Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al BaqarahTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
الم(۱) الم الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسے کہ دوسرے مقام پر ہے: تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۳۲:۲) علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ا کی صداقت میں جو احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ(۲) پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سراب صرف وہی لوگ ہونگے جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں اس کے اندر ہدایت کی طلب یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اسے ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہو سکتی ہے۔ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ(۳) اور ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی حدیث پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت ﷺ پر ختم کر دیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (۴) اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖوَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۵) یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر و عناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۶) کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہو جائیں اور اسی حساب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوشش فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابوجہل اور ابو لہب وغیرہ) ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ سے بیشمار لوگ مسلمان ہوئے حتٰی کہ پھر پورا جزیرہ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آ گیا۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (۷) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہو چکی ہے اور ان کے کان حق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح سے لا سکتے ہیں؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے آیا ہے اور آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے مغفرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مؤمن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے گناہ سے باز آ جاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف اور شفاف ہو جاتا ہے اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۸۳:۱۴) ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (۸) بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کا سارا نقصان خود انہی کو پہنچتا ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کر لی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (۹) وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ ان کے دلوں میں بیماری تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا بیماری سے مراد وہی کفر و نفاق کی بیماری ہے جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (۱۰) اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (۱۱) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (۱۲) خبردار ہو یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے۔ فساد، اصلاح کی ضد ہے۔ کفر و معصیت سے زمین میں فساد پھیلاتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن و سکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے اور دعویٰیہ کرتے ہیں کہ اصلاح اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لاؤتو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں، ان منافقین نے ان صحابہؓ کو بیوقوف کہا جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آج کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام دولت ایمان سے محروم تھے اللہ تعالیٰ نے جدید و قدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلیٰ تر مقصد کے لئے دنیاوی مفادات کو قربان کر دینا بےوقوفی نہیں، عین عقلمندی اور سعادت ہے۔ صحابہ کرام نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا۔ اس لئے وہ پکے مؤمن ہی نہیں بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان انہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام کی طرح ایمان لائیں گے ؛ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا (۲:۱۳۷) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (۱۳) خبردار ہو جاؤ یقیناً یہی بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ (فوری فائدے) کے لئے (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظر انداز کر دینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بےعلم رہے۔ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (۱۴) اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان والے ہیں جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں (١) تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔ شَيَاطِين سے مراد سرداران قریش و یہود ہیں۔ جن کی ایماء پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے یا منافقین کے اپنے سردار۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۱۵) اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے (١) اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح مسمانوں کے ساتھ استہزاء استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزاء سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتاً یہ مذاق نہیں ہے، ان کے فعل کی سزا ہے جیسے برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی، میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے فرمائے گا۔ جیسا کہ سورۃ حدید کی آیت۱۳ يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ میں وضاحت ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (۱۶) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا، پس نہ تو انکی تجارت (١) نے انکو فائدہ پہنچایا اور نہ یہ ہدایت والے ہوئے۔ تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے۔ جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر ہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے ضروری نہیں کہ دنیا ہی میں اس گھاٹے کا انہیں علم ہو جائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل فہم سے عاری سمجھتے تھے۔ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ (۱۷) ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس آس پاس کی چیزیں روشنی میں آئی ہی تھیں کہ اللہ ان کے نور کو لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا، جو نہیں دیکھتے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر جلدی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں دفعتاً وہ روشنی بجھ گئی اور حسب سابق تاریکیوں میں گِھر گئے۔ یہ حال منافقین کا تھا پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے مسلمان ہوئے تو روشنی میں آ گئے۔ حلال و حرام کو پہچان گئے پھر وہ دوبارہ کفر و نفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی (فتح القدیر) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (۱۸) بہرے، گونگے، اندھے ہیں۔ پس وہ نہیں جانتے أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ یا آسمانی برسات کی طرح جس میں اندھیریاں اور گرج اور بجلی ہو، موت سے ڈر کر کڑاکے کیوجہ سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (۱۹) اور اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرنے والا ہے۔ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جائے، جب ان کے لئے روشنی کرتی ہے تو اس میں چلتے پھرتے ہیں (١) اور جب ان پر اندھیرا کرتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں ۱۔ یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے۔ جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ شبہ و شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پس ان کے دل میں شک و شبہ اس بارش کی طرح ہے جو اندھیروں شکوک کفر اور نفاق میں اترتی ہے گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں حتٰی کے خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف و دہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا کیونکہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں لیکن پھر جب اسلام یا مسلمان پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران و سرگردان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ (ابن کثیر) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق (اسلام) سے محروم رہتا ہے۔ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۰) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کان اور آنکھوں کو بیکار کر دے (۱) یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ۲۔ اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لیے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مؤاخذے سے کبھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(۱۲) اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی، فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۲۲) خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔ ہدایت اور ضلالت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جا رہی ہے۔ فرمایا جب تمہارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے تمہاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو اگر تم عذاب خداوندی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو جانتے بوجھتے شرک کا ارتکاب مت کرو ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۲۳) ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔ توحید کے بعد اب رسالت کا اثبات فرمایا جا رہا ہے ہم نے بندے پر کتاب نازل فرمائی ہے اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے تو اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ واقع یہ کلام کسی انسان کی کاوش نہیں ہے کلام الہی ہی ہے اور ہم پر اور رسالت مآب پر ایمان لا کر جہنم کی آگ سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے جو کافروں کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (۲۴) پس اگر تم نے نہ کیا۔ اور تم ہرگز نہیں کر سکتے (۱) تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں (۲) جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ (۳) ۱۔ یہ قراَن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقیناً قیامت تک قاصر رہیں گے۔ ۲۔ پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندگی کے پتھروں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ اصنام (بت) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ : إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (۲۱:۹۸) تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہونگے۔ ۳۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لیے تیار کی گئ ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں جیسا کہ بعض متجدد دین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو (١) جنت کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ۱۔ قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کر دیا کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان کا ثمر اور نہیں مل سکتا اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عند اللہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا، جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود و نمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود و مطرود ہیں۔ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا ۙ قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ جب کبھی وہ پھلوں کا رزق دئیے جائیں گے اور ہم شکل لائے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے تھے ۲۔ مُتَشَابِهًا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میوؤں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے یا دنیا کے میوؤں کے ہم شکل ہونا ہے۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی ورنہ جنت کے میوؤں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میوؤں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے: نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا (دیکھنا اور سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۲۵) اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف (۱) ستھری اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ (۲) ۱۔ یعنی حیض و نفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ ۲۔ خُلُودُ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے: جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اے جنتیو اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا ۔ (صحیح مسلم) إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مثلاً مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ یقیناً اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو، یا اس سے بھی ہلکی چیز۔ جب اللہ تعالیٰ نے دلائل سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کر دیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کر دیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الہٰی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور جسے حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اس میں حیا و حجاب بھی نہیں۔ فَوْقَهَا کے معنی اس سے بڑھ کر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کے ہونگے۔ لفظ فَوْقَهَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ ایمان والے تو اپنے رب کی جانب سے صحیح سمجھتے ہیں وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مثلاً ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ اور کفار کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے؟ اس کے ذریعے بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت و مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى (النساء۔ ١١٥) جس طرف کوئی پھرتا ہے ہم اس طرف اس کو پھیر دیتے ہیں وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ (۲۶) اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔ فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مؤمن سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس آیت سے فسقسے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مؤمن بننے کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو (١) توڑ دیتے ہیں مفسرین نے عَهْدَ کے مختلف مفہوم بیان کئے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت جو اس نے اپنے اوامر بجا لانے اور نواہی باز رکھنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے مخلوق کو کی وہ عہد جو اہل کتاب سے تورات میں لیا گیا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے آجانے کے بعد تمہارے لئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا جو اولاد آدم کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ (۷:۱۷۲) نقض عہد کا مطلب عہد کی پرواہ نہ کرنا (ابن کثیر) وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۲۷) اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ظاہر بات ہے کہ نقصان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو ہی ہوگا اللہ کا یا اس کے پیغمبروں اور دعوت دینے والوں کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۸) پھر تمہیں مار ڈالے گا پھر زندہ کرے گا (١) پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ۔ پہلی موت سے مراد عدم (نیست یعنی نہ ہونا) ہے اور پہلی زندگی ماں کے پیٹ سے نکل کر موت سے ہمکنار ہونے تک ہے۔ پھر موت آجائے گی پھر آخرت کی زندگی دوسری زندگی ہوگی جس کا انکار کفار اور منکرین قیامت کرتے ہیں بعض علماء کی رائے ہے کہ قبر کی زندگی (کَمَا ھِیَ) دنیوی زندگی میں ہی شامل ہوگی (فتح القدیر) صحیح یہ ہے کہ برزخ کی زندگی حیات آخرت کا پیش خیمہ اور اس کا سرنامہ ہے اس لئے اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا (١) پھر آسمان کی طرف قصد کیا (٢) اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان (٣) بنایا ۱۔ اس سے استدلال کیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے اصل حلت ہے الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت قرآن پاک کے واضح احکام سے ثابت ہو (فتح القدیر) ۲۔ بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول اللہ کی صفات میں سے ہے جن پر اسی طرح بغیر دلیل کے ایمان رکھنا ضروری ہے جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ ۳۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ آسمان ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو آسمان سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان ٥٠٠ سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ (الطلاق۔١٢) اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہو جاتی ہے۔ جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے لیکن سورۃ نازعات۔ ۳۰ میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا۔ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا (زمین کو اس کے بعد بچھایا) اس کی تجزی کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین کی ہی ہوئی ہے اور دَحْوَ (صاف اور ہموار کر کے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر) وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۲۹) اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے۔ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ اور جب تیرے رب نے فرشتوں (١) سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ (۲١) بنانے والا ہوں ۱۔ مَلَائِكَةِ (فرشتے) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جو احکامات کے بجا لانے اور اس کی تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ ۲۔ خَلِيفَةً سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۳۰) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ ۳۔ فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں وہ مصلحت بہتر جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ برائیوں کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں جو تم نہیں جانتے کیونکہ ان میں انبیا، شہدا و صالحین بھی ہونگے۔ (ابن کثیر) وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۳۱) اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (۳۲) ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ ۖ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جب انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا کہ میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا زمین اور آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (۳۳) اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو ۔ أَسْمَا سے مراد مسمیات (اشخاص و اشیاء) کے نام اور ان کے خواص و فوائد کا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے حضرت آدم علیہ کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم علیہ السلام ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فورا سب کچھ بیان کر دیا جو فرشتے بیان نہ کر سکے۔ اسطرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کر دی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت و فضیلت بیان فرما دی جب یہ حکمت و اہمیت فرشتوں پر واضح ہوئی تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کر لیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (١) تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دوسری عزت ہوئی۔ اسْجُدُہ کے معنی ہیں عاجزی اور گڑگڑانے کے اس کی انتہا ہے زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا ۔ (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور فرمان ہے : اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترندی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جس سے ان کی تکریم و فضیلت فرشتوں پر واضح کر دی گئی۔ کیونکہ یہ سجدہ و اکرام و تعظیم کے طور پر یہ تھا نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۳۴) اس نے انکار کیا (۱) اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔ (۲) ۱۔ ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ ابلیس حسب وضاحت قرآن جنات میں سے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازا فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا اس لئے بحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا۔ لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس ہے۔ ۲۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔ وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو یہ حضرت آدم علیہ السلام کی کی تیسری فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (۳۵) اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا (۱) ورنہ ظالم ہو جاؤ گے۔ یہ درخت کس چیز کا تھا؟ اس کی بابت قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کر دیا گیا ہے جو بے اصل بات ہے ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر سجدے سے انکار کیا اسی طرح اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم وَلَا تَقْرَبَا کی تاویل کر کے حضرت آدم علیہ السلام کو پھسلانے میں کامیاب ہو گیا جس کی تفصیل سورۃ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (۳۶) اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو (۱) اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔ مراد آدم علیہ السلام اور شیطان ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۳۷) آدم ؑ نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں (١) اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بیشک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو الاعراف میں بیان کئے گئے ہیں: رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا (۷:۲۳) بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیئے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الہی پر لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ مَحَمَد رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے ۔ تمام انبیاء علیھم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی ،ولی ، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعایہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۳۸) ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۳۹) اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دُنیا ہی میں رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم علیہ السلام کے واسطے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جا رہا ہے۔ کہ انبیاء علیہم کے ذریعے سے میری ہدایت ( زندگی گزارنے کے احکام وضابطے) تم تک پہنچے گی جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔ ان پر خوف نہیں ہوگا، کا تعلق آخرت سے ہے ۔ اور حزن نہیں ہوگاکا تعلق دنیا سے ۔ جو فوت ہوگیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے، جس طرح دوسرے مقام پر ہے : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (۲۰:۱۲۳) جس نے میری ہدایت کی پیروی کی پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ( آخرت میں ) بدبخت۔ ابن کثیر گویا آیت لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا مقام ہر مؤمن صادق کو حاصل ہے یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہے اور پھر مقام کا مفہوم بھی کچھ بیان کیاجاتا ہے ۔ حالانکہ تمام مؤمنین و متقین بھی اولیاء اللہ ہیں ۔ اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں ۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق آسکتا ہے ۔ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (۴۰) بنی اسرائیل (١) میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کرونگا اور مجھ ہی سے ڈرو إِسْرَائِيلَ (بمعنی عبداللہ) حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا۔ یہود کو بَنِي إِسْرَائِيلَ کہا جاتا تھا یعنی یعقوب علیہ السلام کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جس میں یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء اور رسل تھے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخر زمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دئیے جائیں گے اور جو تمہاری غلطیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا پر لادھ دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔ وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس (١) کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو بِهِ کی ضمیر قرآن کی طرف یا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صحیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم اور ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا اس نے محمد رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، جس نے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ کفر کیا، اس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) پہلے کافر نہ بنو کا مطلب ہے ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کر چکے ہوتے، اس لئے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر کا وبال تم پر ہوگا۔ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ (۴۱) اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر (١) نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کر لو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی محض طلب دنیا کے لئے گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر) وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۴۲) اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ (۴۳) اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۴۴) کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (۴۵) صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو (١) یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر۔ (۲) ۱۔ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مؤمن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے ۔ (فتح القدیر) ۲۔ نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے ، لیکن خشوع و خضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں ۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو آسان کر دیتا اور آخرت سے بےفکری انسان کو بےعمل بلکہ بد عمل بنا دیتی ہے۔ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۴۶) جو جانتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (۴۷) اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی یہاں سے دوبارہ اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا نہ سفارش قبول ہوگی نہ معاوضہ دے کر چھٹکارہ ہو سکے گا، اور نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خیرامۃ کے لقب سے نوازا گیا ۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان وعمل سے محرومی پر سلب کرلئے جاتے ہیں ، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے خیرامۃ کے بجائے شرامۃ بنی ہوئی ہے ۔ ھداھا اللہ تعالی یہود کو یہ دھوکا بھی تھا کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لئے مؤاخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا۔ اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جواہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے ) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۴۸) اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ شفاعت اور نہ سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کئے جائیں گے۔ وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں (١) سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے آلِ فِرْعَوْنَ سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے أَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ہے (ہم نے آل فرعون کو غرق کر دیا) یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر کے ہی نہیں تھے اس کے فوجی اور دیگر پیروکار بھی تھے۔ اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں انشاء اللہ آئے گی۔ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (۴۹) اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔ وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (۵۰) اور جب ہم نے تمہارے لئے (١) دریا چیر (پھاڑ) دیا اور تمہیں اس سے پار کر دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔ سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۃ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا جیسا کہ سر سید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیال ہے۔ وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (۵۱) اور ہم نے موسیٰ ؑ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کر دیا اور ظالم بن گئے۔ یہ گؤ سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نماء سینا پہنچے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات دینے کے لئے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون و موسیٰ علیہ السلام) کی موجودگی کے باوجود بچھڑے کو اپنا معبود سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد واعمال میں بری طرح مبتلا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہوسکتا ہے ؟۔ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے بچاریوں کے لئے خاص کردیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں ۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے جو پتھر کے پچاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اعاذنااللہ منہ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۵۲) لیکن ہم نے باوجود اس کے پھر بھی تمہیں معاف کردیا، تاکہ تم شکر کرو۔ ممکن ہے کتاب یعنی تورات کو فرقان سے بھی تعبیر کیا گیا ہو کیونکہ ہر آسمانی کتاب حق و باطل کو واضح کرنے والی ہوتی ہے یا معجزات کو فرقان کہا گیا ہے کہ معجزات بھی حق و باطل کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۵۳) اور ہم نےموسیٰؑ کو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب اور معجزے عطا فرمائے یہ بھی بحرہ قلزم پار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے (ابن کثیر) وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۵۴) وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو) کی کئی تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کر دیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا دوسری یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کر دیا گیا جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے (ابن کثیر و فتح القدیر) وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (۵۵) (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے (١) دیکھتے ہوئے بجلی گری۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۵۶) لیکن پھر اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى ۖ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا (١) (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ ' اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے حکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کر دیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ یہ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔ مَن بعض کے نزدیک اوس جو درخت اور پتھر پر گرتی شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہو جاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کھمبی مَن کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلادقت پہنچ جاتا تھا اسی طرح کھمبی بغیر کسی کے بوئے کے پیدا ہو جاتی ہے۔ سلویٰ بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کر کے کھا لیتے تھے۔ (فتح القدیر) وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (۵۷) اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، البتہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں (١) جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو (٢) ۱۔ اس بستی سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔ ۲۔ سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدہ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز اور انکسار کا اظہار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔ وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (۵۹) اور زبان سے کہو (٣) ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔ حِطَّةٌ اس کے معنی ہیں ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی (١) بدل ڈالی، اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو حکم دیا گیا کہ سجدہ کئے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سروں کو زمین میں گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حکم بجا لانے کی بجائے ان سے ان کی سرتابی و سرکشی کا جو ان کے اندر پیدا ہو گئی تھی اور احکام الہی سے تمسخر اور مذاق جس کا ارتکاب انہوں نے کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ واقع یہ ہے جب کوئی قوم کردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہو جائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہی کے ساتھ اسے طرح کا ہو جاتا ہے فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (۵۹) ہم نے بھی ان ظالموں پر ان کے فسق اور نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔ یہ آسمانی عذاب کیا تھا؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس کی آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ۔ وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ۖ جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور (١) ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا، یہ واقعہ بعض کے نزدیک تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحرائے سینا کا ہے وہاں پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ چنانچہ پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے قبیلے بھی بارہ تھے۔ ہر قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے سیراب ہوتا۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (۶۰) (اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا، فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ اس لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گہیوں مسور اور پیاز دے قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو! اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ ۗ اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی ۔ یہ قصہ اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں مصر نہیں بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ ان کا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت تھا۔ ان سے کہا گیا تمہارے لئے وہاں پر مطلوبہ چیزیں ہیں۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ۗ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے کہاں وہ انعامات و احسانات، جس کی تفصیل گزری؟ اور کہاں وہ ذلت و مسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کر دی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے جس کی تاویل ارادہ عقوبیت یا نفسِ عقوبیت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (۶۱) یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے نبیوں کو ناحق تنگ کرتے (۱) تھے، ان کی نافرمانیاں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے ۔(۲) ۱۔ یہ ذلت اور غضب الٰہی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیاء علیہ السلام اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہودی اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل و رسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہو سکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں کہیں بھی ہوں؟ ۲۔ یہ ذلت و مسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْا (نافرمانی کی) کا مطلب جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا ان کا ارتکاب کیا۔ اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہے جسطرح حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعتداء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ہم مسلمان ہوں، یہودی ہوں (١) نصاریٰ (٢) ہوں یا صابی (٣) ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے پاس ہیں ۱۔ یھود ھوادۃ (بمعنی محبت ) سے یا تھود (بمعنی توبہ ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہود کہاجاتا ہے ۲۔ النَّصَارَى ۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کامادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا ، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیساکہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو کہا تھا نحن انصاراللہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کا نصاریٰ کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔ ۳۔ الصَّابِئِينَ ۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقیناً ابتداء کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لئے قرآن میں یہودیت وعیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے ۔ اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہاجانے لگا۔ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۶۲) اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔ بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی رسالت محمدیہ پر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دن کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہو جائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہو سکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاریٰ اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقیناً آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۶۳) جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا (١) (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو۔ جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے ازراہ شرارت کہا ہم سے تو احکام پر عمل نہیں ہو سکے گا تو اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کر دیا جس سے ڈر کر انہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۶۴) لیکن تم اس کے بعد بھی پھر گئے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم نقصان والے ہو جاتے۔ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (۶۵) اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم (١) میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔ السَّبْتِ (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کر کے حکم الٰہی سے تجاوز کیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے۔ فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (۶۶) اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لئے عبرت کا سبب بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ و نصیحت کا۔ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ اور موسیٰ ؑ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے (١) تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ بنی اسرائیل میں ایک لا ولد مالدار آدمی تھا جسکا وارث صرف ایک بھتیجا تھا ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کر کے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو قاتل ٹھہرانے لگے بالآخر بات حضرت موسیٰؑ تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا گائے کا ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہو گیا اور قاتل کی نشان دہی کر کے مر گیا (فتح القدیر) قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (۶۷) آپ نے جواب دیا میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں۔ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ انہوں نے کہا اے موسیٰ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس کا حلیہ بیان کر دے، قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ (۶۸) آپ نے فرمایا سنو وہ گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ۔ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ وہ پھر کہنے لگے کہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ (۶۹) فرمایا وہ کہتا ہے وہ گائے زرد رنگ کی ہو، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہو۔ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وہ کہنے لگے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں اس کی مزید حلیہ بتلائے، اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ (۷۰) اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہو جائیں گے۔ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں، وہ تندرست اور بےداغ ہو۔ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ انہوں نے کہا، اب آپ نے حق واضح کر دیا فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ (۷۱) گو وہ حکم برادری کے قریب نہ تھے، لیکن اسے مانا اور وہ گائے ذبح کر دی ۔ انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا لیکن انہوں نے حکم الٰہی پر سیدھے طریقے سے عمل کرنے کی بجائے میخ نکالنا شروع کر دی اور طرح طرح کے سوال کرنے شروع کر دیئے، جس پر اللہ تعالیٰ بھی ان پر سختی کرتا چلا گیا۔ اس لئے دین میں سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (۷۲) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پوشیدگی کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا ۔ یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس قتل کا راز فاش کر دیا حالانکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر کیا گیا تھا مطلب یہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کرو تاکہ وہ کسی وقت ظاہر ہو جائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو بلکہ اس کے احترام و وقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ ہم نے کہا اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو (وہ جی اٹھے گا) كَذَلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۷۳) اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقلمندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت والے دن دوبارہ مردوں کو زندہ ہونا منکرین قیامت کے لئے ہمیشہ حیرت کا باعث رہا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک مثال ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ البقرہ ۵٦ میں گزر چکی ہے ۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے ۔ تیسری مثال آیت نمبر۲٤۳ آیت مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ چوتھی آیت نمبر۲۵۹ آیت فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ پانچویں مثال اس کے بعد والی آیت۲۶۰ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طیور اربعہ ( چار چڑیوں ) کی ہے۔ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہو گیا دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر توبہ اور استغفار کا جذبہ۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل تباہی کا اندیشہ زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۷۴) اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں (۱) اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔ پتھروں کی سنگینی کے باوجود ان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو کیفیت ان پر گزرتی ہے اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک اور احساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ (۱۷:۴۴) أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (۷۵) (مسلمانوں) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔ اہل ایمان کو خطاب کر کے یہودیوں کے بارے کہا جا رہا ہے کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے حالانکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فرق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی جانتے بوجھتے تحریف کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعاً امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بد قسمتی سے قرآن اور حدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنی ایمانداری ظاہر کرتے ہیں یہ بعض یہودیوں کے منافقانہ کردار کی نقاب کشائی ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے لیکن جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو اس بات پر ملامت کرتے کہ تم مسلمانوں کو اپنی کتاب کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جس سے رسول عربی کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس طرح تم خود ہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہو جو وہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کرینگے۔ وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۷۶) اور جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں وہ باتیں پہنچاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھائی ہیں، کیا جانتے نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس تم پر ان کی حجت ہو جائے گی۔ أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (۷۷) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگی اور ظاہر داری کو جانتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ کہ اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور سب باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرما سکتا ہے۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (۷۸) ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں ۔ یہ ان کے اہل علم کی باتیں تھیں رہے ان کے ان پڑھ لوگ، وہ کتاب (تورات) سے بےخبر ہیں لیکن وہ آرزوئیں ضرور رکھتے ہیں اور گمانوں پر ان کا گزارہ ہے جس میں انہیں ان کے علماء نے مبتلا کیا ہوا ہے مثلاً ہم تو اللہ کے چہیتے ہیں۔ ہم جہنم میں اگر گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے اور ہمیں ہمارے بزرگ بخشوا لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے آج کے جاہل مسلمانوں کو بھی علماء سوء و مشائخ سوء نے ایسے ہی حسین جالوں اور پرفریب وعدوں پر پھنسا رکھا ہے۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ ان لوگوں کے لئے ـ "ویل" ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (۷۹) ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ہلاکت اور افسوس ہے ۔ یہ یہود کے علماء کی جسارت اور خوف الہی سے بےنیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے ویل جہنم کی ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔(احمد ،ترمذی ،ابن حبان والحاکم بحوالہ فتح القدیر) بعض علماء نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے، قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۸۰) ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے (١) اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو (٢) جنہیں تم نہیں جانتے۔ ۱۔ یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے عہد لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کیساتھ اس طرح کا کوئی عہد نہیں ہے۔ ۲۔ یعنی تمہارا یہ دعویٰہے ہم اگر جہنم گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سے ہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے۔ جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نیک و بد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۸۱) یقیناً جس نے برے کام کئے اور اس کی نافرمانیوں نے اسے گھیر لیا اور وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۸۲) اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں جو جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔ یہ یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے جنت یا جہنم کا اصول بیان کیا جا رہا ہے، جس کے نامہء اعمال میں برائیاں ہی برائیاں ہونگی، یعنی کفر اور شرک، اور جو مؤمن گنہگار ہونگے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا وہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے ان کے گناہ معاف فرما کر بطور سزا کچھ عرصہ جہنم میں رکھنے کے بعد یا نبی کی شفاعت سے ان کو جنت میں داخل فرما دے گا جیسا کہ یہ باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (۸۳) نمازیں قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا۔ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا (قتل نہ کرنا) اور آپس والوں کو جلاوطن مت کرنا، ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (۸۴) تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے ۔ ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سےلیا گیا ، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولاً صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے ( جیساکہ سورۃ الانبیاء آیت ۲۵اور دیگر آیات سے واضح ہے ) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے اس کے بعد رشتے دارون ، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے ۔ اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے ، جیساکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہے ۔ اس عہد میں اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا بھی حکم ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں۔ جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں حتٰی کہ ان میں سے کسی ایک کے انکار یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے ۔ جیساکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلاوطن بھی کیا تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرف داری کی، ہاں جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا اس کا کچھ خیال نہ کیا، أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اس طرح یہود مدینہ کے تین قبیلہ تھے، بنو قینقاع، بنو نفیر اور بنو قریظ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنو قینقاع اور بنو نفیر، بنو خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں) کی مدد کرتے اور اپنے ہی مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کو لوٹتے اور انہیں جلا وطن کر دیتے حالانکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر انہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنا لیا تھا۔ بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کر دیتے، کسی حکم پر عمل کر لیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کو کوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل ، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد کرنا ان کی شریعت میں بھی حرام تھا ، ان امور کا توا نہوں نے بے محابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑالینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا ، حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے عذاب کی مار، وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۸۵) اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۸۶) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، ان کے نہ تو عذاب ہلکے ہونگے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی ۔ یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظر انداز کر دینے کی سزا بیان کی جا رہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت اور سرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت اور رسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کی بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت قبول ہے جو مکمل ہو بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کر لینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت و فکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مذکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ کے معنی ہیں موسیٰ علیہ السلام کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے حتٰی کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہو گیا وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ اور ہم نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی الْبَيِّنَاتِ سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے گئے تھے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر سورۃ آل عمران میں آیت (٤٩) میں ہے۔ ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو رُوحُ لْآمین فرمایا گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسانؓ کے متعلق فرمایا: اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما ایک دوسری حدیث میں ہے: جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں ۔ (فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی) أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (۸۷) لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا ۔ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور حضرت زکریا و یحیٰی علیہما السلام کو قتل کیا۔ وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف والے ہیں یعنی ہم پر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر ہے: وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ (۴۱:۵) ہمارے دل اس دعوت سے پردے میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ (۸۸) نہیں نہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نے ملعون کر دیا ان کا ایمان بہت ہی تھوڑا ہے دلوں پر حق بات کا اثر نہ کرنا ، کوئی فخر کی بات نہیں ۔ بلکہ یہ تو ملعون ہونے کی علامت ہے ، پس ان کا ایمان بھی تھوڑا ہے ( جو عنداللہ نامقبول ہے) یا ان میں ایمان لانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔ وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا اور ان کے پاس جب اللہ تعالیٰ کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ (۱) کافروں پر فتح چاہتے تھے يَسْتَفْتِحُونَ کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے کہ آخری نبی جلد مبعوث فرما تاکہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کریں۔یعنی استفتاح بمعنی استنصار ہے ۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں ۔ یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی ۔(فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (۸۹) تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کافروں پر۔ بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ بہت بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا وہ انکا کفر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ چیز کے ساتھ محض اس بات سے جل کر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جس بندہ پر چاہا نازل فرمایا فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ (۹۰) اس کے باعث یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگۓ اور ان کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب کیونکہ بار بار وہ غضب والا کام کرتے رہے جیسا کہ تفصیل گزری اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ ۗ حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، کفر کرتے ہیں، قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۹۱) اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیاء کو کیوں قتل کیا؟ یعنی تمہارا تورات پر دعویٰایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کو تم قتل نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔ وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (۹۲) تمہارے پاس تو موسیٰ یہی دلیلیں لے کر آئے لیکن تم نے پھر بھی بچھڑا پوجا (١) تم ہو ہی ظالم۔ یہ انکے انکار اور عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام آیات کی وضاحت اور دلیل کی بات لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن تم نے اسکے باوجود حضرت موسیٰ ؑ کو بھی تنگ کیا اور اللہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو کھڑا کر دیا اور کہہ دیا کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور سنو، قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ تو انہوں نے کہا، کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی (١) اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت (گویا) پلا دی گئی (٢) بسب ان کے کفر کے (٣) ۱۔ یہ کفر اور انکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کر کے سن لیا یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ کہتے کہ ہم نے کونسا عمل کرنا ہے۔ ۲۔ ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے کہ انسان کو اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے دوسرے اس کو أُشْرِبُوا (پلا دی گئی) سے تعبیر کیا گیا کیونکہ پانی انسان کے رگ و ریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزر اس طرح نہیں ہوتا (فتح القدیر) ۳۔ یعنی بچھڑے کی محبت و عبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں پر گھر کر چکا تھا۔ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۹۳) ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں بڑا حکم دے رہا ہے، اگر تم مؤمن ہو۔ قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(۹۴) آپ کہہ دیجئے اگر آخرت کا گھر صرف تمہارے ہی لئے ہے، اللہ کے نزدیک اور کسی کے لئے نہیں، تو آؤ اپنی سچائی کے ثبوت میں موت طلب کرو۔ وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (۹۵) لیکن اپنی کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی موت نہیں مانگیں گے (١) اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہودیوں کو کہا اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کر لو یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں ملکر یہ عرض کریں یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار کر دے یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجران کے عیسائیوں کو بھی دعوت مباہلہ دی گئی تھی جیسا کہ آل عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی عیسائیوں کی طرح جھوٹے تھے اس لئے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے (تفسیر ابن کثیر) وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی، آپ انہیں کو پائیں گے، یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیادہ ہیں موت کی آرزو تو کجا یہ تو دنیوی زندگی کے تمام لوگوں حتٰی کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکے گی، ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعووں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیونکہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعوؤں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقیناً وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہو جاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطیاں ظاہر ہو جاتیں۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کر لیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہوگا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لئے طے کر رکھا ہے۔ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ ۗ ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا، وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (۹۶) اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (۹۷) (اے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ جو جبرائیل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مؤمنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے ۔ احادیث میں ہے کہ چند یہودی علماء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صحیح جواب دے دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، کیونکہ نبی کے علاوہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوالوں کا صحیح جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کون لاتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا، جبرائیل۔ یہود کہنے لگے جبرائیل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو عذاب لے کر اترتا ہے۔ اور اس بہانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ماننے سے انکار کر دیا ۔ (ابن کثیر و فتح القدیر) مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ (۹۸) (تو اللہ بھی اس کا دشمن ہے) جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے حدیث میں ہے: جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا، گویا کہ اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض و عناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو (سورۃ یونس آیت ٦٢ اور ٦٣)۔ لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی نام کی نذر ونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا ، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے ، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ جیساکہ بدقسمتی سے اولیاء اللہ کی محبت کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے حالانکہ یہ محبت نہیں ہے ان کی عبادت ہے جو شرک اور ظلم عظیم ہے اللہ تعالیٰ اس فتنہ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔ وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ (۹۹) اور یقیناً ہم نے آپ کی طرف روشن دلیلیں بھیجی ہیں جن کا انکار سوائے بدکاروں کے کوئی نہیں کرتا۔ أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۱۰۰) یہ لوگ جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں تو ان کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے، بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں۔ وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا، نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۱۰۱) ان اہل کتاب کے ایک فرقہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا کہ جانتے ہی نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی آیات بیّنات عطا کی ہیں، جن کو دیکھ کر یہود کو بھی ایمان لے آنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں خود ان کی کتاب تورات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کا ذکر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے، لیکن انہوں نے پہلے بھی کسی عہد کی کب پرواہ کی ہے جو اس عہد کی وہ کریں گے؟ عہد شکنی ان کے گروہ کی ہمیشہ عادت رہی ہے۔ حتٰی کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بھی اس طرح پس پشت ڈال دیا، جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ ا ور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمانؑ کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے یعنی ان یہودیوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کی، البتہ شیطان کے پیچھے لگ کر نہ صرف جادو ٹونے پر عمل کرتے رہے، بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے ہی حکومت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضرت سلیمان علیہ السلام جادو کا عمل نہیں کرتے تھے، کیونکہ جادو سحر تو کفر ہے، اس کفر کا ارتکاب حضرت سلیمان علیہ السلام کیوں کر کر سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جادو گری کا سلسلہ بہت عام ہو گیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے سد باب کے لئے جادو کی کتابیں لے کر اپنی کرسی یا تخت کے نیچے دفن کر دیں۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان شیاطین اور جادو گروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا، بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی قوت و اقتدار کا راز یہی جادو کا عمل تھا اور اسی بنا پر ان ظالموں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی کافر قرار دیا، جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔ واللہ عالم۔(ابن کثیر) وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر جادو اتارا گیا تھا بعض مفسرین نے وَمَا أُنْزِلَ میں مَا نافیہ مراد لیا ہے اور ہاروت و ماروت پر کسی چیز کے اترنے کی نفی کی ہے‘ لیکن قرآن کریم کا سیاق اس کی تائید نہیں کرتا۔ اس لیے ابن جریر نے اس کی تردید کی ہے۔ ابن کثیر اسی طرح ہاروت و ماروت کے بارے میں بھی تفاسیر میں اسرائیلی روایات کی بھرمار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تفصیل کے نہایت اختصار کے ساتھ یہ واقعہ بیان کیا ہے‘ ہمیں صرف اس پر اور اسی حد تک ایمان رکھنا چاہیے۔ تفسیر ابن کثیر وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے (۱) جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں (۲) تو کفر نہ کر ۱۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے باطل کی تردید کے لیے‘ باطل مذاہب کا علم کسی استاد سے حاصل کیا جائے‘ استاد شاگرد کو اس یقین دہانی پر باطل مذہب کا علم سکھائے کہ وہ اس کی تردید کرے گا۔ لیکن علم حاصل کرنے کے بعد وہ خود بدمذہب ہو جائے‘ یا اس کا غلط استعمال کرے تو استاد اس میں قصوروار نہیں ہو گا۔ ۲۔ ہم اللہ کی طرف سے بندوں کے لیے آزمائش ہیں۔ فتح القدیر فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے یہ جادو بھی اس وقت تک کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک اللہ کی مشیت اور اس کا اذن ۔ اس لیے اس کے سیکھنے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جادو کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کو کفر قرار دیا ہے۔ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ ۚ یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نہ نفع پہنچا سکے، وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۱۰۲) اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۱۰۳) اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین ثواب انہیں ملتا، اگر یہ جانتے ہوتے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۰۴) اے ایمان والو تم (نبیؐ کو) ' راعنا ' نہ کہا کرو، بلکہ ' انظرنا ' کہو (١) یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی، مثلاً وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ جیسے وہ السلامُ علیکم کی بجائے السامُ علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ' انْظُرْنَا ' کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو، ادب و احترام کے پیش نظر کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اور اقوال میں مشابہت کرنے سے بچا جائے تاکہ مسلمان حدیث (من تشبہ بقوم فھو منھم ، ( جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا) کی وعید میں داخل نہ ہوں ۔ ابوداؤد مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ نہ تو اہل کتاب کے کافر اور نہ مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی کوئی بھلائی نازل ہو وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (۱۰۵) (ان کے اس حسد سے کیا ہوا) اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت خصوصیت سے عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۰۶) جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔ نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسے آدم علیہ السلام کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کر دیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہا کہ زمین اور آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کر دے، یہ اس کی قدرت ہی کا مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلاً ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آجکل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مذکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سابقہ صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۱۰۷) کیا تجھے علم نہیں کہ زمین اور آسمان کا مالک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ ۗ کیا تم اپنے رسول سے یہی پوچھنا چاہتے ہو جو اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا تھا مسلمانوں (صحابہ رضی اللہ عنہ) کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ازراہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشہ کفر ہے۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (۱۰۸) (سنو) ایمان کو کفر سے بدلنے والا سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہو جانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۰۹) تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ تم نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۱۱۰) اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے، سب کچھ اللہ کے پاس پالو گے، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔ یہودیوں کو اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حسد اور عناد تھا اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیرنے کی مذموم سعی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ تم صبر اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ان احکام و فرائض اسلام کو بجا لاتے رہو۔ جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى ۗ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا، تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۱۱۱) یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔ یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جا رہا ہے جس میں وہ مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۱۱۲) سنو جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ (١) بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور وَهُوَ مُحْسِنٌ کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی انہی اصولوں کے مطابق کئے گئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے نہ کہ محض آرزووں پر۔ وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں (١) اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں، حالانکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں۔ یہودی تورات پڑھتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکفیر کرتے تھے۔ عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات کے مِنْ عِنْد اللہ ہونے کی تصدیق ہے اس کے باوجود یہ یہودیوں کی تکفیر کرتے ہیں، یہ گویا اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے کفر و عناد اور اپنے اپنے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ اسی طرح ان ہی جیسی بات بےعلم بھی کہتے ہیں اہل کتاب کے مقابلے میں عرب کے مشرکین ان پڑھ تھے، اس لئے انہیں بےعلم کہا گیا، لیکن وہ بھی مشرک ہونے کے باوجود یہود اور نصاریٰ کی طرح، اس باطل میں مبتلا تھے کہ وہ یہ حق پر ہیں۔ اسی لئے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی یعنی بےدین کہا کرتے تھے۔ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (۱۱۳) قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کر دے گا۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا ۚ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے (١) ان کی بربادی کی کوشش کرے (٢) ۱۔ جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلا ف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا، جنہوں نے ایک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ ۲۔ تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے اسے گرا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔ أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ(۱۱۴) ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے (۱) ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔ یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں ہمت اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا۔ چنانچہ جب ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدہ کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا کہ یہ خوشخبری ہے اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ ہو جائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہونگے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر زیادتیاں کی ہیں ان کے بدلے میں ہمیں سزا سے دو چار یا قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہوگئی۔ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہو جاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لئے ایک ہی آیت نازل ہو جاتی ہے۔ ایسی آیتوں کی شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (۱۱۵) اللہ تعالیٰ کشادگی اور وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔ وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (۱۱۶) یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے، (نہیں بلکہ) وہ پاک ہے زمین اور آسمان کی تمام مخلوق اسکی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اسکا فرما نبردار ہے بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۱۱۷) وہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، بس وہی ہو جاتا ہے یعنی وہ اللہ تو ہے کہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا مالک ہے، ہرچیز اس کی فرمانبردار ہے، بلکہ آسمان کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لئے اسے صرف لفظ كُنْ کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالیٰ ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی نہیں دکھا دیتا؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہو جائیں جس طرح کہ بنی اسرائیل (آیت ٩٠ تا ٩٣) میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (۱۱۸) اسی طرح ایسی ہی بات انکے اگلوں نے بھی کہی تھی، انکے اور ان کے دل یکساں ہوگئے۔ ہم نے تو یقین والوں کے لئے نشانیاں بیان کر دیں۔ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (۱۱۹) ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی۔ وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ آپ سے یہودی اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں یعنی یہودیت یا نصرانیت اختیار کر لے۔ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى ۗ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے جو اب اسلام کی صورت میں ہے، جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دے رہے ہیں، نہ کہ تحریف شدہ یہودیت و نصرانیت۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۱۲۰) اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار یہ اس بات پر وعید ہے کہ علم آجانے کے بعد بھی اگر محض ان پر خود غلط لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی پیروی کی تو تیرا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ دراصل امت محمدیہ کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لئے وہ بھی ایسا کام نہ کریں، نہ دین میں مداخلت اور بےجا دخل کا ارتکاب کریں۔ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ جنہیں ہم نے کتاب دی (١) اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں (٢) وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۱۔ اہل کتاب کے لوگوں کے اخلاق و کردار کی ضروری تفصیل کے بعد ان میں جو کچھ لوگ صالح اور اچھے کردار کے تھے، اس آیت میں ان کی خوبیاں، اور ان کے مؤمن ہونے کی خبر دی جا رہی ہے۔ ان میں عبد اللہ بن سلام اور ان جیسے دیگر افراد ہیں، جن کو یہودیوں میں سے قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔ ۲۔ وہ اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے کہ کئی مطلب بیان کئے گئے مثلاً - خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں۔ جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے ہیں اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ - اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے جیسے دوسرے یہودی کرتے تھے - اس میں جو کچھ تحریر ہے، لوگوں کو بتلاتے ہیں اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں - اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے اور متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں انہیں علماء سے حل کراتے ہیں - اس کی ایک ایک بات کی پیروی کرتے ہیں (فتح القدیر) واقعہ یہ ہے کہ حق کی تلاوت میں سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مزکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۱۲۱) اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے ۔ اہل کتاب میں سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنم جائے گا۔ (ابن کثیر) يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (۱۲۲) اے اولاد یعقوب میں نے جو نعمتیں تم پر انعام کی ہیں انہیں یاد کرو اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دے رکھی تھی۔ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۱۲۳) اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی نفس کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے گا، نہ کسی شخص سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے گی نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ جب ابراہیم ؑ کو انکے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا (١) اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، كَلِمَات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت نار نمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب اور کامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی، عیسائی حتٰی کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی جاتی ہے۔ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (۱۲۴) عرض کرنے لگے میری اولاد کو (۱) فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کر دیا، پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ میرا وعدہ ظالموں سے نہیں اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم و مشرک ہوں گے ۔ ان کی شقاوت و محرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیغمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ اگر ایمان و عمل صالح نہیں ، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔ صحیح مسلم وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی (١) تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو (٢) ۱۔ حضرت ابراہیم کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی - ایک‘ لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ دوسرے معنی ہیں لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بیقرار رہتا ہے یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی بلکہ روز افزوں رہتا ہے - دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف بھی نہیں رہتا چنانچہ زمانہء جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ ۲۔ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کعبہ کرتے رہے اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے نشانات ہیں اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کر دیا گیا ہے، جسے ہر حاجی طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (۱۲۵) ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ جب ابراہیم نے کہا، اے پروردگار تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت و تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (۱۲۶) اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا، پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بےبس کر دوں گا۔ یہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۱۲۷) ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے ہمارے پروردگار تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۱۲۸) تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ اے ہمارے رب ان میں، انہیں میں سے رسول بھیج یہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں (الفتح الربانی) يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت (۱) سکھائے اور انہیں پاک کرے (۲) ۱۔ کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کی تعلیم کتاب و حکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر و ثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم و مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ و مطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفہوم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔ ۲۔ تلاوت و تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک و توہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۱۲۹) یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ دین ابراہیمی سے وہ ہی بےرغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو، وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (۱۳۰) ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے عربی زبان میں رَغِبَ کا صلہ عَنْ ہو تو اس کے معنی بےرغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں عطا فرمائی ہے یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بےرغبتی بےوقوفوں کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں ہو سکتا۔ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۳۱) جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا، فرمانبردار ہو جا، انہوں نے کہا، میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی۔ یہ فضیلت و برگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اطاعت و فرماں برداری کا بےمثال نمونہ پیش کیا۔ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (۱۳۲) اس کی وصیت ابراہیمؑ اور یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو کی، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے وصیت اپنی اولاد کو بھی کی جو یہودیت نہیں اسلام ہی ہے، جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت موجود ہے اور قرآن کریم میں دیگر متعدد مقامات پر بھی اس کی تفصیل آئے گی جیسے (ال عمران، ١١٩) اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي یعقوب ؑکے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب (١) انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ یہود کو زجرو توبیخ کی جا رہی ہے تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم، یعقوب علیہما السلام نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ جھوٹ اور بہتان ہوا اور اگر کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مذکورہ دعویٰ غلط ثابت ہو گیا کیونکہ انہوں نے جو وصیت کی وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت کی، یا عسائیت کی۔ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے، اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا انبیاء کی جماعت اولاد علامات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔ قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (۱۳۳) تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۳۴) یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کہا وہ انکے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ انکے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے یہ بھی یہود کو کہا جا رہا ہے کہ تمہارے آباؤاجداد جو انبیاء و صالحین ہو گزرے ہیں، ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا، تمہیں نہیں، تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا ۗ یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۱۳۵) تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیمؑ خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے۔ یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسائیت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (اللہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی آمیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہیں جن میں توحید کا تصور بالکل بے غبار اور نہایت واضح ہے جس سے یہودیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال عقائد میں جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے ۔ کیونکہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن وحدیث تک تو نہیں ہوسکتی ، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا ۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔ قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ اور اس چیز پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (۱۳۶) اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو دیئے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں ۔ یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ملا یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کو ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیاء کے درمیان تفریق ہے جس کو جائز نہیں رکھا۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیونکہ ایک تو وہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کر دیا ہے فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کریگا صحابہ کرامؓ بھی اسی مذکورہ طریقے پر ایمان لائے تھے، اس لئے صحابہ کرام کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح سے صحابہ کرام ! تم ایمان لائے ہو تو پھر یقیناً وہ ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔ اگر وہ ضد اور اختلاف میں منہ موڑیں گے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرنے والا ہے۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی یہ وعدہ پورا ہوا اور بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا گیا اور بنو قریظہ قتل کئے گئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت ایک مصحف عثمان ان کی اپنی گود میں تھا اور اس آیت کے جملہ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ پر ان کے خون کے چھینٹے گرے بلکہ دھار بھی۔ کہا جاتا ہے یہ مصحف آج بھی ترکی میں موجود ہے۔ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۱۳۷) اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔ صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ (۱۳۸) اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا (١) ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جس کو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے اس رسم کا نام ان کے ہاں پبتسمہ ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔ اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے۔ جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔ قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ (۱۳۹) آپ کہہ دیجئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے، ہمارے لئے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہم تو اسی کے لئے مخلص ہیں کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص و نیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اسی کے احکامات کی پیروی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں حالانکہ ہمارا ہی نہیں تمہارا بھی رب ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے خاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى ۗ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑاور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ تم کہتے ہو کہ یہ اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ اس کی نفی فرماتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ زیادہ علم اللہ کو ہے یا تمہیں۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۱۴۰) اللہ کے پاس شہادت چھپانے والے سے زیادہ ظالم اور کون ہے؟ اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ۔ تمہیں معلوم ہے کہ یہ انبیاء یہودی یا عیسائی نہیں تھے، اسی طرح تمہاری کتابوں میں آنحضرت کی نشانیاں بھی موجود ہیں، لیکن تم ان شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سے خفیہ نہیں۔ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ یہ امت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے، وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۴۱) تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے ۔ اس آیت میں پھر کسب و عمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف سے لگاؤ یا ان پر اعتماد کو بےفائدہ قرار دیا گیا۔ جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا سلسلہ اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔ مطلب ہے کہ تمہارے خاندان کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے پوچھ گچھ نہیں ہو گی بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گاا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (۳۵:۱۸) کوئی بھی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (۵۲:۳۹) اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے *********** سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۱۴۲) آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے (۱) وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے گئے ١٦/١٧ مہینے تک بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے جو قبلہ ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر بھی اٹھاتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل کعبہ کا حکم دے دیا جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچایا حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے اسی طرح کرنے کا پابند ہوتا ہے اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا اسی طرف پھر جانا ضروری تھا علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق اور مغرب ساری سمتیں اسی کی ہیں اس لئے سمتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہر سمت میں اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس سمت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل کعبہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی۔ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا (١) تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح تمہیں بہتر قبلہ عطا کیا گیا اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے: لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (۲۲:۷۸) رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے: جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا وہ ہاں میں جواب دیں گے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہارا کوئی گواہ ہے؟ کہیں گے ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ۚ جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، کہ مؤمنین صادقین تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات کے منتظر رہا کرتے تھے اس لئے ان کے لئے ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع میں ہی اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا یہ مسجد قبلٰتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا لِنَعْلَمَ ( تاکہ ہم جان لیں) اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کر دیں تاکہ لوگوں کے سامنے بھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہو جائیں (فتح القدیر) وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ان پر کوئی مشکل نہیں وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (۱۴۳) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا (۱) اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہو چکے تھے یا ہم جتنا عرصہ اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگیئں یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہونگی اور ان کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ واضح کر دیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (۱۴۴) اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے (١) اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں۔ اہل کتاب کے مختلف مقدس کتابوں میں خانہ کعبہ کے قبلہ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور و حسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔ وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے کیونکہ یہود کی مخالفت تو حسد و عناد کی بنا پر ہے، اس لئے دلائل کا ان پر کوئی اثر نہ ہو گا۔ گویا اثر پذیری کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل صاف ہو۔ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ اور نہ آپ کے قبلے کو ماننے والے ہیں (۱) اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں (۲) ۱۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی کے پابند ہیں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ایسا حکم نہ ملے آپ ان کے قبلے کو کیونکر اختیار کر سکتے ہیں۔ ۲۔ یہود کا قبلہ بیت المقدس اور عیسائیوں کا بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ جب اہل کتاب کے یہ دو گروہ بھی ایک قبلے پر متفق نہیں تو مسلمانوں سے کیوں یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ان کی موافقت کریں گے۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (۱۴۵) اور اگر آپ باوجود کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے پھر بھی ان کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالیقین آپ بھی ظالموں میں ہوجائیں گے ۔ یہ وعید پہلے بھی گزر چکی ہے، مقصد امت کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن و حدیث کے علم کے باوجود اہل بدعت کے پیچھے لگنا،ظلم اور گمراہی ہے۔ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (۱۴۶) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے ۔ یہاں اہل کتاب کے ایک فریق کو حق کے چھپانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کے ایک فریق عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کا بھی جو اپنے صدق و صفائے باطنی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوا۔ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (۱۴۷) آپ کے رب کی طرف سے یہ سراسر حق ہے، خبردار آپ شک کرنے والوں میں نہ ہونا ۔ پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو بھی حکم اترتا ہے، وہ یقیناً حق ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے (١) تم اپنی نیکیوں کی طرف دوڑو۔ یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک راستہ اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ (۵:۴۸) یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستے یعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سب اختیارات دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اے مسلمانوں تم تو خیر کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر محروم ہیں۔ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۴۸) جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۗ آپ جہاں سے نکلیں اپنا منہ (نماز کے لئے) مسجد حرام کی طرف کرلیا کریں، یعنی یہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۱۴۹) جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بےخبر نہیں۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ اور جس جگہ سے آپ نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو (١) تاکہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہ جائے (٢) سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے (٣) ۱۔ قبلہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم تین مرتبہ دہرایا گیا یا تو اس کی تاکید اور اہمیت واضح کرنے کے لئے یا چونکہ نسخ کا حکم پہلا تجربہ تھا اس لئے ذہنی خلجان دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے بار بار دھرا کر دلوں میں راسخ کر دیا جائے۔ ایک علت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور خواہش تھی وہاں اسے بیان کیا گیا ہے۔ دوسری علت، ہر اہل ملت اور صاحب دعوت کے لئے ایک مستقل مرکز کا وجود ہے وہاں اسے دہرایا۔ تیسری، علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے وہاں اسے بیان کیا گیا ہے (فتح القدیر) ۲۔ یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں کہ ہماری کتابوں میں تو ان کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور نماز یہ بیت المقدس کی طرف پڑھتے ہیں۔ ۳۔ یہاں ظَلَمُوا سے مراد عناد رکھنے والے ہیں یعنی اہل کتب میں سے جو عناد رکھنے والے ہیں، وہ جاننے کے باوجود کہ پیغمبر آخری الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہو گا، وہ بطور عناد کہیں گے کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ بنا کر یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بالآخر اپنے آبائی دین ہی کی طرف مائل ہوگیا ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۵۰) تم ان سے نہ ڈرو (۱) مجھ سے ہی ڈرو تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور اس لئے بھی کہ تم راہ راست پاؤ۔ ظالموں سے نہ ڈرو۔ یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا مت کرو۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا قبلہ تو اختیار کر لیا، عنقریب ہمارا دین بھی اپنا لیں گے مجھ سے ڈرتے رہو، جو حکم میں دیتا ہوں اس کا بلا خوف عمل کرتے رہو۔ تحویل قبلہ کو اتمام نعمت اور ہدایت یافتگی سے تعبیر فرمایا کہ حکم الہی پر عمل کرنا یقیناً انسان کو انعام و اکرام کا مستحق بھی بناتا ہے اور ہدایت کی کی توفیق بھی اسے نصیب ہوتی ہے۔ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ جس (١) طرح ہم نے تم میں تمہیں سے رسول بھیجا اور ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے كَمَا (جس طرح) کا تعلق ما قبل کلام سے ہے یعنی یہ تمام نعمت اور توفیق ہدایت اس طرح ملی جس طرح اس سے پہلے تمہارے میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارا تزکیہ کرتا، کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا اور جن کا تمہیں علم نہیں وہ سکھاتا۔ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (۱۵۱) اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جس سے تم بےعلم تھے۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (۱۵۲) اس لئے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر کرو اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفران نعمت) ہے شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔ جیسے : لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (۱۴:۷) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (۱۵۳) اے ایمان والو صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں آرام اور راحت (نعمت) یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے مدد کی تاکید ہے۔حدیث میں ہے: مؤمن کا معاملہ بھی عجیب ہے اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں۔ (صحیح مسلم) صبر کی دو قسمیں ہیں، - برے کام کے ترک اور اس سے بچنے پر صبر اور - لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا احکام الٰہی کے بجا لانے میں جو مشکلیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر اور ضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا چاہے وہ نفس اور بدن پر کتنی ہی گراں ہوں اور اللہ کی ناپسندیدگی سے بچنا چاہیے اگرچہ خواہشات و لذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھینچیں۔ (ابن کثیر) وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (۱۵۴) اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو (١) وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔ شہدا کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز اور تکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہ زندگی اعلیٰ قدر مراتب انبیاء و مؤمنین، حتٰی کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مؤمن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں دیکھیے آل عمران۔آیت ١١٩ (ابن کثیر) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (۱۵۵) اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۱۵۶) جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (۱۵۷) ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ان آیات میں صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور اللَّھُمْ اَجَرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں (١) اس لئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (٢) ۱۔ شَعَائِرِ جس کے معنی علامتیں ہیں یہاں حج کے وہ مناسک (مثلاً سعی اور قربانی کو اشعار کرنا) مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ ۲۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ سے بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ شاید ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا جب لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے ذہن میں آیا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیونکہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم کو اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر) وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (۱۵۸) اپنی خوشی سے کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ(۱۵۹) جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے: جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۱۶۰) مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں انکی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنیوالا اور رحم کرنے والا ہوں۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (۱۶۱) یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے ان پر لعنت جائز ہے لیکن اس کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ کر لی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہو سکتا البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے ان کے مرتکبین کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پا سکتے ہیں۔ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (۱۶۲) جس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی۔ وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (۱۶۳) تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں (١) وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا : أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (۳۸:۵) کیا اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کونفع دینے والی چیزیں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا۔ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا ۱۶۳۱۶۳وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۱۶۴) اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔ یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی آیت میں نہیں - آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں۔ - سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ - بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ - ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ - ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی گرم بھی، بارآور بھی اور غیر بارآور بھی، مشرقی مغربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ - بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے، یقیناً کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے مذکورہ دلائل کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے اسی طرح کی محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے کرنی چاہیے، بعثت محمدی کے وقت ہی ایسا نہیں تھا بلکہ شرک کے یہ مظاہر آج بھی عام ہیں، بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کر گئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف غیراللہ اور پیروں فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماوی وملجا اور قبلہ حاجات بنارکھا ہے بلکہ ان سے ان کی محبت ،اللہ سے بھی زیادہ ہے اور توحید کا وعظ ان کو بھی اسی طرح کھلتا ہےجس طرح مشرکین مکہ کو اس سے تکلیف ہوتی تھی جس کانقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے : وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (۳۹:۴۵) جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں اور جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا(اور کا) ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ۗ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں تاہم اہل ایمان کو مشرکین کے برعکس اللہ تعالیٰ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ مشرکین جب سمندر میں پھنس جاتے ہیں تو وہاں انہیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور وہاں صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین سخت مصیبت میں مدد کے لئے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (۱۶۵) کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے)۔ إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ (۱۶۶) جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے۔ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے، کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں، كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (۱۶۷) اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو، یہ ہرگز جہنم سے نہیں نکلیں گے۔ آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بےبسی اور بےوفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن ان کو وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ کہیں گے کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کرلیں يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۱۶۸) لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیؤاور شیطانی راہ پر مت چلو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کر لیتے تھے، جس کی تفصیل سورۃ الا نعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا پس شیطان نے ان کو دین سے گمراہ کر دیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں وہ اس نے ان پر حرام کر دیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا ) إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۱۶۹) وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ(۱۷۰) اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں ہم اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں ۔ آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباؤ جداد بھی دینی بصیرت سے بےبہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباء پرستی کی پیروی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (۱۷۱) وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل نہیں ۔ ان کافروں کی مثال جنہوں نے تقلید آباء میں اپنی عقل و فہم کو معطل کر رکھا ہے ان جانوروں کی طرح ہے جن کو چرواہا بلاتا اور پکارتا ہے وہ جانور آواز تو سنتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جا رہا ہے؟ اسی طرح یہ آباؤ اجداد کی تقلید کرنے والے بھی بہرے ہیں کہ حق کی آواز نہیں سنتے، گونگے ہیں کہ ان کی زبان سے حق نہیں نکلتا، اندھے ہیں کہ حق کو دیکھنے سے عاجز ہیں اور بےعقل ہیں کہ دعوت حق اور دعوت توحید و سنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں دُعَاء سے قریب کی آواز اور نِدَاء سے دور کی آواز مراد ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (۱۷۲) اے ایمان والو جو پاکیزہ روزی ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیؤ اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے رہو ۔ اس میں اہل ایمان کو ان تمام چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک ہیں حرام کردہ اشیاء پاک نہیں ہیں چاہے وہ اپنے نفس کو کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگیں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا پسند ہے) دوسرا یہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کر لیتے تھے (جس کی تفصیل سورۃ الا نعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے) تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے لیکن اسے کلمہ حصر إِنَّمَا کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو حرام ہیں۔ اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی حرام قرار دے لیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں حرام تو صرف یہ ہیں۔ اس لئے یہ حصر اضافی ہے یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرا حدیث میں دو اصول جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے بیان کر دئیے گئے ہیں وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں۔ درندوں میں ذوناب (وہ درندہ جو دانتوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں تیسرے جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے مثلاً گدھا کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے نہ کہ حدیث کو نظر انداز کر کے صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد وہ حلال جانور ہے جو بغیر ذبح کیے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل المائدہ میں ہے) مر گیا ہو یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو مثلاً گلا گھونٹ دیا جائے یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے یا جس طرح آجکل مشینی ذبح کا طریقہ ہے اس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں ایک مچھلی دوسری ٹڈی وہ اس حکم میتہ سے مستثنیٰ ہیں خون سے مراد دم مسفوح ہے یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت۔ سور بےغیرتی میں بدترین جانور ہے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے وَمَا أُهِلَّ وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جائیں جیسے مشرکین عرب لات وعزیٰ وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے یا آگ کے نام پر جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں جبکہ نذر بھی نماز روزہ وغیرہ عبادات کی طرح ایک عبادت ہے اور عبادات کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی لئے حدیث میں ہے: جس نے غیر اللہ کے نام جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۷۳) پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر انکے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۷۴) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خرید لیا ہے، فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (۱۷۵) یہ لوگ آگ کا عذاب کتنا برداشت کرنے والے ہیں۔ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (۱۷۶) ان عذابوں کا باعث یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچی کتاب اتاری اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقیناً دور کے خلاف میں ہیں۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاریٰ اپنے قبلے کو (جوبیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمان تحویل قبلہ پر چہ مگوئیاں کر رہے تھے جس سے بعض دفعہ رنجیدہ دل ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، یہاں ان عقائد و اعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات و صفات میں یکتا اور تمام عیوب سے پاک قرآن و حدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری تعالیٰ کو بغیر کسی تاویل کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے حشر نشر اور جنت اور دوزخ پر یقین رکھا جائے۔ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، الْبَأْسَاءِ سے تنگ دستی اور شدت فقر۔ الضَّرَّاءِ سے نقصان یابیماری الْبَأْسَاءِ سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہی سے انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لئے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (۱۷۷) یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ اے ایمان والو تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى ۚ آزاد، آزاد کے بدلے ، غلام ، غلام کے بدلے عورت ،عورت کے بدلے زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں اس لیے زورآور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم کا ارتکاب کر لیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقتور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہو جاتا وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے کہ جو قاتل ہوگا قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے۔ (فتح القدیر) مزید دیکھیے سورۃ مائدہ آیت۔٤٥ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے معافی کی دو سورتیں ہیں ایک بغیر معاوضہ یعنی دیت لئے بغیر محض رضائی الٰہی کے لئے معاف کر دینا دوسری صورت میں قصاص کے بجائے دیت قبول کر لینا اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کی پیروی کرے بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کر کے اس پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۷۸) تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے (۱) اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا ۔(۲) ۱۔ یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص) معافی یا دیت تین صورتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہیں ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی قصاص تھا نہ دیت۔ (ابن کثیر) ۲۔ قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کر دے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا اور آخرت میں بھگتنی ہو گی۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۷۹) عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے ۔ جب قاتل کو یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کر دیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہ ہوگی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہو جاتا ہے وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل اور خونریزی سے محفوظ رکھتا ہے جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے اس کا مشاہدہ آج بھی سعودی معاشرے میں کیا جا سکتا ہے جہاں اسلامی حدود کے نفاذ کی یہ برکات الحمد للہ موجود ہیں۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (۱۸۰) تم پر فرض کر دیا گیا کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے (١) پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔ وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا اب یہ منسوخ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثہ کے حصے مقر کر دئیے ہیں) پس اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے جو وارث نہ ہوں یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جا سکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ایک تہائی مال ہے اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔ فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۱۸۱) اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگا، واقع ہی اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۸۲) ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانبداری یا گناہ کی وصیت کر دینے سے ڈرے (١) پس وہ ان میں آپس میں صلح کرا دے تو اس پر گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتہ دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور إِثْمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے تو مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل و انصاف کا اہتمام ضروری ہے ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب اس کے اُخروی نجات کے نقط نظر سے سخت خطرناک ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۸۳) اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔ صِيَام ، صوم (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے اللہ کی رضا کے لئے رُکے رہنا یہ عبادت چونکہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ گنتی کے چند دن ہیں فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پورا کر لے یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں ۔ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ اور اس کی طاقت رکھنے والے (۱) فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اس کے لئے بہتر ہے (٢) ۲۔ يُطِيقُونَهُ کا ترجمہ نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں‘ کیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے جسے شفایابی کی امید نہ ہو روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے وہ ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دے دے لیکن زیادہ تر مفسرین نے اس کا ترجمہ طاقت ہی کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا کریں۔ لیکن بعد میں فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ کے ذریعے سے منسوخ کر کے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کر دیا گیا تاہم زیادہ بوڑھے دائمی مریض کے لئے اب بھی یہ حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں، دودھ پلانے والی عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہونگی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں بعد میں روزے کی قضا دیں۔ ۲۔ جو خوشی سے ایک مسکین کے بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۸۴) لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا (١) جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ مکمل قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہوگیا بلکہ یہ ہے کہ رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں سے حسب حالات ۲۳ سالوں تک اترتا رہا۔ (ابن کثیر) اس لئے یہ کہنا قرآن رمضان میں یا لیلۃ القدر مبارکہ میں اترا یہ سب صیح ہے۔ کیونکہ لوح محفوظ سے تو رمضان میں ہی اترا ہے اور لیلۃ القدر اور لیلۃ المبارکہ یہ ایک ہی رات ہے یعنی قدر کی رات جو رمضان میں ہی آتی ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور وحی جو غار حرا میں آئی وہ رمضان میں آئی۔ اس اعتبار سے قرآن مجید اور رمضاں المبارک کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ کا وصال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا رمضان کی تین راتوں (۲۳۔۲۵۔ اور۲۷) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باجماعت قیام اللیل بھی کرایا جس کو اب تراویح کہاجاتا ہے۔ (صحیح ترمذی وسنن ابن ماجہ البانی) فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۱۸۵) وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں رمضان المبارک کے احکام و مسائل کے درمیان دعا کا مسئلہ بیان کر کے یہ واضح کر دیا کہ رمضان المبارک میں دعا کی بڑی فضیلت ہے جس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے خصوصاً افطاری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت بتلایا گیا ہے۔ تاہم قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے ان آداب شرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح احادیث میں حرام خوراک سے بچنے اور خشوع و خضوع کا اہتمام کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (۱۸۶) اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ۗ روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع تمہارے لئے حلال کیا گیا وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۖ تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے۔ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے (١) پھر رات تک روزے کو پورا کرو (٢) ۱۔ ابتدا اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشاء کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھا لیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت فرما دی۔ ۲۔ یعنی رات ہوتے ہی (سورج غروب کے فورا ًبعد) روزہ افطار کر لو تاخیر مت کرو جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے دوسرا یہ کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث) وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے چاہے مرد ہو چاہے عورت۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صحیح نہیں ہے البتہ مسجد میں ان کے لئے ہرچیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں سے کسی طرح اختلاط نہ ہو جب تک مسجد میں معقول محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے یہ ایک نفلی عبادت ہے جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے فقہ کا اصول ہے۔ مصالح کے اصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۱۸۷) اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں۔ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۸۸) اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو ۔ ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروا لے اس طرح دوسرے کا حق غصب کر لے یہ ظلم ہے اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کر سکتا۔ یہ ظالم عند اللہ مجرم ہوگا (ابن کثیر) يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى ۗ (احرام کی حالت میں ) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں ، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۱۸۹) اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو (۱) اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ انصار جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لئے گھر آنے کی ضرورت پڑ جاتی تو دروازے سے آنے کے بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو نیکی سمجھتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (۱۹۰) لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو (١) اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی جو مسلمانوں سے آمادہ قتل رکھتے تھے۔ تاہم زیادتی سے منع فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے مار ڈالنا بھی زیادتی ہے جس سے بچا جائے ۔ (ابن کثیر) وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ اور (سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے مکہ میں مسلمان چونکہ کمزور اور منتشر تھے اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں جمع ہو گئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف انہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے اس کے بعد اس میں مزید توسیع کر دی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا قرآن کریم نے اَعْتَدُوا زیادتی کرنے سے منع فرمایا اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بد عہدی اور مثلہ نہ کرنا نہ بچوں اور عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت کرنے والوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کو جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرمایا ۔ (ابن کثیر) جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فِتْنَةُ سے مراد کفر و شرک ہے یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اس لیے اس کو ختم کرنے کے لیے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے ۔ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (۱۹۱) اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو (۱) کافروں کا بدلہ یہی ہے۔ حدود حرم میں قتال منع ہے لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۹۲) اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (۱۹۳) اگر یہ رک جائیں (تو تم بھی رک جاؤ) زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں ٦ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ میں نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آ سکیں گے یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جب دوسرے سال حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کر کے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کر کے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کر کے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ ۔(ابن کثیر) فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ۚ جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (۱۹۴) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہزگاروں کے ساتھ ہے۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (۱۹۵) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو (١) اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اس سے بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری صورتیں ہلاکت کی ہیں جہاد چھوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقیناً دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور نتیجہ تباہی ہے۔ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو یعنی حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اسکا پورا کرنا ضروری ہے چاہے نفلی حج و عمرہ ہو۔ (امیرالتفسیر) فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو (۱) اور سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے (۲) ۱۔ اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہو جائے تو ایک جانور بکری گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو وہیں ذبح کر کے سر منڈوا لو اور حلال ہو جاؤ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٦ ہجری والے عمرے کی قضا ٧ ہجری میں دی۔ ۲۔ یعنی اس کو ایسی تکلیف ہو جائے کہ سر کے بال منڈوانے پڑ جائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے حدیث کی رو سے ایسا شخص ٦ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر دے یا تین روزے رکھے۔ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے حج کی تین قسمیں ہیں۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں۔ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ پس جب تم امن کی حالت میں ہو جاؤ تو جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ جسے طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی پر (۱) یہ پورے دس ہوگئے یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدیہ یا روزے رکھے اور یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد احرام کے رہنے والے نہ ہوں مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہو سکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر) ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (۱۹۶) یہ حکم ان کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ ۚ حج کے مہینے مقرر ہیں اور یہ ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذوا لحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے اس لئے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے : جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق و فجور سے بچا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى ۚ تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید کی۔ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (۱۹۷) اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ ۚ تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (۱۹۸) اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے، تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے۔ ۱۹ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے عرفات میں وقوف ہی حج ہےیہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات (قصر) جمع کر کے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے یہاں ذکر الہی کی تاکید ہے یہاں رات گزارنی ہے فجر کی نماز غَلَس (اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے طلوع آفتاب کے بعد منٰی جایا جائے۔ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۹۹) پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں (١) اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں پر وقوف کر کے واپس آنا ضروری ہے لیکن عرفات چونکہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے چنانچہ حکم دیا جا رہا ہے جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔ فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ عرب کے لوگ فراغت کے بعد منٰی میں میلا لگاتے اور اپنے آباؤاجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے جب تم ١٠ ذوی الحجہ کو کنکریاں مارنے قربانی کرنے، سر منڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا مروہ سے فارغ ہو جاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منٰی میں قیام کرنا ہے وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو کیونکہ جاہلیت میں تم اپنے آباؤ اجداد کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (۲۰۰) بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں بھی کوئی حصہ نہیں۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (۲۰۱) اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے یعنی اعمال خیر کی توفیق، اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ پڑھتے تھے۔ طواف کے دوران ہر چکر کی الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا پڑھی جائے۔ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان پڑھنا مسنون عمل ہے۔ أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (۲۰۲) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ ۚ اور اللہ تعالیٰ کی یاد ان گنتی کے چند ایام (ایام تشریق) میں کرو مراد ایام تشریق ہیں یعنی ١١،١٢ اور ١٣ ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الٰہی یعنی باآواز بلند تکبیرات مسنون ہیں صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسے کہ ایک کمزور حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں۔ کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ اَ للّٰہُ اَکبَرْ، اللّٰہُ اَکبَر،ْ لَا اِلٰہَ اِلَّا، واللّٰہُ اَکبَر، اللّٰہُ اَکبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُہ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ دو دن کی جلدی کرنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں رمی جماد (جمرات کو کنکریاں مارنا) ٣ دن افضل ہیں لیکن اگر کوئی دو دن (١١ اور ١٢ ذوالحجہ) کنکریاں مار کر واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ لِمَنِ اتَّقَى ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (۲۰۳) یہ پرہیزگار کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو تم سب اس کی طرف جمع کئے جاؤ گے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (۲۰۴) اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور منکرین ہیں جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو کہ اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔ وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (۲۰۵) جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین پر فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ اور جب اسے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے ۔ تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور و انانیت ہیں۔ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَاد ُ(۲۰۶) ایسے کے لئے بس جہنم ہی ہے اور یقیناً وہ بدترین جگہ ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں یہ آیت کہتے ہیں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ رومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہا یہ مال سب یہاں کا کمایا ہوا ہے اسے ہم ساتھ نہیں لے جانے دیں گے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے یہ سارا مال ان کے حوالے کر دیا اور دین لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا صہیب نے نفع بخش تجارت کی دو مرتبہ فرمایا۔ (فتح القدیر) لیکن یہ آیت بھی عام ہے جو تمام مؤمنین متقین اور دنیا کے مقابلے دین کو اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کو شامل ہے کیونکہ اس قسم کی تمام آیات کے بارے میں لفظ عموم کا اعتبار ہوگا سبب نزول کے خصوص کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پس اخنس بن شریق (جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا) برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو اس جیسے برے کردار کا حامل ہوگا اور صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خیر اور کمال ایمان کی ایک مثال ہیں ہر اس شخص کے لیے جو ان صفات خیر و کمال سے متصف ہو گا۔ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (۲۰۷) اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۲۰۸) ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اس طرح نہ کرو جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں ان پر تو عمل کر لو دوسرے حکموں کو نظر انداز کر دو اس طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کر دی گئی اور آجکل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں بلکہ دین کو عبادت یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیاست اور ایوان حکومت سے دین کو نکال دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے جو رسوم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج وغیرہ اور یہ کہا جارہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا ہے برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔ فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۰۹) اگر تم باوجود تمہارے پاس دلیل آجانے کے بھی پھسل جاؤ تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ انکے پاس خود اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا (١) دیا جائے، یہ تو قیامت کا منظر ہے جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلوے اور بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے آئیں اور فیصلہ چکائیں تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول نہیں اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کر کے اپنی آخرت سنوار لو۔ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (۲۱۰) اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔ سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں مثلاً عصائے موسیٰ جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا سمندر سے راستہ بنایا پتھر سے بارہ چشمے جاری کیے، بادلوں کا سایہ، من و سلویٰ کا نزول وغیرہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے انکار کیا۔ وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (۲۱۱) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے (وہ جان لے) (۱) کہ اللہ تعالیٰ بھی سخت عذابوں والا ہے۔ نعمت کے بدلنے کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر کا راستہ اپنایا۔ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا کافروں کے لئے دنیا کی زندگی خوب زینت دار کی گئی ہے، وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وہ ایمان والوں سے ہنسی مذاق کرتے ہیں (١) حالانکہ پرہیزگار لوگ قیامت کے دن ان سے اعلیٰ ہونگے، چونکہ مسلمان کی اکثریت غربا ءپر مشتمل تھی جو دینوی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم تھے اس لئے کافر یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور شیوا رہا ہے۔ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (۲۱۲) اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بےحساب روزی دیتا ہے ۔ اہل ایمان کے فقر اور سادگی کا کفار مذاق اُڑاتے، اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہا ہے کہ قیامت والے دن یہی فقراء اپنے تقویٰ کی بدولت بلند بالا ہونگیں بےحساب روزی کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہو سکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے فقراء پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دیئے۔ جن سے سامان دنیا اور رزق کی فروانی ہوگئی۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً در اصل لوگ ایک ہی گروہ تھے یعنی توحید پر۔ یہ حضرت آدم علیہ ؑ سے حضرت نوح ؑ، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیاء دیتے رہے قائم رہے۔ آیت میں مفسرین صحابہ نے فاختَلَفُوْا منسوخ مانا ہے یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک و ظاہر پرستی عام ہو گئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلاف کا فیصلہ اور حق اور توحید قائم اور واضح کریں (ابن کثیر) فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہو جائے۔ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ صرف ان ہی لوگوں نے جو اسے دیئے گئے تھے، اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور انحراف کا منبع بغض اور عناد بنتا ہے امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلاف کی شدت سے محفوظ رہی لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا اس سے اختلاف کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تا آنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیزیں بن کر رہ گیا ہے۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ اس لئے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعہ کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف کیا یہود نے ان کو جھٹلایا اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور اللہ بنا دیا اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرمانروا بندے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا ایک نے یہودی اور دوسرے نے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ حنیفاً مُسْلِماً تھے اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۲۱۳) اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئ ی اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا لیکن یہ ظلم اور تشدد ان کو ان کے دین سے نہیں پھیر سکا پھر فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی) اسلام کو غا لب فرمائے گا۔ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ ۗ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور انکے ساتھ ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (۲۱۴) سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔ اس لیے (ہر آنے والی چیز قریب ہے) اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے اس لئے وہ قریب ہی ہے۔ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ ۖ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لئے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے بعض صحابہ کرام کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس لئے معلوم ہوا کہ نفاق کا یہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے زکوٰۃ سے متعلق نہیں کیونکہ ماں باپ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے کہ اس میں کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (۲۱۵) اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ ۖ تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو، وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (۲۱۶) اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بےخبر ہو ۔ جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے اس لئے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے ہو سکتا ہے اس میں تمہارے لئے بہتری ہو جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح اور غلبہ، عزت اور سر بلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے اسی طرح تم جس کو پسند کرو (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھے رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لئے خطرناک ہو سکتا ہے یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ آپ کہہ دیجیئے کہ ان میں لڑائی کرنا سخت گناہ ہے لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانہ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے جن میں قتال اور جدال ناپسندیدہ تھا اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہو گیا اور بعض کافر قیدی بنا لئے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہو گیا ہے کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقیناً حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کفر و شرک خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اس لئے اگر مسلمانوں سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہو گیا تو کیا ہوا؟ اس پر واویلہ کرنے کے بجائے ان کو اپنا سیاہ نامہ بھی تو دیکھ لینا چاہیئے۔ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں جب یہ لوگ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد کی کوشش سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو۔ وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیاوی اور آخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۲۱۷) یہ لوگ جہنمی ہونگیں اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ جو دین اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہو جائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے اور اس آیت میں اسکی اُخروی سزا بیان کی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کئے گئے اعمال صالحہ بھی کفر کی وجہ سے کالعدم ہو جائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اسی طرح کفر سے تمام نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگاجب خاتمہ کفر پر ہوگا اگر موت سے پہلے تائب ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا یعنی مرتد کی توبہ قبول ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں، وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۲۱۸) اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا ۗ آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے (١) اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن انکا گناہ انکے نفع سے بہت زیادہ ہے، (٢) ۱۔ یہ گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔ ۲۔ فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی اور مستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے جنسی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے اس طرح اس کی خرید و فروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جوے میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے لیکن یہ فائدے ان نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام تو قرار نہیں دیا گیا تاہم اس کے لیے تمہید باندھ دی گئی ہے اس آیت سے ایک بہت اہم نقطہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہرچیز چاہے وہ کتنی ہی بری ہو کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ اور لوگ بعض فوائد بیان کر کے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق وکردار کے لحاظ سے اگر دینی نقطہ نظر سے نقصانات ومفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیاوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ آپ سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں، تو آپ کہہ دیجئے حاجت سے زیادہ چیز اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا جس پر فریضہ زکوٰۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا تاہم افضل ضرور ہے (فتح القدیر) جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے۔ اسلام نے یقیناً انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیر کفالت افراد کی خبر گیری اور ان کی ضرویات کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے دوسرے اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہم خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جائے۔ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (۲۱۹) اللہ تعالیٰ اس طرح سے اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو۔ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ امور دینی اور دنیاوی کو۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى ۖ اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لئے سزا کی دھمکی نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ڈر گئے اور یتیموں کی ہرچیز الگ کر دی حتٰی کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس سزا کے مستحق نہ قرار پا جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۲۰) اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (۱) یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔ یعنی تمہیں بغرض اصلاح و بہتری بھی ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ ۚ اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہو سکتا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظر انداز کر کے محض حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا جس طرح حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے - مال، - حسب نسب، - حسن وجمال ی - دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو (صحیح بخاری) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے فرمایا: خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ۔ (صحیح مسلم) وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا ۚ اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے، أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (۲۲۱) وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں جس کا حکم حیض سے مختلف ہے حیض کے ایام میں عورت کو نماز معاف ہے اور روزے رکھنے ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مردوں کے لئے صرف ہم بستری سے منع کیا ہے البتہ بوس و کنار جائز ہے اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر کام کر سکتی ہے۔ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے جہاں سے اجازت ہے یعنی شرم گاہ سے۔ کیونکہ حالت حیض میں بھی اسی سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب (فرج، شرم گاہ) کی اجازت ہے نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (۲۲۲) اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ۚ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ (١) اور اپنے لئے (نیک اعمال) آگے بھیجو یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جا رہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ دلیل کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور یہ کھیتی صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیر فطری فعل ہے۔ ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے ۔ (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر) وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (۲۲۳) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دیجئے۔ وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیزگاری اور لوگوں کے درمیان کی اصلاح کو چھوڑ بیٹھو یعنی غصے میں اس طرح کی قسم مت کھاؤ کہ فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا فلاں سے نہیں بولوں گا فلاں کے درمیان صلح نہیں کراؤں گا۔ اس قسم کی قسموں کے لئے حدیث میں کہا گیا ہے: اگر کھا لو تو انہیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو (کفارہ قسم کے لئے دیکھئے سورۃ المائدۃ، آیت ٨٩) وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۲۴) اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں (١) ہاں اس کی پکڑ اس چیز پر ہے جو تمہارے دلوں کا فعل ہو، یعنی جو غیر ارادے اور عادت کے طور پر ہوں البتہ عملاً جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (۲۲۵) اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بردبار ہے۔ لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ جو لوگ اپنی بیویوں سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں، ان کی چار مہینے کی مدت ہے یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھا لے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینہ یا دو مہینے تعلق نہیں رکھوں گا پھر قسم کی مدت پوری کر کے تعلق قائم کر لیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا کفارہ قسم ادا کرنا پڑے گا اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت مقرر کئے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کر دیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں یا پھر اسے طلاق دے دیں پہلی صورت میں اسے کفارہ قسم ادا کرنا ہوگا اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اسکو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے یا طلاق دے تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (ابن کثیر) فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۲۲۶) پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۲۷) اور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں (۱) تو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی از خود طلاق واقع نہیں ہو گی جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے۔ بلکہ خاوند کے طلاق دینے سے طلاق ہو گی جس پر عدالت بھی اسے مجبور کرے گی جیسا کہ جمہور علماء کا مسلک ہے۔ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں اس سے وہ متعلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیونکہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل تک ہے) جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو وہ بھی نہ ہو (کیونکہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں) جس کو حیض آنا بند ہو گیا ہو کیونکہ ان کی عدت تین مہینے ہے گویا مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی تین طہر یا تین حیض عدت گزار کے وہ دوسری شادی کرنے کی مجاز ہے سلف نے قروء کے دونوں ہی معنی صحیح قرار دئیے ہیں اس لئے دونوں کی گنجائش ہے (ابن کثیر فتح القدیر) وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو چھپائیں (۱) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں حیض نہ چھپائیں مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک دو حیض آئے ہیں مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو)۔ اسی طرح حمل نہ چھپائیں کیونکہ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہو جائے گا اور یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو رجوع کرنے سے خاوند کا مقصد اگر تنگ کرنا نہ ہو تو عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا پورا حق حاصل ہے عورت کے ولی کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ دونوں کے حقوق ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جن کو پورا کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں تاہم مرد کو عورت پر فضیلت یا درجہ حاصل ہے مثلاً فطری قوتوں میں جہاد کی اجازت ہے میراث کے دوگنا ہونے میں قوامیت اور حاکمیت میں اور اختیار طلاق و رجوع (وغیرہ) میں۔ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۲۸) ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ یہ طلاقیں دو مرتبہ (١) ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا (٢) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا (٣) ۱۔ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر) رجوع کا حق حاصل ہے‘ وہ دو مرتبہ ہے۔ پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجع کی اجازت نہیں زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا بوجھ تھا ۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علماء ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ۲۔ یعنی رجوع کر کے اچھے طریقے سے بسانا۔ ۳۔ یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے کے بعد بھی) وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں اس میں خلع کا بیان ہے یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو علت نکاح فسخ کر دے گی گویا خلع بذریعہ طلاق بھی ہو سکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی والحاکم۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کامطالبہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گیں۔ (ابن کثیر) تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (۲۲۹) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ پھر اگر وہ بھی طلاق دیدے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں، (١) بشرطیکہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح البتہ عورت کسی اور جگہ نکاح کر لے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو اس کے بعد اس سے نکاح جائز ہے لیکن اس کے لئے جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے یہ لعنتی فعل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح نکاح نہیں ہے زناکاری ہے۔ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۲۳۰) یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ جب تم عورتوں کو طلاق دو وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ یا بھلائی کے ساتھ الگ کر دو الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہو سکتا ہے عدت گزرنے کے بعد نہیں اس لئے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کے بظاہر ہے۔ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روکو جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے یا نکاح کر لیتے یا آزاد کر دیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں میں نے تو مذاق کیا تھا اللہ نے اسے آیات الٰہی سے استہزاء قرار دیا جس سے مقصود اس سے روکنا ہے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق یا نکاح یا آزادی نافذ ہو جائے گی (تفسیر ابن کثیر) وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ ۚ اور اللہ کا احسان جو تم پر ہے یاد کرو اور جو کچھ کتاب و حکمت اس نے نازل فرمائی ہے جس سے تمہیں نصیحت کر رہا ہے اس سے بھی۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۲۳۱) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز کو جانتا ہے۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ان کو مت روکو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کر دیا جس پر یہ آیت اتری، اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے، جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے۔ (حوالہ مذکور) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ملحوظ رکھیں اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظر انداز کر کے زبردستی نکاح کر دے تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کر کے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ یہ نصیت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (۲۳۲) اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔ اس میں پہلی بات یہ ہے جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہے تو وہ دو سال پورے دودھ پلائے ان الفاظ سے کم مدت دودھ پلانے کی بھی گنجائش نکلتی ہے دوسری بات یہ معلوم ہوئی مدت رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، جیسا کہ ترمذی میں حضرت ام سلمہ ؓسے مرفوعاً روایت ہے۔ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو طلاق ہو جانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے شریعت سے انحراف ہے۔ اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق عورت کے روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو جس طرح کہ اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ ماں کو اس بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلاً ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے، مگر مامتا کے جذبے کو نظر انداز کر کے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے یا یہ کہ بغیر خرچ کے ذمہ داری اٹھائے اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا اس سے مالی مطالبہ کرے۔ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ ۗ وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، باپ کے فوت ہو جانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متاثر ہو۔ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ پھر اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی سے باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کر دو یہ ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا معاوضہ دستور کے مطابق ادا کر دیا جائے۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۲۳۳) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں یہ عدت وفات ہر عورت کے لئے ہے چاہے گھر میں رہے یا گھر کے باہر جوان ہو یا بوڑھی۔ البتہ اس سے حاملہ عورت مستثنٰی ہے کیونکہ اسکی مدت عدت وضع حمل ہے اس عدت وفات میں عورت کو زیب و زینت کی (حتٰی کہ سرمہ لگانے کی بھی) اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ وہ مطلقہ جو دوبارہ نکاح کرنا چاہے اس کے لئے عدت کے اندر زیب و زینت ممنوع نہیں ہے وہ مطلقہ جس سے رجوع نہ ہو سکے اس میں اختلاف ہے بعض جواز کے اور بعض ممانعت کے قائل ہیں۔ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (۲۳۴) پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں (۱) اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے خبردار ہے۔ یعنی عدت گزرنے کے بعد وہ زیب و زینت اختیار کریں اولیاء اس کی اجازت و مشاورت سے کسی اور جگہ نکاح کا بندوبست کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لئے تم پر بھی (اے عورت کے والیوں) کوئی گناہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوہ کے عقد ثانی کو برا سمجھنا چاہئے نہ اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہئے۔ جیسا کہ ہندوؤں کے اثرات سے ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ ۚ تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارۃً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو، یا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا ۚ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے، لیکن ان سے پوشیدہ وعدے نہ کر لو (١) ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات بولا کرو (٢) ۱۔ یہ بیوہ یا وہ عورت جس کو تین طلاق مل چکی ہوں ان کی بابت کہا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران ان سے اشارے میں تو تم نکاح کا پیغام دے سکتے ہو (مثلاً میرا ارادہ شادی کرنے کا ہے یا میں نیک عورت کی تلاش میں ہوں وغیرہ) لیکن ان سے کوئی خفیہ وعدہ مت لو اور نہ مدت گزرنے سے قبل عقد نکاح پختہ کرو لیکن وہ عورت جس کو خاوند نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں اس کو عدت کے اندر اشارے میں بھی نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں ممکن ہے خاوند رجوع ہی کر لے۔ ۲۔ اس سے مراد وہی تعریض و کنایہ ہے جس کا حکم پہلے دیا گیا ہے مثلاً میں تیرے معاملے میں رغبت رکھتا ہوں یا ولی سے کہے کہ اس کے نکاح کی بابت فیصلہ کرنے سے قبل مجھے اطلاع ضرور کرنا وغیرہ (ابن کثیر) وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ اور عقد نکاح جب تک عدت ختم نہ ہو جائے پختہ نہ کرو، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم رکھتا ہے تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ (۲۳۵) اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشش اور حلم والا ہے۔ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو۔ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (۲۳۶) خوش حال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے ۔ یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے ہم بستری کے بغیر طلاق دے دی تو انہیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو یہ فائدہ ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری نہیں۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے کسی نے کہا خادم کسی نے کہا ۵۰۰ درہم کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ وغیرہ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے واللہ اعلم۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں تلخی کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر جو طلاق کا سبب ہوتا ہے احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی ودلداری کا اہتمام کرنا مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔ وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے وہ خود معاف کر دیں یہ دوسری صورت ہے کہ خلوت صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے اور اگر عورت اپنا حق معاف کر دے اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اس سے مراد خاوند ہے کیونکہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نصف حق مہر معاف کر دے یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کر دے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل اور احسان کو نہ بھلا نے کی تاکید کر کے حق مہر میں بھی اسی فضل اور احسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى ۚ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۲۳۷) تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (۲۳۸) نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی (١) اور اللہ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔ درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز جس کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کر دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صلوٰۃ وُسْطٰی قرار دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سواری سہی، یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہو پیادہ چلتے ہوئے، سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (۲۳۹) ہاں جب امن ہو جائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کے اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے ۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہو جائے تو اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا۔ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں اور وہ وصیت کر جائیں ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے، یہ آیت گو ترتیب میں مؤخر ہے مگر منسوخ ہے ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے جس میں عدت وفات چار مہینے دس دن بتلائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کر دیا ہے اس لئے اب خاوند کو عورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی نہ رہائش کی نہ نان و نفقہ کی۔ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۴۰) ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے لئے اچھائی سے کریں، اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (۲۴۱) طلاق والیوں کو اچھا فائدہ دینا پرہیزگاروں پر لازم ہے یہ حکم عام ہے جو ہر متعلقہ عورت کو شامل ہے اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے اس کے بیشمار معاشی فوائد ہیں کاش مسلمان اس نہایت ہی اہم نصیحت پر عمل کریں۔ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۲۴۲) اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتیں تم پر ظاہر فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھو۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے جس کی تفصیل کسی حدیث میں بیان نہیں کی گئی تفسیری روایات اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پیغمبر کا نام جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ کیا یہ جہاد میں قتل کے ڈر سے یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر - ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر نہیں جا سکتے - دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے - تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کر دیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے پہلے اس واقعہ کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز وفرار کر کے تم ٹال نہیں سکتے۔ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (۲۴۳) بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۴۴) اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سنتا، جانتا ہے۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض (١) دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا قرض حسنہ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے کبھی ظاہری طور پر کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقیناً اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۴۵) اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ کیا آپ نے موسیٰؑ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا (١) جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے (٢) تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ ۱۔ الْمَلَإِ کسی قوم کے ان اشراف سردار اور اہل حل و عقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں مَلَإ کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے: بنو اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا دین میں بدعات ایجاد کرلیں حتٰی کہ بتوں کی پوجا بھی شروع کر دی انبیاء ان کو روکتے رہے لیکن یہ معصیت اور شرک سے بعض نہ آئے اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیا جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا بالآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے جنہوں نے دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا قرآن نے بیان کیا ہے۔ ۲۔ نبی کی موجودگی میں بادشاہ کا مطالبہ بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا لیکن اللہ نے اس معاملے کو رد نہیں فرمایا بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کر دیا جیسے کہ آگے آرہا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے اور وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے مزید دیکھئے سورۃ المائدہ آیت۔٢٠ کا حاشیہ۔ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو، قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کر دیئے گئے ہیں۔ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (۲۴۶) پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ تو کہنے لگے بھلا اسکی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو ہم بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے باشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے جس پر انہوں نے اعتراض کیا پیغمبر نے کہا یہ میرا انتخاب نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے علاوہ ازیں قیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت و طاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے۔ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (۲۴۷) بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ ان کے نبی نے پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (١) آجائے گا صندوق یعنی التَّابُوتُ جو توب سے ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے یہ تابوت بھی ان کے دشمن چھین کر لے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح و سکینت کا سبب قرار دیا فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے۔ فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے۔ سَكِينَة کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیر دل بھی کانپ کانپ اٹھتے ہیں وہاں اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح و کامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۲۴۸) یقیناً یہ تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ جب حضرت طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نہر (١) سے آزمانے والا ہے، یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے (ابن کثیر) فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۚ لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا اطاعت امیر ہر حال میں ضروری ہے تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دو چند بلکہ صد چند ہو جاتی ہے دوسرے جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک پیاس اور دیگر تکلیفات کو نہایت حوصلے سے برداشت کرے۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی لیکن تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ اس طرح نہ پینے والوں کی تعداد ٣١٣ بتائی گئی ہے جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ عالم فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ طالوت مؤمنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وہ لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں ان اہل ایمان نے بھی ابتداء جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا جس پر ان کے علماء جو ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والے تھے انہوں نے کہا کہ کامیابی تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فروانی پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کی مشیعت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (۲۴۹) لیکن اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (۲۵۰) جب انکا جالوت اور اسکے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی اے پروردگار ہمیں صبر دے ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما جالوت اس دشمن فوج کا کمانڈر اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقاء کا مقابلہ تھا یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر فوج سمجھی جاتی تھی ان کی اس شہرت کے پیش نظر عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبرو اثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح و کامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں جیسے جنگ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت آہ و زاری سے فتح اور نصرت کی دعائیں مانگیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔ فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور داؤد ؑ کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا حضرت داؤد علیہ السلام جو ابھی پیغمبر نہ بادشاہ تھے اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ اور اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو مملکت و حکمت (۱) اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی لفظ حکمت سے بعض نے نبوت بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (۲۵۱) اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے۔ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (۲۵۲) یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم نے حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں، بایقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔ یہ گزشتہ واقعات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً آپ کی رسالت و صداقت کی دلیل ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ کسی کتاب میں پڑھے ہیں نہ کسی سے سنے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کو بیان کرکے آپ ﷺ کی صداقت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ *********** تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ۘ یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے: وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ (۱۷:۵۵) ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے اس لئے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لا تخیرونی من بین الأنبیآء تم مجھے انبیاء کے درمیان فضیلت مت دو (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف) تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ اُمت کو انبیاء علیہ السلام کی بابت ادب اور احترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے پوار علم نہیں ہے اس لیے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا اس سے دوسرے انبیاء کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں پر فضیلت اور اور تمام پیغمبروں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و اشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہے۔( تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر) مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے گئے تھے مثلاً احیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ جس کی تفصیل سورۃ آل عمران میں آئے گی۔ رُوحِ الْقُدُسِ سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ ۚ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مؤمن ہوئے اور بعض کافر، وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ (۲۵۳) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے (۱) لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس مضموں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا۔ مطلب اس کا یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے یا اللہ کو ناپسند ہے اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر جہنم سے بچ جائیں اس لئے اس نے کتابیں اتاریں انبیاء علیہ السلام کا سلسلہ قائم کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفاء اور علماء دعوت کے ذریعے سے دعوت حق اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت وتاکید بیان فرمائی گئی کس لیے اسی لیے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کر کے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے اس لیے کوئی اس اختیار کا صحیح استعمال کر کے مؤمن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار وآزادی کا غلط استعمال کر کے کافر یہ گویا اس کی حکمت ومشیت ہے جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ (۲۵۴) اے ایمان والو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت (١) اور کافر ہی ظالم ہیں۔ یہود و نصاریٰ اور کفار مشرکین اپنے اپنے پیشواؤں، نبیوں، ولیوں، بزرگوں اور مرشدوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں اسی کو وہ شفاعت کہتے ہیں یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آجکل کے جاہلوں کا ہے کہ ہمارے بزرگ اللہ کے پاس آ کر بیٹھ جائیں گے اور بخشوا کر اٹھیں گے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات واحادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بیشک ہو گی مگر یہ شفاعت وہی لوگ کر سکیں گے جنہیں اللہ اجازت دے گا اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے انبیاء و رسل بھی اور شہدا و صالحین بھی مگر اللہ پر ان میں سے کسی بھی شخصیت کا کوئی دباؤ نہ ہوگا بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىوَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ۔ (۲۱:۲۸) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں۔ کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر وہ جتنا چاہے، یہ آیت الکرسی ہے جس کی بڑی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً یہ آیت قرآن کی اعظم آیت ہے۔ اس کے پڑھنے سے رات کو شیطان سے تحفظ رہتا ہے ہر فرض کے بعد پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے (ابن کثیر) یہ اللہ تعالیٰ کی صفات جلال اس کی علو شان اور اس کی قدرت وعظمت پر مبنی نہایت جامع آیت ہے۔ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ اس کی کرسی کی وسعت (۱) نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے، كُرْسِي سے بعض نے موضع قدمین (قدم رکھنے کی جگہ) بعض نے علم بعض نے قدرت وعظمت بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے لیکن صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محدثین اور سلف کا یہ مسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات جس طرح قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کی بغیر تاویل اور کیفیت بیان کیے ان پر ایمان رکھا جائے اس لیے یہی ایمان رکھنا چاہیے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے جو عرش سے الگ ہے اس کی کیفیت کیا ہے اس پر وہ کس طرح بیٹھتا ہے اس کو ہم بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی حقیقت سے ہم بےخبر ہیں۔ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (۲۵۵) وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے اس کے شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی اور عیسائی ہوگئے تھے پھر جب یہ انصار مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو عیسائی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول اس اعتبار سے بعض مفسرین نے اس کو اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کر دیا ہے تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ جبر و اکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباؤ ختم کرنا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہو تاکہ ہر شخص اپنی مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہو جائے چونکہ رکاوٹ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے: جہاد قیامت تک جاری رہے گا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں۔ (صحیح بخاری ) اسی طرح سزائے ارتداد قتل سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکروا نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں کیونکہ ارتداد کی سزا قتل سے مقصود جبر و اکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بیشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہو جائے تو پھر اس سے بغاوت وانحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہو سکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر قتل چوری زنا ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی یہ جبرو اکراہ نہیں ہے بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل وغارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے ایک کا مقصد ملک کا نظریانی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شر و فساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظر انداز کر کے جن الجھنوں دشواریوں اور پریشانیوں سے دو چار ہیں محتاج وضاحت نہیں۔ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۵۶) اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۲۵۷) یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیمؑ سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ جب ابراہیم ؑ نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ ابراہیم ؑ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (۲۵۸) اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا یا اس شخص کی مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا أَوْ كَالَّذِي کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے پہلے واقعہ کی طرح اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا یہ شخص کون تھا اس کی بابت بہت سے اقوال نقل کیے جا چکے ہیں زیادہ مشہور حضرت عزیر علیہ السلام کا نام ہے جس کے بعض صحابہ و تابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے واقعہ (حضرت ابراہیم علیہ السلام و نمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کر دیا حتٰی کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا جب وہ سو سال کے بعد زندہ کر سکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ تو اللہ تعالیٰ نے اسے مار دیا سو سال کے لیئے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تم پر گزری؟ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مذکورہ شخص مرا اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کی اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ ۖ اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۵۹) جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ۔ یعنی یقین تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور علم میں مزید پختگی اور اضافہ ہو گیا ہے۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى ۖ اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے پروردگار مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا یہ احیائے موتیٰ کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعین کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے بس یہ چار مختلف پرندے تھے بس ان کو مانوس کر لے اور پہچان لے تاکہ پکارنے پر وہ دوبارہ زندہ ہو کر آپ کے پاس آ جائیں اور پہچان سکے کہ یہ وہی پرندے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے احیائے موتیٰ کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقیناً شک کرنے میں ان سے زیادہ حقدار ہوتے ۔(مزید وضاحت کے لئے دیکھئے فتح القدیر) قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۖ جناب باری تعالیٰ نے فرمایا کیا تمہیں ایمان نہیں؟ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ فرمایا چار پرندوں کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑ پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۶۰) اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں والا ہے۔ مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ۗ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اسکی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں یہ نفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہو گی اور دیگر نیکیوں کی۔ اور ایک نیکی کا اجر دس گنا کی ذیل میں آئے گا۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر و ثواب دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جا سکتے۔ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (۲۶۱) اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھا دے (١) اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذاء دیتے ہیں انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہو گی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان) لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۲۶۲) ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (۲۶۳) نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو (١) اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور بردبار ہے۔ سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مَغْفِرَةٌ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو یہ چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے یعنی سائل سے نرم اور شفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل اور رسوا کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اس لئے حدیث میں کہا گیا ہے: پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔ (مسلم کتاب البر) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے (١) اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے صدقہ اور خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوا نہیں بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے ایسے خرچ کی مثال صاف پتھر چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی ہو کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکں بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہو جائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی اس طرح ریا کار کو بھی اس کے صدقے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (۲۶۴) ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دوگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اسکو کافی ہو جاتی ہے اس طرح ان کے نفقات بھی چاہے کم ہو یا زیادہ عند اللہ کئی کئی گنا اجر و ثواب کے باعث ہونگے۔ جَنَّةٍ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں طرف باڑ ہو اور باڑ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور جنت کو اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَبْوَةٍ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۲۶۵) اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دوگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی پڑے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ وَابِلٌ تیز بارش۔ أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو، جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں، وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو اور اس کے ننھے ننھے سے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولہ لگ جائے جس میں آگ بھی ہو، پس وہ باغ جل جائے اسی ریاکاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جا رہی ہے جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی بھرپور آمدنی کی امید ہو) وہ شخص بوڑھا ہو جائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ضعیفی کی وجہ سے محنت اور مشقت سے عاجز ہو چکا ہو اور اولاد بھی اسکے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہ ہو اس حالت میں تیز اور تند ہوائیں چلیں اور سارا باغ جل جائے اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا اور نہ اس کی اولاد یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا کہ نفاق و ریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے۔ جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت وفرصت نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہو جاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں ۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، فتح القدیر للشوکانی تفسیر ابن جریر طبری) كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (۲۶۶) اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور فکر کرو۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ ۖ اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے اور یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ پاک ہے پاک حلال چیز ہی قبول فرماتا ہے دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں جیسا کہ آیت ۳:۹۲ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کا بھی مفاد ہے۔ اس کے شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ کی خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ) وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (۲۶۷) اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور خوبیوں والا ہے الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ ۖ شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہو جاؤ گے لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے جس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بےدھڑک خرچ کر ڈالتا ہے دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے لیکن یہی شخص سینما شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بےتحاشہ خرچ کرتا ہے اور اسے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (۲۶۸) اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ ۚ وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (۲۶۹) اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا (١) اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔ الْحِكْمَةَ سے بعض کے نزدیک عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہو سکتے ہیں صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے : دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم ۔ مسلم کتاب صلاۃ المسافرین) وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (۲۷۰) تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو (١) اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ نَذَرْ کا مطلب ہے میرا فلاں کام ہو گیا یا فلاں مشکل سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کرونگا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں نذر بھی نماز روزہ کی طرح عبادت ہے اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا شرک ہے۔ جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر ونیاز کا یہ سلسلہ عام ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے بچائے۔ إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشیدہ پوشیدہ مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے سوائے کسی ایسی صورت کے کہ اعلانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضلیت حاصل کر سکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جن لوگوں کو قیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضلیت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (۲۷۱) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۗ انہیں ہدایت پر کھڑا کرنا تیرے ذمے نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالیٰ دیتا ہے جسے چاہتا ہے وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ ۚ اور تم جو بھلی چیز اللہ کی راہ میں دو گے اس کا فائدہ خود پاؤ گے۔ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ تمہیں صرف اللہ کی رضامندی کی طلب کے لئے ہی خرچ کرنا چاہئے وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (۲۷۲) تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا (١) اور تمہارا حق نہ مارا جائیگا تفسیری روایات میں اس کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مشرک رشتے داروں کی مدد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہدایت کے راستے پر لگا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی تم جو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا پورا اجر ملے گا جس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلم رشتے دار کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنا باعث اجر ہے تاہم زکوٰۃ صرف مسلمان کا حق ہے کسی غیر مسلم کو نہیں دی جا سکتی۔ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ صدقات کے مستحق صرف وہ غرباء ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے، جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے اس سے مراد مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہرچیز سے کٹ گئے دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء اور علماء بھی اس کی ذیل میں آ سکتے ہیں۔ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ نادان لوگ ان کی بےسوالی کی وجہ سے انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے گویا اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقرو غربت کے باوجود (سوال سے بچنا) اختیار کرتے اور چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض نے إِلْحَاف کے معنی کئے ہیں بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت عفت بیان کی گئی ہے۔ (فتح القدیر) اور بعض نے کہا کہ وہ سوال میں آہ و زاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے۔ اس لئے إِلْحَاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے اس مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں کہا گیا ہے: مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک دو دو لقمے کے لیے در در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ مسکین تو وہ ہے جو سوال سے بچتا ہے۔ پھر نبی ﷺ نے آیت لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا کا حوالہ پیش فرمایا۔ (صحیح بخاری) اس لئے پیشہ ور گداگروں کی بجائے، مہاجرین، دین کے طلباء اور سفید پوش ضرورت مندوں کا پتہ لگا کر ان کی امداد کرنی چاہیے جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خوداری کے خلاف ہے۔ اور بخاری و مسلم کی روایت میں ہے: ہمیشہ لوگوں سے سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا۔ (بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکوٰۃ) وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (۲۷۳) تم جو کچھ مال خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے۔ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۲۷۴) جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف اور نہ غمگینی۔ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ سود خور (١) نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے (٢) ۱۔ الرِّبَا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں اور شریعت میں اس کا اطلاق رِبَا الفَضْلِ اور ربا النسیئۃ پر ہوتا ہے۔ رِبَا الفَضْلِ اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد و ادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے) مثلاً گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے ہاتھوں ہاتھ ہو۔ اس میں کمی بیشی ہو گی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کے بجائے ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں تب بھی سود ہے ربا النسیئۃ کا مطلب ہے کسی کو (مثلاً) چھ مہینے کے لیے اس شرط پر سو روپے دینا کہ واپسی ۱۲۵روپے ہو گی۔ ۲۵روپے چھ مہینے کی مہلت کے لیے دیے جائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے: ربا قرض پر لیا گیا نفع سود ہے۔ (فیض القدیر ) یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام ہے۔ اور زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے اس پر اضافہ سود نہیں ہے اس لیے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلاً قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے بلکہ منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چا ہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار ہو) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیاوی غرض و منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس سے معاشرے میں اخوت بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت ومحبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بےروزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت وسنگدلی کو کس طرح پسند کر سکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لیے لیے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔ ۲۔ سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے (۱) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے جب کہ سود میں دونوں چیزیں نہیں ہیں علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے پھر یہ دونوں ایک کس طرح ہو سکتے ہیں۔ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا (۱) اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے (۲) ۱۔ قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔ ۲۔ کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہتا ہے یا سوء عمل اور فسادات کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے سزا کی دھمکی ہے۔ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۲۷۵) اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف) لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔ یہ سود کے معنوی اور روحانی نقصان اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ بیشک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں نمازوں کو قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۲۷۷) ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۲۷۸) اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ یہ ایسی سخت سزا ہے جو اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ اس لئے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے۔ (ابن کثیر) وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (۲۷۹) ہاں اگر توبہ کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ تم اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا۔ وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۲۸۰) اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے (١) اگر تمہیں علم ہو۔ زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا جس سے تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی تھی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی تھی اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہےحدیث میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ایک سراسر ظلم، سنگدلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام۔ مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پر رحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت وافادیت کو سمجھ سکیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوار کر سکیں۔ وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (۲۸۱) اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا (١) اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ بعض آثار میں ہے کہ یہ قرآن کریم کی آخری آیت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، اس کے چند دن بعد ہی آپ دنیا سے رحلت فرما گئے۔(ابن کثیر) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے کیونکہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا پھر اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لئے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے اور جھگڑوں کا باعث بھی ہے اس لئے اس آیت میں جسے آیتہ الدین کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنیں اس کے لئے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کر لو دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ کاتب کو چاہیے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ پس اسے بھی لکھ دینا چاہیے جسکے ذمہ حق ہو (۱) وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، اس سے مراد ہے یعنی وہ اللہ سے ڈرتا ہوا رقم کی صحیح تعداد لکھوائے اس میں کمی نہ کرے آگے کہا جا رہا ہے کہ یہ مقروض اگر کم عقل یا کمزور بچہ یا مجنون ہے تو اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف کے ساتھ لکھوالے تاکہ صاحب حق (قرض دینے والے) کو نقصان نہ ہو۔ فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوائے وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ ۖ اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى ۚ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں پسند کر لو (۱) تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے (۲) ۱۔ یعنی جن کی دیانتداری اور عدالت پر تم مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہو سکتا اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھا لے۔ فقہائے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں کیونکہ حدیث سے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا ثابت ہے اور دو عورتیں جب ایک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا ۔ (فتح القدیر) ۲۔ یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔ یعنی عورت عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے) اس میں عورت کی شرم ساری اور فروتری کا اظہار نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں بلکہ ایک فطرتی کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر مبنی ہے۔ مکابرۃً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق و واقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ۚ اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے شک وشبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے یہ لکھنے کے فوائد ہیں کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے، گواہی بھی درست رہے گی (کہ گواہ اگر فوت ہو جائے) یا غائب ہو جائے تو اس صورت میں تحریر کام آئے گی، اور شک وشبہ سے بھی فریقین محفوظ رہیں گے۔ شک پڑنے کی صورت میں تحریر دیکھ کر شک دور کیا جا سکتا ہے۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ ہاں یہ اور بات ہے کہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو یہ وہ خریدو فروخت ہے جس میں ادھار ہو یا سودا طے ہو جانے کے بعد بھی انحراف کا خطرہ ہو ورنہ اس سے پہلے نقد سودے کو لکھنے سے مستثنٰی کر دیا گیا ہے بعض نے بیع سے مکان دکان، باغ یاحیوانات کی بیع مراد لی ہے۔ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ اور (یاد رکھو کہ) نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو ان کو نقصان پہنچانا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقے میں ان کو بلایا جائے کہ جس سے ان کی مصروفیات میں حرج یا کاروبار میں نقصان ہو یا ان کو جھوٹی بات لکھنے یا اس کی گواہی دینے پر مجبور کیا جائے۔ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ اور تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ سے ڈرو یعنی جن باتوں کی تاکید کی گئی ہے ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان سے اجتناب کرو۔ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۲۸۲) اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔ وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ ۖ اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جارہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس گروی رکھ دے اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اگر گروی رکھی ہوئی چیز ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حقدار مالک ہوگا اور گروی رکھی ہوئی چیز پر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچ وصول کر سکتا ہے باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ ہاں آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔ یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کر سکتے ہو امانت سے مراد یہاں قرض ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (۲۸۳) اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گناہ گار دل والا ہے (۱) اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے اس لئے اس پر سخت (وعید) سزا یہاں قرآن اور احادیث میں بیان کی گئی ہے اسی لئے گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے صحیح مسلم کی حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہو جائے۔ (صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق۔ مسلم، کتاب فضائل الصحابہ) مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغہ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر اس میں فساد آجائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان،) لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ آسمانوں اور زمین کی ہرچیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ ۖ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا احایث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم بجا لاتے ہیں کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں وہ تو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرمایا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے جذبہ سمع و طاعت کو دیکھتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو منسوخ فرما دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کر دیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کر دیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا۔ صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم و ارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں ۔ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۸۴) پھر جسے چاہے بخشے جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔ آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اترے اور مؤمن بھی ایمان لائے كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ 1` یہ سب اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتوں پر اور اسکی کتابوں پر اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے، اسکے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر اہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس اگلی آیت لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت اور اس کے فضل و کرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہو جاتی ہیں (صحیح بخاری) دوسری حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں ان میں سے ایک سورۃ بقرہ کی یہ دو آخری آیات بھی ہیں (صحیح مسلم) کئی روایات میں یہ وارد ہے : اس سورۃ کی آخری آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس صورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (۲۸۵) انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ جو نیکی وہ کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے، اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (۲۸۶) تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔ *********** |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |