Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Shu'ra

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


طسم (۱)

طسم

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ (۲)

یہ آیتیں روشن کتاب کی ہیں

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (۳)

ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھو دیں گے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت سے جو ہمدردی اور ان کی ہدایت کے لئے جو تڑپ تھی، اس میں اس کا اظہار ہے۔

إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ (۴)

اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں

یعنی جسے مانے اور جس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح جبر کا پہلو شامل ہو جاتا، جب کہ ہم نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اس لئے ہم نے ایسی نشانی بھی اتارنے سے گریز کیا جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو۔ اور صرف انبیاء و رسل بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔

وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنَ الرَّحْمَنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَ (۵)

اور ان کے پاس رحمان کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آئی یہ اس سے روگردانی کرنے والے بن گئے۔‏

فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۶)

ان لوگوں نے جھٹلایا ہے اب انکے پاس جلدی سے اسکی خبریں آجائیں گی جسکے ساتھ وہ مسخرا پن کر رہے ہیں

یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزاء ومذاق کرتے ہیں یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں بصورت دیگر آخرت میں تو اس سے کسی صورت چھٹکارا نہیں ہوگا ۔

 ماکانوا عنہ معرضین نہیں کہا بلکہ  مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ کہا کیونکہ استہزا ایک تو اعراض وتکذیب کو بھی مستلزم ہے دوسرے یہ اعراض وتکذیب سے زیادہ بڑا جرم ہے۔ فتح القدیر

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (۷)

کیا انہوں نے زمین پر نظریں نہیں ڈالیں کہ ہم نے اس میں ہر طرح کے نفیس جوڑے کس قدر اگائے ہیں؟

زَوْج کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کیئے گئے ہیں۔

 یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کے لئے بہتر اور فائدے مند ہیں۔ جیسے غلہ جات ہیں پھل میوے ہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۸)

بیشک اس میں یقیناً نشانی ہے (١) اور ان میں کے اکثر لوگ مؤمن نہیں ہیں (٢)‏

۱۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کر سکتا ہے، تو کیا انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا۔

۲۔  یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۹)

اور تیرا رب یقیناً وہی غالب اور مہربان ہے ۔

یعنی ہرچیز پر اس کا غلبہ اور انتقام لینے پر وہ ہر طرح قادر ہے لیکن چونکہ وہ رحیم بھی ہے اس لئے فوراً گرفت نہیں فرماتا بلکہ پوری مہلت دیتا ہے اور اس کے بعد مؤاخذہ کرتا ہے۔

وَإِذْ نَادَى رَبُّكَ مُوسَى أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (۱۰)

اور جب آپ کے رب نے موسیٰ کو آواز دی کہ تو ظالم قوم کے پاس جا ۔‏

یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آرہے تھے، راستے میں انہیں حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں نداء غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں نبوت سے سرفراز کر دیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انکو سونپ دیا گیا۔

قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۚ أَلَا يَتَّقُونَ (۱۱)

قوم فرعون کے پاس، کیا وہ پرہیزگاری نہ کریں گے۔‏

قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ (۱۲)

مو سیٰؑ نے کہا میرے پروردگار! مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا (نہ) دیں۔‏

وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إِلَى هَارُونَ (۱۳)

اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے (١) میری زبان چل نہیں رہی (٢) پس تو ہارون کی طرف بھی (وحی) بھیج ۔‏(٣)

۱۔ اس خوف سے کہ وہ نہایت سرکش ہے، میری تکذیب کرے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ طبع خوف انبیاء کو بھی لا حق ہو سکتا ہے۔

۲۔  یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام زیادہ بول نہیں سکتے تھے۔ یا اس طرف کہ زبان پر انگارہ رکھنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہوگئی تھی، جسے اہل تفسیر بیان کرتے ہیں۔

۳۔  یعنی ان کی طرف جبرائیل علیہ السلام کو وحی دے کر بھیج اور انہیں بھی نبوت سے سرفراز فرما کر میرا معاون بنا۔

وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ (۱۴)

اور ان کا مجھ پر میرے ایک قصور کا (دعویٰ) بھی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے مار نہ ڈالیں

یہ اشارہ ہے اس قتل کی طرف، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے غیر ارادی طور پر ہوگیا تھا اور مقتول قبطی یعنی فرعون کی قوم سے تھا، اس لئے فرعوں اس کے بدلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس کی اطلاع پا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ اس واقعہ پر اگرچہ کئی سال گزر چکے تھے، مگر فرعون کے پاس جانے میں واقعی یہ امکان موجود تھا کہ فرعون ان کو اس جرم میں پکڑ کر قتل کی سزا دینے کی کوشش کرے۔ اس لئے یہ خوف بھی بلا جواز نہیں تھا۔

قَالَ كَلَّا ۖ فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا ۖ إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ (۱۵)

جناب باری تعالیٰ نے فرمایا! ہرگز ایسا نہ ہوگا، تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ (١) ہم خود سننے والے تمہارے ساتھ ہیں (٢)‏

۱۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام ان کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔

آیات سے مراد وہ دلائل ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے، جیسے یدِ بیضا اور عصا۔

۲۔  یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہونگے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضہ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بےپرواہ نہیں ہوجائیں گے بلکہ نصرت ومعاونت ہے۔

فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۶)

تم دونوں فرعون کے پاس جا کر کہو کہ بلاشبہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں۔‏

أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ (۱۷)

کہ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل روانہ کر دے

یعنی ایک بات یہ کہو کہ ہم تیرے پاس اپنی مرضی سے نہیں آئے ہیں بلکہ رب العالمین کے نمائندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ تو نے (چار سو سال سے) بنی اسرائیل غلام بنا رکھا ہے، ان کو آزاد کر دے تاکہ میں انہیں شام کی سرزمین پر لے جائیں، جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔

‎ قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا

فرعوں نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں اپنے ہاں نہیں پالا تھا؟

فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کی بجائے، ان کی جوابدہی کرنی شروع کر دی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے؟

وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ (۱۸)

اور تو نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے؟

بعض کہتے ہیں کہ ١٨ سال فرعون کے محل میں بسر کئے، بعض کے نزدیک ٣٠ سال اور بعض کے نزدیک چالیس سال یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزرانے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا؟

وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۱۹)

پھر تو اپنا وہ کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں میں ہے ۔‏

پھر ہمارا ہی کھا کر ہماری ہی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ہماری ناشکری بھی کی۔

قَالَ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ (۲۰)

موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ میں نے اس کام کو اس وقت کیا تھا جبکہ میں راہ بھولے ہوئے لوگوں میں سے تھا

یعنی یہ قتل ارادتاً نہیں تھا بلکہ ایک گھونسہ ہی تھا جو اسے مارا تھا، اس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

علاوہ ازیں یہ واقعہ بھی نبوت سے قبل کا ہے جب کہ مجھ کو علم کی یہ روشنی نہیں دی گئی تھی۔

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ (۲۱)

پھر تم سے خوف کھا کر میں تم میں سے بھاگ گیا، پھر مجھے میرے رب نے حکم و علم عطا فرمایا اور مجھے پیغمبروں میں سے کر دیا

یعنی پہلے جو کچھ ہوا، اپنی جگہ، لیکن اب میں اللہ کا رسول ہوں، اگر میری اطاعت کرے گا تو بچ جائے گا، بصورت دیگر ہلاکت تیرا مقدر ہوگی۔

وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرَائِيلَ (۲۲)

مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے؟ جسے تو جتلا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے

یعنی یہ اچھا احسان ہے جو تو مجھے جتلا رہا ہے کہ مجھے تو یقیناً تو نے غلام نہیں بنایا اور آزاد چھوڑے رکھا لیکن میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس ظلم عظیم کے مقابلے میں اس احسان کی آخر حیثیت کیا ہے؟

قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ (۲۳)

فرعون نے کہا رب العالمین کیا (چیز) ہے؟

یہ اس نے بطور دریافت کے نہیں، بلکہ جواب کے طور پر کہا، کیونکہ اس کا دعویٰ تو یہ تھا

مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہِ غَیْرِیْ

میں اپنے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود جانتا ہی نہیں ۔(۲۸:۳۸)

قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ (۲۴)

موسیٰ ؑنے فرمایا وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔‏

قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ (۲۵)

فرعون نے اپنے گرد والوں سے کہا کیا تم سن نہیں رہے؟

یعنی کیا تم اس کی بات پر تعجب نہیں کرتے کہ میرے سوا بھی کوئی اور معبود ہے؟

قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ (۲۶)

موسیٰ ؑ نے فرمایا وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا پروردگار ہے۔‏

قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ (۲۷)

فرعون نے کہا (لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے۔‏

قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ (۲۸)

موسیٰؑ نے فرمایا مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب (١) ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔‏

یعنی جس نے مشرق کو مشرق بنایا، جس سے کواکب طلوع ہوتے ہیں اور مغرب کو مغرب بنایا جس میں کواکب غروب ہوتے ہیں۔

 اسی طرح ان کے درمیان جو کچھ ہے، ان سب کا رب اور ان کا انتظام کرنے والا بھی وہی ہے۔

قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ (۲۹)

فرعون کہنے لگا سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دونگا

فرعون نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام مختلف انداز سے رب العالمین کی ربوبیت کامل کی وضاحت کر رہے ہیں جس کا کوئی معقول جواب اس سے نہیں بن پا رہا ہے۔ تو اس نے دلائل سے صرف نظر انداز کرکے دھمکی دینی شروع کر دی اور موسیٰ علیہ السلام کو قید کرنے سے ڈرایا۔

قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُبِينٍ (۳۰)

مو سیٰؑ نے کہا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں؟

یعنی ایسی چیز یا معجزہ جس سے واضح ہو جائے کہ میں سچا اور واقعی اللہ کا رسول ہوں، تب بھی تو میری صداقت کو تسلیم نہیں کرے گا؟

قَالَ فَأْتِ بِهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۳۱)

فرعوں نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر۔‏

فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (۳۲)

آپ نے (اسی وقت) اپنی لاٹھی ڈال دی جو اچانک کھلم کھلا (زبردست) اژدھا بن گئی

بعض جگہ  ثُعْبَان کو  حیۃ اور بعض جگہ جان کہا گیا ہے  ثُعْبَان وہ سانپ ہوتا ہے جو بڑا ہو اور جان چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں اور  حیۃ چھوٹے بڑے دونوں قسم کے سانپوں پر بولا جاتا ہے۔ فتح القدیر

 گویا لاٹھی نے پہلے چھوٹے سانپ کی شکل اختیار کی پھر دیکھتے دیکھتے اژدھا بن گئی۔ واللہ اعلم

وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (۳۳)

اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اسی وقت دیکھنے والے کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا

یعنی گریبان سے ہاتھ نکالا تو چاند کے ٹکڑے کی طرح چمکتا تھا ؛ یہ دوسرا معجزہ موسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا۔

قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَهُ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ (۳۴)

فرعون اپنے آس پاس کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے

فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتا اور ایمان لاتا، اس نے جھٹلانے اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بابت کہا کہ یہ کوئی بڑا فنکار جادوگر ہے۔

يُرِيدُ أَنْ يُخْرِجَكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ (۳۵)

یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے ہی نکال دے، بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو ۔‏

پھر اپنی قوم کو مزید بھڑکانے کے لئے کہا کہ وہ ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے سے تمہیں یہاں سے نکال کر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے۔

 اب بتلاؤ! تمہاری کیا رائے ہے؟

یعنی اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔

قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (۳۶)

ان سب نے کہا آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجئے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے۔‏

يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيمٍ (۳۷)

جو آپ کے پاس ذی علم جادوگروں کو لے آئیں

یعنی ان دونوں کو فی الحال اپنے حال پر چھوڑ دو، اور تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کرکے ان کا باہمی مقابلہ کیا جائے تاکہ ان کے کرتب کا جواب اور تیری تائید و نصرت ہو جائے۔ اور یہ اللہ ہی کی طرف سے سب انتطام تھا تاکہ لوگ ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں اور دلائل کا بہ چشم خود مشاہدہ کریں، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے۔

فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ (۳۸)

پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کئے گئے

چنانچہ جادوگروں کی ایک بہت بڑی تعداد مصر کے اطراف و جوانب سے جمع کر لی گئی، ان کی تعداد ١٢ ہزار، ١٧ ہزار ۱۹ ہزار، ٣٠ ہزار اور ٨٠ ہزار (مختلف اقوال کے مطابق) بتلائی جاتی ہے۔ اصل تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ کسی مستند مأخذ میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات اس سے قبل سورہ اعراف، سورہ طہ میں بھی گزر چکی ہیں

 گویا فرعون کی قوم قبط نے اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھانا چاہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتا تھا چنانچہ کفر وایمان کے معرکے میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کفر خم ٹھونک کر ایمان کے مقابلے میں آتا ہے تو ایمان کو اللہ تعالیٰ سرخروئی اور غلبہ عطا فرماتا ہے۔ جس طرح فرمایا:

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۔ (۲۱:۱۸)

بلکہ ہم سچ کو چھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں پس وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے۔

وَقِيلَ لِلنَّاسِ هَلْ أَنْتُمْ مُجْتَمِعُونَ (۳۹)

اور عام لوگوں سے بھی کہہ دیا گیا کہ تم بھی مجمع میں حاضر ہو جاؤ گے؟

یعنی عوام کو بھی تاکید کی جا رہی ہے کہ تمہیں بھی یہ معرکہ دیکھنے کے لئے ضرور حاضر ہونا ہے۔

لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِنْ كَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ (۴۰)

تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم انکی پیروی کریں۔‏

فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالُوا لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ (۴۱)

جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟‏

قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (۴۲)

فرعون نے کہا ہاں! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے۔‏

قَالَ لَهُمْ مُوسَى أَلْقُوا مَا أَنْتُمْ مُلْقُونَ (۴۳)

موسیٰ ؑ نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈال دو ۔‏

حضرت موسیٰ علیہ السلام  کی طرف سے جادوگروں کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کے لئے کہنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان پر یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کے پیغمبر اتنی بڑی تعداد میں نامی گرامی جادوگروں کے اجتماع اور ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیوں سے خوف زدہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ جب اللہ کے حکم سے یہ ساری شعبدہ بازیاں آن واحد میں ختم ہو جائیں گی تو دیکھنے والوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہونگے اور شاید اس طرح زیادہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں۔

 چنانچہ ایسا ہی ہوا، بلکہ جادوگر ہی سب سے پہلے ایمان لے آئے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ (۴۴)

انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم! ہم یقیناً غالب ہی رہیں گے (١)‏

جیسا کہ سورہ اعراف اور طٰہٰ میں گزرا کہ ان جادوگروں نے اپنے خیال میں بہت بڑا جادو پیش کیا،  سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ  وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ۔ (۷:۱۱۶) حتٰی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے دل میں خوف محسوس کیا،۔   فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى۔ (۲۰:۶۷)

چنانچہ ان جادوگروں کو اپنی کامیابی اور برتری کا بڑا یقین تھا، جیسا کہ یہاں ان الفاظ سے ظاہر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ذرا اپنی لاٹھی زمین پر پھینکو اور پھر دیکھو۔ چنانچہ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ اس نے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کر لی اور ایک ایک کر کے ان سارے کرتبوں کو نگل گیا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

فَأَلْقَى مُوسَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (۴۵)

اب موسیٰؑ نے بھی اپنی لاٹھی میدان میں ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کر دیا۔‏

فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (۴۶)

یہ دیکھتے ہی جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے۔‏

قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۴۷)

اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو اللہ رب العالمین پر ایمان لائے۔‏

رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ (۴۸)

یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔‏

قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ

فرعون نے کہا کہ میری اجازت سے پہلے تم اس پر ایمان لے آئے؟

إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ۚ

یقیناً یہی تمہارا بڑا (سردار) ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا (١) سو تمہیں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا،

فرعون کے لئے یہ واقعہ بڑا عجیب اور نہایت حیرت ناک تھا جن جادوگروں کے ذریعے وہ فتح و غلبہ کی آس لگائے بیٹھا تھا وہی نہ صرف مغلوب ہوگئے بلکہ موقع پر ہی وہ اس رب پر ایمان لے آئے، جس نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا لیکن بجائے اس کے کہ فرعون بھی غور و فکر سے کام لیتا اور ایمان لاتا، اس نے مکابرہ اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور جادوگروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا اور کہا کہ تم سب اسی کے شاگرد لگتے ہو اور تمہارا استاد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے ذریعے سے تم ہمیں یہاں سے بےدخل کر دو۔

إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا۔ (۷:۱۲۳)

لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ (۴۹)

قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دونگا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دونگا۔

الٹے طور پر ہاتھ پاؤں کاٹنے کا مطلب دایاں ہاتھ اور بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر ہے۔ اس پر سولی مستزاد یعنی ہاتھ پیر کاٹنے سے بھی اس کی آتش غضب ٹھنڈی نہ ہوئی مذید اس نے سولی پر لٹکانے کا اعلان کیا۔

قَالُوا لَا ضَيْرَ ۖ إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ (۵۰)

انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں (١) ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ہی۔‏

 لَا ضَيْرَ ۔ کوئی حرج نہیں یا ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔

 یعنی اب جو سزا چاہے دے لے، ایمان سے نہیں پھر سکتے۔

إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَنْ كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ (۵۱)

اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان والے بنے ہیں (١) ہمیں امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں معاف فرما دے گا۔‏

 أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ اس اعتبار سے کہا کہ فرعون کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور انہوں نے قبول ایمان میں سبقت کی۔

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ (۵۲)

اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کئے جاؤ گے

جب مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قیام لمبا ہو گیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کر دی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب سے دوچار کر کے سامان عبرت بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔

فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (۵۳)

فرعون نے شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیا۔‏

إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ (۵۴)

کہ یقیناً یہ گروہ بہت ہی کم تعداد میں ہے

یہ بطور تحقیر کے کہا، ورنہ ان کی تعداد چھ لاکھ بتلائی جاتی ہے۔

وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ (۵۵)

اور اس پر یہ ہمیں سخت غضبناک کر رہے ہیں

یعنی میری اجازت کے بغیر ان کا یہاں سے فرار ہونا ہمارے لئے غیظ و غضب کا باعث ہے۔

وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ (۵۶)

اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں ان سے چوکنا رہنے والے

اس لیے ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔

فَأَخْرَجْنَاهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (۵۷)

بالآخر ہم نے انہیں باغات سے اور چشموں سے۔‏

وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ (۵۸)

اور خزانوں سے۔ اور اچھے اچھے مقامات سے نکال باہر کیا

یعنی فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں کیا نکلا، کہ پلٹ کر اپنے گھروں اور باغات میں آنا نصیب ہی نہیں ہوا، یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت سے انہیں تمام نعمتوں سے محروم کر کے ان کا وارث دوسروں کو بنا دیا۔

كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ (۵۹)

اسی طرح ہوا اور ہم نے ان (تمام) چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا

یعنی جو اقتدار اور بادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کر دی۔

بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیاوی جاہ جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا۔ کیونکہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔

نیز سورہ دخان میں فرمایا کہ ' ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا ' ۔ (أیسر التفاسیر)

اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ  قوماً ًآخرین میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورہ شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت آگئی ہے تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہوگی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ مؤخر کرکے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں ویسی ہی نعتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں واللہ اعلم۔

فَأَتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِينَ (۶۰)

پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے

یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ نبی اسرائیل راتوں رات یہاں سے نکل گئے، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔

فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ (۶۱)

پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، ہم یقیناً پکڑ لئے گئے

یعنی فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ، گھبرا اٹھے کہ آگے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، اب بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟

اب دوبارہ وہی فرعون اور اس کی غلامی ہوگی۔

قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (۶۲)

موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقینا ًنجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔

فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ (۶۳)

ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مارو (١) پس اس وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا (۲)‏

۱۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ راہنمائی اور نشان دہی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، جس سے دائیں طرف کا پانی دائیں طرف اور بائیں طرف کا پانی بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ راستہ بن گیا کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ راستے بن گئے تھے واللہ عالم۔

۲۔   فِرْق قطعہ بحر، سمندر کا حصہ

 طَوْدِ پہاڑ۔

 یعنی پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کا صدور ہوا تاکہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم فرعون سے نجات پالے اس تائید الہی کے بغیر فرعون سے نجات ممکن نہیں تھی۔

وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ (۶۴)

اور ہم نے اسی جگہ دوسروں کو نزدیک لا کھڑا کر دیا ۔

اس سے مراد فرعون اور اس کا لشکر ہے یعنی ہم نے دوسروں کو سمندر کے قریب کر دیا۔

وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ (۶۵)

اور موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہم نے نجات دی۔‏

ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ (۶۶)

پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا  

موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہم نے نجات دی اور فرعون اور اس کا لشکر جب انہی راستوں سے گزرنے لگا تو ہم نے سمندر کو دوبارہ حسب دستور رواں کر دیا، جس سے فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۶۷)

یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کے اکثر لوگ ایمان والے نہیں  

یعنی اگرچہ اس واقعہ میں، جو اللہ کی نصرت و معاونت کا واضح مظہر ہے، بڑی نشانی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۶۸)

اور بیشک آپ کا رب بڑا ہی غالب و مہربان ہے۔‏

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ (۶۹)

انہیں ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی سنا دو۔‏

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ (۷۰)

جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟‏

قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ (۷۱)

انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں  

یعنی رات دن ان کی عبادت کرتے ہیں۔

قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ (۷۲)

آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وہ سنتے بھی ہیں؟‏

أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ (۷۳)

یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ۔

یعنی اگر تم ان کی عبادت ترک کر دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں؟

قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (۷۴)

انہوں نے کہا یہ (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا  

جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے تو یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل کر لیا۔ کہ ہمارے آباؤ اجداد سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔

قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ (۷۵)

آپ نے فرمایا کچھ خبر بھی ہے (١) جنہیں تم پوج رہے ہو؟‏

 أَفَرَأَيْتُمْ کے معنی ہیں کیا تم نے غور و فکر کیا؟

أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ (۷۶)

تم اور تمہارے اگلے باپ دادا،‏

فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ (۷۷)

وہ سب میرے دشمن ہیں (١) بجز سچے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے (۲)‏

۱۔ اس لئے کہ تم سب اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنے والے ہو۔

بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جن کی تم اور تمہارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں، وہ سب معبود میرے دشمن ہیں یعنی ان سے بیزار ہوں۔

 ۲۔  یعنی وہ دشمن نہیں، بلکہ وہ تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور دوست ہے۔

الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ (۷۸)

جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے

یعنی دین اور دنیا کے مصالح اور منافع کی طرف۔

وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ (۷۹)

وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے

یعنی بہت سے اقسام کے رزق پیدا کرنے والا اور جو پانی ہم پیتے ہیں، اسے مہیا کرنے والا وہی اللہ ہے

وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (۸۰)

اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے

بیماری کو دور کر کے شفا عطا کرنے والا بھی وہی ہے یعنی دواؤں میں شفا کی تاثیر بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ ورنہ دوائیں بھی بے اثر ثابت ہوتی ہیں ۔

بیماری بھی اگرچہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ہی آتی ہے لیکن اس کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی بلکہ اپنی طرف کی یہ گویا اللہ کے ذکر میں اس کے ادب واحترام کے پہلو کو ملحوظ رکھا۔

وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ (۸۱)

اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زندہ کردے گا  

یعنی قیامت والے دن جب سارے لوگوں کو زندہ فرمائے گا، مجھے بھی زندہ کرے گا۔

وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ (۸۲)

اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا  

یہاں امید، یقین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہوگی اسی لئے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے عَسَیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔

  خَطِيئَتِي ، خطیئۃ واحد کا صیغہ ہے لیکن  خطایا جمع کے معنی میں ہے انبیاء علیہم السلام اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عفو وطلب ہوں گے۔

رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (۸۳)

اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ (١) عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے۔‏

حکم یا حکمت سے مراد علم و فہم، قوت فیصلہ، یا نبوت و رسالت یا اللہ کے حدود و احکام کی معرفت ہے۔

وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ (۸۴)

اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ  

یعنی جو لوگ میرے بعد قیامت تک آئیں گے، وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں،

 اس سے معلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثنائے حسن کی صورت میں بھی عطا فرماتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیر ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں، کسی کو بھی ان کی عظمت و تکریم سے انکار نہیں ہے۔

وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ (۸۵)

مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنادے۔‏

وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ (۸۶)

اور میرے باپ کو بخش دے یقیناً وہ گمراہوں میں سے تھا

یہ دعا اس وقت کی تھی، جب ان پر واضح نہیں تھا کہ مشرک (اللہ کے دشمن) کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے واضح کر دیا، تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کر دی ا (التوبہ۔١١٤)

وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ (۸۷)

اور جس دن کہ لوگ دوبارہ جلائے جائیں مجھے رسوا نہ کر

یعنی تمام مخلوق کے سامنے میرا مؤاخذہ کرکے یا عذاب سے دوچار کرکے

حدیث میں آتا ہے:

 قیامت والے دن، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو برے حال میں دیکھیں گے، تو ایک مرتبہ پھر اللہ کی بارگاہ میں ان کے لئے مغفرت کی درخواست کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ! اس سے زیادہ میرے لئے رسوائی اور کیا ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر ان کے باپ کو نجاست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ (صحیح بخاری)

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (۸۸)

جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔‏

إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (۸۹)

لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بےعیب دل لے کر جائے  

قلب سلیم یا بےعیب دل سے مراد وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو۔ یعنی کلب مؤمن۔ اس لئے کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے۔

 بعض کہتے ہیں، بدعت سے خالی اور سنت پر مطمئن دل،

بعض کے نزدیک دنیا کے مال متاع کی محبت سے پاک دل

اور بعض کے نزدیک، جہالت کی تاریکیوں اور اخلاقی ذلالتوں سے پاک دل۔

 یہ سارے مفہوم بھی صحیح ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کہ قلب مؤمن مذکورہ تمام برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔

وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ (۹۰)

اور پرہیزگاروں کے لئے جنت بالکل نزدیک لا دی جائے گی۔‏

وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ (۹۱)

اور گمراہ لوگوں کے لئے جہنم ظاہر کر دی جائے گی  

مطلب یہ ہے کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے ان کو سامنے کر دیا جائے گا۔ جس سے کافروں کے غم میں اور اہل ایمان کے سرور میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ (۹۲)

اور ان سے پوچھا جائے گا کہ جن کی تم پوجا کرتے رہے وہ کہاں ہیں؟‏

مِنْ دُونِ اللَّهِ هَلْ يَنْصُرُونَكُمْ أَوْ يَنْتَصِرُونَ (۹۳)

جو اللہ تعالیٰ کے سوا تھے، کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں؟ یا کوئی بدلہ لے سکتے ہیں  

یعنی تم سے عذاب ٹال دیں یا خود اپنے نفس کو اس سے بچالیں۔

فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَ (۹۴)

پس وہ سب اور کل گمراہ لوگ جہنم میں اوندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے ۔‏

یعنی معبودین اور عابدین سب کو مال ڈنگر کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیا جائے گا۔

وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ (۹۵)

اور ابلیس کے تمام لشکر (١) بھی وہاں۔‏

اس سے مراد وہ لشکر ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔

قَالُوا وَهُمْ فِيهَا يَخْتَصِمُونَ (۹۶)

آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوئے کہیں گے۔‏

تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۹۷)

کہ قسم اللہ کی! یقیناً ہم تو کھلی غلطی پر تھے۔‏

إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۹۸)

جبکہ تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے

دنیا میں تو ہر تراشا ہوا پتھر اور، مشرکوں کو خدائی اختیارات کا حامل نظر آتا ہے۔ لیکن قیامت کو پتہ چلے گا کہ یہ کھلی گمراہی تھی کہ وہ انہیں رب کے برابر سمجھتے رہے۔

وَمَا أَضَلَّنَا إِلَّا الْمُجْرِمُونَ (۹۹)

اور ہمیں تو سوا ان بدکاروں کے کسی اور نے گمراہ نہیں کیا تھا

یعنی وہاں جا کر احساس ہوگا کہ ہمیں دوسرے مجرموں نے گمراہ کیا۔

 دنیا میں انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام گمراہی ہے۔ بدعت ہے شرک ہے تو نہیں مانتے نہ غور وفکر سے کام لیتے ہیں کہ حق و باطل ان پر واضح ہو سکے۔

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِينَ (۱۰۰)

اب تو ہمارا کوئی سفارشی بھی نہیں۔‏

وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ (۱۰۱)

اور نہ کوئی (سچا) غم خوار دوست ۔

گناہ گار اہل ایمان کی سفارش تو اللہ کی اجازت کے بعد انبیاء صلحاء بالخصوص حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے۔ لیکن کافروں اور مشرکوں کے لئے سفارش کرنے کی کسی کو اجازت ہوگی نہ حوصلہ، اور نہ وہاں کوئی دوستی ہی کام آئے گی۔

فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۱۰۲)

اگر کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر جانا ملتا تو ہم پکے سچے مؤمن بن جاتے۔  

اہل کفر و شرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرکے اللہ کو خوش کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۱۰۳)

یہ ماجرہ یقیناً آپ کے لئے ایک زبردست نشانی ہے (١) ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں (۲)‏

۱۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کے بارے میں اپنی قوم سے مناظرہ اللہ کی توحید کے دلائل، یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

۲۔  بعض نے اس مرجع مشرکین مکہ یعنی قریش کو قرار دیا ہے یعنی ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۱۰۴)

یقیناً آپ کا پروردگار ہی غالب مہربان ہے۔‏

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ (۱۰۵)

قوم نوح نے بھی نبیوں کو جھٹلایا

قوم نوح علیہ السلام نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ قوم نوح علیہ السلام نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ (۱۰۶)

جبکہ ان کے بھائی (١) نوح ؑنے کہا کہ کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں!‏

بھائی اس لئے کہا کہ حضرت نوح علیہ السلام ان ہی کی قوم کے ایک فرد تھے۔

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (۱۰۷)

سنو! میں تمہاری طرف اللہ کا ایماندار رسول ہوں

یعنی اللہ نے جو پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے، وہ بلا کم و کاست تم تک پہنچانے والا ہوں، اس میں کمی بیشی نہیں کرتا۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۰۸)

تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور میری بات ماننی چاہیے  

یعنی میں تمہیں جو ایمان باللہ اور شرک نہ کرنے کی دعوت دے رہا ہوں، اس میں میری اطاعت کرو۔

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۰۹)

میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا بدلہ تو صرف رب العالمین کے ہاں ہے  

میں تمہیں جو تبلیغ کر رہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا، بلکہ اس کا اجر رب العالمین ہی کے ذمے ہے جو قیامت کو عطا فرمائے گا۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۱۰)

پس تم اللہ کا خوف رکھو اور میری فرمانبرداری کرو  

یہ تاکید کے طور پر بھی ہے اور الگ الگ سبب کی بنا پر بھی، پہلے اطاعت کی دعوت، امانت داری کی بنیاد پر تھی اور اب یہ دعوت اطاعت عدم طمع کی وجہ سے ہے۔

قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ (۱۱۱)

قوم نے جواب دیا کہ ہم تجھ پر ایمان لائیں! تیری تابعداری تو رذیل لوگوں نے کی ہے۔  

 الْأَرْذَلُونَ ، ارذل کی جمع ہے،

جاہ و مال رکھنے والے، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں

قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۱۲)

آپ نے فرمایا! مجھے کیا خبر کہ وہ پہلے کیا کرتے رہے؟

یعنی مجھے اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے کہ میں لوگوں کے حسب نسب، امارت و غربت اور ان کے پیشوں کی تفتیش کروں بلکہ میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ایمان کی دعوت دوں اور جو اسے قبول کرلے، چاہے وہ کسی حیثیت کا حامل ہو اسے اپنی جماعت میں شامل کرلوں ۔

إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَى رَبِّي ۖ لَوْ تَشْعُرُونَ (۱۱۳)

ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ (١) ہے اگر تمہیں شعور ہو تو۔‏

یعنی ان کے ضمیروں اور اعمال کی تفتیش یہ اللہ کا کام ہے۔

وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِينَ (۱۱۴)

میں ایمان داروں کو دھکے دینے والا نہیں

یہ ان کی اس خواہش کا جواب ہے کہ کمتر حیثیت کے لوگوں کو اپنے سے دور کر دے، پھر ہم تیری جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔

إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ (۱۱۵)

میں تو صاف طور پر ڈرا دینے والا ہوں

پس جو اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرے گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، چاہے دنیا کی نظر میں وہ شریف ہو یا رذیل، کمینہ ہو یا حقیر۔

قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ (۱۱۶)

انہوں نے کہا کہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کر دیا جائے گا۔‏

قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ (۱۱۷)

آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔‏

فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَنْ مَعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۱۱۸)

پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے باایمان ساتھیوں کو نجات دے۔‏

فَأَنْجَيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (۱۱۹)

چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں (سوار کراکر) نجات دے دی۔‏

ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ (۱۲۰)

بعد ازاں باقی تمام لوگوں کو ڈبو دیا

یہ تفصیلات کچھ پہلے بھی گزر چکی ہیں اور کچھ آئندہ بھی آئیں گی کہ حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے باوجود ان کی قوم کے لوگ بد اخلاقی اور اعراض پر قائم رہے، بالآخر حضرت نوح علیہ السلام نے بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے کشتی بنانے کا اور اس میں مؤمن انسانوں، جانوروں اور ضروری سازو سامان رکھنے کا حکم دیا اور یوں اہل ایمان کو بچا لیا گیا اور باقی سب لوگوں کو حتٰی کہ بیوی اور بیٹے کو بھی، جو ایمان نہیں لائے تھے، غرق کر دیا گیا۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۱۲۱)

یقیناً اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے تھے بھی نہیں۔‏

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۱۲۲)

اور بیشک آپ کا پروردگار البتہ وہی ہے زبردست رحم کرنے والا۔‏

كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ (۱۲۳)

عادیوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا  

عاد، ان کے جد اعلیٰ کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نام پڑ گیا۔ یہاں عاد قبیلہ تصور کر کے  كَذَّبَتْ (صیغہ مؤنث) لایا گیا ہے۔

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ (۱۲۴)

جبکہ ان سے ان کے بھائی ہود (١) نے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں؟۔‏

ہود علیہ السلام کو بھی عاد کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے، جس کی طرف اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور اسی اعتبار سے انہیں اس قوم کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ آگے بھی آئے گا اور انبیاء ورسل کی یہ بشریت بھی ان کی قوموں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی رہی ہے ان کا خیال تھا کہ نبی کو بشر نہیں، مافوق البشر ہونا چاہیے ۔

آج بھی اس مسلمہ حقیقت سے بےخبر لوگ پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مافوق البشر باور کرانے پر تلے رہتے ہیں حالانکہ وہ بھی خاندان قریش کے ایک فرد تھے جن کی طرف اولاً ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (۱۲۵)

میں تمہارا امانتدار پیغمبر ہوں۔‏

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۲۶)

پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو !۔‏

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۲۷)

میں اس پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا ثواب تو تمام جہان کے پروردگار کے ہی پاس ہے۔‏

أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ (۱۲۸)

کیا تم ایک ایک ٹیلے پر بطور کھیل تماشہ یادگار (عمارت) بنا رہے ہو ۔

رِيعٍ ، ریعۃ، کی جمع ہے۔ ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، درہ یا گھاٹی یہ ان گزر گاہوں پر کوئی عمارت تعمیر کرتے جو بلندی پر ایک نشانی مشہور ہوتی۔ لیکن اس کا مقصد اس میں رہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف کھیل کود ہوتا تھا۔

 حضرت ہود علیہ السلام نے منع فرمایا کہ یہ تم ایسا کام کرتے ہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے جس سے دین اور دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ صرف کھیل کود ہوتا ہے بیکار محض بےفائدہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔

وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ (۱۲۹)

اور بڑی صنعت والے (مضبوط محل تعمیر) کر رہے ہو، گویا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو گے  

اسی طرح وہ بڑی مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کرتے تھے، جیسے وہ ہمیشہ انہی محلات میں رہیں گے۔

وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ (۱۳۰)

اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو سختی اور ظلم سے پکڑتے ہو  

یہ ان کے ظلم و تشدد اور قوت و طاقت کی طرف اشارہ ہے۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۳۱)

اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو  

جب ان کے اوصاف قبیحہ بیان کیئے جو ان کے دنیا میں انہماک اور ظلم و سرکشی پر دلالت کرتے ہیں تو پھر انہیں دوبارہ تقویٰ اور اپنی اطاعت کی دعوت دی۔

وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُونَ (۱۳۲)

اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری امداد کی جنہیں تم نہیں جانتے۔‏

أَمَدَّكُمْ بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ (۱۳۳)

اس نے تمہاری مدد کی مال سے اور اولاد سے۔‏

وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (۱۳۴)

باغات اور چشموں سے۔‏

إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۱۳۵)

مجھے تو تمہاری نسبت بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔

یعنی اگر تم نے اپنے کفر پر اصرار جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کا شکر ادا نہ کیا، تو تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا جاؤ گے۔ یہ عذاب دنیا میں بھی آسکتا ہے اور آخرت تو ہے ہی عذاب و ثواب کے لئے۔ وہاں تو عذاب سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں ہوگا۔

قَالُوا سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُنْ مِنَ الْوَاعِظِينَ (۱۳۶)

انہوں نے کہا کہ آپ وعظ کہیں یا وعظ کہنے والوں میں نہ ہوں ہم یکساں ہیں۔‏

إِنْ هَذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ (۱۳۷)

یہ تو بس پرانے لوگوں کی عادت ہے  

یعنی وہی باتیں ہیں جو پہلے بھی لوگ کرتے آئے ہیں

یا یہ مطلب ہے کہ ہم جس دین اور عادات و روایات پر قائم ہیں، وہ وہی ہیں جن پر ہمارے آباء و اجداد کار بند رہے،

مطلب دونوں سورتوں میں یہ ہے کہ ہم آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔

وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (۱۳۸)

اور ہم ہرگز عذاب نہیں دیئے جائیں گے  

جب انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم تو اپنا آبائی دین نہیں چھوڑیں گے، تو اس میں عقیدہ آخرت کا انکار بھی تھا۔ اس لئے انہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا اندیشہ تو اسے ہوتا ہے جو اللہ کو مانتا اور روز جزا کو تسلیم کرتا ہے۔

فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۱۳۹)

چونکہ عادیوں نے حضرت ہود کو جھٹلایا، اس لئے ہم نے انہیں تباہ کر دیا (١) یقیناً اس میں نشانی ہے اور ان میں سے اکثر بے ایمان تھے۔‏

قوم عاد، دنیا کی مضبوط ترین اور قوی ترین قوم تھی، جس کی بابت اللہ نے فرمایا:

الَّتِیْ لَمْ یخْلَقُ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ

اس جیسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی '

یعنی جو قوت اور شدت و جبروت میں اس جیسی ہو۔ اس لئے قوم عاد یہ کہا کرتی تھی:

مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (۴۱:۱۵)

کون قوت میں ہم سے زیادہ ہے

لیکن جب اس قوم نے بھی کفر کا راستہ چھوڑ کر ایمان و تقویٰ اختیار نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کی صورت میں ان پر عذاب فرمایا جو مکمل سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط رہا۔

باد تند آتی اور آدمی کو اٹھا کر فضا میں بلند کرتی اور پھر زور سے سر کے بل زمین پر پٹخ دیتی۔ جس سے اس کا دماغ پھٹ اور ٹوٹ جاتا اور بغیر سر کے ان کے لاشے اس طرح زمین پر پڑے ہوتے گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔

 انہوں نے پہاڑوں، کھوؤں اور غاروں میں بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنا رکھی تھیں۔ پینے کے لئے گہرے کنوئیں کھود رکھے تھے، باغات کی کثرت تھی۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو کوئی چیز ان کے کام نہ آئی اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا گیا۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۱۴۰)

بیشک آپ کا رب وہی ہے غالب مہربان۔‏

كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ (۱۴۱)

ثمودیوں (١) نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔‏

ثمود کا مسکن حضر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آجکل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسر التفاسیر)

یہ عرب تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ (۱۴۲)

ان کے بھائی صالح نے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟‏

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (۱۴۳)

میں تمہاری طرف اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں۔‏

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۴۴)

تو تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔‏

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۴۵)

میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت تو بس پروردگار عالم پر ہی ہے۔‏

أَتُتْرَكُونَ فِي مَا هَاهُنَا آمِنِينَ (۱۴۶)

کیا ان چیزوں جو یہاں ہیں تم امن کے ساتھ چھوڑ دیئے جاؤ گے

یعنی یہ نعمتیں کیا تمہیں ہمیشہ حاصل رہیں گی، نہ تمہیں موت آئے گی نہ عذاب؟

 استفہام انکاری اور توبیخی ہے یعنی ایسا نہیں ہوگا بلکہ عذاب یا موت کے ذریعے سے، جب اللہ چاہے گا، تم ان نعمتوں سے محروم ہو جاؤ گے اس میں ترغیب ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ اور اگر ایمان و شکر کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہے۔

فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (۱۴۷)

یعنی ان باغوں اور ان چشموں۔‏

وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ (۱۴۸)

اور ان کھیتوں اور ان کھجوروں کے باغوں میں جن کے شگوفے نرم و نازک ہیں ۔

یہ ان نعمتوں کی تفصیل ہے جن سے وہ بہرہ ور تھے،

  طَلْع، کھجور کے اس شگوفے کو کہتے ہیں جو پہلے پہل نکلتا یعنی طلوع ہوتا ہے، اس کے بعد کھجور کا یہ پھل  بلح، پھر  بسر، پھر  رتب اور اس کے بعد  تمر کہلاتا ہے۔ (ایسر التفاسر)

باغات میں دیگر پھلوں کے ساتھ کھجور کا پھل بھی آجاتا ہے لیکن عربوں میں چونکہ کھجور کی بڑی اہمیت ہے اس لیے اس کا خصوصی طور پر بھی ذکر کیا

  هَضِيمٌ کے اور بھی کئی معانی بیان کیے گئے ہیں مثلا لطیف اور نرم ونازک۔ تہہ بہ تہہ وغیرہ

وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ (۱۴۹)

اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر پر تکلف مکانات بنا رہے ہو  

 فَارِهِينَ یعنی ضرورت سے زیادہ فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا فخرو غرور کرتے ہوئے، جیسے آجکل لوگوں کا حال ہے۔

 آج بھی عمارتوں پر غیر ضروری آرائشوں اور فنکارانہ مہارتوں کا خوب خوب مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری اور فخرو غرور کا اظہار بھی۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۵۰)

پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‏

وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ (۱۵۱)

بے باک حد سے گزر جانے والوں کی (١) اطاعت سے باز آجاؤ۔‏

 مُسْرِفِين سے مراد وہ رؤسا اور سردار ہیں جو کفر و شرک کے داعی اور مخالفت میں پیش پیش تھے۔

الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (۱۵۲)

جو ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔‏

قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ (۱۵۳)

وہ بولے کہ بس تو ان میں سے ہے جن پر جادو کر دیا گیا ہے۔‏

مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا فَأْتِ بِآيَةٍ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۱۵۴)

تو تو ہم جیسا ہی انسان ہے۔ اگر تو سچوں سے ہے تو کوئی معجزہ لے آ۔‏

قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ (۱۵۵)

آپ نے فرمایا یہ ہے اونٹنی، پانی پینے کی ایک باری اس کی اور ایک مقررہ دن کی باری پانی پینے کی تمہاری ۔

یہ وہی اونٹنی تھی جو ان کے مطالبے پر پتھر کی ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تھی ایک دن اونٹنی کے لئے اور ایک دن ان کے لئے پانی مقرر کر دیا گیا تھا، اور ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ جو دن تمہارا پانی لینے کا ہوگا، اونٹنی گھاٹ پر نہیں آئے گی اور جو دن اونٹنی کے پانی پینے کا ہوگا، تمہیں گھاٹ پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔

وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۱۵۶)

(خبر دار) اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تمہاری گرفت کر لے گا  

دوسری بات انہیں یہ کہی گئی کہ اس اونٹنی کو کوئی بری نیت سے ہاتھ نہ لگائے، نہ اسے نقصان پہنچایا جائے۔

چنانچہ یہ اونٹنی اسی طرح ان کے درمیان رہی۔ گھاٹ سے پانی پیتی اور گھاس چارہ کھا کر گزارہ کرتی۔

 کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود اس کا دودھ دوہتی اور اس سے فائدہ اٹھاتی۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِينَ (۱۵۷)

پھر بھی انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ ڈالیں، (١) بس وہ پشیمان ہوگئے ۔(٢)‏

۱۔ یعنی باوجود اس بات کے کہ وہ اونٹنی، اللہ کی قدرت کی ایک نشانی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی، قوم ثمود ایمان نہیں لائی اور کفر و شرک کے راستے پر گامزن رہی اور اس کی سرکشی یہاں تک بڑھی کہ بالآخر قدرت کی زندہ نشانی ' اونٹنی ' کی کوچیں کاٹ ڈالیں یعنی اس کے ہاتھوں پیروں کو زخمی کر دیا، جس سے وہ بیٹھ گئی اور پھر اسے قتل کر دیا۔

 ۲۔  یہ اس وقت ہوا جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت ہے، چوتھے دن تمہیں ہلاک کر دیا جائے گا

اس کے بعد جب واقع عذاب کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہوگئیں تو پھر ان کی طرف سے بھی اظہار ندامت ہونے لگا۔ لیکن علامات عذاب دیکھ لینے کے بعد ندامت اور توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔

فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ ۗ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۱۵۸)

اور عذاب نے آدبوچا (١) بیشک اس میں عبرت ہے۔ اور ان میں اکثر لوگ مؤمن نہ تھے۔‏

یہ عذاب زمین سے زلزلے اور اوپر سے سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا، جس سے سب کی موت واقع ہوگئی۔

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۱۵۹)

اور بیشک آپ کا رب بڑا زبردست اور مہربان ہے۔‏

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ (۱۶۰)

قوم لوط (١) نے بھی نبیوں کو جھٹلایا۔‏

حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہارون بن آزر کے بیٹے تھے۔ اور ان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی زندگی میں نبی بناکر بھیجا گیا تھا۔ ان کی قوم ' سدوم ' اور ' عموریہ ' میں رہتی تھی۔ یہ بستیاں شام کے علاقے میں تھیں۔

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ (۱۶۱)

ان سے ان کے بھائی لوطؑ نے کہا کیا تم اللہ کا خوف نہیں رکھتے؟‏

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (۱۶۲)

میں تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں۔‏

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۶۳)

پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‏

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۶۴)

میں تم میں سے اس پر کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو تمام جہان کا مالک ہے۔‏

أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ (۱۶۵)

کیا تم جہان والوں میں سے مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو۔‏

وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ ۚ

اور تمہاری جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا جوڑا بنایا ہے ان کو چھوڑ دیتے ہو

یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتداء اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لئے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی بد فعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا

 لیکن اب یہ بد فعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کر لیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مزاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد عورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضامندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بدفعلی کرنا کیونکر گناہ اور ناجائز ہو سکتا ہے۔؟

  اعاذنا اللہ منہ

بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ (۱۶۶)

بلکہ تم ہو ہی حد سے گزر جانے والے ۔‏

 عَادُونَ ۔ عاد کی جمع ہے عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا

اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کو فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے حد سے تجاوز کیا۔

قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا لُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ (۱۶۷)

انہوں نے جواب دیا کہ اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً نکال دیا جائے گا

یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے وعظ نصیحت کے جواب میں انہوں نے کہا تو بڑا پاک باز بنا پھرتا ہے۔ یاد رکھنا اگر تو باز نہ آیا تو ہم اپنی بستی میں تجھے رہنے ہی نہیں دیں گے۔

قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِينَ (۱۶۸)

آپ نے فرمایا، میں تمہارے کام سے سخت ناخوش ہوں

یعنی میں اسے پسند نہیں کرتا اور اس سے سخت بیزار ہوں۔

رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ (۱۶۹)

میرے پروردگار! مجھے اور میرے گھرانے کو اس (وبال) سے بچا لے جو یہ کرتے ہیں۔‏

فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ (۱۷۰)

پس ہم نے اسے اور اسکے متعلقین کو سب کو بچالیا۔‏

إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ (۱۷۱)

بجز ایک بڑھیا کے وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہوگئی

اس سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کی بوڑھی بیوی ہے جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، چنانچہ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔

ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ (۱۷۲)

پھر ہم نے باقی اور سب کو ہلاک کر دیا۔‏

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ (۱۷۳)

اور ہم نے ان پر خاص قسم کا مینہ برسایا، پس بہت ہی برا مینہ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں پر برسا

یعنی نشان زدہ کھنگر پتھروں کی بارش سے ہم نے ان کو ہلاک کیا اور ان کی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا، جیسا کہ سورۃ ہود، ٨٢۔٨٣ میں بیان ہے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۱۷۴)

یہ ما جرہ بھی سرا سر عبرت ہے۔ ان میں سے بھی اکثر مسلمان نہ تھے۔‏

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۱۷۵)

بیشک تیرا پروردگار وہی غلبے والا مہربانی والا۔‏

كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ (۱۷۶)

ایکہ والوں (١) نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔‏

 أَيْكَةِ ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اور بستی ' مدین ' کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔

 اور کہا جاتا ہے کہ  أَيْكَةِ کے معنی گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کے نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا دائرہ نبوت اور حدود دعوت و تبلیغ مدین سے لے کر اس کی نواحی آبادی تک تھا جہاں ایک درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو  أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے  أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب علیہ السلام تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔

  أَيْكَةِ چونکہ قوم نہیں بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا جس طرح کہ دوسرے انبیاء کے ذکر میں ہے البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے کیونکہ مدین قوم کا نام ہے  وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا  ۔ (۷:۸۵) بعض مفسرین نے  أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ کی طرف لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے

  اوفوا لکیل والمیزان کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیا جا رہا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے دو نہیں۔

إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ (۱۷۷)

جبکہ ان سے شعیب علیہ السلام نے کہا کہ کیا تمہیں ڈر خوف نہیں؟

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (۱۷۸)

میں تمہاری طرف امانتدار رسول ہوں۔‏

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۱۷۹)

اللہ کا خوف کھاؤ اور میری فرمانبرداری کرو۔‏

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۸۰)

میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا، میرا اجر تمام جہانوں کے پالنے والے کے پاس ہے۔‏

أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ (۱۸۱)

ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو  

یعنی جب تم لوگوں کو ناپ کر دو تو اسی طرح پورا دو، جس طرح لیتے وقت تم پورا ناپ کر لیتے ہو۔ لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ مت رکھو، کہ دیتے وقت کم دو اور لیتے وقت پورا لو!

وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ (۱۸۲)

اور سیدھی صحیح ترازو سے تولا کرو  

اسی طرح تول میں ڈنڈی مت مارو بلکہ پورا صحیح تول کر دو!

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (۱۸۳)

لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو (۱) بےباکی کے ساتھ زمین میں فساد نہ مچاتے پھرو۔(۲)‏

۱۔ یعنی لوگوں کو دیتے وقت ناپ یا تول میں کمی مت کرو۔

۲۔  یعنی اللہ کی نافرمانی مت کرو اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے

 بعض نے اس سے مراد وہ رہزنی لی ہے جس کا ارتکاب بھی یہ قوم کرتی تھی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے:

وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ  ۔ (۷:۸۶)

راستوں میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے مت بیٹھو۔

وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ (۱۸۴)

اس اللہ کا خوف رکھو جس نے خود تمہیں اور اگلی مخلوق کو پیدا کیا۔  

 جِبِلَّة اور  جبل مخلوق کے معنی میں ہے جس طرح دوسرے مقام پر شیطان کے بارے میں فرمایا:

وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۔ (۳۶:۶۲)

اس نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو گمراہ کیا

 اس کا استعمال بڑی جماعت کے لیے ہوتا ہے۔   فتح القدیر

قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ (۱۸۵)

انہوں نے کہا تو ان میں سے ہے جن پر جادو کر دیا جاتا ہے۔‏

وَمَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَإِنْ نَظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (۱۸۶)

انہوں نے کہا تو تو ہم جیسا ایک انسان ہے اور ہم تجھے جھوٹ بولنے والوں میں سے ہی سمجھتے ہیں  

یعنی تو جو دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے اللہ نے وحی و رسالت سے نوازا ہے، ہم تجھے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے ہیں، کیونکہ تو بھی ہم جیسا انسان ہے۔ پھر تو اس شرف سے مشرف کیونکر ہو سکتا ہے۔

فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۱۸۷)

اگر تو سچے لوگوں میں سے ہے تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دے  

یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی تہدید کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تو واقعی سچا ہے تو جا ہم تجھے نہیں مانتے، ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا کر دکھا!

قَالَ رَبِّي أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۸۸)

کہا کہ میرا رب خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو  

یعنی تم جو کفر و شرک کر رہے ہو، سب اللہ کے علم میں ہے اور وہی اس کی جزا تمہیں دے گا، اگر چاہے گا تو دنیا میں بھی دے دے گا، یہ عذاب اور سزا اس کے اختیار میں ہے۔

فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۱۸۹)

چونکہ انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا (١) وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا۔‏

انہوں نے بھی کفار مکہ کی طرح آسمانی عذاب مانگا تھا، اللہ نے اس کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما دیا اور وہ اس طرح کہ بعض روایات کے مطابق سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کر دی، اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا اور یہ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے اس سائے تلے جمع ہوگئے اور کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہوگئے، زمین زلزلے سے لرز اٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے انہیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا یوں تین قسم کا عذاب ان پر آیا اور یہ اس دن آیا جس دن ان پر بادل سایہ فگن ہوا، اس لئے فرمایا کہ سائے والے دن کے عذاب نے انہیں پکڑ لیا۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (۱۹۰)

یقیناً اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں کے اکثر مسلمان نہ تھے۔‏

وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (۱۹۱)

اور یقیناً تیرا پروردگار البتہ وہی ہے غلبے والا مہربانی والا‏

وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۹۲)

اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔‏

نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (۱۹۳)

اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے  

اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے  

کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ اور دعوت محمدیہ کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا ء علیہم السلام کے واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کر سکتا تھا؟ اس لئے یہ قرآن یقیناً اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانت دار فرشتہ جبرائیل علیہ السلام لے کر آئے۔

عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (۱۹۴)

آپ کے دل پر اترا ہے (١) کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں (٢)‏

۱۔ دل کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ حواس باختہ میں دل ہے سب سے زیادہ ادراک اور حفظ کی قوت رکھتا ہے۔

۲۔  یعنی نزول قرآن کی علت ہے۔

بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (۱۹۵)

صاف عربی زبان میں ہے۔‏

وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ (۱۹۶)

اگلے نبیوں کی کتابوں میں بھی اس قرآن کا تذکرہ ہے

یعنی جس طرح پیغمبر آخری زمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور و بعث کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا تذکرہ پچھلی کتابوں میں ہے، اسی طرح اس قرآن کے نزول کی خوشخبری بھی سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی تھی۔

 ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ قرآن مجید، بہ اعتبار ان احکام کے، جن پر شریعتوں کا اتفاق رہا ہے، پچھلی کتابوں میں بھی موجود رہا ہے۔

أَوَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ آيَةً أَنْ يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ (۱۹۷)

کیا انہیں یہ نشانی کافی نہیں کہ حقانیت قرآن کو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں  

کیونکہ ان کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور قرآن کا ذکر موجود ہے۔ یہ کفار مکہ، مذہبی معاملات میں یہود کی طرح رجوع کرتے تھے۔ اس اعتبار سے فرمایا کہ کیا ان کا یہ جاننا اور بتلانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے سچے رسول اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ پھر یہود کی اس بات کو مانتے ہوئے پیغمبر پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟

وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ (۱۹۸)

اور اگر ہم کسی عجمی شخص پر نازل فرماتے۔‏

فَقَرَأَهُ عَلَيْهِمْ مَا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ (۱۹۹)

پس وہ ان کے سامنے اس کی تلاوت کرتا تو یہ اسے باور کرنے والے نہ ہوتے  

یعنی کسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ کہتے کہ یہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ جیسے حمٰ السجدہ ٤٤ میں ہے۔

كَذَلِكَ سَلَكْنَاهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ (۲۰۰)

اسی طرح ہم نے گنہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے  

یعنی  سَلَكْنَاهُ میں ضمیر کا مرجع کفر و تکذیب اور جحود و عناد ہے۔

لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (۲۰۱)

وہ جب تک دردناک عذابوں کو ملاحظہ نہ کرلیں ایمان نہ لائیں گے۔‏

فَيَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۲۰۲)

پس وہ عذاب ان کو ناگہاں آجائے گا انہیں اس کا شعور بھی نہ ہوگا۔‏

فَيَقُولُوا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُونَ (۲۰۳)

اس وقت کہیں گے کہ کیا ہمیں کچھ مہلت دی جائے گی ۔

لیکن مشاہدہ عذاب کے بعد مہلت نہیں دی جاتی، نہ اس وقت کی توبہ ہی مقبول ہے۔

أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ (۲۰۴)

پس کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں  

یہ اشارہ ہے ان کے مطالبے کی طرف جو اپنے پیغمبر سے کرتے رہے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو عذاب لے آ۔

أَفَرَأَيْتَ إِنْ مَتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ (۲۰۵)

اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں کئی سال بھی فائدہ اٹھانے دیا۔‏

ثُمَّ جَاءَهُمْ مَا كَانُوا يُوعَدُونَ (۲۰۶)

پھر انہیں وہ عذاب آلگا جن سے یہ دھمکائے جاتے تھے۔‏

مَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يُمَتَّعُونَ (۲۰۷)

تو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں سے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا ۔‏

یعنی اگر ہم نے انہیں مہلت دے دیں اور پھر انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لیں، تو کیا دنیا کا مال و متاع ان کے کچھ کام آئے گا؟ یعنی انہیں عذاب سے بچا سکے گا؟ نہیں یقینا نہیں۔

وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا لَهَا مُنْذِرُونَ (۲۰۸)

ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ہے مگر اسی حال میں کہ اس کے لئے ڈرانے والے تھے۔‏

ذِكْرَى وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ (۲۰۹)

نصیحت کے طور پر اور ہم ظلم کرنے والے نہیں ہیں  

یعنی ارسال رسل اور انزار کے بغیر اگر ہم کسی بستی کو ہلاک کر دیتے تو یہ ظلم ہوتا، تاہم ہم نے ایسا ظلم نہیں کیا بلکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق ہم نے پہلے ہر بستی میں رسول بھیجے، جنہوں نے اہل بستی کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور اس کے بعد جب انہوں نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو ہم نے انہیں ہلاک کیا۔

 یہی مضمون بنی اسرائیل۔ ١٥ اور قصص۔٥٩ وغیرہ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ (۲۱۰)

اس قرآن کو شیطان نہیں لائے۔‏

وَمَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ (۲۱۱)

نہ وہ اس قابل ہیں، نہ انہیں اس کی طاقت ہے۔‏

إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ (۲۱۲)

بلکہ وہ سننے سے محروم کر دیئے گئے ہیں  

ان آیات میں قرآن کی، شیطانی دخل اندازیوں سے، محفوظیت کا بیان ہے۔

 ایک تو اس لئے کہ شیا طین کا قرآن لے کر نازل ہونا، ان کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد شر و فساد اور منکرات کی اشاعت ہے، جب کہ قرآن کا مقصد نیکی کا حکم اور فروغ اور منکرات کا سد باب ہے گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم منافی ہیں۔

 دوسرے یہ کہ شیاطین اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے،

 تیسرے، نزول قرآن کے وقت شیاطین اس کے سننے سے دور اور محروم رکھے گئے، آسمانوں پر ستاروں کو چوکیدار بنا دیا گیا تھا اور جو بھی شیطان اوپر جاتا یہ ستارے اس پر بجلی بن کر گرتے اور بھسم کر دیتے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کو شیاطین سے بچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ (۲۱۳)

پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائے‏

وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (۲۱۴)

اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے  

پیغمبر کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔

اس حکم کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور  یَا صَبَاحَا کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کر دے، اس کے ذریعہ سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے؟

سب نے کہا ہاں، یقیناً ہم تصدیق کریں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا، تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لئے بلایا تھا؟

 اس کے جواب میں یہ سورہ تبت نازل ہوئی۔  (صحیح بخاری)

آپ نے اپنی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ کو بھی فرمایا تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کرلو میں وہاں تمہارے کام نہیں آسکوں گا۔

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۲۱۵)

اس کے ساتھ نرمی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کہ تیری تابعداری کرے۔‏

فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ (۲۱۶)

اگر یہ لوگ تیری نافرمانی کریں تو اعلان کر دے کہ میں ان کاموں سے بیزار ہوں جو تم کر رہے ہو۔‏

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (۲۱۷)

اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ۔‏

الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ (۲۱۸)

جو تجھے دیکھتا رہتا ہے جبکہ تو کھڑا ہوتا ہے۔‏

وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (۲۱۹)

اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان تیرا گھومنا پھرنا بھی  

یعنی جب تو تنہا ہوتا ہے، تب بھی اللہ دیکھتا ہے اور جب لوگوں میں ہوتا ہے تب بھی۔

إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۲۲۰)

وہ بڑا ہی سننے والا اور خوب ہی جاننے والا ہے۔‏

هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (۲۲۱)

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں۔‏

تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (۲۲۲)

وہ ہر جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں  

یعنی اس قرآن کے نزول میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے، کیونکہ شیطان تو جھوٹوں اور گنہگاروں (یعنی کاہنوں، نجومیوں وغیرہ) پر اترتے ہیں نہ کہ انبیاء صالحین پر۔

يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ (۲۲۳)

(اچٹتی) ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں  

یعنی ایک آدھ بات، جو کسی طرح وہ سننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کاہنوں کو آکر بتلا دیتے ہیں، جن کے ساتھ وہ جھوٹی باتیں اور بھی ملا لیتے ہیں۔

وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ (۲۲۴)

شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں۔‏

أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ (۲۲۵)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں۔‏

وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ (۲۲۶)

اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں  

شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اصول کی بجائے، ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں۔

 علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں، اسی قسم کے اشعار کے لئے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے:

 پیٹ کو لہو پیپ سے بھر جانا، جو اسے خراب کر دے، شعر سے بھر جانے سے بہتر ہے۔  (ترمذی و مسلم وغیرہ)

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ

سوائے ان کے جو ایمان لائے (١) اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا (٢)

۱۔  اس سے ان شاعروں کو مستشنٰی فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایماندار، عمل صلح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط اور تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مؤمنانہ صفات سے عاری ہوں۔

۲۔  یعنی ایسے مؤمن شاعر، ان کافر شعرأ کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت کافروں کی شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو فرماتے :

 ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ (صحیح بخاری)

وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (۲۲۷)

جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں

یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں؟

 اور وہ جہنم ہے۔

 اس میں ظالموں کے لئے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے :

 تم ظلم سے بچو! اس لئے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہوگا ۔ (صحیح مسلم)

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter