Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Jumu'ah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ

ساری چیزیں جو آسمان اور زمین میں ہیں اللہ تعالیٰ  کی پاکی بیان کرتی ہیں

ہر بے زبان اورناطق چیز اللہ تعالیٰ  عز و جل کی پاکیزگی بیان کرتی رہتی ہے،

جیسے اور ہر جگہ بھی فرمایا ہے:

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ (۱۷:۴۴)

کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی رہتی ہے،

یعنی تمام مخلوق خواہ آسمان کی ہو، خواہ زمین کی، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے،

الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ  (۱)

(جو) بادشاہ نہایت پاک (ہے) غالب و با حکمت ہے۔‏

وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصر ف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے،

الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ وہ عزیز و حکیم ہے۔ اس کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے۔

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے

أُمِّيِّينَ سے مراد عرب ہیں۔

جیسے اور جگہ فرمان باری ہے

وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ

وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ  (۳:۲۰)

تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا؟اور وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ راہ راست پر ہیں

اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لئے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے۔ جیسے اور جگہ ہے:

وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ  (۴۳:۴۴)

یہ تیرے لئے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لئے بھی،

یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان الوں کے لئے نصیحت ہےاسی طرح اور جگہ فرمان ہے:

وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ  (۲۶:۲۱۴)

اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے،

یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے،

ارشاد باری ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (7:158)

لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں

 اور جگہ فرمان ہے:

لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ  (۶:۱۹)

اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے،

اسی طرح قرآن کی بات فرمایا :

وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ  (۱۱:۱۷)

تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے،

 اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ سورہ انعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کر چکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں فالحمد اللہ

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ  یہاں فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لئے ہے کہ حضرت خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہو جائے،

وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ  (۲)

اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‏

حضرت خلیل اللہ نے اہل مکہ کے لئے دعا مانگی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے، انہیں پاکیزگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے،

پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو حضرت عیسیٰ کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی نامرضی کے کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا، آپ نے ان ان پڑھ کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنا دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے،

سنئے عرب حضرت ابراہیم کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کر چکے تھے اس میں اس قدر تبدل تغیر کر دیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کر دی تھیں،

 اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کر لی تھی اور متغیر کر دیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کر لیا تھا پس اللہ پاک نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروع سب سکھائیں، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کر دیں اور ایسے دین پر لوگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو،

 اس بلند و بالا خدمت کے لئے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کر دیں جمع کر دیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود و سلام نازل فرماتا رہے آمین!

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ

اور دوسروں کے لئے بھی انہی میں سے جو اب تک ان سے نہیں ملے۔

دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہؓ سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورہ جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا وَآخَرِينَ مِنْهُمْ سے کیا مراد ہے

تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا تب آپ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر رکھا اور فرمایا:bb

 اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پا لیتے ۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لئے مخصوص نہیں کیونکہ آپ نے اس آیت کی تفسیرمیں فارس والوں کو فرمایا۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے۔

 حضرت مجاہد وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی رب کے سوا کے جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔

ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے :

 اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ  (۳)

وہی غالب با حکمت ہے۔‏

وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے،

ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ

یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے اپنا فضل دے

پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا اور اس اُمت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے،

وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ  (۴)

اور اللہ تعالیٰ  بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔‏

وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ

جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا انکی مثال اس گدھے کی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو

ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی گئی اورعمل کرنےکےلئےانہوں نےلےلی پھرعمل نہ کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے کہ اگر اس پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے؟

اسی طرح یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے؟

 نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں،

پس دراصل یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔

اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے:

أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (۷:۱۷۹)

یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے، یہ غافل لوگ ہیں۔

بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ

اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے

یہاں فرمایا اللہ کی آیتوں کے جھٹلانے والوں کی بری مثال ہے،

وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ  (۵)

اور اللہ (ایسی) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‏

ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔

مسند احمد میں ہے:

 جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُواإِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِي (۶)

کہہ دیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔ ‏

اے یہود! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ناحق پر ہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے،

وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ  (۷)

یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‏

پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر فجور ظلم نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے۔

سورہ بقرہ کی آیات

قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ ... وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ  (۲:۹۴،۹۶)

کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کر چکے ہیں

اور وہیں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں تو موت کی بد دعا کریں،

 جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورہ آل عمران میں گزر چکا ہے، ملاحظہ ہو تفسیر آیت

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ...لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ  (۳:۶۱)

اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ

آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔

مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورہ مریم آیت

قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَنُ مَدًّا  (۱۹:۷۵)

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہدے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے۔

 مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے:

 ابوجہل لعنتہ اللہ نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گاجب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا :

اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے فرشتے اسے پکڑ لیتے

 اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کر تے تو یقینا ًوہ مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے

 اور اگر مباہلہ کے لئے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے۔

یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے،

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ

کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی

موت سے تو کوئی بچ ہی نہیں سکتا،  جیسے سورہ نساء میں ہے:

أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ  (۴:۷۸)

تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ کر پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو

معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے :

موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے ، بھاگے، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کردو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہو گئی۔

ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ  (۸)

پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گےاور وہ تمہیں تمہارے کئے ہوئے تمام کام بتلا دے گا۔‏

جمعہ کا دن کیا ہے اور اس کی اہمیت کیوں ہے؟

جمعہ کا لفظ جمع سے مشتق ہے،

- وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں

-  اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے چھٹا دن جمعہ کا ہے

- اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے،

-  اسی دن میں قیامت قائم ہو گی،

- اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے، g

ابن ابی حاتم میں ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان سے پوچھا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟

 انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے۔

آپ نے فرمایا

 اسی دن تیرے ماں باپ (یعنی آدم و حوا) کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا۔

یا یوں فرمایا کہ تمہارے باپ کو جمع کیا۔

اسی طرح ایک موقوف حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے فاللہ اعلم،

پہلے اسے یوم العروبہ کہا جاتا تھا، پہلی اُمتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہ ہوئی،

- یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی،

- نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی ہے

-  اور اس اُمت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا،

 جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے :

 ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں یہودی کل اور نصرانی پرسوں،

مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ

قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ

اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو!جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو

یہاں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لئے جع ہونے کا حکم دے رہا ہے،

 سعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ

- ذکر اللہ یعنی نماز کے لئے قصد کرو

-  چل پڑو

- کوشش کرو

-  کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ،

جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے:

وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا (۱۷:۱۹)

اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے، وہ کرتا بھی ہو

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرات میں بجائے فَاسْعَوْا کے فَامضوْا ہے،

یہ یاد رہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا منع ہے۔

بخاری و مسلم میں ہے :

جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو، دوڑو نہیں، جو پاؤ پڑھ لو، جو فوت ہو ادا کر لو ۔

ایک اور روایت میں ہے:

 آپ نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی، فارغ ہو کر فرمایا کیا بات ہے؟

 لوگوں نے کہا حضرت ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے فرمایا:

 ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کر لو،

حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لئے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے،

حضرت قتادہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو،

جمعہ کے لئے آنے والے کو غسل بھی کرنا چاہئے

بخاری مسلم میں ہے:

 جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کے لئے جانے کا ارادہ کرے وہ غسل کر لیا کرے،

 اور حدیث میں ہے:

 جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے

 اور روایت میں ہے :

 ہر بالغ پر ساتویں دن سر اور جسم کا دھونا ہے،

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ وہ دن جمعہ کا دن ہے،

سنن اربعہ میں ہے:

 جو شخص جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کرے اور سویرے سے ہی مسجد کی طرف چل دے پیدل جائے سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھے خطبے کو کان لگا کر سنے لغو کام نہ کرے تو اسے ہر ایک قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اور سال بھر کے قیام کا ثواب ہے،

بخاری مسلم میں ہے :b

جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے،

- اول ساعت میں جائے اس نے گویا ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا

-  دوسری ساعت میں جانے والا مثل گائے کی قربانی کرنے والے کے ہے،

- تیسری ساعت میں جانے والا مرغ راہ اللہ میں تصدق کرنے والے کی طرح ہے،

- پانچویں ساعت میں جانے والا انڈا راہ اللہ دینے والے جیسا ہے،

پھر جب امام آئے فرشتے خطبہ سننے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں،

مستحب ہے:

- جمعہ کے دن اپنی طاقت کے مطابق اچھا لباس پہنے

- خوشبو لگائے

- مسواک کرے

- اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لئے آئے،

 ایک حدیث میں غسل کے بیان کے ساتھ ہی مسواک کرنا اور خوشبو ملنا بھی ہے،

 مسند احمد میں ہے:

 جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنے گھر والوں کو خوشبو ملے اگر ہو اور اچھا لباس پہنے پھر مسجد میں آئے اور کچھ نوافل پڑھے اگر جی چاہے اور کسی کے ایذاء نہ دے (یعنی گردنیں پھلانگ کر نہ آئے نہ کسی بیٹھے ہوئے کو ہٹائے) پھر جب امام آ جائے اور خطبہ شروع ہو خاموشی سے سنے تو اس کے گناہ جو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے ہوں سب کا کفارہ ہو جاتا ہے،

 ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر بیان فرماتے ہوئے سنا:

 تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے اگر وہ اپنے روز مرہ کے محنتی لباس کے علاوہ دو کپڑے خرید کر جمعہ کے لئے مخصوص رکھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس وقت فرمایا جب لوگوں پر وہی معمولی چادریں دیکھیں تو فرمایا کہ اگر طاقت ہو تو ایسا کیوں نہ کر لو۔

جمعہ کی اذان

 إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ

جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو

جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ کے بیٹھ جانے کے بعد آپ کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی، اس سے پہلے کی اذان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لئے بیٹھ جاتا، حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوانی زیادہ کی اس مکان کا نام زورا تھا مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا۔

حضرت مکحول سے ابن ابی حاتم میں روایت ہے :

 اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی، جب نماز کھڑی ہونے لگے، اسی اذان کے وقت خرید و فروخت حرام ہوتی ہے،

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لئے دیا تھا کہ لوگ جمع ہو جائیں۔

جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے

- عورتوں ، غلاموں اور بچوں کو نہیں،

- مسافر مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں

جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے۔

وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ

اور خرید و فروخت چھوڑ دو

پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لئے چل پڑو تجارت کو ترک کر دو، جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے

 علماء کرام کا اتفاق ہے کہ اذان کے بعد خرید و فروخت حرام ہے،

 اس میں اختلاف ہے کہ دینے والا اگر دے تو وہ بھی صحیح ہے یا نہیں؟

 ظاہر آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صحیح نہ ٹھہرے گا واللہ اعلم،

ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ  (۹)

یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‏

پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو۔

فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ

پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو

ہاں جب نماز سے فراغت ہو جائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جانا، تمہارے لئے حلال ہے۔

عراک بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور یہ دعا پڑھتے

اے اللہ میں نے تیری آواز پر حاضری دی اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما تو سب سے بہتر روزی رساں ہے(ابن ابی حاتم)

اس آیت کو پیش نظر رکھ کر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے :

 جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا۔

وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ  (۱۰)

اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔‏

پھر فرماتا ہے کہ خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہو جاؤ کہ آخروی نفع بھول بیٹھو۔

 حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص کسی بازار جائے اور وہاں پڑھے

لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ

لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ

وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ برائیاں معاف فرماتا ہے۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں :

بندہ کثیر الذکر اسی وقت کہلاتا ہے جبکہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر وقت اللہ کی یاد کرتا رہے۔

وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ

جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اسکی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپکو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں

جمعہ اور تجارت

مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آ جانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اسکی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں،

حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں:

 یہ مال تجارت وحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لئے طبل بجنے لگا حضرت وحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے،

مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔

مسند ابویعلی میں اتنا اور بھی ہے :

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی،

جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہیں گئے تھے، ان میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓبھی تھے،

 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے، g

صحیح مسلم میں ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیرہ نصیحت فرماتے تھے،

یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ یہ واقعہ بقول بعض کے اس وقت کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے۔

مراسیل ابو داؤد میں ہے :

 رسول اللہﷺخطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر کہا وحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آ گیا ہے، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہوگئے۔

قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ  (۱۱)

آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہےوہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہےاور اللہ تعالیٰ  بہترین روزی رساں ہے ۔‏

پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خرید و فروخت سے بہت ہی بہتر ہے، اللہ پر توکل رکھ کر، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter