Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Saffat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالصَّافَّاتِ صَفًّا (۱)‏

قسم صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔‏

وَالصَّافَّاتِ آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لئے صف باندھنے والے، یا اللہ کے حکم کے انتظار میں صف بستہ،

فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا (۲)‏

پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی۔‏

فَالزَّاجِرَاتِ وعظ و نصیحت کے ذریعے سے لوگوں کو ڈانٹنے والے

یا بادلوں کو جہاں اللہ کا حکم ہو وہاں ہانک کر لے جانے والے

فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا (۳)‏

پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی۔‏

فَالتَّالِيَاتِ اللہ کے ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنوالےے ۔

إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ (۴)‏

یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے ۔‏

ان فرشتوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے مضموں میں یہ فرمایا ہے کہ تمام انسانوں کا معبود ایک ہی ہے۔ متعدد نہیں جیسا کہ مشرکین بنائے ہوئے ہیں۔عرف عام میں قسم تاکید اور شک دور کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں قسم اسی شک کو دور کرنے کے لئے کھائی ہے جو مشرکین اسکی واحدنیت و الوہیت کے بارے میں پھیلاتے ہیں۔

علاوہ ازیں ہرچیز کی مخلوق اور مملوک ہے، اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے، اس کے لئے جائز ہے۔ لیکن انسانوں کے لئے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ قسم میں جس کی قسم کھائی جاتی ہے، اسے گواہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اور گواہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بن سکتا، کہ عالم الغیب صرف وہی ہے، اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ (۵)‏

آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مشرقوں کا رب وہی ہے۔‏

مطلب ہے مشارق و مغارب کا رب۔ جمع کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ بعض کہتے ہیں کہ سال کے دنوں کی تعداد کے برابر مشرق و مغرب ہیں۔ سورج ہر روز ایک مشرق سے نکلتا اور ایک مغرب میں غرروب ہوتا ہے

إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ (۶)‏

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا۔‏

وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ (۷)‏

اور حفاظت کی سرکش شیطان سے ۔

یعنی آسمان دنیا پر،

 زینت کے علاوہ، ستاروں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سرکش شیاطین سے حفاظت ہو۔ چنانچہ شیطان آسمان پر کوئی بات سننے کے لئے جاتے ہیں تو ستارے ان پر ٹوٹ گرتے ہیں جس سے بالعموم شیطان جل جاتے ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات اور احادیث سے واضح ہے۔

ستاروں کا ایک تیسرا مقصد رات کی تاریکیوں میں رہنمائی بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر بیان فرمایا گیا ہے۔

ان مقاصد سہ گانہ کے علاوہ ستاروں کا اور کوئی مقصد بیان نہیں کیا گیا ہے۔

لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ (۸)‏

عالم بالا کے فرشتوں (کی باتوں) کو سننے کے لئے وہ کان بھی نہیں لگا سکتے، بلکہ ہر طرف سے وہ مارے جاتے ہیں۔‏

دُحُورًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ (۹)‏

بھگانے کے لئے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔‏

إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ (۱۰)‏

مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو(فورا ًہی) اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے۔‏

فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا ۚ

ان کفروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا (ان کا) جنہیں ہم نے ان کے علاوہ پیدا کیا ہے؟

یعنی ہم نے جو زمین ملائکہ اور آسمان جیسی چیزیں بنائی ہیں جو اپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے نہایت انوکھی ہیں۔ کیا ان لوگوں کی پیدائش اور دوبارہ زندہ کرنا، ان چیزوں کی تخلیق سے زیادہ سخت اور مشکل ہے؟

 یقیناً نہیں۔

إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ (۱۱)‏

ہم نے (انسانوں) کو لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے؟

یعنی ان کے باپ آدم علیہ السلام کو تو ہم نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ یہ انسان آخرت کی زندگی کو اتنا بعید کیوں سمجھتے ہیں درآں حالیکہ ان کی پیدائش ایک نہایت ہی حقیر اور کمزور چیز سے ہوئی ہے۔ جبکہ خلقت میں ان سے زیادہ قوی، عظیم اور کامل و اتم چیزوں کی پیدائش کا ان کو انکار نہیں۔ (فتح القدیر)

بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ (۱۲)‏

بلکہ تو تعجب کر رہا ہے اور یہ مسخرا پن کر رہے ہیں ۔

یعنی آپ کو تو منکرین آخرت کے انکار پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس کے امکان بلکہ وضاحت کے اتنے واضح دلائل کے باوجود وہ اسے مان کر نہیں دے رہے اور وہ آپ کے دعوائے قیامت کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہے؟

وَإِذَا ذُكِّرُوا لَا يَذْكُرُونَ (۱۳)‏

اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے یہ نہیں مانتے۔‏

وَإِذَا رَأَوْا آيَةً يَسْتَسْخِرُونَ (۱۴)‏

اور جب کسی معجزے کو دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔‏

وَقَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (۱۵)‏

اور کہتے ہیں کہ یہ تو بالکل کھلم کھلا جادو ہی ہے

یعنی یہ ان کا شیوہ ہے کہ نصیحت قبول نہیں کرتے اور کوئی واضح دلیل یا معجزہ پیش کیا جائے تو مذاق کرتے اور انہیں جادو باور کراتے ہیں۔

أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (۱۶)‏

کیا جب ہم مر جائیں گے خاک اور ہڈی ہوجائیں گے پھر کیا (سچ مچ) ہم اٹھائے جائیں گے؟‏

أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ (۱۷)‏

کیا ہم سے پہلے کے ہمارے باپ دادا بھی؟‏

قُلْ نَعَمْ وَأَنْتُمْ دَاخِرُونَ (۱۸)‏

آپ جواب دیجئے کہ ہاں ہاں اور تم ذلیل (بھی) ۔‏

جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا :

وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ (۲۷:۸۷)

سب اس کی بارگاہ میں ذلیل ہو کر آئیں گے

فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنْظُرُونَ (۱۹)‏

وہ تو صرف ایک روز کی جھڑکی ہے (١) کہ یکایک یہ دیکھنے لگیں گے ۔‏(٢)

۱۔ یعنی وہ اللہ کے ایک ہی حکم اور اسرافیل علیہ السلام کی ایک ہی پھونک (نفخہ ثانیہ) سے قبروں سے زندہ ہو کر نکل کھڑے ہونگے۔

۲۔  یعنی ان کے سامنے قیامت کے ہولناک مناظر اور میدان محشر کی سختیاں ہوں گی جنہیں وہ دیکھیں گے،

 نفخے یا چیخ کو زَجْرَةٌ (ڈانٹ) سے تعبیر کیا، کیونکہ اس سے مقصود ڈانٹ ہی ہے

وَقَالُوا يَا وَيْلَنَا هَذَا يَوْمُ الدِّينِ (۲۰)‏

اور کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی یہی جزا (سزا) کا دن ہے۔‏

وَيْلَ کا لفظ ہلاکت کے موقع پر بولا جاتا ہے۔

هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (۲۱)‏

یہی فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلاتے ہو

فرشتے اور اہل ایمان کہیں گے کہ یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم مانتے نہیں تھے۔

 یہ بھی ممکن ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو کہیں گے۔

احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ (۲۲)‏

ظالموں کو (١) اور ان کے ہمراہیوں کو (٢) اور (جن) جن کی وہ اللہ کے علاوہ پرستش کرتے تھے ۔‏(۳)

۱۔ یعنی جنہوں نے کفر و شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہوگا۔

 ۲۔  اس سے مراد کفر و شرک اور تکذیب رسل کے ساتھ یا بعض کے نزدیک جنات و شیاطین ہیں۔

 اور بعض کہتے ہیں کہ وہ بیویاں ہیں جو کفر و شرک میں ان کی ہمنوا تھیں۔

۳۔  وہ مورتیاں ہوں یا اللہ کے نیک بندے، سب کو ان کی تذلیل کے لئے جمع کیا جائیے گا۔ تاہم نیک لوگوں کو اللہ جہنم سے دور ہی رکھے گا، اور دوسرے معبودوں کو ان کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تاہم وہ دیکھ لیں کہ یہ کسی کو نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔

مِنْ دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِ (۲۳)‏

(ان سب کو) جمع کرکے انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو۔‏

وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (۲۴)‏

اور انہیں ٹھہرا لو، (١) اس لئے کہ ان سے ضروری سوال کیئے جانے والے ہیں۔‏

یہ حکم جہنم میں لے جانے سے قبل ہوگا، کیونکہ حساب کے بعد ہی جہنم میں جائیں گے۔

مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ (۲۵)‏

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ (اس وقت) تم ایک دوسروں کی مدد نہیں کرتے۔‏

بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ (۲۶)‏

بلکہ وہ (سب کے سب) آج فرمانبردار بن گئے۔‏

وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (۲۷)‏

وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال و جواب کرنے لگیں گے۔‏

قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ (۲۸)‏

کہیں گے کہ تم ہمارے پاس ہماری دائیں طرف سے آتے تھے

اس کا مطلب ہے کہ دین اور حق کے نام سے آتے تھے یعنی باور کراتے تھے کہ یہی اصل دین اور حق ہے

اور بعض کے نزدیک مطلب ہے، ہر طرف سے آتے تھے جس طرح شیطان نے کہا میں ان کے آگے، پیچھے سے، ان کے دائیں بائیں سے ہر طرف سے ان کے پاس آؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا (الا عراف۔١٧)

قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (۲۹)‏

وہ جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ تم ہی ایماندار نہ تھے

لیڈر کہیں گے کہ ایمان تم اپنی مرضی سے نہیں لائے اور آج ذمہ دار ہمیں ٹھہرا رہے ہو؟

وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ ۖ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ (۳۰)‏

اور کچھ ہمارا زور تو تھا (ہی) نہیں، بلکہ تم (خود) سرکش لوگ تھے

تابعین اور متبوعین کی یہ باہمی تکرار قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کی گئی ہے۔ ان کی ایک دوسرے کو یہ ملامت عرصہ قیامت (میدان محشر) میں ہوگی اور جہنم میں جانے کے بعد جہنم کے اندر بھی ملاحظہ ہو

فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا ۖ إِنَّا لَذَائِقُونَ (۳۱)‏

اب تو ہم (سب) پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوچکی کہ ہم (عذاب) چکھنے والے ہیں۔‏

فَأَغْوَيْنَاكُمْ إِنَّا كُنَّا غَاوِينَ (۳۲)‏

پس ہم نے تمہیں گمراہ کیا ہم خود گمراہ ہی تھے۔

یعنی جس بات کی پہلے انہیں نفی کی، کہ ہمارا تم پر کونسا زور تھا کہ تمہیں گمراہ کرتے۔

اب اس کا یہاں اعتراف ہے کہ ہاں واقعی ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا۔ لیکن یہ اعتراف اس تنبیہ کے ساتھ کیا کہ ہمیں اس ضمن میں مورد طعن مت بناؤ، اس لئے کہ ہم خود بھی گمراہ ہی تھے، ہم نے تمہیں بھی اپنے جیسا ہی بنانا چاہا اور تم نے آسانی سے ہماری راہ اپنا لی۔ جس طرح شیطان بھی اس روز کہے گا

فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ (۳۳)‏

سو اب آج کے دن (سب کے سب) عذاب میں شریک ہیں

اس لئے کہ ان کا جرم بھی مشترکہ ہے مشرک اور شر و فساد ان سب کا وطیرہ تھا۔

إِنَّا كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ (۳۵)‏

ہم گناہگاروں کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں

یعنی ہر قسم کے گناہ گاروں کے ساتھ ہمارا یہی معاملہ ہے اور اب وہ سب ہمارا عذاب بھگتیں گے

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ (۳۵)‏

یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے

یعنی دنیا میں ان سے کہا جاتا تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے یہ کلمہ پڑھ کر شرک سے توبہ کرلی ہے، تم بھی یہ پڑھ لو، تاکہ تم دنیا میں بھی مسلمانوں کے قہر و غضب سے بچ جاؤ اور آخرت میں بھی عذاب الٰہی سے تمہیں دو چار نہ ہونا پڑے، تو تکبر کرتے اور انکار کرتے۔

وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ (۳۶)‏

اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں ۔

یعنی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور مجنون کہا اور آپ کی دعوت کو جنون (دیوانگی) اور قرآن کو شعر سے تعبیر کیا اور کہا کہ ایک دیوانے کی دیوانگی پر ہم اپنے معبودوں کو کیوں چھوڑیں؟

حالانکہ یہ دیوانگی نہیں، دانائی تھی، شاعری نہیں، حقیقت تھی اور اس دعوت کو اپنانے میں ان کی ہلاکت نہیں، نجات تھی۔

بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ (۳۷)‏

(نہیں نہیں) بلکہ (نبی) تو حق (سچا دین) لائے ہیں اور سب رسولوں کو سچا جانتے ہیں

یعنی تم ہمارے پیغمبر کو شاعر اور مجنون کہتے ہو، جب کہ واقع یہ ہے وہ جو کچھ لایا اور پیش کر رہا ہے وہ سچ ہے اور وہی چیز ہے جو اس سے قبل تمام انبیاء پیش کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ کام کسی دیوانے کا یا شاعر کے تخیلات کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ (۳۸)‏

یقیناً تم دردناک عذاب (کا مزہ) چکھنے والے ہو۔‏

وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۳۹)‏

تمہیں اسکا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے ۔

یہ جہنمیوں کو اس وقت کہا جائے گا جب وہ کھڑے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہونگے اور ساتھ ہی وضاحت کر دی جائے گی کہ یہ ظلم نہیں ہے بلکہ عین عدل ہے کیونکہ یہ سب تمہارے اپنے عملوں کا بدلہ ہے۔

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (۴۰)‏

مگر اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیدہ بندے ۔

یعنی یہ  عذاب سے محفوظ ہونگیں، ان کی کوتاہیوں سے بھی درگزر کر دیا جائے گا، اگر کچھ ہونگی اور ایک ایک نیکی کا اجر کئی کئی گنا دیا جائے گا۔

أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ (۴۱)‏

انہیں کے لئے مقررہ روزی ہے۔‏

فَوَاكِهُ ۖ وَهُمْ مُكْرَمُونَ (۴۲)‏

(ہر طرح) کے میوے، اور باعزت و اکرام ہونگے۔‏

فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (۴۳)‏

نعمتوں والی جنتوں میں۔‏

عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (۴۴)‏

تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے (بیٹھے) ہوں گے۔‏

يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ (۴۵)‏

جاری شراب کے جام کا ان پر دور چل رہا ہوگا  

كَأْسٍ شراب کے بھرے ہوئے جام کو اور قدح خالی جام کو کہتے ہیں

مَعِیْن کے معنی ہیں، جاری چشمہ۔

مطلب یہ ہے کہ جاری چشمے کی طرح، جنت میں شراب ہر وقت میسر ہوگی۔

بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ (۴۶)‏

جو صاف شفاف اور پینے میں لذیذ ہوگی

دنیا میں شراب عام طور پر بدرنگ ہوتی ہے، جنت میں وہ جیسے لذیذ ہوگی خوش رنگ بھی ہوگی۔

لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ (۴۷)‏

نہ اس سے درد ہوگا اور نہ اسکے پینے سے بہکیں گے

یعنی دنیا کی  شراب کی طرح اس میں قے‘ سرور‘ بدمستی اور بہکنے کا اندیشہ نہیں ہو گا۔

وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ (۴۸)‏

اور ان کے پاس نیچی نظروں، بڑی بڑی آنکھوں والی (حوریں) ہونگی

بڑی اور موٹی آنکھیں حسن کی علامت ہے یعنی حسین آنکھیں ہونگی۔

كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ (۴۹)‏

ایسی جیسے چھپائے ہوئے انڈے

یعنی شتر مرغ اپنے پروں کے نیچے چھپائے ہوئے ہوں، جس کی وجہ سے وہ ہوا اور گردو غبار سے محفوظ ہوں گے۔

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (۵۰)‏

) جنتی) ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے پوچھیں گے ۔‏

جنتی، جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے دنیا کے واقعات یاد کریں گے اور ایک دوسرے کو سنائیں گے۔

قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ (۵۱)‏

ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا‏

يَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ (۵۲)‏

جو (مجھ سے) کہا کرتا تھا کیا تو (قیامت کے آنے کا) یقین کرنے والوں سے ہے؟

یعنی یہ بات وہ مذاق کے طور پر کہا کرتا تھا، مقصد اس کا یہ تھا یہ تو نہ ممکن ہے کیا ایسی ناممکن الواقع بات پر تو یقین رکھتا ہے؟

أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِينُونَ (۵۳)‏

کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا اسوقت ہم جزا دیئے جانے والے ہیں؟

یعنی ہمیں زندہ کرکے ہمارا حساب لیا جائے گا اور پھر اس کے مطابق جزا دی جائے گی؟

قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ (۵۴)‏

کہے گا تم چاہتے ہو کہ جھانک کر دیکھ لو؟

یعنی وہ جنتی اپنے جنت سے ساتھیوں سے کہے گا کیا تم پسند کرتے ہو کہ ذرا جہنم میں جھانک کر دیکھیں، شاید مجھے یہ باتیں کہنے والا وہاں نظر آجائے تو تمہیں بتلاؤں کہ یہ شخص تھا جو باتیں کرتا تھا۔

فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ (۵۵)‏

جھانکتے ہی اسے بیچوں بیچ جہنم میں (جلتا ہوا) دیکھے گا۔‏

قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ (۵۶)‏

کہے گا واللہ! قریب تھا کہ مجھے (بھی) برباد کردے۔‏

وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ (۵۷)‏

اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کئے جانے والوں میں ہوتا

یعنی جھانکنے پر اسے جہنم کے وسط میں وہ شخص نظر آجائے گا اور اسے یہ جنتی کہے گا کہ مجھے بھی تو گمراہ کر کے ہلاکت میں ڈالنے لگا تھا، یہ تو مجھ پر اللہ کا احسان ہوا، ورنہ آج میں تیرے ساتھ جہنم میں ہوتا۔

أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ (۵۸)‏

کیا (یہ صحیح ہے) ہم مرنے والے ہی نہیں؟

جہنمیوں کا حشر دیکھ کر جنتی کے دل میں رشک کا جذبہ مزید بیدار ہو جائے گا اور کہے گا کہ ہمیں جو جنت کی زندگی اور اس کی نعمتیں ملی ہیں کیا یہ دائمی نہیں؟

اب ہمیں موت آنے والی نہیں؟

جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، نہ انہیں موت آئے گی کہ جہنم کے عذاب سے چھوٹ جائیں، اور نہ ہمیں کہ جنت کی نعمتوں سے محروم ہوجائیں۔

 جس طرح حدیث میں آتا ہے :

 موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دوزخ اور جنت کے درمیان لا کر ذبح کر دیا جائے گا کہ اب موت کسی کو نہیں آئے گی۔

إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (۵۹)‏

بجز پہلی ایک موت کے، (١) اور ہم نہ عذاب کیے جانے والے ہیں۔‏

جو دنیا میں آچکی۔ اب ہمارے لئے موت ہے نہ عذاب۔

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (۶۰)‏

پھر تو (ظاہر بات ہے کہ) یہ بڑی کامیابی ہے

اس لئے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کی نعمتوں کا مستحق قرار پا جانے سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی۔

لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (۶۱)‏

ایسی (کامیابی) کے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ۔

یعنی اس جیسی نعمت اور اس جیسے فضل عظیم ہی کے لئے محنت کرنے والوں کو محنت کرنی چاہئے، اس لئے کہ یہی سب نفع بخش تجارت ہے۔ نہ کہ دنیا کے لئے جو عارضی ہے، اور خسارے کا سودا ہے۔

أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ (۶۲)‏

کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا (زقوم) کا درخت

زَقوْم تَزَقْم سے نکلا ہے، جس کے معنی بدبودار اور کریہ چیز کے نکلنے کے ہیں۔

 اس درخت کا پھل بھی کھانا اہل جہنم کے کے لئے سخت ناگوار ہوگا۔ کیونکہ یہ سخت بدبودار اور کڑوا اور نہایت کریہ ہو گا۔

إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ (۶۴)‏

جسے ہم نے ظالموں کے لئے سخت آزمائش بنا رکھا ہے

آزمائش اس لئے کہ اس کا پھل کھانا بجائے خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔

بعض نے اسے اس اعتبار سے آزمائش کہا کہ اس کے وجود کا انہوں نے انکار کیا کہ جہنم میں جب ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی تو وہاں درخت کس طرح موجود رہ سکتا ہے؟

 یہاں ظالمین سے مراد اہل جہنم ہیں جن پر جہنم واجب ہوگی۔

إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ (۶۴)‏

بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے

یعنی اس کی جڑ جہنم کی گہرائی میں ہوگی البتہ اس کی شاخیں ہر طرف پھیلی ہوں گی۔

طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ (۶۵)‏

جسکے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں ۔

اسے قباحت میں شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دی، جس طرح اچھی چیز کے بارے میں کہتے ہیں گویا کہ وہ فرشتہ ہے۔

فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (۶۶)‏

(جہنمی) اسی درخت میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے ۔

یہ انہیں نہایت کراہت سے کھانا پڑے گا جس سے ظاہر بات ہے پیٹ بوجھل ہی ہونگے۔

ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ (۶۷)‏

پھر اس پر گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا

یعنی کھانے کے بعد انہیں پانی کی طلب ہوگی تو کھولتا ہوا پانی انہیں دیا جائے گا، جس کے پینے سے ان کی انتڑیاں کٹ جائیں گی (سورہ محمد۔١٥)

ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ (۶۸)‏

پھر ان سب کا لوٹنا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہوگا ۔

یعنی زقوم کے کھانے اور گرم پانی کے پینے کے بعد انہیں دوبارہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ (۶۹)‏

یقین مانو ! کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو بہکایا ہوا پایا۔‏

فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ (۷۱)‏

یہ انہی کے نشان قدم پر دوڑتے رہے

یہ جہنم کی مذکورہ سزاؤں کی علت ہے کہ اپنے باپ دادوں کی گمراہی پانے کے باوجود یہ انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور دلیل و حجت کے مقابلے میں تقلید کو اپنائے رکھا۔

وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ (۷۱)‏

ان سے پہلے بھی بہت سے اگلے بہک چکے ہیں

یعنی یہی گمراہ نہیں ہوئے، ان سے پہلے لوگ بھی اکثر گمراہی پانے کے باوجود یہ انہی کے نقشے قدم پر چلنے والے تھے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ (۷۲)‏

جن میں ہم نے ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے

یعنی ان سے پہلے لوگوں میں۔ انہوں نے حق کا پیغام پہنچایا اور عدم قبول کی صورت میں انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہیں تباہ کر دیا گیا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ (۷۳)‏

اب تو دیکھ لے کہ جنہیں دھمکایا گیا تھا ان کا انجام کیسا ہوا‏

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (۷۴)‏

سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے

یعنی عبرت ناک انجام سے صرف وہ محفوظ رہے جن کو اللہ نے ایمان و توحید کی توفیق سے نواز کر بچا لیا۔

وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ (۷۵)‏

اور ہمیں نوح(علیہ السلام) نے پکارا تو (دیکھ لو) ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں ۔

یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کو جھٹلایا تو انہوں نے محسوس کرلیا کہ ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے تو اپنے رب کو پکارا :

فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (۵۴:۱۰)

یا اللہ میں مغلوب ہوں میری مدد فرما،

چنانچہ ہم نے نوح علیہ السلام کی دعا قبول کی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کر دیا۔

وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (۷۶)‏

ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو (١) اس زبردست مصیبت سے بچا لیا۔‏

وَأَهْلَهُ حضرت نوح پر ایمان لانے والے، جن میں ان کے گھر کے افراد بھی ہیں جو مؤمن تھے بعض مفسرین نے ان کی تعداد ٨٠ بتلائی ہے۔ اس میں آپ کی بیوی اور ایک لڑکا شامل نہیں، جو مؤمن نہیں تھے، وہ بھی طوفان میں غرق ہوگئے۔

 كَرْبِ الْعَظِيمِ (زبردست مصیبت) سے مراد وہی سیلاب عظیم ہے جس میں یہ قوم غرق ہوئی۔

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ (۷۷)‏

اور اس کی اولاد کو باقی رہنے والی بنا دی  

اکثر مفسرین کے قول کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹے تھے۔ عام، سام، یافث۔ انہی سے بعد کی نسل انسانی چلی۔ اسی لئے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کہا جاتا ہے یعنی آدم علیہ السلام کی طرح، آدم علیہ السلام کے بعد یہ دوسرے ابوالبشر ہیں۔ سام کی نسل سے عرب، فارس، روم اور یہود و نصاریٰ ہیں۔ عام کی نسل سے سوڈان (مشرق سے مغرب تک) یعنی سندھ، ہند، نوب، زنج، حبشہ، قبط اور بربر وغیرہ ہیں اور یافث کی نسل سے صقالہ، ترک، خزر اور یاجوج و ماجوج وغیرہ ہیں ۔ (فتح القدیر)  

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (۷۸)‏

اور ہم نے اس کا (ذکر خیر) پچھلوں میں باقی رکھا  

یعنی قیامت تک آنے والے اہل ایمان میں ہم نے نوح علیہ السلام کا ذکر خیر باقی چھوڑ دیا ہے اور وہ سب نوح علیہ السلام پر سلام بھیجتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے۔

سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ (۷۹)‏

نوح (علیہ السلام) پر تمام جہانوں میں سلام ہو۔‏

إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (۸۰)‏

ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں

یعنی جس طرح نوح علیہ السلام کی دعا قبول کرکے، ان کی ذریت کو باقی رکھ کے اور پچھلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھ کے ہم نے نوح علیہ السلام کو عزت و تکریم بخشی۔ اسی طرح جو بھی اپنے اقوال و افعال میں محسن اور اس باب میں راسخ اور معروف ہوگا، اس کے ساتھ بھی ہم ایسا معاملہ کریں گے۔

إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (۸۱)‏

وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھا۔‏

ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ (۸۲)‏

پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا۔‏

وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ (۸۳)‏

اور اس (نوح علیہ السلام) کی تابعداری کرنے والوں میں سے (ہی) ابراہیم (علیہ السلام) (بھی) تھے

شِيعَتِهِ کے معنی گروہ اور پیروکار کے ہیں۔

 یعنی ابراہیم علیہ السلام بھی اہل دین و اہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح علیہ السلام ہی کی طرح قائم مقام الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی۔

إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (۸۴)‏

جبکہ اپنے رب کے پاس بےعیب دل لائے۔‏

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ (۸۵)‏

انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟‏

أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ (۸۶)‏

کیا تم اللہ کے سوا گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟

یعنی اپنی طرف سے گھڑ کے کہ یہ معبود ہیں، تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو، درآں حالیکہ یہ پتھر اور مورتیاں ہیں۔

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۸۷)‏

تو یہ (بتلاؤ کہ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟

یعنی اتنی قبیح حرکت کرنے کے باوجود کیا تم پر ناراض نہیں ہوگا اور تمہیں سزا نہیں دے گا۔

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ (۸۸)‏

اب ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی۔‏

فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ (۸۹)‏

اور کہا میں بیمار ہوں ۔

آسمان پر غور و فکر کے لئے دیکھا جیسا کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یا اپنی ہی قوم کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں مؤثر مانتے تھے۔

یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب ان کی قوم کا وہ دن آیا، جسے وہ باہر جا کر بطور عید اور قومی تہوار منایا کرتی تھی۔ قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ لیکن ابراہیم علیہ السلام تنہائی اور موقعے کی تلاش میں تھے، تاکہ ان کے بتوں کا تیاپانچہ کیا جاسکے۔ چنانچہ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ کل ساری قوم باہر میلے میں چلی جائیگی تو میں اپنا منصوبہ بروئے کار لےآؤں گا۔ اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں یا آسمانوں کی گردش بتاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ یہ بات بالکل جھوٹی نہیں تھی، ہر انسان کچھ نہ کچھ بیمار ہوتا ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک ابراہیم علیہ السلام کے دل کا ایک مستقل روگ تھا جسے دیکھ وہ کڑتے رہتے تھے، جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل سورہ انبیاء۔ ٦٣ میں گزر چکی ہے۔

فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ (۹۰)‏

اس پر سب اس سے منہ موڑے ہوئے واپس چلے گئے۔‏

فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (۹۱)‏

آپ (چپ چپاتے) ان کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں؟

یعنی جو حلویات بطور تبرک وہاں پڑی ہوئی تھیں، وہ انہیں کھانے کے لئے پیش کیں، جو ظاہر بات ہے انہیں نہ کھانی تھیں نہ کھائیں بلکہ وہ جواب دینے پر بھی قادر نہ تھے، اس لئے جواب بھی نہیں دیا۔

مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ (۹۲)‏

تمہیں کیا ہوگیا بات نہیں کرتے ہو۔‏

فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ (۹۳)‏

پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے ۔

ضَرْبًا بِالْيَمِينِ کا مطلب یہ ہے کہ ان کو زور سے مار مار کر توڑ ڈالا۔

فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ (۹۴)‏

وہ (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے  

یعنی جب میلے سے آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں تو فوراً ان کا ذہن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف گیا، کہ یہ کام اسی نے کیا ہوگا، جیسا کہ سورہ انبیاء میں تفصیل گزر چکی ہے چنانچہ انہیں پکڑ کر عوام کی عدالت میں لے آئے۔ وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ ان پر ان کی بےعقلی اور ان کے معبودوں کی بے اختیاری واضح کریں۔

قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (۹۵)‏

تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو‏

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ (۹۶)‏

حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے

یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسے اہل سنت کا عقیدہ ہے۔

قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ (۹۷)‏

وہ کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس (دھکتی ہوئی) آگ میں ڈال دو۔‏

فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ (۹۸)‏

انہوں نے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہیں کو نیچا کر دیا ۔

یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکر و حیلے کو ناکام بنا دیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔

وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ (۹۹)‏

اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں (١) وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔‏

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ بابل (عراق) میں پیش آیا، بالآخر یہاں سے ہجرت کی اور شام چلے گئے اور وہاں جا کر اولاد کے لئے دعا کی ۔ (فتح القدیر)

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ (۱۰۰)‏

اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔‏

فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ (۱۰۱)‏

تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی ۔

حَلِیْمٍ کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ بچہ بڑا ہو کر بردبار ہوگا۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى ۚ

پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، (١) تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا کہ

میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے (٢)

۱۔ یعنی دوڑ دھوپ کے لائق ہوگیا یا بلوغت کے قریب پہنچ گیا، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بچہ ١٣ سال کا تھا۔

۲۔  پیغمبر کا خواب، وحی اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امر الٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے۔

قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (۱۰۲)‏

بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‏

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (۱۰۳)‏

اس کو (بیٹے کو) پیشانی (١) کے بل گرا دیا۔‏

ہر انسان کے منہ (چہرے) پر دو جبین (دائیں اور بائیں) ہوتی ہیں اور درمیان میں پیشانی اس لئے لِلْجَبِیْنِ کا صحیح ترجمہ (کروٹ پر) ہے یعنی اس طرح کروٹ پر لٹا لیا، جس طرح جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کروٹ پر لٹا یا جاتا ہے، مشہور ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے وصیت کی کہ انہیں اس طرح لٹایا جائے کہ چہرہ سامنے نہ رہے جس سے پیار اور شفقت کا جذبہ امر الٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے۔

وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ (۱۰۴)‏

تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔‏

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (۱۰۵)‏

یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا (١) بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔‏

یعنی دل کے پورے ارادے سے بچے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹا دینے سے ہی تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے کیونکہ اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تجھے کوئی چیز عزیز تر نہیں حتٰی کہ اکلوتا بیٹا بھی۔

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (۱۰۶)‏

درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔

یعنی لاڈلے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم یہ ایک بڑی آزمائش تھی جس پر میں تو سرخرو رہا۔

وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (۱۰۷)‏

اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا

یہ بڑا ذبیحہ ایک مینڈھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے بھیجا ۔ (ابن کثیر)

اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر سنت ابراہیمی کو قیامت تک قرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عید الاضحٰی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (۱۰۸)‏

اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔‏

سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (۱۰۹)‏

ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔‏

كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (۱۱۰)‏

ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‏

إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (۱۱۱)‏

بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔‏

وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ (۱۱۲)‏

اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ واقعے کے بعد اب ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کی اور اس کے نبی ہونے کی خوشخبری دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ اسماعیل علیہ السلام تھے۔ جو اس وقت ابراہیم علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے تھے اسحاق علیہ السلام کی ولادت ان کے بعد ہوئی ہے۔

مفسرین کے درمیان اس کی بابت اختلاف۔ ہے کہ ذبح کون ہے، اسماعیل علیہ السلام یا اسحاق علیہ السلام؟

امام ابن جریر نے حضرت اسحاق علیہ السلام کو اور ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح قرار دیا ہے اور یہی بات صحیح ہے۔امام شوکانی نے اس میں تو قف اختیار کیا ۔

تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر فتح القدیر اور تفسیر ابن کثیر

وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ ۚ

اور ہم نے ابراہیم و اسحاق (علیہما السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں

یعنی ان دونوں کی اولاد کو بہت پھیلایا اور انبیاء و رسل کی زیادہ تعداد انہی کی نسل سے ہوئی۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعقوب علیہ السلام ہوئے، جن کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے ١٢ قبیلے بنے اور ان سے بنی اسرائیل کی قوم بڑھی اور پھیلی اور اکثر انبیاء ان ہی میں سے ہوئے۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے عربوں کی نسل چلی اور ان میں آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم ہوئے۔

وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ (۱۱۳)‏

اور ان دونوں کی اولاد میں بعضے تو نیک بخت اور بعض اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والے ہیں

شرک اور معصیت، ظلم و فساد کا ارتکاب کرکے خاندان ابراہیمی میں برکت کے باوجود نیک و بد کے ذکر سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ خاندان اور آبا کی نسبت، اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہاں تو ایمان اور عمل صالح کی اہمیت ہے، یہود و نصاریٰ اگرچہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ اس طرح مشرکین عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ لیکن ان کے جو اعمال ہیں وہ کھلی گمراہی یا شرک و معصیت پر مبنی ہیں۔ اس لئے یہ اونچی نسبتیں ان کے لئے عمل کا بدل نہیں ہو سکتیں۔

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ (۱۱۴)‏

یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر بڑا احسان کیا ۔

یعنی انہیں نبوت و رسالت اور دیگر انعامات سے نوازا۔

وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (۱۱۵)‏

اور انہیں اور ان کی قوم کو بہت بڑے دکھ درد سے نجات دی  

یعنی فرعون کی غلامی اور اس کے ظلم وستم سے نجات۔

وَنَصَرْنَاهُمْ فَكَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ (۱۱۶)‏

اور ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے۔‏

وَآتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ (۱۱۷)‏

اور ہم نے انہیں (واضح اور) روشن کتاب دی۔‏

وَهَدَيْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (۱۱۸)‏

اور انہیں سیدھے راستے پر قائم رکھا۔‏

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ (۱۱۹)‏

اور ہم نے ان دونوں کے لئے پیچھے آنے والوں میں یہ بات باقی رکھی۔‏

سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ (۱۲۰)‏

کہ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر سلام ہو۔‏

إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (۱۲۱)‏

بیشک ہم نیک لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔‏

إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (۱۲۲)‏

یقیناً دونوں ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔‏

وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (۱۲۳)‏

بیشک الیاس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے ۔

یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اسرائیلی نبی تھے۔ یہ جس علاقے میں بھیجے گئے تھے اس کا نام بعلبک تھا،

بعض کہتے ہیں اس جگہ کا نام سامرہ ہے جو فلسطین کا مغربی وسطی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ بعل نامی بت کے پجاری تھے (بعض کہتے ہیں یہ دیوی کا نام تھا)۔

إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ (۱۲۴)‏

جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟

یعنی اس کے عذاب اور گرفت سے، کہ اسے چھوڑ کر تم غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو۔

أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ (۱۲۵)‏

کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو؟

اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟‏

اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ (۱۲۶)‏

اللہ جو تمہارے اگلے تمام باپ دادوں کا رب ہے

یعنی اس کی عبادت پرستش کرتے ہو، اس کے نام کی نذر نیاز دیتے اور اس کو حاجت روا سمجھتے ہو، جو پتھر کی مورتی ہے اور جو ہرچیز کا خالق اور اگلوں پچھلوں سب کا رب ہے، اس کو تم نے فراموش کر رکھا ہے۔

فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (۱۲۷)‏

لیکن قوم نے انہیں جھٹلایا، پس وہ ضرور (عذاب میں) حاضر رکھے جائیں گے ۔

یعنی توحید و ایمان سے انکار کی پاداش میں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (۱۲۸)‏

سوائے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے۔‏

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (۱۲۹)‏

ہم نے الیاس (علیہ السلام) کا ذکر خیر پچھلوں میں بھی باقی رکھا۔‏

سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ (۱۳۰)‏

کہ الیاس پر سلام ہو ۔

إِلْ يَاسِينَ ، الیاس علیہ السلام کا ہی ایک تلفظ ہے، جیسے طور سینا کو طور سینین بھی کہتے ہیں،

 حضرت الیاس علیہ السلام کو دوسری کتابوں میں ایلیا بھی کہا گیا ہے۔

إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (۱۳۱)‏

ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‏

إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (۱۳۲)‏

بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے۔‏

قرآن نے نبیوں اور رسولوں کا ذکر کر کے‘ ان کے لیے اکثر جگہ یہ الفاظ کئے ہیں کہ وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ جس سے دو مقصد ہیں۔ ایک ان کے اخلاق و کردار کی رفعت کا اظہار یو ایمان کا لازمی جزو ہے۔ تا کہ ان لوگوں کی تردید ہو جائے جو بہت سے پیغمبروں کے بارے میں اخلاقی کمزوریوں کا اثبات کرتے ہیں۔

دوسرا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو بعض انبیا کی شان میں غلو کر کے ان کے اندر الہٰی صفات و اختیارات ثابت کرتے ہیں۔ یعنی وہ پیغمبر ضرور تھے لیکن تھے  بہرحال اللہ کے بندے اور اس کے غلام نہ کہ الٰہ یا اسکے جزو یا اس کے شریک۔

وَإِنَّ لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (۱۳۳)‏

بیشک لوط (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے۔‏

إِذْ نَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ (۱۳۴)‏

ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی۔‏

إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ (۱۳۵)‏

بجز اس بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں رہ گئی

اس سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ہے جو کافرہ تھی، یہ اہل ایمان کے ساتھ اس بستی سے باہر نہیں گئی تھی، کیونکہ اسے اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہونا تھا، چنانچہ وہ بھی ہلاک کردی گئی۔

ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ (۱۳۶)‏

پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کر دیا۔‏

وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِمْ مُصْبِحِينَ (۱۳۷)‏

اور تم تو صبح ہونے پر ان کی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہو۔‏

وَبِاللَّيْلِ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۱۳۸)‏

اور رات کو بھی، کیا پھر بھی نہیں سمجھتے؟  

یہ اہل مکہ سے خطاب ہے جو تجارتی سفر میں ان تباہ شدہ علاقوں سے آتے جاتے، گزرتے تھے ان کو کہا جارہا ہے کہ تم صبح کے وقت بھی اور رات کے وقت بھی ان بستیوں سے گزرتے ہو، جہاں اب مردار بحیرہ ہے، جو دیکھنے میں بھی نہایت کریہ ہے اور سخت متعفن اور بدبودار۔ کیا تم انہیں دیکھ کر یہ بات نہیں سمجھتے کہ رسولوں کے جھٹلانے کی وجہ سے ان کا یہ بد انجام ہوا، تو تمہاری اس روش کا انجام بھی اس سے مختلف کیوں کر ہوگا؟ جب تم بھی وہی کام کر رہے ہو، جو انہوں نے کیا تو پھر اللہ کے عذاب سے کیوں کر محفوظ رہو گے۔

وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (۱۳۹)‏

اور بلاشبہ یونس (علیہ السلام) نبیوں میں سے تھے۔‏

إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (۱۴۰)‏

جب بھاگ کر پہنچے بھری کشتی پر۔‏

فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ (۱۴۱)‏

پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہوگئے۔‏

فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ (۱۴۲)‏

تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت (١) کرنے لگ گئے۔‏

حضرت یونس علیہ السلام عراق کے علاقے نینوی (موجودہ موصل) میں نبی بنا کر بھیجے گئے، یہ آشوریوں کا پایہ تخت تھا، انہوں نے ایک لاکھ بنواسرائیلیوں کو قیدی بنایا ہوا تھا،چنانچہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کو بھیجا، لیکن یہ قوم آپ پر ایمان نہ لائی۔ بالآخر اپنی قوم کو ڈرایا کہ عنقریب تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔

عذاب میں تاخیر ہوئی تو اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنے طور پر وہاں سے نکل گئے اور سمندر پر جا کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ اپنے علاقے سے نکل کر جانے کو ایسے لفظ سے تعبیر کیا جس طرح ایک غلام اپنے آقا سے بھاگ کر چلا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔

کشتی سواروں اور سامان سے بھری ہوئی تھی۔ کشتی سمندر کی موجوں میں گھر گئی اور کھڑی ہوگئی۔ چنانچہ اس کا وزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کو کشتی سے سمندر میں پھینکنے کی تجویز سامنے آئی تاکہ کشتی میں سوار دیگر انسانوں کی جانیں بچ جائیں۔ لیکن قربانی دینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا اس لئے قرعہ اندازی کرنی پڑی، جس میں حضرت یونس علیہ السلام کا نام آیا۔ اور وہ مغلوبین میں سے ہوگئے، یعنی طوحًا و کرھًا اپنے آپ کو بھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندر کی موجوں کے سپرد کرنا پڑا۔

ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ثابت نگل لے اور یوں حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (۱۴۳)‏

پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔‏

لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (۱۴۴)‏

تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے

یعنی توبہ استغفار اور اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے، جیسا کہ انہوں نے کہا: لَاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَنَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (الا نبیاء۔ ٨٧) تو قیامت تک وہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔

فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ (۱۴۵)‏

پس انہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ اس وقت بیمار تھے

جیسے ولادت کے وقت بچہ یا جانور کا چوزہ ہوتا ہے، کمزور اور ناتواں۔

وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ (۱۴۷)‏

اور ان پر سایہ کرنے والا ایک بیل دار درخت (١) ہم نے اُگاہ دیا۔‏

يَقْطِينٍ ہر اس بیل کو کہتے ہیں جو اپنے تنے پر کھڑی نہیں ہوتی، جیسے لوکی، کدو وغیرہ کی بیل

 اس چٹیل میدان میں جہاں کوئی درخت تھا نہ عمارت۔ ایک سایہ دار بیل اگا کر ہم نے ان کی حفاظت فرمائی۔

وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (۱۴۷)‏

اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا۔‏

فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (۱۴۸)‏

پس وہ ایمان لائے (١) اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش و عشرت دی۔‏

ان کے ایمان لانے کی کیفیت کا بیان سورہ یونس۔٩٨ میں گزر چکا ہے۔

فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ (۱۴۹)‏

ان سے دریافت کیجئے! کہ کیا آپ کے رب کی بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟‏

أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ (۱۵۰)‏

یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا ۔

یعنی فرشتوں کو جو یہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں تو کیا جب ہم نے فرشتے پیدا کئے تھے، یہ اس وقت وہاں موجود تھے اور انہوں نے فرشتوں کو عورتوں والی خصوصیات کا مشاہدہ کیا تھا۔

أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ (۱۵۱)‏

آگاہ رہو! کہ یہ لوگ صرف اپنی بہتان پروازی سے کہہ رہے ہیں۔‏

وَلَدَ اللَّهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (۱۵۲)‏

کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ یقیناً یہ محض جھوٹے ہیں۔‏

أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ (۱۵۳)‏

کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ۔

جب کہ یہ خود اپنے لئے بیٹیاں نہیں، بیٹے پسند کرتے ہیں۔

مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (۱۵۴)‏

تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو؟‏

أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (۱۵۵)‏

کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے؟‏

کہ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو ان کا کہیں ذکر ہوتا، جس کو تم بھی پسند کرتے اور بہتر سمجھتے ہو، نہ کہ بیٹیاں، جو تمہاری نظروں میں کمتر اور حقیر ہیں۔

أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ (۱۵۶)‏

یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے۔‏

فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۱۵۷)‏

تو جاؤ اگر سچے ہو اپنی کتاب لے آؤ  

یعنی عقل تو اس عقیدے کی صحت کو تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ کی اولاد ہے، اور وہ بھی مؤنث، چلو کوئی نقلی دلیل ہی دکھا دو، کوئی کتاب جو اللہ نے اتاری ہو، اس میں اللہ کی اولاد کا اعتراف یا حوالہ ہو؟

وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ

اور لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی ہے،

یہ اشارہ ہے مشرکین کے اس عقیدے کی طرف کہ اللہ نے جنات کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کیا، جس سے لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی اللہ کی بیٹیاں، فرشتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان قرابت داری (سسرالی رشتہ) قائم ہوگیا۔

وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (۱۵۸)‏

 اور حالانکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وہ (اس عقیدے کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کئے جائیں گے

حالانکہ یہ بات کیوں کر صحیح ہو سکتی ہے؟

 اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنات کو عذاب میں کیوں ڈالتا؟

 کیا وہ اپنی قرابت داری کا لحاظ نہ کرتا؟

اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ خود جنات بھی جانتے ہیں کہ انہیں عتاب و عذاب الٰہی بھگتنے کے لئے ضرور جہنم میں جانا ہوگا، تو پھر اللہ اور جنوں کے درمیان قرابت داری کس طرح ہوسکتی ہے۔

سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (۱۵۹)‏

جو کچھ یہ (اللہ کے بارے میں) بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ بالکل پاک ہے۔‏

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (۱۶۰)‏

سوائے! اللہ کے مخلص بندوں کے

یعنی اللہ کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کہتے جن سے وہ پاک ہے۔ یہ مشرکین ہی کا شیوہ ہے۔

یا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں جنات اور مشرکین ہی حاضر کئے جائیں گے، اللہ کے مخلص (چنے ہوئے) بندے نہیں۔ ان کے لئے تو اللہ نے جنت تیار کر رکھی ہے۔

فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ (۱۶۱)‏

یقین مانو کہ تم سب اور تمہارے معبودان (باطل)۔‏

مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ (۱۶۳)‏

کسی ایک کو بھی بہکا نہیں سکتے۔‏

إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ (۱۶۳)‏

بجز اس کے جو جہنمی ہی ہے

یعنی تم اور تمہارے معبودان باطلہ کسی کو گمراہ کرنے پر قادر نہیں ہیں، سوائے ان کے جو اللہ کے علم میں پہلے ہی جہنمی ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ کفر و شرک پر مصر ہیں۔

وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ (۱۶۴)‏

(فرشتوں کا قول ہے کہ) ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے

یعنی اللہ کی عبادت کے لئے۔ یہ فرشتوں کا قول ہے۔

وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ (۱۶۵)‏

اور ہم تو (بندگی الٰہی میں) صف بستہ کھڑے ہیں۔‏

وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ (۱۶۶)‏

اور اس کی تسبیح بیان کر رہے ہو ۔‏

مطلب یہ کہ فرشتے بھی اللہ کی مخلوق اور اس کے خاص بندے ہیں جو ہر وقت اللہ کی عبادت میں اور اس کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں، نہ کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں۔

وَإِنْ كَانُوا لَيَقُولُونَ (۱۶۷)‏

کفار تو کہا کرتے تھے۔‏

لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِنَ الْأَوَّلِينَ (۱۶۸)‏

اگر ہمارے سامنے اگلے لوگوں کا ذکر ہوتا۔‏

ذکر سے مراد کوئی کتاب الٰہی یا پیغمبر ہے، یعنی یہ کفار نزول قرآن سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب ہوتی، جس طرح پہلے لوگوں پر تورات وغیرہ نازل ہوئیں یا کوئی ہاوی ہمیں وعظ و نصیحت کرنے والا ہوتا، تو ہم بھی اللہ کے خالص بندے بن جاتے۔

لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (۱۶۹)‏

تو ہم بھی اللہ کے چیدہ بندے بن جاتے

یعنی ان کی آرزو کے مطابق جب رسول اللہ ﷺ ہادی بن کر آ گئے‘ قرآن مجید بھی نازل کر دیا گیا تو ان پر ایمان لانے کی بجائے ان کا انکار کر دیا۔

فَكَفَرُوا بِهِ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۱۷۰)‏

عنقریب جان لیں گے ۔

یہ تنبیہ ہے کہ جھٹلانے کا انجام عنقریب ان کو معلوم ہو جائے گا۔

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ (۱۷۱)‏

اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے۔‏

إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ (۱۷۲)‏

کہ یقیناً وہ ہی مدد کئے جائیں گے۔‏

وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (۱۷۳)‏

اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا ۔

جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

‏كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلۃ۔٢١)

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ (۱۷۴)‏

اب آپ کچھ دنوں تک منہ پھیر لیجئے

یعنی ان کی باتوں اور ایذاؤں پر صبر کیجئے۔

وَأَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ (۱۷۵)‏

اور انہیں دیکھتے رہیئے اور یہ بھی آگے چل کر دیکھ لیں گے

کہ کب ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے؟

أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ (۱۷۶)‏

کیا ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟‏

فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ (۱۷۷)‏

سنو! جب ہمارا عذاب ان کے میدان میں اتر آئے گا اس وقت ان کی جن کو متنبہ کر دیا گیا تھا (١) بڑی بری صبح ہوگی۔‏

مسلمان جب خیبر پر حملہ کرنے گئے، تو یہودی انہیں دیکھ کر گھبرا گئے، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ اکبر کہہ کر فرمایا :

خَربَتْ خیبرُ، اِنَّا اِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ فَوْمِ فَسَاءَ صَبَاحْ الْمُنْذَرِیْنَ۔ (صحیح بخاری)

وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ (۱۷۸)‏

آپ کچھ وقت تک ان کا خیال چھوڑ دیجئے۔‏

وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ (۱۷۹)‏

اور دیکھتے رہیئے یہ بھی ابھی ابھی دیکھ لیں گے ۔

یہ بطور تاکید دوبارہ فرمایا۔ یا پہلے جملے سے مراد دنیا کا وہ عذاب ہے جو اہل مکہ پر بدر و احد اور دیگر جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کے قتل و سلب کی صورت میں آیا۔ اور دوسرے جملے میں اس عذاب کا ذکر ہے جس سے یہ کفار و مشرکین آخرت میں دوچار ہوں گے۔

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (۱۸۰)‏

پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں

اس میں عیوب و نقائص سے اللہ کے پاکیزہ ہونے کا بیان ہے جو مشرکین اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں، مثلًا اس کی اولاد ہے، یا اس کا کوئی شریک ہے۔ یہ کوتاہیاں بندوں کے اندر ہیں اور اولاد یا شریکوں کے ضرورت مند بھی وہی ہیں، اللہ ان سب باتوں سے بہت بلند اور پاک ہے۔ کیونکہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے کہ اسے اولاد کی یا کسی شریک کی ضرورت پیش آئے۔

وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (۱۸۱)‏

پیغمبروں پر سلام ہے ۔‏

کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اہل دنیا کی طرف پہنچایا، جس پر یقینا ًًوہ سلام کے مستحق ہیں۔

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۸۲)‏

اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے

یہ بندوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ نے تم پر احسان کیا ہے، پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اور پیغمبروں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا، اس لئے تم اللہ کا شکر ادا کرو۔

بعض کہتے ہیں کہ کافروں کو ہلاک کرکے اہل ایمان اور پیغمبروں کو بچایا، اس پر شکر الٰہی کرو۔

 حمد کے معنی ہیں بہ قصد تعظیم ثناء جمیل، ذکر خیر اور عظمت شان بیان کرنا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter