Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ahqaf

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حم  (۱)‏

حم

یہ فواتح سورہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے ان کے معانی و مطالب میں پڑنے کی ضرورت نہیں تاہم ان کے دو فائدے بعض مفسرین نے بیان کیے ہیں جنہیں ہم سورۃ لقمان میں  بیان کر آئے ہیں۔

تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ  (۲)‏

اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے۔  

مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ

ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی تمام چیزوں کو بہترین تدبیر کے ساتھ ہی ایک مدت معین کے لئے پیدا کیا ہے

یعنی آسمان اور زمین کی پیدائش کا ایک خاص مقصد بھی ہے اور وہ ہے انسانوں کی آزمائش۔ دوسرا اس کے لئے ایک وقت بھی مقرر ہے جب وہ وقت آ جائے گا تو آسمان اور زمین کا موجودہ نظام سارا بکھر جائے گا۔ نہ آسمان، یہ آسمان ہوگا نہ زمین، یہ زمین ہوگی۔

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۔ (۱۴:۴۸)

وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنْذِرُوا مُعْرِضُونَ  (۳)‏

اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں۔

یعنی عدم ایمان کی صورت میں بعث حساب اور جزا سے جو انہیں ڈرایا جاتا ہے وہ اس کی پرواہی نہیں کرتے اس پر ایمان لاتے ہیں نہ عذاب اخروی سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ

آپ کہہ دیجئے! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں کون سا حصہ ہے

أَرَأَيْتُمْ یعنی اخبرونی یا ارونی یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں یا شخصیات کی تم عبادت کرتے ہو مجھے بتلاؤ یا دکھلاؤ کہ انہوں نے زمین وآسمان کی پیدائش میں کیا حصہ لیا ہے

مطلب یہ ہے کہ جب آسمان و زمین کی پیدائش میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر ان سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے تو پھر تم ان غیر حق معبودوں کو اللہ کی عبادت میں کیوں شریک کرتے ہو ۔

ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ  (۴)‏

اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کوئی کتاب یا کوئی علم ہے جو نقل کیا جاتا ہو میرے پاس لاؤ ۔‏

یعنی کسی نبی پر نازل شدہ میں یا کسی منقول روایت میں یہ بات لکھی ہو تو وہ لا کر دکھاؤ تاکہ تمہاری صداقت واضح ہو سکے۔

 بعض نے أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ کے معنی واضح علمی دلیل کے کئے ہیں اس صورت میں کتاب سے نقلی دلیل اور أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ سے عقلی دلیل مراد ہوگی یعنی کوئی عقلی اور نقلی دلیل پیش کرو

 پہلے معنی اس کے اثر سے ماخوذ ہونے کی بنیاد پر روایت کے کیے گئے ہیں یا بقیۃ من علم پہلے انبیاء علیم السلام کی تعلیمات کا باقی ماندہ حصہ جو قابل اعتماد ذریعے سے نقل ہوتا آیا ہو اس میں یہ بات ہو۔

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ  (۵)‏

اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں

بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں

یعنی یہی سب سے بڑے گمراہ ہیں جو پتھر کی مورتیوں کو مدد کے لئے پکارتے ہیں جو قیامت تک جواب دینے سے قاصر ہیں اور قاصر ہی نہیں بلکہ بالکل بےخبر ہیں۔

وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ  (۶)‏

اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کر جائیں گے۔

یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ یونس ۲۹ ،سورہ مریم  ۸۱ـ۸۲،سورہ عنکبوت۲۵ وغیر ھا من الآیات

دنیا میں ان معبودوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو غیر ذی روح جمادات ونباتات اور مظاہر قدرت (سورج آگ) ہیں اللہ تعالیٰ ان کو زندگی اور قوت گویائی عطا فرمائے گا اور یہ چیزیں بول کر بتلائیں گی کہ ہمیں قطعاً اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے اور ہمیں تیری خدائی میں شریک گردانتے تھے

بعض کہتے ہیں کہ زبان قال سے نہیں ہے زبان حال سے وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں گی۔ واللہ اعلم

معبودوں کی دوسری قسم وہ ہے جو انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور صالحین میں سے ہیں جیسے عیسیٰ، حضرت عزیر علیہما السلام اور دیگر عباد اللہ الصالحین ہیں یہ اللہ کی بارگاہ میں اسی طرح کا جواب دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جواب قرآن کریم میں منقول ہے

علاوہ ازیں شیطان بھی انکار کریں گے جیسے قرآن میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔

تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ۔ (۲۸:۶۳)

ہم تیرے سامنے (اپنے عابدین سے) اظہار براءت کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ  (۷)‏

اور انہیں جب ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو منکر لوگ سچی بات کو جب کہ ان کے پاس آچکی، کہہ دیتے ہیں کہ یہ صریح جادو ہے۔‏

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ

کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے تو اس نے خود گھڑ لیا ہے

اس حق سے مراد جو ان کے پاس آیا قرآن کریم ہے اس کے اعجاز اور قوت تاثیر کو دیکھ کر وہ اسے جادو سے تعبیر کرتے پھر اس سے بھی انحراف کر کے یا اس سے بھی بات نہ بنتی تو کہتے کہ یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہے ۔

قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ

 آپ کہہ دیجئے! کہ اگر میں ہی اسے بنا لایا ہوں تو میرے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے

یعنی اگر تمہاری یہ بات صحیح ہو کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے پھر تو یقیناً میں بڑا مجرم ہوں اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو پھر سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرتا بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الہٰی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا ۔

اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ، لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ،ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ،  فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ۔ (۶۹:۴۴،۴۷)

هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ

تم اس قرآن کے بارے میں جو کچھ سن رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے

یعنی جس جس انداز سے بھی تم قرآن کی تکذیب کرتے ہو، کبھی اسے جادو، کبھی کہانت اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے یعنی وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا۔

كَفَى بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ  (۸)‏

میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے وہی کافی ہے (۱) اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲)‏

۱۔  وہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور وہی تمہاری تکذیب و مخالفت کا بھی گواہ ہے۔ اس میں بھی ان کے لئے سخت وعید ہے۔

۲۔  اس کے لیے جو توبہ کر لے ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا کلام مان لے مطلب ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کر کے اللہ کی مغفرت و رحمت کے مستحق بن جاؤ۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ

آپ کہہ دیجئے! کہ میں کوئی بالکل انو کھا پیغمبر نہیں (١) نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا ۔ (۲)

۱۔ یعنی پہلا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی متعدد رسول آ چکے ہیں۔

۲۔  یعنی دنیا میں، میں مکے میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑے گا، مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہوگا؟

تم جلدی ہی سزا سے دو چار ہونگیں یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی؟

 ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہوگا تاہم آخرت کے بارے میں یقینی علم ہے کہ اہل ایمن جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے۔

 اور حدیث میں جو آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا تو فرمایا :

واللہ ما ادری وانا رسول اللہ ما یفعل بی ولا بکم

اللہ کی قسم مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ صحیح بخاری

 اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔

إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ  (۹)‏

میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں تو صرف علی الاعلان کر دینے والا ہوں۔‏

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ

آپ کہہ دیجئے! اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو

 اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو

اس شاہد بنی اسرائیل سے کون مراد ہے؟

 بعض کہتے ہیں کہ یہ بطور جنس کے ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔

 بعض کہتے ہیں کہ مکے میں رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی مراد ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے

بعض کے نزدیک اس سے مراد عبد اللہ بن سلام ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں۔  صحیح بخاری

امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے

 اس جیسی کتاب کی گواہی کا مطلب تورات کی گواہی جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق ہے۔ کیونکہ قرآن بھی توحید و معاد کے اثبات میں تورات ہی کی مثل ہے۔

 مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی گواہی اور ان کے ایمان لانے کے بعد اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد تمہارے انکار استکبار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے تمہیں اپنے اس رویے کا انجام سوچ لینا چاہئے

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ  (۱۰)‏

تو بیشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔‏

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ

اور کافروں نے ایمانداروں کی نسبت کہا کہ اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرنے نہ پاتے

وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ  (۱۱)‏

 اور چونکہ انہوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس یہ کہہ دیں گے کہ قدیمی جھوٹ ہے ۔

کفار مکہ، حضرت بلال، عمار، صہیب اور خباب رضی اللہ عنہم جیسے مسلمانوں کو، جو غریب و قلاش کے لوگ تھے لیکن اسلام قبول کرنے میں انہیں سب سے پہلے شرف حاصل ہوا، دیکھ کر کہتے کہ اگر اس دین میں بہتری ہوتی تو ہم جیسے ذی عزت و ذی مرتبہ لوگ سب سے پہلے اسے قبول کرتے نہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لاتے۔

 یعنی اپنے طور پر انہوں نے اپنی بابت یہ فرض کر لیا کہ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے۔ اس لیے اگر یہ دین بھی اللہ کی طرف سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے قبول کرنے میں پیچھے نہ چھوڑتا اور جب ہم نے اسے نہ اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے یعنی قرآن کو انہوں نے پرانا جھوٹ قرار دیا ہے جیسے وہ اسے اساطیر الاولین بھی کہتے تھے حالانکہ دنیاوی مال ودولت میں ممتاز ہونا عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں (جیسے ان کو مغالظہ ہوا یا شیطان نے مغالطے میں ڈالا) عند اللہ مقبولیت کے لیے تو ایمان واخلاص کی ضرورت ہے اور اس دولت ایمان واخلاص سے وہ جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ جیسے وہ مال ودولت آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔

وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ

اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی

وَهَذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَى لِلْمُحْسِنِينَ  (۱۲)‏

 اور یہ کتاب ہے تصدیق کرنے والی عربی زبان میں تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیک کاروں کو بشارت ہو۔‏

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ  (۱۳)‏

بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غمگین ہونگے۔‏

أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ  (۱۴)‏

یہ تو اہل جنت ہیں جو سدا اسی میں رہیں گے، ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔‏

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ

اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ

اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا (١) اس کے حمل کا

اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے(۲)

۱۔ اس مشقت وتکلیف کا ذکر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لیے ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں اس حکم احسان میں باپ سے مقدم ہے کیونکہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی کی تکلیف صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے باپ کی اس میں شرکت نہیں اسی لیے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے۔

 ایک صحابیؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری ماں۔

 اس نے پھر یہی پوچھا

 آپﷺ نے یہی جواب دیا تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا

چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

پھر تمہارا باپ۔ صحیح مسلم

۲۔  فِصَالُهُ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو وہ بچہ حلال ہی ہوگا، حرام نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (٢٤) مہینے بتلائی ہے، اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔

حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي

یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا (۱) تو کہنے لگا اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے (۲)

۱۔  کمال قدرت (ارونی ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے ١٨ سال سے تعبیر کیا ہے، حتٰی کہ پھر بڑھتے بڑھتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے اسی لیے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا ۔

۱۔  أَوْزِعْنِي بمعنی اَلْھِمْنِیْ ہے، مجھے توفیق دے۔

اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ  

إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ

کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤ جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا۔

إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ  (۱۵)‏

 میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‏

أُولَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ

یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بعض اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں، یہ جنتی لوگوں میں ہیں۔

وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ (۱۶)‏

اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا ہے۔‏

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي

اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا (١)

تم مجھ سے یہ کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد زندہ ہو جاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں (۲)

۱۔ مذکورہ آیت میں سعادت مند اولاد کا تذکرہ تھا جو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی

 اب اس کے مقابلے میں بدبخت اور نافرمان اولاد کا ذکر کیا جارہا ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے

 أُفٍّ لَكُمَا افسوس ہے تم پر أُفٍّ کا کلمہ ناگواری کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی نافرمان اولاد باپ کی ناصحانہ باتوں پر یا دعوت ایمان وعمل صالح پر ناگواری اور شدت غیظ کا اظہار کرتی ہے جس کی اولاد کو قظعاً اجازت نہیں ہے ۔

یہ آیت عام ہے ہر نافرمان اولاد اس کی مصداق ہے۔

۲۔ مطلب ہے کہ وہ تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آئے۔

حالانکہ دوبارہ زندہ ہونے کا مطلب قیامت والے دن زندہ ہونا ہے جس کے بعد حساب ہوگا۔

وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (۱۷)‏

وہ دونوں جناب باری میں فریاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے،

وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں ۔‏

ماں باپ مسلمان ہوں اور اولاد کافر، تو وہاں اولاد اور والدین کے درمیان اسی طرح تکرار اور بحث ہوتی ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ

یہی وہ لوگ ہیں جن پر (اللہ کے عذاب کا) وعدہ صادق آگیا (١) ان جنات اور انسانوں کے گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے (٢)

۱۔ جو پہلے اللہ کے علم میں تھا، یا شیطان کے جواب میں جو اللہ نے فرمایا تھا:

لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ (۳۸:۸۵)

۲۔ یعنی یہ بھی ان کافروں میں شامل ہوگئے جو انسانوں اور جنوں میں سے قیامت والے دن نقصان اٹھانے والے ہونگے۔

إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ (۱۸)‏

یقیناً یہ نقصان پانے والے تھے۔‏

وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (۱۹)‏

اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے (۱) تاکہ انہیں ان کے اعمال کا پورے بدلے دے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا (۲)‏

۱۔ مؤمن اور کافر دونوں کا ان کے عملوں کے مطابق اللہ کے ہاں مرتبہ ہوگا مؤمن مراتب عالیہ سے سرفراز ہوں گے اور کافر جہنم کے پست ترین درجوں میں ہوں گے ۔

۲۔  گنہگار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی اور نیکوکار کے صلے میں کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ایک کو خیر یا شر میں سے وہی ملے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ

اور جس دن کافر جہنم کے سرے پر لائے جائیں گے

یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے یا اس کے قریب ہوں گے ۔

بعض نے  اور بعض کہتے ہیں کلام میں قلب ہےکے معنی یعذبون کے کیے ہیں

 مطلب ہے جب آگ ان پر پیش کی جائے گی تعرض النار علیھم ۔ (فتح القدیر)

کہا جائے گا

أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ

تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کر دیں اور ان کا فائدہ اٹھا چکے، پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی

طَيِّبَاتِ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان ذوق وشوق سے کھاتے پیتے اور استعمال کرتے اور لذت وفرحت محسوس کرتے لیکن آخرت کی فکر کے ساتھ ان کا استعمال ہو تو بات اور ہے جیسے مؤمن کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ساتھ احکام الہی کی اطاعت کر کے شکر الہی کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے۔

 لیکن فکر آخرت سے بےنیازی کے ساتھ ان کا استعمال انسان کو سرکش اور باغی بنا دیتا ہے جیسے کافر کرتا ہے اور یوں وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے چنانچہ مؤمن کو تو اس کے شکر و اطاعت کی وجہ سے یہ نعمتیں بلکہ ان سے بدرجہا بہتر نعمتیں آخرت میں پھر مل جائیں گی۔

بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ (۲۰)‏

اس باعث کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اس باعث بھی کہ تم حکم عدولی کرتے تھے ۔

ان کے عذاب کے دو سبب بیان فرمائے،

- ناحق تکبر، جس کی بنیاد پر انسان حق کا اتباع کرنے سے گریز کرتا ہے اور

- دوسرا فسق۔ بےخوفی کے ساتھ معاصی کا ارتکاب

یہ دونوں باتیں تمام کافروں میں مشترکہ ہوتی ہیں۔ اہل ایمان کو ان دونوں باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہیئے۔

وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ

اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا

احقاف ،حقف کی جمع ہے ریت کا بلند مستطیل ٹیلہ

بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کے کیے ہیں

یہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عاد اولیٰ کے علاقے کا نام ہے جو حضر موت (یمن) کے قریب تھا کفار کہ کی تکذیب کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔

وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ

اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو

إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۲۱)‏

بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں ۔‏

يَوْمٍ عَظِيمٍ سے مراد قیامت کا دن ہے، جسے اس کی ہولناکیوں کی وجہ سے بجا طور پر بڑا دن کہا گیا ہے۔

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۲۲)‏

قوم نے جواب دیا کیا آپ ہمارے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں اپنے معبودوں (کی پرستش) سے باز رکھیں (۱)

پس اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب کا آپ وعدہ کرتے ہیں اسے ہم پر لا ڈالیں۔‏

لتافکنا، لتصرفنا یا لتمنعنا یا لتزیلنا سب متقارب المعنی ہیں تاکہ تو ہمیں ہمارے معبودوں کی پرستش سے پھیر دے روک دے ہٹا دے۔

قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ

 (حضرت ہود نے) کہا (اس کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں

یعنی عذاب کب آئے گا یا دنیا میں نہیں آئے گا بلکہ آخرت میں تمہیں عذاب دیا جائے گا اس کا علم صرف اللہ کو ہے وہی اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے میرا کام تو صرف پیغام پہچانا ہے۔

وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ (۲۳)‏

لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو ۔

ایک کفر پر اصرار کر رہے ہو۔دوسرے، مجھ سے ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو میرے اختیار میں نہیں ہے۔

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۚ

پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے کہنے لگے، یہ بادل ہم پر برسنے والا ہے

عرصہ دراز سے ان کے ہاں بارش نہیں ہوئی تھی امنڈتے بادل دیکھ کر خوش ہوئے کہ اب بارش ہوگی

بادل کو عَارِضٌ اس لیے کہا ہے کہ بادل عرض آسمان پر ظاہر ہوتا ہے۔

بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ ۖ

 (نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے

یہ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں کہا کہ یہ محض بادل نہیں ہے جیسے تم سمجھ رہے ہو۔ بلکہ یہ وہ عذاب ہے جسے تم جلدی لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ (۲۴)‏

 ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔

یعنی وہ ہوا جس سے اس قوم کی ہلاکت ہوئی ان بادلوں سے ہی اٹھی اور نکلی اور اللہ کی مشیت سے ان کو اور ان کی ہرچیز کو تباہ کر گئی اسی لیے حدیث میں آتا ہے:

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر اس کے برعکس تشویش کے آثار نظر آتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بادل میں عذاب نہیں ہوگا جب کہ ایک قوم ہوا کے عذاب سے ہی ہلاک کر دی گئی اس قوم نے بھی بادل دیکھ کر کہا تھا یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ البخاری

 ایک دوسری روایت میں ہے:

جب باد تند چلتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے:

اللھم انی اسالک خیرھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت بہ واغوذبک من شرھا وشر ما ارسلت بہ

 اور جب آسمان پر بادل گہرے ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہو جاتا اور خوف کی سی ایک کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہو جاتی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان کا سانس لیتے۔  (صحیح مسلم)

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَى إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ

جو اپنے رب کے حکم سے ہرچیز کو ہلاک کر دے گا، پس وہ ایسے ہوگئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا

یعنی مکین سب تباہ ہوگئے اور صرف مکانات نشان عبرت کے طور پر باقی رہ گئے۔

كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ (۲۵)‏

 گناہگاروں کے گروہ کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔‏

وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ

اور بالیقین ہم نے (قوم عاد) کو وہ مقدور دیئے تھے جو تمہیں تو دیئے بھی نہیں

وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ

 اور ہم نے انہیں کان آنکھیں اور دل بھی دے رکھے تھے۔ لیکن ان کے کانوں اور آنکھوں اور دلوں نے انہیں کچھ بھی نفع نہ پہنچایا

إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۲۶)‏

جبکہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرنے لگے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہی ان پر الٹ پڑی ۔‏

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِنَ الْقُرَى وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۲۷)‏

اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیں (١) اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں (٢)۔‏

۱۔ آس پاس سے عاد، ثمود اور لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کے قریب ہی تھیں، یمن اور شام و فلسطین کی طرف آتے جاتے ان سے ان کا گزر ہوتا تھا۔

۲۔  یعنی ہم نے مختلف انداز سے اور مختلف انوواع کے دلائل ان کے سامنے پیش کئے کہ شاید وہ توبہ کرلیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (۲۸)‏

پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟

بلکہ وہ تو ان سے کھو گئے، بلکہ دراصل یہ محض جھوٹ اور بالکل بہتان تھا۔

یعنی جن معبودوں کو وہ تقرب الہی کا ذریعہ سمجھتے تھے انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ وہ اس موقعے پر آئے ہی نہیں بلکہ گم رہے

اس سے بھی معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بتوں کو الہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں بارگاہ الہی میں قرب کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے تھے اللہ نے اس وسیلے کو یہاں افک اور افتراء قرار دے کر واضح فرما دیا کہ یہ ناجائز اور حرام ہے ۔

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا ۖ

اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں،

 پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ

صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کر دی گئی ہے اب ہمارا وہاں جانا تقریبًا ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔

چنانچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں ان میں سے ایک ٹو لی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا۔  مسلم و بخاری

صحیح بخاری میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جا کر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔  (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر)

فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (۲۹)‏

پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا (۱) تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے۔‏

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہو گی۔

قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى

کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے

مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ (۳۰)‏

 جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی رہنمائی کرتی ہے۔‏

يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ

اے ہماری قوم! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو، اس پر ایمان لاؤ

یہ جنوں نے اپنی قوم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اس سے قبل قرآن کریم کے متعلق بتلایا کہ یہ تورات کے بعد ایک اور آسمانی کتاب ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (۳۱)‏

تو اللہ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک سزا سے پناہ دے گا

یہ ایمان لانے کے وہ فائدے بتلائے جو آخرت میں انہیں حاصل ہوں گے

مِنْ ذُنُوبِكُمْ میں من تبعیض کے لیے ہے یعنی بعض گناہ معاف فرما دے گا اور یہ وہ گناہ ہوں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوگا کیونکہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے

 یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ثواب وعقاب اور اوامر ونواہی میں جنات کے لیے بھی وہی حکم ہے جو انسانوں کے لیے ہے ۔

وَمَنْ لَا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ

اور جو شخص اللہ کے بلانے والے کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں کہیں (بھاگ کر اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتا (۱)

اور نہ اللہ کے سوا اور کوئی مددگار ہوں گے (۲)

۱۔ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ زمین کی وسعتوں میں اس طرح گم ہو جائے کہ اللہ کی گرفت میں نہ آ سکے ۔

۲۔  جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا لیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ خود اللہ کی گرفت سے بچنے پر قادر ہے اور نہ کسی دوسرے کی مدد سے ایسا ممکن ہے۔

 أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۳۲)‏

یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔‏

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى ۚ

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا، وہ یقیناً مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے،

بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۳۳)‏

کیوں نہ ہو؟ وہ یقیناً ہرچیز پر قادر ہے

جو اللہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، جن کی وسعت و بےکرانی کی انتہا نہیں ہے وہ ان کو بنا کر تھکا بھی نہیں۔ کیا وہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟

 یقیناً کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ وہ علی کل شیء قدیر کی صفت سے متصف ہے۔

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ ۖ

وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جس دن جہنم کے سامنے لائے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا کہ) کیا یہ حق نہیں ہے؟

قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا ۚ

تو جواب دیں گے کہ ہاں قسم ہے ہمارے رب کی (حق ہے)

وہاں اعتراف ہی نہیں کریں گے بلکہ اپنے اس اعتراف پر قسم کھا کر اسے مؤکد کریں گے لیکن اس وقت کا یہ اعتراف بےفائدہ ہے کیونکہ مشاہدے کے بعد اعتراف کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اعتراف نہیں تو کیا انکار کریں گے ۔

قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (۳۴)‏

 (اللہ) فرمائے گا اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔‏

اس لئے کہ جب ماننے کا وقت تھا، اس وقت مانا نہیں، یہ عذاب اسی کفر کا بدلہ ہے، جو اب تمہیں بھگتنا ہی بھگتنا ہے۔

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ ۚ

پس (اے پیغمبر !) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا اور ان کے لئے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کرو

یہ کفار مکہ کے رویے کے مقابلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے اور صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔

كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ۚ

یہ جس دن اس عذاب کو دیکھ لیں گے جس کا وعدہ دیئے جاتے ہیں تو (یہ معلوم ہونے لگے گا کہ دن کی ایک گھڑی ہی دنیا میں) ٹھہرے تھے

قیامت کا ہولناک عذاب دیکھنے کے بعد انہیں دنیا کی زندگی ایسے ہی معلوم ہوگی جیسے دن کی صرف ایک گھڑی یہاں گزار کر گئے ہیں ۔

بَلَاغٌ ۚ

یہ ہے پیغام پہنچا دینا،

یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای ہذا الذی وعظتھم بہ بلاغ یہ وہ نصحیت یا پیغام ہے جس کا پہچانا تیرا کام ہے ۔

فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ (۳۵)‏

پس بدکاروں کے سوا کوئی ہلاک نہ کیا جائے گا۔

اس آیت میں بھی اہل ایمان کے لیے خوشخبری اور حوصلہ افزائی ہے کہ ہلاکت اخروی صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ کے نافرمان اور اس کی حدود پامال کرنے والے ہیں ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter