Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Fatihah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۱)

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتداء کے ہیں ۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔

اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلاً

- ام القرآن ،

- السبع المثانی ،

- القرآن العظیم ،

- الشفاء ،

- الرقیہ (دم )

- وغیرھامن الاسماء

اس کاایک اہم نام الصلوۃ بھی ہےجیساکہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی ۔

میں نے صلاۃ(نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیاہے

مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت وربوبیت اور عدل وبادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا ومناجات ہے جوبندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے ۔ صحیح مسلم کتاب الصلوۃ

اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیاگیاہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا:

 لاصلوۃ لمن لم یقرابفاتحہ الکتاب

اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۔ (صحیح بخاری ومسلم )

اس حدیث میںمن کا لفظ عام ہے جو ہرنمازی کو شامل ہے منفرد ہو یاامام کے پیچھے مقتدی ۔ سری نماز ہویا جہری فرض نماز ہو یانفل ہرنمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔

اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے :

 ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرأت بوجھل ہوگئی ،نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟

انہوں نے اثبات میں جواب دیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لاتفعلواالابام القرآن فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرابھا

تم ایسا مت کرو(یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرورپڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی (ابوداؤد ،ترمذی ،نسائی)

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا :

من صلی صلوۃ لم یقرافیھا بام القرآن فھی خداج ۔ثلاثا غیر تمام

جس نےبغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

 ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا گیا انانکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نمازپڑھتے ہیں اس وقت کیاکریں؟)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

اقرابھا فی نفسک

 امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو ۔ صحیح مسلم

مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہواکہ قرآن مجید میں جوآتا ہے :

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا (۷:۲۰۴)

جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو،

یاحدیث واذاقرافانصتوا(بشرط صحت) جب امام قرأت کرے توخاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں ۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں ۔

 یاامام سورۃ فاتحہ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یاامام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔

اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔دونوں پر عمل ہوجاتا ہے ۔ جب کہ سورۃ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث کا ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پرہی عمل ہوسکتا ہے ۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں ۔

 فتعوذباللہ من ھذا۔دیکھئے سورۃ اعراف آیت ۲۰۴کا حاشیہ

اس مسئلے کی تحقیق کیلئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام ازمولاناعبدالرحمن مبارک پوری وتوضیح الکلام مولانا ارشادالحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ ۔

 یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگرمقتدی امام کی قرأت سن رہاہوتو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہاہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۲۳/۲۶۵ )

یہ سورۃ مکی ہے۔

مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (٣ ١نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔

 بِسْمِ اللّٰهِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورۃ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے

علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورۃ نمل کی آیت نمبر٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بِسْمِ اللّٰهِ اس کا جزو ہے۔

اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔

 بِسْمِ اللّٰهِکو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بِسْمِ اللّٰهِپڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بِسْمِ اللّٰهِپڑھو۔

تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ، سے پہلے  اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۲)

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں (۱) جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (۲)‏

اَلْحَمْدُ میں ' ال ' مخصوص کے لئے ہے یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں یا اس کے لئے خاص ہیں کیونکہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔

الِلَِّ یہ الِلَّه کا ذاتی نام ہے اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں لَا اِلٰہَ افضل الذکر اور الْحَمْدُ لِلَّهِ کو افضل دعا کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی)

صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ میزان کو بھر دیتا ہے اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم)

رَبْ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جس کا معنی ہرچیز کو پیدا کر کے ضروریات کو مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کے استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں

الْعَالَمِيْنَ عَالَمْ (جہان) کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعہ کو عالم کہا جاتا ہے، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوق کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلاً عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش و طیور وغیرہ۔

ان تمام مخلوکات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعا ً مختلف ہیں لیکن رَبِّ الْعَالَمِيْنَ سب کی ضروریات، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔

الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۳)

بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ۔‏

رحمٰن بروز فعلان اور رحیم بروزن فعیل ہے ۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں ۔ جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔

بعض علماء کہتے ہیں رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہو گا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ اللھم اجعلنا منھم ۔آمین

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ(۴)

بدلے کے دن (یعنی قیامت کا) مالک ہے ‏

دنیا میں بھی اگرچہ کیئے کی سزا کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔

اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟

پھر وہی جواب دے گا صرف ایک اللہ غالب کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۵)

ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔‏

عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔

 سیدھی عبارت ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔

 نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کر دیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔

حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتٰی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :

من انصاری الی اللہ اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟

 اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا وتعانوا علی البر والتقوی نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو

 ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟

شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

 توحید کی تین قسمیں۔

اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصرا ًبیان کر دی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔

- توحید ربوبیت۔

-  توحید الوہیت۔

- اور توحید صفات ۔

توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا مالک رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس توحید کو تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا۔

 مثلاً فرمایا۔

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے،

یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار اور جاندار سے بےجان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟  جھٹ کہہ دیں گے کہ (اللہ) (یعنی سب کام کرنے والا اللہ ہے) (سورہ یونس۳۱)

دوسرے مقام پر فرمایا :

اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے؟

ساتواں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟

ہرچیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟

 اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں

ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ

 یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (المومنون ۸٤۔ ۸۹)

توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کیلئے یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا، اسکے نام کی نذر نیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ کہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔

توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں انکو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلاً جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یا اس قسم کی اور صفات الہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہو گا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (۶)

ہمیں سچی اور سیدھی راہ دکھا ۔‏

ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزلِ مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزلِ مقصود) حاصل ہو جائے۔

یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ‏‏، الاسلام، ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ

اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔

صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔

وَمَنْ يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا

اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔

اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول ﷺ ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔

غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ  (۷)

ان کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔

بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا سے مراد یہودی اور وَلاَ الضَّآلِیْن گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں

ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔

 یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔

نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں اللہ کا بیٹا اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔

افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے بڑھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔

سورۃ کے آخر میں آمین کہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی اس لیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter