Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Saffat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi


For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالصَّافَّاتِ صَفًّا 

قسم صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔‏ (۱)‏

فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا 

پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی۔‏ (۲)‏

فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا  ‏

پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی۔‏ (۳)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔

-  ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں۔

- ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔

-  اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے۔ مسلم

ایک مرتبہ آپﷺ نے صحابہ  سے فرمایا:

 تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔

 صحابہ  نے کہا وہ کس طرح ؟

 آپ ﷺنے فرمایا اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں۔ مسلم

 ڈانٹنے والوں سے مراد سدی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں۔

 ربیع بن انس وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں ۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے

فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا  ـ عُذْرًا أَوْ نُذْرًا 

وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ (۷۷:۵،۶)

إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ  

یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے ۔ (۴)‏ ‏

ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود بر حق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ 

آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مشرقوں کا رب وہی ہے۔‏ (۵)‏

وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں۔ مشرقوں کا ذکر کرکے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے:

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ  

وہ رب ہےدونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا  (۵۵:۱۷)

یعنی جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے۔

إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ 

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا۔‏ (۶)‏

وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ 

اور حفاظت کی سرکش شیطان سے ۔ (۷)‏

آسمان دنیا کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جو زینت دی گئی ہے اس کا بیان فرمایا۔ یہ اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بدلیت کے ساتھ بھی معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں۔ اس کے ستاروں کی، اس کے سورج کی روشنی زمین کو جگمگادیتی ہے،

جیسے اور آیت میں ہے:

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَـبِيحَ وَجَعَلْنَـهَا رُجُوماً لِّلشَّيَـطِينِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ 

ہم نے آسمان دنیا کو زینت دی ستاروں کے ساتھ۔ اور انہیں شیطانوں کے لیے شیطانوں کے رجم کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے آگ سے جلا دینے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں۔ (۶۷:۵)

 اور آیت میں ہے

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى السَّمَاءِ ۔۔۔فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ  

ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب جانے والی چیز بنائی۔  (۱۵:۱۶،۱۸)

اور ہر شیطان رجیم سے اسے محفوظ رکھا جو کوئی کسی بات کو لے اڑنا چاہتا ہے وہیں ایک تیز شعلہ اس کی طرف اترتا ہے۔

لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ 

عالم بالا کے فرشتوں (کی باتوں) کو سننے کے لئے وہ کان بھی نہیں لگا سکتے، بلکہ ہر طرف سے وہ مارے جاتے ہیں۔‏ (۸)‏

اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی ہر سرکش شریر شیطان سے ، اس کا بس نہیں کہ فرشتوں کی باتیں سنے، وہ جب یہ کرتا ہے تو ایک شعلہ لپکتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے۔ یہ آسمانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اللہ کی شریعت تقدیر کے امور کی کسی گفتگو کو وہ سن ہی نہیں سکتے۔

 اس بارے کی حدیثیں ہم نے آیت  حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (۳۴:۲۳)  کی تفسیر میں بیان کردی ہیں،

 جدھر سے بھی یہ آسمان پر چڑھنا چاہتے ہیں وہیں سے ان پر آتش بازی کی جاتی ہے۔

دُحُورًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ 

بھگانے کے لئے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔‏ (۹)‏

انہیں ہنکانے پست و ذلیل کرنے روکنے اور نہ آنے دینے کے لیے یہ سزا بیان کی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب ابھی باقی ہیں،

وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ 

جو بڑے المناک درد ناک اور ہمیشگی والے ہوں گے۔ (۶۷:۵)

إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ 

مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو(فورا ًہی) اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے۔‏ (۱۰)‏

ہاں کبھی کسی جن نے کوئی کلمہ کسی فرشتے کی زبان سے سن لیا اور اسے اس نے اپنے نیچے والے سے کہہ دیا اور اس نے اپنے نیچے والے سے وہیں اس کے پیچھے ایک شعلہ لپکتا ہے کبھی تو وہ دوسرے کو پہنچائے اس سے پہلے ہی شعلہ اسے جلا ڈالتا ہے کبھی وہ دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو کاہنوں کے کانوں تک شیاطین کے ذریعہ پہنچ جاتی ہیں،

 ثَاقِبٌ سے مراد سخت تیز بہت زیادہ روشنی والا ہے،

حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے:

 شیاطین پہلے جاکر آسمانوں میں بیٹھتے تھے اور وہی سن لیتے تھے اس وقت ان پر تارے نہیں ٹوٹتے تھے یہ وہاں کی وحی سن کر زمین پر آکر ایک کی دس دس کر کے کاہنوں کے کانوں میں پھونکتے تھے،

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی پھر شیطانوں کا آسمان پر جانا موقوف ہوا، اب یہ جاتے ہیں تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں اور انہیں جلادیا جاتا ہے، انہوں نے اس نو پیدا امر کی خبر جب ابلیس ملعون کو دی تو اس نے کہا کہ کسی اہم نئے کام کی وجہ سے اس قدر احتیاط و حفاظت کی گئی ہے چنانچہ خبر رسانوں کی جماعتیں اس نے روئے زمین پر پھیلا دیں تو جو جماعت حجاز کی طرف گئی تھی اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کر رہے ہیں اس نے جاکر ابلیس کو یہ خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو تمہارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا۔

فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا ۚ

ان کفروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا (ان کا) جنہیں ہم نے ان کے علاوہ پیدا کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ان منکرین قیامت سے پوچھو کہ تمہارا پیدا کرنا ہم پر مشکل ہے ؟ یا آسمان و زمین فرشتے جن وغیرہ کا ،

 ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت أَمْ مَنْ عددنَا ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا اقرار تو انہیں بھی ہے کہ پھر مر کر جینے کا انکار کیوں کر رہے ہیں؟ چنانچہ اور آیت میں ہے:

لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْـثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ  

انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بڑی اور بہت بھاری پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں۔ (۴۰:۵۷)

پھر انسان کی پیدائشی کمزوری بیان فرماتا ہے

إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ 

ہم نے (انسانوں) کو لیس دار مٹی سے پیدا کیا ہے؟  (۱۱)‏

 یہ چکنی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں لیس تھا جو ہاتھوں پر چپکتی تھی۔

بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ 

بلکہ تو تعجب کر رہا ہے اور یہ مسخرا پن کر رہے ہیں ۔ (۱۲)‏

تو چونکہ حقیقت کو پہنچ گیا ہے ان کے انکار پر تعجب کر رہا ہے کیونکہ اللہ کی قدرتیں تیرے سامنے ہیں اور اس کے فرمان بھی۔

وَإِذَا ذُكِّرُوا لَا يَذْكُرُونَ 

اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے یہ نہیں مانتے۔‏ (۱۳)‏

وَإِذَا رَأَوْا آيَةً يَسْتَسْخِرُونَ 

اور جب کسی معجزے کو دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔‏ (۱۴)‏

لیکن یہ تو اسے سن کر ہنسی اڑاتے ہیں۔ اور جب کبھی کوئی واضح دلیل سامنے آجاتی ہے تو مسخرا پن کرنے لگتے ہیں۔

وَقَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ 

اور کہتے ہیں کہ یہ تو بالکل کھلم کھلا جادو ہی ہے  (۱۵)‏

أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ 

کیا جب ہم مر جائیں گے خاک اور ہڈی ہوجائیں گے پھر کیا (سچ مچ) ہم اٹھائے جائیں گے؟‏ (۱۶)‏

أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ  ‏

کیا ہم سے پہلے کے ہمارے باپ دادا بھی؟‏ (۱۷)

 اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔ ہم کسی طرح اسے نہیں ماننے کے کہ مر کر مٹی ہو کر پھر جی اٹھیں بلکہ ہمارے باپ دادا بھی دوسری زندگی میں آجائیں ہم تو اس کے قائل نہیں۔

قُلْ نَعَمْ وَأَنْتُمْ دَاخِرُونَ  

آپ جواب دیجئے کہ ہاں ہاں اور تم ذلیل (بھی) ۔‏ (۱۸)‏

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہدو کہ ہاں تم یقیناً دوبارہ پیدا کئے جاؤ گے۔ تم ہو کیا چیز اللہ کی قدرت اور مشیت کے ماتحت ہو، اس کی وہ ذات ہے کہ کسی کی اس کے سامنے کوئی ہستی نہیں۔ فرماتا ہے

وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ 

سب اس کی بارگاہ میں ذلیل ہو کر آئیں گے (۲۷:۸۷)

یعنی  ہر شخص اس کے سامنے عاجزی اور لاچاری سے حاضر ہونے والا ہے۔

 اور  آیت میں ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ 

میری عبادت سے سرکشی کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے۔(۴۰:۶۰)

فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنْظُرُونَ 

وہ تو صرف ایک روز کی جھڑکی ہے کہ یکایک یہ دیکھنے لگیں گے ۔ (۱۹)‏

 پھر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جسے تم مشکل سمجھتے ہو، وہ مجھ پر تو بالکل ہی آسان ہے صرف ایک آواز لگتے ہی ہر ایک زمین سے نکل کر دہشت ناکی کے ساتھ اہوال و احوال قیامت کو دیکھنے لگے گا۔ واللہ اعلم

وَقَالُوا يَا وَيْلَنَا هَذَا يَوْمُ الدِّينِ 

اور کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی یہی جزا (سزا) کا دن ہے۔‏ (۲۰)‏

قیامت والے دن کفار کا اپنے تئیں ملامت کرنا اور پچھتانا اور افسوس و حسرت کرنا بیان ہو رہا ہے کہ وہ نادم ہو کر قیامت کے دہشت خیز اور وحشت انگیز امور کو دیکھ کر کہیں گے ہائے ہائے یہی تو روز جزا ہے۔

هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ 

یہی فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلاتے ہو  (۲۱)‏

تو مؤمن اور فرشتے بطور ڈانٹ ڈپٹ اور ندامت بڑھانے کے ان سے کہیں گے ہاں یہی تو وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم سچا نہیں مانتے تھے۔

احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ 

ظالموں کو اور ان کے ہمراہیوں کو اور (جن) جن کی وہ اللہ کے علاوہ پرستش کرتے تھے ۔‏ (۲۲)‏

مِنْ دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِ 

(ان سب کو) جمع کرکے انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو۔‏ (۲۳)‏

اس دن اللہ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ظالموں کو ان کے جوڑوں کو ان کے بھائی بندوں کو اور ان جیسوں کو ایک جاجمع کرو۔ مثلاً زانی زانیوں کے ساتھ سود خوار سود خواروں کے ساتھ شرابی شرابیوں کے ساتھ وغیرہ

 ایک قول یہ بھی ہے کہ ظالموں کو اور ان کی عورتوں کو ، لیکن یہ غریب ہے۔

ٹھیک مطلب یہی ہے کہ انہی جیسوں کو اور ان کے ساتھ ہی جن بتوں کو اور جن جن کو شریک اللہ یہ مقرر کئے ہوئے تھے سب کو جمع کرو۔ پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ

جیسے فرمان ہے:

وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا 

انہیں ان کے منہ کے بل اندھے بہرے گونگے کرکے ہم جمع کریں گے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس کی آگ جب کبھی ہلکی ہوجائے ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ (۱۷:۹۷)

وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ 

اور انہیں ٹھہرا لو، اس لئے کہ ان سے ضروری سوال کیئے جانے والے ہیں۔‏ (۲۴)‏

انہیں جہنم کے پاس کچھ دیر ٹھہرا دوتاکہ ہم ان سے پوچھ گچھ کرلیں۔ ان سے حساب لے لیں۔

 ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو شخص کسی کو کسی چیز کی طرف بلائے ۔ وہ قیامت کے دن اس کے ساتھ کھڑاکیا جائے گا نہ بیوفائی ہوگی نہ جدائی ہوگی گو ایک کو ہی بلایا ہو پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی

حضرت عثمان بن زائدہ فرماتے ہیں سب سے پہلے انسان سے اس کے ساتھیوں کی بابت سوال کیا جائے گا۔

پھر ان سے پوچھا جائے گا

مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ 

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ (اس وقت)تم ایک دوسروں کی مدد نہیں کرتے۔‏ (۲۵)‏

کہ کیوں آج ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟

تم تو دنیا میں کہتے پھرتے تھے کہ ہم سب ایک ساتھ ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔

بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ 

بلکہ وہ (سب کے سب) آج فرمانبردار بن گئے۔‏ (۲۶)‏

یہ تو کہاں  بلکہ آج تو یہ ہتھیار ڈال چکے اللہ کے فرمانبردار بن گئے۔ نہ اللہ کے کسی فرمان کا خلاف کریں نہ کرسکیں نہ اس سے بچ سکیں نہ وہاں سے بھاگ سکیں۔ واللہ اعلم

وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ 

وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال و جواب کرنے لگیں گے۔‏ (۲۷)‏

کافر لوگ جس طرح جہنم کے طبقوں میں جلتے ہوئے آپس میں جھگڑے کریں گے اسی طرح قیامت کے میدان میں وہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں گےجیسے قرآن میں اور جگہ ہے:

وَإِذْ يَتَحَآجُّونَ فِى النَّـارِ فَيَقُولُ ،،،إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ  

کمزور لوگ زور آوروں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع فرمان تھے کیا آج ہمیں تم تھوڑے بہت عذاب سے بچالو گے ؟

وہ کہیں گے کہ ہم تو خود تمہارے ساتھ ہی اسی جہنم میں جل رہے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے فرما چکا۔ (۴۰:۴۷،۴۸)

 اور جیسے اور جگہ ان کی یہ بات چیت اس طرح منقول ہے:

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۔۔۔ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 

کہ ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایماندار بن جاتے۔ وہ جواب دیں گے کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روک دیا؟ نہیں بلکہ تم تو خود ہی بدکار تھے۔

یہ کہیں گے بلکہ دن رات کا مکر جبکہ تم ہمیں حکم کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک مقرر کریں۔ عذاب کو دیکھتے ہی یہ سب کے سب بےطرح نادام و پیشمان ہوں گے لیکن اپنی ندامت کو چھپائیں گے۔

ا ن تمام کفار کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے جائیں گے ہاں یہ یقینی بات ہے کہ ہر ایک کو صرف اس کی کرنی بھرنی پڑے گی  (۳۴:۳۱،۳۴)

قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ 

کہیں گے کہ تم ہمارے پاس ہماری دائیں طرف سے آتے تھے  (۲۸)‏

قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 

وہ جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ تم ہی ایماندار نہ تھے   (۲۹)‏

پس یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے بڑوں اور سرداروں سے کہیں گے تم ہماری دائیں جانب سے آتے تھے یعنی چونکہ ہم کمزور کم حیثیت تھے اور تمہیں ہم پر ترجیح تھی اس لیے تم ہمیں دبادبو کر حق سے ناحق کی طرف پھیر دیتے تھے، یہ کافروں کا مقولہ ہوگا جو وہ شیطانوں سے کہیں گے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان یہ بات جنات سے کہیں گے کہ تم ہمیں بھلائی سے روک کر برائی پر آمادہ کرتے تھے گناہ کو مزین اور شیریں دکھاتے تھے اور نیکی کو بری اور مشکل جتاتے تھے، حق سے روکتے تھے باطل پر جما دیتے تھے ، جب کبھی نیکی کا خیال ہمارے دل میں آتا تھا تم کسی نہ کسی فریب سے اس سے روک دیتے تھے ، اسلام ، ایمان ، خیرو خوبی ، نیکی اور سعادت مندی سے تم نے ہمیں محروم کردیا۔ توحید سے دور ڈال دیا۔ ہم تمہیں اپنا خیر خواہ سمجھتے رہے، راز دار بنائے رہے ، تمہاری باتیں مانتے رہے تمہیں بھلا آدمی سمجھتے رہے۔

وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ ۖ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ 

اور کچھ ہمارا زور تو تھا (ہی) نہیں، بلکہ تم (خود) سرکش لوگ تھے  (۳۰)‏

فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا ۖ إِنَّا لَذَائِقُونَ 

اب تو ہم (سب) پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوچکی کہ ہم (عذاب) چکھنے والے ہیں۔‏ (۳۱)‏

اس کے جواب میں جنات اور انسان جتنے بھی سردار ذی عزت اور بڑے لوگ تھے ان کمزوروں کو جواب دیں گے کہ اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں تم تو خود ہی ایسے ہی تھے تمہارے دل ایمان سے بھاگتے تھے اور کفر کی طرف دوڑ کر جاتے تھے۔ ہم نے تمیں جس چیز کی طرف بلایا وہ کوئی حق بات نہ تھی نہ اس کی بھلائی پر کوئی دلیل تھی لیکن چونکہ تم طبعاً برائی کی طرف مائل تھے خود تمہارے دلوں میں سرکشی اور برائی تھی اس لیے تم نے ہمارا کہا مان لیا۔ اب تو ہم سب پر اللہ کا قول ثابت ہوگیا کہ ہم یقیناً عذابوں کا مزہ چکھنے والے ہیں۔

فَأَغْوَيْنَاكُمْ إِنَّا كُنَّا غَاوِينَ  

پس ہم نے تمہیں گمراہ کیا ہم خود گمراہ ہی تھے۔  (۳۲)‏

یہ بڑے لوگ چھوٹوں سے یہ متبوع لوگ اپنے تابعداروں سے کہیں گے کہ ہم تو خود ہی بہکے ہوئے تھے ہم نے تمہیں بھی اپنی ضلالت کی طرف بلایا تم دوڑے ہوئے آگئے۔ بتاؤ تم نے ہماری بات مان لی ؟

فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ 

سو اب آج کے دن (سب کے سب) عذاب میں شریک ہیں  (۳۳)‏

إِنَّا كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ 

ہم گناہگاروں کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں   (۳۴)‏

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے پس آج کے دن سب لوگ جہنم کے عذابوں میں شریک ہیں ہر ایک اپنے اپنے اعمال کی سزا بھگت رہا ہے۔ مجرموں کے ساتھ ہم اسی طرح کیا کرتے ہیں۔

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ 

یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے   (۳۵)‏

یہ مؤمنوں کی طرح اللہ کی توحید کے قائل نہ تھے بلکہ توحید کی آواز سے تکبر نفرت کرتے تھے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں جو اسے کہہ لے اس نے اپنا مال اور اپنی جان بچالی مگر اسلامی فرمان سے۔ اور اس کا باطنی حساب اللہ کے ذمے ہے۔

 اللہ کی کتاب میں بھی یہی مضمون ہے۔ اور ایک متکبر قوم کا ذکر ہے کہ وہ اس کلمہ سے روگردانی کرتے تھے ۔

 ابن ابی حاتم میں ابو العلاء سے مروی ہے :

یہودیوں کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور ان سے سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے؟

 وہ کہیں گے اللہ کی اور عزیر کی۔

 ان سے کہا جائے گا اچھا بائیں طرف آؤ۔

پھر نصرانیوں سے یہی سوال ہوگا وہ کہیں گے اللہ کی اور مسیح کی توان سے بھی یہی کہاجائے گا

پھر مشرکین کولایاجائے گا اور ان سے لا الہ الا اللہ کہاجائے گا وہ تکبر کریں گے تین مرتبہ ایسا ہی ہوگاپھر حکم ہوگا انہیں بھی بائیں طرف لے چلو فرشتے انہیں پرندوں سے بھی جلدی پہنچادیں گے۔

 پھر مسلمانوں کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا کہ تم کس کی عبادت کرتے رہے ؟

یہ کہیں گے صرف اللہ تعالیٰ کی۔

 تو ان سے کہا جائے گا کیا تم اسے دیکھ کر پہچان سکتے ہو؟

یہ کہیں گے ہاں۔

 پوچھا جائے گا تم کیسے پہچان لو گے؟ حالانکہ تم نے کبھی اسے دیکھا نہیں

یہ جواب دیں گے ہاں یہ توٹھیک ہے ہم جانتے ہیں کہ اس کے برابر کا کوئی نہیں

 پس اللہ تعالیٰ اپنے تئیں انہیں پہچنوائے گا اور ان کو نجات دے گا۔

وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ  ‏

اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں ۔  (۳۶)

یہ کلمہ توحید اور رد شرک سن کر جواب دیتے تھے کہ کیا اس شاعر و مجنوں کے کہنے سے ہم اپنی معبودوں سے دست بردار ہوجائیں گے؟

ماننا تو ایک طرف الٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور دیوانہ بتاتے تھے۔

بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ 

(نہیں نہیں) بلکہ (نبی) تو حق (سچا دین) لائے ہیں اور سب رسولوں کو سچا جانتے ہیں   (۳۷)‏

پس اللہ تعالیٰ ان کی تکذیب کرتا ہے اور ان کے رد میں فرماتا ہے کہ یہ تو بالکل سچے ہیں سچ لے کر آئے ہیں ساری شریعت سراسر حق ہے خبریں ہوں تو اور حکم ہوں تو۔ یہ رسولوں کو بھی سچا جانتا ہے ان رسولوں نے جو صفتیں اور پاکیزگیاں آپکی بیان کی تھیں۔ انکے صحیح مصدق آپ ہی ہیں۔ یہ بھی وہی احکام بیان کرتے ہیں جو اگلے انبیاء نے کئے

 جیسے اور آیت میں ہے:

مَّا يُقَالُ لَكَ إِلاَّ مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ  

تجھ سے وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں سے کہا جاتا رہا۔ (۴۱:۴۳)

إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ 

یقیناً تم دردناک عذاب (کا مزہ) چکھنے والے ہو۔‏ (۳۸)‏

وَ مَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ 

تمہیں اسکا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے ۔ (۳۹)‏

اللہ تعالیٰ تمام لوگوں سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ تم المناک عذاب چکھنے والے ہو۔ اور صرف اسی کا بدلہ دئیے جانے والے ہو جسے تم نے کیا دھرا ہے۔ پھر اپنے مخلص بندوں کو اس سے الگ کر لیتا ہے جیسے والعصر میں فرمایا :

وَالْعَصْرِ ـ إِنَّ الإِنسَـنَ لَفِى خُسْرٍ ـ إِلاَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـت ...

تمام انسان گھاٹے میں ہیں۔ مگر ایماندار نیک اعمال۔ (۱۰۳:۱،۳)

اور سورہ والتین میں فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَـنَ فِى أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ـ ثُمَّ رَدَدْنَـهُ أَسْفَلَ سَـفِلِينَ ـ إِلاَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ  

ہم نے انسان کو بہت اچھی پیدائش میں پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کردیا مگر جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے۔  (۹۵:۴،۶)

اور سورہ مریم میں فرمایا:

وَإِن مِّنكُمْ إِلاَّ وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْماً مَّقْضِيّاً ـ ثُمَّ نُنَجِّى الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّنَذَرُ الظَّـلِمِينَ فِيهَا جِثِيّاً  

تم میں سے ہر ایک جہنم پروارد ہونے والا ہے یہ تو تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے لیکن پھر ہم متقیوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں گرے پڑے چھوڑ دیں گے۔ (۱۹:۷۱،۷۲)

سورہ مدثر میں ارشاد ہوا ہے:

كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ـ إِلاَّ أَصْحَـبَ الْيَمِينِ 

ہر شخص اپنے اپنے اعمال میں مشغول ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آچکا ہے  (۷۴:۳۸،۳۹)

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ 

مگر اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیدہ بندے ۔ (۴۰)‏

اسی طرح یہاں پر بھی اپنے خاص بندوں کا استثناء کرلیا کہ وہ المناک عذابوں سے حساب کے پھنساوے سے الگ ہیں بلکہ ان کی برائیوں سے درگزر فرمایا گیا ہے اور ان کی نیکیاں بڑھا چڑھا کر ایک کی دس دس گنی بلکہ سات سات سو گنی کرکے بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر انہیں دی گئی ہیں۔

أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ 

انہیں کے لئے مقررہ روزی ہے۔‏ (۴۱)‏

فَوَاكِهُ ۖ وَهُمْ مُكْرَمُونَ 

(ہر طرح) کے میوے، اور باعزت و اکرام ہونگے۔‏ (۴۲)‏

ان کے لیے مقررہ روزی اور وہ قسم قسم کے میوہ جات ہیں۔ وہ مخدوم ہیں، ذی عزت ہیں ، ذی اکرام ہیں، ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں ، بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے، بڑا ادب لحاظ رکھا جاتا ہے۔

فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ 

نعمتوں والی جنتوں میں۔‏ (۴۳)‏

یہ نعمتوں سے پر جنتوں میں ہیں۔

عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ 

تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے (بیٹھے) ہوں گے۔‏ (۴۴)‏

يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ 

جاری شراب کے جام کا ان پر دور چل رہا ہوگا   (۴۵)‏

بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ 

جو صاف شفاف اور پینے میں لذیذ ہوگی  (۴۶)‏

لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ

نہ اس سے درد ہوگا اور نہ اسکے پینے سے بہکیں گے   (۴۷)‏

وہاں کے تختوں پر اس طرح بیٹھے ہیں کہ کسی کی پیٹھ کسی کی طرف نہیں۔

يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَنٌ مُّخَلَّدُونَ ـ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ ـ لاَّ يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلاَ يُنزِفُونَ

 ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رہیں گے آمد و رفت کریں گےآبخورے اور جگ لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے پر ہو‏جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فطور آئے  (۵۶:۱۷،۱۹)

ایک مرفوع غریب حدیث میں بھی ہے کہ اس آیت کی تلاوت کرکے آپ ﷺنے فرمایا:

 ہر ایک کی نگاہیں دوسرے کے چہرے پر پڑیں گی، آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ اس شراب کے دور ان میں چل رہے ہوں گے جو جاری ہے جس کے ختم ہو جانے کم ہو جانے کامطلق اندیشہ نہیں۔ جو ظاہر باطن میں آراستہ ہے خوبیاں ہیں برائیاں نہیں۔ رنگ کی سفید مزے کی بہت اچھی لذیذ۔ نہ اس کے پینے سے سردرد ہو نہ بک جھک لگے، دنیا کی شراب میں یہ آفتیں تھیں پیٹ کا درد سر کا درد بیہوشی بد حواسی وغیرہ

لیکن جنت کی شراب میں ان میں سے ایک برائی بھی موجود نہیں رہی۔ دیکھنے میں خوش رنگ ، پینے میں لذیذ، فوائد میں اعلیٰ ، سرور و کیف میں عمدہ لیکن سدھ بدھ دور کردینے والی بد مست بنادینے والی نہیں، نہ بدبو دار نہ بد نظر نہ قابل نفرت۔ بلکہ خوشبو دار خوش رنگ خوش ذائق خوش فائدہ، اس کے پینے سے پیٹ میں درد نہیں ہوتا اور اس کی کثرت ضرر رساں نہیں خلاف طبع نہیں۔ سربھاری نہیں ہو جاتا چکر نہیں آتے گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ ہوش و حواس جاتے نہیں رہتے۔ کوئی ایذاء تکلیف قے متلی نہیں ہوتی۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 دنیا کی شراب میں چار برائیاں ہیں ، نشہ، سردرد، قے اور پیشاب۔ جنت کی شراب ان تمام برائیوں سے پاک ہے دیکھ لو سورہ الصافات۔

وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ 

اور ان کے پاس نیچی نظروں، بڑی بڑی آنکھوں والی (حوریں) ہونگی   (۴۸)‏

ان کے پاس نیچی نگاہوں والی شرمیلی نظروں والی پاک دامن عفیفہ حوریں ہیں جن کی نگاہ اپنے خاوندوں کے چہرے کے سوا کبھی کسی کے چہرے پر نہیں پڑتی اور نہ پڑیں گی۔ بڑی بڑی موٹی موٹی رسیلی آنکھیں ہیں حسن صورت حسن سیرت دونوں چیزیں ان میں موجود ہیں۔

 جس طرح حضرت زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام میں یہ دونوں خوبیاں دیکھیں۔ عورتوں نے جب انہیں طعنے دینے شروع کئے تو ایک دن سب کو بلا کر بٹھالیا اور حضرت یوسف کا پورا بناؤ سنگھار کراکر بلایا عورتوں کی نگاہیں ان کے جمال کو دیکھ کر خیرہ ہوگئیں اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو فرشتہ ہیں۔ اسی وقت کہا یہی تو ہیں جن کے بارے میں تم سب مجھے ملامت کر رہی تھیں واللہ میں نے ان کو ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ پاک دامن ہی رہا۔ یہ باوجود جمال ظاہری کے حسن باطنی بھی رکھتا ہے۔ بڑا پاکباز امین پارسا متقی پرہیزگار ہے

اسی طرح حوریں ہیں کہ جمال ظاہری کے ساتھ ہی باطنی خوبی بھی اپنے اندر رکھتی ہیں۔

كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ 

ایسی جیسے چھپائے ہوئے انڈے   (۴۹)‏

پھر ان کا مزید حسن بیان ہو رہا ہے کہ ان کا گورا گورا جسم اور بھبوکا سا رنگ ایسا چمکیلا دلکش اور جاذب نظر ہے کہ گویا محفوظ موتی۔ جس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچا ہو، جو سیپ سے نہ نکلا ہو جسے زمانے کی ہوا نہ لگی ہو جو اپنی آبداری میں بےمثل ہو ایسے ہی انکے اچھوتے جسم ہیں۔

یہ بھی کہا گیا کہ گویا وہ انڈے کی طرح ہیں۔ انڈے کے اوپر کے چھلکے کے نیچے چھوٹے چھلکے جیسے ان کے بدن ہیں۔

 ایک حدیث میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

حور عین سے مراد بہت بڑی آنکھوں والی سیاہ پلکوں والی حوریں ہیں۔

 پھر پوچھا بیض مکنون سے کیا مراد ہے؟

 فرمایا انڈے کے اندر کی سفید جھلی۔

 ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں کھڑا کیا جاؤن گا اور جبکہ وہ جناب باری میں پیش ہوں گے تو میں ان کا خطیب بنوں گا اور جب وہ غمگین ہو رہے ہوں گے تو میں انہیں خوشخبریاں سنانے والا ہوں گا اور ان کا سفارشی بنوں گا جب کہ یہ رکے ہوئے ہوں گے۔ حمد کا جھنڈا اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا۔

حضرت آدم کی اولاد میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں اکرام و عزت والا میں ہوں یہ میں بطور فخر کے نہیں کہہ رہا۔ میرے آگے پیچھے قیام کے دن ایک ہزار خادم گھوم رہے ہوں گے جو مثل چھپے ہوئے انڈوں یا اچھوت موتیوں کے ہوں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب۔

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ 

(جنتی) ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے پوچھیں گے ۔‏ (۵۰)‏

جب جنتی موج مزے اڑاتے ہوئے، بےفکری اور فارغ البالی کے ساتھ جنت کے بلند و بالا خاتون میں عیش وعشرت کے ساتھ آپس میں مل جل کر تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے ہزارہا پری جمال خدام سلیقہ شعاری سے کمر بستہ خدمت پر مامور ہوں گے حکم احکام دے رہے ہوں گے قسم قسم کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے اور طرح طرح کی لذتوں سے فائدہ مندی حاصل کرنے میں مصروف ہوں گے ۔ دور شراب ظہور چل رہا ہوگا وہاں باتوں ہی باتوں میں یہ ذکر نکل آئے گا کہ دنیا میں کیا کیا گزرے کیسے کیسے دن کٹے۔

قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ 

ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا‏ (۵۱)‏

يَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ 

جو (مجھ سے) کہا کرتا تھا کیا تو (قیامت کے آنے کا) یقین کرنے والوں سے ہے؟  (۵۲)‏

أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِينُونَ 

کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا اسوقت ہم جزا دیئے جانے والے ہیں؟  (۵۳)‏

قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ 

کہے گا تم چاہتے ہو کہ جھانک کر دیکھ لو؟  (۵۴)‏

اس پر ایک شخض کہے گا میری سنو میرا شیطان میرا ایک مشرک ساتھی تھا جو مجھ سے اکثر کہا کرتا تھا کہ تعجب سا تعجب ہے کہ تو اس بات کو مانتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں ہم کھوکھلی بوسیدہ سڑی گلی ہڈی بن جائیں اس کے بعد بھی ہم حساب کتاب جزا سزا کے لیے اٹھائے جائیں گے مجھے وہ شخض جنت میں تو نظر آتا نہیں کیا عجب کہ وہ جہنم میں گیا ہو تو اگر چاہو تو میرے ساتھ چل کر جھانک کر دیکھ لو جہنم میں اس کی کیا درگت ہو رہی ہے ۔

فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ 

جھانکتے ہی اسے بیچوں بیچ جہنم میں (جلتا ہوا) دیکھے گا۔‏ (۵۵)‏

اب جو جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ شخص سر تاپا جل رہا ہے خود وہ آگ بن رہا ہے جہنم کے درمیان میں کھڑا ہے اور بےبسی کے ساتھ جل بھن رہا ہے اور ایک اسے ہی کیا دیکھے گا کہ تمام بڑے بڑے لوگوں سے جہنم بھرا ہے۔

قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ 

کہے گا واللہ! قریب تھا کہ مجھے (بھی) برباد کردے۔‏ (۵۶)‏

کعب احبار فرماتے ہیں جنت میں اسے دیکھتے ہی کہے گا کہ حضرت آپ نے تو وہ پھندا ڈالا تھا کہ مجھے تباہ ہی کر ڈالتے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہارے پنجے سے چھڑا دیا۔

وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ 

اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کئے جانے والوں میں ہوتا   (۵۷)‏

 اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم میرے شامل حال نہ ہوتا تو بڑی بری درگت ہوتی اور میں بھی تیری ساتھ کھنچا کھنچا یہیں جہنم میں آجاتا اور جلتا رہتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تیری تیز کلامی چرب زبانی سے مجھے عافیت میں رکھا اور تیرے اثر سے مجھے محفوظ رکھا۔ تو نے تو فتنے بپا کرنے میں کوئی کمی باقی نہیں رکھی تھی۔

أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ 

کیا (یہ صحیح ہے) ہم مرنے والے ہی نہیں؟  (۵۸)‏

إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ 

بجز پہلی ایک موت کے،اور ہم نہ عذاب کیے جانے والے ہیں۔‏ (۵۹)‏

اب مؤمن اور ایک بات کہتا ہے جس میں اس کی اپنی تسکین اور کامیابی کی خبر ہے کہ وہ پہلی موت تو مرچکا ہے اب ہمیشہ کے گھر میں ہے نہ یہاں اس پر موت ہے نہ خوف ہے نہ عذاب ہے نہ وبال ہے اور یہی بہترین کامیابی فلاح ابدی ہے۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ جنتیوں سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے بدلے اپنی پسند کا جتنا چاہے کھاؤ پیؤ

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

پھر تو (ظاہر بات ہے کہ) یہ بڑی کامیابی ہے  (۶۰)‏

اس میں اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ جنتی جنت میں مریں گے نہیں تو وہ یہ سن کر سوال کریں گے کہ کیا اب ہمیں موت تو نہیں آنے کی۔ کسی وقت عذاب تو نہیں ہوگا؟ تو جواب ملے گا نہیں ہرگز نہیں۔ چونکہ انہیں کھٹکا تھا کہ موت آکر یہ لذتیں فوت نہ کردے جب یہ دھڑکا ہی جاتا رہا تو وہ سکون کا سان لے کر کہیں گے شکر ہے یہ تو کھلی کامیابی ہے اور بڑی ہی مقصد یاوری ہے۔

لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ 

ایسی (کامیابی) کے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ۔ (۶۱)‏

 اس کے بعد فرمایا ایسے ہی بدلے کے لیے عاملوں کو عمل کرنا چاہیے

قتادہ رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں یہ اہل جنت کا مقولہ ہے۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں اللہ کا فرمان ہے

مطلب یہ ہے کہ ان جیسی نعمتوں اور رحمتوں کے حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو دنیا میں بھر پور رغبت کے ساتھ عمل کرنا چاہیے، تاکہ انجام کاران نعمتوں کو حاصل کرسکیں۔

اسی آیت کے مضمون سے ملتا جلتا ایک قصہ ہے اسے بھی سن لیجیے ۔

 دو شخص آپس میں شریک تھے ان کے پاس آٹھ ہزار اشرفیاں جمع ہوگئیں ایک چونکہ پیشے حرفے سے واقف تھا اور دوسرا ناواقف تھا اس لیے اس واقف کار نے ناواقف سے کہا کہ اب ہمارا نباہ مشکل ہے آپ اپنا حق لے کر الگ ہو جائیے کیونکہ آپ کام کاج سے ناواقف ہیں۔ چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے حصے الگ الگ کرلیے اور جدا جدا ہوگئے۔

پھر اس حرفے والے نے بادشاہ کے مرجانے کے بعد اس کا شاہی محل ایک ہزار دینار میں خریدا اور اپنے اس ساتھی کو بلا کر اسے دکھایا اور کہا بتاؤ میں نے کیسی چیز لی؟

 اس نے بڑی تعریف کی اور یہاں سے باہر چلا اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا اللہ اس میرے ساتھی نے تو ایک ہزار دینار کا قصر دنیاوی خرید کیا ہے اور میں تجھ سے جنت کا محل چاہتا ہوں میں تیرے نام پر تیرے مسکین بندوں پر ایک ہزار اشرفی خرچ کرتا ہوں چنانچہ اس نے ایک ہزار دینار اللہ کی راہ خرچ کردئیے۔

پھر اس دنیا دار شخص نے ایک زمانہ کے بعد ایک ہزار دینار خرچ کرکے اپنا نکاح کیا دعوت میں اپنے اس پرانے شریک کو بھی بلایا اور اس سے ذکر کیا کہ میں نے ایک ہزار دینار خرچ کر کے اس عورت سے شادی کی ہے۔ اس نے اس کی بھی تعریف کی باہر آکر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک ہزار دینار دئیے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ بار الہی میرے ساتھی نے اتنی ہی رقم خرچ کرکے یہاں ایک عورت حاصل کی ہے اور اس رقم سے تجھ سے میں عورعین کا طالب ہوں اور وہ رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کردی۔

 پھر کچھ مدت کے بعد اسنے اسے بلا کر کہا کہ دو ہزار کے دو باغ میں نے خرید کئے ہیں دیکھ لو کیسے ہیں؟ اس نے دیکھ کر بہت تعریف کی اور باہر آکر اپنی عادت کے مطابق جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ اللہ میرے ساتھی نے دو ہزار کے دو باغ یہاں کے خریدے ہیں میں تجھ سے جنت کے دو باغ چاہتا ہوں اور یہ دو ہزار دینار تیرے نام پر صدقہ ہیں چنانچہ اس رقم کو مستحقین میں تقسیم کردیا۔

پھر فرشتہ ان دونوں کو فوت کرکے لے گیا اس صدقہ کرنے والے کو جنت کے ایک محل میں پہنچایا گیا جہاں پر ایک بہترین حسین عورت بھی اسے ملی اور اسے دو باغ بھی دئیے گئے اور وہ وہ نعمتیں ملیں جنہیں بجزاللہ کے اور کوئی نہیں جانتا تو اسے اس وقت اپنا وہ ساتھی یاد آگیا فرشتے نے بتایا کہ وہ تو جہنم میں ہے تم اگر چاہو تو جھانک کر اسے دیکھ سکتے ہو

 اس نے جب اسے بیچ جہنم میں جلتا دیکھا تو اس نے کہا کہ قریب تھا کہ تو مجھے بھی چکمہ دے جاتا اور یہ تو رب کی مہربانی ہوئی کہ میں بچ گیا۔

 اور روایت میں ہے:

 تین تین ہزار دینار تھے ایک کافر تھا ایک مؤمن تھا جب یہ مؤمن اپنی کل رقم راہ اللہ خرچ کر چکا تو ٹوکری سر پر رکھ کر کدال پھاوڑا لے کر مزدوری کے لیے چلا اسے ایک شخص ملا اور کہا اگر تو میرے جانوروں کی سائیسی کرے اور گوبر اٹھائے تو میں تجھے کھانے پینے کو دے دوں گا اس نے منظور کرلیا اور کام شروع کردیا

لیکن یہ شخص بڑا بےرحم بد گمان تھا جہاں اس نے کسی جانور کو بیمار یا دبلا پتلا دیکھا اس مسکین کی گردن توڑتا خوب مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اس کا دانہ تو چرا لیتاہو گا۔

 اس مسلمان سے یہ سختی برداشت نہ کی گئی تو ایک دن اس نے اپنے دل میں خیال کیا کہ میں اپنے کافر شریک کے ہاں چلا جاؤں اس کی کھیتی ہے باغات ہیں وہاں کام کاج کردوں گا اور وہ مجھے روٹی ٹکڑا دے دیا کرے گا اور مجھے کیا لینا دینا ہے؟

وہاں جو پہنچا تو شاہی ٹھاٹھ دیکھ کر حیران ہوگیا، ایک بلند بالا محل ہے دربان ڈیوڑھی اور پہرے دار کی چوکی دار غلام لونڈیاں سب موجود ہیں یہ ٹھٹکا اور دربانوں نے اسے روکا۔ اس نے ہر چند کہا کہ تم اپنے مالک سے میرا ذکر تو کرو انہوں نے کہا اب وقت نہیں تم ایک کونے میں پڑے رہو صبح جب وہ نکلیں تو خود سلام کرلینا اگر تم سچے ہو تو وہ تمہیں پہچان ہی لیں گے ورنہ ہمارے ہاتھوں تمہاری پوری مرمت ہوجائے گی،اس مسکین کو یہی کرناپڑا جو کمبل کا ٹکڑا یہ جسم سے لپیٹے ہوئے تھا اسی کو اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ایک کونے میں دبک کر پڑ گیا

 صبح کے وقت اس کے راستے پر جا کھڑا ہوا جب وہ نکلا اور اس پر نگاہ پڑی تو تعجب ہو کر پوچھا کہ ہیں؟

 یہ کیا حالت ہے مال کا کیا ہوا؟

 اس نے کہا وہ کچھ نہ پوچھ اس وقت تو میرا کام جو ہے اسے پورا کردو یعنی مجھے اجازت دو کہ میں تمہاری کھیتی باڑی کا کام مثل اور نوکروں کے کروں اور آپ مجھے صرف کھانا دے دیا کیجئے اور جب یہ کمبل پھٹ ٹوٹ جائے تو ایک کمبل اور خرید دینا۔

 اس نے کہا نہیں نہیں میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے تم یہ بتاؤ کہ اس رقم کو تم نے کیا کیا؟

کہا میں نے اسے ایک شخص کو قرض دی ہے۔

 کہا کسے ؟

 کہا ایسے کو جو نہ لے کر مکرے نہ دینے سے انکار کرے

 کہا وہ کون ہے؟

 اس نے جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ ہے جو میرا اور تیرا رب ہے۔

 یہ سنتے ہی اس کافر نے اس مسلمان کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑالیا اور اس سے کہا احمق ہوا ہے یہ ہو بھی سکتا ہے کہ ہم مر کر مٹی ہو کر پھر جئیں اور اللہ ہمیں بدلے دے؟ جا جب تو ایسا ہی بودا اور ایسے عقیدوں والا ہے تو مجھے تجھ سے کوئی سرو کار نہیں۔

پس وہ کافر تو مزے اڑاتا رہا اور یہ مؤمن سختی سے دن گزارتا رہا یہاں تک کہ دونوں کو موت آگئی۔

 مسلمان کو جنت میں جو جو نعمتیں اور رحمتیں ملیں وہ انداز و شمار سے زیادہ تھیں اس نے جو دیکھا کہ حد نظر سے بلکہ ساری دنیا سے زیادہ تو زمین ہے اور بیشمار درخت اور باغات ہیں اور جا بجا نہریں اور چشمے ہیں تو پوچھا یہ سب کیا ہے؟

 جواب ملا یہ سب آپ کا ہے۔

 کہا سبحان اللہ! اللہ کی یہ تو بڑی ہی مہربانی ہے۔

 اب جو آگے بڑھا تو اس قدر لونڈی غلام دیکھے کہ گنتی نہیں ہو سکتی، پوچھا یہ کس کے ہیں؟

 کہا گیا سب آپ کے۔

 اسے اور تعجب اور خوشی ہوئی۔ پھر جو آگے بڑھا تو سرخ یاقوت کے محل نظر آئے ایک موتی کا محل، ہر ہر محل میں کئی کئی حورعین، ساتھ ہی اطلاع ہوئی کہ یہ سب بھی آپ کا ہے پھر تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔

کہنے لگا اللہ جانے میرا وہ کافر ساتھی کہاں ہوگا؟

 اللہ اسے دکھائے گا کہ وہ بیچ جہنم میں جل رہا ہے۔

 اب ان میں وہ باتیں ہوں گی جن کا ذکر یہاں ہوا ہے پس مؤمن پر دنیا میں جو بلائیں آئی تھیں انہیں وہ یاد کرے گا تو موت سے زیادہ بھاری بلا اسے کوئی نظر نہ آئے گی۔

أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ 

کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا (زقوم) کا درخت  (۶۲)‏

جنت کی نعمتوں کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ اب لوگ خود فیصلہ کرلیں کہ وہ جگہ اور وہ نعمتیں بہتر ہیں یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کا کھانا ہے ۔

ممکن ہے اس سے مراد خاص ایک ہی درخت ہو اور وہ تمام جہنم میں پھیلا ہوا ہو، جیسے طوبیٰ کا ایک درخت ہے

وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَآءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلأَكِلِيِنَ  

اور وہ درخت جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے اور کھانے والے کے لئے سالن ہے (۲۳:۲۰)

 جو جنت کے ایک ایک محل میں پہنچا ہوا ہے۔

 اور ممکن ہے کہ مراد زقوم کے درخت کی جنس ہو اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔

ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّآلُّونَ الْمُكَذِّبُونَ ـ لاّكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ  

پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو ! البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت۔‏ (۵۶:۵۱،۵۲)

إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ  

جسے ہم نے ظالموں کے لئے سخت آزمائش بنا رکھا ہے  (۶۳)‏ 

ہم نے اسے ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے۔

 حضرت فتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شجرہ زقوم کا ذکر گمراہوں کے لیے فتنہ ہوگیا وہ کہنے لگے لو اور سنو آگ میں اور درخت؟

 آگ تو درخت جلا دینے والی ہے۔ یہ نبی کہتے ہیں جہنم میں درخت اگے گا۔

 تو اللہ نے فرمایا ہاں یہ درخت آگ ہی سے پیدا ہوگا اور اس کی غذا بھی آگ ہی ہو گی۔

 ابوجہل ملعون اسی پر ہنسی اڑاتا تھا اور کہتا تھا میں تو خوب مزے سے کھجور مکھن کھاؤں گا اسی کا نام زقوم ہے۔

 الغرض یہ بھی ایک امتحان ہے بھلے لوگ تو اس سے ڈر گئے اور بروں نے اس کا مذاق اڑایا۔

جیسے فرمان ہے:

وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِى أَرَيْنَـكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِى القُرْءَانِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ طُغْيَانًا كَبِيرًا 

جو منظر ہم نے تجھے دکھایا تھا وہ صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے اور اسی طرح اس نامبارک درخت کا ذکر بھی۔

ہم تو انہیں دھمکا رہے ہیں مگر یہ نافرمانی میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ (۱۷:۶۰)

إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ 

بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے   (۶۴)‏

اس درخت کی اصل جڑ جہنم میں ہے۔

طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ 

جسکے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں ۔ (۶۵)‏

 اس کے خوشے اور شاخیں بھیانک ڈراؤنی لمبی چوڑی دور دور شیطانوں کے سروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔

 گوشیطان کو کبھی کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کا نام سنتے ہی اس کی بد صورتی اور خباثت کا منظر سامنے آجاتا ہے ، یہی حال اس درخت کا ہے کہ دیکھنے اور چکھنے میں ظاہر اور باطن میں بری چیز ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانپوں کی ایک قسم ہے جو بدترین بھیانک اور خوفناک شکل کے ہوتے ہیں۔

 اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نبات کی ایک قسم ہے جو بہت بری طرح پھیل جاتی ہے۔

 لیکن یہ دونوں احتمال درست نہیں ٹھیک بات وہی ہے جسے ہم نے پہلے ذکر کیا۔

فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ 

(جہنمی) اسی درخت میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے ۔ (۶۶)‏

 اسی بد منظر بد بو بد ذائقہ بد مزہ بد خصال تھور کو انہیں جبراً کھانا پڑے گا۔ اور ٹھونس ٹھونس کر انہیں کھلایا جائے گا کہ یہ بجائے خود ایک زبردست عذاب ہے۔

 اور آیت میں ہے:

لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلاَّ مِن ضَرِيعٍ ـ لاَّ يُسْمِنُ وَلاَ يُغْنِى مِن جُوعٍ  

ان کی خوراک وہاں صرف کانٹوں دار تھور ہوگا جو نہ انہیں فربہ کرسکے نہ بھوک مٹاسکے (۸۸:۶،۷)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آیت اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ (۳:۱۰۲) کی تلاوت کرکے فرمایا اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے سمندروں میں پڑ جائے توروئے زمین کے تمام لوگوں کی خوراکیں خراب ہوجائیں۔ اس کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی یہی ہو گا  (ترمذی)

ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ 

پھر اس پر گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا   (۶۷)‏

پھر اس زقوم کے کھانے کے ساتھ ہی انہیں اوپر سے جہنم کا کھولتا گرم پانی پلایا جائے گا۔

یا یہ مطلب کہ اس جہنمی درخت کو جہنمی پانی کے ساتھ ملا کر انہیں کھلایا پلایا جائے گا۔ اور یہ گرم پانی وہ ہوگا جو جہنمیوں کے زخموں سے لہو پیپ وغیرہ کی شکل میں نکلا ہو گا اور جو ان کی آنکھوں سے اور پوشیدہ راستوں سے نکلا ہوا ہوگا۔

حدیث میں ہے :

جب یہ پانی ان کے سامنے لایا جائے گا۔ انہیں سخت ایذاء ہوگی بڑی کراہیت آئے گی پھر جب وہ ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس کی بھاپ سے اس کے چہرے کی کھال جھلس کر جھڑ جائے گی اور جب اس کا گھونٹ پیٹ میں جائے گا تو ان کی آنتیں کٹ کر پاخانے کے راستے سے باہر آجائیں گی (ابن ابی حاتم)

حضرت سعید بن جیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جب جہنمی بھوک کی شکایت کریں گے تو زقوم کھلایا جائے گا جس سے ان کے چہر کی کھالیں بالکل الگ ہو کر پڑیں گی۔ اس طرح انہیں پہچاننے والا اس میں ان کے منہ کی پوری کھال دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ یہ فلاں ہے۔ پھر پیاس کی شدت سے بیتاب ہو کر وہ ہائے وائے پکاریں گے تو انہیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا گرم پانی دیا جائے گا جو چہرے کے سامنے آتے ہی چہرے کے گوشت کو جھلس دے گا اور تمام گوشت گر پڑے گا اور پیٹ میں جاکر آنتوں کو کاٹ دے گا۔ اوپر سے لوہے کے ہتھوڑے مارے جائیں گے اور ایک ایک عضو بدن الگ الگ جھڑ جائے گا ، بری طرح چیختے پیٹتے ہوں گے۔

ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ 

پھر ان سب کا لوٹنا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہوگا ۔ (۶۸)‏

فیصلہ ہوتے ہی ان کا ٹھکانا جہنم ہو جائے گا جہاں طرح طرح کے عذاب ہوتے رہیں گے

جیسے اور آیت میں ہے:

يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ ءَانٍ  

جہنم اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے  (۵۵:۴۴)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ واللہ آدھے دن سے پہلے ہی دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے اور وہیں قیلولہ یعنی دوپہر کا آرام کریں گے، قرآن فرماتا ہے:

أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرّاً وَأَحْسَنُ مَقِيلاً (۲۵:۲۴)

جنتی با عتبار جائے قیام کے بہت اچھے ہوں گے اور باعتبار آرام گاہ کے بھی بہت اچھے ہوں گے۔

 الغرض قیلولے کا وقت دونوں کا اپنی اپنی جگہ ہوگا آدھے دن سے پہلے پہلے اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے۔ اس بنا پر یہاں ثُمَّ کا لفظ خبر پر خبر کے عطف کے لیے ہوگا۔

إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ 

یقین مانو ! کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو بہکایا ہوا پایا۔‏ (۶۹)‏

یہ اس کا بدلہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا۔

فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ 

یہ انہی کے نشان قدم پر دوڑتے رہے  (۷۰)‏

 لیکن پھر بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ مجبوروں اور بیوقوفوں کی طرح ان کے پیچھے ہولئے۔

وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ 

ان سے پہلے بھی بہت سے اگلے بہک چکے ہیں  (۷۱)‏

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ 

جن میں ہم نے ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے  (۷۲)‏

گزشتہ اُمتوں میں بھی اکثر لوگ گم کردہ راہ پر تھے اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے۔ ان میں بھی اللہ کے رسول آئے تھے۔ جنہوں نے انہیں ہوشیار کردیا تھا اور ڈرا دھمکا دیا تھا اور بتلا دیا تھا کہ ان کے شرک و کفر اور تکذیب رسول سے بری طرح اللہ تعالیٰ ناراض ہے۔ اور اگر وہ باز نہ آئے تو انہیں عذاب ہوں گے۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ 

اب تو دیکھ لے کہ جنہیں دھمکایا گیا تھا ان کا انجام کیسا ہوا‏ (۷۳)‏

پھر بھی جب انہوں نے نبیوں کی نہ مانی اپنی برائی سے باز نہ آئے تو دیکھ لو کہ ان کا کیا انجام ہوا؟

تہس نہس کردئیے گئے تباہ برباد کردئیے گئے۔

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ 

سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے  (۷۴)‏

ہاں نیک کار خلوص والے اللہ کے موحد بندے بچا لیے گئے اور عزت کے ساتھ رکھے گئے۔

وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ 

اور ہمیں نوح(علیہ السلام) نے پکارا تو (دیکھ لو) ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں ۔ (۷۵)‏

اوپر کی آیتوں میں پہلے لوگوں کی گمراہی کا اجمالاً ذکر تھا۔ ان آیتوں میں تفصیلی بیان ہے۔

حضرت نوح نبی علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک رہے اور ہر وقت انہیں سمجھاتے بجھاتے رہے لیکن تاہم قوم گمراہی پر جمی رہی سوائے چند پاک باز لوگوں کے کوئی ایمان نہ لایا۔ بلکہ ستاتے اور تکلیفیں دیتے رہے، آخر کار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آکر رب سے دعا کی :

فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ 

یا اللہ میں مغلوب ہوں میری مدد فرما، (۵۴:۱۰)

 اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور تمام کفار کو تہہ آب اور غرق کردیا۔

وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ 

ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو اس زبردست مصیبت سے بچا لیا۔‏ (۷۶)‏

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ 

اور اس کی اولاد کو باقی رہنے والی بنا دی   (۷۷)‏

تو فرماتا ہے کہ نوح نے تنگ آکر ہمارے جناب میں دعا کی۔ ہم تو ہیں ہی بہترین طور پر دعاؤں کے قبول کرنے والے فوراً ان کی دعا قبول فرما لی۔ اور اس تکذیب وایذاء سے جو انہیں کفار سے روز مرہ پہنچ رہی تھی ہم نے بچالیا۔ اور انہی کی اولاد سے پھر دنیا بسی ، کیونکہ وہی باقی بچے تھے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تمام لوگ حضرت نوح کی اولاد میں سے ہیں۔

ترمذی کی مرفوع حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ سام حام اور یافث کی پھر اولاد پھیلی اور باقی رہی۔

مسند میں یہ بھی ہے کہ سام سارے عرب کے باپ ہیں اور حام تمام حبش کے اور یافث تمام روم کے ۔ اس حدیث میں رومیوں سے مراد روم اول یعنی یونانی ہیں۔ جو رومی بن لیطی بن یوناں بن یافث بن نوح کی طرف منسوب ہیں۔

حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ حضرت نوح کے ایک لڑکے سام کی اولاد عرب ، فارس اور رومی ہیں اور یافث کی اولاد ترک، صقالبہ اور یاجوج ماجوج ہیں اور حام کی اولاد قبطی ، سوڈانی اور بربری ہیں واللہ اعلم۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ 

اور ہم نے اس کا (ذکر خیر) پچھلوں میں باقی رکھا   (۷۸)‏

حضرت نوح کی بھلائی اور ان کا ذکر خیر ان کے بعد کے لوگوں میں اللہ کی طرف سے زندہ رہا۔ تمام انبیاء کی حق گوئی کا نتیجہ یہی ہوتا ہے ہمیشہ ان پر لوگ سلام بھیجتے رہیں گے اور ان کی تعریفیں بیان کرتے رہیں گے۔

سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ 

نوح (علیہ السلام) پر تمام جہانوں میں سلام ہو۔‏ (۷۹)‏

حضرت نوح علیہ السلام پر سلام ہو۔ یہ گویا اگلے جملے کی تفسیر ہے یعنی ان کا ذکر بھلائی سے باقی رہنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر اُمت ان پر سلام بھیجتی رہتی ہے۔

إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ 

ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں  (۸۰)‏

إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ 

وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھا۔‏ (۸۱)‏

ہماری یہ عادت ہے کہ جو شخص خلوص کے ساتھ ہماری عبادت و اطاعت پر جم جائے ہم بھی اس کا ذکر جمیل بعد والوں میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھتے ہیں۔ حضرت نوح یقین و ایمان رکھنے والوں توحید پر جم جانے والوں میں سے تھے۔

ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ 

پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا۔‏ (۸۲)‏

 نوح اور نوح والوں کا تو یہ واقعہ ہوا۔ لیکن نوح کے مخالفین غارت اور غرق کر دئیے گئے۔ ایک آنکھ جھپکنے والی ان میں باقی نہ بچی، ایک خبر رساں زندہ نہ رہا، نشان تک باقی نہ بچا۔ ہاں ان کی ہڈیاں اور برائیاں رہ گئیں جن کی وجہ سے مخلوق کی زبان پر ان کے یہ بدترین افسانے چڑھ گئے۔

وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ 

اور اس (نوح ؑ) کی تابعداری کرنے والوں میں سے (ہی) ابراہیم ؑ (بھی) تھے  (۸۳)‏

ابراہیم علیہ السلام بھی نوح کے دین پر تھے ، انہی کے طریقے اور چال چلن پر تھے۔

إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ 

جبکہ اپنے رب کے پاس بےعیب دل لائے۔‏ (۸۴)‏

اپنے رب کے پاس سلامت دل لے گئے یعنی توحید والا جو اللہ کو حق جانتا ہو۔ قیامت کو آنے والی مانتا ہو۔ مردوں کو دوبارہ جینے والا سمجھتا ہو۔ شرک وکفر سے بیزار ہو، دوسروں پر لعن طعن کرنے والا نہ ہو۔

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ 

انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟‏ (۸۵)‏

أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ 

کیا تم اللہ کے سوا گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟  (۸۶)‏

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ 

تو یہ (بتلاؤ کہ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟  (۸۷)‏

 خلیل اللہ نے اپنی تمام قوم سے اور اپنے سگے باپ سے صاف فرمایا کہ یہ تم کس کی پوجا پاٹ کررہے ہو؟ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت چھوڑ دو اپنے ان جھوٹ موٹھ کے معبودوں کی عبادت چھوڑ دو۔ ورنہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا کچھ نہ کریگا اور تمہیں کیسی کچھ سخت ترین سزائیں دیگا؟

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ 

اب ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی۔‏ (۸۸)‏

فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ 

اور کہا میں بیمار ہوں ۔ (۸۹)‏

فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ 

اس پر سب اس سے منہ موڑے ہوئے واپس چلے گئے۔‏ (۹۰)‏

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ نے اپنا دینی کام نکال لیا۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔

حضرت فتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں۔

مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں۔

 ایک حدیث میں آیا :

 ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان إِنِّي سَقِيمٌ اور ان کا فرمان بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـذَا  (۲۳:۶۳) اور ایک ان کا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا۔

 تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے:

 تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بےنیاز کردیتی ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو۔

 حضرت سفیان فرماتے ہیں میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہوگیا ہے۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے۔

 حضرت سعید کا بیان ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرمادیا کہ میں سقم ہوں۔

 اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقیناً ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جب آپ کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ کو بھی مجبور کرنے لگی آپ ہٹ گئے اور فرما دیا کہ میں سقم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔

فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ 

آپ (چپ چپاتے) ان کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں؟  (۹۱)‏

وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟  

یہاں آکر خلیل اللہ نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہوجائیں گے پھر ہم کھالیں گے۔

مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ 

تمہیں کیا ہوگیا بات نہیں کرتے ہو۔‏ (۹۲)‏

ابراہیم نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ بولتے کیوں نہیں۔

فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ 

پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے ۔ (۹۳)‏

 اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جاسکے، جیسا کہ سورہ انبیاء میں گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہوچکی ہے

فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ 

وہ (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے   (۹۴)‏

بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہوا؟

 آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کرلیا کہ ہونہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے (علیہ الصلوۃ والسلام ) اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل علیہ السلام کے پاس دوڑے ، بھاگے ، دانت پیستے، تلملائے کوستے گئے۔

قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ

تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو‏  (۹۵)‏

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ 

حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے  (۹۶)‏

خلیل اللہ کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو؟

 اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو؟

حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے۔

ممکن ہے کہ اس آیت میں مَا مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ الذی کے معنی میں ہو، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے۔ پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ 

وہ کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس (دھکتی ہوئی) آگ میں ڈال دو۔‏ (۹۷)‏

چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آکر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بھاڑ بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو۔

فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ 

انہوں نے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہیں کو نیچا کر دیا ۔ (۹۸)‏

چنانچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہنچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کردیا۔

 اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورہ انبیاء میں گزر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے۔

وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ 

اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔‏ (۹۹)‏

خلیل اللہ جب اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہو گئے ۔ بڑی بڑی قدرتی نشانیاں دیکھ کر بھی جب انہیں ایمان نصیب نہ ہوا تو آپ نے ان سے ہٹ جانا پسند فرمایا اور اعلان کردیا کہ میں اب تم میں سے ہجرت کرجاؤں گا میرا رہنما میرا رب ہے۔

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ 

اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔‏ (۱۰۰)‏

ساتھ ہی اپنے رب سے اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا مانگی تاکہ وہی توحید میں آپ کا ساتھ دے۔

فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ 

تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی ۔ (۱۰۱)‏

 اسی وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایک بردبار بچے کی بشارت دی جاتی۔

 یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے یہی آپ کے پہلے  صاحبزادے تھے اور حضرت اسحاق سے بڑے تھے۔

 اسے تو اہل کتاب بھی مانتے ہیں بلکہ ان کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت اسماعیل کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر چھیاسی سال کی تھی اور جس وقت حضرت اسحاق علیہ السلام تولد ہوتے ہیں اس وقت آپ کی عمر ننانوے برس کی تھی۔

بلکہ ان کی اپنی کتاب میں تو یہ بھی ہے کہ جناب ابراہیم کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔ لیکن صرف اس لیے کہ یہ لوگ خود تو نبی اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور نبی اللہ و ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے عرب ہیں۔ انہیں نے واقعہ کی اصلیت بدل دی اور اس فضیلت کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہٹاکر حضرت اسحاق کو دے دیا اور بےجاتاویلیں کرتے اللہ کے کلام کو بدل ڈالا۔ اور کہا ہماری کتاب میں لفظ وحید ہے اس سے مراد اکلوتا نہیں بلکہ جو تیرے پاس اس وقت اکیلا ہے وہ ہے۔ یہ اس لیے کہ حضرت اسماعیل تو اپنی والدہ کے ساتھ مکے میں تھے یہاں خلیل اللہ کے ساتھ صرف حضرت اسحاق تھے۔

 لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ وحید اسی کو کہا جاتا ہے جو اکلوتا ہو اس کا اور کوئی بھائی نہ ہو۔

 پھر یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اکلوتے اور پہلوٹھی کے بچے کے ساتھ جو محبت ہوتی اور اس کے جو لاڈ پیار ہوتے ہیں عموماً دوسری اولاد کے ہونے پر پھر وہ باقی نہیں رہتے۔ اس لیے اس کے ذبیحہ کا حکم امتحان اور آزمائش کی زبردست کڑی ہے۔

 ہم اسے مانتے ہیں کہ بعض سلف بھی اس کے قائل ہوئے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق تھے یہاں تک کہ بعض صحابہ سے بھی یہ مروی ہے لیکن یہ چیز کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ خیال یہ ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک شہرت دی ہوئی بات کو ان حضرات نے بھی بےدلیل اپنے ہاں لے لی

ا دور کیوں جائیں کتاب اللہ کے الفاظ میں ہی غور کر لیجیے کہ حضرت اسمٰعیل کی بشارت کالَامٍ حَلِيمٍ کہہ کر ذکر ہوا اور پھر اللہ کی راہ میں ذبح کے لیے تیار ہونے کا ذکر ہوا۔ اس تمام بیان کو ختم کرکے پھر نبی صالح حضرت اسحاق کے تولد کی بشارت کا بیان ہوا۔ اور فرشتوں نے بشارت اسحاق کے موقع پر غلام علیم فرمایا تھا۔

اسی طرح قرآن میں ہے فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ بشارت اسحاق کے ساتھ ہی ہے مِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ (۱۱:۷۱)یعنی حضرت ابراہیم کی حیات میں ہی حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوب پیدا ہوں گے یعنی ان کی تو نسل جاری رہنے کا پہلے ہی علم کرایا جاچکا تھا اب انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ؟ اسے ہم پہلے بھی بیان کر چکے ۔

 البتہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وصف یہاں پر بردباری کا بیان کیا گیا ہے۔ جو ذبیح کے لیے نہایت مناسب ہے۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى ۚ

پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا کہ

میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے

 اب حضرت اسماعیل بڑے ہو گئے اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ آپ اس وقت مع اپنی والدہ محترمہ کے فاران میں تھے حضرت ابراہیم عموماً وہاں جاتے آتے رہتے تھے یہ مذکور ہے کہ براق پر جاتے تھے

 اور اس جملے کے یہ معنی بھی ہیں کہ جوانی کے لگ بھگ ہوگئے لڑکپن کا زمانہ نکل گیا اور باپ کی طرح چلنے پھرنے کام کاج کرنے کے قابل بن گئے تو حضرت ابراہیم نے خواب دیکھا کہ گویا آپ اپنے پیارے بچے کو ذبح کررہے ہیں انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں اور اس کی دلیل یہی آیت ہے۔

 ایک مرفوع روایت میں بھی یہ ہے۔

 پس اللہ کے رسول نے اپنے لخت جگر کی آزمائش کے لیے کہ اچانک وہ گھبرانہ اٹھے ، اپنا ارادہ ان کے سامنے ظاہر کیا۔ وہاں کیا تھا۔ وہ بھی اسی درخت کے پھل تھے نبی ابن نبی تھے

قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ 

بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‏ (۱۰۲)‏

جواب دیتے ہیں اب پھر دیر کیوں لگا رہے ہو یہ باتیں بھی پوچھنے کی ہوتی ہیں جو حکم ہوا ہے اسے فوراً کر ڈالیے اور اگر میری نسبت کھٹکا ہو تو زبانی اطمینانی کیا کروں چھری رکھئے خود معلوم ہو جائے گا کہ میں کیسا کچھ صابر ہوں۔انشاء اللہ میرا صبر آپ کا جی خوش کردے گا۔

سبحان اللہ جو کہا تھا وہی کرکے دکھایا اور صادق الوعد ہونے کا سرٹیفیکیٹ اللہ کی طرف سے حاصل کر ہی لیا۔

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ 

اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔‏ (۱۰۳)‏

 آخر باپ بیٹا دونوں حکم اللہ کی اطاعت کے لیے جان بکف تیار ہوجاتے ہیں باپ بچے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اور باپ اپنے نور چشم لخت جگر کو منہ کے بل زمین پر گراتے ہیں تاکہ ذبح کے وقت منہ دیکھ کر محبت نہ آجائے اور ہاتھ سست نہ پڑ جائے۔

مسند احمد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

 جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی نور نظر کو ذبح کرنے کے لیے بحکم اللہ لے چلے تو سعی کے وقت شیطان سامنے آیا لیکن حضرت ابراہیم اس سے آگے بڑھ گئے، پھر حضرت جبرائیل کے ساتھ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچے تو پھر شیطان سامنے آیا آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ پھر جمرہ وسطی پاس آیا پھر وہاں سات کنکریاں ماریں۔ پھر آگے بڑھ کر اپنے پیارے بچے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے نیچے پچھاڑا ، ذبیح اللہ کے پاک جسم پر اس وقت سفید چادر تھی کہنے لگے ابا جی اسے اتار لیجیے تاکہ اس میں آپ مجھے کفنا سکیں۔

وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ 

تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!‏ (۱۰۴)‏

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ 

یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔‏ (۱۰۵)‏

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ 

درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔ (۱۰۶)‏

اس وقت بیٹے کو ننگا کرتے وقت باپ کا عجب حال تھا کہ آواز آئی بس ابراہیم خواب کو سچا کر چکے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک مینڈا سفید رنگ کا بڑے بڑے سینگوں اور صاف آنکھوں والا نظر پڑا۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی لیے ہم اس قسم کے مینڈے (چھترے) چن چن کر قربانی کے لیے لیتے تھے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت میں حضرت اسحاق کا نام مروی ہے ۔ تو گو دونوں نام آپ سے مروی ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے اور اسکی دلیلیں آرہی ہیں ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

 اس کے بدلے بڑا ذبیحہ اللہ نے عطا فرمایا اس کی بابت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ جنتی چھترا تھا جو وہاں چالیس سال سے کھاپی رہا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ اپنے بچے کو چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولیے۔ جمرہ اولی پر آکر سات کنکریاں پھنکیں پھر وہ بھاگ کر جمرہ وسطی پر آگیا۔ سات کنکریاں ماریں اور وہاں سے ملخر میں لاکر ذبح کیا اس کے سینگ سر سمیت ابتداء اسلام کے زمانہ تک کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکتے رہے تھے پھر سوکھ گئے۔

 ایک مرتبہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو حدیثیں بیان کررہے تھے اور حضرت کعب کتاب کے قصے بیان کررہے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر نبی کے لیے ایک دعا قبول شدہ ہے اور میں نے اپنی اس مقبول دعا کو پوشیدہ کرکے رکھ چھوڑا ہے اپنی اُمت کی شفاعت کے لئے۔ اور فرمانے لگے تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں یا فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ صدقے جائیں پھر حضرت کعب نے حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کا قصہ سنایا :

 جب آپ اپنے لڑکے حضرت اسمٰعیل کو ذبح کرنے کے لیے مستعد ہوگئے تو شیطان نے کہا اگر میں اس وقت انہیں نہ بہکا سکا تو مجھے ان سے عمر بھر کے لیے مایوس ہوجانا چاہیے۔ پہلے تو یہ حضرت سارہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ ابراہیم تمہارے لڑکے کو کہاں لے گئے ہیں؟

 مائی صاحبہ نے جواب دیا اپنے کسی کام پر لے گئے ہیں

 اس نے کہا نہیں بلکہ وہ ذبح کرنے کے لیے لے گئے ہیں

مائی صاحبہ نے فرمایا وہ اسے کیوں ذبح کرنے لگے؟

 لعین نے کہا وہ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے یہی حکم ہے

 جواب ملا پھر تو یہی بہتر ہے کہ وہ جلدی سے اللہ کے حکم کی بجا آوری سے فارغ ہو لیں۔

یہاں سے نامراد ہو کر بچے کے پاس آیا اور کہا تمہارے ابا تمہیں کہا لے جاتے ہیں۔ ؟

فرمایا اپنے کام کے لیے

کہا نہیں بلکہ وہ تجھے ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں،

 فرمایا یہ کیوں؟

 کہا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں اللہ کا انہیں حکم ہے۔

کہا پھر تو واللہ انہیں اس کام میں بہت جلدی کرنی چاہیے۔

 ان سے بھی مایوس ہو کر یہ ملعون خلیل اللہ کے پاس پہنچا۔ ان سے کہا بچے کو کہاں لے جا رہے ہو؟

جواب دیا اپنے کام کے لیے

 ملعون نے کہا نہیں بلکہ تم تو اسے ذبح کرنے کے لیے جا رہے ہو؟

آپ نے فرمایا یہ کیوں؟

 بولا اس لیے کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ کا حکم تمہیں یونہی ہے،

 آپ نے فرمایا اللہ کی قسم پھر تو میں ضرور ہی اسے ذبح کر ڈالوں گا۔

 اب ابلیس مایوس ہو گیا۔

 دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تمام واقعے کے بعد جناب باری تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے فرمایا کہ ایک دعا تم مجھ سے مانگو جو مانگو گے ملے گا حضرت اسحاق نے کہا پھر میری دعا یہ ہے کہ جس نے تیرے ساتھ شریک نہ کیا ہو اسے تو ضرور جنت میں لے جانا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

 اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلوں یا تو یہ کہ میری آدھوں آدھ اُمت بخشی جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں اور اسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو میں نے شفاعت کرنے کو ترجیح دی اس پر کہ وہ عام ہوگی

 ہاں ایک دعا تھی کہ میں وہی کرتا لیکن اللہ کا ایک نیک بندہ مجھ سے پہلے اس دعا کو مانگ چکا تھا۔

واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے ذبح ہونے کی تکلیف دور کردی تو ان سے فرمایا گیا کہ تو مانگ جو مانگے گا دیا جائے گا۔ تو حضرت اسحاق نے فرمایا واللہ شیطان کے بہکانے سے پہلے ہی میں اسے مانگ لوں گا اللہ جو شخص اس حالت میں مرا ہو کہ اس نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو اسے بخش دے اور جنت میں پہنچا دے

 یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند اً غریب اور منکر ہے اور اس کے ایک راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں اور مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ یہ الفاظ کہ (جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے) آخر تک راوی اپنے نہ ہوں جنہیں انہوں نے حدیث میں داخل کردئیے ہیں۔ ذبیح اللہ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں ، محل ذبح منیٰ ہے اور وہ مکے میں ہے اور حضرت اسماعیل یہیں تھے نہ کہ حضرت اسحاق وہ تو شہر کنعان میں تھے جو شام ہے۔

 جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیتے ہیں جناب باری سے ندا آتی ہے کہ بس ابراہیم تم اپنے خواب کو پورا کرچکے۔

 سدی سے روایت ہے:

 جب خلیل اللہ نے ذبیح اللہ کے حلق پر چھری پھیری تو گردن تانبے کی ہوگئے اور نہ کٹی اور یہ آواز آئی۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔ یعنی سختیوں سے بچالیتے ہیں اور چھٹکارا کردیتے ہیں۔

 جیسے فرمایا اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ چھٹکارے کی صورت نکال ہی دیتا ہے اور اسے ایسی طرح روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان و وہم میں بھی نہ ہو۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی کافی ہے اللہ اپنے کاموں کو مکمل کرکے چھوڑتا ہے ہرچیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ فعل پر قدرت پانے سے پہلے ہی حکم منسوخ ہو سکتا ہے ہاں معتزلہ اسے نہیں مانتے۔ وجہ استدلال بہت ظاہر ہے اس لیے کہ خلیل اللہ کو اپنے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم ہوتا ہے اور پھر ذبح سے پہلے ہی فدئیے کے ساتھ منسوخ کردیا جاتا ہے۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ صبر کا اور بجا آوری حکم پر مستعدی کا ثواب مرحمت فرما دیا جائے۔ اسی لیے ارشاد ہوا یہ تو صرف ایک آزمائش تھی کھلا امتحان تھا کہ ادھر حکم ہوا ادھر تیاری ہوئی۔ اسی لیے جناب خلیل اللہ علیہ السلام کی تعریف میں قرآن میں ہے:

وَإِبْرَهِيمَ الَّذِى وَفَّى 

ابراہیم بڑا ہی وفادار تھا۔ (۳۵:۳۷)

وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ 

اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا  (۱۰۷)‏

بڑے ذبیح کے ساتھ ان کا فدیہ ہم نے دیا۔ سفید رنگ بڑی آنکھوں اور بڑے سینگوں والا عمدہ خوراک سے پلا ہوا منیڈھا فدئیے میں دیا گیا جو ژیر ببول کے درخت سے بندھا ہوا ملا۔ جو جنت میں چالیس سال چرتا رہا۔ منیٰ میں ژیر کے پاس جو چٹان ہے اس پر یہ جانور ذبح کیا گیا یہ چیختا ہوا اوپر سے اترا تھا۔ یہی وہ مینڈھا ہے جسے ہابیل نے اللہ کی راہ میں قربان کیا تھا۔ اس کی اون قدرے سرخی مائل تھی اسکا نام جریر تھا۔

بعض کہتے ہیں مقام ابراہیم پر اسے ذبح کیا۔ کوئی کہتا ہے مٹی میں نحر پر۔

 ایک شخص نے اپنے تئیں راہ اللہ میں ذبح کرنے کی منت مانی تھی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے ایک سو اونٹ ذبح کرنے کا فتویٰ دیا تھا لیکن پھر فرماتے تھے کہ اگر میں اسے ایک بھیڑ ذبح کرنے کو کہتا تب بھی کافی تھا کیونکہ کتاب اللہ میں ہے کہ حضرت ذبیح اللہ کا فدیہ اسی سے دیا گیا تھا۔

 اکثر لوگوں کا یہی قول ہے بعض کہتے ہیں یہ پہاڑی بکرا تھا۔ کوئی کہتا ہے نر ہرن تھا۔

 مسند احمد میں ہے:

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے بھیڑ کے سینگ بیت اللہ شریف میں داخلے کے وقت اندر دیکھے تھے اور مجھے یاد نہ رہا کہ میں تجھے ان کے ڈھانک دینے کا حکم دوں جاؤ اسے ڈھک دو بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہئے جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔

 حضرت سفیان فرماتے ہیں اس بھیڑ کے سینگ بیت اللہ میں ہی رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ بیت اللہ میں آگ لگی اس میں وہ جل گئے، یہ واقعہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل تھے اسی وجہ سے ان کی اولاد قریش تک یہ سینگ برابر اور مسلسل چلے آئے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے مبعوث فرمایا۔ واللہ اعلم

ان آثار کا بیان جن میں ذبیح اللہ کا نام ہے

 ابو میسرہ فرماتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے فرمایا کیا تو میرے ساتھ کھانا چاہتا ہے میں یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں (عبید بن عمیر)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ اے اللہ کیا وجہ ہے جو لوگوں کی زبانوں پر یہ چڑھا ہوا ہے کہ ابراہیم اسمٰعیل اور یعقوب کے اللہ کی قسم، تو جواب ملا اس لئے ابراہیم نے تو ہر ہرچیز پر مجھی کو ترجیح دی اور اسحاق علیہ السلام نے اپنے تئیں میری راہ میں ذبح ہونے کے لئے سپرد کر دیا پھر بھلا اور چیزیں اسے پیش کر دینا کیا مشکل تھیں اور یعقوب کو میں جوں جوں بلاؤں میں ڈالتا گیا اس کے حسن ظنی میرے ساتھ بڑھتی ہی رہی۔

 ابن مسعود کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے فخراً اپنے باپ دادوں کا نام لیا تو آپ نے فرمایا قابل فخر باپ دادا تو حضرت یوسف کے تھے جو یعقوب بن اسحاق اور ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ تھے۔

 عکرمہ، ابن عباس، خود عباس، علی سعید بن جبیر، مجاہد، شعبی، عبید بن عمر، ابومیسرہ، زید بن اسلم، عبداللہ بن شفیق، زہری، قاسم بن ابو برزہ، محکول، عثمان بن ابی عاص، سدی، حسن، قتادہ، ابو الہذیل ، ابن سابط، کعب احبار رحمہم اللہ اجمعین، ان سب کا یہی قول ہے اور ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام تھے۔ صحیح علم تو اللہ کو ہی ہے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب بزرگوں کے استاد حضرت کعب احبار ہیں۔ یہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہوئے تھے اور کبھی کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قدیمی کتابوں کی باتیں سناتے تھے، لوگوں نے اسے رخصت سمجھ کر پھر ان سے ہر ایک بات بیان کرنی شروع کر دی اور صحیح غلط کی تمیز اٹھ گئی حق تو یہ ہے کہ اس اُمت کو اگلی کتابوں کی ایک بات کی بھی حاجت نہیں۔

بغوی نے کچھ اور نام بھی صحابہ تابعین کے بتلائے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ہیں۔

 ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے اگر وہ حدیث صحیح ہوتی تو جھگڑے کا فیصلہ تھا مگر وہ حدیث صحیح نہیں اس میں دو راوی ضعیف ہیں۔ حسن بن دینار متروک ہیں اور علی بن زید بن جدعان منکر الحدیث ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہے یہ بھی موقف، چنانچہ ایک سند سے یہ مقولہ حضرت ابن عباس کا مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے۔ واللہ اعلم۔

 اب ان آثار کو سنئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی تھے اور یہی ٹھیک اور بالکل درست بھی ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہودی حضرت اسحاق کا نام جھوٹ موٹ لیتے ہیں

 ابن عمر مجاہد شعبی حسن بصری محمد بن کعب قرظی ، خلیفہ المسلمین حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کے سامنے جب محمد بن قرظی نے یہ فرمایا اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی کہ ذبح کے ذکر کے بعد قرآن میں خلیل اللہ کو حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بیان ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا ہو گا یعقوب نامی جب ان کے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت دی گی تھی پھر باوجود ان کے ہاں لڑکا نہ ہوں کے اس سے پہلے ہی ان کے ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بہت صاف دلیل ہے میرا ذہن یہاں نہیں پہنچا تھا گو یہ میں بھی جانتا تھا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی ہیں پھر شاہ اسلام نے شام کے ایک یہودی عالم سے پوچھا جو مسلمان ہوگئے تھے کہ تم اس بارے میں کیا علم رکھتے ہو انہوں نے فرمایا امیر المسلمین سچ تو یہی ہے کہ جن کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسماعیل ہی تھے لیکن چونکہ عرب ان کی اولاد میں سے ہیں تو یہ بزرگی ان کی طرف لوٹتی ہے اس حسد کے بارے میں یہودیوں نے اسے بدل دیا اور حضرت اسحاق کا نام لے دیا۔

حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ہمارا ایمان ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق دونوں ہی طاہر و طیب اور اللہ کے سچے فرمانبردار تھے۔

 کتاب الزہد میں ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے والد سے جب یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ ذبح ہونے والے حضرت اسماعیل ہی تھے۔

 حضرت علی حضرت ابن عمر ابو الطفیل، سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، شعبی، محمد بن کعب، ابوجعفر محمد بن علی ابو صالح رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے۔ امام بغوی نے اور بھی صحابہ اور تابعین کے نام گنوائے ہیں۔

 ایک غریب حدیث بھی اسی کی تائید میں مروی ہے اس میں ہے :

 شام میں امیر معاویہ کے سامنے یہ بحث چھڑی کہ ذبیح اللہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا خوب ہوا جو یہ معاملہ مجھ جیسے باخبر شخص کے پاس آیا سنو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جب ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کی راہ میں دو ذبح ہونے والوں کی نسل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی مال غنیمت میں سے کچھ دلوایئے اس پر آپ ہنس دیئے۔ ایک تو ذبح اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ تھے دوسرے حضرت اسمعیل جن کی نسل میں سے آپ ہیں۔

 عبداللہ کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے جب چاہ زمزم کھودا تو نذر مانی تھی کی اگر یہ کام آسانی سے پورا ہو گیا تو اپنے ایک لڑکے کو راہ اللہ میں ذبح کروں گا جب کام ہو گیا اور قرعہ اندازی کی گئی کہ کس بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کریں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کا نام نکلا۔ ان کے ننھیال والوں نے کہا آپ ان کی طرف سے ایک سو اونٹ راہ اللہ ذبح کر دیں چنانچہ وہ ذبح کر دیئے گئے اور اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے

ابن جریر میں یہ روایت موجود ہے اور مغازی امویہ میں بھی امام ابن جریر نے حضرت اسحاق کے ذبیح اللہ ہونے کی ایک دلیل تو یہ پیش کی یہ کہ جس علیم بچے کی بشارت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت اسحاق ہیں قرآن میں اور جگہ ہے وبشر و بغلام علیم اور حضرت یعقوب کی بشارت کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور ممکن ہے کہ یعقوب کے ساتھ ہی کوئی اور اولاد بھی ہوئی ہو اور کعبتہ اللہ میں سینگوں کی موجودگی کے بارے میں فرماتے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ بلادکنعان سے لا کر یہاں رکھے گئے ہوں اور بعض لوگوں سے حضرت اسحاق کے نام کی صراحت بھی آئی ہے، لیکن یہ سب باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں۔ ہاں حضرت اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے پر محمد بن کعب قرظی کا استدلال بہت صاف اور قوی ہے۔ واللہ اعلم۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ 

اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔‏ (۱۰۸)‏

سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ 

ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔‏ (۱۰۹)‏

ان کے بعد والوں میں بھی ان کا ذکر خیر اور ثناء و صفت باقی رکھی کہ ہر زبان ان پر سلام ہی پڑھتی ہے۔

كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ 

ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‏ (۱۱۰)‏

إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ 

بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔‏ (۱۱۱)‏

ہم نیک کاروں کو یہی اور ایسے ہی بدلے دیتے ہیں۔ وہ ہمارے مؤمن بندے تھے۔

وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ 

اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا   (۱۱۲)‏

پہلے ذبیح اللہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کے تولد ہونے کی بشارت دی گئی تھی یہاں اس کے بعد ان کے بھائی حضرت اسحاق کی بشارت دی جا رہی ہے۔ سورہ ہود اور سورہ حجر میں بھی اس کا ذکر گزر چکا ہے۔

 نَبِيًّا حال مقدرہ ہے یعنی وہ نبی صالح ہو گا۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں ذبیح اللہ اسحاق تھے اور یہاں نبوت حضرت اسحاق کو بشارت ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ کے بارے میں فرمان ہے کہ ہم نے انہیں اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا۔ حالانکہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے بڑے تھے تو یہاں بھی ان کی نبوت کی بشارت ہے۔ پس یہ بشارت اس وقت دی گئی جبکہ امتحان ذبح میں وہ صابر ثابت ہوئے۔

یہ بھی مروی ہے کہ یہ بشارت دو مرتبہ دی گئی پیدائش سے کچھ قبل اور نبوت سے کچھ قبل۔ حضرت قتادہ سے بھی یہی مروی ہے۔

وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ ۚ

اور ہم نے ابراہیم و اسحاق (علیہما السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں

وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ  

اور ان دونوں کی اولاد میں بعضے تو نیک بخت اور بعض اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والے ہیں  (۱۱۳)‏

ان پر اور اسحاق پر ہماری برکتیں ہم نے نازل فرمائیں، ان کی اولاد میں ہر قسم کے لوگ ہیں نیک بھی بد بھی۔

 جیسے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمان ہوا تھا :

قِيلَ ينُوحُ اهْبِطْ بِسَلَـمٍ مِّنَّا وَبَركَـتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ 

اے نوح ہماری سلام اور برکت کے ساتھ تواتر۔ تو بھی اور تیرے ساتھ والے بھی اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ہم فائدے پہنچائیں گے

پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچیں گے۔ (۱۱:۴۸)

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ

یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر بڑا احسان کیا ۔  (۱۱۴)‏ 

وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ 

اور انہیں اور ان کی قوم کو بہت بڑے دکھ درد سے نجات دی   (۱۱۵)‏

اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ہارون پر اپنی نعمتیں جتا رہاہے کہ انہیں نبوت دی انہیں مع ان کی قوم کے فرعون جیسے طاقتور دشمن سے نجات دی جس نے انہیں بےطرح پست و ذلیل کر رکھا تھا ان کے بچوں کو کاٹ دیتا تھا ان کی لڑکیوں کو رہنے دیتا تھا ان سے ذلیل مزدوریاں کراتا تھا اور بےحیثیت بنا رکھا تھا۔

وَنَصَرْنَاهُمْ فَكَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ 

اور ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے۔‏ (۱۱۶)‏

ایسے بدترین دشمن کو ان کے دیکھتے ہلاک کیا، انہیں اس پر غالب کر دیا ان کی زمین و زر کے یہ مالک بن گئے۔

وَآتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ 

اور ہم نے انہیں (واضح اور) روشن کتاب دی۔‏ (۱۱۷)‏

وَهَدَيْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 

اور انہیں سیدھے راستے پر قائم رکھا۔‏ (۱۱۸)‏

پھر حضرت موسیٰ کو واضح جلی روشن اور بین کتاب عنایت فرمائی

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى وَهَـرُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَآءً 

جو حق و باطل میں فرق و فیصلہ کرنے والی اور نور و ہدایت والی تھی، (۲۱:۴۸)

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ 

اور ہم نے ان دونوں کے لئے پیچھے آنے والوں میں یہ بات باقی رکھی۔‏ (۱۱۹)‏

سَ لَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ 

کہ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر سلام ہو۔‏ (۱۲۰)‏

ان کے اقوال و افعال میں انہیں استقامت عطا فرمائی اور ان کے بعد والوں میں بھی ان کا ذکر خیر اور ثناء و صفت باقی رکھی کہ ہر زبان ان پر سلام ہی پڑھتی ہے۔

إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ 

بیشک ہم نیک لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔‏ (۱۲۱)‏

إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ 

یقیناً دونوں ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔‏ (۱۲۲)‏

 ہم نیک کاروں کو یہی اور ایسے ہی بدلے دیتے ہیں۔ وہ ہمارے مؤمن بندے تھے۔

وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ 

بیشک الیاس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے ۔ (۱۲۳)‏

بعض کہتے ہیں الیاس نام تھا حضرت ادریس علیہ السلام کا ۔

وہب کہتے ہیں ان کا سلسلہ نسب یوں ہے الیاس بن نسی بن فحاص بن عبراز بن ہارون بن عمران علیہ السلام۔

 خرقیل علیہ السلام کے بعد یہ نبی اسرائیل میں بھیجے گئے تھے وہ لوگ بعل نامی بت کے پجاری بن گئے تھے۔ انہوں نے دعوت اسلام دی ان کے بادشاہ نے ان سے قبول بھی کرلی لیکن پھر مرتد ہو گیا اور لوگ بھی سرکشی پر تلے رہے اور ایمان سے انکار کر دیا آپ نے ان پر بددعا کی تین سال تک بارش نہ برسی۔ اب تو یہ سب تنگ آ گئے اور قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کہ آپ دعا کیجئے بارش برستے ہی ہم سب آپ کی نبوت پر ایمان لائیں گے۔ چنانچہ آپ کی دعا سے مینہ برسا۔ لیکن یہ کفار اپنے وعدے سے ٹل گئے اور اپنے کفر پر اڑ گئے۔ آپ نے یہ حالت دیکھ کر اللہ سے دعا کی کہ اللہ انہیں اپنی طرف لے لے۔

 ان کے ہاتھوں تلے حضرت یسع بن اخطوب پلے تھے۔

حضرت الیاس کی اس دعا کے بعد انہیں حکم ملا کہ وہ ایک جگہ جائیں اور وہاں انہیں جو سواری ملے اس پر سوار ہو جائیں وہاں آپ گئے ایک نوری گھوڑا دکھائی دیا جس پر سوار ہوگئے اللہ نے انہیں بھی نورانی کر دیا اور اپنے پروں سے فرشتوں کے ساتھ اڑنے لگے اور ایک انسانی فرشتہ زمینی اور آسمانی بن گئے۔ اس کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے۔

إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ 

جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟  (۱۲۴)‏

حضرت الیاس نے اپنی قوم سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو کہ اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟

اہل یمن اور قبیلہ ازوشنوہ رب کو بعل کہتے تھے۔ بعل نامی جس بت کی یہ پوجا کرتے تھے وہ ایک عورت تھی۔ ان کے شہر کا نام بعلبک تھا

أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ 

کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو؟اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟‏ (۱۲۵)‏

تو اللہ کے نبی حضرت الیاس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تعجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو خالق کل ہے اور بہترین خلاق ہے ایک بت کو پوج رہے ہو؟اور اس کو پکارتے رہتے ہو؟

اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ 

اللہ جو تمہارے اگلے تمام باپ دادوں کا رب ہے  (۱۲۶)‏

اللہ تعالیٰ تم سب کا اور تم سے اگلے تمہارے باپ دادوں کا رب ہے وہی مستحق عبادت ہے اس کے سوا کسی قسم کی عبادت کسی کے لائق نہیں۔

فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ 

لیکن قوم نے انہیں جھٹلایا، پس وہ ضرور (عذاب میں) حاضر رکھے جائیں گے ۔  (۱۲۷)‏

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ 

سوائے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے۔‏ (۱۲۸)‏

لیکن ان لوگوں نے اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صاف اور خیر خواہانہ نصیحت کو نہ مانا تو اللہ نے بھی انہیں عذاب پر حاضر کر دیا، کہ قیامت کے دن ان سے زبردست باز پرس اور ان پر سخت عذاب ہوں گے۔ ہاں ان میں سے جو توحید پر قائم تھے وہ بچ رہیں گے۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ 

ہم نے الیاس (علیہ السلام) کا ذکر خیر پچھلوں میں بھی باقی رکھا۔‏ (۱۲۹)‏

سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ 

کہ الیاس پر سلام ہو ۔ (۱۳۰)‏

ہم نے حضرت الیاس علیہ السلام کی ثناء جمیل اور ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی ہی رکھا کہ ہر مسلم کی زبان سے ان پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔

الیاس میں دوسری لغت الیاسین ہے جیسے اسماعیل میں اسماعین بنو اسد میں اسی طرح یہ لغت ہے۔ ایک تمیمی کے شعر میں یہ لغت اس طرح لایا گیا ہے۔ میکائیل کو میکال اور میکائین بھی کہا جاتا ہے۔ ابراہیم کو ابراہام، اسرائیل کو سزائیں، طور سینا کو طور سے سینین ۔ غرض یہ لغت عرب میں مشہور و رائج ہے۔

 ابن مسعود کی قرأت میں سلام علی ال یاسین ہے۔

بعض کہتے ہیں اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ 

ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‏ (۱۳۱)‏

ہم اسی طرح نیک کاروں کو نیک بدلہ دیتے ہیں۔

إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ 

بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے۔‏ (۱۳۲)‏

 یقیناً وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔اس جملہ کی تفسیر گزر چکی ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔

وَإِنَّ لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ 

بیشک لوط (علیہ السلام)بھی پیغمبروں میں سے تھے۔‏ (۱۳۳)‏

إِذْ نَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ 

ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی۔‏ (۱۳۴)‏

اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول حضرت لوط علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ انہیں بھی ان کی قوم نے جھٹلایا۔ جس پر اللہ کے عذاب ان پر برس پڑے اور اللہ نے اپنے پیارے حضرت لوط علیہ السلام کو مع ان کے گھر والوں کے نجات دے دی۔

إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ 

بجز اس بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں رہ گئی  (۱۳۵)‏

ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ 

پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کر دیا۔‏ (۱۳۶)‏

لیکن ان کی بیوی غارت ہوئی قوم کے ساتھ ہی ہلاک ہوئی اور ساری قوم بھی تباہ ہوئی۔ قسم قسم کے عذاب ان پر آئے اور جس جگہ وہ  رہتے تھے وہاں ایک بدبو دار اور جھیل بن گئی جس کا پانی بدمزہ بدبو بد رنگ ہے جو آنے جانے والوں کے راستے میں ہی پڑی ہے۔

وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِمْ مُصْبِحِينَ 

اور تم تو صبح ہونے پر ان کی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہو۔‏ (۱۳۷)‏

وَبِاللَّيْلِ ۗ

اور رات کو بھی،

 تم تو دن رات وہاں سے آتے جاتے رہتے ہو اور اس خوفناک منظر اور بھیانک مقام کو صبح شام دیکھتے رہتے ہو۔

أَفَلَا تَعْقِلُونَ 

 کیا پھر بھی نہیں سمجھتے؟   (۱۳۸)‏

کیا اس معائنہ کے بعد بھی عبرت حاصل نہیں کرتے اور سوچتے سمجھتے نہیں ہو؟ کس طرح یہ برباد کر دیئے گئے؟

 ایسا نہ ہو کہ یہی عذاب تم پر بھی آ جائیں۔

وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ 

اور بلاشبہ یونس (علیہ السلام)نبیوں میں سے تھے۔‏ (۱۳۹)‏

حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ سورہ یونس میں بیان ہو چکا ہے۔

 بخاری مسلم میں حدیث ہے :

 کسی بندے کو یہ لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔

إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ 

جب بھاگ کر پہنچے بھری کشتی پر۔‏ (۱۴۰)‏

فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ 

پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہوگئے۔‏ (۱۴۱)‏

یہ نام ممکن ہے آپ کی والدہ کا ہو اور ممکن ہے والد کا ہو۔ یہ بھاگ کر مال و اسباب سے لدی ہوئی کشتی پر سوار ہوگئے۔ وہاں قرعہ اندازی ہوئی اور یہ مغلوب ہوگئے کشتی کے چلتے ہی چاروں طرف سے موجیں اٹھیں اور سخت طوفان آیا۔ یہاں تک کہ سب کو اپنی موت کا اور کشتی کے ڈوب جانے کا یقین ہو گیا۔

سب آپس میں کہنے لگے کہ قرعہ ڈالو جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے سمندر میں ڈال دو تاکہ سب بچ جائیں اور کشتی اس طوفان سے چھوٹ جائے۔ تین دفعہ قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں مرتبہ اللہ کے پیارے پیغبمر حضرت یونس علیہ السلام کا ہی نام نکلا۔

 اہل کشتی آپ کو پانی میں بہانا نہیں چاہتے تھے لیکن کیا کرتے بار بار کی قرعہ اندازی پر بھی آپ کا نام نکلتا رہا اور خود آپ کپڑے اتار کر باوجود ان لوگں کے روکنے کے سمندر میں کود پڑے۔

 اس وقت بحر اخضر کی ایک بہت بڑی مچھلی کو جناب باری کا فرمان سرزد ہوا کہ وہ دریاؤں کو چیرتی پھاڑتی جائے اور حضرت یونس کو نگل لے لیکن نہ تو ان کا جسم زخمی ہو نہ کوئی ہڈی ٹوٹے۔ چنانچہ اس مچھلی نے پیغمبر اللہ کو نگل لیا اور سمندروں میں چلنے پھرنے لگی۔

فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ 

تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے۔‏ (۱۴۲)‏

جب حضرت یونس پوری طرح مچھلی کے پیٹ میں جا چکے تو آپ کو خیال گزرا کہ میں مر چکا ہوں لیکن جب ہاتھ پیروں کو حرکت دی اور ہلے جلے تو زندگی کا یقین کر کے وہیں کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے پروردگار میں نے تیرے لئے اس جگہ مسجد بنائی ہے جہاں کوئی نہ پہنچا ہو گا۔

 تین دن یا سات دن یا چالیس دن ایک ایک دن سے بھی کم یا صرف ایک رات تک مچھلی کے پیٹ میں رہے۔

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ 

پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔‏ (۱۴۳)‏

لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ 

تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے   (۱۴۴)‏

اگر یہ ہماری پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، یعنی جبکہ فراخی اور کشادگی اور امن و امان کی حالت میں تھے اس وقت ان کی نیکیاں اگر نہ ہوتیں

 ایک حدیث بھی اس قسم کی ہے جو عنقریب بیان ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 ابن عباسؓ کی حدیث میں ہے:

 آرام اور راحت کے وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تو وہ سختی اور بےچینی کے وقت تمہاری مدد کرے گا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ پابند نماز نہ ہوتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مچھلی کے پیٹ میں نماز نہ پڑھتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ أَنتَ سُبْحَـنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظَّـلِمِينَ (۲۱:۸۷)کے ساتھ ہماری تسبیح نہ کرتے

 چنانچہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں ہے کہ اس نے اندھیروں میں یہی کلمات کہے اور ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں۔

 ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے:

 حضرت یونس نے جب مچھلی کے پیٹ میں ان کلمات کو کہا تو یہ دعا عرش اللہ کے اردگرد منڈلانے لگی اور فرشتوں نے کہا اللہ یہ آواز تو کہیں بہت ہی دور کی ہے لیکن اس آواز سے ہمارے کان آشنا ضرور ہیں۔

 اللہ نے فرمایا اب بھی پہچان لیا یہ کس کی آواز ہے؟

انہوں نے کہا نہیں پہچانا

فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے

 فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے نیک اعمال اور مقبول دعائیں ہمیشہ آسمان پر چڑھتی رہتی تھیں؟

 اللہ اس پر تو ضرور رحم فرما اس کی دعا قبول کر وہ تو آسانیوں میں بھی تیرا نام لیا کرتا تھا۔ اسے بلا سے نجات دے۔

 اللہ نے فرمایا ہاں میں اسے نجات دوں گا۔

فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ 

پس انہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ اس وقت بیمار تھے  (۱۴۵)‏

وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ 

اور ان پر سایہ کرنے والا ایک بیل دار درخت ہم نے اُگاہ دیا۔‏ (۱۴۶)‏

چنانچہ مچھلی کو حکم ہوا کہ میدان میں حضرت یونس کو اگل دے اور اس نے اگل دیا اور وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی نحیفی کمزوری اور بیماری کی وجہ سے چھاؤں کے لئے کدو کی بیل اگا دی اور ایک جنگلی بکری کو مقرر کر دیا جو صبح شام ان کے پاس آ جاتی تھی اور یہ اس کا دودھ پی لیا کرتے تھے۔

 حضرت ابوہریرہ ؓکی روایت سے یہ واقعات مرفوع احادیث سے سورہ انبیاء کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں۔

ہم نے انہیں اس زمین میں ڈال دیا جہاں سبزہ روئیدگی گھاس کچھ نہ تھا۔ دجلہ کے کنارے یا یمن کی سر زمین پر یہ لادے گئے تھے۔ وہ اس وقت کمزور تھے جیسے پرندوں کے بچے ہوتے ہیں۔ یا بچہ جس وقت پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی صرف سانس چل رہا تھا اور طاقت ہلنے جلنے کی بھی نہ تھی۔

 يَقْطِينٍ کدو کے درخت کو بھی کہتے ہیں اور ہر اس درخت کو جس کا تنا نہ ہو یعنی بیل ہو اور اس درخت کو بھی جس کی عمر ایک سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔

 کدو میں بہت سے فوائد ہیں یہ بہت جلد اگتا اور بھڑتا ہے اس کے پتوں کا سایہ گھنا اور فرحت بخش ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اس کے پاس مکھیاں نہیں آتیں۔ یہ غذا کا کام دے جاتا ہے اور چھلکے اور گودے سمیت کھایا جاتا ہے۔

 صحیح حدیث میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو یعنی گھیا بہت پسند تھا اور برتن میں سے چن چن کر اسے کھاتے تھے۔

وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ 

اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا۔‏ (۱۴۷)‏

پھر انہیں ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف رسالت کے ساتھ بھیجا گیا۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں اس سے پہلے آپ رسول اللہ نہ تھے۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے ہی آپ اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔

 دونوں قولوں سے اس طرح تضاد اٹھ سکتا ہے کہ پہلے بھی ان کی طرف بھیجے گئے تھے اب دوبارہ بھی ان ہی کی طرف بھیجے گئے اور وہ سب ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی۔

 بغوی کہتے ہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات پانے کے بعد دوسری قوم کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہاں أَوْ معنی میں بلکہ کے ہے اور وہ ایک لاکھ تیس ہزار یا اس سے بھی کچھ اوپر۔ یا ایک لاکھ چالیس ہزار سے بھی زیادہ یا ستر ہزار سے بھی زیادہ یا ایک لاکھ دس ہزار اور ایک غریب مرفوع حدیث کی رو سے ایک لاکھ بیس ہزار تھے۔

 یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسانی اندازہ ایک لاکھ سے زیادہ ہی کا تھا۔

ابن جریر کا یہی مسلک ہے اور یہی مسلک ان کا آیت أَوۡ أَشَدُّ قَسۡوَةً۬‌ (۲:۷۴) اور آیت كَخَشۡيَةِ ٱللَّهِ أَوۡ أَشَدَّ خَشۡيَةً۬‌ (۴:۷۷) اور آیت فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ أَوۡ أَدۡنَىٰ  (۵۳:۹) میں ہے

 یعنی اس سے کم نہیں اس سے زائد ہے۔

فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ 

پس وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش و عشرت دی۔‏ (۱۴۸)‏

پس قوم یونس سب کی سب مسلمان ہو گئی حضرت یونس کی تصدیق کی اور اللہ پر ایمان لے آئے ہم نے بھی ان کے مقررہ وقت یعنی موت کی گھڑی تک دنیوی فائدے دئے

 اور آیت میں ہے:

فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَآ إِيمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّآ ءَامَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الخِزْىِ فِى الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ  

کسی بستی کے ایمان نے انہیں (عذاب آ چکنے کے بعد) نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے وہ جب ایمان لائے تو ہم نے ان پر سے عذاب ہٹا لئے اور انہیں ایک معیاد معین تک بہرہ مند کیا۔ (۱۰:۹۸)

فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ 

ان سے دریافت کیجئے! کہ کیا آپ کے رب کی بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟‏ (۱۴۹)‏

اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بیوقوفی بیان فرما رہا ہے کہ اپنے لئے تو لڑکے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لئے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں۔ اگر لڑکی ہونے کی خبر یہ پائیں تو چہرے سیاہ پڑ جاتے ہیں اور اللہ کی لڑکیاں ثابت کرتے ہیں۔

پس فرماتا ہے ان سے پوچھ تو سہی کہ یہ تقسیم کیسی ہے کہ تمہارے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہوں؟

أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ 

یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا ۔  (۱۵۰)‏

پھر فرماتا ہے کہ یہ فرشتوں کو لڑکیاں کس ثبوت پر کہتے ہیں؟

 کیا ان کی پیدائش کے وقت وہ موجود تھے۔

قرآن کی اور آیت: میں بھی یہی بیان ہے۔

وَجَعَلُواْ الْمَلَـئِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَـنِ إِنَـثاً أَشَهِدُواْ خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَـدَتُهُمْ وَيُسْـَلُونَ (۴۳:۱۹)

أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ 

آگاہ رہو! کہ یہ لوگ صرف اپنی بہتان پروازی سے کہہ رہے ہیں۔‏ (۱۵۱)‏

وَلَدَ اللَّهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ 

کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ یقیناً یہ محض جھوٹے ہیں۔‏ (۱۵۲)‏

دراصل یہ قول ان کا محض جھوٹ ہے۔ کہ اللہ کے ہاں اولاد ہے۔ وہ اولاد سے پاک ہے۔ پس ان لوگوں کے تین جھوٹ اور تین کفر ہوئے

- اول تو یہ کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں

- دوسرے یہ کہ اولاد بھی لڑکیاں

-  تیسرے یہ کہ خود فرشتوں کی عبادت شروع کر دی۔

أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ 

کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ۔ (۱۵۳)‏

پھر فرماتا ہے کہ آخر کس چیز نے اللہ کو مجبور کیا کہ اس نے لڑکے تو لئے نہیں اور لڑکیاں اپنی ذات کے لئے پسند فرمائیں؟

جیسے اور آیت میں ہے :

أَفَأَصْفَـكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَـئِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلاً عَظِيمًا 

تمہیں تو لڑکوں سے نوازے اور فرشتوں کو اپنی لڑکیاں بنائے یہ تو تمہاری نہایت درجہ کی لغویات ہے۔ (۱۷:۴۰)

مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ 

تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو؟‏ (۱۵۴)‏

أَفَلَا تَذَكَّرُونَ 

کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے؟‏ (۱۵۵)‏

یہاں فرمایا کیا تمہیں عقل نہیں جو ایسی دور از قیاس باتیں بناتے ہو تم سمجھتے نہیں ہو ڈرو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کیسا برا ہے؟

أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ 

یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے۔‏ (۱۵۶)‏

فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ 

تو جاؤ اگر سچے ہو اپنی کتاب لے آؤ   (۱۵۷)‏

اچھا گر کوئی دلیل تمہارے پاس ہو تو لاؤ اسی کو پیش کرو۔

یا اگر کسی آسمانی کتاب سے تمہارے اس قول کی سند ہو اور تم سچے ہو تو لاؤ اسی کو سامنے لے آؤ۔

یہ تو ایسی لچر اور فضول بات ہے جس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔

وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ

اور لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی ہے،

وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ 

 اور حالانکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وہ (اس عقیدے کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کئے جائیں گے  (۱۵۸)‏

اتنے ہی پر بس نہ کی، جنات میں اور اللہ میں بھی رشتے داری قائم کی۔

مشرکوں کے اس قول پر کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں حضرت صدیق اکبر ؓنے سوال کیا کہ پھر ان کی مائیں کون ہیں؟

تو انہوں نے کہا جن سرداروں کی لڑکیاں۔

 حالانکہ خود جنات کو اس کا یقین و علم ہے کہ اس قول کے قائل قیامت کے دن عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے۔ ان میں بعض دشمنان اللہ تو یہاں تک کم عقلی کرتے تھے کہ شیطان بھی اللہ کا بھائی ہے۔ نعوذ باللہ

سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ 

جو کچھ یہ (اللہ کے بارے میں) بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ بالکل پاک ہے۔‏ (۱۵۹)‏

اللہ تعالیٰ اس سے بہت پاک منزہ اور بالکل دور ہے جو یہ مشرک اس کی ذات پر الزام لگاتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں۔

اس کے بعد استثناء منقطع ہے اور بےمثبت مگر اس صورت میں کہ يَصِفُونَ کی ضمیر کا مرجع تمام لوگ قرار دیئے جائیں۔

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ 

سوائے! اللہ کے مخلص بندوں کے   (۱۶۰)‏

پس ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا جو حق کے ماتحت ہیں اور تمام نبیوں رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ استثناء إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ سے ہے

یعنی سب کے سب عذاب میں پھانس لئے جائیں گے مگر وہ بندگان جو اخلاص والے تھے۔ یہ قول ذرا تامل طلب ہے واللہ اعلم۔

فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ 

یقین مانو کہ تم سب اور تمہارے معبودان (باطل)۔‏ (۱۶۱)‏

مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ 

کسی ایک کو بھی بہکا نہیں سکتے۔‏ (۱۶۲)‏

إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ 

بجز اس کے جو جہنمی ہی ہے  (۱۶۳)‏

اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرما رہا ہے کہ تمہاری گمراہی اور شرک و کفر کی تعلیم وہی قبول کریں گے جو جہنم کے لئے پیدا کئے گئے ہوں۔

جیسے اور جگہ فرمایا ہے:

لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ ءَاذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَآ أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَـمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ 

جو عقل سے خالی کانوں سے بہرے اور آنکھوں کے اندھے ہوں جو مثل چوپایوں کے بلکہ ان سے بھی بدرجہا بدتر ہوں۔  (۷:۱۷۹)

جیسے اور جگہ فرمایا ہے:

إِنَّكُمْ لَفِى قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ـ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ  

اس سے وہی باز رکھا گیا ہے جو پھیر دیا گیا ہے (۵۱:۸۹)

یعنی اس سے وہی گمراہ ہو سکتے ہیں جو دماغ کے خالی اور باطل کے شیدائی ہوں۔

وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ 

(فرشتوں کا قول ہے کہ) ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے  (۱۶۴)‏

ازاں بعد فرشتوں کی برأت اور ان کی تسلی و رضا ایمان و اطاعت کا ذکر فرمایا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقرر جگہ اور ایک مقام عبادت مخصوص ہے جس سے نہ ہم ہٹ سکتے ہیں نہ اس میں کمی بیشی کر سکتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 آسمان چر چرا رہا ہے اور واقع میں اسے چر چرانا بھی چاہئے اس میں ایک قدم رکھنے جتنی جگہ بھی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ رکوع سجدے میں پڑا ہوا نہ ہو۔

پھر آپ نے ان تینوں آیتوں کی تلاوت کی۔

ایک روایت میں آسمان دنیا کا لفظ ہے۔

 ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بالشت بھر جگہ آسمانوں میں ایسی نہیں جہاں پر کسی نہ کسی فرشتے کے قدم یا پیشانی نہ ہو۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے تو مرد عورت ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد مردوں کو آگے بڑھا دیا گیا اور عورتوں کو پیچھے کر دیا گیا

وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ 

اور ہم تو (بندگی الہٰی میں) صف بستہ کھڑے ہیں۔ (۱۶۵)‏ ‏

اور ہم سب فرشتے صفہ بستہ عبادت اللہ کی کیا کرتے ہیں وَالصَّافَّاتِ صَفًّا کی تفسیر میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔

 ولید بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے تک نماز کی صفیں نہیں تھیں پھر صفیں مقرر ہو گئیں۔

حضرت عمرؓ اقامت کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر کے فرماتے تھے صفیں ٹھیک درست کر لو سیدھے کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے بھی فرشتوں کی طرف صف بندی چاہتا ہے۔ جیسے وہ فرماتے ہیں وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ اے فلاں آگے بڑھ اے فلاں پیچھے ہٹ ۔ پھر آپ آگے بڑھ کر نماز شروع کرتے  (ابن ابی حاتم)

صحیح مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ہمیں تین فضیلتیں ایسی دی گئی ہیں جن میں اور کوئی ہمارے ساتھ نہیں۔

-  ہماری صفیں فرشتوں جیسی بنائی گئیں۔

-  ہمارے لئے ساری زمین مسجد بنائی گئی

-  اور ہمارے لئے زمین کی مٹی پاک کرنے والی بنائی گئی۔

وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ 

اور اس کی تسبیح بیان کر رہے ہو ۔‏ (۱۶۶)‏

ہم اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے والے ہیں اس کی بزرگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں۔ تمام نقصانوں سے اسے پاک مانتے ہیں۔ ہم سب فرشتے اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے سامنے اپنی پستی اور عاجزی کا اظہار کرنے والے ہیں۔ پس یہ تینوں اوصاف فرشتوں کے ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ تسبیح کرنے والوں سے مراد نماز پڑھنے والے ہیں

 اور آیت میں ہے:

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ ۔۔۔ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ  

کفار نے کہا اللہ کی اولاد ہے، اللہ اس سے پاک ہے البتہ فرشتے اس کے محترم بندے ہیں اس کے فرمان سے آگے نہیں بڑھتے، اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں

وہ ان کا آگا پیچھا بخوبی جانتا ہے وہ کسی کی شفاعت کا بھی اختیار نہیں رکھتے بجز اسکے جس کے لئے رحمٰن راضی ہو وہ تو خوف اللہ سے تھرتھراتے رہتے ہیں۔

ان میں سے جو اپنے آپ کو لائق عبادت کہے ہم اسے جہنم میں جھونک دیں ظالموں کی سزا ہمارے ہاں یہی ہے ۔ (۲۱:۲۶،۲۹)

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اس سے پہلے تو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی آ جائے جو ہمیں اللہ کی راہ کی تعلیم دیتا اور ہمارے سامنے اگلے لوگوں کے واقعات بطور نصیحت پیش کرتا اور ہمارے پاس کتاب اللہ لے آتا تو یقیناً ہم مخلص مسلمان بن جاتے۔

جیسی اور آیت میں ہے:

وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لَئِن جَآءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الاٍّمَمِ فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلاَّ نُفُوراً  

بڑی پختہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر کوئی نبی ہماری موجودگی میں آ جائیں تو ہم بڑے نیک بن جائیں گے اور ہدایت کی راہ کی طرف سب سے پہلے دوڑیں گے  (۳۵:۴۲)

لیکن جب نبی اللہ آگئے تو بھاگ کھڑے ہوئے

 اور آیت میں فرمایا

أَن تَقُولُواْ إِنَّمَآ أُنزِلَ الْكِتَـبُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا ۔۔۔الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَـتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ  (۶:۱۵۶،۱۵۷)

وَإِنْ كَانُوا لَيَقُولُونَ 

کفار تو کہا کرتے تھے۔‏ (۱۶۷)‏

لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِنَ الْأَوَّلِينَ 

اگر ہمارے سامنے اگلے لوگوں کا ذکر ہوتا۔‏ (۱۶۸)‏

لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ 

تو ہم بھی اللہ کے چیدہ بندے بن جاتے  (۱۶۹)‏

پس یہاں فرمایا کہ جب یہ تمنا پوری ہوئی تو کفر کرنے لگے۔

فَكَفَرُوا بِهِ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ 

عنقریب جان لیں گے ۔ (۱۷۰)‏

 اب انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کفر کرنے کا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ 

اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے۔‏ (۱۷۱)‏

ارشاد باری ہے کہ ہم تو اگلی کتابوں میں بھی لکھ آئے ہیں پہلے نبیوں کی زبانی بھی دنیا کو سنا چکے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں ہمارے رسول اور ان کے تابعداروں ہی کا انجام بہتر ہوتا ہے

 جیسے فرمایا :

كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ 

اللہ تعالیٰ کہہ چکا ہے کہ بے شک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے (۵۸:۲۱)

اور فرمایا :

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاٌّشْهَـدُ  

میں میرے رسول اور ایماندار ہی دونوں جہان میں غالب رہیں گے۔ (۴۰:۵۱)

إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ 

کہ یقیناً وہ ہی مدد کئے جائیں گے۔‏ (۱۷۲)‏

وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ 

اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا ۔ (۱۷۳)‏

یہاں بھی یہی فرمایا کہ رسولوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے۔ کہ وہ منصور ہیں۔ ہم خود ان کی مدد کریں گے۔ دیکھتے چلے آؤ کہ ان کے دشمن کس طرح خاک میں ملا دیئے گئے؟

 یاد رکھو ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ 

اب آپ کچھ دنوں تک منہ پھیر لیجئے  (۱۷۴)‏

انجام کار انہی کے ہاتھ رہے گا۔ تو ایک وقت مقررہ تک صبر و استقامت سے معاملہ دیکھتا رہ ان کی ایذاؤں پر صبر کر ہم تجھے ان سب پر غالب کر دیں گے۔دنیا نے دیکھ لیا کہ یہی ہوا بھی

وَأَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ 

اور انہیں دیکھتے رہیئے اور یہ بھی آگے چل کر دیکھ لیں گے  (۱۷۵)‏

تو انہیں دیکھتا رہ کہ کس طرح اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوتی ہے؟

 اور کس طرح یہ ذلت و توہین کے ساتھ پکڑ لئے جاتے ہیں؟

یہ خود ان تمام رسوائیوں کو ابھی ابھی دیکھ لیں گے۔

أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ 

کیا ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟‏ (۱۷۶)‏

تعجب سا تعجب ہے کہ یہ طرح طرح کے چھوٹے چھوٹے عذابوں کی گرفت کے باوجود ابھی تک بڑے عذاب کو محال جانتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کب آئے گا؟

فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ 

سنو! جب ہمارا عذاب ان کے میدان میں اتر آئے گا اس وقت ان کی جن کو متنبہ کر دیا گیا تھا بڑی بری صبح ہوگی۔‏ (۱۷۷)‏

پس انہیں جواب ملتا ہے کہ جب عذاب ان کے میدانوں میں، محلوں میں، انگنائیوں میں آئے گا وہ دن ان پر بڑا ہی بھاری دن ہو گا۔ یہ ہلاک اور برباد کر دیئے جائیں گے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 خیبر کے میدانوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر صبح ہی صبح کفار کی بےخبری میں پہنچ گیا وہ لوگ حسب عادت اپنی کھیتیوں کے آلات لے کر شہر سے نکلے اور اس اللہ کی فوج کو دیکھ کر بھاگے اور شہر والوں کو خبر کی اس وقت آپ نے یہی فرمایا :

 اللہ بہت بڑا ہے خیبر خراب ہوا۔ ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر آتے ہیں اس وقت ان کی درگت ہوتی ہے۔

وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ 

آپ کچھ وقت تک ان کا خیال چھوڑ دیجئے۔‏ (۱۷۸)‏

وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ 

اور دیکھتے رہیئے یہ بھی ابھی ابھی دیکھ لیں گے ۔ (۱۷۹)‏

پھر دوبارہ پہلے حکم کی تاکید کی کہ تو ان سے ایک مدت معین تک کے لئے بےپرواہ ہو جا اور انہیں چھوڑ دے اور دیکھتا رہ یہ بھی دیکھ لیں گے۔

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ 

پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں   (۱۸۰)‏

اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے اپنی برات بیان فرماتا ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے تھے۔ جیسے اولاد شریک وغیرہ۔ وہ بہت بڑی اور لازوال عزت والا ہے۔ ان جھوٹے اور مفتری لوگوں کے بہتان سے وہ پاک اور منزہ ہے۔

وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ 

پیغمبروں پر سلام ہے ۔‏ (۱۸۱)‏

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ 

اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے  (۱۸۲)‏

 اللہ کے رسولوں پر سلام ہے اس لئے کہ ان کی تمام باتیں ان عیوب سے مبرا ہیں جو مشرکوں کی باتوں میں موجود ہیں بلکہ نبیوں کی باتیں اور اوصاف جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بیان کرتے ہیں سب صحیح اور برحق ہیں۔

 اسی کی ذات کے لئے تمام حمد و ثناء ہے دنیا اور آخرت میں ابتدا اور انتہاء کا وہی سزا وار تعریف ہے۔ ہر حال میں قابل حمد وہی ہے۔

تسبیح سے ہر طرح کے نقصان سے اس کی ذات پاک سے دوری ثابت ہوتی ہے، تو ثابت ہوتا ہے کہ ہر طرح کے کمالات کی مالک اس کی ذات واحد ہے۔ اسی کو صاف لفظوں میں حمد ثابت کیا۔ تاکہ نقصانات کی نفی اور کمالات کا اثبات ہو جائے۔ ایسے ہی قران کریم کی بہت سی آیتوں میں تسبیح اور حمد کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

 حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 تم جب مجھ پر سلام بھیجو اور نبیوں پر بھی سلام بھیجو کیونکہ میں بھی منجملہ اور نبیوں میں سے ایک نبی ہی ہوں (ابن ابی حاتم)

یہ حدیث مسند میں بھی مروی ہے۔

 ابویعلی کی ایک ضعیف حدیث میں ہے جب حضور سلام کا ارادہ کرتے تو ان تینوں آیتوں کو پڑھ کرسلام کرتے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے جو شخص یہ چاہے کہ بھرپور پیمانے سے ناپ کر اجر پائے تو وہ جس کسی مجلس میں ہو وہاں سے اٹھتے ہوئے یہ تینوں آیتیں پڑھ لے

 اور سند سے یہ روایت حضرت علی سے موقوفاً مروی ہے۔

طبرانی کی حدیث میں ہے:

 جو شخص ہر فرض نماز کے بعد تین مرتبہ ان تینوں آیتوں کی تلاوت کرے اسے بھرپور اجر پورے پیمانے سے ناپ کر ملے گا۔

 مجلس کے کفارے کے بارے میں بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ یہ پڑھے۔

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَآ اِلَّهَ اِلَّآاَنْتَ اَسْتَغْفِرُكَ وَاَتُوْبُ اِلَیْكَ

میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

hit counters