Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah QafAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ق! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے (۱) ق حروف ہجا سے ہے جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں جیسے ص ، ن، الم، حم، طس ، وغیرہ ہم نے ان کی پوری تشریح سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر دی ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں ق اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں ق بھی مثل ص، ن، طس، الم کے حروف ہجا میں سے ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے قسم اللہ کی اور ق کہہ کر باقی جملہ چھوڑ دیا گیا کہ یہ دلیل ہے محذوف پر جیسے شاعر کہتا ہے ۔ قلت لھا قفی فقالت ق لیکن یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ۔ اس لئے کہ محذوف پر دلالت کرنے والا کلام صاف ہونا چاہئے اور یہاں کونسا کلام ہے ؟ جس سے اتنے بڑے جملے کے محذوف ہونے کا پتہ چلے ۔ پھر اس کرم اور عظمت والے قرآن کی قسم کھائی جیسا کہ فرمان ہے: لاَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلاَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ جس کے آگے سے یا پچھے سے باطل نہیں آسکتا جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے (۴۱:۴۲) اس قسم کا جواب کیا ہے ؟ اس میں بھی کئی قول ہیں ۔ امام ابن جریرؒ نے تو بعض نحویوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا جواب قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ (۴) ہے لیکن یہ بھی غور طلب ہے بلکہ جواب قسم کے بعد کا مضمون کلام ہے یعنی نبوت اور دو بارہ جی اٹھنے کا ثبوت اور تحقیق گو لفظوں سے قسم اس کا جواب نہیں بتاتی ہو لیکن قرآن میں جواب میں اکثر دو قسمیں موجود ہیں جیسے کہ سورہ ص کی تفسیر کے شروع میں گزر چکا ہے ، اسی طرح یہاں بھی ہے بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ بلکہ انہیں تعجب معلوم ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے (۲) پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا ہے کہ انہی میں سے ایک انسان کیسے رسول بن گیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے: أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَآ إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دے ، (۱۰:۲) یعنی دراصل یہ کوئی تعجب کی چیز نہ تھی اللہ جسے چاہے اپنے فرشتوں میں سے اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور جسے چاہے انسانوں میں سے چن لیتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ ( کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے۔ پھر یہ واپسی دور (از عقل) ہے (۳) انہوں نے مرنے کے بعد جینے کو بھی تعجب کی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ جب ہم مر جائیں گے اور ہمارے جسم کے اجزا جدا جدا ہو کر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی ہو جائیں گے اس کے بعد تو اسی ہئیت و ترکیب میں ہمارا دوبارہ جینا بالکل محال ہے اس کے جواب میں فرمان صادر ہوا کہ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ زمین جو کچھ ان میں سے گھٹاتی ہے وہ ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے ۔ (۴) زمین ان کے جسموں کو جو کھا جاتی ہے اس سے بھی ہم غافل نہیں ہمیں معلوم ہے کہ ان کے ذرے کہاں گئے اور کس حالت میں کہاں ہیں ؟ ہمارے پاس کتاب ہے جو اس کی حافظ ہے ہمارا علم ان سب معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی کتاب میں محفوظ ہے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یعنی ان کے گوشت چمڑے ہڈیاں اور بال جو کچھ زمین کھا جاتی ہے ہمارے علم میں ہے ۔ پھر پروردگار عالم انکے اس محال سمجھنے کی اصل وجہ بیان فرما رہا ہے کہ بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ بلکہ انہوں نے سچی بات کو جھوٹ کہا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ چکی پس وہ الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں ۔ (۵) دراصل یہ حق کو جھٹلانے والے لوگ ہیں اور جو لوگ اپنے پاس حق کے آجانے کے بعد اس کا انکار کر دیں ان سے اچھی سمجھ ہی چھن جاتی ہے مَرِيج کے معنی ہیں مختلف مضطرب ، منکر اور خلط ملط کے جیسے فرمان ہے: إِنَّكُمْ لَفِى قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ یقیناً تم ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو ۔ نافرمانی وہی کرتا ہے جو بھلائی سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ (۵۱:۸،۹) أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ کیا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں دیکھا؟ کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے اور زینت دی ہے اس میں کوئی شگاف نہیں۔ (۶) یہ لوگ جس چیز کو ناممکن خیال کرتے تھے پروردگار عالم اس سے بھی بہت زیادہ بڑھے چڑھے ہوئے اپنی قدرت کے نمونے پیش کر رہا ہے کہ آسمان کو دیکھو اس کی بناوٹ پر غور کرو اس کے روشن ستاروں کو دیکھو اور دیکھو کہ اتنے بڑے آسمان میں ایک سوراخ ، ایک چھید ، ایک شگاف ، ایک دراڑ نہیں چنانچہ سورہ تبارک میں فرمایا: الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ طِبَاقًا مَّا تَرَى فِى خَلْقِ الرَّحْمَـنِ مِن تَفَـوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍ ثُمَّ اْرجِعِ البَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ البَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے تو اللہ کی اس صفت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا تو پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے ؟ (۶۷:۳،۴) پھر بار بار غور کر اور دیکھ تیری نگاہ نامراد اور عاجز ہو کر تیری طرف لوٹ آئے گی ۔ وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ اور زمین کو ہم نے بچھا دیا ہے اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اُگا دیں ہیں (۷) فرمایا زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور بچھا دیا اور اس میں پہاڑ جما دئیے تا کہ ہل نہ سکے کیونکہ وہ ہر طرف سے پانی سے گھری ہوئی ہے اور اس میں ہر قسم کی کھیتیاں پھل سبزے اور قسم قسم کی چیزیں اگا دیں جیسے اور جگہ ہے: وَمِن كُلِّ شَىْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ہر چیز کو ہم نے جوڑ جٍوڑ پیدا کیا تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو۔ (۵۱:۴۹) بَهِيجٍ کے معنی خوشنما ، خوش منظر، بارونق۔ تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔ (۸) پھر فرمایا آسمان و زمین اور ان کے علاوہ قدرت کے اور نشانات دانائی اور بینائی کا ذریعہ ہیں ہر اس شخص کے لئے جو اللہ سے ڈرنے والا اور اللہ کی طرف رغبت کرنے والا ہو وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کئے۔ (۹) وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت جن کے خوشے تہہ بہ تہہ ہیں۔ (۱۰) پھر فرماتا ہے ہم نے نفع دینے والا پانی آسمان سے برسا کر اس سے باغات بنائے اور وہ کھیتیاں بنائیں جو کاٹی جاتی ہیں اور جن کے اناج کھلیان میں ڈالے جاتے ہیں اور اونچے اونچے کھجور کے درخت اگا دئیے جو بھرپور میوے لادتے اور لدے رہتے ہیں رِزْقًا لِلْعِبَادِ ۖ بندوں کی روزی کے لئے یہ مخلوق کی روزیاں ہیں وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ اور ہم نے پانی سے مردہ شہر کو زندہ کر دیا۔ اور اسی پانی سے ہم نے مردہ زمین کو زندہ کر دیا وہ لہلہانے لگی اور خشکی کے بعد تروتازہ ہو گئی ۔ اور چٹیل سوکھے میدان سر سبز ہو گئے كَذَلِكَ الْخُرُوجُ اسی طرح (قبروں سے) نکلنا (۱۱) یہ مثال ہے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی اور ہلاکت کے بعد آباد ہونے کی یہ نشانیاں جنہیں تم روزمرہ دیکھ رہے ہو کیا تمہاری رہبری اس امر کی طرف نہیں کرتیں کہ اللہ مردوں کے جلانے پر قادر ہے چنانچہ اور آیت میں ہے: لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ آسمان و زمین کی پیدائش انسانی پیدائش سے بہت بڑی ہے (۴۰:۵۷) اور آیت میں ہے: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کر دیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو جلا دے ؟ بےشک وہ ہر چیز پر قادر ہے (۴۶:۳۳) اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے: وَمِنْ ءَايَـتِهِ أَنَّكَ تَرَى الاٌّرْضَ خَـشِعَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِى أَحْيَـهَا لَمُحْىِ الْمَوْتَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ تو دیکھتا ہے کہ زمین بالکل خشک اور بنجر ہوتی ہے ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں جس سے وہ لہلہانے اور پیداوار اگانے لگتی ہے کیا یہ میری قدرت کی نشانی نہیں بتاتی کہ جس ذات نے اسے زندہ کر دیا وہ مردوں کے جلانے پر بلاشک و شبہ قادر ہے یقیناً وہ تمام تر چیزوں پر قدرت رکھتی ہے ۔ (۴۱:۳۹) كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں نے اور ثمود نے۔ (۱۲) وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ ا ور عاد نے اور فرعون نے اور برادران لوط نے۔ (۱۳) اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو ان عذابوں سے ڈرا رہا ہے جو ان جیسے جھٹلانے والوں پر ان سے پہلے آچکے ہیں جیسے کہ نوح کی قوم جنہیں اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کر دیا اور اصحاب رس جن کا پورا قصہ سورہ فرقان کی تفسیر میں گزر چکا ہے اور ثمود اور عاد اور اُمت لوط جسے زمین میں دھنسا دیا اور اس زمین کو سڑا ہوا دلدل بنا دیا یہ سب کیا تھا؟ ان کے کفر ، ان کی سرکشی، اور مخالفت حق کا نتیجہ تھا وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ اور ایکہ والوں نے اور تبع کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی۔ اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے علیہ الصلوۃ والسلام اور قوم تبع سے مراد یمانی ہیں ، سورہ دخان میں ان کا واقعہ بھی گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر ہے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد للہ ۔ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا پس میرا وعدہ عذاب ان پر صادق آگیا۔ (۱۴) ان تمام اُمتوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور عذاب اللہ سے ہلاک کر دئیے گئے یہی اللہ کا اصول جاری ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ایک رسول کا جھٹلانے والا تمام رسولوں کا منکر ہے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے: كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا (۲۶:۱۰۵) حالانکہ ان کے پاس صرف نوح علیہ السلام ہی آئے تھے پس دراصل یہ تھے ایسے کہ اگر ان کے پاس تمام رسول آجاتے تو یہ سب کو جھٹلاتے ایک کو بھی نہ مانتے سب کی تکذیب کرتے ایک کی بھی تصدیق نہ کرتے ان سب پر اللہ کے عذاب کا وعدہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ثابت ہو گیا اور صادق آگیا ۔ پس اہل مکہ اور دیگر مخاطب لوگوں کو بھی اس بدخصلت سے پرہیز کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کا کوڑا ان پر بھی برس پڑے أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے تھک گئے؟ بلکہ یہ لوگ نئی پیدائش کی طرف سے شک میں ہیں (۱۵) کیا جب یہ کچھ نہ تھے ان کا بسانا ہم پر بھاری پڑا تھا ؟ جو اب دوبارہ پیدا کرنے کے منکر ہو رہے ہیں ابتداء سے تو اعادہ بہت ہی آسان ہوا کرتا ہے جیسے فرمان ہے: وَهُوَ الَّذِى يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ا بتداءً اسی نے پیدا کیا ہے اور دوبارہ بھی وہی اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے (۳۰:۲۷) سورہ یٰسین میں فرمان الہٰی جل جلالہ گزر چکا : وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِىَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحىِ الْعِظَـمَ وَهِىَ رَمِيمٌ ۔ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِى أَنشَأَهَآ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلّ خَلْقٍ عَلِيمٌ اپنی پیدائش کو بھول کر ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اور کہنے لگا بوسیدہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ ان کو تو جواب دے کہ وہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمام خلق کو جانتا ہے (۳۶:۷۸۔۷۹) صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مجھے بنی آدم ایذاء دیتا ہے جب یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے کچھ آسان نہیں ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگزر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں (۱۶) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آ جائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لئے کہ وَإِنَّا نہیں کہا بلکہ وَنَحْنُ کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے ۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آگئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَكِن لَّا تُبْصِرُونَ ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے (۵۶:۸۵) یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے ۔ جیسے فرمان ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَـفِظُونَ ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں (۱۵:۹) فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔ (۱۷) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔ (۱۸) پس انسان پر ایک پہرہ فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح خون جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فوراً لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں ۔ جیسے فرمان ہے: وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَـفِظِينَ ۔ كِرَاماً كَـتِبِينَ ۔ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں (۸۲:۱۰،۱۲) حضرت حسنؒ اور حضرت قتادہؒ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ابن عباسؓ کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب وعذاب لکھ لیا کرتے ہیں ۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں ۔ مسند احمد میں ہے: انسان ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا کہہ گزرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضامندی اس کے لئے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گزرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے ، حضرت علقمہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیسؒ فرماتے ہیں: دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے ۔ جب بندے سے کوئی خطا ہو جاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کر لی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے (ابن ابی حاتم ) امام حسن بصریؒ اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے: اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں ۔ دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہ عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کر دیا جائے گا ۔اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَآئِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا اقْرَأْ كَتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبً ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے ۔ (۱۷:۱۳،۱۴) پھر حضرت حسنؒ نے فرمایا اللہ کی قسم اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنا دیا ۔ حضرت امام احمدؒ کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چنانچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی ۔ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ اور موت کی بےہوشی حق لے کر پہنچی یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا (۱۹) پھر فرماتا ہے اے انسان موت کی بےہوشی یقیناً آئے گی اس وقت وہ شک دور ہو جائے گا جس میں آجکل تو مبتلا ہے اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا اب وہ آگئی تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پا سکتا نہ بچ سکتا ہے نہ اسے روک سکتا ہے نہ اسے دفع کر سکتا ہے نہ ٹال سکتا ہے نہ مقابلہ کر سکتا ہے نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آسکتی ہے صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی تو میں نے یہ بیت پڑھا من لا یزال دمعہ سقنعا فانہ لا بدمرۃ مدفوق مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے ۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا : وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور صدیق اکبرؓ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو ۔ صحیح حدیث میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں ۔ اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے - ایک تو یہ کہ مَا موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا ۔ - دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں مَا نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا ۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہو گئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی ۔ زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مر گئی ۔ الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ اور صور پھونک دیا جائے گا۔ وعدہ عذاب کا دن یہی ہے۔ (۲۰) اب صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گزر چکی ہے اور حدیث میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں کس طرح راحت وآرام حاصل کر سکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ نے کہا پھر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا کہیں آپ ؐنے فرمایا کہو : حسبنا اللہ ونعم الوکیل وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيد اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا (۲۱) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہو گا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہو گا ۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریؒر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا: ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہو گا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا ۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں سَائِقٌ سے مراد فرشتہ ہے اور شَهِيد سے مراد عمل ہے ابن عباسؓ کا قول ہے سَائِقٌ فرشتوں میں سے ہوں گے اور شَهِيد سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔ (۲۲) اس آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں - ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہو گا - دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب - تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا ۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہو گئی ۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لئے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہو جائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی جیسے فرمان باری ہے: أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے خوب دیکھتے سنتے ہوں گے (۱۹:۳۸) اور آیت میں ہے: وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً إِنَّا مُوقِنُونَ کاش کہ تو دیکھتا جب گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں پڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور کامل یقین رکھیں گے (۳۲:۱۲) وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا یہ حاضر ہے جو کہ میرے پاس تھا ۔ (۲۳) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ جو فرشتہ ابن آدم کے اعمال پر مقرر ہے وہ اس کے اعمال کی شہادت دے گا اور کہے گا کہ یہ ہے میرے پاس تفصیل بلا کم و کاست حاضر ہے ۔ حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں یہ اس فرشتے کا کلام ہو گا جسے سَائِقٌ کہا گیا ہے جو اس کو محشر میں لے آیا تھا ۔ امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں: میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ وہ اس فرشتے پر بھی اور گواہی دینے والے فرشتے دونوں پہ مشتمل ہے اب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے عدل و انصاف سے کرے گا ۔ أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ ڈال دو جہنم میں ہر کافر سرکش کو۔ (۲۴) أَلْقِيَا تثنیہ کا صیغہ ہے بعض نحوی کہتے ہیں کہ بعض عرب واحد کو (تثنیہ ) کر دیا کرتے ہیں جیسے کہ حجاج کا مقولہ مشہور ہے کہ وہ اپنے جلاد سے کہتا تھا اضربا عنقہ تم دونوں اس کی گردن مار دو حالانکہ جلاد ایک ہی ہوتا تھا ۔ ابن جریر نے اسکی شہادت میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب اوپر والے دونوں فرشتوں سے ہو گا لانے والے فرشتے نے اسے حساب کے لئے پیش کیا اور گواہی دینے والے نے گواہی دے دی تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کو حکم دے گا کہ اسے جہنمی آگ میں ڈال دو جو بدترین جگہ ہے اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ جو نیک کام سے روکنے والا حد سے گزر جانے والا اور شک کرنے والا تھا۔ (۲۵) الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنا لیا تھا پس اسے سخت عذاب میں ڈال دو۔ (۲۶) پھر فرماتا ہے کہ ہر کافر اور ہر حق کے مخالف اور ہر حق کے نہ ادا کرنے والے اور ہر نیکی صلہ رحمی اور بھلائی سے خالی رہنے والے اور ہر حد سے گزر جانے والے خواہ وہ مال کے خرچ میں اسراف کرتا ہو خواہ بولنے اور چلنے پھرنے میں اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کرتا ہو اور ہر شک کرنے والے اور ہر اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے لئے یہی حکم ہے کہ اسے پکڑ کر سخت عذاب میں ڈال دو ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے: جہنم قیامت کے دن لوگوں کے سامنے اپنی گردن نکالے گی اور باآواز بلند پکار کر کہے گی جسے تمام محشر کا مجمع سنے گا کہ میں تین قسم کے لوگوں پر مقرر کی گئی ہوں ہر سرکش حق کے مخالف کے لئے اور ہر مشرک کے لئے اور ہر تصویر بنانے والے کے لئے پھر وہ ان سب سے لپٹ جائے گی ۔ مسند کی حدیث میں تیسری قسم کے لوگ وہ بتائے ہیں جو ظالمانہ قتل کرنے والے ہوں ۔ قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ اس کا ہم نشین (شیطان) کہے گا اے ہمارے رب! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا (۲۷) اس کا ساتھی کہے گا اس سے مراد شیطان ہے جو اس کے ساتھ مؤکل تھا یہ اس کافر کو دیکھ کر اپنی برأت کرے گا اور کہے گا کہ میں نے اسے نہیں بہکایا بلکہ یہ تو خود گمراہ تھا باطل کو از خود قبول کر لیتا تھا حق کا اپنے آپ مخالف تھا جیسے دوسری آیت میں ہے: وَقَالَ الشَّيْطَـنُ لَمَّا قُضِىَ الاٌّمْرُ ۔۔۔ إِنَّ الظَّـلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ شیطان جب دیکھے گا کہ کام ختم ہوا تو کہے گا اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تو تم پر تھا ہی نہیں میں نے تم سے کہا تم نے فوراً مان لیا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی جانوں کو ملامت کرو نہ میں تمہیں کام دے سکوں گا نہ تم میرے کام آسکو تم جو مجھے شریک بنا رہے تھے تو میں پہلے ہی سے ان کا انکاری تھا ظالموں کے لئے المناک عذاب ہیں ۔ (۱۴:۲۲) قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ حق تعالیٰ فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (وعدہ عذاب) بھیج چکا ۔ (۲۸) پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ انسان سے اور اس کے ساتھی شیطان سے فرمائے گا کہ میرے سامنے نہ جھگڑو کیونکہ انسان کہہ رہا ہو گا کہ اللہ اس نے مجھے جبکہ میرے پاس نصیحت آچکی گمراہ کر دیا اور شیطان سے کہے گا اللہ میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تو اللہ انہیں تو تو میں میں سے روک دے گا اور فرمائے گا میں تو اپنی حجت ختم کر چکا رسولوں کی زبانی یہ سب باتیں تمہیں سنا چکا تھا تمہیں کتابیں بھیج دی تھیں اور ہر ہر طریقہ سے ہر طرح سے تمہیں سمجھا بھجا دیا تھا ۔ مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ میرے ہاں بات بد لتی نہیں نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا ہوں (۲۹) سنو جو فیصلہ کرنا وہ میں کر چکا میری باتیں بدلتی نہیں میں ظالم نہیں جو دوسرے کے گناہ پر کسی کو پکڑوں۔ ہر شخص پر اتمام حجت ہو چکی اور ہر شخص اپنے گناہوں کا آپ ذمہ دار ہے يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ جس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کیا تو بھر چکی؟ وہ جواب دے گی کیا کچھ اور زیادہ بھی ہے؟ (۳۰) چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا جہنم سے وعدہ ہے کہ اسے پُر کر دے گا اس لئے قیامت کے دن جو جنات اور انسان اس کے قابل ہوں گے انہیں اس میں ڈال دیا جائے اور اللہ تبارک وتعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ اب تو تو پُر ہو گئی ؟ اور یہ کہے گی کہ اگر کچھ اور گنہگار باقی ہوں تو انہیں بھی مجھ میں ڈال دو ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جہنم میں گنہگار ڈالے جائیں گے اور وہ زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھے گا پس وہ کہے گی بس بس ۔ مسند احمد کی حدیث میں یہ بھی ہے : اس وقت یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی تیری عزت و کرم کی قسم بس بس اور جنت میں جگہ بچ جائے گی یہاں تک کہ ایک مخلوق پیدا کر کے اللہ تعالیٰ اس جگہ کو آباد کرے گا ، صحیح بخاری میں ہے: جنت اور دوزخ میں ایک مرتبہ گفتگو ہوئی جہنم نے کہا کہ میں ہر متکبر اور ہر متجبر کے لئے مقرر کی گئی ہوں اور جنت نے کہا میرا یہ حال ہے کہ مجھ میں کمزور لوگ اور وہ لوگ جو دنیا میں ذی عزت نہ سمجھے جاتے تھے وہ داخل ہوں گے اللہ عزوجل نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا اس رحمت کے ساتھ نواز دوں گا اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے تیرے ساتھ میں جسے چاہوں گا عذاب کروں گا ۔ ہاں تم دونوں بالکل بھر جاؤ گی تو جہنم تو نہ بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھے گا اب وہ کہے گی بس بس بس ۔ اس وقت وہ بھر جائے گی اور اس کے سب جوڑ آپس میں سمٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ ہاں جنت میں جو جگہ بچ رہے گی اس کے بھرنے کے لئے اللہ عزوجل اور مخلوق پیدا کرے گا مسند احمد کی حدیث میں جہنم کا قول یہ ہے: مجھ میں جبر کرنے والے تکبر کرنے والا بادشاہ اور شریف لوگ داخل ہوں گے اور جنت نے کہا مجھ میں کمزور ضعیف فقیر مسکین داخل ہوں گے مسند ابو یعلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذات قیامت کے دن دکھائے گا ۔ میں سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو گا پھر میں اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریفیں کروں گا کہ وہ اس سے خوش ہو جائے گا پھر مجھے شفاعت کی اجازت دی جائے گی پھر میری اُمت جہنم کے اوپر کے پل سے گزرنے لگے گی بعض تو نگاہ کی سی تیزی سے گزر جائیں گے بعض تیر کی طرح پار ہو جائیں گے بعض تیز گھوڑوں سے زیادہ تیزی سے پار ہو جائیں گے یہاں تک کہ ایک شخص گھٹنوں چلتا ہوا گزر جائے گا اور یہ مطابق اعمال ہو گا اور جہنم زیادتی طلب کر رہی ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا پس یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی بس بس اور میں حوض میں ہوں گا ۔ لوگوں نے کہا حوض کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کی قسم اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ اس پر برتن آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں جسے اس کا پانی مل گیا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا اسے کہیں سے پانی نہیں ملے گا جو سیراب کر سکے ۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں کوئی مکان ہے کہ مجھ میں زیادتی کی جائے؟ حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں ایک کے بھی آنے کی جگہ ہے ؟ میں بھر گئی ، حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں اس میں جہنمی ڈالے جائیں گے یہاں تک کہ وہ کہے گی میں بھر گئی اور کہے گی کہ کیا مجھ میں زیادہ کی گنجائش ہے ؟ امام ابن جریرؒ پہلے قول کو ہی اختیار کرتے ہیں اس دوسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ گویا ان بزرگوں کے نزدیک یہ سوال اس کے بعد ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے اب جو اس سے پوچھے گا کہ کیا تو بھر گئی تو وہ جواب دے گی کہ کیا مجھ میں کہیں بھی کوئی جگہ باقی رہی ہے جس میں کوئی آسکے ؟ یعنی باقی نہیں رہی پر ہو گئی۔ حضرت عوفیؒ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ اس وقت ہو گا جبکہ اس میں سوئی کے ناکے کے برابر بھی جگہ باقی نہ رہے گی ۔ واللہ اعلم وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ اور جنت پر ہیز گاروں کے لئے بالکل قریب کر دی جائے گی ذرا بھی دور نہ ہوگی۔ (۳۱) پھر فرماتا ہے جنت قریب کی جائے گی یعنی قیامت کے دن جو دور نہیں ہے اس لئے کہ جس کا آنا یقینی ہو وہ دور نہیں سمجھا جاتا ۔ هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ یہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو رجوع کرنے والا اور پابندی کرنے والا ہو (۳۲) أَوَّابٍ کے معنی رجوع کرنے والا ، توبہ کرنے والا ، گناہوں سے رک جانے والا۔ حَفِيظٍ کے معنی وعدوں کا پابند ۔ حضرت عبید بن عمیر ؒفرماتے ہیں أَوَّابٍ حَفِيظٍ وہ ہے جو کسی مجلس میں بیٹھ کر نہ اٹھے جب تک کہ استغفار نہ کر لے ۔ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ جو رحمٰن کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور توجہ والا دل لایا ہو (۳۳) جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرتا رہے یعنی تنہائی میں بھی خوف اللہ رکھے۔ حدیث میں ہے: وہ بھی قیامت کے دن عرش اللہ کا سایہ پائے گا جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں اور قیامت کے دن اللہ کے پاس دل سلامت لے کر جائے ۔ جو اس کی جانب جھکنے والا ہو ۔ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ تم اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ (۳۴) اس میں یعنی جنت میں چلے جاؤ اللہ کے تمام عذابوں سے تمہیں سلامتی مل گئی اور یہ بھی مطلب ہے کہ فرشتے ان پر سلام کریں گے یہ خلود کا دن ہے ۔ یعنی جنت میں ہمیشہ کے لئے جا رہے ہو جہاں کبھی موت نہیں ۔ یہاں سے کبھی نکال دئیے جانے کا خطرہ نہیں جہاں سے تبدیلی اور ہیر پھیر نہیں ۔ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ یہ وہاں جو چاہیں انہیں ملے گا (بلکہ) ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے۔ (۳۵) پھر فرمایا یہ وہاں جو چاہیں گے پائیں گے بلکہ اور زیادہ بھی ۔ کثیر بن مرہؒ فرماتے ہیں مزید یہ بھی کہ اہل جنت کے پاس سے ایک بادل گزرے گا جس میں سے ندا آئے گی کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ جو تم چاہو میں برساؤں، پس یہ جس چیز کی خواہش کریں گے اس سے برسے گی حضرت کثیرؒ فرماتے ہیں اگر میں اس مرتبہ پر پہنچا اور مجھ سے سوال ہوا تو میں کہوں گا کہ خوبصورت خوش لباس نوجوان کنواریاں برسائی جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہارا جی جس پرند کو کھانے کو چاہے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا موجود ہو جائے گا مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے: اگر جنتی اولاد چاہے گا تو ایک ہی ساعت میں حمل اور بچہ اور بچے کی جوانی ہو جائے گی ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں اور ترمذی میں یہ بھی ہے کہ جس طرح یہ چاہے گا ہو جائے گا اور آیت میں ہے: لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ (۱۰:۲۶) صہیب بن سنان رومی فرماتے ہیں اس زیادتی سے مراد اللہ کریم کے چہرے کی زیارت ہے ۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں ہر جمعہ کے دن انہیں دیدار باری تعالیٰ ہو گا یہی مطلب مزید کا ہے ۔ مسند شافعی میں ہے : حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک سفید آئینہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جس کے بیچوں بیچ ایک نکتہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ جمہ کا دن ہے جو خاص آپ کو اور آپ کی امت کو بطور فضیلت کے عطا فرمایا گیا ہے ۔ سب لوگ اس میں تمہارے پیچھے ہیں یہود بھی اور نصاریٰ بھی تمہارے لئے اس میں بہت کچھ خیر و برکت ہے اس میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے گا مل جاتا ہے ہمارے یہاں اس کا نام یوم المزید ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا تیرے رب نے جنت الفردوس میں ایک کشادہ میدان بنایا ہے جس میں مشکی ٹیلے ہیں جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ جن جن فرشتوں کو چاہے اتارتا ہے اس کے اردگرد نوری منبر ہوتے ہیں جن پر انبیاء علیہ السلام رونق افروز ہوتے ہیں یہ منبر سونے کے ہیں جس پر جڑاؤ جڑے ہوئے ہیں شہداء اور صدیق لوگ ان کے پیچھے ان مشکی ٹیلوں پر ہوں گے ۔ اللہ عزوجل فرمائے گا میں نے اپنا وعدہ تم سے سچا کیا اب مجھ سے جو چاہو مانگو پاؤ گے ۔ یہ سب کہیں گے ہمیں تیری خوشی اور رضامندی مطلوب ہے اللہ فرمائے گا یہ تو میں تمہیں دے چکا میں تم سے راضی ہو گیا اس کے سوا بھی تم جو چاہو گے پاؤ گے اور میرے پاس اور زیادہ ہے ۔ اللہ فرمائے گا یہ تو میں تمہیں دے چکا میں تم سے راضی ہو گیا اس کے سوا بھی تم جو چاہو گے پاؤ گے اور میرے پاس اور زیادہ ہے ۔ پس یہ لوگ جمعہ کے خواہش مند رہیں گے کیونکہ انہیں بہت سی نعمتیں اسی دن ملتی ہیں یہی دن ہے جس دن تمہارا رب عرش پر مستویٰ ہوا اسی دن حضرت آدمؑ پیدا کئے گئے اور اسی دن قیامت آئے گی اسی طرح اسے حضرت امام شافعیؒ نے کتاب الام کی کتاب الجمعہ میں بھی وارد کیا ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جنتی ستر سال تک ایک ہی طرف متوجہ بیٹھا رہے گا پھر ایک حور آئے گی جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرے گی وہ اتنی خوبصورت ہو گی کہ اس کے رخسار میں اسے اپنی شکل اس طرح نظر آئے گی جیسے آب دار آئینے میں وہ جو زیورات پہنے ہوئے ہو گی ان میں کا ایک ایک ادنیٰٰ موتی ایسا ہو گا کہ اس کی جوت سے ساری دنیا منور ہو جائے وہ سلام کرے گی یہ جواب دے کر پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گی میں ہوں جسے قرآن میں مَزِيدٌ کہا گیا تھا ۔ اس پر ستر حلے ہوں گے لیکن تاہم اس کی خوبصورتی اور چمک دمک اور صفائی کی وجہ سے باہر ہی سے اس کی پنڈلی کا گودا تک نظر آئے گا اس کے سر پر جڑاؤ تاج ہو گا جس کا ادنیٰ موتی مشرق مغرب کو روشن کر دینے کے لئے کافی ہے وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ اور اس سے پہلے بھی ہم بہت سی اُمتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے طاقت میں زیادہ تھیں وہ شہروں میں ڈھونڈھتے ہی رہ گئے، کہ کوئی بھاگنے کا ٹھکانا ہے۔ (۳۶) ارشاد ہوتا ہے کہ یہ کفار تو کیا چیز ہیں ؟ ان سے بہت زیادہ قوت وطاقت اور اسباب تعداد کے لوگوں کو اسی جرم پر ہم تہہ وبالا کر چکے ہیں جنہوں نے شہروں میں اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں زمین میں خوب فساد کیا ۔ لمبے لمبے سفر کرتے تھے ہمارے عذاب دیکھ کر بچنے کی جگہ تلاش کرنے لگے مگر یہ کوشش بالکل بےسود تھی اللہ کی قضا و قدر اور اس کی پکڑ دھکڑ سے کون بچ سکتا تھا ؟ پس تم بھی یاد رکھو کہ جس وقت میرا عذاب آگیا بغلیں جھانکتے رہ جاؤ گے اور بھوسی کی طرح اڑا دئیے جاؤ گے ۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ اس میں ہر صاحب دل کے لئے عبرت ہے اور اس کے لئے جو دل متوجہ ہو کر کان لگائے اور وہ حاضر ہو (۳۷) ہر عقلمند کے لئے اس میں کافی عبرت ہے اگر کوئی ایسا بھی ہو جو سمجھ داری کے ساتھ دھیان لگائے وہ بھی اس میں بہت کچھ پا سکتا ہے یعنی دل کو حاضر کر کے کانوں سے سنے ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کر دیا اور ہمیں تھکان نے چھوا تک نہیں۔ (۳۸) پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے آسمانوں کو زمین کو اور اسکے درمیان کی چیزوں کو چھ روز میں پیدا کر دیا اور وہ تھکا نہیں اس میں بھی موت کے بعد کی زندگی پر اللہ کے قادر ہونے کا ثبوت ہے کہ جو ایسی بڑی مخلوق کو اولاً پیدا کر چکا ہے اس پر مردوں کا جلانا کیا بھاری ہے ؟ حضرت قتادہؒ کا فرمان ہے: ملعون یہود کہتے تھے کہ چھ دن میں مخلوق کو رچا کر خالق نے ساتویں روز آرام کیا اور یہ دن ہفتہ کا تھا اس کا نام ہی انہوں نے یوم الراحت رکھ چھوڑا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اس واہی خیال کی تردید کی کہ ہمیں تھکن ہی نہ تھی آرام کیسا؟ جیسے اور آیت میں ہے: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ ،،،بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ کیا انہوں نے نہیں دیکھا ؟ کہ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا وہ مردوں کے جلانے پر قادر نہیں ؟ ہاں کیوں نہیں وہ تو ہر چیز پر قادر ہے (۴۶:۳۳) اور آیت میں ہے: لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ البتہ آسمان و زمین کی پیدائش لوگوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے (۴۰:۵۷) اور آیت میں ہے: أَءَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَآءُ بَنَـهَا کیا تمہاری پیدائش سے زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی اسے اللہ نے بنایا ہے ۔ (۷۹:۲۷) فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ پس یہ جو کچھ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کریں اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے بھی (۳۹) پھر فرمان ہوتا ہے کہ یہ جھٹلانے اور انکار کرنے والے جو کہتے ہیں اسے صبر سے سنتے رہو اور انہیں مہلت دو ان کو چھوڑ دو اور سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے اور رات کو اللہ کی پاکی اور تعریف کیا کرو ۔ معراج سے پہلے صبح اور عصر کی نماز فرض تھی اور رات کی تہجد آپﷺ پر اور آپ کی اُمت پر ایک سال تک واجب رہی اس کے بعد آپ ؐ کی اُمت سے اس کا وجوب منسوخ ہو گیا اس کے بعد معراج والی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں جن میں فجر اور عصر کی نمازیں جوں کی توں رہیں ۔ پس سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے مراد فجر کی اور عصر کی نماز ہے مسند احمد میں ہے: ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چودہویں رات کے چاند کو دیکھا اور فرمایا تم اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اس طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے وہ جس کے دیکھنے میں کوئی دھکا پیلی نہیں پس اگر تم سے ہو سکے تو خبردار سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نمازوں سے غافل نہ ہو جایا کرو ، پھر آپ ؐنے آیت وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ پڑھی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ اور رات کے کسی وقت بھی تسبیح کریں اور نماز کے بعد بھی (۴۰) رات کو بھی اس کی تسبیح بیان کر یعنی نماز پڑھ جیسے فرمایا: وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُودًا رات کو تہجد کی نماز پڑھا کر یہ زیادتی خاص تیرے لئے ہی ہے تجھے تیرا رب مقام محمود میں کھڑا کرنے والا ہے (۱۷:۷۹) سجدوں کے پیچھے سے مراد بقول حضرت ابن عباسؓ نماز کے بعد اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مفلس مہاجر آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالدار لوگ بلند درجے اور ہمیشہ والی نعمتیں حاصل کر چکے آپؐ نے فرمایا یہ کیسے ؟ جواب دیا کہ ہماری طرح نماز روزہ بھی تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن وہ صدقہ دیتے ہیں جو ہم نہیں دے سکتے وہ غلام آزاد کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے آپؐ نے فرمایا آؤ تمہیں ایک ایسا عمل بتلاؤں کہ جب تم اسے کرو تو سب سے آگے نکل جاؤ اور تم سے افضل کوئی نہ نکلے لیکن جو اس عمل کو کرے ۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ ، الحمد اللہ ، اللہ اکبر پڑھ لیا کرو پھر وہ آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی آپ کی اس حدیث کو سنا اور وہ بھی اس عمل کو کرنے لگے ۔ آپ ؐنے فرمایا پھر یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مغرب کے بعد کی دو رکعت ہیں ۔ حضرت عمر حضرت علی حضرت حسن بن علی حضرت ابن عباس حضرت ابوہریرہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہم کا یہی فرمان ہے اور یہی قول ہے حضرت مجاہد حضرت عکرمہ حضرت شعبی حضرت نخعی حضرت قتادہ رحہم اللہ کا ۔ مسند احمد میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے بجز فجر اور عصر کی نماز کے عبدالرحمٰنؓ فرماتے ہیں ہر نماز کے پیچھے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے: میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گزاری آپ نے فجر کے فرضوں سے پہلے دو ہلکی رکعت ادا کیں پھر گھر سے نماز کیلئے نکلے اور فرمایا اے ابن عباس فجر کے پہلے کی دو رکعت ادبار النجوم ہیں اور مغرب کے بعد کی دو رکعت ادبار السجود ہیں ۔ یہ اسی رات کا ذکر ہے جس رات حضرت عبداللہؓ نے تہجد کی نماز کی تیرہ رکعت آپ کی اقتداء میں ادا کی تھیں اور اس رات آپ کی خالہ حضرت میمونہؓ کی باری تھی ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں ہاں اصل حدیث تہجد کی تو بخاری و مسلم میں ہے ۔ ممکن ہے کہ پچھلا کلام حضرت ابن عباسؓ کا اپنا ہو۔ واللہ اعلم ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ اور سن رکھیں کہ جس دن ایک پکارنے والا قریب ہی جگہ سے پکارے گا (۴۱) يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ جس روز اس تند تیز چیخ کو یقین کے ساتھ سن لیں گے یہ دن ہوگا نکلنے کا (۴۲) حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو حکم دے گا کہ بیت المقدس کے پتھر پر کھڑا ہو کر یہ آواز لگائے کہ اے سڑی گلی ہڈیو اور اے جسم کے متفرق اجزاؤ اللہ تمہیں جمع ہو جانے کا حکم دیتا ہے تاکہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے ، پس مراد اس سے صور ہے یہ حق اس شک و شبہ اور اختلاف کو مٹا دے گا جو اس سے پہلے تھا یہ قبروں سے نکل کھڑے ہونے کا دن ہو گا إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ ہم ہی جلاتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ (۴۳) ابتداءً ًیہ پیدا کرنا پھر لوٹانا اور تمام خلائق کو ایک جگہ لوٹا لانا یہ ہمارے ہی بس کی بات ہے ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ جس دن زمین پھٹ جائے گی اور یہ دوڑتے ہوئے (نکل پڑیں گے) اس وقت ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ہم دیں گے تمام بھلائی برائی کا عوض ہر ہر شخص کو پا لے گا زمین پھٹ جائے گی اور سب جلدی جلدی اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا جس سے مخلوقات کے بدن اُگنے لگیں گے جس طرح کیچڑ میں پڑا ہوا دانہ بارش سے اُگ جاتا ہے ۔ جب جسم کی پوری نشوونما ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا ۔ تمام روحیں صور کے سوراخ میں ہوں گی ان کے صور پھونکتے ہی روحیں آسمان کے درمیان پھرنے لگ جائیں گی اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے عزت و جلال کی قسم ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے جسے اس نے دنیا میں آباد رکھا تھا ۔ پس ہر روح اپنے اپنے اصلی جسم میں جا ملے گی اور جس طرح زہریلے جانور کا اثر چوپائے کے رگ و ریشہ میں بہت جلد پہنچ جاتا ہے اس طرح اس جسم کے رگ و ریشے میں فوراً روح دوڑ جائے گی اور ساری مخلوق اللہ کے فرمان کے ماتحت مُّهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ يَقُولُ الْكَـفِرُونَ هَـذَا يَوْمٌ عَسِرٌ (۵۴:۸) دوڑتی ہوئی جلد از جلد میدان محشر میں حاضر ہو جائے گی یہ وقت ہو گا جو کافروں پر بہت ہی سخت ہو گا۔ فرمان باری ہے: يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے جواب دو گے اور سمجھتے ہو گے کہ تم بہت ہی کم ٹھہرے ۔ (۱۷:۵۲) صحیح مسلم میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہو گی ۔ ذَلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ یہ جمع کر لینا ہم پر بہت ہی آسان ہے۔ (۴۴) فرماتا ہے کہ یہ دوبارہ کھڑا کرنا ہم پر بہت ہی سہل اور بالکل آسان ہے جیسے اللہ جل جلالہ نے فرمایا : وَمَآ أَمْرُنَآ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ہمارا حکم اس طرح یکبارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا (۵۴:۵۰) اور آیت میں ہے : مَّا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ تم سب کا پیدا کرنا اور پھر مارنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو سننے دیکھنے والا ہے ۔ (۳۱:۲۸) نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں پھر جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہمارے علم سے باہر نہیں تو اسے اہمیت نہ دے ہم خود نپٹ لیں گے جیسے اور جگہ ہے: وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السَّـجِدِينَ ۔ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ واقعی ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں اس سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں سو اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے پروردگار کی پاکی اور تعریف کرتے رہیے اور نمازوں میں رہیے اور موت آجانے تک اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیے ۔ (۱۵:۹۷،۹۹) وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۖ اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں پھر فرماتا ہے تو انہیں ہدایت پر جبرًا نہیں لا سکتا نہ ہم نے تجھے اس کا مکلف بنایا ہے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ ان پر جبر نہ کرو ، لیکن پہلا قول اولیٰ ہے کیونکہ الفاظ میں یہ نہیں کہ تم ان پر جبر نہ کرو بلکہ یہ ہے کہ تم ان پر جبار نہیں ہو یعنی آپ مبلغ ہیں تبلیغ کر کے اپنے فریضے سے سبکدوش ہو جائیے جبر معنی میں اجبر کے بھی آتا ہے ۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید (ڈراوے کے وعدوں) سے ڈرتے ہیں ۔ (۴۵) آپ نصیحت کرتے رہیے جس کے دل میں خوف اللہ ہے جو اس کے عذابوں سے ڈرتا ہے اور اس کی رحمتوں کا امیدوار ہے وہ ضرور اس تبلیغ سے نفع اٹھائے گا اور راہ راست پر آجائے گا جیسے فرمایا ہے: فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمے ہے (۱۳:۴۰) اور آیت میں ہے: فَذَكِّرْ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ ۔ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ تو نصیحت کرنے والا ہے کچھ ان پر داروغہ نہیں ۔ (۸۸:۲۱،۲۲) اور جگہ ہے: لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُ تمہارے ذمہ ان کی ہدایت نہیں بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے (۲:۲۷۲) اور جگہ ہے: إِنَّكَ لاَ تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُ تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہے راہ راست پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ (۲۸:۵۶) اسی مضمون کو یہاں بھی بیان فرمایا ہے ۔ حضرت قتادہؒ اس آیت کو سن کر یہ دعا کرتے : اللھم اجعلنا ممن یخاف وعیدک ویرجو موعدک یا بار یا رحیم اے اللہ تو ہمیں ان میں سے کر جو تیری سزاؤں کے ڈراوے سے ڈرتے ہیں اور تیری نعمتوں کے وعدے کی امید لگائے ہوئے ہیں اے بہت زیادہ احسان کرنیوالے اور اے بہت زیادہ رحم کرنے والے۔ سورہ ق کی تفسیر ختم ہوئی۔ والحمد للہ وحدہ وحسبنا اللہ ونعم الوکیل |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |