جزا دیتا ہے۔

فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ (۱۵)‏

انسان (کا یہ حال ہے) کہ جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت اور نعمت دیتا ہے

 تو کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا

یعنی جب کسی کو عزت و دولت کی فروانی عطا فرماتا ہے تو وہ اپنی بابت اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اللہ اس پر بہت مہربان ہے، حالانکہ فروانی امتحان اور آزمائش کے طور پر ہوتی ہے۔

وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ (۱۶)‏

اور جب وہ اس کو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے

 تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کی (اور ذلیل کیا)۔

یعنی وہ تنگی میں مبتلا کر کے آزماتا ہے تو اللہ کے بارے میں بدگمانی کا اظہار کرتا ہے۔

كَلَّا ۖ

ہرگز نہیں

یعنی بات اس طرح نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مال اپنے محبوب بندوں کو بھی دیتا ہے اور ناپسندیدہ افراد کو بھی اور وہ اپنے اور بیگانوں دونوں کو مبتلا کرتا ہے۔

 اصل مدار دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت پر ہے جب اللہ مال دے تو اللہ کا شکر کرے، تنگی آئے تو صبر کرے۔

بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ (۱۷)‏

بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 وہ گھر سب سے بہتر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے

اور وہ گھر بدترین ہے جس میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔

 پھر اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کر کے فرمایا، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ساتھ ملی ہوئی ہیں (ابو داؤد)

وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (۱۸)‏

اور مسکینوں کو کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے۔‏

وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا (۱۹)‏

اور (مردوں کی) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو۔

یعنی جس طریقے سے بھی حاصل ہو، حلال طریقے سے حرام طریقے سے۔

وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (۲۰)‏

اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو۔‏

كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا (۲۱)‏

یقیناً جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی۔‏

وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا (۲۲)‏

اور تیرا رب (خود) آ جائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آ جائیں گے)

کہا جاتا ہے کہ جب فرشتے، قیامت والے دن آسمان سے نیچے اتریں گے تو ہر آسمان کے فرشتوں کی الگ صف ہوگی اس طرح سات صفیں ہونگیں۔ جو زمین کو گھیر لیں گی۔

وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ

اور جس دن جہنم بھی لائی جائے گی

ستر ہزار لگاموں کے ساتھ جہنم جکڑی ہوئی ہوگی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہونگے جو اسے کھینچ رہے ہونگے (صحیح مسلم)

اسے عرش کے بائیں جانب کھڑا کر دیا جائے گا پس اسے دیکھ کر تمام مقرب اور انبیاء گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور یارب نفسی نفسی پکاریں گے۔ (فتح القدیر)

يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى (۲۳)‏

اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اسکے سمجھنے کا فائدہ کہاں

یعنی یہ ہولناک منظر دیکھ کر انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنے کفر و معاصی پر نادم ہوگا، لیکن اس روز ندامت اور نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي (۲۴)‏

وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی زندگی کے لئے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا۔

یہ افسوس اور حسرت کا اظہار، اسی ندامت کا حصہ ہے جو اس روز فائدہ مند نہیں ہوگی۔

فَيَوْمَئِذٍ لَا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ (۲۵)‏

پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی نہ ہوگا۔‏

وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (۲۶)‏

نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی۔

اس لیے کہ اس روز تمام اختیارات صرف ایک اللہ کے پاس ہوں گے، دوسرے کسی کو اس کے سامنے رائے یادم زنی نہیں ہوگا حتٰی کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش تک نہیں کر سکے گا ایسے حالات میں کافروں کو جو عذاب ہوگا اور جس طرح وہ اللہ کی قید وبند میں جکڑے ہوں گے، اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،چہ جائیکہ اس کا کچھ اندازہ ممکن ہو،

یہ تو مجرموں اور ظالموں کا حال ہوگا لیکن اہل ایمان وطاعت کا حال اس سے بالکل مختلف ہوگا جیسا کہ اگلی آیات میں ہے۔

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (۲۷)‏

اے اطمینان والی روح۔‏

ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (۲۸)‏

تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش۔

یعنی اس کے اجر و ثواب اور ان نعمتوں کی طرف جو اس نے اپنے بندوں کے لیے جنت میں تیار کی ہیں

بعض کہتے ہیں قیامت والے دن کہا جائے گا

بعض کہتے ہیں کہ موت کے وقت بھی فرشتے خوشخبری دیتے ہیں اسی طرح قیامت والے دن بھی اسے یہ کہا جائے گا جو یہاں مذکور ہے،

حافظ ابن کثیر نے ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم نے ایک آدمی کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا،

اللھم انی اسالک نفسا، بک مطمئنہ، تومن بلقائک، وترضی بقضائک، وتقنع بعطائک۔

فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (۲۹)‏

پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔‏

وَادْخُلِي جَنَّتِي (۳۰)‏

اور میری جنت میں چلی جا۔‏

*********

Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Mar 2019

hit counter