Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Naml

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُبِينٍ (۱)

طس، یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی۔‏

 نَمْل،چیو نٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورہ نمل کہا جاتا ہے۔

هُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (۲)

ہدایت اور خوشخبری ایمان والوں کے لئے۔‏

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (۳)

جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔‏

یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہونگے جو ہدایت کے طالب ہونگے، جو لوگ اپنے دل اور دماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کرلیں گے، قرآن انہیں کس طرح سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے، ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، درآں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ (۴)

جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے انہیں ان کے کرتوت زینت دار کر دکھائے (١) ہیں، پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں (٢)‏

۱۔ یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے۔

 لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔

۲۔  یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ (۵)

یہی لوگ ہیں جن کے لئے برا عذاب ہے اور آخرت میں بھی وہ سخت نقصان یافتہ ہیں۔‏

وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ (۶)

بیشک آپ کو اللہ حکیم و علیم کی طرف سے قرآن سکھایا جا رہا ہے۔‏

إِذْ قَالَ مُوسَى لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ (۷)

(یاد ہوگا) جبکہ موسیٰ ؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لے کر

یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں گا تاکہ تم سینک تاپ کر لو

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آرہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی۔

فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا

جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے

دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی۔

  مَنْ فِي النَّارِ میں  مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور  النَّارِ سے مراد اس کا نور ہے اور  وَمَنْ حَوْلَهَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے،

 حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے:

اگر اپنی ذات کو بےنقاب کر دے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے ۔ (صحیح مسلم)

وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۸)

اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔‏

یہاں اللہ کی تنزیہ تقدیس کا مطلب یہ ہے کہ اس ندائے غیبی سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس آگ یا درخت میں اللہ حلول کئے ہوئے ہے‘ جس طرح کہ بہت سے مشرک سمجھتے ہیں بلکہ مشاہدہ حق کے کی صورت ہے جس سے نبوت کے آغاز میں انبیاء علیہم السلام کو بالعموم سرفراز کیا جاتا ہے۔ کبھی فرشتے کے ذریعے سے اور کبھی خود اللہ تعالیٰ اپنی تجلی اور ہمکلامی سے جیسے یہاں موسیٰؑ کے ساتھ معاملہ پیش آیا۔

يَا مُوسَى إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۹)

موسیٰ! سن بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں غالب با حکمت۔‏

درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔

وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ

تو اپنی لاٹھی ڈال دے،

فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّى مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ

 موسیٰ نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا،

يَا مُوسَى لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ (۱۰)

 اے موسیٰ! خوف نہ کھا (۱) میرے حضور میں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔‏

اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ علیہ السلام اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے

 دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔

إِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۱)

لیکن جو لوگ ظلم کریں (١) پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والا مہربان ہوں ۔‏(٢)

۱۔ یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرما لے۔

۲۔  یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کرلیتا ہوں۔

وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ ۖ

اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال، وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے

یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔

یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انہیں دیا گیا۔

فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (۱۲)

تو نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا (۱) یقیناً وہ بدکاروں کا گروہ ہے۔‏

 فِي تِسْعِ آيَاتٍ یعنی یہ دو معجزے ان ٩ نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا،

 ان ٩ نشانیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ بنی اسرائیل، آیت۔١٠١ کا حاشیہ۔

فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (۱۳)

پس جب ان کے پاس آنکھیں کھول دینے والے (١) ہمارے معجزے پہنچے تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے۔‏

 مُبْصِرَةً ، واضح اور روشن یا اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے

وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ

انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر

یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (۱۴)

پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرواز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔‏

وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ

اور یقیناً ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا

سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصرا ً قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کا یہ قصہ ہے انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں

علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔

وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ (۱۵)

اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔‏

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ

اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے

اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان علیہ السلام قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔

 ویسے بھی انبیاء کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد)

وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ (۱۶)

اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے (1) اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں (٢) بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے۔‏

۱۔  بولیاں تو تمام جانور کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لئے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر)

۲۔  جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔

وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (۱۷)

سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کئے گئے (١) ہر ہر قسم الگ الگ درجہ بندی کردی گئی (٢)‏

۱۔ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہ تھی بلکہ جنات، حیوانات اور چرند پرند حتٰی کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی،

اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لئے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔

۲۔  یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کر دیا جاتا تھا، مثلًا انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کا گروہ ، وغیرہ۔

حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۱۸)

جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا

اے چیو نٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ بےخبری میں سلیمان اور اسکا لشکر تمہیں روند ڈالے

اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ

-  حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔ گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔

- دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بےخبری میں ہم روند نہ دی جائیں۔

-  تیسرا یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔

- چوتھا یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِنْ قَوْلِهَا

اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے

وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ

 اور دعا کرنے لگے کہ

 اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں (١) اور میرے ماں باپ پر

چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔

وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (۱۹)

 اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جنت مؤمنوں ہی کا گھر ہے اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا اسی لیے حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا

 صحابہ رضی اللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بھی؟ آپ نے فرمایا:

 ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی ۔ صحیح بخاری  

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ (۲۰)

آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟

یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔

لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۲۱)

یقیناً میں اسے سزا دونگا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے۔‏

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ

کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں،

 أَحَطْتُ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا

وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ (۲۲)

میں سبا (۱) کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں۔‏

  سَبَا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔

یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعا (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے۔  (فتح القدیر)

إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ

میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے (١) جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے

یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آجکل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ہوسکتی، حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔

وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ (۲۳)

اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔‏

کہا جاتا ہے کہ اس کا طول ٨٠ ہاتھ اور عرض ٤٠ ہاتھ اور انچائی ٣٠ ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یا قوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے، واللہ اعلم۔ (فتح القدیر)

ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔

وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ

میں نے اسے اور اس کی قوم کو، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا،

وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ (۲۴)

شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے (١) پس وہ ہدایت پر نہیں آتے۔‏

اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیاء بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بےخبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس و شعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے یہاں ہدہد نے حیرت و استعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لئے سورج کی عبادت کو بھلا کر کے دکھلایا ہوا ہے۔

أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ (۲۵)

کہ اسی اللہ کے لئے سجدے کریں(١)  جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے (۲) اور جو کچھ تم چھپاتے ہو

اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے۔‏

 أَلَّا يَسْجُدُوا اس کا تعلق بھی  زَيَّنَ کے ساتھ ہے۔  یعنی شیطان نے یہ بھی ان کے لیے مزین کر دیا ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں۔ یا اس میں   لَا يَهْتَدُونَ عامل ہے اور  لَا زائد ہے۔ یعنی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ سجدہ صرف اللہ کو کریں۔ فتح القدیر

یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔

 اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (۲۶)  ۩

اسکے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ عظمت والے عرش کا مالک ہے۔‏

مالک تو اللہ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لئے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا، یہ واضح کرنے کے لئے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے :

چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ۔  (مسند احمد)

قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (۲۷)

سلیمان نے کہا، اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔‏

اذْهَبْ بِكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ (۲۸)

میرے اس خط کو لے جاکر انہیں دے دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔‏

یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ (۲۹)

وہ کہنے لگی اے سردارو! میری طرف ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے۔‏

إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۳۰)

جو سلیمان کی طرف سے ہے اور جو بخشش کرنے والے مہربان اللہ کے نام سے شروع ہے۔‏

أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (۳۱)

یہ کہ تم میرے سامنے سرکشی نہ کرو اور مسلمان بن کر میرے پاس آجاؤ

جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔

 آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا ۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنْتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ (۳۲)

اس نے کہا

 اے میرے سردار! تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کرتی۔‏

قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ

ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں

یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پا مردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لئے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانْظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ (۳۳)

آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں

اس لئے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہوگا، بجا لائیں گے۔

قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ

اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں (١) تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں (٢)

۱۔ یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔

۲۔  یعنی قتل و غارت گری کرکے اور قیدی بنا کر۔

وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (۳۴)

اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے ۔

بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہے جو ملکہ سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ (۳۵)

میں انہیں ایک ہدیہ بھیجنے والی ہوں، پھر دیکھ لوں گی کہ قاصد کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں

اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ سلیمان علیہ السلام کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقیناًًً اس کا مقصد دین کی اشاعت و سر بلندی ہے، پھر ہمیں بھی اطاعت بغیر چارہ نہیں ہوگا۔

فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ

پس جب قاصد حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟

یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہرچیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدئیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کر سکتے ہو؟

یہ دریافت کرنا انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔

فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ (۳۶)

مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو ۔

یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم اس ہدیئے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لئے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔

ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا

جا ان کی طرف واپس لوٹ جا، (۱) ہم ان (کے مقابلہ) پر وہ لشکر لائیں گے جن کے سامنے پڑنے کی ان میں طاقت نہیں

یہاں صیغہ واحد سے مخاطب کیا جب کہ اس سے قبل صیغہ جمع سے خطاب کیا تھا کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے کبھی امیر کو ۔

وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ (۳۷)

 اور ہم انہیں ذلیل و پست کرکے وہاں سے نکال باہر کریں گے ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لئے ان کی طرف سے لوگوں کو ذلیل خوار کیا جانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ و قتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جنگ نام ہی کشت و خون اور اسیری کا ہے اور ذلت و خواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل خوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور اسوہ، حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔

قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (۳۸)

آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے لا دے

حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سلیمان علیہ السلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے چنانچہ انہوں نے مطیع و منقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کردی۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی ان کی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انہیں مزید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور انکے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔

قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ ۖ

ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے (۱) اٹھیں اس سے پہلے ہی پہلے میں اسے آپ کے پاس لا دیتا ہوں، (۲)

۱۔ اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔

۲۔  اس سے معلوم ہوا کہ وہ یقیناً ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھا لائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے تین یا چار گھنٹے میں طے کر لے ایک طاقتور سے طاقتور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے ۔

وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ (۳۹)

یقین مانئے کہ میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار

یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔

قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ

جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں

یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟

 یہ کتاب کون سی تھی؟

اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟

اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالیٰ نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔

 کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لئے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔

فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ

جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری،

وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (۴۰)

شکر گزار اپنے ہی نفع کے لئے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے۔‏

قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ (۴۱)

حکم دیا کہ اس تخت میں کچھ پھیر بدل کر (١) دو تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راہ پالیتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو راہ نہیں پاتے (٢)‏

۱۔ یعنی اس کے رنگ روپ یا واضح و شکل شباہت میں تبدیلی کردو۔

۲۔  یعنی وہ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ یہ تخت اسی کا ہے یا اس کو سمجھ نہیں پاتی؟

دوسرا مطلب ہے کہ وہ راہ ہدایت پاتی ہے یا نہیں؟ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی اس پر راہ ہدایت واضح ہوتی ہے یا نہیں؟

فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ ۖ

پھر جب وہ آگئی تو اس سے کہا (دریافت کیا) گیا کہ ایسا ہی تیرا (بھی) تخت ہے؟

قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ

 اس نے جواب دیا کہ یہ گویا وہی ہے

ردو بدل سے چونکہ اس کی وضع شکل میں کچھ تبدیلی آگئی تھی، اس لئے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور ردو بدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان لیتا ہے، اس لئے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا ' گویا یہ وہی ہے ' اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔

وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ (۴۲)

ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے

 یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہوگئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی۔

وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كَافِرِينَ (۴۳)

اسے انہوں نے روک رکھا تھا جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی رہی تھی، یقیناً وہ کافر لوگوں میں تھی

یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا وہ غیر اللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لئے توحید کی حقیقت سے بےخبر رہی، یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان علیہ السلام نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا ؛ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔  (فتح القدیر)

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا ۚ

اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو، جسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں

یہ محل شیشے کا بنا ہوا تھا، جس کا صحن اور فرش بھی شیشے کا تھا۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہرے دکھانے کے بعد مناسب سمجھا کہ اسے اپنی دنیاوی شان و شوکت کی بھی ایک جھلک دکھلا دی جائے جس میں اللہ نے انہیں تاریخ انسانیت میں ممتاز کیا تھا۔ چنانچہ اس محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا، جب وہ داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پانچے چڑھا لئے۔ شیشے کا فرش اسے پانی معلوم ہوا جس سے اپنے کپڑوں کو بچانے کے لئے اس نے کپڑے سمیٹ لئے۔

قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ ۗ

فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے،

صاف چکنے گھڑے ہوئے پتھروں کو مُمَرَّد کہا جاتا ہے اسی سے مراد ہے جو اس خوش شکل بچے کو کہا جاتا ہے جس کے چہرے پر ابھی ڈاڑھی مونچھ نہ ہو جس درخت پر پتے نہ ہوں اسے شجرۃ مرداء کہا جاتا ہے ۔ فتح القدیر  

 لیکن یہاں یہ تعبیر یا جڑاؤ کے معنی میں ہے یعنی شیشوں کا بنا ہوا یا جڑا ہوا محل۔

قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۴۴)

کہنے لگی میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں۔

یعنی جب اس پر فرش کی حقیقت واضح ہوئی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہوگیا اور اعتراف قصور کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا ۔

ملکہ سبا بلقیس کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟

قرآن میں یا کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی تفسیری روایات میں یہ ضرور ملتا ہے کہ ان کا باہم نکاح ہو گیا تھا لیکن جب قرآن وحدیث اس صراحت سے خاموش ہیں تو اس کی بابت خاموشی ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ (۴۵)

یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے

ان سے مراد کافر اور مؤمن ہیں،

جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔

قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۖ

آپ نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو! تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کر مچا رہے ہو

یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے، تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔

 علاوہ ازیں اپنے عناد و سرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح علیہ السلام نے یہ کہا۔

لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۴۶)

تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‏

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ ۚ

وہ کہنے لگے ہم تیری اور تیرے ساتھیوں کی بد شگونی لے رہے ہیں؟

عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہو جاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بد شگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے۔ (فتح القدیر)

 اسلام میں یہ بدشگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ فال نکالنا جائز ہے۔

قَالَ طَائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ (۴۷)

آپ نے فرمایا تمہاری بد شگونی اللہ کے ہاں (۱) ہے، بلکہ تم فتنے میں پڑے ہوئے لوگ ہو (۲)‏

۱۔  یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضا وتقدیر اسی کے اختیار میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے ۔ فتح القدیر

۲۔  یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (۴۸)

اس شہر میں نو سردار تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔‏

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ

انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے

یعنی صالح علیہ السلام کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کر دیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کا صفایا کر دیں۔

ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (۴۹)

اور اس کے وارثوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں

یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انہیں قتل کر گیا ہے۔

وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۵۰)

انہوں نے مکر (خفیہ تدبیر) کیا (١) اور ہم نے بھی (٢) اور وہ اسے سمجھتے ہی نہ تھے ۔‏(٣)

۱۔ ان کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے باہم حلف اٹھایا کہ رات کی تاریکی میں اس منصوبہ قتل کو بروئے کار لائیں اور تین دن پورے ہونے سے پہلے ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو ٹھکانے لگا دیں۔

۲۔  یعنی ہم نے ان کی اس سازش کا بدلہ دیا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ اسے بھی  مَکَرْنَا مَکْرًا کے طور پر تعبیر کیا گیا۔

۳۔  اللہ کی اس تدبیر (مکر) کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (۵۱)

(اب) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کر دیا

یعنی ہم نے مذکورہ ٩ سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کر دیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو عملی طور پر ان کے منصوبہ قتل میں شریک نہ ہو سکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشاء اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لئے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو ٩ افراد نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لئے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔

فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا ۗ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۵۲)

یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ علم رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں بڑی نشانی ہے۔‏

وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (۵۳)

ہم نے ان کو جو ایمان لائے تھے اور پرہیزگار تھے بال بال بچالیا۔‏

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ (۵۴)

اور لوط کا (ذکر کر) جبکہ (١) اس نے اپنی قوم سے کہا کہ باوجود دیکھنے بھالنے کے پھر بھی تم بدکاری کر رہے ہو (٢)‏

۱۔ یعنی لوط علیہ السلام کا قصہ یاد کرو، جب لوط علیہ السلام نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔

۲۔  یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بےحیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہونگے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ ۚ

یہ کیا بات ہے کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے آتے ہو؟

یہ تکرار توبیخ کے لئے ہے کہ یہ بےحیائی وہی لواطت ہے جو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے غیر فطری شہوت رانی کے طور پر کرتے ہو۔

بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (۵۵)

حق یہ ہے کہ تم بڑی ہی نادانی کر رہے ہو

یا اس کی حرمت سے یا اس معصیت کی سزا سے تم بےخبر ہو۔ ورنہ شاید یہ کام نہ کرتے۔

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ (۵۶)

قوم کا جواب بجز اس کہنے کہ اور کچھ نہ تھا کہ آل لوط کو اپنے شہر سے شہر بدر کر دو، یہ تو بڑے پاکباز بن رہے ہیں

بطور طنز اور استہزاء کے کہا۔

فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ (۵۷)

پس ہم نے اسے اور اس کے اہل کو بجز اس کی بیوی کے سب کو بچا لیا، اس کا اندازہ تو باقی رہ جانے والوں میں ہم لگا ہی چکے تھے ۔

یعنی پہلے ہی اس کی بابت یہ اندازہ یعنی تقدیر الٰہی میں تھا وہ انہی پیچھے رہ جانے والوں میں ہوگی جو عذاب سے دو چار ہونگے۔

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ (۵۸)

اور ان پر ایک (خاص قسم کی) بارش برسادی (١) پس ان دھمکائے ہوئے لوگوں پر بری بارش ہوئی۔ (۲)‏

۱۔ ان پر عذاب آیا، اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور کھنگرو کی بارش ہوئی۔

۲۔  یعنی جنہیں پیغمبروں کے ذریعے سے ڈرایا گیا اور ان پر حجت قائم کر دی گئی لیکن وہ تکذیب وانکار سے باز نہیں آئے ۔

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى ۗ

تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے

جن کو اللہ نے رسالت اور بندوں کی رہنمائی کے لئے چنا تاکہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔

آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (۵۹)

کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں۔

یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ ہی کی عبادت بہتر ہے کیونکہ جب خالق رازق اور مالک یہی ہے تو عبادت کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہو سکتا ہے جو نہ کسی چیز کا خالق ہے نہ رازق اور مالک

خیر اگرچہ تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں تفضیل کے معنی میں نہیں ہے مطلق بہتر کے معنی میں ہے اس لیے کہ معبودان باطلہ میں تو سرے سے کوئی خیر ہے ہی نہیں ۔

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً

بھلا بتاؤکہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی؟

فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا ۗ

پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگائے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اگا سکتے،

یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش، رزق اور تدبیر وغیرہ میں متفرد ہے۔ کوئی اسکا شریک نہیں ہے۔

فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا اسی طرح زمین اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے بارونق باغات اگانے والا کون ہے؟

 کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے؟

 ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (مثلا ًسورہ العنکبوت ٦۳)

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ

 کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟

یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو؟

یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو؟

یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔

أَمَّنْ کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں؟  (ابن کثیر)

بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ (۶۰)

بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں (سیدھی راہ سے)۔‏

اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔

أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ۗ

کیا وہ جسنے زمین کو قرار گاہ بنایا (١) اور اسکے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اسکے لئے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی (٢)

۱۔ یعنی ساکن اور ثابت، نہ ہلتی ہے، نہ ڈولتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر رہنا ممکن ہی نہ ہوتا زمین پر بڑے بڑے پہاڑ بنانے کا مقصد بھی زمین کو حرکت کرنے سے اور ڈولنے سے روکنا ہی ہے۔

۲۔  اس کی تشریح کے لئے دیکھیں سورہ الفرقان۔٥٣ کا حاشیہ

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ

 کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟

بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۶۱)

 بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں۔‏

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ

بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے (١) اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے (٢)

۱۔ یعنی وہی اللہ ہے جسے سختی کے وقت پکارا جاتا اور مصیبتوں کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔   الْمُضْطَرَّ (لاچار) اس کی طرف رجوع کرتا اور برائی کو وہی دور کرتا ہے۔

مزید ملاحظہ ہو سورۃ الا سراء۔ ٦٧ سورہ النمل۔٥٣

۲۔  یعنی ایک امت کے بعد دوسری، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کرنا ہے۔ ورنہ اگر وہ سب کو ایک ہی وقت میں وجود بخش دیتا تو زمین تنگ ہونے کا شکوہ کرتی معیشت میں بھی دشواریاں پیدا ہوتیں اور سب کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں ہی مصروف و سرگرداں رہتے۔ یعنی یکے بعد دیگرے انسانوں کو پیدا کرنا اور ایک کو دوسرے کا جانشین بنانا، یہ بھی اس کی کمال مہربانی ہے۔

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (۶۲)

 کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔‏

أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۗ

کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے (١) اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے (٢)

۱۔ یعنی آسمانوں پر ستاروں کو درخشانی عطا کرنے والا کون ہے؟ جن سے تم تاریکیوں میں راہ پاتے ہو،

 پہاڑوں اور وادیوں کا پیدا کرنے والا کون ہے جو ایک دوسرے کے لئے سرحدوں کا کام بھی دیتے ہیں اور راستوں کی نشان دہی کا بھی۔

۲۔  یعنی بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں، جو بارش کی خوشخبری ہی نہیں ہوتیں، بلکہ ان سے خشک سالی کے مارے ہوئے لوگوں میں خوشی کی لہر بھی دوڑ جاتی ہے۔

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (۶۳)

 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند و بالا تر ہے۔‏

أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ

کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا (١) اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے (٢)

۱۔ یعنی قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا۔

۲۔  یعنی آسمان سے بارش نازل فرما کر، زمین سے اس کے چھپے خزانے (غلہ جات اور میوے) پیدا فرماتا ہے اور یوں آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے۔

أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۶۴)

 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔‏

قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ

کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا

یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی اور الہام کے ذریعے سے انہیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

 جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لئے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔  (صحیح بخاری)

حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے بےخبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہوگا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہوگا ۔ فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہوگا تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانورں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر)

وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (۶۵)

انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھ کھڑے کئے جائیں گے۔‏

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ

بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہو چکا ہے،

یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔

بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا ۖ بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ (۶۶)

بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں۔ بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں ۔

یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں‘ بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ (۶۷)

کافروں نے کہا کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی۔ کیا ہم پھر نکالے جائیں گے۔‏

لَقَدْ وُعِدْنَا هَذَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (۶۸)

ہم اور ہمارے باپ دادوں کو بہت پہلے سے یہ وعدے دیئے جاتے رہے۔ کچھ نہیں یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں ۔

یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں، بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ (۶۹)

کہہ دیجئے کہ زمین میں چل پھر کر ذرا دیکھو تو سہی کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا  

یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقیناً سچ ہے۔

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (۷۰)

آپ ان کے بارے میں غم نہ کریں اور ان کے داؤں گھات سے تنگ دل نہ ہوں۔‏

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۷۱)

کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہے اگر سچے ہو تو بتلا دو۔‏

قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ (۷۲)

جواب دیجئے! کہ شاید بعض وہ چیزیں جن کی تم جلدی مچا رہے ہو تم سے بہت ہی قریب ہوگئی ہوں

اس سے مراد جنگ بدر کا وہ عذاب ہے جو قتل اور اسیری کی شکل میں کافروں کو پہنچایا یا عذاب قبر ہے

  رَدِفَ ، قرب کے معنی میں ہے، جیسے سواری کی عقبی نشست پر بیٹھنے والے کو  ردیف کہا جاتا ہے۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ (۷۳)

یقیناً آپ کا پروردگار تمام لوگوں پر بڑے ہی فضل والا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں

یعنی عذاب میں تاخیر، یہ بھی اللہ کے فضل و کرم کا ایک حصہ ہے، لیکن لوگ پھر بھی اس سے انکار کر کے ناشکری کرتے ہیں۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ (۷۴)

بیشک آپ کا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جنہیں ان کے سینے چھپا رہے ہیں اور جنہیں ظاہر کر رہے ہیں۔‏

وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (۷۵)

آسمان اور زمین کی کوئی پوشیدہ چیز بھی ایسی نہیں جو روشن اور کھلی کتاب میں نہ ہو

اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ان ہی غائب چیزوں میں اس عذاب کا علم بھی ہے جس کے لئے یہ کفار جلدی مچاتے ہیں لیکن اس کا وقت بھی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جسے صرف وہی جانتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جو اس نے کسی قوم کی تباہی کے لئے لکھ رکھا ہے، تو پھر اسے تباہ کر دیتا ہے۔ یہ مقررہ وقت آنے سے پہلے جلدی کیوں کرتے ہیں؟

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (۷۶)

یقیناً یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان اکثر چیزوں کا بیان کر رہا جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں

اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کے عقائد بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے تھے اور عیسائی ان کی شان میں غلو۔ حتٰی کہ انہیں، اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔

 قرآن کریم نے ان کے حوالے سے ایسی باتیں بیان فرمائیں، جن سے حق واضح ہو جاتا ہے اور اگر وہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کو مان لیں تو ان کے عقائدی اختلاف اور تفریق و انتشار کم ہو سکتا ہے۔

وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (۷۷)

اور یہ قرآن ایمان والوں کے لئے یقیناً ہدایت اور رحمت ہے

مؤمنوں کا اختصاص اس لئے کہ وہی قرآن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ انہیں میں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں جو ایمان لے آئے تھے۔

إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (۷۸)

آپ کا رب ان کے درمیان اپنے حکم سے سب فیصلے کر دے گا (١) وہ بڑا ہی غالب اور دانا ہے۔‏

یعنی قیامت میں ان کے اختلافات کا فیصلہ کر کے حق کو باطل سے ممتاز کر دے گا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا

 یا انہوں نے اپنی کتابوں میں جو تعریفیں کی ہیں، دنیا میں ہی ان کا پردہ چاک کر کے ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔

فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۖ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ (۷۹)

پس آپ یقیناً اللہ ہی پر بھروسہ رکھئے، یقیناً آپ سچے اور کھلے دین پر ہیں

یعنی اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دیں اور اسی پر اعتماد کریں، وہی آپ کا مددگار ہے۔

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (۸۰)

بیشک آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں (١) جبکہ پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں۔‏(۲)

۱۔ یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ و نصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔

۲۔ یعنی وہ حق سے مکمل طور پر گریزا اور متنفر ہیں کیونکہ بہرہ آدمی رو در رو بھی کوئی بات نہیں سن پاتا چہ جائیکہ اس وقت سن سکے جب وہ منہ موڑ لے اور پیٹھ پھرے ہوئے ہو۔قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سماع موتی کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے۔ مردے کسی کی بات نہیں سن سکتے۔

وَمَا أَنْتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ۖ

اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر رہنمائی کر سکتے ہیں

یعنی جن کو اللہ تعالیٰ حق سے اندھا کر دے، آپ ان کی اس طرح رہنمائی نہیں فرما سکتے جو انہیں مطلوب یعنی ایمان تک پہنچا دے۔

إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ (۸۱)

آپ تو صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہیں پھر وہ فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔‏

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ

جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا، (١) ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا (٢)

۱۔ یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔

۲۔  یہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور نکلنا ہے۔ (صحیح بخاری)

دوسری روایت میں ہے:

 سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہوگی، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے فوراً بعد ظاہر ہو جائے گی ۔ (صحیح بخاری)

كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ (۸۲)

کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔

یہ جانور کے نکلنے کی علت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی یہ نشانی اس لیے دکھلائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں یا آیتوں پر یقین نہیں رکھتے۔

 بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ وہ جانور اپنی زبان سے ادا کرے گا تاہم اس جانور کے لوگوں سے کلام کرنے میں تو کوئی شک نہیں کیونکہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ (۸۳)

اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کر لائیں گے

 پھر وہ سب کے سب الگ کر دیئے جائیں گے  

یا قسم قسم کر دیئے جائیں گے۔ یعنی زانیوں کا ٹولہ، شرابیوں کا ٹولہ وغیرہ۔

یا یہ معنی ہیں کہ ان کو روکا جائے گا۔ یعنی ان کو اِدھر اُدھر اور آگے پیچھے ہونے سے روکا جائے گا اور سب کو ترتیب وار لا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

حَتَّى إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُمْ بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا

جب سب کے سب آپہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نے میری آیتوں کو باوجودیکہ تمہیں ان کا پورا علم نہ تھا کیوں جھٹلایا؟

یعنی تم نے میری توحید اور دعوت کے دلائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ اور اس کے بغیر ہی میری آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔

أَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۸۴)

اور یہ بھی بتلاؤ کہ تم کیا کرتے رہے؟  

جس کی وجہ سے تمہیں میری باتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ (۸۵)

بسبب اس کے کہ انہوں نے ظلم کیا تھا ان پر بات جم جائے گی اور وہ کچھ بول نہ سکیں گے

یعنی ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا کہ جسے وہ پیش کر سکیں۔

یا قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے بولنے کی قدرت سے ہی محروم ہونگے اور بعض کے نزدیک یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔

أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ

کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایا ہے کہ وہ اس میں آرام حاصل کرلیں اور دن کو ہم نے دکھلانے والا بنایا ہے

تاکہ وہ اس میں کسب معاش کے لئے دوڑ دھوپ کر سکیں۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۸۶)

یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان و یقین رکھتے ہیں۔‏

وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۚ

جس دن صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب آسمانوں والے اور زمین والے گھبرا اٹھیں گے (١) مگر جسے اللہ تعالیٰ چاہے (٢)

۱۔ صور سے مراد وہی قرن ہے جس میں اسرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے پہلی پھونک میں ساری دنیا گھبرا کر بےہوش اور دوسری پھونک میں موت سے ہم کنار ہو جائے گی اور تیسری پھونک میں سب لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہونگے جس سے سب لوگ میدان محشر میں اکھٹے ہو جائیں گے۔

یہاں کون سا نفحہ مراد ہے؟ امام ابن کثیر کے نزدیک یہ پہلا نفحہ اور امام شوکانی کے نزدیک تیسرا نفحہ ہے جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔

۲۔  یہ مشتثنیٰ لوگ کون ہونگے۔

بعض کے نزدیک انبیاء و شہدا، بعض کے نزدیک فرشتے اور بعض کے نزدیک سب اہل ایمان ہیں۔

 امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تمام مذکورین ہی اس میں شامل ہوں کیونکہ اہل ایمان حقیقی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔

وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ (۸۷)

اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہونگے۔‏

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ

اور پہاڑوں کو دیکھ کر اپنی جگہ جمے ہوئے خیال کرتے ہیں لیکن وہ بھی بادل کی طرح اڑتے پھریں گے

یہ قیامت والے دن ہوگا کہ پہاڑ اپنی جگہوں پر نہیں رہیں گے بلکہ بادلوں کی طرح چلیں گے اور اڑیں گے۔

صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ

یہ ہے صنعت اللہ کی جس نے ہرچیز کو مضبوط بنایا ہے

یعنی یہ اللہ کی عظیم قدرت سے ہوگا جس نے ہرچیز کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن وہ ان مضبوط چیزوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح کر دینے پر قادر ہے۔

إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (۸۸)

جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ باخبر ہے۔‏

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ (۸۹)

جو لوگ نیک عمل لائیں گے انہیں اس سے بہتر بدلہ ملے گا اور وہ اس دن گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے

یعنی حقیقی اور بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوں گے۔

وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۹۰)

اور جو برائی لے کر آئیں گے وہ اوندھے منہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ صرف وہی بدلہ دیئے جاؤ گے جو تم کرتے رہے ہو۔‏

إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ

مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے (١) جسکی ملکیت ہرچیز ہے

اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لئے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا ۔

' حرمت والا ' کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا درخت کاٹنا حتّٰی کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے۔  (بخاری کتاب الجنائز)

وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۹۱)

اور مجھے بھی فرمایا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں ہو جاؤں۔‏

وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ ۖ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ

اور میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں، جو راہ راست پر آجائے وہ اپنے نفع کے لئے راہ راست پر آئے گا۔

وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ (۹۲)

اور جو بہک جائے تو کہہ دیجئے! کہ میں صرف ہوشیار کرنے والوں میں سے ہوں ۔

یعنی میرا کام صرف تبلیغ ہے۔ میری دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہو جائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، اور جو میری دعوت کو نہیں مانے گا، تو میرا کیا؟ اللہ تعالیٰ خود ہی اس سے حساب لے لے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا۔

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ

کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں (١) وہ عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم (خود) پہچان لو گے (۲)

۱۔ کہ جو کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک دلیل قائم نہیں کر دیتا۔

۲۔ دوسرے مقام پر فرمایا:

ہم انہیں آفاق وانفس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے تاکہ ان پر حق واضح ہو جائے۔ (۴۱:۵۳)

 اگر زندگی میں یہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو موت کے وقت تو ان نشانیوں کو دیکھ کر ضرور پہچان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت کی معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس لئے کہ اس وقت ایمان مقبول نہیں۔

وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۹۳)

اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے آپ کا رب غافل نہیں ۔‏

  بلکہ ہرچیز کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس میں کافروں کے لئے ترہیب شدید اور تہدید عظیم ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter