Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al RomeTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
الم الم (۱) غُلِبَتِ الرُّومُ رومی مغلوب ہوگئے ہیں (۲) فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ نزدیک کی زمین پر اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ (۳) فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ چند سال میں ہی، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ اس روز مسلمان شادمان ہوں گے۔ (۴) بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ اللہ کی مدد سے عہد رسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک فارس (ایران) کی، دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی یعنی اہل کتاب تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ دونوں غیر اللہ کے پجاری تھے۔ جب کہ مسلمان کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں، اس لئے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر یقین رکھتے تھے، ان کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی، جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا، اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں پیش گوئی کی گئی کہ رومی پھر غالب آجائیں گے اور غالب، مغلوب اور مغلوب غالب ہوجائیں گے۔ بظاہر اسباب یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق نے ابوجہل سے یہ شرط باندھی کہ رومی پانچ سال کے اندر دوبارہ غالب آجائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا بِضْع کا لفظ تین سے دس تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے تم نے ٥ سال کی مدت کم رکھی ہے، اس میں اضافہ کر لو، چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ رومی ٩ سال کی مدت کے اندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آگئے، جس سے یقینا ًمسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی، بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی، جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ نزدیک کی زمین سے مراد، عرب کی زمین کے قریب کے علاقے، یعنی شام و فلسطین وغیرہ، جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔ (۵) وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۶) یعنی اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم آپ کو جو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب رومی، فارس پر دوبارہ غالب آجائیں گے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو مدت مقررہ کے اندر یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔ يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ وہ تو (صرف) دنیاوی زندگی کے ظاہر کو (ہی) جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل ہی بےخبر ہیں ۔ (۷) یعنی اکثر لوگوں کو دنیاوی معاملات کا خوب علم ہے۔ چنانچہ وہ ان میں تو اپنی چابک دستی اور مہارت فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا فائدہ عارضی اور چند روزہ ہے لیکن آخرت کے معاملات سے یہ غافل ہیں جن کا نفع مستقل اور پائیدار ہے۔ یعنی دنیا کے امور کو خوب پہچانتے اور دین سے بےخبر ہیں۔ أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ۗ کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا؟ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کو بہترین قرینے سے مقرر وقت تک کے لئے (ہی) پیدا کیا ہے، یا ایک مقصد اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے بےمقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں نیست سے ہست کیا اور پانی کے ایک حقیر قطرے سے ان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان و زمین کا ایک خاص مقصد کے لیے وسیع وعریض سلسلہ قائم کیا نیز ان سب کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقیناً اللہ کے وجود اس کی ربوبیت و الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انہیں ادراک واحساس ہو جاتا اور اس پر ایمان لے آتے۔ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ ہاں اکثر لوگ یقیناً اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ (۸) اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور و فکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔ أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا (١) کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا (برا) ہوا (٢) ۱۔ یہ آثار کھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور و فکر نہ کرنے پر ملامت کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ۲۔ یعنی ان کافروں کا جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا۔ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وہ ان سے بہت زیادہ توانا اور طاقتور تھے (١) اور انہوں نے (بھی) زمین بوئی جوتی تھی(٢) اور ان سے زیادہ آباد کی تھی (۳) ۱۔ یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔ ۲۔ یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔ ۳۔ اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے۔ پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت و کاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ لہذا تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت و خوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان (١) پر ظلم کرتا لیکن (دراصل) وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔ (۹) ۱۔ کہ انہیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ۲۔ یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کر کے۔ ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُونَ پھر آخر برا کرنے والوں کا بہت ہی برا انجام ہوا، اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے۔ (۱۰) السُّوأَى بروزن فعلی سوء سے اسوأ کی تانیث ہے جیسے حسنی احسن کی تانیث ہے۔ یعنی ان کا جو انجام ہوا، بدترین انجام تھا۔ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا (١) پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۱) ۱۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ۲۔ یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو گناہگار حیرت زدہ رہ جائیں گے ۔ (۱۲) يُبْلِسُ کے معنی ہیں اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کرسکنا اور حیران و ساکت کھڑے رہنا اسی کو نا امیدی کے مفہوم سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مبلس وہ ہوگا جو نا امید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے کوئی دلیل نہ سوجھ رہی ہو قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہوگا، یعنی کہ عذاب کے بعد وہ ہر خبر سے مایوس اور دلیل و حجت پیش کرنے سے قاصر ہونگے۔ مجرموں سے مراد کافر و مشرکین ہیں جیسے کہ اگلی آیت میں واضح ہے وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ مِنْ شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَ اور ان تمام تر شریکوں میں سے ایک بھی ان کا سفارشی نہ ہوگا (١) اور (خود یہ بھی) اپنے شریکوں کے منکر ہوجائیں گے۔ (۱۳) ۱۔ شریکوں سے مراد معبودان باطلہ ہیں جن کی مشرکین، یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے۔ لیکن اللہ نے یہاں وضاحت فرما دی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ ۲۔ یعنی وہاں ان کی الوہیت کے منکر ہوجائیں گے کیونکہ وہ دیکھ لیں گے کہ یہ تو کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے پر قادر نہیں ہیں دوسرے معنی ہیں کہ یہ معبود اس بات سے انکار کردیں گے کہ یہ لوگ انہیں اللہ کا شریک گردان کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تو ان کی عبادت سے ہی بےخبر ہیں۔ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن (جماعتیں) الگ الگ ہوجائیں گی ۔ (۱۴) اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مؤمنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہوجائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہوگا۔ چنانچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جارہی ہے۔ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ جو ایمان لا کر نیک اعمال کرتے رہے وہ تو جنت میں خوش و خرم کر دیئے جائیں گے (۱۵) یعنی انہیں جنت میں اکرام و انعام سے نوازا جائے گا، جن سے وہ مزید خوش ہونگے۔ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ فَأُولَئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ اور جنہوں نے کفر کیا تھا اور ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھوٹا ٹھہرایا تھا وہ سب عذاب میں پکڑ کر حاضر رکھے جائیں گے (۱۶) یعنی ہمیشہ اللہ کے عذاب کی گرفت میں رہیں گے فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ پس اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھا کرو جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو۔ (۱۷) وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ تمام تعریفوں کے لائق آسمان و زمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو) ۔ (۱۸) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح و تحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت و عظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح و تحمید کیا کرو۔ شام کا وقت رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدہ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء شدت تاریکی کا اور ظہر خوب روشن ہوجانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جو ان سب کی خالق اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقات ہیں۔ تمسون میں مغرب وعشاء، تصبحون میں نماز فجر، عشیا (سہ پہر) میں عصر اور تظہرون میں نماز ظہر آجاتی ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح وشام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب و روز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ (وہی) زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے جیسے انڈے کو مرغی سے، مرغی کو انڈے سے۔ انسان کو نطفے سے، نطفے کو انسان اور مؤمن کو کافر سے، کافر کو مؤمن سے پیدا فرماتا ہے۔ وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ اسی طرح تم (بھی) نکالے جاؤ گے (۱۹) یعنی قبروں سے زندہ کر کے۔ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے) پھیل رہے ہو (۲۰) إِذَا فجائیہ ہے مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہے جن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے تَنْتَشِرُونَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات و ضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں (۱) تاکہ تم آرام پاؤ (۲) ۱۔ یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہو جاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ عورتوں کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔ ۲۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت وحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی مَوَدَّةً یہ ہے کہ مرد بیوی سے بےپناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔ آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔ قاتلہم اللہ انی یؤفکون۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔ (۲۱) وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کر دینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں کوئی کالا، کوئی گورا اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف بولنے کے لہجے جدا جدا اور حتٰی کہ آواز بھی ایک دوسرے سے الگ الگ، ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ دانش مندوں کیلئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔ (۲۲) وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ اور (بھی) اس کی (قدرت کی) نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل (یعنی روزی) کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے نیند کا باعث سکون و راحت ہونا چاہیے وہ رات کو ہو یا بوقت قیلولہ، اور دن کو تجارت و کاروبار کے ذریعہ سے اللہ کا فضل تلاش کرنا، یہ مضمون کئی جگہ گزر چکا ہے۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ جو لوگ (کان لگا کر) سننے کے عادی ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۲۳) وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ (بھی) ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امیدوار بنانے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے یعنی آسمان میں بجلی چمکتی ہے اور بادل کڑکتے ہیں، تو تم ڈرتے بھی ہو کہ کہیں بجلی گرنے یا زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتاں برباد نہ ہوجائیں اور امیدیں بھی وابستہ کرتے کہ بارشیں ہوں گی تو فصل اچھی ہوگی۔ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ اور آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے، إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ اس میں (بھی) عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۲۴) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ۚ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ پھر بھی جب وہ تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے (۲۵) یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو آسمان و زمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہو جائے گا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ اور زمین و آسمان کی ہر ہرچیز اسی کی ملکیت ہے اور ہر ایک اس کے فرمان کے ماتحت ہے . (۲۶) یعنی اس کے تکوینی حکم کے آگے سب بےبس اور لاچار ہیں۔ جیسے موت و حیات، صحت و مرض، ذلت و عزت وغیرہ میں۔ وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے۔ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے (١) آسمانوں میں اور زمین میں بھی یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک ہے، تمام مثالوں سے اعلیٰ اور برتر۔ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٍ (۲۶:۱۱۰) وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اور وہی غلبے والا حکمت والا ہے۔ (۲۷) ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ ۖ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی ہے، هَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۚ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ (١) اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا(۲) ۱۔ یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہو جائیں تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا وصلحا ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہوسکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انہیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔ ۲۔ یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انہیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا۔ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔ (۲۸) کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔ بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ بلکہ بات یہ ہے کہ یہ ظالم تو بغیر علم کے خواہش پرستی کر رہے ہیں، یعنی اس حقیقت کا انہیں خیال ہی نہیں ہے کہ وہ علم سے بےبہرہ اور ضلالت کا شکار ہیں اور اسی بےعلمی اور گمراہی کی وجہ سے وہ اپنی عقل کو کام میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنی نفسانی خواہشات اور آرائے فاسدہ کے پیروکار ہیں۔ فَمَنْ يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ اسے کون راہ دکھائے جسے اللہ تعالیٰ راہ سے ہٹا دے (۱) ان کا ایک بھی مددگار نہیں ۔ (۲۹) ۱۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے ہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے اندر ہدایت کی طلب اور آرزو ہوتی ہے، جو اس طلب صادق سے محروم ہوتے ہیں، انہیں گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ۲۔ یعنی ان گمراہوں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں ہدایت سے بہرہ ور کر دے یا ان سے عذاب پھیر دے۔ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور جھوٹے مذاہب کی طرف دھیان ہی نہ کریں فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے فِطْرَت کے اصل معنی خلقت پیدائش کے ہیں یہاں مراد ملت اسلام ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوتی ہے اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہد الست سے واضح ہے بعد میں بہت سوں کو ماحول یا دیگر عوارض فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ یہی سیدھا دین ہے (۱) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (۳۰) ۱۔ یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔ ۲۔ اسی لیے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (لوگو!) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ (۳۱) یعنی ایمان تقویٰ اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کرکے الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہوگیا۔ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے۔ (۳۲) یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔ وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ لوگوں کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف (پوری طرح) رجوع ہو کر دعائیں کرتے ہیں، ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ پھر جب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے۔ (۳۳) لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ تاکہ وہ اس چیز کی ناشکری کریں جو ہم نے دی ہے اچھا تم فائدہ اٹھالو ابھی ابھی تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ (۳۴) یہ وہی مضمون ہے جو سورہ عنکبوت کے آخر میں گزرا۔ أَمْ أَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ کیا ہم نے ان پر کوئی دلیل نازل کی ہے جو اسے بیان کرتی ہے جسے یہ اللہ کے ساتھ شریک کر رہے ہیں۔ (۳۵) یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ جن کو اللہ کا شریک گردانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں، یہ بلا دلیل ہے، اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ بھلا اللہ تعالیٰ شرک کے اثبات و جواز کے لئے کس طرح کوئی دلیل اتار سکتا تھا۔ جب کہ اس نے سارے پیغمبر بھیجے ہی اس لئے تھے کہ وہ شرک کی تردید اور توحید کا اثبات کریں۔ چنانچہ ہر پیغمبر نے آکر سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید ہی کا وعظ کیا۔ اور آج اہل توحید مسلمانوں کو بھی نام نہاد مسلمانوں میں توحید و سنت کا وعظ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مسلمان عوام کی اکثریت شرک و بدعت میں مبتلا ہے۔ وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہو جاتے ہیں وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ اور اگر انہیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض نا امید ہو جاتے ہیں (۳۶) یہ وہی مضمون ہے جو سورہ ہود میں گزرا اور جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے کہ راحت میں وہ خوش ہوتے ہیں اور مصیبت میں نا امید ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان اس سے مستشنیٰ ہیں۔ وہ تکلیف میں صبر اور راحت میں اللہ کا شکر یعنی عمل صالح کرتے ہیں۔ یوں دونوں حالتیں ان کے لئے خیر اور اجر و ثواب کا باعث بنتی ہیں۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے کشادہ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ، یعنی اپنی حکمت و مصلحت سے وہ کسی کو مال و دولت زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ عقل و شعور میں اور ظاہری اسباب و وسائل میں دو انسان ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں ایک جیسا ہی کاروبار بھی شروع کرتے ہیں لیکن ایک کے کاروبار کو خوب فروغ ملتا ہے اور اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، جب کہ دوسرے شخص کا کاروبار محدود ہی رہتا ہے اور اسے وسعت نصیب نہیں ہوتی۔ آخر یہ کون ہستی ہے جس کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وہ اس قسم کے تصرفات فرماتا ہے علاوہ ازیں وہ کبھی دولت فراواں کے مالک کو محتاج کر دیتا ہے اور محتاج کو مال ودولت سے نواز دیتا ہے اور یہ سب اسی ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۳۷) اس میں بھی لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں نشانیاں ہیں۔ فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے جب وسائل رزق تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہیں اور وہ جس پر چاہے اس کے دروازے کھول دیتا ہے تو اصحاب ثروت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے ان کا حق ادا کرتے رہیں جو ان کے مال میں مستحق رشتے داروں، مسکین اور مسافروں کا رکھا گیا ہے۔ رشتہ دار کا حق اس لئے مقدم کیا کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے حدیث میں آتا ہے : غریب رشتہ دار کے ساتھ احسان کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقے کا اجر اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ علاوہ ازیں اسے حق سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ امداد کر کے ان پر احسان نہیں کرو گے بلکہ ایک حق کی ہی ادائیگی کرو گے۔ ذَلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں ایسے لوگ نجات پانے والے ہیں۔ (۳۸) یعنی جنت میں اس کے دیدار سے مشرف ہونا۔ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ ۖ تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا (جو تم عطیہ دو) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ اور جو کچھ صدقہ زکوٰۃ تم اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں ۔ (۳۹) زکوٰۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے: حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گا ۔(صحیح مسلم) اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر روزی دی پھر مار ڈالے گا پھر زندہ کر دے گا هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ بتاؤ تمہارے شریکوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو ان میں سے کچھ بھی کر سکتا ہو۔ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ اللہ تعالیٰ کے لئے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں۔ (۴۰) ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں (۴۱) خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہہ و بالا ہو جاتا ہے اور ان کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔ اس لیے اس کا اطلاق معاصی وسیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل وخونریزی عام ہوگئی ہے اور ان ارضی و سماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے جو اللہ کی طرف سے بطور سزا و تنبیہ نازل ہوتی ہیں جیسے قحط، کثرتِ موت، خوف اور سیلاب وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنالیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال و کردار کا رخ برائیوں کی جانب پھر جاتا ہے اور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن و سکون ختم اور اس کی جگہ خوف و دہشت، سلب و نہب اور قتل وغارت گری عام ہو جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی و سماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الٰہیہ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آجائیں توبہ کرلیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہو جائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے خیر برکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے : زمین میں اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا وہاں کے انسانوں کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ اسی طرح یہ حدیث ہے: جب ایک بدکار آدمی فوت ہو جاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلُ ۚ كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُشْرِكِينَ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ اگلوں کا انجام کیا ہوا جن میں اکثر لوگ مشرک تھے ۔ (۴۲) شرک کا خاص طور پر ذکر کیا، کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر برائیوں سیأت و معاصی بھی آجاتی ہے کیونکہ ان کا ارتکاب بھی انسان اپنے نفس کی بندگی ہی اختیار کر کے کرتا ہے اسی لئے اسے بعض لوگ عملی شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۖ پس آپ اپنا رخ اس سچے اور سیدھے دین کی طرف ہی رکھیں قبل اسکے کہ وہ دن آجائے جس کا ٹل جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ہی نہیں یعنی اس دن کے آنے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس لئے اس دن (قیامت) کے آنے سے پہلے پہلے اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرلیں اور نیکیوں سے اپنا دامن بھر لیں۔ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ اس دن سب متفرق ہوجائیں گے۔ (۴۳) یعنی دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ایک مؤمنوں کا دوسرا کافروں کا۔ مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ کفر کرنے والوں پر ان کے کفر کا وبال ہوگا اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں۔ (۴۴) مَھْد کے معنی راستہ ہموار کرنا، فرش بچھانا، یعنی یہ عمل صالح کے ذریعے سے جنت میں جانے اور وہاں اعلیٰ منازل حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْ فَضْلِهِ ۚ تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے جزا دے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے یعنی محض نیکیاں دخول جنت کے لیے کافی نہیں ہوں گی‘ جب تک ان کے ساتھ اللہ کا فضل بھی شامل حال نہ ہو گا۔ پس وہ اپنے فضل سے ایک ایک نیکی کا اجر دس سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے زیادہ بھی دے گا۔ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ وہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ (۴۵) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ اس کی نشانیوں میں سے خوشخبریاں دینے والی (١) ہواؤں کو چلانا بھی ہے اس لئے کہ تمہیں اپنی رحمت سے لطف اندوز کرے (٢) ۱۔ یعنی یہ ہوائیں بارش کی پیامبر ہوتی ہیں۔ ۲۔ یعنی بارش سے انسان بھی لذت و سرور محسوس کرتا ہے اور فصلیں بھی لہلہا اٹھتی ہیں۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور اس لئے کہ اس کے حکم سے کشتیاں چلیں (١) اور اس لئے کہ اس کے فضل کو تم ڈھونڈو (٢) اور اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو (۴۶) ۱۔ یعنی ان ہواؤں کے ذریعے سے کشتیاں بھی چلتی ہیں۔ مراد بادبانی کشتیاں ہیں اب انسان نے اللہ کی دی ہوئی دماغی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے دوسری کشتیاں اور جہاز ایجاد کر لیے ہیں جو مشینوں کے ذریعے سے چلتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے بھی موافق اور مناسب ہوائیں ضروری ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی طوفانی موجوں کے ذریعے سے غرق آب کر دینے پر قادر ہے۔ ۲۔ یعنی ان کے ذریعے سے مختلف ممالک میں جاکر تجارت و کاروبار کرکے۔ ۳۔ یعنی ظاہری و باطنی نعمتوں پر جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ یعنی یہ ساری سہولتیں اللہ تعالیٰ تمہیں اس لئے بہم پہنچاتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ کی بندگی و اطاعت بھی کرو! وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا ۖ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی اپنے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے پاس دلیلیں لائے۔ پھر ہم نے گناہ گاروں سے انتقام لیا۔ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ ہم پر مؤمنوں کی مدد کرنا لازم ہے ۔ (۴۷) یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جس طرح ہم نے آپ کو رسول بنا کر آپ کی قوم کی طرف بھیجا اسی طرح آپ سے پہلے بھی رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے، ان کے ساتھ دلائل اور معجزات بھی تھے، لیکن قوموں نے ان کی تکذیب کی، ان پر ایمان نہیں لائے بالآخر ان کے اس جرم تکذیب اور ارتکاب معصیت پر ہم نے انہیں اپنی سزا کا نشانہ بنایا اور اہل ایمان کی تائید و نصرت کی جو ہم پر لازم ہے یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار و مشرکین کی روش تکذیب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر نبی کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا ہے۔ نیز کفار کو تنبیہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو گزشتہ قوموں کا ہوچکا ہے۔ کیونکہ اللہ کی مدد تو بالآخر مؤمنوں ہی کو حاصل ہوگی، جس میں پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے سب شامل ہیں۔ حَقًّا کان کی خبر ہے جو مقدم ہے نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ اس کا اسم ہے۔ اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے وہ ابر کو اٹھاتی ہیں (١) پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے (٢) ۱۔ یعنی بادل جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں سے ہوائیں ان کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ ۲۔ کبھی چلا کر کبھی ٹھہرا کر، کبھی تہہ بہ تہہ کرکے، کبھی دور دراز تک۔ یہ آسمانوں پر بادلوں کی مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں۔ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ۖ اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے (٣) پھر آپ دیکھتے ہیں اس کے اندر سے قطرے نکلتے ہیں (٤) ۳۔ یعنی ان کو آسمان پر پھیلانے کے بعد کبھی ان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ۴۔ یعنی ان بادلوں سے اللہ اگر چاہتا ہے تو بارش ہو جاتی ہے جس سے بارش کے ضرورت مند خوش ہو جاتے ہیں فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ اور جنہیں اللہ چاہتا ہے ان بندوں پر وہ پانی برساتا ہے تو وہ خوش خوش ہو جاتے ہیں۔ (۴۸) وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ یقین ماننا کہ بارش ان پر برسنے سے پہلے پہلے تو وہ نا امید ہو رہے تھے۔ (۴۹) فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ پس آپ رحمت الٰہی کے آثار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسے زندہ کر دیتا ہے؟ فَانْظُرْ دیکھنے سے مراد نظر عبرت سے دیکھنا آثَارِ رَحْمَتِ سے مراد غلہ جات اور میوے ہیں جو بارش سے پیدا ہوتے اور خوش حالی و فراغت کا باعث ہوتے ہیں۔ إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَى ۖ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کچھ شک نہیں کہ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر ہرچیز پر قادر ہے۔ (۵۰) دیکھنے سے مراد نظر عبرت سے دیکھنا ہے تاکہ انسان اللہ کی قدرت کا اور اس بات کا قائل جائے کہ قیامت والے دن اسی طرح مردوں کو زندہ فرما دے گا۔ وَلَئِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَظَلُّوا مِنْ بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ اور اگر ہم باد تند چلا دیں اور یہ لوگ انہی کھیتوں کو (مرجھائی ہوئی) زرد پڑی ہوئی دیکھ لیں تو پھر اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں ۔ (۵۱) یعنی ان ہی کھیتوں کو جن کو ہم نے بارش کے ذریعے سے شاداب کیا تھا، اگر سخت (گرم یا ٹھنڈی) ہوائیں چلا کر ان کی ہریالی کو زردی میں بدل دیں، یعنی تیار فصل کو تباہ کر دیں تو یہی بارش سے خوش ہونے والے اللہ کی ناشکری پر اتر آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے صبر اور حوصلے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ذراسی ابتلا پر فوراً نا امید اور گریہ کنا ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں ان سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی۔ فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (١) اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں (٢) جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔ (۵۲) ۱۔ یعنی جس طرح مردے فہم شعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ کی دعوت کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ ۲۔ یعنی آپﷺ کا وعظ و نصیحت ان کے لئے بے اثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔ ۳۔ یہ ان کے اعراض کی مزید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل ودماغ میں سما سکتی ہے۔ وَمَا أَنْتَ بِهَادِ الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ۖ اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہدایت کرنے والے ہیں اس لئے کہ یہ آنکھوں سے کما حقہ فائدہ اٹھانے سے یا بصیرت (دل کی بینائی) سے محروم ہیں۔ یہ گمراہی کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے کس طرح نکلیں؟ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ آپ تو صرف ان ہی لوگوں کو سناتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے (١) ہیں پس وہی اطاعت کرنے والے ہیں ۔ (۵۳) ۱۔ یعنی یہی سن کر ایمان لانے والے ہیں، اس لئے کہ یہ اہل تفکر و تدبر ہیں اور آثار قدرت سے مؤثرحقیقی کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں۔ ۲۔ یعنی حق کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے اور اس کے پیرو کار۔ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں (١) پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی، (٢) ۱۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سے انسان کی تخلیق۔ ضَعْفٍ (کمزوری کی حالت) سے مراد نطفہ یعنی قطرہ آب ہے یا عالم طفولیت۔ ۲۔ یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی و جسمانی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی و جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہو جاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہو جاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑے اطوار بیان کیے ہیں۔ بعض علماء نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انہیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے اجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلاً امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات واطوار سے گزرتا ہے۔ - اس کی اصل مٹی ہے یعنی اس کے باپ آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی یا انسان جو کچھ کھاتا ہے جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جاکر اس کے وجود و تخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے - پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پھر ہڈیاں جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ - پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ - پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف و نزار اور نہایت نرم ونازک ہوتا ہے۔ - پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے - اور پھر بتدریج رجعت قہقری کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی تاآنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔ (۵۴) انہی اشیاء میں ضعف و قوت بھی ہے، جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ ۚ اور جس دن قیامت (۱) برپا ہو جائے گی گناہگار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ (دنیا میں) ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے (۲) ۱۔ ساعت کے معنی ہیں گھڑی، لمحہ، مراد قیامت ہے، اس کو ساعت اس لئے کہا گیا کہ اس واقعہ کو جب اللہ چاہے گا، ایک گھڑی میں ہو جائے گا۔ یا اس لئے کہ یہ اس گھڑی میں ہوگی جو دنیا کی آخری گھڑی ہوگی۔ ۲۔ دنیا میں یا قبروں میں یہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسم کھائیں گے اس لیے کہ دنیا میں وہ جتنا عرصہ رہے ہوں گے ان کے علم میں ہی ہوگا اور اگر مراد قبر کی زندگی ہے تو ان کا حلف جہالت پر ہوگا کیونکہ وہ قبر کی مدت نہیں جانتے ہوں گے۔ بعض کہتے کہ آخرت کے شدائد اور ہولناک احوال کے مقابلے میں دنیا کی زندگی انہیں گھڑی کی طرح ہی لگے گی۔ كَذَلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ اسی طرح بہکے ہوئے ہی رہے ۔ (۵۵) اَفَکَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں۔ سچ سے پھر گیا، مطلب ہوگا، اسی پھرنے کے مثل وہ دنیا میں پھرتے رہے یا بہکے رہے۔ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ ۖ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا وہ جواب دیں گے (١) کہ تم تو جیسا کہ کتاب اللہ میں (٢) ہے یوم قیامت تک ٹھہرے رہے (٣) ۱۔ جس طرح یہ علماء دنیا میں بھی سمجھاتے رہے تھے۔ ۲۔ كِتَابِ اللَّهِ سے مراد اللہ کا علم اور اس کا فیصلہ ہے یعنی لوح محفوظ۔ ۳۔ یعنی پیدائش کے وقت سے قیامت کے دن تک۔ فَهَذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ آج کا یہ دن قیامت ہی کا دن ہے لیکن تم تو یقین ہی نہیں مانتے تھے (۵۶) کہ وہ آئے گی بلکہ استہزاء اور تکذیب کے طور پر اس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔ فَيَوْمَئِذٍ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ پس اس دن ظالموں کو ان کا عذر بہانہ کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان سے توبہ اور عمل طلب کیا جائے گا (۵۷) یعنی انہیں دنیا میں بھیج کر یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہاں توبہ و اطاعت کے ذریعے سے عتاب الٰہی کا ازالہ کر لو۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ۚ بیشک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے سامنے کل مثالیں بیان کر دی ہیں جن سے اللہ کی توحید کا اثبات اور رسولوں کی صداقت واضح ہوتی ہے اور اسی طرح شرک کی تردید اور اس کا باطل ہونا نمایاں ہوتا ہے۔ وَلَئِنْ جِئْتَهُمْ بِآيَةٍ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ آپ ان کے پاس کوئی بھی نشانی لائیں (۱) یہ کافر تو یہی کہیں گے کہ تم (بیہودہ گو) بالکل جھوٹے ہو۔ (۵۸) ۱۔ وہ قرآن کریم کی پیش کردہ کوئی دلیل ہو یا ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ وغیرہ ۲۔ یعنی جادو وغیرہ کے پیروکار، مطلب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی نشانی اور واضح سے واضح دلیل بھی اگر وہ دیکھ لیں، تب بھی ایمان بہرحال نہیں لائیں گے، کیوں؟ اس کی وجہ آگے بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا کفر و طغیان اس آخری حد کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد حق کی طرف واپسی کے تمام راستے ان کے لیے مسدود ہیں۔ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں پر جو سمجھ نہیں رکھتے یوں ہی مہر لگا دیتا ہے۔ (۵۹) فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ پس آپ صبر کریں (١) یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ آپ کو وہ لوگ ہلکا (بے صبرا) نہ کریں (٢) جو یقین نہیں رکھتے۔ (۶۰) ۱۔ یعنی ان کی مخالفت و عناد پر اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا وعدہ کیا ہے، یقیناً حق ہے جو بہر صورت پورا ہوگا۔ ۲۔ یعنی آپ کو غضب ناک کر کے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کر دیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |