Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Tawbah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi


For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts


یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری ہے

بخاری شریف میں ہے سب سے آخر آیت يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِى الْكَلَـلَةِ   (۴:۱۷۶) اتری اور سب سے آخری سورت سورہ براۃ اتری ہے۔ اس کے شروع میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نہ ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا۔

ترمذی شریف میں ہے:

 حضرت ابن عباسؓ نے حضرت عثمانؓ سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں؟

آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے۔

سورۃ انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورہ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔

 اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں۔

 آپ کے پیچھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے۔ انشاء اللہ

بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ 

اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد پیمان کیا تھا۔‏ (۱)

پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلقی ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے

 بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا۔

 جیسے فرمان ہے:

فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ 

ان کی مدت پوری ہو نے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔  (۹:۴)

حدیث شریف میں بھی ہے:

 آپ ﷺنے فرمایا:

ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں

 گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔

فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ 

پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے ۔  (۲)

ابن عباس ؓفرماتے ہیں:

 جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن۔ اس مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں

یہ واقعہ ۹ہجری کا ہے۔آپ ﷺنے حضرت ابوبکر ؓکو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علیؓ کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔

تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابوبکرؓ کو اور حضرت علیؓ کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپناجو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔

 زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟

وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی،

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی بڑے حج کے دن۔ یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ بیزار اور الگ ہیں

فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ

اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے،

اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کر لو نیک بن جاؤ اسلام قبول کر لو، شرک و کفر چھوڑ دو

وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ  

 اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے۔‏  (۳)

اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بھی عذاب کرے گا۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے لیے بھیجے گئے تھے بھیجا۔ ہم نے منادی کر دی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ سورہ براۃ کا اعلان کر دیں پس آپ نے بھی منٰی میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی۔

حج اکبر کا دن بقرہ عید کا دن ہے۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان کے بعد حجتہ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا۔

حنین کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ برأت کا اعلان کر دیں امیر حج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی رہے ۔

لیکن اس روایت میں غربت ہے عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج حضرت عتاب بن اسید تھے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تو سنہ ۹ھ میں امیر حج تھے۔

مسند کی روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:

 اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں تھا ہم نے پکار پکار کر منادی کر دی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کر سکے گا۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے، اس مدت کے گزر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجات نہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پڑ گیا۔ حضرت علی کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کر دی تھی۔

 ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں۔

 مسند میں ہے:

 براۃ کا اعلان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا پھر آپ نے حضرت علیؓ کو بھیجا

حضرت علیؓ فرماتے ہیں سورہ برأت کی دس آیتیں جب اتریں آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو بلا کر فرمایا انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تم جاؤ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تم ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جاکر انہیں پڑھ سنانا میں چلا جحفہ میں جا کر ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کتاب لے لی آپ واپس لوٹے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں؟

 آپ نے فرمایا نہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو۔

 اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے۔

 اور حدیث میں ہے:

 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا کہ میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں

 آپﷺ نے فرمایا لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہی ہے تو لیجئے میں جاتا ہوں

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے۔ پھر اپناہاتھ ان کے منہ پر رکھا۔

 لوگوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ حج کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا؟

 آپ نے وہی اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں۔

 مسند وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا

 اور حدیث میں ہے:

 آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکام پہنچائے۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہو گئی۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا۔

 اور روایت میں ہے کہ ابوبکر صدیق کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے (حضرت علیؓ) ان کے پاس چالیس آیتیں سورۃ برأت کی دے کر بھیجا تھا آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اُٹھئے اور سرکار رسالت مآب کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئے۔

 پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ پھر لوٹ کر منٰی میں آکر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں اونٹ نحر کیا سر منڈوایا پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود تھے اس لیے میں نے ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کر دی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا۔

 ابو اسحق کہتے ہیں :

میں نے ابو جحیفہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کونسا دن ہے؟

 آپ نے فرمایا عرفے کا دن۔

میں نے کہا یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یاصحابہ رضی اللہ عنہم سے سنا ہوا۔

 فرمایا سب کچھ یہی ہے۔ عطاء بھی یہی فرماتے ہیں

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے۔

 راوی کہتا ہے:

 میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟

 لوگوں نے کہا حضرت سعید بن مسیب ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائیے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

 آپ نے فرمایا میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہترین شخص کو بتاؤں وہ عمرو بن عمر ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے۔ (ابن ابی حاتم)

اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے

 ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے۔

 دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن ۔ حضرت علیؓ یہی فرماتے ہیں۔

 ایک مرتبہ حضرت علی بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے۔

 عبداللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا آج ہی کا دن یوم الاضحی ہے آج ہی کا دن یوم النحر ہے۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے۔

 ابن عباسؓ سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقرہ عید کا دن ہے۔

 امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔

صحیح بخاری کے حوالے سے پہلے حدیث گزر چکی ہے۔ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منادی کرنے والوں کو منٰی میں عید کے دن بھیجا تھا۔

 ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا یہی دن حج اکبر کا دن ہے

 اور روایت میں ہے:

 آپ کی اونٹنی سرخ رنگ کی تھی آپ ﷺنے لوگوں سے پوچھا کہ جانتے بھی ہو؟

 آج کیا دن ہے؟

 لوگوں نے کہا قربانی کا دن ہے۔

 آپﷺ نے فرمایا سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے۔

 اور روایت میں ہے:

 آپﷺ اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺنے صحابہ ؓ سے پوچھا کہ یہ کونسا دن ہے جانتے ہو؟

ہم اس خیال سے خاموش ہوگئے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور ہی نام بتائیں۔

 آپﷺ نے فرمایا یہ حج اکبر کا دن نہیں؟

 اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔

 سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عید کے بعد کا دن ہے۔

 مجاہد کہتے ہیں حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے۔

 سفیان بھی یہی کہتے ہیں کہ جیسے یوم جمل یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہ بھی ہے۔

 حسن بصری سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔

 ابن سیرین اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ کا اور عام لوگوں کا حج ہوا۔

إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ ۚ

بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو

پہلے جو حدیثیں بیان ہو چکی ہیں ان کا اور اس آیت کامضمون ایک ہی ہے اس سے صاف ہو گیا کہ جن میں مطلقاً عہد و پیمان ہوئے تھے انہیں تو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس میں وہ اپنا جو چاہیں کرلیں اور جن سے کسی مدت تک عہد پیمان ہو چکے ہیں وہ سب عہد ثابت ہیں بشرطیکہ وہ لوگ معاہدے کی شرائط پر قائم رہیں نہ مسلمان کو خود کوئی ایذاء پہنچائیں نہ ان کے دشمنوں کی کمک اور امداد کریں

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ  

اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔‏ (۴)

 اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے پورے لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔

فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ

پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو انکا محاصرہ کرو اور انکی تاک میں ہر گھاٹی میں جابیٹھو

حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکرآیت مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ (۹:۳۶) میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے

 ابن عباس اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تامل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے چنانچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آرہا ہے۔

 فرماتا ہے کہ ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو، انہیں گرفتار کرو، جہاں بھی پاؤ

پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی

جیسے فرمان ہے:

وَلاَ تُقَـتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَـتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَـتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ  

اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو  (۲:۱۹۱)

اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے۔ چاہو قتل کرو، چاہو قید کر لو ، ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لاکر مارو۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کردو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں۔

فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ 

 ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‏ (۵) 

اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں پابند نماز ہو جائیں زکوٰۃ دینے کے مانعین سے جہاد کرنے کی

 اسی جیسی آیتوں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں۔

اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلیٰ پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں مسکینوں محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے۔

 بخاری و مسلم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھو، جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:

 تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں۔

حضرت عبد الرحمٰن بن زید بن اسلام فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے۔

 اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔

 مسند احمد میں ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کرلیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرلیں، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام حق کے ماتحت انہیں وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے

 یہ روایت بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے ۔

 ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہوگا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی اُمتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں اس کی سچائی کی شہادت اللہ کی آخری وحی میں موجود ہےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ

پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہوجائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہوجائیں

 اور آیت میں :

فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ  

اب بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔  (۹:۱۱)

ضحاک فرماتے ہیں یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کر دیا، جو مشرکوں سے تھے۔

 ابن عباسؓ کا قول ہے کہ برأت کے نازل ہو نے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا۔ پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں۔ اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا،

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجاایک تو مشرکین عرب میں فرماتا ہے:

فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ 

مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔  (۹:۵) 

یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے۔

میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں فرماتا ہے:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ   ... حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے،

نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔  (۹:۲۹) 

اللہ تبارک و تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول کرلیں۔

 تیسری تلوار منافوں میں فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ 

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ   (۹:۷۳)

 چوتھی تلوار باغیوں میں ارشاد ہے:

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ   ... حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ 

اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو ۔

پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔   (۴۹:۹)

ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ یہ آیت تلوار آیت فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً   (۴۷:۴) سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو۔

 قتادہ اس کے برعکس کہتے ہیں پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے۔

وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ

اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے آپ کی باتیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کرلے حجت ربانی پوری ہو جائے۔ پھر اپنے امن میں ہی اسے اس کے وطن پہنچا دو بےخوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کرلے۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ 

یہ اس لئے کہ یہ لوگ بےعلم ہیں۔‏  (۶)

یہ اس لئے ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچادو۔

مجاہد فرماتے ہیں:

 جو تیرے پاس دینی باتیں سننے سمجھنے کے لئے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو جو دین سمجھنے اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے پیغام کو سننے کے لئے آتے انہیں امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔

عروہ بن مسعود، مکرزبن حفص، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ یہاں آکر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ رویہ بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔

 مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ ﷺنے اس سے پوچھا کہ کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو؟

 اس نے کہاں ہاں

آخر یہ شخص حضرت ابن مسعود کوفی کی امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا اے ابن النواحہ کہا جاتا تھا آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ نے بلوایا اور فرمایا اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا اللہ کی لعنت اس پر ہو۔ آپﷺنے فرمایا اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔

 الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے۔

علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے

پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر دو قول ہیں امام شافعی وغیرہ علماء کے ہیں رحمہم اللہ تعالیٰ۔

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ

مشرکوں کے لئے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے رہ سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد و پیمان مسجد حرام کے پاس کیا

اوپر والے حکم کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے شرک و کفر کو چھوڑ نے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے والے ہی نہیں۔

هُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْىَ مَعْكُوفاً أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ  

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے روکا   (۴۸:۲۵)

فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ  

جب تک وہ لوگ تم سے معاہدہ نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے ۔  (۷)

ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ۶ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شریف  ۸ ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی۔ رب العالمین نے مکہ آپ کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ کے بس کر دیا۔ وللہ الحمد والمنہ

لیکن آپ نے باوجود غلبہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا سب کو آزاد کر دیا انہی لوگوں کو طلقاء کہتے ہیں۔ یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہوگئے ۔ رحمتہ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارماہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں انہی میں صفوان بن اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے انکی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا۔

 اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے۔

كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ 

ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا

اپنی زبانوں سے تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں اکثر فاسق ہیں۔  (۸)

اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا۔

یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں۔

إِلّ کے معنی قرابت داری کے ہیں۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا۔

 یہی لفظ إِلّ ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے

 لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔

 مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے

قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے۔

اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ  

انہوں نے اللہ کی آیتوں کو بہت کم قیمت پر بیچ دیا اور اس کی راہ سے روکا بہت برا ہے جو یہ کر رہے ہیں۔‏  (۹)

مشرکوں کی مذمت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ترغیب جہاد دی جا رہی ہے کہ ان کافروں نے دنیائے خسیس کو آخرت نفیس کے بدلے پسند کر لیا ہے خود راہ رب سے ہٹ کر مؤمنوں کو بھی ایمان سے روک رہے ہیں

لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ  

‏ یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری کا یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے، یہ ہیں ہی حد سے گزرنے والے    (۱۰)

ان کے اعمال بہت ہی بد ہیں یہ تو مؤمنوں کو نقصان پہنچانے کے ہی درپے ہیں نہ انہیں رشتے داری کا خیال نہ معاہدے کا پاس ہے۔ یہ تو حد سے گزر گئے ہیں۔

فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ  

اب بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ہم تو جاننے والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔‏  (۱۱)

ہاں اب بھی سچی توبہ اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی انہیں تمہارا بنا سکتی ہے۔

چنانچہ بزار کی حدیث میں ہے:

جو دنیا کو اس حال میں چھوڑے کہ اللہ کی عبادتیں خلوص کے ساتھ کر رہا ہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا ہو نماز و زکوٰۃ کا پابند ہو تو اللہ اس سے خوش ہو کر ملے گا یہی اللہ کا وہ دین ہے جسے انبیاء علیہم السلام لاتے رہے اور اسی کی تبلیغ اللہ کی طرف سے وہ کرتے رہےاس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں بڑھ جائیں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں موجود ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں یعنی بتوں کو اور بت پرستی کو چھوڑ دیں اور نمازی اور زکوٰۃ دینے والےبن جائیں تو تم ان کے رستے چھوڑ دواور آیت میں ہے کہ پھر تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔

امام بزار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال سے تو مرفوع حدیث وہیں پر ختم ہے کہ اللہ اس سے رضامند ہو کر ملے گا اس کے بعد کا کلام راوی حدیث ربیع بن انس رحمتہ اللہ علیہ کا ہے واللہ اعلم۔

وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ 

ا  گر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔

 ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں۔  (۱۲) ‏

اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو۔

 اسی لیے علماء نے کہا ہے:

 جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے، دین میں عیب جوئی کرے، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔

 ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عناد سے روکنے کا ہے۔ ابوجہل، عتبہ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سردارن کفر تھے۔ ایک خارجی نے حضرت سعد بن وقاصؓ کو کہا کہ یہ کفر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے

 آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا۔

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماً یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہوگی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ ان میں سے ایک کا قتل دوسرے ستر لوگوں کے قتل سے بھی مجھے زیادہ پسند ہے اس لیے کہ فرمان الہٰی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو (ابن ابی حاتم)

أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ

تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں

مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وعدہ شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا۔

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَـكِرِينَ 

اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں

اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ۔ (۸:۳۰)

صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مؤمنوں کو وطن سے خارج کر تے رہے

يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّـكُمْ أَن تُؤْمِنُواْ بِاللَّهِ رَبِّكُمْ  

پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔  (۶۰:۱) 

بھڑ بھڑا کر اُٹھ کھڑے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں۔

وَإِن كَادُواْ لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الاٌّرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا  

یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں  (۱۷:۷۶)

وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ

اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟

برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہوگئے جیسے کہ پورا واقع اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے۔

 انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا فالحمدللہ۔

 فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو؟

أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ 

اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔‏  (۱۳)

اگر تم مؤمن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں

 دوسری آیت میں ہے کہ ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو:

وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ  

اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اسے ڈرے   (۳۳:۳۷)

میرا غلبہ ، میری سلطنت میری سزا، میری قدرت ، میری ملکیت، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گزرتا ہوں۔میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔

قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ  

ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل اور رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا۔‏  (۱۴)

مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو۔

یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مؤمنوں کے لیے بھی ہے ۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے

وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ  

اور ان کے دل کا غم و غصہ دور کرے گا اور جس کی طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے، اللہ جانتا بو جھتا حکمت والا ہے۔‏ (۱۵) 

ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں

ابن عساکر میں ہے :

 جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو

اللھم رب النبی محمد اغفر ذنبی اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن

اے اللہ محمد ﷺ کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے

اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے۔

 اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ

کیا تم سمجھ بیٹھے ہو کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے انہیں ممتاز نہیں کیا جو مجاہد ہیں اور جنہوں نے اللہ کے اور رسول کے اور مؤمنوں کے سوا کسی کو ولی دوست نہیں بنایا

یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر کر دینا ضروری ہے

وَلِيجَةً کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں۔

پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ رسول کی خیر خواہی اور حمایت کریں ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں کا بیان چھوڑ دیا۔ ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں

 ایک جگہ قرآن کریم  میں ہے:

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا  ... وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ

کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟

ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں۔   (۲۹:۲،۳)

اور آیت میں ہے:

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ 

کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابتک اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں  (۳:۱۴۲)

 کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہوگی ہی نہیں حالانکہ اگلے مؤمنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ سچے جھوٹوں کو ضرور الگ الگ کر دے گا

جیسے اس  آیت میں ہے:

مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ 

جس حال میں تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک الگ الگ نہ کردے   (۳:۱۷۹)

وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 

اللہ خوب خبردار ہے جو تم کر رہے ہو ۔  (۱۶)

اللہ ایسا نہیں کہ تم مؤمنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟ پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہوجاتی ہے گواللہ تعالی ہر چیز سے واقف ہے ۔ جو ہوگا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہوگا، تب کس طرح ہوگا یہ بھی وہ جانتا ہے

 چیز کے ہو نے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا سچا جھوٹا ظاہر کر دے اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضا و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۚ

لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں

مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟

یعنی اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ کی مسجدوں (کی تعمیر) کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں

 بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟

 مَسَاجِدَ کو مَسجِد بھی پڑھا گیا ہے

 پس مراد مسجد حرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں

أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ 

ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں ۔ (۱۷)

اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دونوں اعتبار سے تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں نصرانی ہوں، یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے، صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا، مشرک بھی اپنے مشرک ہو نے کے لیے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں۔

 یہ تو مسجد حرام سے اور اللہ کی راہ روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ کے اولیاء نہیں

وَمَا لَهُمْ أَلاَّ يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ  ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ 

اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سزا نہ دے حالانکہ وہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں، جب کہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی نہیں۔   (۸:۳۴)

اس کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔‏

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں،

اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں۔ ہاں بیت اللہ کی آبادی مؤمنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن گواہ ہے۔

مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہات دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی

 اور حدیث میں ہے:

 مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں

اور حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے۔

 اور حدیث میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے:

 مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں۔

 ابن عساکر میں ہے:

 شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکھری بکری کو پکڑ کر لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور عوام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہو۔

 اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں جو ان میں داخل ہو اللہ کا ان پر حق ہے کہ وہ مساجد کا احترام کریں۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آکر باجماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ کا نافرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ کے اور قیامت کے ماننے والے ہی ہوتے ہیں۔

وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ  

نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ  دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں،توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔  (۱۸) 

پھر فرمایا نمازی بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے لیے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے لیے بھی ہوتی ہے ان کے دل اللہ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ یافتہ لوگ ہیں ۔

موحد ایمان دار قرآن وحدیث کے ماتحت پانچوں نمازوں کے پابند صرف اللہ کا خوف کھانے والے اس کے سوا دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور بامقصد ہیں۔

یہ یاد رہے کہ بقول حضرت ابن عباسؓ قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ عَسَى ہے وہاں یقین کے معنی میں ہے اُمید کے معنی میں نہیں

 مثلاً فرمان ہے:

عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُودًا 

عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا ۔   (۱۷:۷۹)

تو مقام محمود میں پہنچانا یقینی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک شبہ نہیں۔

 محمد بن اسحاق فرماتے ہیں عَسَى کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے

أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اسکے برابر کر دیا جو اللہ پر اور آخرت کیدن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت ایمان وجہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔

 اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنے کو بےنقاب کیا :

قَدْ كَانَتْ ءَايَـتِى تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَى أَعْقَـبِكُمْ تَنكِصُونَ ـ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَـمِراً تَهْجُرُونَ  

میری آیتیں تو تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں پھر بھی تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے اکڑتے اینٹھتے افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے ۔  (۲۳:۶۶،۶۷)

لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ  

 یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔  (۱۹)

پس تمہارا گمان بیجا تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نا مناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے۔

پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی گئی۔

کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔

 صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے، اس پر یہ آیت اتری،

مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی تھی۔

مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبد المطلب ، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری ۔

عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے

 حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کرلوں گا۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ

جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں،

وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ  

اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔‏  (۲۰)

يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ  

انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں کی، ان کے لئے وہاں دوامی نعمت ہے۔‏ (۲۱)

خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ 

وہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اللہ کے پاس یقیناً بہت بڑے ثواب ہیں ۔ (۲۲)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ

اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔

اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں بہت بھائی ہوں۔ بشرطیکہ وہ کفر کو اسلام پر ترجیح دیں

 اور آیت میں ہے :

لاَّ تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ  ... جَنَّـتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الاٌّنْهَـرُ 

اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سےمحبت  رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔

یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے،  (۵۸:۲۲)

 بیہقی میں ہے :

حضرت ابوعبیدبن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہوگئی آپ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔اس پر آیت   نازل ہوئی ۔

لاَّ تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاٌّخِرِ يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ (۵۸:۲۲)

وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ 

 تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گنہگار ظالم ہے ۔  (۲۳)

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو

پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر وہ رشتے دار اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں

وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ

اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے

اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ اور رسول سے اور جہاد سے بھی زیادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ کے عذاب کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ 

اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔  (۲۴)

ایسے بدکاروں کو اللہ بھی راستہ نہیں دکھاتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ جا رہے تھے حضرت عمر ؓکا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت عمر ؓکہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے ہرچیز سے زیادہ عزیز ہیں بجز میری اپنی جان کے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میرا نفس ہے تم میں سے کوئی مؤمن نہ ہوگا جب تک کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ رکھے۔

حضرت عمر ؓنے فرمایا اللہ کی قسم اب آپ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا:

 الْآنَ يَا عُمَر اب اے عمر(  تو مؤمن ہو گیا) (بخاری شریف)

صحیح حدیث میں آپ ﷺ کا فرمان ثابت ہے :

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولاد اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں

 مسند احمد اور ابو داؤد میں ہے آپﷺ فرماتے ہیں

 جب تم بِالْعِينَةِ (ایک طرح کا ربا)کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کرے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہوگی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ

یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا

مجاہد کہتے ہیں براۃ کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں پر اپنے بہت بڑےاحسان ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کر دیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی۔ یہ صرف تائید ربانی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی ۔

فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ 

بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔‏ (۲۵)

یاد کرلو حنین والے دن تمہیں ذرا اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہو گیا تو کیا حال ہوا؟

پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے۔ معدودے چند ہی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرے

ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ

پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مؤمنوں پر اتاری اور اپنے لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی

اسی وقت اللہ کی مدد نازل ہوئی اس نے دلوں میں تسکین ڈال دی یہ اس لیے کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ مدد اسی اللہ کی طرف سے ہے اس کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گروہوں کے منہ پھیر دیئے ہیں۔ اللہ کی امداد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

یہ واقعہ ہم عنقریب تفصیل وار بیان کریں، انشاء اللہ تعالیٰ۔

مسند کی حدیث میں ہے:

 بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعداد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی۔

یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسل بیان کی ہے۔ابن ماجہ اور بہیقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے۔ واللہ اعلم

۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہ شوال میں جنگ حنین ہوئی تھی۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموماً مکی حضرات مسلمان ہو چکے اور انہیں آپ آزاد بھی کر چکے تو آپ کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے۔ ان کا سردار مالک بن عوف نصری ہے۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے کچھ لوگ بھی ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن عامر کے اور عون بھی عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کے اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ ہی رکھا ہے

 تو آپ نے اس لشکر کو لے کر جو اب آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی آپ کے ساتھ ہو لیے۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا

 صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمین گاہ میں چھپے ہوئے تھے انہوں نے بےخبری میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا بےپناہ تیر باری کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کر دیں یہاں مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گی اور یہ منہ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

 لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ با آواز بلند اپنے تئیں پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو کہاں چلے، میری طرف آؤ۔ میں اللہ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں ۔ میں اولاد عبد المطلب میں سے ہوں۔ آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہ رہ گئے تھے۔

  حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ حضرت ایمن بن ام ایمنؓ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھے پھر آپ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں

 پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے والو اے سورہ بقرہ کے حاملو

پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے لبیک لبیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر آپ کے آس پاس آکر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اُونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہو گیا

جب کچھ جماعت آپ کے ارد گرد جمع ہو گئی آپ نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری الہٰی جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور مسلمانوں کی باقی فوج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے کفار کو قید کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر کر دیا

مسند احمد میں ہے :

حضرت عبد الرحمٰن فہری جن کا نام یزید بن اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ میں اس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے سورج ڈھلنے کے بعد میں نے اپنے ہتھیار لگا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوائیں ٹھنڈی ہو گئی ہیں آپﷺ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے بلال اس وقت بلال ایک درخت کے سائے میں تھے حضور کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر لبیک و سعد یک و انا فداوک کہتے ہوئے حاضر ہوئے۔

 آپ نے فرمایا میری سواری تیار کرو اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی جب کس چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے ہم نے صف بندی کر لی شام اور رات اسی طرح گزری پھر دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہو گئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی۔

 ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں اور منہ میں یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہو نے لگا کہ گویا زمین و آسمان کے درمیان لوہا کسی لوہے کی کے طشت پر بج رہا ہے۔

 ایک روایت میں ہے :

 بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ کے پاس واپس پہنچ گئے آپ نے اسی وقت حملہ کا حکم دیدیا اول تو منادی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گئی یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے۔

 اس میں ہے کہ اللہ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا۔ اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی کو فے میں دلا دیں۔

 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا اے ابو عمارہ کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے؟

 آپ نے فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو پوری مہارت کے ساتھ تیروں کی بار برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی۔

سبحان اللہ رسول اللہ رصلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا۔ لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے تئیں چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ نہ پہنچاننے والے بھی پہنچا لیں۔

خیال فرمائیے کہ کس قدر ذات واحد پر آپ کا توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ کو اللہ کی مدد پر۔ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا اور آپ کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کے ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابد ابدا۔

 اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا تھا۔

 ایک مشرک کا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائے اتنی دیر بھی ہم نے انہیں اپنے سامنے جمنے نہیں دیا فوراً بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر پڑے ہم نے دیکھا یہ کہ خوبصورت نورانی چہرے والے کچھ لوگ ان کے ارد گرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہرے بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہمیں شکست ہو گئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہوگئے

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 میں بھی اس لشکر میں تھا آپ کے ساتھ صرف اسی مہاجر و انصار رہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کھائی آپ زین پر سے نیچے کی طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیے اللہ آپ کو اونچا ہی رکھے

 آپ ﷺنے فرمایا ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو میں نے بھر دی آپ نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں

 پھر فرمایا مہاجر و انصار کہاں ہیں

میں نے کہا یہیں ہیں

فرمایا نہیں آواز دو میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں سونتے ہوئے لپک لپک کر آگئے اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔

بیہیقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں :

حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بدر والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارا جانا یاد آیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا؟ آؤ پیغمبر کو قتل کر دوں اس ارادے سے میں آپ کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے عباس بن عبدالمطلب کو پایا سفید چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنا کام کروں اور ادھر سے آیا تو دیکھا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں رکاوٹ کاٹ کر پیچھے کی طرف آیا آپ کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونت کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کرلیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا شیبہ میرے پاس آ، اللہ اس کے شیطان کو دور کر دے۔

 اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو واللہ آپ مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے آپ نے فرمایا شیبہ جا کافروں سے لڑ

 شیبہ کا بیان ہے :

 اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہوازن قریش پر غالب آ جائیں؟

 میں آپ کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا تو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں

 آپ ﷺنے فرمایا شیبہ وہ تو سوائے  کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے۔ پھر آپ ﷺنے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ شیبہ کو ہدایت کر پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا واللہ آپ کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ آپ کی محبت میں اپنے دل میں پانے لگا۔

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 میں اس غزوے میں آپ کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی۔

یزید بن عامر سوابی اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافرں کے ساتھ تھا بعد میں یہ مسلمان ہوگئے تھے ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں کا رعب و خوف سے کیا حال تھا؟

 تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آ رہی تھی بےطرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا۔

 صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں

وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ 

 ان کفار کا یہی بدلہ تھا۔‏ (۲۶)

الغرض کفار کو اللہ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا۔

ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ 

پھر اس کے بعد بھی جس پر چاہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی توجہ فرمائے گا اللہ ہی بخشش و مہربانی کرنے والا ہے۔‏ (۲۷)

 باقی ہوازن پر اللہ نے مہربانی فرمائی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے

 اس وقت آپ فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ شریف جعرانہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گزر چکے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کر لو یا تو قیدی یا مال؟

 انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی مرد عورت کی بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی۔

 آپ ﷺنے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہو جائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔

مالک بن عوف نصری کو بھی آپ نے سو اونٹ دیئے اور اسی کو اس کی قوم کا سردار بنا دیا جیسے کہ وہ تھا اسی کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے:

 میں نے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا۔ دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ کا ثانی نہیں آپ کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے ہیں یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ بےمثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا ۚ

اے ایمان والو! بیشک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں

اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں

 یہ آیت ۹ ہجری میں نازل ہوئی اسی سال آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے

 اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر و قیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ کے گھر کا طواف کیا۔

حضرت جابر بن عبداللہ غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بناتے ہیں۔

 مسند کی حدیث میں فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

 ہماری اس مسجد میں اس کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے۔

 لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے۔

 خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا۔

حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد حرام کے ہے۔

یہ آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل واثق ہے۔

صحیح حدیث میں ہے:

 مؤمن نجس نہیں ہوتا۔

 باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں؟

پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔

 بعض ظاہریہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہیں۔

حسن فرماتے ہیں جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ  

اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم و حکمت والا ہے۔‏  (۲۸)

اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہو جائے گا۔ ہمارے بازار بےرونق ہو جائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے

 اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی و حمید فرماتا ہے کہ تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے۔ یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دیتا۔

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ

ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے،

نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے،

ان اہل کتاب سے جو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی پر بھی ضرور ایمان لاتے ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی دور کا سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لئے بےسود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین سے کفر کرتے ہیں اس لئے ان سے بھی جہاد کرو۔

ان سے جہاد کے حکم کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہو چکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کر لی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا۔

۹ ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے ارد گرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا۔ بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے۔

 موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا۔ تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا پھر اللہ سے استخارہ کر کے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ انشاء اللہ تعالیٰ بیان ہو گا۔

 اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں چنانچہ ہجر کے مجوسیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا تھا۔

امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا بھی یہی ہے۔

 امام ابوحنیفہ کہتے ہیں سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے۔

 امام مالک فرماتے ہیں کہ جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یابت پرست وغیرہ ہوں۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم۔

حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ 

یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔  (۲۹)

پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو۔

 یہی وجہ تھی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں

عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تھا کہ اہل شام کو فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے

امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہ جب آپ کے لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں:

- ہم اپنے ان شہرں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے۔

- مندر اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے

-  ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے رہ گزر اور مسافروں کے لئے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے،

-  ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے، مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے،

-  اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے،

-  شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے ،

-  ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے

- ، مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے، ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے

- ، ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے، نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں

- ، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے،

-  زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے، تلواریں نہ لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔

-  انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے،

-  شراب فروشی نہیں کریں گے،

- اپنے سروں کے اگلے بالوں کو تراشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالے رہیں گے،

- صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے۔

-  اپنی مذہبی کتابیں مسلمانوں کی گزر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے

-  گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے بجائیں گے

-  نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے

-  نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے

-  نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے

-  مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے

-  مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں۔

 جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی۔ انہی شرائط پر ہمیں امن ملا ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام کے مستحق ہم بھی ہو جائیں گے۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ

یہود کہتے ہیں عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے

ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مؤمنوں کو مشرکوں، کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔

 فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیر کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ ا سکی اولاد ہو۔

 ان لوگوں کو حضرت عزیر کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں

 ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا؟

 میرے کپڑوں کا کیا ہو گا؟

آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا؟

اس نے کہا اللہ تعالیٰ۔

 آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی۔

 یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیر پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا؟

آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں؟

 آپ کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھا لو

چنانچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے

بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں

 انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی

ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں۔

حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔

ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ

یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے

پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں

قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّى يُؤْفَكُونَ 

 اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔‏  (۳۰)

اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے؟

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے

مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے:

 جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چنانچہ یہ مدینہ شریف آ گئے تھے

اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی آیت اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ کی تلاوت ہو رہی تھی

 تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی

 پھر آپ ﷺنے فرمایا عدی کیا تم اس سے بےخبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے؟

کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے؟

کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟

 کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے؟

پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی

انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا

 اور فرمایا یہود پر غضب الہٰی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہوگئے ہیں۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔

سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا۔

وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۚ

اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں

اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔

سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ 

وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔‏ (۳۱)

 وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے، اس جیسا اس کا شریک، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔

يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ 

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں   (۳۲)

فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ نور الہٰی بجھا دیں ہدایت ربانی اور دین حق کو مٹا دیں تو خیال کر لو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب کی روشنی بجھانی چاہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے؟

 اسی طرح یہ لوگ بھی نور رب کے بجھانے کی چاہت میں اپنی امکانی کوشش کریں آخر عاجز ہو کر رہ جائیں گے۔ ضروری بات ہے اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ دین حق تعلیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہو گا۔

 تم مٹانا چاہتے ہو اللہ اس کو بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی۔ تم گو ناخوش رہو لیکن آفتاب ہدایت بیچ آسمان میں پہنچ کر ہی رہے گا۔

عربی لغت میں کافر کہتے ہیں کسی چیز کے چھپا لینے والے کو اسی اعتبار سے رات کو بھی کافر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ بھی تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے۔ کسان کو کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے زمین میں چھپا دیتا ہے

جیسے فرمان ہے:

أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ  

جیسے اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے  (۵۷:۲۰)

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ 

اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں۔‏  (۳۳)

اسی اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی خبروں اور صحیح ایمان اور نفع والے علم پہ مبنی یہ ہدایت ہے اور عمدہ اعمال جو دنیا آخرت میں نفع دیں ان کا مجموعہ یہ دین حق ہے۔ یہ تمام اور مذاہب عالم پر چھا کر رہے گا

 آنحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میرے لئے مشرق و مغرب کی زمین لپیٹ دی گئی میری اُمت کا ملک ان تمام جگہوں تک پہنچے گا۔

 فرماتے ہیں:

 تمہارے ہاتھوں پر مشرق و مغرب فتح ہو گا تمہارے سردار جہنمی ہیں۔ بجز ان کے جو متقی پرہیزگار اور امانت دار ہوں۔

فرماتے ہیں :

یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچیں کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچائے۔ عزیزوں کو عزیز کرے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا اسلام کو عزت دینے والوں کو عزت ملے گی اور کفر کو ذلت نصیب ہو گی

حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 میں نے تو یہ بات خود اپنے گھر میں بھی دیکھ لی جو مسلمان ہوا اس سے خیر و برکت عزت و شرافت ملی اور جو کافر رہا اسے ذلت و نکبت نفرت و لعنت نصیب ہوئی۔ پستی اور حقارت دیکھی اور کمینہ پن کے ساتھ جزیہ دینا پڑا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے وہ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا جنہیں عزت دینی چاہے گا انہیں اسلام نصیب کرے گا اور جنہیں ذلیل کرنا ہو گا وہ اسے نہیں مانیں گے لیکن اس کی ماتحتی میں انہیں آنا پڑے گا۔

حضرت عدی فرماتے ہیں:

 میرے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے مجھ سے فرمایا اسلام قبول کر تاکہ سلامتی ملے

میں نے کہا میں تو ایک دین کو مانتا ہوں

 آپﷺ نے فرمایا تیرے دین کا تجھ سے زیادہ مجھے علم ہے

میں نے کہا سچ؟

 آپ ﷺنے فرمایا بالکل سچ۔

 کیا تو رکوسیہ میں سے نہیں ہے؟

 کیا تو اپنی قوم سے ٹیکس وصول نہیں کرتا؟

 میں نے کہا یہ تو سچ ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا تیرے دین میں یہ تیرے لئے حلال نہیں پس یہ سنتے ہی میں تو جھک گیا

 آپ ﷺنے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تجھے اسلام سے کون سی چیز روکتی ہے؟

سن صرف ایک یہی بات تجھے روک رہی ہے کہ مسلمان بالکل ضعیف اور کمزور ناتواں ہیں تمام عرب انہیں گھیرے ہوئے ہے یہ ان سے نپٹ نہیں سکتے لیکن سن حیرہ کا تجھے علم ہے؟

 میں نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن سنا ضرور ہے۔

 آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امر دین کو پورا فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سانڈنی سوار حیرہ سے چل کر اکیلے امن کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے گا اور بیت اللہ شریف کا طواف کرے گا۔ واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے

میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟

 آپﷺ نے فرمایا ہاں کسریٰ بن ہرمز کے تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔

 اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پورا ہوا ۔ یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشنگوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دن رات کا دور ختم نہ ہو گا جب تک پھر لات و عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ کے نازل ہونے کے بعد سے میرا خیال تو آج تک یہی رہا کہ یہ پوری بات ہے آپ ﷺنے فرمایا ہاں پوری ہو گئی اور مکمل ہی رہے گی جب تک اللہ پاک کو منظور ہو گا پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین ایک پاک ہوا بھیجیں گے جو ہر اس شخص کو بھی فوت کرے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ پھر وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی خیر و خوبی نہ ہو گی پس وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف پھر سے لوٹ جائیں گئے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۗ

اے ایمان والو! اکثر علماء اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں

یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔

لَوْلاَ يَنْهَـهُمُ الرَّبَّـنِيُّونَ وَالاٌّحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ 

انہیں ان کے عابد و عالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے   (۵:۶۳)

اس آیت میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قسیس۔

ذلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَاناً  

یہ اس لئے کہ ان میں علماء اور عبادت کے لئے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں   (۵:۸۲)

آیت کا مقصود لوگوں کو بڑے علماء اور گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے۔

حضرت سفیان بن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں میں صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔

صحیح حدیث شریف میں ہے:

 تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے۔ ایسی پوری مشابہت ہو گی کہ ذرا بھی فرق نہ رہے گا

لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر؟

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں انہی کی روش پر

 اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر؟

آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہیں؟

پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے ہر ممکن بچنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ اس وجاہت سے ریاست و منصب حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کا مال غصب کرنا چاہتے ہیں۔

 احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا۔ ان کے تحفے، ہدیئے، خراج، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الہٰی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہوگئے۔ یہ حرام خور جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل سے خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے۔

جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بےیارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے۔

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ 

اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ۔ (۳۴)

عالموں اور صوفیوں یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کرنے کے بعد اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں

 عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے

 جیسے کہ حضرت ابن المبارک رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں:

وھل افسدالدین الا الملوک واحبار سوء ورھبانھا

دین واعظوں، عالموں، صوفیوں اور درویشوں کے ناپاک طبقے سے ہی بگڑتا ہے۔

کنز اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہو۔

حضرت ابن عمر ؓسے یہی مروی ہے بلکہ فرماتے ہیں جس مال کی زکوٰۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے۔

 حضرت عمر بن خطابؓ بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں بغیر زکوٰۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا۔

 آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ سے مروی ہے:

 یہ زکوٰۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوٰۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنا دیا۔

خلیفہ برحق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ اور عراک بن مالک نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ (۹:۱۰۳) نے منسوخ کر دیا ہے۔

حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیاہ کنز ہے۔

 لیکن یہ قول غریب ہے۔

 مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں۔

مسند عبدالرزاق میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سونے چاندی والوں کے لئے ہلاکت ہے

 تین مرتبہ آپ کا یہی فرمان سن کر صحابہ پر شاق گزرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں؟

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا :

 ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی۔

مسند احمد میں ہے:

 سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہؓ نے آپس میں چرچا کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر آتا ہوں اپنی سواری تیز کر کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے

 اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لئے کیا چھوڑ جائیں؟ اس میں ہے کہ حضرت عمر کے پیچھے ہی پیچھے حضرت ثوبان بھی تھے۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر فرمایا :

 اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہو جائے۔ میراث کے مقرر کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے۔

 آپﷺ نے فرمایا لو اور سنو میں تمہیں بہترین خزانہ بتاؤں :

نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کی ناموس کی حفاظت کرے۔

 حسان بن عطیہ کہتے ہیں:

 حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں

 غلام کو برا معلوم ہو

 آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بے احتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو۔

اللھم انی اسئلک الثبات فی الامر والعزیمة علی الرشد واسئلک شکر نعمتک واسئلک حسن عبادتک واسئلک قلباسلیما

واسئلک لساناصادقاواسئلک من خیر ماتعلم واعوذبک من شرماتعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب

یا اللہ میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکر اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں

جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس کی پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب جاننے والا ہے۔

يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ

جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی

آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ نہ کرنے والے اور اسے بچا بچا کر رکھنے والے درد ناک عذاب دیئے جائیں گے۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب تپا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور کمر داغی جائے گی

هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ 

 (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‏ (۳۵)

 اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو۔

جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہو گا:

ثُمَّ صُبُّواْ فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ ـ ذُقْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ 

پھر اس کے سر پر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ۔‏(اس سے کہا جائے گا) چکھتا جا تو تو بڑا ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا ۔ (۴۴:۴۸،۴۹)

ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ کی اطاعت سے اسے مقدم رکھے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے

جیسے کہ ابولہب کھلم کھلا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لئے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور وہ اس میں جلتا رہے گا۔

یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کر دیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آ جائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے۔ بلکہ ایک ساتھ سب کے سب۔

مرفوعاً بھی یہ روایت آئی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں۔ واللہ اعلم

 حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے جو عضو سامنے آجائے گا اسی کو چبا جائے گا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو اپنے بعد خزانہ چھوڑا جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا

یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے؟

وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ۔ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی۔

صحیح مسلم میں ہے:

جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔

 امام بخاری اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

 زید بن وہب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آ گئے ہو؟

 آپ نے فرمایا ہم شام میں تھے وہاں میں نے وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ کی تلاوت کی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے۔

 میں نے کہا ہمارے اور ان کے سب کے حق میں ہے۔ اس میں میرا ان کا اختلاف ہو گیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ جب مدینے پہنچا تو چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا۔ غرض میں مدینے میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آ گیا۔

 آخر میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ۔

 میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔

 آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے۔ اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے۔

حضرت معاویہؓ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلافت سے شکایت کی امیر المؤمنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا آپ وہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے قبل سب ادھر ادھر راہ اللہ خرچ کر ڈالیں۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لئے بھجوائی تھیں میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں وہ واپس کیجئے آپ نے فرمایا تم پر آفرین ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آ جائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا۔

 ابن عباس بھی اس آیت کا حکم عام بتاتے ہیں۔

سدی فرماتے ہیں یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے ۔

 احنف بن قیس فرماتے ہیں:

 میں مدینے میں آیا دیکھا کہ قریشیوں کی ایک جماعت محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے موٹے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حالت میں اور آتے ہی کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہو جائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے سب لوگ سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے

 میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گزرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لئے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔

 غالباً اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ مذہب تھا۔ جو آپ نے اوپر پڑھا واللہ اعلم۔

 ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات فراہم کرنا شروع کیا۔ سامان کی خرید کے بعد سات درہم بچ رہے حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو حضرت عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آ جائے تو کام نہ اٹکے

آپ نے فرمایا نہیں مجھ سے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سربند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لئے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے۔

ابن عساکر میں ہے :

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل۔

 انہوں نے پوچھا یہ کس طرح؟

 فرمایا سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھ

 انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکے گا

آپ ﷺنے فرمایا یہی ہے ورنہ آگ ہے۔

 اس کی سند ضعیف ہے۔

 اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہو گیا دو (۲)  دینار یا دو درہم پس انداز کئے ہوئے نکلے آپ ﷺنے فرمایا :

یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو

 اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہبند کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا آپ نے فرمایا ایک داغ آگ کا پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ دو داغ آگ کے ہیں

 فرماتے ہیں :

جو لوگ سرخ و سفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے، ایک ایک تختی آگ کی بنائی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کر ٹھوڑی تک اس کے جسم میں اس آگ سے داغ کئے جائیں گے۔

 آپﷺ کا فرمان ہے:

 جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور پہلو اور کمر پر اس سے داغ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لئے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو

 اس کا راوی ضعیف کذاب و متروک ہے۔

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ

مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جبسے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے

مسند احمد میں ہے:

 رسول مقبول صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں۔ تین پے درپے ذوالقعدہ ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے

پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے؟

ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے۔

 آپ ﷺنے سکوت فرمایا ہم سمجھے کہ شاید آپ اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے

پھر پوچھا کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کا دن نہیں؟

ہم نے کہا ہاں

پھر پوچھا یہ کونسا مہینہ ہے؟

ہم نے کہا اللہ جانے اور اس کا رسول

 آپ ﷺنے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاہد آپ اس مہینے کا نام کوئی اور رکھیں گے

 آپ ﷺنے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟

ہم نے کہا ہاں۔

 پھر آپ ﷺنے پوچھا یہ کونسا شہر ہے؟

ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جاننے والے ہیں؟

 آپﷺ پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ کو اس کا کوئی اور ہی نام رکھنا ہے

 پھر فرمایا یہ بلدہ (مکہ) نہیں ہے؟

 ہم نے کہا بیشک۔آپ ﷺنے فرمایا:

 یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں،

 تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا

سنو میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو

 بتاؤ کیا میں نے تبلیغ کر دی؟

 سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو

 اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں منیٰ میں حجتہ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے۔

 ابوحرہ رقاشی کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا۔

آپ کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہو گئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ شہر ابتداء مخلوق سے باحرمت و باعزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا پس عربوں میں جو رواج پڑ گیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا۔

 بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے آیت إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ (۹:۳۷) کی تقسیر میں

 اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن۔

اسلامی مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ

شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشہور فی اسماء الایام و المشہور میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لئے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے۔ اس کی جمع محرمات حارم محاریم۔

 صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے۔ جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے ہیں صفر المکان اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے۔

 ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہو جاتی ہے ارتباع کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع اربعا ہے جیسے نصیب کی جمع انصبا اور جمع اس کی اربعہ ہے جیسے رغیف کی جمع ارغفہ ہے۔

 ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے۔

 جمادی الاولٰی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع ہو جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ جچتی نہیں اسلئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو۔ چنانچہ ایک شاعر نے یہی کہا ہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے اس کی جمع جمادیات ہے۔ جیسے حباری حباریات۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے۔ جمادی الاول اور جمادی الاخر بھی کہا جاتا ہے۔ جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے۔

 رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لئے اسے رجب کہتے ہیں اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے۔

شعبان کا نام شعبان اس لئے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لئے ادھر ادھر متفرق ہو جاتے تھے۔ شعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا اس کی جمع شعابین شعبانات آتی ہے۔

رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں رمضت الفصال اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں اس کی جمع رمضانات اور رماضین اور رامضہ آتی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے لیکن وہ ضعیف ہے۔ میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کر دیا ہے۔

 شوال ماخوذ ہے شالت الابل سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لئے اس مہینہ کا یہی نام ہو گیا اس کی جمع شواویل شواول شوالات آتی ہے۔

ذوالقعدہ یا ذوی لقعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لئے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لئے۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے۔

 ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لئے اس کا یہ نام مقرر ہو گیا ہے۔ اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے۔

یہ تو ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ تھی۔

ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان کی جمع

اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع احاد اوحاد اور وحود آتی ہے۔

پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے۔

منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثات اور اثالث آتی ہے۔

بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے۔

جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اخمسہ اخامس آتی ہے۔

 جمعہ کو جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع جمع اور جماعات آتی ہے۔

 سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ ہفتے کی دنوں کی گنتی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے اس لئے اسے سبت کہتے ہیں۔

 قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے:

 اول، رھون، جبار، دبار، مونت، عروبہ، شبار۔

قدیم عربوں کے اشعار میں بھی  دنوں کے نام پائے جاتے ہیں

مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ

 ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں

قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔

جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا۔ جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب شعبان اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔

ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے درپے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت لڑائیاں مار پیٹ جنگ و جدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام حج کی ادائیگی امن و امان عمدگی اور شان سے ہو جائے پھر وہ ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے

 درمیان سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کرلیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آ مد و رفت کریں

ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ

یہی درست دین ہے

یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے۔

فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ ۚ

تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو

پس اللہ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو۔ اس لئے کہا اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔

 فرمان ربانی ہے:

وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ 

جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں دین حق سے پھر جانے کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے  (۲۲:۲۵)

 اسی طرح سے ان محترم مہینوں میں کیا ہوا گناہ اور دنوں میں کئے ہوئے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے۔

 اسی لئے حضرت امام شافعی اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے اسی طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی دیت سخت ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 فِيهِنَّ سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔

 حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے

گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لئے اسی طرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان شریف کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے۔

امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتائی ہے۔

ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کر لو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔

وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ 

اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔‏ (۳۶)

پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں۔

حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں

پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے

 اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کا ذکر فرمایا۔ ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں آگئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گزر جانے کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے

جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے  کہ آپﷺ ہوازن قبیلے کی طرف ماہ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے افراد بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے

 پس ثابت ہے کہ آپ نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں

 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللَّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ 

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو نہ ادب والے مہینوں کی  (۵:۲)

اور فرمان ہے:

فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ  

پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو  (۹:۵)

 یہ پہلے بیان گزر چکا ہے کہ یہ ہر سال میں چار مہینے ہیں۔ نہ کہ تسییر مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے۔

پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے کہ وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لئے وہ مڈ بھیڑ آپس میں مل کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو۔

جیسے  فرمان ہے:

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَـتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ 

حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے  (۲:۱۹۴)

اور جیسے اس آیت میں بیان ہے:

وَلاَ تُقَـتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَـتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَـتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ 

اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو  (۲:۱۹۱)

یہی جواب حرمت والے مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل ہوازن اور ثقیف کے ساتھ جنگ کا یہ لڑائی تتمہ تھی انہوں نے ہی جنگ کی ابتداء کی تھی ادھر ادھر سے آپ کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں جا چھپے اور وہاں قلعہ بند ہوگئے آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لئے اور آگے بڑھے انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا یا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا ادھر محاصرہ جاری رہا منجنیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں ہوئی تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آ گیا جب چند دن گزر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا

پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتدء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں واللہ اعلم۔

 اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم۔

إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا

مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفر کی زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کافر ہیں۔

مشرکوں کے کفر کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کس طرح اپنی فاسد رائے کو اور اپنی ناپاک خواہش کو شریعت ربانی میں داخل کر کے اللہ کے دین کے احکام میں رد و بدل کر دیتے تھے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیتے تھے۔

يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ ۚ

ایک سال تو اسے حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا کر لیتے ہیں، کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں پھر اسے حلال بنالیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے

تین مہینے کی حرمت کو تو ٹھیک رکھا پھر چوتھے مہینے محرم کی حرمت کو اس طرح بدل دیا کہ محرم کو صفر کے مہینے میں کر دیا اور محرم کی حرمت نہ کی۔ تاکہ بظاہر سال کے چار مہینے کی حرمت بھی پوری ہو جائے اور اصلی حرمت کے مہینے محرم میں لوٹ مار قتل و غارت بھی ہو جائے اور اس پر اپنے قصیدوں میں مبالغہ کرتے تھے اور فخریہ اپنا یہ فعل اچھالتے تھے۔

 ان کا ایک سردار تھا جنادہ بن عمرو بن امیہ کنانی یہ ہر سال حج کو آتا اس کی کنیت ابوثمامہ تھی یہ منادی کر دیتا کہ نہ تو ابو ثمامہ کے مقابلے میں کوئی آواز اٹھا سکتا ہے نہ اس کی بات میں کوئی عیب جوئی کر سکتا ہے سنو پہلے سال کا صفر مہینہ حلال ہے اور دوسرے سال کا حرام۔

پس ایک سال کے محرم کی حرمت نہ رکھتے دوسرے سال کے محرم کی حرمت منا لیتے۔ ان کی اسی زیادتی کفر کا بیان اس آیت میں ہے۔

یہ شخص اپنے گدھے پر سوار آتا اور جس سال یہ محرم کو حرمت والا بنا دیتا لوگ اس کی حرمت کرتے اور جس سال وہ کہہ دیتا کہ محرم کو ہم نے ہٹا کر صفر میں اور صفر کو آگے بڑھا کر محرم میں کر دیا ہے اس سال عرب میں اس ماہ محرم کی حرمت کوئی نہ کرتا۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ بنی کنانہ کے اس شخص کو علمس کہا جاتا تھا یہ منادی کر دیتا کہ اس سال محرم کی حرمت نہ منائی جائے اگلے سال محرم اور صفر دونوں کی حرمت رہے گی پس اس کے قول پر جاہلیت کے زمانے میں عمل کر لیا جاتا اور اب حرمت کے اصلی مہینے میں جس میں ایک انسان اپنے باپ کے قاتل کو پا کر بھی اس کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا تھا اب آزادی سے آپس میں خانہ جنگیاں اور لوٹ مار ہوتی۔

 لیکن یہ قول کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ گنتی میں وہ موافقت کرتے تھے اور اس صورت میں گنتی کی موافقت بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک سال میں تین مہینے رہ جاتے ہیں اور دوسرے سال میں پانچ ماہ ہو جاتے ہیں۔

 ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے تو حج فرض تھا ذی الحجہ کے مہینے میں لیکن مشرک ذی الحجہ کا نام محرم رکھ لیتے پھر برابر گنتی گنتے جاتے اور اس حساب سے جو ذی الحجہ آتا اس میں حج ادا کرتے پھر محرم کے نام سے خاموشی برت لیتے اس کا ذکر ہی نہ کرتے پھر لوٹ کر صفر نام رکھ دیتے پھر رجب کو جمادی الاخر پھر شعبان کو رمضان اور رمضان کو شوال پھر ذوالقعدہ کو شوال ذی الحجہ کو ذی القعدہ اور محرم کو ذی الحجہ کہتے اور اس میں حج کرتے۔ پھر اس کا اعادہ کرتے اور دو سال تک ہر ایک مہینے میں برابر حج کرتے۔

 جس سال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا اس سال مشرکوں کی اس گنتی کے مطابق دوسرے برس کا ذوالقعدہ کا مہینہ تھا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعہ پر ٹھیک ذوالحجہ کا مہینہ تھا اور اسی کی طرف آپ نے اپنے خطبے میں اشارہ فرمایا اور ارشاد ہوا :

 زمانہ گھوم پھر کر اسی ہئیت پر آ گیا ہے جس ہئیت پر اس وقت تھا جب زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے بنائے

لیکن یہ قول بھی درست نہیں معلوم ہوتا۔ اس وجہ سے کہ اگر ذی القعدہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حج ہوا تو یہ حج کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الاٌّكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِىءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ (۹:۳) یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آج کے حج اکبر کے دن مشرکوں سے علیحدگی اور بیزاری کا اعلان ہے۔ اس کی منادی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حج میں ہی کی گئی

 پس اگر یہ حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو حج کا دن نہ فرماتا اور صرف مہینوں کی تقدیم و تاخیر کو جس کا بیان اس آیت میں ہے ثابت کرنے کے لئے اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ تو اس کے بغیر بھی ممکن ہے۔ کیونکہ مشرکین ایک سال تو محرم الحرام کے مہینے کو حلال کر لیتے اور اس کے عوض ماہ صفر کو حرمت والا کر لیتے سال کے باقی مہینے اپنی جگہ رہتے۔ پھر دوسرے محرم کو حرام سمجھتے اور اس کی حرمت و عزت باقی رکھتے تاکہ سال کے چار حرمت والے مہینے جو اللہ کی طرف سے مقرر تھے ان کی گنتی میں موافقت کرلیں

پس کبھی تو حرمت والے تینوں مہینے جو پے درپے ہیں ان میں سے آخری ماہ محرم کی حرمت رکھتے کبھی اسے صفر کی طرف مؤخر کر دیتے۔

 رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلی حالت پر آ گیا ہے یعنی اس وقت جو مہینہ ان کے نزدیک ہے وہی مہینہ صحیح گنتی میں بھی ہے اس کا پورا بیان ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں واللہ اعلم۔

زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ  

 انہیں ان کے برے کام بھلے دکھائی دیئے گئے ہیں اور قوم کفار کی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا۔‏ (۳۷)

ابن ابی حاتم میں ہے کہ عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے مسلمان آپ کے پاس جمع ہوگئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثناء بیان فرما کر فرمایا :

مہینوں کی تاخیر شیطان کی طرف سے کفر کی زیادتی تھی کہ کافر بہکیں۔ وہ ایک سال محرم کو حرمت والا کرتے اور صفر کو حلت والا پھر محرم کو حلت والا کر لیتے

یہی ان کی وہ تقدیم تاخیر ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔

 امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السیرت میں اس پر بہت اچھا کلام کیا ہے جو بیحد مفید اور عمدہ ہے۔

 آپ تحریر فرماتے ہیں:

 اس کام کو سب سے پہلے کرنے والا علمس حذیفہ بن عبید تھا۔ پھر قیم بن عدی بن عامر بن ثعلبہ بن حارث بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ پھر اس کا لڑکا عباد پھر اس کا لڑکا قلع پھر اس کا لڑکا امیہ پھر اس کا لڑکا عوف پھر اس کا لڑکا ابو ثمامہ جنادہ اسی کے زمانہ میں اشاعت اسلام ہوئی۔

 عرب لوگ حج سے فارغ ہو کر اس کے پاس جمع ہوتے یہ کھڑا ہو کر انہیں لیکچر دیتا اور رجب ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کی حرمت بیان کرتا اور ایک سال تو محرم کو حلال کر دیتا اور محرم صفر کو بنا دیتا اور ایک سال محرم کو ہی حرمت والا کہہ دیتا کہ اللہ کی حرمت کے مہینوں کی گنتی موافق ہو جائے اور اللہ کا حرام حلال بھی ہو جائے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ

اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔

ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے۔ ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دور دراز کے سفر کے لئے تیار ہوگئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کے لئے سب سے فرما دیا کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی

 ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ کے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو۔

أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ 

 کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے۔‏ (۳۸)

کیا دنیا کی ان فانی چیزوں کی ہوس میں آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:

 اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت سے ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثبوات دیتا ہے

 آپ نے فرمایا بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر آپ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ دنیا جو گزر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔

 مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا :

بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا زیادہ بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے۔

إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

اگر تم نے کوچ نہ کیا تو تمہیں اللہ تعالیٰ دردناک سزا دیگا

پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے۔ ایک قبیلے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لئے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی۔

وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ

اور تمہارے سوا اور لوگوں کو بدل لائیگا، تم اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے

پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں اترانا مت کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کا دوسرے لوگوں کو مددگار کر دے گا۔ جو تم جیسے نہ ہوں گے۔ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں۔

وَإِن تَتَوَلَّوْاْ يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُونُواْ 

اور اگر تم روگردان ہو جاؤ تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور لوگوں کو لائے گا جو پھر تم جیسے نہ ہونگے۔ (۴۷:۳۸)

وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔‏ (۳۹)

 اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے۔

 کہا گیا ہے کہ یہ  آیت انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا (۹:۴۱) اور آیت مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ (۹:۱۲۰)  یہ سب آیتیں آیت وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً (۹:۱۲۲) سے منسوخ ہیں

 لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم۔

إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ

اگر تم ان (نبی ﷺ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے

جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے

تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں۔ یاد رکھو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ کے قتل، قید یا دیس نکالا دینے کی سازش کی تھی اور آپ اپنے سچے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تن تنہا مکہ شریف سے بحکم الہٰی تیز رفتاری سے نکلے تھے تو کون ان کا مددگار تھا؟ تین دن غار میں گزارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ شریف کا راستہ لیں۔

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو کوئی ایذاء پہنچائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔

فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا

پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں

مسند احمد میں ہے:

 حضرت ابوبکر بن ابوقحافہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غار میں کہا کہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا

 آپ ﷺنے فرمایا ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ ہے۔

 الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی۔

بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں۔

اس لئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی فرشتوں کے ذریعے

وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 

اس نے کافروں کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔‏ (۴۰)

اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا۔ شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لئے۔ دوسرا حمیت قومی کے لئے، تیسرا لوگوں کو خشو کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا جو کلمہ حق کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ راہ حق کا مجاہد ہے

 اللہ تعالیٰ انتقام لینے پر غالب ہے۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی روک سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے۔ کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے۔ اس کے سب اقوال افعال حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ۔

انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا

نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی اور بھاری بھرکم ہو تو بھی

کہتے ہیں کہ سورہ براۃ میں یہی آیت پہلے اتری ہے اس میں ہے کہ غزوہ تبوک کے لئے تمام مسلمانوں کو ہادی اُمم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکل کھڑے ہونا چاہئے اہل کتاب رومیوں سے جہاد کے لئے تمام مؤمنوں کو چلنا چاہئے خواہ دل مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا طبیعت پر گراں گزرے۔ بوڑھے جوان سب کو پیغمبر کا ساتھ دینے کا عام حکم ہوا کسی کا کوئی عذر نہ چلا ۔

ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا کوئی بیمار کا عذر کر دے گا تو یہ آیت اتری۔

حضرت ابوطلحہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی اور اس حکم کی تعمیل میں سر زمین شام میں چلے گئے اور نصرانیوں سے جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ جان بخشنے والے اللہ کو اپنی جان سپرد کر دی۔ رضی اللہ عنہ وارضاء

اور روایت میں ہے:

 ایک مرتبہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر آئے تو فرمانے لگے ہمارے رب نے تو میرے خیال سے بوڑھے جوان سب کو جہاد کے لئے چلنے کی دعوت دی ہے میرے پیارے بچو میرا سامان تیار کرو۔ میں ملک شام کے جہاد میں شرکت کے لئے ضرور جاؤں گا

 بچوں نے کہا ابا جی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک آپ نے حضور کی ماتحتی میں جہاد کیا۔ خلافت صدیقی میں آپ مجاہدین کے ساتھ رہے۔ خلافت فاروقی کے آپ مجاہد مشہور ہیں۔ اب آپ کی عمر جہاد کی نہیں رہی آپ گھر پر آرام کیجئے ہم لوگ آپ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلتے ہیں اور اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے ہیں

 لیکن آپ نہ مانے اور اسی وقت گھر سے روانہ ہوگئے سمندر پار جانے کے لئے کشتی لی اور چلے ہنوز منزل مقصود سے کئی دن کی راہ پر تھے جو سمندر کے عین درمیان روح پروردگار کو سونپ دی۔

نو دن تک کشتی چلتی رہی لیکن کوئی جزیرہ یاٹاپو نظر نہ آیا کہ وہاں آپ کو دفنایا جاتا۔ نو دن کے بعد خشکی پر اترے اور آپ کو سپرد لحد کیا اب تک نعش مبارک جوں کی توں تھی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ

اور بھی بہت سے بزرگوں سے خِفَافًا وَثِقَالًا کی تفسیر جوان اور بوڑھے مروی ہے۔

 الغرض جوان ہوں، بوڑھے ہوں، امیر ہوں، فقیر ہوں، فارغ ہوں، مشغول ہوں، خوش حال ہوں یا تنگ دل ہوں، بھاری ہوں یا ہلکے ہوں، حاجت مند ہوں، کاریگر ہوں، آسانی والے ہوں سختی والے ہوں پیشہ ور ہوں یا تجارتی ہوں، قوی ہوں یا کمزور جس حالت میں بھی ہوں بلاعذر کھڑے ہو جائیں اور راہ حق کے جہاد کے لئے چل پڑیں۔

 اس مسئلہ کی تفصیل کے طور پر ابو عمرو اوزاعی کا قول ہے کہ جب اندرون روم حملہ ہوا ہو تو مسلمان ہلکے پھلکے اور سوار چلیں۔ اور جب ان بندرگاہوں کے کناروں پر حملہ ہو تو ہلکے بوجھل سوار پیدل ہر طرح نکل کھڑے ہو جائیں۔

بعض حضرات کا قول ہے کہآیت فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ (۹:۱۲۲) سے یہ حکم منسوخ ہے۔ اس پر ہم پوری روشنی ڈالیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔

مروی ہے کہ ایک بھاری بدن کے بڑے شخص نے آپ سے اپنا حال ظاہر کر کے اجازت چاہی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور یہ آیت اتری۔

لیکن یہ حکم صحابہ پر سخت گزرا پھر جناب باری نے اسے آیت لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ (۹:۹۱) سے منسوخ کر دیا یعنی ضعیفوں بیماروں تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو اگر وہ اللہ کے دین اور شرع مصطفیٰ کے حامی اور طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔

حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اول غزوے سے لے کر پوری عمر تک سوائے ایک سال کے ہر غزوے میں موجود رہے اور فرماتے رہے کہ خفیف وثقیل دونوں کو نکلنے کا حکم ہے اور انسان کی حالت ان دو حالتوں سے سوا نہیں ہوتی۔

 حضرت ابو راشد حرانی کا بیان ہے:

 میں نے حضرت مقداد بن اسود سوار سرکار رسالت مآب کو حمص میں دیکھا کہ ہڈی اتر گئی ہے پھر بھی ہودج میں سوار ہو کر جہاد کو جا رہے ہیں تو میں نے کہا اب تو شریعت آپ کو معذور سمجھتی ہے آپ یہ تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں ؟

آپ نے فرمایا سنو سورۃ البعوث یعنی سورہ برأت ہمارے سامنے اتری ہے جس میں حکم ہے کہ ہلکے بھاری سب جہاد کو جاؤ۔

حضرت حیان بن زید شرعی کہتے ہیں کہ صفوان بن عمرو والی حمص کے ساتھ جراجمہ کی جانب جہاد کے لئے چلے، میں نے دمشق کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا کہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار وہ بھی آ رہے ہیں ان کی بھوئیں ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہیں شیخ فانی ہو چکے ہیں

میں نے پاس جا کر کہا چچا صاحب آپ تو اب اللہ کے نزدیک بھی معذور ہیں

یہ سن کر آپ نے اپنی آنکھوں پر سے بھوئیں ہٹائیں اور فرمایا بھتیجے سنو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری ہونے کی دونوں صورتوں میں ہم سے جہاد میں نکلنے کی طلب کی ہے۔ سنو جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے وہاں اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے پھر اس پر بعد از ثابت قدمی اللہ کی رحمت برستی ہے۔ سنو اللہ کی آزمائش شکر و صبر و ذکر اللہ اور توحید خالص سے ہوتی ہے۔

وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ

 اور راہ رب میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو

جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے

ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 

 یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو۔‏  (۴۱)

اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ تھوڑا سا خرچ ہو گا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے

خود الہ العالمین کا فرمان عالی شان ہے:

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ  ... وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ 

تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو

اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بےخبر ہو ۔  (۲:۲۱۶)

حضور نے ایک شخص سے فرمایا :

مسلمان ہو جا

اس نے کہا جی تو چاہتا نہیں

آپﷺ نے فرمایا گو نہ چاہے (مسند احمد)

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ

اگر جلد وصول ہونے والا مال و اسباب ہو یا اور ہلکا سا سفر ہوتا تو یہ ضرور آپ کے پیچھے ہو لیتے لیکن ان پر تو دوری اور دراز کی مشکل پڑ گئی

جو لوگ غزوہ تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنے جھوٹے اور بناوٹی عذر پیش کرنے لگے تھے۔ انہیں اس آیت میں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دراصل انہیں کوئی معذوری نہ تھی اگر کوئی انسان غنیمت اور قریب کا سفر ہوتا تو یہ ساتھ ہو لیتے لیکن شام تک کے لمبے سفر نے ان کے گھٹنے توڑ دیئے اور مشقت کے خیال نے ان کے ایمان کمزور کر دیئے۔

وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ  

 اب تو یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں قوت اور طاقت ہوتی تو ہم یقیناً آپ کے ساتھ نکلتے، یہ اپنی جانوں کو خود ہی ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ان کے جھوٹا ہونے کا سچا علم اللہ کو ہے۔‏  (۴۲)

 اب یہ آ کر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتا تو بھلا ہم شرف ہم رکابی چھوڑنے والے تھے؟

ہم تو جان و دل سے آپ کے قدموں میں حاضر ہو جاتے

 اللہ فرماتا ہے ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انہوں نے تو اپنے آپ کو غارت کر دیا۔

عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ  

اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دیدی بغیر اسکے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو جان لے ۔  (۴۳)

سبحان اللہ ، اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں؟ سخت بات کے سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جاتا ہے اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورہ نور میں کیا جاتا ہے اور ارشاد عالی ہوتا ہے:

فَإِذَا اسْتَـْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ 

پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں   (۲۴:۶۲)

یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تو بھی ہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں۔

اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے۔ نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی۔ اطاعت گزار تو حاضر ہو جاتے۔ نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے۔ کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں۔

لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۗ

اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے

اسی لئے جناب باری نے اس آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ حق کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں وہ تو جہاد کو موجب قربت الہٰیہ مان کر اپنی جان و املاک کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں

وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ 

اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔‏  (۴۴)

اللہ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے۔

إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ 

یہ اجازت تو تجھ سے وہی طلب کرتے ہیں جنہیں نہ اللہ پر ایمان ہے نہ آخرت کے دن کا یقین ہے جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے شک میں ہی سرگرداں ہیں ۔  (۴۵)

 بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت کے بارے میں شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوار نے کا کوئی رستہ نہ پائے گا۔

وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً

اگر ان کا ارادہ جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وہ اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے

عذر کرنے والوں کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گزرنے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا

وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ  

لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کیساتھ بیٹھے رہو۔ ‏  (۴۶)

دراصل اللہ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور قدرتی طور پر ان سے کہہ دیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو۔

لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ

اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لئے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے

بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں

ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا۔ یہ ادھر کی ادھر ادھر کی ادھر لگا بکر بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے۔ ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شرر انگیزیوں سے بےخبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مؤمنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے۔

مجاہد وغیرہ کا قول ہے:

 مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کے حامی اور ہمدرد ہیں یہ لوگ تمہاری جاسوسی کرتے رہتے ہیں اور تمہاری پل پل کی خبریں انہیں پہنچاتے رہتے ہیں۔

 لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ کو اس لئے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعضے وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لئے جاسوسی کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے۔

امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں:

 اجازت طلب کرنے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ نے انہیں دور ڈال دیا اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کے سامنے ان کی بات مان لینے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ وجاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتوں تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی۔ یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی

وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ 

 اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‏ (۴۷)

سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے۔ اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو! ان کا نہ نکلنا ہی غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے نہ خود جہاد کرتے نہ کرنے دیتے۔

اسی لئے فرمان ہے:

وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ 

اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھو ٹے ہیں (۶:۲۸)

ایک اور آیت میں ہے:

وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لأَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ 

اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر ان کو اب سنادے تو ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے   (۸:۲۳)

اور جگہ ہے:

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ  ... وَلَهَدَيْنَـهُمْ صِرَطاً مُّسْتَقِيماً  

اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے    

اور اگر یہ وہی کریں جسکی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً  یہی انکے لئے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو  اور تب تو انہیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں اور یقیناً انہیں راہ راست دکھا دیں۔‏ (۴:۶۶،۶۸) 

ایسی آیتیں اور بھی بہت ساری ہیں۔

لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ 

یہ تو اس سے پہلے بھی فتنے کی تلاش کرتے رہے ہیں اور تیرے لئے کاموں کو الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آپہنچا اور اللہ کا حکم غالب آگیا باوجودیکہ وہ ناخوشی میں ہی رہے۔‏ (۴۸)

اللہ تعالیٰ منافقین سے نفرت دلانے کے لئے فرما رہا ہے کہ کیا بھول گئے مدتوں تو یہ فتنہ و فساد کی آگ سلگاتے رہے ہیں اور تیرے کام کے الٹ دینے کی بیسیوں تدبیریں کر چکے ہیں مدینے میں آپ کا قدم آتے ہی تمام عرب نے ایک ہو کرمصیبتوں کی بارش آپ پر برسا دی۔ باہر سے وہ چڑھ دوڑے اندر سے یہود مدینہ اور منافقین مدینہ نے بغاوت کر دی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں سب کی کمانیں توڑ دیں ان کے جوڑ ڈھیلے کر دیئے ان کے جوش ٹھنڈے کر دیئے بدر کے معرکے نے ان کے ہوش حواس بھلا دیئے اور ان کے ارمان ذبح کر دیئے۔

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے صاف کہہ دیا کہ بس اب یہ لوگ ہمارے بس کے نہیں رہے اب تو سوا اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر میں اسلام کی موافقت کی جائے دل میں جو ہے سو ہے وقت آنے دو دیکھا جائے گا اور دکھا دیا جائے گا۔

 جیسے جیسے حق کی بلندی اور توحید کا بول بالا ہوتا گیا یہ لوگ حسد کی آگ میں جلتے گئے آخر حق نے قدم جمائے، اللہ کا کلمہ غالب آ گیا اور یہ یونہی سینہ پیٹتے اور ڈنڈے بجاتے رہے۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ

ان میں سے کوئی تو کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے مجھے فتنے میں نہ ڈالیئے، آگاہ رہو وہ فتنے میں پڑ چکے ہیں

جد بن قیس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سال نصرانیوں کے جلا وطن کرنے میں تو ہمارا ساتھ دے گا؟

تو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو معاف رکھئے میری ساری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بےحد شیدائی ہوں عیسائی عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے تو اپنا نفس روکا نہ جائے گا۔

 آپ ﷺنے اس سے منہ موڑ لیا

 اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ فتنے میں تو پڑا ہوا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا جہاد سے منہ موڑنا یہ کیا کم فتنہ ہے؟

یہ منافق بنو سلمہ قبیلے کا رئیس اعظم تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس قبیلے کے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟

تو انہوں نے کہا جد بن قیس جو بڑا ہی شوم اور بخیل ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا بخل سے بڑھ کر اور کیا بری بیماری ہے؟

 سنو اب سے تمہارا سردار نوجوان سفید اور خوبصورت حضرت بشر بن برا بن معرور ہیں۔

وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

 اور یقیناً دوزخ کافروں کو گھیر لینے والی ہے    (۴۹)

جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے نہ اس سے وہ بچ سکیں نہ بھاگ سکیں نہ نجات پا سکیں۔

إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ 

آپ کو اگر کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں برا لگتا ہے اور کوئی برائی پہنچ جائے تو کہتے ہیں ہم نے اپنا معاملہ پہلے سے درست کر لیا تھا، مگر وہ تو بڑے ہی اتراتے ہوئے لوٹتے ہیں ۔  (۵۰)

ان بدباطن لوگوں کی اندرونی خباثت کا بیان ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت سے، ان کی بھلائی اور ترقی سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور اگر اللہ نہ کرے یہاں اس کے خلاف ہوا تو بڑے شور و غل مچاتے ہیں گاگا کر اپنی چالاکی کے افسانے گائے جاتے ہیں کہ میاں اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچے رہے مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگتے ہیں۔

قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کے کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی وہ ہمارا کارساز اور مولیٰ ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو جواب دے کر رنج راحت اور ہم خود اللہ کی تقدیر اور اس کی منشا کے ماتحت ہیں وہ ہمارا مولیٰ ہے وہ ہمارا آقا ہے وہ ہماری پناہ ہے

وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ  

مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے   (۵۱)

 ہم مؤمن ہیں اور مؤمنوں کا بھروسہ اسی پر ہوتا ہے وہ ہمیں کافی ہے بس ہے وہ ہمارا کار ساز ہے اور بہترین کار ساز ہے۔

قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ

کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں جس چیز کا انتظار کر رہے ہو وہ دو بھلائیوں میں سے ایک ہے

مسلمانوں کے جہاد میں دو ہی انجام ہوتے ہیں اور دونوں ہر طرح اچھے ہیں اگر شہادت ملی تو جنت اپنی ہے اور اگر فتح ملی تو غنیمت و اجر ہے۔

وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَنْ يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ

اور ہم تمہارے حق میں اس کا انتظار کرتے ہیں کہ یا اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا تمہیں دے یا ہمارے ہاتھوں سے

پس اے منافقو تم جو ہماری بابت انتظار کر رہے ہو وہ انہی دو اچھائیوں میں سے ایک کا ہے اور ہم جس بات کا انتظار تمہارے بارے میں کر رہے ہیں وہ دو برائیوں میں سے ایک کا ہے یعنی یا تو یہ کہ اللہ کا عذاب براہ راست تم پر آ جائے یا ہمارے ہاتھوں سے تم پر اللہ کی مار پڑے کہ قتل و قید ہو جاؤ۔

فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُمْ مُتَرَبِّصُونَ 

 پس ایک طرف تم منتظر رہو دوسری جانب تمہارے ساتھ ہم بھی منتظر ہیں۔‏  (۵۲) 

اچھا اب تم اپنی جگہ اور ہم اپنی جگہ منتظر رہیں دیکھیں پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟

قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ  

کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی طرح بھی خرچ کرو قبول تو ہرگز نہ کیا جائے گا یقیناً تم فاسق لوگ ہو۔‏  (۵۳)

 تمہارے خرچ کرنے کا اللہ بھوکا نہیں تم خوشی سے دو تو، اور ناراضگی سے دو تو، وہ تو قبول فرمانے کا نہیں اس لئے کہ تم فاسق لوگ ہو۔

وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ

کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں

تمہارے خرچ کی عدم قبولیت کا باعث تمہارا کفر ہے اور اعمال کی قبولیت کی شرط کفر کا نہ ہونا بلکہ ایمان کا ہونا ہے ساتھ ہی کسی عمل میں تمہارا نیک قصد اور سچی ہمت نہیں۔

وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ  

اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں ۔  (۵۴)

 نماز کو آتے ہو تو بھی بجھے دل سے، گرتے پڑتے مرتے پڑتے سست اور کاہل ہو کر۔ دیکھا دیکھی مجمع میں دو چار دے بھی دیتے ہو تو مرے جی سے دل کی تنگی سے۔

صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ نہیں تھکتا لیکن تم تھک جاؤ اللہ پاک ہے وہ پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے

 متقیوں کی اعمال قبول ہوتے ہیں تم فاسق ہو تمہارے اعمال قبولیت سے گرے ہوئے ہیں۔

فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ

پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں

ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ۔ ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ  

اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں ‘ ان پر نگاہ نہ کرنا۔  (۲۰:۱۳۱)

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ ۔ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ  بَلْ لَا يَشْعُرُونَ  

کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس سے) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں '  (۲۳:۵۵،۵۶)

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے

یہ تو ان کے لئے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو۔

قتادہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم مؤخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے

 پہلا قول حضرت حسن بصری کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔

وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ 

 اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں۔  (۵۵)

 اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی۔ یوں ہی بتدریج پکڑ لئے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا یہی حشمت و جاہت مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا۔

وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ 

یہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تمہاری جماعت کے لوگ ہیں، حالانکہ وہ دراصل تمہارے نہیں بات صرف اتنی ہے یہ ڈرپوک لوگ ہیں   (۵۶)

ان کی تنگ دلی ان کی غیر مستقل مزاجی ان کی سراسیمگی اور پریشانی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کا یہ حال ہے کہ تمہارے پاس آ کر تمہارے دل میں گھر کرنے کے لئے اور تمہارے ہاتھوں سے بچنے کے لئے بڑی لمبی چوڑی زبردست قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ہم تمہارے ہیں ہم مسلمان ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے یہ صرف خوف و ڈر ہے جو ان کے پیٹ میں درد پیدا کر رہا ہے۔

لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ 

اگر یہ کوئی بچاؤ کی جگہ یا کوئی غار یا کوئی بھی سر گھسانے کی جگہ پا لیں تو ابھی اس طرف لگام توڑ کر الٹے بھاگ چھوٹیں ۔  (۵۷)

 اگر آج انہیں اپنے بچاؤ کے لئے کوئی قلعہ مل جائے اگر آج یہ کوئی محفوظ غار دیکھ لیں یا کسی اچھی سرنگ کا پتہ انہیں چل جائے تو یہ تو سارے کے سارے دم بھر میں اس طرف دوڑ جائیں تیرے پاس ان میں سے ایک بھی نظر نہ آئے کیونکہ انہیں تجھ سے کوئی محبت یا انس تو نہیں ہے یہ تو ضرورت مجبوری اور خوف کی بناء پر تمہاری چاپلوسی کر لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جوں جوں اسلام ترقی کر رہا ہے یہ جھکتے چلے جا رہے ہیں مؤمنوں کو ہر خوشی سے یہ جلتے تڑپتے ہیں ان کی ترقی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ موقعہ مل جائے تو آج بھاگ جائیں۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ

ان میں وہ بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں

بعض منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے کہ آپ مال زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ۔ اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا

فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ 

اگر انہیں اس میں مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً ہی بگڑ کھڑے ہوئے ۔ (۵۸)

انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں۔ اگر اتفاق سے یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے جاتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ یہ عدل نہیں اس پر یہ آیت اتری

اور روایت میں ہے:

ایک نو مسلم صحرائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ گر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا۔

آپ ﷺنے فرمایا تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا؟

 پھر آپ ﷺنے فرمایا اس سے اور اس جیسوں سے بچو میری اُمت میں ان جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو ۔ پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو۔

 آپ ﷺفرماتے ہیں:

 اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں۔

جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ ہر قوص نامی ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر

 آپ ﷺنے فرمایا اگر میں بھی عدل نہ کروں تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی۔

جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ ﷺنے فرمایا:

 اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہونگی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے تمہیں جہاں بھی مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ  

اگر یہ لوگ اللہ اور رسول کے دیئے ہوئے پر خوش رہتے اور کہہ دیتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی،

ہم تو اللہ کی ذات سے ہی توقع رکھنے والے ہیں۔‏  (۵۹)

 پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوادیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا۔ ہماری امیدیں ذات الہٰی سے ہی وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا۔

پس ان میں اللہ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہئے۔ توکل ذات واحد پر رکھے، اسی کو کافی وافی سمجھے، رغبت اور توجہ، لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے۔ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجالانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑ دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے۔

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ

صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں

اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے

اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے۔ ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی

 ابو داؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آن کر آپ سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے

آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کر دی ہے آٹھ مصرف مقرر کر دیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں۔

 امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے

 اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں۔

 عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر۔

 ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم۔

فقیروں کو سب سے پہلے اس لئے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے۔ گو امام ابوحنیفہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو۔:

 ابن علیہ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کالفظ ہے اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو

 لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں۔

 اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں

فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو

اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا۔

 قتادہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو۔ ابراہیم کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں سفیان ثوری کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے۔ عکرمہ کہتے ہیں مسلمانوں فقراء کو مساکین نہ کہو۔ مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں۔

 اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں۔

فقراء

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 صدقہ مال دار اور تندرست توانا پر حلال نہیں۔

کچھ شخصوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقے کا مال مانگا آپ نے بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا قوی تندرست دیکھ کر فرمایا :

اگر تم چاہو تو تمہیں دے دوں مگر امیر شخص کا اور قوی طاقت اور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔

مساکین

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں۔

 لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکین کون لوگ ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا جو بےپرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے۔

 صدقہ وصول کرنے والے

یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتے۔

عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے۔

 آپ ﷺنے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔ جنکے دل بہلائے جاتے ہیں۔

 ان کی کئی قسمیں ہیں

بعض کو تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ کی سب سے زیادہ محبت پیدا کر دی حالانکہ پہلے سب سے بڑا دشمن آپ کا میں ہی تھا۔

بعض کو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا:

 میں ایک کو دیتا ہوں دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اوندھے منہ جہنم میں گر پڑے۔

ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچا سونا مٹی سمیت آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا۔ اقرع بن حابس، عینیہ بن بدر، عقلمہ بن علاچہ اور زید خیر اور فرمایا میں ان کی دلجوئی کے لئے انہیں دے رہا ہوں۔

 بعض کو اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے

ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام وفروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر و اللہ اعلم۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان اللہ ان کے ماتحت ہیں۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے۔

فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں۔

آزادگی گردن

 آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرط کر لی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہو جائیں

 اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔

غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے

احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا :

 آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی۔

 آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی۔

اس لئے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے

 قرآن فرماتا ہے:

وَمَا تُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ 

تمہیں اسکا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے ۔  (۳۷:۳۹)

حدیث میں ہے:

 تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے:

- وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو

- وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو

-  وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو

کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے

آپ ﷺنے فرمایا نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر۔

 اس نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں؟

آپﷺ نے فرمایا

- نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے۔

-  اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے۔

قرض دار

قرض دار کی بھی کئی قسمیں ہیں

- ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے

- کسی کے قرض کا آپ  ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہو جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے

- یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کر لے

 پس انہیں بھی مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں۔

اس مسئلے کی اصل قبیصہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے:

 میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہیں دیں گے

پھر فرمایا قبیصہ سن تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے

- ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے۔

- دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہو جائے اسے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہو جائے۔

- تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گزرنے لگے اور اس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہو جائیں کہ ہاں بیشک فلاں شخص پر فاقے گزرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے۔

 اس کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے (مسلم شریف)

ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الہٰی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں۔ (مسلم)

آپﷺ فرماتے ہیں:

 ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کر دی؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے

 وہ جواب دے گا کہ اللہ تجھے خوب علم ہے میں نے نہ اس کی رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آ گئی

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا (مسند احمد)

راہ الہٰی میں

- راہ الہٰی میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا۔

- حج بھی راہ الہٰی میں داخل ہے۔

- مسافر جو سفر میں بےسروسامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر  پہنچ سکے’ گو وہ وہاں مالدار ہی ہو۔

- یہی حکم ان کا بھی ہے جو اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمد و رفت کے لئے کافی ہو۔

آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابو داؤد کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مالداروں کے

- ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو

- دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے

- تیسرا قرض دار

- چوتھا راہ الہٰی کا غازی مجاہد،

- پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے

 اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو یا سفر میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے۔

فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ  

فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‏ (۶۰)

زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقدیر اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنا۔

 اللہ تعالیٰ ظاہر باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے۔ وہ اپنے قول فعل شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے۔

وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ

ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کان کا کچا ہے،

منافقوں کی ایک جماعت بڑی موذی ہے اپنے باتوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچاتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ نبی تو کانوں کا بڑا ہی کچا ہے جس سے جو سنا مان لیا جب ہم اس کے پاس جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے وہ ہماری بات کا یقین کر لے گا۔

قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لئے ہیں وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے،

اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بہتر کانوں والا بہترین سننے والا ہے وہ صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے وہ اللہ کی باتیں مانتا ہے، اور با ایمان لوگوں کی سچائی بھی جانتا ہے وہ مؤمنوں کے لئے رحمت ہے

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ  

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے۔‏ (۶۱)

اور بے ایمانوں کے لئے اللہ کی حجت ہے رسول کے ستانے والوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ 

محض تمہیں خوش کرنے کے لئے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں حالانکہ اگر یہ ایمان دار ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے۔‏ (۶۲)

واقعہ یہ ہوا تھا کہ منافقوں میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ہمارے سردار اور رئیس بڑے ہی عقل مند دانا اور تجربہ کار ہیں اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی باتیں حق ہوتیں تو یہ کیا ایسے بیوقوف تھے کہ انہیں نہ مانتے؟

 یہ بات ایک سچے مسلمان صحابی نے سن لی اور اس نے کہا واللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں بالکل سچ ہیں اور نہ ماننے والوں کی بیوقوفی اور کوڑ مغز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

جب یہ صحابی دربار نبوت میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ بیان کیاتو  آپ ﷺنے اس شخص کو بلوا بھیجا

 لیکن وہ سخت قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ میں نے تو یہ بات کہی ہی نہیں یہ تو مجھ پر تہمت باندھتا ہے

 اس صحابی نے دعا کی کہ پروردگار تو سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دکھا اس پر یہ آیت شریف نازل ہوئی۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ۚ ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ  

کیا یہ نہیں جانتے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لئے یقیناً دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، یہ زبردست رسوائی ہے۔  (۶۳)  ‏

 کیا ان کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ اور رسول کے مخالف ابدی اور جہنمی ہیں۔

 ذلت و رسوائی عذاب دوزخ بھگتنے والے ہیں اس سے بڑھ کر شومی طالع اس سے زیادہ رسوائی اس سے بڑھکر شقاوت اور کیا ہو گی؟

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ

منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔

آپس میں بیٹھ کر باتیں تو گانٹھ لیتے لیکن پھر خوف زدہ رہتے کہ کہ کہیں اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو بذریعہ وحی الہٰی خبر نہ ہو جائے ا

ور آیت میں ہے:

وَإِذَا جَآءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ  ... يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمَصِيرُ 

اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا

اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا ان کے لئے جہنم کافی سزا ہے جس میں یہ جائیں گے سو وہ برا ٹھکانا ہے۔‏ (۵۸:۸)

قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ 

 کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو۔‏ (۶۴)

یہاں فرماتا ہے دینی باتوں اور مسلمانوں کی حالت پر دل کھول کر مذاق اڑالو۔ اللہ بھی وہ راز افشاء کر دے گا جو تمہارے دلوں میں ہے۔ یاد رکھو ایک دن رسوا اور ذلیل ہو کر رہو گے۔

چنانچہ فرمان ہے:

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ ... وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِى لَحْنِ الْقَوْلِ 

 کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے حسد اور کینوں کو ظاہر ہی نہ کر دے،

اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو تجھے دکھا دیتے پس تو انہیں ان کے چہروں سے ہی پہچان لیتا اور یقیناً تو انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لے گا۔  (۴۷:۲۹،۳۰)

یہ بیمار دل لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے دلوں کی بدیاں ظاہر ہی نہ ہوں گی۔ ہم تو انہیں اس قدر فضیحت کریں گے اور ایسی نشانیاں تیرے سامنے رکھ دیں گے کہ تو ان کے لب و لہجے سے ہی انہیں پہچان لے گا۔

 اس سورت کا نام ہی سورۃ الفاضحہ ہے اس لئے کہ اس نے منافقوں کی قلعی کھول دی۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ

اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔

ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے شکم دار شیخی باز اور بڑے فضول اور بزدل ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ ہم تو یونہی وقت گزاری کے لئے ہنس رہے تھے

قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ 

 کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔  (۶۵)

آپ ﷺنے فرمایا ہاں تمہارے ہنسی کے لئے اللہ رسول اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی دیں گے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا معذرت کرتا ساتھ ساتھ جا رہا تھا آپ اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے۔ جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا۔

سیرت ابن اسحاق میں ہے :

 تبوک جاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور فحش بن حمیر وغیرہ تھے یہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی کو عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے۔

 ان پر ان کے دوسرے سردار فحش نے کہا بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے۔ آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا ہی رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار سے فرمایا جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ باتیں کر رہے تھے۔

 حضرت عمارؓ نے جا کر ان سے یہ کہا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے کہ حضور ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی، ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن فحش بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں۔

پس اس سے جناب باری نے درگزر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگزر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل لیا عبدالرحمٰن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرنا کہ یہ دھبہ دھل جائے چنانچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہید کر دیئے گئے اور ان کی نعش بھی نہ ملی رضی اللہ عنہ ورضاء۔

 ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دوربینی کو تو دیکھئے

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر مطلع کر دیا تو یہ صاف منکر ہوگئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے

ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہو گا یہ کہا کرتا تھا کہ یا اللہ میں تیرے کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جب بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگتا ہے۔ پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے

 یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تمام شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن انکی نعش کا پتہ ہی نہ چلا۔

لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ

تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے

جناب باری کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملاکہ اب بہانے نہ بناؤ تم زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہوگئے یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ رسول اور قرآن کی ہنسی اڑائی۔

إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ  

اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے   (۶۶)

ہم اگر کسی سے درگزر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہونے کا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس کافرانہ گفتگو کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنا پڑے گی۔

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ

تمام منافق مرد اور عورت آپس میں ایک ہی ہیں یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں

منافقوں کی خصلتیں مؤمنوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہیں۔

مؤمن بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں منافق برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلائیوں سے منع کرتے ہیں۔

مؤمن سخی ہوتے ہیں منافق بخیل ہوتے ہیں۔

نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ 

یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا بیشک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں۔‏ (۶۷)

مؤمن ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں۔ منافق یاد الہٰی بھلائے رہتے ہیں۔اسی کے بدلے اللہ بھی ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جیسے کسی کو کوئی بھول گیا ہو قیامت کے دن یہی ان سے کہا جائے گا :

وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هَـذَا  

آج ہم تمہیں اس طرح بھلا دیں گے جس طرح تم ہماری ملاقات کے اس دن کو بھولے ہوئے تھے  (۴۵:۳۴)

وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ

اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں، عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں،

منافق راہ حق سے دور ہوگئے ہیں گمراہی کے چکر دار بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں۔ ان منافقوں اور کافروں کی ان بداعمالیوں کی سزا ان کے لئے اللہ تعالیٰ جہنم کو مقرر فرما چکا ہے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔

هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ 

وہی انہیں کافی ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور ان ہی کے لئے دائمی عذاب ہے۔‏ (۶۸)

 وہاں کا عذاب انہیں کافی ہوگا۔ انہیں رب رحیم اپنی رحمت سے دور کر چکا ہے اور ان کے لئے اس نے دائمی اور مستقل عذاب رکھے ہیں۔

كَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ

مثل ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے تم سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال اولاد والے تھے پس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا

خَلَاقِ سے مراد یہاں دین ہے۔

 جیسے اگلے لوگ جھوٹ اور باطل میں کودتے پھاندتے رہے۔ ایسے ہی ان لوگوں نے بھی کیا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ  فرماتے ہیں خَلَاقِ سے مراد دین ہے۔ اور تم نے بھی اسی طرح کا خوض کیا جس طرح کا انہوں نے۔

 لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی طرح؟

آپ نے فرمایا اور لوگ ہی ہیں کون؟

 اس حدیث کے مفہوم پر شواہد صحیح احادیث میں بھی ہیں۔

كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ

جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح مذاقانہ بحث کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی

انکے یہ فاسد اعمال اکارت ہوگئے۔

أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ 

ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوگئے یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں۔‏ (۶۹)

نہ دنیا میں سود مند ہوئے نہ آخرت میں ثواب دلانے والے ہیں۔ یہی صریح نقصان ہے کہ عمل کیا اور ثواب نہ ملا۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 جیسے آج کی رات کل کی رات سے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح اس اُمت میں بھی یہودیوں کی مشابہت آگئی

میرا تو خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَتَّبِعُنَّهُمْ حَتَّى لَوْ دَخَلَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ جُحْرَ ضَبَ لَدَخَلْتُمُوه

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم ان کی پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ جانور کے سوراخ میں داخل ہوا ہے تو تم بھی اس میں گھسو گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کے طریقوں کی تابعداری کرو گے بالکل بالشت بہ بالشت اور ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی کے بل میں گھسے ہیں تو یقیناً تم بھی گھسو گے

 لوگوں نے پوچھا اس سے مراد آپ کی کون لوگ ہیں؟

 کیا اہل کتاب؟

 آپ ﷺنے فرمایا اور کون؟

اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو قرآن کے ان لفظوں کو پڑھ لو

كَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً

أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ۚ

کیا انہیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں، قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور اہل مؤتفکات (الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والوں) کی

ان بدکردار منافقوں کو وعظ سنایا جا رہا ہے کہ اپنے سے پہلے کے اپنے جیسوں کے حالات پر عبرت کی نظر ڈالو۔ دیکھو کہ نبیوں کی تکذیب کیا پھل لائی؟

 قوم نوح کا غرق ہونا اور سوا مسلمانوں کے کسی کا نہ بچنا یاد کرو ۔

 عادیوں کا ہود علیہ السلام کے نہ ماننے کی وجہ سے ہوا کے جھونکوں سے تباہ ہونا یاد کرو،

 ثمودیوں کا حضرت صالح علیہ السلام کے جھٹلانے اور اللہ کی نشانی اونٹنی کے کاٹ ڈالنے سے ایک جگر دوز کڑاکے کی آواز سے تباہ و بربار ہونا یاد کرو۔

 ابراہیم علیہ السلام کا دشمنوں کے ہاتھوں سے بچ جانا اور ان کے دشمنوں کا غارت ہونا، نمرود بن کنعان بن کوش جیسے بادشاہ کا مع اپنے لاؤ لشکر کے تباہ ہونا نہ بھولو۔

وہ سب لعنت کے مارے بےنشان کر دیئے گئے،

قوم شعیب انہی بدکرداریوں اور کفر کے بدلے زلزلے اور سائبان والے دن کے عذاب سے تہ و بالا کر دی گئی۔ جو مدین کی رہنے والی تھی۔

قوم لوط جن کی بستیاں الٹی پڑی ہیں مدین اور سدوم وغیرہ

وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى  

اور مؤتفکہ (شہر یا الٹی ہوئی بستیوں کو) اسی نے الٹ دیا۔‏  (۵۳:۵۳)

 اللہ نے انہیں بھی اپنے نبی لوط کے ماننے اور اپنی بدفعلی نہ چھوڑنے کے باعث ایک ایک کو پیوند زمین کر دیا۔

أَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ 

ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیلیں لے کر پہنچے اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا۔ (۷۰)

 ان کے پاس ہمارے رسول ہماری کتاب اور کھلے معجزے اور صاف دلیلیں لے کر پہنچے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔ بالآخر اپنے ظلم سے آپ برباد ہوئے۔

 اللہ تعالیٰ نے تو حق واضح کر دیاکتاب اتار دی رسول بھیج دیئے حجت ختم کردی لیکن یہ رسولوں کے مقابلے پر آمادہ ہوئے کتاب اللہ کی تعمیل سے بھاگے حق کی مخالفت کی پس لعنت رب اتری اور انہیں خاک سیاہ کر گئی۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ

مؤمن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں

منافقوں کی بدخصلتیں بیان فرما کر مسلمانوں کی نیک صفتیں بیان فرما رہا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ایک دوسرے کا دست و بازو بنے رہتے ہیں صحیح حدیث میں ہے :

 مؤمن مؤمن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے

 آپ ﷺنے یہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کردکھا بھی دیا۔

 اور صحیح حدیث میں ہے:

مؤمن اپنی دوستی اور سلوک میں مثل ایک جسم کی مانند ہیں کہ ایک حصے کو بھی اگر تکلیف ہو تو تمام جسم بیماری اور بیداری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں

یہ پاک نفس لوگوں اوروں کی تربیت سے بھی غافل نہیں رہتے۔ سب کو بھلائیاں دکھاتے ہیں اچھی باتیں بتاتے ہں برے کاموں سے بری باتوں سے امکان بھر روکتے ہیں۔

حکم الہٰی بھی یہی ہے۔

وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ  

تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے   (۳:۱۰۴)

وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ

نمازوں کی پابندی بجا لاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں

یہ نمازی ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی زکوٰۃ بھی دیتے ہیں تاکہ ایک طرف اللہ کی عبات ہو دوسری جانب مخلوق کی دلجوئی ہو۔ اللہ رسول کی اطاعت ہی ان کا دلچسپ مشغلہ ہے جو حکم ملا بجا لائے جس سے روکا رک گئے۔

أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ  

یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔‏  (۷۱)

 یہی لوگ ہیں جو رحم الہٰی کے مستحق ہیں۔ یہی صفتیں ہیں جن سے اللہ کی رحمت انکی طرف لپکتی ہے۔ اللہ عزیز ہے وہ اپنے فرماں برداروں کی خود بھی عزت کرتا ہے اور انہیں ذی عزت بنا دیتا ہے۔

 دراصل عزت اللہ ہی کے لئے ہے اور اس نے اپنے رسولوں اور اپنے ایماندار غلاموں کو بھی عزت دے رکھی ہے اس کی حکمت ہے کہ ان میں یہ صفتیں رکھیں اور منافقوں میں وہ خصلتیں رکھیں، اس کی حکمت کی تہہ کو کون پہنچ سکتا ہے؟

 جو چاہے کرے وہ برکتوں اور بلندیوں والا ہے۔

وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ

ان ایماندار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں

اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں،

مؤمنو کی ان نیکیوں پر جو اجر و ثواب انہیں ملے گا ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ابدی نعمتیں ہمیشگی کی راحتیں باقی رہنے والی جنتیں جہاں قدم قدم پر خوشگوار پانی کے چشمے ابل رہے ہیں جہاں بلند و بالاخوبصورت مزین صاف ستھرے آرائش و زیبائش والے محلات اور مکانات ہیں۔

حضور ﷺ فرماتے ہیں:

 دو جنتیں تو صرف سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ بھی وہاں ہے سب سونے ہی سونے کا ہے

 اور دو جنتیں چاندی کی ہیں برتن بھی اور کل چیزیں بھی ان می

ں اور دیدارالہٰی میں کوئی حجاب بجز اس کبریائی کی چادر کے نہیں جو اللہ جل وعلا کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے۔

 اور حدیث میں ہے:

مؤمن کے لئے جنت میں ایک خیمہ ہو گا ایک ہی موتی کا بنا ہوا اس کا طول ساٹھ میل کا ہو گا مؤمن کی بیویاں وہیں ہوں گی جن کے پاس یہ آتاجاتا رہے گا لیکن ایک دوسرے کو دکھائی نہ دیں گی۔

 آپﷺ کا فرمان ہے:

 جو اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے نماز قائم رکھے رمضان کے روزے رکھے اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے اس نے ہجرت کی ہو یا اپنے وطن میں ہی رہا ہو

 لوگوں نے کہا پھر ہم اوروں سے بھی یہ حدیث بیان کر دیں؟

آپﷺ نے فرمایا :

جنت میں ایک سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ کے مجاہدوں کے لئے بنائے ہیں ہر دو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں۔ پس جب بھی تم اللہ سے جنت کا سوال کرو توجنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے بہتر جنت ہے جنتوں کی سب نہریں وہیں سے نکلتی ہیں اس کی چھت رحمٰن کا عرش ہے

 فرماتے ہیں۔

 اہل جنت جنتی بالاخانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے چمکتے دھمکتے ستاروں کو دیکھتے ہو۔

یہ بھی معلوم رہے کہ تمام جنتوں میں خالص ایک اعلیٰ مقام ہے جس کا نام وسیلہ ہے کیونکہ وہ عرش سے بالکل ہی قریب ہے یہ جگہ ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔

 آپ ﷺفرماتےہیں:

 جب تم مجھ پر درود پڑھو تو اللہ سے میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو۔

 پوچھا گیا وسیلہ کیا ہے؟

 فرمایا جنت کا وہ اعلیٰ درجہ جو ایک ہی شخص کو ملے گا اور مجھے اللہ کی ذات سے قوی امید ہے وہ شخص میں ہی ہوں۔

آپﷺ فرماتے ہیں:

مؤذن کی اذان کا جواب دو جیسے کلمات وہ کہتا ہے تم بھی کہو پھر

مجھ پر درود پڑھو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے

 پھر میرے لئے وسیلہ طلب کرو اور جنت کی ایک منزل ہے جو تمام مخلوق الہٰیہ میں سے ایک ہی شخص کو ملے گی مجھے امید ہے کہ وہ مجھے ہی عنایت ہو گی جو شخص میرے لئے اللہ سے اس وسیلے کی طلب کرے اس کیلئے میری شفاعت روز قیامت حلال ہو گئی۔

 فرماتے ہیں:

 میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرو دنیا میں یہ جو بھی میرے لئے وسیلے کی دعا کرے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور سفارشی بنوں گا۔

صحابہؓ نے ایک دن آپ سے پوچھا کہ یارسول اللہ ہمیں جنت کی باتیں سنائیے انکی بنا ءکس چیز کی ہے؟

 فرمایا :

سونے چاندی کی اینٹوں کی، اس کا گارا خالص مشک ہے، اس کے کنکر لولو اور یاقوت ہے اس کی مٹی زعفران ہے اس میں جو جائے گا وہ نعمتوں میں ہو گا جو کبھی خالی نہ ہوں وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا جس کے بعد موت کا کھٹکا بھی نہیں نہ اس کے کپڑے خراب ہوں نہ اس کی جوانی ڈھلے۔

فرماتے ہیں :

جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندر کا حصہ باہر سے نظر آتا ہے اور باہر کا حصہ اندر سے۔

 ایک اعرابی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بالا خانے کن کے لئے ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا جو اچھا کلام کرے کھانا کھلائے روزے رکھے اور راتوں کو لوگوں کے سونے کے وقت تہجد کی نماز ادا کرے۔

فرماتے ہیں کوئی ہے جو جنت کا شائق اور اس کے لئے محنت کرنے والا ہو؟

واللہ جنت کی کوئی چار دیواری محدود کرنے والا نہیں وہ تو ایک چمکتا ہوا بقعہ نور ہے اور مہکتا ہوا گلستان ہے اور بلند وبالا پاکیزہ محلات ہیں اور جاری و ساری نہریں ہیں اور گدرائے ہوئے اور پکے میوؤں کے خوشے ہیں اور جوش جمال لدھے پھندے، سبزہ ہے پھیلا ہوا، کشادگی اور راحت ہے، امن اور چین ہے، نعمت اور رحمت ہے، عالیشان خوش منظر کوشک اور حویلیاں ہیں۔

یہ سن کر لوگ بول اٹھے کہ حضور ہم سب اس جنت کے مشتاق اور اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

 آپ ﷺنے فرمایا انشاء اللہ کہو پس لوگوں نے انشاء اللہ کہا۔

وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے یہی زبردست کامیابی ہے۔‏ (۷۲)

پھر فرماتا ہے ان تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بالا نعمت اللہ کی رضامندی ہے۔

فرماتے ہیں :

اللہ تعالیٰ عزوجل جنتیوں کو پکارے گا کہاے اہل جنت!

وہ کہیں گے

لبیک ربنا وسعدیک والخیر فی یدیک۔

 پوچھے گا کہو تم خوش ہوگئے؟

وہ جواب دیں گے کہ خوش کیوں نہ ہوتے تو نے تو اے پروردگار ہمیں وہ دیا جو مخلوق میں سے کسی کو نہ ملا ہو گا

اللہ تعالیٰ فرمائے گا لو میں تمہیں اس سے بہت ہی افضل و اعلیٰ چیز عطا فرماتا ہوں

وہ کہیں گے یا اللہ اس سے بہتر چیز اور کیا ہو سکتی ہے؟

اللہ تعالیٰ فرمائے گا سنو میں نے اپنی رضامندی تمہیں عطا فرمائی آج کے بعد میں کبھی بھی تم سے ناخوش نہ ہوؤں گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اللہ عزوجل فرمائے گا کچھ اور چاہیے تو دوں

 وہ کہیں گے یا اللہ جو تو نے ہمیں عطا فرما رکھا ہے اس سے بہتر تو کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی۔

 اللہ فرمائے گا وہ میری رضامندی ہے جو سب سے بہتر ہے۔

امام حافظ ضیاء مقدسی نے صفت جنت میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں اس حدیث کو شرط صحیح پر بتایا ہے۔ واللہ اعلم

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ 

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بدترین جگہ ہے۔‏ (۷۳)

کافروں منافقوں سے جہاد کا اور ان پر سختی کا حکم ہوا۔ مؤمنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا۔ کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی۔

 پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا

 ایک تلوار تو مشرکوں میں فرماتا ہے:

فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ 

حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔  (۹:۵)

دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں فرماتا ہے:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ  ... حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ 

ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے

نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔  (۹:۲۹) 

تیسری تلوار منافقین میں ارشاد ہوتا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ 

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ   (۹:۷۳)

چوتھی تلوار باغیوں میں فرمان ہے:

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ... حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ 

اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو ۔

پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔   (۴۹:۹)

امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔

 ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے۔

 ابن عباس فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے۔

 مجاہد کا بھی تقریباً یہی قول ہے۔

 ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے

 مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کر لے۔

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ

یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا، حالانکہ یقیناً کفر کا کلمہ ان کی زبان سے نکل چکا ہے اور یہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے اور انہوں نے اس کام کا قصد بھی کیا جو پورا نہ کر سکے

قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی۔ حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کر چکے ہیں۔

 یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے

 ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہو گئی۔ جہنی شخص انصاری پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ہماری اور اس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تو وہی مثال ہے کہ "اپنے ؟؟؟ کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے" واللہ اگر ہم اب کی مرتبہ مدینے واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے۔

 ایک مسلمان نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گفتگو دہرادی۔

 آپ ﷺنے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

 حضرت انسﷺ فرماتے ہیں:

 میری قوم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا اس کی خبر حضرت زید بن ارقم کی پہنچی تو اس نے مجھے خط میں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے۔

نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہیں؟

پس حضرت انس رضی اللہ عنہ نے موجود لوگوں میں سے کسی سے حضرت زیدؓ کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زیدؓ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔

 واقعہ یہ ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں

 حضرت زیدؓ نے کہا و اللہ آنحضرت صلی اللہ علی وسلم بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے۔

پھر آپ نے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کی لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زیدؓ نے جھوٹ بولا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور حضرت زیدؓ کی سچائی بیان فرمائی۔

 لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہو گیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کر دیا ہو۔

 یہی حدیث بخاری شریف میں ہے لیکن اس جملے تک کہ زندہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔

 ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو۔

 اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم۔

 مغازی اموی میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے:

 جو منافق مؤخر چھوڑ دیئے گئے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا ان میں سے بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھے۔ ان میں جلاس بن عوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ حضرت عمیر کو بھی لے گئی تھیں

جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں

 حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اس وقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے، رسوائی یقیناً ہلاکت سے ہلکی چیز ہے۔

یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور ساری بات آپ کو کہہ سنائی۔

جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمیر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اس پر یہ آیت اتری۔

 مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کر لی اور درست ہوگئے

یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو، حضرت کعب کی یہ باتیں نہیں واللہ اعلم۔

اور روایت میں ہے:

 جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قبا سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا

 اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ اے دشمن رب میں تیری اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کروں گا

 فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الہٰی نہ آ جائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کر دیا جاؤں چنانچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مع اپنے ڈر کے سنا دی۔

 ابن جریر میں ابن عباسؓ سے روایت ہے :

 آنحضرت صلی اللہ علی وسلم ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے:

 ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار تم اس سے کلام نہ کرنا

 اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا

 آپ ﷺنے اس سے فرمایا تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو؟

 وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسالفظ نہیں کہا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درگزر فرما لیا پھر یہ آیت اتری۔

 اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بات کہہ دی تھی قتل کر دے۔

 ایک قول ہے کہ عبداللہ بن ابی نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔

یہ قول بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے سرداربنا دیں گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی نہ ہوں۔

یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہا تھا۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

میں اور حضرت عمار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ہم عقبہ میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں للکارا اور وہ دم دباکر بھاگ کھڑے ہوئے

 آپﷺ نے ہم سے فرمایا کیا تم نے انہیں پہچانا؟

 ہم نے کہا نہیں لیکن انکی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں

 آپﷺ نے فرمایا یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے؟

ہم نے کہا نہیں

فرمایا اللہ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لئے۔

ہم نے کہا حضور ﷺ قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئے کہ ہر قوم والے اپنی قوم کے جس آدمی کی شرکت ان میں پائیں اس کی گردن اڑا دیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ورنہ لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں گی کہ محمد (ﷺ) پہلے تو ایہی لوگوں کو لے کر اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کرکے پھر اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ یا اللہ ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے۔

 اور روایت میں ہے:

 غزوہ تبوک سے واپسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا۔ اس راہ کوئی نہ آئے

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آ گئی حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آپ کی سواری کو نیچے کی طرف چلانا شروع کر دیا جب نیچے میدان آ گیا آپﷺ سواری سے اتر آئے اتنے میں عمار رضی اللہ عنہ بھی واپس پہنچ گئے۔

آپ ﷺنے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کون تھے پہچانا بھی؟

 حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں

 پوچھا ان کا ارادہ کیا تھا جانتے ہو؟

 جواب دیا کہ نہیں

 آپ ﷺنے فرمایا انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں۔

 ایک شخص سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے انکی تعداد دریافت کی تو نہوں نے کہا چودہ۔

 آپ ﷺنے فرمایا اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے

انہوں نے کہا واللہ ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا۔

 حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ باقی کے بارہ لوگ اللہ رسول سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی۔

 امام محمد بن اسحاق نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں واللہ اعلم۔

صحیح مسلم میں ہے:

اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کا کچھ تعلق تھا تو اس کو آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتا دو اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے۔ ان میں سے بارہ تو دشمن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور تین شخصوں کی قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لئے معذور رکھا گیا۔

گرمی کاموسم تھا پانی بہت کم تھا آپ ﷺنے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپﷺ نے ان پر لعنت کی

آپﷺ کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے کندھوں پر تو آتشی پھوڑا ہو گا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا۔

 اسی باعث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کا راز دار کہا جاتا تھا آپ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتائے تھے واللہ اعلم۔

 طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں:

 معتب بن قشیر ودیعہ بن ثابت جدین بن عبداللہ بن نبیل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید، طائی اوس بن قیطی، حارث بن سوید، سفیہ بن دراہ، قیس بن فہر، سوید، داعن قبیلہ بنو جعلی کے ، قیس بن عمرو بن سہل، زید بن لصیت اور سلالہ بن ہمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے۔

وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ ۚ

یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دولتمند کر دیا

پھر فرمایا کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں مالدار بنایا۔ اگر ان پر اللہ کا پورا فضل ہو جاتا تو انہیں ہدایت بھی نصیب ہو جاتی

جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا :

کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی؟

 تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی؟

 تم فقیر بےنوا تھے اللہ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کر دیا؟

 ہر سوال کے جواب میں انصار رضی اللہ عنہم فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ کا اور اس کے رسول ﷺکا اس سے زیادہ احسان ہے۔

 الغرض بیان یہ ہے کہ بےقصور ہونے کے بدلے یہ لوگ دشمنی اور بے ایمانی پر اتر آئے۔

 جیسے سورۃ بروج میں ہے:

وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّه  

ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا۔  (۸۵:۸)

حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اسے غنی کردیا۔

فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ ۖ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ

اگر یہ بھی توبہ کرلیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ موڑے رہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا

پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی قتل، صدمہ و غم اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابلِ برداشت عذاب کی سزا بھی۔

وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ 

 اور زمین بھر میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ کھڑا ہوگا۔‏ (۷۴)

 دنیا میں کوئی نہ ہو گا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا انہیں نفع پہنچائے یہ بےیارو مددگار رہ جائیں گے۔

وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ  

ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور آپکی طرح نیکوکاروں میں ہوجائیں گے۔‏  (۷۵)

بیان ہو رہا ہے کہ ان منافقوں میں وہ بھی ہے جس نے عہد کیا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ مالدار کر دے تو میں بڑی سخاوت کروں اور نیک بن جاؤں

فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ 

لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا تو یہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑ لیا‏   (۷۶)

لیکن جب اللہ نے اسے امیر اور خوشحال بنا دیا اس نے وعدہ شکنی کی اور بخیل بن بیٹھا جس کی سزا میں قدرت نے اس کے دل میں ہمیشہ کے لئے نفاق ڈال دیا۔

 یہ آیت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے

 اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے مالداری کی دعا کیجئے

آپﷺ نے فرمایا تھوڑا مال جس کا شکر ادا ہو اس بہت سے اچھا ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ ہو۔

 اس نے پھر دوبارہ بھی درخواست کی تو آپ ﷺنے پھر سمجھایا کہ تو اپنا حال اللہ کے نبی جیسا رکھنا پسند کرتا؟ واللہ اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے۔

 اس نے کہا حضور واللہ میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ مجھے مالدار کردے تو میں خوب سخاوت کی داد دوں ہر ایک کو اس کا حق ادا کروں ۔

آپ ﷺنے فرمایا اسکے لئے مال میں برکت کی دعا کی اس کی بکریوں میں اس طرح زیادتی شروع ہوئی جیسے کیڑے بڑھ رہے ہوں یہاں تک کہ مدینہ شریف اس کے جانوروں کے لئے تنگ ہو گیا۔ یہ ایک میدان میں نکل گیا ظہر عصر تو جماعت کے ساتھ ادا کرتا باقی نمازیں جماعت سے نہیں ملتی تھیں۔ جانوروں میں اور برکت ہوئی اسے اور دور جانا پڑا اب سوائے جمعہ کے اور سب جماعتیں اس سے چھوٹ گئیں۔ مال بڑھتا گیا، ہفتہ بعد جمعہ کے لئے آنا بھی اس نے چھوڑ دیا آنے جانے والے قافلوں سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ جمعہ کے دن کیا بیان ہوا؟

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دریافت کیا لوگوں نے سب کچھ بیان کر دیا

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار افسوس کیا ادھر آیت اتری کہ ان کے مال سے صدقے لے اور صدقے کے احکام بھی بیان ہوئے

 آپ ﷺنے دو شخصوں کو جن میں ایک قبیلہ جہنیہ کا اور دوسرا قبیلہ سلیم کا تھا انہیں تحصیلدار بنا کر صدقہ لینے کے احکام لکھ کر انہیں پروانہ دے کر بھیجا اور فرمایا کہ ثعلبہ سے اور فلانے بنی سلیم سے صدقہ لے آؤ

یہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے فرمان پیغمبر دکھایا صدقہ طلب کیا تو وہ کہنے لگا واہ واہ یہ تو جزیئے کی بہن ہے یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کافروں سے جزیہ لیا جاتا ہے یہ کیا بات ہے اچھا اب تو جاؤ لوٹتے ہوئے آنا۔

 دوسرا شخص سلمی جب اسے معلوم ہوا تو اس نے اپنے بہترین جانور نکالے اور انہیں لے کر خود ہی آگے بڑھا

 انہوں نے ان جانوروں کو دیکھ کر کہا نہ تو یہ ہمارے لینے کے لائق نہ تجھ پر ان کا دینا واجب

 اس نے کہا میں تو اپنی خوشی سے ہی بہترین جانور دینا چاہتا ہوں آپ انہیں قبول فرمائیے۔

 بالآخر انہوں نے لے لئے اوروں سے بھی وصول کیا اور لوٹتے ہوئے پھر ثعلبہ کے پاس آئے اس نے کہا ذرا مجھے وہ پرچہ تو پڑھاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ پڑھ کر کہنے لگا بھئی یہ تو صاف صاف جزیہ ہے کافروں پر جو ٹیکس مقرر کیا جاتا ہے یہ تو بالکل ویسا ہی ہے اچھا تم جاؤ میں سوچ سمجھ لوں۔ یہ واپس چلے گئے انہیں دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ پر اظہار افسوس کیا اور سلمی شخص کے لئے برکت کی دعا کی اب انہوں نے بھی ثعلبہ اور سلمی دونوں کا واقعہ کہہ سنایا۔ پس اللہ تعالیٰ جل وعلا نے یہ آیت نازل فرمائی۔

ثعلبہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے جب یہ سب کچھ سنا تو ثعلبہ سے جا کر واقعہ بیان کیا اور آیت بھی پڑھ سنائی

 یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول کیا جائے

 آپﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے

یہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا

آپ ﷺنے فرمایا یہ تو سب تیرا ہی کیا دھرا ہے میں نے تو تجھے کہا تھا لیکن تو نہ مانا۔

یہ واپس اپنی جگہ چلا آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال تک اس کی کوئی چیز قبول نہ فرمائی۔

 پھر یہ خلافت صدیقی میں آیا اور کہنے لگا میری جو عزت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی وہ اور میرا جو مرتبہ انصار میں ہے وہ آپ خوب جانتے ہیں آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے آپ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا تو میں کون؟

غرض آپ نے بھی انکار کر دیا۔

جب آپ کا بھی انتقال ہو گیا اور امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ولی ہوئے یہ پھر آیا اور کہا کہ امیرالمؤمنین آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے

آپ نے جواب دیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا خلیفہ اول نے قبول نہیں فرمایا تو اب میں کیسے قبول کر سکتا ہوں؟ چنانچہ آپ نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں اس کا صدقہ قبول نہیں فرمایا۔

 پھر خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو یہ ازلی منافق پھر آیا اور لگا منت سماجت کرنے لیکن آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے دونوں خلیفہ نے تیرا صدقہ قبول نہیں فرمایا تو میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ قبول نہیں کیا اسی اثنا میں یہ شخص ہلاک ہو گیا۔

فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ  

پس اس کی سزا میں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک، کیونکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کیا اور کیونکہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔‏  (۷۷)

الغرض پہلے تو سخاوت کے وعدے کئے تھے اور وہ بھی قسمیں کھا کھا کر۔ پھر اپنے وعدے سے پھر گیا اور سخاوت کے عوض بخیلی کی اور وعدہ شکنی کر لی۔ اس جھوٹ اور عہد شکنی کے بدلے اس کے دل میں نفاق پیوست ہو گیا جو اس وقت سے اس کی پوری زندگی تک اس کے ساتھ رہا۔

حدیث میں بھی ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں:

- جب بات کرے جھوٹ بولے

- جب وعدہ کرے خلاف کرے

-  جب امانت سونپی جائے خیانت کرے۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ 

کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے دل کا بھید اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ غیب کی تمام باتوں سے خبردار ہے ۔  (۷۸)

 کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ دل کے ظاہر اور پوشیدہ ارادوں اور سینے کے رازوں کا عالم ہے وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ یہ خالی زبان بکواس ہے کہ مالدار ہوجائیں تو یوں خیراتیں کریں یوں شکر گزاری کریں یوں نیکیاں کریں۔ لیکن دلوں پر نظریں رکھنے والا اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ مال مست ہوجائیں گے اور دولت پا کر خرمستیاں ناشکری اور بخل کرنے لگیں گے

 وہ ہر حاضر غائب کا جاننے والا ہے، وہ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے، ظاہر باطن سب اس پر روشن ہے۔

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ

جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں

منافقوں کی ایک بدخصلت یہ بھی ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل۔ یہ عیب جو بدگو لوگ بہت برے ہیں اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا۔

 چنانچہ جب صدقات دینے کی آیت اتری ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہ اپنے اپنے صدقات لئے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ایک صاحب نے دل کھول کر بہت بڑی رقم دی تو اسے ان منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا

ایک صاحب بیچارے مسکین آدمی تھے صرف ایک صاع اناج لائے تھے انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی؟

 اس کا بیان اس آیت میں ہے

 ایک مرتبہ آپﷺ نے بقیع میں فرمایا :

 جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دوں گا

 اس وقت ایک صحابی نے اپنے عمامے میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جن سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی کہنے لگے یا رسول اللہ یہ اللہ کے نام پر خیرات ہے

 آپ ﷺنے فرمایا بہت اچھا

 اس نے کہا لیجئے سنبھال لیجئے

 اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے۔

 آپﷺ نے سن لیا اور فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے افسوس سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس، تین مرتبہ یہی فرمایا

 پھر فرمایا مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کرے اور ہاتھ بھر بھر کر آپ نے اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔ یعنی راہ اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے۔

پھر فرمایا انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف چالیس اوقیہ چاندی لائے اور ایک غریب انصاری ایک صاع اناج لائے منافقوں نے ایک کو ریاکار بتایا دوسرے کے صدقے کو حقیر کہہ دیا

 ایک مرتبہ آپ ﷺکے حکم سے لوگوں نے مال خیرات دینا اور جمع کرنا شروع کیا۔ ایک صاحب ایک صائع کھجوریں لے آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھجوروں کے دو صاع تھے ایک میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے روک لیا اور ایک لے آیا آپ نے اسے بھی جمع شدہ مال میں ڈال دینے کو فرمایا اس پر منافق بکواس کرنے لگے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے بےنیاز ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا میرے پاس ایک سو اوقیہ سونا ہے میں یہ سب صدقہ کرتا ہوں

 حضرت عمر ؓنے فرمایا ہوش میں بھی ہے؟

 آپ نے جواب دیا ہاں ہوش میں ہوں

 فرمایا پھر کیا کر رہا ہے؟

 آپ نے فرمایا سنو میرے پاس آٹھ ہزار ہیں جن میں سے چار ہزار تو میں اللہ کو قرض دے رہا ہوں اور چار ہزار اپنے لئے رکھ لیتا ہوں

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے جو تو نے رکھ لیا ہے اور جو تو نے خرچ کر دیا ہے۔

منافق ان پر باتیں بنانے لگے کہ لوگوں کو اپنے سخاوت دکھانے کے لئے اتنی بڑی رقم دے دی۔

پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر بڑی رقم اور چھوٹی رقم والوں کی سچائی اور ان منافقوں کا موذی پن ظاہر کردیا۔

 بنو عجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات میں دی تھی جو ایک سو وسق پر مشتمل تھی۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابو عقیل تھے۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی

اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لئے کیا تھا۔

اس روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن نے دو ہزار رکھے تھے۔ دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صائع کھجوریں حاصل کر کے ایک صائع رکھ لیں اور ایک صائع دے دیں۔ یہ حضرت ابو عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے تھے۔ ان کا نام حباب تھا۔

 اور قول ہے کہ عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ثعلبہ تھا۔

سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 

اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏ (۷۹)

 پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ نے ہی ان سے یہی بدلہ لیا۔ ان منافقوں کے لئے آخرت میں المناک عذاب ہیں۔ اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے۔

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ

ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر۔ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا

فرماتا ہے کہ یہ منافق اس قابل نہیں کہ اے نبی تو ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرے ایک بار نہیں اگر تو ستر مرتبہ بھی بخشش ان کے لئے چاہے تو اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔

یہ جو ستر کا ذکر ہے اس سے مراد صرف زیادتی ہے وہ ستر سے کم ہو یا بہت زیادہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے ستر کا ہی عدد ہے۔

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو ان کے لئے ستر بار سے بھی زیادہ استغفار کروں گا تاکہ اللہ انہیں بخش دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمادیا کہ ان کے لئے تیرا استغفار کرنا نہ کرنے کے برابر ہے۔

عبداللہ بن ابی منافق کا بیٹا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میرا باپ نزع کی حالت میں ہے میری خواہش ہے کہ آپ اس کے پاس تشریف لے چلیں، اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھیں۔

 آپ ﷺنے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟

 اس نے کہا حباب۔

 آپ ﷺنے فرمایا تیرا نام عبداللہ ہے، حباب تو شیطان کا نام ہے۔

 اب آپ ان کے ساتھ ہوئے ان کے باپ کو اپنا کرتہ اپنے پسینے والا پہنایا اس کی جنازے کی نماز پڑھائی۔

 آپ سے کہا بھی گیا کہ آپ اس کے جنازے پر نماز پڑھ رہے ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ کے استغفار سے بھی نہ بخشنے کو فرمایا ہے تو میں ستر بار پھر ستر بار پھر ستر بار پھر استغفار کروں گا۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ  

یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا۔  (۸۰)

یہ ان کے  اللہ اور اس کے رسول سے کفر کرنے کی وجہ سے ہےاوراللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ

پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا پسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا اس گرمی میں مت نکلو۔

جو لوگ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں ہی بیٹھنے پر اکڑ رہے تھے۔ جنہیں راہ اللہ میں مال و جان سے جہاد کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا جنہوں نے ایک دوسرے کے کان بھرے تھے کہ اس گرمی میں کہاں نکلو گے؟ ایک طرف پھل پکے ہوئے ہیں سائے بڑھے ہوئے ہیں دوسری جانب لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں۔

قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ 

 کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے ۔  (۸۱)

پس اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ جس کی طرف تم اپنی اس بد کرداری سے جا رہے ہو وہ اس گرمی سے زیادہ بڑھی ہوئی حرارت اپنے اندر رکھتی ہے۔ یہ آگ تو اس آگ کا سترواں حصہ ہے جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے

 اور روایت میں ہے :

 تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر اجزاء میں سے ایک جزو ہے پھر بھی یہ سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھائی ہوئی ہے ورنہ تم اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہو گئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے۔

 ایک بار آپ نےآیت وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (۲:۲۴) کی تلاوت کی اور فرمایا:

 ایک ہزار سال تک جلائے جانے سے وہ سفید پڑ گئی پھر ایک ہزار سال تک بھڑکانے سے سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکے جانے سے سیاہ ہو گئی پس وہ سیاہ رات جیسی ہے اس کے شعلوں میں بھی چمک نہیں۔

 ایک حدیث میں ہے کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری مشرق میں ہو  تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے۔

ابو یعلی کی ایک غریب روایت میں ہے:

 اگر اس مسجد میں ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ہوں اور کوئی جہنمی یہاں آ کر سانس لے تو اس کی گرمی سے مسجد اور مسجد والے سب جل جائیں۔

 اور حدیث میں ہے :

 سب سے ہلکے عذاب والا دوزخ میں وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں میں دو جوتیاں آگ کی تسمے سمیت ہوں گی جس کی گرمی سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہو گی اور وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ دراصل سب سے ہلکا عذاب اسی کا ہے۔

 قرآن فرماتا ہے کہ وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دیتی ہے۔

إِنَّهَا لَظَى ـ نَزَّاعَةً لِّلشَّوَى  

یقیناً وہ شعلے والی (آگ) ہے جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لانے والی ہے   (۷۰:۱۵،۱۶)

اور کئی آیتوں میں ہے:

هَـذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُواْ فِى رَبِّهِمْ ... وَذُوقُواْ عَذَابَ الْحَرِيقِ 

یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں اختلاف کرنے والے ہیں، پس کافروں کے لئے تو آگ کے کپڑے ناپ کر کاٹے جائیں گے،

 اور ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا۔‏ جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں اور کھالیں گلا دی جائیں گی۔

‏ اور ان کی سزا کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہیں۔‏ یہ جب بھی وہاں کے غم سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو ۔  (۲۲:۱۹،۲۲)

اور فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَايَـتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَاراً كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَـهُمْ جُلُوداً غَيْرَهَا لِيَذُوقُواْ الْعَذَابَ 

جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سواء اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں   (۴:۵۶)

اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور تیزی بہت زیادہ ہے۔ تو یقیناً یہ باوجود موسمی گرمی کے رسول اللہ کے ساتھ جہاد میں خوشی خوشی نکلتے اور اپنے جان و مال کو راہ اللہ میں فدا کرنے پر تل جاتے۔

عرب کا شاعر کہتا ہے:

تو نے اپنی عمر سردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں گزار دی حالانکہ تجھے لائق تھا کہ اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا کہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔

فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ  

پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں بدلے میں اس کے جو یہ کرتے تھے۔‏ (۸۲)

 اب اللہ تبارک و تعالیٰ ان بدباطن منافقوں کو ڈرا رہا ہے کہ تھوڑی سی زندگی میں یہاں تو جتنا چاہیں ہنس لیں۔ لیکن اس آنے والی زندگی میں ان کے لئے رونا ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 لوگو روؤ اور رونا نہ آئے تو زبردستی روؤ جہنمی روئیں گے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر نہر جیسے گڑھے پڑ جائیں گے آخر آنسو ختم ہو جائیں گے اب آنکھیں خون برسانے لگیں گی ان کی آنکھوں سے اس قدر آنسو اور خون بہا ہو گا کہ اگر کوئی اس میں کشتی چلانی چاہے تو چلا سکتا ہے۔

اور حدیث میں ہے:

 جہنمی جہنم میں روئیں گے اور خوب روتے ہی رہیں گے، آنسو ختم ہونے کے بعد پیپ نکلنا شروع ہوگا۔

 اس وقت دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے اے بدبخت رحم کی جگہ تو تم کبھی نہ روئے اب یہاں کا رونا دھونا لاحاصل ہے۔

اب یہ اونچی آوازوں سے چلا چلا کر جنتیوں سے فریاد کریں گے کہ تم لوگ ہمارے ہو رشتے کنبے کے ہو سنو ہم قبروں سے پیاسے اٹھے تھے پھر میدان حشر میں بھی پیاسے ہی رہے اور آج تک یہاں بھی پیاسے ہی ہیں،

 ہم پر رحم کرو کچھ پانی ہمارے حلق میں چھو دو یا جو روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اس میں سے ہی تھوڑا بہت ہمیں دے دو۔

 چالیس سال تک کتوں کی طرح چیختے رہیں گے

چالیس سال کے بعد انہیں جواب ملے گا کہ تم یونہی دھتکارے ہوئے بھوکے پیاسے ہی ان سڑیل اور اٹل سخت عذابوں میں پڑے رہو

 اب یہ تمام بھلائیوں سے مایوس ہو جائیں گے۔

فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا

پس اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کی کسی جماعت کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے

پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں نکلنے کی اجازت طلب کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو۔

فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تجھے سلامتی کے ساتھ اس غزوے سے واپس مدینے پہنچا دے اور ان میں سے کوئی جماعت تجھ سے کسی اور غزوے میں تیرے ساتھ چلنے کی درخواست کرے تو بطور ان کو سزا دینے کے تو صاف کہہ دینا کہ نہ تو تم میرے ساتھ والوں میں میرے ساتھ چل سکتے ہو نہ تم میری ہمراہی میں دشمنوں سے جنگ کر سکتے ہو۔ تم جب موقعہ پر دغا دے گئے اور پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہے تو اب تیاری کے کیا معنی؟

پس یہ آیت مثلاس آیت  کے ہے:

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ 

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے  (۶:۱۱۰)

بدی کا برا بدلہ بدی کے بعد ملتا ہے جیسے کہ نیکی کی جزاء بھی نیکی کے بعد ملتی ہے۔ عمرہ حدیبیہ کے وقت قرآن نے فرمایا تھا:

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَى مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا 

جب تم غنیمتیں لینے چلو گے یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ تم سے کہیں گے کہ ہمیں اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ ہو لیں۔  (۴۸:۱۵)

إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ 

تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو ۔  (۸۳)

یہاں فرمایا کہ ان سے کہہ دینا کہ بیٹھ رہنے والوں میں ہی تم بھی رہو۔ جو عورتوں کی طرح گھروں میں گھسے رہتے ہیں۔

وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ 

ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں

یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بدکار اور بے اطاعت رہے ہیں ۔  (۸۴)

حکم ہوتا ہے کہ اے نبی تم منافقوں سے بالکل بےتعلق ہو جاؤ۔ ان میں سے کوئی مر جائے تو تم نہ اس کے جنازے کی نماز پڑھو نہ اس کی قبر پر جا کر اسکے لئے دعائے استغفار کرو۔ اس لئے کہ یہ کفر و فسق پر زندہ رہے اور اس پر مرے۔

یہ حکم تو عام ہے گو اس کا شان نزول خاص عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہے جو منافقوں کا رئیس اور امام تھا۔

 صحیح بخاری شریف میں ہے:

اس کے مرنے پر اس کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ میرے باپ کے کفن کے لئے آپ خاص اپنا پہنا ہوا کرتا عنایت فرمائیے۔

 آپ ﷺنے کرتا دے دیا۔

 پھر کہا کہ آپ خود اس کے جنازے کی نماز پڑھائیے۔

 آپ ﷺنے یہ درخواست بھی منظور فرمالی اور نماز پڑھانے کے ارادے سے اٹھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے جنازے کی نماز پڑھائیں گے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے

 آپ ﷺنے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ تو ان کے لئے استغفار کرے یا نہ کرے اگر تو ان کے لئے ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا۔ تو میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ یہ منافق تھا لیکن تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی۔

 اس پر یہ آیت اتری۔

ایک اور روایت میں ہے کہ اس نماز میں صحابہ بھی آپ کی اقتدا میں تھے۔

 ایک روایت میں ہے:

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ اس کی نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو میں صف میں سے نکل کر آپ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ کیا آپ اس دشمن رب عبداللہ بن ابی کے جنازے کی نمازیں پڑھائیں گے؟ حالانکہ فلاں دن اس نے یوں کہا اور فلاں دن یوں کہا۔ اسکی وہ تمام باتیں دہرائیں۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے سب سنتے رہے آخر میں فرمایا عمر مجھے چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ نے استغفار کا مجھے اختیار دیا ہے اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار ان کے گناہ معاف کرا سکتا ہے تو میں یقیناً ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔

چنانچہ آپ نے نماز بھی پڑھائی جنازے کے ساتھ بھی چلے دفن کے وقت بھی موجود رہے۔

 اسکے بعد مجھے اپنی اس گستاخی پر بہت ہی افسوس ہونے لگا کہ اللہ اور رسول اللہ خوب علم والے ہیں میں نے ایسی اور اس قدر جرأت کیوں کی؟

کچھ ہی دیر ہوگی جو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔

 اس کے بعد آخر دم تک نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کے جنازے کی نماز پڑھی نہ اسکی قبر پر آ کر دعا کی۔

 اور روایت میں ہے:

 اور روایت میں ہے:

 اس کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ تشریف نہ لائے تو ہمیشہ کیلئے یہ بات ہم پر رہ جائے گی۔ جب آپ تشریف لائے تو اسے قبر میں اتار دیا گیا تھا آپ نے فرمایا اس سے پہلے مجھے کیوں نہ لائے؟ چنانچہ وہ قبر سے نکالا گیا۔ آپ نے اس کے سارے جسم پر تھتکار کر دم کیا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا

 اور روایت میں ہے:

 وہ خود یہ وصیت کرکے مرا تھا کہ اس کے جنازے کی نماز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائیں۔ اس کے لڑکے نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی آرزو اور اس کی آخری وصیت کی بھی خبر کی۔ اور یہ بھی کہا کہ اس کی وصیت یہ بھی ہے کہ اسے آپ کے پیراہن میں کفنایا جائے۔ آپ اس کے جنازے کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ حضرت جبرائیل یہ آیتیں لے کر اترے۔

اور روایت میں ہے کہ جبرائیل نے آپ کا دامن تان کر نماز کے ارادے کے وقت یہ آیت سنائی لیکن یہ روایت ضعیف ہے

 اور روایت میں ہے:

 اس نے اپنی بیماری کے زمانے میں حضورﷺ کو بلایا آپ تشریف لے گئے اور جا کر فرمایا کہ یہودیوں کی محبت نے تجھے تباہ کر دیا

اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ وقت ڈانٹ ڈپٹ کا نہیں بلکہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے لئے دعا استغفار کریں میں مر جاؤں تو مجھے اپنے پیرہن میں کفنائیں۔

بعض سلف سے مروی ہے کہ کرتا دینے کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ آئے تو ان کے جسم پر کسی کا کپڑا ٹھیک نہیں آیا آخر اس کا کرتا لیا وہ ٹھیک آ گیا یہ بھی لمبا چوڑا چوڑی چکلی ہڈی کا آدمی تھا۔ پس اس کے بدلے میں آپ نے اسے اس کے کفن کے لئے اپنا کرتا عطا فرمایا۔

اس آیت کے اترنے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپ نے پڑھی نہ کسی کے لئے استغفار کیا۔

مسند احمد میں ہے:

 جب آپ کو کسی جنازے کی طرف بلایا جاتا تو آپ پوچھ لیتے اگر لوگوں سے بھلائیاں معلوم ہوتیں تو آپ جا کر اس کے جنازے کی نماز پڑھاتے اور اگر کوئی ایسی ویسی بات کان میں پڑتی تو صاف انکار کردیتے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ آپ کے بعد یہ رہاکہ جس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھتے اس کے جنازے کی نماز آپ بھی پڑھتے جس کی حضرت حذیفہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لئے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے نام گنوا دیئے تھے اور صرف انہی کو یہ نام معلوم تھے اسی بناء پر انہیں راز دار رسول کہا جاتا تھا۔ بلکہ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت عمر ؓ ایک شخص کے جنازے کی نماز کے لئے کھڑا ہونے لگے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے چٹکی لے کر انہیں روک دیا۔

 جنازے کی نماز اور استغفار ان دونوں چیزوں سے منافقوں کے بارے میں مسلمانوں کو روک دینا۔

یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مسلمانوں کے بارے میں ان دونوں چیزوں کی پوری تاکید ہے۔ ان میں مردوں کے لئے پورا نفع اور زندوں کے لئے کامل اجر و ثواب ہے۔

چنانچہ حدیث شریف ہے آپ فرماتے ہیں:

 جو جنازے میں جائے اور نماز پڑھے جانے تک ساتھ رہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط ملتے ہیں۔

پوچھا گیا کہ قیراط کیا ہے؟

 فرمایا سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔

 اسی طرح یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ میت کے دفن سے فارغ ہو کر وہیں اس کی قبر کے پاس ٹھہر کر حکم فرماتے کہ اپنے ساتھی کے لئے استغفار کرو اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو اس سے اس وقت سوال جواب ہو رہا ہے۔

وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ

آپ کو ان کے مال و اولاد کچھ بھی بھلے نہ لگیں

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ  

 اللہ کی چاہت یہی ہے کہ انہیں ان چیزوں سے دنیاوی سزا دے اور یہ اپنی جانیں نکلنے تک کافر ہی رہیں۔‏  (۸۵)

اسی مضمون کی آیت کریمہ (۹:۵۵)گزر چکی ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ لکھ دی گئی ہے جس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں۔

وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ 

جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو

تو ان میں سے دولت مندوں کا ایک طبقہ آپ کے پاس آکر یہ کہہ کر رخصت لے لیتا ہے کہ ہمیں تو بیٹھے رہنے والوں میں ہی چھوڑ دیجئے  (۸۶) 

ان لوگوں کی برائی بیان ہو رہی ہے جو وسعت طاقت قوت ہونے کے باوجود جہاد کے لئے نہیں نکلتے جی چراجاتے ہیں اور حکم ربانی سن کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کے پاس آ کر اپنے رک رہنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ان کی بےحمیتی تو دیکھو کہ یہ عورتوں جیسے ہوگئے ہیں لشکر چلے گئے، یہ نامرد زنانے عورتوں کی طرح پیچھے رہ گئے۔ بوقت جنگ بزدل ڈرپوک اور گھروں میں گھسے رہنے والے، بوقت امن بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے۔ یہ بھونکنے والے کتوں اور گرجنے والے بادلوں کی طرح ڈھول کے پول ہیں۔ ۔

 چنانچہ اور جگہ خود قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے:

فَإِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ  ... سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ 

پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو

پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں  (۳۳:۱۹)

 خوف کے وقت ایسی آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں جیسے کوئی مر رہا ہو اور جہاں وہ موقع گزر گیا لگے چرب زبانی کرنے اور لمبے چوڑے دعوے کرنے، باتیں بنانے۔

ایمان دار تو سورت اترنے اور اللہ کے حکم ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن بیمار دلوں والے منافق جہاں سورت اتری اور جہاد کا حکم سنا آنکھیں بند کرلیں دیدے پھیر لئے ان پر افسوس ہے اور ان کے لئے تباہی خیز مصیبت ہے۔

وَيَقُولُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَوْلاَ نُزِّلَتْ سُورَةٌ ... لَوْ صَدَقُواْ اللَّهَ لَكَانَ خَيْراً لَّهُمْ 

اور جو لوگ ایمان لائے اور کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟

پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے

وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو

پس بہت بہتر تھا ان کے لئے۔‏ فرمان کا بجا لانا اور اچھی بات کا کہنا پھر جب کام مقرر ہو جائے تو اگر اللہ کے ساتھ سچے رہیں تو ان کے لئے بہتری ہے  (۴۷:۲۰،۲۱)

اگر یہ اطاعت گزار ہوتے تو ان کی زبان سے اچھی بات نکلتی ان کے ارادے اچھے ہوتے یہ اللہ کی باتوں کی تصدیق کرتے تو یہی چیز ان کے حق میں بہتر تھی

رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ  

یہ تو خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر ریجھ گئے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب وہ کچھ سمجھ عقل نہیں رکھتے ۔  (۸۷)

 لیکن ان کے دلوں پر تو ان کی بداعمالیوں سے مہر لگ چکی ہے اب تو ان میں اس بات کی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ اپنے نفع نقصان کو ہی سمجھ لیں۔

لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 

لیکن خود رسول اللہ ﷺ اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔‏  (۸۸)

منافقوں کی مذمت اور ان کی اخروی خستہ حالت بیان فرما کر اب مؤمنوں کی مدحت اور ان کے حصے میں بھلائیاں اور خوبیاں ہیں یہی فلاح پانے والے لوگ ہیں۔

أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

انہی کے لئے اللہ نے وہ جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے   (۸۹)

انہی کے لئے جنت الفردوس ہے اور انہی کے لئے بلند درجے ہیں۔ یہی مقصد حاصل کرنے والے یہی کامیابی کو پہنچ جانے والے لوگ ہیں۔

وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 

بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وہ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔

اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی ۔ (۹۰)

یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہو سکتے تھے۔ مدینہ کے ارد گرد کے یہ لوگ آ کر اپنی کمزوری وضعیفی بےطاقتی بیان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں واقعی معذور سمجھیں تو اجازت دے دیں۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے۔

 ابن عباس کی قرأت میں آیت وَجَاءَ الْمُعْذِرُونَ ہے یعنی اہل عذر لوگ۔

یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رک رہنے کی اجازت چاہی۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے۔ اسی لئے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے۔ واللہ اعلم اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا حکم بھی ان کے لئے ہو گا جو بیٹھے رہی رہے۔

لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ

ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جنکے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اسکے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں

اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں۔

 پس ان شرعی عذروں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن کوئی لولا لنگڑا یا اپاہج بیمار یا بالکل ہی نا طاقت ہو۔

 دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب میں مثلاً کوئی بیمار ہو گیا ہے یا بالکل فقیر ہو گیا ہے، سامان سفر سامان جہاد مہیا نہیں کر سکتے وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کر سکں تو ان پر شرعاً کوئی مؤاخذہ گناہ یا عار نہیں لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کے، اللہ کے دین کے خیر خواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں۔ بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں۔

مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ 

 ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے ۔ (۹۱)

ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے

حواریوں نے عیسیٰ نبی اللہ سے پوچھا کہ ہمیں بتائیے اللہ کا خیر خواہ کون ہے؟

 آپ نے فرمایا جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آ جائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے۔

 ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقاء کیلئے میدان میں نکلے ان میں حضرت بلال بن سعد بھی تھے آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا

 اے حاضرین کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو؟

 سب نے اقرار کیا۔

 اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا پڑھا ہے کہ نیک بندوں پر کوئی مشکل نہیں۔

ہم اپنی برائیوں کا اقرار کرتے ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے بھی ہاتھ اٹھائے رحمت الہٰی جوش میں آئی اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے  :

میں ﷺ کا منشی تھا سورہ برأت جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ اتنے میں ایک نابینا صحابی آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لا سکتا ہوں؟ اسی وقت یہ آیت اتری۔

وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ

ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تمہاری سواری کے لئے کچھ بھی نہیں پاتا

پھر ان کا ذکر ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لئے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں۔

جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں حضرت عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی وغیرہ تھے انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کر دیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے اور آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں۔

 آپﷺ نے جواب دیا کہ واللہ میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں۔

تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ 

 تو وہ رنج و غم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی میسر نہیں ۔ (۹۲)

یہ نا امید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گزارنی پڑے گی نہ انکے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے

پس جناب باری نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کر دی۔ یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے۔

محمد بن کعب کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عوف، بنی واقف کے حرمی بن عمرو، بنی مازن کے عبدالرحمن بن کعب، بنی معلی کے فضل اللہ، بنی سلمہ کے عمرو بن عثمہ اور عبداللہ بن عمرو مزنی اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید۔

 بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے۔

 انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ کے رسول، رسولوں کے سرتاج صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 اے میرے مجاہد ساتھیو تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں۔

پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ نے کہا وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں؟

آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں۔

 ایک اور روایت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے۔

إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ ۚ

بیشک انہیں لوگوں پر راہ الزام ہے جو باوجود دولتمند ہونے کے آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں

پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الوقت کوئی عذر نہیں مالدار ہٹے کٹے ہیں۔ لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے۔

رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ  

 یہ خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر خوش ہیں اور ان کے دلوں پر مہر خداوندی لگ چکی ہے جس سے وہ محض بےعلم ہوگئے ہیں ۔   (۹۳)

 عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں، زمین پکڑ لیتے ہیں۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ چکی ہے۔ اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہوگئے ہیں۔

يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ

یہ لوگ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میدان جہاد سے واپس مدینے پہنچو گے تو سبھی منافق عذر و معذرت کرنے لگیں گے۔

قُلْ لَا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ

 آپ کہہ دیجئے کہ یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے اللہ تعالیٰ ہم کو تمہاری خبر دے چکا ہے

تم ان سے صاف کہہ دینا کہ ہم تمہاری ان باتوں میں نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری نیتوں سے ہمیں خبردار کر دیا ہے۔

وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ

 اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری دیکھ لیں گے

دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سب لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔

ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ 

پھر اسی کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے پر وہ تم کو بتا دے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔‏ (۹۴)

پھر آخرت میں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہی ہے وہ ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے۔ تمہارے ایک ایک کام کا بدلہ دے گا خیر و شر کی جزا، سزا سب بھگتنی پڑے گی۔

سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ

ہاں وہ اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ تم کو راضی کرنے کے لے اپنی معذوری اور مجبوری کو سچ ثابت کرنے کے لئے قسمیں تک کھائیں گے۔ تم انہیں منہ بھی نہ لگانا۔

إِنَّهُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ 

وہ لوگ بالکل گندے ہیں اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے ان کاموں کے بدلے جنہیں وہ کیا کرتے تھے۔‏ (۹۵)

ان کے اعتقاد نجس ہیں ان کا باطن باطل ہے۔ آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جو ان کی خطاؤں اور گناہوں کا بدلہ ہے۔

يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ 

سن ان کی خواہش صرف تمہیں رضامند کرنا ہے اور بالفرض تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ۔ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے کبھی راضی نہیں ہو گا۔

یہ اللہ و رسول کی اطاعت سے باہر ہیں۔ شریعت سے خارج ہے۔ (۹۶)

سن ان کی خواہش صرف تمہیں رضامند کرنا ہے اور بالفرض تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ۔ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے کبھی راضی نہیں ہو گا۔ یہ اللہ و رسول کی اطاعت سے باہر ہیں۔ شریعت سے خارج ہے۔

چوہا چونکہ بل سے بگاڑ کرنے کے لئے نکلتا ہے اس لئے عرب اسے فویسقہ کہتے ہیں۔ اسی طرح خوشے سے جب تری ظاہر ہوتی ہے تو کہتے ہیں فسقت الرطبة پس یہ چونکہ اللہ و رسول کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں اس لئے انہیں فاسق کہتے ہیں۔

الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 

دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بھی بہت ہی سخت ہیں اور ان کو ایسا ہونا چاہیے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے۔‏ (۹۷)

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار و منافق بھی ہیں اور مؤمن مسلمان بھی ہیں۔ لیکن کافروں اور منافقوں کا کفر و نفاق نہایت سخت ہے۔ ان میں اس بات کی مطلقاً اہلیت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدوں کا علم حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمائی ہیں۔

 چنانچہ ایک اعرابی حضرت زید بن صوحان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت یہ اس مجلس میں لوگوں کو کچھ بیان فرما رہے تھے۔جنگ  نہاوند والے دن ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا۔ اعرابی بول اٹھا کہ آپ کی باتوں سے تو آپ کی محبت میرے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ لیکن آپ کا یہ کٹا ہوا ہاتھ مجھے اور ہی شبہ میں ڈالتا ہے۔

 آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کیا شک ہوا یہ تو بایاں ہاتھ ہے۔

 تو اعرابی نے کہا واللہ مجھے نہیں معلوم کہ دایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا بایاں؟

انہوں نے فرمایا اللہ عزوجل نے سچ فرمایا کہ اعراب بڑے ہی سخت کفر ونفاق والے اور اللہ کی حدوں کے بالکل ہی نہ جاننے والے ہیں۔

 مسند احمد میں ہے:

جو بادیہ نشین ہوا اس نے غلط و جفا کی۔ اور جو شکار کے پیچھے پڑ گیا اس نے غفلت کی۔ اور جو بادشاہ کے پاس پہنچا وہ فتنے میں پڑا۔

 ابو داؤد ترمذی اور نسانی میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ

اور ان دیہاتیوں میں سے بعض بعض ایسا ہے کہ جو کچھ خرچ کرتا ہےاسکو جرمانہ سمجھتا ہےاور تم مسلمانوں کیواسطے گردش کا منتظر رہتاہے

چونکہ صحرا نشینوں میں عموماً سختی اور بدخلقی ہوتی ہے، اللہ عزوجل نے ان میں سے کسی کو اپنی رسالت کے ساتھ ممتاز نہیں فرمایا بلکہ رسول ہمیشہ شہری لوگ ہوتے رہے۔

جیسے فرمان اللہ ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ  

آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے   (۱۲:۱۰۹)

ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہدیہ پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہدیہ سے کئی گناہ زیادہ انعام دیا جب جا کر بمشکل تمام راضی ہوا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب سے میں نے قصد کیا ہے کہ سوائے قریشی، ثقفی، انصاری یا دوسی کے کسی کا تحفہ قبول نہ کروں گا۔

یہ اس لئے کہ یہ چاروں شہروں کے رہنے والے تھے۔ مکہ، طائف، مدینہ اور یمن کے لوگ تھے،

 پس یہ فطرتاً ان بادیہ نشینوں کی نسبت نرم اخلاق اور دور اندیش لوگ تھے، ان میں اعراب جیسی سختی اور کھردرا پن نہ تھا۔

 اللہ خوب جانتا ہے کہ ایمان و علم عطا فرمائے جانے کا اہل کون ہے؟

وہ اپنے بندوں میں ایمان و کفر، علم وجہل، نفاق و اسلام کی تقسیم میں باحکمت ہے۔ اس کے زبردست علم کی وجہ سے اس کے کاموں کی بازپرس اس سے کوئی نہیں کر سکتا۔ اور اس حکمت کی وجہ سے اس کا کوئی کام بےجا نہیں ہوتا۔

 ان بادیہ نشینوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ کے خرچ کو ناحق اور تاوان اور اپنا صریح نقصان جانتے ہیں اور ہر وقت اسی کے منتظر رہتے ہیں کہ تم مسلمانوں پر کب بلا و مصیبت آئے، کب تم حوادث و آفات میں گھر جاؤ

عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 

برا وقت ان ہی پر پڑنے والا ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‏ (۹۸)

لیکن ان کی یہ بد خواہی انہی کے آگے آئے گی، انہی پر برائی کا زوال آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور خوب جانتا ہے کہ مستحق امداد کون ہے اور ذلت کے لائق کون ہے۔

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ

اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں۔

اعراب کی اس قوم کو بیان فرما کر اب ان میں سے بھلے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں آخرت کو مانتے ہیں۔ راہ حق میں خرچ کر کے اللہ کی قربت تلاش کرتے ہیں، ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے ہیں۔

أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ 

یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لئے موجب قربت ہے،ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔‏ (۹۹)

بیشک ان کو اللہ کی قربت حاصل ہے۔ اللہ انہیں اپنی رحمتیں عطا کر دے گا۔ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ انکے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے

وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

اور اللہ نے انکے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‏  (۱۰۰)

اس مبارک آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ ان مہاجرین و انصار سے جو سبقت لے جانے والوں میں اولین تھے اور ان کی تابعداری کرنے کی وجہ سے انہیں اپنی رضامندی کا اظہار فرما رہا ہے کہ انہیں نعمتوں والی ابدی جنتیں اور ہمیشہ کی نعمتیں ملیں گی۔

 شعبی کہتے ہیں:

ان سے مراد وہ مہاجر و انصار ہیں جو حدیبیہ والے سال بیعت الرضوان میں شریک تھے۔

 لیکن حضرت موسیٰ اشعری وغیرہ سے مروی ہے :

جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر دریافت فرمایا کہ تمہیں یہ آیت کس نے پڑھائی ہے؟

 اس نے کہا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے۔

 آپ نے فرمایا تم میرے ساتھ ان کے پاس چلو۔ جب ان کے پاس پہنچے تو آپ نے پوچھا تم نے اسے یہ آیت اسی طرح پڑھائی ہے؟

 آپ نے فرمایا ہاں

 آپ نے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے سنا ہے؟

 انہوں نے جواب دیا ہاں۔

 آپ نے فرمایا میرا تو خیال تھا کہ جس بلند درجے پر ہم پہنچے ہیں اس پر ہمارے بعد کوئی نہ پہنچے گا۔

توحضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس آیت کی تصدیق سورہ جمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (۶۲:۳) سے اور سورہ حشر کی آیت وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ (۵۹:۱۰) سے اور سورہ انفال کی آیت وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا (۸:۷۴) سے بھی ہوتی ہے۔

 ابن جریر نے اس کی روایت کی ہے ا ور کہا کہ حضرت حسن وَالْأَنْصَارُ  کو پیش سے پڑھتے تھے اورآیت وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ پر عطف ڈال کر پڑھتے۔ اللہ تعالیٰ عظیم و کبیر خبردیتا ہے کہ وہ سابقین اولین مہاجر و انصار سے خوش ہے اور ان سے بھی خوش جو احسان کے ساتھ ان کے متبع ہیں۔گویا عبارت یوں ہوئی کہ مہاجرین میں سے سابقین اولین اور انصار اور ا ن کے تابعین سے اللہ راضی ہے

 افسوس ان پر ہے، خانہ خراب وہ ہیں جو ان سے دشمنی رکھیں، انہیں برا کہیں یا ان میں سے کسی ایک کو بھی برا کہیں یا اس سے دشمنی رکھیں۔ خصوصاً صحابہ انصار و مہاجرین کے سردار سب سے بہتر و افضل صدیق اکبر خلیفہ عظیم حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو بھی بغض رکھے یا ان کی شان میں کوئی گستاخی کا کلمہ بولے اللہ اس سے ناراض ہے۔

 رسوائے مخلوق رافضیوں کا بدترین گروہ افضل صحابہ کو برا کہتا ہے، ان سے دشمنی رکھتا ہے۔ اللہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔

یہی بات دلیل ہے اس پر کہ ان کی عقلیں الٹی ہیں اور ان کے دل اوندھے ہیں۔ انہیں قرآن پر ایمان کہاں ہے؟ جب کہ یہ ان پر تبرا بھیجتے ہیں جن کی بابت قرآن میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا اظہار کھلے لفظوں میں بیان کرتا ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین

ہاں اہلسنت ان سے خوش ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے اور ان کو برا کہتے ہی جنہیں اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے۔ اللہ کے دوستوں سے وہ محبت کرتے ہیں۔ اللہ کے دشمنوں کے وہ بھی دشمن ہیں۔ وہ متبع ہیں مبتدع نہیں۔ وہ پیروی اور اقتدا کرتے ہیں۔ نافرمانی اور خلاف نہیں کرتے۔ یہی جماعت اللہ تعالیٰ سے کامیابی حاصل کرنے والی ہے اور یہی اللہ کے سچے بندے ہیں کثرھم اللہ

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ

اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں،

اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلوات اللہ و سلامہ علیہ کو بتلاتا ہے کہ مدینے کے اردگرد رہنے والے گنواروں میں اور خود اہل مدینہ میں بہت سے منافق ہیں۔ جو برابر اپنے نفاق کے خوگر ہو چکے ہیں ۔

تمرد فلان علی اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور نافرمانی کرے۔

لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ

 آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں

پھر فرماتا ہے کہ تم تو انہیں جانتے نہیں ہم جانتے ہیں۔

 اور آیت میں ہے:

وَلَوْ نَشَآءُ لأَرَيْنَـكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَـهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِى لَحْنِ الْقَوْلِ  

اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو تجھے دکھا دیتے پس تو انہیں ان کے چہروں سے ہی پہچان لیتا اور یقیناً تو انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لے گا۔  (۴۷:۳۰)

غرض ان دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہ سمجھنا چاہیے۔ نشانیوں سے پہچان لینا اور بات ہے اور اللہ کی طرف کا قطعی علم کہ فلاں فلاں منافق ہے اور چیز ہے

پس بعض منافق لوگوں کی منافقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کھل گئی تھی مگر آپ ﷺکا  تمام منافقوں کو جاننا ممکن نہیں تھا۔ آپ ﷺتو صرف اتنا جانتے تھے کہ مدینے میں بعض منافق ہیں ۔ صبح وشام وہ دربار رسالت میں حاضر رہا کرتے تھے اور آپ ﷺ کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس قول کی صحت مسند احمد کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مکے کا ہمارا کوئی اجر نہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس تمہارے اجر آہی جائیں گے گو تم لومڑی کے بھٹ میں ہو۔

پھر آپ نے ان کے کان سے اپنا منہ لگا کر فرمایا کہ میرے ان ساتھیوں میں بھی منافق ہیں۔

 پس مطلب یہ ہوا کہ بعض منافق غلط سلط باتیں بک دیا کرتے ہیں، یہ بھی ایسی ہی بات ہے۔ آیت وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا (۹:۷۴) کی تفسیر میں ہم کہہ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بارہ یا پندرہ منافقوں کے نام بتائے تھے۔ پس اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک ایک کر کے تمام منافقوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا۔ نہیں بلکہ چند مخصوص لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کرا دیا تھا واللہ اعلم۔

ابن عساکر میں ہے:

حرملہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ایمان تو یہاں ہے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا۔ اور نفاق یہاں ہے اور ہاتھ سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیااور اللہ کا نام بھی لیا تو بس یونہی سا ۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ اسے ذکر کرنے والی زبان، شکر کرنے والا دل دے اور اسے میری اور مجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت عنایت فرما اور اس کے کام کا انجام بخیر کر۔

 اب تو وہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھی اور بھی ہیں جن کا میں سردار تھا، وہ سب بھی منافق ہیں اگر اجازت ہو تو انہیں بھی لے آؤں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو جو ہمارے پاس آئے گا ہم اسکے لئے استغفار کریں گے اور جو اپنے دین (نفاق) پر اڑا رہے گا اللہ ہی اس کے ساتھ اولیٰ ہے۔ تم کسی کی پردہ دری نہ کروـ۔

حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

 لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ تکلف سے اوروں کا حال بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ فلاں جنتی ہے اور فلاں دوزخی ہے۔ اس سے خود اس کی حالت پوچھو تو یہی کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔ حالانکہ انسان اپنی حالت سے بہ نسبت اوروں کی حالت کے زیادہ عالم ہوتا ہے۔ یہ لوگ وہ تکلف کرتے ہیں جو نکلف انبیاء علیہم السلام نے بھی نہیں کیا۔

 نبی اللہ حضرت نوح علیہ السلام کا قول ہے:

وَمَا عِلْمِى بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ 

ان کے اعمال کامجھے علم نہیں۔ (۲۶:۱۱۲)

نبی اللہ حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں:

وَمَآ أَنَاْ عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ 

میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔ (۱۱:۸۶)

 اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:

لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ 

تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں۔  (۹:۱۰۰)

سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ 

 ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔‏ (۱۰۱)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

 ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے اور اے فلاں تو بھی یہاں سے چلا جا تو منافق ہے۔ پس بہت سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے چلے جانے کا حکم فرمایا۔ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا یہ پورے رسوا ہوئے۔

 یہ تو مسجد سے نکل کر جا رہے تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آ رہے تھے۔ آپ ان سے ذرا کترا گئے یہ سمجھ کر کہ شاید نماز ہو چکی اور یہ لوگ فارغ ہو کر جا رہے ہیں اور میں غیر حاضر رہ گیا۔ اور وہ لوگ بھی آپ سے شرمائے یہ سمجھ کر کہ ان پر بھی ہمارا حال کھل گیا ہو گا۔

اب مسجد میں آکر دیکھا کہ ابھی نماز تو ہوئی نہیں۔ تو ایک شخص نے آپ کو کہا لیجئے خوش ہو جائیے۔ آج اللہ نے منافقوں کو خوب شرمندہ و رسواکیا۔

یہ تو تھا پہلا عذاب جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد سے نکلوا دیا۔

اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے۔

دو مرتبہ کے عذاب سے مجاہد کی نزدیک مراد قتل و قید ہے۔

 اور روایت میں بھوک اور قبر کا عذاب ہے۔

ابن جریج فرماتے ہیں عذاب دنیا اور عذاب قبر مراد ہے۔

عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں دنیا کا عذاب تو مال واولاد ہے۔

جیسے قرآن میں ہے:

فَلاَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَلاَ أَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا 

پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے  (۹:۵۵)

پس یہ مصیبتیں ان کے لئے عذاب ہیں ہاں مؤمنوں کے لئے اجر و ثواب ہیں۔

 اور دوسرا عذاب جہنم کا آخرت کے دن ہے۔

محمد بن اسحاق فرماتے ہیں:

پہلا عذاب تو یہ کہ اسلام کے احکام بظاہر ماننے پڑے، اسکے مطابق عمل کرنا پڑا جو دلی منشا کے خلاف ہے ۔

 دوسرا عذاب قبر کا ۔

پھر ان دونوں کے سوا دائمی جہنم کا عذاب ۔

قتادہ کہتے ہیں کہ عذاب دنیا اور عذاب قبر پر عذاب عظیم کی طرف لوٹایا جانا ہے۔

مذکور ہے:

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر بارہ منافقوں کے نام بتائے تھے۔ اور فرمایا تھا :

 ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہوگا جو جہنم کی آگ کا انگارا ہوگا۔ جوانکے شانے پر ظاہر ہو گا اور سینے تک پہنچ جائے گا۔ اور چھ بری موت مریں گے۔

یہی وجہ تھی کہ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی ایسا ویسا داغدار شخص مرا ہے تو انتظار کرتے کہ اس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ پڑھتے تو آپ بھی پڑھتے ورنہ نہ پڑھتے۔

 مروی ہے:

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا میں بھی ان میں ہوں؟

 انہوں نے جواب دیا نہیں آپ ان منافقوں میں نہیں اور آپ کے بعد مجھے اس سے کسی پر بےخوفی نہیں۔

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ 

اور کچھ لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔‏ (۱۰۲)

منافقوں کا حال اوپر کی آیتوں میں بیان فرمایا جواللہ کی راہ میں جہاد سے بے ایمانی، شک اور جھٹلانے کے طور پر جی چراتے ہیں اور شامل نہیں ہوتے۔

 اس آیت میں ان کا بیان ہو رہا ہے جو ہیں تو ایمان دار اور سچے پکے مسلمان۔ لیکن سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے۔ انہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نیکیاں بھی ہیں۔ پس یہ نیکی بدی والے لوگ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں اس کی معافی اور درگزر کے ماتحت ہیں۔

یہ آیت گو معین لوگوں کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے، ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے۔

 مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب کہ انہوں نے بنو قریظہ سے کہا تھا کہ ذبح ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا۔

 اور روایت میں ہے :

ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہ لوگ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت ابو لبابہ کے ساتھ اور بھی پانچ یا سات یا نو آدمی تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے اپنے تئیں مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا کہ جب تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے نہ کھولیں گے ہم اس قید سے آزاد نہ ہوں گے جب یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خودان کے بندھن کھولے اور ان سے درگزر فرما لیا۔

بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے۔

پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہے۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا۔

 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ

آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے

اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ ان کے مالوں کا صدقہ لیا کریں۔ تاکہ اس وجہ سے انہیں پاکی اور ستھرائی حاصل ہو۔

اس کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی نیکیوں کے ساتھ کچھ برائیاں بھی کرلیں تھیں۔ لیکن حکم اس کا عام ہے۔

عرب کے بعض قبیلوں کو اسی سے دھوکا ہوا تھا کہ یہ حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے خلیفہ برحق حضرت ابوبکر صدیق کو (زکوٰۃ کو فرض مان کر) زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ جس پر آپ نے مع باقی صحابہ کے ان سے لڑائی کی کہ وہ زکوٰۃ خلیفۃ الرسول کو اسی طرح ادا کریں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایک بچہ اونٹنی کا یا ایک رسی بھی نہ دینگے تو بھی میں ان سے لڑائی جاری رکھوں گا۔

حکم ہوتا ہے کہ ان سے زکوٰۃ لے اور انکے لئے دعائیں کر۔

 چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے:

جب حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو حسب عادت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ آل ابی اوفی پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔

 اسی طرح جب آپ کے پاس کسی قسم کا صدقہ آتا تو آپ ان کے لئے دعا فرماتے۔

 ایک عورت نے آپ سے آ کر درخواست کی کہ یا رسول اللہ میرے لئے اور میرے خاوند کے لئے دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا صلی اللہ علیک وعلی زوجک

إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 

بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لئے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے جانتا ہے۔‏ (۱۰۳)

صَلَاتَكَ کی اور قرأت صلوٰۃ ہے۔ پہلی قرأت مفرد کی ہے دوسری جمع کی ہے۔

فرماتا ہے کہ تیری دعا ان کے لئے اللہ کی رحمت کا باعث ہے۔ اور ان کے وقار وعزت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ تیری دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور اسے بھی وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون ان دعاؤں کا مستحق ہے اور کون اس کا اہل ہے۔

 مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے دعا کرتے تو اسے اور اسکی اولاد کو اور اس کی اولاد کی اولاد کو پہنچتی تھی۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ 

کیا انکو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں کامل ہے  (۱۰۴)

پھر فرمایا کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمانے والا ہے؟

 اور وہی ان کے صدقات لیتا ہے؟

اس نے بندوں کو توبہ اور صدقے کی طرف بہت زیادہ رغبت دلائی ہے۔ یہ دونوں چیزیں گناہوں کو دور کردینے والی، انہیں معاف کرانے والی اور انکو مٹا دینے والی ہیں۔

توبہ کرنے والوں کی توبہ اللہ عزوجل قبول فرماتا ہے اور حلال کمائی سے صدقہ دینے والوں کا صدقہ اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر صدقہ کرنے والے کے لئے اسے پالتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کو احد کے پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔

چنانچہ ترمذی میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ صدقہ قبول فرماتا ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لیتا ہے اور جس طرح تم اپنے کو پالتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک ایک کھجور احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ عزوجل کی کتاب میں بھی موجود ہے پھر اسی آیت کا یہی جملہ آپ نے تلاوت فرمایا۔

 اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی:

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ 

اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے  (۲:۲۷۶)

صدقہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں جاتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ سائل کے ہاتھ میں جائے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

 ابن عساکر میں ہے:

 حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں نے جہاد کیا جس میں ان پر حضرت عبدالرحمٰن بن خالد امام تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے مال غنیمت میں سے ایک سو رومی دینار چرا لئے جب لشکر وہاں سے لوٹ کر واپس آ گیا تو اسے سخت ندامت ہوئی وہ ان دیناروں کو لے کر امام کے پاس آیا لیکن انہوں نے ان سے لینے سے انکار کر دیا کہ میں اب لے کر کیا کروں؟ لشکر تو متفرق ہوگیا کیسے بانٹ سکتا ہوں؟ اب تو تو اسے اپنے پاس ہی رہنے دے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس ہی لانا۔

 اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے پوچھنا شروع کیا لیکن ہر ایک یہی جواب دیتا رہا۔

یہ مسکین ان دیناروں کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لایا اور ہر چند کہا کہ آپ انہیں لے لیجئے لیکن آپ نے بھی نہ لئے۔

 اب تو یہ روتا پیٹتا وہاں سے نکلا۔ راستے میں اسے حضرت عبداللہ بن شاعر سکسکی رحمۃ اللہ علیہ ملے۔ یہ مشہور دمشقی ہیں اور اصل میں حمص کے ہیں۔ یہ بہت بڑے فقیہ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟

 اس شخص نے اپنا تمام واقعہ بیان کیا۔

آپ نے فرمایا جو میں کہوں گا وہ کرو گے بھی؟

 اس نے کہا یقیناً۔

 آپ نے فرمایا جاؤ اور خمس تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے آؤ۔ یعنی بیس دینار۔ اور باقی کے اسی دینار اللہ کی راہ میں اس پورے لشکر کی طرف سے خیرات کردو۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے نام اور مکان جانتا ہے اور وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا و اللہ مجھے اگر یہ مسئلہ سوجھ جاتا اور میں اسے یہ فتویٰ دے دیتا تو مجھے اس ساری سلطنت اور ملکیت سے زیادہ محبوب تھا۔ اس نے نہایت اچھا فتویٰ دیا۔

اس شخص نے یہی کیا۔

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ

کہہ دیجئے کہ تم عمل کئے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں گے)

اپنے اعمال سے ہوشیار رہو۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے سامنے ہیں۔ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے سامنے قیامت کے دن کھلنے والے ہیں۔

وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ 

 اور ضرور تم کو اسی کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے۔ سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا ۔ (۱۰۵)

چھوٹے سے چھوٹا اور پوشیدہ سے پوشیدہ عمل بھی اس دن سب پر ظاہر ہو جائے گا۔

يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَى مِنكُمْ خَافِيَةٌ 

اس دن تم سب سامنے پیش کئے جاؤ گے تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا۔   (۶۹:۱۸)

 اور فرمایا:

يَوْمَ تُبْلَى السَّرَآئِرُ 

جس دن پوشیدہ باتوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔ (۸۶:۹)

تمام اسرار کھل جائیں گے دلوں کے بھید ظاہر ہو جائیں گے۔

وَحُصِّلَ مَا فِى الصُّدُورِ 

اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی۔‏ (۱۰۰:۱۰)

اور یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں پر بھی ان کے اعمال دنیا میں ہی ظاہر کر دیتا ہے۔

چنانچہ مسند احمد میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اگر تم میں سے کوئی کسی ٹھوس پتھر میں گھس کر جس کا نہ دروازہ ہو، نہ اس میں کوئی سوراخ ہو، کوئی عمل کرے اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گاخواہ کیسا ہی عمل ہو۔  

ابو داؤد طیالسی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے :

زندوں کے اعمال ان کے قبیلوں اور برادریوں پر پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوتے ہیں تو وہ لوگ اپنی قبروں میں خوش ہوتے ہیں اور اگر وہ برے ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں توفیق دے کہ یہ تیرے فرمان پر عامل بن جائیں۔

 مسند احمد میں بھی یہی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

تمہارے اعمال تمہارے خویش و اقارب مردوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ نیک ہوتے ہیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اسکے سوا ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں موت نہ آئے جب تک کہ تو انہیں ہدایت عطا نہ فرما جیسے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی

ان روایتوں کی سندیں قابل غور ہیں

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

 جب تجھے کسی شخص کے نیک اعمال بہت اچھے لگیں تو تو کہہ دے کہ اچھا ہے عمل کئے چلے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مؤمن تمہارے اعمال عنقریب دیکھ لیں گے۔

 ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی آئی ہے:

اس میں ہے کسی کے اعمال پر خوش نہ ہو جاؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کا خاتمہ کس پر ہوتا ہے؟

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک زمانہ دراز تک نیک عمل کرتا رہتا ہے کہ اگر وہ اس وقت مرتا تو قطعاً جنتی ہو جاتا۔ لیکن پھر اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ بداعمالیوں میں پھنس جاتا ہے۔

 اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک لمبی مدت تک برائیاں کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی حالت میں مرے تو جہنم میں ہی جائے لیکن پھر اس کا حال بدل جاتا ہے اور نیک عمل شروع کر دیتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ بھلا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے عامل بنا دیتا ہے۔

 لوگوں نے کہا ہم اس کا مطلب نہیں سمجھے

 آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اسے توفیق خیر عطا فرماتا ہے اور اس پر اسے موت آتی ہے۔

وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 

اور کچھ اور لوگ ہیں جنکا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے انکو سزا دے گا یا انکی توبہ قبول کر لیگا اور اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے۔‏ (۱۰۶)

اس سے مراد وہ تین بزرگ صحابہ ہیں جن کی توبہ ڈھیل میں پڑ گئی تھی۔

 حضرت مرارہ بن ربیع، حضرت کعب بن مالک، حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم۔

یہ جنگ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ شک اور نفاق کے طور پر نہیں بلکہ سستی، راحت طلبی، پھلوں کی پختگی سائے کے حصول وغیرہ کے لئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اپنے تیئں مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا تھا جیسے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی۔ اور کچھ لوگوں نے ایسا نہیں کیا تھا

 ان میں یہ تینوں بزرگ تھے۔ پس اوروں کی تو توبہ قبول ہو گئی اور ان تینوں کا کام پیچھے ڈال دیا گیا یہاں تک کہ آیت لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ …..(۹:۱۱۷) نازل ہوئی جو اس کے بعد آ رہی ہے۔ اور اس کا پورا بیان بھی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں آ رہا ہے۔

یہاں فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے ارادے پر ہیں اگر چاہیں سزا دے اگر چاہیں معافی دے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سزا کے لائق کون ہے۔ اور مستحق معافی کون ہے؟ وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔ اس کے سوا نہ تو کوئی معبود نہ اس کے سوا کوئی مربی۔

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ ۚ

اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے

وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ 

اور قسمیں کھائیں گے کہ ہم بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں ۔  (۱۰۷)

ان پاک آیتوں کا سبب نزول سنئے!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے شریف سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے۔ اس سے پہلے مدینے میں ایک شخص تھا جس کا نام ابو عامر راہب تھا۔ یہ خزرج کے قبیلے میں سے تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں نصرانی بن گیا تھا، اہل کتاب کا علم بھی پڑھا تھا۔ عابد بھی تھا اور قبیلہ خزرج اس کی بزرگی کا قائل تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں آئے، مسلمانوں کا اجتماع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہونے لگا۔ یہ قوت پکڑنے لگے یہاں تک کہ بدر کی لڑائی ہوئی اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں غالب رکھا تو یہ جل بھن گیا۔ کھلم کھلا مخالفت و عداوت کرنے لگا اور یہاں سے بھاگ کر کفار مکہ سے مل گیا۔ اور انہیں مسلمانوں سے لڑائی کرنے پر آمادہ کرنے لگا۔ یہ تو عداوت اسلام میں پاگل ہو رہے تھے، تیار ہوگئے اور اپنے ساتھ عرب کے اور بھی بہت سے قبائل کو ملا کر جنگ کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اور میدان احد میں جم کر لڑے۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کا جو حال ہوا وہ ظاہر ہے۔ انکا پورا امتحان ہو گیا۔ گو انجام کار مسلمانوں کا ہی بھلا ہوا اور عاقبت اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہی ہے۔

 اسی فاسق نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان بہت سے گڑھے کھود رکھے تھے، جن میں سے ایک میں اللہ کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے، چہرے پر زخم آئے۔ سامنے سے نیچے کی طرف کے چار دانت ٹوٹ گئے۔ سر بھی زخمی ہوا۔ صلوات اللہ وسلمہ علیہ۔

 شروع لڑائی کے وقت ہی ابو عامر فاسق اپنے قوم کے پاس گیا اور بہت ہی خوشامد اور چاپلوسی کی کہ تم میری مدد اور موافقت کرو۔ لیکن انہوں نے بالاتفاق جواب دیا کہ اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی نہ کرے تو نامراد ہے۔ اے بدکار اے اللہ کے دشمن تو ہمیں راہ حق سے بہکانے کو آیا ہے، الغرض برا بھلا کہہ کر نا امید کر دیا گیا۔ یہ لوٹا اور یہ کہتا ہوا کہ میری قوم تو میرے بعد بہت ہی شریر ہو گئی ہے۔

 مدینے میں اس ناہنجار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سمجھایا تھا قرآن پڑھ پڑھ کر نصیحت کی تھی اور اسلام کی رغبت دلائی تھی لیکن اس نے نہ مانا تھا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے لئے بد دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے کہیں دور دراز ذلت و حقارت کے ساتھ موت دے۔

جب اس نے دیکھا کہ احد میں بھی اس کی چاہت پوری نہ ہوئی اور اسلام کا کلمہ بلندی پر ہی ہے تو یہ یہاں سے شاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کے لئے آمادہ کیا۔ اس نے بھی اس سے وعدہ کر لیا اور تمنائیں دلائیں۔

 اس وقت اس نے اپنے ہم خیال لوگوں کو جو منافقانہ رنگ میں مدینے شریف میں رہتے سہتے تھے اور جن کے دل اب تک شک و شبہ میں تھے لکھا کہ اب میں مسلمانوں کی جڑیں کاٹ دونگا، میں نے ہرقل کو آمادہ کر دیا ہے وہ لشکر جرار لے کر چڑھائی کرنے والا ہے۔ مسلمانوں کو ناک چنے جبوا دے گا اور ان کا بیج بھی باقی نہ رکھے گا۔

 تم ایک مکان مسجد کے نام سے تعمیر کرو تاکہ میرے قاصد جو آئیں وہ وہیں ٹھہریں، وہیں مشورے ہوں اور ہمارے لئے وہ پناہ کی اور گھاٹ لگانے کی محفوظ جگہ بن جائے۔

 انہوں نے مسجد قبا کے پاس ہی ایک اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی اور تبوک کی لڑائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی سے پہلے ہی اسے خوب مضبوط اور پختہ بنا لیا اور آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مسجد میں تشریف لائیے اور نماز ادا کیجئے تاکہ ہمارے لئے یہ بات حجت ہو جائے اور ہم وہاں نماز شروع کر دیں۔ ضعیف اور کمزور لوگوں کو دور جانے میں بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ خصوصاً جاڑے کی راتوں میں کمزور، بیمار اور معذور لوگ دور دراز کی مسجد میں بڑی دقت سے پہنچتے ہیں اس لئے ہم نے قریب ہی یہ مسجد بنا لی ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا اس وقت تو سفر درپیش ہے پا بہ رکاب ہوں انشاء اللہ واپسی میں سہی۔

 اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کفر کے مورچے سے بچا لیا۔ جب میدان تبوک سے آپ سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے، ابھی مدینے شریف سے ایک دن یا کچھ کم کے فاصلے پر تھے کہ اللہ کی وحی نازل ہوئی اور اس مسجد ضرار کی حقیقت آپ پر ظاہر کر دی گئی۔ اور اس کے بانیوں کی نیت کا بھی علم آپ کو کرا دیا گیا۔ اور وہاں کی نماز سے روک کر مسجد قبا میں جس کی بنیاد اللہ کے خوف پر رکھی گئی تھی، نماز پڑھنے کا حکم صادر ہوا۔ پس آپ نے وہیں سے مسلمانوں کو بھیج دیا کہ جاؤ میرے پہنچنے سے پہلے اس مسجد کو توڑ دو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابو عامر خبیث ان انصاریوں سے کہہ گیا تھا کہ تم مسجد کے نام سے عمارت بنا لو اور جو تم سے ہو سکے تیاری رکھو، ہتھیار وغیرہ مہیا کر لو، میں شاہ روم قیصر کے پاس جا رہا ہوں اور اس سے مدد لے کر محمد (ﷺ)  اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا۔

 پس یہ لوگ جب یہ مسجد تیار کر چکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہماری چاہت ہے کہ آپ ہماری اس مسجد میں تشریف لائیں، وہاں نماز پڑھیں اور ہمارے لئے برکت کی دعا کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا کہ اس مسجد میں ہرگز کھڑے بھی نہ ہونا۔

 اور روایت میں ہے :

 جب آپﷺ ذی اور اوان میں اترے اور مسجد کی اطلاع ملی آپ نے مالک بن و خشم رضی اللہ عنہ اور معن بن یزید رضی اللہ عنہ کو بلایا، ان کے بھائی عمر بن عدی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ان ظالموں کی مسجد میں جاؤ اور اسے گرا دو بلکہ جلا دو۔

یہ دونوں بزرگ تابڑ توڑ جلدی جلدی چلے۔ سالم بن عوف کے محلے میں جا کر حضرت مالک نے حضرت معن سے فرمایا آپ یہیں ٹھہرئیے، یہ میرے قبیلے کے لوگوں کے مکان ہیں یہاں سے آگ لاتا ہوں۔ چنانچہ گئے اور ایک کھجور کا سلگتا ہوا تنا لے آئے اور سیدھے اس مسجد ضرار میں پہنچ کر اس میں آگ لگا دی اور کدال چلانی شروع کر دی۔ وہاں جو لوگ تھے ادھر ادھر بھاگ گئے اور ان بزرگوں نے اس عمارت کو جڑ سے کھود ڈالا۔ پس اس بارے میں یہ آیتیں اتری ہیں۔

 اس کے بانی بارہ شخص تھے۔ خدام بن خالد بنو عبد بن زید میں سے جو بنی عمرو بن عوف میں سے ہیں اسی کے گھر میں سے مسجد شقاق نکلی تھی۔ اور ثعلبہ بن حاطب جو بنی عبید میں سے تھا اور بنو امیہ کے موالی جو ابو لبابہ بن عبدالمنذر کے قبیلے میں سے تھے۔

 قرآن فرماتا ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہماری نیت نیک تھی۔ لوگوں کے آرام کی غرض سے ہم نے اسے بنایا ہے۔ لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ انہوں نے مسجد قبا کو ضرر پہنچانے اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور مؤمنوں میں جدائی ڈالنے اور اللہ و رسول کے دشمنوں کو پناہ دینے کے لئے اسے بنایا ہے۔

 یہ کمین گاہ ہے ابو عامر فاسق کی جو لوگوں میں راہب مشہور ہے۔ اللہ کی لعنتیں اس پر نازل ہوں۔

لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا ۚ

آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں

فرمان ہے کہ تو ہرگز اس مسجد میں نہ کھڑا ہونا۔

اس فرمان میں آپ کی اُمت بھی داخل ہے۔ انہیں بھی اس مسجد میں نماز پڑھنی حرام قرار دی گئی۔

لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ ۚ

البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں

پھر رغبت دلائی جاتی ہے کہ مسجد قبا میں نماز ادا کرو۔ جس کی بنیاد اللہ کے ڈر پر اور رسول کی اطاعت پر رکھی گئی ہے اور مسلمانوں کے اتفاق پر اور ان کی خیر خواہی پر بنائی گئی ہے۔ اسی مسجد میں تمہارا نمازیں پڑھنا درست اور حق بجانب ہے

چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسجد ﷺبا میں نماز پڑھنا ایک عمرہ کے شواب کے برابر ہے۔

صحیح حدیث میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار اور پیدل اس مسجد میں آیا کرتے تھے۔

اور حدیث میں ہے:

 جب آپ ہجرت کر کے مدینے شریف پہنچے اور بنی عمر بن عوف میں ٹھہرے اور اس پاک مسجد کی بنیاد رکھی اس وقت خود حضرت جبرائیل علیہ السلام نے قبلہ کی جہت معین کی تھی۔ واللہ اعلم

فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ 

اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔‏  (۱۰۸)

ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 آیت فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا مسجد قبا والوں کے بارے میں اتری ہے، وہ پانی سے طہارت کرتے تھے۔

 امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں۔

طبرانی میں ہے:

ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب متذکرہ بالا اتری تو آپ عویم بن ساعدہ کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ تمہاری وہ کونسی طہارت ہے کہ جس کی ثناء اللہ رب العزت بیان فرما رہا ہے؟

 انہوں نے جواب دیا ہم میں سے جو مرد عورت پاخانے سے نکلتا ہے وہ پانی سے استنجاء کیا کرتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا بس یہی وہ طہارت ہے

 مسند احمد میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس مسجد قبا میں تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری مسجد کے بیان میں تمہاری طہارت کی آج تعریف کی ہے تو بتلاؤ کہ تمہاری وہ طہارت کیسے ہے؟

 انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اور تو کچھ معلوم نہیں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسی یہودیوں کی نسبت جب سے یہ معلوم کیا کہ وہ پاخانے سے نکل کر پانی سے پاکی کرتے ہیں، ہم نے اس وقت سے اپنا یہی وطیرہ بنا لیا ہے۔

 ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ سوال حضرت عویم بن عدی رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔

 حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ پانی سے طہارت کرنا ہی وہ پاکیزگی تھی جس کی تعریف اللہ عزوجل نے کی۔

 اور روایت میں ان کے جواب میں ہے کہ ہم توراۃ کے حکم کی رو سے پانی سے استنجاء کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔

 الغرض جس مسجد کا اس آیت میں ذکر ہے وہ مسجد قبا ہے۔ اس کی تصریح بہت سے سلف صالحین نے کی ہے۔ لیکن ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ تقویٰ پر بننے والی مسجد مسجد نبوی ہے جو مدینے شریف کے درمیان ہے۔ غرض ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ مسجد قبا شروع دن سے تقویٰ کی بنیادوں پر ہے تو مسجد نبوی اس وصف کی اس سے بھی زیادہ مستحق ہے۔

 مسند احمد میں ہے کہ جو مسجد اللہ کے ڈر پر بنائی گئی ہے وہ یہ میری مسجد ہے۔

 اور حدیث میں ہے:

 دو شخصوں میں اس بارے میں اختلاف ہوا کہ اس آیت میں کونسی مسجد مراد ہے،

 حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میری یہ مسجد ہے۔

 ان دونوں میں سے ایک کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد قبا ہے اور دوسرے کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد نبوی ہے۔

 یہ حدیث ترمذی نسائی میں ہے۔

 ان دونوں شخصوں میں سے ایک تو بنو خدرہ قبیلے کا تھا اور دوسرا بنو عمرو بن عوف میں سے تھا۔ خدری کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد نبوی ہے اور عمری کہتا تھا مسجد قبا ہے۔

 حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جا کر دریافت فرماتے ہیں کہ وہ مسجد کہاں ہے جس کی بنیادیں شروع سے ہی پرہیز گاری پر ہیں؟

 آپ ﷺنے کچھ کنکر اٹھا کر انہیں زمین پر پھینک کر فرمایا وہ تمہاری یہی مسجد ہے۔

 یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔

 سلف کی اور خلف کی ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ دونوں مسجدیں ہیں، واللہ اعلم

 اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوا کہ جن اگلی مسجدوں کی پہلے دن سے بنیاد اللہ کے تقویٰ پر رکھی گئی ہو وہاں نماز پڑھنا مستحب ہے۔ اور جہاں اللہ کے نیک بندوں کی جماعت ہو جو دین کے حامل ہوں، وضو اچھی طرح کرنے والے ہوں، کامل طہارت کے ساتھ رہنے والے ہوں، گندگیوں سے دور ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے۔

 مسند کی حدیث میں ہے:

 ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی جس میں سورہ روم پڑھی۔ اس میں آپ کو کچھ وہم سا ہو گیا نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا:

 قرآن کریم کی قرأت میں خلط ملط ہو جانے کا باعث تم میں سے وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن وضو اچھی طرح نہیں کرتے ہمارے ساتھ کے نمازیوں کو وضو نہایت عمدہ کرنا چاہئے۔

 اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ طہارت کا کمال اللہ کی عبادتوں کے بجا لانے انہیں پوری کرنے اور کامل کر کے اور شرعی حیثیت سے بجا لانے میں سہولت پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔

حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں:

 پانی سے استنجا کرنا بیشک طہارت ہے۔ لیکن اعلیٰ طہارت گناہوں سے بچنا ہے۔

حضرت اعمش فرماتے ہیں:

 گناہوں سے توبہ کرنا اور شرک سے بچنا پوری پاکیزگی ہے۔

 اوپر حدیث گزر چکی کہ جب اہل قبا سے ان کی اس اللہ کی پسندیدہ طہارت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنے جواب میں پانی سے استنجاء کرنا بیان کیا۔ پس یہ آیت ان کے حق میں اتری ہے۔

 بزار میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم پتھروں سے صفائی کر کے پھر پانی سے دھوتے ہیں۔

 لیکن اس روایت میں محمد بن عبدالعزیز کا زہری سے تفرد ہے اور ان سے بھی ان کے بیٹے کے سوا اور کوئی راوی نہیں۔ اس حدیث کوان لفظوں سے میں نے یہاں صرف اس لئے وارد کیا ہے کہ فقہاء میں یہ مشہور ہے لیکن محدثین کل کے کل اسے معروف نہیں بتاتے خصوصاً متاخرین لوگ واللہ اعلم۔

أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۗ

پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو،

یا وہ شخص کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وہ اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے

وہ کہ جس نے اللہ کے ڈر اور اللہ کی رضا کی طلب کے لئے بنیاد رکھی اور جس نے مسلمانوں کو ضرر پہنچانے اور کفر کرنے اور پھوٹ ڈلوانے اور مخالفین اللہ و رسول کو پناہ دینے کے لئے بنیاد رکھی یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

 یہ دوسرے قسم کے لوگ تو اپنی بنیاد اس خندق کے کنارے پر رکھتے ہیں۔ جس میں آگ بھری ہوئی ہو اور ہو بھی وہ بنیاد ایسی کمزور کہ آگ میں جھک رہی ہو ظاہر ہے کہ ایک دن وہ آگ میں گر پڑے گی۔

وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ 

اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا۔‏  (۱۰۹)

ظالموں اور فسادیوں کا کام بھی نیک نتیجہ نہیں ہوتے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد ضرار سے دھواں نکلتے دیکھا۔

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس مسجد کو توڑا اور اس کی بنیادیں اکھیڑ پھینکیں انہوں نے اس کے نیچے سے دھواں اٹھتا پایا۔

خلف بن بامعین کہتے ہیں میں نے منافقوں کی اس مسجد ضرار کو جس کا ذکر ان آیتوں میں دیکھا ہے کہ اس کے ایک پتھر سے دھواں نکل رہا تھا اب وہ کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔

لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ۗ

ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں تو خیر

 ان کے ایک بد کرتوت کی وجہ سے ان کے دل میں نفاق جگہ پکڑ گیا ہے جو کبھی بھی ٹلنے والا نہیں یہ شک شبہ میں ہی رہیں گے جیسے کہ بنی اسرائیل کے وہ لوگ جنہوں نے بچھڑا پوجا تھا ان کے دلوں میں بھی اس کی محبت گھر کر گئی تھی۔ ہاں جب ان کے دل پاش پاش ہو جائیں یعنی وہ خود مر جائیں۔

وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 

اور اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے۔‏ (۱۱۰)

 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال سے خبردار ہے۔ اور خیر و شر کا بدلہ دینے میں باحکمت ہے۔

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ۔

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مؤمن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گزاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے

سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے۔ اسی لئے مجاہدین جب جہاد کے لئے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی۔

حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوالیں۔

 آپ ﷺنے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا۔

اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟

 آپ ﷺنے فرمایا جنت!

یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے

 پس یہ آیت نازل ہوئی

يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ

 وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں

یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے، مرتے ہیں اور مارتے ہیں۔ ایسوں کے لئے یقیناً جنت واجب ہے۔

بخاری مسلم کی حدیث میں ہے:

 جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے۔

حضرت موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں، حضرت عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین

اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ

 اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے

اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے۔

وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثاً 

اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا  (۴:۸۷)

وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلاً  

اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو (۴:۱۲۲)

فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ ۚ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‏  (۱۱۱)

جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے۔

التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ

وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے رکوع اور سجدہ کرنے والے،

جن مؤمنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں

 وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں،

 ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لئے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں

 اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کو ، جماع کو ترک کر دیتے ہیں۔یہی مراد لفظ السَّائِحُونَ سے یہاں ہے۔ یہی وصف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے اور یہی لفظ سائحات وہاں بھی ہے۔

 رکوع سجود کرتے رہتے ہیں۔ یعنی نماز کے پابند ہیں۔

الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ  

نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے اور ایسے مؤمنین کو خوشخبری سنا دیجئے   (۱۱۲)

اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مؤمنوں کے ہیں۔اسی لئے پروردگار نے فرمایا کہ انہیں خوشخبریاں دے دو کیونکہ ایمان ان دونوں باتوں کے اجتماع کا نام ہے اور پوی طرح کی سعادت تو اسی کو حاصل ہے۔ جو ان باتوں سے متصف ہو۔ سیاحت سے صیام مراد ہے

 ثوری بیان کرتے ہیں کہ سَائِحُونَ کے معنی صَائِمُونَ ہیں۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس اُمت کی سیاحت روزہ ہے۔

مجاہد ، سعید ، عطاء ، عبدالرحمن، ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد سَائِحُونَ سے صَائِمُونَ ہے ۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں۔

 ابو عمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے۔

 ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد سَائِحُونَ سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔

ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا۔

 تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔

 ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے۔

 آپ ﷺنے فرمایا میری اُمت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔

 ایک روایت میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے۔

 حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں۔

 عبدالرحمٰن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں۔

 بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا، سفر میں رہنا، ادھر ادھر جانا آنا، پہاڑوں ، دوروں، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے، یہ محض غلط فہمی ہے، یہ سیاحت مشروع نہیں۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے۔

 جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:

 قریب ہے کہ مؤمن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے۔

 اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے۔

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ 

پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں ۔  (۱۱۳)

مسند احمد میں ہے:

 ابو طالب کی موت کے وقت اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے گئے۔ وہاں اس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن ابی اُمیہ بھی تھا۔ آپ نے فرمایا چچا لا الہ الا للہ کہہ لے اس کلمے کی وجہ سے اللہ عز وجل کے ہاں میں تیری سفارش تو کر سکوں۔

یہ سن کر ان دونوں نے کہا کہ اے ابو طالب کیا تو عبدالمطلب کے دین سے پھر جائے گا؟

 اس پر اس نے کہا میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر میں جب تک منع نہ کر دیا جاؤں تیرے لیے بخشش مانگتا رہونگا۔ لیکن آیت مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ  …اتری۔ یعنی نبی کو اور مؤمنوں کو لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں۔ ان پر تو یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ مشرک جہنمی ہیں ۔

 اسی بارے میں آیت انک لا تھدی الخ ،بھی اتری ہے:

إِنَّكَ لاَ تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُ 

تو جسے محبت کرے اسے راہ نہیں دکھا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ دکھاتا ہے۔  (۲۸:۵۶)

 مسند احمد میں ہے :

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی زبانی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے استغفار سن کر اس سے کہا کہ تو مشرکوں کے لیے استغفار کرتا ہے

 اس نے جواب دیا کہ کیا حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں کیا؟

 فرماتے ہیں میں نے جاکر یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ اس پر یہ آیت اتری۔

کہا جب کہ وہ مرگیا  یعنی جب ابراہیم ؑ کے والد مر گئے کے الفاظ بھی کہے’ لیکن میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ سفیان نے خود کہے یا اسرائیل نے یا خود حدیث میں یہ الفاظ شامل تھے۔ میں کہتا ہوں کہ ثابت ہے کہ یہ الفاظ مجاہد نے کہے۔

مسند احمد میں ہے:

 ہم تقریبا ایک ہزار آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ منزل پر اترے، دو رکعت نماز ادا کی پھر ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سےآنسو جاری تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر تاب نہ لا سکے، اُٹھ کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا بات ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ ملی۔ اس پر میری آنکھں بھر آئیں کہ میری ماں ہے اور جہنم کی آگ ہے۔

 اچھا اور سنو! میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا اب وہ ممانعت ہٹ گئی ہے۔

-  زیارت قبور سے منع کیا تھا، اب تم کرو کیونکہ اس سے تمہیں بھلائی یاد آئے گی۔

- میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو روکنے سے منع فرمایا تھا اب تم کھاؤ اور جس طرح چاہو روک رکھو۔

- اور میں نے تمہیں بعض خاص برتنوں میں پینے کو منع فرمایا تھا لیکن اب تم جس برتن میں چاہو پی سکتے ہیں لیکن خبردار نشے والی چیز ہرگز نہ پینا۔

ابن جریر میں ہے :

مکہ شریف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نشان قبر کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ دیر خطاب کر کے آپ کھڑے ہوئے ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیا بات تھی؟

آپ ﷺنے فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے اپنی ماں کی قبر کے دیکھنے کی اجازت مانگی وہ تو مل گئی لیکن اس کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو نہ ملی۔

 اب جو آپ نے رونا شروع کیا تو ہم نے تو آپ کو کبھی ایسا اتنا روتے نہیں دیکھا۔

 ابن ابی حاتم میں ہے :

 آپ قبرستان کی طرف نکلے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ وہاں آپ ایک قبر کے پاس بیٹھ کر دیر تک مناجات میں مشغول رہے، پھر رونے لگے۔ ہم بھی خوب روئے پھر کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی کھڑے ہوگئے آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور ہمیں بلا کر فرمایا کہ تم کیسے روئے؟

 ہم نے کہا آپ کو روتا دیکھ کر

 آپ ﷺنے فرمایا یہ قبر میری ماں آمنہ کی تھی میں نے اسے دیکھنے کی اجازت چاہی تھی جو مجھے ملی تھی۔

 اور روایت میں ہے:

 دعا کی اجازت نہ ملی اورآیت مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ …  اتری پس جو ماں کی محبت میں صدمہ ہونا چاہیے مجھے ہوا۔

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ

اور ابراہیم ؑ  کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے ان سے وعدہ کر لیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے

طبرانی میں ہے:

 غزوہ تبوک کی واپسی میں عمرے کے وقت ثنیہ عسفان سے اترتے ہوئے آپ ﷺنے صحابہ سے فرمایا تم عقبہ میں ٹھہرو، میں ابھی آیا ۔

وہاں سے اتر کر آپ اپنی والدہ کی قبر پر گئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دیر تک مناجات کرتے رہے ۔پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا آپ کے رونے سے سب لوگ رونے لگے اور یہ سمجھے کہ آپ کی اُمت کے بارے میں کوئی نئی بات پیدا ہوئی جس سے آپ اس قدر رو رہے ہیں۔

 انہیں روتا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟

 انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ کی اُمت کے بارے میں کوئی ایسا نیا حکم اترا جو طاقت سے باہر ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا سنو بات یہ ہے کہ یہاں میری ماں کی قبر ہے۔ میں نے اپنے پروردگار سے قیامت کے دن اپنی ماں کی شفاعت کی اجازت طلب کی لیکن اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائی تو میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا۔

 جبرائیل آئے اور مجھ سے فرمایا ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف ایک وعدے سے تھا جس کا وعدہ ہو چکا تھا لیکن جب اس پر کھل گیا تو کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے توہ وہ فوراً بیزار ہو گیا پس آپ بھی اپنی ماں سے اسی طرح بیزار ہو جائیے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے بیزار ہو گئے۔ پس مجھے اپنی ماں پر رحم اور ترس آیا۔

 پھر میں نے دعا کی کہ میری اُمت پر سے چاروں سختیاں دور کر دی جائیں اللہ تعالیٰ نے دو تو دور فرما دیں لیکن دو کے دور فرمانے سے انکار فرما دیا

- آسمان سے پتھر برسا کر ان کی ہلاکت

- زمین انہیں دھنسا کر ان کی ہلاکت۔

- ان میں پھوٹ اور اختلاف کا پڑنا۔

- ان میں ایک کو ایک سے ایذائیں پہنچنا۔

 ان چاوروں چیزوں سے بچاؤ کی میری دعا تھی دو پہلی چیزیں تو مجھے عنایت ہوگئیں میری اُمت آسمانی پتھراؤ سے اور زمین میں دھنسائے جانے سے تو بچا دی گئی۔ ہاں آپس کا اختلاف آپس کی سر پھٹول یہ نہیں اٹھی۔

 آپ کی والدہ کی قبر ایک ٹیلے تلے تھی اس لیے آپ راستے سے گھوم کر وہاں گئے تھے۔

یہ روایت غریب ہے اور سیاق عجیب ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ غریب اور منکر وہ روایت ہے جو امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب بنام سابق لاحق میں مجہول سند سے وارد کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو زندہ کر دیا اور ایمان لائیں پھر مر گئیں۔

 اس طرح کی سہیلی کی ایک روایت ہے جس میں ایک نہیں کئی ایک راوی مجہول ہیں۔ اس میں ہے کہ آپ کے ماں باپ دونوں دوبارہ زندہ ہوئے پھر ایمان لائے

 ابن دحیہ کہتے ہی کہ یہ حدیث جھوٹی ہے ۔ قرآن اور اجماع دونوں اس بات کو ر کرتے ہیں ’ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا ہے:

وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ 

اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں (۴:۱۸)

قرطبی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے مقتضی پر غو کرو اور ابو عبد اللہ نے بڑا تیر مار کر یہ استدلال پیش کیا ہے کہ یہ حیات جدید بالکل اس طرح ہو سکتی ہے جیسے عصر کا وقت گزر جانے پر حضرت ﷺ کے معجزہ سے سورج پھر ڈوبنے کے بعد نکل آیا اور آپ نے نماز عصر پڑھ لی ۔ اس استدلال کے ذریعے بن وحیہ کی تردید کی ہے۔

 طحاوی کہتے ہیں شمس والی حدیث ثابت ہے ۔

 قرطبی کہتے ہیں کہ حضرت ﷺ کے والدین کا زندہ ہو جانا  شرعاً یا عقلاً ممتنع نہیں۔ کہتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ کے چچا ابو طالب کو بھی اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور آپ پر ایمان لایا۔

 میں کہتا ہوں اگر صحیح روایت سے یہ روایتیں ثابت ہوں تو بیشک مانع کوئی نہیں لیکن تینوں روایتیں محض گپ ہیں واللہ اعلم۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 آپ ﷺنے ارادہ کیا کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کریں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا۔ تو آپ نے حضرت ابراہیم کے استغفار کو پیش کیا۔ اس کا جواب آیت وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ میں مل گیا۔

 فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے مشرکین کے لیے استغفار کیا جاتا تھا۔ اب ممنوع ہو گیا۔ ہاں زندوں کے لیے جائز رہا۔

 لوگوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے بڑوں میں ایسے بھی تھے جو پڑوس کا اکرام کرتے تھے، صلہ رحمی کرتے تھے، غلام آزاد کرتے تھے، ذمہ داری کا خیال رکھتے تھے۔ تو کیا ہم ان کے لیے استغفار نہ کریں؟

 آپﷺ نے فرمایا کیوں نہیں، میں بھی اپنے والد کے لیے استغفار کرتا ہوں جیسے کہ حضرت ابراہیم ؑاپنے والد کے لیے کرتے تھے۔ اس پر آیت مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ ….نازل ہوئی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عذر بیان ہوا اور فرمایاآیت وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ….

مذکور ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ تعالیٰ نے مجھے چند باتیں وحی کی ہیں جو میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میرے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہیں۔

-  مجھے حکم فرمایا گیا کہ میں کسی اس شخص کے لیے استغفار نہ کروں جو شرک پر مرا ہو۔

- اور یہ کہ جو شخص اپنا فالتو مال دے دے اس کے لیے یہی افضل ہے اور جو روک رکھے اسکے لیے برائی ہے۔ ہاں حسب ضرورت کھانے اور خرچ  پر اللہ کے ہاں ملامت نہیں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 ایک یہودی مر گیا جس کا ایک لڑکا تھا لیکن وہ مسلمان تھا اس لیے اپنے باپ کے جنازے میں وہ شریک نہ ہوا۔ جب حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمانے لگے اسے جنازے میں جانا چاہیے تھا اور دفن میں بھی موجود رہنا چاہیے تھا اور باپ کی زندگی تک اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے تھی۔ ہاں موت کے بعد اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتا۔

پھر آپ نے آیت وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ تلاوت فرمائی کہ حضرت ابراہیمؑ نے یہ طریقہ نہیں چھوڑا۔

 اس کی صحت کی گواہ ابو داؤد کی یہ روایت بھی ہو سکتی ہے کہ ابو طالب کی موت پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آکر کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ آپ کے بوڑھے چچا گمراہ مر گئے ہیں۔

 آپﷺ نے فرمایا جاؤ انہیں دفنا کر سیدھے میرے پاس آؤ ۔

مروی ہے :

 جب ابو طالب کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا میں تجھ سے صلہ رحمی کا رشتہ نبھا چکا۔

حضرت عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں:

 میں تو قبلہ کی طرف منہ کرنے والوں میں سے کسی کے جنازے کی نماز نہ چھوڑوں گا۔ گو وہ کوئی حبشن زنا سے حاملہ ہی ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر ہی نماز و دعا حرام کی ہے اور فرمایا ہےآیت مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ ….

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سنا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے جو ابوہریرہ اور اس کی ماں کے لیے استغفار کرے۔

 تو اس نے کہا باپ کے لیے بھی۔

 آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ میرا باپ شرک پر مرا ہے۔

  فَلَمَّا تَبَيَّنَ کےبارے میں ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ابراہیمؑ باپ کے مرنے تک استغفار کی دعا کرتے رہے اور مر جانے کے بعد جب معلوم ہوا کہ  وہ عدو اللہ تھا تو دست برداری اختیار کر لی۔

 آیت میں فرمان الہٰی ہے کہ جب حضرت ابراہیم پر اپنے باپ کا اللہ کا دشمن ہونا کھل گیا۔ یعنی وہ کفر ہی پر مر گیا۔

 مروی ہے:

 قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم ؑسے ان کا باپ ملے گا۔ نہایت سرا سیمگی پریشانی کی حالت میں چہرہ غبار آلود اور کالا پڑا ہوا ہوگا کہے گا کہ ابراہیم آج میں تیری نافرمانی نہ کروں گا۔

حضرت ابراہیمؑ جناب باری میں عرض کریں گے کہ میرے رب تو نے مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اور میرا باپ تیری رحمت سے دور ہو کر عذاب میں مبتلا ہو یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔

 اس پر فرمایا جائے گا کہ اپنی پیٹھ پیچھے دیکھو۔

دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا ہوا کھڑا ہے۔

یعنی آپ کے والد کی صورت مسخ ہو گئی ہوگی اور اس کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ  

و اقعی ابراہیم ؑ بڑے نرم دل اور بردبار تھے   (۱۱۴)

فرماتا ہے کہ ابراہیم بڑا ہی دعا کرنے والا تھا۔

حضور ﷺ سے أَوَّاهٌ کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا رونے دھونے والا، اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کرنے والا۔

 ابن مسعودؓ فرماتے ہیں بہت ہی رحم کرنے والا، مخلوق رب کے ساتھ نرمی اور سلوک اور مہربانی کرنے والا۔

 ابن عباسؓ کا قول ہے پورے یقین والا۔ سچے ایمان والا ، توبہ کرنے والا،

 حبشی زبان میں أَوَّاهٌ مؤمن اور یقین و ایمان والے کو کہتے ہیں۔

 ذوالنجادین نامی ایک صحابی کو اس بنا پر کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا تو وہ اسی وقت دعا کے ساتھ آواز اٹھاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے أَوَّاهٌ فرمایا۔ (مسند احمد)

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر ہوا کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ أَوَّاهٌ ہے۔ (ابن جریر)

اسی ابن جریر میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کو دفن کر کے فرمایا یقیناً تو أَوَّاهٌ یعنی بکثرت تلاوت کلام اللہ شریف کرنے والا تھا۔

 اور روایت میں ہے:

 ایک شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے اپنی دعا میں أَوَّاهٌ أَوَّاهٌ کر رہا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دفن میں شامل تھے چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے آپ کے ساتھ چراغ بھی تھا۔ (ابن جریر)

یہ روایت غریب ہے۔

 کعب احبار فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے سامنے جہنم کا ذکر ہوتا تھا تو آپ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

 ابن عباس فرماتے ہیں  أَوَّاهٌ یعنی فقیہ

 امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ سب سے بہتر قول ان تمام اقوال میں یہ ہے کہ مراد اس لفظ سے بکثرت دعا کرنے والا ہے۔

 الفاظ کے مناسب بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر یہ فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لیے استغفار کیا کرتے تھے اور تھے بھی بکثرت دعا مانگنے والے۔

بردبار بھی تھے، جو آپ پر ظلم کرے، آپ سے برا پیش آئے آپ تحمل کر جایا کرتے تھے۔

باپ نے آپ کو ایذاء دی صاف کہہ دیا تھا کہ تو میرے معبودوں سے منہ پھیر رہا ہے تو اگر اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالوں گا۔ لیکن پھر بھی آپ نے ان کے لیے استغفار کرنے کا وعدہ کر لیا،

پس اللہ فرماتا ہے کہ ابراہیم أَوَّاهٌ اور حلیم تھے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ ۚ

اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرکے بعد میں گمراہ کردے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ بتلا دے جن سے وہ بچیں

اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا۔

جیسے اور جگہ ہے:

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى 

ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باجود اندھے پن کو ترجیح دی۔  (۴۱:۱۷)

 اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے۔ اب جو چاہے کرے، جو چاہے چھوڑے۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مؤمنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لاچکا ہے۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 

بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز کو خوب جانتا ہے۔‏ (۱۱۵)

وہ پورا باخبر اور سب سے بڑھ کر علم والا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۚ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ 

بلا شبہ اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین میں، وہی جلاتا اور مارتا ہے اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی یار ہے اور نہ کوئی مددگار۔‏ (۱۱۶)

 پھر مؤمنین کو مشرکین سے اور ان کے ذی اختیار بادشاہوں سے جہاد کی رغبت دلاتا ہے۔ اور انہیں اپنی مدد پر بھروسہ کرنے کو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کا ملک میں ہی ہوں۔ تم میرے دشمنوں سے مرعوب مت ہونا۔

کون ہے جو ان کا حمایتی بن سکے؟

 اور کون ہے جو ان کی مدد پر میرے مقابلے میں آسکتا ہے ؟

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ اپنے اصحاب کے مجمع میں بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کیا جو میں سنتا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟

 انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ہمارے کان میں کوئی آواز نہیں آرہی۔

 آپ ﷺنے فرمایا میں آسمانوں کا چرچرانا سن رہا ہوں درحقیقت میں ان کا چرچرانا ٹھیک بھی ہے۔ ان میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں اور قیام میں نہ ہو۔

 کعب احبار فرماتے ہیں :

ساری زمین میں سوئی کے ناکے برابر کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو یہاں کا علم اللہ کی طرف نہ پہنچاتا ہو۔ آسمان کے فرشتوں کی گنتی زمین کے سنگریزوں سے بڑی ہے۔ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کے ٹخنے اور پنڈلی کے درمیان کا فاصلہ ایک سو سال کا ہے۔

لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ

اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا

مجاہد فرماتے ہیں :

یہ آیت جنگ تبوک کے بارے میں اتری ہے اس جنگ میں جانے کے وقت سال بھی قحط کا تھا، گرمیوں کا موسم تھا، کھانے پینے کی کمی تھی، راستوں میں پانی نہ تھا۔ شام کے ملک تک کا دور دراز کا سفر تھا۔ سامان رسد کی اتنی کمی کہ دو دو آدمیوں میں ایک ایک کھجور بٹتی تھی۔ پھر تو یہ ہو گیا تھا کہ ایک کھجور ایک جماعت کو ملتی یہ چوس کر اسے دیتا وہ اور کو اور ایک ایک چوس کر پانی پی لیتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ان پر لازم کر دی اور انہیں واپس لایا۔

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس سختی کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ۔ سخت گرمیوں کے زمانے میں ہم نگلنے کو تھے، ایک منزل میں تو پیاس کے مارے ہماری گردنیں ٹوٹنے لگیں یہاں تک کہ لوگ اپنے اونٹوں کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی نچوڑ کر اس پانی کو پیتے اور پھر اسے اپنے کلیجے سے لگا لیتے

اس وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو ہمیشہ ہی قبول فرمایا ہے۔ اب بھی دعا کیجئے کہ اللہ قبول فرمائے

 آپ ﷺنے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی

 اس وقت آسمان پر ابر چھا گیا اور برسنے لگا اور خوب برسا جس کے پاس جتنے برتن تھے سب بھر لیے پھر بارش رک گئ

ی اب جو ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے لشکر کے احاطے سے باہر ایک قطرہ بھی کہیں نہیں برسا تھا۔

پس اس جہاد میں جنہوں نے روپے پیسے سے، سواری سے، خوراک سے، سامان رسد اور ہتھیار سے پانی وغیرہ سے غرض کسی طرح بھی مؤمنوں کی مدد کی تھی، ان کی فضیلت و برتری بیان ہو رہی ہے۔

مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ

اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔

یہی وہ وقت تھا کہ بعض کے دل پھر جانے کے قریب ہو گئے تھے۔ مشقت شدت اور بھوک پیاس نے دلوں کو ہلا دیا تھا، مسلمان جھنجھوڑ دیئے گئے تھے لیکن رب نے انہیں سنبھال لیا اور اپنی طرف جھکا لیا اور ثابت قدمی عطا فرما کر خود بھی ان پر مہربان ہوگیا،

إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ 

بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔  (۱۱۷)

اللہ تعالیٰ جیسی رافعت و رحمت اور کس کی ہے؟ وہ ان پر خوب ہی رحمت و کرم رکھتا ہے۔

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ

اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے

جنگ تبوک میں عدم شمولیت سے پشیمان حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ جو آپ کے نابینا ہوجانے کے بعد آپ کا ہاتھ تھام کر لے جایا لے آیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر میرے والد کے رہ جانے کا واقعہ خود کی زبانی یہ ہے کہ فرماتے ہیں :

میں اس کے سوا کسی اور غزوے میں پیچھے نہیں رہا۔ ہاں غزوہ بدر کا ذکر نہیں، اس میں جو لوگ شامل نہیں ہوئے تھے ان پر کوئی سرزنش نہیں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قافلے کے ارادے سے چلے تھے لیکن وہاں اللہ کی مرضی سے قریش کے جنگی مرکز سے لڑائی ٹھہر گئی۔ تو چونکہ یہ لڑائی بےخبری میں ہوئی اس لیے میں اس میں حاضر نہ ہوسکا اس کے بجائے الحمد اللہ میں لیلۃ العقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا جب کہ ہم نے اسلام پر موافقت کی تھی اور میرے نزدیک تو یہ چیز بدر سے بھی زیادہ محبوب ہے گو بدر کی شہرت لوگوں میں بہت زیادہ ہے۔

اچھا اب غزوہ تبوک کی غیر حاضری کا واقعہ سنئے اس وقت مجھے جو آسانی اور قوت تھی وہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس دو دو اونٹنیاں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس غزوے میں جاتے توریہ کرتے یعنی ایسے الفاظ کہتے کہ لوگ صاف مطلب نہ سمجھیں۔ لیکن چونکہ اس وقت موسم سخت گرم تھا، سفر بہت دور دراز کا تھا، دشمن بڑی تعداد میں تھا، پس آپ نے مسلمانوں کے سامنے اپنا مقصد صاف صاف واضح کر دیا کہ وہ پوری پوری تیاری کرلیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ رجسٹر میں ان کے نام نہ آسکے۔ پس کوئی باز پرس نہ تھی جو بھی چاہتا کہ میں رک جاؤں وہ رک سکتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا رکنا مخفی رہ سکتا تھا۔ ہاں اللہ کی وحی آجائے یہ تو بات ہی اور ہے۔

اس لڑائی کے سفر کے وقت پھل پکے ہوئے تھے سائے بڑھے ہوئے تھے۔ مسلمان صحابہ اور خود حضورﷺتیاریوں میں تھے، میری یہ حالت تھی کہ صبح نکلتا تھا کہ سامان تیار کرلوں لیکن ادھر ادھر شام ہو جاتی اور میں خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتا۔ اور کہتا کوئی بات نہیں روپیہ ہاتھ تلے ہے، کل خرید لوں گا اور تیاری کرلوں گا۔ یہاں تک کہ یوں ہی صبح شام صبح شام آج کل آج کل کرتے کوچ کا دن آگیا اور لشکر اسلام بجانب تبوک چل پڑا میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک دو دن میں میں بھی پہنچتا ہوں۔ یونہی آج کا کام کل پر ڈالا اور کل کا پرسوں پر یہاں تک کہ لشکر دور جا پہنچا۔ گرے پڑے لوگ بھی چل دیئے میں نے کہا خیر دور ہوگئے اور کئی دن ہوگئے تو کیا میں تیز چل کر جا ملوں گا لیکن افسوس کہ یہ بھی مجھ سے نہ ہو سکا ارادوں ہی ارادوں میں رہ گیا۔

اب تو یہ حالت تھی میں بازاروں میں نکلتا تو مجھے سوائے منافقوں اور بیمار لولے لنگڑے اندھے مریضوں اور معذور لوگوں کے اور کوئی نظر نہ آتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک پہنچ کر مجھے یاد فرمایا کہ کعب بن مالک نے کیا کر رہا ہے؟

 اس پر بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہااس کو خوش عیشی اوور آرام طلبی نے مدینے ہی میں روک لیا ہے۔

 یہ سن کر حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا آپ یہ درست نہیں فرما رہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خیال تو کعب کی نسبت بہتر ہی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے۔

 جب مجھے معلوم ہوا کہ اب آپ لوٹ رہے ہیں تو میرا جی بہت ہی گھبرایا۔ اور میں حیلے بہانے سوچنے لگا کہ یوں یوں بہانہ بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے نکل جاؤں گا اپنے والوں سے بھی رائے ملا لوں گا۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے شریف کے قریب آگئے تو میں دل سے باطل اور جھوٹ بالکل الگ ہو گیا۔ اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹے حیلے مجھے نجات نہیں دلوا سکے۔ سچ ہی کا آخر بول بالا رہتا ہے۔ پس میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ جھوٹ بالکل نہیں بولوں گا۔ صاف صاف سچ سچ بات کہہ دونگا۔

آپ خیر سے تشریف لائے اور حسب عادت پہلے مسجد میں آئے دو رکعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھے۔ اسی وقت اس جہاد میں شرکت نہ کرنے والے آنے لگے اور عذر معذرت حیلے بہانے کرنے لگے۔ یہ لوگ اسی سے کچھ اوپر اوپر تھے۔ آپ ان کی باتیں سنتے اور اندرونی حالت سپرد اللہ کر کے ظاہری باتوں کو قبول فرما کر ان کے لیے استغفار کرتے۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کے ساتھ تبسم فرمایا اور مجھے اپنے پاس بلایا میں قریب آن کر بیٹھ گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیسے رک گئے؟ تم نے سواری بھی خرید لی تھی۔

میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ کے سوا کسی اور کے پاس میں بیٹھا ہوتا تو بیسیوں باتیں بنا لیتا۔ بولنے میں اور باتیں بنانے میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آج اگر جھوٹ سچ ملا کر آپ کے غصے سے میں آزاد ہو گیا تو ممکن ہے کل اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے مطلع فرما کر پھر مجھ سے ناراض کر دے۔ اور آج میرے سچ کی بناء پر اگر آپ مجھے سے بگڑے تو ہو سکتا ہے کہ میری سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے پھر خوش کر دے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچ تو یہ ہے کہ واللہ مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ مجھے اس وقت جو آسانی اور فرصت تھی اتنی تو کبھی اس سے پہلے میسر بھی نہیں ہوئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو تُوسچا ہے ۔ اچھا تم جاؤ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرے گا وہی ہوگا۔

 میں کھڑا ہو گیا، بنو سلمہ کے چند شخص بھی میرے ساتھ ہی اٹھے اور ساتھ ہی چلے اور مجھ سے کہنے لگے اس سے پہلے تو تم سے کبھی کوئی اس قسم کی خطا نہیں ہوئی۔ لیکن عجب ہے کہ تم نے کوئی عذر معذرت پیش نہیں کی جیسے کہ اوروں نے کی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمہارے لیے استغفار کرتے تو تمہیں یہ کافی تھا۔

الغرض کچھ اس طرح یہ لوگ میرے پیچھے پڑے کہ مجھے خیال آنے لگا کہ پھر واپس جاؤں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی پہلی بات کو جھٹلا کر کوئی حیلہ غلط سلط میں بھی پیش کردوں۔ پھر میں نے پوچھا کیوں جی کوئی اور بھی میرے جیسا اس معاملے میں اور ہے؟

 انہوں نے کہا ہاں ہاں دو شخص اور ہیں اور انہیں بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں ملا ہے۔

 میں نے کہا وہ کون کون ہیں انہوں نے جواب دیا مرارہ بن ربیع عامریؓ اور حلال بن امیہ واقفی ؓ

ان دونوں صالح اور نیک بدری صحابیوں کا نام جب میں نے سنا تو مجھے پورا اطمینان ہو گیا اور گھر چلا گیا۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا۔ لوگ ہم سے الگ ہوگئے کوئی ہم سے بولتا چالتا نہ تھا یہاں تک کہ مجھے تو اپنا وطن پر دیس معلوم ہو نے لگا کہ گویا میں یہاں کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں۔

پچاس راتیں ہم پر اسی طرح گزر گئیں۔ وہ دو بدری بزرگ تو تھک ہار کر اپنے اپنے مکان میں بیٹھ رہے باہر اندر آنا جانا بھی انہوں نے چھوڑ دیا۔ میں ذرا زیادہ آنے جانے والا اور تیز طبیعت والا تھا۔ نہ میں نے مسجد جانا چھوڑا، نہ بازاروں میں جانا آنا ترک کیا۔ ہاں مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا۔ نماز کے بعد جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو میں آتا اور سلام کرتا اور اپنے جی میں کہتا کہ میرے سلام کے جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلے بھی یا نہیں پھر آپ کے قریب ہی کہیں بیٹھ جاتا اور کنکھیوں سے آپ کو دیکھتا رہتا۔ جب میں نماز میں ہوتا تو آپ کی نگاہ مجھ پر پڑتی لیکن جہاں میں آپ کی طرف التفات کرتا، آپ میری طرف سے منہ موڑ لیتے۔ آخر اس ترک کلامی کی طویل مدت نے مجھے پریشان کر دیا۔

ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کے باغ کی دیوار سے کود کر ان کے پاس گیا۔ مجھے ان سے بہت ہی محبت تھی ۔ میں نے سلام کیا لیکن واللہ انہوں نے جواب نہ دیا۔

 میں نے کہا ابو قتادہ تجھے اللہ کی قسم کیا تو نہیں جانتا کہ میں اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں؟

اس نے خاموشی اختیار کی

 میں نے دوبارہ انہیں قسم دی اور پوچھا وہ پھر بھی خاموش رہے میں نے سہ بارہ انہیں قسم دے کر یہی سوال کیا اس کے جواب میں بھی وہ خاموش رہے اور فرمایا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ اب تو میں اپنے دل کو نہ روک سکا۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بہت غمگین ہو کر پھر دیوار پر چڑھ کر باہر نکل گیا۔

 میں بازار میں جا رہا تھا کہ میں نے شام کے ایک قبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے آیا تھا یہ پوچھتے ہوئے کہ کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتا دے لوگوں نے اسے میری طرف اشارہ کر کے بتا دیا وہ میرے پاس آیا اور مجھے شاہ غسان کا خط دیا۔

میں لکھا پڑھا تو تھا ہی۔ میں نے پڑھا تو اس میں لکھا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سردار نے تم پر ظلم کیا ہے تم کوئی ایسے گرے پڑے آدمی نہیں ہو تم یہاں دربار میں چلے آؤ ہم ہر طرح کی خدمت گزاریوں کے لیے تیار ہیں۔

میں نے اپنے دل میں سوچا یہ ایک اور مصیبت اور منجانب اللہ آزمائش ہے۔ میں نے تو جا کر چولھے میں اس رقعے کو جلا دیا۔ چالیس راتیں جب گزر چکیں تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آرہا ہے اس نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو۔

میں نے پوچھا یعنی کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں؟

 اس نے کہا نہیں طلاق نہ دو لیکن ان سے ملو جلو نہیں۔

میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیغام پہنچا۔

 میں نے تو اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ کردے ہاں حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی نے آن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے خاوند بہت بوڑھے ہیں، کمزور بھی ہیں اور گھر میں کوئی خادم بھی نہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کا کام کاج کر دیا کروں۔

 آپﷺ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ تم سے ملیں نہیں۔

انہوں نے کہا واللہ ان میں تو حرکت کی سکت ہی نہیں اور جب سے یہ بات پیدا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کے آنسو تھمے ہی نہیں۔

مجھ سے بھی میرے بعض دوستوں نے کہا کہ تم بھی اتنی اجازت تو حاصل کرلو جتنی حضرت ہلال کے لیے ملی ہے۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں کہوں گا۔ اللہ جانے آپ جواب میں کیا ارشاد فرمائیں؟ ظاہر ہے کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان ہوں۔

دس دن اس بات پر بھی گزر گئے اور ہم سے سلام کلام بند ہو نے کی پوری پچاس راتیں گزر چکیں۔ اس پچاسویں رات کو صبح کی نماز میں نے اپنے گھر کی چھت پر ادا کی اور میں دل برداشتہ حیران و پریشان اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اپنی جان سے تنگ تھا، زمین باوجود اپنی کشادگی کے مجھ پر تنگ تھی کہ میرے کان میں سلع پہاڑی پر سے کسی کی آواز آئی کہ وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک خوش ہوجا۔ واللہ میں اس وقت سجدے میں گڑ پڑا اور سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل کی طرف سے قبولیت توبہ کی کوئی خبر آگئی۔

بات بھی یہی تھی صبح کی نماز کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر صحابہ سے بیان فرمائی تھی اور یہ سنتے ہی وہ پیدل اور سوار ہم تینوں کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ ہمیں خبر پہنچائیں۔ ایک صاحب تو اپنے گھوڑے پر سوار میری طرف خوشخبری لیے ہوئے آرہے تھے لیکن اسلم کے ایک صاحب نے دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ کر باآواز بلند میرا نام لے کر مجھے خوشخبری پہنچائی سوار سے پہلے ان کی آواز میرے کان میں آگئی۔ جب یہ صاحب میرے پاس پہنچے تو میں نے اپنے پہنے ہوئے دونوں کپڑے انہیں بطور انعام دے دیئے واللہ اس دن میرے پاس اور کچھ بھی نہ تھا۔

دو کپڑے اور ادھار لے کر میں نے پہنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو نے کے لیے گھر سے نکلا۔ راستے میں جوق در جوق لوگ مجھ سے ملنے لگے اور مجھے میری توبہ کی بشارت مبارکباد دینے لگے کہ کعب اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ کو قبول فرما لینا تمہیں مبارک ہو۔

میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور دیگر صحابہ بھی حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی۔ مہاجرین میں سے سوائے ان کے اور کوئی صاحب کھڑے نہیں ہوئے۔ حضرت کعب حضرت طلحہ کی اس محبت کو ہمیشہ ہی اپنے دل میں لیے رہے۔

 جب میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا، اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا کعب تم پر تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک آج جیسا خوشی کا دن کوئی نہیں گزرا۔

میں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ عزوجل کی جانب سے؟

 آپ ﷺنے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ مثل چاند کے ٹکڑے کے چمکنے لگ جاتا تھا اور ہر شخص چہرے مبارک کو دیکھتے ہی پہنچان لیا کرتا تھا۔ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے تو میرا سب مال اللہ کے نام صدقہ ہے۔ اس کے رسول کے سپرد ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا تھوڑا بہت مال اپنے پاس رکھ لو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔

میں نے کہا جو حصہ میرا خیبر میں ہے وہ تو میرا رہا باقی للہ خیرات ہے۔

 یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نجات کا ذریعہ میرا سچ بولنا ہے میں نے یہ بھی نذر مانی ہے کہ باقی زندگی بھی سوائے سچ کے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالوں گا۔ میرا ایمان ہے کہ سچ کی وجہ سے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی وہ کسی مسلمان کو نہیں ملی۔ اس وقت سے لے کر آج تک بحمد اللہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اور جو عمر باقی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مجھے یہی امید ہے۔ اللہ رب العزت نے آیت لَقَدْ تَابَ الله عَلَى النَّبِىِّ (۱۱۷) سے کئی آیتیں تک ہماری توبہ کے بارے نازل فرمائیں۔

اسلام کی نعمت کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جھوٹ بات نہ کہی جیسے کہ اوروں نے جھوٹی باتیں بنائیں ورنہ میں بھی ان کی طرح ہلاک ہوجاتا۔ ان جھوٹے لوگوں کو کلام اللہ شریف میں بہت ہی برا کہا گیا۔

 فرمایا:

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ  

محض تمہیں خوش کرنے کیلئے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں حالانکہ اگر یہ ایمان دار ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے۔‏ (۱۹:۶۲) 

یعنی تمہارے واپس آنے کے بعد یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر چاہتے ہیں کہ تم ان سے چشم پوشی کر لو۔ اچھا تم چشم پوشی کر لو لیکن یاد رہے کہ اللہ کے نزدیک یہ لوگ گندے اور پلید ہیں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ان کے عمل کا بدلہ ہو گا۔ یہ تمہیں رضامند کرنے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں تم گو ان سے راضی ہو جاؤ لیکن ایسے فاسق لوگوں سے اللہ خوش نہیں۔

تم تینوں کے امر ان لوگوں کے امر سے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔ ان کے عذر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمائے تھے، ان سے دوبارہ بیعت کر لی تھی اور ان کے لیے استغفار بھی کیا تھا۔ اور ہمارا معاملہ تاخیر میں پڑ گیا تھا جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا۔ اسی لیے آیت کے الفاظوَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا ہیں۔

پس اس پیچھے چھوڑ دئیے جانے سے مراد غزوے سے رک جانا نہیں بلکہ ان لوگوں کے جھوٹے عذر کے قبول کئے جانے سے ہمارا معاملہ مؤخر کر دینا ہے۔

یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے۔

 الحمد اللہ اس حدیث میں اس آیت کی پوری اور صحیح تفسیر موجود ہے۔ کہ تینوں بزرگ انصاری تھے رضی اللہ عنہم اجمعین۔

ایک روایت میں مرارہ بن ربیعہ کے بدلے ربیع بن مرارہ آیا ہے۔ ایک میں ربیع بن مرار یا مرار بن ربیع ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے یعنی مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ ۔

ہاں زہری کی اوپر والی روایت میں جو یہ لفظ ہے کہ وہ دونوں بدری صحابی تھے جو حضرت کعبؓ کی طرح چھوڑ دئیے گئے تھے یہ خطا ہے۔ ان تینوں بزرگوں میں سے ایک بھی بدری نہیں واللہ اعلم۔

وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے

پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کر سکیں بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے۔‏  (۱۱۸)

جب اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کی کشائش کا ذکرفرمایا جس میں انہوں نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے پچاس دن گزارے تھے اور ان کی جانیں اور ان کی دنیا ان پرتنگ ہو گئی تھی’ باہر آنا جانا تک ان کا رُک گیا تھا۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں’ سوا اس کے کہ صبر کریں اور اپنی ذلت و استکانت پر راضی رہیں۔ لیکن حضور ﷺ کے سامنے سچ بولنے کے سبب اور کوئی عذر پیش نہ کرنے کے سبب اللہ نے ان پر کشائش فرمائی اور کچھ عرصہ تک انہیں مبتلائے عذاب رکھنے کے بعد ان کی توبہ قبول فرمائی۔

چونکہ آیت میں ذکر تھا کہ کس طرح ان بزرگوں نے صحیح سچا واقع کہہ دیا جس سے گو کچھ دنوں تک وہ رنج و غم میں رہے لیکن آخر سلامتی اور ابدی راحت ملی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ 

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو   (۱۱۹)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مؤمنو! سچ بولا کرو اور سچائی کو لازم پکڑے رہو سچوں میں ہو جاؤ تاکہ ہلاکت سے نجات پاؤ، غم رنجم سے چھوٹ جاؤ۔

مسند احمد میں ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 لوگو سچائی کو لازم کر لو، سچ بھلائی کی رہبری کرتا ہے اور بھلائی جنت کی رہبری کرتی ہے۔ انسان کے سچ بولنے اور سچ پر کار بند رہنے سے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے۔ جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ بولتے رہنے سے اللہ کے ہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے۔

 یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 قصداً یا مذاقاً کسی حالت میں بھی جھوٹ انسان کے لائق نہیں۔ کیونکہ اللہ مالک الملک فرماتا ہے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھی بن جاؤ، پس کیا تم اس میں کسی کے لیے بھی رخصت پاتے ہو؟

 بقول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سچوں سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں۔

 اگر سچوں کے ساتھ بننا چاہتے ہو تو دنیا میں بےرغبت رہو اور مسلمانوں کو نہ ستاؤ۔

مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ۚ

مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردو پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہیں تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ

یہ اس سبب سے کہ انکو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور جو تھکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو

 وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ

اور دشمنوں کی جو خبر لی ان سب پر ان کا (ایک ایک) نیک کام لکھا گیا۔

ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اللہ تعالیٰ ڈانٹ رہا ہے کہ مدینے والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو مجاہدین کے برابر ثواب والا نہیں سمجھنا چاہیے وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہ گئے جو ان مجاہدین فی سبیل اللہ کو ملا۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ 

یقیناً اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‏  (۱۲۰)

مجاہدین کو ان کی پیاس پر تکلیف پر بھوک پر ، ٹھہرنے اور چلنے پر، ظفر اور غلبے پر، غرض ہر ہر حرکت و سکون پر اللہ کی طرف سے اجر عظیم ملتا رہتا ہے۔ رب کی ذات اس سے پاک ہے کہ کسی نیکی کرنے والے کی محنت برباد کر دے۔

إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا 

ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا ثواب ضائع نہیں کرتے  (۱۸:۳۰)

وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 

اور جو کچھ چھوٹا بڑا انہوں نے خرچ کیا اور جتنے میدان ان کو طے کرنے پڑے یہ سب بھی ان کے نام لکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کا اچھے سے اچھا بدلہ دے۔‏ (۱۲۱)

یہ مجاہد جو کچھ تھوڑا بہت خرچ کریں اور راہ اللہ میں جس زمین پر چلیں پھریں، وہ سب ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے۔

یہ نکتہ یاد رہے کہ اوپر کا کام ذکر کرکے اجر کے بیان میں لفظ بِهِ لائے تھے اور یہاں نہیں لائے اس لیے کہ وہ غیر اختیاری افعال تھے اور یہ خود ان سے صادر ہوتے ہیں۔

پس یہاں فرماتا ہے کہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ دے گا۔

 اس آیت کا بہت بڑا حصہ اور اس کا کامل اجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سمیٹا ہے۔ غزوہ تبوک میں آپ نے دل کھول کر مال خرچ کیا۔

چنانچہ مسند احمد میں ہے:

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے میں اس سختی کے لشکر کی امداد کا ذکر فرما کر اس کی رغبت دلائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک سو اونٹ مع اپنے کجاوے پالان رسیوں وغیرہ کے میں دونگا۔

 آپ ﷺنے پھر اسی کو بیان فرمایا تو پھر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک سو اور بھی دونگا۔

آپ ایک زینہ منبر کا اترے پھر رغبت دلائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا ایک سو اور بھی

آپ ﷺنے خوشی خوشی اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا بس عثمان! آج کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے تو بھی یہی کافی ہے۔

 اور روایت میں ہے کہ ایک ہزار دینار کی تھیلی لا کر حضرت عثمان نے آپ کے پلے میں ڈال دی۔ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے الٹ پلٹ کر تے جاتے تھے اور فرما رہے تھے آج کے بعد یہ جو بھی عمل کریں انہیں نقصان نہ دے گا۔ بار بار یہی فرماتے رہے

 اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں:

 جس قدر انسان اپنے وطن سے اللہ کی راہ میں دور نکلتا ہے، اتنا ہی اللہ کے قرب میں بڑھتا ہے۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً ۚ

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ 

سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں ۔ (۱۲۲)

اس آیت میں اس بیان کی تفصیل ہے جو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے متعلق تھا۔

 سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں نکلیں تو آپ کا ساتھ دینا ہر مسلمان پر واجب ہے جیسے فرمایاآیت انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً (۹:۴۱) یعنی ہلکے بھاری نکل کھڑے ہو جاؤ۔ اور فرمایا ہےآیت  مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الأَعْرَابِ (۹:۱۲۰) مدینے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو لائق نہیں کہ وہ رسول اللہ کے پیچھے رہ جائیں۔

پس یہ حکم اس آیت (۱۲۲) سے منسوخ ہو گیا۔

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قبیلوں کے نکلنے کا بیان ہے اور ہر قبیلے کی ایک جماعت کے نکلنے کا اگر وہ سب نہ جائیں تاکہ آپ کے ساتھ جانے والے آپ پر اتری ہوئی وحی کو سمجھیں اور واپس آکر اپنی قوم کو دشمن کے حالات سے باخبر کریں ۔

 پس انہیں دونوں باتیں اس کوچ میں حاصل ہو جائیں گی۔ اور آپ کے بعد قبیلوں میں سے جانے والی جماعت یا تو دینی سمجھ کے لیے ہوگی یا جہاد کے لیے۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے یہ معنی بھی مروی ہیں :

 مسلمانوں کو نہیں  چاہیے کہ وہ سب کے  سب نبی ﷺ کے پاس سے  چلے جائیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں۔ ہر جماعت میں سے چند لوگ جائیں اور آپ کی جازت سے جائیں جو باقی ہیں وہ ان کے بعد جو قرآن اترے، جو احکام بیان ہوں، انہیں سیکھیں، سمجھیں۔ جب یہ آجائیں تو انہیں سکھائیں پڑھائیں۔ اس وقت اور لوگ جائیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

مجاہد فرماتے ہیں:

 یہ ان صحابیوں کے بارے میں اتری ہے جو بادیہ نشینوں میں گئے وہاں انہیں فوائد بھی پہنچے اور نفع کی چیزیں بھی ملیں۔ اور لوگوں کو انہوں نے ہدایات بھی کیں۔ لیکن بعض لوگوں نے انہیں طعنہ دیا کہ تم لوگ اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے والے ہو۔ وہ میدان جہاد میں گئے اور تم آرام سے یہاں ہم میں ہو۔ ان کے بھی دل میں یہ بات بیٹھ گئی وہاں سے واپس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے۔ پس یہ آیت اتری  اور انہیں معذور سمجھا گیا۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں:

 جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکروں کو بھیجیں تو کچھ لوگوں کو آپ کی خدمت میں ہی رہنا چاہیے کہ وہ دین سیکھیں اور کچھ لوگ جائیں اپنی قوم کو دعوت حق دیں اور انہیں اگلے واقعات سے عبرت دلائیں

 ضحاک فرماتے ہیں:

 جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نفس نفیس جہاد کے لیے نکلیں اس وقت سوائے معذوروں، اندھوں وغیرہ کے کسی کو حلال نہیں کہ آپ کے ساتھ نہ جائے اور جب آپ لشکروں کو روانہ فرمائیں تو کسی کو حلال نہیں کہ آپ کی اجازت بغیر جائے۔

یہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہتے تھے، اپنے ساتھیوں کو جب کہ وہ واپس لوٹتے ان کے بعد کا اترا ہوا قرآن اور بیان شدہ احکام سنا دیتے پس آپ کی موجودگی میں سب کو نہ جانا چاہیے۔

مروی ہے:

 یہ آیت جہاد کے بارے میں نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلے مضر پر قحط سالی کی بد دعا کی اور ان کے ہاں قحط پڑا تو ان کے پورے قبیلے کے قبیلے مدینے شریف میں چلے آئے۔ یہاں جھوٹ موٹ اسلام ظاہر کر کے صحابہ پر اپنا بار ڈال دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو متنبہ کیا کہ دراصل یہ مؤمن نہیں۔ آپ نے انہیں ان کی جماعتوں کی طرف واپس کیا اور ان کی قوم کو ایسا کرنے سے ڈرایا ۔

کہتے ہیں کہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے، دین اسلام سیکھتے واپس جا کر اپنی قوم کو اللہ رسول کی اطاعت کا حکم کرتے، نماز زکوٰۃ کے مسائل سمجھاتے، ان سے صاف فرما دیتے کہ جو اسلام قبول کر لے گا وہ ہمارا ہے ورنہ نہیں۔ یہاں تک کہ ماں باپ کو بھی چھوڑ دیتے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسئلے مسائل سے آگاہ کر دیتے، حکم احکام سکھا پڑھا دیتے وہ اسلام کے مبلغ بن کر جاتے ماننے والوں کو خوش خبریاں دیتے، نہ ماننے والوں کو ڈراتے،

عکرمہ فرماتے ہیں جب آیت إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (۹:۳۸) اور ہےآیت  مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الأَعْرَابِ (۹:۱۲۰)اتریں تو منافقوں نے کہا پھر تو بادیہ نشین لوگ ہلاک ہوگئے کہ وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جاتے۔

 بعض صحابہ بھی ان میں تعلیم و تبلیغ کے لیے گئے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

 حسن بصری فرماتے ہیں:

جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ہیں وہ مشرکوں پر غلبہ و نصرت دیکھ کر واپس آن کر اپنی قوم کو ڈرا دیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ

اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کے لئے تمہارے اندر سختی ہونی چاہیے

اسلامی مرکز کے متصل جو کفار ہیں، پہلے تو مسلمانوں کو ان سے نمٹنا چاہیے اسی حکم کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے جزیرۃ العرب کو صاف کیا، یہاں غلبہ پاکر مکہ ، مدینہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضرموت وغیرہ کل علاقہ فتح کر کے یہاں کے لوگوں کو اسلامی جھنڈے تلے کھڑا کر کے غزوہ روم کی تیاری کی۔ جو اول تو جزیرہ العرب سے ملحق تھا دوسرے وہاں کے رہنے والے اہل کتاب تھے۔ تبوک تک پہنچ کر حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے آگے کا عزم ترک کیا۔

یہ واقعہ ۹ ہجری کا ہے۔ دسویں سال حجۃ الوداع میں مشغول رہے۔ اور حج کے صرف اکاسی دن بعد آپ ﷺ اللہ کو پیارے ہوئے۔

 آپ کے بعد آپ کے نائب، دوست اور خلیفہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے اس وقت دین اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو رہی تھیں کہ آپ نے انہیں مضبوط کر دیا اور مسلمانوں کی ابتری کو برتری سے بدل دیا۔ دین سے بھاگنے والوں کو واپس اسلام میں لے آئے۔ مرتدوں سے دنیا خالی کی۔ ان سرکشوں نے جو زکوٰۃ روک لی تھی ان سے وصول کی جاہلوں پر حق واضح کیا۔ امانت رسول ادا کی۔

اور ان ابتدائی ضروری کاموں سے فارغ ہوتے ہی اسلامی لشکروں کو سر زمین روم کی طرف دوڑا دیا کہ صلیب پرستوں کو ہدایت کریں۔ اور ایسے ہی جرار لشکر فارس کی طرف بھیجے کہ وہاں کے آتش کدے ٹھنڈے کریں۔ پس آپ کی سفارت کی برکت سے رب العالمین نے ہر طرف فتح عطا فرمائی۔

 کسریٰ اور قیصر خاک میں مل گئے۔ ان کے پرستار بھی غارت و برباد ہوئے، ان کے خزانے راہ اللہ میں کام آئے۔ اور جو خبر اللہ کے رسول سلام اللہ علیہ دے گئے تھے وہ پوری ہوئی۔ جو کسر رہ گئی تھی آپ کے وصی اور ولی شہید محراب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ کافروں اور منافقوں کی رگ ہمیشہ کے لیے کچل دی گئی۔ ان کے زور ڈھا دیئے گئے۔ اور مشرق و مغرب تک فاروقی سلطنت پھیل گئی۔ قریب و بعید سے بھر پور خزانے دربار فاروق میں آنے لگے اور شرعی طور پر حکم الہٰی کے ماتحت مسلمانوں میں مجاہدین میں تقسیم ہو نے لگے۔

 اس پاک نفس، پاک روح شہید کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے اجماع سے امر خلافت امیر المؤمنین شہید الدار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا۔ اس وقت اسلام اپنی اصلی شان سے ظہور پذیر تھا۔ اسلام کے لمبے اور زور آور ہاتھوں نے روئے زمین پر قبضہ جما لیا تھا۔ بندوں کی گردنیں اللہ کے سامنے خم ہو چکیں تھیں۔ حجت ربانی ظاہر تھی، کلمہ الہٰی غالب تھا۔ شان عثمان اپنا کام کرتی جاتی تھی۔ آج اس کو حلقہ بگوش کیا تو کل اس کو یکے بعد دیگرے کئی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں زیر نگیں خلافت ہوئے۔ یہی تھا اس آیت کے پہلے جملے پر عمل کہ نزدیک کے کافروں سے جہاد کرو۔

 پھر فرماتا ہے کہ لڑائی میں انہیں تمہارا زور بازو معلوم ہو جائے۔ کامل مؤمن وہ ہے جو اپنے مؤمن بھائی سے تو نرمی برتے لیکن اپنے دشمن کافر پر سخت ہو۔

 جیسے فرمان ہے:

فَسَوْفَ يَأْتِى اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَـفِرِينَ  

تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر (۵:۵۴)

 اس طرح اور آیت میں ہے:

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں،   (۴۸:۲۹)

 ارشاد ہے:

يَأَيُّهَا النَّبِىُّ جَـهِدِ الْكُفَّـرَ وَالْمُنَـفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ 

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ  (۹:۷۳)

حدیث میں ہے :

میں خندہ جبیں ہوں یعنی اپنوں میں نرمی کرنے والا اور قتال ہوں یعنی دشمنان رب سے جہاد کرنے والا۔

وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ  

اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔‏ (۱۲۳)

پھر فرماتا ہے کہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاوروں کے ساتھ ہے۔

 یعنی کافروں سے لڑو، بھروسہ اللہ پر رکھ ، اور یقین مانو کہ جب تم اس سے ڈرتے رہو گے، اس کی فرماں برداری کرتے رہوگے، تو اس کی مدد و نصرت بھی تمہارے ساتھ رہے گی۔

 دیکھ لو خیر کے تینوں زمانوں تک مسلمانوں کی یہی حالت رہی۔ دشمن تباہ حال اور مغلوب رہے۔ لیکن جب ان میں تقویٰ اور اطاعت کم ہوگئی۔ فتنے فساد پڑ گئے، اختلاف اور خواہش پسندی شروع ہو گئی۔ تو وہ بات نہ رہی، دشمنوں کی للچائی ہوئی نظریں ان کی طرف اُٹھیں ۔ وہ اپنی کمیں گاہوں سے نکل کھڑے ہوئے، ادھر کا رخ کیا لیکن پھر بھی مسلمان سلاطین آپس میں اُلجھے رہے وہ ادھرادھر سے نوالے لینے لگے۔ آخر دشمن اور بڑھے، سلطنتیں کچلنی شروع کیں، ملک فتح کرنے شروع کئے۔ آہ! اکثر حصہ اسلامی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔

 اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی حکم اس سے پہلے تھا اور اس کے بعد بھی ہے کہ وہ پھر سے مسلمانوں کو غلبہ دے اور کافروں کی چوٹیاں ان کے ہاتھ میں دے دے۔ دنیا جہاں میں ان کا بول بالا ہو۔ اور پھر سے مشرق سے لے کر مغرب تک پرچم اسلام لہرانے لگے۔ وہ اللہ کریم وجواد ہے۔

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا ۚ

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا

قرآن کی کوئی سورت اتری اور منافقوں نے آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ بتاؤ اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کر دیا؟

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ 

سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔  (۱۲۴)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمانداروں کے ایمان تو اللہ کی آیتیں بڑھا دیتی ہیں۔

یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس پر کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ اکثر ائمہ اور علماء کا یہی مذہب ہے، سلف کا بھی اور خلف کا بھی۔ بلکہ بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ہم اس مسئلے کو خوب تفصیل سے شرح بخاری کے شروع میں بیان کر آئے ہیں۔

وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ 

اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وہ حالت کفر ہی میں مر گئے   (۱۲۵)

ہاں جن کے دل پہلے ہی سے شک و شبہ کی بیماری میں ہیں ان کی خرابی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

قرآن مؤمنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے لیکن کافر تو اس سے اور بھی اپنا نقصان کر لیا کرتے ہیں۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ 

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں سراسر شفا اور رحمت ہے۔  (۱۷:۸۲)

 جیسے اورجگہ ارشاد فرمایا:

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُوْلَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ 

آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں  (۴۱:۴۴)

یہ بھی کتنی بڑی بدبختی ہے کہ دلوں کی ہدایت کی چیز بھی ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عمدہ غذا بھی بد مزاج کو موافق نہیں آتی۔

أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ 

اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔‏ (۱۲۶)

یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہر سال دو ایک دفعہ ضروری وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوتی ہے۔ کبھی قحط سالی ہے کبھی جنگ ہے، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بےچین ہو رہے ہیں۔

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

 کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے۔ بخیلی عام ہو رہی ہے۔ ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بد آرہا ہے۔

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا ۚ

جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں پھر چل دیتے ہیں

 جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟

پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نہ مانیں وعظ سے منہ پھیرلیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے ۔

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ ـ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ ـ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ 

انہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔‏ گویا کہ وہ بہکے ہوئے گدھے ہیں‏ جو شیر سے بھاگے ہوں۔ (۷۴:۴۹:۵۱)

حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے۔

فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُواْ قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ ـ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ (۷۰:۳۶،۳۷)

پس کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تیری طرف دوڑتے آتے ہیں۔‏ دائیں اور بائیں سے گروہ کے گروہ

صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ 

اللہ تعالیٰ نے ان کا دل پھیر دیا اس وجہ سے کہ وہ بےسمجھ لوگ ہیں ۔ (۱۲۷)

 ان کی اس بے ایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھیر دیئے۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیرھے کر دیئے ۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بےپروا ہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا

فَلَمَّا زَاغُواْ أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ 

پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کر دیا   (۶۱:۵)

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ 

مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہیں میں سے ان کی ہی زبان میں اپنا رسول بھیجا۔ سے کہ حضرت خلیل اللہ نے یہی دعا کی تھی۔ (۱۲۸)

مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہیں میں سے ان کی ہی زبان میں اپنا رسول بھیجا۔ سے کہ حضرت خلیل اللہ نے یہی دعا کی تھی۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ

اے ہمارے رب ان میں، انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے   (۲:۱۲۹)

اسی کا بیان اس آیت  میں ہے۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ 

بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے (۳:۱۶۴)

یہی حضرت جعفر بن ابو طالب نے دربار نجاشی میں اور یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے دربار کسریٰ میں بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ہمیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جس کا نسب ہمیں معلوم، جس میں سے کوئی برائی اللہ نے آپ کی ذات میں پیدا نہیں ہو نے دی۔ نسب نامہ بالکل کھرا تھا۔

 خود آپﷺ کا فرمان ہے:

 میرا سارا نسب بر بناء نکارا کہیں کسی سفاح زمانہ جاہلیت کی برائی کا شائبہ نہیں۔ حضرت آدم ؑسے لے کر مجھ تک بفضلہ کوئی برائی جاہلیت کی زنا کاری وغیرہ نہیں پہنچی، میں صحیح النسب ہوں۔

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ  ـ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ـ وَتَوكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ  

اس کے ساتھ نرمی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کہ تیری تابعداری کرے۔‏ اگر یہ لوگ تیری نافرمانی کریں تو اعلان کر دے کہ میں ان کاموں سے بیزار ہوں جو تم کر رہے ہو۔‏ (۲۶:۲۱۵،۲۱۶)

 پھر اتنے نرم دل کہ اُمت کی تکلیفوں سے خود کانپ اٹھیں۔

 آسان نرمی اور سادگی والا دین لے کر آئے ہیں۔ جو بہت آسان ہے۔ سہل ہے، کامل ہے اور اعلیٰ اور عمدہ ہے۔

 وہ تمہاری ہدایت کے متمنی ہیں، وہ دنیاوی اخروی نفع تمہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔

 حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں:

 ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ جو پرند اڑ کر نکلتا اس کا علم بھی آپ ہمیں کر دیتے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی تمام چیزیں میں تم سے بیان کر چکا ہوں۔

 آپ کا فرمان ہے:

 اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے وہ عنقریب تم پر ظاہر کر دینے والا ہے اور اس کی باز پرس قطعاً ہو نے والی ہے۔ جس طرح پتنگے اور پروانے آگ پر گرتے ہوں اس طرح تم بھی گر رہے ہو اور میں تمہاری کولیاں بھر بھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سوئے ہوئے تھے جو دو فرشتے آتے ہیں ایک پاؤں کی طرف بیٹھتا ہے دوسرا سرہانے۔ پھر پاؤں والا سرہانے والے سے کہتا ہے ۔ اس کی اور اس کی اُمت کی مثال بیان کرو

 اس نے فرمایا یہ مثال سمجھو کہ ایک قوم سفر میں ہے، ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے جہاں ان کا سامان خوراک ختم ہو جاتا ہے اب نہ تو آگے بڑھنے کی قوت، نہ پیچھے ہٹنے کی سکت ۔ ایسے وقت ایک بھلا آدمی اچھے لباس والا ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بیابان سے چھٹکارا دلا کر ایسی جگہ پہنچا سکتا ہوں جہاں تمہیں نتھرے ہوئے پانی کے لبالب حوض اور میوؤں کے لدے ہوئے درخت اور ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں ملیں بشرطیکہ تم میرے پیچھے ہو لو۔

 انہوں نے اس کی بات کو مان لیا اور وہ انہیں ایسی ہی جگہ لے گیا وہاں انہوں نے کھایا پیا اور خوب پھلے پھولے۔ اب اس نے کہا۔ دیکھو میں نے تمہیں اس بھوک پیاس سے نجات دلائی اور یہاں امن چین میں لایا۔ اب ایک اور بات تم سے کہتا ہوں وہ بھی مانو۔ اس سے آگے اس سے بھی بہتر جگہ ہے وہاں کے حوض، وہاں کے میوے وہاں کے کھیت، اس سے بہت ہی اعلیٰ ہیں۔

 ایک جماعت نے تو اسے سچا مانا اور ہاں کر لی۔ لیکن دوسرے گروہ نے اسی پر بس کر لیا اور اسکی تابعداری سے ہٹ گئے (مسند احمد)

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے۔ آؤ ایک واقعہ آپ کی کمال شفقت کا سنو!

ایک اعرابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور خون بہا ادا کرنے کے لیے آپ سے امداد طلب کی۔

 آپ ﷺنے اسے بہت کچھ دیا اوراور فرمایا کہ تمہارے ساتھ  میں نے سلوک کیا؟

 اس نے کہاں کچھ بھی نہیں اس سے کیا ہوگا؟

صحابہ بہت بگڑے۔ قریب تھا کہ اسے لپٹ جائیں کہ اتنا لینے پر بھی یہ ناشکری کرتا ہے؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا ایسا غلط اور گستاخانہ جواب دیتا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا، گھر پر تشریف لے گئے۔ وہیں اسے بلوا لیا۔ سارا واقعہ کہہ سنایا پھر اسے اور بھی بہت کچھ دیا۔

 پھر پوچھا کہو اب تو خوش ہو؟

اس نے کہاں ہاں اب دل سے راضی ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے اہل و عیال میں ہم سب کی طرف سے نیک بدلہ دے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو! تم آئے ۔ تم نے مجھ سے مانگا، میں نے دیا پھر میں نے تم سے پوچھا کہ خوش ہو؟ تو تم نے الٹا پلٹا جواب دیا جس سے میرے صحابی تم سے نالاں ہیں۔ اب میں نے پھر دے دلا کر تمہیں راضی کر لیا ۔ اب تم ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنی رضامندی ظاہر کرنا جیسے اب تم نے میرے سامنے کی ہے تاکہ ان کا رنج بھی دور ہو جائے۔ اس نے کہا بہت اچھا ۔

 چنانچہ جب وہ صحابہ کے مجمع میں آپ کے پاس آیا آپ نے فرمایا دیکھو یہ شخص آیا تھا اس نے مجھ سے مانگا تھا، میں نے ایسے دیا تھا، پھر اس سے پوچھا تھا، تو اس نے ایسا جواب دیا تھا جو تمہیں ناگوار گزرا ۔ میں نے اسے پھر اپنے گھر بلوایا اور زیادہ دیا تو یہ خوش ہوگیا۔ کیوں بھئی اعرابی یہی بات ہے؟

 اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے اہل وعیال اور قبیلے کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آپ نے مجھ سے بہت اچھا سلوک کیا۔ جزاک اللہ

 اس وقت آپ نے فرمایا میری اور اس اعرابی کی مثال سنو! جیسے وہ شخص جس کی اونٹنی بھاگ گئی لوگ اس کے پکڑنے کو دوڑے وہ ان سے بدک کر اور بھاگنے لگی۔ آخر اوٹنی والے نے کہا لوگو تم ایک طرف ہٹ جاؤ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو، اس کی خو خصلت سے میں واقف ہوں اور یہ میری ہی ہے۔

چنانچہ اس نے نرمی سے اسے بلانا شروع کیا۔ زمین سے گھانس پھونس توڑ کر اپنی مٹھی میں لے کر اسے دکھایا اور اپنی طرف بلایا، وہ آگئی۔ اس نے اس کی نکیل تھام لی اور پالان و کجاوہ ڈال دیا۔ سنو! اس کے پہلی دفعہ کے بگڑنے پر اگر میں بھی تمہارا ساتھ دیتا تو یہ جہنمی بن جاتا۔

 ابراہیم بن حکم بن ابان کے ضعف کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے۔

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ

پھر اگر روگردانی کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے

یہاں بھی فرماتا ہے اگر یہ لوگ تیری شریعت سے منہ پھیر لیں تو تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میرا توکل اسی کی پاک ذات پر ہے۔

 جیسے فرمان ہے:

رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاً 

مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز ٹھہرا۔ (۷۳:۹)

وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ 

 اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے   (۱۲۹)

 وہ رب عرش عظیم ہے۔ یعنی ہرچیز کا مالک و خالق وہی ہے۔

 عرش عظیم تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ آسمان و زمین اور کل کائنات بقدرت رب عرش تلے ہے۔ اس اللہ کا علم ہرچیز پر شامل ہے اور ہرچیز کو اپنے احاطے میں کئے ہوئے ہے۔ اس کی قدرت ہرچیز پر حاوی ہے وہ ہر ایک کا کارساز ہے۔

حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے۔

 مروی ہے کہ جب خلافت صدیقی میں قرآن کو جمع کیا تو کاتبوں کو حضرت ابی بن کعبؓ لکھواتے تھے، جب اس سے پہلے کی آیت …لاَّ يَفْقَهُون (۱۲۷)  تک پہنچے تو  یہ گمان کیا گیا کہ یہ قرآن کی آخری آیت ہے تو ابی بن کعب ؓ نے کہا کہ رسول اللۃ ﷺ اس کے بعد مجھے یہ دو آیتیں بھی سنائی تھیں پھر آپ نے ان دونوں آیتوں کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ قرآن کی آخری آیتیں یہ ہیں۔پس ختم بھی اسی پر ہوا جس پر شروع ہوا تھا یعنی لا الہ الا اللہ پر ۔

مسند احمد میں ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے:

حضرت عمرؓ کے پاس حارث بن ابن خزیمہؓ نے یہ دو آیتیں پیش کی تھیں جو آخر سورۃ برأت کی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس وحی کی شہادت اور کون دیں گے۔ حارثؓ نے کہا یہ تو مجھے علم نہیں کہ اور کون اس کو جانتا ہے لیکن اللہ کی قسم میں نے خود اس کو نبیﷺ سے سنا ہے اور اس کو خوب یاد رکھا ہے۔ تو عمر ؓ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے  یہ گواہی سن کر آپ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ تیسری آیت بھی ہوتی تو میں اسے علیحدہ سورت بنا لیتا تم انہیں قرآن کی کسی سورت کے ساتھ لکھ لو۔ چنانچہ سورۃ براۃ کے آخر میں یہ لکھ لی گئیں۔

 پہلے یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی قرآن کے جمع کرنے کا مشورہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا اور بحکم خلیفہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے جمع کرنا شروع کیا۔ اس جماعت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آمد و رفت رکھتے تھے۔

صحیح حدیث میں ہے حضرت زیدؓ فرماتے ہیں:

سورہ برأت کا آخری حصہ میں نے خزیمہ بن ثابت یا ابو خزیمہ کے پاس پایا۔

یہ بھی ہم لکھ آئے ہیں کہ ایک جماعت صحابہ نے اس کا مذاکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا جیسے کہ حضرت خزیمہ بن ثابت نے کہا تھا۔ جب کہ ان کے سامنے اس کی ابتدائی بات کہی تھی۔ واللہ اعلم۔

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

جو شخص صبح شام یہ آیت سات سات مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالیٰ اسے اس کی تمام پریشانیوں سے نجات دے گا۔

حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے

ایک روایت میں ہے :

 خواہ صداقت سے پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو لیکن یہ زیادتی غریب ہے۔



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

hit counters