Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Yasin

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


يس (۱)

یٰسِین

حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں جیسے یہاں یٰسین ہے ان کا پورا بیان ہم سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں لہذا اب یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔

بعض لوگوں نے کہا کہ یٰسین سے مراد اے انسان ہے۔

بعض کہتے ہیں حبشی زبان میں اے انسان کے معنی میں یہ لفظ ہے۔

 کوئی کہتا ہے یہ اللہ کا نام ہے،

وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (۲)

‏ قسم ہے قرآن با حکمت کی

پھر فرماتا ہے قسم ہے محکم اور مضبوط قرآن کی جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا،

إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (۳)

کہ بیشک آپ پیغمبروں میں سے ہیں

کہ بالیقین اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، سچے اچھے مضبوط اور عمدہ سیدھے اور صاف دین پر آپ ہیں،

عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۴)

سیدھے راستے پر ہیں  

یہ راہ اللہ رحمٰن و رحیم صراط مستقیم کی ہے،

تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (۵)

یہ قرآن اللہ زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے

 اسی کا اترا ہوا یہ دین ہے جو عزت والا اور مؤمنوں پر خاص مہربانی کرنے والا ہے۔

 جیسے فرمان ہے:

وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ ـ صِرَطِ اللَّهِ الَّذِى لَهُ مَا فِى السَّمَـوَتِ وَمَا فِى الاٌّرْضِ أَلاَ إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الاٍّمُورُ (۴۲:۵۲،۵۳)

تو یقیناً راہ راست کی رہبری کرتا ہے جو اس اللہ کی سیدھی راہ ہے جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی طرف تمام امور کا انجام ہے،

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ (۶)

تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے تھے، سو (اسی وجہ سے) یہ غافل ہیں

تاکہ تو عربوں کو ڈرا ئے جن کے بزرگ بھی آگاہی سے محروم تھے جو محض غافل ہیں۔

 ان کا تنہا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ دوسرے اس تنبیہ سے الگ ہیں۔ جیسے کہ بعض افراد کے ذکر سے عام کی نفی نہیں ہوتی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام تھی ساری دنیا کی طرف تھی اس کے دلائل وضاحت و تفصیل سے آیت  قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا  (۷:۱۵۰) کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں،

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۷)

ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہو چکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے  

اکثر لوگوں پر اللہ کے عذابوں کا قول ثابت ہو چکا ہے۔ انہیں تو ایمان نصیب نہیں ہونے کا وہ تو تجھے جھٹلاتے ہی رہیں گے۔

إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ (۸)

ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے انکے سر اوپر الٹ گئے ہیں  

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بدنصیبوں کا ہدایت تک پہنچنا بہت مشکل بلکہ محال ہے۔ یہ تو ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے ہاتھ گردن پر باندھ دیئے جائیں اور ان کا سر اونچا جا رہا ہو۔ گردن کے ذکر کے بعد ہاتھ کا ذکر چھوڑ دیا لیکن مراد یہی ہے کہ گردن سے ملا کر ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں اور سر اونچے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ بولنے میں ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری چیز کو جو اسی سے سمجھ لی جاتی ہے اس کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں

غل کہتے ہی ہیں دونوں ہاتھوں کو گردن تک پہنچا کر گردن کے ساتھ جکڑ بند کر دینے کو ۔ اسی لئے گردن کا ذکر کیا اور ہاتھوں کا ذکر چھوڑ دیا۔

مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیئے ہیں اس لئے وہ کسی کار خیر کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے ان کے سر اونچے ہیں ان کے ہاتھ ان کے منہ پر ہیں وہ ہر بھلائی کرنے سے قاصر ہیں،

وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ

اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا (٢)

گردنوں کے اس طوق کے ساتھ ہی ان کے آگے دیوار ہے جو حق تسلیم کرنے میں مائع ہے۔ پیچھے بھی دیوار ہے یعنی حق کو ماننے میں رکاوٹ ہے یعنی حق سے روک ہے۔ اس وجہ سے تردد میں پڑے ہوتے ہیں حق کے پاس آنہیں سکتے۔ گمراہیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ حق کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ نہ حق کی طرف راہ پائیں۔ نہ حق سے فائدہ اٹھائیں۔

 ابن عباس کی قرأت میں فاعشیاناھم عین سے ہے۔ یہ ایک قسم کی آنکھ کی بیماری ہے جو انسان کو نابینا کر دیتی ہے۔ پس اسلام و ایمان کے اور ان کے درمیان چو طرفہ رکاوٹ ہے۔

جیسے اور آیت میں ہے:

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ (۱۰:۹۶،۹۷)

جن پر تیرے رب کا کلمہ حق ہو چکا ہے وہ تو ایمان لانے کے ہی نہیں اگرچہ تو انہیں سب آیتیں بتا دے یہاں تک کہ وہ درد ناک عذابوں کو خود دیکھ لیں۔

فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (۹)

سو وہ نہیں دیکھ سکتے۔‏

جسے اللہ روک دے وہ کہاں سے روکنا ہٹا سکے۔

ایک مرتبہ ابوجہل ملعون نے کہا کہ اگر میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھ لوں گا تو یوں کروں گا اور یوں کروں گا اس پر یہ آیتیں اتریں۔ لوگ اسے کہتے تھے یہ ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) لیکن اسے آپ دکھائی نہیں دیتے تھے اور پوچھتا تھا کہاں ہیں؟

 کہاں ہیں؟

 ایک مرتبہ اسی ملعون نے ایک مجمع میں کہا تھا کہ یہ دیکھو کہتا ہے کہ اگر تم اس کی تابعداری کرو گے تو تم بادشاہ بن جاؤ گے اور مرنے کے بعد خلد نشین ہو جاؤ گے اور اگر تم اس کا خلاف کرو گے تو یہاں ذلت کی موت مارے جاؤ گے اور وہاں عذابوں میں گرفتار ہو گے۔ آج آنے تو دو۔

اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ کی مٹھی میں خاک تھی آپ ابتداء سورہ یٰسین سے لَا يُبْصِرُونَ تک پڑھتے ہوئے آ رہے تھے۔ اللہ نے ان سب کو اندھا کر دیا اور آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے تشریف لے گئے۔

 ان بدبختوں کا گروہ کا گروہ آپ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھا اس کے بعد ایک صاحب گھر سے نکلے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے گھیرا ڈالے کھڑے ہو انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں آج اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے اس نے کہا واہ واہ وہ تو گئے بھی اور تم سب کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے نکل گئے ہیں۔ یقین نہ ہو تو اپنے سر جھاڑو اب جو سر جھاڑے تو واقعی خاک نکلی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ابوجہل کی یہ بات دوہرائی گئی تو آپ نے فرمایا:

 اس نے ٹھیک کہا فی الواقع میری تابعداری ان کے لئے دونوں جہاں کی عزت کا باعث ہے اور میری نافرمانی ان کے لئے ذلت کا موجب ہے اور یہی ہو گا،

وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۱۰)

اور آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں دونوں برابر ہیں، یہ ایمان نہیں لائیں گے۔‏

ان پر مہر اللہ کی لگ چکی ہے یہ نیک بات کا اثر نہیں لیتے۔

سورہ بقرہ میں بھی اس مضمون کی ایک آیت گزر چکی ہے

 إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ (۱۰:۹۶،۹۷)

جن پر تیرے رب کا کلمہ حق ہو چکا ہے وہ تو ایمان لانے کے ہی نہیں اگرچہ تو انہیں سب آیتیں بتا دے یہاں تک کہ وہ درد ناک عذابوں کو خود دیکھ لیں۔

إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ ۖ

بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بےدیکھے ڈرے،

ہاں تیری نصیحت ان پر اثر کر سکتی ہے جو

- بھلی بات کی تابعداری کرنے والے ہیں۔

- قرآن کو ماننے والے ہیں

- بن دیکھنے والے اللہ سے ڈرنے والے ہیں

-  اور ایسی جگہ بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں جہاں کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو۔

-  وہ جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے حال پر مطلع ہے اور ہمارے افعال کو دیکھ رہا ہے

فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (۱۱)

سو آپ اس کو مغفرت اور با وقار اجر کی خوش خبریاں سنا دیجئے۔‏

ایسے لوگوں کو تو گناہوں کی معافی کی اور اجر عظیم و جمیل کی خوشخبری پہنچا دے۔

جیسے اور آیت میں ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (۶۷:۱۲)

جو لوگ پوشیدگی میں بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں ان کیلئے مغفرت اور ثواب کبیر ہے،

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ

بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں

ہم ہی ہیں جو مردوں کو زندگی دیتے ہیں ہم قیامت کے دن انہیں نئی زندگی میں پیدا کرنے پر قادر ہیں اور اس میں اشارہ ہے کہ مردہ دلوں کے زندہ کرنے پر بھی اس اللہ کو قدرت ہے وہ گمراہوں کو بھی راہ راست پر ڈال دیتا ہے۔

جیسے اور مقام پر مردہ دلوں کا ذکر کر کے قرآن حکیم نے فرمایا:

اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ يُحْىِ الاٌّرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الاٌّيَـتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۵۷:۱۷)

یقین مانو کہ اللہ زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ہم نے تمہارے لئے اپنی آیتیں بیان کر دیں تا کہ تم سمجھو

جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ہم نے تمہاری سمجھ بوجھ کے لئے بہت کچھ بیان فرما دیا اور ہم ان کے پہلے بھیجے ہوئے اعمال لکھ لیتے ہیں اور ان کے آثار بھی یعنی جو یہ اپنے بعد باقی چھوڑ آئے۔ اگر خیر باقی چھوڑ آئے ہیں تو جزا اور سزا نہ پائیں گے۔

 حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:

- جو شخص اسلام میں نیک طریقہ جاری کرے اسے اس کا اور اس طریقہ کو جو کریں ان سب کا بدلہ ملتا ہے۔ لیکن ان کے بدلے کم ہو کر نہیں۔

-  اور جو شخص کسی برے طریقے کو جاری کرے اس کا بوجھ اس پر ہے اور اس کا بھی جو اس پر اس کے بعد کاربند ہوں۔ لیکن ان کا بوجھ گھٹا کر نہیں۔ (مسلم)

ایک لمبی حدیث میں اس کے ساتھ ہی قبیلہ مضر کے چادر پوش لوگوں کا واقعہ بھی ہے اور آخر میں وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا پڑھنے کا ذکر بھی ہے۔

صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے:

 جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام عمل کٹ جاتے ہیں مگر تین عمل۔

- علم جس سے نفع حاصل کیا جائے

- اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے

-  اور وہ صدقہ جاریہ جو اس کے بعد بھی باقی رہے۔

 مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ گمراہ لوگ جو اپنی گمراہی باقی چھوڑ جائیں۔

سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ہر وہ نیکی بدی جیسے اس نے جاری کیا اور اپنے بعد چھوڑ گیا۔ بغوی بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔

 اس جملے کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ مراد آثار سے نشان قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی طرف اٹھیں۔

 حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 اے ابن آدم اگر اللہ تعالیٰ تیرے کسی فعل سے غافل ہوتا تو تیرے نشان قدم سے غافل ہوتا جنہیں ہوا مٹا دیتی ہے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے اور تیرے کسی عمل سے غافل نہیں۔ تیرے جتنے قدم اس کی اطاعت میں اٹھتے ہیں اور جتنے قدم تو اس کی معصیت میں اٹھاتا ہے سب اس کے ہاں لکھے ہوئے ہیں۔ تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اللہ کی فرماں برداری کے قدم بڑھا لے۔

اسی معنی کی بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔

مسند احمد میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 مسجد نبوی کے آس پاس کچھ مکانات خالی ہوئے تو قبیلہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے محلے سے اٹھ کر یہیں قرب مسجد کے مکانات میں آبسیں

جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کیا ٹھیک ہے؟

 انہوں نے جواب دیا کہا ہاں

 آپ نے دو مرتبہ فرمایا اے بنو مسلمہ اپنے مکانات میں ہی رہو تمہارے قدم اللہ کے ہاں لکھے جاتے ہیں۔

ابن ابی حاتم کی اسی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس قبیلے نے اپنا ارادہ بدل دیا۔

بزار کی اسی روایت میں ہے کہ بنو سلمہ نے مسجد سے اپنے گھر دور ہونے کی شکایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اس پر یہ آیت اتری اور پھر وہ وہیں رہتے رہے۔

 لیکن اس میں غرابت ہے کیونکہ اس میں اس آیت کا اس بارے میں نازل ہونا بیان ہوا ہے اور یہ پوری سورت مکی ہے۔ فاللہ اعلم

ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن بعض انصار کے گھر مسجد سے دور تھے انہوں نے مسجد کے قریب کے گھروں میں آنا چاہا اس پر یہ آیت اتری تو انہوں نے کہا اب ہم ان گھروں کو نہیں چھوڑیں گے۔

یہ حدیث موقوف ہے۔

مسند احمد میں ہے :

 ایک مدنی صحابی کا مدینہ شریف میں انتقال ہوا تو آپ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھا کر فرمایا کاش کہ یہ اپنے وطن کے سوا کسی اور جگہ فوت ہوتا

 کسی نے کہا یہ کیوں؟

 فرمایا اس لئے کہ جب کوئی مسلمان غیر وطن میں فوت ہوتا ہے تو اس کے وطن سے لے کر وہاں تک کی زمین تک کاناپ کر کے اسے جنت میں جگہ ملتی ہے۔

 ابن جریر میں حضرت ثابت سے روایت ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے لئے مسجد کی طرف چلا میں جلدی جلدی بڑے قدموں سے چلنے لگا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اپنے ساتھ آہستہ آہستہ ہلکے ہلکے قدموں سے لے جانے لگے جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا میں حضرت زید بن ثابت کے ساتھ مسجد کو جا رہا تھا اور تیز تیز قدم چل رہا تھا تو آپ ﷺنے مجھ سے فرمایا:

 اے انس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ نشانات قدم لکھے جاتے ہیں؟

اس قول سے پہلے قول کی مزید تائید ہوتی ہے کیونکہ جب نشان قدم تک لکھے جاتے ہیں تو پھیلائی ہوئی بھلائی کیوں نہ لکھی جاتی ہو گی؟

 واللہ اعلم۔

وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (۱۲)

اور ہم نے ہرچیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے

پھر فرمایا کل کائنات جمیع موجودات مضبوط کتاب لوح محفوظ میں درج ہے۔ جو اُم الکتاب ہے

یہی تفسیر بزرگوں سے آیت يَوْمَ نَدْعُواْ كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَـمِهِمْ (۱۷:۳۱) کی تفسیر میں بھی مروی ہے کہ ان کا نامہ اعمال جس میں خیر و شر درج ہے۔

 جیسے آیت:

وَوُضِعَ الْكِتَـبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ ۔۔۔وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا  (۱۸:۴۹)

اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا گنہگار اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہونگے اور کہہ رہے ہونگے ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا گناہ بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا،

اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا۔

 اور آیت میں ہے۔

وَوُضِعَ الْكِتَـبُ وَجِـىءَ بِالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَآءِ (۳۹:۶۹)

نامہ اعمال حاضر کئے جائیں گے نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا 

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ (۱۳)

اور آپ ان کے سامنے ایک مثال (یعنی ایک) بستی والوں کی مثال (اس وقت کا) بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں (کئی) رسول آئے

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ اپنی قوم کے ساتھ ان سابقہ لوگوں کا قصہ بیان فرمایئے جنہوں نے ان سے پہلے اپنے رسولوں کو ان کی طرح جھٹلایا تھا۔

یہ واقعہ شہر انطاکیہ کا ہے۔ وہاں کے بادشاہ کا نام انطیخش تھا اس کے باپ اور دادا کا نام بھی یہی تھا یہ سب راجہ پرجابت پرست تھے۔

 ان کے پاس اللہ کے تین رسول آئے۔ صادق، صدوق اور شلوم ۔ اللہ کے درود و سلام ان پر نازل ہوں۔ لیکن ان بدنصیبوں نے سب کو جھٹلایا۔ عنقریب یہ بیان بھی آ رہا ہے کہ بعض بزرگوں نے اسے نہیں مانا کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا ہو،

إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ (۱۴)

جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے (اول) دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی سو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں

پہلے تو اس کے پاس دو رسول آئے انہوں نے انہیں نہیں مانا ان دو کی تائید میں پھر تیسرے نبی آئے، پہلے دو رسولوں کا نام شمعون اور یوحنا تھا اور تیسرے رسول کا نام بولص تھا۔

ان سب نے کہا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس نے ہماری معرفت تمہیں حکم بھیجا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔

حضرت قتادہ بن و عامہ کا خیال ہے کہ یہ تینوں بزرگ جناب مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے تھے،

بستی کے ان لوگوں نے جواب دیا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو پھر کیا وجہ کہ تمہاری طرف اللہ کی وحی آئے اور ہماری طرف نہ آئے؟

 ہاں اگر تم رسول ہوتے تو چاہئے تھا کہ تم فرشتے ہوتے۔

 اکثر کفار نے یہی شبہ اپنے اپنے زمانے کے پیغمبروں کے سامنے پیش کیا تھا۔ جیسے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَـتِ فَقَالُواْ أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا (۶:۶۴)

لوگوں کے پاس رسول آئے اور انہوں نے جواب دیا کہ کیا انسان ہمارے ہادی بن کر آ گئے؟

 اور آیت میں ہے:

إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَـنٍ مُّبِينٍ (۱۴:۱۰)

تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو تم صرف یہ چاہتے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادوں کے معبودوں سے روک دو۔ جاؤ کوئی کھلا غلبہ لے کر آؤ۔

 اور جگہ قرآن پاک میں ہے:

وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَراً مِّثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذاً لَّخَـسِرُونَ (۲۳:۳۴)

کافروں نے کہا کہ اگر تم نے اپنے جیسے انسانوں کی تابعداری کی تو یقیناً تم بڑے ہی گھاٹے میں پڑ گئے۔

 اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ  آیت  ہے:

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَآءَهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَّسُولاً  (۱۷:۹۴)

لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا

یہی ان لوگوں نے بھی ان تینوں نبیوں سے کہا کہ

قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ (۱۵)

ان لوگوں نے کہا تم تو ہماری طرح معمولی آدمی ہو اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی۔ تم نرا جھوٹ بولتے ہو۔‏

تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو اور حقیقت میں اللہ نے تو کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم یونہی غلط  ملط کہہ رہے ہو،

قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ (۱۶)

ان (رسولوں) نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بیشک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔‏

پیغمبروں نے جواب دیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کے سچے رسول ہیں۔

 اگر ہم جھوٹے ہوتے تو اللہ پر جھوٹ باندھنے کی سزا ہمیں اللہ تعالیٰ دے دیتا لیکن تم دیکھو گے کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں عزت عطا فرمائے گا۔ اس وقت تمہیں خود روشن ہو جائے گا کہ کون شخص بہ اعتبار انجام کے اچھا رہا؟

 جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

قُلْ كَفَى بِاللَّهِ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ شَهِيداً يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَالَّذِينَ ءامَنُواْ بِالْبَـطِلِ وَكَفَرُواْ بِاللَّهِ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْخَـسِرُونَ  (۲۹:۵۲)

میرے تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے۔ وہ تو آسمان و زمین کے غیب جانتا ہے۔ باطل پر ایمان رکھنے والے اور اللہ سے کفر کرنے والے ہی نقصان یافتہ ہیں،

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (۱۷)

اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔‏

سنو ہمارے ذمے تو صرف تبلیغ ہے مانو گے تمہارا بھلا ہے نہ مانو گے تو پچھتاؤ گے ہمارا کچھ نہیں بگاڑو گے کل اپنے کئے کا خمیازہ بھگتو گے۔

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ

انہوں نے کہا کہ ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں

لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۸)

 اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کر دیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔‏

ان کافروں نے ان رسولوں سے کہا کہ تمہارے آنے سے ہمیں کوئی برکت و خیریت تو ملی نہیں۔ بلکہ اور برائی اور بدی پہنچی۔ تم ہو ہی بدشگون اور تم جہاں جاؤ گے بلائیں برسیں گی۔ سنو اگر تم اپنے اس طریقے سے باز نہ آئے اور یہی کہتے رہے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے۔ اور سخت المناک سزائیں دیں گے

قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ ۚ

ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے ،

رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بدفطرت ہو۔ تمہارے اعمال ہی برے ہیں اور اسی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

یہی بات فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور انکی قوم کے مؤمنوں سے کہی تھی۔ جب انہیں کوئی راحت ملتی توکہتے ہم تواس کے مستحق ہی تھے۔ اور اگرکوئی رنج پہنچتا تو حضرت موسی اور مؤمنوں کی بدشگونی پر اسے محمول کرتے۔ جس کے جواب میں جناب باری نے فرمایا :

أَلاَ إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ  (۷:۱۳۳)

یعنی ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جانب سے انہیں پہنچ رہا ہے۔

 قوم صالح نے بھی اپنے نبی سے یہی کہا تھا اور یہی جواب پایا تھا۔

اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ (۲۷۴۷)

 خود جناب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی کہا گیا ہے

جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ فَمَا لِهَـؤُلاءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً (۴:۷۸)

اگر ان کافروں کو کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے

تو کہہ دیجیے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی نہیں سمجھی جاتی؟

أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ ۚ

کیا اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جائے

پھر فرماتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی، تمہاری خیر خواہی کی، تمہیں بھلی راہ سمجھائی۔ تمہیں اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے؟

 اور ہمیں اس طرح ڈرانے دھمکانے لگے؟

 اور خوفزدہ کرنے لگے؟

 اور مقابلہ پر اتر آئے؟

بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (۱۹)

 بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔‏

حقیقت یہ ہے کہ تم فضول خرچ لوگ ہو۔ حدود الہٰیہ سے تجاوز کر جاتے ہو۔ ہمیں دیکھو کہ ہم تمہاری بھلائی چاہیں۔ تمہیں دیکھو کہ تم ہم سے برائی سمجھو۔ بتاؤ تو بھلا یہ کوئی انصاف کی بات ہے؟

افسوس تم انصاف کے دائرے سے نکل گئے۔

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ (۲۰)

اور ایک شخص(اس) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راہ پر چلو

مروی ہے کہ اس بستی کے لوگ یہاں تک سرکش ہوگئے کہ انہوں نے پوشیدہ طور پر نبیوں کے قتل کا ارادہ کر لیا۔ ایک مسلمان شخص جو اس بستی کے آخری حصے میں رہتا تھا جس کا نام حبیب تھا اور رسے کا کام کرتا تھا، تھا بھی بیمار، جذام کی بیماری تھی، بہت سخی آدمی تھا۔ جو کماتا تھا اس کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا کرتا تھا۔ دل کا نرم اور فطرت کا اچھا تھا۔ لوگوں سے الگ تھلگ ایک غار میں بیٹھ کر اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتا تھا۔ اس نے جب اپنی قوم کے اس بد ارادے کو کسی طرح معلوم کیا تو اس سے صبر نہ ہو سکا دوڑتا بھاگتا آیا۔

 بعض کہتے ہیں یہ بڑھئی تھے۔

 ایک قول ہے کہ یہ دھوبی تھے۔

عمر بن حکم فرماتے ہیں جوتی گانٹھنے والے تھے۔

 اللہ ان پر رحم کرے

اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ (۲۱)

ایسے لوگوں کی راہ پر چلو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ راہ راست پر ہیں۔‏

انہوں نے آ کر اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا کہ تم ان رسولوں کی تابعداری کرو۔ ان کا کہا مانو۔ ان کی راہ چلو، دیکھو تو یہ اپنا کوئی فائدہ نہیں کر رہے یہ تم سے تبلیغ رسالت پر کوئی بدلہ نہیں مانگتے۔ اپنی خیر خواہی کی کوئی اجرت تم سے طلب نہیں کر رہے۔ درد دل سے تمہیں اللہ کی توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور سیدھے اور سچے راستے کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ خود بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ تمہیں ضرور ان کی دعوت پر لبیک کہنا چاہئے اور ان کی اطاعت کرنی چاہئے۔

لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ انہیں شہید کر دیا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۲)

اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے

وہ نیک بخت شخص جو اللہ کے رسولوں کی تکذیب و تردید اور توہین ہوتی دیکھ کر دوڑا ہوا آیا تھا اور جس نے اپنی قوم کو نبیوں کی تابعداری کی رغبت دلائی تھی وہ اب اپنے عمل اور عقیدے کو ان کے سامنے پیش کر رہا ہے اور انہیں حقیقت سے آگاہ کرکے ایمان کی دعوت دے رہا ہے، تو کہتا ہے کہ میں تو صرف اپنے خالق مالک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی قدرت کی ہی عبادت کرتا ہوں جبکہ صرف اسی نے مجھے پیدا کیا ہے تو میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں؟

پھر یہ نہیں کہ اب ہم اس کی قدرت سے نکل گئے ہیں؟

 اس سے اب ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا ہو؟

نہیں بلکہ سب کے سب لوٹ کر پھر اس کے سامنے جمع ہونے والے ہیں۔ اس وقت وہ ہر بھلائی برائی کا بدلہ دے گا۔

أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ (۲۳)

کیا میں اسے چھوڑ کر ایسوں کو معبود بناؤں کہ اگر رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو انکی سفارش مجھے کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ مجھے بچاسکیں ‏

یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ میں اس خالق و وقار کو چھوڑ کر اوروں کو پوجوں جو نہ تو یہ طاقت رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی کسی مصیبت کو مجھ پر سے ڈال دیں، نہ یہ کہ ان کے کہنے سننے کی وجہ سے مجھے کوئی برائی پہنچے، اللہ اگر مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو یہ اسے دفع نہیں کرسکتے روک نہیں سکتے نہ مجھے اس سے بچاسکتے ہیں،

إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۲۴)

پھر تو یقیناً کھلی گمراہی میں ہوں ۔‏

اگر میں ایسے کمزوروں کی عبادت کرنے لگوں تو مجھ سے بڑھ کر گمراہ اور بہکا ہوا اور کون ہو گا؟

 پھر تو نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے ہر بھلے انسان کو میری گمراہی کھل جائے گی۔

إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ (۲۵)

میری سنو! میں تو (سچے دل سے) تم سب کے رب پر ایمان لا چکا ہوں

میری قوم کے لوگو! اپنے جس حقیقی معبود اور پروردگار سے تم منکر ہوئے ہو۔ سنو میں تو اس کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں

 اور یہ بھی معنی اس آیت کے ہوسکتے ہیں کہ اس اللہ کے بندے مرد صالح نے اب اپنی قوم سے روگردانی کرکے اللہ کے ان رسولوں سے یہ کہا ہو کہ اللہ کے پیغمبرو! تم میرے ایمان کے گواہ رہنا! میں اس اللہ کی ذات پر ایمان لایا جس نے تمہیں برحق رسول بناکر بھیجا ہے، پس گویا یہ اپنے ایمان پر اللہ کے رسولوں کو گواہ بنا رہا ہے۔ یہ قول بہ نسبت اگلے قول کے بھی زیادہ واضح ہے واللہ اعلم۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

 یہ بزرگ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ تمام کفار پل پڑے اور زدوکوب کرنے لگے۔ کون تھا جو انہیں بچاتا؟

پتھر مارتے مارتے انہیں اسی وقت فی الفور شہید کردیا (رضی اللہ عنہ وارضاہ)

یہ اللہ کے بندے یہ سچے ولی اللہ پتھر کھا رہے تھے لیکن زبان سے یہی کہے جا رہے تھے کہ اللہ میری قوم کو ہدایت کر یہ جانتے نہیں۔

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ

 (اس سے) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا،

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کفار نے اس مؤمن کامل کو بری طرح مارا پیٹا اسے گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ بیٹھے اور پیروں سے اسے روندنے لگے یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر نکل آئیں، اسی وقت اللہ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی، اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے رنج و غم سے آزاد کردیا اور امن چین کے ساتھ جنت میں پہنچا دیا ان کی شہادت سے اللہ خوش ہوا جنت ان کیلئے کھول دی گئی اور داخلہ کی اجازت مل گئی،

قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (۲۶)

کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہو جاتا۔‏

بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ (۲۷)

کہ مجھے رب نے بخش دیا اور مجھے با عزت لوگوں میں سے کر دیا ۔‏

اپنے ثواب و اجر کو، عزت و اکرام کو دیکھ کر پھر اس کی زبان سے نکل گیا کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور میرا بڑا ہی اکرام کیا۔

 فی الواقع مؤمن سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ دھوکے باز اور بدخواہ نہیں ہوتے۔ دیکھئے اس اللہ والے شخص نے زندگی میں بھی قوم کی خیر خواہی کی اور بعد مرگ بھی ان کا خیرخواہ رہا۔

یہ بھی مطلب ہے کہ وہ کہتا ہے کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے کس سبب سے میرے رب نے بخشا اور کیوں میری عزت کی تو لامحالہ وہ بھی اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی، اللہ پر ایمان لاتی اور رسولوں کی پیروی کرتی، اللہ ان پر رحمت کرے اور ان سے خوش رہے۔ دیکھو تو قوم کی ہدایت کے کس قدر خواہش مند تھے۔

حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور اگر اجازت دیں تو میں اپنی قوم میں تبلیغ دین کیلئے جاؤں اور انہیں دعوت اسلام دوں؟

 آپ ﷺنے فرمایا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں قتل کردیں؟

جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تو خیال تک نہیں۔ انہیں مجھ سے اس قدر الفت و عقیدت ہے کہ میں سویا ہوا ہوں تو وہ مجھے جگائیں گے بھی نہیں،

آپ ﷺنے فرمایا اچھا پھر جایئے،

یہ چلے، جب لات و عزیٰ کے بتوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو کہنے لگے اب تمہاری شامت آگئی قبیلہ ثقیف بگڑ بیٹھا

 انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم ان بتوں کو ترک کرو یہ لات و عزیٰ دراصل کوئی چیز نہیں، اسلام قبول کرو تو سلامتی حاصل ہوگی۔ اے میرے بھائی بندو! یقین مانو کہ یہ بت کچھ حقیت نہیں رکھتے، ساری بھلائی اسلام میں ہے ۔ ابھی تو تین ہی مرتبہ صرف اس کلمہ کو دہرایا تھا جب ایک بدنصیب تن جلے نے دور سے ایک ہی تیر چلایا جو رگ اکحل پر لگا اور اسی وقت شہید ہوگئے۔

 حضور علیہ السلام کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی تھا جیسے سورۃ یٰس والا جس نے کہا تھا کاش کہ میری قوم میری مغفرت و عزت کو جان لیتی۔

حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کے پاس جب حبیب بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیا جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تھے جنہیں یمامہ میں مسیلمہ کذاب ملعون نے شہید کردیا تھا تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ حبیب بھی اسی حبیب کی طرح تھے جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے،

 ان سے اس کذاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا بیشک وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

 اس نے کہا میری نسبت بھی تو گواہی دیتا ہے کہ میں رسول اللہ ہوں؟ تو حضرت حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نہیں سنتا۔

 اس نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت تو کیا کہتا ہے؟

 جواب دیا کہ میں ان کی سچی رسالت کو مانتا ہوں،

 اس نے پھر پوچھا میری رسالت کی نسبت کیا کہتا ہے؟

 جواب دیا کہ میں نہیں سنتا

 اس ملعون نے کہا ان کی نسبت تو سن لیتا ہے اور میری نسبت بہرا بن جاتا ہے۔ ایک مرتبہ پوچھتا اور ان کے اس جواب پر ایک عضو بدن کٹوا دیتا پھر پوچھتا پھر یہی جواب پاتا پھر ایک عضو بدن کٹواتا اسی طرح جسم کا ایک ایک جوڑ کٹوا دیا اور وہ اپنے سچے اسلام پر آخری دم تک قائم رہے اور جو جواب پہلے تھا وہی آخر تک رہا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔

 اس کے بعد ان لوگوں پر جو اللہ کا غضب نازل ہوا اور جس عذاب سے وہ غارت کردیئے گئے اس کا ذکر ہو رہا ہے، چونکہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اللہ کے ولی کو قتل کیا اس لئے ان پر عذاب اترا اور ہلاک کردیئے گئے،

وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ (۲۸)

اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہ اتارا اور نہ اس طرح ہم اتارا کرتے ہیں ۔

لیکن انہیں برباد کرنے کیلئے اللہ نے تو کوئی لشکر آسمان سے بھیجا نہ کوئی خاص اہتمام کرنا پڑا نہ کسی بڑے سے بڑے کام کیلئے اس کی ضرورت، اس کا تو صرف حکم کر دینا کافی ہے،

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ (۲۹)

وہ تو صرف ایک زور کی چیخ تھی کہ یکایک وہ سب کے سب بجھ بھجا گئے

 نہ انہیں اس کے بعد کوئی تنبیہ کی گئی نہ ان پر فرشتے اتارے گئے، بلکہ بلا مہلت عذاب میں پکڑلئے گئے اور بغیر اس کے کہ کوئی نام لینے والا پانی دینے والا ہو اول سے آخر تک ایک ایک کرکے سب کے سب فنا کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور ان کے شہر انطاکیہ کے دروازے کی چوکھٹ تھام کر اس زور سے ایک آواز لگائی کہ کلیجے پاش پاش ہوگئے، دل اڑگئے اور روحیں پرواز کر گئیں۔

يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ

 (ایسے) بندوں پر افسوس!

مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۳۰)

کبھی بھی کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا جس کی ہنسی انہوں نے نہ اڑائی ہو۔‏

بندوں پر حسرت و افسوس ہے۔ بندے کل اپنے اوپر کیسے نادم ہوں گے۔ بار بار کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم نے تو خود اپنا برا کیا۔

 بعض قرأتوں میں یا حسرۃ العباد علی انفسھا بھی ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن عذابوں کو دیکھ کر ہاتھ ملیں گے کہ انہوں نے کیوں رسولوں کو جھٹلایا؟ اور کیوں اللہ کے فرمان کے خلاف کیا؟

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ (۳۱)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہم نے غارت کر دیا کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‏

دنیا میں تو ان کا یہ حال تھا کہ جب کبھی جو رسول آیا انہوں نے بلا تامل جھٹلایا اور دل کھول کر ان کی بے ادبی اور توہین کی۔ وہ اگر یہاں تامل کرتے تو سمجھ لیتے کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے پیغمبروں کی نہ مانی تھی وہ غارت و برباد کر دیئے گئے ان کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ایک بھی تو ان میں سے نہ بچ سکا نہ اس دار آخرت سے کوئی واپس پلٹا ۔

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (۳۲)

اور نہیں ہے کوئی جماعت مگر یہ وہ جمع ہو کر ہمارے سامنے حاضر کی جائے گی

اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو دہریہ تھے جن کا خیال تھا کہ یونہی دنیا میں مرتے جیتے چلے جائیں گے، لوٹ لوٹ کر اس دنیا میں آئیں گے۔ تمام گزرے ہوئے موجود اور آنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے اور وہاں ہر ایک بھلائی برائی کا بدلہ پائیں گے

جیسے اور آیت میں فرمایا:

وَإِنَّ كُـلاًّ لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ  (۱۱:۱۱۱)

ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ تیرا رب عطا فرمائے گا،

وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (۳۳)

اور ان کے لئے ایک نشانی (خشک) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کر دیا اور اس سے غلہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں۔‏

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے وجود پر، میری زبردست قدرت پر اور مردوں کو زندگی دینے پر ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مردہ زمین جو بنجر خشک پڑی ہوئی ہوتی ہے جس میں کوئی روئیدگی، تازگی، ہریالی ، گھاس وغیرہ نہیں ہوتی۔ میں اس پر آسمان سے پانی برساتا ہوں وہ مردہ زمین جی اٹھتی ہے لہلہانے لگتی ہے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اُگ جاتا ہے اور قسم قسم کے پھل پھول وغیرہ نظر آنے لگتے ہیں۔

تو فرماتا ہے کہ ہم اس مردہ زمین کو زندہ کر دیتے ہیں اور اس سے قسم قسم کے اناج پیدا کرتے ہیں بعض کو تم کھاتے ہو بعض تمہارے جانور کھاتے ہیں۔

وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ (۳۴)

اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کر دیئے اور جن میں ہم نے چشمے بھی جاری کر دیئے ہیں۔‏

ہم اس میں کھجوروں کے انگوروں کے باغات وغیرہ تیار کر دیتے ہیں۔ نہریں جاری کر دیتے ہیں جو باغوں اور کھیتوں کو سیراب، سرسبز و شاداب کرتی رہتی ہیں۔

لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ (۳۵)

تاکہ (لوگ) اس کے پھل کھائیں اور اس کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا پھر کیوں شکر گزاری نہیں کرتے۔‏

یہ سب اس لئے کہ ان درختوں کے میوے دنیا کھائے، کھیتیوں سے، باغات سے نفع حاصل کرے، حاجتیں پوری کرے، یہ سب اللہ کی رحمت اور اس کی قدرت سے پیدا ہو رہے ہیں، کسی کے بس اور اختیار میں نہیں، تمہارے ہاتھوں کی پیدا کردہ یا حاصل کردہ چیزیں نہیں۔ نہ تمہیں انہیں اگانے کی طاقت نہ تم میں انہیں بچانے کی قدرت، نہ انہیں پکانے کا تمہیں اختیار۔ صرف اللہ کے یہ کام ہیں اور اسی کی یہ مہربانی ہے اور اس کے احسان کے ساتھ ہی ساتھ یہ اس کی قدرت کے نمونے ہیں۔

پھر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو شکر گزاری نہیں کرتے؟

اور اللہ تعالیٰ کی بے انتہا ان گنت نعمتیں اپنے پاس ہوتے ہوئے اس کا احسان نہیں مانتے؟

 ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ باغات کے پھل جو کھاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کا بویا ہوا یہ پاتے ہیں،

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ (۳۶)

وہ پاک ذات ہے جس نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں

 پاک اور برتر اور تمام نقصانات سے بری وہ اللہ ہے جس نے زمین کی پیداوار کو اور خود تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور مختلف قسم کی مخلوق کے جوڑے بنائے ہیں جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَمِن كُلِّ شَىْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (۵۱:۴۹)

ہم نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو۔

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ (۳۷)

اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں

اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک اور نشانی بیان ہو رہی ہے اور وہ دن رات ہیں جو اجالے اور اندھیرے والے ہیں اور برابر ایک دوسرے کے پیچھے جا رہے ہیں جیسے فرمایا :

يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا  (۷:۵۴)

رات سے دن کو چھپاتا ہے اور رات دن کو جلدی جلدی ڈھونڈتی آتی ہے۔

یہاں بھی فرمایا رات میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں، دن تو ختم ہوا اور رات آ گئی اور ہر طرف سے اندھیرا چھا گیا۔

حدیث میں ہے:

 جب ادھر سے رات آ جائے اور دن ادھر سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار افطار کر لے۔

 ظاہر آیت تو یہی ہے لیکن حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب مثل آیت کے ہے

تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ (۳:۲۷)

اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے۔

 حضرت امام ابن جریر اس قول کو ضعیف بتاتے ہیں اور فرماتے اس آیت میں جو لفظ ایلاج ہے اس کے معنی ایک کی کمی کر کے دوسری میں زیادتی کرنے کے ہیں اور یہ مراد اس آیت میں نہیں، امام صاحب کا یہ قول حق ہے۔

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ

اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے

مُسْتَقَر سے مراد یا تو مستقر مکانی یعنی جائے قرار ہے اور وہ عرش تلے کی وہ سمت ہے پس ایک سورج ہی نہیں بلکہ کل مخلوق عرش کے نیچے ہی ہے اس لئے کہ عرش ساری مخلوق کے اوپر ہے اور سب کو احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہ کرہ نہیں ہے جیسے کہ ہئیت داں کہتے ہیں۔ بلکہ وہ مثل قبے کے ہے جس کے پائے ہیں اور جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں انسانوں کے سروں کے اوپر اوپر والے عالم میں ہے، پس جبکہ سورج فلکی قبے میں ٹھیک ظہر کے وقت ہوتا ہے اس وقت وہ عرش سے بہت قریب ہوتا ہے پھر جب وہ گھوم کر چوتھے فلک میں اسی مقام کے بالمقابل آ جاتا ہے یہ آدھی رات کا وقت ہوتا ہے جبکہ وہ عرش سے بہت دور ہو جاتا ہے پس وہ سجدہ کرتا ہے اور طلوع کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے۔

 صحیح بخاری میں ہے

 حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں سورج کے غروب ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا جانتے ہو یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟

میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے،

 آپﷺ نے فرمایا وہ عرش تلے جا کر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر آپ نے آیت وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ تلاوت کی

 اور حدیث میں ہے کہ آپ سے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا اس کی قرار گاہ عرش کے نیچے ہے،

مسند احمد میں اس سے پہلے کی حدیث میں یہ بھی ہے:

 وہ اللہ تعالیٰ سے واپس لوٹنے کی اجازت طلب کرتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے ۔ گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ جاں سے آیا تھا وہیں لوٹ جا تو وہ اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے نکلتا ہے اور یہی اس کا مستقر ہے، پھر آپ نے اس آیت کے ابتدائی فقرے کو پڑھا۔

 ایک روایت میں یہ بھی ہے:

 قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے لیکن اجازت نہ دی جائے بلکہ کہاں جائے جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا پس وہ مغرب سے ہی طلوع ہوگا یہی معنی ہیں اس آیت کے ۔

 عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 سورج طلوع ہوتا ہے اسے انسانوں کے گناہ لوٹا دیتے ہیں وہ غروب ہو کر سجدے میں پڑتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے، ایک دن یہ غروب ہو کر بہ عاجزی سجدہ کرے گا اور اجازت مانگے گا لیکن اجازت نہ دی جائے گی وہ کہے گا کہ راہ دور ہے اور اجازت ملی نہیں تو پہنچ نہیں سکوں گا پھر کچھ دیر روک رکھنے کے بعد اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے غروب ہوا تھا وہیں سے طلوع ہو جا۔ یہی قیامت کا دن ہو گا جس دن ایمان لانا محض بےسود ہو گا اور نیکیاں کرنا بھی ان کے لئے جو اس سے پہلے ایمان دار اور نیکو کار نہ تھے بیکار ہو گا

 اور یہ بھی کہا گیا ہے:

 مُسْتَقَر سے مراد اس کے چلنے کی انتہا ہے پوری بلندی جو گرمیوں میں ہوتی ہے اور پوری پستی جو جاڑوں میں ہوتی ہے۔

 پس یہ ایک قول ہوا۔

 دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کے اس لفظ مُسْتَقَر سے مراد اس کی چال کا خاتمہ ہے قیامت کے دن اس کی حرکت باطل ہو جائے گی یہ بےنور ہو جائے گا اور یہ عالم کل کا کل ختم ہو جائے گا۔ یہ مستقر زمانی ہے۔

 حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وہ اپنے مستقر پر چلتا ہے یعنی اپنے وقت اور اپنی میعاد پر جس سے تجاوز کر نہیں سکتا جو اس کے راستے جاڑوں کے اور گرمیوں کے مقرر ہیں انہی راستوں سے آتا جاتا ہے،

 ابن مسعود اور ابن عباسی رضی اللہ عنہم کی قرأت لَامُسْتَقَرٍّ لَهَا ہے یعنی اس کے لئے سکون و قرار نہیں بلکہ دن رات بحکم اللہ چلتا رہتا ہے نہ رکے نہ تھکے جیسے فرمایا :

وَسَخَّر لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَينَ (۱۴:۳۳)

اس نے تمہارے لئے سورج چاند کو مسخر کیا ہے

 جو نہ تھکیں نہ ٹھہریں قیامت تک چلتے پھرتے ہی رہیں گے۔

ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۳۸)

یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا۔

یہ اندازہ اس اللہ کا ہے جو غالب ہیں جس کی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا جس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا، وہ علیم ہے ، ہر حرکت و سکون کو جانتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت کاملہ سے اس کی چال مقرر کی ہے جس میں نہ اختلاف واقع ہو سکے نہ اس کے برعکس ہو سکے

 جیسے فرمایا:

فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۶:۹۶)

صبح کا نکالنے والا جس نے رات کو راحت کا وقت بنایا اور سورج چاند کو حساب سے مقرر کیا، یہ ہے اندازہ غالب ذی علم کا۔

 حم سجدہ کی آیت کو بھی اسی طرح ختم کیا۔

ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ (۳۹)

اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے

پھر فرماتا ہے چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں وہ ایک جداگانہ چال چلتا ہے جس سے مہینے معلوم ہو جائیں جیسے سورج کی چال سے رات دن معلوم ہو جاتے ہیں،

جیسے فرمان ہے :

يَسْـَلُونَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (۲:۱۸۹)

کہ لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو جواب دے کہ وقت اور حج کے موسم کو بتانے کے لئے ہے

 اور آیت میں فرمایا:

هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ (۱۰:۵)

اس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور دیا ہے اور اس کی منزلیں ٹھہرا دی ہیں تاکہ تم سالوں کو اور حساب کو معلوم کر لو۔

 ایک اور  آیت میں ہے:

وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ءَايَتَيْنِ فَمَحَوْنَآ ءَايَةَ الَّيْلِ ۔۔۔وَكُلَّ شَىْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلاً  (۱۷:۱۲)

ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنا دیا ہے، رات کی نشانی کو ہم نے دھندلا کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن کیا ہے تاکہ تم اس میں اپنے رب کی نازل کردہ روزی کو تلاش کر سکو

اور برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو ہم نے ہرچیز کو خوب تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔

 پس سورج کی چمک دمک اس کے ساتھ مخصوص ہے اور چاند کی روشنی اسی میں ہے۔ اس کی اور اس کی چال بھی مختلف ہے۔

 سورج ہر دن طلوع و غروب ہوتا ہے اسی روشنی کے ساتھ ہوتا ہے ہاں اس کے طلوع و غروب کی جگہیں جاڑے میں اور گرمی میں الگ الگ ہوتی ہیں، اسی سبب سے دن رات کی طولانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے سورج دن کا ستارہ ہے اور چاند رات کا ستارہ ہے

 اس کی منزلیں مقرر ہیں۔ مہینے کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے بہت چھوٹا سا ہوتا ہے روشنی کم ہوتی ہے، دوسری شب روشنی اس سے بڑھ جاتی ہے اور منزل بھی ترقی کرتی جاتی ہے، پھر جوں جوں بلند ہوتا جاتا ہے روشنی بڑھتی جاتی ہے، گو اس کی نورانیت سورج سے لی ہوئی ہوتی ہے آخر چودہویں رات کو چاند کامل ہو جاتا ہے اور اسی کی چاندنی بھی کمال کی ہو جاتی ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے اور اسی طرح درجہ بدرجہ بتدریج گھلتا ہوا مثل کھجور کے خوشے کی ٹہنی کے ہو جاتا ہے جس پر تر کھجوریں لٹکتی ہوں اور وہ خشک ہو کر بل کھا گئی ہو۔ پھر اسے نئے سرے سے اللہ تعالیٰ دوسرے مہینے کی ابتداء میں ظاہر کرتا ہے،

 عرب میں چاند کی روشنی کے اعتبار سے مہینے کی راتوں کے نام رکھ لئے گئے ہیں، مثلاً پہلی تین راتوں کا نام غرر ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام نفل ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام تسع ہے، اس لئے کہ ان کی آخری رات نویں ہوتی ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام عشر ہے، اس لئے کہ اس کا شروع دسویں سے ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام بیض ہے، اس لئے کہ ان راتوں میں چاندنی کی روشنی آخر تک رہا کرتی ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام ان کے ہاں ورع ہے، یہ لفظ ورعاء کی جمع ہے، ان کا یہ نام اس لئے رکھا ہے کہ سولہویں کو چاند ذرا دیر سے طلوع ہوتا ہے تو تھوڑی دیر تک اندھیرا یعنی سیاہی رہتی ہے اور عرب میں اس بکری کو جس کا سر سیاہ ہو شاۃ درعاء کہتے ہیں، اس کے بعد کی تین راتوں کو ظلم کہتے ہیں، پھر تین کو ضاوس پھرتین کو دراری پھر تین کو محاق اس لئے کہ اس میں چاند ختم ہو جاتا ہے اور مہینہ بھی ختم ہو جاتا ہے

 ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان میں سے تسع اور عشر کو قبول نہیں کرتے، ملاحظہ ہو کتاب غریب المصنف۔

لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے

سورج چاند کی حدیں اس نے مقرر کی ہیں ناممکن ہے کہ کوئی اپنی حد سے ادھر ادھر ہو جائے یا آگے پیچھے ہو جائے، اس کی باری کے وقت وہ گم ہے اس کی باری کے وقت یہ خاموش ہے۔

 حسن کہتے ہیں یہ چاند رات کو ہے۔

 ابن مبارک کا قول ہے ہوا کے پر ہیں اور چاند پانی کے غلاف تلے جگہ کرتا ہے،

 ابو صالح فرماتے ہیں اس کی روشنی اس کی روشنی کو پکڑ نہیں سکتی،

عکرمہ فرماتے ہیں رات کو سورج طلوع نہیں ہو سکتا۔ نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے،

یعنی رات کے بعد ہی رات نہیں آ سکتی بلکہ درمیان میں دن آ جائے گا، پس سورج کی سلطنت دن کو ہے اور چاند کی بادشاہت رات کو ہے، رات ادھر سے جاتی ہے ادھر سے دن آتا ہے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں، لیکن نہ تصادم کا ڈر ہے نہ بےنظمی کا خطرہ ہے، نہ یہ کہ دن ہی دن چلا جائے رات نہ آئے نہ اس کے خلاف، ایک جاتا ہے دوسرا آتا ہے، ہر ایک اپنے اپنے وقت پر غائب و حاضر ہوتا رہتا ہے،

وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (۴۰)

اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔‏

 سب کے سب یعنی سورج چاند دن رات فلک آسمان میں تیر رہے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں۔

 زید بن عاصم کا قول ہے کہ آسمان و زمین کے درمیان فلک میں یہ سب آ جا رہے ہیں، لیکن یہ بہت غریب بلکہ منکر قول ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں فلک مثل چرخے کے تکلے کے ہے بعض کہتے ہیں مثل چکی کے لوہے کے پاٹ کے۔

وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (۴۱)

ان کے لئے ایک نشانی (یہ بھی) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا

وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ (۴۲)

اور ان کے لئے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔‏

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بتا رہا ہے کہ اس نے سمندر کو مسخر کر دیا ہے جس میں کشتیاں برابر آمد و رفت کر رہی ہیں۔ سب سے پہلی کشتی حضرت نوح علیہ السلام کی تھی جس پر سوار ہو کر وہ خود اور ان کے ساتھ ایماندار بندے نجات پا گئے تھے باقی روئے زمین پر ایک انسان بھی نہ بچا تھا، ہم نے اس زمانے والے لوگوں کے آباؤ اجداد کو کشتی میں بٹھا لیا تھا جو بالکل بھرپور تھی۔ کیونکہ اس میں ضرورت اکل اسباب بھی تھا اور ساتھ ہی حیوانات بھی تھے جو اللہ کے حکم سے اس میں بٹھا لئے گئے تھے ہر قسم کے جانور کا ایک ایک جوڑا تھا، بڑا باوقار مضبوط اور بوجھل وہ جہاز تھا، یہ صفت بھی صحیح طور پر حضرت نوح کی کشتی پر صادق آتی ہے۔

 اسی طرح کی خشکی کی سواریاں بھی اللہ نے ان کے لئے پیدا کر دی ہیں مثلاً اونٹ جو خشکی میں وہی کام دیتا ہے جو تری میں کشتی کام دیتی ہے۔ اسی طرح دیگر چوپائے جانور ہیں

 اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشتی نوح نمونہ بنی اور پھر اس نمونے پر اور کشتیاں اور جہاز بنتے چلے گئے۔ اس مطلب کی تائید آیت لِنَجۡعَلَهَا لَكُمۡ تَذۡكِرَةً۬ وَتَعِيَہَآ أُذُنٌ۬ وَٲعِيَةٌ۬ (۶۹:۱۲)سے بھی ہوتی ہے

 یعنی جب پانی نے طغیانی کی تو ہم نے انہیں کشتی میں سوار کر لیا تاکہ اسے تمہارے لئے ایک یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔

وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ (۴۳)

اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ڈبو دیتے۔ پھر نہ تو کوئی ان کا فریاد رس ہوتا نہ بچائے جائیں۔‏

ہمارے اس احسان کو فراموش نہ کرو کہ سمندر سے ہم نے تمہیں پار کر دیا اگر ہم چاہتے تو اسی میں تمہیں ڈبو دیتے کشتی کی کشتی بیٹھ جاتی کوئی نہ ہوتا جو اس وقت تمہاری فریاد رسی کرتا نہ کوئی ایسا تمہیں ملتا جو تمہیں بچا سکتا۔

إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ (۴۴)

لیکن ہم اپنی طرف سے رحمت کرتے ہیں اور ایک مدت تک کے لئے انہیں فائدے دے رہے ہیں۔‏

 لیکن یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ خشکی اور تری کے لمبے چوڑے سفر تم با آرام و راحت طے کر رہے ہو اور ہم تمہیں اپنے ٹھہرائے ہوئے وقت تک ہر طرح سلامت رکھتے ہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۴۵)

اور ان سے جب (کبھی) کہا جاتا ہے کہ اگلے پچھلے (گناہوں) سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‏

کافروں کی سرکشی نادانی اور عناد تکبر بیان ہو رہا ہے کہ جب ان سے گناہوں سے بچنے کو کہا جاتا ہے کہ جو کر چکے ان پر نادم ہو جاؤ ان سے توبہ کر لو اور آئندہ کے لئے ان سے احتیاط کرو۔ اس سے اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تمہیں اپنے عذابوں سے بچا لے گا۔

تو وہ اس پر کار بند ہوا تو ایک طرف اور منہ پھلا لیتے ہیں، قرآن نے اس جملے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ آگے جو آیت ہے وہ اس پر صاف طور سے دلالت کرتی ہے۔ اس میں ہے کہ

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ (۴۶)

اور ان کے پاس تو ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں آتی جس سے یہ بےرخی نہ برتتے ہوں ۔‏

یہی ایک بات کیا ان کی تو عادت ہو گئی ہے کہ اللہ کی ہر بات سے منہ پھیر لیں۔ نہ اسکی توحید کو مانتے ہیں نہ رسولوں کو سچا جانتے ہیں نہ ان میں غور و خوض کی عادت نہ ان میں قبولیت کا مادہ، نہ نفع کو حاصل کرنے کا ملکہ۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ

اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرو،

ان کو جب کبھی اللہ کی راہ میں خیرات کرنے کو کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس میں فقراء مساکین اور محتاجوں کا حصہ بھی ہے۔

قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۴۷)

تو یہ کفار ایمان والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں؟ جنہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود کھلا پلا دیتا تم تو ہو ہی کھلی گمراہی میں۔‏

 تو یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر اللہ کا ارادہ ہوتا تو ان غریبوں کو خود ہی دیتا، جب اللہ ہی کا ارادہ انہیں دینے کا نہیں تو ہم اللہ کے ارادے کے خلاف کیوں کریں؟ تم جو ہمیں خیرات کی نصیحت کر رہے ہو اس میں بالکل غلطی پر ہو۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پچھلا جملہ کفار کی تردید میں اللہ کی طرف سے ہو۔

 یعنی اللہ تعالیٰ ان کفار سے فرما رہا ہے کہ تم کھلی گمراہی میں ہو لیکن ان سے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کفار کے جواب کا حصہ ہے۔ واللہ اعلم۔

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۴۸)

وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا، سچے ہو تو بتلاؤ۔‏

کافر چونکہ قیامت کے آنے کے قائل نہ تھے اس لئے وہ نبیوں سے اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ پھر قیامت کو لاتے کیوں نہیں؟

اچھا یہ تو بتاؤ کہ کب آئے گی؟

مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ (۴۹)

انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار ہے جو انہیں آپکڑے گی اور یہ باہم لڑائی جھگڑے میں ہی ہونگے ۔‏

اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے۔ کہ اس کے آنے کے لئے ہمیں کچھ سامان نہیں کرنے پڑیں گے، صرف ایک مرتبہ صور پھونک دیا جائے گا۔ دنیا کے لوگ روزمرہ کی طرح اپنے اپنے کام کاج میں مشغول ہوں گے جب اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہیں لوگ ادھر ادھر گرنے شروع ہو جائیں گے اس آسمانی تیز و تند آواز سے سب کے سب محشر میں اللہ کے سامنے جمع کر دیئے جائیں گے

فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (۵۰)

اس وقت نہ تو یہ وصیت کر سکیں گے اور نہ اپنے اہل کی طرف لوٹ سکیں گے۔‏

 اس چیخ کے بعد کسی کو اتنی بھی مہلت نہیں ملنی کہ کسی سے کچھ کہہ سن سکے، کوئی وصیت اور نصیحت کر سکے اور نہ ہی انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی طاقت رہے گی۔

 اس آیت کے متعلق بہت سے آثار و احادیث ہیں جنہیں ہم دوسری جگہ وارد کر چکے ہیں۔

اس پہلے نفخہ کے بعد دوسرا نفخہ ہو گا جس سے سب کے سب مر جائیں گے، کل جہان فنا ہو جائے گا، بجز اس ہمیشگی والے اللہ عزوجل کے جسے فنا نہیں۔ اس کے بعد پھر جی اٹھنے کا نفخہ ہو گا۔

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ (۵۱)

تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے۔‏

ان آیتوں میں دوسرے نفخہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ جس سے مردے جی اٹھیں گے۔

 يَنْسِلُونَ کا مصدر نسلان سے ہے اور اس کے معنی تیز چلنے کے ہیں۔

جیسے اور آیت میں ہے:

يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الاٌّجْدَاثِ سِرَاعاً كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ (۷۰:۴۳)

جس دن یہ قبروں سے نکل کر اس تیزی سے چلیں گے کہ گویا وہ کسی نشان منزل کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔

قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ۜ ۗ

کہیں گے ہائے ہائے! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا

چونکہ دنیا میں انہیں قبروں سے جی اٹھنے کا ہمیشہ انکار رہا تھا اس لئے آج یہ حالت دیکھ کر کہیں گے کہ ہائے افسوس ہمارے سونے کی جگہ سے ہمیں کس نے اٹھایا؟

 اس سے قبر کے عذاب کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ جس ہول و شدت کو جس تکلیف اور مصیبت کو یہ اب دیکھیں گے اس کی بہ نسبت تو قبر کے عذاب بیحد خفیف ہی تھے گویا کہ وہ وہاں آرام میں تھے،

بعض بزرگوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے پہلے ذرا سی دیر کے لئے فی الواقع انہیں نیند آ جائے گی،

حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلے نفخہ اور اس دوسرے نفخہ کے درمیان یہ سو جائیں گے، اس لئے اب اٹھ کر یوں کہیں گے،

هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ (۵۲)

یہی ہے جس کا وعدہ رحمٰن نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا۔‏

اس کا جواب ایماندار لوگ دیں گے کہ اسی کا وعدہ اللہ نے کیا تھا اور یہی اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جواب فرشتے دیں گے۔

 بہرحال دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ مؤمن بھی کہیں اور فرشتے بھی کہیں واللہ اعلم۔

عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں یہ قول کافروں کا ہی ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جسے ہم نے پہلے نقل کیا جیسے کہ سورہ صافات میں ہے کہ یہ کہیں گے ہائے افسوس ہم پر یہ جزا کا دن ہے

هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (۳۷:۲۱)

یہی فیصلہ کا دن ہے جسے ہم جھٹلاتے تھے

 اور آیت میں ہے:

وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ (۳۰:۵۵)

جس دن قیامت برپا ہو گی گنہگار قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ وہ صرف ایک ساعت ہی رہے ہیں اسی طرح وہ ہمیشہ حق سے پھرے رہے،

اس وقت با ایمان اور علماء فرمائیں گے تم اللہ کے لکھے ہوئے کے مطابق قیامت کے دن تک رہے یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم محض بےعلم ہو۔ تم تو اسے ان ہونی مانتے تھے حالانکہ وہ ہم پر بالکل سہل ہے

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (۵۳)

یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے۔‏

ایک آواز کی دیر ہے کہ ساری مخلوق ہمارے سامنے موجود ہو جائے گی،

جیسے اور آیت میں ہے

فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ (۷۹:۱۳۱۴)

ایک ڈانٹ کے ساتھ ہی سب میدان میں مجتمع موجود ہوں گے۔

 اور آیت میں فرمایا:

وَمَآ أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ  (۱۶:۷۷)

امر قیامت تو مثل آنکھ جھپکانے کے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے ،

 اور جیسے فرمایا :

يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً  (۱۷:۵۲)

جس دن وہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی کم مدت رہے۔

فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۵۴)

پس آج کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں انہیں بدلہ دیا جائے گا، مگر صرف ان ہی کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے۔‏

 الغرض حکم کے ساتھ ہی سب حاضر سامنے موجود۔ اس دن کسی کا کوئی عمل مارا نہ جائے گا، ہر ایک کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا۔

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ (۵۵)

جنتی لوگ آج کے دن اپنے (دلچسپ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہیں  

جنتی لوگ میدان قیامت سے فارغ ہو کر جنتوں میں بہ صدا اکرام و بہ ہزار تعظیم پہنچائے جائیں گے اور وہاں کی گوناں گوں نعمتوں اور راحتوں میں اس طرح مشغول ہوں گے کہ کسی دوسری جانب نہ التفات ہو گا نہ کسی اور طرف کا خیال، یہ جہنم سے جہنم والوں سے بےفکر ہوں گے۔ اپنی لذتوں اور مزے میں منہمک ہوں گے۔ اس قدر مسرور ہوں گے کہ ہر ایک چیز سے بےخبر ہو جائیں گے

هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ (۵۶)

وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے۔‏

نہایت ہشاش بشاش ہوں گے، کنواری حوریں انہیں ملی ہوئی ہوں گی، جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے، طرح طرح کی راگ راگنیاں اور خوش کن آوازیں دلریبی سے ان کے دلوں کو لبھا رہی ہوں گیں۔ ان کے ساتھ ہی اس لطف و سرور میں ان کی بیویاں اور ان کی حوریں بھی شامل ہوں گی۔

لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ (۵۷)

ان کے لئے جنت میں ہر قسم کے میوے ہوں گے اور بھی جو کچھ وہ طلب کریں۔‏

جنتی میوے دار درختوں کے ٹھنڈے اور گھنے سایوں میں بہ آرام تختوں پر تکیوں سے لگے بےغمی اور بےفکری کے ساتھ اللہ کی مہمانداری سے مزے اٹھا رہے ہوں گے۔ ہر قسم کے میوے بکثرت ان کے پاس موجود ہوں گے اور بھی جس چیز کو جی چاہے جو خواہش ہو پوری ہو جائے گی۔

 سنن ابن ماجہ کی کتاب الزہد میں اور ابن ابی حاتم میں ہے

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 کیا تم میں سے کوئی اس جنت میں جانے کا خواہش مند اور اس کے لئے تیاریاں کرنے والا اور مستعدی ظاہر کرنے والا ہے؟ جس میں کوئی خوف و خطر نہیں، رب کعبہ کی قسم وہ سرا سر نور ہی نور ہے اس کی تازگیاں بیحد ہیں۔ اس کا سبزہ لہلہا رہا ہے اس کے بالا خانے مضبوط بلند اور پختہ ہیں اس کی نہریں بھری ہوئی اور بہ رہی ہیں۔ اس کے پھل ذائقے دار، پکے ہوئے اور بکثرت ہیں۔ اس میں خوبصورت نوجوان حوریں ہیں اور ان کے لباس ریشمی اور بیش قیمت ہیں، اس کی نعمتیں ابدی اور لازوال ہیں، وہ سلامتی کا گھر ہے، وہ سبز اور تازے پھلوں کا باغ ہے، اس کی نعمتیں بکثرت اور عمدہ ہیں اور اس کے محلات بلند و بالا اور مزین ہیں۔

یہ سن کر جتنے صحابہ تھے سب نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس کے لئے تیاری کرنے اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں،

 آپ نے فرمایا ان شاء اللہ کہو

چنانچہ انہوں نے کہا ان شاء اللہ۔

سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ (۵۸)

مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام ' کہا جائے گا ۔‏

اللہ کی طرف سے ان پر سلام ہی سلام ہے۔ خود اللہ کا اہل جنت کے لئے سلام ہے،

جیسے فرمایا:

تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَـمٌ  (۳۳:۴۴)

ان کا تحفہ جس روز وہ اللہ سے ملیں گے سلام ہو گا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنتی اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے کہ اوپر کی جانب سے ایک نور چمکے گا یہ اپنا سر اٹھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور رب فرمائے گا السلام علیکم یا اھل الجنۃ

 یہی معنی ہیں اس آیت سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ کے

 جنتی صاف طور سے اللہ کو دیکھیں گے اور اللہ انہیں دیکھے گا کسی نعمت کی طرف اس وقت وہ آنکھ بھی نہ اٹھائیں گے یہاں تک کہ حجاب حائل ہو جائے گا اور نور و برکت ان کے پاس باقی رہ جائے گی،

 یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند کمزور ہے

 ابن ماجہ میں بھی کتاب السنہ میں یہ روایت موجود ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جب دوزخیوں اور جنتیوں سے فارغ ہو گا تو ابر کے سایہ میں متوجہ ہو گا فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے جنتیوں کو سلام کرے گا اور جنتی جواب دیں گے،

 قرظی فرماتے ہیں:

 یہ اللہ کے فرمان سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ میں موجود ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا مجھ سے مانگو جو چاہو، یہ کہیں گے پروردگار سب کچھ تو موجود ہے کیا مانگیں؟

 اللہ فرمائے گا ہاں ٹھیک ہے پھر بھی جو جی میں آئے طلب کرو،

 وہ کہیں گے بس تیری رضامندی مطلوب ہے،

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ تو میں تمہیں دے چکا اور اسی کی بنا پر تم میرے اس مہمان خانے میں آئے اور میں نے تمہیں اس کا مالک بنا دیا،

جنتی کہیں گے پھر اللہ ہم تجھ سے کیا مانگیں؟ تو نے تو ہمیں اتنا دے رکھا ہے کہ اگر تو حکم دے تو ہم میں سے ایک شخص کل انسانوں اور جنوں کی دعوت کر سکتا ہے اور انہیں پیٹ بھر کر کھلا پلا اور پہنا اڑھا سکتا ہے۔ بلکہ ان کی سب ضروریات پوری کر سکتا ہے اور پھر بھی اس کی ملکیت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔

 اللہ فرمائے گا ابھی میرے پاس اور زیادتی ہے چنانچہ فرشتے ان کے پاس اللہ کی طرف سے نئے نئے تحفے لائیں گے۔

 امام ابن جریر اس روایت کو بہت سی سندوں سے لائے ہیں لیکن یہ روایت غریب ہے، واللہ اعلم

وَاُمتازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (۵۹)

اے گناہ گارو ! آج تم الگ ہو جاؤ ۔‏

فرماتا ہے کہ نیک کاروں سے بدکاروں کو چھانٹ دیا جائے گا، کافروں سے کہہ دیا جائے گا کہ مؤمنوں سے دور ہو جاؤ، پھر ہم ان میں امتیاز کر دیں گے انہیں الگ الگ کر دیں گے۔

 اسی طرح سورہ یونس میں ہے :

وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ (۳۰:۱۴)

جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز سب کے سب جدا جدا ہو جائیں گے۔

 یعنی ان کے دو گروہ بن جائیں گے۔

سورہ و الصافات میں فرمان ہے:

احْشُرُواْ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَأَزْوَجَهُمْ وَمَا كَانُواْ يَعْبُدُونَ ـ مِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَطِ الْجَحِيمِ (۳۷:۲۲،۲۳)

ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے جھوٹے معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے جمع کرو اور انہیں جہنم کا راستہ دکھاؤ۔

أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۶۰)

اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

جنتیوں پر جو طرح طرح کی نوازشیں ہو رہی ہوں گی اس طرح جہنمیوں پر طرح طرح کی سختیاں ہو رہی ہوں گی انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا، وہ تمہارا دشمن ہے؟

 لیکن اس پر بھی تم نے مجھ رحمٰن کی نافرمانی کی اور اس شیطان کی فرمانبرداری کی۔ خالق مالک رازق میں اور فرمانبرداری کی جائے میرے راندہ درگاہ کی؟

وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (۶۱)

اور میری عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے

میں تو کہہ چکا تھا کہ ایک میری ہی ماننا صرف مجھ ہی کو پوجنا مجھ تک پہنچنے کا سیدھا قریب کا اور سچا راستہ یہی ہے لیکن تم الٹے چلے، یہاں بھی الٹے ہی جاؤ، ان نیک بختوں کی اور تمہاری راہ الگ الگ ہے یہ جنتی ہیں تم جہنمی ہو۔

میں تو کہہ چکا تھا کہ ایک میری ہی ماننا صرف مجھ ہی کو پوجنا مجھ تک پہنچنے کا سیدھا قریب کا اور سچا راستہ یہی ہے لیکن تم الٹے چلے، یہاں بھی الٹے ہی جاؤ، ان نیک بختوں کی اور تمہاری راہ الگ الگ ہے یہ جنتی ہیں تم جہنمی ہو۔

وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ (۶۲)

شیطان نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔‏

جِبِلًّا سے مراد خلق کثیر بہت ساری مخلوق ہے

 شیطان نے تم میں سے بکثرت لوگوں کو بہکا دیا اور صحیح راہ سے ہٹا دیا،

 تم میں اتنی بھی عقل نہ تھی کہ تم اس کا فیصلہ کر سکتے کہ رحمٰن کی مانیں یا شیطان کی؟

 اللہ کو پوجیں یا مخلوق کو؟

 ابن جریر میں ہے:

 قیامت کے دن اللہ کے حکم سے جہنم اپنی گردن نکالے گی جس میں سخت اندھیرا ہو گا اور بالکل ظاہر ہو گی وہ بھی کہے گی کہ اے انسانو! کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا؟

وہ تمہارا ظاہری دشمن ہے اور میری عبادت کرنا یہ سیدھی راہ ہے، اس نے تم میں سے اکثروں کو گمراہ کر دیا کیا تم سمجھتے نہ تھے؟

 اے گنہگارو! آج تم جدا ہو جاؤ۔

 اس وقت نیک بدا الگ الگ ہو جائیں گے، ہر ایک گھنٹوں کے بل گر پڑے گا، ہر ایک کو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا، آج ہی بدلے دیئے جاؤ گے جو کر کے آئے ہو۔

هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (۶۳)

یہی وہ دوزخ ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔‏

جہنم بھڑکتی ہوئی اور شعلے مارتی ہوئی چیختی ہوئی اور چلاتی ہوئی سامنے ہو گی اور کفار سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے جس سے وہ ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے۔

اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (۶۴)

اپنے کفر کا بدلہ پانے کے لئے آج اس میں داخل ہو جاؤ ۔‏

 لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو اٹھو اس میں کود پڑو،

چنانچہ اور آیت میں ہے:

يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ـ هَـذِهِ النَّارُ الَّتِى كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ـ أَفَسِحْرٌ هَـذَا أَمْ أَنتُمْ لاَ تُبْصِرُونَ (۵۲:۱۳،۱۵)

جس دن یہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے اور کہا جائے گا یہی وہ دوزخ ہے جس کا انکار کرتے رہے ہو۔ بتاؤ تو یہ جادو ہے؟ یا تم اندھے ہوگئے ہو؟

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۶۵)

ہم آج کے دن انکے منہ پر مہر لگا دیں گے اور انکے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور انکے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے

قیامت والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے بدن کے اعضاء سچی سچی گواہی دینا شروع کر دیں گے،

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ یکایک ہنسے اور اس قدر ہنسے کہ مسوڑھے کھل گئے پھر ہم سے دریافت کرنے لگے کہ جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟

ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول اللہ ہی خوب جانتا ہے۔

 فرمایا بندہ جو اپنے رب سے قیامت کے دن جھگڑا کرے گا اس پر ۔

کہے گا کہ باری تعالیٰ کیا تو نے مجھے ظلم سے بچایا نہ تھا؟

 اللہ فرمائے گا ہاں،

تو یہ کہے گا بس پھر میں کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا۔ بس میرا اپنا بدن تو میرا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں۔

اللہ فرمائے گا اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ سہی اور میرے بزرگ فرشتے گواہ سہی۔

چنانچہ اسی وقت زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور اعضائے بدن سے فرمایا جائے گا بولو تم خود گواہی دو کہ تم سے اس نے کیا کیا کام لئے؟

 وہ صاف کھول کھول کر سچ سچ ایک ایک بات بتا دیں گے

پھر اس کی زبان کھول دی جائے گی تو یہ اپنے بدن کے جوڑوں سے کہے گا تمہارا ستیاناس ہو جائے تم ہی میرے دشمن بن بیٹھے میں تو تمہارے ہی بچاؤ کی کوشش کر رہا تھا اور تمہارے ہی فائدے کے لئے حجت بازی کر رہا تھا (نسائی وغیرہ)

نسائی کی ایک اور حدیث میں ہے :

تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ زبان بند ہو گی سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا۔

قیامت کی ایک طویل حدیث میں ہے:

 پھر تیسرے موقعہ پر اس سے کہا جائے گا کہ تو کیا ہے؟

یہ کہے گا تیرا بندہ ہوں تجھ پر تیری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیری کتاب پر ایمان لایا تھا روزے نماز زکوٰۃ وغیرہ کا پابند تھا اور بھی بہت سی اپنی نیکیاں بیان کر جائے گا

اس وقت اس سے کہا جائے گا، اچھا ٹھہر جا ہم گواہ لاتے ہیں

یہ سوچتا ہی ہو گا کہ گواہی میں کون پیش کیا جائے گا؟ یکایک اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ تو گواہی دے،

اب ران اور ہڈیاں اور گوشت بول پڑے گا اور اس منافق کے سارے نفاق کو اور تمام پوشیدہ اعمال کو کھول کر رکھ دے گا۔ یہ سب اس لئے ہو گا کہ پھر اس کی حجت باقی نہ رہے اور اس کا عذر ٹوٹ جائے۔ چونکہ رب اس پر ناراض تھا اس لئے اس سے سختی سے باز پرس ہوئی۔ (ابو داؤد)

حدیث میں ہے:

 منہ پر مہر لگنے کے بعد سب سے پہلے انسان کی بائیں ران بولے گی۔

حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں:

 قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤمن کو بلاکر اس کے گناہ اس کے سامنے پیش کر کے فرمائے گا، کہو یہ ٹھیک ہے؟

یہ کہے گا ہاں اللہ سب درست ہے بیشک مجھ سے یہ خطائیں سر زد ہوئی ہیں۔

 اللہ فرمائے گا اچھا ہم نے سب بخش دیں، لیکن یہ گفتگو اس طرح ہو گی کہ کسی ایک کو بھی اس کا مطلق علم نہ ہو گا اس کا ایک گناہ بھی مخلوق میں سے کسی پر ظاہر نہ ہو گا۔

 اب اس کی نیکیاں لائی جائیں گی اور انہیں کھول کھول کر ساری مخلوق کے سامن جتا جتا کر رکھی جائیں گی۔

اے ستار العیوب اے غفار الذنوب

 تو ہم گناہ گاروں کی پردہ پوشی کر اور ہم مجرموں سے درگزر فرما۔

 اللہ اس دن ہمیں رسوا اور ذلیل نہ کر اور اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے۔

 اے ذرہ نواز اللہ عزو جل! اپنی بےپایاں بخشش کی موسلا دھار بارش کا ایک قطرہ ادھر بھی برسا دے اور ہمارے تمام گناہوں کو دھو ڈال،

پروردگار ایک نظر رحمت ادھر بھی، مالک الملک ہم بھی تیری چشم رحمت کے منتظر ہیں،

اے غفور و رحیم اللہ کیا تیرے در سے بھی کوئی سوالی خالی جھولی لے کر نا امید ہو کر آج تک لوٹا ہے؟

 رحم کر رحم کر رحم کر۔

 اے مالک و خالق رحم کر اپنے انتقام سے بچا اپنے غصے سے نجات دے

 اپنی رحمتوں سے نواز دے اپنے عذابوں سے چھٹکارا دے

 اپنی جنت میں پہنچا دے، اپنے دیدار سے مشرف فرما۔ آمین آمین۔

اور کافر و منافق کو بلایا جائے گا اس کے بد اعمال اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہو یہ ٹھیک ہے؟

یہ صاف انکار کر جائے گا اور کڑکڑاتی ہوئی قسمیں کھانے لگے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ان فرشتوں نے جھوٹی تحریر لکھی ہے میں نے ہرگز یہ گناہ نہیں کئے،

 فرشتہ کہے گا ہائیں ہائیں کیا کہہ رہا ہے کیا فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں کام نہیں کیا؟

یہ کہے گا اللہ تیری عزت کی قسم محض جھوٹ ہے میں نے ہرگز نہیں کیا؟

 اب اللہ تعالیٰ اس کی زبان بندی کر دے گا، غالباً سب سے پہلے اس کی دائیں ران اس کے خلاف شہادت دے گی،

یہی مضمون اس آیت میں بیان ہو رہا ہے۔

وَاللّٰہِ رَبَّنَا مَا کُنَّا مُشرِکِیْنَ (۶:۲۳)

اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ (۶۶)

اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں بےنور کر دیتے پھر یہ راستے کی طرف دوڑتے پھرتے لیکن انہیں کیسے دکھائی دیتا؟

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ (۶۷)

اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں مسخ کر دیتے پھر وہ چل پھر سکتے اور نہ لوٹ سکتے  

پھر فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو انہیں گمراہ کر دیتے اور پھر یہ کبھی ہدایت نہ حاصل کر سکتے۔

 اگر ہم چاہتے ان کی آنکھیں اندھی کر دیتے تو یہ یونہی بھٹکتے پھرتے ۔ ادھر ادھر راستے ٹٹولتے۔ حق کو نہ دیکھ سکتے، نہ صحیح راستے پر پہنچ سکتے

اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ان کے مکانوں میں ہی مسخ کر دیتے ان کی صورتیں بدل دیتے انہیں ہلاک کر دیتے انہیں پتھر کے بنا دیتے، ان کی ٹانگیں توڑ دیتے۔ پھر تو نہ وہ چل سکتے یعنی آگے کو نہ وہ لوٹ سکتے یعنی پیچھے کو بلکہ بت کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے، آگے پیچھے نہ ہو سکتے۔

وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ (۶۸)

اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں کیا پھر بھی وہ نہیں سمجھتے

انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے پیری ضعیفی کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے،

جیسے سورہ روم کی آیت میں ہے:

اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن ضَعْفٍ ۔۔۔وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ  (۳۰:۵۴)

اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا۔ پھر ناتوانی کے بعد طاقت عطا فرمائی پھر طاقت و قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا کردیا،

وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ خوب جاننے والا پوری قدرت رکھنے والا ہے۔

 اور آیت میں ہے:

وَمِنكُمْ مَّن يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلاَ يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئاً  (۲۲:۵)

تم میں سے بعض بہت بڑی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تاکہ علم کے بعد وہ بےعلم ہوجائیں۔

 پس مطلب آیت سے یہ ہے کہ دنیا زوال اور انتقال کی جگہ ہے یہ پائیدار اور قرار گاہ نہیں، پھر بھی کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے کہ اپنے بچپن ، پھر جوانی ، پھر بڑھاپے پر غوکریں اور اس سے نتیجہ نکال لیں کہ اس دنیا کے بعد آخرت آنے والی ہے اور اس زندگی کے بعد میں دوبارہ پیدا ہونا ہے۔

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ

نہ تو ہم نے اس پیغمبر کو شعر سکھائے اور نہ یہ اس کے لائق ہے۔

پھر فرمایا نہ تو میں نے اپنے پیغمبر کو شاعری سکھائی نہ شاعری اس کے شایان شان نہ اسے شعر گوئی سے محبت نہ شعر اشعار کی طرف اس کی طبیعت کا میلان۔ اسی کا ثبوت آپ کی زندگی میں نمایاں طور پر ملتا ہے کہ کسی کاشعر پڑھتے تھے تو صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا تھا یا پورا یاد نہیں نکلتا تھا۔

 حضرت شعبی فرماتے ہیں اولاد عبدالمطلب کا ہر مرد عورت شعر کہنا جانتا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کوسوں دور تھے (ابن ابی حاتم)

دلائل بیہقی میں ہے :

 آپ ﷺنے ایک مرتبہ عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم نے بھی تو یہ شعر کہا ہے ؟

تجعل نھبی و نھب العبید، بین الاقرع و عینیتہ

انہوں نے کہا حضور دراصل یوں ہے بین عینیتہ والا قرع

آپ نے فرمایا چلو سب برابر ہے مطلب تو فوت نہیں ہوتا ؟

 سہیلی نے روض الانف میں اس تقدیم تاخیر کی ایک عجیب توجیہ کی ہے وہ کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع کو پہلے اور عینیہ کو بعد میں اس لیے ذکر کیا کہ عینیہ خلافت صدیقی میں مرتد ہوگیا تھا بخلاف اقرع کے کہ وہ ثابت قدم رہا تھا۔ واللہ اعلم ۔

مغازی میں ہے کہ بدر کے مقتول کافروں کے درمیان گشت لگاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا نفلق ھاما (آگے کچھ نہ فرماسکے۔ اس پر جناب ابوبکر ؓنے پورا شعر پڑھ دیا)۔

من رجال اعزۃ علینا وھم کانوا اعق واظلما

یہ کسی عرب شاعر کا شعر ہے جو حماسہ میں موجود ہے۔

 مسند احمد میں ہے:

 کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفہ کا یہ شعر بہت پڑھتے تھے

ویاتیک بالا خبار من لم تزود

اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے

ستبدی لک الا یام ما کنت جاہلا

یعنی زمانہ تجھ پر وہ امور ظاہر کردے گا جن سے تو بےخبر ہے اور تیرے پاس ایسا شخص خبریں لائے گا جسے تو نے توشہ نہیں دیا،

حضرت عائشہؓ سے سوال ہوا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم شعر پڑھتے تھے،

آپ نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ بغض آپ کو شعروں سے تھا ہاں کبھی کبھی بنو قیس والے کا کوئی شعر پڑھتے لیکن اس میں بھی غلطی کرتے تقدیم تاخیر کردیا کرتے۔

حضرت ابوبکرؓ فرماتے :

ایک بار اللہ کے پیغمبر نے یہ بیت پڑھی

کفی بالسلام  الشیب للمرء ناھبا

اس پر حضرت ابوبکرؓنے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یوں نہیں ہے تو آپ فرماتے نہ شاعر ہوں نہ شعر گوئی میرے شایان شان (ابن ابی حاتم)

دوسری روایت میں شعر اور آگے پیچھے کا ذکر بھی ہے یعنی ویاتیک بالا خبار مالم تذود کو آپ نے من لم تزود الاخبار پڑھاتھا،

بہیقی کی ایک روایت میں ہے کہ پورا شعر کبھی آپ نے نہیں پڑھازیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ پڑھ لیتے تھے۔

 صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودتے ہوئے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھے۔ سو یاد رہے کہ آپ کا یہ پڑھنا صحابہ کے ساتھ تھا۔ وہ اشعاریہ ہیں۔

لاھم لو لاانت ما اھتدینا ولا تصدقناولا صلینا

فانذلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لا قینا

ان الاولی قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنتہ ابینا

حضور لفظ ابینا کو کھینچ کر پڑھتے اور سارے ہی بلند آواز سے پڑھتے ، ترجمہ ان اشعار کا یہ ہے

کوئی غم نہیں اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے نہ صدقے دیتے اور نہ نمازیں پڑھتے۔ اب تو ہم پر تسکین نازل فرما۔ جب دشمنوں سے لڑائی چھڑ جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما، یہی لوگ ہم پر سرکشی کرتے ہیں ہاں جب کبھی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں

 اسی طرح ثابت ہے کہ حنین والے دن آپ نے اپنے خچر کو دشمنوں کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا۔

انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب

اس کی بابت یہ یاد رہے کہ اتفاقیہ ایک کلام آپ کی زبان سے نکل گیا جو وزن شعر پر اترا۔ نہ کہ قصداً آپ نے شعر کہا ،

 حضرت جندب بن عبداللہ فرماتے ہیں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے آپ کی انگلی زخمی ہوگئی تھی تو آپ نے فرمایا۔

ھل انت الا اصبح دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت

یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے ۔ اور تو راہ اللہ میں خون آلود ہوئی ہے۔

 یہ بھی اتفاقیہ ہے قصداً نہیں ۔

 اسی طرح ایک حدیثیں آپ نے فرمایا۔

ان تغفر اللھم تغفر جما وای عبدلک ما الما

یعنی اے اللہ تو جب بخشے تو ہمارے سبھی کے سب گناہ بخش دے، ورنہ یوں تو تیرا کوئی بندہ نہیں جو چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے بھی پاک ہو

 پس یہ سب کے سب اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کی تعلیم آپ کو شعر گوئی کی نہ تھی۔ بلکہ رب العالمین نے تو آپ کو قرآن عظیم کی تعلیم دی تھی جس کے پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا۔ قرآن حکیم کی یہ پاک نظم شاعری سے منزلوں دور تھی۔ اسی طرح کہانت سے اور گھڑ لینے سے اور جادو کے کلمات سے جیسے کہ کفار کے مختلف گروہ مختلف بولیاں بولتے تھے۔ آپ کی تو طبیعت ان لسانی صنعتوں سے معصوم تھی۔

 ابوداؤد میں ہے

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک یہ تینوں باتیں برابر ہیں:

- تریاق کا پینا،

- گنڈے کا لٹکانا

-  اور شعر بنانا۔

 صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

 شعر گوئی سے آپ کو طبعاً نفرت تھی۔ دعا میں آپ کو جامع کلمات پسند آتے تھے اور اس کے سوا چھوڑ دیتے تھے  (احمد)

ابواداؤد میں ہے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جانا اس کے لیے شعروں سے بھر لینے سے بہتر ہے۔ (ابوداؤد)

مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے جس نے عشاء کی نماز کے بعد کسی شعر کا ایک مصرع بھی باندھا اس کی اس رات کی نماز نامقبول ہے۔

یہ یادر ہے کہ شعر گوئی کی قسمیں ہیں، مشرکوں کی ہجو میں شعر کہنے مشروع ہیں۔

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے اکابرین صحابہ نے کفار کی ہجو میں اشعار کے کلام میں ایسے اشعار پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ امیہ بن صلت کے اشعار کی بابت فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس کے شعر تو ایمان لاچکے ہیں لیکن اس کا دل کافر ہی رہا۔

 ایک صحابی نے آپ کو امیہ کے ایک سو بیت سنائے ہر بیت کے بعد آپ فرماتے تھے اور کہو۔

 ابوداؤد میں حضور کا ارشاد ہے:

 بعض بیان مثل جادو کے ہیں اور بعض شعر سراسر حکمت والے ہیں۔

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ (۶۹)

وہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے  

پس فرمان ہے کہ جو کچھ ہم نے انہیں سکھایا ہے وہ سراسر ذکر و نصیحت اور واضح صاف اور روشن قرآن ہے، جو شخص ذرا سا بھی غور کرے اس پر یہ کھل جاتا ہے۔ تاکہ روئے زمین پر جتنے لوگ موجود ہیں یہ ان سب کو آگاہ کردے اور ڈرا دے

جیسے فرمایا :

لاٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ  (۶:۱۹)

تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈرادوں اور جسے بھی یہ پہنچ جائے۔

 اور آیت میں ہے:

وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ (۱۱:۱۷)

جماعتوں میں سے جو بھی اسے نہ مانے وہ سزاوار دوزخی ہے۔

لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ (۷۰)

تاکہ وہ ہر شخص کو آگاہ کر دے جو زندہ ہے اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے ۔

 ہاں اس قرآن سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اثر وہی لیتا ہے۔ جو زندہ دل اور اندرونی نور والا ہو۔ عقل و بصیرت رکھتا ہو اور عذاب کا قول تو کافروں پر ثابت ہے ہی۔ پس قرآن مؤمنوں کے لیے رحمت اور کافروں پر اتمام حجت ہے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ (۷۱)

کیا وہ نہیں دیکھتے ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی چیزوں میں سے انکے لئے چوپائے بھی پیدا کئے جنکے کہ یہ مالک ہوگئے ہیں

وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ (۷۲)

اور ان مویشیوں کو ہم نے ان کے تابع فرمان کردیا جن میں سے بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔‏

اللہ تعالیٰ اپنے انعام و احسان کا ذکر فرما رہا ہے۔ کہ اس نے خود ہی یہ چوپائے پیدا کئے اور انسان کی ملکیت میں دے دئیے،

ایک چھوٹا سا بچہ بھی اونٹ کی نکیل تھام لے اونٹ جیساقوی اور بڑا جانور اس کے ساتھ ساتھ ہی سو اونٹوں کی ایک قطار ہو ایک بچے کے ہانکنے سے سیدھے چلتی رہتی ہے۔

 اس ماتحتی کے علاوہ بعض لمبے لمبے مشقت والے سفر بآسانی جلدی جلدی طے ہوتے ہیں خود سوار ہوتے ہیں اسباب لادتے ہیں بوجھ ڈھونے کے کام آتے ہیں۔ اور بعض کے گوشت کھائے جاتے ہیں،

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ (۷۳)

انہیں ان میں سے اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور پینے کی چیزیں۔ کیا پھر (بھی) یہ شکر ادا نہیں کریں گے؟‏

پھر صوف اور ان کے بالوں کھالوں وغیرہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دودھ پیتے ہیں، بطور علاج پیشاب کام میں آتے ہیں اور بھی طرح طرح کے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔

 کیا پھر ان کو نہ چاہے کہ ان نعمتوں کے منعم حقیقی، ان احسانوں کے محسن ، ان چیزوں کے خالق ، ان کے حقیقی مالک کا شکر بجا لائیں ؟ صرف اسی کی عبادت کریں؟

 اس کی توحید کو مانیں اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ (۷۴)

اور وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں تاکہ وہ مدد کئے جائیں۔‏

مشرکین کے اس باطل عقیدے کی تردید ہو رہی ہے جو وہ سمجھتے تھے کہ جن جن کی سوائے اللہ تعالیٰ کے یہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد نصرت کریں گے ان کی روزیوں میں برکت دیں گے اور اللہ سے ملادیں گے

لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ (۷۵)

(حالانکہ) ان میں ان کی مدد کی طاقت ہی نہیں، (لیکن) پھر بھی (مشرکین) ان کے لئے حاضر باش لشکری ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ان کی مدد کرنے سے عاجز ہیں اور ان کی مددتو کجا، وہ تو خود اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے بلکہ یہ بت تو اپنے دشمن کے نقصان سے بھی اپنے تئیں بچا نہیں سکتے۔ کوئی اور انہیں توڑ مروڑ کر بھی چلا جائے تو یہ اس کا کچھ نہیں کر سکتے بلکہ بول چال پر بھی قادر نہیں سمجھ بوجھ نہیں۔ یہ بت قیامت کے دن جمع شدہ حساب کے وقت اپنے عابدوں کے سامنے لاچاری اور بےکسی کے ساتھ موجود ہوں گے تاکہ مشرکین کی پوری ذلت و خواری ہو اور ان پر حجت تمام ہو۔

حضرت فتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ بت تو ان کی کسی طرح کی امداد نہیں کرسکتے ، لیکن پھر بھی یہ بےسمجھ مشرکین ان کے سامنے اس طرح موجود رہتے ہیں جیسے کوئی حاضر باش لشکر ہو وہ نہ انہیں کوئی نفع پہنچا سکیں نہ کسی نقصان کو دفع کر سکیں لیکن یہ ہیں کہ ان کے نام پر مرے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے خلاف آواز سننا نہیں چاہتے غصے سے بےقابو ہو جاتے ہیں۔

فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (۷۶)

پس آپ کو ان کی بات غمناک نہ کرے، ہم ان کی پوشیدہ اور اعلانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں۔‏

 اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کفر کی باتوں سے آپ غم ناک نہ ہوں ہم پر ان کا ظاہر باطن روشن ہے وقت آرہا ہے۔ گن چن کر ہم انہیں سزائیں دیں۔

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ (۷۷)

کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔‏

ابی ابن خلف ملعون ایک مرتبہ اپنے ہاتھ میں ایک بوسیدہ کھوکھلی سڑی گلی ہڈی لے کر آیا اور اسے اپنے چٹکی میں ملتے ہوئے جبکہ اس کے ریزے ہوا میں اڑ رہے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا آپ کہتے ہیں کہ ان ہڈیوں کو اللہ زندہ کرے گا؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں ہاں اللہ تجھے ہلاک کردے گا پھر زندہ کردے گا پھر تیرا حشر جہنم کی طرف ہوگا۔

 اس پر اس سورت کی یہ آخری آیتیں نازل ہوئیں۔

 اور روایت میں ہے کہ یہ اعتراض کرنے والا عاص بن وائل تھا اور اس آیت سے لے کر ختم سورت تک کی آیتیں نازل ہوئیں

 اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی سے ہوا تھا۔ لیکن یہ ذرا غور طلب ہے اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے اور عبداللہ بن ابی تو مدینہ میں تھا۔ بہر صورت خواہ ابی کے سوال پر یہ آیتیں اتری ہوں یا عاص کے سوال پر ہیں عام ۔

لفظ انسان جو الف لام ہے وہ جنس کا ہے جو بھی دوسری زندگی کا منکر ہو اسے یہی جواب ہے۔

مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنے شروع پیدائش پر غور کریں۔ جس نے ایک حقیر و ذلیل قطرے سے انسان کو پیدا کردیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کچھ نہ تھا پھر اس کی قدرت پر حرف رکھنے کے کیا معنی؟

اس مضمون کو بہت سی آیتوں میں بیان فرمایا ہے جیسے :

أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّآءٍ مَّهِينٍ ـ فَجَعَلْنَـهُ فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ ـ إِلَى قَدَرٍ مَّعْلُومٍ  (۷۷:۲۰،۲۲)

اور جیسے:

إِنَّا خَلَقْنَا الإِنسَـنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ  (۷۶:۲)

 مسند احمد میں ہے:

 ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 اے ابن آدم کیا تو مجھے بھی عاجز کرسکتا ہے؟ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا پھر جب ٹھیک ٹھاک درست اور چست کردیا اور تو ذرا کس بل والا ہو گیا تو تو نے مال جمع کرنا اور مسکینوں کو دینے سے روکنا شروع کردیا، ہاں جب دم نرخرے میں اٹکا تو کہنے لگا اب میں اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں ، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں؟ الغرض نطفے سے پیدا کیا ہوا انسان حجت بازیاں کرنے لگا۔

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (۷۸)

اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان کی گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟‏

اور اپنا دوبارہ جی اٹھنا محال جاننے لگا اس اللہ کی قدرت سے نظریں ہٹالیں جس نے آسمان و زمین کو اور تمام مخلوق کو پیدا کردیا۔ یہ اگر غور کرتا تو اس عظیم الشان مخلوق کی پیدائش کے علاوہ خود اپنی پیدائش کو بھی دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت کا ایک نشان عظیم پاتا۔ لیکن اس نے تو عقل کی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی۔

قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ (۷۹)

آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے اول مرتبہ پیدا کیا ہے جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے۔‏

اس کے جواب میں کہہ دو کہ اول رتبہ ان ہڈیوں کو جو اب گلی سڑی ہیں جس نے پیدا کیا وہی دوبارہ انہیں پیدا کرے گا۔ جہاں جہاں بھی یہ ہڈیاں ہوں وہ خوب جانتا ہے۔

مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حذیفہ سے عقبہ بن عمرو نے کہا آپ ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث سنائیے تو آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ایک شخص پر جب موت کی حالت طاری ہوئی تو اس نے اپنے وارثوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو تم بہت ساری لکڑیاں جمع کرکے میری لاش کو جلا کر خاک کر دینا پھر اسے سمندر میں بہا دینا، چنانچہ انہوں نے یہی کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کرکے جب اسے دوبارہ زندہ کیا تو اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟

 اس نے جواب دیا کہ صرف تیرے ڈر سے ، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے چلتے یہ حدیث بیان فرمائی جسے میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنے کانوں سے سنی۔

 یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی بہت سے الفاظ سے مروی ہے،

 ایک راویت میں ہے کہ اس نے کہا تھا میری راکھ کو ہوا کے رخ اڑا دینا کچھ تو ہوا میں کچھ دریا میں بہا دینا۔ سمندر نے بحکم اللہ جو راکھ اس میں تھی اسے جمع کردیا اسی طرح ہوا نے بھی ۔ پھر اللہ کے فرمان سے وہ کھڑا کردیا گیا۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ (۸۰)

وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو ۔‏

 پھر اپنی قدرت کے مشاہدے کے لیے اور بات کی دلیل قائم کرنے کے لیے کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے وہ مردوں کو بھی زندہ کرسکتا ہے، ہیت کو وہ منقلب کر سکتا ہے فرمایا کہ تم غور کرو کہ پانی میں درخت اگائے سرسبز شاداب ہرے بھرے پھل والے ہوئے، پھر وہ سوکھ گئے اور ان لکڑیوں سے میں نے آگ نکالی کہاں وہ تری اور ٹھنڈی کہاں یہ خشکی اور گرمی ؟

پس مجھے کوئی چیز کرنی بھاری نہیں تر کو خشک کرنا خشک کو تر کرنا زندہ کو مردہ کرنا مردے کو زندگی دینا سب میرے بس کی بات ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ مراد اس سے مرخ اور عفار کے درخت ہیں جو حجاز میں ہوتے ہیں ان کی سبز ٹہنیوں کو آپس میں رگڑنے سے چقماق کی طرح آگ نکلتی ہے۔ چنانچہ عرب میں ایک مشہور مثل ہے لکل شجر ناروا استجدا المرخ والمفار

 حکماء کا قول ہے کہ سوائے انگور کے درخت کے ہر درخت میں آگ ہے۔

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ

جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ہم جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں،

اللہ تعالیٰ اپنی زبردست قدرت بیان فرما رہا ہے کہ اس نے آسمانوں کو اور ان کی سب چیزوں کو پیدا کیا۔ زمین کو اس کے اندر کی سب چیزوں کو بھی اسی نے بنایا۔ پھر اتنی بڑی قدرتوں والا انسانوں جیسی چھوٹی مخلوق کو پیدا کرنے سے عاجز آجائے یہ تو عقل کے بھی خلاف ہے،

جیسے فرمایا:

لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ  (۴۰:۷)

آسمان و زمین کی پیدائش انسانی پیدائش سے بہت بڑی اور اہم ہے،

یہاں بھی فرمایا کہ وہ اللہ جس نے آسمان و زمین کو پیدا کردیا وہ کیا انسانوں جیسی کمزور مخلوق کو پیدا کرنے سے عاجز آجائے گا؟

 اور جب وہ قادر ہے تو یقینا ًانہیں مار ڈالنے کے بعد پھر وہ انہیں جلا دے گا۔ جس نے ابتدا پیدا کیا ہے اس پر اعادہ بہت آسان ہے

 جیسے اور آیت میں ہے:

أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ (۴۶:۳۳)

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان کو بنادیا اور ان کی پیدائش سے عاجز نہ آیا نہ تھکا کیا وہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ بیشک قادر ہے بلکہ وہ تو ہرچیز پر قادر ہے۔

بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (۸۱)

بیشک قادر ہے۔ اور وہی پیدا کرنے والا دانا (بینا) ہے۔‏

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۸۲)

وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔

وہی پیدا کرنے والا اور بنانے والا، ایجاد کرنے والا اور خالق ہے۔ ساتھ ہی دانا، بینا اور رتی رتی سے واقف ہے۔ وہ تو جو کرنا چاہتا ہے اس کا صرف حکم دے دینا کافی ہوتا ہے۔

 مسند کی حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اے میرے بندو ، تم سب فقیر ہو مگر جسے میں غنی کردوں۔ میں جواد ہوں ، میں ماجد ہوں ، میں واجد ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ میرا انعام بھی ایک کلام ہے اور میرا عذاب بھی کلام ہے۔ میں جس چیز کو کرنا چاہتا ہوں کہہ دیتا ہوں کہ ہو جاوہ ہوجاتی ہے۔

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۸۳)

پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔‏

 ہر برائی سے اس حی وقیوم اللہ کی ذات پاک ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے، جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں ہیں۔ وہ سب کا خالق ہے، وہی اصلی حاکم ہے ، اسی کی طرف قیامت کے دن سب لوٹائے جائیں گے وہی عادل و منعم اللہ انہیں سزا دے گا۔

اور جگہ فرمان ہے:

قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ  (۲۳:۸۸)

پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی ملکیت ہے۔

تَبَارَكَ الَّذِى بِيَدِهِ الْمُلْكُ (۶۷:۱)

کون ہے جس کے ہاتھ میں ہرچیز کا اختیار ہے؟

 پس ملک و ملکوت دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے رحمت و رحموت اور رہبت و رہبوت اور جبرو جبروت۔

بعض نے کہا ہے کہ ملک سے مراد جسموں کا عالم اور ملکوت سے مراد روحوں کا عالم ہے۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے اور یہی قول جمہور مفسرین کا ہے۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 ایک رات میں تہجد کی نماز میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں کھڑا ہوگیا آپ نے سات لمبی سورتیں (یعنی پونے دس پارے ) سات رکعت میں پڑھیں سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر رکوع سے سر اٹھا کر آپؐ نے  یہ دعا پڑھ کر پھر قرأت شروع کی:

 اللهِ اَكْبَر اللهِ اَكْبَر ِذي الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَة

پھر آپ کا رکوع قیام کے مناسب ہی لمبا تھا اور سجدہ بھی مثل رکوع کے تھا میری تو یہ حالت ہوگئی تھی کہ ٹانگیں ٹوٹنے لگیں (ابوداؤد)

انہی حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ نے رات کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا :

آپ نے یہ دعا پڑھ کر پھر قرأت شروع کی

اللهِ اَكْبَر اللهِ اَكْبَر ِذي الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَة

پھرپوری سورہ بقرہ پڑھ کر رکوع کیا اور رکوع میں بھی قریب قریب اتنی ہی دیر ٹھہرے رہے اور سبحان ربی العظیم پڑھتے رہے پھر اپنا سر رکوع سے اٹھایا اور تقریباً اتنی ہی دیر کھڑے رہے اور لربی الحمد پڑھتے رہے۔ پھر سجدے میں گئے وہ بھی تقریباً قیام کے برابر تھا اور سجدے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سبحان ربی الاعلٰی پڑھتے رہے۔ پھر سجدے سے سر اٹھایا

 آپﷺ کی عادت مبارک تھی کہ دونوں سجدوں کے درمیان بھی اتنی دیر بیٹھے رہتے تھے جتنی دیر سجدوں میں لگاتے تھے اور رب اغفرلی رب اغفرلی پڑھتے رہے۔ چار رکعت آپ نے ادا کیں سورہ بقرہ سورہ آل عمران سورہ نساء اور سورہ مائدہ کی تلاوت کی۔

حضرت شعبہ کو شک ہے کہ سورہ مائدہ کہا یا سورہ انعام ؟

 نسائی میں ہے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

 ایک رات میں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھی آپ نے سورہ بقرہ کی تلاوت فرمائی، ہر اس آیت پر جس میں رحمت کا ذکر ہوتا آپ ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرتے اور ہر اس آیت پر جس میں عذاب کا ذکر ہوتا آپ ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتے پھر آپ نے رکوع کیا وہ بھی قیام سے کچھ کم نہ تھا اور رکوع میں یہ فرماتے تھے سبحان ذی الجبروت والملکوت و الکبریاء والعظمتہ پھر آپ نے سجدہ کیا وہ بھی قیام کے قریب قریب تھا۔ اور سجدے میں بھی یہی پڑھتے پھر دوسری رکعت میں سورہ آل عمران پڑھی۔ پھر اسی طرح ایک ایک سورت ایک ایک رکعت میں پڑھتے رہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter