Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Anbiya

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (۱)

لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بےخبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں

اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کررہے ہیں جو انہیں کام آئے۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں ۔

جیسے اور آیت میں ہے:

أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ (۱۶:۱)

امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟

 دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے:

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ـ وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا (۵۴:۱،۲)

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں

 ابونواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے

الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن

موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سفارش کی ۔

 ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں۔

حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے۔ پھر آپ نے یہی اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ کی تلاوت فرمائی۔

مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ (۲)

ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نئی نصیحت آتی ہے اسے وہ کھیل کود میں ہی سنتے ہیں

اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الہٰی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے ۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں۔

بخاری شریف میں ہے:

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کرلیا تحریف اور تبدیلی کرلی، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔

لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ۖ

ان کے دل بالکل غافل ہیں اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وہ تم ہی جیسا انسان ہے

یہ لوگ کتاب اللہ سے بےپرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے۔

أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ (۳)

 پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو

تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟

یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کردے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں؟

قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۴)

پیغمبر نے کہا میرا پروردگار ہر اس بات کو جو زمین و آسمان میں ہے بخوبی جانتا ہے، وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے

ان بد کرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان وزمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے۔

 وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے ۔

بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ

اتنا ہی نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن حیران کن خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا بلکہ یہ شاعر ہے،

پھر کفار کی ضد ، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے۔

کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بےمعنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں ۔

جیسے فرمایا:

انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُواْ لَكَ الاٌّمْثَالَ فَضَلُّواْ فَلاَ يَسْتَطِيعْونَ سَبِيلاً (۱۷:۴۸)

دیکھیں تو سہی، آپ کے لئے کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں، پس وہ بہک رہے ہیں۔ اب تو راہ پانا ان کے بس میں نہیں رہا

خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کامستحق ہے ؟

فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ (۵)

 ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے۔‏

کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح علیہ السلام کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا۔

وَمَا مَنَعَنَآ أَن نُّرْسِلَ بِالاٌّيَـتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الاٌّوَّلُونَ (۱۷:۵۹)

ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں

بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الہٰی کی طرح عذاب الہٰی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے۔

مَا آمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ (۶)

ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے اجاڑیں سب ایمان سے خالی تھیں۔ تو کیا اب یہ ایمان لائیں گے

عموما ًاگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرلئے گئے۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کررہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے۔

جیسے فرمان ہے:

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ (۱۰:۹۶،۹۷)

یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپکے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گےچنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا انکو نافع ہوتا سوائے یونس ؑکی قوم کے

جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں، ایمان قبول نہ کریں گے۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا ًتسلیم کرلیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے

 بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھاورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء علیہ السلام سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔

 ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں ہے:

 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مجمع مسجد میں تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کررہے تھے اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابوبکر تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلاً موسیٰ علیہ السلام تختیاں لائے ، داؤد علیہ السلام اونٹنی لائے، عیسیٰ علیہ السلام انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان ۔

حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رونے لگے۔

 اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ۔

 آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو۔

صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے۔

 آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں

 میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الہٰی پہنچادوں۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بےپڑھا ہوں۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں ۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے۔ رعب میرا میرے آگے آگے کردیا ہے۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران وپریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا۔ میری شفاعت سے میری اُمت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ میرے اور میری اُمت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ ۖ

تجھ سے پہلے بھی جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے

چونکہ مشرکین اس کے منکر تھے کہ انسانوں میں سے کوئی انسان اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو، اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے اس عقیدے کی تردید کرتا ہے فرماتا ہے تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب انسان ہی تھے ایک بھی فرشتہ نہ تھا

 جیسے دوسری آیت میں ہے:

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِى إِلَيْهِمْ مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى (۱۲:۱۰۹)

تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے اور ان کی طرف وحی نازل فرمائی سب شہروں کے رہنے والے انسان ہی تھے ۔

اور آیت میں ہے:

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعاً مِّنَ الرُّسُلِ (۴۶:۹)

آپ کہہ دیجئے! کہ میں کوئی بالکل انو کھا پیغمبر نہیں

ان کافروں سے پہلے کے کفار نے بھی نبیوں کے نہ ماننے کا یہی حیلہ اٹھایا تھا جسے قرآن نے بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا تھا:

أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا (۶۴:۶)

کیا ایک انسان ہمارا رہبر ہوگا؟

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (۷)

پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو

اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اچھا تم اہل علم سے یعنی یہودیوں اور نصرانیوں سے اور دوسرے گروہ سے پوچھ لو کہ ان کے پاس انسان ہی رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یا فرشتے ؟

 یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ انسانوں کے پاس انہی جیسے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے تاکہ لوگ ان کے پاس بیٹھ اٹھ سکیں، ان کی تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کی باتیں سن سمجھ سکیں ۔

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ (۸)

ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے ۔‏

کیا وہ اگلے پیغمبر سب کے سب ایسے جسم کے نہ تھے جو کھانے پینے کی حاجت نہ رکھتے ہوں۔ بلکہ وہ کھانے پینے کے محتاج تھے

 جیسے فرمان ہے:

وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلاَّ إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِى الاٌّسْوَاقِ (۲۵:۲۰)

تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے وہ سب کھانا کھایاکرتے تھے اور بازاروں میں آمد ورفت بھی کرتے تھے

 یعنی وہ سب انسان تھے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے اور کام کاج بیوپار تجارت کے لئے بازاروں میں بھی آنا جانا رکھتے تھے۔پس یہ بات ان کی پیغمبری کے منافی نہیں۔ جیسے مشرکین کا قول تھا :

مَا لِهَـذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ ۔۔۔ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا (۲۵:۷،۸)

یہ رسول کیسا ہے ؟ جو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترتا کہ وہ بھی اس کے ساتھ اس کے دین کی تبلیغ کرتا

اچھا یہ نہیں تو اسے کسی خزانے کا مالک کیوں نہیں کردیا جاتا یا اسے کوئی باغ ہی دے دیا جاتا جس سے یہ با فراغت کھاپی لیتا

اسی طرح اگلے پیغمبر بھی دنیا میں نہ رہے آئے اور گئے جیسے فرمان ہے:

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ (۲۱:۳۴)

تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی انسان کو دوام نہیں بخشا۔

 ان کے پاس البتہ وحی الہٰی آتی رہی فرشتہ اللہ کے حکم احکام پہنچا دیا کرتے تھا۔

ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَيْنَاهُمْ وَمَنْ نَشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ (۹)

پھر ہم نے ان سے کئے ہوئے وعدے سچے کئے انہیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کر دیا ۔‏

پھر رب کا جو وعدہ ان سے تھا وہ سچا ہو کر رہا یعنی ان کے مخالفین بوجہ اپنے ظلم کے تباہ ہوگئے اور وہ نجات پاگئے ۔ ان کے تابعدار بھی کامیاب ہوئے اور حد سے گزر جانے والوں کو یعنی نبیوں کے جھٹلانے والوں کو اللہ نے ہلاک کردیا۔

لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۱۰)

یقیناً ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لئے ذکر کیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے‏

اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی قدر ومنزلت پر رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اتاری ہے جس میں تمہاری بزرگی ہے، تمہارا دین، تمہاری شریعت اور تمہاری باتیں ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدر نہیں کرتے؟

 اور اس اتنی بڑی شرافت والی کتاب سے غفلت برت رہے ہو؟

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْـَلُونَ (۴۳:۴۴)

تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے یہ نصیحت ہے اور تم اس کے بارے میں ابھی ابھی سوال کئے جاؤگے ۔

وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ (۱۱)

اور بہت سی بستیاں ہم نے تباہ کر دیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کر دیا۔‏

پھر فرماتا ہے ہم نے بہت سی بستیوں کے ظالموں کو پیس کر رکھ دیا ہے۔

اور آیت میں ہے :

وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ (۱۷:۱۷)

ہم نے نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی بستیاں ہلاک کردیں۔

 اور آیت میں ہے:

فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا (۲۲:۴۵)

بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہہ و بالا کر دیا اس لئے کہ وہ ظالم تھے پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں

کتنی ایک بستیاں ہیں جو پہلے بہت عروج پر اور انتہائی رونق پر تھیں لیکن پھر وہاں کے لوگوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے ان کا چورا کردیا، بھس اڑا دیا، آبادی ویرانی سے اور رونق سنسان سناٹے میں بدل گئی۔ ان کے ہلاکت کے بعد اور لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا ایک قوم کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری یونہی آتی رہیں۔

فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَرْكُضُونَ (۱۲)

جب انہوں نے ہمارے عذاب کا احساس کر لیا تو لگے اس سے بھاگنے

جب ان لوگوں نے عذابوں کو آتا دیکھ لیا یقین ہو گیا کہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اللہ کے عذاب آگئے ۔ تو اس وقت گھبرا کر راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ لگے ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے۔

لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ (۱۳)

بھاگ دوڑ نہ کرو اور جہاں تمہیں آسودگی دی گئی تھی وہی واپس لوٹو اور اپنے مکانات کی طرف جاؤ تاکہ تم سے سوال تو کر لیا جائے

اب بھاگو دوڑو نہیں بلکہ اپنے محلات میں اور عیش وعشرت کے سامانوں میں پھر آجاؤ تاکہ تم سے سوال جواب تو ہو جائے کہ تم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا بھی کیا یا نہیں؟

یہ فرمان بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں ذلیل وحقیر کرنے کے ہوگا۔

قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (۱۴)

کہنے لگے ہائے ہماری خرابی! بیشک ہم ظالم تھے۔‏

اس وقت یہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے صاف کہیں گے کہ بیشک ہم ظالم تھے لیکن اس وقت کا اقرار بالکل بےنفع ہے۔

فَمَا زَالَتْ تِلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ (۱۵)

پھر تو ان کا یہی قول رہا یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی پڑی آگ (کی طرح) کر دیا

پھر تو یہ اقراری ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا ناس ہوجائے اور ان کی آواز دبا دی جائے اور یہ مسل دیئے جائیں۔ ان کا چلنا پھرنا آنا جانا بولنا چالنا سب ایک قلم بند ہوجائے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (۱۶)

ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا

آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے۔ اس نے انہیں بےکار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔

 اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے:

لِيَجْزِىَ الَّذِينَ أَسَاءُواْ بِمَا عَمِلُواْ وَيِجْزِى الَّذِينَ أَحْسَنُواْ بِالْحُسْنَى (۵۳:۳۱)

تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے

اور آیت میں ہے:

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلاً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ (۳۸:۲۷)

اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیایہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔‏

یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے۔

لَوْ أَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْوًا لَاتَّخَذْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا إِنْ كُنَّا فَاعِلِينَ (۱۷)

اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے ۔‏

اس  آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنالیتے۔

 ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے۔ لَهْوًا کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ دونوں معنی ہیں اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے۔

 ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے۔

جیسے فرمان ہے:

لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ (۳۹:۴)

اگر اللہ تعالیٰ ارادہ اولاد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا

اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے۔

آیت إِنْ كُنَّا فَاعِلِينَ میں إِنْ کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے۔ بلکہ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ إِنْ نفی کے لئے ہی ہے۔

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ

بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے

ہم حق کو واضح کرتے ہیں، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے، ٹوٹ کر چورا ہوجاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے۔ وہ ہے بھی لائق، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔

وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ (۱۸)

تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں ۔‏

اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھہرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے ۔

وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ

آسمانوں اور زمین میں جو ہے اسی اللہ کا ہے

پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان وزمین کی ہرچیز اسی کی ملکیت میں ہے۔

وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ (۱۹)

اور جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔‏

فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں

یہ اس طرح کہ آیت ہے:

لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْداً للَّهِ ۔۔۔فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيهِ جَمِيعاً (۴:۱۷۲)

 مسیحؑ  کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار نہیں یا تکبر و انکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور ان مقرب فرشتوں کو اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔‏

 یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں، گھبراتے بھی نہیں، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔

يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ (۲۰)

وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔‏

 دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح واطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں۔

جیسے اور جگہ فرمایا:

لاَّ يَعْصُونَ اللَّهَ مَآ أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (۶۶:۶)

جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔‏

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایالوگو! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو؟

 سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کچھ بھی نہیں سن رہے ۔

 آپ ﷺنے فرمایا :

میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہیے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو۔

 عبداللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا؟

 میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟

لوگوں نے کہا بنوعبدالمطلب سے ہے

 آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے ۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے ۔

أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنْشِرُونَ (۲۱)

کیا ان لوگوں نے زمین (کی مخلوقات میں) سے جنہیں معبود بنا رکھا ہے وہ زندہ کر دیتے ہیں ۔

شرک کی تردید ہو رہی ہے کہ جن جن کو تم اللہ کے سوا پوج رہے ہو ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو مردوں کو جلاسکے۔ کسی میں یا سب میں مل کر بھی یہ قدرت نہیں پھر انہیں اس قدرت والے کے برابر ماننا یا ان کی بھی عبادت کرنا کس قدر ناانصافی ہے؟

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ

اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہو جاتے

پھر فرماتا ہے سنو اگر مان لیا جائے کہ فی الواقع بہت سے الہٰ ہیں تولازم آئے گا کہ زمین وآسمان تباہ وبرباد ہو جائیں

 جیسے فرمان ہے:

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـهٍ إِذاً لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلاَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَـنَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (۲۳:۹۱)

اللہ کی اولاد نہیں، نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوقات کو لئے پھرتا اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشیش کرتا اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ اوصاف سے مبرا اور منزہ ہے۔

فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (۲۲)

پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہے ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں۔‏

یہاں فرمایا اللہ تعالیٰ مالک عرش ان کے کہے ہوئے ردی اوصاف سے یعنی لڑکے لڑکیوں سے پاک ہے۔ اسی طرح شریک اور ساجھی سے، مثل اور ساتھی سے بھی بلند وبالا ہے۔ ان کی یہ سب تہمتیں ہیں جن سے اللہ کی ذات برتر ہے ۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (۲۳)

وہ اپنے کاموں کے لئے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں اور سب (اس کے آگے) جواب دہ ہیں۔‏

 اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ علی الاطلاق شہنشاہ حقیقی ہے، اس پر کوئی حاکم نہیں۔ سب اس کے غلبے اور قہر تلے ہیں۔ نہ تو اس کے حکم کا کوئی تعاقب کرسکے نہ اس کے فرمان کو کوئی ٹال سکے ۔ اس کی کبریائی اور عظمت جلال اور حکومت علم اور حکمت لطف اور رحمت بےپایاں ہے۔ کسی کو اس کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں۔ سب پست اور عاجز ہیں لاچار اور بےبس ہیں۔ کوئی نہیں جو چوں کرے کوئی نہیں جو اس کے سامنے بول سکے کوئی نہیں جسے چوں چرا کا اختیار ہو جو اس کا پوچھ سکے کہ یہ کام کیوں کیا ایسا کیوں ہوا؟

 وہ چونکہ تمام مخلوق کا خالق ہے سب کا مالک ہے اسے اختیار ہے جس سے جو چاہے سوال کرے کہ ہر ایک کے اعمال کی وہ باز پرس کرے گا۔

جیسے فرمان ہے:

فَوَرَبِّكَ لَنَسْـَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ـ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۱۵:۹۲،۹۳)

 تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے ہر اس فعل سے جو انہوں نے کیا۔

اور جیسے فرمایا:

وَهُوَ يُجْيِرُ وَلاَ يُجَارُ عَلَيْهِ (۲۳:۸۸)

وہی ہے جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا

یعنی وہی ہے کہ جو اس کی پناہ میں آگیا سب شر سے بچ گیا اور کوئی نہیں جو اس کے مجرم کو پناہ دے سکے۔

أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً ۖ

کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں،

ان لوگوں نے اللہ کے سوا جن جن کو معبود بنا رکھا ہے ان کی عبادت پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ہم جس اللہ کی عبادت کررہے ہیں اس میں سچے ہیں

قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَذَا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي ۗ

ان سے کہہ دو ۔ لاؤ اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ ہے میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے اگلوں کی دلیل

ہمارے ہاتھوں میں اعلیٰ تر دلیل کلام اللہ موجود ہے اور اس سے پہلے کی تمام الہامی کتابیں اسی کی دلیل میں باآواز بلند شہادت دیتی ہیں جو توحید کی موافقت میں اور کافروں کی خود پرستی کے خلاف میں ہیں۔ جو کتاب جس پیغمبر پر اتری اس میں یہ بیان موجود رہا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں

بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ ۖ فَهُمْ مُعْرِضُونَ (۲۴)

بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے اسی وجہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔‏

لیکن اکثر مشرک حق سے غافل ہیں اور اللہ کی باتوں سے منکر ہیں۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (۲۵)

تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اسکی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو

 تمام رسولوں کو توحید الہٰی کی ہی تلقین ہوتی رہی۔ فرمان ہے:

وَاسْئلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَآ أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَـنِ ءَالِهَةً يُعْبَدُونَ (۴۳:۴۵)

تجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں تو خود پوچھ لے کہ ہم نے ان کے لئے اپنے سوا اور کوئی معبود مقرر کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کرتے ہوں؟

اور آیت میں ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ (۱۶:۳۶)

ہم نے ہر اُمت میں اپنا پیغمبر بھیجا جس نے لوگوں میں اعلان کیا کہ تم سب ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو۔

پس انبیاء کی شہادت بھی یہی ہے اور خود فطرت اللہ بھی اسی کی شاہد ہے۔ اور مشرکین کی کوئی دلیل نہیں۔ ان کی ساری حجتیں بیکار ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ (۲۶)

(مشرک لوگ) کہتے ہیں کہ رحمٰن اولاد والا ہے (غلط ہے) اس کی ذات پاک ہے، بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔‏

کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے، فرشتے اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے ہیں، بڑے بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں قولاً اور فعلاً ہروقت اطاعت الہٰی میں مشغول ہیں۔

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (۲۷)

کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں ۔

نہ تو کسی امر میں اس سے آگے بڑھیں ، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى

وہ ان کے آگے پیچھے کے تمام امور سے واقف ہے وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو

اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں آکے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے ذرے ذرے کا وہ دانا ہے۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لئے لب ہلا سکیں۔

 جیسے فرمان ہے:

مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ (۲:۲۵۵)

وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جاسکے ؟

اور آیت میں ہے:

وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ (۳۴:۲۳)

اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی۔

اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔

وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ (۲۸)

وہ خود ہیبت الہٰی سے لرزاں و ترساں ہیں۔‏

فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الہٰی سے، ہیبت رب سے لرزاں وترساں رہا کرتے ہیں۔

وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (۲۹)

ان میں سے اگر کوئی بھی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں لائق عبادت تو ہم اسے دوزخ کی سزا دیں ہم ظالموں کو اس طرح سزا دیتے ہیں۔‏

ان میں سے جو بھی خدائی کا دعویٰ کرے ہم اسے جہنم واصل کردیں ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں۔

یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو۔

 یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان اللہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے۔

 اسی طرح کی اور  آیات ہیں:

قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـنِ وَلَدٌ فَأَنَاْ أَوَّلُ الْعَـبِدِين (۴۳:۸۱)

آپ کہہ دیجئے! اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا ۔

اور

لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَـسِرِينَ (۳۹:۶۵)

کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا

 پس نہ تو رحمٰن کی اولاد نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک ممکن۔

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ

کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا

اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے۔ فرماتا ہے کہ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو؟

ابتدا میں زمین وآسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہہ بہ تہہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلا رکھا۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن تو آپ نے فرمایا:

 پہلے زمین وآسمان ملے جلے تہہ بہ تہہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہوگا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھی۔

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا تم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں مجھ سے بھی کہو،

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

 زمین وآسمان سب ایک ساتھ تھے، نہ بارش برستی تھی، نہ پیداوار اگتی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی۔

جب سائل نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ جواب بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آج مجھے اور بھی یقین ہوگیا کہ قرآن کے علم میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرأت بڑھ گئی ہو؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا۔

آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے ۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں۔

آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے ۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں۔

 مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کردی گئیں۔

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ (۳۰)

اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔‏

ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی۔

کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے؟

 ففی کل شئلہ ایتہ تدل علی انہ واحد یعنی ہرچیز میں اللہ کی حکمرانی اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے۔

حضرت سعید رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کردیئے گئے۔ زمین وآسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنا دیا۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہوجاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں آپ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کردیں۔

آپ نے فرمایا ابوہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں ۔

 اور روایت میں ہے کہ پھر میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ؟

 آپ ﷺنے فرمایا:

 لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور رات کو جب لوگ سوتے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (۳۱)

اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیئے تاکہ مخلوق کو ہلا نہ سکے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنا دیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں‏

زمین کو جناب باری عزوجل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کردیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ تاکہ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکیں ۔

پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنا دیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کرسکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں۔

شان الہٰی دیکھئے اس حصے اور اس کے ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الہٰی خود اس پہاڑ میں راستہ بنادیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کرلیں ۔

وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ (۳۲)

آسمان کو مضبوط چھت بھی ہم نے ہی بنایا۔ لیکن لوگ اسکی قدرت کے نمونوں پر دھیان نہیں دھرتے۔‏

آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنا دیا

جیسے فرمان ہے:

وَالسَّمَآءَ بَنَيْنَـهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (۵۱:۴۷)

ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں

فرماتا ہے:

وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنَـهَا (۹۱:۵)

قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی۔

 ارشاد ہے:

أَفَلَمْ يَنظُرُواْ إِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَـهَا وَزَيَّنَّـهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ (۵۰:۶)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوارخ تک نہیں۔

 بنا کہتے ہیں قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْس

اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو۔

پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے ۔ یہ ہے بھی محفوظ بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلندوبالا اونچا اور صاف ہے جیسے حدیث میں ہے:

 کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے؟

 آپﷺ نے فرمایا رُکی ہوئی موج ہے۔

یہ روایت سنداً غریب ہے

لیکن لوگ اللہ کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بےپرواہ ہیں۔

جیسے فرمان ہے:

وَكَأَيِّن مِّن ءَايَةٍ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (۱۲:۱۰۵)

آسمان وزمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

 کوئی غوروفکر ہی نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا کتنا بلند کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے۔

پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کاجڑاؤ ہو رہا ہے۔ ان میں بھی کوئی ٹھہرا ہوا ہے کوئی چلتا پھرتا ہے۔

 پھر سورج کی چال مقرر ہے۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا رات ہے۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کرلیتا ہے۔ اس کی چال کو اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے۔

 بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کر لی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کرلیا ہوگا؟

 اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔

کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگا

جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقاً نہیں ہوا۔

 ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور وتدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو۔

عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا

 فرمایا بس یہی سبب ہے۔

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (۳۳)

وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں

پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو، سورج چاند کو دیکھو۔

سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیحدہ ہے۔

چاند کا نور الگ ہے، فلک الگ ہے،چال الگ ہے، انداز اور ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الہٰی کی بجا آوری میں مشغول ہے۔

جیسے فرمان ہے:

فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۶:۹۶)

وہی صبح کاروشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والاہے۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والاہے۔

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (۳۴)

آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مر گئے تو وہ ہمیشہ کے لئے رہ جائیں گے ۔

جتنے لوگ ہوئے سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے۔ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں۔ ہاں رب کی جلال واکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے۔

 اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام مرگئے ۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے ولی ہوں یانبی ہوں یا رسول ہوں تھے تو انسان ہی ۔

 ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مرجاؤ؟

 تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟

 ایسا تو محض ناممکن دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے ۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ

ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔

پھر فرمایا موت کا ذائقہ ہر ایک کوچکھنا پڑے گا۔

حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

 لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں؟

یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے۔

وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (۳۵)

ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے

 پھر فرماتا ہے بھلائی برائی سے، سکھ دکھ سے، مٹھاس کڑواہٹ سے، کشادگی تنگی سے۔ ہم اپنے بندوں کو آزمالیتے ہیں تاکہ شکر گزار اور ناشکرا صابر اور نا امید کھل جائے۔ صحت وبیماری ، تونگری ، فقیری، سختی، نرمی،حلال،حرام، ہدایت، گمراہی، اطاعت، معصیت یہ سب آزمائشیں ہیں، اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں ۔

 تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے اس وقت جوجیسا تھا کھل جائے گا ۔ بروں کوسزا نیکوں کو جزا ملے گی۔

وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا

یہ منکرین تجھے جب دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں

ابوجہل وغیرہ کفار قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ہنسی مذاق شروع کردیتے اور آپ کی شان میں بے ادبی کرنے لگتے ۔

أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَافِرُونَ (۳۶)

 کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا، اور وہ خود ہی رحمٰن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں

 کہنے لگتے کہ لو میاں دیکھ لو، یہی ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں۔

 اللہ کے منکر، رسول اللہ کے منکر اور آیت میں ان کے اسی کفر کا بیان کرکے فرمایا گیا ہے:

 (وہ تو کہئے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انہیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟

خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ

انسان جلد باز مخلوق ہے

انسان بڑا جلدباز ہے۔

حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی پیدائش کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کیا شام کے قریب جب ان میں روح پھونکی گئی سر آنکھ اور زبان میں جب روح آگئی تو کہنے لگے الہٰی مغرب سے پہلے ہی میری پیدائش مکمل ہوجائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 تمام دنوں میں بہتر وافضل دن جمعہ کا دن ہے

-  اسی میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے

-  اسی میں جنت میں داخل ہوئے اسی میں وہاں سے اتارے گئے

-  اسی میں قیامت قائم ہوگی

-  اسی دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت جو بندہ نماز میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو کچھ طلب کرے اللہ اسے عطا فرماتا ہے

آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ وہ ساعت کون سی ہے وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔

سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ (۳۷)

 میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو ۔

پہلی آیت میں کافروں کی بدبختی کا ذکر کرکے اس کے بعد ہی انسانی عجلت کا ذکر اس حکمت سے ہے کہ گویا کافروں کی سرکشی سنتے ہی مسلمان کا انتقامی جذبہ بھڑک اٹھتا ہے اور وہ جلد بدلہ لینا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانی جبلت میں جلدبازی ہے ۔لیکن عادت الہٰی یہ ہے کہ وہ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں۔

اسی لئے فرمایا کہ میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھانے والا ہوں کہ عاصیوں پر کس طرح سختی ہوتی ہے۔ میرے نبی کو مذاق میں اڑنے والوں کی کس طرح کھال ادھڑتی ہے تم ابھی دیکھ لوگے ۔ جلدی نہ مچاؤ دیر ہے اندھیر نہیں مہلت ہے بھول نہیں۔

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۳۸)

کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو بتا دو کہ یہ وعدہ کب ہے۔‏

عذاب الہٰی کو، قیامت کے آنے کو یہ لوگ چونکہ محال جانتے تھے اس لئے جرأت سے کہتے تھے کہ بتاؤ تو سہی تمہارے یہ ڈراوے کب پورے ہوں گے؟

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۳۹)

کاش! یہ کافر جانتے کہ اس وقت نہ تو یہ کافر آگ کو اپنے چہروں سے ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی

انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ تم اگر سمجھ دار ہوتے اور اس دن کی ہولناکیوں سے آگاہ ہوتے توجلدی نہ مچاتے اس وقت عذاب الہٰی اوپر تلے سے اوڑھنا بچھونا بنے ہوئے ہونگے،طاقت نہ ہوگی کہ آگے پیچھے سے اللہ کا عذاب ہٹاسکو۔

جیسے فرمایا:

لَهُمْ مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ (۳۹:۱۶)

انہیں نیچے اوپر سے آگ کے شعلے مثل سائبان کے ڈھانک رہے ہونگے

اور جیسے فرمایا:

لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ (۷:۴۱)

 ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہوگا

 جیسے فرمایا:

سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَى وُجُوهَهُمْ النَّارُ (۱۴:۵۰)

ان کے لباس گندھک کے ہونگے اور آگ ان کے چہروں پر چڑھی ہوئی ہوگی۔‏

گندھک کا لباس ہوگا جس میں آگ لگی ہوئی ہوگی اور کھڑے جل رہے ہوں گے، ہرطرف سے جہنم گھیرے ہوئے ہوگی۔

کوئی نہ ہوگا جو مدد کو اُٹھے

جیسے فرمایا:

وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ (۱۳:۳۴)

انہیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی بھی نہیں۔‏

بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (۴۰)

(ہاں ہاں!) وعدے کی گھڑی ان کے پاس اچانک آجائے گی اور انہیں ہکا بکا کر دے گی پھر نہ تو یہ لوگ اسے ٹال سکیں گے اور نہ ذرا سی بھی مہلت دیئے جائیں گے۔‏

 جہنم اچانک دبوچ لے گی اس وقت حیران وششدر رہ جاؤ گے مبہوت اور بےہوش ہوجاؤ گے، کوئی حیلہ نہ ملے گا کہ اسے دفعہ کرو، اس سے بچ جاؤ اور نہ ایک ساعت کی ڈھیل اور مہلت ملے گی۔

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۴۱)

اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہیں جو ستایا جارہاہے، مذاق میں اڑایا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے اس پر پر یشان نہ ہونا، کافروں کی یہ پرانی عادت ہے۔اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں یہی کیا جس کی وجہ سے آخرش عذابوں میں پھنس گئے ۔

جیسے فرمان ہے:

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ ۔۔۔ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ (۶:۳۴)

اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ کہ ہماری امداد ان کو پہنچی

اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔

قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ ۗ

ان سے پوچھئے کہ رحمٰن کے سوا، دن اور رات تمہاری حفاظت کون کر سکتا ہے؟

پھر اپنی نعمت بیان فرماتا ہے کہ وہ تم سب کی حفاظت دن رات اپنی ان آنکھوں سے کررہاہے جو نہ کبھی تھکیں نہ سوئیں۔

مِنَ الرَّحْمَنِ کا معنی رحمٰن کے بدلے یعنی رحمٰن کے سوا ہیں عربی شعروں میں بھی مِن بدل کے معنی میں ہے۔

بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُعْرِضُونَ (۴۲)

بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے شکر سے پھرے ہوئے ہیں۔‏

اسی ایک احسان پر کیا موقوف ہے یہ کفار تو اللہ کے ہر ایک احسان کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کے منکر اور ان سے منہ پھیرنے والے ہیں؟

یعنی وہ ایسا نہیں کر سکتے

أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ۚ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ وَلَا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ (۴۳)

کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں جو انہیں مصیبتوں سے بچالیں۔کوئی بھی خود اپنی مدد کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ کوئی ہماری طرف سے ساتھ دیا جاتا ہے ۔

 ان کا گمان یہ محض غلط ہے، بلکہ ان کے معبودان باطل خود اپنی حفاظت کے بھی مالک نہیں ۔ بلکہ وہ ہم سے بچ بھی نہیں سکتے۔ ہماری جانب سے کوئی خبر ان کے ہاتھوں میں نہیں ۔

 ایک معنی اس جملے کے یہ بھی ہیں کہ نہ تو وہ کسی کو بچا سکیں نہ خود بچ سکیں۔

بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ

بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو زندگی کے سرو سامان دیئے یہاں تک کہ ان کی مدت عمر گزر گئی

کافروں کے کینہ کی اور اپنی گمراہی پر جم جانے کی وجہ بیان رہی ہے کہ انہیں کھانے پینے کو ملتارہا ، لمبی لمبی عمریں ملیں۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے کرتوت اللہ کو پسند ہیں،

أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں

اس کے بعد انہیں نصیحت کرتا ہے کہ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے کافروں کی بستیوں کی بستیاں بوجہ ان کے کفر کے ملیامیٹ کر دیں؟

 اس جملے کے اور بھی بہت سے معنی کئے گئے ہیں جو سورۃ رعد میں ہم بیان کر آئے ہیں۔

لیکن زیادہ ٹھیک معنی یہی ہیں۔ جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرَى وَصَرَّفْنَا الاٌّيَـتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۴۶:۲۷)

ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں ہلاک کیں اور اپنی نشانیاں ہیر پھیر کر کے تمہیں دکھا دیں تاکہ لوگ اپنی برائیوں سے باز آجائیں۔

حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ ہم کفر پر اسلام کو غالب کرتے چلے ہیں

کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو اپنے دشمنوں پر غالب کردیا اور کس طرح جھٹلانے والی اگلی اُمتوں کو اس نے ملیامیٹ کردیا اور اپنے مؤمنوں کو نجات دے دی

أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ (۴۴)

اب کیا وہی غالب ہیں؟

کیا اب بھی یہ لوگ اپنے آپ کو غالب ہی سمجھ رہے ہیں؟

 نہیں نہیں بلکہ یہ مغلوب ہیں، ذلیل ہیں، رذلیل ہیں، نقصان میں ہیں، بربادی کے ماتحت ہیں۔

قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ ۚ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنْذَرُونَ (۴۵)

کہہ دیجئے! میں تمہیں اللہ کی وحی کے ذریعہ آگاہ کر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انہیں آگاہ کیا جائے ۔

میں تو اللہ کی طرف سے مبلغ ہوں، جن جن عذابوں سے تمہیں خبردار کر رہا ہوں یہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ اللہ کا کہا ہوا ہے۔ ہاں جن کی آنکھیں اللہ نے اندھی کردی ہیں، جن کے دل ودماغ بند کر دیئے ہیں انہیں اللہ کی یہ باتیں سود مند نہیں پڑتیں۔ بہروں کو آگاہ کرنا بےکار ہے کیونکہ وہ تو سنتے ہی نہیں۔

وَلَئِنْ مَسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (۴۶)

اگر انہیں تیرے رب کے کسی عذاب کا جھونکا بھی لگ جائے تو پکار اٹھیں کہ ہائے ہماری بد بختی یقیناً ہم گناہ گار تھے ۔

ان گنہگاروں پر اک ادنیٰ سا بھی عذاب آجائے تو واویلا کرنے لگتے ہیں اور اسی وقت بےساختہ اپنے قصور کا اقرار کرلیتے ہیں۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ

قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ ظلم بھی نہ کیا جائے گا۔

قیامت کے دن عدل کی ترازو قائم کی جائے گی۔ یہ ترازو ایک ہی ہوگی لیکن چونکہ جو اعمال اس میں تولے جائیں گے وہ بہت سے ہوں گے، اس اعتبار سے لفظ جمع لائے۔

وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ (۴۷)

اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لا حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے ۔

 اس دن کسی پر کسی طرح کا ذرا سابھی ظلم نہ ہوگا۔ اس لئے کہ حساب لینے والا خود اللہ ہے جو اکیلا ہی تمام مخلوق کے حساب کے لئے کافی ہے ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی وہاں موجود ہوجائے گا۔

 اور آیت میں فرمایا :

وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (۱۸:۴۹)

تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا۔

فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً  (۴:۴۰)

اللہ تعالیٰ ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، نیکی کو بڑھاتا ہے اور اس کا اجر اپنے پاس سے بہت بڑا عنایت فرماتا ہے۔

حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی وصیتوں میں اپنے بیٹے سے فرمایا تھا:

يبُنَىَّ إِنَّهَآ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (۳۱:۱۶)

ایک رائی کے دانے برابر بھی جو عمل ہو خواہ وہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں وہ اللہ اسے لائے گا وہ بڑا ہی باریک بین اور باخبر ہے۔

بخاری وسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 دو کلمے ہیں زبان پر ہلکے ہیں، میزان میں وزن دار ہیں اور اللہ کو بہت پیارے ہیں

سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم

مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میری اُمت کے ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کے سامنے اپنے پاس بلائے گا اور اس کے گناہوں کے ایک کم ایک سو دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے جہاں تک نگاہ کام کرے وہاں تک کا ایک ایک دفتر ہوگا پھر اس سے جناب باری تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ کیا تجھے اپنے کئے ہوئے ان گناہوں میں سے کسی کا انکار ہے؟

میری طرف سے جو محافظ فرشتے تیرے اعمال لکھنے پر مقرر تھے انہوں نے تجھ پر کوئی ظلم تو نہیں کیا ؟

یہ جواب دے گا کہ اے اللہ نہ انکار کی گنجائش ہے نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ظلم کیا ۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا تیرا کوئی عذر ہے یا کوئی نیکی ہے؟

 وہ گھبرایا ہوا کہے گا اے اللہ کوئی نہیں۔

 پروردگار عالم فرمائے گا کیوں نہیں؟ بیشک تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا اب ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں اشہد ان لا الہ اللہ وان محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہوگا۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے پیش کرو۔

وہ کہے گا اے اللہ یہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا کرے گا؟

 جناب باری فرمائے گا تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا۔

 اب تمام کے تمام دفتر ترازو کے ایک پلے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس پرچے کا وزن ان تمام دفتروں سے بڑھ جائے گا۔ یہ جھک جائے گا اور اونچے ہوجائیں گے اور اللہ رحمٰن ورحیم کے نام سے کوئی چیز وزنی نہ ہوگی۔

 ابن ماجہ اور ترمذی میں بھی یہ روایت ہے ۔

 مسند احمد میں ہے:

 قیامت کے دن جب ترازوئیں رکھی جائیں گی پس ایک شخص کو لایا جائے اور ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور جو کچھ اس پر شمار کیا گیا ہے وہ بھی رکھا جائے گا تو وہ پلڑا جھک جائے گا اور اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا۔

 ابھی اس نے پیٹھ پھیری ہی ہوگی کہ اللہ کی طرف سے ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا اور کہے گا جلدی نہ کرو ایک چیز اس کی ابھی باقی  رہ گئی ہے

 پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس میں لا الہ الا اللہ ہوگا وہ اس شخص کے ساتھ ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے گا اور یہ پلڑا نیکی کا جھک جائے گا۔

مسند احمد میں ہے:

 ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ میرے غلام ہیں جو مجھے جھٹلاتے بھی ہیں، میری خیانت بھی کرتے ہیں، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں بھی انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور برا بھلا بھی کہتا ہوں ۔ اب فرمائیے میرا ان کا کیا حال ہو گا؟

آپﷺ نے فرمایا ان کی خیانت نافرمانی جھلانا وغیرہ جمع کیا جائے گا اور تیرا مارنا پیٹنا برا کہنا بھی اگر تیری سزا ان کی خطاؤں کے برابر ہوئی تو توچھوٹ گیا۔ نہ عذاب نہ ثواب ہاں اگر تیری سزا کم رہی تو تجھے اللہ کافضل وکرم ملے گا اور اگر تیری سزا ان کے کرتوتوں سے بڑھ گئی تو تجھ سے اس بڑھی ہوئی سزا کا انتقام لیا جائے گا۔

یہ سن کر وہ صحابی رونے لگے اور چیخنا شروع کردیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کیا ہوگیا؟ کیا اس نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا  وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ

یہ سن کر اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کو سن کر تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے ان تمام غلاموں کو آزاد کردوں۔ آپ گواہ رہئے یہ سب اللہ کی راہ میں آزاد ہیں ۔

‏ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِلْمُتَّقِينَ (۴۸)

یہ بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسیٰ و ہارون کو فیصلے کرنے والی نورانی اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ و نصیحت والی کتاب عطا فرمائی ہے

ہم پہلے بھی اس بات کو جتا چکے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکثر ملاجلا آتا ہے اور اسی طرح توراۃ اور قرآن کا ذکر بھی عموماً ایک ساتھ ہی ہوتا ہے۔

 الْفُرْقَانَ سے مراد کتاب یعنی تورات ہے جو حق وباطل حرام حلال میں فرق کرنے والی تھی۔ اسی سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو مدد ملی ۔

 کل کی کل آسمانی کتابیں حق وباطل ہدایت وگمراہی بھلائی برائی حلال وحرام میں جدائی کرنے والی ہوتی ہیں ۔ ان سے دلوں میں نورانیت ، اعمال میں حقانیت ، اللہ کا خوف وخشیت ڈر اور اللہ کی طرف رجوع حاصل ہوتا ہے۔

اسی لئے فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ کتاب نصیحت وپند اور نور وروشنی ہے ۔

الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ (۴۹)

وہ لوگ جو اپنے رب سے بن دیکھے خوف کھاتے ہیں اور قیامت (کے تصور) سے کانپتے رہتے ہیں ۔

پھر ان متقیوں کا وصف بیان فرمایا کہ وہ اپنے اللہ سے غائبانہ ڈرتے ہیں رہتے ہیں۔ جیسے جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا :

مَّنْ خَشِىَ الرَّحْمَـنَ بِالْغَيْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ (۵۰:۵۳)

جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور جھکنے والا دل رکھتے ہیں۔

 اور آیت میں ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (۶۷:۱۲)

جو لوگ اپنے رب کا غائبانہ ڈر رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے۔

 ان متقیوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ قیامت کا کھٹکا رکھتے ہیں۔ اس کی ہولناکیوں سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔

وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ ۚ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (۵۰)

اور یہ نصیحت اور برکت والا قرآن بھی ہم نے نازل فرمایا ہے کیا پھر بھی تم اس کے منکر ہو ۔

پھر فرماتا ہے کہ اس قرآن عظیم کو بھی ہم نے ہی نازل فرمایا ہے جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا۔ جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اترا ہے۔ افسوس کیا اس قدر وضاحت وحقانیت صداقت ونورانیت والا قرآن بھی اس قابل ہے کہ تم اس کے منکر بنے رہو؟

وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ (۵۱)

یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اسکی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اسکے احوال سے بخوبی واقف تھے ۔

فرمان ہے کہ خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بچپن سے ہی ہدایت عطافرمائی تھی۔ انہیں اپنی دلیلیں الہام کی تھیں اور بھلائی سمجھائی تھی

جیسے آیت میں ہے:

وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ ءَاتَيْنَـهَآ إِبْرَهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ (۶:۸۳)

یہ ہیں ہماری زبردست دلیلیں جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دی تھیں تاکہ وہ اپنی قوم کو قائل کرسکیں۔

یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انہیں ان کے والد نے ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے مدتوں بعد وہ باہر نکلے اور مخلوقات الہٰی پر خصوصا ًچاند تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر اللہ کو پہچانا یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں۔

قاعدہ یہ ہے کہ ان میں سے جو واقعہ اس کے مطابق ہو جو حق ہمارے ہاتھوں میں ہے یعنی کتاب وسنت وہ تو سچا ہے اور قابل قبول ہے اس لئے کہ وہ صحت کے مطابق ہے اور جو خلاف ہو وہ مردود ہے۔

 اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، موافقت ومخالفت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے لیکن نہ تو ہم اسے سچاکرسکتے ہیں نہ غلط۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ وہ واقعات ہمارے لئے کچھ سند نہیں، نہ ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع نافع کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی۔

 ہمارا اپنا مسلک تو اس تفسیر میں یہ رہا ہے کہ ہم ایسی بنی اسرائیلی روایتوں کو وارد نہیں کرتے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع کرنے کے کہ کوئی نفع نہیں ہاں نقصان کا احتمال زیادہ ہے ۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ بنی اسرائیل میں روایت کی جانچ پڑتال کا مادہ ہی نہ تھا وہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہی نہ تھے ان میں جھوٹ سرایت کر گیا تھا جیسے کہ ہمارے حفاظ ائمہ نے تشریح کی ہے۔

 غرض یہ ہے کہ آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ ہم نے اس سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت بخشی تھی اور ہم جانتے تھے کہ وہ اس کے لائق ہے

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ (۵۲)

جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں؟

بچپنے میں ہی آپ نے اپنی قوم کی غیر اللہ پرستی کو ناپسند فرمایا ۔ اور نہایت جرأت سے اس کا سخت انکار کیا اور قوم سے برملا کہا کہ ان بتوں کے اردگرد مجمع لگا کر کیا بیٹھے ہو؟

حضرت اصبح بن بناتہ راہ سے گزر رہے تھے جو دیکھا کہ شطرنج باز لوگ بازی کھیل رہے ہیں ۔ آپ نے یہی تلاوت فرما کر فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا انگارا لے لے یہ اس شطرنج کے مہروں کے لینے سے اچھا ہے ۔

قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ (۵۳)

سب نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا۔‏

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس کھلی دلیل کا جواب ان کے پاس کیا تھا جو دیتے؟

 کہنے لگے کہ یہ تو پرانی روش ہے، باپ دادوں سے چلی آتی ہے ۔

قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۵۴)

آپ نے فرمایا واہ یہ بھی کوئی دلیل ہوئی ؟

 ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ایک گمراہی میں تمہارے بڑے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہوجاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ؟

 میں کہتا ہوں تم اور تمہارے باپ دادا سبھی راہ حق سے برگشتہ ہوگئے ہو اور کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو۔

قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ (۵۵)

کہنے لگے کیا آپ ہمارے پاس سچ مچ حق لائے ہیں یا یوں ہی مذاق کر رہے ہیں ۔

اب تو ان کے کان کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے عقل مندوں کی توہین دیکھی ، اپنے باپ دادوں کی نسبت نہ سننے والے کلمات سنے ۔ اپنے معبودوں کی حقارت ہوتی ہوئی دیکھی تو گھبراگئے اور کہنے لگے ابراہیم کیا واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو یا مذاق کررہے ؟

 ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی ۔

قَالَ بَلْ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ

آپ نے فرمایا نہیں درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے،

آپ کو تبلیغ کا موقعہ ملا اور صاف اعلان کیا کہ رب تو صرف خالق آسمان وزمین ہی ہے ۔ تمام چیزوں کا خالق مالک وہی ہے، تمہارے یہ معبود کسی ادنیٰٰ سی چیز کے بھی خالق ہیں نہ مالک ۔ پھر معبود مسجود کیسے ہوگئے ؟

وَأَنَا عَلَى ذَلِكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (۵۶)

میں تو اپنی بات کا گواہ اور قائل ہوں

میری گواہی ہے کہ خالق ومالک اللہ ہی لائق عبادت ہے نہ اسکے سوا کوئی رب نہ معبود۔

وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (۵۷)

اور اللہ کی قسم میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا‏

اوپر ذکر گزرا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا۔ اور جذبہ توحید میں آکر آپ نے قسم کھالی کہ میں تمہارے ان بتوں کا ضرور کچھ نہ کچھ علاج کرونگا ۔

 اسے بھی قوم کے بعض افراد نے سن لیا ۔

 ان کی عید کا دن جو مقرر تھا حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم اپنی رسوم عید ادا کرنے کے لئے باہر جاؤ گے میں تمہارے بتوں کو ٹھیک کردوں گا ۔

 عید کے ایک آدھ دن پیشتر آپ کے والد نے آپ سے کہا کہ پیارے بیٹے تم ہمارے ساتھ ہماری عید میں چلو تاکہ تمہیں ہمارے دین کی اچھائی اور رونق معلوم ہوجائے۔ چنانچہ یہ آپ کو لے چلا ۔ کچھ دور جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم گر پڑے اور فرمانے لگے ابا میں بیمار ہوگیا۔

 باپ آپ کو چھوڑ کرمراسم کفر بجا لانے کے لئے بڑھ گئے اور جو لوگ راستے سے گزرتے آپ سے پوچھتے کیا بات ہے راستے پر کیسے بیٹھے ہو؟

جواب دیتے کہ میں بیمار ہوں۔

جب عام لوگ نکل گئے اور بڈھے بڑے لوگ رہ گئے تو آپ نے فرمایا تم سب کے چلے جانے کے بعد آج میں تمہارے معبودوں کی مرمت کردوں گا ۔

 آپ نے جو فرمایا کہ میں بیمار ہوں تو واقعی آپ اس دن کے اگلے دن قدرے علیل بھی تھے۔

فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (۵۸)

پس اس نے سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لئے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں

 جب کہ وہ لوگ چلے گئے تو میدان خالی پا کر آپ نے اپنا ارادہ پورا کیا اور بڑے بت کو چھوڑ کر تمام بتوں کا چورا کردیا۔ جیسے اور آیتوں میں اس کا تفصیلی بیان موجود ہے کہ اپنے ہاتھ سے ان بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔

 اس بڑے بت کے باقی رکھنے میں حکمت ومصلحت یہ تھی کہ اولاً ان لوگوں کے ذہن میں خیال آئے کہ شاید اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو غارت کردیا ہوگا؟ کیونکہ اسے غیرت معلوم ہوئی ہوگی کہ مجھ بڑے کے ہوتے ہوئے یہ چھوٹے خدائی کے لائق کیسے ہوگئے۔ چنانچہ اس خیال کی پختگی ان کے ذہنوں میں قائم کرنے کے لئے آپ نے کلہاڑا بھی اس کی گردن پر رکھ دیا تھا ۔ جیسے مروی ہے ۔

قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (۵۹)

کہنے لگے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کس نے کیا؟ ایسا شخص تو یقیناً ظالموں میں سے ہے

جب یہ مشرکین اپنے میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے سارے معبود منہ کے بل اوندھے گرے ہوئے ہیں ۔ اور اپنی حالت سے وہ بتا رہے ہیں کہ وہ محض بےجان بےنفع ونقصان ذلیل وحقیر چیزہیں۔ اور گویا اپنی اس حالت سے اپنے پجاریوں کی بےوقوفی پر مہرلگا رہے تھے۔ لیکن ان بیوقوفوں پر الٹا اثر ہواکہنے لگے یہ کون ظالم شخص تھا جس نے ہمارے معبودوں کی ایسی اہانت کی؟

قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (۶۰)

بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم کہا جاتا ہے ۔

اس وقت جن لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ کلام سنا تھا ، انہیں خیال آگیا اور کہنے لگے وہ نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے اسے ہم نے اپنے معبودوں کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو پڑھتے اور فرماتے جو نبی آیا جوان۔ جو عالم بنا جوان۔ شان الہٰی دیکھئے جو مقصد حضرت خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کا تھا وہ اب پورا ہورہا ہے۔

قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ (۶۱)

سب نے کہا اچھا اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاؤ تاکہ سب دیکھیں

قوم کے یہ لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ آؤ سب کو جمع کرو اور اسے بلاؤ اور پھر اس کو سزا دو۔ حضرت خلیل اللہ یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مجمع ہو اور میں اس میں ان کی غلطیاں ان پر واضع کروں اور ان میں توحید کی تبلیغ کرو۔ اور انہیں بتلاؤں کہ یہ کیسے ظالم وجاہل ہیں؟ کہ ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو نفع نقصان کے مالک نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔

قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ (۶۲)

کہنے لگے! اے ابراہیم کیا تو نے ہی ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔‏

چنانچہ مجمع ہوا۔ سب چھوٹے بڑے آگئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ملزم کی حیثیت سے موجود ہوئے اور آپ سے سوال ہوا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟

قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ (۶۳)

آپ نے جواب دیا بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے خداؤں سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے چالتے ہوں

 اس پر آپ نے انہیں قائل معقول کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ کام تو ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے۔ اور اس کی طرف اشارہ کیا جسے آپ نے توڑا نہ تھا

پھر فرمایا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو اپنے ان معبودوں سے ہی کیوں دریافت نہیں کرتے کہ تمہارے ٹکڑے اڑانے والا کون ہے؟

 اس سے مقصود خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ تھا کہ یہ لوگ خودبخود ہی سمجھ لیں کہ یہ پتھر کیا بولیں گے ؟

 اور جب وہ اتنے عاجز ہیں تو یہ لائق عبادت کیسے ٹھیر سکتے ہیں؟

چنانچہ یہ مقصد بھی آپ کا بفضل الہٰی پورا ہوا اور یہ دوسری ضرب بھی کاری لگی۔

بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے:

 خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے ہیں دو تو راہ اللہ میں ۔

 ایک تو انکا یہ فرمانا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے۔

 دوسرا یہ فرمانا کہ میں بیمار ہوں۔

 اور ایک مرتبہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ اتفاق سے ایک ظالم کی حدود سے آپ گزر رہے تھے آپ نے وہاں منزل کی تھی ۔ کسی نے بادشاہ کو خبر کردی کہ ایک مسافر کے ساتھ بہترین عورت ہے اور وہ اس وقت ہماری سلطنت میں ہے ۔ بادشاہ نے جھٹ سپاہی بھیجا کہ وہ حضرت سارہ کو لے آئے ۔ اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میری بہن ہے

 اس نے کہا اسے بادشاہ کے دربار میں بھیجو۔

 آپ حضرت سارہ کے پاس گئے اور فرمایا سنواس ظالم نے تمہیں طلب کیا ہے اور میں تمہیں اپنی بہن بتاچکاہوں اگر تم سے بھی پوچھا جائے تو یہی کہنا اس لئے کہ دین کے اعتبار سے تم میری بہن ہو، روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مسلمان نہیں ۔

یہ کہہ کر آپ چلے آئے حضرت سارہ وہاں سے چلیں آپ نماز میں کھڑے ہوگئے۔

 جب حضرت سارہ کو اس ظالم نے دیکھا اور ان کی طرف لپکا اسی وقت اللہ کے عذاب نے اسے پکڑلیا ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے۔ گھبرا کرعاجزی سے کہنے لگا اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑ دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔

 آپ نے دعا کی اسی وقت وہ اچھا ہوگیا لیکن اچھا ہوتے ہی اس نے پھر قصد کیا اور آپ کو پکڑنا چاہا وہی پھر عذاب الہٰی آپہنچا اور یہ پہلی دفعہ سے زیادہ سخت پکڑ لیا گیا پھر عاجزی کرنے لگا غرض تین دفعہ پے درپے یہی ہوا۔

 تیسری دفعہ چھوٹتے ہی اس نے اپنے قریب کے ملازم کو آواز دی اور کہا تو میرے پاس کسی انسان عورت کو نہیں لایا بلکہ شیطانہ کو لایا ہے جا اسے نکال اور ہاجرہ کو اس کے ساتھ کردے۔ اسی وقت آپ وہاں سے نکال دی گئیں اور حضرت ہاجرہ آپ کے حوالے کی گئیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاتے ہی نماز سے فراغت حاصل کی اور دریافت فرمایا کہ کہو کیا گزری؟

آپ نے فرمایا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور حاجرہ میری خدمت کے لئے آگئیں

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ یہ ہیں تمہاری اماں اے آسمانی پانی کے لڑکو۔

فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ (۶۴)

پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقع ظالم تو تم ہی ہو

بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہوگیا ۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے۔ سخت ندامت اٹھائی اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے ۔

ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءِ يَنْطِقُونَ (۶۵)

پھر اپنے سروں کے بل اوندھے ہوگئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تجھے بھی معلوم ہے یہ بولنے چالنے والے نہیں

پھر غور وفکر کرکے بات بنائی کہ آپ جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ کو علم نہیں کہ یہ بت بےزبان ہیں ؟عاجزی حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا

قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (۶۶)

اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان۔‏

اب حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ فوراً فرمانے لگے کہ بےزبان بےنفع وضرر چیز کی عبادت کیسی؟

 تم کیوں اس قدر بےسمجھ ہو رہے ہو؟

أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۶۷)

تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل نہیں ۔

 تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے خداؤں پر آہ کس قدر ظلم وجہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے ؟

یہی تھی وہ دلیلیں جن کا ذکرپہلے ہوا تھا :

وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ ءَاتَيْنَـهَآ إِبْرَهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ (۶:۸۳)

ہم نے ابراہیم کو دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے ۔

قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (۶۸)

کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے

یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے ۔ یہاں ان لوگوں کی بدبختی نے گھیرلیا اور دلیل سے عاجز آکر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے۔

 اس بات پر سب نے اتفاق کرلیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کردیں یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفا ہوجائے تو ابراہیم علیہ السلام کے جلانے کو لکڑیاں لائیں گی۔ زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا لکڑیوں سے پر کیا اور انبار کھڑا کرکے اس میں آگ لگائی روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی۔

جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے اس کے پاس جانا محال ہوگیا اب گھبرائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالیں کیسے؟

 آخر ایک کُردی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ایک منجنیق تیار کرائی گئی کہ اس میں بٹھا کر جھولا کر پھنک دو۔

 مروی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے۔

 جب آپ کوآگ میں ڈالا گیا آپ نے فرمایا:

حَسْبِی اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ کے مقابلے کے لئے آرہے ہیں تو آپ نے بھی یہی پڑھا تھا ۔

 یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے فرمایا الہٰی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں۔

 مروی ہے کہ جب کافر آپ کو باندھنے لگے تو آپ نے فرمایا الہٰی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تیری ذات پاک ہے تمام حمدوثنا تیرے ہی لئے سزاوار ہے۔ سارے ملک کا تو اکیلاہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک وساجھی نہیں ۔

حضرت شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی ۔ واللہ اعلم

 بعض سلف سے منقول ہے:

 اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آسمان وزمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟

 آپ نے جواب دیا تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے۔

قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (۶۹)

ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھندی پڑ جا اور ابراہیم کے لئے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا۔‏

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پر بارش برسا کر اسے ٹھنڈی کردوں لیکن براہ راست حکم الہٰی آگ کو ہی پہنچا کہ میرے خلیل پر سلامتی اور ٹھنڈک بن جا۔

 فرماتے ہیں کہ اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہوگئی ۔

حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 اگر آگ کو صرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ کو ضرر پہنچاتی اس لئے ساتھ ہی فرمادیا گیا کہ ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا۔

ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

 بہت بڑا گڑھا بہت ہی گہرا کھودا تھا اور اسے آگ سے پر کیا تھا ہرطرف آگ کے شعلے نکل رہے تھے اس میں خلیل اللہ کو ڈال دیا لیکن آگ نے آپ کو چھوا تک نہیں یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے اسے بالکل ٹھنڈا کردیا ۔

 مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے آپ کے منہ پر سے پسینہ پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آپ کو آگ نے کوئی تکلیف نہیں دی ۔

 سدی فرماتے ہیں سایہ یافرشتہ اس وقت آپ کے ساتھ تھا ۔

 مروی ہے:

 آپ اس میں چالیس یا پچاس دن رہے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے اس وقت آپ کو پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ کے والد نے کہا ابراہیم تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے ۔

 قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن جو جانور نکلا وہ آپ کی آگ کو بجھانے کی کوشیش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے ۔

حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور فاسق کہا ہے ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟

 آپ نے فرمایا گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے۔ یہ پھونک رہا تھا پس آپ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔

وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (۷۰)

گو انہوں نے ابراہیم کا برا چاہا، لیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا۔‏

پھر فرماتا ہے کہ ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا ۔

حضرت عطیہ عوفی کا بیان ہے:

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کاآگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لئے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا ۔ ادھر خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافربادشاہ کے انگوٹھے پر آپڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جسے روئی جل جائے ۔

وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ (۷۱)

اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی ۔

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل کو کافروں کی آگ سے بچا کر شام کے مقدس ملک میں پہنچا دیا۔

 ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمام میٹھا پانی شام کے صخرہ کے نیچے سے نکلتا ہے۔

 قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

آپ کو عراق کی سرزمین سے اللہ نے نجات دی اور شام کے ملک میں پہنچایا ۔ شام ہی نبیوں کا ہجرت کدہ رہا ۔

زمین میں سے جو گھٹتا ہے وہ شام میں بڑھتا ہے اور شام کی کمی فلسطین میں زیادتی ہوتی ہے ۔ شام ہی محشر کی سرزمین ہے۔ یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے، یہیں دجال قتل کیا جائے گا ۔

 بقول کعب آپ حران کی طرف گئے تھے۔ یہاں آکر آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں کے بادشاہ کی لڑکی اپنی قوم کے دین سے بیزار ہے اور اس سے نفرت رکھتی ہے بلکہ ان کے اوپر طعنہ زنی کرتی ہے تو آپ نے ان سے اس قرار پر نکاح کرلیا کہ وہ آپ کے ساتھ ہجرت کرکے یہاں سے نکل چلے انہی کا نام حضرت سارہ ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔

یہ روایت غریب ہے

 اور مشہور یہ ہے کہ حضرت سارہ آپ کے چچا کی صاحبزادی تھیں، اور آپ کے ساتھ ہجرت کرکے چلی آئی تھیں ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 یہ ہجرت مکے شریف میں ختم ہوئی

مکے ہی کی نسبت جناب باری فرماتا ہے:

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى (۲:۱۲۴)

ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو

یہ اللہ کا پہلا گھر ہے جو برکت وہدایت والا ہے، جس میں علاوہ اور بہت سی نشانیوں کے مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس میں آجانے والا امن وسلامتی میں آجاتا ہے ۔

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ (۷۲)

اور ہم نے اسے اسحاق عطا فرمایا اور یعقوب اس پر مزید اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا۔‏

پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب کا عطیہ بھی کیا۔ یعنی لڑکا اور پوتا

 جیسے فرمان ہے:

فَبَشَّرْنَـهَا بِإِسْحَـقَ وَمِن وَرَآءِ إِسْحَـقَ يَعْقُوبَ (۱۱:۷۱)

تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔‏

چونکہ خلیل اللہ علیہ السلام کے سوال میں ایک لڑکے ہی کی طلب تھی دعا کی تھی کہ رَبِّ هَبْ لِى مِنَ الصَّـلِحِينِ (۳۷:۱۰۰) اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی اور لڑکے کے ہاں بھی لڑکا دیا جو سوال سے زائد تھا اور سب کو نیکو کاربنایا ۔

وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ (۷۳)

اور ہم نے انہیں پیشوا بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے اور نمازوں کے قائم رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی (تلقین) کی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔‏

ان سب کو دنیا کا مقتدا اور پیشوا بنادیا کہ بحکم الہٰی خلق اللہ کو راہ حق کی دعوت دیتے رہے۔ ان کی طرف ہم نے نیک کاموں کی وحی فرمائی ۔

 اس عام بات پر عطف ڈال کر پھر خاص باتیں یعنی نماز اور زکوٰۃ کا بیاں فرمایا۔

 اور ارشاد ہوا کہ وہ علاوہ ان نیک کاموں کے حکم کے خود بھی ان نیکیوں پر عامل تھے ۔

وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِثَ ۗ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ (۷۴)

ہم نے لوطؑ کو بھی حکم اور علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات دی جہاں لوگ گندے کاموں میں مبتلا تھے۔ اور تھے بھی وہ بدترین گنہگار۔‏

پھر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکرشروع ہوتا ہے ۔

 لوط بن ہاران بن آزر علیہ السلام آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور آپ کی تابعداری میں آپ ہی کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ جیسے کلام اللہ شریف میں ہے:

فَـَامَنَ لَهُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّى مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّى (۲۹:۲۶)

حضرت لوط علیہ السلام آپ پر ایمان لائے اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں،

 پس اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا اور وحی نازل فرمائی اور نبیوں کے پاک زمرے میں داخل کیا ۔ اور سدوم اور اس کے آس پاس کی بستیوں کی طرف آپ کو بھیجا۔ انہوں نے نہ مانا مخالفت پر کمربستگی کرلی۔ جس کے باعث عذاب الہٰی میں گرفتار ہوئے اور فناکردئیے گئے، جن کی بربادی کے واقعات اللہ تعالیٰ کی کتاب عزیز میں کئی جگہ بیان ہوئے ہیں

یہاں فرمایا کہ ہم نے انہیں بدترین کام کرنے والے فاسقوں کی بستی سے نجات دے دی

وَأَدْخَلْنَاهُ فِي رَحْمَتِنَا ۖ إِنَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ (۷۵)

اور ہم نے لوطؑ کو اپنی رحمت میں داخل کر لیا بیشک وہ نیکوکار لوگوں میں سے تھا ۔

 اور چونکہ وہ اعلیٰ نیکوکار تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا۔

وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (۷۶)

نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ اس نے اس سے پہلے دعا کی ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑے کرب سے نجات دی۔‏

نوح نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم نے ستایا تکلیفیں دیں تو آپ نے اللہ کو پکارا کہ باری تعالیٰ میں عاجز آگیا ہوں تو میری مدد فرما۔ زمین پر ان کافروں میں کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر کافر ہوں گی۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور آپکو اور مؤمنوں کو نجات دی اور آپ کے اہل کو بھی سوائے ان کے جن کے نام برباد ہونے والوں میں آگئے تھے ۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی۔ قوم کی سختی ، ایذاء دہی، اور تکلیف سے اللہ عالم نے اپنے نبی کو بچالیا۔

وَنَصَرْنَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ (۷۷)

اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے تھے ان کے مقابلے میں ہم نے اسکی مدد کی، یقیناً وہ برے لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو ڈبو دیا۔‏

 ساڑھے نوسو سال تک آپ ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگر سوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک وکفر سے باز نہ آئے بلکہ آپ کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت آبرو کے ساتھ کفار کی ایذاء رسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کوٹھکانے لگادیا۔ اور نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا سب ڈبودئے گئے۔

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ (۷۸)

اور داؤد اور سلیمان کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر گئی تھیں،اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے۔‏

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ کھیتی انگور کی تھی جس کے خوشے لٹک رہے تھے

 نَفَشَتْ کے معنی ہیں رات کے وقت جانوروں کے چرنے کے ۔ اور دن کے وقت چرنے کو عربی میں ہمل کہتے ہیں۔

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ

ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا  ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم و علم دے رکھا تھا

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں

 اس باغ کو بکریوں نے بگاڑ دیا،حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ کے نقصان کے بدلے یہ بکریاں باغ والے کو دے دی جائیں ۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ فیصلہ سن کر عرض کی کہ اے اللہ کے نبی علیہ السلام اس کے سوا بھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ؟

 آپ نے فرمایا وہ کیا؟

 جواب دیا کہ بکریاں باغ والے کے حوالے کردی جائیں وہ ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکری والے کو دے دیا جائے یہ اس میں انگور کی بیلوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ بیلیں ٹھیک ٹھاک ہوجائیں انگور لگیں اور پھر اسی حالت پر آجائیں جس پر تھے تو باغ والے کو اس کا باغ سونپ دے اور باغ والا اسے اس کی بکریاں سونپ دے ۔

یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم نے اس جھگڑے کا صحیح فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام کا یہ فیصلہ سن کر بکریوں والے اپنا سا منہ لے کر صرف کتوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے واپس جا رہے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہوا؟

 انہوں نے خبردی تو آپ نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ دیتا بلکہ کچھ اور فیصلہ کرتا

حضرت داؤد علیہ السلام کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے انہیں بلوایا اور پوچھا کہ بیٹے تم کیا فیصلہ کرتے ؟

 آپ نے وہی اوپر والا فیصلہ سنایا ۔

حضرت مسروق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 ان بکریوں نے خوشے اور پتے سب کھالئے تھے ۔ توحضرت داؤد علیہ السلام کے فیصلے کے خلاف حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کی بکریاں باغ والوں کو دے دی جائیں اور یہ باغ انہیں سونپا جائے جب تک باغ اپنی اصلی حالت پر آئے تب تک بکریوں کے بچے اور ان کا دودھ اور ان کا کل نفع باغ والوں کا۔ پھر ہر ایک کو ان کی چیز سونپ دی جائے ۔

 قاضی شریح رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کوئی معاوضہ نہیں ۔ اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

 مسند احمد کی حدیث میں ہے:

 حضرت برا بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کو ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر ہے

اس حدیث میں علتیں نکالی گئی ہیں اور ہم نے کتاب الاحکام میں اللہ کے فضل سے اس کی پوری تفصیل بیان کردی ہے۔

مروی ہے:

 حضرت ایاس بن معاویہ رحمتہ اللہ علیہ سے جب کہ قاضی بننے کی درخواست کی گئی تو وہ حسن رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے اور روئے۔

 پوچھا گیا کہ ابوسعید آپ کیوں روتے ہیں ؟

فرمایا مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اگر قاضی نے اجتہاد کیا پھر غلطی کی وہ جہنمی ہے اور جو خواہش نفس کی طرف جھک گیا وہ بھی جہنمی ہے ہاں جس نے اجتہاد کیا اور صحت پر پہنچ گیا وہ جنت میں پہنچا ۔

 حضرت حسن یہ سن کر فرمانے لگے سنو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی قضاۃ کا ذکر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اعلیٰ منصب پر ہوتے ہیں، ان کے قول سے ان لوگوں کی باتیں رد ہوسکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی تعریف تو بیان فرمائی ہے لیکن حضرت داؤد علیہ السلام کی مذمت بیان نہیں فرمائی ۔

 پھر فرمانے لگے سنو تین باتوں کا عہد اللہ تعالیٰ نے قاضیوں سے لیا ہے ۔

-  ایک تو یہ کہ وہ منصفین شرع دینوی نفع کی وجہ سے بدل نہ دیں،

- دوسرے یہ کہ اپنے دلی ارادوں اور خواہشوں کے پیچھے نہ پڑجائیں ،

- تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔

 پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (۳۸:۲۶)

اے داؤد ہم نے تجھے زمین کا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کرتا رہ خواہش کے پیچے نہ پڑ کہ اللہ کی راہ سے بہک جائے ۔

 اور ارشاد ہے:

فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ (۵:۴۴)

لوگوں سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرتے رہا کرو

 اور فرمان ہے:

وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا (۲:۴۱)

 میری آیتوں کو معمولی نفع کی خاطر بیچ نہ دیا کرو۔

 میں کہتا ہوں انبیاء علیہم السلام کی معصومیت میں اور ان کی منجانب اللہ ہر وقت تائید ہوتے رہنے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ رہے اور لوگ تو صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب حاکم اجتہاد اور کوشش کرے پھر صحت تک بھی پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور جب پوری کوشش کے بعد بھی غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔

 یہ حدیث صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت ایاس رحمتہ اللہ علیہ کو جو وہم تھا کہ باوجود پوری جدوجہد کے بھی خطا کرجائے تو دوزخی ہے یہ غلط ہے ، واللہ اعلم ۔

 سنن کی اور حدیث میں ہے:

 قاضی تین قسم کے ہیں ایک جنتی دو جہنمی

- اور جس نے حق کو معلوم کرلیا اور اسی سے فیصلہ کیا وہ جنتی ۔

-  اور جس نے جہالت کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جہنمی

-  اور جس نے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی جہنمی ۔

قرآن کریم کے بیان کردہ اس واقعے کے قریب ہی وہ قصہ ہے جو مسند احمد میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے بھیڑیا آکر ایک بچے کو اٹھا لے گیا اب ہر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ تیرا بچہ گیا اور جو ہے وہ میرا بچہ ہے ۔ آخر یہ قصہ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا ۔ آپ نے بڑی عورت کو ڈگری دے دی کہ یہ بچہ تیرا ہے یہ یہاں سے نکلیں راستے میں حضرت سلیمان علیہ السلام تھے آپ نے دونوں کو بلایا اور فرمایا چھری لاؤ میں اس لڑکے کے دو ٹکڑے کرکے آدھا آدھا دونوں کو دے دیتا ہوں اس پر بڑی تو خاموش ہوگئی لیکن چھوٹی نے ہائے واویلا شروع کردیا کہ اللہ آپ پر رحم کرے آپ ایسا نہ کیجئے یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے اسی کو دے دیجئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام معاملے کو سمجھ گئے اور لڑکا چھوٹی عورت کو دلادیا۔

یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے

 امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے اس پر باب باندھا ہے کہ حاکم کو جائز ہے کہ اپنا فیصلہ اپنے دل میں رکھ کر حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اس کے خلاف کچھ کہے۔

 ایسا ہی ایک واقعہ ابن عساکر میں ہے:

 ایک خوبصورت عورت سے ایک رئیس نے ملنا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا اسی طرح تین اور شخصوں نے بھی اس سے بدکاری کا ارادہ کیا لیکن وہ باز رہی ۔ اس پر وہ رؤسا خار کھا گئے اور آپس میں اتفاق کرکے حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں جاکر سب نے گواہی دی کہ وہ عورت اپنے کتے سے ایسا کام کرتی ہے چاروں کے متفقہ بیان پر حکم ہوگیا کہ اسے رجم کردیا جائے۔

 اسی شام کو حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر خود حاکم بنے اور چار لڑکے ان لوگوں کی طرح آپ کے پاس اس مقدمے کو لائے اور ایک عورت کی نسبت یہی کہا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا ان چاروں کو الگ الگ کردو۔ پھر ایک کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس کتے کا رنگ کیسا تھا؟

 اس نے کہا سیاہ ۔

پھر دوسرے کو تنہا بلایا اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سرخ ۔

تیسرے نے کہا خاکی۔

چوتھے نے کہا سفید

 آپ نے اسی وقت فیصلہ دیا کہ عورت پر یہ نری تہمت ہے اور ان چاروں کو قتل کردیا جائے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس بھی یہ واقعہ بیان کیاگیا۔ آپ نے اسی وقت فی الفور ان چاروں امیروں کو بلایا اور اسی طرح الگ الگ ان سے اس کتے کا رنگ کی بابت سوال کیا۔ یہ گڑبڑا گئے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا ۔ آپ کو ان کا جھوٹ معلوم ہوگیا اور حکم فرمایا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔

وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ (۷۹)

اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرند بھی ہم کرنے والے ہی تھے .

پھر بیان ہو رہا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرند بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے اسی طرح پہاڑ بھی ۔

 ایک روایت میں ہے:

 رات کے وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کریم کررہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی میٹھی رسیلی اور خلوص بھری آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرینی دیئے گئے ہیں ۔

 حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب معلوم ہوا تو فرمانے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور بھی اچھی طرح پڑھتا۔

حضرت ابوعثمان نہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو کسی بہتر سے بہتر باجے کی آواز میں بھی وہ مزہ نہیں پایا جو حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز میں تھا ۔ پس اتنی خوش آوازی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش آوازی کا ایک حصہ قرار دیا ۔ اب سمجھ لیجئے کہ خود داؤد علیہ السلام کی آواز کیسی ہوگی؟

وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ (۸۰)

ہم نے اسے تمہارے لئے لباس بنانے کی کاریگری سکھائی تاکہ لڑائی کی ضرر سے تمہارا بچاؤ ہو کیا تم شکر گزار بنو گے۔‏

پھر اپنا ایک اور احسان بتاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو زرہیں بنانی ہم نے سکھا دی تھیں۔

 آپ کے زمانے سے پہلے بغیر کنڈلوں اور بغیر حلقوں کی زرہ بنتی تھیں۔ کنڈلوں دار اور حلقوں والی زرہیں آپ نے ہی بنائیں۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَأَنِ اعْمَلْ سَـبِغَـتٍ وَقَدِّرْ فِى السَّرْدِ (۳۴:۱۰،۱۱)

اور ہم نے اسی لئے لوہا نرم کر دیا کہ تو پوری پوری زرہیں بنا اور جوڑوں میں اندازہ رکھ

ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کردیا تھا کہ وہ بہترین زرہ تیار کریں اور ٹھیک انداز سے ان میں حلقے بنائیں۔ یہ زرہیں میدان جنگ میں کام آتی تھیں۔ پس یہ نعمت وہ تھی جس پر لوگوں کو اللہ کی شکرگزاری کرنی چاہے۔

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ

ہم نے تند و تیز ہوا کو سلیمان ؑکے تابع کر دیا جو اس کے فرمان سے اس زمین کی طرف چلتی ہے جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی،

ہم نے زورآور ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کردیا تھا جو انہیں ان کے فرمان کے مطابق برکت والی زمین یعنی ملک شام میں پہنچا دیتی تھی۔ آپ اپنے تخت پر مع اپنے لاؤ لشکر اور سامان اسباب کے بیٹھ جاتے تھے۔ پھر جہان جانا چاہتے ہوا آپ کو آپ کے فرمان کے مطابق گھڑی بھر میں وہاں پہنچا دیتی ۔ تخت کے اوپر سے پرند پر کھولے آپ پرسایہ ڈالتے

جیسے فرمان ہے:

فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِى بِأَمْرِهِ رُخَآءً حَيْثُ أَصَابَ (۳۸:۳۶)

ہم نے ہوا کو ان کا تابع کردیا کہ جہان پہنچنا چاہتے ان کے حکم کے مطابق اسی طرف نرمی سے لے چلتی۔

غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ (۳۴:۲۰)

صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی

حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

چھ ہزار کرسی لگائی جاتی۔ آپ کے قریب مؤمن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مؤمن جن ہوتے ۔ پھر آپ کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ کو لے چلتی ۔

چھ ہزار کرسی لگائی جاتی۔ آپ کے قریب مؤمن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مؤمن جن ہوتے ۔ پھر آپ کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ کو لے چلتی ۔

 عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکم دیتے وہ مثل بڑے تودے کے جمع ہوجاتی گویا پہاڑ ہے پھر اس کے سب سے بلند مکان پر فرش افروز ہونے کا حکم دیتے پھر پہرہ دار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فرش پر چڑھ جاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ آپ کو بلندی پر لے جاتی آپ اس وقت سرنیچا کرلیتے دائیں بائیں بالکل نہ دیکھتے اس میں آپ کی تواضع اور اللہ کی شکر گزاری مقصود ہوتی تھی۔ کیونکہ آپ کو اپنی فروتنی کا علم تھا ۔ پھر جہاں آپ حکم دیتے وہیں ہوا آپ کو اتار دیتی۔

وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ (۸۱)

 اور ہم ہرچیز سے باخبر اور دانا ہیں۔‏

ہمیں ہرچیز کا علم ہے۔

ہمیں ہرچیز کا علم ہے۔ وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلًا دُونَ ذَلِكَ ۖ

اسی طرح بہت سے شیاطین بھی ہم نے اسکے تابع کئے تھے جو اسکے فرمان سے غوطے لگاتے تھے اور اسکے سوا بھی بہت سے کام کرتے تھے

اسی طرح سرکش جنات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے قبضے میں کردیئے تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کرموتی اور جواہر وغیرہ نکال لایا کرتے تھے اور بھی بہت سے کام کاج کرتے تھےجیسے فرمان ہے:

وَالشَّيَـطِينَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَغَوَّاصٍ ـ وَءَاخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِى الاٌّصْفَادِ  (۳۸:۳۷،۳۸)

 اور (طاقتور) جنات کو بھی (ان کے ماتحت کر دیا) ہر عمارت بنانے والے کو اور غوط خور کو۔ اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے

وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ (۸۲)

ان کے نگہبان ہم ہی تھے

اور ہم ہی سلیمان کے حافظ ونگہبان تھے کوئی شیطان انہیں برائی نہ پہنچا سکتا تھا بلکہ سب کے سب ان کے ماتحت فرماں بردار اور تابع تھے کوئی ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا تھا آپ کی حکمرانی ان پر چلتی تھی جسے چاہتے قید کرلیتے جسے چاہتے آزاد کردیتے اسی کو فرمایا کہ اور جنات تھے جو جکڑے رہا کرتے تھے۔

وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (۸۳)

ایوب ؑکی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اسنے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‏

حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیفوں کا بیان ہو رہا ہے جو مالی جسمانی اور اولاد پر مشتمل تھیں ان کے پاس بہت سے قسم قسم کے جانور تھے کھیتیاں باغات وغیرہ تھے اولاد بیویاں لونڈیاں غلام جائیداد اور مال ومتاع سبھی کچھ اللہ کا دیا موجود تھا۔

 اب جو رب کی طرف سے ان پر آزمائش آئی تو ایک سرے سے سب کچھ فنا ہوتا گیا یہاں تک کہ جسم میں جذام پھوٹ پڑا ۔ دل و زبان کے سوا سارے جسم کا کوئی حصہ اس مرض سے محفوظ نہ رہا ۔ یہاں تک کہ آس پاس والے کراہت کرنے لگے۔ شہر کے ایک ویران کونے میں آپ کو سکونت اختیار کرنی پڑی۔

سوائے آپ کی ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اور کوئی آپ کے پاس نہ رہا ، اس مصیبت کے وقت سب نے کنارہ کرلیا۔ یہی ایک تھیں جو ان کی خدمت کرتی تھیں ساتھ ہی محنت مزدوری کرکے پیٹ پالنے کو بھی لایا کرتی تھیں۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے، پھر صالح لوگوں کا پھر ان سے نیچے کے درجے والوں کا پھر ان سے کم درجے والوں کا۔

 اور روایت میں ہے کہ ہر شخص کا امتحان اس کے دین کے انداز سے ہوتا ہے اگر وہ دین میں مضبوط ہے امتحان بھی سخت تر ہوتا ہے

حضرت ابوب علیہ السلام بڑے ہی صابر تھے یہاں تک کہ صبر ایوب زبان زد عام ہے۔

یزید بن میسرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 جب آپ کی آزمائش شروع ہوئی اہل وعیال مرگئے مال فناہوگیا کوئی چیز ہاتھ تلے نہ رہی آپ اللہ کے ذکر میں اور بڑھ گئے

کہنے لگے اے تمام پالنے والوں کے پالنے والے تونے مجھ پر بڑے احسان کئے مال دیا اولاد دی اس وقت میرا دل بہت ہی مشغول تھا اب تونے سب کچھ لے کرمیرے دل کو ان فکروں سے پاک کردیا اب میرے دل میں اور تجھ میں کوئی حائل نہ رہا اگر میرا دشمن ابلیس تیری اس مہربانی کو جان لیتا تو وہ مجھ پر بہت ہی حسد کرتا

 ابلیس لعین اس قول سے اور اس وقت کی اس حمد سے جل بھن کر رہ گیا۔

 آپ کی دعاؤں میں یہ بھی دعا تھی:

 اے اللہ تونے جب مجھے توانگر اور اولاد اور اہل وعیال والا بنا رکھا تھا تو خوب جانتا ہے کہ اس وقت میں نے نہ کبھی غرور و تکبر کیا نہ کبھی کسی پر ظلم ستم کیا۔

میرے پروردگار تجھ پر روشن ہے کہ میرا نرم و گرم بستر تیار ہوتا اور میں راتوں کو تیری عبادتوں میں گزارتا

اور اپنے نفس کو اس طرح ڈانٹ دیتا کہ تو اس لئے پیدا نہیں کیا گیا تیری رضامندی کی طلب میں میں اپنی راحت وآرام کو ترک کردیا کرتا۔ (ابن ابی حاتم )

اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ایک بہت لمبا قصہ ہے جسے بہت سے پچھلے مفسرین نے بھی ذکر کیا ہے ۔ لیکن اس میں غرابت ہے اور اس کے طول کی وجہ سے ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

 مدتوں تک آپ ان بلاؤں میں مبتلا رہے۔ حضرت حسن اور قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سات سال اور کئی ماہ آپ بیماری میں مبتلا رہے بنو اسرائیل کے کوڑے پھینکنے کی جگہ آپ کو ڈال رکھا تھا ۔ بدن میں کیڑے پڑگئے تھے پھر اللہ نے آپ پر رحم وکرم کیا تمام بلاؤں سے نجات دی اجردیا اور تعریفیں کیں۔

 وہب بن منبہ کا بیان ہے:

 پورے تین سال آپ اس تکلیف میں رہے۔ سارا گوشت جھڑ گیا تھا۔ صرف ہڈیاں اور چمڑہ رہ گیا آپ دکھ میں پڑے رہتے تھے صرف ایک بیوی صاحبہ تھیں جو آپ کے پاس تھیں جب زیادہ زمانہ گزر گیا تو ایک روز عرض کرنے لگیں کہ اے نبی اللہ علیہ السلام آپ اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ وہ اس مصیبت کو ہم پر سے ٹال دے ۔

آپ فرمانے لگے سنو ستر برس تک اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت وعافیت میں رکھا تو اگر ستر سال تک میں اس حالت میں رہوں اور صبر کروں تو یہ بھی بہت کم ہے

 اس پر بیوی صاحبہ کانپ اٹھیں آپ شہر میں جاتیں، لوگوں کا کام کاج کرتیں اور جو ملتا وہ لے آتیں اور آپ کو کھلاتیں پلاتیں ۔

 آپ کے دو دوست اور دلی خیرخواہ دوست تھے انہیں فلسطین میں جا کر شیطان نے خبردی کہ تمہارا دوست سخت مصیبت میں مبتلا ہے تم جاؤ ان کی خبرگیری کرو اور اپنے ہاں کی کچھ شراب اپنے ساتھ لے جاؤ وہ پلادینا اس سے انہیں شفا ہوجائے گی چنانچہ یہ دونوں آئے حضرت ایوب علیہ السلام کی حالت دیکھتے ہی ان کے آنسو نکل آئے بلبلا کر رونے لگے

 آپ نے پوچھا تم کون ہو ؟

انہوں نے یاد دلایا تو آپ خوش ہوئے انہیں مرحبا کہا

وہ کہنے لگے اے جناب آپ شاید کچھ چھپاتے ہوں گے اور ظاہر اس کے خلاف کرتے ہوں گے ؟

 آپ نے نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اللہ خوب جانتا ہے کہ میں کیا چھپاتا تھا اور کیا ظاہر کرتا تھا میرے رب نے مجھے اس میں مبتلا کیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ میں صبر کرتا ہوں یا بےصبری؟

 وہ کہنے لگے اچھا ہم آپ کے واسطے دوا لائے ہیں آپ اسے پی لیجئے شفا ہوجائے گی یہ شراب ہے ۔ ہم اپنے ہاں سے لائے ہیں ۔

یہ سنتے ہی آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمانے لگے تمہیں شیطان خبیث لایا ہے تم سے کلام کرنا تمہارا کھانا پینا مجھ پر حرام ہے ۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے۔

 ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ کی بیوی صاحبہ نے ایک گھر والوں کی روٹیاں پکائیں ان کا ایک بچہ سویا ہوا تھا تو انہوں نے اس بچے کے حصے کی ٹکیاں انہیں دے دیں یہ لے کر حضرت ایوب ؑکے پاس آئیں

 آپ نے کہا یہ آج کہاں سے لائیں ؟ انہوں نے ساراواقعہ بیان کردیا ۔

آپ نے فرمایا ابھی ابھی واپس جاؤ ممکن ہے بچہ جاگ گیا ہو اور اسی ٹکیہ کی ضد کرتا ہو اور رو رو کر سارے گھر والوں کو پریشان کرتا ہو۔

 آپ روٹی واپس لے کرچلیں ان کی ڈیوڑھی میں بکری بندھی ہوئی تھی اس نے زور سے آپ کو ٹکر ماری آپ کی زبان سے نکل گیا دیکھو ایوب کیسے غلط خیال والے ہیں ۔ پھر اوپر گئیں تو دیکھا واقعی بچہ جاگا ہوا ہے اور ٹکیا کے لئے مچل رہا ہے اور گھر بھر کا ناک میں دم کررکھا ہے یہ دیکھ کر بےساختہ زبان سے نکلا کہ اللہ ایوب پر رحم کرے ، اچھے موقعہ پر پہنچی ۔

 ٹکیا دے دی اور واپس لوٹیں راستے میں شیطان بہ صورت طبیب ملا اور کہنے لگا کہ تیرے خاوند سخت تکلیف میں ہیں مرض پر مدتیں گزر گئیں تم انہیں سمجھاؤ فلاں قبیلے کے بت کے نام پر ایک مکھی مار دیں شفاء ہوجائے گی پھر توبہ کرلیں ۔

جب آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس پہنچیں تو ان سے یہ کہا

 آپ نے فرمایا شیطان خبیث کاجادو تجھ پر چل گیا ۔ میں تندرست ہوگیا تو تجھے سو کوڑے لگاؤں گا ۔

 ایک دن آپ حسب معمول تلاش معاش میں نکلیں گھر گھر پھر آئیں کہیں کام نہ لگا مایوس ہوگئیں شام کو پلٹنے وقت حضرت ایوب علیہ السلام کی بھوک کا خیال آیا تو آپ نے اپنے بالوں کی ایک لٹ کاٹ کر ایک امیر لڑکی کے ہاتھ فروخت کردی اس نے آپ کو بہت کچھ کھانے پینے کا اسباب دیا ۔ جسے لے کر آپ آئیں حضرت ایوب علیہ السلام نے پوچھا یہ آج اتنا سارہ اور اتنا اچھا کھانا کیسے مل گیا؟

 فرمایا میں نے ایک امیر گھر کا کام کردیا تھا ۔ آپ نے کھالیا

 دوسرے روز بھی اتفاق سے ایساہی ہوا اور آپ نے اپنے بالوں کی دوسری لٹ کاٹ کر فروخت کردی اور کھانا لے آئیں آج بھی یہی کھانا دیکھ کر آپ نے فرمایا واللہ میں ہرگز نہ کھاؤں گا جب تک تو مجھے یہ نہ بتا دے کہ کیسے لائی؟

 اب آپ نے اپنا دوپٹہ سر سے اتار دیا دیکھا کہ سرکے بال سب کٹ چکے ہیں اس وقت سخت گھبراہٹ اور بےچینی ہوئی اور اللہ سے دعا کی کہ مجھے ضرر پہنچا اور تو سب سے زیادہ رحیم ہے۔

حضرت نوف کہتے ہیں کہ جو شیطان حضرت ایوب علیہ السلام کے پیچھے پڑا تھا اس کا نام مسبوط تھا ۔

 حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی صاحبہ عموما ًآپ سے عرض کیا کرتی تھیں کہ اللہ سے دعا کرو۔ لیکن آپ نہ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک دن بنو اسرائیل کے کچھ لوگ آپ کے پاس سے نکلے اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے اس شخص کو یہ تکلیف ضرور کسی نہ کسی گناہ کی وجہ سے ہے اس وقت بےساختہ آپ کی زبان سے یہ دعا نکل گئی ۔

حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کہ دو بھائی تھے ایک دن وہ ملنے کے لئے آئے ۔ لیکن جسم کی بدبو کی وجہ سے قریب نہ آسکے دور ہی سے کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر اس شخص میں بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت میں نہ ڈالتا اس بات نے حضرت ایوب علیہ السلام کو وہ صدمہ پہنچایا جو آج تک آپ کو کسی چیز سے نہ ہوا تھا

 اس وقت کہنے لگے اللہ کوئی رات مجھ پر ایسی نہیں گزری کہ کوئی بھوکا شخص میرے علم میں ہو اور میں نے پیٹ بھرلیا ہو پروردگار اگر میں اپنی اس بات میں تیرے نزدیک سچا ہوں تو میری تصدیق فرما۔

 اُسی وقت آسمان سے آپ کی تصدیق کی گئی تھی اور وہ دونوں سن رہے تھے ۔

پھر فرمایا کہ پروردگار کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اور میں نے کسی ننگے کو نہ دیے ہوں اگر میں اس میں سچا ہوں تو میری تصدیق آسمان سے کر۔ اس پر بھی آپ کی تصدیق ان کے سنتے ہوئے کی گئی۔

 پھر یہ دعا کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے کہ اے اللہ میں تو اب سجدے سے سر نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ تو مجھ سے ان تمام مصیبتوں کو دور نہ کردے جو مجھ پر نازل ہوئی ہیں ۔ چنانچہ یہ دعاقبول ہوئی۔

 اور اس سے پہلے کہ آپ سر اٹھائیں تمام تکلیفیں اور بیماریاں دور ہوگئیں جو آپ پر اتری تھیں ۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام اٹھارہ برس تک بلاؤں میں گھرے رہے

پھر ان کے دو دوستوں کے آنے اور بد گمانی کرنے کا ذکر ہے جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میری تو یہ حالت تھی کہ راستہ چلتے دو شخصوں کو جھگڑتا دیکھتا اور ان میں سے کسی کو قسم کھاتے سن لیتا تو گھر آکر اس کی طرف سے کفارہ ادا کردیتا کہ ایسا نہ ہو کہ اس نے نام ناحق لیا ہو۔

 آپ اپنی اس بیماری میں اس قدر نڈھال ہوگئے تھے کہ آپ کی بیوی صاحبہ ہاتھ تھام کر پاخانہ پیشاب کے لئے لے جاتی تھیں ۔ ایک مرتبہ آپ کو حاجت تھی آپ نے آواز دی لیکن انہیں آنے میں دیر لگی آپ کو سخت تکلیف ہوئی اسی وقت آسمان سے ندا آئی کہ اے ایوب اپنی ایڑی زمین پر مارو اسی پانی کو پی بھی لو اور اسی سے نہا بھی لو

 اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل غریب ہے ۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے جنت کا حلہ نازل فرمادیا جسے پہن کر آپ یکسو ہو کر بیٹھ گئے۔ جب آپ کی بیوی آئیں اور آپ کو نہ پہچان سکیں تو آپ سے پوچھنے لگیں اے اللہ کے بندے یہاں ایک بیمار بےکس بےبس تھے تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیا ہوئے ؟

 کہیں انہیں بھیڑئیے نہ کھا گئے ہوں یا کتے نہ لے گئے ہوں؟

 تب آپ نے فرمایا نہیں نہیں وہ بیمار ایوب میں ہی ہوں ۔

 بیوی صاحبہ کہنے لگی اے شخص تو مجھ دکھیا عورت سے ہنسی کر رہا ہے اور مجھے بنا رہا ہے ؟

 آپ نے فرمایا نہیں نہیں مجھے اللہ نے شفادے دی اور یہ رنگ روپ بھی ۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ ۖ

تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا اسے دور کر دیا

آپ کا مال آپ کو واپس دیاگیاآپ کی اولاد وہی آپ کو واپس ملی اور ان کے ساتھ ہی ویسی ہی اور بھی وحی میں یہ خوشخبری بھی سنادی گئی تھی اور فرمایا گیا تھا کہ قربانی کرو اور استغفار کرو، تیرے اپنوں نے تیرے بارے میں میری نافرمانی کر لی تھی۔

اور روایت میں ہے:

 جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو عافیت عطا فرمائی آسمان سے سونے کی ٹڈیاں ان پر برسائیں جنہیں لے کر آپ نے اپنے کپڑے میں جمع کرنی شروع کردیں تو آواز دی گئی کہ اے ایوب کیا تو اب تک آسودہ نہیں ہوا؟

 آپ نے جواب دیا کہ اے میرے پروردگار تیری رحمت سے آسودہ کون ہوسکتا ہے ؟

وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ (۸۴)

اور اس کو اہل و عیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لئے سبب نصیحت ہو۔‏

 پھر فرماتا ہے ہم نے اسے اس کے اہل عطا فرمائے ۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرماتے ہیں وہی لوگ واپس کئے گئے ۔ آپ کی بیوی کا نام رحمت تھا۔

یہ قول اگر آیت سے سمجھا گیا ہے تو یہ بھی دور از کار امر ہے اور اگر اہل کتاب سے لیا گیا ہے تو وہ تصدیق تکذیب کے قابل چیز نہیں۔

 ابن عساکر نے ان کا نام اپنی تاریخ میں "لیا" بتایا ہے ۔ یہ منشا بن یوسف بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی بیٹی ہیں ۔

 ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت " لیا " حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیٹی حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں جو شفیعہ کی زمین میں آپ کے ساتھ تھیں ۔

مروی ہے:

 آپ سے فرمایا گیا کہ تیری اہل سب جنت میں ہیں تم کہو تو میں ان سب کو یہاں دنیا میں لادوں اور کہے تو وہیں رہنے دوں اور دنیا میں ان کا عوض دوں آپ نے دوسری بات پسند فرمائی۔ پس آخرت کا اجر اور دنیا کا بدلہ دونوں آپ کو ملا ۔

 یہ سب کچھ ہماری رحمت کا ظہور تھا۔ اور ہمارے سچے عابدوں کے لئے نصیحت وعبرت تھی، آپ اہل بلا کے پیشوا تھے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ مصیبتوں میں پھنسے ہوئے لوگ اپنے لئے آپ کی ذات میں عبرت دیکھیں ، بےصبری سے ناشکری نہ کرنے لگیں اور لوگ انہیں اللہ کے برے بندے نہ سمجھیں۔

حضرت ایوب علیہ السلام صبر کا پہاڑ ثابت قدمی کا نمونہ تھے اللہ کے لکھے پر ، اس کے امتحان پر انسان کو صبر وبرداشت کرنی چاہیے نہ جانیں قدرت درپردہ اپنی کیا کیا حکمتیں دکھا رہی ہے ۔

وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِينَ (۸۵)

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب صابر لوگ تھے۔‏

وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا ۖ إِنَّهُمْ مِنَ الصَّالِحِينَ (۸۶)

ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کر لیا۔ یہ سب لوگ نیک تھے۔‏

حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ سورۃ مریم میں ان کا واقعہ بیان ہوچکاہے ۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا بھی ذکر گزر چکا ہے ۔

 ذوالکفل بظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس میں توقف کرتے ہیں فاللہ اعلم ۔

 مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد وپیمان کئے اور ان پر قائم رہے۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے۔

 مروی ہے:

جب حضرت یسع علیہ السلام بہت بوڑھے ہوگئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کردوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے ۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں ۔ دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو۔

 کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کردوں گا ۔

 آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟

 اس نے کہا ہاں۔

 یسع علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب کل سہی۔

 دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ چنانچہ انہی کو خلیفہ بنا دیاگیا۔

 اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لئے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کردیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟

 اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے ۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور حضرت ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لئے سوتے تھے ۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کردوں گا

 اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہرطرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا ۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا

 پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آگیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے ۔

وہ کہنے لگا حضرت کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کردیتے ہیں میں رک گیا

پھر انہوں نے اب انکار کردیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کردئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا ۔

 تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا

 آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کردی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا

اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا ۔

 اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا ۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا ۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا۔ اس لئے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کردکھایا ۔ (ابن ابی حاتم )

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے:

 بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟

 اس نے کہا میں چنانچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا

اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا ۔

 حضرت اشعری نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا ۔ اس لئے انہیں ذوالکفل کہا گیا ۔

 ایک منقطع روایت میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ منقول ہے۔

 ایک غریب حدیث مسندامام بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے:

 کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا ۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی۔

 اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے؟

 اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے۔

کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا۔

 اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہوگیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے ۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا  اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا ۔

وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ

مچھلی والے (١) (حضرت یونس علیہ السلام) کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیے اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔

یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورۃ صافات میں بھی ہے اور سورۃ نون میں بھی ہے۔

یہ پیغمبر حضرت یونس بن متی علیہ السلام تھے ۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی ۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کرچل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب الہٰی آجائے گا

 جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کر دی ۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھالیا گیا۔

جیسے فرمان ہے:

فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَآ إِيمَانُهَا ۔۔۔ وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (۱۰:۹۸)

عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کونفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی۔

 حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکرطوفان کے آثار نمودار ہوئے ۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہوجائے۔ قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کانکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے

فَسَـهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ (۳۷:۱۴۱)

 پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہوگئے۔‏

اب کہ حضرت یونس علیہ السلام خود کھڑے ہوگئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے۔

 بحر اخضر سے بحکم الہٰی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ کو لقمہ کر گئی۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا ۔ آپ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لئے قید خانہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں۔

 آپ کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا ۔ خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں نَقْدِرَ کے یہی معنی حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک وغیرہ نے کئے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائیداس  آیت سے بھی ہوتی ہے ۔

وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ (۶۵:۷)

اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو

حضرت عطیہ عوفی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم اس پر مقدر نہ کریں گے قَدَر اور قَدَّر دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ (۵۵۴:۱۲)  بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔

فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (۸۷)

 بالا ٓخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الہٰی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا۔‏

ان اندھیریوں میں پھنس کر اب حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے ۔ آپ نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی ۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں جاکرپہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھرپیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں۔ وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے بارالہٰی میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا ۔

حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔

 ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے جب آپ سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے۔ چنانچہ آپ نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کردی

 اسے سن کر فرشتوں نے کہابار الٰہا! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزورہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے۔

 جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے ۔

 انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں

 اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو کنارے پر اگل دے۔

تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے:

 حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تئیں یونس بن متع سے افضل کہے۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے۔

 اوپر جو روایت گزری اسکی وہی ایک سند ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گومنے لگے فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے۔

 جناب باری نے فرمایا کیا تم نے پہچانا نہیں ؟

انہوں نے کہا نہیں۔

 فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آوازہے۔

 فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑتھے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں

 اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر۔

 اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے۔ استغفار موجب نجات ہے

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ (۸۸)

تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں ۔

پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیاکرتے ہیں۔ وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کرتمام مشکلیں آسان کردیتے ہیں۔ خصوصاً جو لوگ اس دعائے یونس کو پڑھیں جس کی سیدالانبیاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہے۔

مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت سعد بن ابو وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 میں مسجد میں گیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تھے۔ میں نے سلام کیا آپ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا

میں نے امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آکر شکایت کی آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا؟

 آپ نے فرمایا نہ یہ آئے نہ انہوں نے سلام کیا نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو۔

 اس پر میں نے قسم کھائی تو آپ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی

 پھر کچھ خیال کرکے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے کہ  آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے سنی تھی ۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑجاتا ہے

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں آپ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا   وقت گزرتا گیا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ کے پیچھے ہولیا جب آپ گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کون ابواسحاق ؟

میں نے کہا جی ہاں یارسول میں ہی ہوں۔

 آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ دعا حضرت ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی ، دعا:

أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

الہٰی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا

سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے ۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 جو بھی حضرت یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے ۔

 ابوسعید فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں۔

 ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگاجائے وہ عطافرمائے وہ حضرت یونس بن متع کی دعا میں ہے۔

 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 میں نے کہا یارسول اللہ وہ حضرت یونس کے لئے ہی خاص تھی یاتمام مسلمانوں کے لئے عام ہے

فرمایا ان کے لئے خاص اور تمام مسلمانوں کے لئے عام جو بھی یہ دعا کرے۔ کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مؤمنوں کو چھڑاتے ہیں۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہوچکا ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں:

 میں نے امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابوسعید اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے؟

 آپ نے جواب دیا کہ برادرزادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟

 پھر آپ نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے۔

وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (۸۹)

اور زکریا ؑ  کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی اے میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ، تو سب سے بہتر وارث ہے۔‏

اللہ تعالیٰ حضرت زکریا علیہ السلام کا قصہ بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے دعا کی کہ مجھے اولاد ہو جو میرے بعد نبی بنے۔ سورۃ مریم میں اور سورۃ آلٰ عمران میں یہ واقعہ تفصیل سے ہے آپ نے یہ دعا چھپا کر کی تھی۔ مجھے تنہانہ چھوڑ یعنی بے اولاد ۔ دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثنا کی جیسے کہ اس دعا کے لائق تھی ۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ

ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے یحییٰؑ عطا فرمایا اور ان کی بیوی کو ان کے لئے درست کر دیا

 اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔ اور آپ کی بیوی صاحبہ کو جنہیں بڑھاپے تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اولاد کے قابل بنا دیا ۔

 بعض لوگ کہتے ہیں ان کی طول زبانیں بند کردی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے اخلاق کی کمی پوری کردی۔

لیکن الفاظ قرآن کے قریب پہلا معنی ہی ہے۔

إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ (۹۰)

یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کیطرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھےہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے

 یہ سب بزرگ نیکیوں کی طرف اللہ کی فرمانبرداری کی طرف بھاگ دوڑ کرنے والے تھے۔ اور لالچ اور ڈر سے اللہ سے دعائیں کرنے والے تھے اور سچے مؤمن رب کی باتیں ماننے والے اللہ کا خوف رکھنے والے تواضع انکساری اور عاجزی کرنے والے اللہ کے سامنے اپنی فروتنی ظاہر کرنے والے تھے۔

 مروی ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا :

میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور اس کی پوری ثنا وصفت بیان کرتے رہنے کی اور لالچ اور خوف سے دعائیں مانگنے کی اور دعاؤں میں خشوع وخضوع کرنے کی وصیت کرتا ہوں دیکھو اللہ عزوجل نے حضرت زکریا علیہ السلام کے گھرانے کی یہی فضیلت بیان فرمائی ہے

 پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔

وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (۹۱)

اور وہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور خود انہیں اور ان کے لڑکے کو تمام جہان کے لئے نشانی بنا دیا

حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے ۔ قرآن میں کریم میں عموماً حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قصے کے ساتھ ہی ان کا قصہ بیان ہوتا رہا ہے ۔ اس لئے کہ ان لوگوں میں پورا رابط ہے۔

 حضرت زکریا علیہ السلام پورے بڑھاپے کے عالم میں آپ کی بیوی صاحبہ جوانی سے گزری ہوئی اور پوری عمر کی بے اولاد ان کے ہاں اولاد عطا فرمائی ۔ اس قدرت کو دکھا کر پھر محض عورت بغیر شوہر کے اولاد کا عطافرمانا یہ اور قدرت کا کمال ظاہر کرتا ہے۔ سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم میں بھی یہی ترتیب ہے

 مراد عصمت والی عورت سے حضرت مریم ہیں جیسے فرمان ہے:

وَمَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ الَّتِى أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا (۶۶:۱۲)

اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنت عمران کی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی

عمران کی لڑکی مریم جو پاک دامن تھیں انہیں اور ان کے لڑکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی بےنظیر قدرت کانشان بنایا کہ مخلوق کو اللہ کی ہرطرح کی قدرت اور اس کے پیدائش وسیع اختیارات اور صرف اپنا ارادے سے چیزوں کا بنانا معلوم ہوجائے ۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی قدرت کی ایک علامت تھے جنات کے لئے بھی اور انسانوں کے لئے بھی

إِنَّ هَذِهِ اُمتكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (۹۲)

یہ تمہاری اُمت ہے جو حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو۔‏

فرمان ہے کہ تم سب کا دین ایک ہی ہے۔ اوامر ونواہی کے احکام تم سب میں یکساں ہیں۔

 هَذِهِ اسم ہے ان کا اور اُمتكُمْ خبر ہے اور أُمَّةً وَاحِدَةً حال ہے ۔ یعنی یہ شریعت جو بیان ہوئی تم سب کی متفق علیہ شریعت ہے ۔ جس کا اصلی مقصود توحید الہٰی ہے

 جیسے فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ـ وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ (۲۳:۵۱،۵۲)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔‏ یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو۔‏

ہم انبیاء کی جماعت ایسے ہیں جیسے ایک باپ کے فرزند کہ دین سب کا ایک ہے

 یعنی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت  اگرچہ احکامات شرع مختلف ہیں جیسے فرمان قرآن ہے:

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَـجاً (۵:۴۸)

تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی

وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ ۖ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ (۹۳)

مگر لوگوں نے آپس میں اپنے دین میں فرقہ بندیاں کرلیں سب کے سب ہمارے ہی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

پھر لوگوں نے اختلاف کیا بعض اپنوں نبیوں پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے ۔ قیامت کے دن سب کا لوٹنا ہماری طرف ہے

فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ (۹۴)

پھر جو بھی نیک عمل کرے اور وہ مؤمن (بھی) ہو تو اسکی کوشش کی بےقدری نہیں کی جائیگی ہم تو اس کے لکھنے والے ہیں۔‏

 ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا نیکوں کو نیک بدلہ اور بروں کو بری سزا ۔ جس کے دل میں ایمان ہو اور جس کے اعمال نیک ہوں اس کے اعمال اکارت نہ ہوں گے ۔

جیسے فرمان ہے:

إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلاً (۱۸:۳۰)

نیک کام کرنے والوں کا اجر ہم ضا ئع نہیں کرتے۔

 ایسے اعمال کی قدردانی کرتے ہیں ایک ذرے کے برابر ہم ظلم روا نہیں رکھتے تمام اعمال لکھ لیتے ہیں کوئی چیز چھوڑتے نہیں ۔

وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (۹۵)

اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے ۔

ہلاک شدہ لوگوں کا دنیا کی طرف پھر پلٹنا محال ہے۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ ان کی توبہ مقبول نہیں۔ لیکن پہلا قول اولیٰ ہے۔

حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (۹۶)

یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے ۔

یاجوج ماجوج نسل آدم سے ہیں۔ بلکہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے لڑکے یافت کی اولاد میں سے ہیں جن کی نسل ترک ہیں یہ بھی انہی کا ایک گروہ ہے یہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار سے باہر ہی چھوڑ دیے گئے تھے۔ آپ نے دیوار بنا کر فرمایا تھا :

هَـذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّى فَإِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّى جَعَلَهُ دَكَّآءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّى حَقّاً ـ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِى بَعْضٍ (۱۸:۹۸،۹۹)

یہ سب میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا بیشک میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔‏ اس دن ہم انہیں آپس میں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے

 یاجوج ماجوج قرب قیامت کے وقت وہاں سے نکل آئیں گے اور زمین میں فساد مچا دیں گے۔

 ہر اونچی جگہ کو عربی میں حَدَب کہتے ہیں۔

 ان کے نکلنے کے وقت ان کی یہی حالت ہوگی تو اس خبر کو اس طرح بیان کیا جیسے سننے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے

 اور واقع میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی خبر کس کی ہوگی؟ جو غیب اور حاضر کا جاننے والا ہے۔ ہوچکی ہوئی اور ہونے والی باتوں سے آگاہ ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکوں کو اچھلتے کودتے کھیلتے دوڑتے ایک دوسروں کی چٹکیاں بھرتے ہوئے دیکھ کر فرمایا اسی طرح یاجوج ماجوج آئیں گے۔

 بہت سی احادیث میں ان کے نکلنے کا ذکر ہے ۔

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 یاجوج ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ لوگوں کے پاس پہنچیں گے جیسے اللہ عزوجل کا فرمان ہے وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (۹۶)

وہ چھاجائیں گے اور مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں میں سمٹ آئیں گے اپنے جانورں کو بھی وہی لے لیں گے اور اپنا پانی انہیں پلاتے رہیں گے یاجوج ماجوج جس نہر سے گزریں گے اس کا پانی صفاچٹ کر جائیں گے یہاں تک کہ اس میں خاک اڑنے لگے گی

 ان کی دوسری جماعت جب وہاں پہنچے گی تو وہ کہے گی شاید اس میں کسی زمانے میں پانی ہوگا۔ جب یہ دیکھیں گے کہ اب زمین پر کوئی نہ رہا اور واقع میں سوائے ان مسلمانوں کے جو اپنے شہروں اور قلعوں میں پناہ گزیں ہوں گے کوئی اور وہاں ہوگا بھی نہیں تو یہ کہیں گے کہ اب زمین والوں سے تم ہم فارغ ہوگئے آؤ آسمان والوں کی خبرلیں۔

چنانچہ ان میں سے ایک شریر اپنا نیزہ گھما کر آسمان کی طرف پھینکے گا قدرت الہٰی سے وہ خون آلود ہو کر ان کے پاس گرے گا یہ بھی ایک قدرتی آزمائش ہوگی اب ان کی گردنوں میں گٹھلی ہوجائے گی اور اسی وبا میں یہ سارے کے سارے ایک ساتھ ایک دم مرجائیں گے ایک بھی باقی نہ رہے گا سارا شور وغل ختم ہوجائے گا

مسلمان کہیں گے کوئی ہے جو اپنی جان ہم مسلمانوں کے لئے ہتھیلی پر رکھ کر شہرکے باہر جائے اور ان دشمنوں کو دیکھے کہ کس حال میں ہیں؟

چنانچہ ایک صاحب اس کے لئے تیار ہوجائیں گے اور اپنے آپ کو قتل شدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں مسلمانوں کی خدمت کے لئے نکل کھڑے ہوں گے دیکھیں گے کہ سب کا ڈھیرلگ رہا ہے سارے ہلاک شدہ پڑے ہوئے ہیں یہ اسی وقت ندا کرے گا کہ مسلمانو!خوش ہوجاؤ اللہ نے خود تمہارے دشمنوں کو غارت کردیا یہ ڈھیر پڑا ہوا ہے اب مسلمان باہر آئیں گے اور اپنے مویشیوں کو بھی لائیں گے ان کے لئے چارہ بجز ان کے گوشت کے اور کچھ نہ ہوگا یہ ان کا گوشت کھا کھا کرخوب موٹے تازے ہوجائیں گے۔

مسند احمد میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح ہی صبح دجال کا ذکر کیا اس طرح کہ ہم سمجھے شاید وہ ان درختوں کی آڑ میں ہے اور اب نکلا ہی چاہتا ہے

آپ فرمانے لگے مجھے دجال سے زیادہ خوف تم پر اور چیز کا ہے۔ اگر دجال میری موجودگی میں نکلا تو میں خود نمٹ لونگا تم میں سے ہر شخص اسے بچے۔ میں تمہیں اللہ کی ایمان میں دے رہا ہوں۔ وہ جواں عمر الجھے ہوئے بالوں والا کانا اور ابھری ہوئی آنکھ والا ہے۔ وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں گھومے گا ۔ اے بندگاں الہٰی تم ثابت قدم رہنا۔

 ہم نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کتنا ٹھیرے گا ؟

 آپ نے فرمایا چالیس دن۔ ایک دن مثل ایک برس کے ایک دن مثل ایک مہینہ کے ایک دن مثل ایک جمعہ کے اور باقی دن معمولی دنوں جیسے۔

ہم نے پوچھا یارسول صلی اللہ علیہ وسلم جو دن سال بھر کے برابر ہوگا اس میں ہمیں یہی پانچ نمازیں کافی ہوں گی

 آپ نے فرمایا نہیں تم اپنے اندازے سے وقت پر نماز پڑھتے رہاکرنا ۔

ہم نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رفتار کیسی ہوگی ؟

 فرمایا جیسے بادل کہ ہوا انہیں ادھر سے ادھربھگائے لئے جاتی ہو۔ ایک قبیلے کے پاس جائے گا انہیں اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی مان لیں گے۔ آسمان کو حکم دے گا کہ ان پربارش برسائے زمین سے کہے گا کہ ان کے لئے پیداوار اگائے ان کے جانور ان کے پاس موٹے تازے بھرے پیٹ لوٹیں گے ۔

 ایک قبیلے کے پاس اپنے تئیں منوانا چاہے گا وہ انکار کردیں گے یہ وہاں سے نکلے گا تو ان کے تمام مال اس کے پیچھے لگ جائیں گے وہ بالکل خالی ہاتھ رہ جائیں گے وہ غیرآباد جنگلوں میں جائے گا اور زمین سے کہے گا اپنے خزانے اگل دے وہ اگل دے گی اور سارے خزانے اس کے پیچھے ایسے چلیں گے جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے ۔ یہ بھی دکھائے گا کہ ایک شخص کو تلوار سے ٹھیک دو ٹکرے کرادے گا اور ادھرادھر دور دراز پھنکوا دے گا پھر اس کا نام لے کر آواز دے گا تو وہ زندہ چلتا پھرتا اس کے پاس آجائے گا

یہ اسی حال میں ہوگا جو اللہ عزوجل حضرت مسیح ابن مریم کو اتارے گا آپ دمشق کی مشرقی طرف سفید منارے کے پاس اتریں گے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے آپ اس کا پیچھا کریں گے اور مشرقی باب کے لد کے پاس اسے پا کر قتل کردیں گے

پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی طرف اللہ کی وحی آئے گی میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن سے لڑنے کی تم میں تاب وطاقت نہیں میرے بندوں کو طور کی طرف سمیٹ لے جا۔

 پھر جناب باری یاجوج ماجوج کو بھیجے گا جیسے فرمایا وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (۹۶)

ان سے تنگ آکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی جناب باری میں دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر گٹھلی کی بیماری بھیجے گا جوان کی گردن میں نکلے گی سارے کے سارے اوپر تلے ایک ساتھ ہی مرجائیں گے تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام معہ مؤمنوں کے آئیں گے۔ دیکھیں گے کہ تمام زمین ان کی لاشوں سے پٹی پڑی ہے اور ان کی بدبوسے کھڑا نہیں ہوا جاتا ۔ آپ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند بھیجے گا جو انہیں اللہ جانے کہاں پھینک آئیں گے ؟

 کعب رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہی مہیل میں یعنی سورج کے طلوع ہونے کی جگہ میں انہیں پھینک آئیں گے۔

 پھر چالیس دن تک تمام زمین میں مسلسل بارش برسے گی،زمین دھل دھلا کر ہتھیلی کی طرح صاف ہوجائے گی پھر بحکم الہٰی اپنی برکتیں اگادے گی ۔ اس دن ایک جماعت کی جماعت ایک انار سے سیر ہوجائے گی اور اس کے چھلکے تلے سایہ حاصل کرلے گی ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی ایک جماعت کو اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلے کو اور ایک بکری کا دودھ ایک گھرانے کو کافی ہوگا۔

پھر ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جو مسلمانوں کی بغلوں تلے سے نکل جائے گی اور ان کی روح قبض ہوجائے گی پھر روئے زمین پربدترین شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کودتے ہوں گے انہی پر قیامت قائم ہوگی۔

 امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن کہتے ہیں ۔

مسند احمد میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بچھو نے کاٹ کھایا تھا تو آپ اپنی انگلی پر پٹی باندھے ہوئے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا :

تم کہتے ہو اب دشمن نہیں ہیں لیکن تم تو دشمنوں سے جہاد کرتے ہی رہوگے یہاں تک کہ یاجوج ماجوج آئیں وہ چوڑے چہرے والے چھوٹی آنکھوں والے ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں جیسے ہوں گے۔

یہ روایت سورۃ اعراف کی تفسیر کے آخر میں بیان کردی گی ہے

مسند احمد میں ہے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

معراج والی رات میں ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے روز قیامت کا مذاکرہ شروع ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے علم سے انکار کردیا اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس کے واقع ہونے کے وقت تو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ہاں مجھ سے میرے اللہ نے یہ تو فرمایا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے۔ اس کے ساتھ دو ٹہنیاں ہوں گی۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سیسے کی طرح پگلنے لگے گا یہاں تک کہ اللہ اسے ہلاک کردے جب کہ وہ مجھے دیکھے یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی پکار اٹھیں گے کہ اے مسلم یہ ہے میرے سایہ تلے کافر۔ آ اور اسے قتل کر پس اللہ انہیں ہلاک کرے گا اور لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کی طرف لوٹ جائیں گے۔

 اس وقت یاجوج ماجوج نکلیں گے جو ہر اونچائی سے پھدکتے آئیں گے جو پائیں گے تباہ کردیں گے پانی جتنا پائیں گے پی جائیں گے لوگ پھر تنگ آکر اپنوں وطنوں میں محصور ہو کر بیٹھ جائیں گے شکایت کریں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کرونگا اللہ انہیں غارت کردے ساری زمین پر ان کی بدبو پھیل جائے گی پھر بارش برسے گی اور پانی کا بہاؤ ان کے سڑے ہوئے جسموں کو گھسیٹ کر دریا برد کردے گا۔

 میرے رب نے مجھ سے فرما دیا ہے کہ جب یہ سب کچھ ظہور میں آجائے گا پھر تو قیامت کاہونا ایسا ہی ہے جیسے پورے دنوں میں حمل والی عورت کا وضع ہونا کہ گھر والوں کو فکر ہوتی ہے کہ صبح بچہ ہوا یا شام ہوا دن کو ہوا یا رات کو ہوا۔ (ابن ماجہ )

اس کی تصدیق کلام اللہ شریف کی آیت میں موجود ہے اس بارے میں حدیثیں بکثرت ہیں اور آثار سلف بھی بہت ہیں

کعب رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے:

 یاجوج ماجوج کے نکلنے کے وقت وہ دیوار کو کھودیں گے یہاں تک کہ ان کی کدالوں کی آواز پاس والے بھی سنیں گے رات ہوجائے گی ان میں سے ایک کہے گا کہ اب صبح آتے ہی اسے توڑڈالیں گے اور نکل کھڑے ہوں گے صبح یہ آئیں گے توجیسی کل تھی ویسی ہی آج بھی پائیں گے الغرض یونہی ہوتا رہے گا یہاں تک کہ ان کا نکالنا جب منظور ہوگا تو ایک شخص کی زبان سے نکلے گا کہ ہم کل انشاء اللہ ایسے توڑ دیں گے اب جو آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ویسی ہی پائیں گے تو کھود کر توڑیں گے اور باہر نکل آئیں گے ان کا پہلا گروہ بحیرہ کے پاس سے نکلے گا سارا پانی پی جائے گا دوسرا آئے گا کیچڑ بھی چاٹ جائے گا تیسرا آئے گا تو کہے گا شاید یہاں کبھی پانی ہوگا؟ لوگ ان سے بھاگ بھاگ کر ادھر ادھر چھپ جائیں گے جب انہیں کوئی بھی نظر نہ پڑے گا تو یہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے وہاں سے وہ خون آلود واپس آئیں گے تو یہ فخر کریں گے کہ ہم زمین والوں پر اور آسمان والوں پر غالب آگئے۔

 حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ان کے لئے بدعا کریں گے کہ اللہ ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں اور زمین پر ہمارا چلنا پھرنا بھی ضروری ہے تو ہمیں جس طریقے سے چاہے ان سے نجات دے تو اللہ ان کو طاعون میں مبتلا کرے گا گلٹیاں نکل آئیں گی اور سارے کہ سارے مرجائیں گے

 پھر ایک قسم کے پرند آئیں گے جو اپنی چونچ میں انہیں لے کر سمندر میں پھینک آئیں گے پھر اللہ تعالیٰ نہرحیات جاری کردے گا جو زمین کو دھوکر پاک صاف کردے گی اور زمین اپنی برکتیں نکال دے گی ایک انار ایک گھرانے کو کافی ہوگا اچانک ایک شخص آئے گا اور ندا کرے گا کہ ذوالسویقتین نکل آیا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سات آٹھ سولشکریوں کا طلایہ بھیجیں گے یہ ابھی راستے میں ہی ہوں گے کہ یمنی پاک ہوا نہایت لطافت سے چلے گی جو تمام مؤمنوں کی روح قبض کرجائے گی پھر تو روئے زمین پر ردی کھدی لوگ رہ جائے گے جو چوپایوں جیسے ہوں گے ان پر قیامت قائم ہوگی اس وقت قیامت اس قدر قریب ہوگی جیسے پوری دنوں کی گھوڑی جو جننے کے قریب ہو اور گھوڑی والا اس کے آس پاس گھوم رہا ہو کہ کب بچہ ہو

حضرت کعب رحمتہ اللہ یہ بیان فرما کر فرمانے لگے اب جو شخص میرے اس قول اور اس علم کے بعد بھی کچھ کہے اس نے تکلف کیا۔

 کعب رحمتہ اللہ کا یہ واقعہ بیان کرنا بہترین واقعہ ہے کیونکہ اس کی شہادت صحیح حدیث میں بھی پائی جاتی ہے۔

 احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں بیت اللہ شریف کا حج بھی کریں گے

چنانچہ مسند امام احمد میں یہ حدیث مرفوعا مروی ہے کہ آپ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد یقینا ًبیت اللہ کا حج کریں گے۔

 یہ حدیث بخاری میں بھی ہے۔

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا

اور سچا وعدہ قریب آلگے گا اس وقت کافروں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی،

جب یہ ہولناکیاں، جب یہ زلزلے، جب یہ بلائیں اور آفات آجائیں گی تو اس وقت قیامت بالکل قریب آجائے گی

يَا وَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ (۹۷)

کہ ہائے افسوس! ہم اس حال سے غافل تھے بلکہ فی الواقع ہم قصوروار تھے۔‏

اسے دیکھ کر کافر کہنے لگیں گے یہ نہایت سخت دن ہے ان کی آنکھیں پھٹ جائیں گی اور کہنے لگیں گے ہائے ہم توغفلت میں ہی رہے ۔ ہائے ہم نے اپنا آپ بگاڑا۔ گناہوں کا اقرار اور اس پر شرمسار ہوں گا لیکن اب بےسود ہے ۔

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (۹۸)

تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو ۔

بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنوگے

 جیسے فرمان ہے:

وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (۶۶:۶)

اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر

حبشی زبان میں حطب کو حَصَب کہتے ہیں یعنی لکڑیاں۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے حَصَب کے حطب ہے ۔

تم سب عابد ومعبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے ۔

لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ (۹۹)

اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں

اگریہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے ؟

یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پردوزخی ہوگئے و

لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ (۱۰۰)

وہ وہاں چلا رہے ہونگے اور وہاں کچھ بھی نہ سن سکیں گے ۔

ہ الٹی سانس میں چیخیں گے

 جیسے فرمان ہے:

لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (۱۱:۱۰۶)

وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گیوہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کردیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہوگا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر)

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (۱۰۱)

البتہ بیشک جن کے لئے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے۔ وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے ۔

الْحُسْنَى سے مراد رحمت وسعادت ہیں ۔

دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں اور ان کی جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ باایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت انکے استقبال کو تیار تھی

جیسے فرمان ہے:

لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ (۱۰:۲۶)

نیکوں کے لئے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی ۔

فرمان ہے:

هَلْ جَزَآءُ الإِحْسَـنِ إِلاَّ الإِحْسَـنُ (۵۵:۶۰)

نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے ۔

 ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے۔

لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا ۖ وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ (۱۰۲)

وہ تو دوزخ کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور اپنی من بھاتی چیزوں میں ہمیشہ رہنے والے ہونگے۔‏

یہ جہنم سے دور کردئیے گئے کہ اس کی آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں۔ پل صراط پردوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہوگئے

بلکہ ساتھ ہی راحت وآرام بھی حاصل کرلیا۔ من مانی چیزیں موجود۔ دوامی کی راحت بھی حاضر۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رات اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا :

میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمن انہی لوگوں میں سے ہیں یا حضرت سعد کا نام لیا رضی اللہ عنہم۔اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ چادر گھسیٹتے  لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے

اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہوجائیں گے اور کافر وہیں گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے ۔

 بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کردی تھی ،حضرت عزیر،حضرت مسیح، فرشتے ، سورج، چاند ،حضرت مریم ، وغیرہ۔

عبداللہ بن زبعری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (۹۸)  اتاری ہے ؟

 اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند، فرشتے عزیر، عیسیٰ ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟

 اس کے جواب میں آیات وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلاً إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ …(۴۳:۵۷،۶۱)  اور آیت إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى (۱۰۱) نازل ہوئی۔

سیرت ابن اسحاق میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لاجوب ہوگیا آپ نے آیت إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ سے لَا يَسْمَعُونَ (۹۸،۱۰۲) تک تلاوت فرمائی ۔

جب آپ اس مجلس سے چلے گئے توعبد اللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور حضرت یہ فرماتے ہوئے چلے گے۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے ؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہیں اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے ۔

 آپ کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى (۱۰۱)میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہوگئے۔

 چنانچہ قرآن میں ہے:

وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (۲۱:۲۹)

ان میں سے اگر کوئی بھی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں لائق عبادت تو ہم اسے دوزخ کی سزا دیں ہم ظالموں کو اس طرح سزا دیتے ہیں۔‏

اوریہ  آیات اتریں :

وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلاً إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ  ۔۔۔فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَـذَا صِرَطٌ مُّسْتَقِيمٌ (۴۳:۵۷،۶۱)

 اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے۔‏ اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو

عیسٰیؑ بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لئے نشان قدرت بنایا ۔‏ اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کر دیتے جو زمین میں جانشینی کرتے ۔‏

اور یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) قیام کی نشانی ہے پس تم (قیامت) کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔‏

ابن زبعری کی جرأت دیکھئے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لئے کہا گیا ہے جنہیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پاک نفس کے لئے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے۔

 امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ مَا جو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لئے آتا ہے جو بےجان اور بےعقل ہوں ۔

یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بڑے مشہور شاعر تھے۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول کر دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی۔

لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ

وہ بڑی گھبراہٹ (بھی) انہیں غمگین نہ کر سکے گی

موت کی گھبراہٹ ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھک دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کردیا جائے گا۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہوگا وہ ہر غم وہراس سے دور ہوں گے، پورے مسرور ہوں گے، خوش ہوں گے اور ناخوشی سے کوسوں الگ ہوں گے۔

وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (۱۰۳)

 اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے، کہ یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم وعدہ دیئے جاتے رہے۔‏

فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کررہے ہوں گے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو۔

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ

جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے دفتر میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں

یہ قیامت کے دن ہوگا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے جیسے فرمایا:

وَمَا قَدَرُواْ اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالاٌّرْضُ ۔۔۔ سُبْحَـنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (۳۹:۶۷)

ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی تھی ، جانا ہی نہیں۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔

وہ پاک اور برتر ہے ہرچیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں۔

بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالیٰ اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ

السِّجِلِّ سے مراد کتاب ہے ۔

 اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے۔ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لئے رکھ دیتا ہے۔

 کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا ۔

لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصاً ہمارے استاد حافظ کبیر ابوالحجاج مزی رحمتہ اللہ نے۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے امام جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ سجل نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاتبوں کے نام مشہور ومعروف ہیں کسی کا نام سجل نہیں ۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی ۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کرکے ذکر کیا ہے اور لغتاً بھی یہی بات ہے

 پس فرمان ہے جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے ۔

 لام یہاں پر معنی میں علٰی کے ہے جیسے تلہ للجبین میں لام معنی میں ع علٰی ہے۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں ۔ واللہ اعلم  

كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ (۱۰۴)

جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے (ہی) رہیں گے۔‏

یہ یقینا ًہوکر رہے گا۔ اس دن اللہ تعالیٰ نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا ۔ جو ابتدا پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں ، وہ کبھی بدلتے نہیں، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے ۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کرکے ہی رہے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا:

 تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو۔ ننگے پیر ننگے بدن بےختنے جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائینگے یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کرکے رہیں گے ( بخاری )

سب چیزیں نیست ونابود ہوجائیں گی پھر بنائی جائیں گی۔

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (۱۰۵)

ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہونگے‏

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس طرح آخرت میں دے گا اسی طرح دنیا میں بھی انہیں ملک ومال دیتا ہے ، یہ اللہ کا حتمی وعدہ اور سچا فیصلہ ہے۔ جیسے فرمان ہے:

إِنَّ الأَرْضَ للَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَـقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (۷:۱۲۸)

زمین اللہ کی ہے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے، انجام کارپرہیزگاروں کا حصہ ہے۔

 اور فرمان ہے :

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاٌّشْهَـدُ (۴۰:۵۱)

ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی دنیا میں اور آخرت میں مدد فرماتے ہیں

 اور فرمان ہے:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءامَنُواْ مِنْكُمْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ۔۔۔ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ (۲۴:۵۵)

تم میں سے ایمان داروں اور نیک لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں غالب بنائے گا جیسے کہ ان سے اگلوں کو بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو قوی کردے گا جس سے وہ خوش ہے۔

اور فرمایا کہ یہ شرعیہ اور قدریہ کتابوں میں مرقوم ہے، یقینا ًہو کرہی رہے گا۔

 الزَّبُورِ سے مراد بقول سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ تورات انجیل اور قرآن ہے۔

مجاہد کہتے ہیں الزَّبُورِ سے مراد کتاب ہے

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ الزَّبُورِ اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ۔

 الذِّكْر سے مراد یہاں پر توراۃ ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں الذِّكْر سے مراد قرآن ہے

 سعید فرماتے ہیں الذِّكْر وہ ہے جو آسمانوں میں ہے یعنی اللہ کے پاس کی اُم الکتاب جو سب سے پہلی کتاب ہے یعنی لوح محفوظ۔

یہ بھی مروی ہے کہ زبور اور وہ آسمانی کتابیں جو پیغمبروں پرنازل ہوئیں اور الذِّكْر مراد پہلی کتاب یعنی لوح محفوظ۔

 فرماتے ہیں توراۃ زبور اور علم الہٰی میں پہلے ہی یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ اُمت محمد زمین کی بادشاہ بنے گی اور نیک ہو کر جنت میں جائے گی۔

یہ بھی کہاگیا ہے کہ زمین سے مراد جنت کی زمین۔

ابودرداء فرماتے ہیں صالح لوگ ہم ہی ہیں ۔

إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ (۱۰۶)

عبادت گزار بندوں کے لئے تو اس میں ایک بڑا پیغام ہے

مراد اس سے باایمان لوگ ہیں

اس قرآن میں جو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا ہے پوری نصیحت وکفایت ہے ان کے لئے جو ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ جو ہماری مانتے ہیں اپنی خواہش کو ہمارے نام پر قربان کردیتے ہیں

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (۱۰۷)

اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‏

پھر فرماتا کہ ہم نے اپنے اس نبی کو رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ بنا کر بھیجا ہے پس اس نعمت کی شکر گزاری کرنے والا دنیاوآخرت میں شادماں ہے اور ناقدری کرنے والا دونوں جہاں میں برباد وناشاد ہے۔

 جیسے ارشاد ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (۱۴:۲۸،۲۹)

کیا تم نے انہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ربانی کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو غارت کردیا۔

 اس قرآن کی نسبت فرمایا :

هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى (۴۱:۴۴)

یہ ایمان والوں کے لئے ہدایت وشفا ہے بے ایمان بہرے اندھے ہیں

صحیح مسلم میں ہے:

 ایک موقع پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کے لئے بدعا کیجئے

 آپ ﷺنے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

 اور حدیث میں ہے:

 آپﷺ فرماتے ہیں میں تو صرف رحمت وہدایت ہوں۔

 اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مجھے ایک قوم کی ترقی اور دوسری کے تنزل کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔

طبرانی میں ہے:

 اے قریشیو! محمد یثرب میں چلا گیا ہے اپنے طلائیے کے لشکر ادھرادھر تمہاری جستجو میں بھیج رہا ہے۔ دیکھو ہوشیار رہنا وہ بھوکے شیر کی طرح تاک میں ہے وہ خار کھائے ہوئے ہے کیونکہ تم نے اسے نکال دیا ہے واللہ اس کے جادوگر بےمثال ہیں میں تو اسے یا اس کے ساتھیوں میں سے جس کسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے ساتھ شیطان نظر آتے ہیں تم جانتے ہو کہ اوس اور خزرج ہمارے دشمن ہیں اس دشمن کو ان دشمنوں نے پناہ دی ہے

 اس پر مطعم بن عدی کہنے لگے ابوالحکم سنو تمہارے اس بھائی سے جسے تم نے اپنے ملک سے جلاوطن کردیا ہے میں نے کسی کو زیادہ سچا اور زیادہ وعدے کا پورا کرنے والا نہیں پایا اب جب کہ ایسے بھلے آدمی کے ساتھ تم یہ بدسلوکی کرچکے ہو تو اب تو اسے چھوڑو تمہیں چاہئے اس سے بالکل الگ تھلک رہو۔

 اس پر ابوسفیان بن حارث کہنے لگا نہیں تمہیں اس پر پوری سختی کرنی چاہئے یاد رکھو اگر اس کے طرفدار تم پر غالب آگئے تو تم کہیں کے نہ رہوگے وہ رشتہ دیکھیں گے نہ کنبہ میری رائے میں تو تمہیں مدینے والوں کو تنگ کر دینا چاہئے کہ یا تو وہ محمد کو نکال دیں اور وہ بیک بینی دوگوش تن تنہا رہ جائے یا ان مدینے والوں کا صفایا کر دینا چاہیے اگر تم تیار ہوجاؤ تو میں مدینے کہ کونے کونے پر لشکر بٹھادوں گا اور انہیں ناکوں چنے چبوا دونگا۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ نے فرمایا :

 اللہ کی قسم جس کہ ہاتھ میری جان ہے میں ہی انہیں قتل وغارت کروں گا اور قید کر کے پھر احسان کرکے چھوڑوں گا میں رحمت ہوں میرا بھیجنے والا اللہ ہے وہ مجھے اس دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک اپنے دین کو دنیا پر غالب نہ کردے ۔ میرے پانچ نام ہیں

-  محمد،

-  احمد،

- ماحی، یعنی میری وجہ سے اللہ کفر کو مٹادے گا،

- حاشر اس لئے کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کئے جائیں گے

-  اور عاقب ۔

مسند احمد میں ہے :

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدائن میں تھے بسااوقات احادیث رسول کامذاکرہ رہا کرتا تھا ایک دن حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سلمان کے پاس آئے توحضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے حذیفہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا :

 جسے میں نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا ہو یا اس پر لعنت کردی ہو تو سمجھ لو کہ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہی ہوں تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آجاتا ہے ۔ ہاں البتہ میں چونکہ رحمتہ اللعالمین ہوں تو میری دعا ہے کہ اللہ میرے ان الفاظ کو بھی ان لوگوں کے لئے موجب رحمت بنادے ۔

 رہی یہ بات کہ کفار کے لئے آپ رحمت کیسے تھے؟

 اس کا جواب یہ ہے کہ ابن جریر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی آیت کی تفسیر میں مروی ہے:

 مؤمنوں کے لئے تو آپ دنیا وآخرت میں رحمت تھے اور غیر مؤمنوں کے لئے آپ دنیا میں رحمت تھے کہ وہ زمین میں دھنسائے جانے سے، آسمان سے پتھر برسائے جانے سے بچ گئے۔ جیسے کہ اگلی اُمتوں کے منکروں پر عذاب آئے ۔

قُلْ إِنَّمَا يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (۱۰۸)

کہہ دیجئے! میرے پاس تو پس وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے، تو کیا تم بھی اس کی فرمانبرداری کرنے والے ہو  

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ مشرکوں سے فرمادیں کہ میری جانب یہی وحی کی جاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے تم سب بھی اسے تسلیم کرلو۔

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنْتُكُمْ عَلَى سَوَاءٍ ۖ

پھر اگر یہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیجئے کہ میں نے تمہیں یکساں طور پر خبردار کر دیا ہے

 اور اگر تم میری بات پہ یقین نہیں کرتے تو ہم تم جدا ہیں تم ہمارے دشمن ہو ہم تمہارے ۔

جیسے آیت میں ہے:

وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِىءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ (۱۰:۴۱)

اگر یہ جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو اور میں تمہارے کرتوتوں سے بیزار ہوں۔

اور آیت میں ہے:

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَآءٍ (۸:۵۸)

اگر تجھے کسی قوم سے خیانت وبدعہدی کا اندیشہ ہو تو عہد توڑ دینے کی انہیں فورا خبردے دو۔

 اسی طرح یہاں بھی ہے کہ اگر تم علیحدگی اختیار کرو تو ہمارے تمہارے تعلقات منقطع ہیں۔

وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ (۱۰۹)

مجھے علم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا دور

یقین مانو کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ پورا ہونے والا تو ضرور ہے اب خواہ ابھی ہو خواہ دیر سے اس کا خود مجھے علم نہیں۔

إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ (۱۱۰)

البتہ اللہ تعالیٰ تو کھلی اور ظاہر بات کو بھی جانتا ہے اور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے۔‏

ظاہرباطن کا عالم اللہ ہی ہے جو تم ظاہر کرو اور جو چھپاؤ اسے سب کا علم ہے۔ بندوں کے کل اعمال ظاہر اور پوشیدہ اس پر آشکارا ہیں ۔ چھوٹا بڑا کھلا عمل چھپا سب کچھ وہ جانتا ہے ۔

وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (۱۱۱)

مجھے اس کا بھی علم نہیں، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش ہو اور ایک مقرر وقت تک کا فائدہ (پہنچانا) ہے۔‏

 ممکن ہے اس کی تاخیر بھی تمہاری آزمائش ہو اور تمہیں تمہاری زندگانی تک نفع دینا ہو

قَالَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ ۗ

خود نبی نے کہا اے رب! انصاف کے ساتھ فیصلہ فرما

انبیاء علیہم السلام کو جو دعا تعلیم ہوئی تھی کہ اے اللہ ہم میں اور ہماری قوم میں تو سچا فیصلہ کر اور توہی بہتر فیصلہ کرنے والاہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی قسم کی دعا کا حکم ہوا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی غزوے میں جاتے تو دعا کرتے :

رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَـتِحِينَ (۷:۸۹)

 اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کردے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔‏

وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (۱۱۲)

اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے ان پر جو تم بیان کرتے ہو

 ہم اپنے مہربان رب سے ہی مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ تمہارے جھوٹ افتراؤں کو ہم سے ٹالے اس میں ہمارا مددگار وہی ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter