Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Dukhan

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حم  (۱)

حم

وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ  (۲)

قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی۔‏

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ ۚ

یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات (١) میں اتارا ہے

بابرکت رات (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) سے مراد شب قدر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے :

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا، (۲:۱۸۵)

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

ہم نے قرآن شب قدر میں نازل فرمایا  (۹۷:۱)

- ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا  یہ شب قدر رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی رات اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ

- دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے

- چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (٨٣ سال ٤ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے.

- تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے)

 شب قدر یا لیلہ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اس رات آپ پر قرآن نازل ہوا،

یا یہ مطلب ہے لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آ ّسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے ضرورت و مصلحت ٣٣ سالوں تک مختلف اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا رہا۔

بعض لوگوں نے لیلئہ مبارکہ سے شعبان کی پندرھویں رات مراد لی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے‘ جب قرآن کی نص صریح سے قرآن کا نزول شب قدر میں ثابت ہے تو اس سے شب برأت مراد لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔

 علاوہ ازیں شب برأت (شعبان کی پندرھویں رات) کی بابت جتنی بھی روایات آئی ہیں‘ جن میں اس کی فضیلت کا بیان ہے یا ان میں اسے فیصلے کی رات کہا گیا ہے‘ تو یہ سب روایات سنداً ضعیف ہیں۔ یہ قرآن کی نص صریح کا مقابلہ کس طرح کر سکتی ہیں؟

إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ  (۳)

بیشک ہم ڈرانے والے ہیں‏

یعنی نزول قرآن کا مقصد لوگوں کو نفع و ضرر شرعی سے آگاہ کرنا ہے تا کہ ان پر حجت قائم ہو جائے۔

فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ  (۴)

اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے‏

يُفْرَقُ ، یفصل و بین‘ فیصلہ کر دیا جاتا اور یہ کام کو اس سے متعلق فرشتے کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔

حَكِيمٍ  بمعنی پر حکمت کے،  اللہ کا ہر کام ہی با حکمت ہوتا ہے

یا بمعنی محكم (مضبوط‘ پختہ)جس میں تغیر و تبدیلی کا امکان نہیں۔

 صحابہ اور تابعین سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس رات میں آنے والے سال کی بابت موت و حیات اور وسائل زندگی  کے فیصلے لوح محفوظ سے اتار کر فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں۔ ابن کثیر

أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ  (۵)

ہمارے پاس سے حکم ہو کر (١) ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے۔‏

یعنی سارے فیصلے ہمارے حکم و اذن اور ہماری تقدیر و مشیت سے ہوتے ہیں۔

رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ  (۶)

آپ کے رب کی مہربانی سے (١) وہی سننے والا جاننے والا۔‏

یعنی انزال کتب کے ساتھ (رسولوں کا بھیجنا) یہ بھی ہماری رحمت ہی کا ایک حصہ ہے تاکہ وہ ہماری نازل کردہ کتابوں کو کھول کر بیان کریں اور ہمارے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔

 اس طرح مادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا بھی سامان مہیا کر دیا۔

رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ  (۷)

جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔‏

لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ  (۸)

کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے، وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا۔‏

یہ آیات بھی سورہ اعراف کی آیت ۱۵۸ کی طرح ہیں:

‏قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ

بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ  (۹)

بلکہ وہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں ۔‏

یعنی حق اور اس کے دلائل کے سامنے آگئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے شک میں مبتلا ہیں اور اس شک کے ساتھ استہزاء اور کھیل کود میں پڑے ہیں۔

فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ  (۱۰)

آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا

یہ کافروں کے لئے تہدید ہے کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب آسمان پر دھوئیں کا ظہور ہوگا۔

اس کے نزول میں بتلایا گیا ہے کہ اہل مکہ کے معاندانہ روئیے سے تنگ آ کر نبی ﷺ نے ان کے لیے قحط سالی کی بد دعا فرمائی‘ جس کے نتیجے میں ان پر قحط کا عذاب نازل کر دیا گیا حتٰی کہ وہ ہڈیاں‘ کھالیں‘ اور مردار وغیرہ تک کھانے پر مجبور ہو گئے‘ آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے انہیں دھواں سا نظر آتا۔ بالآخر تنگ آ کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عذاب ٹلنے پر ایمان لانے کا وعدہ کیا‘ لیکن یہ کیفیت دور ہوتے ہی ان کا کفر و عناد پھر اسی طرح عود کر آیا۔ چنانچہ پھر جنگ بدر میں ان کی سخت گرفت کی گئی۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر

بعض کہتے ہیں کہ قرب قیامت کی دس بڑی بڑی علامات میں سے ایک علامت دھواں بھی ہے جس سے کافر زیادہ متاثر ہوں گے اور مؤمن بہت کم۔ آیت میں اسی دھوئیں کا ذکر ہے۔

 اس تفسیر کی رو سے یہ علامت قیامت کے قریب ظاہر ہو گی جب کہ پہلی تفسیر کی رو سے یہ ظاہر ہو چکی۔

 امام شوکافی فرماتے ہیں‘ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں‘ اس کی شان نزول کے اعتبار سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہو چکا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ تاہم علامات قیامت میں بھی اس کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے‘ اس لیے وہ بھی اس کے منافی نہیں ہے‘ اس وقت بھی اس کا ظہور ہو گا۔

يَغْشَى النَّاسَ ۖ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ  (۱۱)

جو لوگوں کو گھیر لے گا، یہ دردناک عذاب ہے۔‏

رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ  (۱۲)

کہیں گے اے ہمارے رب! یہ آفت ہم سے دور کر ہم ایمان قبول کرتے ہیں

پہلی تفسیر کی رو سے یہ کفار مکہ نے کہا اور دوسری تفسیر کی رو سے قیامت کے قریب کافر کہیں گے۔

أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ  (۱۳)

ان کے لئے نصیحت کہاں ہے؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکے۔‏

ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ  (۱۴)

پھر بھی انہوں نے منہ پھیرا اور کہہ دیا کہ سکھایا پڑھایا ہوا باؤلا ہے۔‏

إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ  (۱۵)

ہم عذاب کو تھوڑا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی سی حالت پر آجاؤ گے۔‏

يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ  (۱۶)

جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (١) بالیقین ہم بدلہ لینے والے ہیں۔‏

اس سے مراد جنگ بدر کی گرفت ہے، جس میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی بنا لئے گئے۔

دوسری تفسیر کی رو سے یہ سخت گرفت قیامت والے دن ہوگی۔

 امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ اس گرفت خاص کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں ہوئی، کیونکہ قریش کے سیاق میں ہی اس کا ذکر ہے، اگرچہ قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ سخت گرفت فرمائے گا تاہم وہ گرفت عام ہوگی، ہر نافرمان اس میں شامل ہوگا۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ  (۱۷)

یقیناً ان سے پہلے ہم قوم فرعون کو (بھی) آزما چکے ہیں (١) جن کے پاس (اللہ کا) با عزت رسول آیا۔‏

آزمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں دنیاوی خوشی، خوشحالی و فراغت سے نوازا اور پھر اپنا جلیل القدر پیغمبر بھی ان کی طرف ارسال کیا لیکن انہوں نے رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور نہ پیغمبر پر ایمان لائے۔

أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ  (۱۸)

کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر (١) دو، یقین مانو کہ میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں ۔‏(٢)

۱۔ عِبَادَ اللَّهِ سے مراد یہاں موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل ہے جسے فرعون نے غلام بنا رکھا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔

۲۔  اللہ کا پیغام پہنچانے میں امانت دار ہوں۔

وَأَنْ لَا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي آتِيكُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ  (۱۹)

اور تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی نہ کرو (١) میں تمہارے پاس کھلی دلیل لانے والا ہوں ۔‏(٢)

۱۔ یعنی اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کر کے اللہ کے سامنے اپنی بڑائی اور سرکشی کا اظہار نہ کرو۔

 ۲۔  یہ ما قبل کی علت ہے کہ میں ایسی حجت واضح ساتھ لایا ہوں جس کے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ  (۲۰)

اور میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ تم مجھے سنگسار کر دو ۔‏

اس دعوت و تبلیغ کے جواب میں فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو قتل کی دھمکی دی، جس پر انہوں نے اپنے رب سے پناہ طلب کی۔

وَإِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ  (۲۱)

اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہی رہویعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو نہ لاؤ، لیکن مجھے قتل کرنے کی اذیت پہنچانے کی کوشش نہ کرو۔۔‏

فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ مُجْرِمُونَ  (۲۲)

پھر انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ سب گنہگار لوگ ہیں ۔‏

یعنی جب انہوں دیکھا کہ دعوت کا اثر قبول کرنے کی بجائے، اس کا کفر و عناد بڑھ گیا تو اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دیئے۔

فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ  (۲۳)

(ہم نے کہہ دیا) کہ راتوں رات تو میرے بندوں کو لے کر نکل، یقیناً تمہارا (١) پیچھا کیا جائے گا۔‏

چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور دیکھو! گھبرانا نہیں، تمہارا پیچھا بھی ہوگا۔

وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ  (۲۴)

تو دریا کو ساکن چھوڑ کر چلا جا (١) بلاشبہ یہ لشکر غرق کر دیا جائے گا۔‏

رَهْوًا بمعنی ساکن یا خشک۔

مطلب یہ ہے کہ تیرے لاٹھی مارنے سے دریا معجزانہ طور پر ساکن یا خشک ہو جائے گا اور اس میں راستہ بن جائے گا، تم دریا پار کرنے کے بعد اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا تاکہ فرعون اور اس کا لشکر بھی دریا کو پار کرنے کی غرض سے اس میں داخل ہو جائے اور ہم اسے وہیں غرق کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔

كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ  (۲۵)

وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے۔‏

كَمْ خبر یہ ہے جو تکثیر کا فائدہ دیتا ہے۔

 دریائے نیل کے دونوں طرف باٖغات اور کھیتوں کی کثرت تھی‘ عالی شان مکانات اور خوشحالی کے آثر تھے۔ سب کچھ یہیں دنیا میں میں ہی رہ گیا اور عبرت کے لیے صرف فرعون اور اس کی قوم کا نام رہ بیا۔

وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ  (۲۶)

اور کھتیاں اور راحت بخش ٹھکانے۔‏

وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ  (۲۷)

اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کر رہے تھے۔‏

كَذَلِكَ ۖ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ  (۲۸)

اسی طرح ہوگیا (١) اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا (۲)‏

۱۔ یعنی یہ معاملہ اسی طرح ہوا جس طرح بیان کیا بیا ہے۔

۲۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔

 لیکن بعض کے نزدیک بنی اسرائیل کا دوبارہ مصر آنا تاریخی طور پر ثابت نہیں، اس لئے ملک مصر کی وارث کوئی اور قوم بنی، بنی اسرائیل نہیں۔

فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ  (۲۹)

سو ان پر نہ تو آسمان و زمین (١) روئے اور نہ انہیں مہلت ملی۔‏

یعنی ان فرعونیوں کے نیک اعمال ہی نہیں تھے جو آسمان پر چڑھتے اور ان کا سلسلہ منقطع ہونے پر آسمان روتے، نہ زمین پر ہی وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ اس سے محرومی پر زمین روتی۔

مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین میں کوئی بھی ان کی ہلاکت پر رونے والا نہیں تھا۔  (فتح القدیر)

وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ  (۳۰)

اور بیشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو (سخت) رسوا کن سزا سے نجات دی۔‏

مِنْ فِرْعَوْنَ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِنَ الْمُسْرِفِينَ  (۳۱)

(جو) فرعون کی طرف سے (ہو رہی) تھی۔ فی الواقع وہ سرکش اور حد سے گزر جانے والوں میں تھا۔‏

وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ  (۳۲)

ہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی ۔

اس جہان سے مراد بنی اسرائیل کے زمانے کا جہان ہے کل جہان نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں امت محمدیہ کو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔

 یعنی بنی اسرائیل اپنے زمانے میں دنیا جہان والوں پر فضیلت رکھتے تھے ان کی یہ فضیلت اس استحقاق کی وجہ سے تھی جس کا علم اللہ کو ہے۔

وَآتَيْنَاهُمْ مِنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُبِينٌ  (۳۳)

اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی۔‏

آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے تھے‘ ان میں آزمائش کا پہلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں؟

یا پھر آیات سے مراد وہ احسانات ہیں جو اللہ نے ان پر فرمائے۔ مثلاً

-  فرعونیوں کو غرق کر کے ان کو نجات دینا‘

- ان کے لیے دریا کو پھاڑ کر راستہ بنانا‘

- بادلوں کا سایہ اور من و سلویٰ کا نزول وغیرہ۔

 اس میں آزمائش یہ ہے کہ ان احسانات کے بدلے میں یہ قوم اللہ کی فرماں برداری کا راستہ اختیار کرتی ہے یا اس کی ناشکری کرتے ہوئے اس کی بغاوت اور سرکشی کا راستہ اپناتی ہے۔

إِنَّ هَؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ  (۳۴)

یہ لوگ تو یہی کہتے ہیں

یہ اشارہ کفار مکہ کی طرف ہے۔ اس لئے کہ سلسلہ کلام ان ہی سے متعلق ہے۔

 درمیان میں فرعون کا قصہ ان کی تنبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ  (۳۵)

کہ (آخری چیز) یہی ہمارا پہلی بار (دنیا سے) مر جانا اور ہم (١) دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے۔‏

یعنی یہ دنیا کی زندگی ہی بس آخری زندگی ہے اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب ہونا ممکن نہیں ہے۔

فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ  (۳۶)

اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لے آؤ

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کافروں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تمہارا یہ عقیدہ واضح اور صحیح ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے دکھا دو

یہ ان کی کٹ حجتی تھی کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کا عقیدہ قیامت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت سے پہلے ہی دنیا میں زندہ ہو جانا یا کر دینا۔

أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ  (۳۷)

کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا تمہاری قوم کے لوگ اور جو ان سے بھی پہلے تھے ہم نے ان سب کو ہلاک کر دیا یقیناً وہ گنہگار تھے

یعنی یہ کفار مکہ اور ان سے پہلے کی قومیں، عاد و ثمود وغیرہ سے زیادہ طاقتور اور بہتر ہیں، جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں، ان سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود ہلاک کر دیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ  (۳۸)

ہم نے زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا

یہی مضمون اس سے قبل سورہ ص۔٢٧ سورہ المؤمنون ١١٥۔١١٦ سورۃ الحجر۔٨٥ و غیرہا میں بیان کیا گیا ہے۔

مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ  (۳۹)

بلکہ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا (١) ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‏(۲)

۱۔ وہ مقصد یا درست تدبیر یہی ہے کہ لوگوں کی آزمائش کی جائے اور نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا دی جائے۔

۲۔ یعنی وہ اس مقصد سے غافل اور بےخبر ہیں۔ اسی لئے آخرت کی تیاری سے لا پروا ہیں۔

إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ  (۴۰)

یقیناً فیصلے کا دن ان سب کا طے شدہ وقت ہے۔

یعنی وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے انسانوں کو پیدا کیا گیا اور آسمان و زمین کی تخلیق کی گئی ہے۔

يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ  (۴۱)

اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام بھی نہ آئے گا اور نہ ان کی امداد کی جائے گی۔‏

جیسے فرمایا:

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ (۲۳:۱۱۰)

وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا  (۷۰:۱۰)

إِلَّا مَنْ رَحِمَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ  (۴۲)

مگر جس پر اللہ کی مہربانی ہو جائے وہ زبردست اور رحم کرنے والا ہے۔‏

إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ  (۴۳)

بیشک زقوم (تھوہر) کا درخت۔‏

طَعَامُ الْأَثِيمِ  (۴۴)

گنہگار کا کھانا ہے۔‏

كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ  (۴۵)

جو مثل تلچھٹ(١) کے ہے اور پیٹ میں کھولتا رہتا ہے۔‏

پگھلا ہوا تانبہ، آگ میں پگھلی ہوئی چیز یا تلچھٹ تیل وغیرہ کے آخر میں جو گدلی سی مٹی کی تہہ رہ جاتی ہے۔

كَغَلْيِ الْحَمِيمِ  (۴۶)

مثل تیز گرم پانی کے

وہ زقوم کی خوراک، کھولتے ہوئے پانی کی طرح پیٹ میں کھولے گی۔

خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَى سَوَاءِ الْجَحِيمِ  (۴۷)

اسے پکڑ لو پھر گھسیٹتے ہوئے بیچ جہنم تک پہنچاؤ

یہ جہنم پر مقرر فرشتوں سے کہا جائے گا۔

ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ  (۴۸)

پھر اس کے سر پر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ۔‏

ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ  (۴۹)

(اس سے کہا جائے گا) چکھتا جا تو تو بڑا ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا ۔

یعنی دنیا میں اپنے طور پر تو بڑا ذی عزت اور صاحب اکرام بنا پھرتا تھا اور اہل ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔

إِنَّ هَذَا مَا كُنْتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ  (۵۰)

یہی وہ چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔‏

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ  (۵۱)

بیشک (اللہ سے) ڈرنے والے امن چین کی جگہ میں ہونگے۔‏

أَمِينٍ  کا مطلب ایسی جگہ، جہاں ہر قسم کے خوف اور اندیشوں سے وہ محفوظ ہونگے۔

فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ  (۵۲)

باغوں اور چشموں میں۔‏

يَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِينَ  (۵۳)

باریک اور ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہونگے ۔

اہل کفر و فسق کے مقابلے میں اہل ایمان و تقویٰ کا مقام بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے اپنا دامن کفر و فسق اور معاصی سے بچائے رکھا تھا۔

كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ  (۵۴)

یہ اسی طرح ہے (١) اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کر دیں گے ۔‏(٢)

یعنی متقین کے ساتھ یقیناً ایسا ہی معاملہ ہو گا۔

حُورَاَءُ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نظریں ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو جائیں گی کشادہ چشم جیسے ہرن کی آنکھیں ہوتی ہیں۔

 ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں کہ ہر جنتی کو کم ازکم دو حوریں ضرور ملیں گی، جو حسن جمال کے اعتبار سے چندے آفتاب و ماہتاب ہوں گی۔ البتہ ترمذی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، جسے صحیح کہا گیا ہے، کہ شہید کو خصوصی طور پر ٧٢ حوریں ملیں گی۔

يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ  (۵۵)

دل جمعی کے ساتھ وہاں ہر طرح کے میؤوں کی فرمائشیں کرتے ہونگے

آمِنِينَ  (بے خوفی کے ساتھ) کا مطلب ان کے ختم ہونے کا اندیشہ ہوگا نہ کے کھانے سے بیماری وغیرہ کا خوف یا موت، تھکاوٹ اور شیطان کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى ۖ وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ  (۵۶)

وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں ہاں پہلی موت (١) (جو وہ مر چکے) انہیں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی سزا سے بچا دیا۔‏

یعنی دنیا میں انہیں جو موت آئی تھی، اس موت کے بعد انہیں موت کا مزہ نہیں چکھنا پڑے گا

جیسے حدیث میں آتا ہے:

 کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لا کر دوزخ اور جنت کے درمیاں ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا اے جنتیو! تمہارے لئے جنت کی زندگی دائمی ہے، اب تمہارے لئے موت نہیں۔ اور اے جہنمیوں! تمہارے لئے جہنم کا عذاب دائمی ہے موت نہیں۔

فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ۚ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ  (۵۷)

یہ صرف تیرے رب کا فضل ہے (١) یہی ہے بڑی کامیابی۔‏

جس طرح حدیث میں آتا ہے:

 فرمایا یہ بات جان لو! تم میں کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا

صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ! آپ کو بھی؟

 فرمایا ' ہاں مجھے بھی، مگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت اور فضل میں ڈھانپ لے گا۔ صحیح بخاری

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ  (۵۸)

ہم نے اس (قرآن) کو تیری زبان میں آسان کر دیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‏

فَارْتَقِبْ إِنَّهُمْ مُرْتَقِبُونَ  (۵۹)

اب تو منتظر رہ یہ بھی منتظر ہیں

تو عذاب الٰہی کا انتظار کر، اگر یہ ایمان نہ لائے۔ یہ منتظر ہیں اس بات کے کہ اسلام کے غلبہ و نفوذ سے قبل ہی شاید آپ موت سے ہمکنار ہوجائیں۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter