Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Sa'd

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ (۱)‏

ص! اس نصیحت والے قرآن کی قسم

جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں، جن سے تمہاری دنیا سنور جائے اور آخرت بھی

 بعض نے ذِي الذِّكْرِ کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیا ہے،

 امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان و تقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی، اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساحر، شاعر یا جھوٹے ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر یہ ذی شان قرآن نازل ہوا۔

بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ (۲)‏

بلکہ کفار غرور و مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں (١)۔‏

یعنی یہ قرآن تو یقینا ًشک سے پاک اور ان کے لئے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت و عناد۔

 عِزَّة کے معنی ہوتے ہیں حق کے مقابلے میں اکڑنا۔

كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ (۳)‏

ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا (١) انہوں نے ہر چند چیخ پکار کی لیکن وہ وقت چھٹکارے کا نہ تھا۔‏

جو ان سے زیادہ مضبوط اور قوت والے تھے لیکن کفر و جھٹلانے کی وجہ سے برے انجام سے دوچار ہوئے۔

یعنی انہوں نے عذاب دیکھ کر مدد کے لیے پکارا اور توبہ پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن وہ وقت توبہ کا تھا نہ فرار کا۔ اس لیے نہ ان کا ایمان نافع ہوا اور نہ وہ بھاگ کر عذاب سے بچ سکے

وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ (۴)‏

اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آگیا (١) اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے۔‏

یعنی انہی کی طرح کا ایک انسان رسول کس طرح بن گیا۔

أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (۵)‏

کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے

یعنی ایک ہی اللہ ساری کائنات کا نظام چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی طرح عبادت اور نذر و نیاز کا مستحق بھی صرف وہی ایک ہے؟

 یہ ان کے لئے تعجب انگیز بات تھی۔

وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ (۶)‏

ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو (١) یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے (٢)‏

۱۔ یعنی اپنے دین پر جمے رہو اور بتوں کی پوجا کرتے رہو، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات پر کان مت دھرو!

۲۔  یعنی یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے چھڑا کر دراصل اپنے پیچھے لگانا اور اپنی قیادت منوانا چاہتا ہے۔

مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ (۷)‏

ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی (١) کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے (٢)‏

۱۔ پچھلے دین سے مراد تو ان کا دین قریش ہے، یا پھر دین نصاریٰ یعنی یہ جس توحید کی دعوت دے رہا ہے، اس کی بابت تو ہم نے کسی بھی دین میں نہیں سنا۔

۲۔  یعنی یہ توحید صرف اس کی اپنی من گھڑت ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے۔

أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا ۚ

کیا ہم سب میں سے اسی پر کلام الٰہی کیا گیا ہے؟

یعنی مکے میں بڑے بڑے چودھری اور رئیس ہیں، اگر اللہ کسی کو نبی بنانا ہی چاہتا تو ان میں سے کسی کو بناتا۔ ان سب کو چھوڑ کر وحی رسالت کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا انتخاب بھی عجیب ہے؟

یہ گویا انہوں نے اللہ کے انتخاب میں کیڑے نکالے۔ سچ ہے خوئے بد را بہانہ بسیار۔

 دوسرے مقام پر بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ زخرف۔٣١،٣٢۔

بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْ ذِكْرِي ۖ بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ (۸)‏

دراصل یہ لوگ میری وحی کی طرف سے شک میں ہیں (۱) بلکہ (صحیح یہ ہے کہ) انہوں نے اب تک میرا عذاب چکھا ہی نہیں۔‏(٢)

۱۔  یعنی ان کا انکار اس لئے نہیں ہے کہ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا علم نہیں ہے یا آپ کی سلامت عقل سے انہیں انکار ہے بلکہ یہ اس وحی کے بارے میں ہی شک میں مبتلا ہیں جو آپ پر نازل ہوئی، جس میں سب سے نمایاں توحید کی دعوت ہے۔

۲۔ یعنی عذاب کا مزہ چکھ لیتے تو اتنی واضح چیز کی تکذیب نہ کرتے۔ اور جب یہ اس تکذیب کا واقعی مزہ چکھیں گے تو وہ وقت ایسا ہو گا کہ پھر نہ تصدیق کام آئے گی‘ نہ ایمان ہی فائدہ دے گا۔

أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ (۹)‏

یا کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں

کہ جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں، انہی خزانوں میں نبوت بھی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رب کے خزانوں کا مالک وہی وہاب ہے جو بہت دینے والا ہے، تو پھر انہیں نبوت محمدی سے انکار کیوں ہے؟ جسے اس نوازنے والے رب نے اپنی رحمت خاص سے نوازا ہے۔

أَمْ لَهُمْ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ (۱۰)‏

یا کیا آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہرچیز کی بادشاہت ان ہی کی ہے، تو پھر رسیاں تان کر چڑھ جائیں

یعنی آسمان پر چڑھ کر اس وحی کا سلسلہ منقطع کر دیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی ہے۔

اسباب‘ سبب کی جمع ہے۔ اس کے لغوی معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے سے مطلوب تک پہنچا جائے‘ چاہے وہ کوئی سی بھی چیز ہو۔ اس لیے اس کے مختلف معنی کیے گئے  ہیں۔

رسیوں کے علاوہ ایک ترجمہ دروازے کا بھی کیا گیا ہے‘ جن سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ یعنی سیڑھیوں کے ذریعے سے آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائیں اورر وحی بند کر دیں۔ فتح القدیر

جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزَابِ (۱۱)‏

یہ بھی (بڑے بڑے) لشکروں میں سے شکست پایا ہوا (چھوٹا سا) لشکر ہے

جُنْدٌ مَا،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور کفار کی شکست کا وعدہ ہے۔ یعنی کفار کا یہ لشکر جو باطل لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، بڑا ہے، یا حقیر، اس کی قطعاً پروا نہ کریں نہ اس سے خوف کھائیں، شکست ان کا مقدر ہے،

 ھُنَالِکَ مکان بعید کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر اور یوم فتح مکہ کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں کافر عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ (۱۲)‏

ان سے پہلے بھی قوم نوح اور عاد اور میخوں والے فرعون نے جھٹلایا تھا۔‏

فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا کہ وہ ظالم جب کسی پر غضبناک ہوتا تو اس کے ہاتھوں پیروں اور سر میں میخیں گاڑ دیتا تھا۔

وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ ۚ أُولَئِكَ الْأَحْزَابُ (۱۳)‏

اور ثمود نے اور قوم لوط نے اور أیکہ کے رہنے والوں نے بھی یہی (بڑے)  لشکرتھے

وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ کے لئے دیکھئے سورہ شعراء١٧٦ کا حاشیہ

إِنْ كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (۱۴)‏

ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے رسولوں کو نہیں جھٹلایا پس میری سزا ان پر ثابت ہوگئی۔‏

وَمَا يَنْظُرُ هَؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ (۱۵)‏

انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار (١) ہے جس میں کوئی توقف (اور ڈھیل) نہیں ہے (٢)‏

۱۔ یعنی صور پھونکنے کا جس سے قیامت برپا ہو جائے گی۔

۲۔  فَوَاقٍ یعنی صور پھونکنے کیے بعد اتنا وقفہ بھی نہیں ملے گا‘ بلکہ صور پھونکنے کی دیر ہوگی کہ قیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا۔

وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ (۱۶)‏

اور انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب! ہماری سر نوشت ( نامہ اعمال )تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی دے دے

یعنی ہمارے نامہ اعمال کے مطابق ہمارے حصے میں اچھی یا بری سزا جو بھی ہے، یوم حساب آنے سے پہلے ہی دنیا میں دے دے۔

یہ و قوع قیامت کو ناممکن سمجھتے ہوئے انہوں نے تمسخر کے طور پر کہا۔

اصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ (۱۷)‏

آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا (١) یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔‏

ذَا الْأَيْدِ قوت و شدت۔ اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے۔

 اس قوت سے مراد دینی قوت و صلاحیت ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے :

 اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز، داؤد علیہ السلام کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے، داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے، پھر اٹھ کر رات کا تہائی حصہ قیام کرتے اور پھر اس کے چھٹے حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے اور جنگ میں فرار نہ ہوتے۔  صحیح بخاری

إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ (۱۸)‏

ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں۔‏

وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً ۖ كُلٌّ لَهُ أَوَّابٌ (۱۹)‏

اور پرندوں کو بھی جمع ہو کر سب کے سب اس کے زیر فرمان رہتے

یعنی اشراق کے وقت اور آخر دن کو پہاڑ بھی داؤد علیہ السلام کے ساتھ مصروف تسبیح ہوتے اور اڑتے جانور بھی زبور کی قرأت سن کر ہوا ہی میں جمع ہو جاتے اور ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے۔

وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ (۲۰)‏

اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا (١) اور اسے حکومت دی تھی (٢) اور بات کا فیصلہ کرنا (٣)‏

۱۔ ہر طرح کی مادی اور روحانی اسباب کے ذریعے سے۔

۲۔  یعنی، نبوت، اصبات رائے، قول سداد اور نیک کام۔

 ۳۔  یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت، بصیرت اور استدلال و بیان کی قوت۔

وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ (۲۱)‏

اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے ۔‏

مِحْرَاب سے مراد کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آکر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آگئے۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَى دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ

جب یہ (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، پس یہ ان سے ڈر گئے

ڈرنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک تو وہ دروازے کی بجائے عقب سے دیوار چڑھ کر اندر آئے۔ دوسرے‘ انہوں نے اتنا بڑا اقدام کرتے ہوئے بادشاہ وقت سے کوئی خوف محسوس نہیں کیا۔ ظاہری اسباب کے مطابق خوف والی چیز سے خوف کھانا‘ انسان کا ایک طبیعی تقاضا ہے۔ یہ منصب و کمال نبوت کے خلاف ہے نہ توحید کے منافی۔ توحید کے منافی غیر اللہ کا وہ خوف ہے  جو ماورائے اسباب ہو۔

قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَى بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ الصِّرَاطِ (۲۲)‏

انہوں نے کہا خوف نہ کیجئے! ہم دو فریق مقدمہ ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے،

 پس آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور نا انصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتا دیجئے ۔‏

آنے والوں نے تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے، ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ حق کے ساتھ فیصلہ بھی فرمائیں اور سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی۔

إِنَّ هَذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ

 (سنیئے) یہ میرا بھائی ہے (١) اس کے پاس نناوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے

بھائی سے مراد دینی بھائی یا شریک کاروبار یا دوست ہے۔ سب پر بھائی کا اطلاق صحیح ہے۔

فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ (۲۳)‏

لیکن یہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اپنی یہ ایک دنبی بھی مجھ ہی کو دے دے (۱) اور مجھ پر بات میں بڑی سختی برتتا ہے ۔‏(٢)

 ۱۔  یعنی ایک دنبی بھی میری دنبیوں میں شامل کر دے تاکہ میں ہی اس کا بھی ضامن اور کفیل ہو جاؤں۔

 ۲۔  دوسرا ترجمہ ہے ' اور یہ گفتگو میں بھی مجھ پر غالب آگیا ' یعنی جس طرح اس کے پاس مال زیادہ ہے، زبان کا بھی مجھ سے زیادہ تیز ہے اور اس تیزی و طراری کی وجہ سے لوگوں کو قائل کر لیتا ہے۔

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَى نِعَاجِهِ ۖ

آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے

وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ

 اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ،

یعنی انسانوں میں یہ کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جائے۔

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ ۗ

سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں

البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے پابند ہوتے ہیں اس لئے کسی پر زیادتی کرنا اور دوسروں کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔

وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ (۲۴)‏  ۩

اور (حضرت) داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے،

 پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا۔‏

وَخَرَّ رَاكِعًا  کا مطلب یہاں سجدے میں گر پڑنا ہے۔

فَغَفَرْنَا لَهُ ذَلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآبٍ (۲۵)‏

پس ہم نے بھی ان کا وہ (قصور) معاف کر دیا (١)یقیناً وہ ہمارے نزدیک بڑے مرتبہ والے اور بہت اچھے ٹھکانے والے ہیں۔‏

حضرت داؤد علیہ السلام کا یہ کام کیا تھا جس پر انہیں کوتاہی کا اور توبہ و ندامت کے اظہار کا احساس ہوا‘ اور اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ قرآن کریم میں اس اجمال کی تفصیل نہیں ہے اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں ہے۔

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ

اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو

 ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی،

إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ (۲۶)‏

یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اس لئے انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔‏

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ

اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا

بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسے بہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت و اطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔

ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ (۲۷)‏

یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔‏

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ

کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے،

أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (۲۸)‏

 یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟‏

كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (۲۹)‏

یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے

 کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‏

وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ (۳۰)‏

اور ہم نے داؤد کو سلیمان (نامی فرزند) عطا فرمایا، جو بڑا اچھا بندہ تھا اور بیحد رجوع کرنے والا تھا۔‏

إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ (۳۱)‏

جب ان کے سامنے شام کے وقت تیز رو خاصے گھوڑے پیش کئے گئے

یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے بغرض جہاد جو گھوڑے پالے ہوئے تھے، وہ عمدہ نسل تیز رو گھوڑے حضرت سلیمان علیہ السلام پر معائنے کے لئے پیش کئے گئے،  

عَشِي ظہر یا عصر سے لے کر آخر دن تک کے وقت کو کہتے ہیں، جسے شام سے تعبیر کرتے ہیں۔

فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ (۳۲)‏

تو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی، یہاں تک کہ (آفتاب) چھپ گیا۔‏

رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ (۳۳)‏

ان (گھوڑوں) کو دوبارہ میرے سامنے لاؤ! پھر تو پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا

گھوڑوں کے معائنہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت کرتے تھے جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا گم ہوگیا کہ سورج کا پردہ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفہ رہ گیا۔ چنانچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نے سارے گھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے۔

 امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے

وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ (۳۴)‏

اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک جسم ڈال دیا پھر (١) اس نے رجوع کیا۔‏

یہ آزمائش کیا تھی، کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا؟

اور اس کا مطلب کیا ہے؟

 اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعہ کو اس پر چسپاں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد ٧٠ یا ٩٠ تھی) ہم بستری کرونگا تاکہ ان سے شاہ سوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اور اس پر انشاء اللہ نہیں کہا تھا (یعنی صرف اپنی ہی تدبیر پر سارا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر سلیمان علیہ السلام انشاء اللہ کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے۔ صحیح بخاری

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (۳۵)‏

کہا اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے لائق نہ ہو (١) تو بڑا ہی دینے والا ہے۔‏

یعنی شاہ سواروں کی فوج پیدا ہونے کی آرزو، تیری حکمت و مشیت کے تحت پوری نہیں ہوئی، لیکن اگر مجھے ایسی با اختیار بادشاہت عطا کر دے کہ ویسی بادشاہت میرے سوا یا میرے بعد کسی کے پاس نہ ہو، تو پھر اولاد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

 یہ دعا بھی اللہ کے دین کے غلبے کے لئے ہی تھی۔

فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ (۳۶)‏

پس ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کر دیا وہ آپ کے حکم سے جہاں آپ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی۔‏

ہم نے سلیمان علیہ السلام کی دعا قبول کرلی اور ایسی بادشاہی عطا کی جس میں ہوا بھی ان کے ماتحت تھی، جہاں ہوا کو نرمی سے چلنے والا بتایا ہے، جب کہ دوسرے مقام پر اسے تند و تیز کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا پیدائشی قوت کے لحاظ سے تند ہے۔ لیکن سلیمان علیہ السلام کے لئے اسے نرم کر دیا گیا یا حسب ضرورت وہ کبھی تند ہوتی کبھی نرم، جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے۔  فتح القدیر

وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ (۳۷)‏

اور (طاقتور) جنات کو بھی (ان کے ماتحت کر دیا) ہر عمارت بنانے والے کو اور غوط خور کو۔‏

وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (۳۸)‏

اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے

جنات میں سے جو سرکش یا کافر ہوتے، انہیں بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا، تاکہ وہ اپنے کفر یا سرکشی کی وجہ سے سرتابی نہ کرسکیں۔

هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (۳۹)‏

یہ ہے ہمارا عطیہ اب تو احسان کر یا روک رکھ، کچھ حساب نہیں ۔

یعنی تیری دعا کے مطابق ہم نے تجھے عظیم بادشاہی سے نواز دیا، اب انسانوں میں سے جس کو چاہے دے، جسے چاہے نہ دے، تجھ سے ہم حساب بھی نہیں لیں گے۔

وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآبٍ (۴۰)‏

ان کے لئے ہمارے پاس بڑا تقرب ہے اور بہت اچھا ٹھکانا ہے

یعنی دنیاوی جاہ و مرتبت عطا کرنے کے باوجود آخرت میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کو قرب خاص اور مقام خاص حاصل ہوگا۔

وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ (۴۱)‏

اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کر، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے

حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اہل و مال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتٰی کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح شام ان کی خدمت کرتی اور ان کو کہیں کام کاج کرکے بقدر کفالت رزق کا انتظام بھی کرتی۔

اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئی ہے درآں حالیکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے، کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جس پر یہ آزمائش آئی یا پھر بطور ادب کے ہے کہ خیر کا اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی یا شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ (۴۲)‏

اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے

اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور ان سے کہا کہ زمین پر پاؤں مارو، جس سے ایک چشمہ جاری ہوگیا۔ اس کے پانی پینے سے اندرونی بیماریاں اور غسل کرنے سے ظاہری بیماریاں دور ہوگئیں

بعض کہتے ہیں کہ یہ دو چشمے تھے، ایک سے غسل فرمایا اور دوسرے سے پانی پیا۔

لیکن قرآن کے الفاظ سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے، یعنی ایک ہی چشمہ تھا۔

وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (۴۳)‏

اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا بلکہ اتنا ہی اور بھی اس کے ساتھ اپنی (خاص) رحمت سے، (١) اور عقلمندوں کی نصیحت کے لئے۔ (٢)‏

۱۔ بعض کہتے ہیں کہ پہلا کنبہ جو بطور آزمائش ہلاک کر دیا گیا تھا، اسے زندہ کر دیا گیا اور اس کی مثل اور مزید کنبہ عطا کر دیا گیا۔

 لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہے، زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے پہلے سے زیادہ مال و اولاد سے انہیں نواز دیا جو پہلے سے دگنا تھا۔

۲۔  یعنی ایوب علیہ السلام کو سب کچھ دوبارہ عطا کیا، تو اپنی رحمت خاص کے اظہار کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اہل دانش اس سے نصیحت حاصل کریں اور وہ بھی ابتلاء و شدائد پر اسی طرح صبر کریں جس طرح ایوب علیہ السلام نے کیا۔

وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ

اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو) لے کر مار دے اور قسم کا خلاف نہ کر

بیماری کے ایام میں خدمت گزار بیوی کسی بات سے ناراض ہو کر حضرت ایوب علیہ السلام نے اسے سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی، صحت یاب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا، سو تنکوں والی جھاڑو لے کر ایک مرتبہ اسے مار دے، تیری قسم پوری ہو جائیگی۔

إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ (۴۴)‏

سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا، وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔‏

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ (۴۵)‏

ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا بھی لوگوں سے ذکر کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے۔‏

یعنی عبادت الٰہی اور نصرت دین میں بڑے قوی اور دینی و علمی نصیرت میں ممتاز تھے

بعض کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام و احسان ہوا یا یہ لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔

إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ (۴۶)‏

ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا۔‏

یعنی ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے چن لیا تھا، چنانچہ آخرت ہر وقت ان کے سامنے رہتی تھی (آخرت کا ہر وقت استحضار، یہ بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت اور زاہد و تقویٰ کی بنیاد) یا وہ لوگوں کو آخرت اور اللہ کی طرف بلانے میں کوشاں رہتے تھے۔

وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ (۴۷)‏

یہ سب ہمارے نزدیک برگزیدہ اور بہترین لوگ تھے۔‏

وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِنَ الْأَخْيَارِ (۴۸)‏

اسماعیل، یسع اور ذوالکفل (علیہم السلام) کا بھی ذکر کر دیجئے، یہ سب بہترین لوگ تھے۔‏

کہتے ہیں یسع علیہ السلام ، حضرت الیاس علیہ السلام کے جانشین تھے، ال تعریف کے لئے ہے اور عجمی نام ہے

 ذوالکفل کے لئے دیکھئے سورہ انبیاء آیت ٨٥ کا حاشیہ۔

هَذَا ذِكْرٌ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ (۴۹)‏

یہ نصیحت ہے اور یقین مانو کہ پرہیزگاروں کی بڑی اچھی جگہ ہے۔‏

جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ (۵۰)‏

(یعنی ہمیشگی والی) جنتیں جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔‏

مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ (۵۱)‏

جن میں با فراغت تکیے لگائے بیٹھے ہوئے طرح طرح کے میوے اور قسم قسم کی شرابوں کی فرمائشیں کر رہے ہیں۔‏

وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ (۵۲)‏

اور ان کے پاس نیچی نظروں والی ہم عمر حوریں ہوں گی.

یعنی جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں سے حد سے بڑھنے والی نہیں ہونگی۔

أَتْرَابٌ تِرْب کی جمع ہے، ہم عمر لا زوال حسن و جمال کی حامل۔ فتح القدیر

هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ (۵۳)‏

یہ ہے جس کا وعدہ تم سے حساب کے دن کے لئے کیا جاتا تھا۔‏

إِنَّ هَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادٍ (۵۴)‏

بیشک روزیاں (خاص) ہمارا عطیہ ہیں جن کا کبھی خاتمہ ہی نہیں

رزق، بمعنی عطیہ ہے اور ھٰذَا سے ہر قسم کی مذکور نعمتیں اور وہ اکرام و اعزاز مراد ہے جن سے اہل جنت بہرہ یاب ہوں گے۔

 نَفَاد کے معنی خاتمے کے ہیں یہ نعمتیں بھی غیر فانی ہوں گی اور اعزاز و اکرام بھی دائمی۔

هَذَا ۚ وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ لَشَرَّ مَآبٍ (۵۵)‏

یہ تو ہوئی جزا، (١) (یاد رکھو کہ) سرکشوں کے لئے (٢) بڑی بری جگہ ہے۔‏

۱۔ یعنی مذکورہ اہل خیر کا معاملہ ہوا۔ اس کے بعد اہل شر کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔

۲۔  طَاغِیْنَ جنہوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور رسولوں کو جھٹلایا

جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ (۵۶)‏

دوزخ ہے جس میں وہ جائیں گے (آہ) کیا ہی برا بچھونا ہے۔‏

یَصْلُوْنَ کے معنی ہیں یَدْخُلُونَ داخل ہونگے۔

هَذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ (۵۷)‏

یہ ہے، پس اسے چکھیں، گرم پانی اور پیپ

یہ ہے پینے گرم پانی اور پیپ، اسے چکھو، گرم کھولتا ہو پانی، جو ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا، جہنمیوں کی کھالوں سے جو پیپ اور گندا لہو نکلے گا یا نہایت ٹھنڈا پانی، جس کا پینا نہایت مشکل ہوگا۔

وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ (۵۸)‏

اس کے علاوہ اور طرح طرح کے عذاب۔‏

هَذَا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ ۖ لَا مَرْحَبًا بِهِمْ ۚ

یہ ایک قوم ہے جو تمہارے ساتھ (آگ میں) جانی والی ہے، (١) کوئی خوش آمدید ان کے لئے نہیں ہے (٢)

۱۔ جہنم کے دروازوں پر کھڑے فرشتےأئمہء کفر اور پیشوایان ضلالت سے کہیں گے، جب پیروکار قسم کے کافر جہنم میں جائیں گے

یا أئمہ کفر و ضلالت آپس میں یہ بات، پیروکاروں کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے۔

۲۔  یہ لیڈر، جہنم میں داخل ہونے والے کافروں کے لئے، فرشتوں کے جواب میں یا آپس میں کہیں گے

 رَحْبَۃ کے معنی وسعت و فراخی کے ہیں۔

إِنَّهُمْ صَالُو النَّارِ (۵۹)‏

یہی تو جہنم میں جانے والے ہیں

یہ ان کا خیر مقدم نہ کرنے کی علت ہے۔

 یعنی انکے اور ہمارے مابین کوئی وجہ امتیاز نہیں ہے‘ یہ بھی ہماری طرح جہنم میں داخل ہو رہے ہیں اور جس طرح ہم عذاب کے مستحق ٹھہرے ہیں‘ یہ بھی عذاب جہنم کے مستحق قرار پائے ہیں۔

قَالُوا بَلْ أَنْتُمْ لَا مَرْحَبًا بِكُمْ ۖ أَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ۖ

وہ کہیں گے بلکہ تم ہی ہو جن کے لئے کوئی خوش آمدید نہیں ہے تم ہی نے تو اسے پہلے ہی سے ہمارے سامنے لا رکھا تھا

یعنی تم ہی کفر و ضلالت کے راستے ہمارے سامنے مزین کرکے پیش کرتے تھے، یوں گویا اس عذاب جہنم کے پیش کار تم ہی ہو۔ یہ پیروکار، اپنے پیروی کرنے والوں سے کہیں گے۔

فَبِئْسَ الْقَرَارُ (۶۰)‏

پس رہنے کی بڑی بری جگہ ہے۔‏

قَالُوا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هَذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ (۶۱)‏

وہ کہیں گے اے ہمارے رب! جس نے (کفر کی رسم) ہمارے لئے پہلے سے نکالی ہو (١) اس کے حق میں جہنم کی دگنی سزا کر دے (٢)‏

۱۔ یعنی جنہوں نے ہمیں کفر کی دعوت دی اور اسے حق و صواب باور کرایا۔

یا جنہوں نے ہمیں کفر کی طرف بلا کر ہمارے لئے یہ عذاب آگے بھیجا۔

۲۔  یہ وہی بات ہے جسے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلًا سورہ الاعراف۔ ٣٨ سورہ الاحزاب۔٦٨

وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ (۶۲)‏

اور جہنمی کہیں گے کیا یہ بات ہے کہ وہ لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے ۔‏

اَشْرَار سے مراد فقراء مؤمنین ہیں، جیسے عمار، جناب، بلال و سلیمان وغیرہم رضی اللہ عنہم، انہیں رؤسائے مکہ ازراہ خبث برے لوگ کہتے تھے اور اب بھی اہل باطل حق پر چلنے والوں کو بنیاد پرست، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں۔

أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ (۶۳)‏

کیا ہم نے ان کا مذاق بنا رکھا تھا (١) یا ہماری نگاہیں ان سے ہٹ گئی ہیں (٢)‏

۱۔ یعنی دنیا میں، جہاں ہم غلطی پر تھے؟

۲۔  یا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی یہیں کہیں ہیں، ہماری نظریں انہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔

إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ (۶۴)‏

یقین جانو کہ دوزخیوں کا یہ جھگڑا ضرور ہی ہوگا  

یعنی آپس میں ان کی تکرار اور ایک دوسرے کو مورد طعن بنانا، ایک ایسی حقیقت ہے جس میں تکلف نہیں ہوگا۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (۶۵)‏

کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں (١) اور بجز اللہ واحد غالب کے کوئی لائق عبادت نہیں۔‏

یعنی جو تم گمان کرتے ہو‘ میں وہ نہیں ہوں بلکہ تمہیں اللہ کے عذاب اور اس کے عتاب سے ڈرانے والا ہوں۔

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (۶۶)‏

جو پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وہ زبردست اور بڑا بخشنے والا ہے۔‏

قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ (۶۷)‏

آپ کہہ دیجئے کہ یہ بہت بڑی خبر ہے

یعنی میں تمہیں جس عذاب اخروی سے ڈرا رہا اور توحید کی دعوت دے رہا ہوں یہ بڑی خبر ہے، جس سے اعراض و غفلت نہ برتو، بلکہ اس پر توجہ دینے اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ (۶۸)‏

جس سے تم بےپروا ہو رہے ہو۔‏

مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ (۶۹)‏

مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جبکہ وہ تکرار کر رہے تھے

ملاء اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں، یعنی وہ کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟

 میں نہیں جانتا۔ ممکن ہے، اس اختصام (بحث و تکرار) سے مراد وہ گفتگو ہو جو تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت ہوئی۔ جیسا کہ آگے اس کا ذکر آرہا ہے۔

إِنْ يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (۷۰)‏

میری طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں صاف صاف آگاہ کر دینے والا ہوں ۔

یعنی میری ذمہ داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض و پیغام تمہیں بتادوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ (۷۱)‏

جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا (١) میں مٹی سے انسان کو پیدا (٢) کرنے والا ہوں۔‏

۱۔ یہ قصہ اس سے قبل سورۃ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں بیان ہو چکا ہے اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔

۲۔  یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔

 انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔

یا اس لئے کہ وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (۷۲)‏

سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں (١) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، (٢) تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا (٣)‏

۱۔ یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کے تمام اجزا درست اور برابر کر لوں۔

۲۔  یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کے پھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہو جائے گا۔

 انسان کے شرف و عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔

۳۔  یہ سجدہ تحیہ یا سجدہ تعظیم ہے، سجدہ عبادت نہیں۔

یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔

حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ مشکوٰۃ، کتاب النکاح

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (۷۳)‏

چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا

یہ انسان کا دوسرا شرف ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا۔ یعنی فرشتے جیسی مقدس مخلوق نے تعظیماً سجدہ کیا۔

إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۷۴)‏

مگر ابلیس نے (نہ کیا)، اس نے تکبر کیا (١) اور وہ تھا کافروں میں سے (٢)‏

۱۔ اگر ابلیس کو صفات ملائکہ سے متصف مانا جائے تو یہ استثنا متصل ہوگا یعنی ابلیس اس حکم سجدہ میں داخل ہوگا بصورت دیگر یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ اس حکم میں داخل نہیں تھا لیکن آسمان پر رہنے کی وجہ سے اسے بھی حکم دیا گیا۔ مگر اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر دیا۔

 ۲۔  یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت اور اس کی اطاعت سے استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔ یا اللہ کے علم میں وہ کافر تھا۔

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ

اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا

یہ بھی انسان کے شرف و عظمت کے اظہار کے لئے فرمایا، ورنہ ہرچیز کا خالق اللہ ہی ہے۔

أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ (۷۵)‏

کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔‏

قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (۷۶)‏

اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا ہے

یعنی شیطان نے یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر (ہم جنس یا قریب قریب ایک ہی درجے میں) ہیں۔ اس میں سے کسی کو دوسرے پر شرف کسی عارض(خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف و عظمت حاصل ہے۔

 علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کر دینا، جب کہ مٹی اس کے برعکس انواع و اقسام کی پیداوار کا مأخذ ہے۔

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ (۷۷)‏

ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا۔‏

وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (۷۸)‏

اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت و پھٹکار ہے‏

قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (۷۹)‏

کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے۔‏

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (۸۰)‏

(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے۔‏

إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ (۸۱)‏

متعین وقت کے دن تک۔‏

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (۸۲)‏

کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دونگا۔‏

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (۸۳)‏

بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں۔‏

قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ (۸۴)‏

فرمایا سچ تو یہ ہے، اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں۔‏

لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ (۸۵)‏

کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں میں (بھی) جہنم کو بھر دونگا۔‏

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (۸۶)‏

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا (١) اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔‏(٢)

۱۔ یعنی اس دعوت و تبلیغ سے میرا مقصد صرف امر الٰہی ہے، دنیا کمانا نہیں۔

۲۔  یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کردوں جو اس نے نہ کہی ہو یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں جس کا حکم اللہ نے مجھے نہ دیا ہو بلکہ کوئی کمی بیشی کئے بغیر میں اللہ کے احکام تم تک پہنچا رہا ہوں۔

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (۸۷)‏

یہ تمام جہان والوں کے لئے سرا سر نصیحت (و عبرت) ہے ۔

یعنی یہ قرآن، وحی یا وہ دعوت، جو میں پیش کر رہا ہوں، دنیا بھر کے انسانوں اور جنات کے لئے نصیحت ہے۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے کا قصد کرے۔

وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ (۸۸)‏

یقیناً تم اس کی حقیقت کو کچھ ہی وقت کے بعد (صحیح طور پر) جان لو گے ۔

یعنی قرآن نے جن چیزوں کو بیان کیا ہے، جو وعدے وعید ذکر کئے ہیں، ان کی حقیقت و صداقت بہت جلد تمہارے سامنے آجائے گی۔ چنانچہ اس کی صداقت یوم بدر کو واضح ہوئی، فتح مکہ کے دن ہوئی یا پھر موت کے وقت تو سب پر ہی واضح ہو جاتی ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter