Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Jinn

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا(1)

آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے۔‏

یہ واقعہ سورہ احقاف۔٢٩ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وادی نخلہ صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔

یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا،

يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ

جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے

یہ قرآن کی دوسری صفت ہے کہ وہ راہ راست یعنی حق کو واضح کرتا ہے یا اللہ کی معرفت عطا کرتا ہے۔ یعنی ہم نے سن کر اس بات کی تصدیق کر دی کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے کسی انسان کا نہیں

 اس میں کفار کو توبیخ وتنبیہ ہے کہ جن تو ایک مرتبہ ہی سن کر قرآن پر ایمان لے آئے لیکن انسانوں کو خاص کر ان کے سرداروں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ کی زبان سے متعدد بار انہوں نے قرآن سنا۔

 وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا(2)

 (اب) ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے۔‏

ہم کسی کو بھی اس کا شریک نہ بنائیں گے نہ مخلوق میں سے نہ کسی اور معبود کو اس لیے کہ وہ اپنی ربوبیت میں متفرد ہے۔

وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا(3)

اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے نہ اس نے کسی کو (اپنی) بیوی بنایا ہے نہ بیٹا ‏

یعنی ہمارے رب کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی اولاد یا بیوی ہو۔ گویا جنوں نے ان مشرکوں کی غلطی کو واضح کیا جو اللہ کی طرف بیوی یا اولاد کی نسبت کرتے تھے، انہوں نے ان دونوں کمزویوں سے رب کی پاکی بیان کی۔

وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللَّهِ شَطَطًا(4)

اور یہ کہ ہم میں ایک بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کہا کرتا تھا

 "ہمارے بےوقوف" سے بعض نے شیطان مراد لیا ہے اور بعض نے ان کے ساتھی جن اور بعض نے بطور جنس؛ یعنی ہر وہ شخص جو یہ گمان باطل رکھتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔

 شَطَطًا کے کئی معنی کئے گئے ہیں، ظلم، جھوٹ، باطل، کفر میں مبالغہ وغیرہ۔ مقصد، راہ اعتدال سے دوری اور حد سے تجاوز ہے۔مطلب یہ ہے کہ یہ بات کہ اللہ کی اولاد ہے ان بےوقوفوں کی بات ہے جو راہ اعتدال سے دور، حد متجاوز اور کاذب و افترا پرداز ہیں۔

وَأَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ تَقُولَ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا(5)

اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی باتیں لگائیں ‏

اسی لئے ہم اس کی تصدیق کرتے رہے اور اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے رہے۔ حتٰی کہ ہم نے قرآن سنا تو پھر ہم پر اس عقیدے کا باطل ہونا واضع ہوا۔

وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا(6)

بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے

جب جنات نے یہ دیکھا کہ انسان ہم سے ڈرتے ہیں اور ہماری پناہ طلب کرتے ہیں تو انکی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگیا۔

وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا(7)

اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا (یا کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا)‏

وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا(8)

اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا

یعنی آسمانوں پر فرشتے چوکیداری کرتے ہیں کہ آسمانوں کی کوئی بات کوئی اور نہ سن لے اور یہ ستارے آسمان پر جانے والے شیاطین پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔

وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۖ

اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لئے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے

اور آسمانی باتوں کی کچھ گن سن پا کر کاہنوں کو بتلا دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیا کرتے تھے۔

فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا(9)

اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے

لیکن بعثت محمدیہ کے بعد یہ سلسلہ بند کر دیا گیا، اب جو بھی اس نیت سے اوپر جاتا ہے، شعلہ اس کی تاک میں ہوتا ہے اور ٹوٹ کر اس پر گرتا ہے۔

وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا(10)

ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے

یعنی اس حراست آسمانی سے مقصد اہل زمین کے لئے کسی شر کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہچانا یعنی ان پر عذاب نازل کرنا یا بھلائی کا ارادہ یعنی رسول کا بھیجنا ہے۔

وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا(11)

اور یہ کہ (بیشک) بعض تو ہم میں نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں، ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں۔‏

مطلب یہ ہے کہ ہم مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں مطلب یہ کہ جنات میں بھی مسلمان، کافر، یہودی، عیسائی، مجوسی وغیرہ ہیں، بعض کہتے ہیں ان میں بھی مسلمانوں کی طرح قدریہ، مرحبئہ اور رافضہ و غیرہ ہیں (فتح القدیر)

وَأَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ نُعْجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَلَنْ نُعْجِزَهُ هَرَبًا(12)

اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو زمین میں ہرگز عاجز نہیں کر سکتے اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔‏

وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى آمَنَّا بِهِ ۖ فَمَنْ يُؤْمِنْ بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا(13)

ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہیں اس پر ایمان لا چکے ہیں

اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا

یعنی نہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کی نیکیوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کر دی جائے گی اور نہ اس بات کا خوف کہ ان کی برائیوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ۖ

ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں

یعنی جو نبوت محمدیہ پر ایمان لائے وہ مسلمان، اور اس کے منکر بے انصاف ہیں۔

فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا(14)

پس جو فرمانبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا۔‏

وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا(15)

اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔‏

اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جنات بھی دوزخ اور جنت میں جانے والے ہوں گے ان میں جو کافر ہیں وہ جہنم میں اور مسلمان جنت میں جائیں گے

یہاں تک جنات کی گفتگو ختم ہوگئی۔

وَأَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقًا(16)

اور (اے نبی یہ بھی کہہ دو) کہ اگر لوگ راہ راست پر سیدھے رہتے تو یقیناً انہیں بہت وافر پانی پلاتے۔‏

الطَّرِیْقَۃٍ سے مراد راہ  راست  یعنی اسلام ہے۔

وافر پانی سے مراد دنیوی خوشحالی ہے۔

اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب کفار قریش پر قحط سالی مسلط کر دی گئی تھی،

 الطَّرِیْقَۃٍ کے دوسرے معنی گمراہی کے راستے کے کئے گئے ہیں۔

لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ

تاکہ ہم اس میں انہیں آزما لیں

وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا(17)

اور جو شخص اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ پھیر لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا

نہایت سخت الم ناک عذاب (ابن کثیر)

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا(18)

اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔

مسجد کے معنی ہیں سجدہ گاہ۔ سجدہ بھی ایک رکن نماز ہے اس لیے نماز پڑھنے کی جگہ مسجد کہا جاتا ہے

آیت کا مطلب واضح ہے کہ مسجدوں کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اس لیے مسجدوں میں کسی اور کی عبادت کسی اور سے دعا ومناجات جائز نہیں۔

وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا(19)

اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں

عَبْدُاللّٰہِ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور مطلب ہے کہ انس و جن مل کر چاہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، لیکن امام ابن کثیر نے اسے رجوع کرنا قرار دیا ہے۔

قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا(20)

آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔

یعنی جب سب آپ کی عداوت پر اتر آئے ہیں تو آپ کہہ دو کہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی سے پناہ طلب کرتا ہوں اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں۔

قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا(21)

کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں۔

یعنی مجھے تمہاری ہدایت یا گمراہی کا یا کسی اور نفع نقصان کا اختیار نہیں ہے میں تو صرف اس کا ایک بندہ ہوں جسے اللہ نے وحی ورسالت کے لیے چن لیا ہے۔

قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا(22)

کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پا سکتا۔‏

اگر میں اس کی نافرمانی کروں اور وہ مجھے اس پر وہ عذاب دینا چاہے۔

إِلَّا بَلَاغًا مِنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ ۚ

البتہ میرا کام اللہ کی بات اور اس کے پیغامات (لوگوں کو) پہنچا دینا ہے

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا(23)

 (اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے۔‏

حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ

(ان کی آنکھ نہ کھلے گی) یہاں تک کہ اسے دیکھ لیں جس کا ان کو وعدہ دیا جاتا ہے

یا مطلب یہ ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کی عداوت اور اپنے کفر پر مصر رہیں گے، یہاں تک کہ دنیا یا آخرت میں وہ عذاب دیکھ لیں گے، جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا(24)

پس عنقریب جان لیں گے کہ کس کا مددگار کمزور اور کس کی جماعت کم ہے ۔

یعنی اس وقت ان کو پتہ لگے گا کہ مومنوں کا مددگار کمزور ہے یا مشرکوں کا؟

 اہل توحید کی تعداد کم ہے یا غیر اللہ کے پجاریوں کی۔

 مطلب یہ ہے کہ پھر مشرکین کا تو سرے سے کوئی مددگار ہی نہیں ہوگا اور اللہ کے ان گنت لشکروں کے مقابلے میں ان مشرکین کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔

قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا(25)

کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ قریب ہے

 یا میرا رب اس کے لئے دوری کی مدت مقرر کرے گا ۔

مطلب یہ ہے کہ عذاب یا قیامت کا علم، یہ غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ قریب ہے یا دور۔

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا(26)

وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔

یعنی اپنے پیغمبر کو بعض امور غیب سے مطلع کر دیا جاتا ہے جن کا تعلق یا تو اس کے فرائض رسالت سے ہوتا ہے یا وہ اس کی رسالت کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ اللہ کے مطلع کرنے سے پیغمبر عالم الغیب نہیں ہو جاتا۔ لہذا عالم الغیب صرف اللہ ہی کی ذات ہے جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت فرمائی گئی ہے۔

إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا(27)

سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے

یعنی نزول وحی کے وقت پیغمبر کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں اور شیاطین اور جنات کو وحی کی باتیں سننے نہیں دیتے۔

لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ

تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے

لیعلم میں ضمیر کا مرجع کون ہے؟

 بعض کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاکہ آپ جان لیں کہ آپ سے پہلے رسولوں نے بھی اللہ کا پیغام اسی طرح پہنچایا جس طرح آپ نے پہنچایا۔ بعض نے فرشتوں کو بنایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ کا پیغام نبیوں تک پہنچایا۔

اور بعض نے اللہ کو مرجع بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی فرشتوں کے ذریعے حفاظت فرماتا ہے۔

وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا(28)

اللہ تعالیٰ نے انکے آس پاس (کی چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہرچیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے ۔‏

- فرشتوں کے پاس کی یا پیغمبروں کے پاس کی۔

- کیونکہ وہی عالم الغیب ہے، جو ہو چکا اور آئندہ ہوگا، سب کا اس نے شمار کر رکھا ہے۔ یعنی اسکے علم میں ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter