Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ankabut

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 الم (۱)

ا لم‏

أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (۲)

کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟

یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انہیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انہیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مؤمن و منافق کا پتہ چل جائے۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (۳)

ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں۔

یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مؤمنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔

 ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مؤمنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔  (صحیح بخاری)

حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریح میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ أَنْ يَسْبِقُونَا ۚ

کیا جو لوگ برائیاں کر رہے ہیں انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں گے

یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آسکیں گے۔

سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (۴)

یہ لوگ کیسی بری تجویزیں کر رہے ہیں

یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہرچیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی۔ پھر اس کی نافرمانی کر کے اس کے مؤاخذہ و عذاب سے بچنا کیونکر ممکن ہے؟

مَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ ۚ

جسے اللہ کی ملاقات کی امید ہو پس اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت یقیناً آنے والا ہے

یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر و ثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں بر لائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزاء عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقینا ًبرپا ہو کر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہوگی۔

وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۵)

وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔

وہ بندوں کی باتوں اور دعاؤں کا سننے والا اور ان کے پیچھے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے اسکے مطابق وہ جزا اور سزا بھی یقینا ًدے گا۔

وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (۶)

اور ہر ایک کوشش کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےنیاز ہے

یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے افعال سے بےنیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت و اضافہ نہیں ہوگا اور سب نافرمان ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہوگی۔

الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (۷)

اور جن لوگوں نے یقین کیا اور مطابق سنت کام کیے ہم انکے تمام گناہوں کو ان سے دور کر دینگے اور انہیں نیک اعمال کے بہترین بدلے دینگے

یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بےنیاز ہے، وہ محض اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر ثواب دے گا۔

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ

ہم ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے

قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انہیں ادا کر سکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔

جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقیناً خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔

 ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔

وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ

ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے

یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے 'کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں '۔

 اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر انکی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیؤں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۸)

تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا۔‏

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ (۹)

اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے انہیں اپنے نیک بندوں میں شمار کرلوں گا۔

یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مؤمن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہوگا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنابریں المرء مع من أحب کے تحت وہ زمرہ صالحین میں ہوگا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذاء دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لتے ہیں،

اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انہیں ایذاء پہنچتی ہے تو عذاب الہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتا ًوہ ایمان سے پھر جاتے اور دین عوام کو اختیار کر لیتے ہیں۔

وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ

ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے (۱) تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں (۲)

۱۔  یعنی جب مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہو جائے۔

۲۔  یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں، یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:

 وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہی، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟

اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا۔ اور مسلمانوں سے تم کو نہیں پجایا تھا۔ (۴:۱۴۱)

أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ (۱۰)

کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ جانتا نہیں ہے؟

یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھی ہونا ظاہر کرتے ہو۔

‎ وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ (۱۱)

جو لوگ ایمان لائے انہیں بھی ظاہر کر کے رہے گا اور منافقوں کو بھی ظاہر کر کے رہے گا

اسکا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مؤمن کی تمیز ہو جائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مؤمن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ (۴۷:۳۱)

ہم تمہیں ضرور آزمائینگے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالات بھی جانچیں گے ‏۔

جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار و امتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا :

مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ (۳:۱۷۹)

نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مؤمنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ ۖ

کافروں نے ایمانداروں سے کہا کہ

 تم ہماری راہ کی تابعداری کرو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے (١) حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والے،

یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لئے کہ وہی دین صحیح ہے، اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہو گے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔

إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (۱۲)

یہ تو محض جھوٹے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔

قیامت کا دن تو ایسا ہوگا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہاں تو ایک دوست، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ حتٰی کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ

البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی

یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہوگا جو انکی سعی و کاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔

یہ مضمون سورۃ النحل میں بھی گزر چکا ہے۔حدیث میں ہے:

 جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لئے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہوگا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔

 اور جو گمراہی کا داعی ہوگا اس کے لئے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہونگے۔، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔(ابو داؤد کتاب السنۃ)

 اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہوگا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا۔

وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ (۱۳)

اور جو کچھ افترا پردازیاں کر رہے ہیں ان سب کی بابت ان سے باز پرس کی جائے گی۔‏

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا

اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے

قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ہے۔  ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔

بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔

اور بھی کئی اقوال ہیں۔ و اللہ اعلم۔

فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ (۱۴)

پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وہ تھے ظالم۔‏

فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (۱۵)

پھر ہم نے انہیں کشتی والوں کو نجات دی اور اس واقعہ کو ہم نے تمام جہان کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا۔‏

وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ۖ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۶)

اور ابراہیم ؑنے بھی اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرتے رہو، اگر تم میں دانائی ہے تو یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔‏

إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ

تم تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو

 أَوْثَان، وثن کی جمع ہے۔ جس طرح اصنام، صنم کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔بعض کہتے ہیں صنم، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔

  تَخْلُقُونَ إِفْكًا کے معنی ہیں تکذبون کذبا، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔

 دوسرے معنی ہیں  تعملونہا وتنحتونہا للافک، جھوٹے مقصد کے لیے انہیں بناتے اور گھڑتے ہو۔

 مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انہیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے یہ بت تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں جب کہ ان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ ان میں خدائی اختیارات آگئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کر کے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کر لیتے ہو۔

إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ

سنو! جن جنکی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک نہیں

پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو

یعنی جب بت تمہاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لا کر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔

إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۱۷)

اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

یعنی مر کر اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟

اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟

 اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟

وَإِنْ تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ

اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی جھٹلایا ہے

یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول بھی ہو سکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔

یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی ہلاکت و تباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔

وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (۱۸)

رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہی ہے۔

اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اسکی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ مخلوق کی ابتدا کس طرح اللہ نے کی پھر اللہ اس کا اعادہ کرے گا

توحید اور رسالت کے اثبات کے بعد یہاں معاد (آخرت) کا اثبات کیا جا رہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔

 فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مر کر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام و نشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔

إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (۱۹)

یہ تو اللہ تعالیٰ پر بہت ہی آسان ہے

٢ ۔ یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ

کہہ دیجئے! کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی (١) کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداء پیدائش کی۔

یعنی آفاق میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھو زمین پر غور کرو، کس طرح اسے بچھایا، اس میں پہاڑ، وادیاں، نہریں اور سمندر بنائے، اسی انواع و اقسام کی روزیاں اور پھل پیدا کئے۔

 کیا یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا کوئی بنانے والا ہے؟

ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۰)

 پھر اللہ تعالیٰ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا، اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔‏

يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَشَاءُ ۖوَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ (۲۱)

جسے چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے، سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے

یعنی وہی اصل حاکم اور متصرف ہے، اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا

تاہم اس کا عذاب یا رحمت، یوں ہی نہیں ہوگی بلکہ اصولوں کے مطابق ہوگی جو اس نے اس کے لئے طے کر رکھے ہیں۔

وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ۖ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۲۲)

تم نہ زمین میں اللہ تعالیٰ کو عاجز کر سکتے ہو نہ آسمان میں، اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی والی ہے نہ مددگار۔‏

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَئِكَ يَئِسُوا مِنْ رَحْمَتِي وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۲۳)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وہ میری رحمت سے نا امید ہوجائیں (١) اور ان لئے دردناک عذاب ہے۔‏

اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مؤمن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا :

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ  (۷:۱۵۶)

میری رحمت نے ہرچیز کو گھیر لیا ہے

لیکن آخر میں چونکہ دارالجزاء ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہوگی، جیسے عمل کئے ہونگے اس کی جزاء اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بےلاگ فیصلے ہوں گے۔

 دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک وبد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مؤمن وکافر دونوں ہی رحمت الٰہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو انکی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔

جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے نا امید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الہی نہیں آئے گی۔ سورہ اعراف میں اس کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے:

فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ  (۷:۱۵۶)

میں یہ رحمت (آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ

ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اس کو  مار ڈالو یا اسے جلا دو (١) آخر اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا (٢)

۱۔ ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جا رہا ہے، درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔

 بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعظ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے توحید و معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سے نہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو۔

چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔

۲۔  یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا۔ جیسا کہ سورہ انبیاء میں گزرا۔

 إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۲۴)

اس میں ایماندار لوگوں کے لئے تو بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ

 (حضرت ابراہیم ؑ نے) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیاوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے

یعنی یہ تمہارے قوی بت ہیں جو تمہاری اجتماعت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا

تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے

یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کی بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔

وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (۲۵)

اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔‏

فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي ۖ

پس حضرت ابراہیم ؑ پر حضرت لوطؑ ایمان لائے (١) اور کہنے لگے کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہو (٢)

۱۔ حضرت لوطؑ، حضرت ابراہیمؑ کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی 'سدوم ' کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔

۲۔  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط علیہ السلام نے، اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہجرت کی۔

 یعنی جب ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوط علیہ السلام کے لئے اپنے علاقے ' کوٹی ' میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوگئی تو وہاں سے ہجرت کر کے شام کے علاقے میں چلے گئے،

تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ تھیں۔

إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۲۶)

وہ بڑا ہی غالب اور حکیم ہے۔‏

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ

اور ہم نے انہیں (ابراہیم کو) اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) عطا کئے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کر دی

یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام ہوئے، جن سے بنی اسرئیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیاء ہوئے، اور کتابیں آئیں۔

 آخر میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا۔

وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (۲۷)

اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ثواب دیا (۱) اور آخرت میں تو وہ صالح لوگوں میں سے ہے ۔‏(۲)

۱۔  اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتٰی کہ مشرکین بھی) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کے پیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہونگے؟

۲۔  یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہونگے۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر بھی بیان کیا گیا ہے

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ (۲۸)

اور لوطؑ  کا بھی ذکر کرو جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم بدکاری پر اتر آئے ہو (١) جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں سے کسی نے نہیں کیا۔‏

اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط نے سب سے پہلے کیا جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ

کیا تم مردوں کے پاس بد فعلی کے لئے آتے ہو (١) اور راستے بند کرتے ہو (٢) اور اپنی عام مجلسوں میں بےحیائیوں کا کام کرتے ہو (۳)

۱۔ یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہاء تک پہنچ گئی ہے کہ اس کے لئے طبعی طریقے تمہارے لئے ناکافی ہیں اور غیر طبعی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ جنسی شہوت کی تسکین کے لئے طبعی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے مباشرت کی صورت میں رکھا ہے۔ اسے چھوڑ کر اس کام کے لئے مردوں کی دبر استعمال کرنا غیر طبعی طریقہ ہے۔

۲۔  اس کے ایک معنی تو یہ کیے گے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں، نو واردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بےحیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لئے راستوں سے گزرنا مشکل ہوگیا ہے،

 قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کئے گئے ہیں، یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کی بجائے مردوں کی دبر استعمال کر کے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئے ہو ۔ (فتح القدیر)

۳۔  یہ بےحیائی کیا تھی؟

اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلاً لوگوں کو کنکریاں مارنا، اجنبی مسافر کا استہزاء و استخفاف، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قماربازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔

 امام شوکانی فرماتے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں،

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۲۹)

اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا بس (۱) جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ۔‏

حضرت لوط علیہ السلام نے جب انہیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہا۔

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ (۳۰)

حضرت لوطؑ نے دعا کی (١) کہ پروردگار! اس مفسد قوم پر میری مدد فرما۔‏

یعنی حضرت لوط علیہ السلام قوم کی اصلاح سے نا امید ہوگئے تو اللہ سے مدد کی دعا فرمائی۔

وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ ۖ

اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس بشارت لے کر پہنچے کہنے لگے کہ اس بستی والوں کو ہم ہلاک کرنے والے ہیں

یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہلاک کرنے کے لئے بھیج دیا۔

 وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے اور انہیں اسحاق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم لوط علیہ السلام کی بستی ہلاک کرنے آئے ہیں۔

إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ (۳۱)

یقیناً یہاں کے رہنے والے گنہگار ہیں۔‏

قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا ۚ

 (حضرت ابراہیمؑ ) نے کہا اس میں تو لوطؑ ہیں،

قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا ۖ لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ

فرشتوں نے کہا یہاں جو ہیں انہیں بخوبی جانتے ہیں (١) لوط ؑ کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں گے،

یعنی ہمیں علم ہے کہ ظالم اور مؤمن کون ہیں اور اشرار کون؟

كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (۳۲)

البتہ وہ عورت پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے

یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مؤمنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی۔ اس لئے اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔

وَلَمَّا أَنْ جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا

پھر جب ہمارے قاصد لوطؑ کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے غمگین ہوئے اور دل ہی دل میں رنج کرنے لگے

لوط علیہ السلام نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انہیں ہوگیا تو وہ زبردستی بےحیائی کا ارتکاب کریں گے جس سے میری رسوائی ہوگی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔

وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۖ

قاصدوں نے کہا آپ نہ خوف کھائیے نہ آرزدہ ہوں،

إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (۳۳)

ہم آپ کو معہ آپ کے متعلقین کے بچا لیں گے مگر آپ کی (۱) بیوی کہ وہ عذاب کے لئے باقی رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔‏

فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی اور غم ورنج کی کیفیت کو دیکھا تو انہیں تسلی دی اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور رنج نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سوائے آپ کی بیوی کے نجات دلانا ہے۔

إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (۳۴)

ہم اس بستی والوں پر آسمانی عذاب نازل کرنے والے ہیں (١) اس وجہ سے کہ یہ بےحکم ہو رہے ہیں۔‏

اس آسمانی عذاب سے وہی عذاب مراد ہے جس کے ذریعے سے قوم لوط کو ہلاک کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام ان کی بستیوں کو زمین سے اکھیڑا آسمان کی بلندیوں تک لے گئے پھر ان ہی پر الٹا دیا گیا، اس کے بعد کھنگر پتھروں کی بارش ان پر ہوئی اور اس جگہ کو سخت بدبو دار بیحرہ (جھیل) میں تبدیل کر دیا گیا۔  (ابن کثیر)

وَلَقَدْ تَرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۳۵)

البتہ ہم نے اس بستی کو بالکل عبرت کی نشانی بنا دیا (١) ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ (۲)‏

۱۔ یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبودار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں مگر کن کے لئے؟ دانش مندوں کے لئے۔

۲۔  اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب وعوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج و آثار کو دیکھتے ہیں کہ لیکن جو لوگ عقل و شعور سے بےبہرہ ہوتے ہیں، انہیں ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبح کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔

اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل و دانش سے بےبہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا

اور مدین کی طرف (١) ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ  کو بھیجا

مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑ گیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلے مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔

بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط علیہ السلام کی بستی کے قریب تھا۔

فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (۳۶)

انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو (۱) اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔(٢)

۱۔  اللہ کی عبادت کے بعد، انہیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لئے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لئے کہ وہ اسے فراموش کئے ہوئے تھے اور مستیوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فرا موش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔

۲۔  ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں انہیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔

فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (۳۷)

پھر بھی انہوں نے انہیں جھٹلایا آخرکار انہیں زلزلے نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے مردہ ہو کر رہ گئے

حضرت شعیب علیہ السلام کے وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل علیہ السلام کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ ۖ

اور ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں

قوم عاد کی بستی احقاف، حضرموت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آجکل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لئے یہ بستیاں ان کے لئے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔

وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ (۳۸)

اور شیطان نے انہیں انکی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے ۔‏

یعنی تھے وہ عقلمند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لئے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔

وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ

اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی، ان کے پاس حضرت موسیٰ ؑ  کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے

یعنی دلائل و معجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور بدستور متکبر بنے رہے، یعنی ایمان و تقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔

فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ (۳۹)

پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے ۔‏

 یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آکر رہے۔

 ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ ' یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے '

بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اس طرح کفر و عناد کا راستہ اختیار کئے رکھا۔

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ ۖ

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا

یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی ان کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے گرفت کی۔

فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا

ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا

یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تند و تیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انہیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انہیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہو جاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر)

بعض مفسرین نے حَاصِبا کا مصداق قوم لوط علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔

وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ

اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے انکی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کر دیا۔

وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ

اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا

یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کئے گئے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا کہ یہ مال و دولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ علیہ السلام کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔

وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا ۚ

اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا

یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کر کے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعویٰ بھی کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے اور انکی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا، بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (۴۰)

اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔

یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لئے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لئے ہلاک ہوئیں کہ کفر و شرک اور تکذیب و معاصی کا ارتکاب کر کے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ

جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے،

وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۴۱)

حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہے (١) کاش! وہ جان لیتے۔‏

یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بےفائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر ناپائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔

إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۴۲)

اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جنہیں وہ اس کے سوا پکار رہے ہیں، وہ زبردست اور ذی حکمت ہے۔‏

وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ (۴۳)

ہم نے ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان فرما رہے ہیں (١) انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں (٢)‏

۱۔ یعنی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لئے۔

۲۔  اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات و دلائل کا علم ہے جن پر غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔

خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ

اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو مصلحت اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے

یعنی بےفائدہ اور بےمقصد نہیں۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ (۴۴)

ایمان والوں کے لئے تو اس میں بڑی بھاری دلیل ہے ۔

یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم و حکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ

جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے (١) اور نماز قائم کریں (٢)

۱۔ قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔

۲۔  کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے:

 اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ (۲:۱۵۳)

 نماز اور صبر کوئی مرئی چیز تو ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا اہتمام فرماتے۔

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ

یقیناً نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے

یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتاً ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔

دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقیناً اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان آداب وشرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلاً

- اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے

-  دوم  طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔

- سوم باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔

-  چہارم  ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان

-  پنجم  خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔

-  ششم  مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام

-  ہفتم  رزق حلال کا اہتمام۔

 ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔

 بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بےحیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔

وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (۴۵)

بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے

یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلوٰۃ سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ

اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو (١) مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں (۲)

۱۔ اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔

۲۔ یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

 بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظَلَمُوا مِنْهُمْ کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دیں۔

وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ

اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی

تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔

وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (۴۶)

ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں۔‏

وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ

اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف اپنی کتاب نازل فرمائی ہے،

فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ ۚ

 پس جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں (١) اور ان (مشرکین) میں سے بعض اس پر ایمان رکھتے ہیں (٢)

۱۔ اس سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔

  آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ سے مراد اس پر عمل ہے، گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انہیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔

۲۔  ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔

وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ (۴۷)

اور ہماری آیتوں کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں۔‏

وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (۴۸)

اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے (١) نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے (٢) کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے (۳)‏

۱۔ اس لیے کہ ان پڑھ تھے

۲۔ اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔

۳۔  یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ

بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں

یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (۴۹)

ہماری آیتوں کا منکر سوائے ظالموں کے اور کوئی نہیں۔‏

وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِنْ رَبِّهِ ۖ

انہوں نے کہا کہ اس پر کچھ نشانیاں (معجزات) اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں اتارے گئے۔

قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (۵۰)

 آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں (١) میں تو صرف کھلم کھلا آگاہ کر دینے والا ہوں۔‏

یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔

‎ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ ۚ

کیا انہیں یہ کافی نہیں؟ کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جا رہی ہے،

یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔

 کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کر دکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہمالسلام کی طرح انہیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۵۱)

 اس میں رحمت (بھی) ہے اور نصیحت (بھی) ہے ان لوگوں کے لئے جو ایماندار ہیں۔‏

یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیونکہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔

قُلْ كَفَى بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ۖ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ

کہہ دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ تعالیٰ کا گواہ ہونا کافی ہے (١) وہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا عالم ہے،

اس بات پر کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور جو کتاب مجھ پر نازل ہوئی ہے یقینا منجانب اللہ ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۵۲)

جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والے ہیں(۱)  وہ زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں ۔‏(۲)

۱۔ یعنی غیر اللہ کی عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور جو فی الواقع مستحق عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کا انکار کرتے ہیں۔

 ۲۔  کیونکہ یہی لوگ فساد عقلی اور سوء فہم میں مبتلا ہیں، اسی لئے انہوں نے سودا کیا ہے کہ ایمان والوں کے بدل کفر اور ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اس میں یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ

یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں

یعنی پیغمبر کی بات ماننے کی بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔

وَلَوْلَا أَجَلٌ مُسَمًّى لَجَاءَهُمُ الْعَذَابُ

اگر میری طرف سے مقرر کیا ہوا وقت نہ ہوتا تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکا ہوتا

یعنی ان کے اعمال و اقوال تو یقیناً اس لائق ہیں کہ انہیں فوراً صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں جب وہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو ہمارا عذاب آجاتا ہے۔

وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۵۳)

یہ یقینی بات ہے کہ اچانک ان کی بےخبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچے

یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آجائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ وقت مقرر وہ ہے جو اس نے اہل مکہ کے لیے لکھ رکھا تھا یعنی جنگ بدر میں اسارت و قتل یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔

يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (۵۴)

یہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں اور (تسلی رکھیں) جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے۔

پہلا  يَسْتَعْجِلُونَكَ بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ ان کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی یہ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟

 حالانکہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے اسے دور کیوں سمجھتے ہیں؟

یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔

يَوْمَ يَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۵۵)

اس دن انکے اوپر تلے سے انہیں عذاب ڈھانپ رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ (١) فرمائے گا کہ اب اپنے (بد) اعمال کا مزہ چھکو۔‏

یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہو گا تو کہا جائے گا۔

یا قول کا فاعل اللہ ہے یا فرشتے یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہوگا تو کہا جائے گا۔

يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ (۵۶)

اے میرے ایماندار بندو! میری زمین بہت کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو  

اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (۵۷)

ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔

یعنی موت کا جرعہ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی اس لیے تمہارے لیے وطن کا رشتے داروں کا اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہیے موت تو تم جہاں بھی ہو گے آجائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مروگے تو تم آخروی نعمتوں سے شاد کام ہوگے۔ اس لیے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (۵۸)

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے انہیں یقیناً جنت کے ان بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں (١)

جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے (٢) نیک کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے۔‏

۱۔ یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہونگے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہونگی، علاوہ ازیں انہیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہو جائے گا۔

۲۔  ان کے زوال کا خطرہ ہوگا نہ انہیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھر جانے کا خوف۔

الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۵۹)

وہ جنہوں نے صبر کیا (١) اور اپنے رب تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔‏ (٢)

۱۔ یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل و عیال اور عزیز و اقربا سے دوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔

۲۔  دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔

وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ

اور بہت سے جانور (١) ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے (٢) ان سب کو اور تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی دیتا ہے (۳)

۱۔   کَاَیِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔

۲۔  کیونکہ اٹھا کر لے جانے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کر سکتے،

 مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو جانے والے صحابہ کرام کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔

۳۔ یعنی کوئی کمزور ہے یا طاقتور، اسباب وسائل سے بہرہ ور ہے یا بےبہرہ اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بےوطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے

 اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر فاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔

وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۶۰)

وہ بڑا ہی سننے والا ہے ۔‏

وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال و افعال کو اور تمہارے ظاہر و باطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت و کمال ہے اور اسی کی معصیت میں بد بختی و نقصان۔

‎ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ

اور اگر آپ انسے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو انکا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالی

یعنی یہ مشرکین، جو مسلمان کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم وجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے؟

تو وہاں یہ اعتراف کئے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے

فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ (۶۱)

پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں

یعنی دلائل اور و اعتراف کے باوجود حق سے انکار اور گریز باعث تعجب ہے۔

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۶۲)

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ (١) یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔‏(٢)

۱۔ یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟

۱۔ یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟

اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق جس کو چاہتا کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضامندی یا غضب سے نہیں ہے۔

۲۔  اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں؟

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ

اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا؟

 تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالیٰ نے۔

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (۶۳)

آپ کہہ دیجئے کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے، بلکہ ان میں اکثر بےعقل ہیں ۔‏

کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کے ساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندریہ تمیز ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت و ربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔

وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ

اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے

یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب وروز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا

وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۶۴)

البتہ آخرت کے گھر کی زندگی حقیقی زندگی ہے (۱) کاش! یہ جانتے ہوتے (۲)

۱۔ اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔

۲۔  کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بےپرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے

فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (۶۵)

پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔‏

مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس منافقت کو حضرت عکرمہ سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوگئی۔

 ان کے متعلق آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے تاکہ نبی کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص کے ساتھ رب سے دعائیں کرو، اس لئے کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں۔

حضرت عکرمہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اسی وقت اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمدﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر لونگا۔ یعنی مسلمان ہو جاؤں  گا چنانچہ یہاں سے نجات پا کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (۶۶)

تاکہ ہماری دی ہوئی نعمتوں سے مکرتے رہیں اور برتتے رہیں (١) ابھی ابھی پتہ چل جائے گا۔‏

یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف اللہ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں

اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل وغارت اسیری لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں۔ جب کہ عرب کے دوسرے علاقے اس امن و سکون سے محروم ہیں قتل وغارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔

أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ (۶۷)

کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں

یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر کی تصدیق کرتے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ ۚ

اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے (١) یا جب حق اس کے پاس آجائے وہ اسے (٢) جھٹلائے،

۱۔ یعنی دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے درآں حالیکہ ایسا نہ ہو یا کوئی یہ کہے میں بھی وہ چیز اتار سکتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے۔ یہ تو سراسر جھوٹ ہے۔

۲۔  یہ تکذیب ہے اور اس کا مرتکب مکذب ہے یہ دونوں کفر ہیں جس کی سزا جہنم ہے۔

أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (۶۸)

کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم نہ ہوگا؟‏

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ

اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں (١) ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے (۲)

۱۔ یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں پیش آتی ہیں

۲۔ اس سے مراد دنیا اور آخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (۶۹)

یقیناً اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے

احسان کا مطلب ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہر نیکی کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کے مفہوم میں شامل ہیں۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter