Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al JathiyahTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
حم حم (١) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ یہ کتاب اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے۔ (۲) إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لئے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۳) وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ اور خود تمہاری پیدائش میں اور ان جانوروں کی پیدائش میں جنہیں وہ پھیلاتا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۴) وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اور رات دن کے بدلنے میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے آسمانوں و زمین، انسانی تخلیق، جانوروں کی پیدائش، رات دن کے آنے جانے اور آسمانی بارش کے ذریعے سے مردہ زمین میں زندگی کی لہر کا دوڑ جانا وغیرہ، آفاق و انفس میں بیشمار نشانیاں ہیں جو اللہ کی واحدنیت و ربوبیت پر دال ہیں۔ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (اس میں) اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں ۔ (۵) یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال جنوب، کبھی پچھم (مشرق و مغرب) کو ہوتا ہے، کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بری ہوائیں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گردو غبار کا طوفان، ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے دو یا دو سے زائد نہیں تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے، ان میں کوئی شریک نہیں سارا اور ہر قسم کا تصرف وہی کرتا ہے کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ یہ ہیں اللہ کی آیتیں جنہیں ہم آپ کو راستی سے سنا رہے ہیں، پس اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کے بعد یہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔ (۶) یعنی اللہ کا نازل کردہ قرآن، جس میں اس کی توحید کے دلائل و براہین ہیں۔ اگر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی بات کے بعد کس کی بات ہے اور اس کی نشانیوں کے بعد کون سی نشانیاں ہیں جن پر ایمان لائیں گے۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ' وَیْل ' اور افسوس ہے ہر ایک جھوٹے گنہگار پر۔ (۷) بہت گنہگار، وَیْل بمعنی ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی کا نام۔ يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا ۖ جو آیتیں اللہ کی اپنے سامنے پڑھی جاتی ہوئی سنے پھر بھی غرور کرتا ہوا اس طرح اڑا رہے کہ گویا سنی ہی نہیں یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر (پہنچا) دیجئے۔ (۸) وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ وہ جب ہماری آیتوں میں سے کسی آیت کی خبر پا لیتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑ جاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آجاتی ہے تو اسے مذاق کا موضوع بنا لیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نافہمی کی وجہ سے یا کفر و معصیت پر اصرار و استکبار کی وجہ سے۔ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسوائی کی مار ہے۔ (۹) مِنْ وَرَائِهِمْ جَهَنَّمُ ۖ ان کے پیچھے دوزخ ہے یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لئے قیامت میں جہنم ہے۔ وَلَا يُغْنِي عَنْهُمْ مَا كَسَبُوا شَيْئًا جو کچھ انہوں نے حاصل کیا تھا وہ انہیں کچھ بھی نفع نہ دے گا یعنی دنیا میں جو مال انہوں نے کمایا ہو گا‘ جن اولاد اور جتھے پر وہ فخر کرتے رہے ہوں گے‘ وہ قیامت والے دن انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گے۔ وَلَا مَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ ۖ اور نہ وہ (کچھ کام آئیں گے)جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا تھا جن کو دنیا میں اپنا دوست‘ مددگار اور معبود بنا رکھا تھا‘ وہ اس روز ان کو نظر ہی نہیں آئیں گے‘ مدد تو انہوں نے کیا کرنی ہو گی؟ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ان کے لئے تو بہت بڑا عذاب ہے۔ (۱۰) هَذَا هُدًى ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ یہ (سرتاپا) ہدایت (١) ہے اور جن لوگوں نے اپنے رب کی آیتوں کو نہ مانا ان کے لئے بہت سخت دردناک عذاب ہے۔ (۱۱) یعنی قرآن! کیونکہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لایا جائے۔ اس لیے اس کے سر تا پا ہدایت ہونے میں تو کوئی شک نہیں۔ لیکن ہدایت ملے گی تو اسے ہی جو اس کے لیے اپنا سینہ وا کرے گا۔ اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے دریا (١) کو تابع بنا دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں(۲) چلیں اور تم اس کا فضل(۳) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔(۱۲) ۱۔ یعنی اس کو ایسا بنا دیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے اس پر سفر کر سکو۔ ۲۔ یعنی سمندروں میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا‘ یہ تمہارا کمال اور ہنر نہیں‘ یہ اللہ کا حکم اور اس کی مشیت ہے۔ ورنہ اگر وہ چاہتا تو سمندروں کی موجوں کو اتنا سرکش بنا دیتا کہ کوئی کشتی اور جہاز ان کے سامنے ٹھہر ہی نہ سکتا۔ جیسا کہ کبھی کبھی وہ اپنی قدرت کے اظہار کے لیے ایسا کرتا ہے۔ اگر مستقل طور پر موجوں کی طغیانیوں کا یہی عالم رہتا تو تم کبھی بھی سمندر میں سفر کرنے کے قابل نہ ہوتے۔ ۳۔ یعنی تجارت کے ذریعے سے‘ اور اس میں غوطہ زنی کر کے موتی اور دیگر اشیا نکال کر اور دریائی جانوروں(مچھلی وغیرہ) کا شکار کر کے۔ ۴۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تم ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو جو اس تسخیر بحر کی وجہ سے تمہیں حاصل ہوتی ہیں۔ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ ۚ اور آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لئے تابع کر دیا ہے مطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو تمہاری خدمت پر مامور کر دیا ہے، تمہارے منافع اور تمہاری معاش سب انہی سے وابستہ ہے، جیسے چاند، سورج ستارے، بارش، بادل اور ہوائیں وغیرہ ہیں۔ اور اپنی طرف سے کا مطلب، اپنی رحمت اور فضل خاص سے۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ جو غور کریں یقیناً وہ اس میں بہت سی نشانیاں پا لیں گے۔ (۱۳) قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ آپ ایمان والوں سے کہہ دیں کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں(١) رکھتے، (۱۴) تاکہ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ان کے کرتوتوں کا بدلہ دے۔(۲) ۱۔ یعنی جو اس بات کا خوف نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کی مدد کرنے اور دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مراد کافر ہیں۔ اور ایام اللہ سے مراد وقائع ہیں ۔جیسے وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ (سورہ براہیم۔ ۵) میں ہے۔ مطلب ہے کہ ان کافروں سے عفو درگزر سے کام لو‘ جو اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے بے خوف ہیں۔ یہ ابتدائی حکم تھا جو مسلمانوں کو پہلے دیا جاتا رہا تھا بعد میں جب مسلمان مقابلے کے قابل ہو گئے تو پھر سختی کا اور ان سے ٹکرا جانے (جہاد) کا حکم دے دیا گیا۔ ۲۔ یعنی جب تم ان کی ایذاؤں پر صبر اور ان کی زیادتیوں سے درگزر کرو گے‘ تو یہ سارے گناہ ان کے ذمے ہی رہیں گے‘ جن کی سزا ہم قیامت والے دن ان کو دیں گے۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖوَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ جو نیکی کرے گا وہ اپنے ذاتی بھلے کے لئے اور جو برائی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے یعنی ہر گروہ اور فرد کا عمل، اچھا یا برا، اس کا فائدہ یا نقصان خود کرنے والے ہی کو پہنچے گا، کسی دوسرے کو نہیں اس میں نیکی کی ترغیب بھی ہے اور بدی سے ترہیب بھی۔ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پس وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا دے گا۔ نیکوں کو نیک اور بروں کو بری۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت (١) اور نبوت دی تھی اور ہم نے انہیں پاکیزہ اور نفیس روزیاں دی تھیں(۲) اور انہیں دنیا والوں پر فضیلت دی تھی۔ (۱۶) ۱۔ کتاب سے مراد تورات، حکم سے حکومت و بادشاہت یا فہم و قضا کی وہ صلاحیت ہے جو فضل خصوصیات اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ۲۔ وہ روزیاں ان کے لیے حلال تھیں اور ان ہی میں من و سلویٰ کا نزول بھی تھا۔ ۳۔ یعنی ان کے زمانے کے اعتبار سے۔ وَآتَيْنَاهُمْ بَيِّنَاتٍ مِنَ الْأَمْرِ ۖ اور ہم نے انہیں دین کی صاف صاف دلیلیں دیں کہ دہ حلال ہیں اور یہ حرام۔ یا معجزات مراد ہیں۔ یا نبی ﷺ کا علم‘ آپ ﷺ کی نبوت کے شواہد اور آپ ﷺ کی ہجرت گاہ کی تعیین مراد ہے۔ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ پھر انہوں نے اپنے پاس علم کے پہنچ جانے کے بعد آپس کی ضد بحث سے ہی اختلاف برپا کر ڈالا یہ جن جن چیزوں میں اختلاف کر رہے ہیں پھر انہوں نے اپنے پاس علم کے پہنچ جانے کے بعد آپس کی ضد بحث سے ہی اختلاف برپا کر ڈالا یہ جن جن چیزوں میں اختلاف کر رہے ہیں پھر انہوں نے اپنے پاس علم کے پہنچ جانے کے بعد آپس کی ضد بحث سے ہی اختلاف برپا کر ڈالا یہ جن جن چیزوں میں اختلاف کر رہے ہیں بَغْيًا بَيْنَهُمْ آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا جاہ و منصب کی خاطر۔ انہوں نے اپنے دین میں، علم آجانے کے باوجود، اختلاف یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار کیا۔ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ان کا فیصلہ قیامت والے دن ان کے درمیان (خود) تیرا رب کرے گا ۔ (۱۷) یعنی اہل حق کو اچھی جزا اور اہل باطل کو بری جزا دے گا۔ ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ پھر ہم نے آپ کو دین کی (ظاہر) راہ پر قائم کر دیا شریعت کے لغوی معنی ہیں، ملت اور منہاج۔ شاہراہ کو بھی شارع کہا جاتا ہے کہ وہ مقصد اور منزل تک پہنچاتی ہے پس شریعت سے مراد، وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے تاکہ لوگ اس پر چل کر اللہ کی رضا کا مقصد حاصل کرلیں۔ آیت کا مطلب ہے ہم نے آپ کو دین کے ایک واضح راستے یا طریقے پر قائم کر دیا ہے جو آپ کو حق تک پہنچا دے گا۔ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ سو آپ اس پر لگیں رہیں اور نادانوں کی خواہش کی پیروی میں نہ پڑیں ۔ (۱۸) جو اللہ کی توحید اور اس کی شریعت سے ناواقف ہیں۔ مراد کفار مکہ اور ان کے ساتھی ہیں۔ إِنَّهُمْ لَنْ يُغْنُوا عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ (یاد رکھیں) کہ یہ لوگ ہرگز اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آسکتے وَإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۖ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (سمجھ لیں کہ) ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں اور پرہیزگاروں کا کارساز اللہ تعالیٰ ہے۔ (۱۹) هَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ یہ (قرآن) ان لوگوں کے لئے بصیرت کی باتیں (١) اور ہدایت و رحمت ہے (٢) اس قوم کے لئے جو یقین رکھتی ہے۔ (۲۰) ۱۔ یعنی ان کے دلائل کا مجموعہ ہے جو احکام دین سے متعلق ہیں اور جن سے انسانی ضروریات و حاجات وابستہ ہیں۔ ۲۔ یعنی دنیا میں ہدایت کا راستہ بتلانے والا اور آخرت میں رحمت الٰہی کا موجب ہے۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کا مرنا جینا یکساں ہو جائے یعنی دنیا اور آخرت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ کریں۔ اس طرح ہرگز نہیں ہو سکتا یا یہ مطلب ہے کہ جس دنیا میں وہ برابر تھے، آخرت میں بھی برابر رہیں گے کہ مر کر یہ بھی ناپید اور وہ بھی ناپید؟ نہ بدکار کو سزا، نہ ایمان و عمل صالح کرنے والے کو انعام، ایسا نہیں ہوگا اس لئے آگے فرمایا ان کا یہ فیصلہ برا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ برا ہے وہ فیصلہ وہ جو کر رہے ہیں۔ (۲۱) وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ اور آسمانوں اور زمین کو اللہ نے بہت ہی عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کام کا پورا پورا بدلہ دیا جائےاور ان پر ظلم نہ کیا جائے۔ (۲۲) اور یہ عدل یہی ہے کہ قیامت والے دن بے لاگ فیصلہ ہو گا اور ہر شخص کو اس کے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ نیک و بد دونوں کے ساتھ وہ یکساں سلوک کرے‘ جیسا کہ کافروں کا زعم باطل ہے‘ جس کی تردید گزشتہ آیت میں کی گئی ہے۔ کیوں کہ دونوں کو برابری کی سطح پر رکھنا ظلم یعنی عدل کے خلاف بھی ہے اور مسلمات سے انحراف بھی۔ اس لیے جس طرح کانٹے بو کر انگور کی فصل حاصل نہیں کی جا سکتی‘ اسی طرح بدی کا ارتکاب کر کے وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا جو اللہ نے اہل ایمان کے لیے رکھا ہے۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے(١) اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا (۲) ہے پس وہ اسی کو اچھا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس اچھا اور اسی کو برا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس برا قرار دیتا ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی نفسانی خواہش کو ترجیح دیتا یا اپنی عقل کو اہمیت دیتا ہے۔ حالانکہ عقل بھی ماحول سے متاثر یا مفادات کی اسیر ہو کر‘ خواہش نفس کی طرح‘ غلط فیصلہ کر سکتی ہے۔ ایک معنی اس کے یہ کیے گئے ہیں‘ جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت اور برہان کے بغیر اپنی مرضی کے دین کو اختیار کرتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے ایسا شخص مراد ہے جو پتھر کو پوجتا تھا‘ جب اسے زیادہ خوب صورت پتھر مل جاتا‘ تو وہ پہلے پتھر کو پھینک کر دوسرے کو معبود بنا لیتا۔ فتح القدیر وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ ۚ اور اسکے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے(۱) اور اسکی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا (۲) ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔ یعنی بلوغ علم اور قیام حجت کے باوجود، وہ گمراہی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے جیسے بہت سے پندار علم میں مبتلا گمراہ اہل علم کا حال ہے۔ ہوتے وہ گمراہ ہیں‘ مؤقف ان کا بے بنیاد ہوتا ہے۔ لیکن ہم چوما دیگرے نیست کے گھمنڈمیں وہ اپنے دلائل کو ایسا سمجھتے ہیں گویا آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں۔ اور یوں علم و فہم رکھنے کے باوجود وہ گمراہ ہی نہیں ہوتے‘ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ جس سے ان کے وعظ و نصیحت سننے سے اور اس کا دل ہدایت کے سمجھنے سے محروم ہو گیا۔ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے (۲۳) چنانچہ وہ حق کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔ وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے یہ دہریہ اور ان کے ہم نوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے، اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت و حیات کا سلسلہ، محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے، جیسے فلاسفر کا ایک گروہ کہتا ہے چھتیس ہزار سال کے بعد ہرچیز دوبارہ اپنی حالت لوٹ آتی ہے اور یہ سلسلہ، بغیر کسی سانح اور مدبر کے، یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا نہ اس کی کوئی ابتداء ہے نہ انتہاء۔ یہ گروہ دوریہ کہلاتا ہے۔ (ابن کثیر) ظاہر بات ہے یہ نظریہ، اسے عقل بھی قبول نہیں کرتی اور نقل کے بھی خلاف ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم مجھے ایذاء پہنچاتا ہے۔ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے (یعنی اس کی طرف افعال کی نسبت کرکے، اسے برا کہتا ہے، حالانکہ (زمانہ بجائے خود کوئی چیز نہیں) میں خود زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں، رات دن بھی میں ہی پھیرتا ہوں ۔ (البخاری) وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (دراصل) انہیں اس کا علم ہی نہیں یہ تو صرف قیاس آرائیاں ہیں اور اٹکل سے ہی کام لے رہے ہیں۔ (۲۴) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ مَا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اور جب ان کے سامنے ہماری واضح اور روشن آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے پاس اس قول کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لاؤ (۲۵) یہ ان کی سب سے بڑی دلیل ہے جو ان کی کٹ حجتی کا مظہر ہے۔ قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ آپ کہہ دیجئے! اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مار ڈالتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (۲۶) وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن اہل باطل بڑے نقصان میں پڑیں گے۔ (۲۷) وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً ۚ كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَى إِلَى كِتَابِهَا الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ اور آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی (١) ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا آج تمہیں اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا۔ (۲۸) ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ ہی (چاہے وہ انبیاء کے پیروکار ہوں یا ان کے مخالفین) خوف اور دہشت کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہونگے (فتح القدیر) تاآنکہ سب کو حساب کتاب کے لئے بلایا جائے گا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصے سے واضح ہے۔ هَذَا كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ ۚ یہ ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے۔ اس کتاب سے مراد وہ رجسٹر ہیں جن میں انسان کے تمام اعمال درج ہوں گے۔ وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ اعمال نامے سامنے لائے جائیں بے‘ نبیوں اور شہدا کو گواہی کے لیے پیش کیا جائےگا۔ (سورہ زمر ۶۹) إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے تھے ۔ (۲۹) یہ اعمال نامے انسانی زندگی کے ایسے مکمل ریکارڈ ہوں گے کہ جن میں کسی کی کمی بیشی نہیں ہو بی۔ انسان ان کو دیکھ کر پکار اٹھے گا۔ مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا یہ کیسا اعمال نامہ ہے جس نے چھوٹی بڑد چیز کسی کو بھی نہیں چھوڑا‘ سب کچھ ہی تو اس میں درج ہے۔(سورہ کہف ۴۹) یعنی ہمارے علم کے علاوہ، فرشتے بھی ہمارے حکم سے تمہاری ہرچیز نوٹ کرتے اور محفوظ رکھتے تھے۔ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ ۚ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ پس لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام (١) کئے تو ان کو ان کا رب اپنی رحمت تلے لے لے گا(۲) یہی صریح کامیابی ہے۔ (۳۰) ۱۔ یہاں بھی ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کرکے اس کی اہمیت واضح کر دی اور عمل صالح وہ اعمال خیر ہیں جو سنت کے مطابق ادا کئے جائیں نہ کہ ہر وہ عمل جسے انسان اپنے طور پر اچھا سمجھ لے اور اسے نہایت اہتمام اور ذوق شوق کے ساتھ کرے۔ ۲۔ رحمت سے مراد جنت ہے‘ یعنی جنت میں داخل فرمائے گا‘ جیسے حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جنت سے فرمائےگا: تو میری رحمت ہے تیرے ذریعے سے (یعنی تجھ میں داخل کر کے) میں جس پر چاہوں گا‘ رحم کروں گا۔ بخاری تفسیر سورہ ق وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا أَفَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنْتُمْ قَوْمًا مُجْرِمِينَ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا تو (میں ان سے کہوں گا) کیا میری آیتیں تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں (١) پھر بھی تم تکبر کرتے رہے اور تم تھے ہی گناہ گار لوگ (۳۱) ۱۔ یہ بطور توبیخ کے ان سے کہا جائے گا، کیونکہ رسول ان کے پاس آئے تھے، انہوں نے اللہ کے احکام انہیں سنائے تھے، لیکن انہوں نے پروا ہی نہیں کی تھی۔ ۲۔ یعنی حق کے قبول کرنے سے تم نے تکبر کیا اور ایمان نہیں لائے، بلکہ تم تھے ہی گناہ گار۔ وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ اور جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں تو تم جواب دیتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ ہمیں کچھ یوں ہی سا خیال ہو جاتا ہے لیکن ہمیں یقین نہیں (۳۲) یعنی قیامت کا وقوع، محض ظن و تخمین ہے، ہمیں تو یقین نہیں کہ یہ واقعی ہوگی۔ وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ اور ان پر اپنے اعمال کی برائیاں کھل گئیں اور جس کا وہ مذاق اڑا رہے تھے اس نے انہیں گھیر لیا۔ (۳۳) یعنی قیامت کا عذاب، جسے وہ مذاق یعنی انہونا سمجھتے تھے، اس میں وہ گرفتار ہوں گے۔ وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنْسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا اور کہہ دیا گیا کہ آج ہم تمہیں بھلا دیں گے جیسے کہ تم نے اپنے اس دن سے ملنے کو (١) بھلا دیا تھا جیسے حدیث میں آتا ہے: اللہ اپنے بعض بندوں سے کہے گا 'کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی؟ کیا میں نے تیرا اکرام نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے گھوڑے اور بیل وغیرہ تیری ماتحتی میں نہیں دیئے تھے؟ تو سرداری بھی کرتا اور چنگی بھی وصول کرتا رہا۔ وہ کہے گا ہاں یہ تو ٹھیک ہے میرے رب! اللہ تعالیٰ پوچھے گا، کیا تجھے میری ملاقات کا یقین تھا؟ وہ کہے گا، نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پس آج میں بھی (تجھے جہنم میں ڈال کر) بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھولے رہا۔ (صحیح مسلم) وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور تمہارا مددگار کوئی نہیں۔ (۳۴) ذَلِكُمْ بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ یہ اس لئے ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی ہنسی اڑائی تھی اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ پس آج کے دن نہ تو یہ (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے عذر و معذرت قبول کیا جائے گا۔ (۳۵) یعنی اللہ کی آیات و احکام کا استہزا اور دنیا کے فریب و غرور میں مبتلا رہنا‘ یہ دو جرم ایسے ہیں جنہوں نے تمہیں عذاب جہنم کا مستحق بنا دیا‘ اب اس سے نکلنے کا امکان ہے اور نہ اس بات کی ہی امید کہ کسی موقعے پر تمہیں توبہ اور رجوع کا موقعہ دے دیا جائے‘ اور تم توبہ و معذرت کر کے اللہ کو منا لو۔ فتح القدیر فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پس اللہ کی تعریف ہے جو آسمانوں اور زمین اور تمام جہان کا پالنہار ہے۔ (۳۶) وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ تمام (بزرگی اور) بڑائی آسمانوں اور زمین میں اسی کی (١) ہے اور وہی غالب اور حکمت والا ہے۔ (۳۷) جیسے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلْعَظَمَۃُ اِذَارِیْ وَالْکِبْریاءُ رِدَائیْ فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْھُمَا اَسْکَنْتُہُ نَارِیْ (صحیح مسلم) |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |