Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah TaHaAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
طه طٰہٰ (۱) سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں سورتوں کے اول حروف مقطعات کی تفسیر پوری طرح بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ گو یہ بھی مروی ہے کہ مراد طه سے اے شخص ہے کہتے ہیں کہ یہ نبطی کلمہ ہے۔ کوئی کہتا ہے معرب ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک پاؤں زمین پر ٹکاتے اور دوسرا اٹھا لیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری یعنی طه یعنی زمین پر دونوں پاؤں ٹکا دیا کر۔ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے۔ (۲) ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تجھے مشقت و تکلیف میں ڈال دیں۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن پر عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ نے شروع کر دیا تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ لوگ تو اچھی خاصی مصیبت میں پڑ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہ پاک قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنے کو نہیں اترا بلکہ یہ نیکوں کے لئے عبرت ہے یہ الہامی علم ہے جسے یہ ملا اسے بہت بڑی دولت مل گئی۔ چنانچہ بخاری مسلم میں ہے: جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہو جاتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے حافظ ابو القاسم طبرانی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرفوع صحیح حدیث لائے ہیں: قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے فرمانے کے لئے اپنی کرسی پر اجلاس فرمائے گا تو علماء سے فرمائے گا کہ میں نے اپنا علم اور اپنی حکمت تمہیں اسی لئے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دوں اور کچھ پرواہ نہ کروں کہ تم نے کیا کیا ہے؟ پہلے لوگ اللہ کی عبادت کے وقت اپنے آپ کو رسیوں میں لٹکا لیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ مشقت اپنے اس کلام پاک کے ذریعہ آسان کر دی اور فرما دیا کہ یہ قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا جیسے فرمان ہے : مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُواْ جس قدر آسانی سے پڑھا جائے پڑھ لیا کرو (۷۳:۲۰) یہ قرآن شقاوت اور بدبختی کی چیز نہیں بلکہ رحمت و نور اور دلیل جنت ہے۔ إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى بلکہ اس کی نصیحت کے لئے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ (۳) یہ قرآن نیک لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں خوف الہٰی ہے تذکرہ وعظ و ہدایت و رحمت ہے۔ اسے سن کر اللہ کے نیک انجام بندے حلال حرام سے واقف ہو جاتے ہیں اور اپنے دونوں جہان سنوار لیتے ہیں۔ تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے۔ (۴) یہ قرآن تیرے رب کا کلام ہے اسی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہرچیز کا خالق مالک رازق قادر ہے۔ جس نے زمین کو نیچی اور کثیف بنایا ہے اور جس نے آسمان کو اونچا اور لطیف بنایا ہے۔ ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے: ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی راہ ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک کافاصلہ بھی پانچ سو سال کا ہے الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے (۵) حضرت عباس والی حدیث میں امام ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ وہ رحمٰن اپنے عرش پر مستوی ہے اس کی پوری تفسیر سورہ اعراف میں گزر چکی ہے یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں سلامتی والا طریقہ یہی ہے کہ آیات و احادیث صفات کو بطریق سلف صالحین ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہی مانا جائے بغیر کیفیت طلبی کے اور بغیر تحریف و تشبیہ اور تعطیل و تمثیل کے۔ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى جس کی ملکیت آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان اور (کرہ خاک) کے نیچے کی ہر ایک چیز پر ہے۔ (۶) تمام چیزیں اللہ کی ہی ملک ہیں اسی کے قبضے اور ارادے اور چاہت تلے ہیں وہی سب کا خالق مالک الہٰ اور رب ہے کسی کو اس کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہیں۔ ساتویں زمین کے نیچے بھی جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ کعب کہتے ہیں: اس زمین کے نیچے پانی ہے پانی کے نیچے پھر زمین ہے پھر اس کے نیچے پانی ہے اسی طرح مسلسل پھر اس کے نیچے ایک پتھر ہے اس کے نیچے ایک فرشتہ ہے اس کے نیچے ایک مچھلی ہے جس کے دونوں بازو عرش تک ہیں اس کے نیچے ہوا خلا اور ظلمت ہے یہیں تک انسان کا علم ہے باقی اللہ جانے۔ حدیث میں ہے: ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں چوتھی میں جہنم کی گندھک پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا بھی غور طلب ہے۔ مسند ابویعلی میں ہے : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم غزوہ تبوک سے لوٹ رہے تھے گرمی سخت تڑاخے کی پڑ رہی تھی دو دو چار چار آدمی منتشر ہو کر چل رہے تھے میں لشکر کے شروع میں تھا اچانک ایک شخص آیا اور سلام کر کے پوچھنے لگا تم میں سے محمد کون ہیں؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ میں اس کیساتھ ہو گیا میرے ساتھی آگے بڑھ گئے۔ جب لشکر کے درمیان کا حصہ آیا تو اس میں حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے اسے بتلایا کہ یہ ہیں حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں سر پر بوجہ دھوپ کے کپڑا ڈالے ہوئے ہیں وہ آپ کی سواری کے پاس گیا اور نکیل تھام کر عرض کرنے لگا کہ آپ ہی محمد ہیں؟ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ ﷺنے جواب دیا کہ ہاں اس نے کہا میں چند باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں جنہیں زمین والوں میں سے بجز ایک دو آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا۔ آپﷺ نے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو۔ اس نے کہا بتائیے انبیاء اللہ سوتے بھی ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے۔ اس نے کہا بجا ارشاد ہوا ہے۔ اب یہ فرمائیے کہ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی تو باپ کی شباہت پر ہوتا ہے کبھی ماں کی؟ آپ ﷺنے فرمایا سنو مرد کا پانی سفید اور غلیظ ہے اور عورت کا پانی پتلا ہے جو پانی غالب آ گیا اسی پر شبیہ جاتی ہے اس نے کہا بجا ارشاد فرمایا۔ اچھا یہ بھی فرمائیے کہ بچے کے کون سے اعضاء مرد کے پانی سے بنتے ہیں اور کون سے عورت کے پانی سے؟ فرمایا مرد کے پانی سے ہڈیاں رگ اور پٹھے اور عورت کے پانی سے گوشت خون اور بال اس نے کہا یہ بھی صحیح جواب ملا۔ اچھا یہ بتایئے کہ اس زمین کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا ایک مخلوق ہے۔ کہا ان کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا زمین کہا اس کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا پانی۔ کہا پانی کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا اندھیرا۔ کہا اس کے نیچے؟ فرمایا ہوا ۔ کہا ہوا کے نیچے؟ فرمایا تر مٹی، کہا اس کے نیچے؟ آپ ﷺکے آنسو نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ مخلوق کا علم تو یہیں تک پہنچ کر ختم ہو گیا۔ اب خالق کو ہی اس کے آگے کا علم ہے۔ اے سوال کرنے والے اس کی بابت تو جس سے سوال کر رہا ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں۔ اس نے آپ کی صداقت کی گواہی دی آپ ﷺنے فرمایا اسے پہچانا بھی؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے آپ نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے۔ یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے اور اس میں جو واقعہ ہے بڑا ہی عجیب ہے اس کے راویوں میں قاسم بن عبدالرحمٰن کا تفرد ہے جنہیں امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز کے برابر نہیں۔ امام ابو حاتم رازی بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں یہ معروف شخص نہیں اور اس حدیث میں غلط ملط کر دیا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا ایسی ہی کسی سے لی ہے۔ وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے (۷) اللہ وہ ہے جو ظاہر و باطن اونچی نیچی چھوٹی بڑی سب کچھ جانتا ہے جیسے فرمان ہے: قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِى يَعْلَمُ السِّرَّ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے ۔ (۲۵:۶) تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا علم۔ سب کی پیدائش اور مار کر جِلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے۔ تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے۔ تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے اور اسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے۔ ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں۔ کئے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل اس پر ظاہر ہیں۔ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بہترین نام اسی کے ہیں ۔ (۸) وہی معبود برحق ہے اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں۔ سورہ اعراف کی تفسیر کے آخر میں اسماء حسنی کے متعلق حدیثیں گزر چکی ہیں۔ قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اس کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا اب تو دن ڈوبنے کو ہے واقعات زیادہ ہیں پھر سہی چنانچہ میں نے دوسری صبح پھر سوال کیا تو آپ نے فرمایا سنو! فرعون کے دربار میں ایک دن اس بات کا ذکر چھڑا کہ اللہ کا وعدہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے یہ تھا کہ ان کی اولاد میں انبیاء اور بادشاہ ہو گے چنانچہ بنو اسرائیل اس کے آج تک منتظر ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مصر کی سلطنت پھر ان میں جائے گی۔ پہلے تو ان کا خیال تھا کہ یہ وعدہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بابت تھا لیکن ان کی وفات تک جب کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا تو وہ اب عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ان میں اپنے ایک پیغمبر کو بھیجے گا جن کے ہاتھوں انہیں سلطنت بھی ملے گی اور ان کی قومی و مذہبی ترقی ہو گی یہ باتیں کر کے انہوں نے مجلس مشاورت قائم کی کہ اب کیا کیا جائے جس سے آئندہ کے اس خطرے سے محفوظ رہ سکیں۔ آخر اس جلسے میں قرار داد منظور ہوئی کہ پولیس کا ایک محکمہ قائم کیا جائے جو شہر کا گشت لگاتا رہے اور بنی اسرائیل میں جو نرینہ اولاد ہو اسے اسی وقت سرکار میں پیش کیا جائے اور ذبح کر دیا جائے۔ لیکن جب ایک مدت گزر گئی تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ اس طرح تو بنی اسرائیل بالکل فنا ہو جائیں گے اور جو ذلیل خدمتیں ان سے لی جاتی ہیں جو بیگاریں ان سے وصول ہو رہی ہیں سب موقوف ہو جائیں گی اس لئے اب تجویز ہوا کہ ایک سال ان کے بچوں کو چھوڑ دیا جائے اور ایک سال ان کے لڑکے قتل کر دیئے جائیں۔ اس طرح موجودہ بنی اسرائیلیوں کی تعداد بھی نہ بڑھے گی اور نہ اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں اپنی خدمت گزاری کے لئے بھی نہ مل سکیں جتنے بڈھے دو سال میں مریں گے اتنے بچے ایک سال میں پیدا ہو جائیں گے۔ جس سال قتل موقوف تھا اس سال تو حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال قتل عام بچوں کا جاری تھا اس برس حضرت موسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے۔ آپ کی والدہ کی اس وقت کی گھبراہٹ اور پریشانی کا کیا پوچھنا؟ بے اندازہ تھی۔ ایک فتنہ تو یہ تھا۔ چنانچہ یہ خطرہ اس وقت دفع ہوگیا جب کہ اللہ کی وحی ان کے پاس آئی کہ ڈر خوف نہ کر ہم اسے تیری طرف پھر لوٹائیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔ چنانچہ بحکم الہٰی آپ نے اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا جب صندوق نظروں سے اوجھل ہو گیا تو شیطان نے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کئے کہ افسوس اس سے تو یہی بہتر تھا کہ میرے سامنے ہی اسے ذبح کر دیا جاتا تو میں اسے خود ہی کفناتی دفناتی تو سہی لیکن اب تو میں نے خود اسے مچھلیوں کا شکار بنایا۔ یہ صندوق یونہی بہتا ہوا خاص فرعونی گھاٹ سے جا لگا وہاں اس وقت محل کی لونڈیاں موجود تھیں انہوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور ارادہ کیا کہ کھول کر دیکھیں لیکن پھر ڈر گئیں کہ ایسا نہ ہو کہ چوری کا الزام لگے یونہی مقفل صندوق ملکہ فرعون کے پاس پہنچا دیا۔ یہ بادشاہ بیگم کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے چاند جیسی صورت کا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ نکلا جسے دیکھتے ہی فرعون کی بیوی صاحبہ کا دل محبت کے جوش سے اچھلنے لگا۔ ادھر اُم موسیٰ کی حالت غیر ہو گئی سوائے اپنے اس پیارے بچے کے خیال کے دل میں اور کوئی تصور ہی نہ تھا۔ ادھر ان قصائیوں کو جو حکومت کی طرف سے بچوں کے قتل کے محکمے کے ملازم تھے معلوم ہوا تو وہ اپنی چھریاں تیز کئے ہوئے بڑھے اور ملکہ سے تقاضا کیا کہ بچہ انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اسے ذبح کر ڈالیں۔ یہ دوسرا فتنہ تھا
آخر ملکہ نے جواب دیا کہ ٹھہرو میں خود بادشاہ سے ملتی ہوں اور اس بچے کو طلب کرتی ہوں اگر وہ مجھے دے دیں تو خیر ورنہ تمہیں اختیار ہے۔ چنانچہ آپ آئیں اور بادشاہ سے کہا کہ یہ بچہ تو میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا اس خبیث نے کہا بس تم ہی اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو میری ٹھنڈک وہ کیوں ہونے لگا؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ حلف بیان فرماتے ہیں: اگر وہ بھی کہہ دیتا کہ ہاں بیشک وہ میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ضرور راہ راست دکھا دیتا جیسا کہ اس کی بیوی صاحبہ مشرف بہ ہدایت ہوئی لیکن اس نے خود اس سے محروم رہنا چاہا اللہ نے بھی اسے محروم کر دیا۔ الغرض فرعون کو جوں توں راضی رضامند کر کے اس بچے کے پالنے کی اجازت لے کر آپ آئیں اب محل کی جتنی دایہ تھیں سب کو جمع کیا ایک ایک کی گود میں بچہ دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کا دودھ آپ پر حرام کر دیا آپ نے کسی کا دودھ منہ میں لیا ہی نہیں۔ اس سے ملکہ گھبرائیں کہ یہ تو بہت ہی برا ہوا۔ یہ پیارا بچہ یونہی ہلاک ہو جائے گا۔ آخر سوچ کر حکم دیا کہ انہیں باہر لے جاؤ ادھر ادھر تلاش کرو اور اگر کسی کا دودھ یہ معصوم قبول کرے تو اسے بہ منت سونپ دو۔ باہر بازاروں میں میلہ سا لگ گیا ہر شخص اس سعادت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی کا دودھ نہ پیا۔ آپ کی والدہ نے اپنی بڑی صاحبزادی آپ کی بہن کو باہر بھیج رکھا تھا کہ وہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ وہ اس مجمع میں موجود تھیں اور تمام واقعات دیکھ سن رہی تھیں جب یہ لوگ عاجز آ گئے تو آپ نے فرمایا اگر تم کہو تو میں ایک گھرانہ ایسا بتلاؤں جو اس کی نگہبانی کرے اور ہو بھی اس کا خیر خواہ یہ کہنا تھا کہ لوگوں کو شک ہوا کہ ضرور یہ لڑکی اس بچے کو جانتی ہے اور اس کے گھر کو بھی پہچانتی ہے۔ اے ابن جبیر یہ تھا تیسرا فتنہ۔ لیکن اللہ نے لڑکی کو سمجھ دے دی اور اس نے جھٹ سے کہا کہ بھلا تم اتنا نہیں سمجھے کون بدنصیب ایسا ہو گا جو اس بچے کی خیر خواہی یا پرورش میں کمی کرے جو بچہ ہماری ملکہ کا پیارا ہے۔ کون نہ چاہے گا کہ یہ ہمارے ہاں پلے تاکہ انعام و اکرام سے اس کا گھر بھر جائے۔ یہ سن کر سب کی سمجھ میں آ گیا اسے چھوڑ دیا اور کہا بتا تو کون سی دایہ اس کے لئے تجویز کرتی ہے؟ اس نے کہا میں ابھی لائی دوڑی ہوئی گئیں اور والدہ کو یہ خوش خبری سنائی والدہ صاحب شوق و امید سے آئیں اپنے پیارے بچے کو گود میں لیا اپنا دودھ منہ میں دیا بچے نے پیٹ بھر کر پیا اسی وقت شاہی محلات میں یہ خوشخبری پہنچائی گئی ملکہ کا حکم ہوا کہ فوراً اس دایہ کو اور بچے کو میرے پاس لاؤ جب ماں بیٹا پہنچے تو اپنے سامنے دودھ پلوایا اور یہ دیکھ کر کہ بچہ اچھی طرح دودھ پیتا ہے بہت ہی خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں کہ دائی اماں مجھے اس بچے سے وہ محبت ہے جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں تم یہیں محل میں رہو اور اس بچے کی پرورش کرو۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کے سامنے اللہ کا وعدہ تھا انہیں یقین کامل تھا اس لئے آپ ذرا رکیں اور فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اپنے گھر کو اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر یہاں رہوں۔ اگر آپ چاہتی ہیں تو یہ بچہ میرے سپرد کر دیں میں اسے اپنے گھر لے جاتی ہوں ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کروں گی ملکہ صاحبہ نے مجبوراً اس بات کو بھی مان لیا اور آپ اسی دن خوشی خوشی اپنے بچے کو لئے ہوئے گھر آ گئیں۔ اس بچے کی وجہ سے اس محلے کے بنو اسرائیل بھی فرعونی مظالم سے رہائی پا گئے۔ جب کچھ زمانہ گزر گیا تو بادشاہ بیگم نے حکم بھیجا کہ کسی دن میرے بچے کو میرے پاس لاؤ ایک دن مقرر ہو گیا تمام ارکان سلطنت اور درباریوں کو حکم ہوا کہ آج میرا بچہ میرے پاس آئے گا تم سب قدم قدم پر اس کا استقبال کرو اور دھوم دھام سے نذریں دیتے ہوئے اسے میرے محل سرائے تک لاؤ۔ چنانچہ جب سواری روانہ ہوئی وہاں سے لے کر محل سرائے سلطانی تک برابر تحفے تحائف نذریں اور ہدیے پیشکش ہوتے رہے اور بڑی ہی عزت و اکرام کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تو خود بیگم نے بھی خوشی خوشی بہت بڑی رقم پیش کی اور بڑی خوشی منائی گئی۔ پھر کہنے لگی کہ میں تو اسے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گی وہ بھی اسے انعام و اکرام دیں گے، لے گئیں اور بادشاہ کی گود میں لٹا دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی داڑھی پکڑ کر زور سے گھسیٹی۔ فرعون کھٹک گیا اور اس کے درباریوں نے کہنا شروع کیا کہ کیا عجب یہی وہ لڑکا ہو آپ اسے فوراً قتل کرا دیجئے۔ اے ابن جبیر یہ تھا چوتھا فتنہ ملکہ بیتاب ہو کر بول اٹھیں اے بادشاہ کیا ارادہ کر رہے ہو؟ آپ اسے مجھے دے چکے ہیں میں اسے اپنا بیٹا بنا چکی ہوں۔ بادشاہ نے کہا یہ سب ٹھیک ہے لیکن دیکھو تو اس نے تو آتے ہی داڑھی پکڑ کر مجھے نیچا کر دیا گویا یہی میرا گرانے والا اور مجھے تاخت و تاراج کرنے والا ہے۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا بادشاہ بچوں کو ان چیزوں کی کیا تمیز سنو میں ایک فیصلہ کن بات بتاؤں اس کے سامنے دو انگارے آگ کے سرخ رکھ دو اور دو موتی آبدار چمکتے ہوئے رکھ دو پھر دیکھو یہ کیا اٹھاتا ہے اگر موتی اٹھا لے تو سمجھنا کہ اس میں عقل ہے اور اگر آگ کے انگارے تھام لے تو سمجھ لینا کہ عقل نہیں جب عقل و تمیز نہیں تو اس کی داڑھی پکڑ لینے پر اتنے لمبے خیالات کر کے اس کی جان کا دشمن بن جانا کون سی دانائی کی بات ہے چنانچہ یہی کیا گیا دونوں چیزیں آپ کے سامنے رکھی گئیں آپ نے دہکتے ہوئے انگارے اٹھا لئے اسی وقت وہ چھین لئے کہ ایسا نہ ہو ہاتھ جل جائیں اب فرعون کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اس کا بدلہ ہوا رخ ٹھیک ہو گیا۔ حق تو یہ ہے کہ اللہ کو جو کام کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے قدرتی اسباب مہیا ہو ہی جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دربار فرعون میں فرعون کے خاص محل میں فرعون کی بیوی کی گود میں ہی پرورش ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ آپ اچھی عمر کو پہنچ گئے اور بالغ ہو گئے۔ اب تو فرعونیوں کے جو مظالم اسرائیلیوں پر ہو رہے تھے ان میں بھی کمی ہو گئی تھی سب امن و امان سے تھے۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک فرعونی اور ایک اسرائیلی کی لڑائی ہو رہی تھی اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی آپ کو سخت غصہ آیا اسلئے کہ اس وقت وہ فرعونی اس بنی اسرائیل کو دبوچے ہوئے تھا آپ نے اسے ایک مکا مارا اللہ کی شان مکا لگتے ہی وہ مر گیا یہ تو لوگوں کو عموماً معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کی طرف داری کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی وجہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ چونکہ آپ نے انہی میں دودھ پیا ہے اس لئے ان کے طرفدار ہیں اصلی راز کا علم تو صرف آپ کی والدہ کو تھا اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو بھی معلوم کرا دیا ہو۔ اسے مردہ دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہے وہ بہکانے والا اور کھلا دشمن ہے۔ قَالَ هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبِينٌ موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے (۲۸:۱۵) پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ باری تعالیٰ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا تو معاف فرما (۲۸:۱۶) پروردگار نے بھی آپ کی اس خطا سے درگزر فرما لیا وہ تو غفور و رحیم ہے ہی۔ فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا، وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والا ہے (۲۸:۱۶) چونکہ قتل کا معاملہ تھا آپ پھر بھی خوفزدہ ہی رہے تاک جھانک میں رہے کہ کہیں معاملہ کھل تو نہیں گیا۔ ادھر فرعون کے پاس شکایت ہوئی کہ ایک قبطی کو کسی بنی اسرأیل نے مار ڈالا ہے فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ واقعہ کی پوری تحقیق کرو قاتل کو تلاش کر کے پکڑ لاؤ اور گواہ بھی پیش کرو اور جرم ثابت ہو جانے کی صورت میں اسے بھی قتل کردو۔ پولیس نے ہر چند تفتیش کی لیکن قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اتفاق کی بات کہ دوسرے ہی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر کہیں جا رہے تھے کہ دیکھا وہی بنی اسرائیلی شخص ایک دوسرے فرعونی سے جھگڑ رہا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی وہ دہائی دینے لگا لیکن اس نے یہ محسوس کیا کہ شاید موسیٰ علیہ السلام اپنے کل کے فعل سے نادم ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اس کا یہ بار بار کا جھگڑنا اور فریاد کرنا برا معلوم ہوا اور کہا تم تو بڑے لڑاکا ہو یہ فرما کر اس فرعونی کو پکڑنا چاہا لیکن اس اسرائیلی بزدل نے سمجھا کہ شاید آپ چونکہ مجھ پر ناراض ہیں مجھے ہی پکڑنا چاہتے ہیں حالانکہ اس کا یہ صرف بزدلانہ خیال تھا آپ تو اسی فرعونی کو پکڑنا چاہتے تھے اور اسے بچانا چاہتے تھے لیکن خوف و ہراس کی حالت میں بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسے کہ کل تو نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا کیا آج مجھے مار ڈالنا چاہتا ہے یہ سن کر وہ فرعونی اسے چھوڑ بھاگا، دوڑا گیا۔ اور سرکاری سپاہی کو اس واقعہ کی خبر کر دی فرعون کو بھی قصہ معلوم ہوا اسی وقت جلادوں کو حکم دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑ کر قتل کر دو۔ یہ لوگ شارع عام سے آپ کی جستجو میں چلے ادھر ایک بنی اسرائیلی نے راستہ کاٹ کر نزدیک کے راستے سے آ کر موسیٰ علیہ السلام کو خبر کر دی۔ اے ابن جبیر یہ ہے پانچواں فتنہ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ سنتے ہی مٹھیاں بند کر کے مصر سے بھاگ کھڑے ہوئے نہ کبھی پیدل چلے تھے نہ کبھی کسی مصیبت میں پھنسے تھے شہزادوں کی طرح لاڈ چاؤ میں پلے تھے نہ راستے کی خبر تھی نہ کبھی سفر کا اتفاق پڑا تھا رب پر بھروسہ کر کے یہ دعا کر کے اے اللہ مجھے سیدھی راہ لے چلنا چل کھڑے ہوئے عَسَى رَبِّي أَنْ يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا (۲۸:۲۲) یہاں تک کہ مدین کی حدود میں پہنچے۔ یہاں دیکھا کہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں وہیں دو لڑکیوں کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں پوچھا کہ تم ان کے ساتھ اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلا لیتیں؟ الگ کھڑی ہوئی انہیں کیوں روک رہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس بھیڑ میں ہمارے بس کی بات نہیں کہ اپنے جانوروں کو پانی پلائیں ہم تو جب یہ لوگ پانی پلا چکتے ہیں ان کا بقیہ اپنے جانوروں کو پلا دیا کرتی ہیں آپ فوراً آگے بڑھے اور ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ چونکہ بہت جلد پانی کھینچا آپ بہت قوی آدمی تھی سب سے پہلے ان کے جانوروں کو سیر کر دیا۔ یہ اپنی بکریاں لے کر اپنے گھر روانہ ہوئیں اور آپ ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے اور اللہ سے دعا کرنے لگے کہ پروردگار میں تیری تمام تر مہربانیوں کا محتاج ہوں یہ دونوں لڑکیاں جب اپنے والد کے پاس پہنچیں تو انہوں نے کہا آج کیا بات ہے کہ تم وقت سے پہلے ہی آ گئیں؟ اور بکریاں بھی خوب آسودہ اور شکم سیر معلوم ہوتی ہیں تو ان بچیوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے حکم دیا کہ تم میں سے ایک ابھی چلی جائے اور انہیں میرے پاس بلا لائے۔ وہ آئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے والد صاحب کے پاس لے گئیں انہوں نے سرسری ملاقات کے بعد واقعہ پوچھا تو آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا اس پر وہ فرمانے لگے اب کوئی ڈر کی بات نہیں آپ ان ظالموں سے چھوٹ گئے۔ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ اب نہ ڈر تو نے ظالم قوم سے نجات پائی (۲۸:۲۵) ہم لوگ فرعون کی رعایا نہیں نہ ہم پر اس کا کوئی دباؤ ہے اسی وقت ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جی انہوں نے ہمارا کام کر دیا ہے اور یہ ہیں بھی قوت والے امانت دار شخص کیا اچھا ہو کہ آپ انہیں اپنے ہاں مقرر کر لیجئے کہ یہ اجرت پر ہماری بکریاں چرا لایا کریں۔ باپ کو غیرت اور غصہ آ گیا اور پوچھا بیٹی تمہیں یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ یہ قوی اور امین ہیں۔ بچی نے جواب دیا کہ قوت تو اس وقت معلوم ہوئی جب انہوں نے ہماری بکریوں کے لئے پانی نکالا اتنے بڑے ڈول کو اکیلے ہی کھینچتے تھے اور بڑی پھرتی اور ہرپن سے۔ امانت داری یوں معلوم ہوئی کہ میری آواز سن کر انہوں نے نظر اونچی کی اور جب یہ معلوم ہو گیا کہ میں عورت ہوں پھر نیچی گردن کر کے میری باتیں سنتے رہے واللہ آپ کا پورا پیغام پہنچانے تک انہوں نے نگاہ اونچی نہیں کی۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے رہو مجھے دور سے راستہ بتا دیا کرنا یہ بھی دلیل ہے ان کی اللہ خوفی اور امانت داری کی۔ باپ کی غیرت و حمیت بھی رہ گئی بچی کی طرف سے بھی دل صاف ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی محبت دل میں سما گئی۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے میرا ارادہ ہے کہ اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے ہاں کام کاج کرتے رہیں ہاں اگر دس سال تک کریں تو اور بھی اچھا ہے انشاء اللہ آپ دیکھ لیں گے کہ میں بھلا آدمی ہوں۔ چنانچہ یہ معاملہ طے ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے بجائے آٹھ سال کے دس سال پورے کئے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلے مجھے یہ معلوم نہ تھا اور ایک نصرانی عالم مجھ سے یہ پوچھ بیٹھا تھا تو میں اسے کوئی جواب نہ دے سکا پھر جب میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا اور آپ نے جواب دیا تو میں نے اس سے ذکر کیا اس نے کہا تمہارے استاد بڑے عالم ہیں۔ میں نے کہا ہاں ہیں ہی۔ اب موسیٰ علیہ السلام اس مدت کو پوری کر کے اپنی اہلیہ صاحبہ کو لئے ہوئے یہاں سے چلے۔ پھر وہ واقعات ہوئے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ آگ دیکھی، گئے، اللہ سے کلام کیا، لکڑی کا اژدھا بننا، ہاتھ کا نورانی بننا ملاحظہ کیا، نبوت پائی، فرعون کی طرف بھیجے گئے تو قتل کے واقعہ کے بدلے کا اندیشہ ظاہر فرمایا۔ اس سے اطمینان حاصل کر کے زبان کی گرہ کشائی کی طلب کی۔ اس کو حاصل کر کے اپنے بھائی ہارون کی ہمدردی اور شرکت کار چاہی۔ یہ بھی حاصل کر کے لڑکی لئے ہوئے شاہ مصر کی طرف چلے۔ ادھر حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس وحی پہنچی کہ اپنے بھائی کی موافقت کریں اور ان کا ساتھ دیں۔ دونوں بھائی ملے اور فرعون کے دربار میں پہنچے۔ اطلاع کرائی بڑی دیر میں اجازت ملی،اندر گئے فرعون پر ظاہر کیا کہ ہم اللہ کے رسول بن کر تیرے پاس آئے ہیں۔ اب جو سوال جواب ہوئے وہ قرآن میں موجود ہیں۔ فرعون نے کہا اچھا تم چاہتے کیا ہو اور واقعہ قتل یاد دلایا جس کا عذر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا جو قرآن میں موجود ہے اور کہا ہمارا ارادہ یہ ہے کہ تو ایمان لا اور ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہائی دے۔ اس نے انکار کیا اور کہا کہ اگر سچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ آپ نے اسی وقت اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی وہ زمین پر پڑتے ہی ایک زبردست خوفناک اژدھے کی صورت میں منہ پھاڑے کچلیاں نکالے فرعون کی طرف لپکا مارے خوف کے فرعون تخت سے کود گیا اور بھاگتا ہوا عاجزی سے فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے واسطے اسے پکڑ لو۔ آپ نے ہاتھ لگایا اسی وقت لاٹھی اپنی اصلی حالت میں آ گئی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالا تو وہ بغیر کسی مرض کے داغ کے چمکتا ہوا نکلا جسے دیکھ کر وہ حیران ہو گیا آپ نے پھر ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں تھا۔ اب فرعون نے اپنے درباریوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم نے دیکھا یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے ملک پر قابض ہو کر تمہارے طریقے مٹا دیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمیں آپ کی نبوت ماننے سے بھی انکار ہے اور آپ کا کوئی مطالبہ بھی ہم پورا نہیں کر سکتے بلکہ ہم اپنے جادوگروں کو تمہارے مقابلہ کے لئے بلا رہے ہیں جو تمہارے اس جادو پر غالب آ جائیں گے چنانچہ یہ لوگ اپنی کوششوں میں مشغول ہوگئے۔ تمام ملک سے جادوگروں کو بڑی عزت سے بلوایا جب سب جمع ہوگئے تو انہوں نے پوچھا کہ اسکا جادو کسی قسم کا ہے؟ فرعون والوں نے کہا لکڑی کا سانپ بنا دیتا ہے انہوں نے کہا اس میں کیا ہے ہم لکڑیوں کی رسیوں کے وہ سانپ بنائیں گے کہ روئے زمین پر ان کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔ لیکن ہمارے لئے انعام مقرر ہو جانا چاہئے فرعون نے ان سے قول و قرار کیا کہ انعام کیسا؟ میں تو تمہیں اپنا مقرب خاص اور درباری بنا لوں گا اور تمہیں نہال نہال کر دونگا جو مانگو گے پاؤ گے۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ عید کے روز دن چڑھے فلاں میدان میں مقابلہ ہو گا۔ مروی ہے کہ ان کی یہ عید عاشورا کے دن تھی اس دن تمام لوگ صبح ہی صبح اس میدان میں پہنچ گئے کہ آج چل کر دیکھیں گے کہ کون غالب آتا ہے ہم تو جادوگروں کے کمالات کے قائل ہیں وہی غالب آئیں گے اور ہم انہی کی مانیں گے۔ مذاق سے اس بات کو بدل کر کہتے تھے کہ چلو انہی دونوں جادوگروں کے مطیع بن جائیں گے اگر وہ غالب رہیں۔ میدان میں آ کر جادوگروں نے انبیاء اللہ سے کہا کہ لو اب بتاؤ تم پہلے اپنا جادو ظاہر کرتے ہو یا ہم ہی شروع کریں؟ آپ نے فرمایا تم ہی ابتدا کرو تاکہ تمہارے ارمان پورے ہوں۔ اب انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈالیں وہ سب سانپ اور بلائیں بن کر اللہ کے نبیوں کی طرف دوڑیں جس سے خوفزدہ ہو کر آپ پیچھے ہٹنے لگے اس وقت اللہ کی وحی آئی کہ آپ اپنی لکڑی زمین پر ڈال دیجئے آپ نے ڈالدی وہ ایک خوفناک بھیانک عظیم الشان اژدھا بن کر ان کی طرف دوڑا یہ لکڑیاں رسیاں سب گڈ مڈ ہوگئیں اور وہ ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کی طرف کا نشان ہے جادو میں یہ بات کہاں؟ چنانچہ سب نے اپنے ایمان کا اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لائے اور ان دونوں بھائیوں کی نبوت ہمیں تسلیم ہے۔ ہم اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ فرعون اور فرعونیوں کی کمر ٹوٹ گئی، رسوا ہوئے، منہ کالے پڑ گئے، ذلت کے ساتھ خاموش ہوگئے۔ خون کے گھونٹ پی کر چپ ہوگئے۔ ادھر یہ ہو رہا تھا ادھر فرعون کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سگے بچے کی طرح پالا تھا، بےقرار بیٹھی تھیں اور اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھیں کہ اللہ ذولجلال اپنے نبی کو غالب کرے فرعونیوں نے بھی اس حال کو دیکھا تھا لیکن انہوں نے خیال کیا کہ اپنے خاوند کی طرفداری میں ان کا یہ حال ہے یہاں سے ناکام واپس جانے پر فرعون نے بے ایمانی پر کمر باندھ لی۔ اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے۔ جب کبھی کوئی پکڑ آ جاتی یہ گھبرا کر بلکہ گڑ گڑا کر وعدہ کرتا کہ اچھا اس مصیبت کے ہٹ جانے پر میں بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا لیکن جب عذاب ہٹ جاتا پھر منکر بن کر سرکشی پر آ جاتا اور کہتا تیرا رب اس کے سوا کچھ اور بھی کر سکتا ہے؟ چنانچہ ان پر طوفان آیا۔ ٹڈیاں آئیں، جوئیں آئیں، مینڈک آئے، خون آیا اور بھی بہت سی صاف صاف نشانیاں دیکھیں۔ جاں آفت آئی، ڈرا، وعدہ کیا۔ جہاں وہ ٹل گئی مکر گیا اور اکڑ گیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ آپ راتوں رات انہیں لے کر روانہ ہو گئے۔ صبح فرعونیوں نے دیکھا کہ رات کو سارے بنی اسرائیل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے فرعون سے کہا اس نے سارے ملک میں احکام بھیج کر ہر طرف سے فوجیں جمع کیں اور بہت بڑی جمعیت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ راستے میں جو دریا پڑتا تھا اس کی طرف اللہ کی وحی پہنچی کہ تجھ پر جب میرے بندے موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی پڑے تو تو انہیں راستہ دے دینا۔ تجھ میں بارہ راستے ہو جائیں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے الگ الگ اپنی راہ لگ جائیں۔ پھر جب یہ پار ہو جائیں اور فرعونی آ جائیں تو تو مل جانا اور ان میں سے ایک کو بھی بےڈبوئے نہ چھوڑنا۔ موسیٰ علیہ السلام جب دریا پر پہنچے دیکھا کہ وہ موجیں مار رہا ہے پانی چڑھا ہوا ہے شور اٹھ رہا ہے گھبرا گئے اور لکڑی مارنا بھول گئے دریا بےقرار یوں تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کے کسی حصے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام لکڑی مار دیں اور اسے خبر نہ ہو تو عذاب الہٰی میں بہ سبب اللہ کی نافرمانی کے پھنس جائے۔ اتنے میں فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے سر پر جا پہنچا یہ گھبرا گئے اور کہنے لگے لو موسیٰ ہم تو پکڑ لئے گئے اب آپ وہ کیجئے جو اللہ کا آپ کو حکم ہے یقیناً نہ تو اللہ جھوٹا ہے نہ آپ۔ آپ نے فرمایا مجھے سے تو یہ فرمایا گیا ہے کہ جب تو دریا پر پہنچے گا وہ تجھے بارہ راستے دے دے گا تو گزر جانا۔ اسی وقت یاد آیا کہ لکڑی مارنے کا حکم ہوا ہے۔ چنانچہ لکڑی ماری ادھر فرعونی لشکر کا اول حصہ بنی اسرائیل کے آخری حصے کے پاس آ چکا تھا کہ دریا خشک ہو گیا اور اس میں راستے نمایاں ہوگئے اور آپ اپنی قوم کو لئے ہوئے اس میں بےخطر اتر گئے اور با آرام جانے لگے جب یہ نکل چکے فرعونی سپاہ ان کے تعاقب میں دریا میں اتری جب یہ سارا لشکر اس میں اتر گیا تو فرمان الہٰی کے مطابق دریا رواں ہو گیا اور سب کو بیک وقت غرق کر دیا بنو اسرایئل اس واقعہ کو اپنی آنکھوں دیکھ رہے تھے تاہم انہوں نے کہا کہ اے رسول اللہ ہمیں کیا خبر کہ فرعون بھی مرا یا نہیں؟ آپ نے دعا کی اور دریا نے فرعون کی بےجان لاش کو کنارے پر پھینک دیا۔ جسے دیکھ کر انہیں یقین کامل ہو گیا کہ ان کا دشمن مع اپنے لاؤ لشکر کے تباہ ہو گیا۔ اب یہاں سے آگے چلے تو دیکھا کہ ایک قوم اپنے بتوں کی مجاور بن کر بیٹھی ہے تو کہنے لگے اے اللہ کے رسول ہمارے لئے بھی کوئی معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ناراض ہو کر کہا کہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو ، تم نے اتنی بڑی عبرتناک نشانیاں دیکھیں ایسے اہم واقعات سنے لیکن اب تک نہ عبرت ہے نہ غیرت۔ یہاں سے آگے بڑھ کر ایک منزل پر آپ نے قیام کیا اور یہاں اپنا خلیفہ اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بنا کر قوم سے فرمایا کہ میری واپسی تک ان کی فرمانبرداری کرتے رہنا میں اپنے رب کے پاس جا رہا ہوں۔ تیس دن کا اس کا وعدہ ہے۔ چنانچہ قوم سے الگ ہو کر وعدے کی جگہ پہنچ کر تیس دن رات کے روزے پورے کر کے اللہ سے باتیں کرنے کا دھیان پیدا ہوا لیکن یہ سمجھ کر کہ روزوں کی وجہ سے منہ سے بھبکا نکل رہا ہو گا تھوڑی سی گھاس لے کر آپ نے چبا لی۔ اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے دریافت فرمایا کہ ایسا کیوں کیا؟ آپ نے جواب دیا صرف اس لئے کہ تجھ سے باتیں کرتے وقت میرا منہ خوشبودار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ روزہ دار کے منہ کی بو مجھے مشک و عنبر کی خوشبو سے زیادہ اچھی لگتی ہے اب تو دس روزے اور رکھ پھر مجھ سے کلام کرنا۔ آپ نے روزے رکھنا شروع کر دیئے۔ قوم پر تیس دن جب گزر گئے اور حسب وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ لوٹے تو وہ غمگین رہنے لگے حضرت ہارون علیہ السلام نے ان میں خطبہ کیا اور فرمایا کہ جب تم مصر سے چلے تھے تو قبطیوں کی رقمیں تم میں سے بعض پر ادھار تھیں اسی طرح ان کی امانتیں بھی تمہارے پاس رہ گئی ہیں یہ ہم انہیں واپس تو کرنے کے نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ ہماری ملکیت میں رہیں اس لئے تم ایک گہرا گڑھا کھودو اور جو اسباب برتن بھانڈا زیور سونا چاندی وغیرہ ان کا تمہارے پاس ہے سب اس میں ڈالو پھر آگ لگا دو۔ چنانچہ یہی کیا گیا ان کے ساتھ سامری نامی ایک شخص تھا یہ گائے بچھڑے پوجنے والوں میں سے تھا بنی اسرائیل میں سے نہ تھا لیکن بوجہ پڑوسی ہونے کے اور فرعون کی قوم میں سے نہ ہونے کے یہ بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا اس نے کسی نشان سے کچھ مٹھی میں اٹھا لیا تھا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا تو بھی اسے ڈال دے اس نے جواب دیا کہ یہ تو اس کے اثر سے ہے جو تمہیں دریا سے پار کرا لے گیا۔ خیر میں اسے ڈال دیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اس سے وہ بن جائے جو میں چاہتا ہوں۔ آپ نے دعا کی اور اس نے اپنی مٹھی میں جو تھا اسے ڈال دیا اور کہا میں چاہتا ہوں اس کا ایک بچھڑا بن جائے۔ قدرت الہٰی سے اس گڑھے میں جو تھا وہ ایک بچھڑے کی صورت میں ہو گیا جو اندر سے کھوکھلا تھا اس میں روح نہ تھی لیکن ہوا اس کے پیچھے کے سوراخ سے جا کر منہ سے نکلتی تھی اس سے ایک آواز پیدا ہوتی تھی۔ بنو اسرائیل نے پوچھا سامری یہ کیا ہے؟ اس بے ایمان نے کہا یہی تمہارا سب کا رب ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول گئے اور دوسری جگہ رب کی تلاش میں چلے گئے۔ اس بات نے بنی اسرائیل کے کئی فرقے کر دیئے۔ ایک فرقے نے تو کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک ہم اس کی بابت کوئی بات طے نہیں کر سکتے ممکن ہے یہی اللہ ہو تو ہم اس کی بے ادبی کیوں کریں؟ اور اگر یہ رب نہیں ہے تو موسیٰ علیہ السلام کے آتے ہی حقیقت کھل جائے گی۔ دوسری جماعت نے کہا محض واہیات ہے یہ شیطانی حرکت ہے ہم اس لغویت پر مطلقاً ایمان نہیں رکھتے نہ یہ ہمارا رب نہ ہمارا اس پر ایمان۔ ایک پاجی فرقے نے دل سے اسے مان لیا اور سامری کی بات پر ایمان لائے مگر بظاہر اس کی بات کو جھٹلایا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے اسی وقت سب کو جمع کر کے فرمایا کہ لوگو یہ اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے تم اس جھگڑے میں کہاں پھنس گئے تمہارا رب تو رحمٰن ہے تم میری اتباع کرو اور میرا کہنا مانو۔ انہوں نے کہا آخر اس کی کیا وجہ کہ تیس دن کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام گئے ہیں اور آج چالیس دن ہونے کو آئے لیکن اب تک لوٹے نہیں۔ بعض بیوقوفوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سے ان کا رب خطا کر گیا اب یہ اس کی تلاش میں ہوں گے۔ ادھر دس روزے اور پورے ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی قوم کا اس وقت کیا حال ہے آپ اسی وقت رنج و افسوس اور غم و غصے کے ساتھ واپس لوٹے اور یہاں آ کر قوم سے بہت کچھ کہا سنا اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنے لگے غصے کی زیادتی کی وجہ سے تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں پھر اصل حقیقت معلوم ہو جانے پر آپ نے اپنے بھائی سے معذرت کی ان کے لئے استغفار کیا اور سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کے پاؤں تلے سے میں نے ایک مٹھی اٹھالی یہ لوگ اسے نہ پہچان سکے اور میں نے جان لیا تھا۔ میں نے وہی مٹھی اس آگ میں ڈال دی تھی میرے رائے میں یہی بات آئی۔ آپ نے فرمایا جا اس کی سزا دنیا میں تو یہ ہے کہ تو یہی کہتا رہے کہ "ہاتھ لگانا نہیں" پھر ایک وعدے کا وقت ہے جس کا ٹلنا ناممکن ہے اور تیرے دیکھتے دیکھتے ہم تیرے اس معبود کو جلا کر اس کی خاک بھی دریا میں بہا دیں گے۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا اس وقت بنی اسرائیل کو یقین آ گیا کہ واقعی وہ اللہ نہ تھا۔ اب وہ بڑے نادم ہوئے اور سوائے ان مسلمانوں کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے ہم عقیدہ رہے تھے باقی کے لوگوں نے عذر و معذرت کی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لئے توبہ کا دروازہ کھول دے جو وہ فرمائے گا ہم بجا لائیں گے تاکہ ہماری یہ زبردست خطا معاف ہو جائے آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ میں سے ستر لوگوں کو چھانٹ کر علیحدہ کیا اور توبہ کے لئے چلے وہاں زمین پھٹ گئی اور آپ کے سب ساتھی اس میں اتار دیئے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فکر لاحق ہوا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ گریہ وزاری شروع کی اور دعا کی کہ اے اللہ اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی مجھے اور ان سب کو ہلاک کر دیتا ہمارے بیوقوفوں کے گناہ کے بدلے تو ہمیں ہلاک نہ کر۔ آپ تو ان کے ظاہر کو دیکھ رہے تھے اور اللہ کی نظریں ان کے باطن پر تھیں ان میں ایسے بھی تھے جو بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن دراصل ولی عقیدہ ان کا اس بچھڑے کے رب ہونے پر تھا ان ہی منافقین کی وجہ سے سب کو تہہ زمین کر دیا گیا تھا۔ نبی اللہ کی اس آہ و زاری پر رحمت الہٰی جوش میں آئی اور جواب ملا کہ یوں تو میری رحمت سب پر چھائے ہوئے ہے لیکن میں اسے ان کے نام ہبہ کروں گا جو متقی پرہیزگار ہوں، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں، میری باتوں پر ایمان لائیں اور میرے اس رسول و نبی کی اتباع کریں جس کے اوصاف وہ اپنی کتابوں میں لکھے پاتے ہیں یعنی توراۃ انجیل میں۔ حضرت کلیم اللہ علیہ صلوات اللہ نے عرض کی کہ بار الہٰی میں نے اپنی قوم کے لئے توبہ طلب کی، تو نے جواب دیا کہ تو اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے گا جو آگے آنے والے ہیں پھر اللہ مجھے بھی تو اپنی اسی رحمت والے نبی کی اُمت میں پیدا کرتا۔ رب العالمین نے فرمایا سنو ان کی توبہ اس وقت قبول ہو گی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں نہ باپ بیٹے کو دیکھے نہ بیٹا باپ کو چھوڑے آپس میں گتھ جائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں۔ چنانچہ بنو اسرائیل نے یہی کیا اور جو منافق لوگ تھے انہوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی جو بچ گئے تھے وہ بھی بخشے گئے جو قتل ہوئے وہ بھی بخش دیئے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اب یہاں سے بیت المقدس کی طرف چلے۔ توراۃ کی تختیاں اپنے ساتھ لیں اور انہیں احکام الہٰی سنائے جو ان پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ایک پہاڑ ان کے سروں پر معلق کھڑا کر دیا گیا وہ مثل سائبان کے سروں پر تھا اور ہر دم ڈر تھا کہ اب گرا انہوں نے اب اقرار کیا اور تورات قبول کرلی پہاڑ ہٹ گیا۔ اس پاک زمین پر پہنچے جہاں کلیم اللہ انہیں لے جانا چاہتے تھے دیکھا کہ وہاں ایک بڑی طاقتور زبردست قوم کا قبضہ ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے نہایت نامردی سے کہا کہ یہاں تو بڑی زور آور قوم ہے ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں یہ نکل جائیں تو ہم شہر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ تو یونہی نامردی اور بزدلی ظاہر کرتے رہے ادھر اللہ تعالیٰ نے ان سرکشوں میں سے دو شخصوں کو ہدایات دے دی وہ شہر سے نکل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں آ ملے اور انہیں سمجھانے لگے کہ تم ان کے جسموں اور تعداد سے مرعوب نہ ہو جاؤ یہ لوگ بہادر نہیں ان کے دل گردے کمزور ہیں تم آگے تو بڑھو ان کے شہر کے دروازے میں گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے یقیناً تم ان پر غالب آ جاؤ گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں شخص جنہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور انہیں دلیر بنایا خود بنی اسرایئل میں سے ہی تھے واللہ اعلم ۔ لیکن ان کے سمجھانے بجھانے اللہ کے حکم ہو جانے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعدے نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ انہوں نے صاف کورا جواب دے دیا کہ جب تک یہ لوگ شہر میں ہیں ہم تو یہاں سے اٹھنے کے بھی نہیں موسیٰ علیہ السلام تو آپ اپنے رب کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا اور ان سے لڑ بھڑ لے ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا آپ کے منہ سے ان بزدلوں اور ناقدروں کے حق میں بد دعا نکل گئی اور آپ نے ان کا نام فاسق رکھ دیا۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کا یہی نام مقرر ہو گیا اور انہیں اسی میدان میں قدرتی طور پر قید کر دیا گیا چالیس سال انہیں یہیں گزر گئے کہیں قرار نہ تھا اسی بیاباں میں پریشانی کے ساتھ بھٹکتے پھرتے تھے اسی میدان قید میں ان پر ابر کا سایہ کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا کپڑے نہ پھٹتے تھے نہ میلے ہوتے تھے ایک چوکونہ پتھر رکھا ہوا تھا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لکڑی ماری تو اس میں سے بارہ نہریں جاری ہوگئیں ہر طرف سے تین تین لوگ چلتے چلتے آگے بڑھ جاتے تھک کر قیام کر دیتے، صبح اٹھتے تو دیکھتے کہ وہ پتھر وہیں ہے جہاں کل تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ روایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی تو فرمایا کہ اس فرعونی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اگلے دن کے قتل کی خبر رسانی کی تھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ قبطی کے قتل کے وقت سوائے اس بنی اسرائیل ایک شخص کے جو قبطی سے لڑ رہا رہا تھا وہاں کوئی اور نہ تھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بگڑے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ تھام کر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گئے اور ان سے کہا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس شخص کا حال بیان فرمایا تھا جس نے حضرت موسیٰ کے قتل کے راز کو کھولا تھا بتاؤ وہ بنی اسرائیلی شخص تھا یا فرعونی؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بنی اسرائیل سے اس فرعونی نے سنا پھر اس نے جا کر حکومت سے کہا اور خود اس کا شاہد بنا (سنن کبری نسائی) یہی روایت اور کتابوں میں بھی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے کلام سے بہت تھوڑا سا حصہ مرفوع بیان کیا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے بنو اسرائیل میں سے کسی سے یہ روایت لی ہو کیونکہ ان سے روایتیں لینا مباح ہیں۔ یا تو آپ نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی یہ روایت سنی ہو گی اور ممکن ہے کسی اور سے سنی ہو۔ واللہ اعلم۔ میں نے اپنے استاد شیخ حافظ ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی سنا ہے۔ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى تجھے موسیٰ ؑ کا قصہ بھی معلوم ہے۔ (۹) یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آپ اس مدت کو پوری کر چکے تھے جو آپ کے اور آپ کے خسر صاحب کے درمیان طے ہوئی تھی إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں ۔ (۱۰) اور آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر دس سال سے زیادہ عرصے کے بعد اپنے وطن مصر کی طرف جا رہے تھے سردی کی رات تھی راستہ بھول گئے تھے پہاڑوں کی گھاٹیوں کے درمیان اندھیرا تھا ابر چھایا ہوا تھا ہر چند چقماق سے آگ نکالنا چاہی لیکن اس سے بالکل آگ نہ نکلی ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو دائیں جانب کے پہاڑ پر کچھ آگ دکھائی دی تو بیوی صاحبہ سے فرمایا اس طرف آگ سی نظر آ رہی ہے میں جاتا ہوں کہ وہاں سے کچھ انگارے لے آؤں تاکہ تم سینک تاپ کر لو اور کچھ روشنی بھی ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کوئی آدمی مل جائے جو راستہ بھی بتا دے۔ بہر صورت راستے کا پتہ یا آگ مل ہی جائے گی۔ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَى جب وہ وہاں پہنچے تو آواز دی گئی اے موسیٰ۔ ( ۱۱) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک میدان کے دائیں جانب کے درختوں کی طرف سے آواز آئی کہ اے موسیٰ! دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نُودِىَ مِن شَاطِىءِ الْوَادِى الأَيْمَنِ فِى الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يمُوسَى إِنِّى أَنَا اللَّهُ پس جب وہاں پہنچے تو بابرکت زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت میں سے آواز دئیے گئے کہ اے موسیٰ! یقیناً میں ہی اللہ ہوں (۲۸:۳۰) إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى یقیناً میں تیرا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دے، کیونکہ تو پاک میدان طویٰ میں ہے ۔ (۱۲) میں تیرا رب ہوں تو جوتیاں اتار دے۔ یا تو اس لئے یہ حکم ہوا کہ آپ کی جوتیاں گدھے کے چمڑے کی تھیں یا اس لئے کہ تعظیم کرانی مقصود تھی۔ جیسے کہ کعبہ جانے کے وقت لوگ جوتیاں اتار کر جاتے ہیں۔ یا اس لئے کہ اس بابرکت جگہ پر پاؤں پڑیں اور بھی وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ طویٰ اس وادی کا نام تھا۔ یا یہ مطلب کہ اپنے قدم اس زمین سے ملا دو۔ یا یہ مطلب کہ یہ زمین کئی کئی بار پاک کی گئی ہے اور اس میں برکتیں بھر دی گئی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں۔لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے: إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا (۷۹:۱۶) وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى اور میں نے تجھے منتخب کر لیا ہے اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن۔ (۱۳) میں نے تجھے اپنا برگزیدہ کر لیا ہے ، دنیا میں سے تجھے منتخب کر لیا ہے، اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے ممتاز فرما رہا ہوں، اس وقت کے روئے زمین کے تمام لوگوں سے تیرا مرتبہ بڑھا رہا ہوں۔ إِنْى اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَـلَـتِي وَبِكَلَـمِي میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے (۷:۱۴۴) کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا جانتے بھی ہو کہ میں نے تجھے دوسرے تمام لوگوں میں سے مختار اور پسندیدہ کر کے شرف ہم کلامی کیوں بخشا؟ آپ نے جواب دیا اے اللہ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں فرمایا گیا اس لئے کہ تیری طرح اور کوئی میری طرف نہیں جھکا۔ اب تو میری وحی کو کان لگا کر دھیان دے کر سن۔ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں پس تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ ۔ (۱۴) میں ہی معبود ہوں کوئی اور نہیں۔ یہی پہلا فریضہ ہے تو صرف میری ہی عبادت کئے چلے جانا کسی اور کی کسی قسم کی عبادت نہ کرنا، میری یاد کے لئے نمازیں قائم کرنا، میری یاد کا یہ بہترین اور افضل ترین طریقہ ہےیا یہ مطلب کہ جب میں یاد آؤں نماز پڑھو۔ جیسے حدیث میں ہے: تم میں سے اگر کسی کو نیند آ جائے یا غفلت ہو جائے تو جب یاد آ جائے نماز پڑھ لے کیونکہ فرمان الہٰی ہے میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔ بخاری و مسلم میں ہے: جو شخص سوتے میں یا بھول میں نماز کا وقت گزار دے اس کا کفارہ یہی ہے کہ یاد آتے ہی نماز پڑھ لے اس کے سوا اور کفارہ نہیں۔ إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔ (۱۵) قیامت یقیناً آنے والی ہے ممکن ہے میں اس کے وقت کے صحیح علم کو ظاہر نہ کروں۔ ایک قرأت میں أُخْفِيهَا کے بعد من نفسی کے لفظ بھی ہیں کیونکہ اللہ کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ یعنی اس کا علم بجز اپنے کسی کو نہیں دوں گا۔پس روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں ہوا جسے قیامت کے قائم ہونے کا مقرر وقت معلوم ہو۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر ہو سکے تو خود میں اپنے سے بھی اسے چھپادوں لیکن رب سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ ملائیکہ سے پوشیدہ ہے انبیاء اس سے بےعلم ہیں۔ جیسے فرمان ہے: قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ زمین آسمان والوں میں سے سوائے اللہ واحد کے کوئی اور غیب دان نہیں (۲۷:۶۵) اور آیت میں ہے : ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً وہ(قیامت) آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی (۷:۱۸۷) ایک قرأت میں أَخْفِيهَا ہے۔ورقہ فرماتے ہیں مجھے حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے اسی طرح پڑھایا ہے۔ اس کے معنی ہیں اظہرھا اس دن ہر عامل اپنے عمل کا بدل دیا جائے گا خواہ ذرہ برابر نیکی ہو خواہ بدی ہو اپنے کرتوت کا بدلہ اس دن ضرور ملنا ہے۔ فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى پس اب اسکے یقین سے تجھے کوئی ایسا شخص روک نہ دے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو، ورنہ تو ہلاک ہو جائے گا ۔ (۱۶) پس کسی کو بھی بے ایمان لوگ بہکا نہ دیں۔ قیامت کے منکر، دنیا کے مفتوں ، مولا کے نافرمان، خواہش کے غلام، کسی اللہ کے بندے کے اس پاک عقیدے میں اسے تزلزل پیدا نہ کرنے پائیں اگر وہ اپنی چاہت میں کامیاب ہو گئے تو یہ غارت ہوا اور نقصان میں پڑا۔ وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى اے موسیٰ! تیرے اس دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ (۱۷) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک بہت بڑے اور صاف کھلے معجزے کا ذکر ہو رہا ہے جو بغیر اللہ کی قدرت کے ناممکن اور جو غیر نبی کے ہاتھ پر بھی ناممکن۔طور پہاڑ پر دریافت ہو رہا ہے کہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ یہ سوال اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گھبراہٹ دور ہو جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سوال بطور تقریر کے ہے یعنی تیرے ہاتھ میں لکڑی ہی ہے یہ جیسی کچھ ہے تجھے معلوم ہے اب یہ جو ہو جائے گی وہ دیکھ لینا۔ قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى جواب دیا کہ یہ میری لاٹھی ہے، جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے میں اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیا کرتا ہوں اور بھی اس میں مجھے بہت سے فائدے ہیں۔ (۱۸) اس سوال کے جواب میں کلیم اللہ عرض کرتے ہیں یہ میری اپنی لکڑی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں یعنی چلنے میں مجھے یہ سہارا دیتی ہے اس سے میں اپنی بکریوں کا چارہ درخت سے جھاڑ لیتا ہوں۔ ایسی لکڑیوں میں ذرا مڑا ہوا لوہا لگا لیا کرتے ہیں تاکہ پتے پھل آسانی سے اتر آئیں اور لکڑی ٹوٹے بھی نہیں اور بھی بہت سے فوائد اس میں ہیں۔ ان فوائد کے بیان میں بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہی لکڑی رات کے وقت روشن چراغ بن جاتی تھی۔ دن کو جب آپ سو جاتے تو یہی لکڑی آپ کی بکریوں کی رکھوالی کرتی جہاں کہیں سایہ دار جگہ نہ ہوتی آپ اسے گاڑ دیتے یہ خیمے کی طرح آپ پر سایہ کرتی وغیرہ وغیرہ لیکن بظاہر یہ قول بنی اسرائیل کا افسانہ معلوم ہوتا ہے ورنہ پھر آج اسے بصورت سانپ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قدر کیوں گھبراتے ؟ وہ تو اس لکڑی کے عجائبات دیکھتے چلے آتے تھے۔ پھر بعض کا قول ہے کہ دراصل یہ لکڑی حضرت آدم علیہ السلام کی تھی۔ کوئی کہتا ہے یہی لکڑی قیامت کے قریب وابستہ الارض کی صورت میں ظاہر ہو گی۔ کہتے ہیں اس کا نام ماشا تھا۔اللہ ہی جانے ان اقوال میں کہاں تک جان ہے؟ لاٹھی اژدھا بن گئی۔ قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى فرمایا اے موسیٰ! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے۔ (۱۹) حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لکڑی کا لکڑی ہونا جتا کر انہیں بخوبی بیدار اور ہوشیار کر کے حکم ملا کہ اسے زمین پر ڈال دو۔ فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى ڈالتے ہی وہ سانپ بن کر دوڑنے لگی۔ (۲۰) زمین پر پڑتے ہی وہ ایک زبردست اژدھے کی صورت میں پھنپھناتی ہوئی ادھر ادھر چلنے پھرنے بلکہ دوڑنے بھاگنے لگی۔ ایسا خوفناک اژدھا اس سے پہلے کسی نے دیکھا ہی نہ تھا۔ اس کی تو یہ حالت تھی کہ ایک درخت سامنے آ گیا تو یہ اسے ہضم کر گیا۔ ایک چٹان پتھر کی راستے میں آ گئی تو اس کا لقمہ بنا گیا۔ یہ حال دیکھتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام الٹے پاؤں بھاگے۔ قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى فرمایا بےخوف ہو کر اسے پکڑ لے، ہم اسے اسی پہلی سی صورت میں دوبارہ لادیں گے (۲۱) آواز دی گئی کہ موسیٰ پکڑ لے لیکن ہمت نہ پڑی پھر فرمایا موسیٰ علیہ السلام ڈر نہیں پکڑ لے پھر بھی جھجک باقی رہی تیسری مرتبہ فرمایا تو ہمارے امن میں ہے اب ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔ کہتے ہیں فرمان الہٰی کے ساتھ ہی آپ نے لکڑی زمین پر ڈال دی پھر ادھر ادھر آپ کی نگاہ ہو گئی اب جو نظر ڈالی بجائے لکڑی کے ایک خوفناک اژدھا دکھائی دیا جو اس طرح چل پھر رہا ہے جیسے کسی کی جستجو میں ہو۔ گابھن اونٹنی جیسے بڑے بڑے پتھروں کو آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے درختوں کو ایک لقمے میں ہی پیٹ میں پہنچا رہا ہے آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی ہیں اس ہیبت ناک خونخوار اژدھے کو دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سہم گئے اور پیٹھ موڑ کر زور سے بھاگے پھر اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی یاد آ گئی تو شرما کر ٹھہر گئے وہیں آواز آئی کہ موسیٰ لوٹ کر وہیں آ جاؤ جہاں تھے آپ لوٹے لیکن نہایت خوفزدہ تھے۔ تو حکم ہوا کہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے تھام لو کچھ بھی خوف نہ کرو ہم اسے اس کی اسی اگلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام صوف کا کمبل اوڑھے ہوئے تھے جسے ایک کانٹے سے اٹکا رکھا تھا آپ نے اسی کمبل کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر اس ہیبت ناک اژدھے کو پکڑنا چاہا فرشتے نے کہا موسیٰ علیہ السلام اگر اللہ تعالیٰ اسے کاٹنے کا حکم دے دے تو کیا تیرا یہ کمبل بچا سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں لیکن یہ حرکت مجھ سے بہ سبب میرے ضعف کے سرزد ہو گئی میں ضعیف اور کمزور ہی پیدا کیا گیا ہوں۔ اب دلیری کے ساتھ کمبل ہٹا کر ہاتھ بڑھا کر اس کے سر کو تھام لیا اسی وقت وہ اژدھا پھر لکڑی بن گیا جیسے پہلے تھا اس وقت جب کہ آپ اس گھاٹی پر چڑھ رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں یہ لکڑی تھی جس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اسی حال میں آپ نے پہلے دیکھا تھا اسی حالت پر اب ہاتھ میں بصورت عصا موجود تھا۔ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى اور اپنا ہاتھ بغل میں ڈال لے تو وہ سفید چمکتا ہوا ہو کر نکلے گا، لیکن بغیر کسی عیب (اور روگ) کے یہ دوسرا معجزہ ہے (۲۲) چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چراغ کی طرح روشن نکلا جس سے آپ کا یہ یقین کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کلام کر رہے ہیں اور بڑھ گیا۔ لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى یہ اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانا چاہتے ہیں (۲۳) یہ دونوں معجزے یہیں اسی لئے ملے تھے کہ آپ اللہ کی ان زبردست نشانیوں کو دیکھ کر یقین کر لیں۔ جیسے فرمایا: وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذَانِكَ بُرْهَانَـنِ مِن رَّبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ اپنے بازو اپنی طرف ملا لے پس یہ دونوں معجزے تیرے لئے تیرے رب کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، (۲۸:۳۲) اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى اب تو فرعون کی طرف جا اس نے بڑی سرکشی مچا رکھی ہے (۲۴) پھر حکم ہوا کہ فرعون نے ہماری بغاوت پر کمر کس لی ہے، اس کے پاس جا کر اسے سمجھاؤ۔ وہب رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قریب ہونے کا حکم دیا یہاں تک کہ آپ اس درخت کے تنے سے لگ کر کھڑے ہو گئے، دل ٹھہر گیا، خوف و خطرہ دور ہو گیا۔ دونوں ہاتھ اپنی لکڑی پر ٹکا کر سرجھکا کر گردن خم کر کے با ادب ارشاد الہٰی سننے لگے تو فرمایا گیا کہ ملک مصر کے بادشاہ فرعون کی طرف ہمارا پیغام لے کر جاؤ، یہیں سے تم بھاگ کر آئے ہو۔ اس سے کہو کہ وہ ہماری عبادت کرے، کسی کو شریک نہ بنائے، بنو اسرائیل کے ساتھ سلوک و احسان کرے، انہیں تکلیف اور ایذاء نہ دے۔ فرعون بڑا باغی ہو گیا ہے، دنیا کا مفتون بن کر آخرت کو فراموش کر بیٹھا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گیا ہے تو میری رسالت لے کر اس کے پاس جا۔ میرے کان اور میری آنکھیں تیرے ساتھ ہیں، میں تجھے دیکھتا بھالتا اور تیری باتیں سنتا سناتا رہوں گا۔ میری مدد تیرے پاس ہو گی میں نے اپنی طرف سے تجھے حجتیں عطا فرما دی ہیں اور تجھے قوی اور مضبوط کر دیا ہے تو اکیلا ہی میرا پورا لشکر ہے۔ اپنے ایک ضعیف بندے کی طرف تجھے بھیج رہا ہوں جو میری نعمتیں پاکر پھول گیا ہے اور میری پکڑ کو بھول گیا ہے دنیا میں پھنس گیا اور غرور تکبر میں دھنس گیا ہے۔ میری ربوبیت سے بیزار، میری الوہیت سے برسر پیکار ہے۔ مجھ سے آنکھیں پھیر لی ہیں، دیدے بدل لئے ہیں۔ میری پکڑ سے غافل ہو گیا ہے۔ میرے عذابوں سے بےخوف ہو گیا ہے۔ مجھے اپنی عزت کی قسم اگر میں اسے ڈھیل دینا نہ چاہتا تو آسمان اس پر ٹوٹ پڑتے زمین اسے نگل جاتی دریا اسے ڈبو دیتے لیکن چونکہ وہ میرے مقابلے کا نہیں ہر وقت میرے بس میں ہے میں اسے ڈھیل دیے ہوئے ہوں اور اس سے بےپرواہی برت رہا ہوں۔ میں ہوں بھی ساری مخلوق سے بےپرواہ۔ حق تو یہ ہے کہ بےپروائی صرف میری ہی صفت ہے۔ تو میری رسالت ادا کر، اسے میری عبادت کی ہدایت کر، اسے توحید و اخلاص کی دعوت دے، میری نعمتیں یاد دلا، میرے عذابوں سے دھمکا، میرے غضب سے ہوشیار کر دے۔ جب میں غصہ کر بیٹھتا ہوں تو امن نہیں ملتا۔ اسے نرمی سے سمجھا تاکہ نہ ماننے کا عذر ٹوٹ جائے۔ میری بخشش کی میرے کرم و رحم کی اسے خبر دے کہہ دے کہ اب بھی اگر میری طرف جھکے گا تو میں تمام بد اعمالیوں سے قطع نظر کرلوں گا۔ میری رحمت میرے غضب سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ خبردار اس کا دنیوی ٹھاٹھ دیکھ کر رعب میں نہ آ جانا اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے اس کی زبان چل نہیں سکتی اس کے ہاتھ اٹھ نہیں سکتے اس کی آنکھ پھڑک نہیں سکتی اس کا سانس چل نہیں سکتا جب تک میری اجازت نہ ہو۔ اسے یہ سمجھا کہ میری مان لے تو میں بھی مغفرت سے پیش آؤں گا۔ چار سو سال اسے سرکشی کرتے، میرے بندوں پر ظلم ڈھاتے، میری عبادت سے لوگوں کو روکتے گزر چکے ہیں۔ تاہم نہ میں نے اس پر بارش بند کی نہ پیداوار روکی نہ بیمار ڈالا نہ بوڑھا کیا نہ مغلوب کیا۔ اگر چاہتا ظلم کے ساتھ ہی پکڑ لیتا لیکن میرا حلم بہت بڑھا ہوا ہے۔ تو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اس سے پوری طرح جہاد کر اور میری مدد پر بھروسہ رکھ میں اگر چاہوں تو اپنے لشکروں کو بھیج کر اس کا بھیجا نکال دوں۔ لیکن اس بےبنیاد بندے کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میری جماعت کا ایک بھی روئے زمین کی طاقتوں پر غالب آ سکتا ہے۔ مدد میرے اختیار میں ہے۔ دنیوی جاہ و جلال کی تو پرواہ نہ کرنا بلکہ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی نہیں۔ میں اگر چاہوں تو تمہیں اتنا دے دوں کہ فرعون کی دولت اس کے پاسنگ میں بھی نہ آ سکے لیکن میں اپنے بندوں کو عموماً غریب ہی رکھتا ہوں تاکہ ان کی آخرت سنوری رہے یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ میرے نزدیک قابل اکرام نہیں بلکہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ دونوں جہان کی نعمتیں آنے والے جہان میں جمع مل جائیں۔ میرے نزدیک بندے کا کوئی عمل اتنا وقعت والا نہیں جتنا زہد اور دنیا سے دوری۔ میں اپنے خاص بندوں کو سکینت اور خشوع خضوع کا لباس پہنا دیتا ہوں ان کے چہرے سجدوں کی چمک سے روشن ہو جاتے ہیں۔ یہی سچے اولیا اللہ ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے ہر ایک کو با ادب رہنا چاہئے۔ اپنی زبان اور دل کو ان کا تابع رکھنا چاہئے۔ سن میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والا گویا مجھے لڑائی کا اعلان دیتا ہے۔ تو کیا مجھ سے لڑنے کا ارادہ رکھنے والا کبھی سرسبز ہو سکتا ہے؟ میں نے قہر کی نظر سے اسے دیکھا اور وہ تہس نہس ہوا۔ میرے دشمن مجھ پر غالب نہیں آ سکتے، میرے مخالف میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ میں اپنے دوستوں کی خود مدد کرتا ہوں، انہیں دشمنوں کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ دنیا و آخرت میں انہیں سرخرو رکھتا ہوں اور انکی مدد کرتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا بچپن کا زمانہ فرعون کے گھر میں بلکہ اس کی گود میں گزارا تھا جوانی تک ملک مصر میں اسی کی بادشاہت میں ٹھہرے رہے تھے پھر ایک قبطی بے ارادہ آپ کے ہاتھ سے مر گیا تھا جس سے آپ یہاں سے بھاگ نکلے تھے تب سے لے کر آج تک مصر کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ فرعون ایک سخت دل بد خلق اکھڑ مزاج آوارہ انسان تھا غرور اور تکبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ کہتا تھا کہ میں اللہ کو جانتا ہی نہیں اپنی رعایا سے کہتا تھا کہ تمہارا اللہ میں ہی ہوں ملک و مال میں دولت و متاع میں لاؤ لشکر اور کفر میں کوئی روئے زمین پر اس کے مقابلے کا نہ تھا۔ موسیٰ ؑنے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے۔ (۲۵) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسے ہدایت کرنے کا حکم ہوا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے (۲۶) اور میرے کام میں آسانی پیدا کر دے اگر تو خود میرا مددگار نہ بنا تو یہ سخت بار میرے کمزور کندھے نہیں اٹھا سکتے۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے۔ (۲۷) اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ چونکہ آپ کے بچپن کے زمانے میں آپ کے سامنے کھجور اور انگارے رکھے گئے تھے آپ نے انگارہ لے کر منہ میں رکھ لیا تھا اس لئے زبان میں لکنت ہو گئی تھی تو دعا کی کہ میرے زبان کی گرہ کھل جائے يَفْقَهُوا قَوْلِي تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔ (۲۸) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس ادب کو دیکھئے کہ قدر حاجت سوال کرتے ہیں یہ نہیں عرض کرتے کہ میری زبان بالکل صاف ہو جائے بلکہ دعا یہ کرتے ہیں کہ گرہ کھل جائے تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں۔ انبیاء علیہم السلام اللہ سے صرف حاجت روائی کے مطابق ہی عرض کرتے ہیں آگے نہیں بڑھتے۔ چنانچہ آپ کی زبان میں پھر بھی کچھ کسر رہ گئی تھی جیسے کہ فرعون نے کہا تھا : أَمْ أَنَآ خَيْرٌ مِّنْ هَـذَا الَّذِى هُوَ مَهِينٌ وَلاَ يَكَادُ يُبِينُ بلکہ میں بہتر ہوں بہ نسبت اس کے جو بےتوقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا ۔ (۴۳:۵۲) حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک گرہ کھلنے کی دعا کی تھی جو پوری ہوئی اگر پوری کی دعا ہوتی تو وہ بھی پوری ہوتی۔ آپ نے صرف اسی قدر دعا کی تھی کہ آپ کی زبان ایسی کر دی جائے کہ لوگ آپ کی بات سمجھ لیا کریں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ڈر تھا کہ کہیں وہ الزام قتل رکھ کر قتل نہ کر دیں اس کی دعا کی جو قبول ہوئی۔ زبان میں اٹکاؤ تھا اس کی بابت دعا کی کہ اتنی صاف ہو جائے کہ لوگ بات سمجھ لیں یہ دعا بھی پوری ہوئی۔ دعا کی کہ ہارون کو بھی نبی بنا دیا جائے یہ بھی پوری ہوئی۔ حضرت محمد بن کعب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ان کے ایک رشتے دار آئے اور کہنے لگے یہ تو بڑی کمی ہے کہ تم بولنے میں غلط بول جاتے ہو۔ آپ نے فرمایا بھتیجے کیا میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کہا ہاں سمجھ میں تو آ جاتی ہے کہا بس یہی کافی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے یہی اور اتنی ہی دعا کی تھی۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے۔ (۲۹) پھر اور دعا کی کہ میری خارجی اور ظاہری امداد کے لئے میرا وزیر بنا دے اور ہو بھی وہ میرے کنبے میں سے۔ هَارُونَ أَخِي یعنی میرا بھائی ہارونؑ کو۔ (۳۰) یعنی میرے بھائی ہارون کو نبوت عطا فرما۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اسی وقت حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہی نبوت عطافرمائی گئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عمرے کے لئے جاتے ہوئے کسی اعرابی کے ہاں مقیم تھیں کہ سنا ایک شخص پوچھتا ہے کہ دنیا میں کسی بھائی نے اپنے بھائی کو سب سے زیادہ نفع پہنچایا ہے اس سوال پر سب خاموش ہوگئے اور کہہ دیا کہ ہمیں اس کا علم نہیں۔ اُس نے کہا اللہ کی قسم مجھے اس کا علم ہے۔ صدیقہؓ فرماتی ہیں میں نے اپنے دل میں کہا دیکھو یہ شخص کتنی بےجا جسارت کرتا ہے بغیر انشاء اللہ کی قسم کھا رہا ہے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس نے جواب دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کہ اپنے بھائی کو اپنی دعا سے نبوت دلوائی۔ میں بھی یہ سن کر دنگ رہ گئی اور دل میں کہنے لگی بات تو سچ کہی فی الواقع اس سے زیادہ کوئی بھائی اپنے بھائی کو نفع نہیں پہنچا سکتا۔ اللہ نے سچ فرمایا : وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهاً موسیٰ علیہ السلام اللہ کے پاس بڑے آبرو دار تھے۔ (۳۳:۶۹) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي تو اس سے میری کمر کس دے۔ (۳۱) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي اور اسے میرا شریک کار کر دے (۳۲) اس دعا کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ میری کمر مضبوط ہو جائے كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا تاکہ ہم دونوں بکثرت تیری تسبیح بیان کریں (۳۳) تاکہ ہم تیری تسبیح اچھی طرح بیان کریں۔ وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا اور بکثرت تیری یاد کریں ۔ (۳۴) ہر وقت تیری پاکیزگی بیان کرتے رہیں اور تیری یاد بکثرت کریں۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بندہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ ذکر کرنے والا اسی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ بیٹھتے اٹھتے اور لیٹتے ذکر اللہ میں مشغول رہے۔ إِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًا بیشک تو ہمیں خوب دیکھنے بھالنے والا ہے۔ (۳۵) تو ہمیں دیکھتا ہے یہ تیرا رحم و کرم ہے کہ تو نے ہمیں برگزیدہ کیا، ہمیں نبوت عطا فرمائی اور ہمیں اپنے دشمن فرعون کی طرف اپنا نبی بنا کر اس کی ہدایات کے لئے مبعوث فرمایا۔ تیرا شکر ہے اور تیرے ہی لئے تمام تعریفیں سزا وار ہیں۔ تیری ان نعمتوں پر ہم تیرے شکر گزار ہیں۔ قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى جناب باری تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ تیرے تمام سوالات پورے کر دیے گئے (۳۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمام دعائیں قبول ہوئیں اور فرما دیا گیا کہ تمہاری درخواست منظور ہے۔ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى ہم نے تو تجھ پر ایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے (۳۷) اس احسان کے ساتھ ہی اور احسان کا بھی ذکر کر دیا گیا کہ ہم نے تجھ پر ایک مرتبہ اور بھی بڑا احسان کیا ہے۔ إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى جب کہ ہم نے تیری ماں کو وہ الہام کیا جس کا ذکر اب کیا جا رہا ہے۔ (۳۸) پھر اس واقعہ کو مختصر طور پر یاد دلایا کہ ہم نے تیرے بچپن کے وقت تیری ماں کی طرف وحی بھیجی جس کا ذکر اب تم سے ہو رہا ہے۔ أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِي وَعَدُوٌّ لَهُ ۚ کہ تو اسے صندوق میں بند کر کے دریا میں چھوڑ دے، پس دریا اسے کنارے لا ڈالے گا اور میرا اور خود اس کا دشمن اسے لے لے گا تم اس وقت دودھ پیتے بچے تھے تمہاری والدہ کو فرعون اور فرعونیوں کا کھٹکا تھا کیونکہ اس سال وہ بنو اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کر رہا تھا۔ اس خوف کے مارے وہ ہر وقت کانپتی رہتی تھیں تو ہم نے وحی کی کہ ایک صندوق بنا لو دودھ پلا کر بچے کو اس میں لٹا کر دریائے نیل میں اس صندوق کو چھوڑ دو چنانچہ وہ یہی کرتی رہیں ایک رسی اس میں باندھ رکھی تھی جس کا ایک سرا اپنے مکان سے باندھ لیتی تھیں ایک مرتبہ باندھ رہی تھیں جو رسی ہاتھ سے چھوٹ گئی اور صندوق کو پانی کی موجیں بہا لے چلیں اب تو کلیجہ تھام کر رہ گئیں اس قدر غمزدہ ہوئیں کہ صبر ناممکن تھا، شاید راز فاش کر دیتیں لیکن ہم نے دل مضبوط کر دیا جیسے ارشاد فرمایا: وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغاً إِن كَادَتْ لَتُبْدِى بِهِ لَوْلا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا موسیٰؑ کی والدہ کا دل بےقرار ہوگیا قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کر دیتیں اگر ہم انکے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے (۲۸:۱۰) صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا فَالْتَقَطَهُ ءَالُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوّاً وَحَزَناً آخر فرعوں کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ آخرکار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعث بنا (۲۸:۸) آل فرعون نے اسے اٹھا لیا کہ جس غم سے وہ بچنا چاہتے تھے جس صدمے سے وہ محفوظ رہنا چاہتے تھے وہ ان کے سامنے آ جائے۔ جسکی شمع حیات کو بجھانے کے لئے وہ بےگناہ معصوموں کا قتل عام کر رہے تھے وہ انہی کے تیل سے انہی کے ہاں روشن ہو اور اللہ کے ارادے بےروک پورے ہو جائیں ان کا دشمن انہی کے ہاتھوں پلے انہی کا کھائے ان کے ہاں تربیت پائے۔ خود فرعون اور اس کی اہلیہ محترمہ نے جب بچے کو دیکھا رگ رگ میں محبت سما گئی لے کر پرورش کرنے لگے۔ آنکھوں کا تارا سمجھنے لگے شاہزادوں کی طرح ناز و نعمت سے پلنے لگے شاہی دربار میں رہنے لگے۔ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي اور میں نے اپنی طرف کی خاص محبت و مقبولیت تجھ پر ڈال دی تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔ (۳۹) اللہ نے اپنی محبت تجھ پر ڈال دی گو فرعون تیرا دشمن تھا لیکن رب کی بات کون بدلے؟ اللہ کے ارادے کو کون ٹالے فرعون پر ہی کیا منحصر ہے جو دیکھتا آپ کا والہ وشیدا بن جاتا یہ اس لئے تھا کہ تیری پرورش میری نگاہ کے سامنے ہو شاہی خوراکیں کھا عزت و وقعت کے ساتھ رہ۔ إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَنْ يَكْفُلُهُ ۖ (یاد کر) جبکہ تیری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اگر تم کہو تو میں بتادوں جو اس کی نگہبانی کرے فرعون والوں نے صندوقچہ اٹھا لیا کھولا بچے کو دیکھا پالنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کسی دایہ کا دودھ دباتے ہی نہیں بلکہ منہ میں ہی نہیں لیتے۔ وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا (۲۸:۱۲) بہن جو صندوق کو دیکھتی بھالتی کنارے کنارے آ رہی تھی وہ بھی موقعہ پر پہنچ گئیں کہنے لگیں کہ آپ اگر اسکی پرورش کی تمنا کرتے ہیں اور معقول اجرت بھی دیتے ہیں تو میں ایک گھرانہ بتاؤں جو اسے محبت سے پالے اور خیر خواہانہ برتاؤ کرے۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَـصِحُونَ ( یہ کہنے لگی کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لئے پرورش کرے اور ہوں بھی اس بچے کے خیر خواہ۔ ۲۸:۱۲) سب نے کہا ہم تیار ہیں آپ انہیں لئے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچیں جب بچہ ان کی گود میں ڈال دیا گیا۔ آپ نے جھٹ سے منہ لگا دودھ پینا شروع کیا جس سے فرعون کے ہاں بڑی خوشیاں منائی گئیں اور بہت کچھ انعام و اکرام دیا گیا۔ تنخواہ مقرر ہو گئی اپنے ہی بچے کو دودھ پلائیں اور تنخواہ اور انعام بھی اور عزت و اکرام بھی پائیں دنیا بھی ملے دین بھی بڑھے۔ اسی لئے حدیث میں آیا ہے: جو شخص اپنے کام کرے اور نیک نیتی سے کرے اس کی مثال اُم موسیٰ کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے۔ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ اس تدبیر سے ہم نے تجھے تیری ماں کے پاس پہنچایا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمگین نہ ہو، پس یہ بھی ہماری کرم فرمائی ہے کہ ہم نے تجھے تیری ماں کی گود میں واپس کیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم و رنج جاتا رہے۔ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ اور تو نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا اس پر بھی ہم نے تمہیں غم سے بچا لیا، غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا ۔ پھر تمہارے ہاتھ سے ایک فرعونی قطبی مار ڈالا گیا تو بھی ہم نے تمہیں بچا لیا فرعونیوں نے تمہارے قتل کا ارادہ کر لیا تھا راز فاش ہو چکا تھا تمہیں یہاں سے نجات دی تم بھاگ کھڑے ہوئے مدین کے کنوئں پر جا کر تم نے دم لیا۔ وہاں ہمارے ایک نیک بندے نے تمہیں بشارت سنائی کہ اب کوئی خوف نہیں ان ظالموں سے تم نے نجات پا لی۔ لاَ تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّـلِمِينَ اب نہ ڈر تو نے ظالم قوم سے نجات پائی (۲۸:۲۵) تجھے ہم نے بطور آزمائش اور بھی بہت سے فتنوں میں ڈالا۔ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى پھر تو کئی سال تک مدین کے لوگوں میں ٹھہرا رہا پھر تقدیر الہٰی کے مطابق اے موسیٰ! تو آیا۔ (۴۰) حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جناب باری عزوجل فرما رہا ہے کہ تم فرعون سے بھاگ کر مدین پہنچے، یہاں سسرال مل گئے اور شرط کے مطابق ان کی بکریاں برسوں تک چراتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے اندازے اور اس کے مقررہ وقت پر تم اس کے پاس پہنچے۔ اس رب کی کوئی چاہت ناکام نہیں رہتی، کوئی فرمان نہیں ٹوٹتا، اس کے وعدے کے مطابق اس کے مقررہ وقت پر تمہارا اس کے پاس پہنچنا لازمی امر تھا۔ یہ بھی مطلب ہے کہ تم اپنی قدر و عزت کو پہنچے یعنی رسالت و نبوت ملی۔ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لئے پسند فرمایا لیا۔ (۴۱) میں نے تمہیں اپنا برگزیدہ پیغمبر بنا لیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا آپ کو اللہ نے اپنی رسالت سے ممتاز فرمایا اور اپنے لئے پسند فرمایا اور تورات عطافرمائی کیا اس میں آپ نے یہ نہیں پڑھا کہ میری پیدائش سے پہلے یہ سب مقدر ہو چکا تھا؟ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے تو لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا انہیں جنت سے نکال دیا۔ کہاں ہاں۔ الغرض حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غلبہ پا گئے۔ اذْهَبْ أَنْتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراہ لئے ہوئے جا، اور خبردار میرے ذکر میں سستی نہ کرنا (۴۲) میری دی ہوئی دلیل اور معجزے لے کر تو اور تیرا بھائی دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ میری یاد میں غفلت نہ کرنا تھک کر بیٹھ نہ رہنا۔ چنانچہ فرعون کے سامنے دونوں ذکر اللہ میں لگے رہتے تاکہ اللہ کی مدد ان کا ساتھ دے انہیں قوی اور مضبوط بنا دے اور فرعون کی شان و شوکت ٹال دے۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے: میرا پورا اور سچا بندہ وہ ہے جو پوری عمر میری یاد کرتا رہے۔ اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے (۴۳) فرعون کے پاس تم میرا پیغام لے کر پہنچو۔ اس نے بہت سر اٹھا رکھا ہے، اللہ کی نافرمانیوں پر دلیر ہو گیا ہے، بہت پھول گیا ہے اور اپنے خالق و مالک کو بھول گیا ہے۔ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔ (۴۴) اس سے گفتگو نرم کرنا۔ دیکھو فرعون کس قدر برا ہے۔ حضرت موسیٰ کس قدر بھلے ہیں لیکن حکم یہ ہو رہا ہے کہ نرمی سے سمجھانا۔ حضرت یزید قاشی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے یعنی اے وہ اللہ جو دشمنوں سے بھی محبت اور نرمی کرتا ہے۔ تیرا کیسا کچھ پاکیزہ برتاؤ ہوتا اس کے ساتھ جو تجھ سے محبت کرتا ہو اور تجھے پکارا کرتا ہو۔ حضرت وہب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نرم گفتگو کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسے کہنا کہ میرے غضب و غصے سے میری مغفرت و رحمت بہت بڑھی ہوئی ہے۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں نرم بات کہنے سے مراد اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دینا ہے کہ وہ لا الہ الا اللہ کا قائل ہو جائے۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے کہنا کہ تیرا رب ہے تجھے مر کر اللہ کے وعدے پر پہنچنا ہے جہاں جنت دوزخ دونوں ہیں۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے میرے دروازے پر لا کھڑا کرو۔ الغرض تم اس سے نرمی اور آرام سے گفتگو کرنا تاکہ اس کے دل میں تمہاری باتیں بیٹھ جائیں جیسے فرمان الہٰی ہے: ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَـدِلْهُم بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے (۱۶:۱۲۵) یعنی اپنے رب کی راہ کی دعوت انہیں حکمت اور اچھے وعظ سے دے اور انہیں بہترین طریقے سے سمجھا بجھا دے تاکہ وہ سمجھ لے اور اپنی ضلالت و ہلاکت سے ہٹ جائے یا اپنے اللہ سے ڈرنے لگے اور اس کی اطاعت و عبادت کی طرف متوجہ ہو جائے۔ جیسے فرمان ہے: لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُوراً اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنےیا شکر گزاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ (۲۵:۶۲) پس عبرت حاصل کرنے سے مراد برائیوں سے اور خوف کی چیز سے ہٹ جانا اور ڈر سے مراد اطاعت کی طرف مائل ہو جانا ہے۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی ہلاکت کی دعا نہ کرنا جب تک کہ اس کے تمام عذر ختم نہ ہو جائیں زید بن عمرو بن نفیل کے یا امیہ بن ابی صلت کے شعروں میں ہے: اے اللہ تو وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہہ کر باغی فرعون کی طرف بھیجا کہ اس سے پوچھو تو کہ کیا اس آسمان کو بےستون کے تو نے تھام رکھا ہے اور تو نے ہی اسے بنایا ہے؟ اور کیا تو نے ہی اس کے درمیان روشن سورج کو چڑھایا ہے جو اندھیرے کو اجالے سے بدل دیتا ہے ادھر صبح کے وقت وہ نکلا ادھر دنیا سے ظلمت دور ہوئی۔ بھلا بتلا تو کہ مٹی میں سے دانے نکالنے والا کون ہے؟ اور اس میں بالیاں پیدا کرنے والا کون ہے؟ کیا ان تمام نشانیوں سے بھی تو اللہ کو نہیں پہچان سکتا؟ قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَى دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جائے۔ (۴۵) اللہ کے ان دونوں رسولوں نے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اپنی کمزوری کی شکایت رب کے سامنے کی کہ ہمیں خوف ہے کہ فرعون کہیں ہم پر کوئی ظلم نہ کرے اور بدسلوکی سے پیش نہ آئے۔ ہماری آواز کو دبانے کے لئے جلدی سے ہمیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دے۔ اور ہمارے ساتھ نا انصافی سے پیش نہ آئے۔ قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى جواب ملا کہ تم مطلقاً خوف نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا (۴۶) رب العالم کی طرف سے ان کی تشفی کردی گئی۔ ارشاد ہوا کہ اس کاکچھ خوف نہ کھاؤ میں خود تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری اور اس کی بات چیت سنتا رہوں گا اور تمہارا حال دیکھتا رہوں گا کوئی بات مجھ پر مخفی نہیں رہ سکتی اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے وہ بغیر میری اجازت کے سانس بھی تو نہیں لے سکتا۔ میرے قبضے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔ میری حفاظت و نصرت تائید و مدد تمہارے ساتھ ہے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں دعا کی کہ مجھے وہ دعا تعلیم فرمائی جائے جو میں فرعون کے پاس جاتے ہوئے پڑھ لیا کروں تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم فرمائی۔ ہیا شراھیا جس کے معنی عربی میں انا الحی قبل کل شئی والحی بعد کل شئی یعنی میں ہی ہوں سب سے پہلے زندہ اور سب سے بعد بھی زندہ۔ فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ تم اس کے پاس جا کر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے، ان کی سزائیں موقوف کر۔ پھر انہیں بتلایا گیا کہ یہ فرعون کو کیا کہیں؟ اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ گئے، دروازے پر ٹھہرے، اجازت مانگی، بڑی دیر کے بعد اجازت ملی۔ محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ دونوں پیغمبر دو سال تک روزانہ صبح شام فرعون کے ہاں جاتے رہے دربانوں سے کہتے رہے کہ ہم دونوں پیغمبروں کی آمد کی خبر بادشاہ سے کرو۔ لیکن فرعون کے ڈر کے مارے کسی نے خبر نہ کی دو سال کے بعد ایک روز اس کے ایک بےتکلف دوست نے جو بادشاہ سے ہنسی دل لگی بھی کر لیا کرتا تھا کہا کہ آپ کے دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے اور ایک عجیب مزے کی بات کہہ رہا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ کے سوا اس کا کوئی اور رب ہے اور اس کے رب نے اسے آپ کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اس نے کہا کیا میرے دروازے پر وہ ہے اس نے کہا ہاں۔ حکم دیا کہ اندر بلا لو چنانچہ آدمی گیا اور دونوں پیغمبر دربار میں آئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں رب العالمین کا رسول ہوں فرعون نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) ہے۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے: آپ مصر میں اپنے ہی گھر ٹھہرے تھے ماں نے اور بھائی نے پہلے تو آپ کو پہچانا نہیں گھر میں جو پکا تھا وہ مہمان سمجھ کر ان کے پاس لا رکھا اس کے بعد پہچانا سلام کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس بادشاہ کو اللہ کی طرف بلاؤں اور تمہاری نسبت فرمان ہوا ہے کہ تم میری تائید کرو۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا پھر بسم اللہ کیجئے۔ رات کو دونوں صاحب بادشاہ کے ہاں گئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لکڑی سے کواڑ کھٹکھٹائے۔ فرعون آگ بگولا ہو گیا کہ اتنا بڑا دلیر آدمی کون آگیا؟ جو یوں بےساختہ دربار کے آداب کے خلاف اپنی لکڑی سے مجھے ہوشیار کر رہا ہے؟ درباریوں نے کہا حضرت کچھ نہیں یونہی ایک مجنوں آدمی ہے کہتا پھرتا ہے کہ میں رسول ہوں۔ فرعون نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام کو لئے ہوئے آپ اس کے پاس گئے اور اس سے فرمایا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے انہیں سزائیں نہ کر قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ہم تو تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی اس کے لئے ہے جو ہدایت کا پابند ہو جائے۔ (۴۷) ہم رب العالمین کی طرف سے اپنی رسالت کی دلیلیں اور معجزے لے کر آئے ہیں اگر توہماری بات مان لے تو تجھ پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہوگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو خط شاہ روم ہرقل کے نام لکھا تھا اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ مضمون تھا کہ یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ روم ہرقل کے نام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو۔ اس کے بعد یہ کہ تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اللہ تعالیٰ دوہرا اجر عنایت فرمائے گا۔ مسیلمہ کذاب نے صادق و مصدوق ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام ، آپ پر سلام ہو، میں نے آپ کو شریک کار کر لیا ہے شہری آپ کے لئے اور دیہاتی میرے لئے۔ یہ قریشی تو بڑے ہی ظالم لوگ ہیں۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ہے سلام ہو ان پر جو ہدایت کی تابعداری کریں سن لے زمین اللہ کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بناتا ہے انجام کے لحاظ سے بھلے لوگ وہ ہیں جن کے دل خوف الہٰی سے پر ہوں۔ الغرض رسول اللہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون سے یہی کہا کہ سلام ان پر ہے جو ہدایت کے پیرو ہوں۔ إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى ہمارے طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لئے عذاب ہے (۴۸) پھر فرماتا ہے کہ ہمیں بذریعہ وحی الہٰی یہ بات معلوم کرائی گئی ہے کہ عذاب کے لائق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کو جھٹلائیں اور اللہ کی باتوں کے ماننے سے انکار کر جائیں۔ جیسے ارشاد ہے: فَأَمَّا مَن طَغَى ـ وَءاثَرَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا ـ فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِىَ الْمَأْوَى جو شخص سرکشی کرے اور دنیا کی زندگانی پر مر مٹ کر اسی کو پسند کر لے اس کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ (۷۹:۳۷،۳۹) اور آیتوں میں ہے: فَأَنذَرْتُكُمْ نَاراً تَلَظَّى ـ لاَ يَصْلَـهَآ إِلاَّ الاٌّشْقَى ـ الَّذِى كَذَّبَ وَتَوَلَّى میں تمہیں شعلے مارنے والی آگ جہنم سے ڈرا رہا ہوں جس میں صرف وہ بدبخت داخل ہوں گے جو جھٹلائیں اور منہ موڑ لیں (۹۲:۱۴،۱۶) اور آیتوں میں ہے: فَلاَ صَدَّقَ وَلاَ صَلَّى ـ وَلَـكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى اس نے نہ تو مانا نہ نماز ادا کی بلکہ دل سے منکر رہا اور کام فرمان کے خلاف کئے۔ (۷۵:۳۱،۳۲) قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَا مُوسَى فرعون نے پوچھا کہ اے موسیٰ! تم دونوں کا رب کون ہے؟ (۴۹) چونکہ فرعون وجود باری تعالیٰ کا منکر تھا۔ پیغام الہٰی کلیم اللہ کی زبانی سن کر وجود خالق کے انکار کے طور پر سوال کرنے لگا کہ تمہارا بھیجنے والا اور تمہارا رب کون ہے میں تو اسے نہیں جانتا نہ اسے مانتا ہوں۔ بلکہ میری دانست میں تو تم سب کا رب میرے سوا اور کوئی نہیں۔ قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی ۔ (۵۰) اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شخص کو اس کا جوڑا عطا فرمایا ہے انسان کو بصورت انسان، گدھے کو اس کی صورت پر، بکری کو ایک علیحدہ صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ ہر ایک کو اس کی مخصوص صورت میں بنایا ہے۔ ہر ایک کی پیدائش نرالی شان سے درست کر دی ہے۔ انسانی پیدائش کا طریقہ الگ چوپائے الگ صورت میں ہیں درندے الگ وضع میں ہیں۔ ہر ایک کے جوڑے کی ہئیت ترکیبی علیحدہ ہے۔ کھانا پینا کھانے پینے کی چیزیں جوڑے سب الگ الگ اور ممتاز و مخصوص ہیں۔ ہر ایک کا انداز مقرر کر کے پھر اس کی ترکیب اسے بتلا دی ہے۔ عمل اجل رزق مقدر اور مقرر کر کے اسی پر لگا دیا ہے نظام کے ساتھ ساری مخلوق کا کارخانہ چل رہا ہے۔ کوئی اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا۔ خلق کا خالق تقدیروں کا مقرر کرنے والا اپنے ارادے پر مخلوق کی پیدائش کرنے والا ہی ہمارا رب ہے۔ قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى اس نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ اگلے زمانے والوں کا حال کیا ہونا ہے (۵۱) یہ سب سن کر اس بےسمجھ نے پوچھا کہ اچھا تو پھر ان کا کیا حال ہے جو ہم سے پہلے تھے اور اللہ کی عبادت کے منکر تھے؟ اس سوال کو اس نے اہمیت کے ساتھ بیان کیا۔ لیکن اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے ایسا جواب دیا کہ عاجز ہو گیا۔ قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَ جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں کتاب میں موجود ہے، نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے ى (۵۲) فرمایا ان سب کا علم میرے رب کو ہے۔ لوح محفوظ میں ان کے اعمال لکھے ہوئے ہیں، جزا سزا کا دن مقرر ہے نہ وہ غلط کرے کہ کوئی چھوٹا بڑا اس کی پکڑ سے چھوٹ جائے نہ وہ بھولے کہ مجرم اس کی گرفت سے رہ جائیں۔ اس کا علم تمام چیزوں کو اپنے میں گھیرے ہوئے ہے۔ اسکی ذات بھول چوک سے پاک ہے، نہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر، نہ علم کے بعد بھول جانے کا اس کا وصف، وہ کمی علم کے نقصان سے وہ بھول کے نقصان سے پاک ہے۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّى اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے چلنے کے لئے راستے بنائے ہیں اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتا ہے، پھر برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں۔ (۵۳) موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الہٰی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش بنایا ہے۔ مَهْدًا کی دوسری قرأت مَهَادَا ہے۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو۔ اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لئے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى تم خود کھاؤ اور اپنے چوپاؤں کو بھی چراؤ کچھ شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۵۴) کھیتیاں باغات میوے قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھالو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو۔ تمہارا کھانا اور میوے تمہارے جانوروں کا چارا خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے۔ جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں ان کے لئے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں۔ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کریں گے۔ (۵۵) اللہ کی الوہیت، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے۔ تمہاری ابتدا اسی سے ہے۔ اس لئے کہ تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے۔ ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے جیسے فرمایا: يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً جس دن وہ تمہیں بلائے گا تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے اور گمان کرو گے کہ تمہارا رہنا بہت ہی تھوڑا ہے (۱۷:۵۲) جیسے اور آیت میں ہے: فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی مر کر بھی اسی میں جاؤ گے پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے۔(۷:۲۵) سنن کی حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ تیسری بار فرمایا وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ۔ وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَى ہم نے اسے اپنی سب نشانیاں دکھا دیں لیکن پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا۔ (۵۶) الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لئے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا، کفر سرکشی ضد اور تکبر سے باز نہ آیا۔ جیسے فرمان ہے: وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے۔ (۲۷:۱۴) قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَى کہنے لگا اے موسیٰ! کیا تو اسی لئے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہمارے ملک سے باہر نکال دے (۵۷) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ لکڑی کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا روشن ہو جانا وغیرہ دیکھ کر فرعون نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور تو جادو کے زور سے ہمارا ملک چھیننا چاہتا ہے۔ فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِثْلِهِ اچھا ہم بھی تیرے مقابلے میں اسی جیسا جادو ضرور لائیں گے، تو مغرور نہ ہو جا ہم بھی اس جادو میں تیرا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنْتَ مَكَانًا سُوًى پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کا خلاف کریں اور نہ تو، صاف میدان میں مقابلہ ہو۔ (۵۸) دن اور جگہ مقرر ہو جائے اور مقابلہ ہو جائے۔ ہم بھی اس دن اس جگہ آ جائیں اور تو بھی ایسا نہ ہو کہ کوئی نہ آئے۔ کھلے میدان میں سب کے سامنے ہار جیت کھل جائے۔ قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے ہی جمع ہوجائیں (۵۹) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے منظور ہے اور میرے خیال سے تو اس کے لئے تمہاری عید کا دن مناسب ہے۔ کیونکہ وہ فرصت کا دن ہوتا ہے سب آ جائیں گے اور دیکھ کر حق و باطل میں تمیز کرلیں گے۔ معجزے اور جادو کا فرق سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ وقت دن چڑھے کا رکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ میدان میں آئے سب دیکھ سکیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان کی زینت اور عید کا دن عاشورے کا دن تھا۔ یہ یاد رہے کہ انبیاء علیہ السلام ایسے موقعوں پر کبھی پیچھے نہیں رہتے ایسا کام کرتے ہیں جس سے حق صاف واضح ہو جائے اور ہر ایک پرکھ لے۔ اسی لئے آپ نے ان کی عید کا دن مقرر کیا اور وقت دن چڑھے کا بتایا اور صاف ہموار میدان مقرر کیا کہ جہاں سے ہر ایک دیکھ سکے اور جو باتیں ہوں وہ بھی سن سکے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں : فرعون نے مہلت چاہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انکار کیا اس پر وحی اتری کہ مدت مقرر کر لو فرعون نے چالیس دن کی مہلت مانگی جو منظور کی گئی۔ فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى پس فرعون لوٹ گیا اور اس نے اپنے ہتھکنڈے جمع کئے پھر آگیا (۶۰) جب کہ مقابلہ کی تاریخ مقرر ہو گئی، دن وقت اور جگہ بھی ہو گئی تو فرعون نے اِدھر اُدھر سے جادوگروں کو جمع کرنا شروع کیا اس زمانے میں جادو کا بہت زور تھا اور بڑے بڑے جادوگر موجود تھے۔ فرعون نے عام طور سے حکم جاری کر دیا تھا کہ تمام ہوشیار جادوگروں کو میرے پاس بھیج دو۔ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِى بِكُلِّ سَـحِرٍ عَلِيمٍ اور فرعون نے کہا میرے پاس تمام ماہر جادوگروں کو حاضر کرو۔ (۱۰:۷۹) مقررہ وقت تک تمام جادوگر جمع ہوگئے فرعون نے اسی میدان میں اپنا تخت نکلوایا اس پر بیٹھا تمام امراء وزراء اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے رعایا سب جمع ہو گئی جادوگروں کی صفوں کی صفیں پرا باندھے تخت کے آگے کھڑی ہو گئیں۔ فرعون نے ان کی کمر ٹھونکنی شروع کی اور کہا دیکھو آج اپنا وہ ہنر دکھاؤ کہ دنیا میں یادگار رہ جائے۔ جادوگروں نے کہا کہ اگر ہم بازی لے جائیں تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟ کہا کیوں نہیں؟ میں تو تمہیں اپنا خاص درباری بنا لوں گا۔ فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُواْ لِفِرْعَوْنَ أَإِنَّ لَنَا لاّجْراً إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَـلِبِينَ ـ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذاً لَّمِنَ الْمُقَرَّبِينَ جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟ فرعون نے کہا ہاں! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے۔ (۲۶:۴۱،۴۲) قَالَ لَهُمْ مُوسَى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ۖ موسیٰؑ نے کہا تمہاری شامت آچکی، اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افتراء نہ باندھو کہ تمہیں عذابوں سے ملیامیٹ کردے، ادھر سے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تبلیغ شروع کی کہ دیکھو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ شامت اعمال برباد کر دے گی۔ لوگوں کی آنکھوں میں خاک نہ جھونکو کہ درحقیقت کچھ نہ ہو اور تم اپنے جادو سے بہت کچھ دکھا دو۔ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں جو فی الواقع کسی چیز کو پیدا کر سکے۔ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى یاد رکھو وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا جس نے جھوٹی بات گھڑی۔ (۶۱) یاد رکھو ایسے جھوٹے بہتانی لوگ فلاح نہیں پاتے۔ فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى پس یہ لوگ آپس کے مشوروں میں مختلف رائے ہوگئے اور چھپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے ۔ (۶۲) یہ سن کر ان میں آپس میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ بعض تو سمجھ گئے اور کہنے لگے یہ کلام جادوگروں کا نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کے رسول ہیں۔ بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ جادوگر ہیں مقابلہ کرو۔ یہ باتیں بہت ہی احتیاط اور راز سے کی گئیں۔ قَالُوا إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَنْ يُخْرِجَاكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى کہنے لگے یہ دونوں محض جادوگر ہیں اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے بہترین مذہب کو برباد کریں ۔ (۶۳) إِنْ هَذَانِ کی دوسری قرأت إِنْ هَذَینِ بھی ہے مطلب اور معنی دونوں قرأت وں کا ایک ہی ہے۔ اب با آواز بلند کہنے لگے کہ یہ دونوں بھائی سیانے اور پہنچے ہوئے جادوگر ہیں۔ اس وقت تک تو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہے بادشاہ کا قرب نصیب ہے مال و دولت قدموں تلے لوٹ رہا ہے لیکن آج اگر یہ بازی لے گئے تو ظاہر ہے کہ ریاست ان ہی کی ہو جائے گی تمہیں ملک سے نکال دیں گے عوام ان کے ماتحت ہو جائیں گے ان کا زور بند بندھ جائے گا یہ بادشاہت چھین لیں گے اور ساتھ ہی تمہارے مذہب کو ملیا میٹ کر دیں گے۔ بادشاہت عیش و آرام سب چیزیں تم سے چھن جائیں گی۔ شرافت عقلمندی ریاست سب ان کے قبضے میں آ جائے گی تم یونہی بھٹے بھونتے رہ جاؤ گے۔ تمہارے اشراف ذلیل ہو جائیں گے امیر فقیر بن جائیں گے ساری رونق اور بہار جاتی رہے گی۔ بنی اسرائیل جو تمہارے لونڈی غلام بنے ہوئے ہیں یہ سب ان کے ساتھ ہو جائیں گے اور تمہاری حکومت پاش پاش ہو جائے گی۔ تم سب اتفاق کر لو۔ فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا ۚ وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَى تو تم بھی اپنا کوئی داؤ اٹھا نہ رکھو، پھر صف بندی کرکے آؤ، جو آج غالب آگیا وہی بازی لے گیا۔ (۶۴) ان کے مقابلے میں صف بندی کر کے اپنا کوئی فن باقی نہ رکھو جی کھول کر ہوشیاری اور دانائی سے اپنے جادو کے زور سے اسے دبا لو۔ ایک ہی دفعہ ہر استاد اپنی کاری گری دکھا دے تاکہ میدان ہمارے جادو سے پر ہو جائے دیکھو اگر وہ جیت گیا تو یہ ریاست اسی کی ہو جائے گی اور اگر ہم غالب آ گئے تو تم سن چکے ہو کہ بادشاہ ہمیں اپنا مقرب اور دربار خاص کے اراکین بنا دے گا۔ قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى کہنے لگے اے موسیٰ! یا تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں۔ (۶۵) جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اب بتاؤ تم اپنا وار پہلے کرتے ہو یا ہم پہل کریں؟ قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا تم ہی پہلے اپنے دل کی بھڑاس نکال لو تاکہ دنیا دیکھ لے کہ تم نے کیا کیا اور پھر اللہ نے تمہارے کئے کو کس طرح مٹا دیا؟ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى اب تو موسیٰ ؑ کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں (۶۶) اسی وقت انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں کچھ ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا وہ سانپ بن کر چل پھر رہی ہیں اور میدان میں دوڑ بھاگ رہی ہیں۔ وَقَالُواْ بِعِزَّةِ فِرْعَونَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَـلِبُونَ کہنے لگے فرعون کے اقبال سے غالب ہم ہی رہیں گے (۲۶:۴۴) سَحَرُواْ أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَآءُو بِسِحْرٍ عَظِيمٍ لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں خوفزدہ کر دیا اور جادو کے زبردست کرتب دکھا دیئے۔ (۷:۱۱۶) یہ لوگ بہت زیادہ تھے۔ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى پس موسیٰؑ نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔ (۶۷) ان کی پھینکی ہوئی رسیوں اور لاٹھیوں سے اب سارے کا سارا میدان سانپوں سے پر ہو گیا وہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر اوپر تلے ہونے لگے۔ اس منظر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خوفزدہ کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو لوگ ان کے کرتب کے قائل ہو جائیں اور اس باطل میں پھنس جائیں۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا ۔ (۶۸) اسی وقت جناب باری نے وحی نازل فرمائی کہ اپنے داہنے ہاتھ کی لکڑی کو میدان میں ڈال دو ہراساں نہ ہو۔ وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے، آپ نے حکم کی تعمیل کی۔ اللہ کے حکم سے یہ لکڑی ایک زبردست بےمثال اژدھا بن گئی، جس کے پیر بھی تھے اور سر بھی تھا۔ کچلیاں اور دانت بھی تھے۔ اس نے سب کے دیکھتے سارے میدان کو صاف کر دیا۔ اس نے جادوگروں کے جتنے کرتب تھے سب کو ہڑپ کر لیا۔ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا۔ (۶۹) اب سب پر حق واضح ہو گیا، معجزے اور جادو میں تمیز ہو گئی۔ حق و باطل میں پہچان ہو گئی۔ سب نے جان لیا کہ جادوگروں کی بناوٹ میں اصلیت کچھ بھی نہ تھی۔ فی الواقع جادوگر کوئی چال چلیں لیکن اس میں غالب نہیں آ سکتے۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے ترمذی میں بھی موقوفاً اور مرفوعاً مروی ہے : جادوگر کو جہاں پکڑو مار ڈالو، پھر آپ نے یہی جملہ تلاوت فرمایا۔ یعنی جہاں پایا جائے امن نہ دیا جائے۔ فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى اب تو تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ (علیہما السلام) کے رب پر ایمان لائے (۷۰) جادوگروں نے جب یہ دیکھا انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کام انسانی طاقت سے خارج ہے وہ جادو کے فن میں ماہر تھے بہ یک نگاہ پہچان گئے کہ واقعی یہ اس اللہ کا کام ہے جسکے فرمان اٹل ہیں جو کچھ وہ چاہے اس کے حکم سے ہو جاتا ہے۔ اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں۔ اس کا اتنا کامل یقین انہیں ہو گیا کہ اسی وقت اسی میدان میں سب کے سامنے بادشاہ کی موجودگی میں وہ اللہ کے سامنے سربسجود ہو گئے اور پکار اٹھے کہ ہم رب العالمین پر یعنی ہارون اور موسیٰ علیہما السلام کے پروردگار پر ایمان لائے۔ سبحان اللہ صبح کے وقت کافر اور جادوگر تھے اور شام کو پاکباز مؤمن اور اللہ کی راہ کے شہید تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزار تھی یا ستر ہزار یا کچھ اوپر تیس ہزار یا انیس ہزار یا پندرہ ہزار یا بارہ ہزار۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ ستر تھے۔ صبح جادوگر شام کو شہید۔ مروی ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت دکھا دی اور انہوں نے اپنی منزلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے؟ اللہ کی شان دیکھئے چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آجاتا ۔ جن کو اس مقابلے کہ لئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے ۔ انھوں نے اپنی ہار مان لی اپنے کرتوت کو جادو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کرلیا ۔ خود ایمان لے آئے جو مقابلے کے لئے بلوائے گئے تھے ۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بےجھجک انھوں نے دین حق قبول کر لیا ۔ لیکن یہ اپنی شیطانیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلاحق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں ؟ پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے ؟ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ یقیناً تمہارا بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے ۔ إِنَّ هَـذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِى الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُواْ مِنْهَآ أَهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ بیشک یہ سازش تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں تاکہ تم سب اس شہر سے یہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو۔ سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے (۷:۱۲۳) تم سب آپس میں ایک ہی ہو مشورہ کرکے ہمیں تاراج کرنے کے لئے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے ہو اور اپنے اندورنی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے ہو اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کرلیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی چکر میں پھنس جائے فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ (سن لو) میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا، مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہو جائے گا ۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے ۔ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى اور تمہیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ (۷۱) تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پرسمجھتے ہو اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے اس دھمکی کا ان دلوں پرالٹا اثر ہوا ۔ قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ انہوں نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ترجیح دیں ان دلیلوں پر جو ہمارے سامنےآ چکیں ہیں، اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت ویقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں ۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیزسمجھیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کرلے مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے ۔ فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا اب تو تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیاوی زندگی میں ہی ہے۔ (۷۲) تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہو گی ۔ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ ہم (اس امید سے) اپنے پروردگار پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور جادوگری جس پر تم نے ہمیں مجبور کیا ہے ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراًجادوگری کی خدمت لی۔ حضرت عبدالرحمن بن زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے ۔ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔ (۷۳) پھر فرمایا ہمارے لئے بنسبت تیرے اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے ۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے ۔ اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں اگر اس کی نافرمانی کی جائے ۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کرسولی پر چڑھا دیا وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مؤمن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین۔ إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى بات یہی ہے کہ جو بھی گناہ گار بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوگا اس کے لئے دوزخ ہے، جہاں نہ موت ہوگی اور نہ زندگی (۷۴) بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں ۔ اسے اللہ کے عذاب کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی مشقت والی موت سے بدتر ہو گی ۔ جسے فرمان ہے: لاَ يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُواْ وَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِى كُلَّ كَفُورٍ نہ موت آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔ (۳۵:۳۶) اور آیتوں میں ہے: وَيَتَجَنَّبُهَا الاٌّشْقَى ـ الَّذِى يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى ـ ثُمَّ لاَ يَمُوتُ فِيهَا وَلاَ يَحْيَا اللہ کی نصیحتوں سے بےفیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو ۔( (۶۷:۱۱،۱۳ اور آیت میں ہے: وَنَادَوْاْ يمَـلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَّـكِثُونَ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دے دے لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے ۔(۴۳:۷۷) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اصلی جہنمی تو جہنم میں ہی پڑے رہیں گے نہ وہاں انہیں موت آئے نہ آرام کی زندگی ملے ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہوجائیں گے جان نکل جائے گی پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چُورا نکالاجائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر بکھیردیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کے کھیت کے دانوں کو اُگتے ہوئے دیکھا ہے اسی طرح وہ اُگیں گے ۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ نے یہ فرمایا تھا ۔ وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى اور جو بھی اس کے پاس ایماندار ہو کر حاضر ہوگا اور اس نے اعمال بھی نیک کئے ہونگے اس کے لئے بلند و بالا درجے ہیں۔ (۷۵) اور جو اللہ سے قیامت ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا اسے اونچے بالا خانوں والی جنت ملے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان میں ۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے اسی سے چاروں نہریں جاری ہوتی ہیں اس کی چھت رحمٰن کا عرش ہے اللہ سے جب جنت مانگو توجنت الفردوس کی دعا کرو ۔ (ترمذی) ابن ابی حاتم میں ہے کہ کہا جاتا تھا : جنت کے سو درجے ہیں ہر درجے کے پھر سو درجے ہیں دو درجوں میں اتنی دوری ہے جتنی آسمان وزمین میں۔ ان میں یاقوت اور موتی ہیں اور زیور بھی ۔ ہرجنت میں امیر ہے جس کی فضیلت اور سرداری کے دوسرے قائل ہیں ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے: اعلیٰ علیین والے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان کے ستاورں کو دیکھتے ہو ۔ لوگوں نے کہا پھر یہ بلند درجے تو نبیوں کے لئے ہی مخصوص ہونگے ؟ فرمایا سنو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے نبیوں کو سچا جانا ۔ سنن کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ابوبکرؓ وعمرؓ انہی میں سے ہیں ۔ اور کتنے ہی اچھے مرتبے والے ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى ہمیشگی والی جنتیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی انعام ہے ہر اس شخص کا جو پاک ہوا ۔ (۷۶) یہ جنتیں ہمیشگی کی اقامت ہیں جہاں یہ ہمیشہ ابدالآباد رہیں گے۔ جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں گناہوں سے .خباثت سے .گندگی سے.شرک و کفر سے دور رہیں . اللہ واحد کی عبادت کرتے رہیں . رسولوں کی اطاعت میں عمرگزاردیں ان کے لئے یہی قابل رشک مقامات اور قابل صد مبارکباد انعام ہیں (رزقنا اللہ ایاہا)۔ وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ہم نے موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنا لے چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سپرد کردے اس لئے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بےخبری میں تمام بنی اسرائیل کوچپ چاپ لے کریہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے چنانچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں ہجرت کی ۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیل نہ دیکھا ۔ فرعون کو اطلاع دی وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکرجمع ہوجائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا إِنَّ هَـؤُلاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ ـ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَآئِظُونَ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کردوں گا۔ (۲۶:۵۴،۵۵) سورج نکلتے ہی لشکر آ موجود ہوا اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا ۔ بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا گھبرا کر اپنے نبی سے کہنے لگے لو حضرت اب کیا ہو گا سامنے دریا ہے پیچھے فرعونی ہیں ۔آپ نے جواب دیا گھبرانے کی بات نہیں میری مدد پر خود میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا فَلَمَّا تَرَآءَا الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَـبُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ ـ قَالَ كَلاَّ إِنَّ مَعِىَ رَبِّى سَيَهْدِينِ پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، ہم یقیناً پکڑ لئے گئے موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا (۲۶:۶۱،۶۲) اسی وقت وحی الہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مار وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دے دے گا ۔ چنانچہ آپ نے یہ کہ کر لکڑی ماری کے اے دریا بحکم الہی تو ہٹ جا اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہو گئے۔ ادھرادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا ۔ لَا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَى پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر ۔ (۷۷) نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا ۔ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُمْ مِنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا تعاقب کیا پھر تو دریا ان سب پر چھا گیا جیسا کچھ چھا جانے والا تھا (۷۸) فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے ۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہوگیا اور چشم زون میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے ۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپا لیا ۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیزنے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا یہ اس لئے کہ یہ مشہور ومعروف ہے نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے ایسی ہی یہ آیت ہے: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ـ فَغَشَّـهَا مَا غَشَّى یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا ۔ پھر ان پر جو تباہی آئی سو آئی۔ (۵۳:۵۳،۵۴) عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى فرعون نے اپنی قوم کو گمراہی میں ڈال دیا اور سیدھا راستہ نہ دکھایا (۷۹) الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے ۔ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى اے بنی اسرائیل! دیکھو ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں طرف کا وعدہ اور تم پر من و سلویٰ اتارا (۸۰) اللہ تبارک وتعالی نے بنی اسرائیل پر جو بڑے بڑے احسان کئے تھے انہیں یاددلارہا ہے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ انہیں ان کے دشمن سے نجات دی ۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کو ان کے دیکھتے ہوئے دریا میں ڈبو دیا ۔ ایک بھی ان میں سے باقی نہ بچا جیسے فرمان ہے: وَأَغْرَقْنَا ءَالَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ہم نے تمہارے دیکھتے ہوئے فرعونیوں کو ڈبو دیا ۔(۲:۵۰) صحیح بخاری شریف میں ہے: مدینے کے یہودیوں کو عاشورے کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا انہوں نے جواب دیا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر کامیاب کیا تھا ۔ آپ ﷺنے فرمایا پھر توہمیں بہ نسبت تمہارے ان سے زیادہ قرب ہے چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو کوہ طور کی دائیں جانب کا وعدہ دیا ۔ آپ وہاں گئے اور پیچھے سے بنو اسرائیل نے گؤسالہ پرستی شروع کردی ۔ جس کا بیان ابھی آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اسی طرح ایک احسان ان پر یہ کیا کہ مَنَّ وَالسَّلْوَى کھانے کو دیا اس کا پورا بیان سورۃ بقرۃ وغیرہ کی تفیسر میں گزر چکا ہے مَنَّ ایک میٹھی چیز تھی جو ان کے لئے آسمان سے اترتی تھی اور سَلْوَىایک قسم کے پرند تھے جو بحکم خداوندی ان کے سامنے آجاتے تھے یہ بقدر ایک دن کی خوراک کے انہیں لے لیتے تھے ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ روزی کھاؤ، اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا، ہماری یہ دی ہوئی روزی کھاؤ اس میں حد سے نہ گزر جاؤ حرام چیزیا حرام ذریعہ سے اسے نہ طلب کرو ۔ ورنہ میرا غضب نازل ہو گا وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ یقیناً تباہ ہوا ۔ (۸۱) اور جس پر میرا غضب اترے یقین مانو کہ وہ بدبخت ہو گیا ۔ حضرت شغی بن مانع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جہنم میں ایک اونچی جگہ بنی ہوئی ہے جہاں کافر کو جہنم میں گرایا جاتا ہے تو زنجیروں کی جگہ تک چالیس سال میں پہنچتا ہے یہی مطلب اس آیت کاہے کہ وہ گڑھے میں گر پڑا۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں (۸۲) ہاں جو بھی اپنے گناہوں سے میرے سامنے توبہ کرے میں اس کی توبہ قبول کرتا ہوں ۔ شکی نہ ہو سنت رسول اور جماعت صحابہ کی روش پر ہو اس میں ثواب جانتا ہو۔ دیکھو بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ان کی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا ۔ غرض جس کفر و شرک گناہ و معصیت پر کوئی ہو پھر وہ اسے بخوف الہی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے ہاں دل میں ایمان اور اعمال صالحہ بھی کرتا ہو اور ہو بھی راہ راست پر۔ یہاں پر ثُمَّ کا لفظ خبر کی خبر پر ترتیب کرنے کے لئے آیا ہے جیسے فرمان ہے: ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَتَوَاصَوْاْ بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْاْ بِالْمَرْحَمَةِ پھر ان لوگوں میں ہو جاتا ہے جو ایمان لاتے اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں (۹۰:۱۷) فَأَتَوْاْ عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَّهُمْ ... وَبَـطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا۔ پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے، کہنے لگے اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے معبود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔ یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ کیا جائے گا اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے ۔ (۷:۱۳۸،۱۳۹) پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے پورے چالیس ہو گئے دن رات روزے سے رہتے تھے اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ مقرر کیا ۔ وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَى اے موسیٰ! تجھے اپنی قوم سے (غافل کرکے) کون سی چیز جلدی لے آئی؟ (۸۳) وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی۔ قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى کہا کہ وہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے ہیں، اور میں نے اے رب! تیری طرف جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہو جائے ۔ (۸۴) آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں آرہے ہیں میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضامندی حاصل کرلوں اور اس میں بڑھ جاؤں۔ قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ فرمایا! ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے (۸۵) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گؤسالہ پرستی شروع کردی ہے اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمانے کے لئے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھی جیسے فرمان ہے : وَكَتَبْنَا لَهُ فِى الاٌّلْوَاحِ مِن كُلِّ شَىْ ... سَأُوْرِيكُمْ دَارَ الْفَـسِقِين ہم نے اس کے لئے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہرچیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں ۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا۔(۷:۱۴۵) فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ پس موسیٰ ؑ سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم وغصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ غم واندوہ رنج وغصہ آپ کو بہت آیا۔ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعدہ نہیں کیا تھا؟ واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک وانعام کئے أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی؟ لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِي بلکہ تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا (۸۶) بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا۔ قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کے خلاف نہیں کیا بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ لاد دیئے گئے تھے، انہیں ہم نے ڈال دیا، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے۔ (۸۷) اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا بات یہ ہے کہ کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لئے ہوئے تھے ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چنانچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیز گاری کے پھینک دئیے۔ ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت ہارونؑ نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایک جا ہوجائیں اور پگل کر ایک ڈلا بن جائے پھر جب موسیٰ علیہ السلام آجائیں جیسا وہ فرمائیں کیا جائے۔ سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے آپ کو کیا خبر تھی آپ نے دعا کی اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آوازبھی نکلے چنانچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہو گیا پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا۔ آپ نے پوچھا کیا کررہے ہو؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ خود اسے ایسا ہی کردے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ پھر اس نے لوگوں کے لئے ایک بچھڑا نکال کھڑا کیا یعنی بچھڑے کا بت، جس کی گائے کی سی آواز بھی تھی پھر کہنے لگے کہ یہی تمہارا بھی معبود ہے اور موسیٰ کا بھی۔ لیکن موسیٰ بھول گیا ہے۔ (۸۸) سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا ۔ بنی اسرائیل بہکاوے میں آگئے اور اس کی پرستش شروع کردی۔ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے موسیٰ بھول کر اور کہیں اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارے رب یہی ہیں۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا۔ أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا کیا یہ گمراہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے (۸۹) ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بےجان چیز ہے ان کی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے نہ دنیا آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں ۔ آواز جو نکلتی تھی اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی اسی کی آواز آتی تھی۔ اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لئے بڑا گناہ کر لیا۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لئے شرک شروع کردیا۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ آپ نے فرمایا ان عراقیوں کو دیکھو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو تو شہید کردیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں؟ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ ۖ اور ہارونؑ نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو! اس بچھڑے سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں ہر چند سمجھایا بجھایا کہ دیکھو فتنے میں نہ پڑو وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمٰن ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو۔ اور میری بات مانتے چلے جاؤ ۔ (۹۰) اللہ رحمٰن کے سوا اور کسی کے سامنے نہ جھکو۔ وہ ہرچیز کا خالق مالک ہے سب کا اندازہ مقرر کرنے والا وہی ہے وہی عرش مجید کا مالک ہے وہی جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ تم میری تابعداری اور حکم برداری کرتے رہو جو میں کہوں وہ بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ۔ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى انہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک تو ہم اسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں گے (۹۱) لیکن ان سرکشوں نے جواب دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی سن کر تو خیر ہم مان لیں گے تب تک تو ہم اس کی پرستش نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ لڑنے اور مرنے مارنے کے واسطے تیار ہو گئے۔ قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا موسیٰ ؑ کہنے لگے اے ہارون! انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا۔ (۹۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت غصے اور پورے غم میں لوٹے تھے۔ تختیاں زمین پر ماریں اور اپنے بھائی ہارون کی طرف غصے سے بڑھ گئے اور ان کے سر کے بال تھام کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ اعراف کی تفیسر میں گزر چکا ہے اور وہیں وہ حدیث بھی بیان ہوچکی ہے کہ سننا دیکھنے کے مطابق نہیں۔ أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي کہ تو میرے پیچھے نہ آیا۔ کیا تو بھی میرے فرمان کا نافرمان بن بیٹھا (۹۳) آپ نے اپنے بھائی اور اپنے جانشین کو ملامت کرنی شروع کی کہ اس بت پرستی کے شروع ہوتے ہی تو نے مجھے خبر کیوں نہ کی؟ کیا جو کچھ میں تجھے کہہ گیا تھا تو بھی اس کا مخالف بن بیٹھا؟ میں توصاف کہہ گیا تھا : اخْلُفْنِى فِى قَوْمِى وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا (۷:۱۴۲) قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ ہارونؑ نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ، حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے میرے ماں جائے بھائی۔ یہ صرف اس لئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیادہ رحم اور محبت آئے ورنہ باپ الگ الگ نہ تھے باپ بھی ایک ہی تھے دونوں سگے بھائی تھے۔ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فرمائیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔ (۹۴) آپ عذر پیش کرتے ہیں کہ جی میں تو میرے بھی آئی تھی کہ آپ کے پاس آ کر آپ کو اس کی خبر کروں لیکن پھرخیال آیا کہ انہیں تنہا چھوڑنامناسب نہیں کہیں آپ مجھ پر نہ بگڑ بیٹھیں کہ انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا اور اولاد یعقوب میں یہ جدائی کیوں ڈال دی؟ اور جو میں کہہ گیا تھا اس کی نگہبانی کیوں نہ کی؟ بات یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام میں جہاں اطاعت کا پورا مادہ تھا وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزت بھی بہت کرتے تھے اور ان کا بہت ہی لحاظ رکھتے تھے۔ قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ موسیٰ ؑ نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے۔ (۹۵) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تونے یہ فتنہ کیوں اٹھایا؟ یہ شخص باجروکا رہنے والا تھا اس کی قوم گائے پرست تھی۔ اس کے دل میں گائے محبت گھر کئے ہوئے تھی۔ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا۔ اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا ایک روایت میں ہے یہ کرمانی تھا۔ ایک روایت میں ہے اس کی بستی کا نام سامرا تھا قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انہیں دکھائی نہیں دی، تو میں نے قاصدِ الہٰی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈال دیا اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لئے بھلی بنا دی۔ (۹۶) اس نے جواب دیا کہ جب فرعون کی ہلاکت کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے تو میں نے ان کے گھوڑے کے ٹاپ تلے سے تھوڑی سی مٹی اٹھا لی۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات یہی ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لے کر چڑھنے لگے تو سامری نے دیکھ لیا۔ اس نے جلدی سے ان کے گھوڑے کے سم تلے کی مٹی اٹھا لی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام آسمان تک لے گئے اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی حضرت موسیٰ علیہ السلام قلم کی تحریر کی آواز سن رہے تھے لیکن جب آپ کو آپ کی قوم کی مصیبت معلوم ہوئی تو نیچے اتر آئے اور اس بچھڑے کو جلا دیا۔ لیکن اس کی اثر کی سند غریب ہے۔ اسی خاک کی چٹکی یا مٹھی کو اس نے بنی اسرائیل کے جمع کردہ زیوروں کے جلنے کے وقت ان میں ڈال دی۔ جو بصورت بچھڑا بن گئے اور چونکہ بیچ میں خلا تھا وہاں سے ہوا گھستی تھی اور اس سے آواز نکلتی تھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس کے دل میں خیال گزرا تھا کہ میں اس کے گھوڑے کے ٹاپوں تلے کی مٹی اٹھالوں میں جو چاہوں گا وہ اس مٹی کے ڈالنے سے بن جائے گا اس کی انگلیاں اسی وقت سوکھ گئی تھی۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے پاس فرعونیوں کے زیورات رہ گئے اور فرعونی ہلاک ہو گئے اور یہ اب ان کو واپس نہیں ہوسکتے تو غمزدہ ہونے لگے سامری نے کہا دیکھو اس کی وجہ سے تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے اسے جمع کر کے آگ لگا دو جب وہ جمع ہو گئے اور آگ سے پگھل گئے تو اس کے جی میں آئی کہ وہ خاک اس پر ڈال دے اور اسے بچھڑے کی شکل میں بنالے چنانچہ یہی ہوا۔ اور اس نے کہہ دیا کہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا رب یہی ہے۔ یہی وہ جواب دے رہا ہے کہ میں نے اسے ڈال دیا اور میرے دل نے یہی ترکیب مجھے اچھی طرح سمجھا دی ہے۔ قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے نہ چھونا کلیم اللہ نے فرمایا تو نے نہ لینے کی چیز کو ہاتھ لگایا تیری سزا دنیا میں یہی ہے کہ اب نہ تو تو کسی کو ہاتھ لگا سکے نہ کوئی اور تجھے ہاتھ لگا سکے۔ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ ۖ اور ایک اور بھی وعدہ تیرے ساتھ ہے جو تجھ سے ہرگز نہیں ٹلے گا باقی سزا تیری قیامت کو ہوگی جس سے چھٹکارا محال ہے ان کے بقایا اب تک یہی کہتے ہیں کہ نہ چھونا وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا اور اب تو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا جس کا اعتکاف کئے ہوئے تھا کہ ہم اسے جلا کر دریا میں ریزہ ریزہ اڑائیں گے۔ (۹۷) اب تو اپنے اللہ کا حشر بھی دیکھ لے جس کی عبادت پر اوندھا پڑا ہوا تھا کہ ہم اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں چنانچہ وہ سونے کا بچھڑا اس طرح جل گیا جیسے خون اور گوشت والا بچھڑا جلے۔ پھر اس کی راکھ کو تیز ہوا میں دریا میں ذرہ ذرہ کر کے اڑا دیا۔ مروی ہے: اس نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے زیور جہاں تک اس کے بس میں تھے لئے ان کا بچھڑا بنایا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جلا دیا اور دریا میں اس کی خاک بہا دی جس نے بھی اس کا پانی پیا اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اس سے سارے گؤسالہ پرست معلوم ہوگئے اب انہوں نے توبہ کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ہماری توبہ کیسے قبول ہو گی ؟ حکم ہوا کہ ایک دوسروں کو قتل کرو۔ اس کا پورا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا اصل بات یہی ہے کہ تم سب کا معبود برحق صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں۔ اس کا علم تمام چیزوں پر حاوی ہے (۹۸) پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا معبود یہ نہیں۔ مستحق عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی تمام جہان اس کامحتاج ہے اور اس کے ماتحت ہے وہ ہرچیز کا عالم ہے ، أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمَا اسکے علم نے تمام مخلوق کا احاطہ کر رکھا ہے ، (۶۵:۱۲) اور وَأَحْصَى كُلَّ شَىْءٍ عَدَداً ہرچیز کی گنتی اسے معلوم ہے ۔ (۷۲۲:۲۸) اور لاَ يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں (۳۴:۳) اور وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّحَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ ہر پتے کا اور ہر دانے کا اسے علم ہے بلکہ اس کے پاس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا موجود ہے (۶:۵۹) اور وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ زمین کے تمام جانداروں کو روزیاں وہی پہنچاتا ہے ، سب کی جگہ اسے معلوم ہے سب کچھ کھلی اور واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔(۱۱:۶) علم الہٰی محیط کل اور سب کو حاوی ہے ، اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِنْ لَدُنَّا ذِكْرًا اس طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی گزری ہوئی وارداتیں بیان فرما رہے ہیں اور یقیناً ہم تجھے اپنے پاس سے نصیحت عطا فرما چکے ہیں ۔ (۹۹) فرمان ہے کے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اصلی رنگ میں آپ کے سامنے بیان ہوا ایسے ہی اور بھی حالات گزشتہ آپ کے سامنے ہم ہو بہو بیان فرما رہے ہیں۔ ہم نے تو آپ کو قرآن عظیم دے رکھا ہے جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا کیونکہ آپ حکمت وحمد والے ہیں کسی نبی کو کوئی کتاب اس سے زیادہ کمال والی اور اس سے زیادہ جامع اور اس سے بابرکت نہیں ملی۔ ہرطرح سب سے اعلیٰ کتاب یہی کلام اللہ شریف ہے جس میں گزشتہ کی خبریں آئندہ کے امور اور ہر کام کے طریقے مذکور ہیں۔ مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا اس سے جو منہ پھیر لے گا وہ یقیناً قیامت کے دن اپنا بھاری بوجھ لادے ہوئے ہوگا ۔ (۱۰۰) اسے نہ ماننے والا ، اس سے منہ پھیرنے والا، اس کے احکام سے بھاگنے والا، اس کے سوا کسی اور میں ہدایت کو تلاش کرنے والا گمراہ ہے اور جہنم کی طرف جانے والا ہے۔ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم ہے (۱۱:۱۷) قیامت کو وہ اپنا بوجھ آپ اٹھائے گا اور اس میں دب جائے گا اس کے ساتھ جو بھی کفر کرے وہ جہنمی ہے کتابی ہو یا غیر کتابی عجمی ہو یا عربی اس کا منکر جہنمی ہے ۔ جیسے فرمان ہے: لاٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغ ( میں تمہیں بھی ہوشیار کرنے والا ہوں ۶:۱۹) اور جسے بھی یہ پہنچے پس اس کا متبع ہدایت والا اور اس کا مخالف ضلالت وشقاوت والا جو یہاں برباد ہوا وہ وہاں دوزخی بنا۔ خَالِدِينَ فِيهِ ۖ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا جس میں ہمیشہ رہے گا اور ان کے لئے قیامت کے دن (بڑا) برا بوجھ ہے (۱۰۱) اس عذاب سے اسے نہ تو کبھی چٹھکارا حاصل ہو نہ بچ سکے برا بوجھ ہے جو اس پر اس دن ہو گا۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ ۚ جس دن صور پھونکا جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ صور کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک قرن ہے جو پھونکا جائے گا۔ اور حدیث میں ہے: اس کا دائرہ بقدر آسمانوں اور زمینوں کے ہے حضرت اسرافیل علیہ السلام اسے پھونکیں گے۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: میں کیسے آرام حاصل کروں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کا لقمہ بنالیا ہے پیشانی جھکا دی ہے اور انتظار میں ہے کہ کب حکم دیا جائے۔ لوگوں نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں؟ فرمایا کہو : حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا اور گناہ گاروں کو ہم اس دن (دہشت کی وجہ سے) نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے (۱۰۲) اس وقت تمام لوگوں کا حشر ہو گا کہ مارے ڈر اور گھبراہٹ کے گنہگاروں کی آنکھیں ٹیڑھی ہو رہی ہوں گی۔ يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا وہ آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے ہونگے کہ ہم تو (دنیا میں) صرف دس دن ہی رہے۔ (۱۰۳) ایک دوسرے سے پوشیدہ پوشیدہ کہہ رہے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم بہت ہی کم رہے زیادہ سے زیادہ شاید دس دن وہاں گزرے ہونگے۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اسکی حقیقت سے ہم باخبر ہیں ان میں سب سے زیادہ اچھی رائے والا کہہ رہا ہوگا کہ تم صرف ایک ہی دن دنیا میں رہے (۱۰۴) ہم ان کی اس رازداری کی گفتگو کو بھی بخوبی جانتے ہیں جب کہ ان میں سے بڑا عاقل اور کامل انسان کہے گا کہ میاں دن بھی کہاں کے؟ ہم تو صرف ایک دن ہی دنیا میں رہے۔ غرض کفار کو دنیا کی زندگی ایک سپنے کی طرح معلوم ہو گی۔ اس وقت وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ صرف ایک ساعت ہی دنیا میں ہم تو ٹھہرے ہوں گے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے: أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِيرُ ہم نے تمہیں عبرت حاصل کرنے کے قابل عمر بھی دی تھی پھر ہوشیار کرنے والے بھی تمہارے پاس آچکے تھے۔ (۳۵:۳۷) اور آیتوں میں ہے: قَـلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِى الاٌّرْضِ عَدَدَ سِنِينَ ـ ... لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے؟ وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجئے اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو اے کاش! تم اسے پہلے ہی جان لیتے؟ (۲۳:۱۱۲،۱۱۴) فی الواقع دنیا ہے بھی آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی۔ لیکن اگر اس بات کو پہلے سے باور کر لیتے تو اس فانی کو اس باقی پر اس تھوڑی کو اس بہت پر پسند نہ کرتے بلکہ آخرت کا سامان اس دنیا میں کرتے۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا وہ آپ سے پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، تو آپ کہہ دیں کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔ (۱۰۵) لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں؟ ان کا سوال نقل کرکے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے ،چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا اور زمین کو بالکل ہموار صاف میدان کرکے چھوڑے گا۔ (۱۰۶) زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہوجائے کی۔ قَاعًا کے معنی ہموار صاف میدان ہے۔ صَفْصَفًا اسی کی تاکید ہے اور صَفْصَف کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے معنی مرادی اور لازمی ہیں۔ لَا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا اُمتا جس میں تو نہ کہیں موڑ توڑ دیکھے گا، نہ اونچ نیچ۔ (۱۰۷) نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ نہ اونچان رہے گی نہ نچائی۔ يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ جس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلیں گے جس میں کوئی کجی نہ ہوگی ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آوازپر ساری مخلوق لگ جائے گی ، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جارہی ہو گی نہ ادھر ادھر ہوگی نہ ٹیڑھی بانکی چلے گی کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے۔ أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا کیا خوب دیکھنے سننے والے ہونگے اس دن جبکہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، (۱۹:۳۸) وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا اور اللہ رحمٰن کے سامنے تمام آوازیں پست ہوجائیں گی سوائے کھسر پھسر کے تجھے کچھ بھی سنائی نہ دے گا ۔ (۱۰۸) اندھیری جگہ حشر ہو گا آسمان لپیٹ لیا جائے گا ستارے جھڑپڑیں گے سورج چاند مٹ جائے گا آواز دینے والے کی آوازپر سب چل کھڑے ہوں گے۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہو گی مگر اس غضب کا سناٹا ہو گا کہ آداب الہٰی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی۔ بالکل سکون وسکوت ہوگا صرف پیروں کی چاپ ہو گی اور کانا پھوسی۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور باجازت الہٰی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب۔ جیسے ارشاد ہے: يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے۔ (۱۱:۱۰۵) يَوْمَئِذٍ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا اس دن سفارش کچھ کام نہ آئیگی مگر جسے رحمٰن حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے (۱۰۹) قیامت کے دن کسی کی مجال نہ ہو گی کہ دوسرے کے لئے شفاعت کرے ہاں جسے اللہ اجازت دے۔ نہ آسمان کے فرشتے بے اجازت کسی کی سفارش کرسکیں نہ اور کوئی بزرگ بندہ۔ سب کو خود خوف لگا ہوگا بے اجازت کسی کی سفارش نہ ہو گی۔ جیسے فرمایا: مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، (۲:۲۵۵) اور جیسے فرمایا: وَكَمْ مِّن مَّلَكٍ فِى السَّمَـوَتِ لاَ تُغْنِى شَفَـعَتُهُمْ شَيْئاً إِلاَّ مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَى اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لئے چاہے اجازت دے دے (۵۳:۲۶) اور جیسے فرمایا: وَلاَ يَشْفَعُونَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو وہ خود ہیبت الہٰی سے لرزاں و ترساں ہیں۔ (۲۱:۲۸) اور جیسے فرمایا: وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہو جائے (۳۴:۲۳) اور جیسے فرمایا: يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَـئِكَةُ صَفّاً لاَّ يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـنُ وَقَالَ صَوَاباً جس دن روح اور فرشتے صفیں باندھ کھڑے ہونگے تو کوئی کلام نہ کر سکے گا مگر جسے رحمٰن اجازت دے دے اور وہ ٹھیک بات زبان سے نکالے (۷۸:۳۸) حدیث میں ہے : فرشتے اور روح صف بستہ کھڑے ہوں گے، بے اجازت الہٰی کوئی لب نہ کھول سکے گا۔خود سید الناس اکرم الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرش تلے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اللہ کی خوب حمد وثنا کریں گے دیر تک سجدے میں پڑے رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ کہو تمہاری بات سنی جائے گی، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی پھر حد مقرر ہو گی آپ ان کی شفاعت کرکے جنت میں لے جائیں گے پھر لوٹیں گے پھر یہی ہو گا چار مرتبہ یہی ہو گا۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی سائر الانبیاء۔ اور حدیث میں ہے : حکم ہو گا کہ جہنم سے ان لوگوں کو بھی نکال لاؤ جن کے دل میں مثقال ایمان ہو۔ پس بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے پھر فرمائے گا جس کے دل میں آدھا مثقال ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ جس کے دل میں بقدر ایک ذرے کے ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ جس کے دل میں اس سے بھی کم ایمان ہو اسے بھی جہنم سے آزاد کرو ۔ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ (۱۱۰) اس نے تمام مخلوق کا اپنے علم سے احاطہ کررکھا ہے مخلوق اس کے علم کا احاطہ کر نہیں سکتی۔ جیسے فرمان ہے وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَآءَ اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر وہ جتنا چاہے، (۲:۲۵۵) وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا تمام چہرے اس زندہ اور قائم دائم اور مدبر، اللہ کے سامنے کمال عاجزی سے جھکے ہوئے ہونگے، یقیناً وہ برباد ہوا جس نے ظلم لاد لیا (۱۱۱) تمام مخلوق کے چہرے عاجزی پستی ذلت ونرمی کے ساتھ اس کے سامنے پست ہیں اس لئے کہ وہ موت وفوت سے پاک ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہنے والا ہے وہ نہ سوئے نہ اونگھے ۔ خود اپنے آپ قائم رہنے والا اور ہرچیز کو اپنی تدبیر سے قائم رکھنے والا ہے سب کی دیکھ بھال حفاظت اور سنبھال وہی کرتا ہے، وہ تمام کمالات رکھتا ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے بغیر رب کی مرضی کے نہ پیدا ہو سکے نہ باقی رہ سکے۔ جس نے یہاں ظلم کئے ہوں گے وہ وہاں برباد ہو گا۔ کیونکہ ہر حق دار کو اللہ تعالیٰ اس دن اس کا حق دلوائے گا یہاں تک کہ بےسینگ کی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ حدیث قدسی میں ہے: اللہ تعالیٰ عزوجل فرمائے گا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم کسی ظالم کے ظلم کو میں اپنے سامنے سے نہ گزرنے دوں گا۔ صحیح حدیث میں ہے: لوگوظلم سے بچو۔ ظلم قیامت کے دن اندھیرے بن کر آئے گا اور سب سے بڑھ کرنقصان یافتہ وہ ہے جو اللہ سے شرک کرتا ہوا مرا وہ تباہ وبرباد ہوا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم ہے۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا اور جو نیک اعمال کرے اور ایمان دار بھی ہو تو نہ اسے بے انصافی کا کھٹکا ہوگا نہ حق تلفی کا (۱۱۲) ظالموں کا بدلہ بیان فرما کر متقیوں کا ثواب بیان ہو رہا ہے کہ نہ ان کی برائیاں بڑھائی جائیں نہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں۔ گناہ کی زیادتی اور نیکی کی کمی سے وہ بےکھٹکے ہیں۔ وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا اس طرح ہم نے تجھ پر عربی میں قرآن نازل فرمایا ہے اور طرح طرح سے اس میں ڈر کا بیان سنایا ہے تاکہ لوگ پرہیزگار بن جائیں یا ان کے دل میں سوچ سمجھ تو پیدا کرے (۱۱۳) چونکہ قیامت کا دن آنا ہی ہے اور اس دن نیک بد اعمال کا بدلہ ملناہی ہے، لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لئے ہم نے بشارت والا اور دھمکانے والا اپنا پاک کلام عربی صاف زبان میں اتارا تاکہ ہر شخص سمجھ سکے اور اس میں گو ناگوں طور پرلوگوں کو ڈرایا طرح طرح سے ڈراوے سنائے۔ تاکہ لوگ برائیوں سے بچیں بھلائیوں کے حاصل کرنے میں لگ جائیں یا ان کے دلوں میں غوروفکر نصیحت و پند پیدا ہو اطاعت کی طرف جھک جائیں نیک کاموں کی کوشیش میں لگ جائیں۔ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ پس اللہ عالی شان والا سچا اور حقیقی بادشاہ ہے۔ پس پاک اور برتر ہے وہ اللہ جو حقیقی شہنشاہ ہے دونوں جہاں کا تنہا مالک ہے وہ خود حق ہے اس کا وعدہ حق ہے اس کی وعید حق ہے اس کے رسول حق ہیں جنت دوزخ حق ہے اس کے سب فرمان اور اس کی طرف سے جو ہو سراسرعدل وحق ہے۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ آگأہ کئے بغیر کسی کوسزا دے وہ سب کے عذر کاٹ دیتا ہے کسی کے شبہ کو باقی نہیں رکھتا حق کو کھول دیتا ہے پھر سرکشوں کو عدل کے ساتھ سزا دیتا ہے ۔ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کی جائے، جب ہماری وحی اتر رہی ہو اس وقت تم ہمارے کلام کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو پہلے پوری طرح سن لیا کرو۔ جیسے سورۃ قیامہ میں فرمایا: لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ـ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ ـ فَإِذَا قَرَأْنَـهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ ـ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ جلدی کر کے بھول جانیکے خوف سے وحی اترتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے نہ پڑھنے لگو۔ اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے تلاوت کرانا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم اسے پڑھیں تو آپ اس پڑھنے کے تابع ہو جائیں پھر اس کا سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ (۷۵:۱۶،۱۹) حدیث میں ہے: پہلے آپ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے جس میں آپ کودقت ہوتی تھی جب یہ آیت اتری آپ اس مشقت سے چھوٹ گئے اور اطمینان ہو گیا کہ وحی الہٰی جتنی نازل ہو گی مجھے یاد ہوجایا کرے گی ایک حرف بھی نہ بھولوں گا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہو چکا۔ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا (۱۱۴) یہی فرمان یہاں ہے کہ فرشتے کی قرأت چپکے سے سنو جب وہ پڑھ چکے پھر تم پڑھو اور مجھ سے اپنے علم کی زیادتی کی دعا کیا کرو۔ چنانچہ آپ نے دعا کی اللہ نے قبول کی اور انتقال تک علم میں بڑھتے ہی رہے۔ حدیث میں ہے: وحی برابر پے درپے آتی رہی یہاں تک کہ جس دن آپ فوت ہونے کو تھے اس دن بھی بکثرت وحی اتری۔ ابن ماجہ کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا منقول ہے: اللَّھُمَّ اُنْفْعُنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ، وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْ نِیْ عِلْمًا، وَالْحمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَال وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ہم نے آدم کو پہلے تاکیدی حکم دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا (۱۱۵) حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں انسان کو انسان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے جو حکم سب سے پہلے فرمایا گیا یہ اسے بھول گیا۔ مجاہد اور حسن فرماتے ہیں اس حکم کو حضرت آدم علیہ السلام نے چھوڑ دیا۔ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔ (۱۱۶) پھر حضرت آدم علیہ السلام کی شرافت وبزرگی کا بیان ہو رہا ہے سورۃ بقرۃ سورۃ اعراف سورۃ حجر اور سورۃ کہف میں شیطان کے سجدہ نہ کرنے والے واقعہ کی پوری تفسیر بیان کی جاچکی ہے اور سورۃ ص میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ ان تمام سورتوں میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا پھر ان کی بزرگی کے اظہار کے لئے فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کے حکم کا اور ابلیس کی مخفی عداوت کے اظہار کا بیان ہوا ہے ، اس نے تکبر کیا اور حکم الہٰی کا انکار کردیا۔ فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى تو ہم نے کہا اے آدم!یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے (۱۱۷) اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی حضرت حوا علیہ السلام کا دشمن ہے اس کے بہکاوے میں نہ آنا ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑ جاؤ گے۔روزی کی تلاش کی محنت سر پڑجائے گی۔ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى یہاں تو تجھے یہ آرام ہے کہ نہ تو بھوکا ہوتا ہے نہ ننگا۔ (۱۱۸) یہاں تو بےمحنت ومشقت روزی پہنچ رہی ہے ۔ یہاں تو ناممکن ہے کہ بھوکے رہو ناممکن ہے کہ ننگے رہو اس اندورنی اور بیرونی تکلیف سے بچے ہوئے ہو۔ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى اور نہ تو یہاں پیاسا ہوتا ہے نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاتا ہے۔ (۱۱۹) پھریہاں نہ پیاس کی گرمی اندرونی طور سے ستائے ، نہ دھوپ کی تیزی کی گرمی بیرونی طور پر پریشان کرے اگر شیطان کے بہکاوے میں آگئے تو یہ راحتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے مقابل کی تکلیفیں سامنے آجائیں گی۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى لیکن شیطان نے وسوسہ ڈالا، کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو (۱۲۰) لیکن شیطان نے اپنے جال میں انہیں پھانس لیا اور مکاری سے انہیں اپنی باتوں میں لے لیا قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلادیا۔ فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ چنانچہ ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے۔ پہلے ہی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے فرما دیا تھا کہ جنت کے تمام میوے کھانا لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا۔ مگر شیطان نے انہیں اس قدر پھسلایا کہ آخرکار یہ اس درخت میں سے کھا بیٹھے۔ اس نے دھوکہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جو اس درخت کو کھا لیتا ہے وہ ہمیشہ یہیں رہتا ہے۔ صادق ومصدوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلا جائے گا لیکن تاہم وہ ختم نہ ہو گا اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ( مسند احمد وابوداؤد طیالسی) دونوں نے درخت میں سے کچھ کھایا ہی تھا کہ لباس اتر گیا اور اعضا ظاہر ہو گئے۔ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گیا (۱۲۱) ابن ابی حاتم میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو گندمی رنگ کا لمبے قدوقامت والازیادہ بالوں والا بنایا تھا کھجور کے درخت جتنا قد تھا ممنوع درخت کو کھاتے ہی لباس چھن گیا۔ اپنے ستر کو دیکھتے ہی مارے شرم کے ادھر ادھر چھپنے لگے، ایک درخت میں بال الجھ گئے، جلدی سے چھڑانے کی کوشیش کر رہے تھے جب اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ آدم کیا مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کلام رحمٰن سن کر ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ مارے شرمندگی کے سرچھپانا چاہتا ہوں۔ اچھا اب یہ تو فرما دے کہ توبہ اور رجوع کے بعد بھی جنت میں پہنچ سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے۔ آدم نے اپنے رب سے چند کلمات لے لئے جس کی بنا پر اللہ نے اسے پھر سے اپنی مہربانی میں لے لیا ۔ یہ روایت منقطع ہے اور اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام وحضرت حوا علیہ السلام سے لباس چھن گیا تو اب جنت کے درختوں کے پتے اپنے جسم پر چپکانے لگے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں: انجیر کے پتوں سے اپنا آپ چھپانے لگے۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے راہ راست سے ہٹ گئے۔ ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى پھر اس کے رب نے نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور اس کی راہنمائی کی (۱۲۲) لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی رہنمائی کی۔ توبہ قبول فرمائی اور اپنے خاص بندوں میں شامل کر لیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام میں گفتگو ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے تمام انسانوں کو جنت سے نکلوا دیا اور انہیں مشقت میں ڈال دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیا اے موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے اور اپنے کلام سے ممتاز فرمایا آپ مجھے اس بات پر الزام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر اور مقرر کرلیا تھا۔ پس حضرت آدم علیہ السلام نے اس گفتگو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاجواب کردیا ۔ اور روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان بھی ہے: آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا اور آپ میں آپ کی روح اس نے پھونکی تھی۔ اور آپ کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا تھا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس جواب میں یہ بھی مروی ہے: اللہ نے آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہرچیز کا بیان تھا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ کو قریب کر لیا بتلاؤ اللہ نے تورات کب لکھی تھی؟ جواب دیا آپ سے چالیس سال پہلے پوچھا کیا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ بھول گیا کہا ہاں ۔ فرمایا پھر تم مجھے اس امر کا الزام کیوں دیتے ہو؟ جو میری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا ۔ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فرمایا، تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، حضرت آدم علیہ السلام وحوا علیہ السلام اور ابلیس لعین سے اسی وقت فرمادیا گیا کہ تم سب جنت سے نکل جاؤ سورۃ بقرۃ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو یعنی اولاد آدم اور اولاد ابلیس۔ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔ (۱۲۳) تمہارے پاس میرے رسول اور میری کتابیں آئیں گی میری بتائی ہوئی راہ کی پیروی کرنے والے نہ تو دنیا میں رسوا ہوں گے نہ آخرت میں ذلیل ہوں گے ۔ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے (۱۲۴) ہاں حکموں کے مخالف میرے رسول کی راہ کے تارک۔ دوسری راہوں پہ چلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہو گی اپنی گمراہی کی وجہ سے تنگی میں ہی رہیں گے گو بظاہر کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین وہدایت نہ ہونے کہ وجہ سے ہمیشہ شک شبے اور تنگی اور قلت میں مبتلا رہیں گے۔ بدنصیب ، رحمت الہٰی سے محروم، خیر سے خالی، کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں، اس کے وعدوں کا یقین نہیں، مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ کے ساتھ بدگمان ، گئی ہوئی چیز کو آنے والی نہیں سمجھتے۔ خبیث روزیاں ہیں ، گندے عمل ہیں ، قبر تنگ و تاریک ہے وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں طرف کی دائیں طرف میں گھس جائیں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مؤمن کی قبر ہرا بھرا سرسبز باغیچہ ہے ستر ہاتھ کی کشادہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چاند اس میں ہے خوب نور اور روشنی پھیل رہی ہے جیسے چودھویں رات کا چاند چڑھا ہوا ہو۔ اس آیت کا شان نزول معلوم ہے کہ میرے ذکر سے منہ پھیرنے والوں کی معیشت تنگ ہے اس سے مراد کافر کی قبر میں اس پر عذاب ہے۔ اللہ کی قسم اس پر ننانوے اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں ہر ایک کے سات سات سر ہوتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں۔ اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل منکر ہے ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے جہنم کے کوئی چیز اسے نظر نہ آئے گی۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا ۔ جیسے فرمان ہے: وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں گے ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے۔ (۱۷:۹۷) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا وہ کہے گا کہ الہٰی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ (۱۲۵) یہ کہیں گے میں تو دنیا میں آنکھوں والا خوب دیکھتا بھالتا تھا پھر مجھے اندھا کیوں کردیا گیا؟ قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖوَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے (۱۲۶) جواب ملے گا کہ یہ بدلہ ہے اللہ کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا اور ایسا ہو جانے کا گویا خبر ہی نہیں۔ پس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے کہ جیسے توہماری یاد سے اترگیا جیسے فرمان ہے: فَالْيَوْمَ نَنسَـهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَآءَ يَوْمِهِمْ هَـذَا آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ۔ (۷:۵۱) وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ ۚ ہم ایسا ہی بدلہ ہر اس شخص کو دیا کرتے ہیں جو حد سے گزر جائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے، پس یہ برابر کا اور عمل کی طرح کا بدلہ ہے ۔ قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکام کا عامل ہوتے ہوئے کسی شخص سے اگر اسکے الفاظ حفظ سے نکل جائیں تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔ اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جذامی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے گا ( مسند احمد ) وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى اور بیشک آخرت کا عذاب نہایت ہی سخت اور باقی رہنے والا ہے۔ (۱۲۷) جو حدود الہٰی کی پرواہ نہ کریں، اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں، انہیں ہم اسی طرح دنیا آخرت کے عذاب میں مبتلاکرتے ہیں خصوصا آخرت کا عذاب توبہت ہی بھاری ہے اور وہاں کوئی نہ ہوگا جو بچا سکے۔ دنیا کے عذاب نہ تو سختی میں اس کے مقابلے کے ہیں نہ مدت میں دائمی اور نہایت المناک ہیں ۔ ملاعنہ کرنے والوں کو سمجھاتے ہوئے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذابوں کے مقابلے میں بہت ہی ہلکی اور ناچیزہے ۔ أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۗ کیا انکی رہبری اس بات نے بھی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی بستیاں ہلاک کر دی ہیں جنکے رہنے سہنے کی جگہ یہ چل پھر رہے ہیں۔ جولوگ تجھے نہیں مان رہے اور تیری شریعت کا انکار کر رہے ہیں کیا وہ اس بات سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلے جنہوں نے یہ ڈھنگ نکالے تھے ہم نے انہیں تباہ وبرباد کردیا؟ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی اور ایک سانس چلتا ہوا اور ایک زبان بولتی ہوئی باقی نہیں بچی، ان کے بلند وبالا پختہ اور خوبصورت کشادہ اور زینت دار محل ویران کھنڈر پڑے ہوئے ہیں جہاں سے ان کی آمد ورفت رہتی ہے اگریہ عقلمند ہوتے تو یہ سامان عبرت ان کے لئے بہت کچھ تھا۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى یقیناً اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔(۱۲۸) کیا یہ زمین میں چل پھر کر قدرت کی ان نشانیوں پر دل سے غور فکر نہیں کرتے ؟ کیا کانوں سے ان کے درد ناک فسانے سن کرعبرت حاصل نہیں کرتے ؟ کیا ان اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں کھولتے ؟ یہ آنکھوں کے ہی اندھے نہیں بلکہ دل کے بھی اندھے ہیں سورۃ الم السجدہ میں بھی مندرجہ بالا آیت جیسی آیت ہے۔ أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَاكِنِهِمْ کیا اس بات نے بھی انہیں کوئی ہدایت نہیں دی کہ ہم نے پہلے بہت سی اُمتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں (۳۲:۲۶) وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى اگر تیرے رب کی بات پہلے ہی سے مقرر شدہ اور وقت معین کردہ نہ ہوتا تو اسی وقت عذاب آچمٹتا ۔ (۱۲۹) اللہ تعالیٰ یہ بات مقرر کرچکا ہے کہ جب تک بندوں پر اپنی حجت ختم نہ کردے انہیں عذاب نہیں کرتا۔ ان کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کردیا ہے، اسی وقت ان کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی۔ اگریہ بات نہ ہوتی تو ادھر گناہ کرتے ادھر پکڑ لئے جاتے۔ فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ پس ان کی باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے، تو ان کی تکذیب پر صبر کر، ان کی بےہودہ باتوں پربرداشت کر۔ تسلی رکھ یہ میرے قبضے سے باہر نہیں۔ سورج نکلنے سے پہلے سے مراد تو نماز فجر ہے اور سورج ڈوبنے سے پہلے سے مراد نماز عصر ہے۔ بخاری مسلم میں ہے: ہم ایک مرتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا کہ تم عنقریب اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو بغیر مزاحمت اور تکلیف کے دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہوسکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج غروب ہونے سے پہلی کی نماز کی پوری طرح حفاظت کرو۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے: آپ نے فرمایا ان دونوں وقتوں کی نماز پڑھنے والا آگ میں نہ جائے گا۔ مسند اور سنن میں ہے: آپ نے فرمایا سب سے ادنی درجے کا جنتی وہ ہے جو ہزار برس کی راہ تک اپنی ہی اپنی ملکیت دیکھے گا سب سے دور کی چیز بھی اس کے لئے ایسی ہی ہو گی جیسے سب سے نزدیک کی اور سب سے اعلیٰ منزل والے تو دن میں دو دو دفعہ دیدار الہٰی کریں گے وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے (۱۳۰) پھر فرماتا ہے رات کے وقتوں میں بھی تہجد پڑھا کر۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب اور عشاء کی نماز ہے۔ اور دن کے وقتوں میں بھی اللہ کی پاکیزگی بیان کیا کر۔ تاکہ اللہ کے اجر و ثواب سے تو خوش ہو جا۔ جیسے فرمان ہے: وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَ عنقریب تیرا اللہ تجھے وہ دے گا کہ تو خوش ہوجائے گا۔(۹۳:۵) صحیح حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے جنتیو! وہ کہیں گے لبیک ربنا وسعدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم خوش ہو گئے ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت ہی خوش ہیں تونے ہمیں وہ نعمتیں عطاء فرما رکھی ہیں جو مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیں۔ پھر کیا وجہ کہ ہم راضی نہ ہوں۔ جناب باری ارحم الراحمین فرمائے گا لو میں تمہیں ان سب سے افضل چیز دیتا ہوں۔ پوچھیں گے اے اللہ اس سے افضل چیز کیا ہے؟ فرمائے گا میں تمہیں اپنی رضامندی دیتا ہوں کہ اب کسی وقت بھی میں تم سے ناخوش نہ ہوں گا۔ اور حدیث میں ہے: جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ اسے پورا کرنے والا ہے کہیں گے اللہ کے سب وعدے پورے ہوئے ہمارے چہرے روشن ہیں ہماری نیکیوں کا پلہ گراں رہا ہمیں دوزخ سے ہٹا دیا گیا۔ جنت میں داخل کردیا گیا اب کون سی چیز باقی ہے؟ اسی وقت حجاب اٹھ جائیں گے اور دیدار الہٰی ہوگا۔ اللہ کی قسم اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہ ہوگی یہی زیادتی ہے۔ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ اور اپنی نگاہیں ہرگز چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمالیں ان کفار کی دنیوی زینت اور ان کی ٹیپ ٹاپ کو تو حسرت بھری نگاہوں سے نہ دیکھ، یہ توذرا سی دیر کی چیزیں ہیں۔ یہ صرف ان آزمائش کے لئے انہیں یہاں ملی ہیں کہ دیکھیں شکر وتواضع کرتے ہیں یا ناشکری اور تکبر کرتے ہیں؟ حقیقتاًشکر گزاروں کی کمی ہے۔ ان کے مالداروں کو جو کچھ ملا ہے اس سے تجھے توبہت ہی بہتر نعمت ملی ہے۔ وَلَقَدْ ءاتَيْنَـكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْءَانَ الْعَظِيمَ ـ لاَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ ہم نے تجھے سات آیتیں دی ہیں جو دوہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم عطافرمارکھا ہے پس اپنی نظریں ان کے دنیوی سازوسامان کی طرف نہ ڈال۔ (۱۵:۸۷،۸۸) اسی طرح اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اللہ کے پاس جو مہمانداری ہے اس کی نہ توکوئی انتہا ہے اور نہ اس وقت کوئی اس کے بیان کی طاقت رکھتا ہے۔ وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى عنقریب تیرا اللہ تجھے وہ دے گا کہ تو خوش ہوجائے گا۔ (۹۳:۵) وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى تیرے رب کا دیا ہوا ہی (بہت) بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے ۔ (۱۳۱) اللہ کی دین بہتر اور باقی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلاکیا تھا اور ایک بالاخانے میں مقیم تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ ایک کھردرے بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں چمڑے کا ایک ٹکڑا ایک طرف رکھا تھا اور کچھ مشکیں لٹک رہی تھیں۔ یہ بےسروسامانی کی حالت دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیوں رو دیے ؟ جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیصروکسریٰ کس قدر عیش وعشرت میں ہے اور آپ باوجود ساری مخلوق میں سے اللہ کے برگزیدہ ہونے کے کس حالت میں ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا اے خطاب کے بیٹے کیا اب تک تم شک میں ہی ہو؟ ان لوگوں کو اچھائیوں نے دنیا میں ہی جلدی کر لی ہے۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم باوجود قدرت اور دسترس کے دنیا سے نہایت ہی بےرغبت تھے۔ جو ہاتھ لگتا اسے راہ للہ دے دیتے اور اپنے لئے ایک پیسہ بھی نہ بچا رکھتے۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے: آپ نے فرمایا مجھے تو تم پر سب سے زیادہ خوف اس وقت کاہے کہ دنیا تمہارے قدموں میں اپنا تمام سازو سامان ڈال دے گی۔ اپنی برکتیں تم پر الٹ دے گی۔ الغرض کفار کو زینت کی زندگی ، اور دنیا صرف ان کی آزمائش کے لئے دی جاتی ہے ۔ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کرو تاکہ وہ عذاب الہٰی سے بچ جائیں ، خود بھی پابندی کے ساتھ اس کی ادائیگی کرو۔ يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ قُواْ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم سے بچالو۔ (۶۶:۶) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تو اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور اسی آیت کی تلاوت فرماتے ۔ حضرت ہشام کے والد صاحب جب امیر امراء کے مکانوں پر جاتے اور ان کا ٹھاٹھ دیکھتے تو واپس اپنے مکان پر آکر اسی آیت کی تلاوت فرماتے اور کہتے میرے کنبے والو نماز کی حفاظت کرو نماز کی پابندی کرو۔ اللہ تم پر رحم فرمائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تنگی ہوتی تو اپنے گھرکے سب لوگوں کو فرماتے اے میرے گھر والوں نمازیں پڑھو نمازیں قائم رکھو۔ تمام انبیاء علیہ السلام کا یہی طریقہ رہا ہے کہ اپنی ہر گھبراہٹ اور ہر کام کے وقت نماز شروع کردیتے۔ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، ہم تجھ سے رزق کے طالب نہیں۔ نماز کی پابندی کرلو اللہ ایسی جگہ سے روزی پہنچائے گا جو خواب خیال میں بھی نہ ہو۔ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاًوَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے لئے چھٹکاراکردیتا ہے اور بےشان وگمان جگہ سے روزی پہنچاتا ہے۔ (۶۵:۲،۳) تمام جنات اور انسان صرف عبادت الہٰی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں رزاق اور زبردست قوتوں کے مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرماتا ہے ہم خود تمام مخلوق کے روزی رساں ہیں ہم تمیں طلب کی تکلیف نہیں دیتے ۔ ترمذی ابن ماجہ وغیرہ کی قدسی حدیث میں ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میری عبادت کے لئے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ امیری اور بےپرواہی سے پر کردوں گا۔ تیری فقیری اور حاجت کو دور کردوں گا اور اگر تونے یہ نہ کیا تو میں تیرا دل اشغال سے بھر دونگا اور تیری فقیری بند ہی نہ کروں گا۔ ابن ماجہ شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے اپنی تمام غور وفکر اور قصدوخیال کو اکٹھا کرکے آخرت کا خیال باندھ لیا اور اسی میں مشغول ہو گیا اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی تمام پریشانیوں سے محفوظ کرلے گا۔ اور جس نے دنیا کی فکریں پال لیں یہاں کے غم مول لئے اللہ کو اس کی مطلقا ًپرواہ نہ رہے گی خواہ کسی حیرانی میں ہلاک ہو جائے۔ اور روایت میں ہے: دنیا کے غموں میں ہی اسی کی فکروں میں ہی مصروف ہوجانے والے کے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پریشانیاں ڈال دے گا اور اس کی فقیری اس کی آنکھوں کے سامنے کردے گا اور دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی مقدر میں ہے اور جو دل کا مرکز آخرت کو بنا لے گا اپنی نیت وہی رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے ہرکام کا اطمینان نصیب فرما دے گا اس کے دل کو سیر اور شیر بنا دے گا اور دنیا اس کے قدموں کی ٹھوکروں میں آیا کرے گی۔ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔ (۱۳۲) پھر فرمایا دنیا وآخرت میں نیک انجام پرہیزگار لوگ ہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ گویا ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں۔ وہاں ہمارے سامنے ابن طاب کے باغ کی تر کھجوریں پیش کی گئی ہیں ۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی ہے کہ دنیا میں بھی انجام کے لحاظ سے ہمارا ہی پلہ گراں رہے گا اور بلندی اور اونچائی ہم کو ہی ملے گی اور ہمارا دین پاک صاف طیب وطاہر کامل ومکمل ہے۔ وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ انہوں نے کہا کہ یہ نبی ہمارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لایا؟ کفاریہ بھی کہا کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نبی اپنی سچائی کا کوئی معجزہ ہمیں نہیں دکھاتے؟ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَى کیا ان کے پاس اگلی کتابوں کی واضح دلیل نہیں پہنچی؟ (۱۳۳) جواب ملتا ہے کہ یہ ہے قرآن کریم جو اگلی کتابوں کی خبر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے جو نہ لکھنا جانیں نہ پڑھنا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ دیکھ لو اس میں اگلے لوگوں کے حالات ہیں اور بالکل ان کتابوں کے مطابق جو اللہ کی طرف سے اس سے پہلے نازل شدہ ہیں ۔ قرآن ان سب کا نگہبان ہے۔ چونکہ اگلی کتابیں کمی بیشی سے پاک نہیں رہیں، اس لئے قرآن اترا ہے کہ ان کی صحت غیرصحت کو ممتاز کردے۔ سورۃ عنکبوت میں کافروں کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا : قُلْ إِنَّمَا الاٌّيَـتُ عِندَ اللَّهِ ... إِنَّ فِى ذلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۲۹:۵۰،۵۱) کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہر قسم کے معجزات ظاہر کرنے پر قادر ہے میں تو صرف تنبیہ کرنے والارسول ہوں میرے قبضے میں کوئی معجزہ نہیں لیکن کیا انہیں یہ معجزہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے جو ان کے سامنے برابر تلاوت کی جارہی ہے جس میں ہر یقین والے کے لئے رحمت وعبرت ہے ۔ صحیح بخاری ومسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہرنبی کو ایسے معجزے ملے کہ انہیں دیکھ کر لوگ ان کی نبوت پر ایمان لے آئے ۔ لیکن مجھے جیتا جاگتا زندہ اور ہمیشہ رہنے والا معجزہ دیا گیا ہے یعنی اللہ کی یہ کتاب قرآن مجید جو بذریعہ وحی مجھ پر اتری ہے۔ پس مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن تمام نبیوں کے تابعداروں سے میرے تابعدار زیادہ ہوں گے ۔ یہ یاد رہے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ بیان ہوا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ آپ کے معجزے اور تھے ہی نہیں علاوہ اس پاک معجزہ قرآن کے آپ کے ہاتھوں اس قدر معجزات سرزد ہوئے ہیں جو گنتی میں نہیں آسکتے۔ لیکن ان تمام بیشمار معجزوں سے بڑھ چڑھ کر آپ کا سب سے اعلیٰ معجزہ قرآن کریم ہے۔ وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا اور ہم اس سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یقیناً یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے۔ (۱۳۴) اگر اس محترم ختم المرسلین آخری پیغمبر علیہ السلام کو بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان نہ ماننے والوں کو اپنے عذاب سے ہلاک کر دیتے تو ان کا یہ عذر باقی رہ جاتا کہ اگر ہمارے پیغمبر آتے کوئی وحی الہٰی نازل ہوتی تو ہم ضرور اس پر ایمان لاتے اور اس کی تابعداری اور فرماں برداری میں لگ جاتے اور اس ذلت ورسوائی سے بچ جاتے۔ اس لئے ہم نے ان کا یہ عذر بھی کاٹ دیا۔ رسول بھیج دیا، کتاب نازل فرمادی، انہیں ایمان نصیب نہ ہوا، عذابوں کے مستحق بن گئے اور عذر بھی دور ہوگئے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ایک کیا ہزاروں آیتیں اور نشانات دیکھ کر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا۔ ہاں جب عذابوں کو اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اس وقت ایمان لائیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے جیسے فرمایا: وَهَـذَا كِتَـبٌ أَنزَلْنَـهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ہم نے یہ پاک اور بہتر کتاب نازل فرما دی ہے جو بابرکت ہے تم اسے مان لو اور اس کی فرماں برداری کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا (۶:۱۵۵) یہی مضمون اس آیت میں ہے: وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لَئِن جَآءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الاٍّمَمِ اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر انکے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک اُمت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہونگے (۳۵:۴۲) اور وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لَئِن جَآءَتْهُمْ ءَايَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ ۖ اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی اگر انکے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئینگے (۶:۱۰۹) لیکن ہم ان کی سرشت سے واقف ہیں یہ تمام آیتیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں گے۔ قُلْ كُلٌّ مُتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ کہہ دیجئے! ہر ایک انجام کا منتظر ہے پس تم بھی انتظار میں رہو۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ ادھر ہم ادھر تم منتظر ہیں ۔ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى ابھی ابھی قطعاً جان لو گے کہ راہ راست والے کون ہیں اور کون راہ یافتہ ہیں ۔ (۱۳۵) ابھی حال کھل جائے گا کہ راہ مستقیم پر کون ہے؟ حق کی طرف کون چل رہا ہے ؟ عذابوں کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت معلوم ہو جائے گا کون گمراہی میں مبتلا تھا۔ گھبراؤ نہیں ابھی ابھی جان لوگے کہ کذاب وشریر کون تھا؟ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلاً اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انہیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟ (۲۵:۴۲) یقیناً مسلمان راہ راست پرہیں اور غیرمسلم اس سے ہٹے ہوئے ہیں۔ *********** |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |